الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)9%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 209831 / ڈاؤنلوڈ: 6321
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

مسلمان ہوا(۱)

نبوت کے گیارہویں سال نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایام حج ہی میں قبائل کو دعوت اسلام دینے اور ان سے مدد طلب کرنے کیلئے نکلے_ پس عقبہ (ایک گھاٹی) میں قبیلہ خزرج کے ایک گروہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملاقات ہوئی_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو دعوت اسلام دی اور قرآن پڑھ کر سنایا_یوں وہ مسلمان ہوئے اور ان کی تعداد چھ تھی،جو یہ افراد ہیں: اسعد بن زرارہ، جابر بن عبداللہ، عوف بن حارث، رافع بن مالک اور عامر کے دوبیٹے عقبہ و قطبہ_ایک قول کی بنا پر وہ آٹھ تھے_ان کی تعداد اس کے علاوہ بھی بتائی گئی ہے (نیز ان کے ناموں میں بھی اختلاف ہے اور مذکورہ افراد کی جگہ دیگر افراد کا نام بیان ہوا ہے_بہرحال اس بات کی تحقیق کی یہاں گنجائشے نہیں)_

خلاصہ یہ کہ یہ حضرات اپنی قوم و قبیلے کے پاس مدینہ لوٹ گئے، انہیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے بارے میں بتایا اور اسلام کی دعوت دی_اس کے بعد بعثت کے بارہویں سال یعنی ہجرت سے صرف ایک سال پہلے عقبہ کی دوسری بیعت ہوئی(۲) _

اس گفتگو کو جاری رکھنے سے پہلے درج ذیل نکات کی طرف اشارہ کرتے چلیں:

۱_ اہل کتاب کی پیشگوئیاں

گزشتہ معروضات سے معلوم ہوا کہ اہل مدینہ یہودیوں کی زبانی یہ سنتے آئے تھے کہ عنقریب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ظہور ہونے والا ہے_یہ بات اس نئے دین کو قبول کرنے کیلئے ان میں نفسیاتی طور پر آمادگی پیدا ہونے کا باعث بنی_

۲_ اوس وخزرج کے اختلافات

اوس وخزرج کے درمیان خونریز جنگیں ہوئی تھیں آخری جنگ، جنگ بعاث تھی جس میں اوس کو فتح ہوئی تھی اس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بنی ہاشم شعب ابیطالب میں محصور تھے_ یوں اوس وخزرج کی دشمنی نہایت زوروں

___________________

۱_ بحار ج ۱۹ص ۹و اعلام الوری ص ۵۷علی بن ابراہیم سے _

۲_ بحار ج ۱۹ ص ۹ اور اعلام الوری ص ۵۷ از علی بن ابراہیم_

۲۴۱

پرتھی_ کہتے ہیں کہ وہ دن رات ہتھیاربند رہتے تھے_(۱) بالفاظ دیگر وہ اپنے محدود مالی وسائل کے ساتھ شدید ترین حالات میں ممکنہ حد تک نبرد آزماتھے_

فطری بات ہے کہ وہ اس بحرانی حالت سے نکلنے کیلئے فرصت کی تلاش میں تھے اور قطع شدہ روابط کی بحالی کے منتظر تھے جیساکہ اسعد بن زرارہ نے (چند سطر قبل) اس کی تصویر کشی کی_ یہ وہی اسعد ہے جو قبیلہ اوس کے خلاف عتبہ بن ربیعہ کو حلیف بنانے کیلئے آیا تھا_

بنابریں اہل مدینہ ظلم وانحراف کا مزہ چکھ چکے تھے اور کسی نجات دہندہ کے متلاشی تھے_ چنانچہ انہوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کوہی اپنا حقیقی نجات دہندہ پایا جوان کے پاس اسلام کی آسان شریعت لے کرآیا تھا_ چنانچہ انہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے کہا:'' ہم اپنی قوم کے پاس جاکر ان کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہونے والی گفتگو سنائیں گے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف ہمارے مائل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی قوم کو باہمی دشمنی کی حالت میں چھوڑ آئے ہیں_ ہم عربوں کے کسی زندہ گروہ کے درمیان اس قدر دشمنی نہیں دیکھتے جس قدر ان کے درمیان پاتے ہیں_ ہم ان کے پاس وہ باتیں لے کر لوٹیں گے جو ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنی ہیں_ شاید خدا ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے طفیل ان کے درمیان صلح اور باہمی الفت پیدا ہوجائے''_(۲)

۳_ اسلام کی سہل وآسان تعلیمات

اسلام کی تعلیمات صاف ستھری ،فطرت کے ساتھ سازگار،ہر قسم کی پیچیدگی و ابہام سے پاک اور سہل وآسان ہیں_ ان تعلیمات کی حقانیت کو جاننے کیلئے گہرے غوروفکر یا اس کے اہداف کو سمجھنے کیلئے جان جوکھوں میں ڈالنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کے نتائج سے باخبر ہونے کیلئے کہانت اورغیب گوئی کی حاجت ہے_

___________________

۱_ بحار ج ۱۹ ص ۸ ، ۹ ، ۱۰ نیز اعلام الوری ص ۵۵_

۲_ الثقات ابن حبان ج ۱ص ۹۰_۹۱_

۲۴۲

اس لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اہل مدینہ اسلام کے اہداف اور اصولوں کا تذکرہ سنتے ہی ایمان لے آئے ہیں_ جب ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مدینہ والوں کو اس قسم کے حالات کا سامنا نہ تھا جن کا اہل مکہ کو سامنا تھا تو مذکورہ حقیقت زیادہ واضح ہوتی ہے_ (کیونکہ مکہ والے اسلام کو اپنے ذاتی مفادات، خودساختہ وظالمانہ امتیازات نیز اپنی خواہشات اور انحرافی روش کیلئے خطرہ تصور کرتے تھے جیساکہ ہم نے کئی مرتبہ اس کی طرف اشارہ کیا ہے)_

مدینہ والوں نے یہودیوں کی پیش گوئیوں کے علاوہ شروع ہی سے یہ دیکھ لیا تھا کہ اسلامی تعلیمات ہی ان کی نجات و ہدایت اور موت کی بجائے زندگی عطا کرنے کی ضامن ہیں _نیز یہی تعلیمات ہی فطرت اور عقل سلیم کے موافق ہیں، خواہ عقائد اور قوانین کے لحاظ سے ہوں یا معاشرتی اور سیاسی لائحہ عمل کے حوالے سے _چنانچہ انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آپ کی دعوت کے بارے میں سوال کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میری دعوت یہ ہے کہ سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں_ میں تم کو دعوت دیتا ہوں کہ کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دو، والدین کے ساتھ احسان کرواور تنگدستی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو_ ہم ہی تم کو اور ان کو روزی دیتے ہیں، بدکاری کے قریب نہ جاؤ_ نہ علانیة اور نہ چھپ کر_ کسی کو ناحق قتل نہ کرو مگر یہ کہ تمہیں اس کا حق حاصل ہو_ یہ وہ نصیحتیں ہیں جواللہ نے تمہارے لئے کی ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو اور یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ جوان ہوجائیں مگر اس طریقہ سے جو سب سے بہتر ہو_ناپ تول میں انصاف سے کام لو، ہم کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے_ جب تم کوئی بات کہو تو انصاف کو مدنظر رکھو اگرچہ وہ تمہارے رشتہ دار کے خلاف ہی کیوں نہ ہواور عہد الہی کو پورا کرو_ یہ خدا کی نصیحتیں ہیں تمہارے لئے تاکہ انہیں یاد رکھو''_(۱)

انہی خصوصیات کی بناپر وہ اسلام کے گرویدہ اور اس دین کی راہ میں قریش اور عربوں کے خلاف برسر پیکار ہوگئے_

___________________

۱_ سورہ ّانعام، آیت ۱۵۱_۱۵۲_

۲۴۳

۴_ اہل مدینہ اور اہل مکہ

بت پرستی (مدینہ والوں )کادین ، ان کی اندرونی مشکلات اور اختلافات کو حل کرنے سے عاجز رہا یہاں تک کہ ان مشکلات کی مدت کو بھی کم نہ کرسکا_ نہ ہی بت پرستی کے سبب اہل مدینہ کو معاشرتی یا اقتصادی یا دیگر حوالوں سے امتیازی حیثیت مل سکی_ اسی لئے بت پرستی کی بنیادیں ضعیف اور کمزورپڑتی گئیں_ عقل سلیم اورفطرت کے ساتھ اس کی مخالفت نے اس ضعف اور کمزوری میں مزید اضافہ کیا_ پھر خدا کی طرف بلانے والے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ ظہور قریب ہونے کے بارے میں یہودیوں کی پیش گوئیوں نے مذکورہ کمزوریوں کو اور زیادہ کردیا_

یہ مشرکین مکہ کی حالت کے بالکل برعکس تھا وہ بت پرستی کے ذریعے سماجی اورسیاسی طور پر فائدہ حاصل کر رہے تھے_ انہوں نے اپنے آپ کو اس سرزمین کے دیگر قبائل اور جماعتوں کے اجتماع کا مرکز بنالیا تھا_ مکہ والوں نے اپنے لئے ناجائز مراعات اور امتیازات کی بنیادوں کو مستحکم کرلیا تھا_ وہ حق اور انسانیت کی خدمت کے نام پر ان ناجائز مراعات سے دست بردار ہونے کیلئے آمادہ نہ تھے بلکہ وہ تو اپنے ذاتی مفادات، انحرافی اعمال اور ناجائز مراعات کے اوپر انسانیت اور حق کو قربان کر رہے تھے_

علاوہ ازیں اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئےس کا ہم اسلام کی کامیابی اور ترویج کے اسباب کے بیان میں ذکر کرچکے ہیں _یہاں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظیم شخصیت، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بلند اخلاق، قریش اورعرب کے بہترین گھرانے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تعلق (نیز بعض لوگوں کے نظریئےے مطابق آپ کی والدہ، آمنہ بنت وہب کے واسطے سے بنی نجار اور خزرجیوں سے قریبی رشتہ داری)(۱) وغیرہ نے اہل مدینہ کے اسلام قبول کرنے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے اور اسلام کی راہ میں قربانی دینے میں اہم کردار ادا کیا_

___________________

۱_ البتہ یہ ایسا دعوی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ صرف رشتہ داری مذکورہ باتوں کا باعث نہیں بن سکتی_

۲۴۴

تیسری فصل

بیعت عقبہ

۲۴۵

عقبہ کی پہلی بیعت

کہتے ہیں کہ جب مسلمان ہونے والے یہ حضرات مدینہ پہنچے تو انہوں نے اہل مدینہ کے پاس رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا ذکر کیا اور ان کو اسلام کی دعوت دی_ یہ بات ان کے درمیان پھیلی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ انصار کے ہر گھر میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا ذکر ہونے لگا_

جب دوسرا سال یعنی بعثت کا بارہواں سال ہوا تو بارہ آدمی مکہ آئے جن میں سے دو کا تعلق قبیلہ اوس سے اور باقیوں کا خزرج سے تھا_ انہوں نے عقبہ کے مقام پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے ملاقات کی اور عورتوں والی بیعت کی( یعنی وہ بیعت جس میں جنگ کا تذکرہ نہ ہو )_بالفاظ دیگر انہوں نے اس بات کی بیعت کی کہ وہ کسی کو خدا کا شریک قرار نہیں دیں گے، چوری اور زنانہیں کریں گے، اپنی اولاد کو قتل کرنے سے احتراز کریں گے، اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان گھڑکے نہ لائیں گے، کسی نیک کام میں نافرمانی نہیں کریں گے_ اگر وہ اس عہد کو پورا کریں گے تو ان کی جزا جنت ہوگی اور اگر عہدشکنی کریں تو ان کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہوگا تاکہ اگر وہ چا ہے تو ان کو مبتلائے عذاب کرے اور اگر چا ہے تو بخش دے_

جب وہ مدینہ لوٹے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ مصعب بن عمیر کو بھیجا تاکہ وہ انہیں قرآن اوراسلام کی تعلیم دے اور ان میں دین سے آشنائی پیدا کرے_ لوگ مصعب کو مقری کے نام سے یاد کرتے تھے_حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابن ام مکتوم کو بھی مدینہ بھیجا(۱) جیساکہ نقل ہوا ہے_ حضرت مصعب نے مدینہ میں پہلی بار

___________________

۱_ سیرت نبویہ دحلان ج ۱ص ۱۵۱_۱۵۲ا ور السیرة الحلبیة ہ ج ۲ ص ۹ اس میں ہے کہ واقدی نے بیان کیا ہے کہ ابن ام مکتوم بدر کے کچھ عرصہ بعد مدینہ آیا، ابن قتیبہ کے کلام میں وہ بدر کے ۲ سال بعد مدینہ ہجرت کرکے آیا_ اس کے بعد حلبی نے ان اقوال کو جمع کرنے کی غرض سے یہ احتمال دیا ہے کہ وہ پہلے اہل مدینہ کو پڑھاتا تھا پھر مکہ واپس آگیا اور اس آمدورفت کے بعد وہ بدر کے بعد دوبارہ ہجرت کرگیا یہ ایک قابل قبول احتمال ہے_

۲۴۶

نماز جمعہ قائم کی_

حضرت مصعب اور ان کے دیگر مسلمان ساتھی تبلیغ اسلام میں کامیاب رہے اور حضرت سعد بن معاذ مسلمان ہوگئے جو اپنے قبیلے بنی عمیر بن عبدالاشہل کے قبول اسلام کا باعث تھے_ چنانچہ وہ مصعب کے ہاتھوں قبول اسلام کے بعد اپنی قوم کے پاس گئے اور ان سے کہا: ''اے بنی عبدالاشہل تم اپنے درمیان میری حیثیت کو کیسے پاتے ہو''؟

وہ بولے:'' تم ہمارے سردار ہو، تمہاری رائے ہم سے بہتر ہے، تم اورتمہارا حکم ہماری بہ نسبت زیادہ با برکت ہے''_

یہ سن کر سعدنے کہا: ''پھر جب تک تم لوگ اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان نہ لے آؤ ، میںتمہارے مردوں اور عورتوں کے ساتھ گفتگو حرام سمجھوں گا''_

راوی کہتا ہے قسم ہے اللہ کی، بنی عبد الاشہل کے کسی گھرمیں نہ کوئی مرد ایسا رہا نہ عورت جو شام ہونے سے پہلے ہی مسلمان نہ ہوگیا ہو(۱) _وہ سب ایک ہی دن میں مسلمان ہوئے( سوائے عمرو بن ثابت کے جنہوں نے جنگ احد تک اسلام قبول نہ کیا،اس کے بعد مسلمان ہوئے_ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہونے کے فوراً بعدکوئی سجدہ کرنے (نماز پڑھنے) سے پہلے شہید ہوگئے مصعب بن عمیر لوگوں کو بدستور اسلام کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ انصار کے مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کرلیا سوائے قبیلہ اوس کے بعض لوگوں کے، جواپنے ایک سردار کی متابعت میں مسلمان نہیں ہوئے تھے_ یہ سردار ہجرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدمسلمان ہوا_(۲)

یہ تھا مورخین کا بیان، لیکن ہم چند جگہوں پر اظہار نظر کرنا چاہتے ہیں_

___________________

۱_ ان تمام باتوں کے لئے ملاحظہ ہو: سیرہ ابن ہشام ج۲ ص ۷۹ ، ۸۰ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۴ ، تاریخ الامم و الملوک (طبری) ج۲ ص ۹۰ اور السیرة النبویہ ( ابن کثیر) ج۲ ص ۱۸۴_

۲_ السیرہ النبویہ ( ابن کثیر) ج۲ ص ۱۸۴ ، تاریخ الامم والملوک ج۲ ص۹۰ ، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۷۹ ، ۸۰ نیز سیرہ حلبیہ ج۲ حاشیہ ص ۱۴_

۲۴۷

سعد بن معاذ کی اپنی قوم کو دعوت

خدا کی طرف دعوت دینے کا حکم فقط انبیاء اور اوصیاء کے ساتھ مختص نہیں بلکہ یہ حکم ہر مکلف کو(اس کی طاقت اور استطاعت کے مطابق) شامل ہے_ یہ ان امور میں سے ہے جن کا عقل سلیم حکم دیتی ہے اور ہر مکلف پر ان کو لازم قرار دیتی ہے_ یہ کام شرعی اجازت کا بھی محتاج نہیں_ کیونکہ عقل سلیم اس بات کا باآسانی ادراک کرتی ہے کہ واجبات کا ترک کرنا، برائیوں کا مرتکب ہونا نیز افکار و اعتقادات اور کردار کا انحراف، موجودہ اور آئندہ نسلوں کیلئے عظیم نقصان کا باعث ہیں _اسی لئے صحیح طرزفکر اختیار کرنے، برائیوں سے اجتناب کرنے اور نیک کاموں کو انجام دینے کی دعوت دینے کا حکم دیتی ہے_

خدا کی طرف دعوت دینے کیلئے حضرت سعد کی بے چینی اس حقیقت کو واضح کرتی ہے_ چنانچہ بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ سعد اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اگر وہ اپنی گمراہی پر برقرار رہیں تو وہ ان کے ساتھ ہر قسم کا رابطہ منقطع کردیں گے _

اس موقف کی عظمت کا صحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس دور میں ایک عرب شخص کی تقدیر اور خوش بختی کس حد تک قبیلے کے ساتھ مربوط تھی نیز فرد اور قبیلے کے درمیان کس قدر ربط تھا_

قرآن بھی عقل و فطرت کے اسی حکم کی تائید کرتا ہے_ اسی لئے قرآن دینی فہم و بصیرت رکھنے والے ہر فرد پر لازم قرار دیتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف دعوت دے_ ارشاد الہی ہے( قل هذه سبیلی ادعوا الی الله علی بصیرة انا ومن اتبعنی ) (۱) یعنی کہہ دیجئے میرا راستہ تو یہ ہے_ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں_ میں خود بھی عقل وبصیرت کے ساتھ اپنا راستہ دیکھ رہاہوں اور میرے ساتھی بھی_

اس بات کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ جو لوگ حق کو پہچان لیتے ہیں اور ایمان کی مٹھاس کو چکھ لیتے ہیں وہ بے اختیار کوشش کرتے میں کہ دوسرے لوگ بھی حق کی طرف آئیں، اس پر ایمان لے آئیں، اس سے استفادہ کریں اور اس کی شیرینی کو چکھ کر لطف اندوز ہوں_

___________________

۱_ سورہ یوسف، آیت ۱۰۸_

۲۴۸

اسی لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام جنہیں اپنے شیعوں کی فکر تھی_ (وہی شیعہ جو امت اسلامی کے برگزیدہ بندے ہیں اوراموی اور اس کے بعد عباسی حکومتوں کے دور میں مختلف قسم کے مظالم و مصائب کا شکار رہے ) اس بات پر بے چینی کا اظہار فرما رہے ہیں کے شیعہ ان حالات کی نزاکت اور خطرات کو مدنظر نہیں رکھتے آپ مسئلہ امامت کے اظہار کیلئے ان کی بے چینی دیکھ رہے تھے_ یہ بے چینی ایمان کی مٹھاس اور تبلیغ کلمہ حق کی ضرورت سے ان کی آشنائی کا نتیجہ تھی_

امام سجادعليه‌السلام فرماتے ہیں، میں ترجیح دیتا ہوں کہ شیعوں کے درمیان موجود دو خصلتوں کو محو کرنے کے بدلے میرے بازو کا گوشت کاٹ لیاجائے _وہ دو خصلتیں یہ ہیں، جلدبازی اور راز داری کی کمی_(۱)

بیعت

اس بیعت کا متن واضح طور پر اسلامی معاشرے کی بنیادی باتوں اور اہم اصولوں کو شامل ہے _یہ بیعت نظریاتی وعملی دونوں پہلوؤں کی حامل ہے _رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے باہمی روابط سے متعلق معینہ ذمہ داریاں ان پر ڈالیں_ ان ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے ان سے عہدوپیمان لیا تاکہ وہ اس کی مخالفت کو زبان کے احترام وتقدس کے منافی سمجھیں_ یہ عہدوپیمان بیعت کے نام سے عمل میں آیا جو ان کی طرف سے مذکورہ اصولوں پر کاربند رہنے کا مقدس وعدہ اور عہدوپیمان تھا_

لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عہد کو توڑنے، بد عہدی کرنے اور دھوکہ دینے والے کیلئے کوئی سخت سزا معین نہیں کی کیونکہ حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ بات ان میں سے ہر ایک کے ضمیر پر چھوڑ دی_ ساتھ ساتھ ان کو نظریاتی اصولوں کی رسی سے بھی باندھ دیا_ نیز خطا کی صورت میں توبہ و اصلاح کی گنجائشے بھی رکھی تاکہ اگر کوئی شخص خلاف ورزی کرے تو اصلاح سے ناامید نہ ہوجائے بلکہ اس کی امیدباقی رہے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا انجام خدا کے سپرد کردیا تاکہ وہ جسے چا ہے سزا دے اور جسے چا ہے بخش دے_

___________________

۱_ سفینة البحار ج ۱ ص ۷۳۳ اور بحار ج ۷۵ ص ۶۹و ۷۲ خصال سے ج ۱ ص ۲۴ کافی ج ۲ ص ۲۲۱ _

۲۴۹

نماز جمعہ

اس سے قبل بیان ہوچکا ہے کہ مصعب بن عمیر نے ہجرت سے قبل مدینے میں مسلمانوں کیلئے نماز جمعہ قائم کی(۱) بسااوقات یہ اعتراض ہوتا ہے کہ سورہ جمعہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی_ پس مصعب نے جمعہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے نماز جمعہ کیونکر پڑھائی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ ''جمّع'' (جس کا استعمال مصعب والی روایت میں ہوا تھا) سے مراد شاید یہ ہو کہ: اس نے نماز جماعت پڑھائی_ لیکن اگر ہم تسلیم بھی کرلیں کہ اس لفظ (جمع) سے مراد یہ ہے کہ اس نے نماز جمعہ پڑھائی تو اس کے باوجود سورہ جمعہ میں خدا کا یہ ارشاد( یا ایها الذین آمنوا اذا نودی للصلاة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر الله ) (۲) یعنی اے مومنو جب جمعہ کے دن نماز کیلئے ندا دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، جمعہ قائم کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ قائم شدہ نماز جمعہ کی طرف تیزی سے بڑھنے کا حکم دیتا ہے_ بنابریں ممکن ہے نماز جمعہ، سورہ جمعہ کے نزول سے قبل مکہ میں حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبانی واجب ہوئی ہو لیکن وہاں اس کا قیام ممکن نہ ہوا ہو_ یا یہ کہ خفیہ طور پر نماز ہوتی رہی ہو لیکن اس کی خبر ہم تک نہ پہنچی ہو_

اس بات کی تائید اس ارشاد الہی سے ہوتی ہے( واذا را وا تجارة او لهوا انفضوا الیها و ترکوک قائما قل ما عند الله خیر من اللهو ومن التجارة ) (۳) یعنی جب انہوں نے تجارت یا کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا_ ان سے کہو کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے_ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ نماز جمعہ اس سے قبل واجب ہوچکی تھی اور یہ کہ ان لوگوں کا رویہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے ساتھ کیسا تھا_

___________________

۱_ ملاحظہ ہو سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۹ و تعلیقہ مغنی ( مطبوعہ حاشیہ سنن دارقطنی ) ج۲ ص ۵ از طبرانی، کتاب '' الکبیر '' و ''الاوسط'' میں_

۲_ سورہ جمعہ، آیت ۹_

۳_سورہ جمعہ، آیت ۱۱_

۲۵۰

اس دعوت کی تائید دارقطنی کی اس روایت سے ہوتی ہے جو ابن عباس سے منقول ہے_ وہ کہتے ہیں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت سے پہلے جمعہ کی اجازت دی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ میں جمعہ قائم نہ کرسکے پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مصعب بن عمیر کو یوں خط لکھا: اما بعد جس دن یہودی لوگ بلند آواز سے زبور پڑھتے ہیں اس دن تم اپنی عورتوں اور بچوں کو جمع کرلو، جمعہ کے دن زوال کے وقت جب دن ڈھلنا شروع ہوجائے تو دو رکعت نماز، تقرب الہی کی نیت سے پڑھو_ابن عباس نے کہا مصعب وہ پہلا شخص تھا جس نے نماز جمعہ قائم کی یہاں تک کہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ آئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی زوال کے بعد نماز جمعہ پڑھی اور اسے آشکار کیا_(۱)

کچھ روایات کی رو سے سب سے پہلے نماز جمعہ قائم کرنے والا اسعد بن زرارہ ہے_(۲)

عقبہ کی دوسری بیعت

مصعب بن عمیر مدینہ سے مکہ لوٹے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی خدمت میں اپنی جدوجہد کے نتائج پیش کئے چنانچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس امر سے زبردست مسرت ہوئی_(۳)

بعثت کے تیرہویں سال حج کے ایام میں اہل مدینہ کاایک بہت بڑا گروہ حج کیلئے آیا جن کی تعداد پانچ سو بھی بتائی جاتی ہے_(۴) ان میں مشرکین بھی تھے اور ایسے مسلمان بھی جو مشرک زائرین سے اپنا ایمان چھپا کر آئے تھے_

ان میں سے بعض مسلمانوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے ملاقات کی_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایام تشریق کی درمیانی رات عقبہ کے مقام پر (عام لوگوں کے سوجانے کے بعد) ان سے ملاقات کا وعدہ فرمایا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو حکم دیا

___________________

۱_ در المنثور ج ۶ ص ۲۱۸دار قطن سے و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲_

۲_ در المنثور ج ۶ ص ۲۱۸ ابوداود ، ابن ماجہ، ابن حبان، بیہقی، عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن منذر سے ، وفاء الوفا ج۱ ص ۲۳۶ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۵۹ و ص ۹ اور سنن دارقطنی ج ۲ ص ۵ ، ۶ اور سنن دار قطنی پر مغنی کا حاشیہ ص ۵ ( جو سنن کے ساتھ ہی مطبوع ہے )_

۳_ بحار ج ۱۹ص ۱۲میں ہے کہ معصب نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس رپورٹ لکھ بھیجی اعلام الوری ص ۵۹ میں بھی اسی طرح ہے_

۴_ طبقات ابن سعد ج ۱ حصہ اوّل۱ ص ۱۴۹ _

۲۵۱

کہ وہ سونے والوں کو نہ جگائیں اور غیرحاضر افراد کا انتظار نہ کریں_یہاں سے ہمیں بیعت کیلئے اس خاص وقت کے انتخاب کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے کیونکہ اگر ان کا راز فاش بھی ہوجاتا تو چونکہ وہ حج کرچکے تھے اور شہر سے باہر نکل چکے تھے لہذا (قریش کیلئے) ان پر مؤثر طریقے سے دباؤ ڈالنے کی گنجائشے نہیں تھی_ نیز حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس حکم کہ نہ تو وہ سوئے ہوئے لوگوں کو جگائیں اور نہ غیر حاضر افراد کا انتظار کریں کی علت بھی معلوم ہوجاتی ہے_ اس کی وجہ یہ تھی کہ دوسرے لوگ ان کی غیرمعمولی حرکات کا مشاہدہ نہ کریں اور ان کا راز فاش نہ ہوجائے_

چنانچہ اس رات وہ لوگ اپنے کاروانوں کے ہمراہ سوگئے جب رات کا تہائی حصہ گزرچکا تو یکے بعد دیگرے چھپ چھپاکر اپنی وعدہ گاہ کی طرف سرکنے لگے_ یوں کسی کو بھی ان کے چلے جانے کا احساس نہ ہو سکا_ یہاں تک کہ وہ درے میں گھاٹی کے پاس جمع ہوگئے_ ان میں ستریاتہتر مرد تھے اور دو عورتیں تھیں_

اس مقام پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے ان کی ملاقات اس گھر میں ہوئی جس میں آپ تشریف فرماتھے_ یعنی حضرت عبدالمطلب کے گھرمیں_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ حضرت حمزہعليه‌السلام ، حضرت علیعليه‌السلام اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا عباس تھے_(۱)

مدینہ سے آئے ہوئے ان لوگوں نے اس بات پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھرانے کی حفاظت اسی طرح کریں گے جس طرح وہ اپنے اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں_ نیز یہ کہ وہ ان کو پناہ دیں گے اوران کی مدد کریں گے _سستی کی حالت ہویاچستی کی، ہر صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات پر لبیک کہیں گے اور اطاعت کریں گے_ خوشحالی و تنگدستی دونوں صورتوں میں مال خرچ کریں گے_ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں گے ، خدا کیلئے بات کریں گے اور اس سلسلے میں کسی کی ملامت سے نہ گھبرائیںگے_ (ان باتوں کے نتیجے میں) عجم ان کا فرمانبردار ہوگا اور وہ حکمرانی کیا کریں گے _

___________________

۱_ اعلام الوری ص ۵۹، تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۷۳، بحار ج ۱۹ ص ۱۲_۱۳ و ۴۷، قصص الانبیاء سے، سیرت حلبیہ ج ۲ ص ۱۶سیرت نبویہ دحلان ج ۱ ص ۱۵۲_

۲۵۲

مالک نے عبادہ بن صامت سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : '' ہم نے ان باتوں پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی بیعت کی کہ ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات مانیں گے اور اطاعت کریں گے خواہ حالات سخت ہوں یا سازگار، خواہ طبیعت میں سستی ہو یا چستی نیز یہ کہ امر (حکومت) میں اس کے اہل سے جھگڑا نہ کریں گے_ ہر جگہ حق کی بات پر (یا حق کے ساتھ) قیام کریں گے اور خدا کے معاملے میں کسی کی ملامت سے نہ گھبرائیں گے''_(۱) سیوطی کہتا ہیں کہ لفظ امر سے اس کی مراد حکومت و سلطنت ہے_(۲)

عباس ابن نضلہ نے خصوصاً رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے قول ''عجم تمہارے زیرنگیں ہوں گے اور تم بادشاہی کیا کروگے'' سے مسئلے کی نزاکت کو سمجھا_ اور یہ جان لیا کہ وہ مکہ یا جزیرة العرب کے مشرکین سے نہیں بلکہ پوری دنیا کے ساتھ ٹکرلینے کا اقدام کر رہے ہیں_ چنانچہ اس نے چاہا کہ وہ ان لوگوں سے مزید اطمینان حاصل کرے اور بیعت کرنے والوں کی آنکھیں کھول دے تاکہ وہ سوچ سمجھ کر اقدام کریں اور کسی دن یہ نہ کہیں کہ اگر ہمیں علم ہوتا کہ بات یہاں تک پہنچے گی تو ہم بیعت نہ کرتے_ اس لئے اس نے کہا: '' اے اوس اور خزرج والو کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے اس اقدام کا مطلب کیا ہے؟ یہ تو عرب و عجم اور دنیا کے تمام حکمرانوں کے ساتھ اعلان جنگ ہے_ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ جب تم پر مصیبت ٹوٹ پڑے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مد د سے دست بردار ہوجاؤگے تو پھر انہیں دھوکہ نہ دو_ کیونکہ اپنی قوم کی مخالفت کے باوجود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو عزت و تحفظ حاصل ہے''_

یہ سن کر جابر کے باپ عبداللہ بن حزام، اسعد بن زرارہ اور ابوالھیثم بن تیھان نے کہا :''تم کہاں سے بات کرنے والے آگئے؟'' پھر کہا:'' اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارا خون اور ہماری جانیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے حاضر ہیں_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اور اپنے رب کے حق میں جو بھی شرط رکھنا چاہیں رکھیں''(۳) _

___________________

۱_ الموطاء تنویر الحوالک کے طبع کے ساتھ ج ۲ ص ۴ ، سیر اعلام النبلاء ج۲ ص ۷ ، مسند احمد ج۵ ص ۳۱۴ و ۳۱۶ ، سنن نسائی ج۷ ص ۱۳۸ ، ۱۳۹ ، صحیح بخاری ج۴ ص ۱۵۶، البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۱۶۴ ، سیرہ نبویہ ابن ہشام ج۲ ص ۹۷ ، دلائل النبوة (بیہقی) ج۲ ص ۴۵۲ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۲۰۴ او رصحیح مسلم ج ۶ ص ۱۶ و ۱۷ _

۲_ تنویر الحوالک ج ۲ ص ۴ _

۳_ ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج۱۹ ص ۱۲ و ۱۳ از اعلام الوری ، دلائل النبوہ ( بیہقی)ج۲ ص ۴۵۰ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۱۸ ، سیرہ نبویہ ابن ہشام ج۲ ص ۸۸ ، البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۱۶۲ ، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج۲ ص ۲۰۱ نیز سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۷_

۲۵۳

یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اسعد بن زرارہ نے بیعت عقبہ کے وقت کہا:'' اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ہر دعوت لوگوں کیلئے سخت اور دشوار تھی_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اپنے دین کو چھوڑ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین اپنائیں یہ ایک سخت مرحلہ تھا_ لیکن ہم نے اس مسئلے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات مان لی_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہم کو دعوت دی کہ ہم اپنی باہمی حمایتوں اور قرابتوں کو (خواہ وہ قریبی ہوں یا دور کی) قطع کردیں یہ بھی ایک سخت مرحلہ تھا_ لیکن ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات پر لبیک کہا_ نیز ان حالات میں جبکہ ہم عزت و حفاظت کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں دعوت دی کہ ہم ایک ایسے اجنبی کی قیادت کو تسلیم کریں جسے اس کی قوم نے تنہا چھوڑ دیا تھا اور اس کے چچاؤں نے اسے دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا_ یہ بھی ایک کٹھن مرحلہ تھا لیکن ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات تسلیم کرلی ...''_(۱)

علاوہ ازیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عباس بن عبد المطلب بیعت عقبہ کے وقت موجود تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے حق میں مزید اطمینان اور ضمانت حاصل کرلیں چنانچہ عباس نے کہا:'' اے خزرج والو ہمارے نزدیک محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جو مقام ہے وہ تمہیں معلوم ہے_ ہم نے اسے اپنی قوم سے جو ہمارے ہم مذہب ہیں محفوظ رکھا ہے_ بنابریں وہ اپنی قوم کے درمیان معزز ہے اور اپنے شہر میں خوب محفوظ ہے لیکن وہ صرف تمہارے پاس پناہ لینا اور صرف تم سے ملحق ہونا چاہتا ہے_ اگر تمہارا ارادہ یہ ہے، کہ جس مقصد کیلئے ان کو دعوت دے رہے ہو اس میں اپنے قول پر عمل کروگے اور مخالفین کے مقابلے میں ان کی حفاظت کروگے تو پھر اس ذمہ داری کو اٹھاؤ_ لیکن اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ انہیں وہاں لے جانے کے بعد دشمن کے حوالے کر کے الگ ہوجاؤگے تو ابھی سے ان کو چھوڑ دینا بہتر ہے کیونکہ وہ یہاں اپنی قوم اور شہر میں بہرحال محفوظ و معزز ہیں''_

ایک اور روایت کے مطابق عباس نے ان سے کہا:'' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمہارے سوا دوسروں کی بات کو ٹھکرایا ہے پس اگر تم صبر و استقلال، قوت، جنگی مہارت اور پورے عرب جو ایک ہی کمان سے تمہارے خلاف تیر

___________________

۱_ حیاة الصحابةج ۱ ص ۸۸ دلائل النبوة ابونعیم ص ۱۰۵سے_

۲۵۴

چلائیں گے یعنی متحد ہوکر تم سے لٹریں گے، ان کے ساتھ تنہا ٹکر لینے کی قدرت رکھتے ہو تو خوب سوچ لو اور آپس میں مشورہ کرو''_

انہوں نے اس کا جو جواب دیا اس کے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں_ پھر نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا کہ وہ بارہ نقیب چن کر دیں جو کفیل، ضامن اور اپنی قوم کی ضمانت دیں چنانچہ انہوں نے نو نقیب قبیلہ خزرج سے اور تین قبیلہ اوس سے چنے_ یوں یہ حضرات اپنی قوم کے ضامن اور نقیب قرار پائے_

ادھر قریش کو اس اجتماع کا پتہ چلا چنانچہ وہ مشتعل ہوئے اور مسلح ہوکر پہنچ گئے_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان کی آوازسن کر انصار کو وہاں سے چلے جانے کیلئے کہاتو انہوں نے کہا :''اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیں حکم دیں کہ ہم اپنی تلواروں کے ساتھ ان کی خبر لیں تو ایسا ہی کریں گے''_ فرمایا: '' مجھے اس بات کا حکم نہیں ہوا اور خدا نے مجھے ان کے ساتھ جنگ کی اجازت نہیں دی''_ وہ بولے:'' اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا پھر کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے ساتھ چلیں گے؟ ''فرمایا:'' امر الہی کا انتظار کرو''_

قریش والے سب کے سب مسلح ہوکر آگئے ادھر حضرت حمزہ تلوار لیکر نکلے انکے ساتھ حضرت علیعليه‌السلام تھے_ جب مشرکین کی نظر حضرت حمزہعليه‌السلام پر پڑی تو بولے : '' یہاںکس لئے جمع ہوئے ہو''؟

حضرت حمزہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں اور اسلام کی حفاظت کے پیش نظراز راہ تقیہ فرمایا:'' ہم کہاں جمع ہوئے، یہاں توکوئی نہیں_ خدا کی قسم جو کوئی اس گھاٹی سے گزرے گا تلوار سے اس کی خبرلوں گا''_

یہ دیکھ کر وہ لوٹ گئے اور صبح کے وقت عبداللہ بن ابی کے پاس جاکر کہا:'' ہمیں خبر ملی ہے کہ تمہاری قوم نے ہمارے ساتھ جنگ کرنے کیلئے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی ہے_ خدا کی قسم کسی عرب قبیلے کے ساتھ جنگ ہمارے لئے اس قدر ناپسند نہیں جس قدر تمہارے ساتھہے''_

عبداللہ نے قسم کھائی کہ انہوں نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا نہ وہ اس بارے میں کچھ جانتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے اسے اپنے اقدام سے مطلع کیا ہے_ قریش نے اس کی تصدیق کی_ یوں انصار وہاں سے چلے گئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مکہ لوٹ آئے_

۲۵۵

لیکن بعد میں قریش والوں کو اس واقعے کی صحت کا یقین حاصل ہوگیا_ چنانچہ وہ انصار کی تلاش میں نکلے نتیجتاً وہ سعد بن عبادہ اور منذر بن عمیر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، منذرنے تو ان کو بے بس کر دیا لیکن سعد کو انہوں نے پکڑ کر سزا دی اس بات کی خبر جبیر بن مطعم اور حارث بن حرب بن امیہ کوملی چنانچہ ان دونوں نے آکر اسے چھڑایا کیونکہ وہ ان دونوں کے مال تجارت کی حفاظت کرتا تھا اور اسے لوگوں کی دست درازی سے محفوظ رکھتا تھا_(۱)

اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنے سے پہلے ہم بعض نکات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں_ سب سے پہلے جس نکتے کی وضاحت کریں گے وہ یہ ہے:

بیعت عقبہ میں عباس کا کردار

بعض روایات کی رو سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے چچا عباس بیعت عقبہ میں حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھے_ اور ان کے علاوہ کوئی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نہ تھا_ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ عباس اگرچہ اس وقت مشرک تھے لیکن وہ اپنے بھتیجے کو درپیش مسئلے میں حاضررہ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کام کوپکا کرنا چاہتے تھے ہم اس سلسلے میں ابن عباس سے منسوب قول نقل کرچکے ہیں_

لیکن ہماری نظر میں یہ مسئلہ مشکوک ہے کیونکہ:

(الف) عباس سے منسوب کلام میں واضح طور پر نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد سے ہاتھ کھینچنے کی ترغیب دی گئی ہے_ عباس کے مذکورہ کلام سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی تقویت نہیں ہوتی جیساکہ ان لوگوں کا دعوی ہے خاص کر عباس کا یہ کہنا اگر پورے عرب (جو ایک ہی کمان سے تمہاری طرف تیر اندازی کریں گے) سے اکیلے ٹکر لینے کی طاقت رکھتے ہو ...اس بات کو واضح کرتا ہے_

___________________

۱_ ان تمام واقعات کے سلسلے میں جس تاریخی یا حدیثی کتاب کا چاہیں مطالعہ فرماسکتے ہیں ، بطور مثال : بحار الانوار ج ۱۹ ص ۱۲ و ۱۳، اعلام الوری ص ۵۷ ، تفسیر قمی ج۱ ص ۲۷۲، ۲۷۳ ، تاریخ الخمیس ج۱ ۳۱۸ ، ۳۱۹ دلائل النبوة ( بیہقی) مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ج۲ ص ۴۵۰ ، البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۱۵۸ ، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج۲ ص ۱۹۳ تا ۲۱۰ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۷ اور اس سے ماقبل و ما بعد نیز سیرہ نبویہ ابن ہشام ج۲ ص ۸۸ اور ماقبل و ما بعد و دیگر کتب_

۲۵۶

(ب) عباس کے کلام میں خلاف حقیقت نکات موجودہیں خصوصاً ان کا یہ کہنا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمہارے سوا دوسروں کی بات کو ٹھکرایا ہے کیونکہ اس کلام کا مطلب یہ ہے کہ انصار کے علاوہ دیگر سب لوگوں نے گویا بنی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی موافقت کی تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت پر آمادہ ہوئے تھے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی حمایت کو ٹھکرا دیا تھا حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے_ البتہ صرف بنی شیبان بن ثعلبہ عربوں کے مقابلے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت پر راضی ہوئے تھے لیکن ایرانیوں کے مقابلے میں نہیں_ ظاہر ہے کہ ''الناس کلہم'' سے مراد فقط بنی شیبان نہیں ہوسکتے_ رہا یہ احتمال کہ شاید اس سے مراد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ دارہوں تو جیساکہ ملاحظہ ہوا کہ یہ بات مذکورہ تعبیر ''الناس کلہم'' (یعنی سارے لوگ) کے ساتھ سازگار نہیں_ اگر کوئی یہ احتمال دے کہ شاید عباس کی عبارت ''ابی محمد ًالناس'' (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سارے لوگوں کی بات ٹھکرادی )کی بجائے ''ابی محمداً الناس'' (لوگوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات نہ مانی) تھی_ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس احتمال کی صحت پر کوئی دلیل نہیں کیونکہ ہمارے سامنے موجود الفاظ اس کے برعکس ہیں_

(ج) اس وقت تک مدینے کی طرف ہجرت کی بات ہی نہیں چلی تھی اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو مسلمانوں کے دارہجرت کی نشاندہی نہ کی گئی تھی اور نہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ارادے کے بارے میں انہیں کچھ بتایا تھا_ پھر عباس کو کیسے پتہ چلا کہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے ہیں؟ کیا اس سلسلے میں عباس پر کوئی وحی اتری تھی؟ اس کی وجہ ہماری سمجھ میں تو نہیں آتی_ ہاں ہم خود عباس کی زبانی ان کا یہ قول پڑھتے ہیں'' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تو بس تمہارے پاس پناہ لینے اور تم سے ملحق ہونے کا ارادہ کیا ہے''_ پھرکہتے ہیں ''اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اپنے پاس لے جانے کے بعد اس کو دشمن کے حوالے کر کے خود الگ ہوجاؤ گے تو پھر ابھی سے اس کا ساتھ نہ دو ...''

(د) عباس نے جو کچھ کہا وہ تو فقط ایک مسلمان اور پکا مومن ہی کہہ سکتا ہے اور عباس تو ابھی تک مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ جنگ بدر تک کفر پر باقی رہے اور بدر میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھ جنگ کرنے آئے البتہ مجبوری کے تحت_ پھر وہ مسلمان ہوئے جس کا آئندہ ذکر ہوگا بلکہ آگے چل کر عرض کریں گے کہ وہ فتح مکہ تک مسلمان نہیں ہوئے تھے _

۲۵۷

یہاں ہم اس احتمال کو ترجیح دیتے یں کہ جس شخص نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے حق میں بیعت کی گرہ مضبوط کرنے کیلئے بات کی تھی وہ عباس بن نضلہ انصاری تھا(۱) نہ کہ عباس بن عبدالمطلب_ اس لئے کہ ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ ان دونوں سے منسوب اور منقول جملوں میںبہت حد تک قدر شباہت موجود ہے_

پس شاید راوی کو عباس بن عبدالمطلب اور عباس بن نضلہ کے درمیان ناموں کی شباہت کے باعث اشتباہ ہوا ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی عباس نے مخصوص مفادات کے پیش نظراپنے جدامجد کیلئے ایک بڑی فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کی ہو وغیرہ وغیرہ_

حضرت ابوبکر عقبہ میں

بعض خلاف مشہور روایات کے مطابق حضرت ابوبکر عقبہ میں موجود تھے اور عباس نے ان کو درے کے دھانے پر رکھا تھا_

ہم اس قول کے بطلان کو ثابت کرنے کیلئے زیادہ گفتگو نہیں کریں گے کیونکہ دیگر روایات صاف صاف کہتی ہیں کہ وہاں سوائے ان افراد کے جن کا ہم نے ذکر کیا یعنی حضرت حمزہ، حضرت علیعليه‌السلام اور عباس، کے علاوہ اور کوئی موجود نہ تھا حالانکہ خود مؤخر الذکر کی موجودگی بھی مشکوک ہے اور یہ کہ جب قریش کو اس اجتماع کاعلم ہوا تو طیش میں آئے پھر جب وہ مسلح ہوکر پہنچے تو حضرت حمزہ اور حضرت علیعليه‌السلام درے کے دھانے تک آئے تھے_ گذشتہ بیانات کی روشنی میں یہ واقعہ اس اجتماع کے آخری لمحات میں پیش آیا_

حضرت حمزہ اور حضرت علیعليه‌السلام عقبہ میں

بیعت عقبہ کے موقع پر حضرت حمزہ اور حضرت علیعليه‌السلام کی موجودگی کے بارے میں جو کچھ نقل ہوا ہے اس کی تائید عبدالمطلب کے گھر میں ہی اس اجتماع کے انعقاد سے ہوتی ہے_ خصوصاً وہاں تو ان دونوں کی ضرورت بھی تھی تاکہ وہ قریش اور اس کی خود پسندی اور جبر وتعدی کے مقابلے میں اس حیرت انگیز اور مردانہ کارکردگی

___________________

۱_ الاصابة ج ۲ ص ۲۷۱، بحار ج ۱۹، السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۱۷، السیرة النبویة دحلان ج ۱ ص ۱۵۳ _

۲۵۸

کا مظاہرہ کرتے_ قریش کو درے میں داخل ہونے سے روکتے اور اس اجتماع کے شرکاء کو وہاں سے کھسک جانے کا موقع دیتے_(۱) چنانچہ جب قریش اس کے بعد درے میں داخل ہوئے تو وہاں کسی کو نہ پایا_ نتیجتاً وہ عبداللہ بن ابی کے پاس شکایت لے گئے لیکن اس نے انکار کیا_ پس اگر ان دونوں کی وہ کارکردگی نہ ہوتی تو حالات کوئی اور شکل اختیار کرلیتے اور مسلمان ایک نہایت خطرناک مصیبت میں پھنس جاتے_

عجیب بات یہ ہے کہ ہم بعض ایسی روایات بھی دیکھتے ہیں جن میں حضرت علیعليه‌السلام نیز اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیر یعنی حمزہعليه‌السلام کی موجودگی کا تذکرہ نہیں ہے جبکہ یہی روایات قریش کے اکٹھے ہونے اور ان کے مشتعل ہونے کا تذکرہ کرتی ہیں لیکن درے کی طرف قریش کی یورش اور حضرت حمزہعليه‌السلام و حضرت علیعليه‌السلام کی طرف سے مدافعت کے بارے میں خاموش ہیں_ یہ روایات قریش کی طرف سے عبداللہ بن ابی سے ملاقات، مسلمانوں کے تعاقب اور سعد بن عبادہ کی گرفتاری نیز مذکورہ واقعے کے آخر تک نقل کرنے پرہی اکتفا کرتی ہیں_

یہ لوگ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ وہ قریش جنہیں شرکاء اجتماع کے جانے کے بعدجب اس اجتماع کا علم ہوا تھا تو انہوں نے مشتعل ہوکر عبداللہ بن ابی سے ملاقات کی اور اس نے انکار کیا پھر جب حاجیوں کے جانے کے بعد قریش کو اس واقعے کا یقین ہوگیا تو انہوں نے مسلمانوں کا پیچھا کر کے ان کو پالیا اورسعد بن عبادہ کو اذیتیں دیں تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس جائے اجتماع پر دھاوا بولنے اور انصار کو نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑنے سے چشم پوشی کرتے ،کیونکہ اس اقدام سے قریش کو اپنی عذر خواہی کیلئے ایک اچھا بہانہ مل سکتا تھا_ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قریش یہاں توخاموشی اختیار کرلیں لیکن وہاں غیظ و غضب اورسخت گیری کا مظاہرہ کریں_

بہرحال ہم اس ٹولے کے ہاتھوں معمولی دنیوی مفادات کی خاطر حق اور دین کے خلاف اس قسم کی بہت

___________________

۱_ بعض حضرات یہ احتمال دیتے ہیں کہ سارے قریش نہیں بلکہ ان کے معدودے سر پھروں نے گھاٹی میں گھسنے کی کوشش کی تھی اور حضرت حمزہعليه‌السلام و حضرت علیعليه‌السلام نے ان کا راستہ روکا تھا لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ کیا فرق پڑتا ہے کہ سارے قریشی جمع ہوئے ہوں لیکن حضرت حمزہعليه‌السلام اور حضرت علیعليه‌السلام نے مسلمانوں کے چلے جانے تک ان کا راستہ روکے رکھا ہو_

۲۵۹

ساری خیانتوں کا مشاہدہ کرنے کے عادی ہوگئے ہیں_ یہ ضرب المثل کس قدر سچی ہے کہ ''لامر ما جدع قصیر انفہ'' (قصیر نامی شخص نے کسی کام کے واسطے اپنی ہی ناک کاٹ دی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بعض لوگ حصول غرض کی خاطر ہرقسم کا وسیلہ استعمال کرتے ہیں)_

ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ فقط دو افراد کا قریش کے مقابلے میں کھڑے ہوکر ان کو پیچھے ہٹا دینا کیسے ممکن ہے؟ جبکہ ان کا غیظ و غصب نقطہ عروج پر تھا_

اس کا جواب یہ ہے کہ قریش کی سازش کا جواب دینے کیلئے ایک شخص بھی کافی تھا_ وہ اس طرح کہ ایک یا دو آدمی درے کے دھانے پر کھڑے ہوجاتے (جہاں سے فقط چند افراد یا چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کا گزرنا ہی ممکن تھا) یوں پہلی ٹولی کو پسپا کر کے باقیوں کو بھی پیچھے ہٹایا جاسکتا تھا چنانچہ عمرو بن عبدود (جو حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قتل ہوا) کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ہزار شہسواروں کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی تھا_ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے درے کے دھانے پر کھڑے ہوکر ہزار سواروں کو اس میں داخل ہونے سے روکا تھا کیونکہ جگہ کی تنگی کے باعث ہزار آدمی ایک ساتھ داخل نہیں ہوسکتے تھے_

ملاقات کو خفیہ رکھنے کی وجہ

اس ملاقات کو خفیہ رکھنے پر خاص توجہ دی گئی یہاں تک کہ جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ کاروانوں میں سوئے ہوئے تھے ان کو بھی کوئی بھنک نہ پڑسکی اور انہیں اپنے ساتھیوں کی عدم موجودگی کا احساس بھی نہ ہوا_ یہی حال اس اجتماع کے وقت، مقام اور طریقہ کار کا بھی تھا_ حالانکہ یہ ایک نسبتاً بڑا اجتماع تھا اور یہ باتیں ان مسلمانوں کی آگاہی، بیداری اور حسن تدبیر کی عمدہ مثال اور مضبوط دلیل ہیں_

علاوہ برایں یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ جب مسلمان ظالم اور جابر طاقتوں کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو اس وقت مخفیانہ طرز عمل اپنانا شکست اور پسپائی نہیں_یہاں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تقیہ (جس کے معتقد شیعہ اور اہلبیت معصومینصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور جس کا قرآن نے حکم دیا ہے نیز جو

۲۶۰

فطرت اور عقل سلیم کا بھی تقاضا ہے) ہی حالات کے مقابلے میں آگاہانہ اور لچک دار روش اپنا نے کا صحیح طریقہ کارہے_ یہ اس صورت میں ہے کہ جب اہل باطل مادی طور پرطاقتورہوں اور اہل حق اپنا دفاع کرنے پر قادر نہ ہوں_

بیعت کی شرائط

یہاں ہم اس بات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے انہیں اسلام کی تبلیغ اور حفاظت کی راہ میں آئندہ پیش آنے والی مشکلات اور سختیوں کے بارے میں خبردار کیا تاکہ وہ لوگ شروع سے ہی آگاہ رہیں اور بغیر کسی ابہام یا شک کے آگاہی و بیداری کے ساتھ اقدام کریں تاکہ کل ان کیلئے اس قسم کے بہانے کی کوئی گنجائشے نہ رہے کہ وہ نہیں جانتے تھے کے حالات اس قدر سنگین صورت اختیار کرجائیں گے_

حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے وہم و گمان سے مکمل طور پر اس بات کونکال باہر کرنا چاہتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا نخواستہ ان کے ساتھ کوئی دھوکہ کیا ہو_ نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان میں سے ہر ایک کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سبز باغ دکھا کر کسی کو بھی پھنسانے کا ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی خوبصورت خوابوں اور امیدوں کی خیالی دنیا میں بسانا چاہتے ہیں کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک وسیلہ ہدف کا ہی ایک حصہ تھااگرچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی مدد کے سخت محتاج تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تو اپنی دعوت کے پورے عرصے میں ان لوگوں کے سوا کسی قوم کو اپنا حامی نہیں پایا تھا_

نقیبوں کی کیا ضرورت تھی؟

وعدے اور عہد کی پابندی عربوں کی طبیعت میں شامل تھی ہر قبیلہ اپنے کسی فرد یا حلیف کے عہد وپیمان کو پورا کرنے کا اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا تھا_

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار سے ایمان لانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کرنے پر بیعت لی (جیساکہ بیان ہوچکا ہے) تو آپ نے ایک محدود پیمانے پر ان کو (اس بیعت کا) پابند بنانے کا ارادہ فرمایا

۲۶۱

تاکہ مستقبل میں کچھ ایسے ذمہ دار افراد موجود ہوں جن سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس عہد و پیمان کو پورا کرنے کا مطالبہ کرسکیں_ ان وعدوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری انہی نقیبوں پر آتی تھی اور انہی سے مذکورہ مطالبہ کیا جاسکتا تھا_ کیونکہ یہی لوگ اپنی اور اپنی قوم کی مرضی سے ان کے ضامن بنے تھے_

لیکن اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ان امور کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے تو ممکن تھا کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں اور وعدوں سے جان چھڑاتا اور نتائج کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر اپنے آپ کو ان سے بری سمجھتا اور یہ خیال کرتا کہ انفرادی حیثیت سے اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی_

لیکن جب بعض افراد ضامن بن گئے (جن کا تعلق مختلف قبائل سے تھا) تو ذمہ داریوں کا دائرہ بھی معین اور مشخص ہوگیا اور یہ بات ممکن ہوگئی کہ ضرورت کے موقع پر بالخصوص جنگ یا دفاع کی صورت میں ان سے عہد کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا جاسکے_

یوں اس مسئلے کو لوگوں کی انفرادی خواہشات بلکہ اس سے بھی اہم مسئلہ یعنی اجتماعی مسائل میں افراتفری اور بے نظمی سے نجات مل گئی_ یوں انفرادی و اجتماعی سطح پر معاشرے کو بنانے اور منظم کرنے کا مرحلہ شروع ہوا_

مشرکین کا ردعمل

ہم یہاں مشاہدہ کرتے ہیں کہ مشرکین نے عقبہ کی دوسری بیعت کے مسئلے کو زبردست اہمیت دی_ یہاں تک کہ انہوں نے مدینہ والوں کو داخلی کمزوری اور اوس اور خزرج کے درمیان خانہ جنگیوں کے باعث پیدا شدہ خلفشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں جنگ کی دھمکی دی_

جی ہاں قریش نے ان کو جنگ کی دھمکی دی حالانکہ اس قسم کی جنگ ان کیلئے زبردست اقتصادی نقصانات کا باعث بنتی کیونکہ شام (جو قریش کیلئے بہترین تجارتی منڈی تھا) کی طرف ان کے تجارتی قافلے مدینہ کے راستے سے گزرتے تھے_ اس کا مطلب یہ تھا کہ مشرکین کو اس بیعت سے زبردست خطرہ لاحق ہوگیا تھا جس

۲۶۲

کے باعث وہ دعوت اسلامی کو قبول کرنے اور اس کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ اپنے دوستانہ روابط کو بھی قربان کرنے پر مجبور ہوچکے تھے اگرچہ وہ اہل مدینہ ہی کیوں نہ ہوں جن کے ساتھ جنگ سے وہ زبردست کتراتے تھے_ چنانچہ عبداللہ بن ابی سے اس سلسلے میں ان کی گفتگو کا ذکر پہلے ہوچکا ہے_ یہاں سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ مکہ ہیں رہنے والے مسلمان ظلم و ستم کی چکی میں کس طرح پس رہے تھے_

خلافت کے اہل افراد کی مخالفت

جیساکہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بیعت کے متن میں اہل مدینہ کیلئے جو شرائط رکھی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ مدینہ والے مسئلہ خلافت میں اس کے اہل سے نزاع نہیں کریں گے_

بیعت کے متن میں اس شرط کا رکھنا فتح و شکست کے نقطہ نظر سے اسلام کیلئے تقدیر ساز تھا اور اس شرط کو نبھانے سے انکار کی صورت میں پوری بیعت سے نکل جانے کا خطرہ تھا چنانچہ بنی عامر کے مسئلے میں یہی ہوا تھا (جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے)_ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی نظر میں(جن کا نظریہ اسلام کے حقیقی نظریات کاترجمان تھا)، نہایت اہمیت کا حامل تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بارے میں کسی قسم کی رو رعایت کیلئے ہرگز آمادہ نہ تھے اگرچہ عظیم ترین خطرات سے دوچار ہی کیوں نہ ہوں_ بالفاظ دیگر مسئلہ خلافت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اختیار میں نہ تھا بلکہ خدا کے اختیار میں تھا تاکہ جسے مناسب سمجھتا خلافت سے سرفراز کرتا_ یہ وہ امر تھا جس کو پہنچائے بغیر تبلیغ رسالت بے معنی ہوکررہ جاتی_

اس کے علاوہ ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ابتدا سے ہی ایک خاص اور معینہ ہدف کیلئے راستہ ہموار کررہے تھے وگرنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک طرف سے تو لوگوں کو حکومت و خلافت کے مستحق معینہ افراد سے نزاع نہ کرنے کا حکم دیں لیکن دوسری طرف سے اس مخصوص خلیفہ کی نشاندہی بھول جائیں_

یہاں اس واقعے کی کڑی کوپہلے ذکر شدہ دعوت ذوالعشیرہ، (جب حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو عذاب الہی سے ڈراتے وقت مذکورہ شخص کی نشاندہی کی تھی) کے واقعے سے ملانااور پھر اس واقعے کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۲۶۳

کی ان پالیسیوں، بیانات اور اشارات خصوصاً غدیر کے واقعہ کے ساتھ جوڑنا ضروری معلوم ہوتا ہے جن کا ذکر بعد میں ہوگا_

ابھی تک جنگ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا

ایک اور نکتہ کی طرف بھی توجہ ضرور رہے وہ یہ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے عقبہ میں جمع ہونے والوں کو تلواروں کے ساتھ قریش کا مقابلہ کرنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس اقدام کا مطلب اس دین اور اس کے مومن طرف داروں کا خاتمہ تھا_ خصوصاً ان کی قلت اور ایام حج کے پیش نظر جب لوگ ہر طرف سے مکہ میں جمع ہوئے تھے اور وہ سب قریش کے طریقہ و مسلک و مزاج پرتھے نیز دینی، نظریاتی اور فکری نقطہ نظر سے قریش کے تابع تھے_ یہاں تک کہ ان کے مفادات بھی قریش سے وابستہ تھے_ ان حالات میں انصار کیلئے اپنے دشمنوں پر خود ان کے علاقے میں فتح حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہ تھا_

قریش کی نظر میں مدینہ کی بڑی اہمیت تھی خاص کر اس لحاظ سے کہ مدینہ شام کی طرف جانے والے قریش کے تجارتی قافلوں کی اہم گزرگاہ تھی_ اسی وجہ سے انہوں نے سعد بن عبادہ کو رہا کیا تھا لیکن یہی قریش انصارکے اس موقف پر خاموش نہ رہ سکتے تھے یوں قریش کے سامنے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہتا کہ تمام حاجیوں حتی مدینہ کے مشرکین کی موجودگی میں انصار پرفیصلہ کن اور مہلک وار کرتے کیونکہ جنگ کرنے کی صورت میں انصار متجاوز محسوب ہوتے اور قریش کیلئے اپنی صوابدید کے مطابق مناسب کیفیت اور کمیت کے ساتھ اس تجاوز کا مقابلہ کرنا ضروری ہوتا_

۲۶۴

پانچواں باب

مکہ سے مدینہ تک

پہلی فصل : ہجرت مدینہ کا آ غاز

دوسری فصل : ہجرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

تیسری فصل : قبا کی جانب

چوتھی فصل : مدینہ تک

۲۶۵

پہلی فصل

ہجرت مدینہ کا آغاز

۲۶۶

وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے _

آئمہ معصومینعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ''حب الوطن من الایمان''(۱) یعنی وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے_ پہلی نظر میں اس جملے کا کوئی درست اور قابل قبول مفہوم بنتا نظر نہیں آتا کیونکہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وطن کی محبت کیونکر ایمان کا حصہ قرارپائے؟ کیا اس خاک کو جس پر انسان کی ولادت ہوئی اور جس کی فضاؤں میں اس نے زندگی گزاری ہے صرف خاک ہونے کے ناطے اس قدر اہمیت اور احترام حاصل ہے کہ اس کی محبت ایمان کا حصہ قرار پائے؟ خواہ جغرافیائی طور پر اس کی حالت کتنی ہی بدتر کیوں نہ ہو؟ کیا اس محبت کے فقدان کی صورت میں انسان کا ایمان ناقص اور مطلوبہ اثرات سے عاری ہوگا؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ہمیں یہ نکتہ ملحوظ خاطر رکھناہوگا کہ اسلام کی نظر میں اہمیت کی حامل اس محبت سے مراد ایسی اندھی محبت نہیں ہوسکتی جس کا کوئی مقصد یا فائدہ نہ ہو یا اسلام کی مخالف سمت میں ہو بلکہ اس سے مراد ایسی محبت ہے جو اسلام کے عظیم اہداف سے ہم آہنگ ہو_ نیز حقیقی ایمان اور دینی بنیادوں پر استوار ہو_ اس قسم کی محبت ہی ایمان کا حصہ ہوسکتی ہے_

علاوہ براین وطن (جس کی محبت کو ایمان قرار دیا جارہا ہے) سے مراد وہ جگہ بھی نہیں جہاں انسان کی پیدائشے واقع ہو بلکہ اس سے مراد وہ عظیم اسلامی وطن ہے جس کی حفاظت دین اور انسانیت کی حفاظت شمار ہوتی ہو کیونکہ یہ دین کی تقویت اور اعلاء کلمة اللہ کا باعث ہے_

نیز یہی وطن اسلام کی طاقت کا مرکز ہے کیونکہ وہ امن و سکون کی آماجگاہ، نیز فکری و روحانی اور مادی

___________________

۱_ سفینة البحار ج ۲ ص ۶۶۸_

۲۶۷

تربیت گاہ ہے اور پھر یہیں سے بہتر اور مثالی مراحل کی طرف انتقال کا عمل شروع ہوتا ہے لیکن اس وطن سے دوری اور استقلال اورسکون کے فقدان کی صورت میں (تعمیری) قوتیں ضائع ہوجاتی ہیں کیونکہ وہاں انسان کو اپنی حقیقت اور اپنے مستقبل کے بارے میں غوروفکر کی فرصت ہی نہیں ملتی اور اگر اس کا موقع مل بھی جائے تو مرکزیت جو منظم اور ٹھوس پیشرفت نیز استحکام اور عمل پیہم کا موقع فراہم کرتی ہے، کے فقدان کے باعث وہ اپنے فیصلوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا_

خلاصہ یہ کہ وطن، دین اور حق کے دفاع نیز برگزیدہ وبلند اہداف تکے پہنچنے کا وسیلہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں_ بنابریں اصل چیز دین اور انسان ہیں _رہا وطن اوردیگر چیزیں توان کو دین وانسانیت کی خدمت کا وسیلہ سمجھنا چاہیئے_

پس جو شخص اسلام کی حفاظت یا اس سے محبت کے پیش نظر اپنے وطن کی محافظت یا اس سے محبت کرتا ہے اسے ایمان کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے_

لیکن اگر وطن شرک وکفر وانحراف اور انحطاط انسانیت کی سر زمین ہو تو اس قسم کے وطن کی حفاظت یا اس سے محبت درحقیقت شرک کی تقویت اور حفاطت ہوگی_ اور اس محبت کا تعلق کفر وشرک سے ہوگا نہ کہ ایمان اور اسلام سے_

اس لئے قرآن اور اسلام نے ان لوگوں کو جو بلاد شرک میں رہتے ہوں (اوران کا وہاں رہنا دین وایمان کی کمزوری کا باعث ہو) حکم دیا کہ وہ وہاں سے ہجرت کر کے بلاد ایمان واسلام کی طرف چلے جائیں جہاں وہ اپنے دین نیز تخلیقی صلاحتیوں سے مالا مال عظیم انسانیت کی خاطرخواہ اور مؤثر حفاظت کرسکیں_ ارشاد الہی ہے( ان الذین توفاهم الملائکة ظالمی انفسهم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض قالوا الم تکن ارض الله واسعة فتهاجروا فیها فا ولئک ما واهم جهنم وسائت مصیرا ) (۱)

___________________

۱_ سورہ نساء آیت ۹۷ _

۲۶۸

یعنی فرشتے جن لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اوران سے پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے، وہ کہیں گے ہم زمین میں کمزور اور مجبور تھے_ فرشتے کہیں گے کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی تاکہ تم اس میں ہجرت کرتے، یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے_

بلکہ اگرکسی انسان کا وطن جہاں وہ پیداہوا ہو دین حق کے مقابلے پر اور نور الہی کو بجھانے کی کوشش میں ہو تو اس کو برباد کرنا ہر ایک کے اوپر لازم ہے_ یہاں تک کہ خود اس شخص پر بھی، جس کی وہاں ولادت ہوئی ہو اور زندگی گزری ہو_(۱)

بنابریں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور اصحاب کی مکہ سے مدینہ کو ہجرت فطرت انسانی، عقل سلیم اور صحیح طرزفکر کے تقاضوں کے عین مطابق تھی_ کیونکہ صحیح فکر کے سامنے اچھے اور بلند اہداف ہوتے ہیں نیز اس کی نظر میں ہر چیز کی قدر وقیمت اتنی ہی ہوتی ہے جس قدر ان اہداف کے ساتھ سازگار اور ان تک رسائی میں مددگار ثابت ہو_

آیئےب ہم دیکھتے ہیں کہ مدینہ کی طرف ہجرت کن حالات میں، کن اسباب کی بناپر، اور کس طرح ہوئی؟

ہجرت مدینہ کے اسباب

مکہ سے مدینہ ہجرت کے اسباب بیان کرتے ہوئے ہم درج ذیل نکات کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں:

۱_ مکہ دعوت اسلامی کیلئے مناسب جگہ نہ تھی_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کیلئے مکے میں کامیابی کی جتنی گنجائشے تھی وہ حاصل ہو چکی تھی اور اب اس بات کی امید نہیں تھی کہ مزید لوگ کم ازکم مستقبل قریب میں، اس نئے دین کو اپنائیں گے_

___________________

۱_ علامہ محقق شیخ علی احمدی کا خیال ہے کہ معصومین کے قول ''حب الوطن من الایمان'' کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو اپنے وطن سے محبت ہو وہ اس وطن کو انحرافات سے نجات دینے، اس کی مشکلات کو دور کرنے اور وہاں کے معاشرے کو حق و ایمان اور اسلام کی طرف رہنمائی کرنے کیلئے کوشاں ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ ایمان کا تقاضا ہے_

۲۶۹

جب تک لوگوں کے قبول اسلام کے باعث اس کی تقویت واعانت کی امید تھی مصائب ومشکلات کو برداشت کرنے کی معقول وجہ موجود تھی_لیکن اب مکہ اپنا سب کچھ دے چکا تھا_

مومن جوانوں اور مستضعفین کی کافی تعداد اسلام قبول کرچکی تھی_ لہذا اب مکہ میں وہی لوگ رہ گئے تھے جو اطاعت خدا کیلئے سد راہ تھے_ اسلام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے اور اس کے پھیلاؤ کو روک رہے تھے_ ان حالات میں مزید وہاں ٹھہرنا نہ صرف بے دلیل ہوتا بلکہ اسلامی دعوت کے ساتھ خیانت اور اس کے خلاف جنگ میں مدد اور اس کی شکست کا باعث ہوتا_ خاص کر ان حالات میں جبکہ قریش راہ خدا سے لوگوں کو روکنے اور نور الہی کو بجھانے کیلئے اپنی قوتوں کو مجتمع کر رہے تھے حالانکہ خدا کو بس یہ منظور تھا کہ وہ اپنے نور کو کامل کرے اگرچہ مشرکین کو یہ بات نا پسند ہو_

جی ہاں اب یہ بات ناگزیر ہوگئی تھی کہ ایک نئے مرکز کی طرف منتقل ہواجائے، جہاں سکون واطمینان کے ساتھ مشرکین کے دباؤ اور ان کے زیر تسلط اور زیر اثر علاقوں سے دور رہ کر زبانی اور عملی طور پر آزادی کے ساتھ تبلیغ دین کرنے کی ضمانت فراہم ہو_

ادھر ہم مشاہدہ کرچکے ہیں کہ مشرکین رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے_ وہ مسلمانوں کو دھمکیاں دیتے بلکہ اس نئے دین میں داخل ہونے والے ہر شخص کو سزائیں دیتے اور جن لوگوں کے مسلمان ہونے کا خطرہ ہوتا انہیں ڈراتے تھے_

۲_اسلام اور اس کے داعی اور نمائندہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے کسی محدود کامیابی پر اکتفا کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ اسلام پوری انسانیت کا دین تھا، ارشاد الہی ہے( وما ارسلناک الا کافة للناس ) (۱) ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تمام انسانوں کیلئے (بشیر ونذیر بناکر) بھیجا ہے _

واضح ہے کہ اب تک جو کامیابیاں نصیب ہو چکی تھیں وہ اسلام کی تعلیمات کو عملًا نافذ کرنے اور اس کے سارے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ناکافی تھیں خصوصاً لوگوں کے معاشرتی واجتماعی مسائل وغیرہ کے حل

___________________

۱_ سورہ سبا آیت ۲۸ _

۲۷۰

سے متعلق پہلوؤں کے نقطہ نظرسے کہ (قانون اور نظام کی موجودگی میں)جن کو نافذ کرنے کیلئے طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے_

ادھر بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی ذات کو تو دشمنوں کے شرسے بچانے کی ضمانت دے سکتے تھے لیکن وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب اور اس نئے آسمانی دین میں داخل ہونے والوں کی حفاظت کے ضامن نہیں بن سکتے تھے ،خاص کراس صورت میں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ بوقت ضرورت اسلامی تعلیمات کے فروغ کو ان پر ضروری قرار دینے کی کوشش فرماتے_ کیونکہ اس صورت میں تو وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی معمولی سی حمایت بھی نہ کرپاتے_

حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات کے بعد تو حالات نے خودرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے خلاف بھی خوفناک شکل اختیار کرلی تھی جیساکہ ہم ملاحظہ کرچکے اورآئندہ بھی ملاحظہ کریں گے_

۳_دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے مسلمان سالہاسال سے آزار اور مظالم کو سہتے چلے آرہے تھے یہاں تک کہ کچھ مسلمان اپنے دین کی حفاطت کے پیش نظر مکہ سے بھاگ کر دوسرے علاقوں میں چلے گئے

جو مسلمان مکہ میں باقی رہے قریش ان کو گمراہ کرنے کیلئے ظلم و زبردستی اور دھوکہ و فریب کے مختلف حربے استعمال کرتے رہے اور یہ مسلمان ان کا سامنا کرتے رہے_

اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیر (حمزہعليه‌السلام ) نیز بعض دوسرے معدود مسلمانوں ( جنہیں اپنے قبیلوں کی حمایت حاصل تھی)(۱) کے علاوہ باقی مسلمان غالباًغریب اور بے چارے لوگ تھے جن کیلئے سختیوں پر صبر وتحمل کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا _اگر یہ لوگ آلام و مشکلات کا یونہی سامنا کرتے رہتے اور امیدکی کوئی کرن بھی نظر نہ آتی تو پھر خواہ ان کا ایمان کتنا ہی قوی کیوں نہ ہوتا، فطری بات تھی کہ ان حالات میں وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے، اس قسم کی زندگی سے اکتا جاتے اور زودگزر خواہشات ان پر غلبہ پا لیتیںیوں وہ خود بھی ہلاک ہوجاتے اور

___________________

۱_ حتی کہ یہ لوگ بھی نفسیاتی اور روحانی کرب و آزار نیز تلخ اجتماعی منافرت سے محفوظ نہ تھے بسا اوقات یہ حالت بعض مسلمانوں کیلئے (شعور و آگاہی اور تیزبینی میں دوسروں سے ممتاز ہونے کی وجہ سے) جسمانی ایذا رسانی سے بھی سخت بات تھی_

۲۷۱

دوسروں کو بھی ہلاک کرتے، کیونکہ مصائب و مشکلات کے ساتھ پوری زندگی گزارنا ان کے بس کی بات نہ تھی چنانچہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب جنگ احد میں یہ افواہ پھیلی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا شہید ہوچکے ہیں تو بعض لوگ دوبارہ مشرک ہوجانے کی سوچنے لگے اور مشرکین کے ساتھ صلح کا راستہ، ڈھونڈنے لگے_ اس بارے میں قرآن کی یہ آیت اتری جس کی تلاوت قیامت تک ہوتی رہے گی_

( وما محمد الا رسول قدخلت من قبله الرسل ا فان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب منکم علی عقبیه فلن یضرالله شیئا، وسیجزی الله الشاکرین )

یعنی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو بس اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ان سے پہلے بھی متعدد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گزرچکے ہیں توکیا اگران کی موت واقع ہو یا قتل ہوجائیں تو تم الٹے پاؤں پھرجاؤگے؟ یاد رکھوتم میں سے جو شخص الٹے پاؤں پھر جائے وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا_البتہ اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو جزائے خیر دے گا_(۱)

۴_قریش آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو قتل کرنے کی ایک ایسی راہ موجود ہے جس میں بنی ہاشم کے سامنے ان پر کوئی واضح ذمہ داری عائدنہیں ہوگی بالفاظ دیگر بنی ہاشم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خون کا مطالبہ نہ کرسکیں گے کیونکہ ان کے منصوبے کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دس آدمی ملکر قتل کرتے جن کا تعلق مختلف قبائل سے ہوتا_ یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاخون بہت سے قبائل کے درمیان تقسیم ہوجاتا کیونکہ بنی ہاشم ان سب کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے_ اگر بنی ہاشم ان سب سے لڑتے تو خود مصیبت میں پھنس جاتے_ لیکن اگر دیہ (یا خون بہا) قبول کرلیتے تو یہ قریش کیلئے اور بھی اچھا ہوتا_ پس جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ قتل ہوجاتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیروکاروں کو ختم کرنا بہت آسان ہوجاتا اور قریش کو کوئی خاص پریشانی پیش نہ آتی بلکہ اگر مسلمانوں کو یونہی چھوڑ دیتے تب بھی وہ خود بخود ختم ہوجاتے_

یہ تھا قریش کا خیال اور منصوبہ، یاد رہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اگرچہ خدا کا لطف و کرم تھا اور اس کی توجہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرتھی لیکن بدیہی بات ہے کہ اگر قریش اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے تو خواہ ان کو

___________________

۱_ سورہ آل عمران آیت ۱۴۴ _

۲۷۲

کامیابی ہوتی یا ناکامی نتیجتاً بنی ہاشم اور قریش کے روابط نہایت کشیدہ ہوجاتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے مکہ میں رہنے کی صورت میں حالات بدترہوجاتے_ ادھر خدا کا قانون یہ رہا ہے کہ وہ کسی شخص کو اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے جبری طور پر نہیں روکتا_ ہاں جب دین اور انسانیت کی حفاظت کیلئے نبی کی حفاظت ضروری ہو تو اس صورت میں اللہ کی عنایات نبی کے شامل حال ہوتی ہیں اور دشمن اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے عاجز رہتے ہیں_

خلاصہ یہ کہ ان حالات میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کیلئے مکہ سے نکل کر کسی ایسے پرامن مقام کی طرف جانا ضروری ہوگیا تھا جہاں وہ زیادہ بہتراور جامع صورت میں اپنی دعوت کو پھیلانے اور اپنے مشن کو لوگوں تک پہنچانے کی جدوجہد کرسکتے_

مدینہ کے انتخاب کی وجہ

رہا یہ سوال کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے دوسرے مقامات مثلاً حبشہ وغیرہ کو چھوڑ کر مدینہ کو کس بنا پر اپنی ہجرت اور اپنی دعوت کا مرکز منتخب کیا؟

اس سوال کے جواب میں کئی ایک اسباب کا ذکر کیا جاتا ہے _یہاں ان میں سے درج ذیل کا تذکرہ کرتے ہیں:

۱_مکے کو لوگوں کے ہاں ایک خاص روحانی مقام حاصل تھا _بنابریں مکے پر تسلط حاصل ہوئے بغیر، نیز بت پرستوں کے اثر ونفوذ کوختم کر کے اس کی جگہ اسلام کی قوت کو جاگزین کئے بغیر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کامیابی سے ہمکنار نہ ہوتی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام کوششیں رائیگاں جاتیں_ کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کو مکے کی اسی قدر ضرورت تھی جس قدر مکے کو اس دعوت کی_

اسلئے مکے سے قریب ہی ایسے مقام کا انتخاب ضروری تھا جہاں سے بوقت ضرورت مکے پر اقتصادی وسیاسی بلکہ فوجی دباؤ بھی ڈالاجاسکتا ہو کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مکے پر تسلط حاصل کرنے کی ضرورت تھی_

۲۷۳

ادھرمدینہ ہی وہ مناسب جگہ تھی جہاں اس مطلوبہ دباؤ کے سارے لوازمات موجود تھے_ مدینہ اہل مکہ کو اقتصادی بحران میں مبتلا کرسکتا تھا_کیونکہ مدینہ مکہ کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہ تھا، اور قریش کا گزارہ بھی بنیادی طور پرتجارت پرہی تھا_

چنانچہ پہلے بیان ہوچکا کہ مشرکین قریش نے بیعت عقبہ کے وقت عبداللہ بن ابی سے کہا تھا ''ہماری ناپسندیدہ ترین جنگ جو چھڑ سکتی ہے وہ تم لوگوں سے ہی ہے''_

نیز اس بات کا بھی تذکرہ ہوچکا ہے کہ جب قریش نے بیعت عقبہ کے بعد سعد بن عبادہ کو پکڑکر سزادی تو حارث بن حرب اور جبیر ابن مطعم نے آکر نجات دی_ کیونکہ وہ ان کے مال تجارت کی حفاظت کرتا تھا_

واضح ہے کہ جب اکیلے حضرت ابوذر کے ہاتھوں قریش کی جو شامت آئی سوآئی تو پھر اہل مدینہ کی طرف سے مستقبل میں ان کی جو شامت آتی وہ زیادہ شدید اور دور رس اثرات کی حامل ہوتی_

۲_ان بیانات کی روشنی میں ہم پر واضح ہوا کہ مدینے کی طرف ہجرت کئے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا کیونکہ اگر طائف کی طرف ہجرت کی جاتی تو کوئی فائدہ نہ ہوتا چنانچہ ہم دیکھ چکے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں ہجرت کی تواہل طائف نے منفی جواب دیا_ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل طائف کے خیال میں مکہ والے ان پر اقتصادی دباؤ ڈال سکتے تھے اور مکہ والوں کو ان کی اتنی ضرورت نہیں تھی جس قدر انہیں اہل مکہ کی_ نیز آئندہ (کم از کم مستقبل قریب میں) ان کیلئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ سیاسی طور پر اہل مکہ کی متابعت کرتے اور ان کے زیر تسلط رہتے_ رہے عرب کے دیگر قبائل تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آزما چکے تھے کہ وہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت قبول کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کیلئے آمادہ نہ تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اگرنقصان دہ نہیں پایا تھا تو کم از کم اس نتیجے پر ضرور پہنچے تھے کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی کام نہیں آسکتے_

ادھر یمن، فارس، روم اور شام کے علاقوں پر نظر کریں تو وہ ان دو بڑی سلطنتوں کے آگے سر تسلیم خم تھے جن سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کو سوائے مشکلات اور عظیم خطرات کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا تھا_

ہم نے اس کتاب کے باب اول کے اواخر میں اسلام کی اشاعت اور کامیابی کے اسباب کا ذکر کرتے

۲۷۴

ہوئے اس سلسلے میں کچھ بحث کی تھی_ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے کسری کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے اپنا ایلچی بھیجا تھا تو اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے خلاف ایک خطرناک کاروائی کرنے کی کوشش کی تھی_ رہی حبشہ کی بات توواضح ہے کہ حبشہ ایسا ملک نہیں تھا جو اقتصادی، سیاسی اور عسکری نقطہ نظر سے (بلکہ فکری وسماجی حوالے سے بھی) ایک عالمگیر اور جامع انقلاب کی قیادت کرسکتا_

لہذا صرف اور صرف مدینہ ہی باقی رہ جاتا تھا_ چنانچہ ہجرت کیلئے اسی سر زمین کا انتخاب ہوا_

۳_مذکورہ اسباب کے علاوہ مدینہ زرعی نقطہ نظر سے مکے کی نسبت زیادہ خود کفیل تھا_ بالفاظ دیگر اگر ان کو کسی قسم کے تجارتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا (اگرچہ مکہ والے ایسا نہیں کرسکتے تھے) تو وہ اغیار کی خواہشات کے آگے سر تسلیم خم کئے بغیر اس دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا گزارہ کر سکتے تھے اگرچہ بمشکل ہی سہی_

زرعی پہلو کے علاوہ دیگر پہلوؤں سے بھی مدینے کو ترجیح حاصل تھی_ نیز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کی دعوت کیلئے وسیع فعالیت اور ہمہ گیر جد وجہد کی ضرورت تھی کیونکہ یہ عالمی سطح پر ایک جامع انقلاب کی قیادت کرنے والی تھی_ علاوہ بریں اس دعوت کو داخلی طور پر اقتصادی استحکام کی ضرورت تھی تاکہ اس کی بدولت اس دعوت کے علمبرداروں کو اپنے دین کی اشاعت اور اپنے مشن کے پھیلاؤ کی جدوجہد کا موقع میسر ہوسکتا_

۴_چونکہ حج اسلام کے اہم ترین احکام میں سے ایک تھا بنابریں جب تک مکے پر بت پرستوں کا تسلط رہتا حج کی افادیت جاتی رہتی_ نیز عرب قبائل کے درمیان قریش کا وسیع اثر ونفوذ باقی رہتااوران قبائل کے دلوں میں مشرکین مکہ کو ایک قسم کا تقدس بھی حاصل رہتا_ بنابریں مکے کوان کے ہاتھوں سے چھڑانا ضروری تھا تاکہ لوگوں کے نزدیک ان کو جو روحانی مقام حاصل تھا اس کاخاتمہ ہوجاتا اور اس نئے دین کیلئے لوگوں کے دلوں کے دروازے پوری طرح کھل جاتے اورمسلمان کسی رکاوٹ کے بغیر مکمل آزادی کے ساتھ اس عظیم دینی فریضے کو ادا کرسکتے_

اس بات کی دلیل طبرانی وغیرہ کی روایت ہے کہ جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ذی الجوشن ضبابی کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے اس وقت تک اسلام کو قبول کرنے سے انکار کیا جب تک وہ اپنی آنکھوں سے کعبے پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا

۲۷۵

غلبہ نہ دیکھ لے_ ایک اور روایت میں مرقوم ہے کہ اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا:''میں نے دیکھا کہ آپ کی قوم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جھٹلایا اور نکال باہر کیا نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مقابلہ کیا_ اب میں دیکھتا ہوں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا کرتے ہیں_ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان پر فتح حاصل ہوئی تو میں مسلمان ہوجاؤں گا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کروں گا، لیکن اگر انہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرغلبہ حاصل ہوا تو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت نہیں کرونگا''_(۱)

علاوہ ازیں مکہ سے قریب ترین اور مناسب جگہ مدینہ تھی_ مدینہ اقتصادی طاقت کے ساتھ ساتھ اچھی خاصی افرادی قوت کابھی حامل تھا_ اورمکے والوں کے خلاف اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن انجام دینے پر قادر تھا_ مکے کے قریبی علاقوں میں سے مدینے کے علاوہ کوئی بھی علاقہ ان خصوصیات کا حامل نہ تھا_

۵_گذشتہ معروضات کے علاوہ مدینہ والے اصل میں یمن کے تارکین وطن تھے اور یمن قدیم زمانے کی ابتدائی تہذیب وتمدن کاکچھ حد تک حامل رہا تھا_ بنابریں وہ عرب نہیں تھے کہ ان کے دل قساوت سے لبریز ہوتے_ نیز قریش کی طرح اس علاقے میں ان کیلئے اقتدار یابڑے مفادات کا مسئلہ بھی در پیش نہ تھا_ نہ ہی وہ کسی خاص قسم کے نفسیاتی ماحول میں زندگی گزارتے تھے جس طرح قریش والے عدنانیوں کے درمیان اپنی خاندانی حیثیت، مکہ کی سرداری اور بیت اللہ کے متولی ہونے کے باعث ایک خاص قسم کے نفسیاتی ماحول میں رہ رہے تھے_

ان باتوں کے ساتھ ساتھ عدنانیوں اور قحطانیوں کے درمیان واضح اختلاف کا مسئلہ بھی تھا_ قحطان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو دشمنوں کے حوالے کرنے کیلئے (دینی یا نظریاتی جذبات سے قطع نظر) آمادہ نہیں ہوسکتے تھے_ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کی وفات کے بعد بھی اس اختلاف کے آثار دیکھنے میں آتے ہیں اسی بنا پر حضرت عمرنے بیت المال کی تقسیم میں عدنانیوں کو قحطانیوں پر ترجیح دی_ اس بات نے امویوں کیلئے اس روش سے استفادہ کرنے نیز یمنیوں اور قیسیوں کے درمیان فتنوں کی آگ بھڑکانے کا راستہ ہموار کیا_

___________________

۱_ مجمع الزوائد ج ۲ ص ۶۸ یہاں یوں مذکور ہے، اسے عبداللہ بن احمد اور اس کے والد نے نقل کیا ہے لیکن اس کا متن ذکر نہیں کیا_ طبرانی سے بھی اسے نقل کیا ہے_ (ان دونوں کے راوی بخاری کے راوی ہیں) نیز ابوداؤد نے اس کا کچھ حصہ نقل کیا ہے_

۲۷۶

جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی نظر میں اولاد اسماعیل کو اولاد اسحاق پر کوئی ترجیح حاصل نہ تھی_ (بہرحال یہ اس بحث کا مقام نہیں)_

۶_پھراہل مدینہ نے انحراف وگمراہی کا مزہ نہایت اچھی طرح سے چکھا تھا_ جنگوں نے ان کو تباہ وبرباد کر ڈالا تھا_ وہ مستقل طور پر خوف ودہشت کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے_ یہاں تک کہ وہ شب وروز مسلح رہتے تھے اور اپنے بدن سے اسلحوں کوجدا نہ کرتے تھے (جس کا ذکر ہو چکا ہے)_ یہ بھی بیان ہوچکا کہ خزرج والے قریش کو اپنا حلیف بنانے کیلئے مکہ بھی گئے تھے لیکن قریش نے ان کی بات نہ مانی_ اہل مدینہ اپنے دل کی گہرائیوں سے یہ چاہتے تھے کہ وہ اس گھٹن کی فضا سے نکلیں_ یہاں تک کہ اسعد بن زرارہ نے اس امر پر اپنے غم وافسوس کا اظہار کیا _چنانچہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اس کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے یوں عرض کیا:'' ہمارا تعلق یثرب کے قبیلہ خزرج سے ہے_ ہمارے اور اوسی بھائیوں کے درمیان تعلقات منقطع ہیں_اگر اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعے ان تعلقات کو بحال کردیتا ہے تو کیا ہی اچھی بات ہے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ صاحب عزت اور کوئی نہیں ''_ (ان باتوں کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے) _

اس کے علاوہ مدینے میں اسلام کے پہنچنے کے بعد وہاں کے مسلمانوں کی حفاظت اور اعانت ضروری تھی تاکہ اس دین کی حمایت اور اعلاء کلمہ حق کا سلسلہ جاری رکھ سکتے_

۷_آخری نکتہ یہ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ظہور کا زمانہ قریب ہونے کے بارے میں یہودیوں کی پیش گوئیوں کے باعث سارے لوگ اس دین کو قبول کرنے کیلئے آمادہ تھے_ لیکن ان کو مناسب فرصت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت تھی_ان حالات میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انہیں کیسے نظر انداز کرسکتے تھے_ اور ان کیلئے قبول اسلام کا موقع فراہم کرنے سے کیسے چشم پوشی کرسکتے تھے جبکہ اہل یثرب بیعت عقبہ کر کے خود ہی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو مدینہ آنے کی دعوت دے رہے تھے_

یہ تھے وہ نکات جن کی طرف فرصت کی کمی کے سبب صرف اشارہ کرناہی ہم نے کافی سمجھا_

۲۷۷

مہاجرین کے درمیان بھائی چارے کا قیام

چونکہ ہجرت کی وجہ سے مسلمانوں کو بظاہر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کیلئے اعلی سطح پر ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کی ضرورت تھی بنابریں ہجرت کی تیاری کے طورپر مواخات (بھائی چارے) کا اقدام عمل میں آیا، جس کا مقصد انسانی روابط کو مصلحتوں اور مفادات کی سطح سے بلند کر کے ایک ایسے برادرانہ رابطے کی شکل دینا تھا جو خدا پر ایمان کی بنیادوں پر استوار ہو_

تاکہ اس کی بدولت مسلمانوں کے باہمی تعلقات حقیقت سے قریب تر، منظم تر اور نفسیاتی رجحانات سے دورتر ہوں جو بسااوقات مدد کرنے والے یا مدد لینے والے کے ذہن میں ایسے خیالات پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں جن سے روابط میں (کم از کم نفسیاتی طور پر) پیچیدگی پیدا ہوتی ہے_

بہرحال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے مہاجرین کے در میان حق اور ہمدری کی بنیادوں پر بھائی چارہ قائم کیا_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے در میان، حضرت حمزہ اور حضرت زید بن حارثہ کے درمیان حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف کے د ر میان، حضرت زبیر اور حضرت ابن مسعود کے درمیان حضرت عبادة بن حارث اور حضرت بلال کے درمیان، حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص کے درمیان، حضرت ابوعبیدہ اور حضرت سالم (غلام ابوحذیفہ) کے درمیان، حضرت سعید بن زید اور حضرت طلحہ کے درمیان اور حضرت علیعليه‌السلام اور اپنے درمیان بھائی چارہ قائم کیا اور حضرت علیعليه‌السلام سے فرمایا: ''اے علیعليه‌السلام کیا تم نہیں چاہتے کہ میںتمہارا بھائی قرار پاؤں؟'' عرض کیا :''کیوں نہیں اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تو راضی ہوں''_ فرمایا:'' پس تم میرے بھائی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی''_(۱) (اس دوران عثمان کے حبشہ میں ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جیساکہ ہجرت کے بعد والے مواخات کی بحث میں اس کا تذکرہ ہوگا انشاء اللہ ) _

ہم انشاء اللہ جلدہی بتائیں گے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان

___________________

۱_ سیرت حلبیہ ج ۲ ص ۲۰ نیز دحلان کی سیرت نبویہ ج ۱ ص ۱۵۵ از استیعاب نیز تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۵۳، مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۴ اور تلخیص مستدرک ذہبی_

۲۷۸

بھائی چارہ قائم کیا تھا_ وہاں ہم حدیث مواخات کے بعض مآخذ کابھی ذکر کریں گے نیز ابن تیمیہ وغیرہ کی طرف سے حدیث مواخات کے انکار اور اس کے جواب کا بھی تذکرہ کریں گے_ اس کے علاوہ حدیث مواخات پراپنی صوا بدید کے مطابق مناسب تبصرہ بھی کریں گے انشاء اللہ _

مدینہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت کا آغاز

کہتے ہیں کہ عقبہ کی دوسری بیعت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی مدینہ کی طرف ہجرت سے تین ماہ پہلے ہوئی تھی_ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے عقبہ کی پہلی بیعت مدینہ والوں سے لی تو چونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب مشرکین کی ایذاء رسانیوں کے باعث مکہ میں ٹھہرنے اور ان کے مظالم کو برداشت کرنے پر قادر نہ تھے_ بنابریں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا نہیں مدینہ جانے کی اجازت دی_

لیکن خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکے میں ہی حکم خدا کے منتظر رہے_ یوں مسلمان مختلف ٹولیوں کی شکل میں خارج ہوئے_ یہاں تک کہ خدانے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی ہجرت کی اجازت دی (جیساکہ بعد میں ذکر ہوگا)_

بے مثال نمونہ:

یہاں اس حقیقت کو ملاحظہ کرنا ضروری ہے کہ حقیقی مسلمانوں نے اپنے وطن( جس میں ان کی پرورش ہوئی اور زندگی گزری )اور دنیا کے تمام مال ومتاع (جو انہیں حاصل ہوا) نیز اپنے معاشرتی و خاندانی رشتوں کو انہوں نے کس طرح قربان کردیا اور دین کے بدلے تمام لوگوں (یہاں تک کہ اپنے باپ بھائیوں اور بیٹوں) کے ساتھ دشمنی مول لی_ یوں وہ اپنے ہدف، اپنے دین اور اپنے عقیدے کی راہ میں وطن سے نکلے اور ایسے مستقبل کی طرف بڑھے جس کے بارے میں ان کو علم تھا کہ وہ خطرات اور حادثات سے بھر پور ہوگا_ یہ بے مثال اور حیرت انگیز نمونہ ہمیں ہجرت میں دکھائی دیتا ہے_ خواہ ہجرت مدینہ ہو یا ہجرت حبشہ_

۲۷۹

عمر ابن خطاب کی ہجرت

ایک چیز جس کی طرف یہاں ہماری توجہ مبذول ہوتی ہے وہ حضرت عمر ابن خطاب کے قبول اسلام کی کیفیت سے متعلق کہی گئی بات ہے_ چنانچہ بعض لوگ حضرت علیعليه‌السلام سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:''جہاں تک میں جانتا ہوں تمام مہاجرین نے چھپ کر ہجرت کی سوائے عمر بن خطاب کے_ کیونکہ جب حضرت عمر نے ہجرت کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنی تلوار گلے میں لٹکائی_ اور کمان دوش پر ڈالی اپنے ہاتھوں میں چند تیر اٹھائے ایک نوک دار ڈنڈا بھی ساتھ لیا_ کعبہ کی طرف چل پڑے قریش کی ایک جماعت کعبہ کے احاطے میں بیٹھی تھی پھرحضرت عمر نے کعبہ کا سات بارطواف کیااور مقام ابراہیم میں دو رکعت نماز پڑھی _اس کے بعد ایک ایک کر کے لوگوں کے آگے کھڑے ہوگئے اور کہا_ خدا بگاڑدے ان چہروں کو_ خدا ان ناکوں کو خاک میں ملا دے _ (یعنی ان کو ذلیل وخوار کرے گا) پس جویہ چاہتا ہے کہ اس کی ماں اس کے سوگ میں روئے یا اس کا فرزند یتیم ہوجائے_ یا اس کی بیوی بیوہ ہوجائے_ تو اس وادی کے اس پار میرے سامنے آئے''_ پھر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ '' کوئی بھی عمر کے پیچھے نہیں گیا اور اس نے اپنا سفر جاری رکھا''_(۱)

ہمیں یقین حاصل ہے کہ یہ بات درست نہیں ہوسکتی کیونکہ حضرت عمر اس قسم کی شجاعت کے مالک نہ تھے _ اس کی دلیل درج ذیل امور ہیں:

۱_حضرت عمر کے قبول اسلام کے متعلق بخاری وغیرہ سے نقل کیا جاچکا ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ڈرکے مارے اپنے گھر میں چھپے رہے_ یہاں تک کہ عاص بن وائل آیا اور انہیں امان دی _اس کے بعد حضرت عمر اپنے گھر سے نکلے_

۲_جنگوں میں حضرت عمر کا عام طور پر جوبزدلانہ رویہ رہا اس کے پیش نظر اس قسم کی باتوں کی تصدیق کرنے کی جرا ت ہم میں پیدا نہیں ہوسکتی_ چنانچہ جنگ بدر کے موقع پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اور مسلمانوں کو بزدلی پر

___________________

۱_ منتخب کنز العمال حاشیہ مسند احمد ج ۴ ص ۳۸۷ از ابن عساکر، السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۲۱_ ۲ اور نور الابصار ص ۱۵ میں بھی اس کی جانب اشارہ کیا گیا ہے نیز کنز العمال ج۱۴ ص ۲۲۱ و ۲۲۲ از ابن عساکر_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417