تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 736
مشاہدے: 151057
ڈاؤنلوڈ: 3033


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 151057 / ڈاؤنلوڈ: 3033
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 6

مؤلف:
اردو

ذلت كے عوامل ۲

عذاب:عذاب سے عبرت پانا ۳;عذاب كے مراتب ۷

عصيان:عصيان كى سزا، ۱

گناہ:گناہ پر اصرار كے آثار ۲

محرمات:ارتكاب محرمات كے آثار۲

مسخ:مسخ ہوكر بندر بن جانا ۱، ۳، ۷

موجودات:موجودات كا تبديل ہونا۸;موجودات كى تبديلى كا منشاء ۴

ہفتہ:ہفتہ كے دن شكار كى سزا ،۱;ہفتہ كے دن مچھلى كا شكار ۱،۳

يہود:ايلہ كے نافرمان يہود ۷;ايلہ كے يہود كا عذاب ۳; ايلہ كے يہود كا مسخ ہونا ۱،۳،۷; ايلہ كے يہود كو راندنا ۱

آیت ۱۶۷

( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ )

اور اس وقت كو ياد كرو جب تمھارے پوروردگار نے على الاعلان كہہ ديا كہ قيامت تك ان پر ايسے افراد مسلّط كئے جائیں گے جو انھيں بدترين سختيوں ميں مبتلا كريں گے كہ تمھارا پروردگار جلدى عذاب كرنے والا بھى ہے اور بہت زيادہ بخشنے والا مہربان بھى ہے(۱۶۷)

۱_ خداوند متعال نے نافرمان يہوديوں كيلئے مقدر كرديا كہ دنيا ميں ايسے لوگوں كے زير تسلط زندگى بسر كريں كہ جو انہيں مسلسل تكليفيں ديتے رہيں _و إذ تا ذن ربك ليبعثن عليهم إلى يوم القى مة من يسومهم سوء العذاب

''تا ذن'' يعنى قسم كھائی اور اعلان كيا (قاموس

۳۴۱

المحيط) ''ليبعثن'' كا مصدر ''بعث'' بھيجنے كے معنى ميں آتاہے اور چونكہ ''علي'' كے ذريعے متعدى ہوا ہے لہذا مسلط كرنے كے معنى كو متضمن ہے ''يسومون'' كا مصدر ''سوم'' ٹھونسنے كے معنى ميں ہے_

۲_ خداوند متعال نے نافرمان يہوديوں كو ايك تكليف دہ زندگى سے دوچار كرنے كے بارے ميں اپنے ارادے سے سب كو آگاہ كيا_و إذ تا ذن ربك ليبعثن عليهم إلى يوم القى مة من يسومهم سوء العذاب

۳_ يہوديوں پر لوگوں كو مسلط كرنے كے ذريعے انہيں ذليل و خوار كرنا، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ربوبيت خدا كا ہى ايك پرتو ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ائین كى تقويت اور توسيع كے سلسلہ ميں ہے_و إذ تاذن ربك

فوق الذكر مفہوم كلمہ ''رب'' اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خطاب كيلئے استعمال ہونے والى ضمير كى طرف اس كلمے كے مضاف ہونے كو مد نظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گيا ہے_

۴_ يہودى اور ان كا ائین ،قيامت تك باقى رہے گا_ليبعثن عليهم إلى يوم القى مة

۵_ الہى سزاؤں ميں تاخير نہيں _إن ربك لسريع العقاب

۶_ يہوديوں پر اذيت دينے والوں كو مسلط كرنا، نافرمانوں اور فاسقين كيلئے خدا كے كيفر سريع كا ايك نمونہ ہے_

ليبعثن عليهم إن ربك لسريع العقاب

۷_ تاريخ بشر اور اس كے تحولات ، خدا كے اختيار ميں ہيں _ليبعثنّ عليهم إلى يوم القى مة

طول تاريخ ميں يہوديوں پر كچھ لوگوں كو مسلط كرنے كى نسبت ، خدا كى طرف دى گئي ہے يہ مطلب اقتضاء كرتاہے كہ تاريخ بشر اور اس كے تحولات ہميشہ خدا كے اختيار ميں ہوں تا كہ تمام ادوار ميں اس كى سزا متحقق ہوسكے_

۸_ خداوند متعال، گناہوں كو بخشنے والا اور اپنے بندوں پر مہربان ہے_و إنه لغفور رحيم

۹_ توبہ اور خدا كى طرف بازگشت ہى يہوديوں كيلئے ذلت اور اذيتيں دينے والوں كے تسلط سے نجات كى راہ ہے_

و إذ تا ذّن ربك ليبعثن ...و إنه لغفور رحيم

دوسروں كے تسلط اور اذيتوں ميں يہوديوں كے مبتلاء ہونے كو بيان كرنے كے بعد ، خدا كى بخشش اور مہربانى كا تذكرہ ، اس ہدف كے تحت ہے كہ يہوديوں پر جو كچھ خدا كى طرف سے مقدر كيا گيا ہے يہ اس وقت تك رہے گاكہ جب تك وہ خدا كے فرامين سے منہ موڑے رہيں گے_

۳۴۲

۱۰_ نافرمان يہوديوں كى ذلت پر تقدير الہى كا قيام، ايك عبرت آموز اور ياد ركھنے كے لائق بات ہے_

و إذ تا ذن ربك ليبعثن

فوق الذكر مفہوم ،مقدر فعل ''اذكر'' كو مدنظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گيا ہے يعني:''اذكر إذ تا ذن ربك ''

۱۱_ ايلہ كے نافرمان يہودى ،دنيوى عذابوں كا ذائقہ چكھنے كے علاوہ قيامت تك برزخى عذابوں ميں بھى مبتلاء رہيں گے_

و إذ تا ذن ربك ليبعثن عليهم إلى يوم القى مة من يسومهم سوء العذاب

فوق الذكر مفہوم كى اساس يہ ہے كہ ''عليھم'' كى ضمير سے ايلہ كے مسخ شدہ يہودى مراد ہوں اس بنا پر''سوء العذاب'' سے دنيوى عذاب مراد نہيں بلكہ''الى يوم القى مه'' كى روشنى ميں اس سے مراد برزخى عذاب ہوں گے، يعني:''ليبعثن عليهم من بعد موتهم الى يوم القى مة ''

۱۲_ خداوند متعال نے نافرمان يہوديوں كے عذاب كيلئے برزخ ميں كچھ قوتوں كو ان پر مسلط كيا ہے_

ليبعثن عليهم إلى يوم القى مة من يسومهم سوء العذاب

۱۳_ احكام الہى اور قوانين دين كى خلاف ورزى كرنے والے ،برزخ ميں قيامت تك عذاب ميں مبتلاء رہنے كے خطرے سے دوچار ہيں _ليبعثن عليهم إلى يوم القى مه من يسومهم سوء العذاب

۱۴_برزخى عذاب،خدا كے كيفر سريع كا ايك نمونہ ہے_من يسومهم سوء العذاب إن ربك لسريع العقاب

۱۵_ عذاب برزخ سے نجات كى راہ، بارگاہ خدا ميں توبہ كركے اس كى رحمت كے سائے ميں آنا ہے_

من يسومهم سوء العذاب إنه لغفور رحيم

۱۶_ خداوند متعال، توبہ كرنے والے گنہگاروں كو اپنى رحمت كے سائے ميں ليتے ہوئے ان كے گناہ بخش ديتاہے اور عذاب برزخ ميں مبتلاء نہيں كرتا_و إنه لغفور رحيم

۱۷_ خدا كى رحمت و مغفرت كى اميد كے ساتھ ساتھ اس كى سزاؤں كا خوف انسان كى تربيت اور اس كے رشد و كمال كا باعث ہے_إن ربك لسريع العقاب و إنه لغفور رحيم

''رب'' كے عنوان كو بروئے كار لانے كے بعد''سريع العقاب'' اور''غفور رحيم'' كے اوصاف كے ذريعے خدا كى توصيف ميں اس مطلب كى طرف اشارہ مل سكتاہے كہ ان دوصفات كى طرف توجہ انسان ميں خوف اور اميد پيدا كرتى ہے كہ جو اس كى تربيت اور كمال كا باعث ہوگي_

۳۴۳

اسلام:اسلام كى توسيع ۳

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا ارادہ ۲; اللہ تعالى كى ربوبيت ۳;اللہ تعالى كى رحمت ۱۶;اللہ تعالى كى رحمت كى اميد ۱۷; اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱۵;اللہ تعالى كى سزائیں ۵،۶،۱۴; اللہ تعالى كى مغفرت۸; اللہ تعالى كى مہرباني۸; اللہ تعالى كى نافرمانى ۱۳; اللہ تعالى كے افعال ۷،۱۲; اللہ تعالى كے مقدرات ۱۰

تاريخ:تاريخ سے عبرت حاصل كرنا ۱۰;تاريخ كا محرك ۷;تاريخ كے تحولات كا سرچشمہ ۷

توبہ:توبہ كے آثار ۵،۹، ۱۵

توابين:توابين كى مغفرت ۱۶

خوف :خوف كے آثار ۱۷;عذاب كا خوف ۱۷

ذكر:حوادث تاريخ كا ذكر ۱۰

ذلت:ذلت سے نجات كے عوامل ۱۷

سزا كا نظام : ۵

عالم برزخ:عالم برزخ ميں تسلط ۱۲

عذاب:برزخى عذاب ۱۴;برزخى عذاب سے نجات ۱۵، ۱۶;برزخى عذاب كے اسباب۱۳ ;عذاب سے نجات كے اسباب۱۵، ۱۶

فاسقين:ظالم فاسقين كى سزا ۶

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقامات ۳

نافرمان :نافرمانوں كى سزا ۶،۱۲;نافرمانوں كو انتباہ ۱۳

يہودي:ايلہ كے نافرمان يہود ۱۱;سركش يہودى ۲;سركش يہوديوں كا عذاب ۱۲;سركش يہوديوں كى ذلت ۱۰; نافرمان يہود كى ابتلاء ۲;نافرمان يہود كى عقوبتيں ۱، ۲;يہود كا برزخى عذاب ۱، ۲ ;يہود كى عقوبتيں ۶،۹;يہوديوں كا دنيوى عذاب ۱۱ ; يہوديوں كى ذلت ۳;يہوديوں كى سخت زندگى ۱، ۲، ۶ ;يہوديوں كى سرنوشت۱ ;يہوديوں كى نجات كے عوامل ۹ ;يہوديوں كے حاكم ۱ يہوديت:يہوديت كا دوام ۴

۳۴۴

آیت ۱۶۸

( وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الأَرْضِ أُمَماً مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَلِكَ وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )

اور ہم نے بنى اسرائیل كو مختلف ٹكڑوں ميں تقسيم كرديا بعض نيك كردار تھے اور بعض اس كے خلاف _ اور ہم نے انھيں آرام اور سختى كے ذريعہ آزمايا كہ شايد راستہ پر آجائیں (۱۶۸)

۱_ خداوند متعال نے يہودى معاشرے كو گروہ گروہ كرتے ہوئے روئے زمين ميں پراكندہ كرديا_و قطّعنهم فى الا رض ا مماً

كلمہ ''امما''،كلمہ ''قطّعناھم'' كيلئے مفعول دوم بھى ہوسكتاہے كہ اس صورت ميں ''قطّعنا'' ميں ''تصيير'' كا معنى متضمن ہوگا چنانچہ ''قطّعناھم'' كى ضمير ''ھم'' كيلئے حال بھى ہوسكتى ہے_

۲_ انسان كے تاريخى اور سماجى تحولات خدا كے اختيار ميں ہيں _و قطّعنهم فى الا رض امماً و بلونهم بالحسنات والسيئات

۳_ پراكندہ كيے گئے يہوديوں كے گروہوں ميں سے بعض صالح اور بعض برے ہيں _منهم الصلحون و منهم دون ذلك

كلمہ ''دون'' غير كے معنى ميں ہے اور ''ذلك'' اشارہ ہے صالح كى طرف كہ جو ''الصلحون'' سے سمجھا جاتاہے يعني:''منهم غير صالحين''

۴_ خداوند متعال نے يہوديوں كے گروہوں كو كبھى تونعمات اور آساءشات عطا كركے اور كبھى سختيوں اور مشكلات ميں مبتلاء كركے آزمايا_و بلونهم بالحسنت و السيئات

''بلوناھم'' كى مفعولى ضمير سے مراد تمام يہودى برے اور اچھے بھى ہوسكتے ہيں اور صرف ان ميں سے برے بھي، فوق الذكر مفہوم كى اساس احتمال اول ہے_

۵_ دكھ اور سكھ باہدف ہوتے ہيں اور خدا كى طرف سے انسان كى آزماءش كا باعث ہوتے ہيں _

و بلونهم بالحسنت و السيئات

۶_ سختيوں اور آساءشوں كے ذريعے برے يہوديوں كو آزمانے كا ايك مقصد انہيں اصلاح اور نيكى كى طرف پلٹانا تھا_

و بلونهم بالحسنت والسيئات لعلهم يرجعون

۳۴۵

''بلوناھم'' كى ضمير اگر غير صالحين كى طرف پلٹے تو اس صورت ميں ''لعلهم' ' كى ضمير كا ان كى طرف پلٹنا واضح ہے اور اگر ''بلوناھم'' كى ضمير تمام يہوديوں (صالح و ناصالح) كى طرف پلٹے تو اس صورت ميں ''لعلهم' ' كى ضمير كا مرجع (استخدام كے طريقے پر) غير صالحين ہوگا_

۷_ سختيوں اور آساءشوں كے ذريعے انسان كى زندگى ميں تغيّر و تبدّ ل، اس كى بيدارى اور اصلاح كى طرف توجہ كا باعث ہے_و بلونهم بالحسنت والسيئات لعلهم يرجعون

۸_ الہى آزماءشيں كچھ اس طرح كى ہوتى ہيں كہ انسان كيلئے اصلاح كى طرف بازگشت كى راہ فراہم كرتى ہيں _

بلونهم بالحسنت والسيئات لعلهم يرجعون چونكہ اصلاح كى طرف بازگشت كو آزماءش كا ہدف قرار ديا گيا ہے لہذا اس ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ الہى آزماءشيں كچھ اس طرح ترتيب پاتى ہيں كہ حق و حقيقت كى طرف انسان كے رجحان كى راہ فراہم كريں يعنى الہى آزماءشوں كا مقصد صرف نيك و بد كو ظاہر كرنا نہيں _

آساءش:آساءش كى حكمت ۵، ۷

اصلاح:اصلاح كے اسباب ۶، ۷، ۸

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا امتحان ۴ ;اللہ تعالى كے افعال ۴،۵،۸

امتحان:امتحان كى حكمت ۸;امتحان كے ذراءع ۵

تاريخ:تحولات تاريخ كا منشاء ۲

سماجى تحولات:سماجى تحولات كا سرچشمہ ۲;سماجى تحولات كے آثار ۷

سختي:سختيوں كى حكمت ۵، ۷

يہوديوں :يہود كى آساءش كى حكمت ۶;يہود كى مشكلات كى حكمت ۶;يہود كى نعمات ۴; يہود كے امتحان كى حكمت ۶;يہود كے گروہ ۱;يہوديوں كا امتحان ۴; يہوديوں كا انحطاط ۱، ۳ ;يہوديوں كى آساءش ۴; يہوديوں كى تاريخ ۱، ۳، ۴; يہوديوں كے صالحين ۳; يہود كے غير صالحين ۳

۳۴۶

آیت ۱۶۹

( فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُواْ الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَـذَا الأدْنَى وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لاَّ يِقُولُواْ عَلَى اللّهِ إِلاَّ الْحَقَّ وَدَرَسُواْ مَا فِيهِ وَالدَّارُ الآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ )

اس كے بعد ان ميں ايك نسل پيدا ہو ى كو كتاب كى وارث تو بنى ليكن دنيا كا ہرمال ليتى رہى اور يہ كہتى رہى كہ عنقريب ہميں بخش ديا جائیے گ اور پھر ويسا ہى مال مل گيا تو پھر لے ليا تو كيا ان سے كتاب كا عہد نہيں ليا گيا كہ خبردار خدا كے بارے ميں حق كے علاوہ كچھ نہ كہيں اور انھوں نے كتاب كو پڑھا بھى ہے اور دار آخرت ہى صاحبان تقوى كے لئے بہترين ہے كيا تمھارى سمجھ ميں نہيں آتا ہے(۱۶۹)

۱_ يہوديوں كى تاريخ ، دنيا پرست اور گناہ گار قوموں اور نسلوں كا ايك نمونہ ہے_

فخلف من بعدهم خلف ورثو الكتب يا خذون عرض هذا الا دنى و يقولون

۲_ دنياپرست يہودي، تورات پر اعتقاد ركھنے اور اس تك رسائی كے باوجود، ناجائز طريقوں سے دنيوى مال و منال حاصل كرتے تھے_ورثوا الكتب يا خذون عرض هذا الا دنى و يقولون سيغفر لنا

جملہ ''ورثوا الكتب'' (تورات انہيں ورثے ميں ملي) دو مطالب كى جانب اشارہ ہے اور ہر دومعانى ميں دنياپرست يہوديوں كى مذمت و سرزنش موجود ہے_ (اول) تورات تك ان كى رسائی ہونا (دوم) اس پر اعتقاد كا دعوى كرنا_

۳_ دنياپرست يہودي، خود اپنى دنياپرستى كے گناہ اور ناروا طريقوں سے مال و منال حاصل كرنے كے معترف تھے_

يا خذون عرض هذا الا دنى و يقولون سيغفرلنا

جملہ ''سيغفر لنا'' (ہم بخشے جائیں گے) دنيا پرست يہوديوں كا اپنے گناہگار ہونے كا اعتراف ہے اور يہ بھى ظاہر كررہاہے كہ (پہلا) جملہ ''يا خذون ...'' ناجائز طريقوں سے مال حاصل كرنے كى جانب اشارہ ہے_

۳۴۷

۴_ دنيا پرست يہودى (ناجائز طريقوں سے دنيوى مال و منال كسب كرنے جيسے) گناہ پر اصرار كرتے تھے_

و إن يا تهم عرض مثله يا خذوه جملہء ''و إن يا تھم ...'' (اگر دنيوى مال و دولت دوسرى دفعہ اور دوبارہ انھيں پيش كيا جاتا تو وہ اسے حاصل كرنے سے دريغ نہ كرتے) اس بات كى جانب اشارہ ہے كہ دنيا پرست يہودى ناجائز طريقے سے مال حاصل كرنے جيسے گناہ پر اصرار كرتے تھے_

۵_ آسمانى كتابوں كے وارثوں كو چاہيئے كہ وہ اس فانى دنيا كے ظاہرى جلوؤں سے دل نہ لگائیں اور ناجائز طريقے سے دنيوى مال و دولت حاصل كرنے سے پرہيز كريں _ورثوا الكتب ياخذون عرض هذا الادنى

۶_ دنيوى مال و دولت فانى اور ناپائی دار چيز ہے اور اس قابل نہيں كہ اس سے دل لگايا جائیے_ياخذون عرض هذا الادني

''ادني'' افعل تفضيل كا صيغہ ہے، جس كا معنى ''نزديكتر'' ہے اور يہاں اس سے ''آخرت'' كے مقابلے ميں ''دنيا'' مراد ہے، ''عرض'' لغت ميں اس چيز كو كہا جاتاہے كہ جو ثبات نہ ركھتى ہو اور اس سے مراد ''مال و دولت'' ہے يہاں اس لئے ''عرض'' سے تعبير كيا گيا ہے تا كہ مال و دولت كے قابل زوال ہونے كى جانب اشارہ كيا جائیے_

۷_ دنياپرست يہوديوں كا عقيدہ تھا كہ خداوند ان كے گناہوں كو بغير توبہ كے بخش دے گا_و يقولون سيغفر لنا و إن يأتهم عرض مثله يأخذوه

جملہ ''و إن يأتھم عرض ...'' اس بات كى حكايت كررہاہے كہ گناہگار يہودى دوبارہ حرام كھانے كيلئے تيار ہونے كے باوجود اپنے آپ كو خداوند كى مغفرت كا مستحق قرار ديتے تھے يعنى وہ اپنے گذشتہ عمل سے ہرگز پشيمان نہيں تھے تا كہ توبہ كرتے_

۸_ دنيا پرست يہودي، خداوند كى جانب سے تضمين شدہ مغفرت كے بہانے سے اوامر الہى كى نافرمانى كرتے ہوئے گناہ كے مرتكب ہوتے تھے_

يأخذون عرض هذا الأدنى و يقولون سيغفر لنا

۹_ گناہ كا ارتكاب كرتے ہوئے، مغفرت الہى كا اطمينان ركھنا، ايك انتہائی ناپسنديدہ عقيدہ اور برا گمان ہے_

يأخذون عرض هذا الأدنى و يقولون سيغفر لنا

۳۴۸

۱۰_ يہوديوں كے ساتھ خداوند كے عہد و پيمان ميں سے ايك، خداوند كى جانب ناروا امور كو منسوب نہ كرنا بھى تھا_

ألم يؤخذ عليهم ميثق الكتب أن لا يقولوا على اللّه إلا الحق

۱۱_ دنيا پرست يہوديوں كى جانب سے خداوند كى طرف جھوٹى نسبتوں ميں سے ايك، توبہ كيے بغير يہوديوں كے گناہ كى مغفرت كا ادعا بھى تھا_و يقولون سيغفر لنا ...ألم يؤخذ عليهم ...أان لا يقولوا على اللّه إلا الحق

۱۲_ يہودي، تورات اور الہى عہد و پيمان پر كار بند نہيں تھے_الم يؤخذ عليهم ميثق الكتب

۱۳_ خداوند كى جانب ناحق باتيں منسوب كرنا ايك ناپسنديدہ اور حرام فعل ہے_أن لا يقولوا على اللّه إلا الحق

۱۴_ خداوند كى جانب ناحق باتيں منسوب كرنے كى حرمت كا حكم تورات ميں بھى بيان ہوا ہے_

الم يؤخذ عليهم ميثق الكتب أن لا يقولوا على اللّه إلا الحق

۱۵_ گناہ پر اصرار كے باوجود، مغفرت الہى كے بارے ميں اظہار اطمينان كرنا، خداوند سے ناحق بات منسوب كرنے كے مترادف ہے_و يقولون سيغفر لنا ...ألم يؤخذ عليهم أن لا يقولوا على اللّه إلا الحق

۱۶_ يہودي، خداوند كى طرف ناحق باتيں منسوب كرنے كى حرمت سے آگاہ تھے_و درسوا ما فيه

يہ حقيقت ہے كہ يہودى ہميشہ تورات كى تلاوت كرتے تھے اور اس حقيقت كو يہاں بيان كرنے كا مقصد يہ ہے كہ وہ تورات كى تعليمات سے پورى طرح آگاہ تھے_

۱۷_ يہودي، تورات كو بار بار پڑھنے كى وجہ سے، اس كے معارف و احكام سے كامل آگاہى ركھتے تھے_

درسوا ما فيه

''درس'' كسى چيز كے تكرار كرنے كو كہتے ہيں اور ''درس الكتاب'' اس وقت كہا جاتاہے كہ جب بار بار پڑھا جائیے (مجمع البيان)

۱۸_ عالم آخرت، ايك برتر عالم ہے اور اس كى نعمتيں ، دنيا كى نعمتوں سے بہتر ہيں _والدار الأخرة خير

مندرجہ بالا مفہوم ميں كلمہء ''خير'' كو بطور افعل تفضيل لايا گيا ہے_

۳۴۹

۱۹_ يہوديوں كيلئے تورات كى تعليمات ميں سے ايك، آخرت كے خير و سعادت ہونے اور دنيا سے اس كے برتر ہونے كى تعليم بھى تھي_ألم يؤخذ عليهم ميثق الكتب ...الدار الأخرة خير للذين يتقون

۲۰_ عالم آخرت اور اس كى نعمتيں پائی دار اور ناقابل زوال ہيں _عرض هذا الأدني ...والدار الأخرة خير

متاع دنيا كے زوال پذير ہونے كے مقابلے ميں ، آخرت كى برترى كو بيان كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ دنيا پر آخرت كى برترى اسكى نعمتوں كے ابدى و دائمى ہونے كى وجہ سے ہے_

۲۱_ دنيا كے ناجائز مال و دولت سے پرہيز كرنے والے، عالم آخرت ميں دائمى و پائی دار نعمتوں اور خير محض سے بہرہ مند ہونگے_والدار الأخرة خير للذين يتقون

''يتقون'' كا متعلق وہ اعمال و عقائد ہيں كہ جن كى آيت شريفہ ميں مذمت كى گئي ہے، مثلاً نا جائز طريقے سے مال و دولت حاصل كرنا اور ناحق باتيں خداوند سے منسوب كرنا_

۲۲_ عالم آخرت، ايك ايسا عالم ہے كہ جو خير محض اور تقوى اختيار كرنے والوں كيلئے سعادت ہے_

والدار الأخرة خير للذين يتقون

۲۳_ يہوديوں كى تاريخ دنيا پرست اور بے تقوى علماء كا ايك نمونہ ہے_ *خلف ورثوا الكتب يأخذون عرض هذا الأدنى ...والدار الأخرة خير للذين يتقون

جملہ ''ورثوا الكتب'' ہوسكتاہے ان دو باتوں كى جانب اشارہ ہو (اول) يہ كہ مذكورہ يہودى وہ لوگ ہوں كہ جنہيں تورات نسل بہ نسل دى گئي ہو اور وہ اس تك رسائی ركھتے ہوں (دوم) يہ كہ يہ جملہ حكايت كررہاہے كہ وہ تورات كى تعليمات سے پورى طرح آگاہ تھے يہاں مندرجہ بالا مفہوم دوسرے احتمال كى بناء پر اخذ كيا گيا ہے_

۲۴_ تقوى ، اخروى كاميابى كے حصول كا وسيلہ ہے_والدار الأخرة خير للذين يتقون

۲۵_ دنيوى زيب و زينت سے وابستہ نہ ہونا اور ناجائز طريقے سے مال و دولت حاصل كرنے سے دورى اختيار كرنا تقوى اختيار كرنے كى علامت ہے_يأخذون عرض هذا الأدنى و يقولون سيغفر

۳۵۰

لنا ...للذين يتقون أفلا تعقلون

۲۶_ دنياپرست يہودي، خداوند كى بارگاہ ميں بے عقل اور ناپختہ فكر لوگوں كى حيثيت ركھتے ہيں _أفلا تعقلون

۲۷_ اہل تقوى كيلئے اخروى نعمتوں كے خير ہونے اور پائی دارى كا اعتقاد، ايك صحيح و سالم نظريہ اور عاقلانہ عقيدہ ہے_

والدار الأخرة خير للذين يتقون افلا تعقلون

۲۸_ آخرت جيسے ابدى و جاويد عالم كے بدلے دنيا كے ناپائی دار مال و دولت سے وابستگى اختيار كرنا ايك صحيح و سالم فكر و عقل سے بعيد امر ہے_يأخذون عرض هذا الأدني ...والدار الأخرة خير للذين يتقون أفلا تعقلون

۲۹_عن ابى عبدالله عليه‌السلام : قال: إن اللّه خصّ عباده بأيتين من كتابه: أن لا يقولوا حتى يعلموا ...قال عزوجل: ألم يؤخذ عليهم ميثاق الكتاب أن لا يقولوا على اللّه إلا الحق (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ خداوند عالم نےاپنے بندوں كو، اپنى كتاب كى ان دو آيات كى طرف خصوصى طور پر متوجہ كراياہے( تا كہ وہ ان دو مطالب سے آگاہ ہوجائیں ) اور يہ كہ وہ كوئي بھى بات منہ سے نہ نكاليں مگر يہ كہ اس كا علم ركھتے ہوں (يعنى بغير علم كے كوئي بات نہ كہيں ) اور پھر آپعليه‌السلام نے اس آيت ''الم يؤخذ عليهم ...'' كى تلاوت فرمائی

آخرت:آخرت كى ابديت ۲۰ ;آخرت كى برترى ۱۸، ۱۹ ;

تورات ميں آخرت كا ذكر ۱۹;دنيا كے بدلے آخرت كو بيچنا ۲۸

اللہ تعالى :اللہ تعالى پر افتراء ۱۰، ۱۱، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶ ;اللہ تعالى كى نافرمانى ۸ ;يہوديوں سے اللہ تعالى كا عہد ۱۰

تعقل:پسنديدہ تعقل ۲۷;تعقل سے خالى لوگ ۲۶;عدم تعقل كے اثرات ۲۸

تقوى :تقوى كى نشانياں ۲۵;تقوى كے اثرات ۲۴

تورات:تورات كى تعليمات ۱۴، ۱۷، ۱۹;محرمات تورات ۱۴

دنيا:تورات ميں دنيا كا ذكر ۱۹

____________________

۱)كافى ج/۱ ص ۴۳ ح ۸_ نورالثقلين ج/۲ ص ۹۱ ح ۳۲۸

۳۵۱

دنيا طلبي:دنيا طلبى سے اجتناب ۵;دنيا طلبى كا گناہ ۳;دنيا طلبى كا ناپسنديدہ ہونا ۶;دنيا طلبى كے اثرات ۲۸

دين:علمائے دين كا زہد ۵;علمائے دين كى ذمہ دارى ۵

زھد:زھد كى اہميت ۲۵

سعادت:اخروى سعادت كے عوامل ۲۴

عقيدہ:پسنديدہ عقيدہ ۲۷;تورات پر عقيدہ ۲;مغفرت خدا كا عقيدہ ۷، ۸، ۹، ۱۵;ناپسنديدہ عقيدہ ۹

عمل:ناپسنديدہ عمل ۱۳

كتبآسمانى :آسمانى كتب كے وارث ۵

گناہ:ارتكاب گناہ ۹;گناہ پر اصرار ۴، ۱۵

مال:حرام مال حاصل كرنا ۲، ۳، ۴;حرام مال سے اجتناب ۲۵

متقين:متقين كى سعادت ۲۲، ۲۷;متقين كى آخرت ۲۲متقين كى اخروى نعمتيں ۲۱

محرمات: ۱۳، ۱۶محرمات سے اجتناب ۲۱

مقدسات:مقدسات سے سوء استفادہ ۸

نعمت:اخروى نعمتيں ۱۸، ۲۱;دنيوى نعمتيں ۱۸

يہودي:تاريخ يہود ۱، ۲، ۲۳; دنيا طلب يہوديوں كا عقيدہ ۳، ۷، ۱۱;دنيا طلب يہودى افراد كا گناہ ۸; دنياطلب يہوديوں كى بے عقلى ۲۶; نافرمان يہودي، ۱; يہودى اور تورات ۲، ۱۲، ۱۷; يہودى اور مال حرام ۲، ۳، ۴;يہوديوں كا آگاہ ہونا ۱۶، ۱۷;يہوديوں كا عقيدہ ۱۱، ۱۶ ; يہوديوں كى دنيا طلبى ۱، ۲، ۴ ; يہوديوں كى عہد شكنى ۱۲;يہوديوں كے دنيا طلب علماء ۲۳; يہوديوں كے فاسق علماء ۲۳ ; يہوديوں كے گناہ كى مغفرت ۷، ۸، ۱۱; يہوديوں كے گناہ كے اسباب ۸

۳۵۲

آیت ۱۷۰

( وَالَّذِينَ يُمَسَّكُونَ بِالْكِتَابِ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ إِنَّا لاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ )

اور جو لوگ كتاب سے تمسك كرتے ہيں اور انھوں نے نماز قائم كى ہے تو ہم صالح اور نيك كردار لوگوں كے اجر كو ضاءع نہيں كرتے ہيں (۱۷۰)

۱_ جو يہودى تورات سے تمسك كريں ، اس كى تعليمات كى پابندى كريں اور نماز قائم كريں وہى نيكى و بھلائی كا راستہ اپنانے والے لوگ ہيں _والذين يمسّكون بالكتب ...إنا لا نضيع أجر المصلحين

تمسيك (''يمسكون'' كا مصدرہے) جس كا معنى حفاظت كرنا اور چھوڑنا ہے آسمانى كتاب كى حفاظت سے مراد يہ ہے كہ انسان اس كے معارف پر اعتقاد ركھے اور اس كے احكام كا پابند ہو_

۲_ خداوند متعال، تورات سے تمسك كرنے والے يہوديوں اور نماز قائم كرنے والے يہوديوں كے اجر و ثواب كو ضاءع نہيں كرے گا_والذين يمسّكون بالكتب ...انا لا نضيع اجر المصلحين

چونكہ مذكورہ آيت، يہوديوں سے مربوط آيات كے سياق ميں لائی گئي ہے لہذا كہا جاسكتاہے كہ ''الذين ...'' سے مراد اپنے عہد پر عمل كرنے والے يہودى ہيں يا يہ كہ وہ''الذين ...'' كے مصاديق ميں سے ہيں _

۳_ آسمانى كتابوں سے تمسك كرنے اور نماز قائم كرنے والوں كے اجر كا ضامن ،خود خداوند ہے_

والذين يمسّكون بالكتب ...إنا لا نضيع أجر المصلحين

۴_ يہوديوں كى گذشتہ نسلوں ميں سے بعض لوگ، اپنے دنيا طلب لوگوں كے برعكس تورات كى تعليمات اور اس كے ميثاق (عہد و پيمان) كے پابند تھے اور نماز قائم كرنے والے تھے_

۳۵۳

والذين يمسّكون بالكتب و أقاموا الصلوة

۵_ نماز قائم كرنے سے، انسان ميں آسمانى كتابوں سے تمسك كرنے اور ان كے مطالب (تعليمات) پر عمل كرنے كى توانائی و آمادگى پيدا ہوجاتى ہے_والذين يمسّكون بالكتب و أقاموا الصلوة

كتاب سے تمسك كو بيان كرتے وقت فعل مضارع سے استفادہ كيا گيا ہے اور اقامہء نماز كے بيان ميں فعل ماضى استعمال كيا گيا ہے لہذا تعبير كا يہ تفاوت ہوسكتاہے مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ ہو_

۶_ معاشروں كى اصلاح كرنے والوں كے اجر و ثواب كا ضامن خداوند ہے_إنا لا نضيع أجر المصلحين

كلمہ ''مصلح'' كا اطلاق نيك و صالح عمل انجام دينے والے يعنى اپنى اصلاح كرنے والے پر بھى ہوتاہے اور اس شخص پر بھى كہ جو دوسروں كى اصلاح كيلئے كوشش كرتاہے، مندرجہ بالا مفہوم دوسرے معنى كے مطابق اخذ كيا گيا ہے_

۷_ نيك و صالح اعمال انجام دينے والے لوگ ،الہى اجر و ثواب سے بہرہ مند ہونگے_إنا لا نضيع أجر المصلحين

۸_ معاشرے ميں آسمانى كتابوں كے محور بن جانے اور نماز كى جانب رجحان پيدا ہونے سے، قوموں كى صلاح و بھلائی كا راستہ ہموار ہوتاہے_والذين يمسّكون بالكتب و أقاموا الصلوة إنا لا نضيع أجر المصلحين

آسمانى كتب:آسمانى كتابوں پر عمل۵;آسمانى كتابوں پر عمل كا اجر ۳;آسمانى كتابوں كا كردار ۸

اديان:اديان ميں نماز ۳

اصلاح:اصلاح كا راستہ ہموار ہونا ۸

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى جانب سے اجر و ثواب ۲، ۳، ۶، ۷

تورات:تورات پر عمل ،۱; تورات پر عمل كرنے كا اجر ۲; تورات پر عمل كرنے والے ۴

توفيق:توفيق كے علل و اسباب ۵

عقيدہ:آسمانى كتابوں پر عقيدہ ۵

عمل صالح:عمل صالح كا اجر ۷

مصلحين:

۳۵۴

مصلحين كا اجر ۶، ۸

نظام جزا و سزا: ۲،۳

نماز:نماز برپا كرنے كا اجر ۲;نماز برپا كرنے كے

اثرات ۱، ۵، ۸;نماز كا اجر ۳;يہوديوں ميں نماز، ۱، ۲، ۴

يہودي:تاريخ يہود ۴;دنيا طلب يہودى ۴;يہودى نماز گذار ۴;يہوديوں ميں سے صالح و نيك افراد ،۱، ۴

آیت ۱۷۱

( وَإِذ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّواْ أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُواْ مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُواْ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ )

اور اس وقت كو ياد دلاؤ جب ہم نے پہاڑ كو ايك سائبان كى طرح ان كے سروں پر معلق كرديا اور انھوں نے گمان كر ليا كہ يہ اب گرنے والا ہے تو ہم نے كہا كہ توريت كو مظبوطى كے ساتھ پكڑو اور جو كچھ اس ميں ہے اسے ياد كرو شايد اس طرح متقى اور پرہيزگار بن جاؤ(۱۷۱)

۱_ خداوند نے كوہ طور كو لرزاتے ہوئے زمين سے جدا كرديا اور ايك بادل كے ٹكڑے كى مانند بنى اسرائیل كے سروں كے اوپر لاكھڑا كيا_و إذ نتقنا الجبل فوقهم كأنه ظلة

''نتق'' (جو كہ نتقنا كا مصدر ہے) كا معنى لرزانا اور اكھاڑنا ہے_ ''الجبل'' ميں ''ال'' عہد ذہنى ہے اور كوہ طور كى جانب اشارہ ہے ''ظلة'' كا معني''، بادل كا ٹكڑا، چھت اور سائبان ہے_ پہاڑ اگر انسان كے سركے اوپر آكھڑا ہو تو اس كى شباہت، چھت و غيرہ سے زيادہ بادل كے ٹكڑے سے ہوتى ہے_

۲_ قوم موسىعليه‌السلام اپنے سروں پر معلق پہاڑ كے گرنے سے ہراسان تھي_و ظنوا أنه واقع بهم

۳_ تورات، بنى اسرائیل كيلئے، خداوند كى جانب سے بھيجى گئي كتاب تھي_خذوا ماء اتينكم

''ماء اتينكم'' سے مراد ،تورات ہے_

۴_ خداوند نے كوہ طور كو قوم موسىعليه‌السلام پر معلق كركے، انھيں سنجيدگى كے ساتھ تورات كو قبول كرنے اور اپنے كردار و افكار كو اس كى بنياد پر استوار كرنے كا حكم ديا_خذوا ماء اتينكم بقوة ''خذوا'' يعنى لے لو، تورات اور دوسرى آسمانى كتابوں كو لينے سے مراد يہ ہے كہ انھيں قبول كيا جائیے اور ان كے احكام پر عمل كيا جائیے_

۳۵۵

۵_ تورات كو قبول كرنے اور اس كے فرامين پر عمل پيرا ہونے ميں بنى اسرائیل كا ضد اور ہٹ دھرمى سے كام لينا_

و إذ نتقنا الجبل فوقهم ...خذوا ماء اتينكم

۶_ خداوند نے بنى اسرائیل سے چاہا كہ وہ تورات كے معارف و احكام كو حاصل كريں اور ہميشہ انھيں ياد ركھيں _

و اذكروا ما فيه ''ذكر''اس علم كو كہتے ہيں كہ جسے انسان ہميشہ ياد ركھے اور فراموش نہ كرے_ بنابرايں ''اذكروا ما فيه''يعنى تورات كے مطالب كو حاصل كرو اور انھيں ہميشہ ياد ركھو_

۷_ خداوند كى طرف سے بنى اسرائیل كو تورات قبول كرنے كى دعوت كا مقصد ،ناروا اعمال سے دورى اور تقوى اختيار كرنے پر آمادہ كرنا تھا_خذوا ماء اتينكم بقوة ...لعلكم تتقون

۸_ بنى اسرائیل كے سروں پر پہاڑ كا معلق ہونا ايك ايسا معجزہ اور واقعہ ہے كہ جو ہميشہ ياد رہے گا_

و إذ نتقنا الجبل فوقهم كأنه ظلة

''إذ'' فعل مقدر''اذكروا'' سے متعلق ہے_

۹_ انسانوں پر آسمانى كتابوں كے نزول كے مقاصد ميں سے ايك ، انكا ناروا اعمال اور غلط عقائد سے پرہيز كرنا اور تقوى كے مقام پر فائز ہوناہے_خذوا ماء اتينكم بقوة و اذكروا ما فيه لعلكم تتقون

۱۰_ ديندارى ميں انسان كى ثابت قدمى و بردبارى اسے ناروا اعمال و كردار سے دور كركے تقوى اور پرہيزگارى كے مقام پر فائز كرديتى ہے_خذوا ما ء اتينكم بقوة ...لعلكم تتقون

۱۱_ اہل ايمان كا ايك ضرورى فريضہ يہ ہے كہ وہ آسمانى كتاب (كى تعليمات) حاصل كريں اور ان كے محور پر اپنے عقائد و اعمال مرتب و منظم كريں _خذوا ماء اتينكم بقوة و اذكروا مافيه

۱۲_ دينى تبليغ كا ايك بہترين طريقہ، الہى احكام و قوانين كے اہداف و مقاصد كى وضاحت و تبيين ہے_

خذوا ماء اتينكم ...لعلكم تتقون

خداوند نے جملہ ''لعلكم تتقون'' كے ذريعے اپنے اس فرمان(خذوا ماء اتينكم) كا مقصد و ہدف بيان كيا ہے، اور يہ تمام دينى مبلغين كيلئے ايك درس ہے كہ وہ فقط احكام دين بيان كرنے پر ہى اكتفاء نہ كريں بلكہ جہاں تك ہوسكے ان احكام (الہي) كا ہدف و مقصد بھى لوگوں كيلئے بيان كريں _

۳۵۶

۱۳_عن ابي_ عبدالله عليه‌السلام (فى حديث طويل) قال: ...طور سيناء اطاره الله عزوجل على بنى اسرائيل حين اظلّهم ...حتى قبلوا التوراة و ذلك قوله عزوجل: ''و إذ نتقنا الجبل فوقهم كأنه ظلة و ظنوا انه واقع بهم'' (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے ايك طويل حديث كے ضمن ميں منقول ہے كہ ...خداوند نے طور سينا كو (قوت) پرواز عطا كى اور جب وہ پہاڑ بنى اسرائیل كے سروں پر آكر سايہ افگن ہوگيا تو انھوں نے تورات كو قبول كرليا_ پھر امامعليه‌السلام نے آيہء مجيدہ ''و إذ نتقنا الجبل ...'' كى تلاوت فرمائی _

۱۴_اسحاق بن عمار و يونس قالا سئلنا ابا عبدالله عليه‌السلام عن قول الله تعالى : خذوا ما آتيناكم بقوة'' أقوة فى الابدان أو قوة فى القلب؟ قال: فيهما جميعا (۲)

اسحاق بن عمار اور يونس كہتے ہيں ہم نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا: آيہء مجيدہ ''خذوا ما آتيناكم بقوة'' ميں قوت سے كيا مراد ہے قوت بدنى يا قوت قلبي؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا ہر دو قوتيں مراد ہيں _

۱۵_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول اللّه: ''خذوا ما آتيناكم بقوة '' قال: السجود و وضع اليدين على الركبتين فى الصلوة (۳)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے آيہء مجيدہ''خذوا ما اتيناكم بقوة'' كے بارے ميں منقول ہے كہ (قوت سے مراد يہ ہے كہ) سجدہ كو سعى و كوشش كے ساتھ اور نماز ميں ركوع دونوں ہاتھوں كو زانو پر ركھ كر انجام دو_

آسمانى كتب:آسمانى كتب كا كردار، ۱۱;آسمانى كتب كى تعليم ۱۱; آسمانى كتب كے نزول كا فلسفہ ۹;آسمانى كتب ميں تقوى ۹

اللہ تعالى :اللہ تعالى كے افعال۱، ۴;اللہ تعالى كے اوامر۶، ۷

ايمان:تورات پر ايمان ۴

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل اور تورات ۴، ۵، ۶، ۷;بنى اسرائیل اور كوہ طور ۲، ۸ ;بنى اسرائیل كا خوف ۲;بنى اسرائیل كى آسمانى كتاب ۳;بنى اسرائیل كى ذمہ دارى ۶;بنى اسرائیل كى ہٹ دھرمى ۵;تاريخ بنى اسرائیل ۱، ۲، ۴، ۵، ۸

تقوى :

____________________

۱)احتجاج طبرسى ج/۲ ص ۶۵: نورالثقلين ج/۲ ص ۹۲ ح ۳۳۲_۲)محاسن برقى ج/۱ ص ۲۶۱ ح ۳۱۹ ب ۳۳، تفسير عياشي/ج ۲ ص ۳۷ ح ۱۰۱_

۳)تفسير عياشى ج/۲ ص ۳۷ ح ۱۰۲: نورالثقلين ج/۲ ص ۹۲ ح ۳۳۵_

۳۵۷

اہميت تقوى ۷، ۹;تقوى كے عوامل ۱۰

تورات:تورات كا آسمانى كتب ميں سے ہونا ۳;تورات كا كردار ۴، ۷; تورات كى تعليمات ۶;تورات ميں تقوى ۷

دين:تبليغ دين ۱۲

دينداري:ديندارى كے اثرات ۱۰

ذكر:معجزہ كا ذكر ۸

عقيدہ:عقيدے كى تصحيح كا معيار ۴، ۱۱;ناپسنديدہ عقيدے سے اجتناب ۹

عمل:ناپسنديدہ عمل سے اجتناب ۷، ۹، ۱۰

كوہ طور:كوہ طور كا معلق ہونا ۱، ۴، ۸;كوہ طور كى لرزش ۱

مؤمنين:مومنين كى مسؤليت، ۱۱

معجزہ:كوہ طور كو اوپر اٹھايا جانے والا معجزہ، ۸

آیت ۱۷۲

( وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتَ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ )

اور جب تمھارے پروردگار نے فرزندان آدم كى پشتوں سے انكى ذرّيت كو لے كرانھيں خود ان كے اوپر گواہ بنا كر سوال كيا كہ كيا ميں تمھارا خدا نہيں ہوں تو سب نے كہا بيشت ہم اس كے گواہ ہيں _ يہ عہد اس لئے ليا كہ روز قيامت يہ نہ كہہ سكو كہ ہم اس عہد سے غافل تھے(۱۷۲)

۱_ خداوند نے انسانوں ميں سے ہر ايك كو، اس كے آباء كى صلب (پشت) سے ليكر،وجود عطا فرمايا_

و إذ اخذ ربك من بنى أدم من ظهورهم ذريتهم

''ذرية'' كا معنى نسل ہے_ ''ظھر'' (جو كہ ظھور كا مفرد ہے) كا مطلب پشت ہے جسے صلب سے تعبير كيا جاتاہے_''ظهورهم'' كى ضمير، بنى آدم كى جانب پلٹى ہے اور''من ظهورهم'' ''من بنى ء آدم'' كيلئے بدل ہے_ نسل بنى آدم كو ان كے صلب (پشت) سے لينے كا مطلب يہ ہے كہ نسل آدم كو ان كے آباء كى صلب سے خلق كيا گيا ہے_

۳۵۸

۲_ خداوند، ہر انسان كو خلق كرنے كے بعد، ربوبيت الہى كے متعلق اس كى حقيقت كو اس پر آشكار كرديتاہے_

و إذ أخذ ربك ...و أشهد هم على أنفسهم الست بربكم

''أشهد على كذا'' يعنى اسے حاضر كيا تا كہ وہ كسى امر كے وجود يا كسى فعل كے انجام پانے كو ديكھے، اور اس سے آگاہ ہوجائیے_ تا كہ ضرورت كے وقت اس پر گواہى دے بنابريں ''أشھد على أنفسھم'' يعني، خداوند نے انسانوں كو خود ان كے وجود كے ساتھ حاضر كيا تاكہ خود كو ديكھيں _ جملہ''الست بربكم'' (آيا ميں تمہارا پروردگار نہيں ہوں ) سے ظاہر ہوتاہے كہ اپنے شہود سے مراد اپنے آپ كو، ربوبيت الہى كے ساتھ مربوط ديكھناہے_ يعنى خود كو ديكھيں اور ادراك كريں كہ ان كا وجود خداوند اور اس كى ربوبيت سے وابستہ ہے_

۳_ انسانوں ميں سے ہر ايك دنيوى حيات ميں اپنى خلقت كے بعد، دو قسم كے عالم وجود كا حامل ہوتاہے، ايك وہ عالم كہ جس ميں وہ خداوند كے ساتھ اپنے ارتباط كا شہود حاصل كرتاہے اور دوسرا خداوند سے محجوب اور غيب ہونے كا عالم ہے_و إذ أخذ ربك ...و أشهد هم على أنفسهم

''أشهدهم'' كا ''أخذ ربك'' پر عطف ہونا دلالت كرتاہے كہ اشھاد و اقرار كا يہ مرحلہ اسى دنيوى حيات ميں انجام پاتاہے_ يعنى موجودہ انسانوں ميں سے ہر ايك بذات خود ربوبيت خداوند كا مشاہدہ كرتاہے جبكہ عام انسان اپنے ربّ كے بارے ميں اس قسم كا شہود اور علم حضورى نہيں ركھتے_ لہذا كہہ سكتے ہيں كہ انسان دو پہلوؤں كا حامل ہے_ ايك وہ پہلو كہ جو ربوبيت خدا كا شاہد ہوتاہے اور دوسرا وہ پہلو كہ جس ميں اسے اس قسم كا كوئي شھودحاصل نہيں ہوتا

۴_ ہر انسان عالم شھود ميں ، ايك قسم كے محسوس انداز ميں خداوند كى ربوبيت اور وحدانيت كو پا ليتاہے_

و أشهد هم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى

۵_ خداوند متعال نے چاہا كہ انسانوں كو اپنى شناخت و معرفت كرانے كے بعد انھيں ربوبيت خدا اور اپنى عبوديت پر گواہ بنائے_أشهد هم على أنفسهم ألست بربكم

۳۵۹

۶_ انسان كا عالم شھود ميں ، ربوبيت خداوند كا اعتراف كرنا_ألست بربكم قالوا بلى

۷_ انسان، عالم شھود ميں ، ربوبيت خداوند سے آگاہ ہونے كى وجہ سے ہى عالم حجاب ميں بھى اس سے آگاہ ہوتاہے_

أشهد هم على أنفسهم ...أن تقولوا يوم القى مة إنا كنا عن هذا غفلين

''أن تقولوا '' ميں ''لام'' اور ''لا'' نافيہ مقدر ہے_ يعنى ''لأن لا تقولوا ...'' (ہم نے مسئلہ اشھاد كو عملى جامہ پہنا ديا ہے تا كہ تم قيامت كے دن يہ نہ كہو كہ ہم ربوبيت خداوند سے غافل تھے) اس تعليل سے ظاہر ہوتاہے كہ اگر مسئلہ اشھاد نہ ہوتا تو انسانوں پر حجت بھى تمام نہ ہوتى اور خداوند اپنى ربوبيت سے غفلت كى خاطر مؤاخذہ نہ كرتا_ اس مطلب كا ايك لازمہ يہ ہے كہ مسئلہ اشھاد كى وجہ سے ہى خداوند كے بارے ميں انسانوں كو بالفعل آگاہى حاصل ہے_

۸_ فقط خداوند ہى انسانوں كا مالك و مدبر ہے_ألست بربكم قالوا بلى

۹_ عالم شھود كے ہوتے ہوئے عالم حجاب اور دنيوى حيات ميں انسان كا ربوبيت خداوند سے غفلت كرنا، ناقابل قبول عذر ہے_أشهد هم على أنفسهم ...أن تقولوا يوم القى مة إنا كنا عن هذا غفلين

۱۰_ قيامت كے دن، كوئي بھى انسان اپنى دنيوى زندگى ميں ربوبيت خداوند سے غفلت كا دعوى نہيں كرسكتا_

أشهد هم على أنفسهم ...أن تقولوا يوم القى مة إنا كنا عن هذا غفلين

۱۱_ غفلت، بارگاہ خداوند ميں ايك قابل قبول عذر ہے_أن تقولوا يوم القى مة إنا كنا عن هذا غفلين

۱۲_ تمام انسان، اولاد آدمعليه‌السلام ہيں _أخذ ربك من بنى ء ادم

۱۳_ قيامت، ربوبيت خداوند كے منكرين سے پوچھ گچھ كا دن ہے_أن تقولوا يوم القى مة إنا كنا عن هذا غفلين

۱۴_ قيامت كے دن انسان، علم حضورى كے ذريعے جان لے گا كہ خداوند ہى اس كا پروردگار ہے_

إنا كنا عن هذا غفلين

كلمہء ''ھذا'' كے ذريعے ربوبيت خداوند كى جانب اشارہ ظاہر كرتاہے كہ انسان قيامت كے دن اپنے آپ كو خداوند كى بارگاہ ميں حاضر پائے گا_ يعنى وہ خداوند كے بارے ميں علم حضورى و شھود حاصل كرے گا_

۱۵_قال زراره: سألته (ابا جعفر عليه‌السلام : عن قول اللّه عزوجل: ''و إذ أخذ ربك من بنى آدم من ظهورهم ذريتهم و أشهد هم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى '' قال: أخرج من ظهر آدم ذريته إلى يوم القى مة فخرجوا كالذرّ

۳۶۰