تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 736
مشاہدے: 153608
ڈاؤنلوڈ: 3184


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153608 / ڈاؤنلوڈ: 3184
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 6

مؤلف:
اردو

طيبات:طيبات سے استفادہ ۲۴

ظالمين: ۳۰

ظلم:ظلم كے موارد ،۳۱

كفران:كفران نعمت ۳۱

گناہ:گناہ كے آثار ۳۲

گناہ گار:گناہ گاروں كا خسارہ ۳۲

منّ:نعمت منّ ۱۸، ۱۹، ۲۶;نعمت منّ سے استفادہ ۲۲;نعمت منّ كا باعث ۲۰

موسىعليه‌السلام :عصائے موسىعليه‌السلام ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ;موسىعليه‌السلام كا پتھر سے پانى نكالنا ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ;موسىعليه‌السلام كا قصہ ۹، ۱۰، ۱۲;موسىعليه‌السلام كو وحى ۱۱;موسىعليه‌السلام كے معجزات كا متعدد ہونا ۲۶

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كے فرزند ۳

آیت ۱۶۱

( وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُواْ هَـذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُواْ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُواْ حِطَّةٌ وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ )

اور اس وقت كو ياد كرو جب ان سے كہا گيا كہ اس قريہ ميں داخل ہوجاؤ اور جو چاہو كھاؤ ليكن حطّہ كہہ كر داخل خونا ہوتے وقت سجدہ كرتے ہوئے داخل ہونا تا كہ ہم تمھارى خطاؤں كو معاف كرديں كہ ہم عنقريب نيك عمل والوں كے اجر ميں اضافہ بھى كرديں گے(۱۶۱)

۱_ بنى اسرائیل كو حكم ملا كہ بيابانى زندگى كے بعد اب تم بيت المقدس كى آبادى ميں سكونت اختيار كرو_

۳۲۱

و إذ قيل لهم اسكنوا هذه القرية

كلمہ ''قرية'' لغت ميں گاؤں اور شہر دونوں كيلئے استعمال ہوا ہے اور قرآن ميں بھى دونوں كيلئے بروئے كار لايا گيا ہے اور كسى ايك معنى پر قرينہ نہ ملنے كى وجہ سے فوق الذكر مفہوم ميں كلمہ ''آبادي'' لايا گيا ہے ''القرية'' كا ''ال'' عہد حضورى ہے اور كسى خاص بستى كى طرف اشارہ ہے، بہت سے مفسرين كى يہ رائے ہے كہ اس سے مراد بيت المقدس ہے_

۲_ بيت المقدس كى آبادى ميں سكونت اختيار كرنے كا فرمان ايك ايسا فرمان تھا كہ جو خدا كى طرف سے بنى اسرائیل كو ملاتھا_و إذ قيل لهم اسكنوا هذه القرية

كلمہ ''قيل'' كو بصورت مجہول لايا گيا ہے اور فرمان دينے والے كو ذكر نہيں كيا گيا ليكن جملہ ''نغفر لكم ...'' سے معلوم ہوتاہے كہ فرمان دينے والا خدا ہے_

۳_ بنى اسرائیل كو جب بيت المقدس ميں رہنے كا حكم ملا اس وقت وہ اس آبادى كے نزديك كسى جگہ رہتے تھے_

و إذ قيل لهم اسكنوا هذه القرية

فوق الذكر مفہوم كلمہ ''ھذہ'' كو مد نظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گيا ہے_

۴_ عصر موسىعليه‌السلام ميں بيت المقدس كى سرزمين ايك آباد ، نعمات سے مالامال اور غذاؤں سے پُر علاقوں پر مشتمل تھي_

و كلوا منها حيث شئتم

۵_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كيلئے بيت المقدس ميں ہر جگہ سے غذائیں مہيا كرنے كو، حلال اور مباح كر ركھا تھا_

و كلوا منها حيث شئتم

۶_ بنى اسرائیل كو خدا كا حكم تھا كہ بيت المقدس كو تصرف ميں لاتے وقت گناہوں سے استغفار كريں _و قولوا حطة

كلمہ ''حطة'' كلمہ''مسألتنا'' كى مانند ايك محذوف مبتدا كيلئے خبر ہے، يہ كلمہ مصدر ہے اور ركھنے اور نيچے لانے كے معنى ميں آتاہے چنانچہ يہاں بعد والے جملے (نغفر لكم) كے قرينے كى روشنى ميں اس سے مراد گناہوں كا بوجھ برطرف كرنا اور ان كى مغفرت ہے_ بنابرايں ''قولوا حطة'' يعنى كہو خدايا ہمارى درخواست ،گناہوں كى بخشش ہے_

۷_ بيت المقدس كو تصرف ميں لانے كے دوران خداوند كى طرف سے بنى اسرائیل كو خشوع و خضوع كا اظہار كرنے كا حكم ملا تھا_''سُجّداً'' كلمہ ''ساجد'' كى جمع ہے اور ''ادخلوا'' كے فاعل كيلئے حال ہے اور چونكہ ورود كى حالت ميں سجدہ اس كے اصطلاحى معنى (يعنى زمين پيشانى ركھنا) كے ساتھ سازگار نہيں لہذا كہا جاسكتا ہے كہ يہاں اس كا لغوى معنى

۳۲۲

(خضوع و خشوع) مراد ليا گيا ہے_

۸_ بيت المقدس كا دروازہ، اس سرزمين ميں داخل ہونے اوراس پر قبضہ كرنے كيلئے خدا كى جانب سے راہ كے طور پر معين كيا گيا تھا_و ادخلوا الباب

۹_ بيت المقدس ميں داخل ہونے اور وہاں سكونت اختيار كرنے كيلئے معين كئے گئے آداب كى رعايت كى صورت ميں ، خدا كى طرف سے بنى اسرائیل كو گناہوں كى معافى كى بشارت_اسكنوا ...و ادخلوا الباب سُجّداً نغفر لكم خطيئتكم

ظاہر يہ ہے كہ جملہ''نغفر لكم'' آيت مذكور تمام اوامر كيلئے جواب ہے، بنابرايں تقدير يوں ہوگي:''ان تسكنوا و تاكلوا و تقولوا و تدخلوا الباب سُجّداً نغفر لكم'' _

۱۰_ بيت المقدس ميں داخل ہونے سے پہلے بنى اسرائیل پر بہت زيادہ گناہوں كا بوجھ تھا_نغفر لكم خطيئتكم

فوق الذكر مفہوم كلمہ ''خطيئات'' كہ جسے بصورت جمع لايا گياہے ،كومد نظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گياہے_

۱۱_ انسان كے گناہوں كى معافى خدا كے اختيار ميں ہے_نغفر لكم خطيئتكم

۱۲_ بارگاہ خدا ميں استغفار، گناہوں كى بخشش كا باعث بنتاہے_و قولوا حطة ...نغفر لكم خطيئتكم

۱۳_ قوم موسى ميں نيك كردار اور پاك دامن افراد كى موجودگي_سنريد المحسنين

كلمہ ''المحسنين'' اس گروہ كے مقابل ميں ہوسكتاہے كہ جو جملہ''نغفر لكم خطيئتكم'' سے سمجھا جاتاہے يعنى بنى اسرائیل كے دو گروہ تھے ايك گروہ گنہگار كہ جس كى طرف جملہ''نغفر لكم خطيئتكم'' ميں اشارہ پايا جاتاہے اور دوسرا گروہ پاكدامنوں كا كہ جسے كلمہ ''المحسنين'' بيان كرتاہے_

۱۴_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كے محسنين كو بيت المقدس ميں وارد ہونے كيلئے معين كيئےئے آداب كى پابندى كرنے كى صورت ميں ، ان كے احسان سے بڑھ كر جزا دينے كى بشارت دي_سنزيد المحسنين

۱۵_ فرامين الہى كى اطاعت، احسان اور نيك كردار شمار ہوتى ہے_اسكنوا ...و قولوا حطة و ادخلوا الباب سُجّداً ...سنزيد المحسنين

۳۲۳

فوق الذكر مفہوم، كلمہ''المحسنين'' كے بارے ميں ديئے گئے ايك اور احتمال كى اساس پر اخذ ہوا ہے يعنى يہ كلمہ ''ضمير ''كم'' كے جانشين كے طور پر ليا گيا تا كہ اس معنى كى طرف اشارہ ہوپائے كہ مذكورہ فرامين كى اطاعت احسان ہے اور ان اوامر كى اطاعت كرنے والے محسنين ہيں _

۱۶_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كے نيك كردار لوگوں كو فرامين الہى كى اطاعت كرنے كى صورت ميں گناہوں كى بخشش كے علاوہ اور مزيد جزا كى بشارت دي_سنزيد المحسنين

فوق الذكر مفہوم ميں محسنين كوگناہ گاروں كے مقابلے ميں قرار نہيں ديا گيا ہے بلكہ اس كے لغوى معنى (نيك كام كرنے والے) ہى كو مد نظر ركھا گيا ہے اس بنأپر آيت كريمہ بنى اسرائیل كى دو گروہوں ميں تقسيم كى طرف ناظر نہيں ہے بلكہ انہيں دو گروہوں يعنى محسنين اور غير محسنين كى طرف تقسيم كيا گيا ہے اور جملہ''نغفر لكم ...'' يہ معنى فراہم كرتاہے كہ خدا سب كے (محسنين اور غير محسنين كے) گناہوں كو معاف كردے گا البتہ محسنين كو زيادہ جزا عنايت كرے گا_

۱۷_ خدا كے فرامين كى اطاعت كرنے والے نيكوكار ہونے كى صورت ميں دوسرے مطيع افرادكى نسبت زيادہ جزا سے بہرہ مند ہوں گے_سنزيد المحسنين

۱۸_ دعا و استغفار كے حكم سے پہلے محل سكونت اور اسباب معيشت فراہم كرنا، خدا كے سامنے خضوع و خشوع كرنے اور اس سے بخشش چاہنے كى طرف لوگوں كو مائل كرنے كيلئے ايك اچھى روش ہے_

و إذ قيل لهم اسكنوا ...ادخلوا الباب سجدا نغفر لكم خطيئتكم

بيت المقدس ميں بنى اسرائیل كے داخل ہونے كى داستان كے عادى بيان كا تقاضا يہ تھا كہ جملہ ''ادخلوا الباب سُجّداً'' اور جملہ ''قولوا حطة'' كو جملہ ''اسكنوا ...'' اور ''كلوا ...'' سے پہلے لايا جائیے اسلئے كہ تصرف ميں لانا پہلے ہے اور سكونت اختيار كرنا بعد ميں ہے لہذا اس تقديم اور تاخير ميں مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ پايا جاتاہے_

۱۹_ بيت المقدس ميں بنى اسرائیل كے داخل ہونے كى داستان ايك عبرت آموز اور ياد ركھنے كے لائق داستان ہے_

و إذ قيل لهم اسكنوا ...سنزيد المحسنين

كلمہ ''إذ'' ''اذكرو'' (ياد كرو) كى طرح كے كسى فعل كے متعلق ہے_

احسان:احسان كى جزاء ۱۴;احسان كے موارد ۱۵

۳۲۴

استغفار:استغفار كى اہميت ۶;استغفار كے آثار ۱۲;استغفار كے اسباب ۱۸; گناہوں سے استغفار ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى اطاعت ۱۵; اللہ تعالى كى اطاعت كى جزا ئ،۱۷; اللہ تعالى كى اطاعت كے آثار ۱۶;اللہ تعالى كى بشارت ۹، ۱۴ ;اللہ تعالى كے اختصاصات ۱۱;اللہ تعالى كے اوامر ۲، ۶، ۷

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل بيت المقدس ميں ۱، ۲، ۵، ۱۰، ۱۹ ; بنى اسرائیل پر امتنان ۵; بنى اسرائیل كو بشارت ۹، ۱۶; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۳، ۸، ۱۳، ۱۹; بنى اسرائیل كى سكونت ۱، ۲، ۹ ; بنى اسرائیل كى مغفرت ۹; بنى اسرائیل كى نعمات ۵; بنى اسرائیل كے بے گناہ افراد ۱۳; بنى اسرائیل كے محسنين كى اطاعت ۱۶; بنى اسرائیل كے محسنين كى جزاء، ۱۶; بنى اسرائیل كے محسنين كى مغفرت ۱۶ ; بيت المقدس ميں بنى اسرائیل كا ورود ۳، ۶، ۷، ۸، ۱۴، ۱۹

بيت المقدس:بيت المقدس كا آباد ہونا ۴;بيت المقدس كا دروازہ ۸;بيت المقدس كى فضيلت ۷; بيت المقدس ميں داخل ہونے كے آداب ۶، ۷، ۹; عصر موسىعليه‌السلام ميں بيت المقدس كى تاريخ ۴

تاريخ:تاريخ سے عبرت حاصل كرنا ۱۹

جزاء:جزاء كے مراتب ۱۴، ۱۶، ۱۹

خشوع:خشوع كے اسباب ۱۸

خضوع:خضوع كى روش ۱۸

ذكر:تاريخ كا ذكر ۱۹

گناہ:مغفرت گناہ كا سبب ۱۱

محسنين:محسنين كى جزاء ۱۷

مسكن:مسكن فراہم كرنے كى اہميت ۱۸

معاش:معاش فراہم كرنے كى اہميت ۱۸

مغفرت :مغفرت كے اسباب ۱۲

۳۲۵

آیت ۱۶۲

( فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ قَوْلاً غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزاً مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُواْ يَظْلِمُونَ ) .

ليكن ظالموں نے جو انھيں بتايا گيا تھا اس كو بدل كر كچھ اور كہنا شروع كرديا تو ہم نے ان كے اوپر آسمان سے عذاب نازل كرديا كہ يہ فسق اور نافرمانى كر رہے تھے(۱۶۲)

۱_ قوم موسى ميں سے ايك گروہ كا اعمالنامہ، بيت المقدس ميں داخل ہونے سے پہلے ظلم اور گناہ سے آلودہ تھا_

فبدل الذين ظلموا ...بما كانوا يظلمون

۲_ قوم موسى كے حرام خوروں نے بيت المقدس ميں داخل ہوتے وقت خدا سے طلب مغفرت كى بجائیے ايك دوسرا كلام زبان پر جارى كرليا_فبدل الذين ظلموا منهم قولًا غير الذى قيل لهم

كہا جاسكتاہے كہ آيت ۱۶۰ ميں مذكور جملہ ''و لكن كانوا أنفسھم يظلمون'' كى روشنى ميں مورد بحث آيت كے جملے ''الذين ظلموا'' سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جنہوں نے غير پاكيزہ غذاؤں سے استفادہ كرتے ہوئے حرام خورى كا مظاہرہ كيا_

۳_ حرام خوري، فرامين خدا سے سرپيچى اور دوسرے گناہوں كے ارتكاب كا راستہ ہموار كرتى ہے_

فبدل الذين ظلموا منهم قولاً غير الذى قيل لهم

۴_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كے ايك گروہ كو ان كے تمرد (طلب مغفرت نہ كرنے اور اس كى بجائیے دوسرى بات كہنے) كى وجہ سے آسمانى عذاب ميں مبتلاء كيا_فارسلنا عليهم رجزاً من السماء بما كانوا يظلمون

۵_ بنى اسرائیل كے متمردين (نافرمانوں ) پر نازل كيا جانے والا عذاب، ان كے گزشتہ گناہوں نيز بيت المقدس ميں ورود كيلئے مقرر كيئےئے آداب كى رعايت نہ كرنے كے گناہ كى سزا تھا_

فبدل الذين ظلموا منهم ...فأرسلنا عليهم رجزا من السماء بما كانوا يظلمون

فوق الذكر مفہوم كى اساس يہ ہے كہ ''بما كانوا يظلمون'' ميں ظلم اور گناہ سے مراد وہ گناہ نہ ہو كہ جسے جملہ ''فبدل ...'' بيان كرتاہے_ بنابريں ''فبدل ...'' پر ''فارسلنا ...'' كى تفريع سے يہ مطلب سمجھ ميں آتا ہے كہ وہ عذاب ،فرمان الہى ميں تبديلى كرنے كى وجہ سے تھا،

۳۲۶

اور ''بما كانوا ...'' ميں باء سببيہ يہ مطلب فراہم كرتى ہے كہ اس عذاب كى وجہ، بنى اسرائیل كا گزشتہ ظلم اور گناہ تھا يعنى تبديل كرنے كے گناہ كے علاوہ گزشتہ گناہ بھى عذاب نازل ہونے كا باعث بنے_

۶_ گنہگار اور ستم پيشہ لوگ، دنيوى عذاب ميں گرفتار ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _

فأرسلنا عليهم رجزا من السماء بما كانوا يظلمون

۷_ فرامين الہى سے سرپيچى ظلم ہے_فبدل الذين ظلموا

۸_ بدعت اور دينى حقائق كى تحريف، ظلم ہیفبدل الذين ظلموا منهم قولًا غير الذى قيل لهم فأرسلنا ...بما كانوا يظلمون

''ما كانوا يظلمون'' كے مصاديق ميں سے ايك مصداق اس كلام كى تحريف اور تبديلى ہے كہ جو خداوند نے بنى اسرائیل كو سكھايا تھا تاكہ بيت المقدس ميں ورود كے وقت زبان پر جارى كريں (قولوا حطة) خدا نے اس تبديلى اور تحريف كو ظلم شمار كيا ہے، بنابريں خدا كے كلام (كہ وہى دينى حقائق ہيں ) كى تحريف ظلم كے مصاديق ميں سے ہے_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى نافرمانى كا ظلم ہونا۷; اللہ تعالى كى نافرمانى كے اسباب ۳;اللہ تعالى كے عذاب ۴

بدعت:بدعت كا ظلم ۸

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كا عذاب ۴; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲;بنى اسرائیل كے حرام خور ۲;بنى اسرائیل كے ظالمين ۱;بنى اسرائیل كے گنہگار ۱;بنى اسرائیل كے متمردين كا عذاب ۴، ۵ ;بيت المقدس ميں بنى اسرائیل كا ورود ۲

بيت المقدس:بيت المقدس ميں ورود كے آداب ۵;

حرام خوري:حرام خورى كے اثرات ۳

دين:تحريف دين كا ظلم ہونا۸

۳۲۷

ظالمين:ظالمين كا دنيوى عذاب ۶

ظلم:ظلم كے موارد ۷،۸

گذشتگان:گذشتہ لوگوں كے گناہ كے اثرات ۵

گناہ:گناہ كے اسباب ۳

گناہگار:گناہگاروں كا دنيوى عذاب ۶

آیت ۱۶۳

( واَسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً وَيَوْمَ لاَ يَسْبِتُونَ لاَ تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ )

اور ان سے اس قريہ كے بارے ميں پوچھو جو سمندر كے كنارے تھا اور جس كے باشندے شنبہ كے بارے ميں زيادتى سے كام ليتے تھے كہ ان كى مچھلياں شنبہ كے دن سطح آب تك آجاتى تھيں اور دوسرے دن نہيں آتى تھيں تو انھوں نے حيلہ گرى كرنا شروع كردي_ ہم اسى طرح ان كا امتحان ليتے تھے كہ يہ لوگ فسق اور نافرمانى سے كام لے رہے تھے(۱۶۳)

۱_ خداوند متعال نے يہود پر ہفتہ كے دن كام اور دوسرى سرگرمياں حرام كر ركھى تھيں _

اذ يعدون فى السبت ...و يوم لا يسبتون

كلمہ ''سبت'' قطع عمل اور سكون و استراحت كے بنابرايں ''يوم السبت'' يعنى چھٹى اور استراحت معنى ميں ہے كہ جسے تعطيل سے تعبير كيا جاتاہے،كا دن اور''يوم لا يسبتون'' يعنى جس دن چھٹى نہيں كرتے تھے بلكہ وہ دن كام كا دن تھا، يعدون كا مصدر ''عدوان'' تخلف اور تجاوز كے معنى ميں آتاہے چھٹى كے دن تجاوز سے مراد چھٹى (تعطيل) ختم كرناہے، بنابرايں اس دن ہر طرح كا كام حرام تھا اور ماہى گيرى كو حرمت كے

۳۲۸

انجام پانے والے ايك مصداق كے عنوان كے طور پر بيان كيا گيا ہے_

۲_ بحيرہ احمر كے ساحل پر واقع ايلہ كى بستى ميں ساكن يہودى روز شنبہ كى تعطيل كے دن ماہى گيرى كركے اس حكم كى خلاف ورزى كرتے تھے_و سئلهم عن القرية التى كانت حاضرة البحر اذ يعدون ...اذ تاتيهم حيتانهم

''البحر'' ميں ''ال'' عہد ذہنى كا ہے اور مفسرين نے كہا ہے كہ اس سے احمر كى طرف اشارہ ہے ''القرية'' سے مراد جيسا كہ اہل تفسير كے ہاں مشہور ہے'' ايلہ'' كى بستى ہے (كہ جو شام اور مصر كے درميان ايك شہر ہے)_

۳_ خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا كہ يہوديوں سے ''ايلہ'' كے لوگوں كى داستان كے بارے ميں سوال كرو_

و سئلهم عن القرية التى كانت حاضرة البحر

۴_ عصر بعثت كے يہودي، ايلہ كے اپنے ہم مذہب يہوديوں كى خلاف ورزى اور ان كى رويداد سے آگاہ تھے_

و سئلهم عن القرية التى كانت حاضرة البحر

۵_'' ايلہ'' كے رہنے والوں كے بارے ميں يہوديوں سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سوال كا مقصد، فرمان الہى كى مخالفت كے برے انجام كى طرف يہوديوں كى توجہ دلانا تھا_و سئلهم عن القرية التى حاضرة البحر

۶_ ہفتہ كے دن (ائین يہود كے مطابق چھٹى كے دن) ايلہ كے قريب والے سمندر كے ساحل كى طرف مچھلياں ہلہ بول ديتيں اور پانى كى سطح پر ظاہر ہوتى تھيںإذ تاتيهم حيتانهم يوم سبتهم شرعاً

''شرع'' شارع كى جمع ہے، لسان العرب ميں آياہے كہ ''حيتان شرع'' يعني: وہ مچھلياں كہ جو پانى كى گہرائی سے ساحل كى طرف آتى ہيں _ بعض اہل لغت كا كہنا ہے كہ ''حيتان شرع'' يعنى وہ مچھلياں كہ جو پانى سے سرباہر نكالتى ہیں _

۷_'' ايلہ'' كے ساحل سمندر پر ظاہر ہونے والى مچھلياں وہاں كے لوگوں كى دل پسند تھيں _اذ تاتيهم حيتانهم

''ايلہ ''كے لوگوں كى طرف مچھليوں كى نسبت دينے ميں (حيتانھم) ميں ہوسكتاہے فوق الذكر مفہوم كى طرف اشارہ ہو يعنى ان مچھليوں كو ايلہ كے لوگوں كى مچھلياں كہنے كى وجہ يہ ہے كہ وہ لوگ ان مچھليوں كے ساتھ بہت لگاؤكھتے تھے_

۸_ بحيرہ احمر كى مچھلياں كام كے دنوں ميں ''ايلہ'' كے سواحل كى طرف نہيں آتى تھيں يوں وہ ماہى گيروں كو دكھائی نہ ديتيں _

يوم لا يسبتون لا تأتيهم

۳۲۹

۹_ ہفتہ كے دن (يہوديوں پر شكار كے حرام ہونے كے دن) مچھليوں كا وافر مقدار ميں ظاہر ہونا، خدا كى طرف سے ''ايلہ'' كے لوگوں كى آزماءش كا ذريعہ تھا_كذلك نبلوهم

۱۰_ ہفتہ كے دن مچھليوں كى بہتات اور سطح سمندر پر ان كا ظہور ايلہ كے يہوديوں كيلئے حكم خداكى خلاف ورزى كرنے كا محرّ ك تھا_إذ يعدون فى السبت إذ تأتيهم حيتانهم يوم سبتهم شرعا

۱۱_ خداوند متعال ايلہ كے يہوديوں كے امتحان كيلئے ہفتہ كے دن مچھليوں كو ساحل كى طرف بھيجتا اور باقى دنوں ميں ساحل سے دور ركھتا_إذ تأتيهم حيتانهم يوم سبتهم شرعا و يوم لا يسبتون لا تاتيهم كذلك نبلوهم

چونكہ ہفتہ كے دن تعطيل كا حكم صرف ''ايلہ ''والوں كيلئے نہ تھا بلكہ سب يہوديوں كيلئے تھا، اس سے معلوم ہوتاہے كہ خدا نے وہاں كے لوگوں كيلئے جو كچھ پيش كيا تا كہ انہيں آزمائے ،وہى شنبہ كے دن مچھليوں كا آنا اور باقى دنوں ميں كمياب ہوجانا تھا نہ يہ كہ شنبہ كے دن خود كام كا حرام ہونا مراد ہو لہذا ''ذلك'' كا مشاراليہ مچھليوں كى بيان كى جانے والى صورتحال ہے_

۱۲_ مچھليوں كى حركت اور سمندر ميں ان كى حركت كى سمت كا معين كرنا، خدا كے اختيار ميں ہے_

إذ تأتيهم ...لا تأتيهم كذلك نبلوهم بما كانوا يفسقون

۱۳_'' ايلہ'' كے يہوديوں كا گزشتہ اعمالنامہ فسق و فساد سے سياہ تھابما كانوا يفسقون

فوق الذكر مفہوم اسى بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''بما كانوا'' كا ''ما'' مصدريہ ہو يعني: ان كے سابقہ فسق و فساد كے سبب سے ہم نے انہيں اس طرح آزمايا_

۱۴_'' ايلہ ''كے رہنے والوں كا ديرينہ فسق و فساد، شكار كے حكم تحريم سے سرپيچى كرنے كيلئے مناسب موقع (شنبہ كے دن مچھليوں كا ظاہر ہونا اور باقى دنوں ميں ناياب ہوجانا) فراہم كرنے كے ذريعے ان كى آزماءش كا سبب بنا تھا_

كذلك نبلوهم بما كانوا يفسقون

''كذلك'' جملہ ''اذ تاتيھم حيتانھم ...'' سے حاصل ہونے والے معنى كى طرف اشارہ ہے_

۱۵_ انسان كا فسق اور فساد، خدا كے فرامين سے سرپيچى كرنے اور آزماءش ميں ناكام رہنے كى راہ ہموار كرتاہے_

كذلك نبلوهم بما كانوا يفسقون

۱۶_ خداوند متعال نے ''ايلہ'' كے يہوديوں كو ايسى آزماءش ميں مبتلا كيا كہ جس ميں ناكامى انہيں

۳۳۰

ہميشہ كى نافرمانى اور انحراف كى طرف لے جاتى تھي_كذلك نبلوهم بما كانوا يفسقون

مندرجہ بالا مفہوم اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ ''بما كانوا'' ميں ''ما'' موصول اسمى ہو، يعنى ''بالذى كانوا يفسقون بہ'' (ايسى چيز كے ذريعے انہيں آزمايا كہ جو ان كے فسق كا موجب بنتى تھي) واضح ہے كہ اس معنى كا پورا ہونا ان كى آزمايش ميں ناكامى كے باعث ہے_

۱۷_ خدا كے فرامين سے سرپيچى كرنے والے فاسق ہيں _كذلك نبلوهم بما كانوا يفسقون

۱۸_عن امير المؤمنين عليه‌السلام (فى قصة اصحاب السبت): ...إن الشيطان أوحى إلى طائفة منهم انما نهيتم عن أكلها يوم السبت و لم تنهوا عن صيدها فاصطادوا يوم السبت و كلوها فى ما سوى ذلك من الايام فقالت طائفة منهم الان نصطادها فعتت .(۱)

حضرت امير المؤمنينعليه‌السلام سے اصحاب سبت كى داستان كے ضمن ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ: ...شيطان نے ان ميں سے ايك گروہ كو وسوسہ كيا كہ تمہيں شنبہ كے دن مچھلى كھانے سے نہى كى گئي ہے نہ كہ اس كے شكار سے، پس ہفتہ كے دن شكار كرو اور باقى ايام ميں كھاؤ ،ايك گروہ نے شيطان كے وسوسے كو قبول كيا اورہفتہ كے دن خدا كے قانون كى خلاف ورزى كي

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا امتحان ۱۵، ۱۶; اللہ تعالى كى نافرمانى ۱۷; اللہ تعالى كے افعال ۱۱، ۱۲، ۱۶;اللہ تعالى كے اوامر ۳

امتحان:امتحان ميں ناكامى ۱۵، ۱۶;شكار كا امتحان ۹

انجام :برا انجام ۵

ايلہ:اہل ايلہ كا قصہ ۳; اہل ايلہ كى خواہشات ۷;اہل ايلہ كے قصہ سے عبرت ۵;ايلہ كے سواحل كى مچھلياں ۶، ۷، ۸، ۹

بحيرہ احمر :بحيرہ احمر كى مچھلياں ۶

دين:دين كے ساتھ مخالفت كا انجام ۵

عصيان:عصيان كے اسباب ۱۵، ۱۶

فاسقين: ۱۷

____________________

۱_تفسير قمى ج/۱ ص ۲۴۴، تفسير برھان ج/۲ ص ۴۲ ح ۲_

۳۳۱

فسق:فسق كے اثرات ۱۵

مچھلياں :مچھليوں كى حركت كا منشاء ۱۱، ۱۲

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور يہود ۵;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مسؤوليت ۳;يہود سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سوال ۵

ہفتہ:ہفتہ كى تعطيل ۱، ۲، ۶

يہود:ايلہ كے يہود ۸، ۱۰; ايلہ كے يہود كا امتحان ۹، ۱۱; ايلہ كے يہود كا انجام ۵;ايلہ كے يہود كا تجاوز ۴; ايلہ كے يہود كا عصيان ۲، ۱۶ ; ايلہ كے يہود كا فسق ۱۳، ۱۴; ايلہ كے يہود كا قصّہ ۴; ايلہ ميں شنبہ كا دن ۱، ۲، ۶، ۹، ۱۰ ;بحيرہ احمر كے ساحل كے يہود ۲; صدر اسلام كے يہود كى آگاہى ۴، ۸; فاسق يہود ۱۳; ہفتہ كے دن يہود كى ماہى گيرى ۲، ۱۴;يہود پر حرام شكار ۹، ۱۴;يہود كى تاريخ ۱، ۸، ۱۱ ;يہود كے محرمات ۱

آیت ۱۶۴

( وَإِذَ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْماً اللّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَاباً شَدِيداً قَالُواْ مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ )

اور جب ان كى ايك جماعت نے مصلحين سے كہا كہ تم كيوں ايسى قوم كو نصيحت كرتے ہو جسے اللہ ہلاك كرنے والا ہے يا اس پر شديد عذاب كرنے والا ہے تو انھوں نے كہا كہ ہم پروردگار بارگاہ ميں عذر چاہتے ہيں اور شايد يہ لروگ متقى بن ہى جائیں (۱۶۴)

۱_ ايلہ ميں ساكن يہوديوں كے تين گروہ تھے، فاسق متجاوزين، نصيحت كرنے والے يعنى منكرات سے روكنے والے صالحين، اور نھى عن المنكر كو ترك كرنے والے_إذ قالت أمة منهم لمَ تعظون قوماً

بعد والى آيت كے حصے''الذين ينهون عن السوئ'' كى روشنى ميں مذكورہ آيت ميں موعظہ سے مراد نہى عن المنكر ہے_

۳۳۲

۲_ ايلہ كے ساكنين كى اكثريت ہفتہ كے دن مچھلى كے شكار كے گناہ ميں آلودہ ہوگئي تھي_إذ قالت أمة منهم لم تعظون قوماً

ہوسكتاہے كہ متجاوزين كو كلمہ ''قوماً'' كے ساتھ تعبير كرنے سے مذكورہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ مراد ہو_

۳_ ايلہ ميں ساكن يہود ميں سے نصيحت كرنے والوں نے اپنے ہم مذہب لوگوں كو خدا كى نافرمانى (ہفتہ كے دن كے احكام كى مخالفت) سے روكا_لمَ تعظون قوماً

۴_ ايلہ كے يہوديوں ميں سے نھى عن المنكر كو ترك كرنے والے گروہ نے نصيحت كرنے والوں پر اعتراض كيا اور ان كے عمل (نھى عن المنكر) كو بے جا شمار كيا_لمَ تعظون قوماً

۵_ ايلہ كے يہوديوں ميں سے مچھلى كے شكار سے اجتناب كرنے والے (خواہ نصيحت كرنے والے ہوں يا نھى از منكر كو ترك كرنے والے) متجاوزين پر عذاب الہى نازل ہونے يا خدا كى طرف سے ان كى ہلاكت كے بارے ميں مطمئن تھے_

الله مھلكھم أو معذبھم عذاباً شديداً

۶_ ايلہ كے متجاوزين كى ہلاكت يا ايك سخت عذاب ميں ان كى گرفتار ہونے كے بارے ميں اطمينان، ان كے مقابلے ميں سكوت اختيار كرنے اور نصيحت كو ترك كرنے والوں كا ايك بہانہ تھا_

لمَ تعظون قوماً الله مهلكهم أو معذبهم عذاباً شديداً

۷_ ہفتہ كے دن كى تعطيل كى حرمت كو توڑنا، ائین يہود ميں ايك عظيم گناہ ہے اور شديد عذاب كا باعث ہے_

اللّه مهلكهم أو معذبهم عذاباً شديداًعذاب كى شدت، گناہ كے عظيم ہونے پر دالّ ہے_

۸_ نصيحت كرنے والے يہوديوں كا نہى عن المنكر كو ترك كرنے والوں كے اعتراض كے مقابلے ميں يہ جواب تھا كہ ہمارے اس عمل (نھى عن المنكر) كا سبب ،بارگاہ خدا ميں عذر قائم كرنا، اور متجاوزين كے تجاوز سے اجتناب كے بارے ميں اميد ہے_قالوا معذرة إلى ربكم و لعلّهم يتقون

كلمہ ''معذرة'' مصدر ہے اور عذر ركھنے كے معنى ميں استعمال كيا گيا ہے اور ايك مقدر فعل ''نعظھم'' كيلئے مفعول لہ ہے يعني: ہم انہيں موعظة كرتے ہيں تا كہ بارگاہ خدا ميں عذر پيش كرسكيں _

۹_ ايلہ كے مصلحين گناہ كے مقابلے ميں سكوت اختيار كرنے كو ناروا شمار كرتے ہوئے نھى عن المنكر كے

۳۳۳

تاركيں كو بارگاہ خدا ميں معذور نہيں سمجھتے تھے_قالوا معذرة إلى ربكم و لعلهم يتقون

موعظہ كرنے والوں كو ظاہراً ''ربنا'' (ہمارا پروردگار) كہنا چاہيے تھا ليكن انہوں نے ''ربّكم'' (تمہارا پروردگار) كہا، اس ميں اس حقيقت كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ خداوند متعال تمہارا پروردگار بھى ہے لہذا اس كے حضور تمہارے پاس كوئي عذر ہونا چاہئے البتہ جان لو كہ اگر تم نے نھى عن المنكر كو ترك كيا تو اس كے سامنے معذور نہيں ہوگے_

۱۰_ بندوں پر خدا كى ربوبيت كے بارے ميں يہود كے مصلحين كا يقين ہى معاشرے كى اصلاح اور منحرفين كو گناہ اور تجاوز سے روكنے كيلئے ان كى جد و جہد كا باعث تھا_قالوا معذرة إلى ربكم

فوق الذكر مفہوم اسم ''رب'' كو مد نظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گيا ہے_

۱۱_ مچھلى كے شكار سے اجتناب كرنے والے دو گروہوں (نصيحت كرنے والوں اور نھى عن المنكر كو ترك كرنے والوں ) كے درميان مناظرے كى داستان، ياد ركھنے كے لائق ايك عبرت آموز داستان ہے_

إذ قالت أمة منهم لمَ تعظون ...قالوا معذرة إلى ربكم

فوق الذكر مفہوم اس اساس پر مبتنى ہے كہ جب ''إذ قالت ...'' محذوف فعل ''اذكر'' كے متعلق ہو_

۱۲_ نھى عن المنكر، لوگوں كو گناہ سے روكنے كا ايك ذريعہ ہے_و لعلهم يتقون

۱۳_ معاشرے كى اصلاح اور نھى عن المنكر كيلئے جد و جہد كرنا سب پر فرض ہے_قالوا معذرة الى ربكم و لعلهم يتقون

۱۴_ بُرائی كے حامل معاشروں ميں صرف مصلحين اور نھى عن المنكر كرنے والے ہى بارگاہ خدا ميں ايك قابل قبول عذر ركھتے ہيں _لم تعظون قوماً ...قالوا معذرة إلى ربكم

۱۵_ بُرائی سے پرہيز كرنے والے جب تك معاشرے كو گناہ سے روكنے كيلئے كوشش نہ كريں ، خدا كے سامنے ذمہ دار ہيں _

قالوا معذرة إلى ربكم و لعلهم يتقون

۱۶_ فاسق لوگوں كا حق كو قبول نہ كرنا، نھى عن المنكر كو ترك كرنے كا جواز فراہم نہيں كرتا_

لمَ تعظون قوماً اللّه مهلكهم ...قالوا معذرة إلى ربكم و لعلهم يتقون

يہود كے ناصحين نے نہى از منكر كيلئے دو دليليں قائم كيں ، ايك بارگاہ خدا ميں عذر ركھنا (معذرة الى ربكم) او دوسرا احتمال تاثير (لعلهم يتقون ) ان كے كلام كا تقاضا يہ ہے كہ احتمال تاثير كا نہ ہونا،نہى عن المنكر كو ترك كرنے كا جواز فراہم نہيں كرتا اور

۳۳۴

ايك قابل قبول عذر نہيں ہوگا_

۱۷_ خدا كے فرامين سے سرپيچى كرنے والے فاسقين ، ہلاك ہونے يا پھر خدا كى طرف سے ايك سخت عذاب ميں مبتلا ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _اللّه مهلكهم أو معذبهم عذاباً شديداً

اديان:اديان ميں امر بالمعروف ۱، ۳

اللہ تعالي:اللہ تعالى كى بارگاہ ميں عذر ۸، ۱۴ ;اللہ تعالى كى طرف سے عذاب ۵، ۱۷ ;اللہ تعالى كى نافرمانى ۳، ۱۷

ايلہ:اہل ايلہ كا عصيان ۲; اہل ايلہ كا قصّہ ۲، ۳، ۴، ۸ ; اہل ايلہ كى اكثريت ۲; اہل ايلہ كے قصّے سے عبرت حاصل كرنا ۱۱; ايلہ كے امربالمعروف كرنے والے ۴، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱; ايلہ كے صالحين۱ ; ايلہ كے فاسقين ۱; ايلہ كے متجاوزين ; ايلہ كے متجاوزين كا عذاب ۵، ۶ ; ايلہ كے متجاوزين كى ہلاكت ۵، ۶; ايلہ كے مصلحين ۱، ۳، ۵، ۸، ۹، ۱۰ ; ايلہ كے نہى عن المنكركرنے والے ۱، ۳، ۱۰ ;ايلہ كے نھى عن المنكر كو ترك كرنے والے ۱، ۴، ۶، ۸، ۱۱ ; ايلہ ميں مچھلى كا شكار ۵;ايلہ ميں نھى عن المنكر ۳، ۴

ايمان:ايمان كے آثار ۱۱۰;ربوبيت خدا پر ايمان ۱۰

تاريخ:تاريخ سے عبرت حاصل كرنا ۱۱

تجاوز:تجاوز كى ممانعت ۸

ترغيب:ترغيب كے عوامل ۱۰

ذكر:حوادث تاريخ كا ذكر ۱۱

شكار:مچھلى كے شكار سے اجتناب ۱۱

عذاب:عذاب كے اسباب۷

فاسقين:فاسقين كا حق كو قبول نہ كرنا ۱۶; فاسقين كا عذاب ۱۷;فاسقين كى آزماءش ۱۷

فريضہ:ترك فريضہ كے اسباب ۶

گناہ:گناہ سے اجتناب ۱۵;گناہ كى ممانعت ۱۰، ۱۲، ۱۵; گناہ كے مقابلے ميں سكوت ۶، ۹

۳۳۵

مسؤوليت:عمومى مسؤوليت ۱۳

مصلحين:مصلحين كا عذر ۱۴

معاشرتى نظم و ضبط كے ذراءع :۱۰، ۱۲،۱۳، ۱۵

معاشرہ:اصلاح معاشرہ ۱۳;فاسد معاشرہ كا عذر ۱۴

نھى عن المنكر:اديان ميں نھى عن المنكر ۱، ۳;نھى عن المنكر ترك كرنے والوں كا گناہ ۹;نھى عن المنكر كا فلسفہ ۸،۱۲

;نھى عن المنكر كو ترك كرنا ۱۶;نھى عن المنكر كى اہميت ۱۵;نھى عن المنكر كى عموميت ۱۳

نھى عن المنكركرنے والے:نھى عن المنكر كرنے والوں كا عذر۱۴

ہفتہ:ہفتہ كى چھٹى ۷;ہفتہ كے دن مچھلى كا شكار ۲

يہود:ايلہ كے يہود ۴، ۵،۶;يہود كى تاريخ ۱;يہود كے محرمات ۷ ; يہود كے ہاں ہفتہ كا دن ۷، ۲ ;يہود ميں گناہان كبيرہ ۷;يہود ميں مچھلى كا شكار ۱۱

آیت ۱۶۵

( فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُواْ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ )

اس كے بعد جب انھوں نے ياد دہانى كو فراموش كرديا تو ہم نے برائی وں سے روكنے والوں كو بچاليا اور ظالموں كو ان كے فسق اور بدكردارى كى بنا پر سخت ترين عذاب كى گرفتار ميں لے ليا(۱۶۵)

۱_ ايلہ كى بستى ميں مجرم يہوديوں نے مصلحين اور نھى عن المنكر كرنے والوں كے نصائح اور مواعظ كى پرواہ نہ كرتے ہوئے انہيں فراموش كرديا_فلما نسوا ما ذكّروا به

۲_ خداوند متعال نے ايلہ كى بستى ميں نافرمان يہوديوں كو ہفتہ كے دن، مچھلى كا شكار جارى ركھنے اور مصلحين كے مواعظ كى پرواہ نہ كرنے كى وجہ سے ايك سخت عذاب ميں مبتلاء كرديا_

فلما نسوا ما ذكّروا به ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس

''بئيس ''يعنى شديد

۳۳۶

۳_ خداوند متعال نے ايلہ كے يہوديوں ميں سے صرف نھى عن المنكر كرنے والے مصلحين كو عذاب ميں مبتلاء ہونے سے نجات بخشي_ا نجينا الذين ينهون عن السوئ

۴_ خداوند متعال نے ايلہ كے يہوديوں ميں سے ان لوگوں كو بھى عذاب ميں گرفتار كيا كہ جو خود تو صالح تھے ليكن متجاوزين كو نصيحت نہيں كرتے تھے_ا نجينا الذين ينهون عن السوء وا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس

گزشتہ آيت ميں ايلہ كے يہوديوں كو ان كى كاركردگى كے لحاظ سے تين گروہوں ميں تقسيم كيا گيا اور موجودہ آيت ميں ان كے انجام كو بيان كيا گيا ہے اور انہيں دوگروہوں ميں قرار ديا ہے اس موازنہ سے معلوم ہوتا ہے كہ خدا نے نھى عن المنكر ترك كرنے والوں كو بھى ظالموں ميں شمار كيا ہے (الذين ظلموا )

۵_ ايلہ كے يہوديوں ميں سے نہى عن المنكر ترك كرنے والے، ناصحين كى ياد دہانى (نھى عن المنكر كى ضرورت) سے بے اعتنا ء تھے _فلما نسوا ما ذكروا به ''نسوا'' اور ''ذكّروا'' كى ضميريں متجاوزين اور نہى عن المنكر ترك كرنے والوں كى طرف پلٹتى ہيں ،نہى عن المنكر ترك كرنے والوں كو جو تذكّر ديا گيا وہ وہى ہے كہ جو جملہ ''معذرة الى ربكم'' سے سمجھا جاتاہے يعنى مصلحين نے انہيں سمجھايا كہ تم بھى نہى عن المنكر كا فريضہ انجام دو ورنہ جوابدہ ہوگے ليكن انہوں نے اس كى پرواہ نہ كي_

۶_ ہفتہ كے دن كے حكم (كسب مال اور مچھلى كے شكار كى حرمت) كى خلاف ورزى كرنے والے يہودي، خدا كے نزديك ظالم اور فاسق تھے_و ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس بما كانوا يفسقون

۷_ ايلہ كے يہوديوں كا فسق اور ظلم ان پر عذاب الہى كے نزول كا باعث بنا_ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس بما كانوا يفسقون

''بما كانوا'' ميں ''ما'' مصدريہ ہے اور ''باء'' سببيہ ہے يعنىا خذنا هم بسبب فسقهم _

۸_ احكام الہى كى خلاف ورزى اور پھر اس خلاف ورزى پر اصرار ،فسق اور ظلم ہے كہ جس كيلئے خدا كى طرف سے سخت سزا ہے_و ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس بما كانوا يفسقون

۹_ نھى عن المنكر كو ترك كرنے اور منحرفين كے فسق اور ظلم كے سامنے سكوت اختيار كرنے كى بہت سخت سزا ہے_

۳۳۷

ا نجينا الذين ينهون عن السوء و ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس

۱۰_ نہى عن المنكر، موعظہ كے مصاديق ميں سے ہے_لمَ تعظون ...الذين ينهون عن السوئ

۱۱_ نہى عن المنكر كوترك كرنے والے ،گنہگاروں كے جرم ميں شريك ہوتے ہيں اور ان ہى كى طرح كے انجام سے دوچار ہوتے ہيں _ا نجيناالذين ينهون عن السوء و ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس

۱۲_ نہى عن المنكر، گنہگاروں كيلئے معين كيئےئے عذاب سے نجات حاصل كرنے كا باعث ہے_

ا نجينا الذين ينهون عن السوء و اخذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس

اللہ تعالى :اللہ تعالى كے افعال ۳، ۴;اللہ تعالى كے عذاب ۸

ايلہ:اہل ايلہ كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵ ;ايلہ كے صالحين كا عذاب ۴; ايلہ كے مصلحين كى نجات ۳;ايلہ كے نھى عن المنكر كرنے والے ۱;ايلہ كے نھى عن المنكر كرنے والوں كى نجات ۳

ظالمين: ۶

ظلم:ظلم كى سزا ،۹;ظلم كے آثار ۷ ; ظلم كے موارد ۸

عذاب:دنيوى عذاب ۲، ۳، ۴;دنيوى عذاب كے عوامل۷;عذاب سے نجات ۳;عذاب سے نجات كے عوامل۱۲;عذاب كے مراتب ۸، ۹

عصيان:عصيان پر اصرار ۸;عصيان كى سزا ،۸;عصيان كے آثار ۸

فاسقين: ۶فسق:فسق كى سزا ،۹;فسق كے اثرات ۷; فسق كے موارد ۸

گناہ:گناہ كے مقابلے ميں سكوت ۹

گنہگار:گنہگاروں كے گناہ ميں شريك ۱۱

مصلحين:مصلحين سے بے اعتنائی ۵

معاشرہ:فاسق معاشرے كا عذاب ۱۲

موعظہ:

۳۳۸

موعظہ سے بے اعتنائی ۲;موعظہ كے موارد ۱۰

نہى عن المنكر:نہى عن المنكر ترك كرنے والوں كا انجام ۱۱;نہى عن المنكر ترك كرنے والوں كا عذاب ۴;نہى عن المنكر ترك كرنے كا گناہ ۱۱;نہى عن المنكر ترك كرنے والوں كى سزا ،۹;نہى عن المنكر ترك كرنے والے ۵;نہى عن المنكر كى اہميت ۱۰; نہى عن المنكر كے نتائج ۱۲

ہفتہ:ہفتہ كے دن مچھلى كا شكار ۲، ۶

يہود:ايلہ كے يہود ۵;ايلہ كے يہود كا ظلم ۷;ايلہ كے يہود كا عذاب ۲، ۳، ۴، ۷ ;ايلہ كے يہود كا فسق ۷;ايلہ كے نافرمان يہود ۱، ۲، ۶ ;يہود اور ايلہ كے مصلحين ۱، ۲;يہود كے محرمات ۶;يہود ميں ہفتہ كا دن ۶

آیت ۱۶۶

( فَلَمَّا عَتَوْاْ عَن مَّا نُهُواْ عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُواْ قِرَدَةً خَاسِئِينَ )

پھر جب دوبارہ ممانعت كے باوجود سركشى كى تو ہم نے حكم دے ديتا كہ اب ذلت كے ساتھ بندر بن جاؤ (۱۶۶)

۱_ خداوند متعال نے ايلہ كے يہوديوں كو مچھلى كے شكار كے ذريعے ہفتہ كے دن كا قانون توڑنے كى وجہ سے راندے ہوئے بندروں ميں تبديل كرديا_فلما عتوا عن ما نهوا عنه قلنا لهم كونوا قردة خسئين

''عتوا'' كا مصدر ''عتّو'' عصيان اور سركشى كے معنى ميں آتاہے ''ما نھوا عنہ'' سے مراد ہفتہ كے دن مچھلى كا شكار ہے_

۲_ محرمات الہى كو انجام دينے پر اصرار كرنے والے لوگ، ذليل ہونے اور بارگاہ خدا سے راندے جانے كے خطرے سے دوچار ہوتے ہيں _كونوا قردة خسئين

''خاسي'' يعنى راندہ ہوا نيز حقير اور ذليل كے معنى ميں بھى آتاہے_ ''خاسئين'' ''كونوا'' كيلئے خبر دوم ہے_

۳_ خداوند متعال نے ايلہ كے يہوديوں كو نازل كيے گئے عذاب سے عبرت حاصل نہ كرنے اور مچھلى كے شكار پر مصّر رہنے كى وجہ سے بندروں ميں تبديل كردياو ا خذنا الذين ظلموا بعذاب بئيس ...فلما عتوا عن ما نهوا عنه

جملہ ''ا خذنا الذين ظلموا ...'' كے بعد جملہ

''فلما عتوا'' كا واقع ہونا اس مطلب كو بيان كرتاہے كہ متجاوزين دنيوى عذاب ميں مبتلا ہونے كے بعد بھى اسى طرح مچھلى كے شكار پر مصّر رہے _

۳۳۹

۴_ خداوند متعال كا حكم دينا اور چاہنا ہى ايك موجود كے دوسرے موجود ميں تبديل ہونے كيلئے كافى ہے_

قلنا لهم كونوا قردة خسئين

۵_ خداوند متعال، عالم خلقت پر على الاطلاق حاكميت ركھتاہے_قلنا لهم كونوا قردة خسئين

آيت شريفہ ميں نہيں آيا كہ متجاوزين بندر بن گئے بلكہ صرف بندر ہوجانے كے بارے ميں حكم ذكر ہوا ہے، اس معنى ميں (يعنى حكم كے عملى ہونے كى تصريح نہ كرنے ميں ) اس حقيقت كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ فرمان الہى اٹل ہے اور كوئي چيز بھى اس كے مانع نہيں بن سكتى ادھر سے حكم دينا اور اُدھر سے اسكا عملى ہونا يعنى حاكميت على الاطلاق

۶_ ايلہ كے لوگوں ميں سے نھى عن المنكر ترك كرنے والے بندروں ميں تبديل نہيں ہوئے_

فلما عتوا عن ما نهوا عنه قلنا لهم كونوا قردة

''ما نھو عنہ'' كا عنوان نھى عن المنكر كے ترك كرنے كو شامل نہيں ہے اس كے برعكس ''ما ذكروا بہ'' كا عنوان گزشتہ آيت ميں نھى عن المنكر كے ترك كرنے كو بھى شامل ہے_

۷_ ايلہ كے نافرمان يہوديوں كا مسخ ہوكر راندے ہوئے بندروں ميں تبديل ہوجانا، ان كيلئے ايك سخت عذاب الہى تھا_

قلنا لهم كونوا قردة خسئين

بعض كاكہناہے كہ ''قلنا لهم '' گزشتہ آيت ميں مذكور اسى ''عذاب بئيس'' كا بيان ہے _يہ بات قابل ذكر ہے كہ اس بناء پر''الذين ظلموا'' نہى عن المنكر كو ترك كرنے والوں كو شامل نہ ہوگا اس لئے كہ انہوں نے شكار كى حرمت كے قانون كو نہيں توڑا اور بندروں ميں تبديل نہيں ہوئے_

۸_ عالم مادہ ميں ايك موجود كے كسى دوسرے موجود ميں تبديل ہوجانے كا امكان موجود ہے_قلنا لهم كونوا قردة خسئين

آفرينش:حاكم آفرينش ۵

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا عذاب ۷; اللہ تعالى كى حاكميت ۵; اللہ تعالى كے افعال ۳; اللہ تعالى كے اوامر ۴

انواع ميں تبديلي: ۸ايلہ:اہل ايلہ كا دنيوى عذاب ۷;اہل ايلہ كا قصّہ ۱، ۳، ۶; اہل ايلہ كا گناہ پر اصرار ۳;ايلہ كے نہى عن المنكر ترك كرنے والے ۶

ذلت:

۳۴۰