الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 417
مشاہدے: 177080
ڈاؤنلوڈ: 4375

تبصرے:

جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177080 / ڈاؤنلوڈ: 4375
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بائیکاٹ:

جب قریش نے مکہ میں نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کی، نیز حبشہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی عزت و حیثیت دیکھی، اس کے علاوہ قبائل میں اسلام کے پھیلاؤ کا عمل دیکھا(۱) اور یہ بھی محسوس کیا کہ اسلام کے مقابلے میں ان کی ساری کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں ، تو انہیں ایک نئے تجربے کی سوجھی اور وہ تھا ابوطالب اور بنی ہاشم کا اقتصادی ومعاشرتی بائیکاٹ، تاکہ اس طرح یاتو وہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کیلئے ان کے حوالے کردیتے یا( ان کے خیال خام میں) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود اپنی دعوت سے دست بردار ہوجاتے یا بصورت دیگر وہ سب بھوک اور بے کسی کے عالم میں راہی ملک عدم ہوتے _یوں کسی ایک فرد کے اوپر ذمہ داری بھی نہ آتی جو ایک ایسی خانہ جنگی کا باعث بن سکتی تھی جس کے برے نتائج کا کوئی شخص اندازہ نہیں لگا سکتا تھا_

مختصر یہ کہ انہوں نے ایک عہدنامہ لکھا، جس میں سب نے مل کر یہ عہد کیا کہ وہ بنی ہاشم کے ساتھ شادی بیاہ کا رشتہ قائم نہیں کریں گے، خرید وفروش نہیں کریں گے، اور کوئی عمل ان کے ساتھ مل کر انجام نہیں دیں گے مگر یہ کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو قتل کرنے کیلئے ان کے حوالے کردیں_

اس عہدنامے پر قریش کے چالیس رؤسا نے دستخط کئے اور اپنی مہریں بھی لگائیں_ اسے انہوں نے ایک عرصے تک کعبے میں آویزاں رکھا (کہتے ہیں انہیں اس کی چوری کا خطرہ محسوس ہوا اسلئے اسے ابوجہل کی ماں کے گھر منتقل کیا)_(۲)

___________________

۱_ سیرت مغلطای ص ۲۳نیز سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۷۵اور تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۹۷از مواھب اللدنیة کی طرف رجوع کریں_

۲_ بحارالانوار کی جلد ۱۹ص ۱۶پر الخرائج و الجرائح سے اسی طرح نقل ہوا ہے یہاں اس بات کی تحقیق کی زیادہ ضرورت نہیں_

۱۴۱

یہ واقعہ بنابر مشہور بعثت کے ساتویں سال پیش آیا اور ایک قول کی بنا پر چھٹے سال _اس معاہدے کے نتیجے میں بنی ہاشم شعب ابوطالب(۱) میں داخل ہوئے اور ان کے ساتھ مطلب بن عبدمناف کا خاندان تھا سوائے ابولہب کے_(۲)

بعثت کے دسویں سال تک وہ اسی تنگ درے میں محصور رہے اور قریش نے ان کے اردگرد پہرے دار بٹھا دیئے تاکہ کوئی ان تک کھانے پینے کا سامان نہ پہنچاسکے_

یہ مسلمان حضرت خدیجہ اور حضرت ابوطالب کے اموال سے خرچ کرتے رہے، یہاں تک کہ ان اموال کا خاتمہ ہوا اور مسلمان درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوئے _ان کے بچے بھوک سے بلبلاتے تھے_ مشرکین درے کے اس طرف ان کی آوازیں سنتے اور اس بارے میں تبادلہ خیال بھی کرتے تھے_ کچھ لوگ اس سے خوش ہوتے اور کچھ لوگ اسے باعث ننگ و عار قرار دیتے تھے_

کہاجاتا ہے کہ بعض مشرکین مسلمانوں کے ساتھ احسان و مہربانی کا ثبوت بھی دیتے تھے، غالباً وہ حضرات جن کا ان مسلمانوں کے ساتھ کوئی نسبی رشتہ تھا_ مثال کے طور پر ابوالعاص بن ربیع اور حکیم بن حزام وغیرہ_ (اگرچہ یہ بات ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں جس کا بعد میں ذکر ہوگا انشاء اللہ )_

مسلمان فقط عمرہ کے ایام (ماہ رجب)اور حج کے ایام (ماہ ذی الحجہ) میں باہر نکلتے تھے_ اس دوران وہ نہایت مشکل سے خرید وفروخت کرتے تھے کیونکہ مشرکین قبل از وقت مکہ آنے والوں سے مل لیتے اور چیزوں کی منہ مانگی قیمت دینے کی لالچ دیتے تھے بشرطیکہ وہ اسے مسلمانوں کے ہاتھ نہ بیچیں ابولہب اس معاملے میں پیش پیش تھا_ وہ تاجروں کو اکساتا تھا کہ وہ چیزیں مہنگی بیچیں تاکہ مسلمان خریداری نہ کرسکیں _نیز ابولہب ان کواضافی قیمت ادا کرنے کی ضمانت دیتا تھا_ بلکہ مشرکین دھمکی دیتے تھے کہ مسلمانوں کے ساتھ سودا

___________________

۱_ جو شہر مکہ کے قریب ایک تنگ اور چھوٹا درہ ہے اس درے میں چند گھر اور خستہ حال سائبان موجودہیں_ (مترجم)

۲_ کہتے ہیں کہ ابوسفیان بن حارث بھی مسلمانوں کے ساتھ شعب ابوطالب میں داخل نہیں ہوا لیکن یہ قول غیرمعروف ہے_ اکثر حضرات نے فقط ابولہب ملعون کو مستثنی قرار دیا ہے یہاں ہمیں اس امر کی تحقیق سے غرض نہیں_

۱۴۲

کرنے والوں کے اموال چھین لئے جائیں گے_وہ مسلمانوں کے ساتھ لیں دین کیلئے مکہ آنے والوں کو ڈراتے تھے_ خلاصہ یہ کہ قریش نے بازاروں کے دروازے ان پر بند کر دیئے اور کھانے پینے کی اشیاء کا جہاں کوئی سودا ہوتا قریش پہلے پہنچ جاتے ان کا مقصد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا خون بہانا تھا_(۱)

مصیبت کا یہ دور دو یا تین سالوں تک جاری رہا_ اس دوران حضرت علیعليه‌السلام مکہ سے چھپ چھپا کر سامان خوردونوش ان تک پہنچاتے تھے، اگرچہ یہ خطرہ تھا کہ اگر آپ ان کے ہاتھوں لگ جاتے تو وہ آپ پر رحم نہ کرتے جیساکہ اسکافی وغیرہ نے بیان کیا ہے_(۲)

حضرت ابوطالبعليه‌السلام کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ پر شب خون کا خطرہ محسوس ہوتا تھا اسلئے جب لوگ سونے لگتے اور حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اپنے بستر پر سوجاتے یہاں تک کہ شعب ابوطالب میں موجود لوگ بھی اس کا مشاہدہ کرلیتے تو سب کے سوجانے کے بعد حضرت ابوطالبعليه‌السلام آکر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو جگاتے اور آپ کی جگہ اپنے نور چشم حضرت علیعليه‌السلام کو سلاتے تھے_(۳)

اسی مناسبت سے انہوں نے اپنے بیٹے حضرت علیعليه‌السلام سے مخاطب ہوکر کچھ شعر کہے ہیں جو کتابوں میں مذکور ہیں ان کی طرف رجوع کریں_

خدیجہعليه‌السلام کی دولت اور علیعليه‌السلام کی تلوار

معروف ہے کہ اسلام علیعليه‌السلام کی تلوار اور خدیجہعليه‌السلام کی دولت سے پھیلا_ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے کیامراد ہے؟ کیا یہ کہ حضرت خدیجہعليه‌السلام لوگوں کو مسلمان ہونے کیلئے رشوت دیتی تھیں؟ کیا تاریخ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۴ _

۲_ شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۳ص ۲۵۶ _

۳_ شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۳ص ۲۵۶و ج ۱۴ص ۶۵نیز الغدیر ج ۷ص ۳۵۷_۳۵۸از کتاب الحجة ( ابن معد)، ابن کثیر نے اسے البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۴میں نام کا ذکر کئے بغیر نقل کیا ہے نیز تیسیر المطالب ص ۴۹ _

۱۴۳

آپ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اسلام کیلئے لوگوں سے روابط استوار کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیلئے مالی مدد بھی فرماتے تھے _اس کی بہترین دلیل جنگ حنین میں مال غنیمت کی تقسیم ہے_ (جس کا بعد میں تذکرہ ہوگا) اس کے علاوہ اسلامی قوانین کے اندر مؤلفة القلوب کے حصے سے کون بے خبرہے؟_

اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ طرز عمل کا مطلب یہ نہیں کہ (نعوذ باللہ ) یہ لوگ قبول اسلام کیلئے رشوت لیتے تھے_ بلکہ اسلام تو بس یہ چاہتا ہے کہ یہ لوگ اسلامی ما حول سے آشنا اور مربوط رہیں _نیز ہر قسم کے تعصب یا نفسیاتی، سیاسی اور معاشرتی رکاوٹوں سے بالاتر ہو کر اس کی طرف نگاہ کریں_

بنابریں ان کو دیا جانے والا مال مذکورہ موہوم رکاوٹوں کو اکثر موقعوں پر ہٹانے اور انہیں اسلامی ما حول سے آشنا اور مربوط رکھنے، نیز اسلام کے اہداف وخصوصیات سے آشنا کرنے میں مدد دیتا تھا تاکہ نتیجتاً وہ اسلام کی حفاظت اور اس کے عظیم اہداف کے سامنے قلبی اور فکری طور پر سر تسلیم خم کریں_

چنانچہ ان میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے ان کو مال ودولت اور ہر قسم کی ان مراعات سے محروم کردیا ہے ، جن کو وہ فطری طور پر چاہتے تھے _بنابریں طبیعی بات ہے کہ وہ پوشیدہ طور پراپنے مفادات کے لئے مضر، اس گھٹن کی فضا سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے _لیکن جب ان کی مالی اعانت کی جائے اور انہیں یہ سمجھایا جائے کہ اسلام مال ودولت کا دشمن نہیں، جیساکہ ارشاد ربانی ہے( قل من حرم زینة الله التی اخرج لعباده والطیبات من الرزق ) یعنی اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہہ دیجئے، کس نے اللہ کی حلال کردہ زینتوں اور پاک روزیوں کو حرام قرار دیا ہے_ نتیجتاً وہ سمجھ جائیں گے کہ اسلام کا مقصد انسان کی انسانیت کو پروان چڑھانا، نیز مال، طاقت، حسن اور اقتدار وغیرہ کی بجائے انسانیت کو حقیقی معیار قرار دیناہے اور اسی پیمانے پر نظام زندگی کو استوار کرنا ہے تاکہ انسان دنیا و آخرت دونوں میں منزل سعادت تک پہنچ سکے_

حضرت خدیجہ کے اموال کے حوالے سے واضح ہے کہ یہ اموال لوگوں کو مسلمان بنانے کیلئے بطور رشوت نہیں دیئے جاتے تھے اور نہ ہی مؤلفة القلوب کیلئے تھے _حضرت خدیجہعليه‌السلام کے مال سے تو بس ان مسلمانوں

۱۴۴

کیلئے قوت لایموت کا بندوبست ہوتا تھا جو اپنے دین اور عقیدے کی راہ میں عظیم ترین مصائب ومشکلات جھیل رہے تھے_ اورجن کا مقابلہ کرنے کیلئے قریش ہر قسم کے غیر اخلاقی وغیر انسانی حربوں حتی کہ انہیں فقر وفاقے پر مجبور کرنے کے حربے سے کام لے رہے تھے _ یہ ہے وہ حقیقت جس کی بنا پر یہ مقولہ مشہور ہوگیا کہ اسلام حضرت خدیجہعليه‌السلام کے مال اور حضرت علیعليه‌السلام کی تلوار سے کامیاب ہوا_

یہ واضح ہے کہ بنی ہاشم کے بائیکاٹ کے دوران حضرت خدیجہ کی دولت صرف بھوکوںکو زندہ رکھنے والے اناج اور برہنہ کو لباس فراہم کرنے میں خرچ ہوئی _دیگر امور میں ان اموال سے چندان، استفادہ نہیں ہوا کیونکہ وہ غالباً خرید وفروش سے معذور تھے_

آخر میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ مکہ میں اموال کی جس قدر بھی کثرت ہوتی لیکن پھر بھی اس کے وسائل محدود تھے کیونکہ مکہ کوئی غیرمعمولی یابہت بڑا شہر نہ تھا _ البتہ بستی یا گاؤں کے مقابلے میں بڑا تھا، اسی لئے قرآن نے اسے ام القری (بستیوں کی ماں یعنی مرکزی بستی) کا نام دیا ہے _بنابریں اس قسم کے چھوٹے شہروں کے مالی وسائل بھی محدود ہی ہوتے ہیں_

مسلمانوں کے متعلق حکیم بن حزام کے جذبات

پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ابن اسحاق وغیرہ کی روایت کے مطابق حکیم بن حزام بھی مسلمانوں کیلئے شعب ابوطالب میں چھپ چھپاکر سامان خورد ونوش بھیجا کرتا تھا(۱) لیکن ہم اس بات کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے، کیونکہ حکیم بن حزام ان افراد میں سے تھا جسے شب ہجرت قریش نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو قتل کرنے کے لئے اپنے ساتھ شامل کیا تھا(۲) اور موقع کے انتظار میں انہوں نے تمام رات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے دروازے پر گذاردی لیکن خدانے ان کی چال اپنے پر پلٹا دی _ مزید یہ کہ یہی حکیم بن حزام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے عہد میں مدینہ پہنچنے والی

___________________

۱_ رجوع کریں: سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۷۹ نیز سیرت کی دیگر کتب کی طرف_

۲_ بحار الانوارج ۱۹ ص ۳۱ و مجمع البیان ج ۴ ص ۵۳۷ _

۱۴۵

تمام اشیائے خورد ونوش کی ذخیرہ اندوزی کیاکرتا تھا تاکہ بعد میں مہنگے داموں فروخت کرے(۱) اور اسی کا شمار مؤلفہ القلوب افراد میں ہوتا ہے(۲) _ ظاہر ہے اس قسم کی ذہنیت والا انسان اس قدر سخی نہیں ہوسکتا،خاص کران حالات میں جبکہ مسلمانوں کی مدد کا عمل قریش کی دشمنی مول لینے اور اپنی جان خطرے میں ڈال دینے کا باعث بھی ہو _ البتہ اس بات کا امکان ہے کہ مذکور عمل انجام دینے میں بھی اس کا مقصد منافع لینا اور دولت جمع کرناہو یعنی ممکن ہے کہ اس نے مال کی محبت میں کھانے کی اشیاء کے عوض مسلمانوں سے منہ مانگی قیمت وصول کرنے کیلئے ایسا کیا ہو_ بالفاظ دیگر وہ مال کی محبت میں جان سے بے پروا ہو کر ہر مشکل میں آسانی سے کودنے کیلئے آمادہ ہوگیا ہو_ مزید یہکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اس کے اور بعض دوسرے لوگوں کے تحائف کو متعدد موقعوں پر قبول کرنے سے انکار فرمایا تھا کیونکہ وہ مشرک تھے (اس کابعد میں ذکر ہوگا)_ پس یہ کیونکر معقول ہے کہ پہلے اس کو قبول کرلیں اور بعد میں قبول نہ کریں؟مگر یہ دعوی کیا جائے کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو نہیں بلکہ شعب ابی طالب میں محصور بنی ہاشم کے بچوں اور ان کی عورتوں کو ہدیہدیتا تھا اور وہ تو قبول کر لیتے تھے لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ قبول نہیں فرماتے تھے_

ان ساری باتوں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ ابوالعاص بن ربیع کے بارے میں مذکوریہ قول بھی قابل قبول اور قابل اطمینان نہیں ہے ،کہ وہ بھی حکیم بن حزام کی طرح ان دنوں مسلمانوں کی مدد کرتا تھا_

ہم بعید نہیں جانتے کہ حکیم بن حزام کے حق میں مذکورہ فضیلت گھڑنے میں زبیریوں کاہاتھ ہو خصوصاً اس بات کے پیش نظر کہ زبیر نے امیرالمؤمنین علیعليه‌السلام کی بیعت میں لیت ولعل سے کام لیا تھا_ نیز وہ ایک متعصب عثمانی تھا_(۳) خانہ کعبہ میں ولادت امیرالمؤمنین اور کیفیت وحی کے بارے میں جھوٹی باتیں گھڑنے کے ذکر میں بھی ہم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا_

___________________

۱_ دعائم الاسلام ج ۲ ص ۳۵ ، توحید صدوق ص ۳۸۹ ، وسائل ج ۱۲ ص ۳۱۶ ، کافی ج ۵ ص ۱۶۵، التھذیب طوسی ج ۷ ص ۱۶۰ ، من لا یحضرہ الفقیہ ج ۳ ص ۲۶۶ مطبوعہ جامعة المدرسین و الاستبصار ج ۳ ص ۱۵

۲_ نسب قریش ص ۲۳۱ _

۳_ قاموس الرجال ج۳ص ۳۸۷ _

۱۴۶

شق القمر

شق القمر کا واقعہ بعثت کے آٹھویں سال پیش آیا جبکہ مسلمان شعب ابوطالب میں محصور تھے_(۱)

بہت ساری روایات میں مذکور ہے کہ قریش نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے معجزہ طلب کیا چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا سے دعا کی تو چاند کے دو حصے ہوگئے، اور انہوں نے اس کا نظارہ کیا ،پھر دونوں حصے آپس میں مل گئے_

یہ دیکھ کر قریش نے کہا کہ یہ ایک جادو ہے پس آیت اتری( اقتربت الساعة وانشق القمر وان یروا آیة یعرضوا ویقولوا سحر مستمر ) یعنی قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا_ یہ لوگ اگر اللہ کی کوئی نشانی دیکھیں تو منہ موڑ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سلسلہ وار جادو ہے_

ایک روایت میں ہے کہ کفار نے کہا :''ٹھہرو دیکھتے ہیں کہ مسافرین کیا خبر لاتے ہیں کیونکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سارے لوگوں پر جادو نہیں کرسکتا ''_جب مسافرین آگئے تو کفارنے ان سے استفسار کیا جس پر انہوں نے جواب دیا: ''ہاں ہم نے بھی یہ منظر دیکھا ہے ''پس یہ آیت اتری( اقتربت الساعة وانشق القمر ) (۲)

سید شریف سے شرح المواقف میں اورابن سبکی سے شرح المختصر میں نقل ہوا ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے اور اہلسنت کے ہاں اس کے متواتر ہونے میں شک کی کوئی گنجائشے نہیں ہے_(۳)

رہا غیرسنیوں کے نزدیک تو علامہ محقق السید طباطبائی کہتے ہیں شق القمر کے واقعے کا شیعہ روایات میں آئمہ اہلبیتعليه‌السلام سے بکثرت ذکر ہوا ہے_ شیعہ علماء اور محدثین کے نزدیک یہ واقعہ مسلمہ ہے_(۴) لیکن بہرحال اس مسئلے کو ضروریات دین میں شامل کرنا ممکن نہیں، جیساکہ بعض علماء نے اس جانب اشارہ کیا ہے_(۵)

___________________

۱_ تفسیر المیزان ج ۱۹ص ۶۲و ۶۴ _

۲_ الدر المنثور ج ۶ص ۱۳۳از ابن جریر، ابن منذر، ابن مردویہ، دلائل ابونعیم اور دلائل بیہقی نیز مناقب آل ابوطالب ج ۱ص ۱۲۲ _

۳_ تفسیر المیزان ج ۱۹ص ۶۰_ ۴_ تفسیر المیزان ج ۱۹ ص ۶۱ نیز رجوع ہو بحارالانوار ج ۱۷ ص ۳۴۸_۳۵۹ باب المعجزات السماویة_

۵_ رجوع کریں: فارسی کتاب ''ھمہ باید بدانند'' ص ۷۵کی طرف_

۱۴۷

ایک اعتراض اور اس کا جواب

علامہ طباطبائی کہتے ہیں یہاں ایک اعتراض ہوا ہے ،وہ یہ کہ لوگوں کے مطالبے پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی طرف سے معجزے کا اظہار اس آیت کے منافی ہے( وما منعنا ان نرسل بالایات الا ان کذب بها الا ولون وآتینا ثمود الناقة مبصرة فظلموا بها وما نرسل بالایات الا تخویفا ) (۱) یعنی ہمارے لئے اپنی نشانیاں دکھانے سے فقط یہ بات مانع ہے کہ پہلے والوں نے اس کی تکذیب کی_ ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی عطا کی جو ہماری قدرت کوروشن کرنے والی تھی لیکن ان لوگوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم تو نشانیوں کو فقط ڈرانے کیلئے بھیجتے ہیں_

اس آیت کا مفہوم یا تو یہ ہے کہ ہم اس امت کی طرف معجزے بھیجتے ہی نہیں کیونکہ گذشتہ امتوں نے ان کی تکذیب کی اور چونکہ اس امت کے لوگوں کی طبیعت بھی ان کی طرح ہے لہذا وہ بھی ان معجزوں کی تکذیب کریں گے_ اس صورت میں چونکہ معجزہ ان کیلئے بے فائدہ ہے اسلئے ہم معجزے نہیں دکھاتے _یا مفہوم یہ ہوگاکہ ہم معجزے اسلئے نہیں بھیجتے کیونکہ جب ہم نے گذشتہ لوگوں کو معجزے دکھائے تو انہوں نے جھٹلایا نتیجتاً عذاب الہی کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے، پس اگر ہم ان لوگوں کو بھی معجزہ دکھائیں تو یہ بھی اس کو جھٹلاکر عذاب کا شکار ہوں گے، لیکن ہم ان کو عذاب دینے میں جلدی کرنا نہیں چاہتے_ بہرحال مفہوم جو بھی ہو نتیجہ یہ ہے کہ سابقہ امتوں کیلئے جس طرح معجزے بھیجے جاتے تھے اس امت کیلئے نہیں بھیجے جائیں گے_

البتہ یہ فیصلہ ان معجزوں کے بارے میں ہے جو لوگوں کے مطالبے پر دکھائے جائیں نہ ان معجزوں کے بارے میں جن سے رسالت کی تائید ہوتی ہو مثال کے طور پر خود قرآن بھی ایک معجزہ ہے اور اس سے رسالت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تائید ہوتی ہے_ نیز عصائے موسیعليه‌السلام یا ید موسیعليه‌السلام یا حضرت عیسیعليه‌السلام کے ہاتھوں مردوں کا زندہ ہونا وغیرہ _علاوہ بر ایں وہ معجزے جو خدا کی طرف سے بطور لطف نازل ہوئے وہ بھی اس سے مستثنی ہیںجس طرح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے ظاہر ہونے والے وہ معجزات جو لوگوں کی در خواست پر نہیںدکھائے گئے_

___________________

۱_ سورہ اسرائ، آیت ۵۹_

۱۴۸

اس کے بعد علامہ طباطبائی نے خود اس اعتراض کا جواب دیا ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ معجزہ شق القمر کی تکذیب کا تقاضا یہ تھا کہ ان پر عذاب نازل ہوتا کیونکہ یہ معجزہ ان کی درخواست پر ظاہر ہوا ،لیکن خدا تمام اہل زمین کو( جن کی طرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھیجا گیاتھا ) کیسے ہلاک کرسکتا تھا ؟جبکہ ان سب پر ابھی اتمام حجت نہیں ہوا تھا جسے وہ جھٹلاکر مستحق عذاب ہوتے بلکہ مکہ میں رہنے والے بعض افراد پر یہ حجت تمام ہوئی تھی کیونکہ یہ معجزہ ہجرت سے پانچ سال قبل دکھایا گیا تھا_

نیز مکہ اور اس کے آس پاس رہنے والے تمام لوگوں کو ہلاک کرنا بھی مقصود خداوندی نہ تھا کیونکہ ان میں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود تھی چنانچہ ارشاد الہی ہے( ولولا رجال مؤمنون ونساء مؤمنات لم تعلموهم ان تطئوهم فتصیبکم منهم معرة بغیر علم لیدخل الله فی رحمته من یشاء لو تزیلوا لعذبنا الذین کفروا منهم عذاباً الیماً ) (۱)

یعنی اگر با ایمان مرداور عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم نہیں جانتے تھے اور نادانستگی میں تمہارے ہاتھوں ان کی پامالی کا بھی خطرہ تھا ،اس طرح تمہیں لا علمی کی بنا پر نقصان پہنچتا (تو تمہیں روکا بھی نہ جاتا روکا اسلئے) تاکہ خدا جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اگر یہ لوگ الگ الگ ہوجاتے تو ہم کفار کو دردناک عذاب میں مبتلا کردیتے_حالانکہ اس وقت مشرکین مسلمانوں سے جدا نہیں ہوئے تھے_

نیز رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی موجودگی میں بھی ان کفار پر عذاب نازل نہیں ہوسکتا تھا جیساکہ ارشاد باری ہے( وما کان الله لیعذبهم وانت فیهم ) (۲) یعنی جب آپ ان کے درمیان موجود ہوں تو خدا ان پر عذاب نازل نہ کرے گا_

اور یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ خدا مسلمانوں کو چھوڑ کر فقط کافروں پر عذاب نازل کرتا جبکہ کفار کی ایک کثیر تعداد بعثت کے آٹھویں سال سے لے کر ہجرت کے آٹھویں سال تک مسلمان ہوچکی تھی اوربعد ازاں فتح مکہ کے وقت تو عام لوگ بھی مسلمان ہوگئے_

___________________

۱_ سورہ فتح، آیت ۲۵_

۲_ سورہ انفال، آیت ۳۳_

۱۴۹

اس مسئلے میں اسلام کے نزدیک لوگوں کا بظاہر اسلام قبول کرلیناہی کافی ہے _اس کے علاوہ تمام اہل مکہ یا آس پاس کے لوگ اسلام سے عناد رکھنے والے یا جان بوجھ کر حق کا انکار کرنے والے نہ تھے_ یہ صفت تو فقط قریش کے سرداروںکی تھی، جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا مذاق اڑاتے اور مؤمنین پر تشدد کرتے تھے_ جن آیات میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو مسجدالحرام جانے سے روکنے اور انہیں وہاں سے نکال باہر کرنے کے جرم میں کافروں کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے مقابلے میں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکنے(۱) اور عذاب الہی کامز اچکھنے کی دھمکی دی گئی تھی تو ان آیات نے جنگ بدر میں حقیقت کا روپ دھارلیا اور بہت سے کفار واصل جہنم ہوئے_

پس قرآن کی مذکورہ آیت( وما منعنا ان نرسل بالآیات ) سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان کے درمیان موجود ہوں خدا معجزے نہیں دکھاتا _رہا معجزہ دکھا کر عذاب کو مؤخر کرنا یہاں تک کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے درمیان سے اٹھ جائیں تو خدا کے مذکورہ کلام میں اس کا کوئی ذکر نہیں_ ادھر اللہ تعالی کا ارشاد ہے( وقالوا لن نؤمن لک حتی تفجر لنا من الارض ینبوعاً قل سبحان ربی هل کنت الا بشراً رسولاً ) (۲) یعنی ''کفار بولے ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس وقت ایمان لائیں گے جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمین سے ہمارے لئے چشمے جاری کردیں کہہ دیجئے میں تو بس ایک بشرہوں جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنا کر بھیجا گیا ہے''اور یہ ارشاد اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ خدا معجزات کے ذریعے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت ونصرت نہیں فرمائے گا یامعجزے کا اظہار بالکل نہ ہوگا ،وگرنہ تمام انبیاء بھی انسان ہی تھے_پس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک بشر ہونے کے ناطے بذات خود اس امر پر قادر نہیں بلکہ ساری قدرت خدا کی ہے اور درحقیقت اسی کے حکم سے معجزات رونما ہوتے ہیں_(۳)

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ( وما نرسل بالایات الا تخویفا ) والی آیت کا مقصد شاید یہ ہو کہ ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کی بنیاد ناقہ ثمود یا معجزات موسیعليه‌السلام کی طرح کے معجزوں پر استوار نہیں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کی بنیاد

___________________

۱_ سورہ بنی اسرائیل ۷۶اور سورہ انفال ۳۵_

۲_ سورہ بنی اسرائیل ۹۳ _

۳_ تفسیر المیزان ج ۱۹ص ۶۰_۶۴_

۱۵۰

حضرت ابراہیمعليه‌السلام کی دعوت کی طرح بنیادی طور پر عقلی دلائل قائم کر کے اذہان کو مطمئن کرنے پر مبنی ہے_ لیکن واضح رہے کہ یہ بات اس امر کے منافی نہیں کہ بعض مقامات پر (جہاں عقلی براہین و دلائل کارگرنہ ہوں) معجزات کا اظہار کیاجائے_

شق القمر، مؤرخین اور عام لوگ

معجزہ شق القمر پر یہ اعتراض ہوا ہے کہ اگر حقیقتاً چاندکے دوٹکڑے ہوئے ہوتے تو تمام لوگ اسے دیکھ لیتے اور مغرب کی رصدگاہوں میں اس کا ریکارڈ ہوتا کیونکہ چاند کا دونیم ہونا عجیب ترین آسمانی معجزہ ہوتا_ بہرحال اس قسم کے معجزے کو سننے اور نقل نہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی_

اس اعتراض کے درج ذیل جوابات دیئے گئے ہیں_

الف: ممکن ہے کہ لوگ اس واقعے سے غافل رہے ہوں کیونکہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ ہر آسمانی یا زمینی حادثے کا لوگوں کو ضرور علم ہونا چاہیئے یا ان کے ریکارڈ میں اس قسم کے واقعات کو موجود ہونا چاہئے اور نسل در نسل لوگوں کے پاس ان کا علم ہونا چاہیئے_(۱)

محقق توانا علامہ شیخ ناصر مکام شیرازی نے اس مسئلے کی مزیدوضاحت کی ہے ان کے بیان کی رو سے درج ذیل نکات قابل ملاحظہ ہیں_

۱) چاند کا دونیم ہونا زمین کے اس نصف حصے کیلئے قابل دید تھا جہاں رات تھی نہ کہ دوسرے نصف حصے کیلئے جہاں دن تھا_

۲) اس نصف حصے میں بھی جہاں رات ہوتی ہے اکثر لوگ اجرام فلکی میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے خصوصاً آدھی رات کے بعد تو سب سو جاتے ہیں اور تقریباً کوئی بھی متوجہ نہیں ہوتا_

___________________

۱_ تفسیر المیزان، ج ۱۹ ص ۶۴_

۱۵۱

۳)ممکن ہے اس وقت بعض مقامات پر بادل چھائے ہوئے ہوں جس کی وجہ سے چاند کا دیکھنا ممکن نہ رہاہو_

۴) آسمانی حادثات و واقعات لوگوں کی توجہ اس وقت جذب کرتے ہیں جب ان کے ساتھ کوئی آواز (مثلا گھن گرج وغیرہ) بھی سنائی دے یا غیر معمولی علامات( مثلا سورج گرہن کی صورت میں نسبتاً کافی دیر تک سورج کی روشنی کا مدہم پڑ جانا )بھی ہمراہ ہوں_

۵) علاوہ براین پہلے زمانوں کے لوگ آسمانی حادثات پر اتنی توجہ نہیں دیتے تھے_

۶) اس زمانے میں ذرایع ابلاغ نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی کہ دنیا کے ایک حصے کی خبر فوراً دوسرے حصے میں پہنچ جاتی اور لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول ہوجاتی_

۷) ہمارے ہاں موجود تاریخ بہت ہی ناقص ہے کیونکہ گذشتہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں سالوں میں کتنے ہی عظیم حادثات گذرے ہوں گے، زلزلے اور سیلاب آئے ہوں گے جن سے بہت سی اقوام کی تباہی ہوئی ہوگی لیکن آج تاریخ میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا_ بطور مثال زرتشت جس کا ظہور ایک عظیم حکومت کے دامن میں ہوا اور جس نے تاریخ عالم میں مختلف اقوام وملل پر زبردست اثر چھوڑا ، ان کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں پیدا ہوا کہاں مرا اور کہاں دفن ہوا بلکہ بعض لوگوں کوتو اس بات میں بھی شک ہے کہ اس کا وجود حقیقی تھا یا افسانوی_ بنابرایں ظاہر ہے کہ اگر سارے لوگوں نے شق القمر کا مشاہدہ نہ کیا ہو یا تاریخ میں یہ واقعہ واضح طور پر ثبت نہ ہو سکاہو تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں_(۱)

ب:عرب یا غیرعرب علاقوں میں فلکیاتی حالات کا جائزہ لینے کیلئے رصدگاہیں موجود نہ تھیں_ مشرق ومغرب میں اگر رصدگاہیں موجود تھیں تو شاید روم اور یونان وغیرہ میں تھیں اگرچہ ہمارے نزدیک اس دور میں رصدگاہ کی موجودگی بھی ثابت نہیں _اس کے علاوہ مغرب کی سرزمین جہاں ان امور پر توجہ دی جاتی تھی،اور مکہ کے درمیان اختلاف افق کی بنا پر وقت کا بہت زیادہ فرق تھا بعض روایات کی بنا پر معجزے کے وقت چاند مکمل تھا اور طلوع کے وقت تھوڑی دیر کیلئے شق ہونے کے بعد پھر جڑگیا _ظاہر ہے اس کے بعد جب

___________________

۱_ فارسی کتاب ''ھمہ باید بدانند'' ص ۹۴_

۱۵۲

مغرب میں چاند طلوع ہوا ہوگا تو اس وقت اس کے دونوں حصے ملے ہوئے تھے_(۱)

چاند کاشق ہوکر جڑنا، سائنسی نقطہ نظر سے

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سائنسی نقطہ نظر سے اجرام فلکی کاشق ہونا ممکن ہے؟ یہ اس وقت ممکن ہے جب دونوں حصوں کے درمیان جاذبیت برقرار نہ رہے اور جب کشش ہی نہ رہے تو دوبارہ جڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا_جس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ قدرت خداوندی سے یہ خارق العادہ کام محال نہیں ہیں اور علامہ ناصر مکارم شیرازی نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ ماہرین فلکیات کے بقول اجرام فلکی میں خاص وجوہات کی بنا پر توڑپھوڑ کا عمل بہت زیادہ واقع ہوا ہے مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ:

۱) سورج کے گرد تقریباً پانچ ہزار چھوٹے بڑے اجسام گردش کررہے ہیں_

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ اجسام کسی ایسے سیارے کے باقی ماندہ ٹکڑے ہیں جو مریخ اور مشتری کے مداروں کے درمیان موجود تھا _پھر نامعلوم وجوہات کی بناء پر دھماکے سے پھٹ کر تباہ ہوگیا اور مختلف حجم کے ٹکڑوں کی شکل میں سورج کے گرد مختلف مداروں میں بکھر گیا_

۲) ماہرین کہتے ہیں کہ شہاب ثاقب حیرت انگیز رفتار سے سورج کے گرد گھومنے والے پتھر کے نسبتاًچھوٹے ٹکڑے ہیں _ کبھی کبھی وہ زمین کے نزدیک سے گزرتے ہیں تو زمین ان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے_ یوں جب وہ زمین کی فضاؤں سے رگڑکھاتے ہیں تو شعلوں میں تبدیل ہوکر نیست و نابود ہوجاتے ہیں _ ماہرین کے بقول یہ بھی کسی ایسے ستارے کے ٹکڑے ہیں جو دھماکے کے بعد ان ٹکڑوں کی شکل میں تقسم ہوگیا_

۳)لاپلس ( LAPLACE ) کے نظریئے کے مطابق نظام شمسی بھی ایک ہی جسم تھا_ پھر کسی نامعلوم سبب کی بناء پر وہ پھٹ گیا اور موجودہ شکل اختیار کرلی_ بنابریں کسی زبردست علت کے نتیجے میں چاند کے بھی دو ٹکڑے ہوسکتے ہیں اور وہ علت ہے خدا کی قدرت و طاقت_ کیونکہ جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا سے دعا

___________________

۱_ تفسیر المیزان ج ۱۹ص ۶۴،۶۵_

۱۵۳

کی تو اس نے قبول کرلی_

یہ دعوی تو کوئی بھی نہیں کرتا کہ چاند بغیر کسی سبب کے شق ہوا _رہا اس کا دوبارہ جڑجانا تو اس سلسلے میں ماہرین کہتے ہیں کہ ہر بڑے سیارے میں کشش ہوتی ہے اسی لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ سورج اپنے گرد گھومنے والے بہت سے ٹکڑوں کواپنی طرف جذب کر لیتا ہے ،جس پر یہ اجسام ٹکراؤ اور ر گڑ کے نتیجے میں شعلے کی شکل اختیار کر کے تباہ ہوجاتے ہیں_

پس جب چاند کے دونوں حصے ایک دوسرے کے قریب ہوں اور وہ قوت جوان دونوں کی باہمی کشش کی راہ میں حائل تھی اٹھ جائے تو یہ دونوں ٹکرے ایک دوسرے کو کیوں نہ اپنی طرف کھینچیں تاکہ پھر پہلے والی حالت پر واپس آجائیں؟ عقلی طور پر اس میں کونسی رکاوٹ ہے؟(۱)

علامہ طباطبائی نے اس سوال (کہ بغیر جاذبیت کے کیسے جڑ سکتے ہیں) کا مختصر الفاظ میں یوں جواب دیا ہے کہ عقل کے نزدیک یہ امر محال نہیں (بلکہ ممکن ہے)_ رہا یہ سوال کہ عام طور پر ایسا نہیں ہوا کرتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ امر جدائی کے بعد دوبارہ جڑجانے سے مانع ہے تو پھر شروع میں ہی اس کے دوٹکروں میں بٹ جانے سے بھی مانع ہونا چاہئے_ لیکن جب شق ہونا ممکن ہوا تو دوبارہ ان کامل جانا بھی ممکن ہے_ نیز ہماری بحث ہی غیر معمولی امر یعنی (معجزے) کے رونما ہونے میں ہے _(۲)

شق القمر پر قرآنی آیت کی دلالت

بعض لوگ یہ احتمال دیتے ہیں کہ قرآنی آیت( اقتربت الساعة وانشق القمر ) مستقبل کے بارے میں گفتگو کر رہی ہے اور یہ بتا رہی ہے کہ چاند کا شق ہونا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے ،جس طرح تکویر شمس (سورج کی شعاعوں کا زائل ہوجانا) اور انکدار نجوم (ستاروں کا ٹوٹ کر بکھرنا) بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے_

___________________

۱_ ہمہ باید بدانند ص ۸۴ تا ۹۰_

۲_ تفسیر المیزان ج ۱۹ص ۶۵ _

۱۵۴

علامہ محقق شیخ ناصر مکارم شیرازی نے اس کا جواب دیا ہے جس کا حاصل مطلب یہ ہے:

الف:قول الہی: (وان یروا آیة یعرضوا ویقولوا سحر مستمر) سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے کچھ مخالفین خدا کی نشانیوں اور معجزات پر ایمان نہیں لائے _جب بھی کوئی معجزہ رونما ہوتا ہے تو ان کے عناد اور ہٹ دھرمی میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اسے جادو قرار دیتے ہیں_ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ شق القمر کے مسئلے میں بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کافروں نے یہی روش اپنائی تھی_(جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ واقعہ پہلے رونما ہوچکا ہے _مترجم)

ب:لفظ (انشق) فعل ماضی ہے ماضی کے الفاظ مستقبل پر دلالت نہیں کرتے مگر کو ئی قرینہ موجود ہو اور یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں بلکہ قرینہ اس کے برعکس ہے _چنانچہ رازی کہتا ہے تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ اس لفظ سے یہی مراد ہے کہ چاند کا شق ہونا واقع ہوچکا ہے_ نیز معتبر روایات بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں _(۱)

اگرچہ طبرسی اور ابن شہر آشوب نے عطاء حسن اور بلخی کو مستثنی قرار دیا ہے_(۲) اور طبرسی کہتے ہیں کہ ان کا یہ قول درست نہیں کیونکہ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے _لہذا اس مسئلے میں بعض لوگوں کی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا_(۳)

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ قرآن میں جملہ( اقتربت الساعة ) کے فوراً بعد( انشق القمر ) کا جملہ مذکور ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں کا زمانہ مشترک ہے (یعنی روز قیامت)_ تو اس کاجواب یہ ہے کہ قرآن کی بہت ساری آیات میں صریحاً کہا گیا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے پس غفلت کیسی؟ فرمایا ہے( اقترب للناس حسابهم وهم فی غفلة معرضون ) (۴) یعنی لوگوں کیلئے حساب کی گھڑی آگئی ہے لیکن وہ غفلت کا شکار ہوکر کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں_ یہاں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے

___________________

۱_ تفسیر رازی ج ۲۹ص ۲۸_

۲_ مجمع البیان ج ۹ص ۱۸۶و مناقب آل ابیطالب ج ۱ص ۱۲۲ _

۳_ مجمع البیان ج ۹ص ۱۸۶ _

۴_ سورہ الانبیائ، آیت_ ۱

۱۵۵

منقول ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دوانگلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:'' میری بعثت اور قیامت کی مثال یوں ہے''_(۱) ظاہر ہے کہ یہ بات مجموعی دنیاوی زندگی کو مدنظر رکھ کر کہی گئی ہے جو بہت طولانی ہے_ جسے مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہاجا سکتا ہے کہ بعثت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قیامت کا درمیانی عرصہ کچھ بھی نہیں _بنابریں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ قیامت نزدیک آگئی ہے اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعے یہ معجزہ ظاہر ہوا لیکن یہ خودسرمشرکین ایمان نہیں لاتے اور اس کی تصدیق کرنے کی بجائے کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے_(۲)

لیکن ایک محقق کا کہنا ہے( ان یروا آیة ) والی آیت جملہ شرطیہ ہے، اس میں مذکورہ امر کے واقع ہوجانے کا تذکرہ نہیں _نیز جملہ( انشق القمر ) کی مثال اس آیت کی طرح ہے( آتی امر الله فلا تستعجلوه ) حکم الہی آیاہی چاہتا ہے لہذا جلد بازی نہ کرو _ یہاں ماضی کا جملہ ہے حالانکہ ابھی امر الہی واقع نہیں ہوا اسی لئے اس کے فوراً بعد فرمایا ہے کہ جلد بازی نہ کرو _یہی حال ہے قول الہی( وانشق القمر ) کا کیونکہ اس کے بعد کہا گیا ہے( وان یروا ) _ یہاں یہ کہنا مقصودہے کہ اگر ایسا امر واقع ہوا تو ان کی کیا حالت ہوگی_ رہا اجماع جس کا طبرسی نے وعوی کیا ہے تو وہ حجت نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ یہ اجماع اس آیت سے غلط استنباط کی بناء پر وجود میں آیا ہو_

یہاں ہم یہ عرض کریں گے کہ اگر شق القمر کے واقع ہونے پر معتبر احادیث گواہی نہ دے چکی ہوتیں تو پھر مذکورہ احتمال کی کسی حدتک گنجائشے تھی_

افسانے

لوگوں نے شق القمر کے واقعے سے بہت سارے افسانے اور بے بنیاد قصے گھڑ لئے، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان مشہور ہوگیا کہ چاند کا ایک ٹکڑا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی آستین سے ہوکر گزرگیا_

___________________

۱_ مفتاح کنوز السنة ص ۲۲۷کہ بخاری، مسلم، ابن ماجہ، طیاسی، احمد، ترمذی اور دارمی سے نقل کیا ہے_

۲_ آیت کی دلالت سے متعلق ہماری مذکورہ معروضات کے سلسلے میں آپ رجوع کریں فارسی کتاب ''ہمہ باید بدانند'' ص ۷۶_۸۰_

۱۵۶

علامہ ناصر مکارم شیرازی کہتے ہیں کہ احادیث وتفسیر کی کتابوں میں خواہ شیعوں کی ہوں یا سنیوں کی، اس قول کا نام ونشان بھی نہیں ملتا_

بعض روایات میں اس مسئلے کی جزئیات اور تفصیلات کا ذکر ہوا ہے لیکن ہم ان پر تحقیق کرنے میں کوئی بڑا فائدہ یا نتیجہ نہیں پاتے _بنابریں ہم زیادہ اہم اور مفید مسئلے کا رخ کرتے ہیں_

عہد نامے کی منسوخی

تقریبا تین سال بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کو بتایا کہ دیمک نے مشرکین کے عہدنامے میں ظلم اور قطع رحمی سے متعلق الفاظ کو کھالیا ہے اور سوائے اسماء الہی کے کوئی چیز باقی نہیں رہی_ ایک اور روایت کے مطابق دیمک نے اللہ کے تمام ناموں کو کھالیا لیکن ظلم وشر اور قطع رحمی سے متعلق حصّے کو چھوڑ دیا_(۱)

چنانچہ حضرت ابوطالب بنی ہاشم کے ہمراہ اس درے سے خارج ہوئے اور شہر مکہ لوٹ آئے_

یہ دیکھ کر مشرکین نے کہا کہ بھوک نے ان کو نکلنے پر مجبور کردیا ہے_ قریش نے کہا:'' اے ابوطالب اب وقت آگیا ہے کہ اپنی قوم کے ساتھ مصالحت کرلو'' _حضرت ابوطالب نے فرمایا:'' میں تمہارے پاس ایک اچھی تجویز لیکر آیاہوں ،اپنا عہدنامہ منگواؤ شاید اس میں ہمارے اور تمہارے درمیان صلح کی کوئی راہ موجود ہو''_ قریش اسے لے آئے اور دیکھا کہ اس پر ان کی مہریں اب بھی موجود ہیں حضرت ابوطالب نے کہا:'' کیا اس معاہدہ پر تمہیں کوئی اعتراض ہے؟'' بولے نہیں_

ابوطالبعليه‌السلام نے کہا:'' میرے بھتیجے نے (جس نے مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولا) مجھے خبر دی ہے کہ خدا کے

___________________

۱_ کبھی کہا جاتا ہے کہ معاہدے کی منسوخی تک قریش کا اپنی عداوت پر باقی رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ دیمک نے صرف اللہ کے نام کو مٹایا تھا اور قطع رحمی کی مانند دیگر مواد کو باقی رکھا تھا لیکن اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ دیمک کا خدا کے نام کو کھا جانا بہت بعید بات ہے شاید مشرکین عہدنامے کے محو ہوچکنے کے باوجود بھی اس کے مضمون پر عمل کرتے رہے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اسے دوبارہ لکھا ہو_ اس پر یہ اشکال کیا گیا ہے کہ دیمک نے خدا کا نام اس کی حرمت باقی رکھنے کیلئے چاٹا ہو تاکہ اس ظالمانہ عہدنامے میں اس کا پاک نام باقی نہ رہے_ اور یہ اظہار حق کیلئے مطلوب ایک مثبت معجزہ تھا_ اس سے کسی قسم کی اہانت کا پہلو نہیں نکلتا_

۱۵۷

حکم سے دیمک نے اس عہدنامے سے گناہ اور قطع رحمی سے مربوط الفاظ کو کھا لیا ہے اور فقط اللہ کے ناموں کو باقی چھوڑا ہے_ اگر اس کی بات صحیح نکلے تو تمہیں ہمارے اوپر ظلم کرنے سے دست بردار ہونا چاہیئے اور اگر جھوٹ نکلے تو ہم اسے تمہارے حوالے کردیں گے تاکہ تم اسے قتل کرسکو''_

یہ سن کر لوگ پکار اٹھے:'' اے ابوطالب بتحقیق آپ نے ہمارے ساتھ انصاف والی بات کی''_ اس کے بعد وہ عہدنامہ کولائے تو اسے ویساہی پایا جیسارسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے خبر دی تھی_ یہ دیکھ کر مسلمانوں نے تکبیر کی آواز بلند کی اور کفار کے چہروں کارنگ فق ہوگیا_حضرت ابوطالب بولے:'' دیکھ لیا کہ ہم میں سے کون ساحر یا کاہن کہلانے کا حقدار ہے؟''

اس دن ان کے بہت سے افراد نے اسلام قبول کرلیا لیکن مشرکین پھر بھی قانع نہ ہوئے اور انہوں نے عہدنامے کے مضمون کے مطابق سابقہ روش جاری رکھی،یہاں تک کہ بعض مشرکین اس عہدنامے کو توڑنے کے درپے ہوئے ان لوگوں میں ان افراد کا ذکر ہوا ہے_ ہشام بن عمروبن ربیعہ، زہیر بن امیہ بن مغیرہ، مطعم بن عدی، ابوالبختری بن ہشام، زمعة بن اسود_

یہ سارے حضرات بنی ہاشم اور بنی مطلب سے کوئی نہ کوئی قرابت رکھتے تھے_ ابوجہل نے ان کی مخالفت کی، لیکن انہوں نے اس کی پروا نہ کی چنانچہ وہ عہدنامہ پھاڑ دیا گیا اور اس پر عمل درآمدختم ہوگیا _یوں بنی ہاشم شعب ابوطالب سے نکل آئے_(۱)

ابوطالب عقلمندی اور ایمان کا پیکر

ہجرت سے قبل کے واقعات کا مطالعہ کرنے والا شخص دسیوں مقامات پر حضرت ابوطالب کی ہوشیاری وتجربہ کاری کا مشاہدہ کرتا ہے_

___________________

۱_ اس بارے میں ملاحظہ ہو : السیرة النبویہ ( ابن کثیر) ج۲ ص ۴۴ ، السیرة النبویہ (ابن ہشام) ج ۲ ص ۱۶ ، دلائل النبوة مطبوعہ دار الکتب ج ۲ ص ۳۱۲، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۸۸ السیرة النبویہ (دحلان) ج۱ص ۱۳۷ و ۱۳۸ مطبوعہ دار المعرفة ، تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۳۱ اور البدایة والنہایة ج۳ ص ۸۵ و ۸۶_

۱۵۸

بہترین مثال مذکورہ بالا واقعہ ہے_ ہم نے مشاہدہ کیاکہ حضرت ابوطالب نے کفار سے عہدنامہ لانے کا مطالبہ کیا اورساتھ ہی یہ اشارہ بھی کیا کہ شاید اس میں صلح کیلئے کوئی راہ نکل آئے_

ایسا کہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عہدنامہ سب لوگوں کے سامنے کھولاجائے تاکہ سب اسے دیکھ لیں اور آئندہ پیش آنے والے عظیم واقعے کیلئے آمادہ ہوسکیں _نیز ایک منطقی حل پیش کرنے کیلئے فضا ہموار ہوجائے تاکہ بعد میں قریش کیلئے اس کو قبول کرنا اور اس پر قائم رہنا شاق نہ ہو، بالخصوص اس صورت میں جب وہ ان سے کوئی وعدہ لینے یا ان کو عرب معاشرے میں رائج اخلاقی اقدار کے مطابق قول و قرار، شرافت و نجابت اور احترام ذات وغیرہ کے پابند بنانے میں کامیاب ہوتے_ انہیں اس میں بڑی حدتک کامیابی ہوئی یہاں تک کہ لوگ پکار اٹھے ''اے ابوطالب تو نے ہمارے ساتھ منصفانہ بات کی ہے_''

مذکورہ عبارات سے ایک اور حقیقت کی نشاندہی بھی ہوتی ہے جو بجائے خود اہمیت اور نتائج کی حامل ہے اور جو یہ بتاتی ہے کہ حضرت ابوطالب کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی سچائی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشن کی درستی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیغام کی حقانیت پرکس قدر اعتماد تھا اور یہ کہ جب دوسرے لوگ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ساحر اور کاہن کہہ کر پکارتے تھے تو انہیں دکھ ہوتا تھا_ ان کی نظر میں یہ ایک کھلم کھلا بہتان تھا_ اسی لئے انہوں نے اس فرصت کو غنیمت سمجھا تاکہ اس سے فائدہ اٹھاکر کفار کے خیالات و نظریات کو باطل قرار دیں چنانچہ انہوں نے کہا :'' کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ ہم میں سے کون ساحر یا کاہن کہلانے کا زیادہ حقدار ہے؟ ''اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عہد نامے والا معجزہ دیکھنے کے بعد مکہ کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا_

قبیلہ پرستی اور اس کے اثرات

گذشتہ صفحات میں ہم نے ملاحظہ کیاکہ قبیلہ پرستی نے ایک حدتک ان حادثات کی روک تھام میں مدد کی جن سے دعوت اسلامی کے مستقبل اور اس کی کامیابی پر برا اثر پڑ سکتا تھا_ مثال کے طور پر عہدنامے کو منسوخ کرنے والے افراد کی کوشش میں بھی یہی جذبہ کارفرما تھا، لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس جدوجہد میں ابولہب کہیں دکھائی نہیں دیتا نیز حضرت خدیجہ کے چچازاد حکیم بن حزام بھی نظر نہیں آتے جس کے بارے

۱۵۹

میں روایات کا دعوی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کیلئے شعب ابوطالب میں کھانے کاسامان بھیجا کرتے تھے _ اس کے علاوہ ابوالعاص بن ربیع اموی کا بھی کوئی کردار دیکھنے میں نہیں آیا جس کے بارے میں وہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے ساتھ قرابت کو سراہا (انشاء اللہ ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ حضرت علیعليه‌السلام کی شادی والے افسانے میں اس کا مزید ذکر ہوگا)_ ان کوششوں کی وجہ بالواسطہ طریقے سے حضرت علیعليه‌السلام کے مقام کو گھٹانا ہے جو ان کے نزدیک فقط ملامت اور سرزنش کے حقدار ہیں_ وہ علیعليه‌السلام جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر شعب ابوطالب میں شہر مکہ سے کھانے کا سامان پہنچاتے تھے اور اگر وہ کفار کے ہاتھ لگ جاتے تو وہ انہیں قتل کردیتے_ (جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا)_

عہد نامے کی منسوخی کے بعد

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے دین کی ترویج میں بدستور مصروف رہے_ قریش بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے_ نیز وہ ہر ممکنہ ذریعے سے کوشش کرتے تھے کہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس نہ آئیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتیں نہ سنیں، لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے صبروتحمل کا راستہ اپناتے ہوئے ہر قسم کی سستی یا کندی سے احتراز کیا، یوں قریش کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکے_

اس سلسلے میں بہت سے حادثات و واقعات پیش آئے، ان سب کو بیان کرنے کیلئے کافی وقت درکا رہے لہذا اس موضوع کو چھوڑکر دوسرے موضوعات کا رخ کئے بغیر چارہ نہیں اگرچہ اس موضوع کو ناتمام چھوڑنا ہمارے اوپر گران ہے_

حبشہ سے ایک وفد کی آمد

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مکہ کے باہر سے پہنچنے والا پہلا وفد حبشہ کے عیسائیوں کا تھا_ بقولے ان کا تعلق نجران سے تھا ابن اسحاق وغیرہ کے بقول یہ وفد بیس افراد پر مشتمل تھا _ان کی تعداد کے

۱۶۰