تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 736
مشاہدے: 150460
ڈاؤنلوڈ: 3025


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 150460 / ڈاؤنلوڈ: 3025
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 6

مؤلف:
اردو

بدترين حيوانات ۱۳

دنياطلبي:دنيا طلبى كى سزا ،۱۰

دين:تعليمات دين سے جاہل لوگ، ۱۵;علم دين كى اہميت ۱۳، ۱۴

سعادت:سعادت كے عوامل ۷

شقاوت:شقاوت كے عوامل ۷

شناخت:شناخت كے وسائل ۱۳

علمائے دين:دنيا طلب علمائے دين ۱۰;ہوا پرست علمائے دين ۱۰

غافلين: ۱۵

قرآن:تشبيہات قرآن ۱۲

ہوا پرستي:ہوا پرستى كى سزا، ۱۰

آیت ۱۸۰

( وَلِلّهِ الأَسْمَاء الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُواْ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَآئِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

اور اللہ ہى كے لئے بہترين نام ہيں لہذا اسے انھيں كے ذريعہ پكارو اور ان لوگوں كوچھوڑ دو جو اس كے ناموں ميں بے دينى سے كام ليتے ہيں عنقريب انھيں ان كے اعمال كا بدلہ ديا جائیے گا (۱۸۰)

۱_ تمام بہتر اور اچھے نام (اسمائے حسنى ) فقط خداوند كيلئے ہيں _و للّه الأسماء الحسني

''الأسماء'' ميں ''ال'' استغراق اوركُل كے معني

ميں ہے ''حسنى '' احسن كا مؤنث ہے جس كا معنى ''سب سے اچھا ركھا گيا ہے يعنى اگر خداوند ''الرحمن'' كے نام سے پكارا جاتاہے تو يہ اس كى رحمت واسعہ كے لحاظ سے ہے_

۲_ فقط خداوند تمام كمالات كا حامل اور ہر قسم كے نقص و عيب سے منزہ ہے_و للّه ألاسماء الحسنى

'' ہے ''الاسماء'' كى ''ألحسني'' كے وصف سے توصيف ،ظاہر كرتى ہے كہ اسم سے مراد وہ نام ہے كہ جس كا معنى ملحوظ

''الاسماء الحسنى '' پر ''للّہ'' كا مقدم ہونا، حصر كا فائدہ دے رہا ہے_ جو صفت اور اسم، كمال مطلق پر دلالت نہ كرے بلكہ

۳۸۱

نقص و كمى كى حكايت كرے تو وہ بہترين اسم اور صفت نہيں ہوگى لہذا جملہ ''للّہ ألاسماء الحسنى '' خداوند كيلئے ايسے نام كى نفى كرتاہے_

۳_ سوائے خداوند كے، تمام (موجودات) نقص و كمى كے حامل اور كمال مطلق سے خالى ہيں _و للّه ألاسماء الحسنى

''للّہ'' كے مقدم ہونے سے جو حصر ظاہر ہوتاہے اسى سے مندرجہ بالا مفہوم اخذ كيا گياہے_

۴_ خداوند كى كمالات مطلق كے ذريعے توصيف اور ہر نقص و عيب سے اسكى تنزيہ كرتے ہوئے بارگاہ الہى ميں دعا كرنے كى ضرورت_و للّه ألاسماء الحسنى فادعوه بها

۵_ نقص و كمى ظاہر كرنے والى صفات كے ساتھ خداوند كى توصيف كرنے والوں سے دورى اختيار كرنے كا ضرورى ہونا_

و ذرو الذين يلحدون فى أسمئه ''ذروا'' ''تذرون'' كا فعل امر ہے يعنى انھيں چھوڑ دو يا ان سے دور ہوجاؤ_

۶_ ہر عيب و نقص سے منزہ اور تمام كمالات كے حامل خداوند پر اعتقاد ركھنا انسان كو اس كى عبادت و پرستش اور حمد و ستاءش كرنے پر آمادہ كرتاہے_و للّه ألاسماء الحسنى فادعوه بها

''فادعوہ'' ميں حرف ''فاء'' سببيہ ہے_ اور اس بات پر دلالت كررہاہے كہ خدا كى عبادت اور اسے پكارنا اس لئے ہے كہ وہ تمام كمالات كا حامل ہے اور ہر قسم كے عيب و نقص سے منزہ ہے_

۷_ نقص و كاستى ظاہر كرنے والے نام و وصف سے خدا كو پكارنا، انحراف اور حق و اعتدال سے خارج ہوناہے_

و ذروالذين يلحدون فى أسمئه

''يلحدون'' كا مصدر ''إلحاد'' ہے جس كا معنى انحراف اور حد اعتدال سے خارج ہوناہے_ ''للّہ الأسماء الحسنى '' كے قرينے سے اسمائے الہى ميں انحراف يہ ہے كہ خداوند كو ايسے نام سے يا ايسى صفت سے پكارا جائیے جن سے نقص و كاستى ظاہر ہوتى ہو_

۸_ خداوند كى توصيف كرنے اور اسے پكارنے ميں ايسے ناموں اور اوصاف سے اسے پكارا جائیے اور اس كى توصيف كى جائیے كہ جو كمال مطلق كو ظاہر كررہے ہوں _و للّه ألاسماء الحسنى فادعوه بها

۹_ غير خدا كو، الہى ناموں اور اوصاف سے پكارنا، اس كے اسماء ميں الحاد اور اعتدال سے انحراف ہے_

و للّه ألاسماء الحسنى ...و ذروا الذين يلحدون فى أسمئه

۳۸۲

جملہ''و للّه الاسماء الحسني'' دلالت كررہاہے كہ خداوند كے علاوہ كوئي بھى اسمائے حسنى كا حامل نہيں _ بنابرايں غير خدا كو ايسے اچھے اچھے ناموں و اوصاف سے پكارنا كہ جو فقط خداوند كيلئے سزاوار ہيں ، اسمائے الہى ميں الحاد ہوگا_

۱۰_ خداوند كو نقص و كاستى پر مشتمل اوصاف سے پكارنا، خداوند كى جانب سے سزا و عذاب كا موجب بنے گا_

و ذروا الذين يلحدون فى أسمئه سيجزون ما كانوا يعملون

۱۱_ خداوند ميں نقص و كمى كے خيال و تصور كا نتيجہ ناپسنديدہ اعمال و كردار ہوگا_*و ذروا الذين ...سيجزون ما كانوا يعملون و ما كانوا يعملون'' ظاہر كررہاہے كہ اسمائے الہى ميں الحاد كرنے والے اپنے اعمال كى وجہ سے سزا پائیں گے جبكہ اسمائے الہى ميں الحاد يعنى خداوند كو ان اسماء و صفات سے پكارنا كہ جو كمال مطلق پر دلالت نہيں كرتے يا غير خدا كو خداوند كے خاص ناموں سے پكارنا، عمل كے زمرے ميں شمار نہيں ہوتا، لہذا يہى احتمال ديا جاسكتاہے كہ اسمائے الہى ميں ا لحاد كا لازمہ ،ناپسنديدہ اعمال و كردار ہے_

۱۲_ الہى سزائیں ، گناہگاروں كے ناپسنديدہ اعمال و كردار كا رد عمل ہیں _سيجزون ما كانوا يعملون

''ما كانوا يعملون'' ميں ''ما'' مصدريہ ہے آيت كا مفاد يہ ہوگا كہ''سيجزون عملهم'' عمل كو جزا كے عنوان سے بيان كرنا ظاہر كررہاہے كہ ملحدين كى سزا، ان كے ناپسنديدہ عمل كا دوسرا رخ ہے_

۱۳_عن الرضا عليه‌السلام قال: إذا نزلت بكم شدّة فاستعينوا بنا على اللّه و هو قول اللّه''و للّه ألاسماء الحسنى فادعوه بها'' (۱)

حضرت امام رضاعليه‌السلام سے منقول ہے كہ جب تم پر كوئي مصيبت يا بلا نازل ہو تو ہمارا واسطہ دے كر خدا سے دعا مانگو كہ يہ خدا كے اس قول كے موافق ہے كہ ''اور الله كے اچھے اچھے نام ہيں ، پس اسے انہى سے پكارو''_

۱۴_عن ابى عبداللّه عليه‌السلام ...و له الاسماء الحسنى التى لا يسمّى بها غيره و هى التى وصفها فى الكتاب فقال: ''فادعوه بها و ذروا الذين يلحدون فى اسمائه'' جهلا بغير علم يشرك و هو لا يعلم ...فلذلك قال:''و ما يؤمن اكثرهم

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲، ص ۴۲، ح۱۱۱۹، بحارالانوار ج ۹۱ ص ۵ ح ۷_

۳۸۳

باللّه إلا وهم مشركون'' فهم الذين يلحدون فى أسمائه بغير علم فيضعونها غير مواضعها (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ: ...اچھے اچھے نام خداوند كيلئے ہيں غير خدا كو ان ناموں سے نہ پكارو_ اور اچھے نام وہى ہيں كہ جو اس نے اپنى كتاب ميں ذكر كيئے ہيں اور فرمايا ہے ''خدا كو ان ناموں سے پكارو اور جو لوگ خدا كے ناموں ميں الحاد كرتے ہيں ، انھيں چھوڑ دو ''جو شخص جہالت كى بناء پر خدا كے ناموں كے بارے ميں منحرف ہوجاتاہے، وہ نا دانستہ طور پر شرك ميں گرفتار ہوجاتا ہے ...اسى لئے خدا نے فرمايا: ان ميں سے اكثر الله پر ايمان نہيں لاتے مگر يہ كہ شرك سے آلودہ ہوجاتے ہيں ، يہ وہ لوگ ہيں كہ جو اسمائے الہى ميں الحاد كرتے ہيں اور انھيں اپنى جگہ پر نہيں ركھتے

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۱،۲،۳; اللہ تعالى كا كمال ۲، ۴،۶،۸; اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۲،۴،۵ ، ۶ ; اللہ تعالى كا نام ركھنے كى شرائط۷،۸،۱۰; اللہ تعالى كى تنقيص كى سزا ۱۰;اللہ تعالى كى تنقيص كے آثار ۱۱; اللہ تعالى كى تنقيص كرنيوالوں سے روگردانى ۵; اللہ تعالى كى توصيف كى شرائط ۷،۸; اللہ تعالى كى سزائیں ۱۲; اللہ تعالى كے اسمائے حسني۱; اللہ تعالى كے اسماء ميں الحاد ۹ ; اللہ تعالى كے نامناسب نام ركھنا۱۰

انحراف:انحراف كے مواقع ۷، ۹

ترغيب دلانا :ترغيب دلانے كے اسباب ۶

ايمان:ايمان كے اثرات ۶

حمد:حمد كے اسباب ۶

ذكر:ذكر خدا، ۷ عبادت:عبادت كے اسباب ۶

عمل:ناپسنديدہ عمل كى سزا ،۱۲;ناپسنديدہ عمل كے علل و اسباب ۱۱

كمال:كمال مطلق ۳

كيفر (سزا):كيفر كے اسباب ۱۰

گناہگار:گناہگاروں كى سزا، ۱۲

مناجات:

____________________

۱_ توحيد صدوق، ص ۳۲۴ ح ۱، ب۰ ۵; نورالثقلين ج/۲ ص ۱۰۴ ح ۳۷۶_

۳۸۴

اہميت مناجات ۴;مناجات كرنے كے آداب ۴

موجودات:موجودات كا نقص ۳

نام:بہترين نام ،۱نام ركھنا:نام خدا كے ساتھ نام ركھنا ۹

نظام جزا و سزا: ۱۲

آیت ۱۸۱

( وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ )

اور ہمارى مخلوقات ہى ميں سے وہ قوم بھى ہے جوحق كے ساتھ ہدايت كرتى ہے اور حق ہى كے ساتھ انصاف كرتى ہے(۱۸۱)

۱_ انسانوں اور جنات ميں سے بعض ہدايت كرنے والے اور عدل و انصاف سے كام لينے والے ہيں _

و ممن خلقنا أمة يهدون بالحق و به يعدلون

مندرجہ بالا مفہوم آيت كے ظاہر سے اخذ كيا گيا ہے كہ انسانوں اور جنات كے درميان اس قسم كے افراد بھى موجود ہيں ، اس بناء پر توجہ رہے كہ ہدايت كرنے والے افراد (ہميشہ) حق كے ساتھ سمجھے جاتے ہيں _ لہذا اس سے پتہ چلتاہے كہ يہاں وہ ہدايت كرنے والے افراد مراد ہيں كہ جو خداوند كى جانب سے، لوگوں كى ہدايت كيلئے منتخب كيے گئے ہيں اور يہ بھى قابل ذكر ہے كہ ''ممن خلقنا'' سے مراد آيت ۱۷۹ كے مطابق، انسان اور جنات ہيں _

۲_ معاشروں ميں الہى ہادى و راہنما، خود بھى ہميشہ حق و حقيقت كے ساتھ رہتے ہيں _و ممن خلقنا ا مة يهدون بالحق

مندرجہ بالا مفہوم اس احتمال پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''بالحق'' ميں ''باء'' مصاحبت كيلئے ہو، يعني: يھدون مصاحبين الحق

۳_ الہى راہنما حق پر مبنى طريقوں اور وسائل كے ساتھ دوسروں كى ہدايت و رہنمائی كرتے ہيں نہ كہ باطل وسائل سے_

و ممن خلقنا أمة يهدون بالحق

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''بالحق'' ميں ''باء'' بائے استعانت ہو_

۴_ عدالت پيشہ افراد ہميشہ حق كو اپنى قضاوت كا ميزان قرار ديتے ہيں اور اسى كى بنياد پر فيصلے كرتے ہيں _و به يعدلون

''بہ'' ''يعدلون'' سے متعلق ہے اور اس ميں ''باء'' بائے استعانت ہے _

۳۸۵

۵_ انسانوں اور جنات ميں سے ايك گروہ كو اپنے ہم نوع افراد كى ہدايت و رہنمائی كى ذمہ دارى اٹھانى چاہيئے اور ان كے درميان عدالت و انصاف قائم كرنا چاہيئے_وممن خلقنا أمة يهدون بالحق و به يعدلون

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''يهدون' ' اور ''يعدلون'' جيسے جملات، انشاء كى صورت ميں بيان كيے گئے ہوں ، اس بناء پر آيہء شريفہ انسانوں اور جنات كيلئے ايك حكم و دستور كى حامل ہے كہ ان ميں سے ايك گروہ كو چاہيئے كہ وہ ہدايت و راہنمائی كرنے اور عدل و انصاف قائم كرنے كى ذمہ دارى اٹھائے_

۶_ معاشرے ميں ہدايت و راہنمائی كے ذمہ دار افراد كو چاہيئے وہ ہميشہ حق كے ساتھ رہيں اور حق كى بنيادوں پر دوسروں كى ہدايت كريں _و ممن خلقنا أمة يهدون بالحق

باطل:باطل سے استفادہ ۳

جنات:عادل جنات۱ ;ہدايت كرنے والے جنات ۱،۵

حسن عقلي: ۴عدالت پيشہ افراد: ۱عدالت پيشہ افراد كى قضاوت ۴

قضاوت:حق پر مبنى قضاوت ۴;قضاوت ميں عدالت كرنا ۵

ہادى و راہنما افراد:ہادى افراد كى صفات ۲;ہادى افراد كى مسؤليت ۶; ہدايت كرنے والوں كى حق طلبى ۲، ۶

ہدايت:ہدايت كا طريقہ ۳، ۶;ہدايت كے وسائل ۳ہدايت كرنے والے: ۱،۵

آیت ۱۸۲

( وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور جن لوگوں نے ہمارى آيات كى تكذيب كى ہم انھيں عنقريب اس طرح لپيٹ ليں گے كہانھيں معلوم بھى نہ ہوگا(۱۸۲)

۱_ خداوند اپنى آيات كے جھٹلانے والوں كو تدريجاً ہلاكت و پستى كى جانب لے جاتاہے تا كہ دوزخ ميں جانے كے قابل ہوجائیں _والذين كذبوا بايا تنا سنستدرجهم من حيث لا يعلمون

''استدرجہ الى كذا'' يعنى اسے درجہ بدرجہ

۳۸۶

اور قدم بہ قدم كسى چيز كے نزديك كيا گيا_ آيت ۱۷۹ كے مطابق ''سنستدرجهم' ' كا متعلق، جہنم ہے، يعنى ہم جھٹلانے والے افراد كو بتدريج جہنم كے نزديك كرتے ہيں _

۲_ خداوند بغير كسى تنبيہ كے، غافل كرنے والے عوامل (رفاہ و آساءش و غيرہ) كے ذريعے، آيات الہى كے جھٹلانے والوں كوپستى و ہلاكت كى جانب لے جاتاہے_سنستدرجهم من حيث لا يعلمون

۳_ پستى و ہلاكت كى جانب جانے والے، اپنى ہلاكت و انحطاط كے پرفريب عوامل سے ناآگاہ و غافل ہوتے ہيں _

سنستدرجهم من حيث لا يعلمون

۴_سماعة بن مهران قال: سألت أبا عبد الله عليه‌السلام عن قول اللّه عزوجل: ''سنستدرجهم من حيث لا يعلمون'' قال: هو العبد يذنب الذنب فتجدد له النعمة معه تلهيه تلك النعمة عن الاستغفار من ذلك الذنب (۱)

سماعہ بن مھران كہتے ہيں كہ ميں نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے آيت ''سنستدرجهم '' كے

بارے ميں پوچھا: آپعليه‌السلام نے فرمايا: آيت ميں استدراج سے مراد يہ ہے كہ كوئي بندہ خدا، گناہ كرے اور اس كے بعد اسے ايك نئي نعمت دى جائیے اور وہ اس ميں مشغول ہوجائیے_ اور (اپنے سابقہ) گناہ سے استغفار و توبہ نہ كرے_

آيات خدا:آيت الہى كے مكذبين كى آساءش۲;آيات الہى كے مكذبين كى رفاہ ۲; آيات الہى كے مكذبين كى سزا، ۱، ۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كے افعال ۱، ۲;سنن الہي،۱، ۲

انحطاط:عوامل انحطاط ۱، ۲;عوامل انحطاط سے غفلت و جہالت ۳

جہنم:جہنم كے اسباب;۱

سنت:استدراج (تدريجاً عذاب كے نزديك كرنے) كى سنت ۱، ۲

____________________

۱)كافى ج/۲ ص ۴۵۲ ح ۳; نورالثقلين ج/۲ ص ۱۰۶ ح ۳۸۸

۳۸۷

آیت ۱۸۳

( وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ )

اور ہم تو انھيں ڈھيل دے رہے ہيں كہ ہمارى تدبير بہت مستحكم ہوتى ہے(۱۸۳)

۱_ (آيات الہى كو) جھٹلانے والے كفر پيشہ افراد كو مہلت دينا اور ان كے عذاب و ہلاكت ميں تاخير كرنا، سنت خداوند ہے_و أملى لهم إن كيدى متين

(مادہ ملاوة سے املى كا مصدر) املاء ہے جس كا معنى مہلت دينا اور تاخير كرنا ہے يہ كہ بيان شدہ حقيقت (مہلت دينا اور تاخير ميں ڈالنا) آيات الہى كو جھٹلانے والوں كے بارے ميں ہے اس سے پتہ چلتاہے كہ تاخير سے مراد، عذاب ميں تاخير كرناہے_

۲_ آيات الہى كو جھٹلانے والے، خداوند كى جانب سے عذاب كے حقدار ہيں _و أملى لهم

مہلت دينا اور عذاب كو تاخير ميں ڈالنا، اس وقت درست ہے كہ جب عذاب كا استحقاق، بالفعل موجود ہو_

۳_ خداوند كى آيات كو جھٹلانے والے، خداوند كے مكر و كيد (تدبير) ميں مبتلا ہوجائیں گے_إن كيدى متين

۴_ تكذيب كرنے والوں كے عذاب ميں تاخير كرنا اور انھيں غفلت زدہ اور پرفريب عوامل كے ساتھ درجہ بدرجہ ہلاكت و پستى كے مقام تك لے جانا ہى ان كے بارے ميں خداوند كا مكر و كيد (تدبير) ہے_

سنستدرجهم ...و أملى لهم إن كيدى متين

''كيد'' سے مراد وہى استدراج اور مہلت ديناہے كہ جسے گزشتہ آيت ميں ذكر كيا گيا ہے_

۵_ تكذيب كرنے والے كفر پيشہ افراد كو، خداوند كا مہلت دينا، ان كے عذاب ميں اضافے كا پيش خيمہ ہے_

و أملى لهم إن كيدى متين

چونكہ امھال (مہلت دينا) ''كيد'' كے عنوان سے ذكر ہوا ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہاں مہلت دينا، عذاب ميں اضافہ كرنے كيلئے ہے_

۶_ خداوند كا مكر و كيد (تدبير) مضبوط اور ناقابل شكست ہے_

۳۸۸

إن كيدى متين

''متين'' كا معني، محكم و استوار ہے _

آيات خدا:آيات خدا كے مكذبين كا مبتلا ہونا ۳;آيات خدا كے مكذبين كو مہلت ۱، ۴، ۵;آيات خدا كے مكذبين كى سزا ،۱، ۲، ۳

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا مہلت دينا۵; اللہ تعالى كى تدبير ۳،۴،

۵; اللہ تعالى كى طرف سے ديے گئے عذاب۲; سنن الہى ۱،۴

سنت:سنت استدراج ۴;مہلت كى سنت ،۱

عذاب:اہل عذاب ۲، ۵;عذاب ميں تاخير ۱، ۴ ;عذاب ميں زيادتى كا پيش خيمہ ۵;موجبات عذاب ۲

كفار:كفار كو مہلت ۱، ۵;كفار كى سزا، ۱

آیت ۱۸۴

( أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُواْ مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذِيرٌ مُّبِينٌ )

اور كيا ان لوگوں نے يہ غور نہيں كيا كہ ان كے ساتھ پيغمبر ميں كسى طرح كا جنون نہيں ہے_ وہ صرف واضح طور سے عذاب الہى سے ڈرانے والا ہے(۱۸۴)

۱_ زمانہء بعثت كے كفار، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم كو توحيد و معاد كى دعوت كے سبب ايك مجنون و ديوانہ شخص سمجھتے تھے_

أو لم يتفكروا ما بصاحبهم من جنة

''جنة'' كا معنى ديوانگى ہے چونكہ بعد والى آيات ميں قيامت اور توحيد كا مسئلہ پيش كيا گيا ہے لہذا كہا جاسكتاہے كہ معارف الہى ميں سے يہ دو مسئلے (توحيد و معاد) پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جنون و ديوانگى كى تہمت لگانے كا سب سے زيادہ باعث بنے ہيں _

۲_ خداوند نے كفر پيشہ افراد كو اپنے غلط دعوى (يعنى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مجنون خيال كرنے) كے بارے ميں تفكر كى دعوت دى ہے_أو لم يتفكروا ما بصاحبهم من جنة

۳_ لوگوں كے ساتھ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى معاشرت اور اٹھنے بيٹھنے كى ياد دلاتے ہوئے، خداوند نے مشركين كو ان كے اس (بيہودہ) خيال (پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جنون كے تصور)

۳۸۹

كے بطلان سے آگاہ كيا ہے_أو لم يتفكروا ما بصاحبهم من جنة

كلمہ ''صاحب'' كا استعمال اور پھر اس كے ساتھ ضمير كا اضافہ (صاحبھم يعنى ان كا ہم نشين) اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ اس ميں غور و فكر كرنا ہى مشركين كے اس دعوى كے بطلان كيلئے كافى ہے_ يعنى آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہميشہ ان كے ساتھ اٹھتے بيٹھتے رہے ہيں _ اگرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں جنون و ديوانگى كا ذرا بھر اثر بھى ہوتا تو ظاہر ہوجاتا_

۴_ عصر بعثت كے لوگوں كے پاس، كوئي ايسى دليل نہيں تھى كہ جو پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں كسى قسم كے جنون كى حكايت كرتي_

ما بصاحبهم من جنة

۵_ حقائق تك پہنچنے كا بہترين طريقہ، تفكر ہے_أو لم يتفكروا

۶_ تفكر كى بنياد پر دينى اعتقادات و نظريات كو استوار كرنے كى ضرورت_أو لم يتفكروا

۷_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائی صراحت اور وضاحت كے ساتھ كفار كيلئے آيات كى تكذيب كے خطرات بيان فرماتے تھے_

إن هو إلا نذير مبين

۸_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے منصبى فرائض اور ذمہ داريوں ميں سے ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں كو برے انجام سے ڈرائیں اور انذار كريں _إن هو إلا نذير مبين

آيات خدا:آيات خدا كى تكذيب كے اثرات ۷

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى دعوت ۲

انجام:برا انجام ۸

تفكر:تفكر كى اہميت ۵، ۶ ;تفكر كى دعوت ۲;تفكر كے اثرات ۵

حقائق:حقائق معلوم كرنے كے وسائل ۵

عقيدہ:عقيدے كے فكرى مبانى ۶

كفار:صدر اسلام كے كفار ۱;كفار اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱، ۲ ; كفار كا دعوى ۲;كفار كى مسؤليت ۲

لوگ:لوگوں كو انذار (ڈرانا) ۸

۳۹۰

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرجنون كى تہمت ۱، ۲، ۳ ;تاريخ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳، ۴ ;تبليغ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۷;دعوت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،۱;صدر اسلام اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳، ۴ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور جنون ۴;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور كفار ۷;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مسؤليت ۸ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے انذار ۸

مشركين:مشركين اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳

معاد:معاد كى طرف دعوت ۱

آیت ۱۸۵

( أَوَلَمْ يَنظُرُواْ فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَى أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ )

اور كيا ان لوگوں نے زمين و آسمان كى حكومت اور خدا كى تمام مخلوقات ميں غور نہيں كيا اور يہ كہ شايد ان كى اجل قريب آگئي ہو تو يہ اس كے بعد كس بات پر ايمان لے ائیں گے(۱۸۵)

۱_ آسمانوں اور زمين كا مملوك ہونا، يعنى كسى خالق كا محتاج اور ايك ہستى بخش ذات سے وابستہ موجودات ميں سے ہونا_أو لم ينظروا فى ملكوت السموت والأرض

''ملكوت'' مصدر ہے اور اپنے نائب فاعل (السموات والأرض ) كى طرف مضاف ہے يعنى آيہء شريفہ ميں ''ملكوت'' مصدر مجہول ہے_ بنابراين ملكوت السموات، يعنى آسمانوں كا مملوك ہونا_ قابل ذكر ہے كہ يہاں مملوكيت سے مراد، حقيقى و تكوينى مملوكيت ہے يعنى وجودى وابستگى مراد ہے_

۲_ عالم خلقت ميں موجود ہر شيء مملوك ہے اور وجود حاصل كرنے ميں اپنے خالق كى محتاج ہے_

أو لم ينظروا فى ملكوت ...و ما خلق اللّه من شيئ

''ما خلق اللّه'' ''السموات'' پر عطف ہے يعنى ''او لم ينظروا فى ملكوت ما خلق الله '' اور''من شيئ'' ''ما خلق الله '' ميں موجود ''ما'' كيلئے بيان ہے_

۳_ خداوند نے لوگوں كو دعوت دى ہے كہ وہ عالم خلقت كے وابستہ ہونے اور ہميشہ ايك ہستى بخش ذات كا

۳۹۱

محتاج ہونے ميں غور و فكر اور تأمل كريں _أو لم ينظروا فى ملكوت السموات والأرض و ما خلق اللّه من شيئ

۴_ ايك ہستى بخش مالك كى طرف موجودات كائنات كى وابستگى و احتياج ميں غور و فكر، كائنات پر خداوند يكتا كى حاكميت مطلق كى طرف انسان كى ہدايت و راہنمائی كرتاہے_أو لم ينظروا فى ملكوت السموات والأرض و ما خلق اللّه من شيئ

چونكہ اس كلام كے مخاطب مشركين ہيں _ اس سے ظاہر ہوتاہے كہ آسمانوں اور زمين كے ملكوت ميں انھيں غور و فكر كرنے كى دعوت دينے كا مقصد، انھيں خدا كى حاكميت مطلق كى جانب لے جاناہے_

۵_ عالم خلقت ميں متعدد آسمانوں كا موجود ہونا_أو لم ينظروا فى ملكوت السموات

۶_ كفار، معارف الہى (توحيد، قيامت و غيرہ) كى حقيقت جاننے كيلئے، كائنات كے ملكوتى پہلو ميں غور و فكر نہ كرنے كى وجہ سے سرزنش و ملامت كے مستحق ہيں _أو لم ينظروا فى ملكوت السموات والأرض و ما خلق اللّه من شيئ

جملہ''أو لم ينظروا ...'' ميں استفہام، انكار توبيخى ہے _

۷_ خداوند تمام موجودات كا خالق اور ان پر مكمل سلطنت و حكومت ركھتاہے_

أو لم ينظروا فى ملكوت ...ما خلق اللّه من شيئ

۸_ خداوند نے كفر پيشہ معاشروں كو دعوت دى ہے كہ وہ اپنى موت و ہلاكت كے قريب الوقوع ہونے ميں غور و فكر كريں _

أو لم ينظروا في ...أن عسى أن يكون قد اقترب أجلهم

۹_ زندگى كے ختم ہوجانے اور موت كے قريب ہونے كى طرف توجہ، انسان ميں حق اور معارف دين (توحيد، نبوت و قيامت) كے انكار سے بچنے كى آمادگى پيدا كرتى ہے_إن هو إلا نذير مبين ...و أن عسى أن يكون قد اقترب أجلهم

۱۰_ جو لوگ قرآن اور اس كے پيام پر ايمان نہيں لاتے، وہ كسى دوسرے ہدايت بخش كلام پر بھى ايمان نہيں لائیں گے_فبأى حديث بعده يؤمنون

مندرجہ بالا مفہوم دو چيزوں پر مبنى ہے (اول) ''بعدہ'' كى ضمير قرآن كى طرف پلٹائی جائیے (دوم) ''بأي'' كا حرف ''باء'' الصاق كيلئے ہو_ يعنى اگر وہ قرآن پر ايمان نہيں لاتے تو كون سے كلام پر ايمان لائیں گے؟

۱۱_ قرآن اور اس كا پيام، معارف الہى (توحيد و قيامت و غيرہ) پر ايمان لانے كا بہترين وسيلہ ہے_فبأى حديث بعده يؤمنون

۳۹۲

مندرجہ بالا مفہوم ميں ''بعدہ'' كى ضمير قرآن كى طرف پلٹائی گئي ہے اور ''فبأي'' ميں ''باء'' كو سببيہ قرار ديا گيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ اس صورت ميں ''يؤمنون '' كا متعلق ''معارف الہي'' ہوگا_ يعنى وہ لوگ اگر قرآن كے ذريعے توحيد و غيرہ پر ايمان نہيں لاتے تو اور كس چيز كے ذريعے ايمان لائیں گے؟

۱۲_ قرآن، ہدايت كيلئے بہترين كلام اور ايمان لانے كيلئے مناسب ترين پيام ہے_فبأى حديث بعده يؤمنون

۱۳_ آسمانوں و زمين اور دوسرى مخلوقات ميں غور و فكر اور دقت، خداوند يكتا اور روز قيامت پر ايمان لانے كا بہترين وسيلہ ہے_فبأى حديث بعده يؤمنون مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر ہے كہ ''بعدہ'' كى ضمير اس استدلال كى طرف پلٹائی جائیے كہ جو ''أو لم ينظروا'' سے سمجھا گيا ہے_ اس بناء پر ''بأي'' ميں ''با'' سببيہ ہے_ يعنى اگر عالم خلقت، اپنے خالق كا محتاج ہونے كے لحاظ سے انسان كو خداوند پر ايمان لانے پر آمادہ نہيں كرسكتا تو اور كون سى دليل ہے كہ جو اسے ثابت كرسكتى ہے؟

۱۴_ جو لوگ آسمانوں اور زمين كے ملكوت (يعنى مالك اور ہستى بخش ذات كى جانب كائنات كے محتاج ہونے) ميں غور و فكر كے ذريعے، ہدايت حاصل نہيں كرتے وہ كسى اور دليل سے بھى ہدايت حاصل نہيں كرسكيں گے_

فبأى حديث بعده يؤمنونگزشتہ مفہوم كى جو وضاحت ہے وہى اس مفہوم ميں بھى ہے (يعنى ''بعدہ'' كى ضمير كا مرجع وہ استدلال ہے جو ''أو لم ينظروا'' سے سمجھا گيا ہے اور ''بأي'' كا ''با'' سببيہ ہے_

آسمان:تعدد آسمان ۵;مالك آسمان ،۱;وابستگى آسمان،۱

آفرينش:آفرينش كا حاكم ۷ ;آفرينش كى احتياج ۳، ۱۴ ; آفرينش و خلقت كا وابستہ ہونا ۳; خالق آفرينش ۱۴;خلقت و آفرينش ميں تفكر ۳; مالك آفرينش ۴، ۱۴

اللہ :اللہ تعالى كى حاكميت ۴،۷; اللہ تعالى كى خالقيت ۷; اللہ تعالى كى دعوت ۸; اللہ تعالى كى مالكيت ۴

ايمان:انبياء پر ايمان كاسبب ۹;توحيد پر ايمان كا سبب ۹

توحيد پر ايمان كے عوامل ۱۱;خدا پر ايمان كے عوامل ۱۳;دين پر ايمان كے عوامل ۱۱;قرآن پر ايمان كے عوامل ۱۲;قيامت پر ايمان كا سبب ۹; قيامت پر ايمان كے عوامل ۱۱، ۱۳

۳۹۳

تفكر:تفكر سے خالى افراد ۶;تفكر كے آثار ۶، ۱۳;ملكوت آسمان ميں تفكر ۱۳، ۱۴;ملكوت زمين ميں تفكر ۱۳، ۱۴;ملكوت موجودات ميں تفكر ۱۳;موجودات ميں تفكر ۴

حق:حق كو قبول كرنے كى راہ ہموار ہونا ۹

دين:فہم دين كے موانع ۶

ذكر:موت كا ذكر ۸;موت كے ذكر كے اثرات ۹

زمين:زمين كا مالك،۱ ;زمين كا وابستہ ہونا ،۱

قرآن:قرآن سے كفر اختيار كرنے والے ۱۰;قرآن كا كردار ۱۱، ۱۲;قرآن كى خصوصيت ۱۲

كفار:كفار كى خصوصيت ۶;كفار كى مذمت ۶

كفر:قرآن سے كفر كے اثرات ۱۰

معاشرہ:كافر معاشروں كى موت ۸

موجودات:ملكوت موجودات ميں تفكر ۱۳;موجودات كا خالق ۷;موجودات كا مالك ۲;موجودات كا وابستہ ہونا ۴;موجودات كى احتياج ۲; موجودات كے ملكوت ۶

ہدايت:ناقابل ہدايت ۱۰، ۱۴;ہدايت كے عوامل ۴، ۱۲، ۱۴;ہدايت كے موانع ۱۴

آیت ۱۸۶

( مَن يُضْلِلِ اللّهُ فَلاَ هَادِيَ لَهُ وَيَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ )

جسے خدا ہى گمراہى ميں چھوڑ دے اس كا كوئي ہدايت كرنے والا نہيں ہے اور وہ انھيں سركشى ميں چھوڑ ديتا ہے كہ تھو كريں كھا تے پھريں (۱۸۶)

۱_ لوگوں كى ہدايت اور ضلالت، خداوند كے اختيار اور ہاتھوں ميں ہے_من يضلل اللّه فلا هادى له

۲_ جن كو خداوند، ضلالت و گمراہى ميں ڈال دے پھر كوئي بھى ان كى ہدايت كرنے پر قادر نہيں _من يضلل اللّه فلا هادى له

۳۹۴

۳_ قرآن اور اس كے پيغامات كا انكار كرناہي، خداوند كے ہاتھوں انسان كا گمراہ ہوناہے_

فبأى حديث بعده يؤمنون _ من يضلل اللّه فلا هادى له

۴_ ہدايت كرنے والوں كى ہدايت كى تاثير، مشيت خداوند سے وابستہ ہے_فلا هادى له

جملہء ''من يضلل ...'' جملہ ''فبأى حديث ...'' كا بيان اور وضاحت ہے يعنى بعض انسانوں كيلئے قرآن كے ہدايت نہ بن سكنے كى وجہ يہ ہے كہ خداوند نے انھيں گمراہ كرديا ہے اور ان ميں قرآن كى ہدايت كو قبول كرنے كى صلاحيت كو ختم كرڈالاہے_ بنابرايں ہر ہدايت كرنے والے كى ہدايت كا مؤثر ہونا خداوند كى مشيت سے وابستہ ہے_

۵_ قرآن سے كفر اور اس كے معارف سے انكار، سركشى اور ظلم ہے_و يذرهم فى طغى نهم يعمهون

''يذرھم'' اور'' طغيانھم'' ميں ''ھم'' كى ضمير كا مرجع، منكرين قرآن ہيں كہ جو جملہ ''فبأى حديث'' سے ظاہر ہوتى ہے_ بنابراين ''طغيان'' سے مراد انكار قرآن ہے_

۶_ خداوند، منكرين قرآن كو اپنى سركشى و انكار كى حالت ميں (كھلا) چھوڑ ديتاہے_و يذرهم فى طغى نهم

۷_ قرآن كے منكر كفار، ہميشہ گمراہى و سركشى كى وادى ميں سرگردان و حيران رہنے والے لوگ ہيں _

و يذرهم فى طغى نهم يعمهون

اس مفہوم ميں ''فى طغيانھم'' كو ''يعمھون'' كے متعلق لايا گيا ہے ''عَمَہ'' (يعمھون كا مصدر ہے) جس كا معنى تحيّر و سرگردانى ہے_

۸_ قرآن كے منكر، كفر پيشہ افراد كيلئے، تحير و سرگردانى سے نكلنے كا كوئي راستہ نہيں _و يذرهم فى طغى نهم يعمهون

اگر ''فى طغيانھم''''يعمهون'' سے متعلق ہو تو جملہ''يذرهم '' كا معنى يہ ہوجاتا ہے كہ ''خداوند قرآن كے منكرين كو كھلا چھوڑ ديتاہے تا كہ سركشى و طغيان كى وادى ميں سرگردان رہيں _

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا اضلال ۱،۲،۳: اللہ تعالى كى مشيت ۴: اللہ تعالى كے اختيارات۱

تحيّر:تحير و سرگردانى سے نجات كے موانع ۸

جبر و اختيار: ۱، ۲

طغيان:طغيان و سركشى كے مواقع ۵

۳۹۵

قرآن:تكذيب قرآن ۳، ۵;تكذيب قرآن كے اثرات ۶;مكذبين قرآن كا كفر ۷، ۸ ; مكذبين قرآن كى سركشى ۶، ۷ ;مكذبين قرآن كى سرگردانى ۶، ۷، ۸;مكذبين قرآن كى گمراہى ۷

كفر:قرآن سے كفر ۵، ۷

گمراہي:گمراہى كا منشاء ۱، ۲;گمراہى كى نشانياں ۳

ہدايت:تاثير ہدايت كى شرائط ۴;منشاء ہدايت۱ ;موانع ہدايت ۲

۳۹۶

آیت ۱۸۷

( يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي لاَ يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَةً يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللّهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ )

پيغمبر يہ آپ سے قيامت كے بارے ميں سوال كرتے ہيں كہ اس كا ٹھكانا كب ہے تو كہہ ديجئے كہ اس كا علم ميرے پروردگار كے پاس ہے وہى اس كو بر وقت ظاہر كرے گا يہ قيامت زمين و آسمان دونوں كے لئے بہت گراں ہے اور تمھارے پاس اچانك آنے والى ہے يہ لوگ آپ سے اس طرح سوال كرتے ہيں گويا آپ كو اس كى مكمل فكر ہے تو كہہ ديجئے كہ اس علم اللہ كے پاس ہے ليكن اكثر لوگوں كو اس كا علم بھى نہيں ہے(۱۸۷)

۱_ لوگوں كا پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قيامت كے وقت كے بارے ميں بار بار پوچھنا_يسئلونك عن الساعة أيان مرسها

''مرسى '' ''ارساء'' سے مصدر ميمى يا اسم زمان ہے يعنى مستقر كرنا ''أيان'' وہ كلمہ كہ جس كے ذريعے زمان كے بارے ميں سوال كرتے ہيں (يعنى كس وقت) يہاں فعل مضارع ''يسئلون '' كا استعمال، تكرار سوال كو ظاہر كررہاہے_

۲_ قيامت كے برپا ہونے كا وقت ،فقط خداوند كے علم ميں ہے_قل إنما علمها عند ربي ...قل إنما علمها عند اللّه

۳_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فريضہ ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قيامت كے آنے كے وقت سے اپنى عدم آگاہى كا اعلان كرديں _

قل إنما علمها عند ربي

۴_ فقط خداوند كى ذات، قيامت كے وقت كو آشكار كرنے كى طاقت ركھتى ہے_لا يجليها لوقتها إلا هو

''يجلي'' كا مصدر ''تجليہ'' ہے جس كا معنى اظہار كرنا اور آشكار كرنا ہے_

۳۹۷

۵_ منظر ہستى ميں قيامت كا بالفعل موجود ہونا_ *لا يجليها لوقتها الا هو

مندرجہ بالا مفہوم (يجليھا يعنى آشكار و ظاہر كرتاہے) سے استفادہ كيا گيا ہے اور كلمہ ''مرسھا'' ہوسكتاہے اس مفہوم كا مؤيد ہو چونكہ ''مرسى '' كا معنى مستقر ہونا يا استقرار كا وقت ہے نہ كہ متحقق ہونے اور پورا ہوجانے كے معنى ميں ہے_

۶_ قيامت كا ايك معين و مشخص وقت پر برپا و ظاہر ہونا_لا يجليها لوقتها إلا هو

۷_ قيامت برپا ہونے كا وقت، آسمانوں اور زمين كيلئے انتہائی دشوار اور بھارى وقت ہوگا_ثقلت فى السموات والأرض

''ثقلت'' كا حرف ''في'' كے ساتھ متعدى ہونا نہ حرف ''علي'' كے ساتھ ظاہر كرتا ہے كہ جو كچھ قيامت كے برپا ہونے كے وقت آسمانوں اور زمين ميں واقع ہوگا، انتہائی عظيم حادثہ ہوگا كہ جس كا تحمل كرنا آسمانوں اور زمين كيلئے دشوار ہوگا_

۸_ قيامت كا برپا ہونا، عالم خلقت كے اہم ترين واقعات ميں سے ہے_ثقلت فى السموات والأرض

۹_ قيامت، اچانك اور انسانوں كى غفلت و بے خبرى كے عالم ميں واقع ہوگي_لا تأتيكم إلا بغتة

مندرجہ بالا مفہوم كلمہ ''بغتة'' كو ديكھتے ہوئے اخذ كيا گيا ہے كہ جس كا معنى اچانك و ناگہانى طور پر اور بغير اطلاع كے حملہ كرنا ہے_

۱۰_ قيامت كے واقع ہونے كے وقت كے بارے ميں حتى احتمالى صورت ميں بھى انسانى علم كسى قسم كى پيشگوئي كرنے سے عاجز و ناتوان ہے_لا تأتيكم إلا بغتة

فقط اس صورت ميں كہا جاسكتاہے كہ كوئي چيز ناگہانى طور پر اور بغير اطلاع كے واقع ہوئي ہے كہ جب انسان اس كے وقوع كے وقت كو حتى احتمال و گمان كى صورت ميں بھى اپنے ذہن ميں نہ لايا ہو_

۱۱_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كے تصور كے برعكس (كبھى بھي) وقوع قيامت كے وقت سے آگاہ ہونے پر اصرار نہيں كيا اور نہ اس كو جاننے كى كوشش كى ہے_يسئلونك كأنك حفى عنها

۳۹۸

''حفى بہ'' يعنى اس نے جستجو كى اور اس كے بارے ميں زيادہ سؤال كيئے_ چونكہ آيہء شريفہ ميں كلمہ ''حفي'' ''عن'' كے ساتھ متعدى ہوا ہے، لہذا كشف كرنے كا معنى بھى ديتاہے، يعنى''كانك حفى بها مستكشفا عنها'' گويا تم نے پوچھا ہے اور اس كے كشف كرنے پر آمادہ ہوگئے ہو_

۱۲_ زمانہ بعثت كے لوگوں كا گمان تھا كہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وقوع قيامت كے وقت سے آگاہ ہيں _ لہذا بار بار سؤال كركے وہ اس (راز) كو افشاء كرنا چاہتے تھے_يسئلونك كأنك حفى عنها

۱۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں كے تصور كے برعكس، قيامت بر پا ہونے كے وقت سے آگاہ نہيں تھے_

يسئلونك كانك حفى عنها

''حفى عنھا'' زيادہ سوال كيئے جانے اور قيامت كے وقت كو كشف كرنے كيلئے كوشش و جستجو پر دلالت كرتاہے اوريہ ''يسئلونك'' كے قرينے سے آگاہى پر بھى ايك قسم كا كنايہ ہے_ يعنى وہ لوگ گمان كرتے تھے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قيامت كے وقت كے بارے ميں (خداوند سے) پوچھا ہے اور اس سے آگاہ ہوچكے ہيں _

۱۴_ عام لوگ نہيں جانتے كہ قيامت كے وقت سے فقط خداوند آگاہ ہے_و لكن أكثر الناس لا يعلمون

''لا يعلمون'' كا مفعول وہ معنى ہے كہ جو ''إنما علمھا ...'' سے اخذ ہوتاہے_

۱۵_ علم قيامت كا خداوند ميں منحصر ہونا، خود ايك ايسا علم ہے كہ جس سے فقط كچھ لوگ ہى آگاہ ہوسكيں گے_

إنما علمها عند اللّه و لكن أكثر الناس لا يعلمون

آفرينش:آفرينش و خلقت ميں اہم ترين تحول ۸

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۲، ۴، ۱۴، ۱۵;اللہ تعالى كا علم ۱۴، ۱۵

انسان:انسان كے علم كى محدوديت ۱۰

قرآن:قرآن كا منحصر بہ فرد علم، ۲

قيامت:قيامت برپا ہونے كا وقت ۳، ۶، ۱۰;قيامت كا اچانك ہونا ۹; قيامت كا بالفعل ہونا ۵;قيامت كا برپا ہونا ۷، ۸، ۹;قيامت كا دن اور زمين ۷; قيامت كى برپائی سے آگاہى ۲، ۴، ۱۰، ۱۱، ۱۳، ۱۴، ۱۵; قيامت كے دن آسمان ۷;قيامت كے وقوع كے بارے ميں سوال ۱، ۱۲

لوگ: صدر اسلام كے لوگوں كے سوال ۱۲;لوگوں كى جہالت ۱۴

۳۹۹

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :علم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى محدوديت ۳، ۱۳;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قيامت كا برپا ہونا ۱۱، ۱۳;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سؤال ۱، ۲;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا كردار، ۱; مسؤليت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳

آیت ۱۸۸

( قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلاَ ضَرّاً إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ )

آپ كہہ ديجئے كہ ميں خود بھى اپنے نفس كے نفع و نقصان كا اختيار نہيں ركھتا ہوں مگر جو خدا چاہے اور اگر ميں غيب سے باخبر ہوتا تو بہت زيادہ خير انجام ديتا اور كوئي برائی مجھ تك نہ آسكتي_ ميں تو صرف صاحبان ايمان كے لئے بشارت دينے والا اور عذاب الہى سے ڈرنے والا ہوں (۱۸۸)

۱_ تمام انسان حتى انبيائے كرامعليه‌السلام ، سوائے مشيت خداوند كے سائے كے نہ تو نفع حاصل كرنے پر قادر ہيں اور نہ ضرر و نقصان سے بچنے كى توانائی ركھتے ہيں _قل لا أملك لنفسى نفعا و لا ضراً إلا ما شاء الله

''ملك'' كا معنى توانائی اور قدرت ركھنا ہے_ كلمہ ''لنفسي'' ہوسكتاہے اس بات پر قرينہ ہوكہ نفع و منفعت پر توانائی سے مراد نفع حاصل كرنے پر قدرت ہے اور ضرر پر تمكن سے مراد ضرر و نقصان سے بچنے كى توانائی ہے_

۲_ تمام انسان، مشيت الہى كى صورت ميں نفع حاصل كرنے اور ضرر و نقصان كو دفع كرنے پر قادر ہونگے_

قل لا أملك لنفسى نفعا و لا ضراً إلا ماشاء الله

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب''إلا ما شاء الله '' ميں ''ما موصولہ سے مراد نفع و ضرر پر تمكن و اختيار ہو، اس بنياد پر يہاں استثناء، استثنائے متصل ہے اور آيت كا معنى يہ ہوجائیے گا_ كہ ميں اپنے نفع و نقصان پر قادر نہيں ہوں مگر يہ كہ خداوند مجھے قدرت و طاقت عطا فرمائے_

۳_ فقط وہ نفع و نقصان متحقق ہوتاہے كہ جس پر مشيت الہى صادر ہوجائیے_

لا أملك لنفسى نفعا و لا ضرا إلا ماشاء الله

يہ مفہوم اس بناء پر ہے كہ جب ''إلا ماشاء الله '' ميں ''ما'' سے مراد نفع و نقصان ہو نہ كہ اس پر تمكن و قدرت اس مبنى كى بناء پر آيت كا معنى يہ ہوگا ''ميں اپنے نفع و نقصان پر تمكن و قدرت نہيں ركھتا_ ليكن جو نفع و نقصان مشيت خداوند كے مطابق ہوگا وہ مجھے مل كررہے گا_

۴۰۰