تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 736
مشاہدے: 150932
ڈاؤنلوڈ: 3029


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 150932 / ڈاؤنلوڈ: 3029
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 6

مؤلف:
اردو

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام ، اپنى قوم ميں كافى اثر و رسوخ ركھتے تھے_و ا مر قومك يا خذوا

چونكہ فعل ''يا خذوا'' امر كے جواب ميں واقع ہوا ہے لہذا ايك مقدّ ر ''إن'' شرطيہ كے ذريعے مجزوم ہے، جملے كى تقدير يوں ہے:''و امر قومك إن تا مرهم ياخذوا '' يعنى اپنى قوم كو الواح كے سيكھنے كے بارے ميں حكم دو، اگر تو نے ايسا حكم ديا تو وہ انجام ديں گے يہ مطلب (يعنى اگر تو نے حكم ديا تو وہ انجام ديں گے) ظاہر كرتاہے كہ موسيعليه‌السلام اپنى قوم ميں كافى اثر و رسوخ ركھتے تھے_

۱۲_ رہبروں كو اپنى تعليمات پر عمل كرنے كے سلسلہ ميں دوسروں پر سبقت حاصل ہونا چاہيئے_

فخذها بقوة و ا مر قومك يا خذوا

۱۳_ فاسقين كى سرزمين پر تسلط اور اس كے مناظر كا نظارہ، قوم موسىعليه‌السلام سے خدا كا ايك وعدہ تھا_سا وريكم دار الفسقين

كلمہ ''ا لفسقين'' كے متعلق تين احتمال پائے جاتے ہيں پہلا يہ كہ اس سے مراد آل فرعون ہيں دوسرا يہ كہ اس سے مراد سرزمين قدس كے وہ ساكنين ہيں كہ جو قوم موسىعليه‌السلام كے وارد ہونے سے پہلے وہاں آباد تھے، تيسرايہ كہ اس سے مراد قوم موسيعليه‌السلام كے خلاف ورزى كرنے والے افراد ہيں ، فوق الذكر مفہوم پہلے اور دوسرے احتمال كى طرف ناظر ہے_

۱۴_ معارف دين كو سيكھنا سمجھنا نيز احكام الہى پر عمل كرنا، فاسقين پر قوم موسى كو فتح حاصل ہونے اور ان كى سرزمين كو آزاد كرانے كى شرط تھي_فخذوها يا خذوا با حسنها سا وريكم دار الفسقين

فوق الذكر مفہوم اس احتمال كى اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ ''سا وريكم'' فعل امر ''فخذھا بقوة و ا مر قومك ياخذوا'' كا جواب ہو، يعني:''إن تاخذها و يا خذوا سا وريكم دار الفسقين'' يہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ فعل''ا وريكم'' ''سين'' كى وجہ سے مجزوم نہيں ہوا باوجود اس كے كہ امر كے جواب ميں واقع ہوا ہے_

۱۵_ خداوند متعال نے قوم موسيعليه‌السلام كو اپنى رسالت كى مخالفت سے خبردار كيا اور خلاف ورزى كرنے والوں كو فاسق كہہ كر پكارا_سا وريكم دار الفسقين

مندرجہ بالا مفہوم كى اساس يہ ہے كہ كلمہ ''الفاسقين'' سے مراد خود بنى اسرائیل ميں سے خلاف ورزى كرنے والے لوگ ہوں اس مبنا كے مطابق جملہ ''سا وريكم'' كہ جو تورات كو سيكھنے اور اس كى تعليمات پر عمل كرنے كے بارے ميں حكم كے بعد واقع ہوا ہے، اس ميں اس مطلب كى

۲۶۱

طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ اگر بعض لوگوں نے اس حكم كى اطاعت نہ كى تو وہ فاسق ہوں گے، اوريہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ اس صورت ميں ''دار'' سے مراد ان لوگوں (فاسقين) كا شوم اور نامبارك مقام ہوگا_

۱۶_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كے فاسقوں كو برے انجام سے دوچار ہونے كى دھمكى دي_

سا وريكم دار الفسقين

۱۷_عن ا بى جعفر عليه‌السلام : إنَّ الله تبارك و تعالى قال لموسي: ''و كتبنا له فى الا لواح من كل شيئ'' فا علمنا ا نه لم يبين له الا مر كله ..(۱)

حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے: كہ خداوند تبارك و تعالى نے موسىعليه‌السلام كے بارے ميں فرمايا: ''اور ہم نے اسكے لئے الواح ميں ہر چيز سے كچھ لكھا'' خدا نے اس آيت ميں ہميں آگاہ كيا ہے كہ اس نے موسىعليه‌السلام كيلئے تمام امور بيان نہيں كئے ہيں

الله تعالى :اللہ تعالى كا وعدہ ۱۳;اللہ تعالى كى دعوت ۷; اللہ تعالى كى نواہي۱۵; اللہ تعالى كے افعال ۲;اللہ تعالى كے انتباہات ۱۶; اللہ تعالى كے اوامر ۸;اللہ تعالى كے عطايا ،۱، ۲، ۳

انجام:نامبارك انجام ۱۶

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كو دعوت ۸;بنى اسرائیل كو وعدہ ۱۳; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱۳; بنى اسرائیل كى ذمہ دارى ۹; بنى اسرائیل كى فتح كى شرائط ۱۴; بنى اسرائیل كے فاسقوں پر فتح ۱۴; بنى اسرائیل كے فاسقوں كا انجام ۱۶;بنى اسرائیل كے فاسقوں كو دھمكى ۱۵، ۱۶;بنى اسرائیل كے فاسقوں كى سرزمين ۱۳، ۱۴

تورات:تورات اور اس دور كے تقاضے ۴;تورات پر عمل ۷، ۹ ; تورات كا ہدايت كرنا ۴; تورات كى الواح ۱، ۲، ۴، ۵;تورات كى الواح كى خصوصيت ۳; تورات كى تعليمات ۳، ۶ ;تورات كى تعليمات كا حصول ۷، ۸، ۹ ; تورات كى خصوصيت ۴;تورات كے مواعظ ۳،۶ ;نزول تورات كى خصوصيت ۵

دين:تعليمات دين پر عمل ۱۲;تعليمات دين كا حصول ۱۰، ۱۴;دين پر عمل كى اہميت ۱۰; دين پر عمل كے آثار ۱۴

رہبري:رہبرى كى ذمہ دارى ۱۲

لوگ:لوگوں كى ذمہ دارى ۱۰موسىعليه‌السلام :

____________________

۱) بصاءر الدرجات،ص ۲۲۸، ح۳، ب۵; نورالثقلين ج۲، ص۶۷، ح۲۵۷_

۲۶۲

موسىعليه‌السلام بنى اسرائیل كے درميان ۱۱; موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۷، ۸; موسى كى ذمہ دارى ۷ ;موسىعليه‌السلام كے ساتھ

مخالفت ۱۵; موسى كے كلام كى تا ثير ۱۱; موسىعليه‌السلام ميقات ميں ،۱

آیت ۱۴۶

( سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الرُّشْدِ لاَ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَكَانُواْ عَنْهَا غَافِلِينَ )

ميں عنقريب اپنى آيتوں كى طرف سے ان لوگوں كو پھيردوں گا جو روئے زمين ميں ناحق اكڑتے پھرتے ہيں اور يہ كسى بھى نشانى كو ديكھ ليں ايمان لانے والے نہيں ہيں _ ان كا حال يہ ہے كہ ہدايت كا راستہ ديكھيں گے تواسے اپنا راستہ نہ بنائیں گے اور گمراہى كا راستہ ديكھيں گے تو اسے فوراً اختيار كرليں گے يہ سب اس لئے ہے كہ انھوں نے ہمارى نشانيوں كو جھٹلايا ہے اور ان كى طرف سے غافل تھے(۱۴۶)

۱_ خداوند متعال، متكبرين كو اپنے معارف اور آيات كى معرفت سے محروم ركھتاہے_

سا صرف عن ء اى تى الذين يتكبرون فى الا رض

كلمہ ''صرف'' جب حرف ''عن'' كے ذريعے متعدى ہو تو اس وقت روكنے اور مانع ہونے كے معنى ميں آتاہے چنانچہ آيات الہى سے روكنا يا تو ان كے فہم سے مانع ہونے كے معنى ميں ہے يا پھر آيات پر ايمان سے روكنے يا يہ كہ ان كو باطل كرنے اور مٹانے سے روكنے كے معنى ميں ہے، البتہ صرف پہلا معنى ہى پورى آيت كے تمام حصّوں كے ساتھ متناسب ہے_

۲_ تكبّر، آيات اور معارف الہى كو درك كرنے كى صلاحيت كے سلب ہونے كا باعث بنتاہے_

سا صرف عن ء ايتى الذين يتكبرون فى الا رض

۳_ تكبر، غير حقيقى اور موہوم امور سے وجود ميں آنے والى خصلت ہے_يتكبرون فى الا رض بغير الحق

''بغير الحق'' توضيح كيلئے ہے اور اس ميں ''باء'' سببيہ ہے بنابراين''بغير الحق'' كى قيد اس مطلب پر دلالت كرتى ہے كہ تكبر كا سرچشمہ

۲۶۳

غير حقيقى اور باطل امور ہيں _

۴_ بعض لوگ حقانيت دين كو ثابت كرنے كيلئے پيش كى جانے والى كسى نشانى كى بھى تصديق نہيں كرتے اور نہ ہى اس پر ايمان لاتے ہيں _و إن يرو كل ء اية لا يؤمنوا بها

۵_ خداوند متعال، آيات الہى كے بارے ميں بے يقينى كى كيفيت كے حامل افراد كو اپنے معارف اور آيات كو درك كرنے سے محروم ركھتاہے_سا صرف عن اى تى الذين يتكبرون ...و إن يروا كل ء اية لا يؤمنوا بها

جملہ ''إن يروا ...'' جملہ ''يتكبرون ...'' پر عطف ہے اور ''الذين'' كيلئے صلہ ہے_ يعنى ''سا صرف عن ء اى تى الذين ء ان يروا'' ...بنابراين ''إن يروا'' ميں ايك اور گروہ كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ جسے خداوند متعال آيات و معارف كو سمجھنے سے محروم ركھتاہے_

۶_ بعض لوگ رشد و ہدايت كى راہ اپنے سامنے پاكر بھى اسے اپنى زندگى كيلئے نہيں اپناتے_

و إن يروا سبيل الرشد لا يتخذوه سبيلاً

۷_ خداوند متعال، رشد و ہدايت كى راہ سے روگردانى كرنے والوں كو اپنى آيات اور معارف دين كى معرفت سے محروم ركھتاہے_سا صرف عن اى تى الذين إن يروا سبيل الرشد لا يتخذوه سبيلاً

جملہ ''و إن يروا سبيل الرشد'' جملہ ''يتكبرون'' پر عطف ہے اور در حقيقت يہ ''الذين'' كيلئے دوسرا صلہ ہے، يعنى''سا صرف عن ء ايتى الذين إن يروا سبيل الرشد ...'' بنابراين جملہ''و إن يروا سبيل الرشد'' ميں ايك تيسرے گروہ كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ جسے خدا معارف دين كو سمجھنے سے محروم ركھتاہے _

۸_ دين اور معارف الہي، رشد و ہدايت كى راہ دكھاتے ہيں اور انسان كيلئے سعادت فراہم كرتے ہيں _

سا صرف عن ء اى تى الذين ...إن يروا سبيل الرشد لا يتخذوه سبيلاً

''سبيل الرشد'' (راہ سعادت) سے مراد وہى آيات خدا يعنى دين اور معارف الہى ہيں _

۹_ بعض لوگ ضلالت و گمراہى كا راستہ ديكھتے ہى اس پر چل پڑتے ہيں _و إن يروا سبيل الغى يتخذوه سبيلاً

مندرجہ بالا مفہوم اس اساس پر ليا گيا ہے كہ جملہ ''و إن يروا سبيل الغي ...'' جملہ ''يتكبرون'' پر عطف ہو اور ''الذين'' كيلئے چوتھے صلہ كے طور پر ہو كہ اس صورت ميں اس جملہ ميں ايك اور گروہ كى طرف اشارہ پايا جائیے گا كہ جسے خدا اپنى آيات كى معرفت سے محروم ركھتاہے_

۲۶۴

۱۰_ خداوند متعال ايسے لوگوں كو كہ جو راہ ضلالت كو ديكھتے ہى اسے اپنى زندگى كى روش قرار ديتے ہيں ان كو اپنے معارف اور آيات كى معرفت سے محروم ركھتاہے_سا صرف عن ء ايتى الذين إن يروا سبيل الغنى يتخذوه سبيلاً

۱۱_ آيات الہى كى تكذيب اور ان سے بے اعتنائی ، آيات اور معارف الہى كى معرفت سے محروم رہنے كا باعث ہے_

سا صرف عن ء اى تي ...ذلك با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

مندرجہ بالا مفہوم اس بنياد پر اخذ ہوا ہے كہ ''ذلك'' كے ذريعے ''سا صرف'' سے استفادہ ہونے والے كلمہ ''صرف'' كى طرف اشارہ مقصود ہو، يعنى متكبرين كو آيات كى معرفت سے محروم ركھنے كى وجہ يہ ہے كہ انہوں نے ان كى تكذيب كى اور ان سے بے اعتنائی برتي_

۱۲_ آيات الہى كى تكذيب اور ان سے بے اعتنائی ، تكبر جيسى خصلت كے وجود ميں آنے كا باعث ہے_

الذين يتكبرون فى الا رض ...ذلك با نهم كذبوابايا تنا و كانوا عنها غفلين

فوق الذكر مفہوم كى اساس يہ ہے كہ ''ذلك'' كا مشاراليہ ''زمين پر تكبرہو ''كہ جو جملہ ''يتكبرون فى الا رض'' سے مستفاد ہے، جملہ ''كانوا عنھا غفلين'' ميں غفلت سے مراد، آيات سے بے اعتنائی ہے نہ يہ كہ ان كے وجود سے بے خبرى مراد ہو، اسلئے كہ آيات خدا كى تكذيب ان كے وجود سے آگاہى پر متوقف ہے_

۱۳_ آيات الہى كو جھٹلانا اور ان سے بے اعتنائی ، حقائق دين كے بارے ميں بے يقينى كى كيفيت كے وجود ميں آنے كا باعث ہے_إن يروا كل ء اية لا يؤمنوا بها ...ذلك با نهم كذبوابايا تنا و كانواعنها غفلين

۱۴_ آيات الہى كى تكذيب اور ان سے غفلت، رشد و ہدايت كى راہ كو قبول نہ كرنے اور ضلالت و گمراہى كى راہ كو اپنانے كا باعث ہے_و إن يروا سبيل الرشد لا يتخذوه ...ذلك بانهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

۱۵_ تكبّر، ايمان كى طرف مائل ہونے اور راہ كمال كو اپنانے سے مانع ہے جبكہ گمراہى كى طرف راغب ہونے كا باعث ہے_الذين يتكبرون ...و إن يروا كل ء اية ...و إن يروا سبيل الغى يتخذوه سبيلاً

فوق الذكر مفہوم اس احتمال كى بنياد پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب جملہ ''و إن يروا كل ء اية ...'' اور جملہ''إن يروا سبيل الرشد ...'' اور جملہ''إن يروا سبيل الغي ...'' زمين ميں تكبر كرنے والوں كے حالات اور صفات بيان كرنے كيلئے ہو، نہ يہ كہ انہيں (جيسا كہ گزشتہ مفاہيم ميں گزر چكاہے) متكبرين كے قسيم كے طور پر ليا جائیے_

۲۶۵

۱۶_ عصر موسيعليه‌السلام كے بعض لوگ، آيات خدا كو جھوٹا خيال كرتے ہوئے ان كى پرواہ نہيں كرتے تھے_

با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

۱۷_ خداوند متعال نے قوم موسى كو متنبہ كيا كہ وہ ان ميں سے متكبرين اور منكرين كو تورات اور اس كے معارف كو سمجھنے سے محروم ركھے گا_و ا مر قومك يا خذوا با حسنها سا صرف عن ء اى تى الذين يتكبرون فى الا رض

گزشتہ آيات كى روشنى ميں مورد بحث آيت كا مورد نظر مصداق، قوم موسيعليه‌السلام كے متكبر اور ہٹ دھرم افرادہيں _

۱۸_ خداوند متعال نے قوم موسى كو متنبہ كيا كہ وہ رشد و كمال كى راہ كے ساتھ ان كى مخالفت جارى رہنے اور راہ ضلالت پر ان كے قائم رہنے كى صورت ميں انہيں تورات كے معارف كو سمجھنے سے محروم ركھے گا_

و ا مر قومك يا خذوا با حسنها ...إن يروا كل ء اية لا يؤمنوا بها ...سبيلاً

آيات خدا:آيات خدا سے اعراض كے اثرات ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴; آيات خدا سے اعراض كرنے والے ۱۶ ; آيات خدا كو جھٹلانے كے اثرات ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴; آيات خدا كو جھٹلانے والے ۴، ۵، ۱۶ ;آيات خدا كو سمجھنے كى راہ ميں حائل ركاوٹيں ۲، ۱; آيات خدا كے فہم سے محروم لوگ ۵،۷،۱۰ ; آيات خدا كے فہم سے محروميت ۵، ۱۱

الله تعالى :اللہ تعالى كے افعال ۵،۷،۱۰ ;اللہ تعالى كے انتباہات ۱۷،۱۸

ايمان:ايمان كے موانع ۱۵

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كو انتباہ ۱۸ ;بنى اسرائیل كے كافر ۱۶; بنى اسرائیل كے منكرين كو انتباہ ۱۷

تكبر:تكبر كا سرچشمہ ۳; تكبر كے اثرات ،۱،۲،۱۵;تكبر كے اسباب ۱۲

تورات:فہم تورات سے محروميت ۱۷;فہم تورات كے موانع ۱۸

دين:دين سے اعراض كرنے والے ۴،۶،۷; دين كو قبول كرنے كے موانع ۱۳; دين كا كردار ۸; فہم دين سے محروم لوگ ۷،۱۰;فہم دين سے محروميت ۱۱، ۱۷;فہم دين كے موانع ۱،۲

رشد و تكامل:رشد كے ساتھ مخالفت ۱۸;رشد كے موانع ۱۴، ۱۵; عوامل رشد ۸

سعادت:

۲۶۶

سعادت كے عوامل ۸سماجى گروہ: ۴،۶،۹

گمراہ لوگ: ۹گمراہوں كى محروميت ۱۰

گمراہي:گمراہى كے اثرات ۱۸;گمراہى كے اسباب ۱۵;

گمراہى كے عوامل ۱۴

متكبرين:متكبرين كى محروميت ۱،۷ ۱

ہدايت:ہدايت سے روگردانى كرنے والے ۶،۹ ،۱۰ ; ہدايت كے عوامل ۸

آیت ۱۴۷

( وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَلِقَاء الآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

اورجنلوگوں نے ہمارى نشانيوں اور آخرت كى ملاقات كو جھٹلايا ہے ان كے اعمال برباد ہيں اورظاہر ہے كہ انھيں ويسا بدلہ تو ديا جائیے گا جيسے اعمال كر رہے ہيں (۱۴۷)

۱_ آيات الہى كى تكذيب اور قيامت كا انكار، انسان كے تمام نيك اعمال كے تباہ ہونے كا باعث ہے_

والذين كذبوا بايا تنا و لقاء الا خرة حبطت ا عملهم

كلمہ ''حبط'' تباہ و برباد ہونے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے، اور ''ا عمال'' سے مراد انسان كا نيك كردار ہے اسيلئے كہ ناپسنديدہ اعمال كا بربادہوناتو دنيا اور آخرت ميں انسان كے فائدے ميں ہے، كلمہ ''ا عمال'' چونكہ بصورت جمع لايا گيا ہے اور بعد والے كلمہ كى طرف اضافت كے ساتھ ہے لہذا مفيد استغراق و شمول ہے،بنابراين ''ا عمالھم'' يعنى ان كے تمام نيك كام_

۲_ آيات الہى كى تصديق اور روز قيامت پر ايمان، بارگاہ خدا ميں نيك اعمال كى قدر و قيمت كى شرائط ميں سے ہيں _

والذين كذبوا بايا تنا و لقا ء الا خرة حبطت ا عملهم

۳_ بنى اسرائیل كے نيك اعمال، تورات كو جھٹلانے اور قيامت پر يقين نہ ركھنے كى صورت ميں ، ان كيلئے ثمر بخش نہ ہوں گے_والذين كذبوا بايا تنا ...حبطت ا عملهم

۲۶۷

گزشتہ آيات كى روشنى ميں''الذين كذبوا ...'' كيلئے مورد نظر مصداق بنى اسرائیل ہے_

۴_ ميدان قيامت ميں حاضر ہونا اور دنيوى اعمال كى سزا ديكھنا، تمام انسانوں كا انجام ہے_لقاء الا خرة

كلمہ ''لقاء'' (پہنچنا اور ملاقات كرنا) مصدر ہے اور اپنے مفعول كى طرف مضاف ہے جبكہ اس كا فاعل محذوف ہے، يعني:''و لقائهم الا خرة''

۵_ قيامت كے دن انسان كى سزا و جزاء خود اس كے اپنے اعمال كا نتيجہ ہے_هل يجزون إلا ما كانوا يعملون

۶_ الہى سزائیں انسان كے اعمال و كردار كے ہم پلہ ہوتى ہيں _هل يجزون الا ما كانوا يعملون

۷_ آيات الہى اور روز قيامت كى تكذيب كى مناسب سزا نيك اعمال كا تباہ ہوناہے_

حبطت ا عملهم هل يجزون إلا ما كانوا يعملون

۸_ خداوند متعال، انسان كو صرف اس كے مسلسل كئے جانے والے گناہوں پر سزا ديتاہے_

هل يجزون إلا ما كانوا يعملون

فعل مضارع ''يعملون'' اور ''كانوا'' كے ساتھ ساتھ آنے سے استمرار كا استفادہ ہوا ہے_

۹_ انسان كے نيك اعمال كا تباہ ہونا، خدا كى سزاؤں ميں سے ہے_حبطت ا عملهم هل يجزون إلا ما كانوا يعملون

تكذيب آيات كے ذريعے اعمال كى تباہى كے بيان كے بعد اس مطلب كا بيان كيا جانا كہ انسان كى سزا خود اس كے اپنے اعمال كا نتيجہ ہے، اور يہ اس حقيقت كوظاہر كرتاہے كہ نيك اعمال كا تباہ ہونا بھى بجائیے خود ايك سزا ہے كہ جو تكذيب آيات اور انكار قيامت پر مترتب ہوتى ہے_

آيات خدا:آيات خدا كو جھٹلانے كى سزا ،۷;آيات خدا كو جھٹلانے كے اثرات ،۱

الله تعالى :اللہ تعالى كى سزائیں ۷، ۸، ۹;اللہ تعالى كى سزاؤں كى خصوصيت ۶

انسان:انسان كا انجام ۹

ايمان:آيات خدا پر ايمان ۲;ايمان كے اثرات ۲; قيامت پر ايمان ۲

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كے نيك اعمال ۳

تورات:تكذيب تورات كے اثرات ۳

۲۶۸

سزا:سزا كا عمل كے متناسب ہونا ۶

عمل:حبط كے اسباب ۳،۷;۱عمل كى اخروى جزا، ۴;عمل كى اخروى سزا ،۴، ۵ ;عمل كى قدر و قيمت كا معيار ۲; عمل كى نابودى كے اسباب ۱، ۳، ۷

عمل صالح:عمل صالح كا تباہ و برباد ہونا ۹

قيامت:تكذيب قيامت كى سزا ،۷;تكذيب قيامت كے اثرات ۱، ۳;قيامت كے دن سب افراد كو اكھٹا كرنا ۴

گناہ:گناہ كا استمرار ۸;گناہ كى سزا ،۸

نظام سزا: ۵، ۶، ۷، ۸، ۹

آیت ۱۴۸

( وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلاً جَسَداً لَّهُ خُوَارٌ أَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّهُ لاَ يُكَلِّمُهُمْ وَلاَ يَهْدِيهِمْ سَبِيلاً اتَّخَذُوهُ وَكَانُواْ ظَالِمِينَ )

اور موسى كى قوم نے ان كے بعد اپنے زيورات سے گوسالہ كا مجسمہ بنايا جس ميں آواز بھى تھى كيا ان لوگوں نے نہيں ديكھا كہ وہ نہ بات كرنے كے لائق ہے اور نہ كوئي راستہ دكھا سكتا ہے انھوں نے اسے خدا بناليا اور وہ لوگ واقعا ظلم كرنے والے تھے(۱۴۸)

۱_ قوم موسى نے اُن كى عدم موجودگى ميں (كہ جب آپ مناجات كيلئے تشريف لے گئے) ايك بچھڑے كى مورتى كى پوجا شروع كردي_و اتخذ قوم موسى من بعده من حليهم عجلاً جسداً

۲_ قوم موسى نے اپنے زيورات ڈھال كر پوجا كيلئے ايك بچھڑے كا مجسمہ بنايا_اتخذ ...من حليهم عجلاً جسداً

''اتخذ'' كا مصدر ''اتخاذ'' يہاں بنانے كے معنى ميں ہے اور كلمہ ''عجل'' كا معنى بچھڑا ہے اور كلمہ ''حُلّي'' (حَلى كى جمع) زيورات كے معنى ميں ہے_

۳_ بنى اسرائیل كے ہاتھوں بنے ہوئے بچھڑے كے مجسمے ميں سے گائے كى سى آواز نكلتى تھي_له خوار

گائے كى آواز كو ''خوار'' كہا جاتاہے اور بصورت استعارہ اونٹ كى آواز كيلئے بھى يہى كلمہ استعمال كيا جاتاہے_

۲۶۹

۴_ بنى اسرائیل كے ليئےچھڑے كا مجسمہ تيار كرنے والا شخص، مجسمہ سازى كے فن ميں ماہر، ايك مشّاق فنكار تھا_

عجلاً جسداً له خوار

اس مجسمے پر كلمہ ''عجل'' (بچھڑا) كا اطلاق اس نكتہ كو بيان كرتا كہ وہ مجسمہ مكمل طور پر بچھڑے كے مشابہ تھا چنانچہ اس كو اس طرح تيار كرنا كہ اس سے گائے كى آواز نكلے، اس حقيقت كو بيان كرتاہے كہ وہ مجسمہ ساز ايك ہنرمند تھا اور مجسمہ سازى كى صنعت ميں مكمل مہارت ركھتا تھا_

۵_ بچھڑے كے مجسمہ سے گائے كى سى آواز خارج ہونا، قوم موسى كيلئے اس مجسمہ كى پرستش كرنے كا باعث بنا_

له خوار

عام طور پر كسى شيء كى خصوصيات بيان كرنے ميں اسى شيء پر مترتب ہونے والے احكام كے سبب كى طرف اشارہ پايا جاتاہے، بنابراين كہا جاسكتاہے كہ خدا نے مجسمہ كى اس خصوصيت (گائے كى سى آواز نكلنا) كو بيان كركے مجسمہ كى پرستش كى طرف قوم موسى كى رغبت كے ايك سبب كى طرف اشارہ كيا ہے_

۶_ بنى اسرائیل كا اپنے ہاتھوں سے بنايا ہوا معبود (بچھڑے كا مجسمہ) نہ ہى تو ان كے ساتھ كلام كرتا اور نہ ہى انہيں كسى راہ كى طرف ہدايت كرتا تھا_ا لم يروا ا نه لا يكلمهم و لا يهديهم سبيلاً

۷_ بات كرنے سے ناتوان اور ہدايت كرنے سے عاجز مجسمے كى پرستش كى طرف قوم موسى كا رجحان ايك غير عاقلانہ فعل اور تعجب آور بات تھي_ا لم يروا ا نه لا يكلمهم و لا يهديهم سبيلاً

''ا لم يروا'' ميں استفہام انكار اور تعجب كيلئے ہے، يعنى بچھڑے كى پوجا كرنے والے يہ ديكھتے ہوئے كہ يہ ان كے ہاتھوں كا بنايا ہوا معبود نہ توان كے ساتھ كلام كرنے پر قادر ہے اور نہ ہى انہيں كوئي راہ دكھاتاہے، اس كے باوجود وہ اس كو ''الہ'' خيال كرتے تھے، يہ ايك ايسى غير معقول بات ہے كہ جو ہر عقلمند كيلئے باعث حيرت ہے_

۸_ انسان كى ہدايت كرنا اور اس كے ساتھ كلام كرنے پر قادر ہونا، ايك سچے معبود كى روشن ترين نشانى ہے_

ا لم يروا ا نه لا يكلمهم و لا يهديهم سبيلاً

۹_ بنى اسرائیل ميں شرك آلود رجحانات كے وجود اور ايك محسوس معبود كے ساتھ ان كے لگاؤ نے ان

۲۷۰

كيلئے بچھڑے كى پرستش كا رخ كرنے كى راہ ہموار كي_و اتخذ قوم موسى من بعده من حليهم عجلاً جسداً

قرآن كى اس مطلب پر تاكيد كہ قوم موسيعليه‌السلام نے آپعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں معبود بنانا شروع كرديا، اس حقيقت كو بيان كرتى ہے كہ آيت ۱۳۸، ۱۳۹ ميں موسىعليه‌السلام كى طرف سے پيش كيے جانے والے حقائق نے محسوس معبود كے چاہنے والوں پر كچھ اثر نہ كيا بلكہ وہ اسى طرح ايك محسوس و ملموس خدا كى فكر ميں رہے يہاں تك كہ فرصت ملتے ہى (موسيعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں ) اپنى خواہش كو عملى جامہ پہنا ديا_

۱۰_ بنى اسرائیل كے پاس بچھڑے كى پوجا كى طرف مائل ہونے كيلئے كوئي بہانہ اور عذر نہ تھا_اتخذوه و كانوا ظلمين

جملہ حاليہ ''و كانوا ظلمين'' ميں ان دو معانى ميں سے كسى ايك كى طرف اشارہ پايا جاتاہے ايك يہ كہ شرك ظلم ہے اور قوم موسى بچھڑے كى پرستش كى طرف مائل ہوكر ظالمين كے زمرے ميں آگئي دوسرا يہ كہ بنى اسرائیل كا بچھڑے كى پوجا كرنا ظلم تھا نہ يہ كہ اس حقيقت كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ شرك خود ظلم ہے، يعنى ان كا يہ كردار ظلم تھا كہ جس كيلئے ان كے پاس كوئي توجيہ نہ تھى كہ اپنے ناروا كام كو صحيح ظاہر كر پاتے، فوق الذكر مفہوم اسى دوسرے معنى كى طرف ناظر ہے_

۱۱_ عصر موسى كے بنى اسرائیل بچھڑے كى پوجا كى طرف رغبت پيدا كرنے كى وجہ سے ظالمين كے زمرے ميں شمار ہوئے_اتخذوه و كانوا ظلمين

۱۲_ غير خدا كى پرستش اور مشركانہ رجحانات ظلم ہيں _اتخذوه و كانوا ظلمين

۱۳_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله تعالي: ''و اتخذ قوم موسى من بعده من حليهم عجلا جسدا له خوار'' فقال موسى يا رب و من ا خار الصنم؟ فقال الله : ا نا يا موسى ا خرته (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے آيت'' ...عجلا جسدا له خوار'' كے بارے ميں روايت منقول ہے كہ موسىعليه‌السلام نے خدا سے عرض كى كہ اے ميرے پروردگار سامرى كے بت كو كس نے آواز بخشي؟ خدا نے فرمايا اے موسى ، ميں نے اسے آواز عطا كى ہے_

انحراف:انحراف كے عوامل ۹

بچھڑا :۲بچھڑے كى پو جا :بچھڑے كى پوجا كا ظلم ۱۱

__________________

۱) تفسير عياشى ص/۲۹ ،ج۲_ح ۷۹، نورالثقلين ج/۲ ص ۷۰ ح ۲۶۳_

۲۷۱

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كا ارتداد ،۱۱;بنى اسرائیل كا بچھڑا، ۶، ۷ ; بنى اسرائیل كا ظلم ۱۱;بنى اسرائیل كا محسوسات كى طرف رجحان ۹; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۵، ۹ ;بنى اسرائیل كى مجسمہ سازى ۱، ۲، ۴ ;بنى اسرائیل كے باطل معبود ۶;بنى اسرائیل كے بچھڑے كى آواز ۳، ۵; بنى اسرائیل كے ناپسنديدہ رجحانات ۹; بنى اسرائیل ميں بچھڑے كى پوجا ۱، ۲، ۱۱ ;بنى اسرائیل ميں بچھڑے كى پوجا كا غير منطقى ہونا ۷، ۱۰ ; بنى اسرائیل ميں بچھڑے كى پوجا كے اسباب ۵، ۹

سامري:سامرى كى مہارت ۴

شرك:شرك عبادى كا ظلم ۱۲;شرك كے اسباب ۵

ظالمين: ۱۱

ظلم:ظلم كے موارد ۱۲

محسوسات كى طرف رجحان ;

محسوسات رجحان كے اثرات ۹

معبود:سچے معبود كا تكلم ۸;سچے معبود كى نشانياں ۸;معبود كا ہدايت كرنا ۸

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام كا قصّہ،۱ ;موسىعليه‌السلام ميقات ميں ،۱

آیت ۱۴۹

( وَلَمَّا سُقِطَ فَي أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْاْ أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّواْ قَالُواْ لَئِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ )

اور حب وہ پچھتا ئے اور انھوں نے ديكھ ليا كہ وہ بہك گئے ہيں تو كہنے لگے كہ اگر ہمارا پروردگار ہمارے اوپر رحم نہ كرے گا اور ہميں معاف نہ كرے گا تو ہم خسارہ والوں ميں شامل ہوجائیں گے(۱۴۹)

۱_ بنى اسرائیل كچھ عرصہ بعد پرستش كيلئے بچھڑے كى نااہليت كى طرف متوجہ ہوگئے اور اپنى گمراہى سے آگاہ ہوتے ہوئے اپنے كيئےر پشيمان ہوگئے_و لما سقط فى ا يديهم و را وا ا نهم قد ضلوا

جملہ ''سقط فى ا يديھم'' پشيمانى سے كنايہ ہے اس لئے كہ انسان پشيمانى كے وقت اپنى ٹھوڑى

۲۷۲

ہاتھوں پر ركھ ديتاہے گويا اپنے ہاتھوں گرا ہے_

۲_ بنى اسرائیل نے اپنى گمراہى سے آگاہ ہونے كے بعد بچھڑے كى پوجا سے توبہ كرلى اور اپنے گناہ كا اعتراف كرليا_

قالوا لئن يرحمنا ربنا و يغفر لنا لنكونن من الخسرين

۳_ بنى اسرائی ل، اپنى گمراہى كے بارے ميں يقين حاصل كرنے كے بعد اس حقيقت تك پہنچے كہ مجسمہ پرستى كے برے انجام سے ان كى نجات خدا كى رحمت اور مغفرت كے شامل ہونے ہى كى صورت ميں ممكن ہے_

قالوا لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا لنكونن من الخسرين

۴_ خدا كى مغفرت، اس كى رحمت كا ايك جلوہ ہے_لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا

۵_ بندوں پر خدا كى رحمت اور ان كے گناہوں كى معافي، ان پر خدا كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_

لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا

۶_ بنى اسرائیل كے مرتد لوگ مجسمہ پرستى كى وجہ سے اپنے مستقبل كے بارے ميں پريشان تھے_

لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا لنكونن من الخسرين

۷_ مشركين اور مرتدين كا يقينى انجام، ان كا خسارے ميں ہوناہے_لنكونن من الخسرين

۸_ قوم موسىعليه‌السلام ، مجسمہ پرستى كا سابقہ ركھنے كے باوجود خدا كى رحمت اور مغفرت سے لو لگائے ہوئے تھي_

لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا

۹_ شرك اور ارتداد جيسے گناہ كا سابقہ ركھنے كے باوجود بھى خدا كى رحمت اور مغفرت كى اميد ركھنا ضرورى ہے_

لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا لنكونن من الخسرين

۱۰_ گناہ اور شرك آلود رجحانات كے خسارے سے نجات حاصل كرنے كى واحد راہ ،خدا كى رحمت و مغفرت كا شامل حال ہوناہے_لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا لنكونن من الخسرين

الله تعالى :اللہ تعالى كى ربوبيت ۵; اللہ تعالى كى رحمت ۵; اللہ تعالى كى رحمت كى اميد ۸،۹; اللہ تعالى كى رحمت كے اثرات ۳،۱۰;اللہ تعالى كى رحمت كے مظاہر ۴;اللہ تعالى كى مغفرت ۴;اللہ تعالى كى

۲۷۳

مغفرت كى اميد۸;اللہ تعالى كى مغفرت كے اثرات۳

اميد ركھنا:اميد ركھنے كى اہميت ۹

انجام:برے انجام سے نجات ۳

بچھڑے كى پوجا :بچھڑے كى پوجاسے پشيمان ہونا،۱ ;بچھڑے كى پوجا كا انجام ۳

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كا اقرار ۳، ۲; بنى اسرائیل كى آگاہى ۱، ۲، ۳; بنى اسرائیل كى اميد ۸; بنى اسرائیل كى پشيماني،۱ ;بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۶، ۸ ; بنى اسرائیل كى توبہ ۲;بنى اسرائیل كى گمراہى ۲; بنى اسرائیل كى مجسمہ پرستى ۱، ۲، ۸ ;بنى اسرائیل كے

مرتدوں كى پريشانى ۶

شرك:شرك كے خسارے سے نجات ۱۰

گمراہي:گمراہى كا اقرار ۳

گناہ:گناہ كا اقرار ۲;گناہ كى معافى ۵;گناہ كے خسارے سے نجات ۱۰

مرتدين:مرتدين كا انجام ۷;مرتدين كا خسارے ميں ہونا ۷

مشركين:مشركين كا انجام ۷;مشركين كا خسارے ميں ہونا ۷

مغفرت:مغفرت كى اميد ۹;مغفرت كے اثرات ۱۰

۲۷۴

آیت ۱۵۰

( وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفاً قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِيَ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَأَلْقَى الألْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُواْ يَقْتُلُونَنِي فَلاَ تُشْمِتْ بِيَ الأعْدَاء وَلاَ تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ) .

اور جب موسى اپنى قوم كى طرف واپس ائے تو غيظ و غضب كے عالم ميں كہنے لگے كہ تم نے ميرے بعد بہت برى حركت كى ہے_ تم نے حكم خدا كے آنے ميں كس قدر عجلت سے كام ليا ہے اور پھر انھوں نے توريت كى تختيوں كو ڈال ديا اور اپنے بھائی كا سر پكڑكر كھينچنے لگے_ ہارون نے كہا بھائی قوم نے مجھے كمزور بنا ديا تھا اور قريب تھا كہ مجھے قتل كر ديتے تو ميں كيا كرتا_ آپ دشمنوں كو طعنہ كا موقع نہ ديجئے اور ميرا شمار ظالمين كے ساتھ نہ كيجئے(۱۵۰)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام خدا كے ساتھ چاليس راتوں كى مناجات كے بعد اپنى قوم كى طرف واپس ائے_

و لما جاء موسى لميقتنا ...و لما رجع موسى إلى قومه

۲_ حضرت موسىعليه‌السلام جب بنى اسرائیل كى طرف واپس ائے تو اپنى قوم كے گمراہ ہوجانے پر سخت غضب ناك اور غمگين ہوئے_و لما رجع موسى الى قومه غضبن اسفاً

كلمہ ''اسف'' ايسے شخص كيلئے بولا جاتاہے كہ جو بہت غمگين ہو (لسان العرب)

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام ، بنى اسرائیل كے پاس پہنچنے سے پہلے خدا كے ساتھ مناجات كے دوران ہى ان كے مرتد ہونے سے آگاہ ہوچكے تھے_و لما رجع موسى الى قومه غضبن اسفاً

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى منحرف قوم كے پاس پہنچنے كے بعد ان كے طرز عمل كو غلط قرار ديتے ہوئے ان كى مذمت كي_قال بئسما خلفتمونى من بعدى ا عجلتم ا مر ربكم

۵_ قوم موسى ، آپعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے وعدے كى مدت كو چاليس راتوں سے كم خيال كرتى تھي_ا عجلتم امر ربكم

عجلت كرنا يعنى كسى چيز كو اس كا وقت پہنچنے سے پہلے طلب كرنا، ''ا مر ربكم'' سے مراد موسيعليه‌السلام كے ساتھ خدا كا وقت ملاقات ہے اور كلمہ ''ا عجلتم'' ميں استفہام توبيخى ہے، بنابرايں مذكورہ جملے كا معنى يہ ہوگا: آيا تم لوگ وعدے كا وقت تمام ہونے سے پہلے اس كے خواہاں تھے؟

۲۷۵

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے وعدے كى مدت كے اختتام اور آپعليه‌السلام كى واپسى ميں تاخير كے بارے ميں توہم نے قوم موسى كيلئے بچھڑے كى پرستش كى راہ ہموار كي_بئسما خلفتمونى من بعدى ا عجلتم ا مر ربكم

جملہ ''ا عجلتم'' ميں اس سبب كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ جس كى بناپر بنى اسرائیل نے بچھڑے كى پوجا كا رخ كيا_

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كى مجسمہ پرستى پر شدت غضب كے اثر كى وجہ سے تورات كى تختيوں كو زمين پر ڈال ديا_لما رجع موسى إلى قومه غضبن ا سفاً ...و ا لقى الا لواح

۸_ بنى اسرائیل كا شرك اور بچھڑے كى پرستش ميں آلودہ ہونا، تورات اور اس كے مواعظ اور پيغامات كو ابلاغ كرنے كيلئے سازگار نہ تھا_ا لقى الا لواح

داستان كے اس حصّہ (يعنى گوسالہ پرستى كو ديكھ كر موسىعليه‌السلام نے تورات كو زمين پر ڈال ديا) كو بيان كرنے كا مقصد گويا يہ نكتہ ہے كہ موسىعليه‌السلام نے اپنے جاہل معاشرے كو تورات كے اہل نہ جانا اور اس كى تعليمات كيلئے ميدان موجود نہ پاكر اسے زمين پر ركھ ديا_

۹_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنے بھائی ہارونعليه‌السلام كو بنى اسرائیل كے انحراف كے معاملہ ميں قصور وار ٹھہرايا_

و ا خذ برا س ا خيه يجره إليه

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام نے بنى اسرائیل كے انحراف ميں ہارونعليه‌السلام كو قصور وار سمجھنے كى وجہ سے ان كا مواخذہ كرنے كيلئے سر كے بالوں سے پكڑ كر اپنى طرف كھينچا_

ا خذ برا س ا خيه يجره إليه

جملہ ''ا خذ براس ا خيہ'' كے تفسير ميں مفسرين كا كہنا يہ ہے كہ موسىعليه‌السلام نے ہارونعليه‌السلام كے بالوں كو پكڑا كلمہ ''را س'' كى تفسير ميں سر كے بال مراد لينا، گويا بعد والے جملے ''يجرہ اليہ'' (يعنى اسے اپنى طرف كھينچ رہے تھے) كى وجہ سے ہے اسليئےہ اگر موسىعليه‌السلام نے ہارونعليه‌السلام كا سر پكڑا ہوتا تو اس صورت ميں ان كے درميان فاصلہ نہ ہوتا كہ انہيں اپنى طرف كھينچيں _

۱۱_ بنى اسرائیل كو بچھڑے كى پوجا اور شرك سے روكنا، موسىعليه‌السلام كى نظر ميں ہارونعليه‌السلام كى ذمہ دارى تھي_

و ا خذ برا س ا خيه يجره إليه

۲۷۶

۱۲_ دينى راہنماؤں كو قرابت دارى كى بناپر ذمہ دار افراد كے قصور سے چشم پوشى نہيں كرنا چاہيے_

و ا خذ برا س ا خيه يجره إليه

۱۳_ معاشرتى امور ميں قصور وار ذمہ دار افراد جس قدر اونچے رتبے پر ہوں ان كا مواخذہ ضرورى ہے_

و ا خذ برا س ا خيه يجره إليه

۱۴_ ہارونعليه‌السلام نے موسىعليه‌السلام كے احساسات كو ابھارتے ہوئے ان كے غصے كو ٹھنڈا كرنے اور اس بات پر مطمئن كرنے كى كوشش كى كہ انہوں نے بنى اسرائیل كے منحرفين كے مقابلے ميں اپنے فرائض كى انجام دہى ميں كوئي كوتاہى نہيں كي_قال ابن ا م إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلونني

ايسا معلوم ہوتاہے كہ ہارونعليه‌السلام نے موسى كو ''ماں جايا'' كہہ كر مخاطب قرار ديتے ہوئے ان كے احساسات كو اپنے حق ميں ابھارنے كى كوشش كي_

۱۵_ احساسات كو ابھارنا، غضب ٹھنڈا كرنے ميں مؤثر ہے _*رجع موسى إلى قومه غضبن ...قال ابن ا م

۱۶_ انبياء كے روّيے ميں احساسات كى تاثير_قال ابن ا م

۱۷_ ہارونعليه‌السلام ، موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائیل كے درميان شرك اور بچھڑے كى پوجا كے خلاف جد و جہد ميں مشغول رہے_قال ابن ا م ا ن القوم استضعفونى و كادو يقتلوني

۱۸_ ہارونعليه‌السلام ،بنى اسرائیل كے بچھڑے كے پجاريوں كے سامنے مغلوب اور انہيں اس فعل سے باز ركھنے سے ناتوان تھے_إن القوم استضعفوني

كلمہ ''استضعاف'' غلبہ كرنے اور مغلوب بنانے كے معنى ميں آتاہے_

۱۹_ بچھڑے كے پجاري، ہارونعليه‌السلام كو شرك كے خلاف ان كے مسلسل مبارزہ كى وجہ سے، قتل كرنے پر آمادہ تھے_إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلونني

۲۰_ ہارونعليه‌السلام نے بچھڑے كى پوجا كرنے والوں كے خلاف جنگ كرنے اور انہيں اس عمل سے روكنے ميں ناكام رہنے كا حال بيان كرتے ہوئے موسىعليه‌السلام كے سامنے اپنى بے گناہى ثابت كرنے كى كوشش كي_

إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلونني

۲۱_ دينى معاشروں كے ذمہ دار افراد كو لوگوں كے عقائد كے معاملے ميں حساس ہونا چاہيے نيز انہيں چاہيے كہ منحرفين اور

۲۷۷

انحراف كے اسباب كے خلاف مبارزہ كرنے كے سلسلہ ميں كوتاہى نہ كريں _قال ابن ا م إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلونني

۲۲_ ہارونعليه‌السلام نے بنى اسرائیل كے منحرفين كے سامنے اپنى حالت كى وضاحت كرتے ہوئے موسيعليه‌السلام سے درخواست كى كہ ميرا مؤاخذہ كركے دشمنان دين كو خوش نہ كريں _و كادوا يقتلوننى فلا تشمت بى الا عدائ

كلمہ ''الا عداء'' كا ''ال'' جنس كيلئے ہے اور''القوم الظالمين'' كے قرينہ كے مطابق اس سے مراد دشمنان دين يعنى وہى بچھڑے كى پوجا كرنے والے ہيں _ فعل ''لا تشمت'' كا مصدر ''اشمات'' خشنود كرنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور كلمہ ''بي'' ميں حرف ''باء'' سببيہ ہے بنابراين'' لا تشمت بى الا عدائ'' يعنى ميرا مؤاخذہ كرتے ہوئے دشمنان دين كو خوش نہ كرو_

۲۳_ غير خدا كى پرستش، دين اور انبيائے الہى كے ساتھ دشمنى ہے_فلا تشمت بى الا عدائ

كلمہ ''الاعداء'' سے مراد غير خدا كى پرستش كرنے والے ہيں اور ہارونعليه‌السلام كى نظر ميں وہ لوگ دشمنان دين تھے_

۲۴_ دشمنان دين كے سامنے فرض شناس مؤمنين كى تحقير سے اجتناب ضرورى ہے_لا تشمت بى الا عدائ

ہارونعليه‌السلام نے بُرائی كے اسباب كے خلاف مبارزہ كرنے ميں اپنى طرف سے كوتاہى نہ كرنے كے بارے ميں وضاحت كے ليئےملہ ''فلا تشمت ...'' كو ''فاء'' كے ذريعے تفريع كرتے ہوئے اس نكتے كا اظہار كيا كہ انہوں نے اپنا فرض ادا كيا ہے لہذا سزاوار نہيں كہ دشمنان دين كے سامنے ان كى تحقير كى جائیے _

۲۵_ قصور وار عہدے داروں كے مؤاخذہ پر دشمنان دين كا خوش ہونا، ان كے مؤاخذے سے چشم پوشى كرنے كيلئے عذر شمار نہيں ہونا چاہيے_إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلوننى فلا تشمت بى الاعدائ

واضح ہے كہ موسىعليه‌السلام جانتے تھے كہ ہارونعليه‌السلام كا مؤاخذہ كرنے سے دشمنان دين خوش ہوں گے ليكن چونكہ انہيں قصور وار خيال كرتے تھے لہذا ان كا مواخذہ كرنے كا فيصلہ كيا چنانچہ ہارونعليه‌السلام نے بھى كوتاہى نہ كرنے كے بارے ميں وضاحت كرنے كے بعد موسىعليه‌السلام كو دشمنان دين كو خوش كرنے سے روكا_

۲۶_ ہارونعليه‌السلام نے بنى اسرائیل كے شرك كے خلاف اپنے مبارزے كا ذكر كرتے ہوئے موسيعليه‌السلام سے درخواست كى كہ انہيں شرك پيشہ ظالمين كے ساتھ قرار نہ ديں _

۲۷۸

إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلونني ...و لا تجعلنى مع القوم الظلمين

واضح ہے كہ موسىعليه‌السلام ہرگز يہ گمان نہ كرتے تھے كہ ہارونعليه‌السلام ظالمين ميں سے ہيں ، بنابريں جملہ ''لا تجعلنى مع'' ميں ''مع'' معيت حكمى كو ظاہر كرتاہے يعنى مجھے ظالمين كے مساوى نہ جانو_

۲۷_ دينى معاشروں كے ذمہ دار افراد، اپنے معاشرے ميں انحراف اور گمراہى كے پھيلنے كے سلسلہ ميں بے پرواہ ہونے كى صورت ميں منحرفين كے مساوى ہوجاتے ہيں _و لا تجعلنى مع القوم الظلمين

جملہ ''و لا تجعلني ...'' يہ مفہوم فراہم كرتاہے كہ موسىعليه‌السلام نے اس سے قبل كہ يہ ثابت ہوجائیے كہ ہارونعليه‌السلام نے برائی كے اسباب كے خلاف مبارزہ كرنے ميں كسى قسم كى كوتاہى نہيں كي، انہيں منحرفين كے ساتھ قرار ديا_

۲۸_ شرك ظلم ہے اور مشركين ظالم ہيں _و لا تجعلنى مع القوم الظلمين

كلمہ ''الظلمين'' سے وہى مشركين اور بچھڑے كے پجارى مراد ہيں ، بنابراين كلمہ ''المشركين'' كى بجائیے كلمہ ''الظلمين'' استعمال كرنے كا مقصد مشركين كو ظالم قرار دينا ہے_

۲۹_عن امير المؤمنين عليه‌السلام (فى خطبة) ...كان هارون ا خا موسى لا بيه و ا مه (۱)

حضرت امير المؤمنينعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے ايك خطبے كے ضمن ميں فرمايا كہ ہارونعليه‌السلام ، باپ اور ماں دونوں كى طرف سے موسىعليه‌السلام كے بھائی تھے

۳۰_على بن سالم عن ا بيه قال: قلت لابى عبدالله عليه‌السلام : ...فلم ا خذ (موسي) برا سه (هارون) يجره إليه و بلحيته و لم يكن له فى اتخاذهم العجل و عبادتهم له ذنب؟ فقال: انما فعل ذلك به لانه لم يفارقهم لما فعلوا ذلك و لم يلحق بموسي ..(۲)

على بن سالم اپنے والد سے نقل كرتے ہيں كہ اس نے امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا ...موسيعليه‌السلام نے اپنے بھائی ہارونعليه‌السلام كو سر اور ريش سے پكڑ كر اپنى طرف كيوں كھينچا باوجود اس كے كہ بنى اسرائیل كى طرف سے بچھڑے كو معبود قرار دينے اور اس كي

____________________

۱) كافي، ج۸، ص۲۷، ح۴; نورالثقلين، ج۲، ص ۷۲، ح۲۷۲_۲) علل الشرايع، ص۶۸، ح۱، ب۵۸; نورالثقلين، ج۲، ص۷۲، ح۲۷۰_

۲۷۹

عبادت كرنے ميں ہارون كا كوئي گناہ نہ تھا؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا: موسىعليه‌السلام نے ہارونعليه‌السلام كے ساتھ ايسا سلوك اس لئے كيا كہ وہ بنى اسرائیل كے عمل (بچھڑے كى پوجا) كو ديكھ كر ان سے جدا ہوتے ہوئے موسىعليه‌السلام كے ساتھ ملحق نہ ہوئے

احساسات :احساسات كو ابھارنا ۱۴;احساسات كو ابھارنے كے اثرات ۱۵;كردار ميں احساسات كى تاخير ۱۶

اعداد:چاليس كا عدد ۵

انبياء:انبياء كا متاثر ہونا ۱۶;انبياء كے ساتھ دشمنى ۲۳

انحراف:عوامل انحراف كے خلاف مبارزہ ۲۱

بچھڑے كى پوجا:بچھڑے كى پوجا كے ساتھ مبارزہ ۶

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل اور ميقات موسى ۵، ۶ ;بنى اسرائیل كا آلودہ ہونا ۸;بنى اسرائیل كا بچھڑے كى پوجا كرنا ہونا ۷، ۸، ۹، ۱۱;بنى اسرائیل كا شرك ۱، ۸، ۲۶ ; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹; بنى اسرائیل كى سرزنش ۴;بنى اسرائیل كے بچھڑے كے پجارى اور ہارونعليه‌السلام ۱۸;بنى اسرائیل كے بچھڑے كے پجاريوں كى سازش ۱۹; بنى اسرائیل كے بچھڑے كے پجاريوں كے خلاف مبارزہ ۲۰;بنى اسرائیل كے مشركين اور ہارونعليه‌السلام ۱۸; بنى اسرائیل ميں بچھڑے كى پوجا كے اسباب ۶

تورات:ابلاغ تورات كے موانع ۸

ثقافتى يلغار:ثقافتى يلغار كا مقابلہ ۲۱;ثقافتى يلغار كے مقابلے ميں بے پرواہى كا اظہار ۲۷

دشمن:دشمنوں كو خوش كرنا ۲۵;دشمنوں كو خوش كرنے سے اجتناب ۲۲

دين:دين كے ساتھ دشمنى ۲۳

دينى رہبري:دينى رہبرى كى مسؤوليت ۱۲، ۲۱، ۲۷

شرك:شرك عبادى ۲۳;شرك كا ظلم ۲۸;شرك كے آثار ۸

ظالمين: ۲۸

ظلم:ظلم كے موارد ۲۸

عقيدہ:

۲۸۰