الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 417
مشاہدے: 177048
ڈاؤنلوڈ: 4373

تبصرے:

جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177048 / ڈاؤنلوڈ: 4373
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ایسے شخص کا پتہ پوچھا جو سب سے زیادہ بات پھیلانے والاہو لوگوں نے اس شخص کی نشاندہی کی_ حضرت عمر نے اسے اپنے مسلمان ہونے کی خبردی_ اس شخص نے قریش کے درمیان اس بات کا اعلان کیا یہ سن کر لوگ حضرت عمرکو مارنے کیلئے اٹھے لیکن ان کے خالو نے انہیں امان دے دی یوں لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا_

لیکن حضرت عمر نے اس کی امان میں رہنے سے انکار کیا کیونکہ دوسرے مسلمانوں کو مارپڑ رہی تھی اوران کو نہیں_ راوی کہتا ہے کہ نتیجتاً حضرت عمر بھی مار کھاتے رہے یہاں تک کہ خدانے اپنے دین کو ظاہر کردیا_

پانچویں روایت کے مطابق طواف کرتے وقت حضرت عمر سے ابوجہل نے کہا : ''فلان شخص کا خیال ہے کہ تم نے اپنا دین چھوڑ دیا ہے'' _ حضرت عمر نے کلمہ دین پڑھا تو یہ سن کر مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے _ حضرت عمر، عتبہ ابن ربیعہ کوپچھاڑ کر مارنے لگے_ پھر اپنی دونوں انگلیوں کو اس کی آنکھوں میں ڈال دیا_ عتبہ چیخنے لگا تو لوگ بکھر گئے اور حضرت عمر بھی اٹھ کھڑے ہوئے_ یہ دیکھ کر سوائے بزرگوں کے کوئی ان کی طرف بڑھنے کی جرا ت نہ کرسکا اور حضرت حمزہ لوگوں کو وہاں سے ہٹانے لگے_

چھٹی روایت کی رو سے وہ قبول اسلام سے قبل شراب نوشی کیا کرتے تھے_ایک رات وہ اپنی پسندیدہ محفل کی طرف نکل پڑے لیکن وہاں کسی کو نہ پایا_ شراب فروش کو ڈھونڈا لیکن وہ بھی نہ مل سکا _پھر طواف کرنے گئے تو دیکھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز پڑھ رہے ہیں_ حضرت عمر کا دل چاہا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سنے چنانچہ وہ کعبے کے پردے کی آڑ میں بیٹھ کر سننے لگے، یوں اسلام ان کے دل میں داخل ہوا_ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا وہاں سے اٹھے اور اپنے گھر جو قطاء کے نام سے معروف تھا، کی طرف چلے تو راستے میں حضرت عمر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جا ملے اوراظہار اسلام کر کے اپنے گھر کی راہ لی_

''العمدہ''کے مطابق کہتے ہیں کہ حضرت عمر تینتیس ۳۳ مردوں اور چھ عورتوں کے قبول اسلام کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے_ ابن مسیب نے کہا ہے کہ چالیس مردوں اور دس عورتوں کے بعد حضرت عمر مسلمان ہوئے_ عبداللہ بن ثعلبہ کا بیان ہے پینتالیس ۴۵ مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد ایسا ہوا _ یہ بھی

۱۲۱

کہا گیا ہے کہ حضرت عمر چالیسویں مسلمان تھے _ پھر حضرت عمرکے قبول اسلام کے بعد یہ آیت اتری (یایہا النبی حسبک اللہ و من اتبعک من المومنین)(۱) یعنی اے حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کیلئے بس خدا اور جو مومنین آپ کے تابع فرمان ہیں کافی ہیں_(۲)

مزید تمغے

بعض افراد کا کہنا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت عمر کے مسلمان ہونے سے قبل یوں دعا کی تھی: ''اے اللہ اسلام کی تقویت فرما ،عمر ابن خطاب کے ذریعے''_ ایک اور جگہ یوں نقل ہوا ہے: ''خدا اسلام کی مدد فرما (یاتقویت فرما) ابوالحکم بن ہشام کے ذریعے یا عمر ابن خطاب کے ذریعے'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بدھ کے روز یہ دعا کی اور حضرت عمر جمعرات کے دن مسلمان ہوئے_

ابن عمر سے مروی ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا :''خدایا ابوجہل یا عمر بن خطاب میں سے تیرے نزدیک جو زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے اسلام کی تقویت فرما''_ ابن عمر کہتا ہے خداکے نزدیک عمرزیادہ عزیز تھے_ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عمر کا قبول اسلام ، اسلام کی فتح تھی، ان کی ہجرت اسلام کی نصرت تھی اور ان کی حکومت خدا کی رحمت تھی _جب وہ مسلمان ہوئے تو قریش سے لڑتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں

___________________

۱_ سورہ انفال، آیت ۶۴ _

۲_ رجوع کریں: الاوائل (عسکری) ج ۱ص ۲۲۱_۲۲۲نیز الثقات (ابن حبان) ص ۷۲_۷۵ البدء و التاریخ ج ۵ص ۸۸_۹۰مجمع الزوائد ج ۹ص ۶۱از بزار و طبرانی تاریخ طبری ۲۳ہجری کے حالات میں، طبقات ابن سعد ج ۳ص ۱۹۱، عمدة القاری ( عینی) ج ۸ص ۶۸، سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۶۶_۳۷۴، تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۹۵_۲۹۷، تاریخ عمر بن خطاب(ابن جوزی)ص ۲۳_۳۵، البدایة و النہایة ج ۳ ص ۳۱ اور ۷۵_۸۰ _نیز السیرة الحلبیة ج۱ص ۳۲۹_۳۳۵، السیرة النبویة (دحلان) ج ۱ص ۱۳۲_۱۳۷، المصنف (حافظ) ج ۵ص ۳۲۷_۳۲۸، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۲ص ۱۸۲_۱۸۳، اسباب انزول (واحدی)، حیاة الصحابة ج ۱ص ۲۷۴_۲۷۶ و الاتقان ج ۱ص ۱۵اور الدر المنثور ج ۳ص ۲۰۰ کشف الاستار از مسند البزار ج۳ ص ۱۶۹ تا ۱۷۲ اور لباب النقول مطبوعہ دار احیاء العلوم ص ۱۱۳،ان کے علاوہ دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۴ تا ۹ مطبوعہ دار النصر للطباعة اور دیگر کتب تاریخ اور حدیث کی طرف رجوع کریں_

۱۲۲

نے کعبہ کے پاس نماز پڑھی_(۱)

ان کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کہاگیا ہے جس کے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں_ ترمذی نے ان میں سے بعض روایات کو صحیح مانتے ہوئے بھی ان تمام روایات پر تعجب کا اظہار کیا ہے _

ہم حضرت عمرکے قبول اسلام سے مربوط تمام مذکورہ بالا باتوں اور روایات کو بھی شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں بلکہ ہمیں یقین ہے کہ یہ باتیں بالکل بے بنیاد ہیں _ اس بات کی توضیح کیلئے درج ذیل نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

۱_ عمر کب مسلمان ہوئے؟

گذشتہ روایات کی رو سے وہ حمزہ بن عبد المطلب کے قبول اسلام کے تین دن بعد مسلمان ہوئے_ عمر کا قبول اسلام اس بات کا سبب بنا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ارقم کے گھرسے باہر نکلیں ، یعنی جب مسلمانوں کی تعداد چالیس یا اس کے لگ بھگ ہوگئی_

یہاں درج ذیل امور قابل ذکر ہیں:

الف: وہ خود ہی کہتے ہیں کہ ارقم کے گھر سے نکلنے کا واقعہ بعثت کے تیسرے سال کا ہے جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا، جبکہ اہلسنت کہتے ہیں کہ حضرت عمر بعثت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے_

ب: ان کا کہنا ہے کہ حضرت عمر نے ہجرت حبشہ کے بعد اسلام قبول کیا چنانچہ جب مسلمان کوچ کی

___________________

۱_ ان روایات کے بارے میں رجوع کریں: البدء و التاریخ ج ۵ص ۸۸، سیرت مغلطای ص ۲۳و منتخب کنز العمال حاشیہ مسند احمد ج ۴ص ۴۷۰از طبرانی، احمد، ابن ماجہ، حاکم، بیہقی، ترمذی، نسائی از عمر، خباب، ابن مسعود، الاوائل ج ۱ص ۲۲۱، طبقات ابن سعد ج ۳حصہ اول ص ۱۹۱_۱۹۳ و جامع ترمذی مطبوعہ ہند ج ۴ص ۳۱۴_۳۱۵، دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۷ نیز تحفہ الاحوذی ج ۴ص ۳۱۴ نیز البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۹و البخاری مطبوعة میمنیة، المصنف عبدالرزاق ج ۵ ص۳۲۵، الاستیعاب حاشیة الاصابة ج ۱ ص۲۷۱ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۳۰تاریخ اسلام (ذہبی) ج ۲ص ۱۰۲و تاریخ الخمیس و سیرت ابن ہشام و سیرت دحلان و مسند احمد و سیرت المصطفی و طبرانی در الکبیر و الاوسط و مشکاة_ نیز دیگر کتب تاریخ اور حدیث_

۱۲۳

تیاری کررہے تھے تو حضرت عمر کا دل بھر آیا یہاں تک کہ مسلمانوں نے امید ظاہر کی کہ حضرت عمر مسلمان ہوجائے گا اور ہجرت حبشہ بعثت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے جبکہ ارقم کے گھر سے نکلنے کا واقعہ اس سے پہلے یعنی بعثت کے تیسرے سال وقوع پذیر ہوا_

ج:حضرت عمر مسلمانوں کو ستانے میں مشرکین کے ساتھ تھے اور یہ بات ارقم کے گھر سے نکلنے اور اعلانیہ دعوت شروع ہونے کے بعد کی بات ہے ،بلکہ ہم تو یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بعثت کے چھٹے سال تک بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے کیونکہ:

اولًا: یہی لوگ خود کہتے ہیں کہ حضرت عمر نماز ظہر کے فرض ہونے کے بعد مسلمان ہوئے چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت عمر کی مدد سے نماز ظہر اعلانیہ پڑھی (جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے) جبکہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ نماز ظہر واقعہ معراج (جو خود ان کے نزدیک بعثت کے بارہویں یا تیرہویں سال پیش آیا) کے دوران واجب ہوئی_ بنابریں ان کی باتوں میں تضاد ہے_ بعض لوگوں نے اس کی یہ توجیہہ پیش کی ہے کہ یہاں مراد نماز صبح ہے_(۱) لیکن یہ توجیہہ غلط ہے کیونکہ لفظ ''ظہر'' ، ''صبح'' کے لئے استعمال نہیں ہوتا اور اگر ان کی مراد یہ ہو کہ رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی صبح کی نماز سورج کے ابھرنے تک مؤخر کر کے پڑھتے تھے تو یہ توجیہ بھی نامعقول ہے کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی نماز میں کسی عذر شرعی کے بغیر کیسے تاخیر کرسکتے تھے؟

ثانیاً: عبداللہ بن عمر صریحاً کہتا ہے کہ جب اس کے والد مسلمان ہوئے تو اس وقت اس کی عمر چھ سال تھی_(۲) بعض حضرات کا خیال ہے کہ وہ پانچ سال کا تھا_(۳)

اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر کے قبول اسلام کے وقت عبداللہ بن عمر گھرکی چھت پر موجود تھااس نے دیکھا کہ لوگوں نے اس کے باپ کے خلاف ہنگامہ کر رکھا ہے ادر اسے گھر میں محصور کردیا ہے_ اتنے میں

___________________

۱_ سیرت حلبی ج ۱ص ۳۳۵ _

۲_ تاریخ عمر بن خطاب از ابن جوزی ص ۱۹و طبقات ابن سعد ج ۳ص ۱۹۳ (حصہ اول) و شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۲ص ۱۸۲_

۳_ فتح الباری ج ۷ص ۱۳۵ _

۱۲۴

عاص بن وائل نے آکر ان کو منتشر کردیا_ اس وقت ابن عمرنے اپنے باپ سے بعض چیزوں کے متعلق استفسار کیا جس کا ذکر آگے آئےگا_

نیز ابن عمر کہتا ہے کہ جب اس کا باپ مسلمان ہوا تو اس نے باپ کی نگرانی شروع کی کہ وہ کیا کرتا ہے، کہتا ہے اس وقت میرے لڑکپن کا دور تھا اور میں جو کچھ دیکھتا اسے سمجھتا بھی تھا_(۱) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن عمر ان دنوں باشعور اور سمجھدار تھا_ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمرنے بعثت کے نویں سال اسلام قبول کیا جیساکہ بعض لوگوں کا خیال بھی ہے_(۲) کیونکہ ابن عمر بعثت کے تیسرے سال پیدا ہوا تھا ہجرت کے پانچویں سال جب جنگ خندق ہوئی تو ابن عمر کی زندگی کے پندرہ سال گزر چکے تھے چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے (بنابرمشہور) اس کو جنگ میں شرکت کی اجازت دی(۳) بلکہ ابن شہاب کے مطابق تو حفصہ اور عبداللہ ابن عمر اپنے باپ عمر سے پہلے مسلمان ہوئے تھے اور جب ان کا باپ عمر مسلمان ہوا تو اس وقت عبدا للہ کی عمر سات سال کے لگ بھگ تھی(۴) اس بات کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر بعثت کے دسویں سال مسلمان ہوئے _ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حضرت عمر ہجرت سے قدرے پہلے تک مسلمان نہیں ہوئے تھے_ اس کی دلیل درج ذیل امور ہیں:

الف: یہ کہ انہیں خبر ملی کہ ان کی بہن مردار نہیں کھاتی_(۵)

واضح ہے کہ مردار کھانے کی مخالفت سورہ انعام میں ہوئی ہے جو مکہ میں ایک ساتھ نازل ہوئی_ اس وقت قبیلہ اوس کی ایک عورت (اسماء بنت یزید) نے بعض روایات کی بنا پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اونٹنی کی لگام تھام رکھی تھی(۶) واضح رہے کہ قبیلہ اوس اور مدینہ والوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طائف کی ہجرت کے بعد اسلام قبول کیا

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۱و تاریخ الاسلام (ذہبی) ج ۲ص ۱۰۵و سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۷۳_۳۷۴ _

۲_ السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۳۹البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۲و مروج الذہب مطبوعہ دار الاندلس بیروت ج ۲ص ۳۲۱_

۳_ سیر اعلام النبلاء ج ۳ ص ۲۰۹، تہذیب الکمال ج ۱۵ ص ۳۴۰ ، الاصابہ ج ۲ ص ۳۴۷، اسی کے حاشیہ پر الاستیعاب ج ۲ ص ۳۴۲ اور باقی منابع کے لئے ملاحظہ ہو ہماری کتاب '' سلمان الفارسی فی مواجہة التحدی'' (سلمان فارسی چیلنجوں کے مقابلے میں )ص ۲۴_

۴_ سیر اعلام النبلاء ج ۳ ص ۲۰۹_ ۵_ المصنف ( حافظ عبد الرزاق) ج ۵ص ۳۲۶ _ ۶_ الدر المنثور ج ۳ص ۲از طبرانی اور ابن مردویہ_

۱۲۵

کیا تھا اور ان کی عورتیں پہلی بیعت عقبہ کے بعد مکہ آئی تھیں_

ب:بعض لوگوں نے اس بات کو حقیقت سے قریب تر سمجھا ہے کہ حضرت عمر نے ہجرت حبشہ کے بعد چالیس یا پینتالیس افراد کے مسلمان ہونے کے بعد اسلام قبول کیا(۱) اس کی تائید یوں ہوتی ہے کہ بعثت کے پانچویں سال حبشہ جانیوالے افراد کی تعداد اسّی ۸۰ مردوں سے زیادہ تھی اور ان کے بقول حضرت عمر بعثت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پینتالیس مسلمان ہونے والے افراد لازمی طور پر ہجرت کرنے والے ان اسّی افراد کے علاوہ ہونے چاہئیں_اگرچہ ابن جوزی نے حضرت عمر سے قبل مسلمان ہونے والوں کو شمار کیا ہے اور حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد بیشتر بتائی ہے_(۲)

نیز اس امر کی تائیدان روایات سے بھی ہوتی ہے جن کے مطابق حضرت عمر بعثت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے اور یہ کہ حبشہ جانے والوں کو دیکھ کر ان کا دل پسیجا یہاں تک کہ مسلمانوں کو حضرت عمر کے مسلمان ہونے کی امید بندھی_

جب صورت حال یہ ہے تو واضح ہواکہ (جیساکہ مدینہ میں مہاجرین وانصار کے درمیان مواخات کی بحث میں آگے چل کر ذکر ہوگا) اس وقت مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا اس کے لگ بھگ تھی(۳) یعنی ہجرت حبشہ کے بعد مسلمان ہونے والے صرف یہی پینتالیس کے قریب افراد تھے _ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عمر ہجرت مدینہ سے کچھ ہی پہلے اسلام لائے تھے اور اس کے بعد ہجرت کی تھی اور شاید اسی لئے مکہ میں وہ مشرکین کی ایذا رسانی سے بچے رہے_

ج:حضرت عمر کے قبول اسلام کے حوالے سے روایات میں ذکر ہوا ہے کہ ایک دفعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ بلند

___________________

۱_ الثقات از ابن حسان ج ۱ ص ۷۳، البدایة و النہایة ج ۳ ص ۸۰، البدء و التاریخ ج ۵ ص ۸۸_

۲_ تاریخ عمر بن خطاب از ابن جوزی ص ۲۸_۲۹_

۳_ اگرچہ ابن ہشام نے ہجرت کرنے والوں کی تعداد ستر کے قریب بتائی ہے لیکن یہ بات قابل قبول نہیں کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جن لوگوں میں بھائی چارہ قائم کیا ان کی تعداد ایک سے زیادہ اسناد کے ساتھ منقول ہے اور یہ امر غیرقابل قبول ہے کہ حضور نے کسی صحابی کا بھائی چارہ دوسرے کے ساتھ قائم نہ کیا ہو_

۱۲۶

آواز سے نماز پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آئے اور سنا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ آیات پڑھ رہے ہیں( وما کنت تتلو من قبله من کتاب ولاتخطه بیمینک الظالمون ) (۱) واضح ہے کہ یہ دو آیتیں سورہ عنکبوت کی ہیں جو یاتو مکہ میں نازل ہونے والی آخری سورت ہے یا آخری سے پہلی سورت_(۲) پس معلوم ہوا کہ حضرت عمر ہجرت کے قریب قریب مسلمان ہوئے تھے_

د:بخاری نے صحیح بخاری میں نافع سے روایت کی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابن عمر اپنے باپ حضرت عمر سے پہلے مسلمان ہوا _نافع نے اس کی یوں تاویل کی ہے کہ ابن عمرنے بیعت شجرہ کے موقع پرحضرت عمر سے پہلے بیعت کی تھی اسلئے لوگ کہتے ہیں کہ ابن عمر نے حضرت عمر سے پہلے اسلام قبول کیا_(۳)

لیکن ہم نافع سے سوال کرتے ہیں کہ کیا لوگ عربی زبان نہ جانتے تھے؟اگر جانتے تھے تو پھر انہوں نے یہ کہنے کی بجائے کہ ابن عمر نے اپنے باپ سے پہلے بیعت کی تھی کیونکر یہ کہا کہ وہ اپنے باپ سے پہلے مسلمان ہوا _نیز کیا ان میں کوئی اتنا بھی نہ جانتا تھا کہ بیعت کرنا اور چیز ہے ، اسلام قبول کرنا اور چیز ہے_ پس بیعت سے مراد قبول اسلام کیسے ہوسکتا ہے؟

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگ جو کہتے تھے وہی درست ہے، یعنی یہ کہ ابن عمر دس سال کی عمر میں ہجرت سے کچھ پہلے مسلمان ہوااور اس کے بعد اس کے باپ مسلمان ہوئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی_

۲_ حضرت عمر کو فاروق کس نے کہا؟

گذشتہ روایات میں ہم نے پڑھا کہ جب حضرت عمر مسلمان ہوئے تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان کو فاروق کا لقب دیا _ لیکن ہماری نظر میں یہ بات نہایت مشکوک ہے کیونکہ زہری کہتا ہے ''ہمیں خبر ملی ہے کہ اہل کتاب

___________________

۱_ المصنف (حافظ عبدالرزاق) ج ۵ص ۳۲۶نیز حضرت عمر کے قبول اسلام کے بارے میں ذکرشدہ مآخذ کی طرف رجوع کریں_

۲_ الاتقان ج ۱ ص ۱۰_۱۱_

۳_ صحیح بخاری (مطبوعہ مشکول) ج ۵ص ۱۶۳ _

۱۲۷

نے پہلے پہل حضرت عمر کو الفاروق کہہ کرپکارا _ مسلمانوں نے یہ لفظ ان سے لیا ہے اور ہمیں کوئی ایسی روایت نہیں ملی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اس قسم کا لقب دیا ہو''(۱) جبکہ فاروق کا لقب انہیں ایام خلافت میں ملا تھا(۲)

۳_ کیا حضرت عمر کو پڑھنا آتا تھا؟

روایات میں مذکور ہے کہ حضرت عمر کو پڑھنا آتا تھا اور انہوں نے صحیفہ قرآنی کو خود پڑھا تھا_

ہمارے نزدیک تو یہ بات بھی مشکوک ہے اور ہمارا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عمر کو نہ پڑھنا آتا تھا نہ لکھنا خصوصاً شروع شروع میں_ زندگی کے آخری ایام میں لکھنا پڑھنا سیکھ گئے ہوں تویہ اور بات ہے_ اس کی دو وجوہات ہیں:

پہلی وجہ: بعض حضرات نے صریحاً کہا ہے کہ خباب بن ارت نے انہیں نوشتہ قرآنی پڑھ کر سنایا تھا_(۳) پس اگر وہ پڑھ سکتے تو معاملے کی سچائی اور حقیقت جاننے کے لئے اسے خود کیوں نہیں پڑھا_

دوسری وجہ: حافظ عبدالرزاق نے( ان لوگوں کے بقول) صحیح سند کے ساتھ مذکورہ واقعے کو نقل کیا ہے لیکن اس نے کہا ہے کہ حضرت عمرنے (اپنی بہن کے گھر میں) شانے کی ہڈی (جس پر قرآن کی آیات مرقوم تھیں) تلاش کی اور جب وہ مل گئی تو حضرت عمرنے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ تو وہ کھانا نہیں کھاتی جو میں کھاتا ہوں_ پھر اس ہڈی سے اپنی بہن کو مارا اور اس کے سر کو دوجگہوں سے زخمی کردیا _ پھر وہ ہڈی لیکر نکلے اور کسی سے پڑھوایا_ حضرت عمر ان پڑھ تھے _جب وہ نوشتہ انہیں پڑھ کرسنایا گیا تو ان کا دل دہل گیا_(۴) اس بات کی تائید عیاض ابن ابوموسی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ عمر بن خطاب نے ابوموسی سے کہا:

___________________

۱_ تاریخ عمر ابن خطاب ( ابن جوزی )ص ۳۰، طبقات ابن سعد ج ۳حصہ اول ص ۱۹۳، البدایة و النہایة ج ۷ص ۱۳۳، تاریخ طبری ج ۳ص ۲۶۷سنہ۲۳ہجری کے واقعات اور ذیل المذیل ج ۸از تاریخ طبری_

۲_ ملاحظہ ہو: طبقات الشعراء (ابن سلام ) ۴۴_

۳_ تاریخ ابن خلدون ج۲ص ۹ _

۴_ المصنف (حافظ عبدالرزاق) ج ۵ص ۳۲۶_

۱۲۸

''اپنے محرر کو بلاؤ تاکہ وہ ہمیں شام سے پہنچنے والے چند خطوط پڑھ کر سنائے''_ ابوموسی نے کہا : ''وہ مسجد میں داخل نہیں ہوتا'' عمرنے پوچھا : ''کیا وہ مجنب ہے؟ ''جواب ملا : ''نہیں بلکہ وہ تو نصرانی ہے'' _ پس حضرت عمر نے اپنا ہاتھ اٹھاکر اس کی ران پر مارا ،قریب تھا کہ ران کی ہڈی ٹوٹ جاتی_(۱)

ممکن ہے کوئی یہ جواب دے کہ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی خلفاء کبھی کبھی اپنے عہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے بذات خود نہیں پڑھتے تھے ، یا یہ کہ وہ خطوط عربی میں نہیں لکھے گئے تھے_ لیکن بظاہر یہ تکلفات بعد کی پیداوار ہیں _علاوہ برایں شامیوں کی زبان ہمیشہ عربی رہی ہے اور یہ بعید بات ہے کہ انہوں نے عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں خطوط لکھے ہوں_

مذکورہ بات کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر عالمانہ ذہنیت کے مالک نہ تھے_ اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے بارہ سال میں سورہ بقرہ یادکیا_ جب یاد کرلیا تو حیوان کی قربانی دی_(۲)

بلکہ یہ بھی منقول ہے کہ جب حضرت عمر نے حضرت حفضہ سے کہا کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے کلالہ کا حکم معلوم کرے اور حضرت حفصہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند تحریروں کی صورت میں انہیں املا کر دیا_ پھر فرمایا: '' عمر نے تجھے اس کا حکم دیا ہے ؟میرا تو یہ خیال ہے کہ وہ اسے نہیں سمجھ پائے گا_(۳)

بہت سے لوگوں کی روایت کے مطابق نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمر کے روبرو یہی بات کہی_(۴)

ہاں ممکن ہے حضرت عمرنے مشقت اٹھاکر نئے سرے سے لکھنا پڑھنا سیکھا ہو جیساکہ بخاری نے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر کہاکرتے تھے اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا ہے تو آیہ رجم کو اپنے ہاتھ سے لکھتے

___________________

۱_ عیون الاخبار (ابن قتیبة) ج ۱ ص ۴۳، الدرالمنثور ج۲ ص ۲۹۱ از ابن ابی حاتم و بیہقی در شعب الایمان اور حیاة الصحابہ ج۲ ص ۷۸۵ از تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۶۸_

۲_ تاریخ عمر از ابن جوزی ص ۱۶۵، الدر المنثور ج ۱ص ۲۱از خطیب نیز البیہقی در شعب الایمان و شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۲ص ۶۶، الغدیر ج ۶ص ۱۹۶از مآخذ مذکور و از تفسیر قرطبی ج ۱ ص۳۴ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۲۸۰ از تنویر الحوالک ج ۲ ص ۶۸_

۳_ المصنف ( حافظ عبد الرزاق) ج ۱۰ص ۳۰۵ _

۴_ رجوع کریں: الغدیر ج ۶ص ۱۱۶ (ایک سے زیادہ مآخذ سے منقول) اور ص ۱۲۸ _

۱۲۹

بہر حال معاملہ جو بھی ہو لیکن خلیفہ ثانی کے پڑھے لکھے ہونے کے متعلق شک کرنے والے ہم پہلے آدمی نہیں ہیں بلکہ یہ موضوع تو پہلی صدی ہجری سے ہی معرکة الآراء رہا ہے یہی زہری کہتاہے کہ '' ہم عمر بن عبدالعزیز ( جو اس وقت مدینہ کا گورنر تھا _ پھر اس کے بعد عبداللہ بن عبداللہ بن عتبہ مدینہ کا گورنر بنا تھا) کے پاس بیٹھے اس موضوع کے متعلق بحث کررہے تھے تو اس نے کہا :'' اگر ان لوگوں کے پاس اس بارے میں کوئی خبر ہے تو میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا عمر لکھنا جانتا تھا؟'' عروة نے کہا : '' ہاں جانتا تھا'' اس نے پوچھا : '' تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟ ''عروہ نے کہا : '' عمر کا یہ کہنا کہ اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے قرآن مجید میں اضافہ کیا ہے تو میں آیت رجم کو اپنے ہاتھوں سے قرآن میں لکھتا اس کی دلیل ہے'' _ عبداللہ کہتاہے : '' کیا عروہ نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ اسے یہ حدیث کس نے بتائی ہے ؟ ''میں نے کہا : '' نہیں'' عبیداللہ کہتاہے: '' عروة کی مثال اس مچھر کی طرح ہے جو خون تو چوستاہے مگر اپنا نشان کہیں نہیں چھوڑتا ہماری حدیثیں چوری کرتاہے لیکن ہمیں چھپا دیتاہے'' یعنی حدیث میں نے بیان کی ہے_

نکتہ :

جب یہ بات مشکوک یا ثابت ہوجائے کہ حضرت عمر پڑھے لکھے نہیں تھے تو لا محالہ ان کا یہ قول بھی مشکوک ہوجائے گا کہ وہ کاتب وحی تھے_ اور شاید یہ بھی ان تمغوں میں سے ہے جنہیں حضرت عمر کے ان وفاداروں نے گھڑا ہے جنہیں حضرت عمر کی اس فضیلت سے محرومی بہت گراں گزری ہے _ مزید یہ کہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جناب عمر نے ابوموسی کی ران پر اس زور سے مارا کہ اس کے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوگیا صرف اس لئے

___________________

۱_ حلیة الاولیاء ج ۹ص ۳۴از کنز العمال ج ۵ص ۵۰از ابن سعد، سعید بن منصور، ابن منذر، ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم_

۲_ کنز العمال ج ۶ ص ۲۹۵_

۱۳۰

کہ اس نے نصرانی محرر رکھا ہوا تھا_ جبکہ وہ لوگ خود ہی کہتے ہیں کہ خود حضرت عمر کا اپنا ایک نصرانی غلام تھا جو آخری دم تک مسلمان نہیں ہوا تھا _ وہ اسے اسلام لانے کی پیشکش کرتے لیکن وہ انکار کرتا رہا یہاں تک کہ حضرت عمر کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے نصرانی غلام کو آزاد کردیا(۱) _ خلیفہ ثانی کے موقف میں یہ کتنا تضاد ہے ؟ اور اس کی کیا توجیہ ہوسکتی ہے ؟ صرف یہ کہ ابوموسی پر اس کا اعتراض اس کے منصبی لحاظ سے صرف اس بناپر تھا کہ مسلمانوں کے داخلی امور میں ایک نصرانی سے کام لیتا تھا_ اور یہ کام مسلمانوں کی خدمت غیر مسلم سے کرانے والا مسئلہ بھی نہیں (کیونکہ حساس مسئلہ تھا_ جبکہ خلیفہ وقت کے پاس ایک نصرانی گھر کا بھیدی تھا _از مترجم)

۴_ کیا واقعی حضرت عمر اسلام کی سربلندی کا باعث بنے ہیں؟

منقول ہے کہ حضرت عمر کی برکت سے اسلام کو تقویت یا سربلندی ملی اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے خدا سے دعا مانگی تھی کہ وہ حضرت عمر کے ذریعے اسلام کو سربلندی اور تقویت عطا کرے ...بلکہ بعض روایتوں کے مطابق تو وہ زمانہ جاہلیت میں بھی زور آور تھے _ کیونکہ جب انہوں نے ابوبکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کا ہمدرد اور مونس ہے تو حضرت ابوبکر نے ان سے کہا :''میرا تو تیری حمایت کرنے کا ارادہ تھا اور تو میرے متعلق یہ کہہ رہا ہے _ اس لئے کہ تو جاہلیت میں تو زور آور تھا لیکن اسلام میں بزدل ہے ...''(۲) ہمارے نزدیک یہ بات نہ فقط مشکوک ہےبلکہ بے بنیاد ہے اور اس کی وجوہات یہ ہیں:

___________________

۱_ حلیة الاولیاء ج۹ ص ۳۴ از کنز العمال ج۵ ص ۵۰ از ابن سعد، سعید بن منصور ، ابن منذر ، ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم، طبقات الکبری ج۶ ص ۱۰۹ ، التراتیب الاداریہ ج۱ ص ۱۰۲ ، نظام الحکم فی الشریعة والتاریخ والحیاة الدستوریہ ص ۵۸ از تاریخ عمر ( ابن جوزی) ص ۸۷ و ص ۱۴۸ _

۲_ کنز العمال ج۶ ص ۲۹۵_

۱۳۱

الف: جب شیخ ابطح حضرت ابوطالب ،خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیر حضرت حمزہ(جنہوں نے مشرکین کے سرغنہ ابوجہل کا سر پھوڑا تھا )اور بنی ہاشم کے دیگر صاحبان عزت وشرف افراد کے بارے میں یہ نہیں کہتے کہ ان سے اسلام کو عزت وتقویت ملی تو پھر حضرت عمر اسلام کی تقویت اور عزت کا باعث کیسے بن سکتے ہیں؟ جو خود ایک معمولی خادم(۱) کی حیثیت سے شام کے سفر میں ولید بن عقبہ کے ساتھ گئے تھے_(۲) وہ عمر جن کے قبیلے میں کوئی قابل ذکر بزرگ یا رئیس نہ تھا_(۳)

وہ عمر جنہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ گزرنے والی پوری زندگی میں شجاعت ومردانگی کی کوئی ایک مثال بھی قائم نہیں کی_ ہم تو دیکھتے ہیں کہ حضرت عمرنے نہ ہی کوئی لڑائی لڑی، نہ کسی جنگ میں کوئی جرا ت مندانہ اقدام کیا، جبکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے دور میں بہت سی جنگیں ہوئیں _

بلکہ اس کے برعکس ہم تو کئی جنگوں میں حضرت عمر کو میدان جنگ سے فرار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں_ مثال کے طور پر جنگ احد، جنگ حنین اور جنگ خیبر میں _جیساکہ سیرت نگاروں، تاریخ نویسوں اور محدثین کی ایک بڑی تعداد نے اس کا ذکر کیا ہے_ آئندہ اس کا تذکرہ ہوگا انشاء اللہ _

زمخشری نے یہاں ایک عجیب لطیفے کی بات نقل کی ہے اور وہ یہ کہ انس بن مدرکہ نے ایام جاہلیت میں قریش کے ایک گلے پر ڈاکہ ڈالا اور اس کو لے کر چلتا بنا _اپنی خلافت کے دوران حضرت عمرنے اس سے کہا :''ہم نے اس رات تمہارا تعاقب کیا تھا اگر ہمارے ہاتھ لگ جاتے تو تمہاری خیر نہیں تھی'' اس نے جواب دیا:''اس صورت میں آج آپ، لوگوں کے خلیفہ نہ ہوتے''_(۴)

جی ہاں اسلام کی سرافرازی اور تقویت حضرت عمر کے ذریعے کیسے ہوسکتی تھی؟ کیونکہ نہ توانہیں بذات خود کوئی حیثیت حاصل تھی، نہ ہی اپنے قبیلے کی وجہ سے کوئی عزت تھی اور نہ ہی وہ اتنے بہادر تھے کہ لوگ ان سے ڈرتے_

___________________

۱_ رجوع کریں: اقرب الموارد لفظ ''عسف''_اور''عسیف '' کا ایک اور معنی کرایہ کامزدور یا غنڈہ بھی ہے _

۲_ المنمق ( ابن حبیب) مطبوعہ ھند صفحہ ۱۴۷اور شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۲ص ۱۸۳_

۳_ المنمق ص ۱۴۷ _

۴_ ربیع الابرار ج ۱ص ۷۰۷ _

۱۳۲

ب: چاہے ہم اس بات کے قائل ہوں کہ حضرت عمر شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے واقعہ سے پہلے مسلمان ہوئے یا یہ کہیں کہ اس واقعہ کے بعد مسلمان ہوئے ، پھر بھی حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ حالات جوں کے توں رہے کیونکہ اگر ہم حضرت عمر کے قبول اسلام سے پہلے اور اس کے بعد دعوت اسلام کے تدریجی سفرکو ملاحظہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کے قبول اسلام کے بعد کوئی زیادہ پیشرفت نہیں ہوئی بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہوا_ ایک طرف سے مشرکین نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بنی ہاشم کو شعب ابوطالب میں محصور کردیا ، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرنے کے قریب ہوگئے _ان کے مرد درخت ببول کے پتے کھاتے تھے اور ان کے بچے بھوک سے بلبلا تے تھے_

ادھر مشرکین نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو قتل کرنے کی سازش کی اور وفات ابوطالب کے بعد جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سفر طائف سے لوٹے تو بہت مشکل سے شہر مکہ میں داخل ہوسکے_ ان سخت حالات میں عمر نے کہیں بھی کسی قسم کا حل پیش کرنے میں مدد نہیں کی _ان باتوں کے علاوہ ابولہب نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو ستانے کیلئے مسلسل اذیتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا_

ج: امام بخاری نے صحیح بخاری اور دیگر کتب میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ جب عمر ڈرکے مارے گھرمیں محصور تھے، اس وقت عاص بن وائل ان کے پاس آیا اور اس نے پوچھا'' تمہاراکیا حال ہے؟'' وہ بولے :''تمہاری قوم کا کیا پتہ ہے اگر مسلمان ہوجاؤں تووہ مجھے قتل کردیں '' _وہ بولا :'' جب میں نے تجھے امان دے دی ہے تو وہ تجھے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے'' _حضرت عمر کہتے ہیں:''جب اس نے یہ کہا تو مجھے سکون حاصل ہوا اور میں ایمان لایا'' _ اس کے بعد اس نے ذکر کیا ہے کہ عاص نے کس طرح لوگوں کو حضرت عمر سے دور رکھا _ذہبی نے حضرت عمر کے اس قول ''مجھے اس کی قوت وجبروت سے حیرت ہوئی ...''کا بھی اضافہ کیا ہے _(۱)

___________________

۱_ رجوع کریں: صحیح بخاری ج ۵ص ۶۰_۶۱مطبوعہ مشکول (اس میں دو روایتیں مذکور ہیں) نیز تاریخ الاسلام (ذہبی) ج ۲ص ۱۰۴، نسب قریش از مصعب زبیری ص ۴۰۹تاریخ عمر از ابن جوزی ص ۲۶و السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۳۲، سیرت نبویہ (دحلان) ج ۱ص ۱۳۵، سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۷۴،ر البدایة و النہایة ص ۸۲ اور دلائل النبوة (بیہقی) مطبوعہ دار النصر ج ۲ ص۹_

۱۳۳

پس جس شخص کو لوگ قتل کی دھمکی دیں اور وہ ڈرکے مارے گھرمیں دبک کر بیٹھ جائے وہ صاحب عزت وجبروت نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسلام کو اس کے طفیل قوت وحیثیت حاصل ہوسکتی ہے_ البتہ اسلام کے صدقے خود انہیں عزت ومقام حاصل ہوا (جس کا آگے چل کر ذکر کریں گے) ان باتوں کے علاوہ بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ ابوجہل نے حضرت عمر کوپناہ دی تھی(۱) بنابرایں مناسب یہ تھا کہ ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس شخص کے ذریعے دین کی تقویت و عزت کیلئے دعا کرتے جس نے عمر کو پناہ دی تھی اور جس کے جبروت سے لوگ حیرت زدہ تھے، گھر کے کونے میں چھپنے والے خوفزذہ حضرت عمر کے ذریعے نہیں_

د:عجیب بات تو یہ ہے کہ جن دو افراد کے حق میں اہلسنت کی روایات کے مطابق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے دعا کی ان میں سے ایک کا سر حضرت حمزہ نے اپنی کمان سے بڑی طرح پھوڑ دیا ، وہ بھی اس کے طرفداروں کے عین سامنے اور وہ بات کرنے کی بھی جرا ت نہ کرسکا _پھر وہ جنگ بدر میںہی ( جو مشرکین کے ساتھ پہلی جنگ تھی)، مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیااور دوسرا شخص بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توقعات کے خلاف نکلا_یعنی خدانے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی دعا اس کے حق میں قبول نہیں فرمائی،کیونکہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے اسلام کی کوئی تقویت نہیں ہوئی_ جبکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ فرمایا کرتے تھے : ''میں نے اپنے رب سے کوئی دعا نہیں کی مگر یہ کہ خدانے اسے قبول کرلیا''(۲) لیکن یہاں توبات ہی برعکس ہے، کیونکہ عبدالرزاق کہتا ہے کہ جب حضرت عمرنے اپنے اسلام کو ظاہر کیا تو مشرکین سیخ پا ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کی ایک جماعت کوسخت اذیتیں دیں_(۳)

ھ: یہاں نعیم بن عبداللہ النحام عدوی اور عمر بن خطاب عدوی کے درمیان موازنہ فائدے سے خالی نہیں ہے_ نعیم حضرت عمر سے قبل مسلمان ہوا اور اپنے ایمان کو چھپاتا رہا_ اس کی قوم نے اسے ہجرت کرنے سے روکا کیونکہ بنی عدی کے یتیموں اور بیواؤں پر مال خرچ کرنے کی بنا پر اسے قوم کے درمیان عزت و شرف

___________________

۱_ تاریخ عمر(ابن جوزی) ص ۲۴ و ۲۵ اور ملاحظہ ہو: کشف الاستار ج۳ ص ۱۷۱ اور مجمع الزوائد ج۹ ص ۶۴ البتہ یہاں ذکر ہوا ہے کہ اس کے ماموں نے اسے پناہ دی تھی اور ابن اسحاق کہتاہے کہ یہاں ان کے ماموں سے مراد'' ابوجہل'' ہے _ لیکن ابن جوزی اس بات سے قانع نہیں ہوئے _ پس مراجعہ فرمائیں_

۲_ رجوع کریں: حالات زندگی حضرت علیعليه‌السلام از تاریخ عساکر با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۲۷۵_۲۷۶ (حاشیہ کے ساتھ) اور ۲۷۸، فرائد السمطین باب ۴۳حدیث ۱۷۲، کنز العمال ج ۱۵ص ۱۵۵طبع دوم از ابن جریر (جس نے اسے صحیح قرار دیا ہے)، ابن ابی عاصم اور طبرانی در الاوسط نیز ابن شاھین در السنة اور ریاض النضرة ج ۲ص ۲۱۳_ ۳_ رجوع کریں المصنف (عبدالرزاق) ج۵ص۳۲۸_

۱۳۴

حاصل تھا چنانچہ انہوں نے کہا :''آپ ہمارے ہاں ہی ٹھہر یئےور جس دین کی چاہیں پیروی کرتے رہیں خدا کی قسم کوئی شخص بھی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا مگر یہ کہ پہلے ہماری جانیں چلی جائیں''_(۱)

عروہ نے نعیم کے گھرانے کے بارے میں کہا ہے کہ بنی عدی کے کسی فردنے اس گھرانے کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا(۲) یعنی اس کے مقام و منزلت کے پیش نظر انہوں نے کچھ نہیں کہا _ادھر حضرت عمر کو دیکھئے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حدیبیہ میں انہیں مکہ بھیجنا چاہا تاکہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے رؤسائے قریش کو ایک پیغام پہنچائے _یہ پیغام اس کام سے متعلق تھا جس کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے تھے _ لیکن عمرنے انکار کیا اور کہا:''میں قریش سے جانی خطرہ محسوس کرتا ہوں اور مکے میں بنی عدی کا کوئی فرد ایسا نہیں جو میری حمایت و حفاظت کرے''_ پھر اس نے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عثمان بن عفان کو بھیجنے کیلئے اشارہ کیا_(۳)

و:ابن عمرنے نعیم النحام کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو نعیم نے اسے ٹھکرادیا اور کہا :''میں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ میرا گوشت مٹی میں مل جائے'' پھر اس کی شادی نعمان بن عدی بن نضلہ سے کردی_(۴)

ز:دوران خلا فت شام کے دورے پر جاتے ہوئے جب حضرت عمر نے اپنے موزے اتار کر کاندھے پر رکھے اور اپنی اونٹنی کی مہار تھام کر پانی میں داخل ہوئے تو ابو عبیدہ نے اعتراض کیا_ حضرت عمرنے جواب دیا:'' ہم ذلیل ترین قوم کے افراد تھے لیکن خدانے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت دی پس جب ہم اسلام کے علاوہ کسی اور چیز کے ذریعے عزت طلب کریں گے تو خدابھی ہمیں ذلیل کردے گا''_(۵) حضرت عمر سے منقول ایک اور عبارت یوں ہے ''ہم وہ لوگ ہیں جنہیں خدانے اسلام کی برکت سے حیثیت بخشی ہے ، پس ہم کسی اور چیز کے ذریعے عزت و حیثیت طلب نہیں کریں گے''_(۶)

___________________

۱_ اسدالغابة ج ۲ص ۳۳نیز رجوع کریں: نسب قریش ( مصعب) ص ۳۸۰_ ۲_ نسب قریش (مصعب) ص ۳۸۱ _

۳_ البدایة و النہایة ج۴ ص ۱۶۷از ابن اسحاق، حیات صحابہ ج ۲ص_ ۳۹۷_۳۹۸از کنز العمال ج ۱ ص ۸۴، ۵۶ و ج ۵ص ۲۸۸از ابن ابی شیبہ، رویانی، ابن عساکر اور ابویعلی، طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۴۶۱اور سنن البیہقی ج ۹ص ۲۲۱ _ ۴_ نسب قریش ( مصعب) ص ۳۸۰ _

۵_ مستدرک حاکم: ج ۱ص ۶۱اور اس کی تلخیص (ذہبی) حاشیہ کے ساتھ جس نے بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق اسے صحیح قرار دیا ہے_

۶_ مستدرک حاکم ج ۱ص ۶۲ _

۱۳۵

ح:فتح مکہ کے موقع پرجب ابوسفیان جھنڈوں کا جائزہ لے رہا تھا اور اس کی نظر حضرت عمر پر پڑی جو ایک جماعت کے سا تھ تھے تو اس نے عباس سے پوچھا :'' اے ابوالفضل یہ متکلم کون ہے؟'' وہ بولے:'' عمر بن خطاب ہے''_ ابوسفیان نے کہا:'' خدا کی قسم بنی عدی کو ذلت وپستی اور قلت عدد کے بعد عزت وحیثیت ملی ہے''_عباس نے کہا :''اے ابوسفیان خدا جس کا مرتبہ بلندکرنا چاہے کرتا ہے، عمر کو خدا نے اسلام کی بدولت عزت بخشی ہے''_(۱)

۵_ حضرت عمر کا غسل جنابت

اہلسنت کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی بہن نے ان کو غسل کرنے کیلئے کہا تاکہ وہ نوشتہ قرآنی کو چھوسکیں حالانکہ قرآن کو چھونے کیلئے مشرک کا غسل عبث ہے ،کیونکہ ان میں اصل مانع شرک تھا نہ جنابت ،اسی لئے ان کی بہن نے کہا تھا کہ تم مشرک اور نجس ہو اور قرآن کو پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں_(۲)

رہا غسل جنابت تو کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی غسل جنابت کیا کرتے تھے(۳) پھر حضرت عمر کی بہن نے ان سے یہ کیونکر کہا کہ تم غسل جنابت نہیں کرتے ہو_ ہاں اگر عام لوگوں کے برخلاف حضرت عمر کی عادت ہی غسل جنابت نہ کرنا تھی تویہ اور بات ہے _مشرکین کے غسل جنابت کرنے پر ایک دلیل یہ ہے کہ ابوسفیان نے جنگ بدر سے شکست کھاکر لوٹنے کے بعد قسم کھائی تھی کہ وہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ کرنے سے قبل غسل جنابت نہیں کرے گا _واضح رہے کہ جنگ سویق ابوسفیان نے اپنی مذکورہ قسم کو نبھانے کیلئے لڑی تھی(۴) اس بات کا ہم آگے چل کر تذکرہ کریں گے

___________________

۱_ مغازی الواقدی ج ۲ص ۸۲۱اور کنز العمال ج ۵ص ۲۹۵از ابن عساکر اور واقدی_

۲_ الثقات ج ۱ص ۷۴نیز رجوع کریں مذکورہ روایت کے مآخذ کی جانب_

۳_ سیرت حلبی ج ۱ص ۳۲۹ از دمیری اور سہیلی، دمیری نے کہا ہے یہ ابراہیم و اسماعیل کے دین کی یادگار ہے نیز کہا ہے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کفار ایام جاہلیت میں غسل جنابت کرتے تھے اور اپنے مردوں کو بھی دھوتے تھے ان کو کفن بھی دیتے تھے نیز ان کیلئے دعا بھی کرتے تھے_

۴_ البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۳۴۴، السیرة النبویہ ( ابن کثیر) ج ۲ ص ۵۴۰ ، تاریخ الخمیس ج۱ ص ۴۱۰ ، السیرة الحلبیہ ج ۲ ص ۲۱۱ ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۳۹، السیرة النبویہ ( دحلان، سیرہ حلبیہ کے حاشیہ پر مطبوع) ج۲ ص ۵ بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲ اور تاریخ الامم والملوک ج ۲ ص۱۷۵_

۱۳۶

۶_ حضرت عمر کا قبول اسلام اور نزول آیت؟

کہتے ہیں کہ( یا یها النبی حسبک الله ومن اتبعک من المؤمنین ) والی آیت حضرت عمر کے قبول اسلام کی مناسبت سے اتری_ یعنی اس وقت جب اس نے تینتالیس افراد کے بعد قبول اسلام کیا(۱) لیکن اس قول کی مخالفت کلبی سے مروی اس روایت سے ہوتی ہے کہ یہ آیت غزوہ بدر کے متعلق مدینہ میں نازل ہوئی(۲) واقدی سے منقول ہے کہ یہ آیت بنی قریظہ اور بنی نظیر کے بارے میں اتری ہے_(۳) یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ یہ سورہ انفال کی آیت ہے جو مکی نہیں، مدنی ہے زہری سے بھی مروی ہے کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی(۴) _

اس کے علاوہ مذکورہ آیت سے قبل کی آیات جنگ وجہاد سے متعلق ہیں اور ظاہر ہے کہ جہاد کا حکم مدینے میں نازل ہوا تھا اسی لئے یہ آیت ان آیات کے ساتھ مکمل طور پر ہماہنگ ہے_ قارئین ان آیات میں غوروفکر فرمائیں_اس آیت کامدنی ہونا اس لحاظ سے بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مدینے میں ہی اسلام کو قوت وشوکت اور مومنین کو عزت حاصل ہوئی_

آخری نکات

آخر میں ہم درج ذیل امور کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ:

۱) حضرت عمر کے قبول اسلام سے مربوط روایات کا مطالعہ کرنے والا اس حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے کہ ان کے درمیان مکمل تضاد موجود ہے_

___________________

۱_ الدرالمنثور ج ۳ ص ۲۰۰ از طبرانی ، ابو شیخ و ابن مردویہ نیز ملاحظہ ہوں وہ احادیث جنہیں بزار _ ابن منذر اور ابن ابی حاتم سے نقل کیا گیا ہے _

۲_ مجمع البیان ج ۴ص ۵۵۷ _

۳_ شیخ طوسی کی کتاب التبیان ج ۵ص ۱۵۲ _

۴_ الدرالمنثور ج ۳ ص ۲۰۰ از ابن اسحاق و ابن ابی حاتم_

۱۳۷

۲) ان میں سے ایک روایت کے مطابق عمر کی نعیم النحام یا سعد سے ملاقات اور ان کے درمیان گفتگو ہوئی نعیم نے عمر کو اس کی بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے سے آگاہ کیا اور اسے ان دونوں کے خلاف اکسایا_ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سعد مسلمان تھا او رنعیم عمر سے پہلے پوشیدہ طور پر مسلمان ہوچکا تھا تو پھر وہ عمر کو اس کی بہن اور بہنوئی کے خلاف کیونکر اکساتاہے ؟ اگر کوئی یہ کہے کہ نعیم کو حضرت عمر سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے بارے میں خطرہ محسوس ہوا_ اسلئے اس نے مذکورہ فعل انجام دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس تو حضرت حمزہ اور حضرت علیعليه‌السلام جیسے پورے چالیس بہادر مرد موجود تھے اس کے باوجود بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کو خطرہ محسوس ہوتا ہے _ لیکن نعیم کو ان دونئے مسلمانوں کے بارے میں حضرت عمر کا خوف محسوس نہیں ہوا جبکہ ان کی مدد کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا اور نہ ان کے پاس کوئی موجود تھا_

۳) رہا ان لوگوں کا یہ کہنا کہ مسلمانوں نے عمر کے قبول اسلام کے بعداعلانیہ نماز پڑھی تو اس کے جواب میں ہم انہی لوگوں کا یہ قول پیش کرتے ہیں کہ سب سے پہلے علی الاعلان نماز پڑھنے والاابن مسعود تھا_ نیز ابن مسعود کے علاوہ دیگر حضرات کے بارے میں بھی اس قسم کی بات کرتے ہیں_

نتیجہ بحث

مذکورہ عرائض کی روشنی میں عرض ہے کہ جو شخص حضرت عمر کے قبول اسلام کی روایات کا مطالعہ کرے گا وہ بآسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ درحقیقت وہ حضرت حمزہ کے قبول اسلام کے واقعے کی پردہ پوشی کی کوششیں ہیں ،وہ حمزہ جس کی وجہ سے اسلام کو حقیقی طور پر شان وشوکت نصیب ہوئی اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو زبردست سروراور خوشی حاصل ہوئی _یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ مذکورہ روایات میں حضرت عمر کا موازنہ حضرت حمزہ سے بار بار کرتے ہیں اور ان دونوں کو مساوی حیثیت دیتے ہیں بلکہ حضرت عمر کو ایک حدتک ترجیح بھی دیتے ہیں_

اسی طرح ان لوگوں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ امان کو رد کرنے کے بارے میں عثمان بن مظعون کی فضیلت حضرت عمر کے نام منتقل کرسکیں_ بلکہ ہم بعض روایات میں دیکھتے ہیں کہ شام کے اہل کتاب نے

۱۳۸

حضرت عمر کو خوشخبری دی تھی کہ اس نئے دین کی لگام مستقبل میں ان کے ہاتھ آجائے گی(۱) جس طرح انہوں نے بصری میں حضرت ابوبکر کو بھی اسی قسم کی خوشخبری سنائی(۲) _نیز خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو بھی خوشخبری دی تھی(۳) _ انہوں نے حضرت عمر کے اندر ان علامات کا مشاہدہ کیا تھا جن سے ان کے دعوی کی تقویت ہوتی تھی، جس طرح اس سے قبل حضرت ابوبکر میں ان کا مشاہدہ کیا تھاادھر حضرت عمر کا اسلام قبول کرنا تھا اور ادھر ان لوگوں کی پوری کوشش اس بات پر مبذول رہی کہ حضرت عمر کیلئے فضائل اور کرامات وضع کریں_فتبارک الله احسن الخالقین _

ابن عرفة نے کہا ہے:'' صحابہ کے اکثر فضائل بنی امیہ کے دور میں گھڑے گئے ہیں تاکہ بنی ہاشم کے مقام کو گھٹا سکیں''_چنانچہ معاویہ نے لوگوں کو خلفائے ثلاثہ کی شان میں احادیث وضع کرنے کا حکم دیا تھا ،جس کا بعد میں تذکرہ ہوگا_یہاں ہم مذکورہ عرائض پر اکتفا کرتے ہیں اور حقیقت اور ہدایت کے متلاشیوں کیلئے اسے کافی سمجھتے ہیں_

___________________

۱_ ملاحظہ ہو: الریاض النضرة ج ۲ ص ۳۱۹_

۲_ ملاحظہ ہو: السیرة الحلبیہ ج ۱ ص ۲۷۴ ، ۲۷۵ و ص ۱۸۶ اور الریاض النضرة ج۱ ص ۲۲۱_

۳_ ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد میں آغاز وحی کی روایات کے تحت عنوان اس واقعہ میں ورقہ بن نوفل کے کردار کی طرف بھی اشارہ کیا تھا اور اس کے سقم کو بھی ثابت کیا تھا _ پس وہاں مراجعہ فرمائیں_

۱۳۹

چو تھی فصل

شعب ابوطالب میں

۱۴۰