الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)14%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 209827 / ڈاؤنلوڈ: 6321
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

سوالات:

1۔امام کسے کہتے ہیں ؟

2۔امام کی صفات بیان کریں ؟

3۔امام کو کیسے پہچانا جاتا ہے ؟

4۔امام اور نبی کا فرق بیان کیجئے ؟

5۔امام کتنے ہیں کوئی حدیث بیان کیجئے َ؟

۴۱

درس نمبر10

( قیامت )

انبیاء و اولیاء اور تمام آسمانی کتابوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان کی زندگی فقط مرنے سے ختم نہیں ہوتی بلکہ اس دنیا کے بعد بھی دنیا پائی جاتی ہے جہاں پر انسان کو اپنے کئے (اعمال و کردار ) کا بدلہ ملے گا ۔

اچھے لوگ وہاں پر تمام نعمتوں کے ساتھ خوشی خوشی زندگی بسر کریں گے اور بدکردار اور خطاکار افراد سخت دردناک عذاب میں گرفتار رہیں گے قیامت آسمانی تمام ادیان کی ضروریات میں سے ہے اور اصل قیامت مرنے کے بعد کی دنیا کو کہا جاتا ہے جو شخص بھی انبیاء کو مانتا اور ان کی بتائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتا ہے اس کامعاد پر یقین و اعتقاد رکھنا ضروری ہے ،۔

قرآن مجید میں قیامت کے سلسلہ میں سیکڑوں آیات بیان ہوئی ہیں، ان کے علاوہ قیامت کے بارے میں بہت سی عقلی دلیلیں بھی موجود ہیں ہم ان میں سے صرف ایک کو خلاصہ کے طور پر بیان کررہے ہیں :

برہانِ حکمت: اگر قیامت کے بغیر اس زندگی کا تصور کریں تو بے معنی اور فضول دکھائی دیتی ہے، بالکل اسی طرح کہ شکم مادر میں بچہ کو اس دنیاوی زندگی کے بغیر تصور کریں۔

اگر قانون خلقت یہ ہوتا کہ بچہ شکم مادر میں پیدا ہوتے ہی مرجایا کرتا تو پھر تصور کریں کہ کسی ماں کاحاملہ ہونا کتنا بے مفہوم تھا؟ اسی طرح اگر قیامت کے بغیر اس دنیا کا تصور

۴۲

کریں تو یہی پریشانی دکھائی دے گی۔

کیونکہ کیا ضرورت ہے کہ ہم کم و بیش 70 سال تک اس دنیا کی سختیوں کو برداشت کریں؟ اور ایک مدت تک بے تجربہ رہیں، اور جب تجربات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو عمر تمام ہوجائے ؟ اور اسی طرح سونا اور بیدار ہونا، دسیوں سال تک ہر روز یہی تھکادینے والے کام انجام دینا ان سب چیزوں کی کیا ضرورت تھی ؟ !

یہ عظیم الشان آسمان، وسیع و عریض زمین، اور ان میں پائی جانے والی تمام چیزیں، یہ اساتید، مربیّ، یہ بڑے بڑے کتب خانے اور ہماری اور دوسری موجودات کی خلقت میں یہ باریک بینی، اورظرافت کیا واقعاً یہ سب کچھ کھانے پینے، پہننے اور مادی زندگی بسر کرنے کے لئے ہیں؟

اس سوال کی بنا پر معاد اور قیامت کا انکار کرنے والے اس زندگی کے عبث ہونے کا اقرار کرتے ہیں، اور ان میں سے بعض لوگ اس بے معنی زندگی سے نجات پانے کے لئے خود کشی کو اپنے لئے افتخار سمجھتے ہیں !

کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص خداوندعالم اور اس کی بے نہایت حکمت پر ایمان رکھتا ہولیکن اس دنیا کو عالم آخرت کے لئے مقدمہ شمار نہ کرے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( َفَحَسِبْتُمْ َنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وََنَّکُمْ ِلَیْنَا لاَتُرْجَعُونَ ) (1) ''کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جائو گے''۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورۂ مؤمنون ، آیت 115.

۴۳

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عالم آخرت نہ ہو تو اس دنیا کا خلق کرنا فضول ہے ۔

جی ہاں! یہ دنیوی زندگی اسی صورت میں با معنی اور حکمت خداوندی سے ہم آہنگ ہوتی ہے کہ جب اس دنیا کو عالم آخرت کی کھیتی قرار دیں''الدُّنْیَا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ'' ،یا اس کوعالم ِآخرت کے لئے پل قراردیں'' الدنیاقنطرة'' یا اس عالم کے لئے یونیورسٹی اور تجارت خانہ تصور کریں ، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے عظیم کلام میں فرماتے ہیں: ''یاد رکھو کہ دنیا یقین کرنے والے کے لئے سچائی کا گھر ہے، سمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ہے، اور نصیحت حاصل کرنے والے کے لئے نصیحت کا مقام ہے، یہ دوستان خدا کے سجود کی منزل اور آسمان کے فرشتوں کا مصلیٰ ہے، یہیںوحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خدا آخرت کا سودا کرتے ہیں، اوررحمت الٰہی حاصل کرلیتے ہیں اور جنت کے مستحق قرار پاتے ہیں''۔(1)

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ اس جہان کے حالات کا مطالعہ اور تحقیق کے بعدیہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد ایک دوسراجہان بھی موجود ہے

سوالات :

1۔قیامت کے بارے میں کوئی دلیل پیش کریں ؟

2۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے عظیم کلام میں دنیا کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟

الدُّنْیَا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ'' سے کیا مراد ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) نہج البلاغہ ،کلمات قصار کلمہ 131.

۴۴

( حصہ دوم )

( احکام)

۴۵

درس نمبر11

( تقلید )

تقلید کے معنی پیروی کرنا اور نقش قدم پر چلنا ہے ،یہاں تقلید کے معنی ''فقیہ'' کی پیروی کرنا ہے یعنی اپنے کاموں کو مجتہد کے فتویٰ کے مطابق انجام دینا۔

u ۔ جوشخص خود مجتہد نہیں اوراحکام ودستورات الٰہی کو حاصل بھی نہیں کرسکتا تواُسے مجتہد کی تقلید کرنا چاہئے ۔

u ۔ جس مجتہد کی تقلید کی جاتی ہے اسے ''مرجع تقلید'' کہتے ہیں۔

u ۔ جس مجتہد کی انسان تقلید کرے، اس میں مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے :

٭ مرد ہو۔ ٭ بالغ ہو

٭ عاقل ہو ٭ عادل ہو

٭ حلال زادہ ہو ٭ شیعہ اثنا عشری ہو ۔

٭ احتیاط واجب کی بناپرزندہ ،اعلم ہو اور دنیا طلب نہ ہو۔

u ۔ مجتہد اوراعلم کو پہچاننے کے طریقے :

الف: انسان خود اہل علم ہواور مجتہد اعلم کی شناخت کرسکتا ہو ۔یا ایسی شہرت ہو جس سے انسان کو اطمینان ہو جائے ۔

ب: دو عالم وعادل افراد جو مجتہد واعلم کی تشخیص کرسکیں، کسی کے مجتہدیا اعلم ہونے

۴۶

کی تصدیق کردیں

ج: اہل علم کی ایک جماعت، جو مجتہد واعلم کی تشخیص دے سکتی ہو اور ان کے کہنے پر اطمینان پیدا ہوسکتا ہو، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کرے۔

u ۔ مجتہد کے فتویٰ کو حاصل کرنے کے طریقے :

٭ خود مجتہد سے سننا۔

٭ دویا ایک عادل شخص سے سننا۔

٭ ایک سچے اور قابل وثوق انسان سے سننا۔

٭مجتہد کے رسالہ عملیہ (توضیح المسائل )میں دیکھنا جبکہ ہر طرح کی غلطی اور اشتباہ سے مبرّاہو۔

u ۔ اگر مجتہد اعلم نے کسی مسئلہ میں فتویٰ نہ دیا ہو، تو اس کا مقلد دوسرے مجتہد کی طرف

اس مسئلہ میں رجوع کرسکتا ہے، بشرطیکہ دوسرے مجتہد کا اس مسئلہ میں فتویٰ پایا جاتا ہو، اور احتیاط واجب کی بناء پر جس کی طرف رجوع کیا جارہا ہے وہ مجتہد دوسرے مجتہدوں سے اعلم ہو۔

u ۔ اگر مجتہد کافتویٰ بدل جائے،تو مقلد کا اس کے نئے فتویٰ پر عمل کرنا چاہئے اور اس کے پہلے فتویٰ پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔

u روز مرہ پیش آنے والے مسائل کا یاد کرنا واجب ہے۔

مکلف کون ہے؟

عاقل ،بالغ اور وہ افرادجواحکام کو بجالانے کی قدرت رکھتے ہوں،مکلف ہیں، یعنی احکام کو انجام دینا ان پر واجب ہے، لہٰذا (نابالغ) بچے ،دیوانے (غیر عاقل) اور

۴۷

وہافراد جو احکام کو بجالانے کی قدرت نہیں رکھتے ،مکلف نہیں ہیں

بلوغ :

بلوغ کا مطلب ہے درج ذیل شرائط میں سے کسی ایک کا پایا جانا۔

1۔شکم کے نیچے اور اورشرمگاہ کے اوپر سخت بالوں کا نکل آنا

2۔احتلام (منی کا خارج ہونا )

3۔لڑکوں میں پندرہ سال اور لڑکیوں میں 9 سا ل قمری کے پورے ہونا

لڑکا یا لڑکی جب سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو انھیں تمام شرعی فرائض کو انجام دینا چاہئے ، اگر اس سن سے کمتر بچے بھی نیک کام، جیسے نماز کو صحیح طریقے پر انجام دیں، تو ثواب پائیں گے ۔ توجہ رہے کہ سن بلوغ قمری سال سے حساب ہوتا ہے، چونکہ قمری سال 4 5 3 دن اور 6 گھنٹے کا ہوتا ہے اس لئے شمسی سال سے دس دن اور 18 گھنٹے کم ہوتا ہے ، اس طرح 9سال شمسی سے 96 دن اور 18 گھنٹے کم کرنے پر 9 سال قمری بن جاتے ہیں اور 15 سال شمسی سے 61 1 دن اور 6 گھنٹے کم کرنے پر 15 سال قمری بن جاتے ہیں ۔

سوالات :

1۔تقلید کے کیا معنیٰ ہیں ؟

2۔مرجع تقلید کے شرائط کیا ہیں؟

3۔مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کے طریقے بیان کیجئے؟

4۔مجتہد کے فتوے کو حاصل کرنے کے طریقے کیا ہیں ؟

5۔مکلف کون ہے؟

۴۸

درس نمبر 12

( نجاسات )

اسلام کچھ چیزوں کو نجس جانتا ہے ، اور مسلمانوں کو ان سے اجتناب کا حکم دیتا ہے :

1۔2۔ پیشاب و پاخانہ : خواہ انسان کا ہو یا ہر اس حرام گوشت حیوان کا جو خون جہندہ رکھتا ہو یعنی اگر اس کی رگ کو کاٹ دیں تو خون اچھل کر نکلتا ہے۔

3۔منی :اہر انسان اور خون جہندہ رکھنے والے حیوان کی منی نجس ہے ۔

4۔ مردار :انسان اور ہر خون جہندہ رکھنے والے حیوان کا مردہ نجس ہے ۔

5۔خون : انسان اور ہرخون جہندہ رکھنے والے حیوان کا خون نجس ہے ۔

6۔ خشکی کا کتا۔

7۔ خشکی کاسور۔

8۔ کافر جو خدا و رسول(ص) کا منکر ہے ۔

9۔ شراب ۔

10۔ فقاع (بیئر) جو، جو سے بنائی جاتی ہے ۔

( مطہرات )

1۔ پانی : مطلق اور پاک پانی ،ہر چیز کی نجاست کو پاک کر تا ہے ۔

2۔ زمین: اگر زمین پاک اور خشک ہے تو انسان کے پیر ، جوتے کے تلے اور ، گاڑی

۴۹

کے پہیہ وغیرہ کو پاک کردیتی ہے شرط یہ ہے کہ چلنے کی وجہ سے ان چیزوں کی نجاست زائل ہو گئی ہو ۔

3۔ آفتاب : سورج ،زمین ،چھت ، دیوار ، دروازہ ، کھڑکی اور درخت وغیرہ کو پاک کرتا ہے شرط یہ ہے کہ عین نجاست بر طرف ہوگئی ہو اور نجاست کی تری آفتاب کی گرمی سے خشک ہو جائے ۔

4۔ عین نجاست کا دور ہونا : اگر حیوان کا بدن نجس ہوجائے تو عین نجاست کے دور ہوتے ہی اس کا بدن پاک ہوجاتا ہے ، اور پانی سے دھونے کی ضرورت نہیں ہے ۔

5۔ استحالہ : اگر عین نجس اس طرح متغیر ہوجائے کہ اس پر اس کے سابقہ نام کا اطلاق نہ ہو بلکہ اسے کچھ اور کہا جانے لگے تو وہ نجاست پاک ہوجاتی ہے، جیسے کتا نمک کی کان میں گر کر نمک بن جائے تو پاک ہو جائے گا یا نجس لکڑی کو آگ جلا کر خاکستر کر دے تووہ خاکستر پاک ہوجائیگی۔

سوالات :

1۔ کوئی بھی پانچ نجاسات بیان کیجئے ؟

2۔ کیا سانپ کا خون نجس ہے ؟

3۔ زمین کن چیزوں کو پاک کرتی ہے ؟

4۔ استحالہ سے کیا مراد ہے ؟

۵۰

درس نمبر 13

( وضو )

وضو کا طریقہ :

پہلے نیت کرے کہ خدا کی خوشنودی کے لئے وضو انجام دیتا ہوں ''قربةً الی اللہ ''

پھرچہرے پر بال اگنے کی جگہ سے ٹھڈی کے آخری حصے تک دھوئے ،چہرہ دھونے کے بعد داہنے ہاتھ کو کہنی سے لے کر انگلیوں کے آخری سرے تک ( یعنی اوپر سے نیچے کی طرف) دھوئے اور پھر بائیں ہاتھ کو کہنی سے لے کر انگلیوں کے آخری سرے تک یعنی اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے اس کے بعد داہنے ہاتھ کی تری سے سر کے اگلے حصہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے ۔ پھر داہنے ہاتھ کی بچی ہوئی تری سے داہنے پیر کی انگلیوں سے لے کر پیر کے ابھار تک مسح کرے ۔اسکے بعد بائیں ہاتھ سے بائیں پیر کی انگلیوں سے لے کر پیر کے ابھار کی جگہ تکمسح کرے ۔

( غسل )

چھ غسل واجب ہیں :

( 1 ) غسل جنابت (2)غسل میت (3) غسل مس میت (4) غسل حیض(5) غسل نفاس (6) غسل استحاضہ

( 1 ) غسل جنابت: اگر انسان جماع کرے ،یا اس سے منی نکل آئے تو اسے غسل

۵۱

جنابت کرنا چاہیے ۔

( 2 ) غسل میت: ہر مسلمان کو مرنے کے بعد اور دفن کرنے سے پہلے غسل دینا واجب ہے اسے غسل میّت کہتے ہیں ۔

( 3 ) غسل مس میت: اگر کوئی شخص کسی میت کو سرد ہونے کے بعد اور غسل میت سے پہلے مس کرلے تو اس پر غسل مس میت واجب ہوجاتا ہے ۔

( 4،5،6 ) غسل حیض،غسل نفاس،غسل استحاضہ،یہ تین غسل خواتین کے ساتھ مخصوص ہیں جنکی تفصیل کے لیے ہماری کتاب ''خواتین کے اہم مسائل '' کی طرف رجوع فرمائیں ۔

غسل کا طریقہ :

غسل میں چند چیزیں واجب ہیں :

1۔ نیت : غسل کو خدا کے لئے بجالائے اور معلوم ہونا چاہیے کہ کون سا غسل انجام دے رہا ہے ( یا دے رہی ہے )

2۔ نیت کے بعد پورے سر و گردن کو دھوئے اس طریقے سے کہ ایک ذرہ کہیں چھوٹنے نہ پائے ۔

3۔ سر و گردن کے بعد داہنے طرف کے پورے بدن کو دھوئے ۔

4۔ اس کے بعد بائیں طرف کے پورے بدن کو دھوئے ۔

مجنب پر چند چیزیں حرام ہیں :

1۔ خط قرآن ، اسم خدا ، اور اسماء انبیاء ، اسماء ائمہ طاہرین کو بدن کے کسی حصہ سے مس کرنا ۔

2۔ مساجد اور ائمہ علیہم السلام کے حرم میں ٹھہرنا ۔

3۔ کسی چیز کو رکھنے کے لئے مسجد میں داخل ہونا ۔

4۔ وہ سورہ جن میں سجدہ واجب ہے ان کی سجدہ والی آیت کا پڑھنا ۔

5۔ مسجد الحرام اور مسجد النبوی میں جانا ۔

۵۲

( تیمم کا طریقہ )

تیمم میں پانچ چیزیں واجب ہیں :

1۔ نیت ۔

2۔ دونوں ہاتھوں کو ملا کر ہتھیلیوں کو زمین پر مارے ۔

3۔ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کوپوری پیشانی اور اس کے دونوں طرف جہاں سے سر کے بال اُگتے ہیں ابرو ئوں تک اور ناک کے اوپر تک کھینچے

4۔ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو داہنے ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرے ۔

5۔ داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرے ۔

نکتہ 1: جب انسان کے لئے پانی ضرر رکھتا ہو یا پانی تک رسائی ممکن نہ ہو یا نماز کا وقت تنگ ہو تو چاہیے کہ نماز کے لئے تیمم کرے ۔

نکتہ 2: مٹی ، کنکر ، ریت ، ڈھیلہ ، پتھر ، پر تیمم کرنا صحیح ہے ۔

۵۳

سوالات :

1۔ وضو کا طریقہ بیان کیجئے ؟

2۔غسل کا طریقہ بیان کیجئے ؟

3۔کتنے غسل واجب ہیں ؟

4۔ تیمم کا طریقہ بیان کیجئے ؟

5۔ تیمم کن چیزوں پر جائز ہے ؟

۵۴

درس نمبر 14

( نماز )

نماز دین کا ستون ہے، آنحضرت (ص) نے فرمایا : خدا کی قسم نماز کو حقیر سمجھنے والے اور ترک کرنے والے کومیری شفاعت نصیب نہیں گی۔(1)

٭واجب نمازیں چھ ہیں :

1۔ نماز پنجگانہ ۔

2۔ نماز آیات (سورج گہن و چاند گہن )

3۔ نماز میت۔

4۔ نماز طواف۔

5۔ نمازقسم و نذر وغیرہ

6۔ نماز قضاء والدین

تمام مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز پڑھنا واجب ہے ، صبح کی دورکعت ، ظہر کی چار رکعت ، عصر کی چار رکعت ، مغرب کی تین رکعت ، اور عشا کی چار رکعت ۔

٭اوقات نماز :

نماز صبح کا وقت ،صبح صادق سے لے کر سورج نکلنے کے وقت تک ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وافی ۔ج2 ، جزء پنجم، ص 13 ۔

۵۵

نمازظہر و عصر کا وقت سورج کے زوال سے لے کر غروب آفتاب تک ہے۔نماز مغرب و عشا سورج ڈوبنے (مغرب ) سے لے کر آدھی رات تک ہے

( اذان )

نماز سے پہلے اذان کہنا مستحب ہے ، اس کی ترتیب یہ ہے :

اَللّٰهُ اَکبَرُ ''اللہ سب سے بڑا ہے '' 4 مرتبہاَشهَدُ اَن لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُُ ''میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔'' 2مرتبہ

اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰهِ ''میں گواہی دیتا ہوں کی محمد(ص) بن عبد اللہ ، اللہ کے رسول ہیں'' 2 مرتبہ

اَشهَدُ اَنَّ عَلِیّاً ولی الله (1) '' میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی تمام لوگوں پر اللہ کے ولی ہیں'' 2 مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ الصَّلٰوةِ ''نماز کے لئے جلدی کرو '' 2مرتبہحَیَّ عَلیٰ الفَلَاحِ ''کامیابی کے لئے جلدی کرو '' 2 مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمَلِ ''بہترین عمل کے لئے جلدی کر و '' 2 مرتبہ

اَللّٰهُ اَکبَرُ ''اللہ سب سے بڑا ہے '' 2مرتبہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔مراجع تقلید کے مطابق'' اَشهَدُ اَنَّ عَلِیّاً وَلِیُ اللّٰهِ '' ( میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی تمام لوگوں پر اللہ کے ولی ہیں) اذان و اقامت کا (جز) حصہ نہیں ہے ، لیکن'' اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰهِ '' کے بعد'' اَشهَدُ اَنَّ عَلِیاً وَلِیُّ اﷲِ '' بقصد تبرک و تیمن کہنا بہتر ہے ۔

۵۶

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ''خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے '' 2مرتبہ

( اقامت )

نماز کے لئے اذان کے بعداقامت کہنا مستحب ہے،اس کی ترتیب یہ ہے :

اَللّٰهُ اَکبَرُ ''اللہ سب سے بڑا ہے '' 2 مرتبہاَشهَدُ اَن لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُُ ''میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔'' 2مرتبہ

اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰهِ ''میں گواہی دیتا ہوں کی محمد(ص) بن عبد اللہ ، اللہ کے رسول ہیں'' 2 مرتبہ

اَشهَدُ اَنَّ عَلِیّاً ولی الله (1) '' میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی تمام لوگوں پر اللہ کے ولی ہیں'' 2 مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ الصَّلٰوةِ ''نماز کے لئے جلدی کرو '' 2مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ الفَلَاحِ ''کامیابی کے لئے جلدی کرو '' 2 مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمَلِ ''بہترین عمل کے لئے جلدی کر و '' 2 مرتبہ

قَد قَا مَتِ الصَّلَوٰةُ '' نماز قائم ہوگئی '' 2مرتبہ

لَااِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ '' خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے '' 1 مرتبہ

۵۷

سوالات:

1۔واجب نمازوں کے کے نام بتائیں ؟

2 ۔اذان کی ترتیب بیان کیجئے ؟

3۔اذان اور اقامت کا فرق بیان کیجئے ؟

4۔مراجع تقلیداذان و اقامت میں'' اَشهَدُ اَنَّ عَلِیّاً وَلِیُ اللّٰهِ '' کے بارے میں کیا فرماتے ہیں

۵۸

درس نمبر51

( نماز پڑھنے کا طریقہ )

نماز میں چند چیزوں کا انجام دینا ضروری ہے :

1۔ نیت : قبلہ رخ کھڑے ہونے کے بعد نیت کرے کہ میں دو رکعت نماز صبح پڑھتا ہوں(یا پڑھتی ہوں ) واجب قربة ً الی اللہ ۔

2۔تکبیرة الاحرام : نیت کے بعد ہاتھوں کو کان کی لو تک لیجا کر کہے'' اللہ اکبر'' پھر ہاتھوں کو نیچے لائے۔

3۔ قرائت : تکبیرة الاحرام کے بعد سورہ حمد کی تلاوت کرے۔ :

بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

اَلحَمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العٰالَمِینَ- الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ - مَالِکِ یَومِ الدِّینِ- اِیَّاکَ نَعبُدُ وَاِیَّاکَ نَستَعِینُ- اِهدِنَاالصِّرَاطَ المُستَقِیمَ - صِرَاطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیهِم غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِم وَلَا الضَّالِّینَ -

ترجمہ :

خداوند رحمن و رحیم کے نام سے (شروع کرتا ہوں )

ساری تعریفیں اس خدا کے لئے مخصوص ہیں جو جہانوں کا پالنے والا ہے ، جوبڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے جوجزا کے دن کا مالک ہے ، (پروردگار)ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں ، اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں، ہم کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ ،

۵۹

ایسے لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اپنی نعمتیں نازل کی ہیں ، ان لوگوں کا راستہ نہیں ، جن پر تو نے غصب نازل کیا ہے اور گمراہوں کا راستہ ۔

٭سورہ حمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید سے کوئی ایک سورہ پڑھے مثلا سورہ توحید اس طرح :

بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

قُل هُوَ اللّٰهُ اَحَد - اَللّٰهُ الصَّمَدُ - لَم یَلِد وَلَم یُولَد - وَلَم یَکُن لَّه کُفُواً اَحَد-

ترجمہ :

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو رحمن و رحیم ہے۔

اے پیغمبر ! کہہ دیجئے وہ خدا یکتا ہے ، وہ خدا سب سے بے نیاز ہے،اس سے، کوئی پیدا نہیںہواہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور کوئی اس کا مثل و نظیر نہیں ہے ۔

٭مردوں پر واجب ہے کہ نماز صبح و مغرب و عشا میں سورہ حمد اور دوسرا سورہ بلند آواز سے پڑھیں ۔

٭ تکبیرة الاحرام(الله اکبر) کہتے وقت ہاتھوں کا کان کی لو تک اٹھانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے ۔

4۔ رکوع : سورہ حمد اور دوسرے سورہ کے بعد رکوع میں جائے یعنی اس انداز میں جھکے کہ ہاتھ دونوں گھٹنوں تک پہنچ جائیں اور پھر پڑھے ،

'' سُبحَانَ رَبِّیَ العَظِیمِ وَ بِحَمدِه ''

یا تین مرتبہ کہے''سُبحَانَ اللّٰه''ِ یعنی میرا عظیم پروردگار ہر عیب و نقص سے پاک و

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

لیکن اللہ نے ان کی کوششوں کوناکام بنادیا(۱) یوں وہ اپنے مکر وفریب کے جال میں خود پھنس کررہ گئے کیونکہ حق صبح کی طرح روشن اور شرافت ونجابت وپاکیزگی اور عصمت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سورج کی طرح تابناک ہے_

___________________

۱_ قابل ذکر ہے کہ سلمان رشدی نے بھی استعماری طاقتوں کی پشت پناہی اور سازش کے سائے میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق میں تاریخی بے ادبی کرتے ہوئے شیطانی آیات نامی کتاب لکھی_ اس کتاب میں ان بے بنیاد روایات اور افسانوں سے بھی مدد لی گئی ، تمام باطل قوتیں حق کو مسخ کرنے کیلئے متحد ہوئیں لیکن علیعليه‌السلام کے لال روح اللہ خمینی بت شکن کے ایک جملے نے عصر حاضر کے شیاطین کے مکر و فریب کو خاک میں ملا دیا _( مترجم)

۱۰۱

تیسری فصل

شعب ا بوطالب تک کے حالات

۱۰۲

حضرت حمزہعليه‌السلام کے قبول اسلام کی تاریخ میں اختلاف

کہتے ہیں کہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب نے بعثت کے دوسرے سال اسلام قبول کیا، کبھی یہ کہتے ہیں کہ ارقم کے گھر میں حضوراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تشریف فرما ہونے کے بعد مسلمان ہوئے_ یہ دونوں باتیں آپس میں منافات رکھتی ہیں کیونکہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعثت کے تیسرے سال کے اواخر میں ارقم کے گھر تشریف لے گئے تھے_ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت حمزہ عمر سے تین روز قبل مسلمان ہوئے جبکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ بعثت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ارقم کے گھر سے نکلے_ اور اس میں بھی واضح تضاد پایا جاتا ہے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعثت کے تیسرے سال کے اواخر میں صرف ایک ماہ کیلئے حضرت ارقم کے گھر میں رہے (جیساکہ کہا گیا ہے ...اور آئندہ اس کا بھی ذکرہوگاکہ حضرت عمر حضرت حمزہ کے اسلام لانے کے کئی سال بعد اسلام لائے)_

حضرت حمزہ کا قبول اسلام

ابن ہشام اور دوسروں نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ہجرت حبشہ کے بعد اسلام قبول کیا یعنی بعثت کے تقریبا چھٹے سال_ ہم بھی اسی قول کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ جب وہ مسلمان ہوئے تو (جیساکہ مقدسی کہتا ہے) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور مسلمانوں کو تقویت حاصل ہوئی_ یہ بات مشرکین پر گراں گزری چنانچہ انہوں نے عداوت اوردوری اختیار کرنے کے بجائے دوسری راہ اختیار کی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مال و انعام کی لالچ دینے لگے_

۱۰۳

انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حسین لڑکیوں سے شادیوں کی بھی پیشکش کی_(۱) یہ پیشکش ہجرت حبشہ کے بعد کی بات ہے جیساکہ سیرت ابن ہشام سے ظاہر ہے _نیز حضرت حمزہ اعلانیہ دعوت شروع ہونے کے بعد مسلمان ہوئے جب حضرت ابوطالب اور قریش کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد قریش نے دشمنی اور ایذا رسانی کا راستہ اپنایا_

بہرحال حضرت حمزہ کا قبول اسلام ایک سنگ میل کی صورت اختیار کرگیا جس کے بارے میں قریش نے سوچا بھی نہ تھا _اس واقعے سے حالات کی کایا پلٹ گئی اور قریش کی قوت پرکاری ضرب لگی_ ان کے خطرات میں اضافہ ہوا اوران کی سرکشی ومنہ زوری کو لگام لگ گئی(۲) _

ایک دفعہ ابوجہل کوہ صفا کے پاس رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے نزدیک سے گزرا ،اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت دی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برا بھلا کہا ، نیز اسلام کی عیب جوئی اور امر رسالت کی برائی کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کی_ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے کوئی بات نہیں کی_

حضرت حمزہعليه‌السلام شکاری تھے شکار سے لوٹتے تو پہلے خانہ کعبہ جاکر طواف کیا کرتے اور وہاں موجود افراد سے سلام وکلام کرتے اور پھر گھر لوٹتے تھے_ اس دفعہ حضرت حمزہعليه‌السلام شکار سے لوٹے ہی تھے کہ ایک عورت نے ابوجہل کی طرف سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے ادبی کے بارے میں انہیں بتایا_ حضرت حمزہ غضبناک ہوکر سیدھے مسجد الحرام آئے تو انہوں نے ابوجہل کو لوگوں کے ساتھ بیٹھے پایا _وہ اس کی طرف بڑھے ، جب قریب پہنچے تو اپنی کمان اٹھائی اور زور سے اس کے سر پردے ماری جس سے ابوجہل کا سر پھٹ گیا _پھر انہوں نے کہا اے ابوجہل کیاتم اس شخص کی ملامت کرتے ہو؟ لو میں اس کے دین پرہوں اور وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے، اگر تم میں طاقت ہے تو آؤ میرا مقابلہ کرو_ان باتوں سے قبل ابوجہل نے ان کے سامنے عاجزی دکھائی اور گڑ گڑانے لگا لیکن انہوں نے قبول نہ کیا _بنی مخزوم کے افراد ابوجہل کی حمایت کیلئے کھڑے ہوگئے اور حضرت حمزہ سے کہا:'' ہم دیکھتے ہیں کہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے'' _حضرت حمزہ نے کہا: '' کیوں

___________________

۱_ البدء و التاریخ ج۴ص ۱۴۸_۱۴۹ اور یہی بات سیرت ابن ہشام سے بھی ظاہر ہے جس نے حضرت حمزہ کے قبول اسلام کا ذکر کرنے کے بعد ان امور کا بھی تذکرہ کیا ہے_

۲_ ملاحظہ ہو : کنز العمال ج ۱۴ ص ۴۸ ابن عساکر اور بیہقی کی الدلائل النبوة سے_

۱۰۴

نہ بدلوں میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں_اور ان کا قول حق ہے_ خدا کی قسم میں اس دین سے بازنہیں آؤں گا اگر تم سچے ہوتو مجھے روک کر دیکھو''_

ابوجہل نے کہا: '' ابوعمارہ (حمزہ) کومت چھیڑو کیونکہ واقعاً میں نے اس کے بھتیجے کو ناروا گالی دی تھی''_ مقدسی کہتا ہے کہ جب حضرت حمزہ مسلمان ہوئے تو اس سے اسلام اور مسلمانوں کی حیثیت مضبوط ہوئی(۱) اور نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہایت خوشی ہوئی_

قریش نے دیکھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ قوت پکڑ گئے ہیں، بنابریں آپ کو گالی گلوچ دینے سے باز آگئے_ حضرت حمزہ نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے عرض کیا: '' بھتیجے اپنے دین کا کھلم کھلا پرچار کرو، خدا کی قسم مجھے یہ منظور نہیں کہ میں اپنے سابقہ دین پر باقی رہوں خواہ مجھے پوری دنیا ہی کیوں نہ مل جائے''(۲) _ حضرت حمزہ کو قریش کے تمام جوانوں پر برتری حاصل تھی اور وہ سب سے زیادہ غیور تھے_(۳)

حمزہ کا قبول اسلام جذباتی فیصلہ نہ تھا

بظاہربلکہ حقیقت میں بھی انہوں نے اسلام کو معرفت کے ساتھ قبول کیا تھا _کیونکہ آپ کے مذکورہ قول (کہ میرے لئے واضح ہوگیا ہے کہ وہ اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور ان کا قول حق ہے) سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے فقط جذبات سے مغلوب ہوکر اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے اقوال وکردار کے قریبی مشاہدے کی بنا پر پہلے سے ہی اطمینان حاصل کرلیا تھا_

ان کا یہ کہنا کہ کیا تم اس کو برا بھلا کہتے ہو جبکہ میں بھی اس کے دین پر ہوں اس بات کا واضح طور پرشاہد ہے کہ وہ پہلے سے ہی اسلام کو قبول کرچکے تھے لیکن حالات کے پیش نظراسے پوشیدہ رکھ رہے تھے تاکہ یوں وہ مسلمانوں اوراسلام کی بہتر حمایت کرسکیں ،کیونکہ مسلمان قریش کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے اور

___________________

۱_ البدء و التاریخ ج ۵ ص ۹۸_

۲_ ملاحظہ ہو : تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۷۲و ص ۷۳اور السیرة النبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۲_

۳_ ملاحظہ ہو : تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۷۲_

۱۰۵

کتنے ہی لوگ ایسے تھے جنہیں مزید روحانی تربیت کی ضرورت تھی تاکہ وہ مشرکین کے مقابلے میں ان مشکل حالات سے عہدہ بر آہوسکتے_

ابوجہل نے بزدلی کیوں دکھائی؟

یہاں اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ مشرکین کاسرغنہ ابوجہل اس دن اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ موجود تھا اور انہوں نے اس کی حمایت کیلئے آمادگی بھی ظاہرکی تھی لیکن اس کے باوجود ابوجہل نے خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے شیر کا سامنا کرنے میں عاجزی اوربزدلی دکھائی_ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت حمزہ کی مردانگی، قوت، غیرت اور شجاعت سے آگاہ تھا_وہ حضرت حمزہ کے عزم وارادے اور عقیدے کی راہ میں جذبہ قربانی کا مشاہدہ کررہا تھا_

دوسری طرف سے اسے تو فقط رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے دشمنی تھی اوراس کی وجہ حب دنیا اور اپنے مفادات کی حفاظت تھی اور وہ موت کا طلبکار نہ تھا ،بلکہ موت سے بچنا چاہتا تھا _وہ موت کو اپنے لئے سب سے بڑا خسارہ سمجھتا تھا لیکن حضرت حمزہ دین کی راہ میں موت کو کامیابی گردانتے تھے ،پس ان کیلئے کوئی وجہ نہ تھی کہ موت سے ڈرتے یا اسے شہد کی طرح شیرین نہ سمجھتے_

تیسری وجہ یہ تھی کہ ابوجہل، بنی ہاشم کامقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا کیونکہ بنی ھاشم کے درمیان اس کے بہت سے حامی موجود تھے_ اگر وہ ان کے ساتھ لڑتا توخاندان اور قبائلی تعصب کے نتیجے میں ان لوگوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا جو اس کے ہم خیال اور ہم عقیدہ تھے_ بنی ہاشم قبائلی طرزفکر کی بنا پر حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑسکتے تھے اگرچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے دین پر نہ تھے، عربوں کی سماجی ومعاشرتی پالیسیاں بھی اسی طرزفکر کی تابع ہوتی تھیں _چنانچہ ابولہب کے علاوہ باقی بنی ہاشم نے حضرت ابوطالب سے وعدہ کیا تھا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کے مقابلے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت اور حفاظت کریں گے_بلکہ ان حالات میں اگر ابوجہل حضرت حمزہ کے خلاف کوئی اقدام کرتا تو اس سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - کو تقویت ملتی اور

۱۰۶

بہت سے بنی ہاشم، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کرتے یا قومی جذبہ کے تحت دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے اور یہ بات ابوجہل کو کسی صورت گوارا نہ تھی_

ان تمام حالات اور نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اس نے اللہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیر (حمزہ) کے مقابلے میں ذلت آمیز خاموشی میں ہی عافیت جانی_

خلاصہ یہ کہ دنیوی زندگی سے ابوجہل کی محبت یا اس کی بزدلی وغیرہ (جس کے باعث وہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بنی ہاشم کی مخالفت کو مضر سمجھتا تھا) کے نتیجے میں اس نے ذلت وپستی پر مبنی موقف اپنایا _یوں اللہ نے باطل کا سرنیچاکیا اور حق کا سر اونچا_

عَبَسَ وَ تَوَلّی ؟

مورخین نے فسانہ غرانیق کے بعد ایک اور واقعے کا تذکرہ کیا ہے جس کے بارے میں '' عبس وتولی'' والی سورت نازل ہوئی یہ سورت، سورہ نجم کے بعد نازل ہوئی ہے_

اس قصے کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ قریش کے بعض رؤساکے ساتھ مصروف گفتگوتھے _یہ لوگ صاحبان مال وجاہ تھے_ اتنے میں عبداللہ ابن ام مکتوم آیا وہ نابینا تھا اس نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قرآن کی آیت سننی چاہی اورعرض کیا: '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مجھے وہ چیزیں سکھایئےواللہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سکھائی ہیں ''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اس سے بے رخی کی اور ترشروئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے رخ موڑ لیا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی بات کو نا پسند کرتے ہوئے ان رؤسا کی طرف متوجہ ہوئے جن کو مسلمان بنانے کا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شوق تھا _اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں:( عبس وتولی ان جائه الاعمی_ و ما یدریک لعله یزکی_ او یذکر فتنفعه الذکری_ اما من استغنی_ فانت له تصدی و اما من جائک یسعی_ و هو یخشی_ فانت عنه تلهی _) (سورہ عبس، آیت ۱_۱۰)

۱۰۷

یعنی اس نے منہ بسور لیا اور پیٹھ پھیرلی کہ ان کے پاس ایک نابینا آگیا اور تمہیں کیا معلوم شاید وہ پاکیزہ نفس ہوتا یا نصیحت حاصل کرلیتا تو نصیحت اس کے کام آتی لیکن جو مستغنی بنا بیٹھا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی فکر میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرکوئی ذمہ داری نہیں ہے اگروہ پاکیزگی اختیار نہ کرے لیکن جو شخص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دوڑ کرآیا ہے اور خوف الہی بھی رکھتا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سے بے رخی کرتے ہیں_

ایک روایت میں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کا آنا پسند نہ آیا اور سوچا کہ یہ قریشی خیال کریں گے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیروکار اندھے، غلام اور بیچارے لوگ ہی ہیں ،پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منہ بسور لیا

حَكَمْ سے منقول ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے کسی فقیر یا غریب سے منہ نہیں موڑا اور کسی امیر کو اہمیت نہیں دی_ ابن زید نے کہا ہے اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ وحی کو چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو ضرور چھپاتے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں نازل ہوئی_(۱) پس ابن زید نے اس واقعے کی شدت قباحت کی بناپر رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توصیف کی ہے کہ رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس واقعہ کے بہت زیادہ قبیح ہونے کے باوجود بھی اسے نہیں چھپایا ہے _

غیرشیعہ مفسرین ومحدثین کامذکورہ واقعے کے متعلق بنیادی طور پراتفاق ہے_ لیکن ہمارے نزدیک یہ ایک جعلی کہانی ہے جس کا صحیح ہونا ممکن نہیں_ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

الف: اسناد کا ضعیف ہونا، کیونکہ تمام اسانید کی انتہاء یا تو عائشےہ، انس اور ابن عباس پرہوتی ہے جن میں سے کسی نے اس واقعے کا اپنی آنکھ سے خود مشاہدہ نہیں کیا کیونکہ اس وقت یا تو وہ بچے تھے یا ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے _(۲) یا ابومالک(۳) حکم ابن زید، ضحاک، مجاہد اور قتادہ پر منتہی ہوتی ہیں حالانکہ یہ سب تابعی ہیں _بنابریں روایت مقطوعہ ہے اور اس سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے_

___________________

۱_ رجوع کریں: مجمع البیان ج ۱۰ص ۴۳۷المیزان از مجمع و تفسیر ابن کثیر ج ۴ص ۴۷۰ از ترمذی و ابویعلی، حیات الصحابہ ج ۲ص ۵۲۰تفسیر طبری ج ۳۰ص ۳۳_۳۴ و در منثور ج ۶ص ۳۱۴_۳۱۵ نیز دیگر غیر شیعی تفاسیر_ ان تمام تفاسیر میں اس حوالے سے آپ مختلف روایات کا مشاہدہ کریں گے_ بطور مثال آخر الذکر کا مطالعہ کریں_

۲_ رجوع کریں: الہدی الی دین المصطفی ج ۱ص ۱۵۸ _ ۳_ بظاہر اس سے مراد ابومالک الاشجعی ہیں جو تفسیر و روایت میں مشہور اور تابعی ہیں _

۱۰۸

ب:عبارات والفاظ کا اختلاف(۱) یہاں تک کہ ایک ہی راوی سے منقول الفاظ میں اختلاف ہے چنانچہ ایک روایت میں حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس مشرکین کے رؤسا میں سے ایک شخص حاضر تھا_

دوسری روایت میں حضرت عائشہ ہی سے مروی ہے کہ عتبہ اور شیبہ حاضر تھے_

تیسری روایت میں حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اس مجلس میں قریش کے کئی بزرگان موجود تھے جن میں ابوجہل اور عتبہ ابن ربیعہ وغیرہ تھے_

نیز ابن عباس سے منقول ایک روایت میں ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام ، عتبہ، اپنے چچا عباس اور ابوجہل کے ساتھ مصروف گفتگو تھے لیکن ابن عباس ہی سے منسوب تفسیر میں مذکور ہے کہ وہ افراد عباس، امیہ بن خلف، صفوان بن امیہ اور ...تھے_قتادہ سے کبھی امیہ ابن خلف کانام نقل ہوا ہے اورکبھی ابی ابن خلف کا_

بقول مجاہد قریش کے سرداروں میں سے ایک سردار موجود تھا_ دوسری روایت میں مجاہد سے منقول ہے کہ عتبہ ابن ربیعہ اور امیہ ابن خلف موجود تھے_

ان باتوں کے علاوہ خود روایات میں بھی اختلاف ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا؟ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے الفاظ کیاتھے؟ اور ابن ام مکتوم کے الفاظ کیاتھے؟ یہاں ہم اسی قدر گفتگو پر اکتفا کرتے ہیں_ جو مزید تحقیق کا طالب ہو وہ متعلقہ کتابوں کا مطالعہ اور موازنہ کرے_

ج:مذکورہ آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کا آیت میں تذکرہ ہوا ہے اس کی عادت، اور طبیعت ہی یہ تھی کہ وہ امیروں پر توجہ دیتا تھا اگرچہ کافرہی کیوں نہ ہوں اور فقیروں کی اصلاح پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا اگرچہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس قسم کی صفات وعادات کے مالک نہ تھے_

___________________

۱_ الہدی الی دین المصطفی ج ۱ص ۱۵۸_۱۵۹_

۱۰۹

نیز فقیروں کے ساتھ ترشروئی اور بے اعتنائی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عادات میں شامل نہ تھیں اگرچہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمن ہی کیوں نہ ہوں_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیونکر اپنے چاہنے والوں اور مومنین کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے؟(۱) جبکہ اللہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے بارے میں فرمایا ہے:( بالمومنین رؤوف رحیم ) (۲)

بلکہ آپ کی عادت ہی یہ تھی کہ فقیروں کے ساتھ مل بیٹھتے اور ان پر توجہ دیتے_ یہاں تک کہ یہ بات اشراف قریش کو پسند نہ آئی اور ان پر شاق گزری _ قریش کے بعض بزرگوں نے توحضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان غریبوں کو دورہٹادیں تاکہ اشراف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کریں_ یہ سن کر عمرنے ان بیچاروں کو دور کرنے کا اشارہ کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی( ولاتطرد الذین یدعون ربهم بالغداة والعشی یریدون وجهه ) (۳) یعنی ان لوگوں کو دورنہ ہٹاؤ جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی مرضی کے طالب رہتے ہیں_

نیز خداوند نے اس سورہ سے قبل نازل ہونے والے سورہ قلم میں اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توصیف میں فرمایا ہے کہ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خُلق عظیم کے مرتبے پر فائز ہیں''_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیونکر مذکورہ عمل کے مرتکب ہوسکتے تھے جو اس آیت کے منافی ہو اور جس پر خدا کی طرف سے (نعوذ باللہ ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملامت ومذمت ہو؟ کیا خدا (نعوذ باللہ ) اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخلاق سے بے خبر تھا؟ یا یہ کہ باخبر ہونے کے باوجود کسی مصلحت کے تحت ایسا فرمایا _خدا ہمیں گمراہی سے بچائے، آمین_

د:مذکورہ آیات میں ارشاد ہوا ہے:( وما علیک الا یزکی ) یعنی اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے توتم پر کوئی ذمہ داری نہیں _یہ خطاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیلئے نہیں ہوسکتا کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو لوگوں کی ہدایت اور ان کو

___________________

۱_ رجوع کریں: الہدی الی دین المصطفی ج ۱ص ۱۵۸، المیزان ج ۲۰ص ۲۰۳، تنزیہ الانبیاء ص ۱۱۹، مجمع البیان ج ۱ص ۴۳۷_

۲_ سورہ توبہ، آیت ۱۲۸_

۳_ رجوع کریں: الدر المنثور ج ۳ص ۱۲_۱۳ بظاہر یہ آیت ہجرت حبشہ سے قبل اتری کیونکہ راویوں میں ابن مسعود بھی ہے یا مہاجرین تک صلح کی افواہ پہنچنے اور ان کی مکہ واپسی کے بعد اتری_ یاد رہے کہ اس مقام پر حضرت عمر کا تذکرہ غلط ہے کیونکہ وہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے_ وہ ہجرت مدینہ سے کچھ مدت پہلے ہی مسلمان ہوئے، جس کا ذکر آئندہ ہوگا_

۱۱۰

پاکیزہ کرنے کیلئے ہی مبعوث ہوئے تھے، پھر یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذمہ داری کیوں نہ ہو؟ بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اصلی ذمہ داری ہی یہی تھی_ ارشاد الہی ہے( هو الذی بعث فی الامیین رسولا منهم یتلو علیهم آیاته و یزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة ) (۱) یعنی خدا نے ہی امیوں کے درمیان، انہی میں سے ایک کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنا کر بھیجا جو ان کیلئے آیات الہی پڑھ کرسناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور کتاب وحکمت سکھاتا ہے_ بنابریں کیونکر ہوسکتا ہے کہ خدا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس بات کی ترغیب دے کہ لوگوں کے ایمان سے بے رغبت ہوجائیں؟(۲)

ھ:آیہ انذار( وانذر عشیرتک الاقربین واخفض جناحک لمن اتبعک من المؤمنین ) (۳) (جو سورہ عبس سے دوسال قبل نازل ہوئی ہے) میں ارشاد ہوا ہے ''اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئےور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اتباع کرنے والے مومنین کے سامنے اپنے کندھوں کو جھکایئے_ تو کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ بھول گئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مومنین کے آگے شانے جھکانے کا حکم ہوا تھا؟ اگر ایسا ہو تو پھراس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اور بھی بہت ساری باتوں کو نہ بھولے ہوں؟ اور اگر بھولے نہیں تو پھراس صریحی حکم کی عمداً مخالفت کیوں فرمائی؟(۴)

و: آیت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ آیت میں مخاطب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی ذات ہے _بلکہ خداوند عالم نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو اس شخص کے متعلق خبر دی ہے جس نے( عبس و تولی ان جاء ه الاعمی ) اندھے کے آنے کی وجہ سے ترشروئی اختیار کرکے منہ پھیر لیا _ پھر خدا نے اس منہ بنانے والے کو مخاطب ہوکر کہا :( و ما یدریک لعله یزکی ) تمہیں کیا پتہ ہوسکتاہے کہ وہ پاکیزہ دل ہو_

ز:علامہ طباطبائی نے فرمایا ہے کہ ترجیح وعدم ترجیح کا معیار، امیری یا فقیری نہیں بلکہ اعمال صالحہ، اخلاق

___________________

۱_ سورہ بقرة آیت ۱۲۹

۲_ تنزیہ الانبیاء ص ۱۱۹

۳_ سورہ شعراء آیت ۲۱۴و ۲۱۵

۴_ المیزان ج ۲۰ ص ۳۰۳

۱۱۱

حسنہ اور صفات عالیہ کی موجودگی یا عدم موجودگی ہے اور یہ ایک عقلی حکم ہے جس کی تائید دین حنیف نے کی ہے پھر حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حکم کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں اور کیونکر ایک کافر کو اس کے مال وجاہ کی بنا پر کسی مومن پر ترجیح دے سکتے ہیں؟ کیا اسلام نے اس سے منع نہیں کیا؟ کیا عقل اور ضمیر کے نزدیک یہ عمل غیرمنطقی اور قبیح نہیں ہے؟(۱)

اگر کوئی یہ کہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلئے ایسا کیا تھا کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان مشرکین سے ایمان کی توقع رکھتے تھے_ یوں دین کو تقویت مل جاتی اور یہ مستحسن کام ہے کیونکہ دین کی راہ میں انجام پایا ہے_تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات قرآن کی آیات صریحہ کے خلاف ہے_ آیات کی رو سے مذکورہ فرد کی مذمت اسلئے ہوئی ہے کیونکہ وہ اس امیر پر اس کی امارت کے باعث توجہ دے رہا تھا اور اس فقیر سے اس کی فقیری کے باعث بے توجہی برت رہا تھا_

نیز اگر یہ بات درست ہوتی تو پھر لازم تھا کہ قرآن اس کے جذبہ دینی اور وظیفہ شناسی کو سراہتا نہ یہ کہ اس کی مذمت وتوبیخ کرتا_

بالآخر ہم یہ اشارہ کرتے چلیں کہ بعض لوگوں نے کہا ہے: ''ممکن ہے یہ کہا جائے کہ آیت میں خطاب کلی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جب بھی کسی فقیر کو دیکھتے تو منہ بسورکر رخ پھیر لیتے'' اس کا جواب یہ ہے کہ :

۱_ یہ قول اس بات کے مخالف ہوجائے گا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ واقعہ ایک دفعہ پیش آیا اور اس کا تکرار نہیں ہوا_

۲_ اگر تمام ناداروں سے منہ پھیر لینے کا ذکر مقصود ہے تو پھر اندھے کا ذکر کیوں آیا ہے ؟

۳_ کیا یہ صحیح ہے کہ یہ فعل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی عادت میں شامل ہو؟

___________________

۱_ المیزان ج۲۰ ص ۳۰۴ کی طرف رجوع کریں_

۱۱۲

جرم کسی اورکا:

مذکورہ باتوں کی روشنی میں واضح ہوا کہ ان آیات میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نہیں بلکہ کوئی اور شخص مراد ہے اور اس حقیقت کی تائید حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول اس روایت سے ہوتی ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ، عبداللہ ابن ام مکتوم کو دیکھتے تو فرماتے تھے مرحبا مرحبا خدا کی قسم کہ اللہ کبھی بھی تیرے بارے میں میری ملامت نہیں کرے گا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے ساتھ لطف ومہربانی اور احسان فرماتے تھے یہاں تک کہ وہ اسی لئے کثرت شرمندگی کی بنا پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوتا تھا_(۱)

اس بیان سے اس شخص کی مذمت کاپہلو نکلتا ہے جو ابن ام مکتوم کے معاملے میں مذکورہ مخالفت کا مرتکب ہوا تھا اور اس احتمال کی مکمل نفی ہوجاتی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے ایسا فعل سرزد ہوا ہو جو قابل سرزنش ہو_ اگر خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سرزنش کی ہوتی تو یہ نفی بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے_

لیکن خیانت کاروں کے ہاتھوں اس بات میں تحریف ہوئی ہے اور انہوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے تھے، مرحبا اس کیلئے جس کے بارے میں خدانے میری ملامت کی، رجوع کریں درالمنثور اور دیگر کتب تفسیر کی طرف، لیکن حقیقت وہی ہے جسے ہم نے ذکر کیا ہے_

ایک سوال کا جواب

سوال: جب مذکورہ آیت میں مقصود کوئی اور ہو تو پھر خدانے (فانت لہ تصدی) (آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی فکر میں لگے ہوئے ہیں) نیز (فانت عنہ تلہی) (آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سے بے رخی کررہے ہیں)کیوں کہا؟_ ان دو عبارتوں سے یہی ظاہر ہے کہ ایک شخص کی طرف توجہ اور دوسرے سے بے رخی کرنے والا شخص جس کا ذکر آیت میں ہوا ہے،دینی جذبے سے سرشار تھا اور اسی جذبے کے پیش نظر اس نے ایک طرف توجہ دی اور دوسری طرف بے رخی اختیار کی_

___________________

۱_ تفسیر البرہان ج۳ ص ۴۲۸ تفسیر نور الثقلین ج/ ۵ ص ۵۰۹ مجمع البیان ج۱۰ ص ۴۳۷_

۱۱۳

جواب: آیات میں اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کہ مذکورہ توجہ خدا کی طرف دعوت دینے کیلئے تھی_ ممکن ہے کہ اس توجہ کی وجہ کوئی دنیوی مقصد ہو مثلا لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا یا عزت حاصل کرنا وغیرہ_ رہی بات ارشاد الہی کی کہ (لعلہ یزکی) (شاید وہ پاکیزگی اختیار کرلے) تو اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کام اس مخاطب کے ہاتھوں انجام پائے بلکہ ممکن ہے اس مجلس میں حاضر کسی اور کے ہاتھوں یہ کام مکمل ہو مثلا رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا کسی اور کے ذریعے_

اس کے علاوہ اگر ہم فرض کریں کہ وہ شخص تبلیغ دین کی غرض سے ان امیروں کی طرف توجہ دے رہا تھاتب بھی یہ بات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے بارے میں نہیں کیونکہ تبلیغ رسول خدا کے ساتھ مخصوص نہیں چنانچہ ان لوگوں کے بقول آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ ایک اور شخص بھی اس تبلیغ پر توجہ دیتا تھا چنانچہ اس کے ذریعے کچھ لوگ مسلمان ہوئے (بشرطیکہ یہ بات درست ہو)_

درست روایت

یہاں صحیح روایت وہ معلوم ہوتی ہے جو حضرت امام صادقعليه‌السلام سے مروی ہے_ اس حدیث کے مطابق یہ آیات ایک اموی کے بارے میں نازل ہوئیں جو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس حاضر تھا_ اتنے میں ابن ام مکتوم آیا، اموی نے اسے گنداسمجھتے ہوئے تیوری چڑھائی اور سمٹ کر بیٹھ گیا نیز اس سے منہ پھیر لیا پس ان آیات میں خدانے اس کا قصہ بیان کیا اور اس کی مذمت کی_(۱)

واضح رہے کہ شروع میں آیات کا خطاب اس شخص کی طرف نہ تھا بلکہ خدا نے اس کے بارے میں غائب کا صیغہ استعمال کیا اور فرمایا اس نے منہ بسورا اور رخ پھیر لیا کیونکہ اس کے پاس ایک نابینا آیا پھر اچانک اسے مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے (وما یدریک) (یعنی تجھے کیا معلوم ...)_

لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ شروع میں خدا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہو (اس شخص کے بارے میں) اورپھر

___________________

۱_ مجمع البیان ج ۱۰ص ۴۳۷و تفسیر البرہان ج ۲ص ۴۲۸و تفسیر نور الثقلین ج ۵ص ۵۰۹ _

۱۱۴

خطاب کا رخ خود اس شخص کی طرف پھیردیاہو لیکن پہلا احتمال ذوق سلیم کی رو سے مناسب تر اور لطیف تر معلوم ہوتا ہے_

جناب عثمان پر الزام

بعض روایات میں عثمان پر الزام لگایا گیا ہے کہ مذکورہ واقعہ ابن ام مکتوم اور حضرت عثمان کے درمیان واقع ہوا_(۱)

لیکن ہم اسے مشکوک سمجھتے ہیں کیونکہ حضرت عثمان نے دیگر مہاجرین کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کی تھی پھر کیونکر مکے میں یہ واقعہ پیش آسکتا تھا؟ ممکن ہے اس کا جواب یہ دیاجائے کہ بقولے تیس سے زیادہ مہاجر دو ماہ بعد حبشہ سے واپس لوٹے (جن کا ذکر ہوچکا ہے) ان میں حضرت عثمان بھی تھے_(۲)

بہرحال حضرت عثمان یا بنی امیہ کے کسی فرد پر الزام، معصوم نبی پر الزام کے مقابلے میں آسان سی بات ہے_(۳) کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے اس قسم کے افعال کسی صورت میں بھی سرزد نہیں ہوسکتے لیکن بعض لوگ معصوم نبی پر اس قسم کی تہمت لگانے کو رواسمجھتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو اس قسم کے الزامات سے پاک ومنزہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں_

___________________

۱_ تفسیر قمی ج ۲ص ۴۰۵، تفسیر البرہان ج ۴ص ۴۲۷، تفسیر نور الثقلین ج ۵ص ۵۰۸

۲_ سیرت ابن ہشام ج ۲ص ۳

۳_ ہم حضرت عثمان کی بعض صفات کو اس آیت کے مطابق بھی پاتے ہیں جیساکہ عثمان اور عمار کے قصے سے ظاہرہوتا ہے جب مدینے میں مسجد کی تعمیر جاری تھی تو اس دوران حضرت عمار حضرت علیعليه‌السلام کے رجز کو حضرت عثمان کی طرف اشارہ کرنے کیلئے دہرا رہے تھے_ رجز یہ تھا:

لایستوی من یعمر المساجدا

یدا ب فیھا قائما و قاعداً

و من یری عن التراب حائدا

اس واقعہ کا ذکر آئندہ ہوگا _ انشاء اللہ

۱۱۵

دشمنان دین کا اس مسئلے سے سوء استفادہ

یہاں اس بات کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض متعصب عیسائیوں نے عبس وتولی والے قصے کی آڑمیں ہمارے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی کوشش کی ہے_(۱) لیکن اللہ اپنے نور کو کامل کرتا ہے اگرچہ ان کافروں کو ناگوار گزرے ہم بھی یہاں یہ کہتے ہیں کہ یہ جعلی اور باطل چیزیں ہیں جن کے لئے خدا نے کوئی دلیل نہیں اتاری ہے _

مزید دروغ گوئیاں

انہی لوگوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ اقرع بن حابس اور عینیہ بن حصن، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس آئے اورآپ کو عمار، صہیب، بلال اور خباب جیسے غریب مسلمانوں کے پاس تشریف فرما دیکھا_ تو ان کو حقیر سمجھا اور خلوت میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے کہا:'' عرب کے وفود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتے رہتے ہیں اور ہمیں اس بات سے شرم آتی ہے کہ وہ ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھیں _ پس جب وہ آجائیں تو ان کو یہاں سے اٹھادیں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے_

انہوں نے کہا اس بات کا تحریری طور پر وعدہ کریں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کاغذ مانگا اور حضرت علیعليه‌السلام سے لکھنے کیلئے کہا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی( و لاتطرد الذین یدعون ربهم بالغداة و العشی یریدون وجهه ما علیک من حسابهم من ...) (۲) یعنی جولوگ اپنے رب کو صبح وشام پکارتے ہیں اور اسی کو مقصود بنائے ہوئے ہیں انہیں اپنی بزم سے دور نہ کیجئے گا_ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ کاغذ دور پھینک دیا انہیں بلایا اور انہی کے ساتھ بیٹھ گئے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عادت ہی یہ ہوگئی کہ ان کے ساتھ بیٹھتے تھے جب بھی اٹھنا چاہتے تو خود اٹھ جاتے اور انہیں وہیں بیٹھا ہوا چھوڑ دیتے_ اس سلسلے میں خدا نے یہ آیت نازل کی( واصبر

___________________

۱_ رجوع کریں: الھدی الی دین المصطفی ج ۱ص ۱۵۸ _

۲_ سورہ الانعام، آیت ۵۲ _

۱۱۶

نفسک مع الذین یدعون ربهم بالغداة والعشی یریدون وجهه ولا تعد عیناک عنهم ) (۱) (اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کر جو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں، خبردار کہ تمہاری آنکھیں ان کی طرف سے پھرنے نہ پائیں) اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ساتھ اس وقت تک بیٹھے رہتے تھے جب تک وہ خود پہلے اٹھ نہ جاتے، بعض روایات میں ہے کہ ان کا مقصود ابوذر وسلمان تھے_(۲)

ان بے بنیاد باتوں کی نفی عبداللہ ابن ام مکتوم کے واقعے میں مذکور بیانات سے ہی ہو جاتی ہے_ لہذا یہاں ہم تکرار کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، علاوہ ازیں کئی ایک روایات کے مطابق پوری سورہ انعام مکے میں بیک وقت نازل ہوئی_(۳)

اس صورت میں یہ آیات کیونکر مذکورہ مناسبت سے مدینہ میں اتریں؟ اگر کوئی یہ کہے کہ پوری سورت کا ایک ساتھ اترنا اس بات کے منافی نہیں کہ مذکورہ آیات اس خاص مناسبت سے اتری ہوں تویہ بات بھی نا قابل قبول ہے کیونکہ پوری سورت ہجرت سے قبل (لیکن انصار کے قبول اسلام کے بعد) ایک ساتھ اتری، جب یہ سورت اتری تو اسماء بنت یزید انصاریہ نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی اونٹنی کی لگام تھام رکھی تھی(۴) جبکہ فرض یہ ہے کہ آیت مدینے میں نازل ہوئی_

اس کے علاوہ عبس وتولی والا واقعہ ہی اس بات کے اثبات کیلئے کافی ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس قسم کے کاموں سے باز رہتے خصوصاً اس صورت میں کہ اگر کوئی غیر معصوم شخص بھی ایسے عمل کا ارتکاب کرے تو اس کی مذمت کی جاتی ہے_

___________________

۱_ سورہ کہف آیت ۲۸_

۲_ حلیة الاولیاء ج ۱ص۱۴۶_۳۴۵، و مجمع البیان ج ۴ ص ۳۰۵ ،۳۰۶_ و البدایة و النہایة ج ۶ ص ۵۶و کنز العمال ج ۱ص ۲۴۵و ج۷ص ۴۶ابن ابی شیبہ و ابن عساکرسے نیز الدر المنثور (مذکورہ آیات کی تفسیر میں متعدد مآخذ سے)_

۳_ رجوع کریں: المیزان ج ۷ص ۱۱۰ _

۴_ الدر المنثور ج ۳ ص ۲۲_

۱۱۷

یہاں ہم اس بات کابھی اضافہ کرتے ہیں کہ سلمان تو مدینے میں مسلمان ہوئے نیز ابوذر بھی مسلمان ہونے کے فوراً بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جدا ہوکر عسفان میں مکہ والوں کے قافلوں کی گزرگاہ پر رہنے لگے تھے (جس کا ذکر ہو چکا ہے)_

بظاہر مشرکین نے اس بات پر زور دیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان غریب مسلمانوں کو اپنے پاس نہیں بٹھائیں، اس سلسلے میں انہوں نے حضرت ابوطالب سے بھی بات کی اور حضرت عمر نے بھی اس بات کو تسلیم کرنے کا اشارہ کیا( جیساکہ نقل ہوا ہے)_ پس سورہ انعام کی یہ آیات ان لوگوں کے ردمیں نازل ہوئیں _

ان آیات میں اس بات کا تذکرہ نہیں کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی رائے کو قبول کیاہو جیساکہ مذکورہ روایات کا دعوی ہے _یہاں ہم روایات کے درمیان موجوداختلاف، ان کے کمزور پہلوؤں اوران لوگوں کے باطل خیالات کو بیان کرنے سے احتراز کرتے ہیں اور ابن ام مکتوم کے واقعے میں جو کچھ عرض کیا ہے، اسی پر اکتفا کرتے ہیں_البتہ یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ آیت '' ولا تطرد الذین یدعون ربہم ...'' کا ظاہر پر یہی بتاتا ہے کہ یہ ڈانٹ ان لوگوں پر پڑی ہے جن سے یہ کام سرزد ہوا ہے اور '' ما علیک من حسابہم من شی ...'' کے قرینہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے مہربانی اور لطف فرماتے ہوئے اپنی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان لوگوں سے علیحدہ رکھا ہے _

حضرت عمر بن خطاب کا قبول اسلام

کہتے ہیں کہ حضرت حمزہ کے قبول اسلام کے تین روز بعد بعثت کے چھٹے سال حضرت عمر مسلمان ہوئے_ وہ اپنی تلوار لیکر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض اصحاب کی تلاش میں نکلے تھے جن کی تعداد چالیس کے قریب تھی_ وہ کوہ صفا کے قریب ارقم کے گھر میں جمع تھے_ ان میں حضرت ابوبکر، حضرت حمزہ اور حضرت علیعليه‌السلام بھی تھے جو حبشہ نہیں گئے تھے_ راستے میں نعیم بن عبداللہ سے حضرت عمر کی ملاقات ہوئی اس کے پوچھنے پر

۱۱۸

حضرت عمر نے بتایا کہ وہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنا چاہتے ہیں

نعیم نے سمجھایا کہ اگر وہ ایسا کرے تو بنی عبد مناف کے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتا_ نیز یہ بھی بتایا کہ تمہارے بہنوئی اور بہن نے بھی اسلام قبول کرلیا ہے_ یہ سن کر حضرت عمر ان کی طرف چل پڑے وہاں پر حضرت خباب بن ارت ،ان کو سورہ طہ کی تعلیم دے رہے تھے_ جب حضرت عمر کی آہٹ سنائی دی تو حضرت خباب ایک کوٹھڑی میں چھپ گئے اور فاطمہ بنت خطاب نے صحیفے کو اپنی ران کے نیچے چھپالیا_

حضرت عمر گھرمیں داخل ہوئے اور مختصر سی گفتگو کے بعد اپنے بہنوئی پر ٹوٹ پڑے اور بہن کا سر زخمی کردیا_ اس وقت حضرت عمر کی بہن نے بتادیا کہ وہ دونوں مسلمان ہوچکے ہیں وہ جو چاہے کرے_ حضرت عمرنے جب اپنی بہن کو خون آلود دیکھا تو اپنے طرز عمل پر پشیمان ہوئے اور نوشتہ قرآن کو طلب کیا ،لیکن اس نے نہیں دیا یہاں تک کہ حضرت عمرنے اپنے خداؤں کی قسم کھائی کہ وہ اسے واپس کردے گا _اس وقت ان کی بہن نے کہا تم مشرک اور نجس ہو نیز تم غسل جنابت بھی نہیں کرتے ہو جبکہ قرآن کو پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں _یہ سن کر حضرت عمر اٹھے اور غسل (یا وضو) کیاپھر اس نوشتہ کی ابتداء سے کچھ حصہ پڑھا اور (حضرت عمر کو لکھنا پڑھنا آتا تھا) پڑھنے کے بعد اسے پسند کیا _اتنے میں حضرت خباب نے آکر یہ خبردی کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے حق میں دعاکی ہے کہ خدا یا اس کے یا ابوجہل کے ذریعے اسلام کی تقویت فرما_

حضرت عمرنے کہا کہ وہ انہیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس لے جائیں تاکہ اسلام قبول کرسکیں_ چنانچہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نکلے، دروازہ کھٹکھٹایا، ایک شخص نے دروازے کے شگاف سے باہر نگاہ کی_جب عمر کو تلوار سجائے دیکھا تو سہم کر واپس ہوا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو خبردی_

یہ سن کر حضرت حمزہ نے کہا اسے آنے دو اگر وہ بھلائی کی تلاش میں آیا ہے تو ہم بخل نہیں کریں گے لیکن اگر وہ برے ارادے سے آیا ہے تو ہم اسی کی تلوار سے اس کاکام تمام کردیں گے_ یوں انہیں اجازت ملی اور وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف آئے اور کمرے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی_ حضرت عمرنے کہا کہ وہ تو مسلمان ہونے کیلئے آیا ہے_ یہ سن کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تکبیر بلندکی اور مسلمانوں نے بھی ایسی تکبیر کہی جسے مسجد الحرام میں

۱۱۹

بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی سن لیا_

اس کے بعد حضرت عمرنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے درخواست کی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باہر نکل کر اعلانیہ اپنا کام شروع کریں_ حضرت عمر کہتے ہیں ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوصفوں کے درمیان باہرنکالا ایک صف میں حضرت حمزہ تھے اور دوسری صف میں میں تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوپر غبار تھا جس طرح پسنے والے آٹے کا غبار ہوتا ہے _پھر ہم مسجد میں داخل ہوئے، میں نے قریش پر نظر کی وہ اتنے دل شکستہ ہوئے کہ اس قدر پہلے کبھی نہ ہوئے تھے_ اس دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت عمر کو فاروق کالقب دیا_

ایک اور روایت کے مطابق قریش نے مل کر مشورہ کیا کہ کون حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرے، حضرت عمر نے کہا یہ کام میں کروں گا پھر وہ اپنی تلوارگردن میں لٹکائے نکل پڑے کہ راستے میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے ملاقات ہوگئی_ ان کے درمیان لے دے ہوئی یہاں تک کہ دونوں نے اپنی تلواریں سونت لیں_ اتنے میں حضرت سعد نے حضرت عمر کو اس کی بہن کے مسلمان ہونے کی خبر سنائی_

تیسری روایت کی رو سے مسلمان باہر نکلے حضرت عمر ان کے آگے آگے یہ کہہ رہے تھے لا الہ الا اللہ محمد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ _جب قریش نے حضرت عمر سے ان کے پیچھے موجود افراد کے بارے میں سوال کیا تو حضرت عمر نے ان کو دھمکی دی کہ اگر ان میں سے کسی نے کوئی غلط حرکت کی تو وہ تلوار سے حملہ کریں گے _ پھر وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے آگے ہوئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم طواف فرمارہے تھے اور عمر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاطت کررہے تھے پھر حضوراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہراعلانیہ طور پر پڑھی_

چوتھی روایت میں ہے کہ جن دنوں مسلمانوں پر بہت زیادہ تشدد ہو رہا تھا تو حضرت عمر مسلمان ہوئے اور وہ اپنے خالو ابوجہل کے پاس گئے (جیسا کہ ابن ہشام کہتا ہے البتہ ابن جوزی کا کہنا ہے کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ عمر کا خالو ابوجہل نہیں بلکہ عاص بن ہاشم تھا ) حضرت عمرنے اسے خبردی کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں یہ سن کراس نے دروازہ بندکردیا حضرت عمر قریش کے دوسرے سردار کے پاس گئے تو وہاں بھی یہی ہوا _ حضرت عمرنے سوچا یہ بات مناسب نہیں کہ دوسرے مسلمانوں پرتشدد ہو لیکن مجھے کوئی نہ مارے، چنانچہ انہوں نے

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417