تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 736
مشاہدے: 153393
ڈاؤنلوڈ: 3171


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153393 / ڈاؤنلوڈ: 3171
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 6

مؤلف:
اردو

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :فضائل محمد،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱، ۵ ;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا صالحين ميں سے ہونا ۵;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حمايت ۱، ۳، ۵

مشركين:مشركين كى سازش ۱، ۳، ۶;مشركين سے مبارزہ ۶

ولايت خدا كے مشمولين: ۱، ۴، ۶

آیت ۱۹۷

( وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلا أَنفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ )

اور اسے چھوڑ كر تم جنھيں پكار تے ہو وہ نہ تمھارى مدد كر سكتے ہيں اور نہ اپنے ہى كام آسكتے ہيں (۱۹۷)

۱_ بتوں كى پرستش كرنے سے مشركين كا مقصد، ان سے مدد طلب كرنا ہے_

والذين تدعون من دونه لا يستطيعون نصركم

۲_ مشركين كے معبود (بت) ہرگز ان كى مدد كرنے كى طاقت نہيں ركھتے_والذين تدعون من دونه لا يستطيعون نصركم

۳_ مشركين كے معبود (بت) حوادث كے مقابلے ميں اپنا دفاع كرنے كى قدرت نہيں ركھتے_و لا أنفسهم ينصرون

۴_ سچے اور حقيقى معبود كا معيار يہ ہے كہ وہ بندوں كى مددكرنے كى قدرت ركھتاہو_والذين تدعون من دونه لا يستطيعون نصركم

۵_ سچے اور حقيقى معبود كو ناقابل شكست اور حوادث كے ضرر و نقصان سے محفوظ ہونا چاہيئے_

والذين تدعون من دونه ...و لا ا نفسهم ينصرون

۶_ مشركين كے معبودوں (بتوں ) كا اپنے اور دوسروں كے دفاع سے عاجز اور ناتوان ہونا ہى شرك كے بطلان كى دليل ہے_و لا يستطيعون نصركم و لا أنفسهم ينصرون

۷_ فقط خداوند ہے كہ جو بندوں كى مدد كرنے اور اپنا

۴۲۱

دفاع كرنے كى قدرت ركھتاہے_والذين تدعون من دونه لا يستطيعون نصركم و لا أنفسهم ينصرون

۸_ فقط خداوند عبادت كى اہليت ركھتاہے اور پرستش كے معيار پر پورا اترتاہے_والذين تدعون من دونه لا يستطيعون

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۷،۸; اللہ تعالى كى امداد ۷; اللہ تعالى كى قدرت۷

انسان:انسان كى امداد ۷

باطل معبود:باطل معبودوں سے استمداد، ۱;باطل معبودوں كي ناتوانى ۲، ۳، ۶

بت:بتوں سے مدد طلب كرنا ۱

شرك:شرك كے بطلان كے دلائل ۶

عبادت:عبادت خدا ،۸

مشركين:مشركين كى بت پرستى كا فلسفہ۱;مشركين كے معبود ۲، ۳، ۶

معبود:سچے معبود كا معيار ۴، ۸;سچے معبود كا ناقابل شكست ہونا ۵;سچے معبود كى شرائط، ۵;سچے معبود كى قدرت ۴

آیت ۱۹۸

( وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لاَ يَسْمَعُواْ وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لاَ يُبْصِرُونَ )

اگر تم ان كو ہدايت كى دعوت دوگے تو سن بھى نہ سكيں گے اور ديكھو گے تو ايسا لگے گا جيسے تمھارى ہى طرف ديكھ رہے ہيں حالانكہ ديكھنے كے لائے بھى نہيں ہيں (۱۹۸)

۱_ مشركين كے معبود، اپنى پرستش كرنے والوں كى ہدايت كرنے سے ناتوان اور عاجز ہيں _

و إن تدعوهم إلى الهدى لا يسمعوا

''تدعوا'' ''يدعو'' سے جمع مخاطب كا صيغہ

۴۲۲

ہے اور اس ميں مشركين كو خطاب كيا گيا ہے_ ''ھدى '' مصدر ہے اور اس كا فاعل وہ ضمير ہے كہ جو گذشتہ آيت ميں''الذين تدعون'' كى طرف پلٹ رہى ہے_ اور اس كا مفعول مشركين ہيں _ بنابراين''إلى الهدى '' يعنى''إلى أن يهدوكم''

۲_ مشركين كے معبود (بت) اپنى عبادت كرنے والوں كا كلام سننے سے ناتوان اور عاجز ہيں _و إن تدعوهم ...لا يسمعوا

۳_ مشركين اپنے معبودوں (بتوں ) كيلئے، خيرہ كن (شوخ و بے حيا) آنكھيں بناتے تھے_و ترهم ينظرون إليك

''ترھم'' اور ''ينظرون'' كى غائب ضميريں ،''الذين تدعون'' كى طرف پلٹ رہى ہيں كہ جو ان (مشركين) كے معبود ہيں _

۴_ بتوں كے اندر بنائی گئي آنكھيں ، اشياء كو ديكھنے سے ناتوان ہوتى ہيں _و هم لا يبصرون جملہ''هم لا يبصرون'' كى ضمير كا مرجع''الذين تدعون'' ہے_

۵_ بتوں كے اندر آنكھيں اس طرح بنى ہوتى تھيں كہ گويا وہ اپنے مد مقابل شخص كو ديكھ رہى ہيں _

و ترهم ينظرون إاليك

''ترھم'' اور ''إليك'' كا مخاطب ہر وہ انسان ہے كہ جو بتوں كے مد مقابل ہوتا ہے '' يعنى''ترهم ايها الانسان'' ...( اے انسان جب تو انكى طرف ديكھتا ہے) اور جملہ'' و هم لا يبصرون'' ( وہ نہيں ديكھتے) اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ '' ترہم ينظرون'' سے مراد ''ترہم كأنہم ينظرون إليك '' ہے ( يعنى تم اس طرح گمان كرتے ہو كہ وہ بت تمہيں ديكھ رہے ہيں حالانكہ در حقيقت وہ تمہيں نہيں ديكھ رہے ہوتے _

۶_ بندوں كى راہنمائی اور ہدايت كرنا، معبود كے سچا ہونے كا معيار ہے_و إن تدعوهم إلى الهدى لا يسمعوا

خداوند، مشركين كے معبودوں كو اس لئے پرستش كے لائق نہيں جانتا چونكہ وہ انسانوں كى راہنمائی اور ہدايت نہيں كرسكتے_ بنابرايں ، انسانوں كى ہدايت كرنا بھى حقيقى ، سچا اور برحق معبود ہونے كے معيار ميں سے ہے_

۷_ سچے اور برحق معبود كو چاہيئے كہ وہ ديكھ بھى سكے اور سن بھى سكے_إن تدعوهم ...لا يسمعوا ...و هم لا يبصرون

۸_ مشركين كے معبودوں (بتوں ) كا حاجات پورى كرنے، كلام سننے اور اشياء كو ديكھنے سے ناتوان اور عاجز ہونا ہى غير خدا كى پرستش كے ناروا ہونے اور شرك كے بطلان كى دليل ہے_

۴۲۳

و إن تدعوهم الى الهدى لا يسمعوا ...و هم لا يبصرون

باطل معبود:باطل معبودوں كا عجز، ۱، ۲، ۴، ۸;باطل معبودوں كا مجسمہ ۳، ۴، ۵

بت:بتوں كى آنكھيں ۳، ۴، ۵;بتوں كے اعضاء ۳، ۴، ۵

شرك:بطلان شرك كے دلائل ۸;شرك عبادى كا ناپسنديدہ ہونا ۸

مشركين:مشركين كى بت پرستى ۳;مشركين كے معبود، ۱، ۲، ۳، ۸

معبود:سچے معبود كا بينا ہونا ۷;سچے معبود كا سننے كے قابل ہونا ۷ ;سچے معبود كا معيار ۶، ۷ ;سچے معبود كا ہدايت كرنا ۶

آیت ۱۹۹

( خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ )

آپ عفو كا راستہ اختيار كريں نيكى كا حكم ديں اور جاہلوں سے كنارہ كشى كريں (۱۹۹)

۱_ خداوند نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عفو كو اختيار كريں اور خطا كاروں سے درگذر كرتے رہيں _

خذ العفو

''أخذ'' ( خذكا مصدر ہے) جس كا معنى لينا اور ہاتھ سے نہ چھوڑنا ہے كہ بحث كى مناسبت سے ملتزم ہونے سے كنايہ ہے_ بنابراين ''خذ العفو'' يعنى عفو اور درگذر كرو اور اسے ہاتھ سے جانے نہ دو اور اس كے ملتزم رہو_

۲_ لوگوں كو پسنديدہ كاموں كى دعوت دينا، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرائض ميں سے ہے_و امر بالعرف

''عرف'' كا معنى معروف (پہچانا ہوا) ہے اور اس سے مراد وہ كام ہيں كہ جو شرع اور عقل كے نزديك پسنديدہ سمجھے جاتے ہيں _

۳_ خداوند نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جاہل افراد سے مدارا كريں اور ان كى جاہلانہ باتوں كو نظر انداز كرديں _و أعرض عن الجهلين

''إعراض'' كا معنى منہ موڑناہے اور يہ منہ موڑنا اور روگرداني، كبھى تو مدارا اور نظر انداز كرنے سے كنايہ ہے_ اور كبھى بے اعتنائی اور دورى اختيار كرنے كے معنى ميں ہے_ صدر آيت كے مطابق اعراض سے مراد پہلا معنى ہے يعنى مدارا كرنا اور نظر انداز كرنا_

۴۲۴

۴_ خطاؤں اور لغزشوں سے درگذر كرنا، لوگوں كو نيك كاموں كى دعوت دينا اور جاہلوں سے مدارا كرنا دينى مبلغين كے بنيادى فرائض ميں سے ہيں _خذ العفو و امر بالعرف و أعرض عن الجهلين

۵_ بت پرست اور مشركين، بے عقل اور نادان لوگ ہيں _و أعرض عن الجهلين

گذشتہ آيات كے قرينے سے ''الجاھلين'' كے مطلوبہ مصاديق ميں سے ايك مشركين اور بت پرست ہيں _

۶_عن أبى عبدالله عليه‌السلام : ...إن اللّه ادّب رسوله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : فقال: يا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : خذ العفو ...'' قال: خذ منهم ما ظهر و ما تيسر والعفو الوسط (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ خداوند نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ادب سكھانے كے ليئے يہ حكم ديا كہ ''اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عفو كو اختيار كرو ...'' يعنى صدقات ميں سے جو كچھ ظاہر ہے اور لوگ آسانى سے دے سكتے ہيں وہ لے لو اور عفو سے مراد ميانہ روى ہے_

۷_عن الحسن عليه‌السلام قال: إن الله عزوجل ادّب نبيه أحسن الأدب فقال خذ العفو ...'' ...فقال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لجبرئيل عليه‌السلام و ما العفو؟ قال عليه‌السلام أن تصل من قطعك و تعطى من حرمك و تعفو عمن ظلمك (۲)

امام حسن مجتبيعليه‌السلام سے منقول ہے كہ بے شك خداوند عزوجل نے اپنے نبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بہترين ادب سكھايا اور فرمايا: ''عفو اختيار كرو ...'' پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرائیلعليه‌السلام سے پوچھا عفو كيا ہے؟ اس نے جواب ديا: عفو يہ ہے كہ جو تم سے قطع تعلق كرے تم اس سے دوستى كرو اور جو تمہيں محروم كرے تم اس پر بخشش كرو اور جو كوئي تم پر ظلم كرے تو اس سے درگذر كرو_

اجتماعى نظم:اجتماعى نظم كى اہميت ۲، ۴

اللہ تعالى :اللہ تعالى كے اوامر ۱، ۳

امر بالمعروف:امر بالمعروف كى اہميت ۲، ۴

____________________

۱)تفسير عياشى ج/۲ ص ۴۳ ح ۱۲۶; نورالثقلين ج/۲ ص ۱۱۱ ح ۴۰۷_

۲)بحار الانوار ج/۷۵ ص ۱۱۴ ح ۱۰; مجمع البيان ج/۴ ص ۷۸۷_

۴۲۵

بت پرست:بت پرستوں كى بے عقلى ۵

تعقل:تعقل سے خالى افراد ۵

جہلاء:جاہلوں كے ساتھ مدارا كرنا ۳، ۴;جہلاء سے عفو و درگذر كرنا ۳

خطاكار:خطاكاروں سے عفور كرنا ۱

لغزش:لغزش سے عفو ۴

مبلغين:مبلغين كى ذمہ دارى ۴

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت ۳;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مسؤليت ۱، ۲، ۳

مشركين:مشركين كى بے عقلى ۵

آیت ۲۰۰

( وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ )

اور اگر شيطان كى طرف سے كوئي غلط خيال پيدا كيا جائیے تو خدا كى پناہ مانگيں كہ وہ ہر شے كا سننے والا اور جاننے والا ہے(۲۰۰)

۱_ شيطان ہميشہ اپنے وسوسوں كے ذريعے انسانوں كو خداوند كے فرامين سے سرپيچى كرنے پر ابھارتاہے_

و إما ينزغنّك من الشيطن نزغ

''نزغہ'' يعنى اسے تھوڑا سا تحريك كيا يا ابھارا''نزغ'' اس كلام كو كہتے ہيں جو تحريك كرنے اور ابھارنے كا باعث بنے (لسان العرب) ''من الشيطان'' ''نزغ'' كيلئے حال ہے اور ''نزغ شيطان'' سے مراد اس كا وسوسہ ہے_ بنابراين ''إما ينزغنّك'' يعنى اگر شيطان كى طرف سے كسى وسوسے نے تمہيں ابھارا ...قابل ذكر ہے كہ گذشتہ آيت كى مناسبت سے يہاں تحريك اور ابھارنے سے مراد، خداوند كے احكام و فرامين كى مخالفت كرنے كى ترغيب دلانا ہے_

۲_ شيطان كا عظيم انبياء كرامعليه‌السلام كو بھى فرامين خداوند سے

۴۲۶

تخلف كرنے پر ابھارنے كيلئے اپنا نشانہ بنانا_و إما ينزغنّك من الشيطن نزغ

''إما'' ''إن'' شرطيہ اور ''ما'' زائدہ سے مركب ہے ''ما'' زائدہ اور نون تاكيد ثقيلہ كے ذريعے جملے كى تاكيد يہ معنى بيان كرنے كيلئے ہے كہ شرط پورى ہوگي_ بنابراين ''إما ينزغنك'' يعنى اگر شيطان تمہيں ابھارنے پر آگيا اور وہ حتماً يہ كوشش كرے گا _

۳_ خداند كا رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ہے كہ جب تم شيطان كے وسواس كے روبرو ہوتو خدا كے حضور پناہ مانگ ليا كرو_

إما ينزغنّك ...فاستعذ بالله

۴_ خداوند ہر كلام كو سنتاہے اور ہر حاجت سے آگاہ ہے_انه سميع عليم

۵_ جب بندے خداوند كى بارگاہ ميں پناہ ليتے ہيں تو خداوند شيطان كے وسواس كو بے اثر كرديتاہے_

فاستعذ بالله انه سميع عليم

جملہ''إنه سميع عليم'' ''فاستعذ بالله '' (خدا كى پناہ مانگو) كيلئے ايك تعليل كى حيثيت ركھتاہے چونكہ فقط سننا اور دانا ہونا ہى استعاذہ كے لازمى ہونے كى دليل نہيں بن سكتا_ لہذا كہہ سكتے ہيں كہ خداوند كا سننا اور دانا ہونا پناہ طلب كرنے كى اجابت سے كنايہ ہے_

۶_ خداوند كے سميع و عليم ہونے كا عقيدہ باعث بنتاہے كہ (انسان) شيطانى وسوسوس كے مقابلے ميں خدا سے التجاء كرے_فاستعذ بالله إنه سميع عليم

استعاذہ:استعاذہ كا پيش خيمہ ۶;استعاذہ كے اثرات ۵ خداوند كے حضور استعاذہ ۳، ۵، ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا سميع ہونا ۴،۶; اللہ تعالى كا علم ۴،۶; اللہ تعالى كى نافرمانى ۱; اللہ تعالى كے اوامر۳

ايمان:ايمان كے اثرات ۶

شيطان:اضلال شيطان ۱، ۲ ; شيطان اور انبياء ۲; شيطان سے استعاذہ ۳، ۵ ;شيطان كا كردار، ۱، ۲ ; شيطان كا وسوسہ ۱، ۳، ۶; شيطانى وسواس كو بے اثربنانا ۵

گمراہي:گمراہى كے علل و اسباب ۱

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :مسؤليت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳

۴۲۷

آیت ۲۰۱

( إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ )

جو لوگ صاحبان تقوى ہيں جب شيطان كى طرف سے كوئي خيال چھونا بھى چاہتے ہے تو خردا كو ياد كرتے ہيں اور حقائق كو ديكھنے لگتے ہيں (۲۰۱)

۱_ شيطان ، انسان كے اردگرد چكر لگاتارہتاہے تا كہ اس كے افكار اور خيالات ميں اپنے وسوسوں كے ذريعے نفوذ كرسكے_

إذا مسهم طئف من الشيطن

''طاءف'' اس شخص يا چيز كو كہا جاتاہے كہ جو كسى محور كے گرد گھوم رہى ہو ''من الشيطان'' ميں ''من'' بيانيہ بھى ہوسكتاہے اس بناء پر ''طاءف'' خود شيطان ہے يعنى شيطان دلوں كے اردگرد چكر لگاتاہے_ ہوسكتاہے ''من'' نشويہ ہو_ تو اس صورت ميں ''طاءف'' سے مراد شيطانى وسوسے ہيں كہ جو دلوں كے اردگرد گھومتے ہيں تاكہ ان ميں نفوذ كرسكيں _

۲_ جو لوگ پرہيزگار اور باتقوى ہيں وہ جب شيطان اور اس كے وسوسوں كے روبرو ہوتے ہيں تو وہ احكام خدا كو ياد كرليا كرتے ہيں اور اس طرح وہ راہ تقوى سے واقف ہوجاتے ہيں _

إن الذين اتقوا إذا مسهم طئف من الشيطان تذكروا فإذاهم مبصرون

يہاں ''تذكر'' سے مراد توجہ كرنا اور اپنے جانے پہچانے علوم كو ياد ميں لاناہے اور ان علوم اور دانستہ احكام سے مراد آيت ۱۹۹ كے قرينے كے مطابق، اوامر الہى و احكام خدا ہيں ''أبصار'' (جوكہ مبصرون كا مصدر ہے) كا معنى بينا ہونا اور آگاہ ہونا ہے اور ''الذين اتقوا'' كے مطابق اس سے مراد تقوى كى راہ پر چلنا اور آخر كار شيطان كے جال سے رہائی پاناہے_

۳_باتقوى افراد، شيطانى وسوسوں كے حملے كا احساس كرتے ہى فرمان خدا (استعاذہ) كو ياد كرتے ہوئے اس كے حضور پناہ ليتے ہيں اور بصيرت و آگاہى كے ساتھ شيطان كے جال سے بچ جاتے ہيں _ إذا مس هم طئف من الشيطن تذكروا فإذا هم مبصرون

۴۲۸

مندرجہ بالا مفہوم ميں گذشتہ آيت ميں ''فاستعذ بالله '' كے قرينے سے ''تذكروا'' كا متعلق ''استعاذہ'' كا لزوم قرار ديا گيا ہے_

تذكروا فإذا هم مبصرون

يہ مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب گذشتہ جملے (إنہ سميع عليم) كے قرينے سے ''تذكروا'' كا متعلق خداوند كى شنوائی اور آگاہى ہو_

۵_ اہل تقوى جب شيطانى وسوسوں كے روبرو ہوتے ہيں تو ان وسواس كى تشخيص كرليتے ہيں (كہ يہى شيطانى وسوسوں ہيں )_إن الذين اتقوا إذا مسهم طئف من الشيطن تذكروا

۶_ تقوى ، وہ واحد عامل ہے كہ جو شيطانى وسوسوں كے روبرو ہونے پر انسان كى توجہ احكام خداوند كى طرف لے جاتاہے_

إن الذين اتقوا إذا مسهم طئف من الشيطن تذكروا

۷_عن على بن حمزة عن أبى عبدالله عليه‌السلام قال: سألته عن قول الله : ''إن الذين اتقوا إذا مسهم طائف من الشيطان تذكروا فإذا هم مبصرون'' ما ذلك الطائف؟ فقال: هو السيّيء يهمّ به العبد ثم يذكر الله فيبصر و يقصر (۱)

على بن حمزہ كہتے ہيں ميں نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا كہ آيہء مجيدہ ''إن الذين اتقوا '' ميں ''طاءف'' سے كيا مراد ہے؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا: اس سے گناہ كا وسوسہ مراد ہے، بندہ اس كا ارادہ كرتاہے اور پھر اسے خدا كى ياد آجاتى ہے اور وہ بيدار ہوجاتاہے اور اسے انجام نہيں ديتا_

استعاذہ:استعاذہ كے عوامل ۶;خدا كے حضور استعاذہ ۳، ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا سميع ہونا ۴;اللہ تعالى كا عليم ہونا ۴

ايمان:ايمان كے اثرات ۴

تقوى :تقوى كے اثرات ۶

شيطان:شيطان اور متقين ۳;شيطان سے استعاذہ ۳; شيطان سے نجات كے عوامل ۲، ۳، ۴، ۶; شيطان كا كردار،۱ ; نفوذ شيطان كا طريقہ۱ ; وسوسہء شيطان ۱، ۲، ۳، ۴، ۶; وسوسہء شيطان كى پہچان ۵

متقين:متقين اور شيطان ۲;متقين كا ادراك ۵;متقين كا استعاذہ ۳ ;متقين كى آگاہى ۲

____________________

۱) تفسير عياشي، ج۲، ص ۴۴، ح۱۲۹; نور الثقلين، ج۲، ص ۱۱۲، ح ۴۱۶_

۴۲۹

آیت ۲۰۲

( وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لاَ يُقْصِرُونَ )

اور مشركين كے برادران شياطين انھيں گمراہى ميں كھينچ رہے ہيں اور اس ميں كوئي كوتاہى نہيں كرتے ہيں (۲۰۲)

۱_ بے تقوى لوگ، شيطان كے بھائی ہيں _و إخوانهم

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر ہے كہ''إخوانھم'' كى ضمير كا مرجع، گذشتہ آيت ميں موجود''الشيطان'' ہو_ قرينہ مقابلہ كے مطابق ''إخوان''سے مراد بے تقوى افراد ہيں يہ بھى ياد رہے كہ ''الشيطان'' ميں ''ال'' جنس كيلئے ہے_ ضمير جمع اس كى طرف پلٹائی جاسكتى ہے_

۲_ شياطين، بے تقوى افراد كو گمراہى كى جانب لے جاتے ہيں _ اور انھيں ضلالت (كى گہرائی وں ) ميں غرق كرديتے ہيں _

و إخوانهم يمدونهم فى الغي

''يمدونهم'' ميں ضمير فاعلى كا مرجع شياطين ہيں اور ضمير مفعولى كا مرجع ''إخوان'' ہے يعنى''إخوان الشياطين يمدهم الشياطين فى الغي'' _ ''مد'' ( ''يمدون''كا مصدر ہے) جس كا معنى كھينچنا ہے اور ''الي'' كى جگہ ''في'' كولانا يہ معنى ديتاہے كہ شيطان بے تقوى افراد كو گمراہى كى گہرائی وں ميں لے جاتاہے_

۳_ شيطان، بے تقوى افراد كو گمراہ كرنے كے بعد كھلا نہيں چھوڑتا بلكہ انھيں اسى طرح گمراہى كى دلدل ميں روكے ركھتاہے_ثم لا يعصرون يہ مفہوم اس بناء پر ہے كہ جب''لا يقصرون'' كى ضمير كا مرجع شيطان ہو''اقتصار'' (يقصرون كا مصدر ہے) جس كا معنى ''ہاتھ اٹھانا'' ہے

۴_ بے تقوى افراد كا روشن ترين مصداق، مشركين ہيں _و إخوانهم

جيسا كہ گذرچكاہے كہ ''إخوان'' سے مراد بے تقوى افراد ہيں اور چونكہ گذشتہ آيات مشركين كے بارے ميں تھيں لہذا كہہ سكتے ہيں كہ بے تقوى افراد كا مطلوبہ مصداق، مشركين ہيں _

۵_ شيطان، بے تقوى اور مشرك انسانوں كا بھائی

۴۳۰

ہے_و إخوانهم يمدونهم فى الغي

''إخوانهم'' كى ضمير كا مرجع مشركين اوربے تقوى افراد بھى ہوسكتے ہیں _ اس بناء پر ''إخوان'' سے مراد گذشتہ آيت كے قرينے سے، شيطان ہے_ قابل ذكر ہے كہ اس صورت ميں ضمير فاعلى ''يمدونھم'' كا مرجع ''إخوان'' اور ضمير مفعولى كا مرجع مشركين و بے تقوى لوگ ہيں _

۶_ شيطان كے پيروكار مشركين اور بے تقوى افراد كا اپنى گمراہى پر اصرار كرنا_ثم لا يقصرون

يہ مفہوم اس بناء پر ہے كہ جب''لا يقصرون'' كى ضمير، مشركين اور بے تقوى افراد كى جانب لوٹائی جائیے_

بے تقوى افراد،۱،۴،۵:بے تقوى لوگوں كى گمراہى ۲، ۳، ۶

شيطان:اضلال شيطان ۲، ۳; شيطان اور بے تقوى افراد ۱، ۲، ۳، ۵; شيطان اور مشركين ۵; شيطان كا كردار ۲، ۳; شيطان كے بھائی ۱، ۵ شيطان كے پيروكار ۶

گمراہي:گمراہى پر اصرار ۶;گمراہى كا تسلسل ۳; گمراہى كے عوامل ۲، ۳

مشركين:۵بے تقوى مشركين ۴;مشركين كى گمراہى ۶

آیت ۲۰۳

( وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يِوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ )

اور اگر آپ ان كے پاس كوئي نشانى نہ لائیں تو كہتے ہيں كہ خود آپ كيوں نہيں منتخب كر ليتے تو كہہ ديجئے كہ ميں تو صرف وحى پروردگار كا اتباع كرتا ہوں _ يہ قرآن تمھارے پروردگار كى طرف سے دلائل ہدايت اور صاحبان ايمان كے لئے رحمت كى حيثيت ركھتا ہے (۲۰۳)

۱_ آيات قرآن، رسالت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت كا ايك معجزہ اور علامت ہيں _

۴۳۱

و إذا لم تأتهم بأية

كلمہ ''آية'' كا معنى نشانى اور دليل ہے اور اس سے مراد آيات قرآن ہيں _

۲_ آيات قرآن كبھى كبھي، تاخير كے ساتھ اور كچھ وقت كے بعد نازل ہوتى تھيں _و إذا لم تأتهم بأية

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين نزول آيات ميں تاخير كو بہانہ بناكر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كو جھٹلانے لگتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شماتت كرنے لگتے_و إذا لم تأتهم باية قالوا لو لا اجتبيتها

۴_ قرآن، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جزء جزء اور جدا جدا حصوں كى صورت ميں نازل ہوا ہے_و إذا لم تأتهم بأية

۵_ مشركين كے نزديك آيات قرآن ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھوں بنايا ہوا اور انتخاب شدہ (چنا ہوا) ايك مجموعہ تھا_

لو لا اجتبيتها

''اجتباء'' (مصدر اجتبيت) كا معنى ''چن چن كر اور انتخاب كركے جمع كرنا''ہے_ (مفردات راغب) مشركين پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب ''اجتباء'' كى نسبت ديتے ہوئے يہ وسوسہ ڈالتے تھے كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآن كے مطالب كو ادھر ادھر سے جمع كركے اور انتخاب كركے لوگوں كے سامنے پيش كرتے ہيں _

۶_ پورا قرآن، وحى ہے اور خداوند كى جانب سے نازل شدہ ہے نہ كہ كسى بشر كا بنايا ہوا_قل إنما أتبع ما يوحى إليَّ من ربي

جملہ ''إنما أتبع ...'' ميں حصر مشركين كے اتہام اور ان كے خيال كى طرف اشارہ ہے_ يعنى ميں آيات قرآن پيش كرنے ميں وحى كے تابع ہوں نہ يہ كہ اپنے آپ سے بناكر يا ادھر ادھر سے جمع كركے پيش كرتاہوں _

۷_ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہميشہ وحى كے تابع رہے ہيں اور احكام خداوند كى پيروى كرتے رہے ہيں _قل إنما أتبع ما يوحى إليَّ من ربي

۸_ قرآن كا سرچشمہ ،خداوند كا مقام ربوبيت ہے_إنما أتبع ما يوحى إليَّ من ربي

۹_ قرآن، روشنى بخش اور بصيرت افروز كتاب ہے_هذا بصائر من ربكم

''بصيرة'' (مفرد بصاءر) بمعنى حجت، برہان اور وہ چيزہے كہ جو بصيرت و بينش كا باعث بنے_

۱۰_ قرآن اور اس كى روشنى بخش (تعليمات)، انسانوں كى تدبير كيلئے ،ربوبيت خداوند كا جلوہ ہيں _

هذا بصائر من ربكم

۱۱_ خداوند، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مربى اور تمام انسانوں كے امور كى تدبير كرنے والا ہے_

۴۳۲

من ربيّ ...من ربّكم

۱۲_ قرآن، كتاب ھدايت اور باعث رحمت ہے_هذا ...هديً و رحمة

۱۳_ فقط اہل ايمان ہى قرآن كى ہدايت سے اور اس كى رحمت كے سائے سے بہرہ مند ہوتے ہيں _

هذا ...هديً و رحمة لقوم يؤمنون

۱۴_ قرآنى ہدايت، كسى قسم كى ضلالت و گمراہى سے آلودہ نہيں ہوتى اور نہ ہى اس سے كوئي بے قاعدگى و كجى پيدا ہوتى ہے_هذا ...هديً و رحمة

اسم فاعل ''ھاد'' كى جگہ مصدر ''ھديً'' كا استعمال، مندرجہ بالا مفہوم كو ظاہر كررہاہے_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى ربوبيت ۸،۱۰; اللہ تعالى كے افعال

انسان:انسانى امور كى تدبير ۱۰، ۱۱

قرآن:اعجاز قرآن ۱; تعليمات قرآن كى خصوصيت ۱۴; رحمت قرآن ۱۲، ۱۳; قرآن سے استفادے كا پيش خيمہ ۱۳; قرآن كا تدريجى نزول ۲، ۳ ; قرآن كا روشنى بخش ہونا ۹، ۱۰;قرآن كا كردار ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۳; قرآن كا وحى ہونا ۶;قرآن كا ہدايت كرنا ۱۲، ۱۳، ۱۴;نزول قرآن كى كيفيت ۴; نزول قرآن كا منشاء ۶، ۸

مؤمنين:مؤمنين اور قرآن ۱۳

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :تكذيب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے علل و اسباب ۳; حقانيت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دلائل ۱; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر افتراء ۵; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا وحى كى اتباع كرنا ۷;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخالفت ۳; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين ۳; معجزات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ۱; مربى محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،۱۱

مشركين:مشركين اور قرآن ۵

ہدايت:ہدايت كے عوامل ۹، ۱۲

۴۳۳

آیت ۲۰۴

( وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ )

اور جب قرآن كى تلاوت كى جائیے تو خاموش ہوكر غور سے سنو كہ شايد تم پر رحمت نازل ہوجائیے (۲۰۴)

۱_ قرآن كى تلاوت كے وقت اسے غور سے سننے اور خاموشى و سكوت اختيار كرنے كا واجب ہونا_

و إاذا قرى القرآن فاستمعوا له و أنصتوا

''استماع'' (مصدر استمعوا) كا معنى سننا اور كان دھرنا ہے اور ''انصات'' (مصدر انصتوا) كا معنى خاموشى و سكوت اختيار كرنا ہے_

۲_ قرآن كو سننا اور سنتے وقت خاموش رہنا، رحمت خداوند كے حصول كا مقدمہ ہے_

فاستمعوا له و أنصتوا لعلكم ترحمون

۳_ تلاوت قرآن كرنے والا كوئي بھى ہو، اس كى قراءت كے دوران خاموش رہ كر قرآن كو سننا چاہيئے_

و إذا قرى القرآن فاستمعوا له و أنصتوا لعلكم ترحمون

يہ مفہوم فعل ''قري'' كے مجہول ہونے سے اخذ كيا گيا ہے_

۴_ خداوند نے كفار كو قرآن كى صدا (و تلاوت) سننے كي دعوت دي_

هذا بصائر من ربكم ...إذا قرى القرآن فاستمعوا له

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''فاستمعوا'' كا خطاب كفار كو بھى شامل ہو_

۵_ كفار كا قرآن كى صدا اور تلاوت كو سننا، ان ميں ہدايت اور رحمت الہى تك پہنچنے كى آمادگى پيدا كردے گا_

و إذا قرى القرآن فاستمعوا له و أنصتوا لعلكم ترحمون

اگر آيت كا خطاب، كفار كو بھى شامل ہو تو ''ترحمون'' ميں رحمت كا مطلوبہ مصداق، ہدايت ہوگا_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى رحمت كے اسباب ۲، ۵;اللہ تعالى كے اوامر،۴

۴۳۴

قرآن:استماع قرآن ۱، ۳، ۴; استماع قرآن كے اثرات ۲، ۵; تلاوت قرآن كے آداب ۳; تلاوت قرآن كے احكام ۱; تلاوت قرآن كے وقت سكوت ۱; ۲، ۳ ;قرآن كا ہدايت كرنا ۵

كفار:كفار اور قرآن ۴، ۵; مسؤليت كفار ۴

واجبات:۱

ہدايت:ہدايت كا پيش خيمہ ۵

آیت ۲۰۵

( وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ وَلاَ تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ )

اور خدا كو اپنے دل ہى دل ميں تضرع اور خوف كے ساتھ ياد كرو اور قول كے اعتبار سے بھى اسے كم بلند آواز سے صبح و شام ياد كرو اور خبردار غافلوں ميں نہ جاؤ(۲۰۵)

۱_ خداوند نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداوند كے مقام ربوبى كى طرف متوجہ رہيں اور اسے اپنے دل و جان سے ياد كرتے رہيں _و اذكر ربك فى نفسك

۲_ خداوند كے سامنے خشوع اور اس كے مقام ربوبى سے خوف و ہراس ،خداوند كى طرف توجہ كرنے اور اسے ياد كرنے كے آداب ميں سے ہيں _و اذكر ربك فى نفسك تضرعا و خيفة

''تضرع'' كا معنى خشوع اور اظہار تذلل كرنا ہے_ اور ''خيفة'' كا مطلب ڈرنا اور خوف زدہ ہونا ہے_

''تضرعاً'' اور ''خيفة'' مصدر ہیں اور آيت ميں اسم فاعل (متضرعاً) اور (خاءفاً) كے معنى ميں آياہے_ يعنى اپنے پروردگار كو خشوع و خوف كے ساتھ ياد كرو_

۳_ خداوند نے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زير لب اس كا ذكر كريں اور اپنى زبان كو اس كے ذكر سے معطر كرتے رہيں _و اذكر ربك ...دون الجهر من القول

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر ہے كہ جب ''دون الجھر ...'' كا ''فى نفسك'' پر عطف ہو اس بناء پر آيہء شريفہ دو طرح كے اذكار كى طرف

۴۳۵

اشارہ كررہى ہے قلبى ذكر كہ جو ''فى نفسك''سے ظاہر ہوتاہے اور زبانى ذكر كہ جو''دون الجهر من القول'' سے آشكار ہے_

۴_ زبانى ذكر ميں بلند آواز سے پرہيز كرنا، زير لب ذكر خدا كرنے كے آداب ميں سے ہے_

و اذكر ربك ...دون الجهر من القول

''دون'' كا معنى نيچا اور آہستہ ہے جبكہ ''جھر'' كا معنى آشكار كرنا اور اعلان كرنا ہے اور ''من القول'' ''الجھر'' كا بيان ہے_ بنابراين ''الجھر من القول'' يعنى صدا و آواز كو بلند كرنا، اور ''دون الجھر من القول'' يعنى كلام اور لفظ كو جہر كے بغير اور نيچى آواز سے ادا كرنا ہے_

۵_ انسانوں كو چاہيئے دل و جان سے خداوند كى ياد ميں رہيں اور صبح و شام اس كا ذكر كرتے رہيں _

و اذكر ربك ...بالغد و الأصال

''غدوة'' (غدو كامفرد) بمعنى صبح ہے(يعنى طلوع فجر سے ليكر طلوع خورشيد تك) ''آصال'' اصيل كى جمع يا جمع الجمع ہے_ اور'' اصيل '' عصر سے مغرب تك كے درميانى وقت كو كہتے ہيں _

قابل ذكر ہے ''الغدو'' ميں اور ''الأصال'' ميں ''ال'' استغراق كيلئے ہے اور عموم كا فائدہ دے رہاہے يعنى ہر صبح و عصر

۶_ خداوند كا پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غافلين كے زمرے ميں داخل ہونے سے روكنا_و لا تكن من الغفلين

۷_ ياد خدا سے غفلت ايك ناپسنديدہ اور ناروا، امر ہے_و لا تكن من الغفلين

۸_ خداوند كو صبح و شام ياد كرنا، انسان كو غافلين كے زمرے سے نكال ديتاہے_

و اذكر ربك ...بالغدو و الأصال و لا تكن من الغفلين

۹_عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال: و اذكر ربك فى نفسك'' يعنى مستكيناً ''و خيفة'' يعنى خوفاً من عذابه ''و دون الجهر من القول'' يعنى دون الجهر من القرائة ''بالغدو و الاصال'' يعنى بالغداوة والعشى (۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' و اذكرربك فى نفسك (تضرعا) يعنى خداوند كو اپنے دل ميں خضوع و خشوع كے ساتھ ياد كرو_ اور ''خيفة'' يعنى اس كے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور ''دون الجھر من القول'' يعنى بلند آواز كے بغير اور''بالغدو والاصال'' يعنى صبح و شام_

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۲ ص ۴۴ ح ۱۳۵_ نورالثقلين ج/۲ ص ۱۱۲ ح ۴۲۴_

۴۳۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے ڈرنا۲; اللہ تعالى كا خبردار كرنا ۶; اللہ تعالى كى ربوبيت ۲; اللہ تعالى كے اوامر ۱،۳

انسان:مسؤليت انسان،۵

ذكر:آداب ذكر ۲;ذكر خدا، ۱، ۵; ذكر خدا كى اہميت ۳; ذكر كے آثار ۸; ذكر ميں خشوع كرنا ۲; صبح كے وقت ذكر ۵، ۸; عصر كے وقت ذكر ۵، ۸

عمل:ناپسنديدہ عمل ۷

غفلت:خدا سے غفلت كرنا ۷; غفلت پر سرزنش ۷; غفلت سے بچنا ۶;موانع غفلت ۸

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبردار كيا جانا ۶;مسؤليت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ۱; ۳

ورد:آواز كے ساتھ ورد كرنا ۴; ورد كا وقت۵; ورد كى اہميت ۳، ۴; ورد كے آداب ۴

آیت ۲۰۶

( إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ )

جو لوگ اللہ كى بارگاہ ميں مقرب ہيں وہ اس كى عبادت سے تكبر نہيں كرتے ہيں اور اسى كى بارگاہ ميں سجدہ ريز رہتے ہيں (۲۰۶)

۱_ بارگاہ خداوند كے مقرب بندے كبھى بھى خداوند كے مقابلے اپنے آپ كو بڑا نہيں سمجھتے اور اس كى عبادت سے روگردانى نہيں كرتے_إن الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته

''استكبار'' كا معنى اپنے آپ كو بڑا جانناہے، چونكہ حرف ''عن'' سے متعدى ہوا ہے تو اعراض اور روگردانى كا معنى دے رہاہے يعنى''لايعرضون يعرضون عن عبادته مستكبرين''

۲_ بارگاہ خداوند كے مقربين ہميشہ اسكى تسبيح كرتے ہيں اور اسے ہر نقص و عيب سے منزہ شمار كرتے ہيں _

إن الذين عند ربك ...يسبحونه

خداوند كے نزديك ہونا، اسكى بارگاہ ميں تقرب حاصل كرناہے_ بنابرايں''الذين عند

۴۳۷

ربك'' يعنى بارگاہ خدا كے مقربين_

۳_ خداوند كو دل و جان سے ياد كرنا اور زير لب اس كا ذكر كرنا ،اس كى عبادت و پرستش ہے_

و اذكر ربك ...إن الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته

ذكر خدا كا حكم (اذكر ربك) اور پھر اس حقيقت كا بيان كہ بارگاہ خدا كے مقربين اسكے ذكر سے روگردانى نہيں كرتے ظاہر كرتاہے ذكر خدا، خداوند كى عبادت و پرستش كا روشن ترين مصداق ہے_

۴_ ياد خدا سے غفلت اور اسكى عبادت سے روگرداني، تكبر اور اپنى بڑائی كے اظہار كا نتيجہ ہے_

و لا تكن من الغفلين_ إن الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته

غفلت سے نہى اور پھر يہ بيان كرنا كہ مقربين بارگاہ الہي، اس كے مقابلے ميں تكبر نہيں كرتے، ظاہر كرتاہے ياد خدا سے غفلت كرنا در حقيقت اسكے مقابلے ميں تكبر كرنا ہے اور اپنے آپ كو بڑا جانناہے_

۵_ بارگاہ خداوند كے مقربين ہميشہ خالصانہ طور پر اس كے حضور سجدہ كرتے ہيں _إن الذين عند ربك ...له يسجدون

''يسجدون'' پر ''لہ'' كا مقدم كرنا، حصر اور خلوص پر دلالت كرتاہے_

۶_ خداوند كى ياد اور ذكر كے مصاديق ميں سے ايك، خدا كى عبادت كرنا، اسكے ان اسماء و صفات كو زبان پر لانا كہ جو تنزيہ الہى كى حكايت كرتے ہيں اور اسكے حضور سجدہ ريز ہونا ہے_و اذكر ربك ...إن الذين عند ربك ...و له يسجدون

۷_ خداوند كو ہر عيب و نقص سے منزہ جاننے اور اسكى مخلصانہ عبادت كرنے ميں مقربين الہى كو اپنا نمونہء عمل بنانا اور انكى اقتداء كرنا لازمى ہے _اذكر ربك ...إن الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته

۸_ خداوند كا تقرب، اسكى پرستش كرنے، اسے ہر عيب و نقص سے منزہ جاننے اور اسكى بارگاہ ميں مخلصانہ سجدہ كرنے سے مربوط ہے_و لا تكن من الغفلين_ إن الذين عند ربك ...و له يسجدون

۹_ ملاءكہ ہميشہ خداوند كے سامنے تواضع كرتے ہيں اسكى عبادت كرتے ہيں اور اسے منزہ جانتے ہوئے فقط اسى كى بارگاہ ميں سجدہ انجام ديتے ہيں _ان الذين عند ربك ...و له يسجدون

بہت سے مفسرين كا نظريہ ہے كہ ''الذين عند ربك'' سے مراد ملاءكہ ہيں _

۴۳۸

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۲، ۶، ۷، ۹; اللہ تعالى كے منزہ ہونے كے آثار ۸

تقرب:تقرب كے علل و اسباب ۸

تكبر:تكبر كے آثار ۴

ذكر:ذكر خدا كى اہميت ۳; موارد ذكر ۶

سجدہ:سجدہ كى اہميت ۶; سجدے كے آثار ۸

عبادت:ترك عبادت كے اسباب ۴; عبادت خدا، ۳، ۶ عبادت كے آثار ۸; موارد عبادت ۳

غفلت:خدا سے غفلت كے اسباب ۴

مقربين:مقربين كا اخلاص ۵، ۷; مقربين كا سجدہ ۵; مقربين كونمونہ بنانا ۷; مقربين كى تسبيح ۲، ۷; مقربين كى تقليد ۷; مقربين كى تواضع ۱; مقربين كى عبادت ۷;مقربين كے فضائل ۱، ۵

ملاءكہ:ملاءكہ كا سجدہ ۹; ملاءكہ كى تواضع ۹;ملاءكہ كى عبادت ۹

ورد:ورد كى اہميت ۳، ۶

۴۳۹

۸. سورة الأنفال

آیت ۱

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِِ )

( يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنفَالِ قُلِ الأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بِيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ )

پيغمبر يہ لوگ آپ سے انفال كے بارے ميں سوال كرتے ہيں تو آپ كہہ ديجئے كہ انفال سب اللہ اوررسول كے لئے ہيں لہذا تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس ميں اصلاح كرو اور اللہ و رسول كى اطاعت كرو اگر تم اس پر ايمان ركھنے والے ہو(۱)

۱_ مسلمانوں كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انفال كے مالك كى تعيين اور اسے تقسيم كرنے كى كيفيت كے بارے ميں بار بار پوچھنا_يسئلونك عن الأنفال

جملہ''قل الأنفال لله و الرسول'' كہ جو مالك انفال كو تعيين كررہاہے، اور يہ جملہ مسلمانوں كے سوال كے جواب ميں كہا گيا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ مسلمانوں كا سوال انفال كے مالك كے علاوہ اسى كے ضمن ميں اس انفال كى تقسيم كے بارے ميں بھى تھا_

۲_ جنگى غنائم كے مالك كو تعيين كرنے اور اسے تقسيم كرنے كى كيفيت كے بارے ميں صدر اسلام كے مسلمانوں كا اختلاف كرنا_يسئلونك عن الأنفال قل الأنفال للّه و الرسول ...و اصلحوا ذات بينكم

بعد والى آيات كے مطابق كہ جن ميں دشمن كے خلاف جنگ كى بحث ہورہى ہے اور اسى طرح آيت كے بارے ميں نقل شدہ شان نزول سے بھى معلوم ہوتاہے كہ جملہ''يسئلونك عن الأنفال'' سے مراد وہ مال تھا كہ جو معركہء جنگ ميں دشمن سے رہ گيا تھا اور مسلمانوں كے قبضے ميں آگيا تھا_ انفال كا حكم بيان كرنے كے بعد خداوند كى طرف سے مشاجرہ اور اختلاف ترك كرنے كا حكم و نصيحت ظاہر كررہاہے كہ وہ باقى ماندہ اموال مسلمانوں ميں باعث اختلاف تھا_

۳_ دشمن سے رہ جانے والا مال اور جنگى غنائم، انفال ميں سے ہیں _

يسئلونك عن الأنفال قل الأنفال للّه والرسول

''يسئلونك عن الأنفال'' ميں انفال سے مراد جنگى غنائم ہيں جواب ميں اس كلمہ كا تكرار ظاہر كرتاہے كہ ''قل الأنفال'' ميں

۴۴۰