الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)9%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 209835 / ڈاؤنلوڈ: 6321
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

''تم میں سے کون اس امر میں میرا مددگار ہوگا تاکہ وہ میرا بھائی اوروغیرہ وغیرہ ہو یہاں تک کہ فرما یا یہ میرا بھائی وغیرہ وغیرہ ہے''_*

ابن کثیر شامی نے بھی یہاں طبری کی تقلید کی ہے چنانچہ اس نے اس حدیث کو تاریخ طبری کی بجائے تفسیر طبری سے نقل کیا ہے حالانکہ تاریخ لکھتے وقت اس نے تاریخ طبری پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اپنی تاریخ کا ماخذ قرار دیا ہے_(۱)

اسی طرح محمد حسین ھیکل (مصری) نے بھی ''حیات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' نامی کتاب کے پہلے ایڈیشن کے صفحہ ۱۰۴ پر تاریخ طبری سے مذکورہ حدیث نقل کی ہے لیکن دوسرے ایڈیشن مطبوعہ (۱۳۵۴ ھ) کے صفحہ ۱۳۹ میں ''و خلیفتی فیکم'' کے الفاظ حذف کردیئے اور ''و یکون اخی و وصیی'' لکھنے پر اکتفا کیا ہے_ یہ کام اس نے پانچ سو جنیة (مصری کرنسی) کی وصولی یا اس کتاب کے ایک ہزار نسخوں کی خریداری کے عوض انجام دیا_(۲)

ابن تیمیہ اور حدیث الدار(۳)

ادھر ابن تیمیہ نے بھی سید الاوصیاء امیرالمومنین حضرت علیعليه‌السلام کے فضائل کو جھٹلانے کے سلسلے میں اپنی عادت کے مطابق حدیث دار کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے_ ابن تیمیہ نے اس حدیث پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے_

___________________

۱_ تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۳۵۱ نیز البدایة و النہایة ج ۳ ص ۴۰ والسیرة النبویة از ابن کثیر ج ۱ ص ۴۵۹_

خلاصہ یہ کہ طبری نے اپنی تفسیر میں ''وصیی وخلیفتی فیکم'' کے الفاظ کو حذف کر کے انکی جگہ کذا وکذا کے مبہم الفاظ لکھ کر تحریف میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا ہے_ (مترجم)

۲_ رجوع کریں: فلسفة التوحید و الولایة ص ۱۷۹ و ص ۱۳۲ و سیرة المصطفی ص ۱۳۱ و۱۳۰_

۳_ دعوت ذوالعشیرہ والی روایتیں حدیث الدار اور حدیث انذار کے نام سے بھی معروف ہیں لیکن اردو میں یہ واقعہ دعوت ذوالعشیرہ سے ہی معروف ہے (مترجم)_

۲۱

۱) طبری کی روایت کے سلسلہ سند میں ابومریم کوفی بھی ہے جس کے متروک ہونے پر سب کا اتفاق ہے_ احمد نے کہا ہے کہ ''وہ ثقہ نہیں''_ ابن مدینی نے اس پر حدیث گھڑنے کا الزام لگایا ہے_

۲) روایت کے مطابق حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عبدالمطلب کی اولاد کو جمع کیا جس کی تعداد چالیس تھی حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت آل عبدالمطلب کے مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ نہ تھی_

۳) روایت کا یہ بیان کہ ان میں سے ایک شخص اکیلا ہی ایک پورا بکرا کھا جاتا اور اکیلا ہی ایک فُرق(۱) دودھ پی جاتا تھا جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ بنی ہاشم میں کوئی شخص ایک بکرا ہڑپ کرنے یا ایک فرق دودھ پی جانے میں معروف نہ تھا_

۴) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت میں مثبت جواب دینے کا مطلب یہ نہ تھا کہ جواب دینے والا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وصی اور خلیفہ بن جاتا کیونکہ تمام مومنین نے اسلام کی دعوت پر لبیک کہی اس امر میں آپ کی مدد کی نیز اسلام کی راہ میں جان و مال کی قربانی بھی دی علاوہ براں اگر چالیس یا ان میں سے کچھ افراد اکٹھے مثبت جواب دیتے تو کیا وہ سب کے سب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلیفہ بن جاتے؟

۵) جناب حمزہ، جعفر اور عبیدہ ابن حرث نے بھی حضرت علیعليه‌السلام کی طرح مثبت جواب دیا تھا بلکہ جناب حمزہ نے تو مومنین کی تعداد چالیس ہونے سے پہلے اسلام قبول کیا تھا_(۲)

ابن تیمیہ کے اعتراضات کا جواب

ابن تیمیہ کے اعتراضات حقیقت سے دور اور سب کے سب بے بنیاد ہیں کیونکہ

___________________

۱_ فرق ایک پیمانہ ہے تین صاع یعنی تقریباً نوکلو_

۲_ منہاج السنة ج ۴ ص ۸۱،۸۳_

۲۲

پہلے اعتراض کا جواب

ابومریم کے بارے میں اس کے اعتراض کا جواب ابن عدی کا یہ قول ہے کہ ''میں نے ابن عقدہ کو ابومریم کی تعریف و تمجید کرتے سنا اور اس نے اس کی انتہا درجے کی تعریف بیان کی ہے''_(۱) شعبہ نے بھی اس کو سراہا ہے_(۲) ذہبی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ صاحب علم تھا اور علم رجال میں دسترس رکھتا تھا_(۳) ان باتوں کے علاوہ بعض حضرات نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ابومریم کو غیرمعتبر قرار دینے کی وجہ اس کا شیعہ ہونا ہے جبکہ واضح ہے کہ یہ بات اس کے خلاف نہیں جاتی کیونکہ اصحاب صحاح خصوصاً بخاری اور مسلم نے دسیوں اہل تشیع (شیعوں) سے احادیث نقل کی ہیں_(۴) ان تمام چیزوں سے قطع نظر ، متقی ہندی نے طبری سے نقل کیا ہے کہ اس نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے_(۵) اسی طرح اسکافی معتزلی نے بھی اسے صحیح جانا ہے_(۶) اور خفاجی نے بھی شرح الشفا میں اس حدیث کی صحت کو قبول کیا ہے_(۷) احمد بن حنبل نے اس حدیث کو اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس کے تمام افراد صحاح ستہ کے غیرمتنازعہ افراد ہیںاس سند کے راوی یہ ہیں: شریک، اعمش، منہال، عباد اور حضرت علیعليه‌السلام _(۸) اگر مذکورہ اعتراض کو تسلیم کر بھی لیں پھر بھی اس حدیث کی اسناد مستفیضہ ہیں(۹) اور یہ اسناد ایک

___________________

۱_ الغدیر ج ۲ ص ۲۸۰ و لسان المیزان ج ۴ ص ۴۳ کی طرف رجوع کریں_

۲_ لسان المیزان ج ۴ ص ۴۲_

۳،۴_ میزان الاعتدال ذہبی ج ۲ ص ۶۴۰،۶۴۱ و لسان المیزان ج ۳ ص ۴۲ _

۵_ کنز العمال ج ۱۵ ص ۱۱۳_

۶_ شرح نہج البلاغة (معتزلی) ج ۱۳ ص ۲۴۴ کی جانب رجوع کریں_

۷_ الغدیر ج ۲ ص ۲۸ کی طرف رجوع کریں_

۸_ الغدیر و نیز مسند احمد ج ۱ ص ۱۱۱ کی طرف رجوع کریں_

۹_ علم حدیث میں مستفیض اور استفاضہ ایک اصطلاح ہے جس کا معنی راویوں کی ایسی کثرت ہے (یعنی روایت کو کثیر راویوں نے نقل کیا ہو) جس سے یہ اطمینان ہوجائے کہ روایت سچی ہے ، لیکن اس کا درجہ حدیث متواتر سے قدرے کم ہے _ (مترجم)

۲۳

دوسرے کی تقویت کرتی ہیں_ بنابریں کسی ایک سند میں کسی راوی کے ضعف سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا_

اس سے بھی زیادہ عجیب بات بعض لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ کتب حدیث میں اس واقعہ کے بعد مسئلہ خلافت کا تذکرہ نہیں ہوا ہے، کیونکہ جو شخص مذکورہ بالا مآخذ کی طرف رجوع کرے گا وہ جان لے گا کہ مسئلہ خلافت کا تذکرہ دسیوں منابع اور مسانید میں ہوچکا ہے_

رہی ابوحاتم کی روایت تو اسکے سلسلہ سند پر اس وجہ سے اعتراض ہوا ہے کہ اس میں عبداللہ بن عبدالقدوس موجود ہے جسے دار قطنی نے ضعیف قرار دیا ہے نسائی کا کہنا ہے ''وہ ثقہ نہیں ہے'' اور ابن معین کہتا ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں وہ تو خبیث رافضی ہے_

ان باتوں کے جواب میں شیخ مظفر فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عبدالقدوس پر ان لوگوں کا اعتراض غلط ہے اور تقریب نامی کتاب میں ابن حجر کے اس قول '' انہ صدوق ( وہ راستگو ہیں ) '' سے متصادم ہے ادھر تہذیب التھذیب میں محمدبن عیسی کا قول درج ہے کہ وہ ثقہ ہیں_ نیز ابن حبان نے بھی اسے ثقات میں شمار کیا ہے_بخاری کا کہنا ہے'' حقیقت میں وہ راستگو ضرور ہے لیکن ضعیف القول افراد سے حدیث نقل کرتا ہے''_ علاوہ ازیں وہ سنن ترمذی کے راویوں میں بھی شامل ہے_

پس انہی مذکورہ افراد کی تعریف ہی مقدم ہے کیونکہ اختلاف مذہب کی بنا پر ایک دوسرے کی مخالفت قابل اعتبار نہیں_ ہاں اگر ایک مخالف دوسرے کی تعریف کرے تو مقبول ہے_ ظاہر ہے ان لوگوں نے تشیع کے جرم میں اس پر مذکورہ الزامات لگائے ہیں_ اگرچہ ہم اسے شیعہ راویوں میں سے شمار نہیں کرتے_

لیکن ابن عدی کا بیان ہے کہ عموماً اہلسنت حضرات فضائل اہلبیتعليه‌السلام کے بارے میں احادیث نقل نہیں کیاکرتے اور شاید اس (عبداللہ بن عبدالقدوس) پر ان کے الزامات کا راز بھی یہی ہو_(۱)

___________________

۱_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۲۳۴_

۲۴

دوسرے اعتراض کا جواب

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ''عبد'' کا اضافہ راویوں نے کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بعض روایات میں صریحاً بیان ہوا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی ہاشم کو دعوت دی_(۱) کچھ اور روایات میں یوں ذکر ہوا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام بنی عبدالمطلب کو اور بنی مطلب کے بعض افراد کو دعوت دی(۲) بنابرایں شاید راوی نے غلط فہمی سے مطلب کی جگہ عبدالمطلب لکھ دیا ہے_ اس قسم کی غلطیاں اکثردیکھنے میں آتی ہیں_ اس بیان کی روشنی میں واضح ہوا کہ مذکورہ اعتراض اصل واقعہ (جو متفق علیہ ہے) کے جھٹلانے کا باعث نہیں بن سکتا_ جب حضرت عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے اور اس وقت ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر بھی ساٹھ سال کے قریب تھی پھر جب ان کی اولاد کو بھی ساتھ ملالیں تو کیسے چالیس تک نہیں پہنچیںگے ؟ بلکہ وہ تو اس سے بھی بہت زیادہ ہوجائیں گے پس اس تعداد کو بعید جاننے کی کیا وجہ ہے؟

تیسرے اعتراض کا جواب

شیخ مظفر نے اس کا جواب یوں دیا ہے_ ''کھانے پینے میں ان کا مشہور نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ حقیقت میں بھی وہ ایسے نہ تھے بلکہ ان کا ایسا ہونا عین ممکن ہے اور اگر ہم تسلیم کرلیں کہ وہ اس حد تک نہ کھاتے تھے تو پھر مذکورہ بات سے یہی مطلب نکلتا ہے کہ راوی نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس معجزے کو بیان کرنے میں مبالغہ سے کام لیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھیڑ کی ایک ران سے ان سب کو سیر کیا اور دودھ کے ایک برتن سے انہیں سیراب کیا''_(۳)

___________________

۱_ السیرة النبویة از ابن کثیر ج ۱ ص ۴۵۹ از ابن ابی حاتم نیز البدایة و النہایة ج ۳ ص ۴۰ اور رجوع کریں کنز العمال ج ۱۵ ص ۱۱۳، مسند احمد ج ۱ ص ۱۱۳، تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۳۵۰، ابن عساکر، زندگی نامہ امام علی بہ تحقیق المحمودی ج ۱ ص ۸۷ و اثبات الوصیة (مسعودی) ص ۱۱۵ تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۷ اور مسند البزار خطی نسخہ در کتابخانہ مراد نمبر ۵۷۸_

۲_ الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۶۲_

۳_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۲۳۵ _

۲۵

چوتھے اعتراض کا جواب

شیخ مظفر فرماتے ہیں کہ یہ اعتراض بھی درست نہیں کیونکہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذکورہ بیان استحقاق خلافت کیلئے علت تامہ کی حیثیت نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات کا دعوی کیا تھا_ اگر ایسی بات ہوتی تو پھر آپ کے رشتہ داروں کے علاوہ دیگر لوگ بھی اس کے مستحق ٹھہرتے_ بلکہ آپ کو حکم ہوا تھا کہ اپنے رشتہ داروں کو خبردار کریں کیونکہ آپ کی حمایت و نصرت کیلئے یہی لوگ زیادہ مناسب تھے_ بنابرایں یہ مقام فقط انہی کیلئے مختص ہوا_

نیز آپ کا مقصد ابتدا میں ہی یہ بتا دینا تھا کہ یہ مقام علیعليه‌السلام کے ساتھ مختص ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بخوبی علم تھا کہ نبی کی دعوت پر لبیک کہنے اور آپ کی مدد کرنے والا علیعليه‌السلام کے سوا کوئی نہ ہوگا_ بنابرایں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا یہ طرز عمل لوگوں کے اوپر اتمام حجت کرتے ہوئے حضرت علیعليه‌السلام کی امامت کے اثبات کےلئے تھا_ اگر بالفرض آپ کی دعوت پر دوسرے افراد بھی لبیک کہتے تو آپ ان لوگوں کے درمیان میں سے زیادہ مناسب فرد کا انتخاب فرماتے_(۱)

محقق جلیل سید مہدی روحانی نے شیخ مظفر کے مذکورہ بیان کی یوں وضاحت کی ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خطاب سب کیلئے تھا لیکن آپ ان لوگوں کی فطری عادتوں، خصلتوں اور طبیعتوں کے پیش نظر جانتے تھے کہ سوائے علیعليه‌السلام کے ان میں سے کوئی بھی ہامی نہیں بھرے گا_ مزید یہ کہ خدا نے بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس امر کی اطلاع دی تھی_ قول مصنف: اس حقیقت کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جسے ہم سید ابن طاؤوس کی زبانی بحارالانوار سے نقل کریں گے_ بحار میں''ماذا قال النبی یوم الانذار'' (نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ کے دن کیا فرمایا) کے عنوان سے اس کا تذکرہ ہوا ہے_

وہاں پر ہم نے یہ عرض کیا ہے کہ یہی روایت قرآن کی آیت سے ہم آہنگ ہے_ کیونکہ اسحدیث میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''خدا نے کسی بھی نبی کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے قریبوںمیں سے کسی کو اس کا بھائی وزیر، وصی اور وارث قرار دیا ہے_ یقینا اس نے گذشتہ انبیا کی طرح میرے لئے بھی ایک وزیر مقرر کیا ہے''_

___________________

۱_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۲۳۶_

۲۶

پھرفرمایا:'' اللہ کی قسم اس نے مجھے اس بات کی خبر دی ہے اور اس کا نام بھی مجھے بتادیا ہے لیکن اس اللہ کا حکم یہ ہے کہ میں تمہیں دعوت دے کر نصیحت کروں اور اس مسئلے کو تمہارے سامنے پیش کروں تاکہ آئندہ تمہارے پاس کوئی بہانہ نہ رہے اور حجت تمام ہوجائے''_(۱)

محقق روحانی نے اس بات کا بھی احتمال دیا ہے کہ شاید حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقصد یہ ہو کہ اس خطاب کے نتیجے میں کوئی ایک فرد جواب دیدے_ اسی لئے ان سے فرمایا ''تم میں کون ہے جو میرا ہاتھ بٹائے'' بنابرایں سب سے پہلے لبیک کہنے والا ہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وعدے کا مستحق ٹھہرتا_ ایک سے زیادہ افراد کا جواب دینا بہت بعید ہے اور عرف عام میں اس احتمال کی کوئی وقعت نہیں_ بالخصوص یہ اعتراض اس وقت ہوسکتا ہے جب ایک سے زیادہ افراد باہم جواب دیتے حالانکہ یہ تو اور بھی بعید تھا_

اس پر مزید یہ کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو علم تھا کہ ان میں سے سوائے ایک فرد کے کوئی بھی مدد کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگا_

البتہ بعض بزرگان کا کہنا ہے کہ رسول کی مدد سے مراد چند امور میں ہاتھ بٹانا ہوہی نہیں سکتا _ کیونکہ تمام اصحاب اپنے مرتبے کے اختلاف کے باوجود بھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے پس یہاں پر نصرت سے مراد تمام امور اور حالات میں مدد کرنا ہے_ اور دین میں مکمل مدد صبر اور علم کے بلند مرتبہ اور درجہ عصمت تک بلندی روح کی متقاضی ہے _ جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف مذکورہ صفات کا حامل ہی امامت کا مستحق ہوسکتا ہے _ کوئی اور شخص مثلا ظالم آدمی نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا فرماتا ہے '' لا ینال عہدی الظالمین'' میرا عہدہ ظالموں کو نہیں مل سکتا_ اور ایسا شخص صرف علیعليه‌السلام ہی ہوسکتا ہے_

قول مصنف : حضرت علیعليه‌السلام کی امامت اور خلافت نبی کی طر ف سے بھی نہیں بلکہ خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے تا کہ مانگی گئی اور ترغیب دی گئی مدد کا نتیجہ بنے_ حالانکہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے کہ علیعليه‌السلام کے سوا اور کوئی جواب دینے والا نہیں ہے_ پس دعوت ذوالعشیرہ کا ماجرا ا تمام حجت کے لئے تھا تا کہ کوئی بہانہ بھی باقی نہ رہے پس جناب مظفر صاحب کی بات ہی بہتر اور حقیقت کے قریب ہے_

___________________

۱_ بحارالانوار ج ۱۸ ص ۲۱۵،۲۱۶ نے سعد السعود ص ۱۰۶ سے نقل کیا ہے_

۲۷

پانچویں اور آخری اعتراض کا جواب

یہ آخری اعتراض تو کسی صورت میں بھی درست نہیں کیونکہ اولاً: جناب حمزہعليه‌السلام کا قبول اسلام اس وقت مانع بن سکتا ہے جب یہ آیہ انذار کے نزول سے قبل واقع ہوا ہو اور ہم تو اس کا احتمال بھی نہیں دے سکتے چہ جائیکہ اس کا یقین کریں_

کیونکہ جناب حمزہعليه‌السلام کے قبول اسلام کی کیفیت میں منقول روایات کی رو سے صریحاً نہیں تو بظاہر یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آپ اعلانیہ دعوت اسلام کے بعد اس وقت مسلمان ہوئے جب قریش کھل کر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت پر اتر آئےتھے اور حضرت ابوطالب کے ساتھ ان کے مذاکرات بھی ہوچکے تھے_

ثانیاً: اگر ہم مذکورہ بات کو تسلیم بھی کرلیں(۱) تو ممکن ہے دعوت ذوالعشیرہ کا واقعہ خفیہ دعوت کے دوران اورجناب حمزہ کے قبول اسلام سے پہلے پیش آیا ہو_ البتہ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب حضرت حمزہ کا قبول اسلام بعثت کے دوسرے سال واقع ہوا ہو اورجناب حمزہ اور ابوجہل کے درمیان پیش آنے والا واقعہ ایک حد تک دعوت اسلام کو آشکار کرنے کا باعث بنا ہو_ اور قریش نے خفیہ دعوت کے دوران ہی نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہو_ رہا مسئلہ دوسرے مسلمانوں کا تو ان کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روابط مخصوص طرز پر تھے اور ان کے قبول اسلام کے بارے میں رازداری برتی جاتی تھی_ ہماری بات کی تائید اس آیت (فاصدع بما تو مر) سے ہوتی ہےکیونکہ اسی آیت کے باعث اسلام کی خفیہ دعوت نے اعلانیہ دعوت کی شکل اختیار کرلی اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دعوت ذوالعشیرہ کا واقعہ اس سے پہلے کا ہے_

ثالثاً: اگر حضرت حمزہ اس وقت اسلام لابھی چکے ہوتے تو ان کی مثال حضرت ابوطالب جیسی تھی اور ان دونوں نے اپنے آپ کو اس دعوت کا مطلوب و مقصود ہی نہ سمجھا تھا (یعنی ان دونوں کو علم تھا کہ اس دعوت سے ہم مراد نہیں ہیں) خصوصاً جب وہ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان کا زندہ رہنا نہایت مشکل ہے_ کیونکہ حضرت حمزہ تقریباً حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم عمر تھے اور حضرت ابوطالبعليه‌السلام تو نہایت عمر رسیدہ تھے اور حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات تک

___________________

۱_ کہ جناب حمزہعليه‌السلام نے خفیہ دعوت اسلام کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا _ (مترجم)

۲۸

ان کے زندہ رہنے کی توقع نہ تھی_ بنابرایں اس بات کی گنجائشے نہ تھی کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین بننے کیلئے پیش کرتا_

خلاصہ یہ کہ ابن تیمیہ کے سارے اعتراضات بے حقیقت سراب کی مانند ہیں یا اس راکھ کی طرح ہیں جسے تند و تیز ہوا اڑا کر لے جائے_

واقعہ انذار اور چند اہم نکات

الف_ غیر معتبر روایتیں

ابن تیمیہ نے اس قسم کی احادیث کو تقویت دینے کی کوشش کی ہے جو نہ صرف حضرت علیعليه‌السلام اور اہل بیت کو منظر سے ہٹا دیتی ہیں بلکہ عمومی طور پر بنی ہاشم کو بھی نظروں سے اوجھل کردیتی ہیں_ مثال کے طور پر بخاری اور مسلم و غیرہ کی وہ روایات جو کہتی ہیں کہ جب آیہ( و انذر عشیرتک الاقربین ) اتری تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے قریش کو جمع کیا، جب سب جمع ہوگئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمومی اور خصوصی دعوت دے کر فرمایا:'' اے بنی کعب بن لوی اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، اے بنی مرة بن کعب اپنے آپ کو عذاب آتش سے بچاؤ، اے بنی ہاشم آتش الہی سے بچو، اے بنی عبدالمطلب عذاب آتش سے بچو_ اور اے فاطمہ بنت محمد آتش الہی سے اپنے آپ کو بچاؤ''_(۱) آخر روایت تک_

ایک اور روایت میں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی ہاشم کو جمع کیا، مردوں کو دروازے کے سامنے بٹھایا اور عورتوں کو گھر کے اندر بٹھایا پھر بنی ہاشم سے بات چیت کی_ اس کے بعد اپنے گھر والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:'' اے عائشہ بنت ابوبکر اے حفصہ بنت عمر اے ام سلمہ اے فاطمہ بنت محمد اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی چچی ام

___________________

۱_ رجوع کریں: منھاج السنة ج ۴ ص ۸۳ و درالمنثور ج ۵ ص ۹۵ اور ۹۶ از احمد، عبد بن حمید، بخاری، مسلم، ترمذی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور بیہقی نے حضرت عائشہ ، انس، عروہ بن زبیر، براء اور قتادہ سے نقل کیا ہے نیز تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۲۸۷_

۲۹

زبیر رضائے الہی کے بدلے اپنی جانوں کا سودا کرواور اپنی نجات کیلئے جدوجہد کرو_ میں خدا کی جانب سے تمہارے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتا''_ یہ سن کر حضرت عائشہ رو پڑی اور کہا (اس کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور حضرت عائشہ کے درمیان گفتگو کا تذکرہ ہے)_(۱)

ان کے علاوہ دیگر روایات بھی منقول ہیں جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے قریش کو دعوت دینے اور ان کو ڈرانے کا تذکرہ موجود ہے_ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایات درست نہیں ہوسکتیں کیونکہ:_

۱) جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ اس وقت تک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی _

۲) حضرت عائشےہ،(۲) حضرت حفصہ اور ام سلمہ سے اس وقت تک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی شادی ہی نہیں ہوئی تھی اور نہ وہ آپ کے اہل میں شامل تھیں ان تینوں سے آپ کی شادی کئی سال بعد مدینے میں ہوئی_

۳) یہ روایات ان احادیث کے منافی ہیں جن کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کو اس وقت دعوت اسلام دی جب (فاصدع بما تو مر ...) والی آیت نازل ہوئی_ اور '' و انذر عشیرتک الاقربین'' والی آیت کے نزول پر قریش کو دعوت نہیں دی تھی_

۴) یہ روایات خود قرآن کی آیت( انذر عشیرتک الاقربین ) کی بھی مخالف ہیں کیونکہ یہ آیت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہ تو تمام قبیلہ والوں کو دعوت کا حکم دیتی ہے اور نہ ہی تمام لوگوں کو بلکہ صرف اپنے قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم دیتی ہے _ظاہر ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبی رشتہ دار یا تو بنی ہاشم ہوسکتے ہیں یا بنی عبدالمطلب اور بنی مطلب_

___________________

۱_ درالمنثور ج۵ ص ۹۶ از طبرانی و ابن مردویہ از ابی امامہ_ یہ روایات دیگر متعدد منابع میں بھی موجود ہیں خصوصاً جن مآخذ کا ذکر ہم نے اس بحث کی ابتدا میں کیا تھا_

۲_ عجیب بات تو یہ ہے کہ ان کے عقیدے کی رو سے حضرت عائشہ بعثت کے پانچویں سال پیدا ہوئیں اور دعوت ذوالعشیرہ کا واقعہ بھی اسی سال کی بات ہے یوں وہ صریحاً تضاد گوئی کے شکار ہوئے ہیں_ اگرچہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ بعثت سے کئی سال قبل پیدا ہوئیں جس کی طرف اشارہ ہوگا_ انشاء اللہ تعالی_

۳۰

واقعہ انذار کے کئی بار واقع ہونے کا قول بھی اس ا شکال کو دور نہیں کرسکتا_ کیونکہ روایات صریحاً کہتی ہیں کہ یہ واقعہ مذکورہ آیت کے نزول کے ساتھ ہی پیش آیا_

ان باتوں کے علاوہ یہ روایات اسناد کے لحاظ سے بھی قابل اعتراض ہیں کیونکہ ان احادیث کے راویوں میں سے کوئی بھی مورخین کے بقول دعوت ذوالعشیرہ کے وقت موجود نہ تھا_

ب_ '' خلیفتی فی اھلی ''سے کیا مراد ہے؟

شیخ مظفر کے بقول یہ بات واضح ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے''خلیفتی فیکم'' یا''خلیفتی فی اهلی'' فرمانے پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا کیونکہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیک وقت دو ایسے خلیفے نہیں ہوسکتے جن میں سے ایک خاص ہو دوسرا عام بلکہ جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خلیفہ خاص ہوگا وہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خلیفہ عام بھی ہوگا_

یہاں پر صحیح ترین عبارت''من بعدی'' ہی ہوسکتی ہے (جیساکہ دیگر روایات میں بھی موجود ہے) یا پھر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ''فیکم'' پر مشتمل ارشاد میں آپ کے حقیقی مخاطب ایمان لانے والے لوگ تھے_

رہا بعض لوگوں کا یہ دعوی کہ''خلیفتی فی اهلی'' یا''فیکم'' سے مراد وہ شخص ہے جو ان کے دنیاوی امور کا ذمہ دار ہو تو یہ بات تاریخی حقیقت نہیںرکھتی_ کیونکہ واضح ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کسی ہاشمی کے دنیاوی امور کے ذمہ دار نہیں تھے_ اگر کوئی یہ کہے کہ مراد فقط حضرت حسنینعليه‌السلام اور حضرت فاطمہعليه‌السلام ہیں تو اس کا جواب بھی واضح ہے_ کیونکہ جناب حسنینعليه‌السلام ( حتی کہ ان کی والدہ بھی )اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے مزید یہ کہ وہ خلافت کی بنیاد پر ان کے کفیل نہیں تھے بلکہ وہ ویسے ہی ان تینوں کے نفقہکے ذمہ دار تھے_ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کے اخراجات آپ کے ذمہ نہ تھے اور نہ ہی آپ نے عملاً اس کام کو انجام دیا_(۱)

___________________

۱_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۲۳۹ کی طرف رجوع کریں _

۳۱

ج_ فقط رشتہ داروں کی دعوت کیوں؟

واضح سی بات ہے کہ نزدیکی رشتہ داروں کی دعوت آپ کے مشن کی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور آپ کے پیغام کو پھیلانے کا بہترین ذریعہ تھی_ کیونکہ اصلاح کی ابتدا ہمیشہ اندر سے ہونی چاہیئے تاکہ اپنے اہل خاندان اور قبیلہ کی حمایت حاصل کرنے کے بعد دوسروں کی جانب اطمینان، ثابت قدمی اور عزم راسخ کے ساتھ رخ کیا جا ئے_

علاوہ ازیں ان کو دعوت دیکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باہمی روابط اور جذبوںکے حوالے سے قوت و ضعف کے اندرونی عوامل کو پرکھ سکتے تھے اور مستقبل میں حاصل ہونے والی حمایت کا اندازہ لگا کر اس کی روشنی میں اپنے اقدامات اور پالیسیوں کی حدود کو معین فرما سکتے تھے_

یہ بھی بتاتے چلیں کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریبی رشتہ داروں سے دعوت اسلام کا آغاز کیا اور اس مرحلہ میں بھی کسی کو کوئی امتیاز اور خصوصیت دینے پر تیار نہیں تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی جان لینا چاہئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اعتماد بہ نفس رکھتے ہیں اور اپنے دعوے کے صحیح ہونے پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پورا یقین ہے _ کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے سب سے پیارے افراد کے لئے یہ بھلائی چاہتے ہیں کہ وہ ان مؤمنین کی صف میں شامل ہوجائیں جو اس دین کی راہ میں سب سے بڑی قربانی دینے پر بھی تیار ہیں_ اور ہم نے دیکھا کہ واقعہ مباہلہ میں نصاری اس بات کا ادراک کرتے ہوئے مباہلہ کئے بنا واپس لوٹ گئےیہ بھی پیش نظر رہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے تھے جس میں باہمی تعلقات کی بنیاد ''قبیلہ'' تھی_ بنابریں چونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنیادی اور تقدیرساز اقدامات کرنا چاہتے تھے اور اس بات پر بھی ذاتی طور پر راضی نہ تھے کہ اپنے موقف کی حمایت یا اپنے اہداف کے حصول میں قبیلہ پرستی شامل ہو جائے، لہذا اس بات کی ضرورت تھی کہ آپ رشتہ داروں کے معاملے میں ایک واضح موقف اپناتے اور انہیں مکمل آزادی اور صدق دل کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو واضح طور پر سمجھنے کا موقع فراہم کرتے_ تاکہ اس سلسلے میں معاشرے میں رائج کسی بھی قسم کے خاندانی و قبائلی تعلقات کے دباؤ سے کام نہ لیا جائے کیونکہ یہ اسلام کی نظر میں صحیح نہیں تھا_

۳۲

یہیں سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ مختلف حالات کا سامنا کرنے اور ان کاحل پیش کرنے کے بارے میں اسلام کی روش کیا ہے_ اسلام نہیں چاہتا کہ اپنے مقاصد اور مفادات کے حصول کیلئے لوگوں کی سادگی اور جہالت سے فائدہ اٹھائے_ یہاں تک کہ ان غلط رسوم و عادات سے بھی جنہیں لوگوں نے اپنی مرضی سے اپنایا ہو_

اسلام وسیلے کو ہدف کا ایک حصہ سمجھتا ہے_ بنابرایں وسیلے کو ہدف سے ہم آہنگ ہونا چاہیئے_ جس طرح ہدف مقدس ہے اسی طرح وسیلہ کا بھی مقدس اور پاک ہونا ضروری ہے_ خدا ہمیں اسلام کی ہدایت پر چلنے اور اس کی تعلیمات سے متمسک رہنے کی توفیق عنایت فرمائے_

خدا ہی امیدوں کا بہترین مرکز ہے اور طلب حوائج کیلئے سب سے زیادہ صاحب بخشش ہستی ہے_ بہرحال شیخ بطحاء ابوطالب کی طرف سے تعاون اور مدد کے بھرپور وعدے کے بعد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس جلسہ سے نکلے_ کیونکہ ابوطالبعليه‌السلام نے جب ابولہب کے نامعقول اور غیرانسانی موقف کو دیکھا تو فرمایا: ''اے پست انسان ،اللہ کی قسم ہم ضرور ان کی مدد کریں گے_ (پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے کہا) اے بھتیجے جب تم اپنے رب کی طرف دعوت دینا چاہو تو ہمیں پکارو ہم مسلح ہو کر تمہاری مدد کریں گے''_(۱)

د_ علیعليه‌السلام اور واقعہ انذار

ہم نے مشاہدہ کیا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ کے دن چالیس افراد کی میزبانی کے فرائض سنبھالنے کیلئے حضرت علیعليه‌السلام کا انتخاب کیا اور حکم دیا کہ کھانا تیار کر کے انہیں بلائیں اس لئے کہ حضرت علیعليه‌السلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے گھر میں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے ساتھ ہوتے تھے_حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جناب خدیجہ سے بھی کھانا تیار کرنے کو کہہ سکتے تھے کیونکہ بظاہر یہ دعوت رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں ہوئی نیز اس کام کیلئے دیگر لوگ بھی موجود تھے جو حضرت علیعليه‌السلام سے زیادہ مشہور تھے، مثلاً حضرت ابوطالبعليه‌السلام یا حضرت جعفر جو عمر کے لحاظ سے حضرت علیعليه‌السلام سے بڑے تھے اور ان کے علاوہ دوسرے افراد جن کی شخصیت اور نفوذ سے استفادہ کرسکتے_

___________________

۱_ تاریخ یعقوبی، ج ۲ ص ۲۷،۲۸_

۳۳

جی ہاں حضرت علیعليه‌السلام کا انتخاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بذات خود فرمایا تھا_کیونکہ حضرت علیعليه‌السلام اس وقت عمر کے لحاظ سے اگر چہ چھوٹے تھے، لیکن درحقیقت عقل کے لحاظ سے بڑے تھے_ آپ عظیم خصوصیات اور لیاقتوں کے مالک، نیز روحانی و معنوی بزرگی کے حامل تھے_ آپ کے اہداف و مقاصد عظیم تھے_ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حاضرین میں آپ ہی واحد فرد تھے جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد و نصرت کا اعلان کیا_ ساتھ ساتھ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم نے بھی اس دن علیعليه‌السلام کے کردار کی بناء پر آپ کو اپنا بھائی، وصی اور خلیفہ ہونے کا اہل سمجھا _یہ وہ مقام تھا جس تک کوئی رسائی حاصل نہ کرسکتا تھا بلکہ ایک دن کے لئے بھی اس کے حصول کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا _

لیکن حضرت علیعليه‌السلام نے کمسنی کے باوجود اس مقام کوپالیا اور باقی سب کو پیچھے چھوڑ دیا_ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی آغوش میں پرورش پائی_ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کی کفالت و تربیت کی تھی_ وہ آپ کو کھانا ٹھنڈا کر کے کھلاتے اور علیعليه‌السلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خوشبو سونگھتے تھے_ حضرت علیعليه‌السلام حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نقش قدم پر اس طرح چلتے جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے ہوتا ہے_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپ کو بیٹے کی طرح چاہتے تھے_(۱)

( و ذلک فضل الله یؤتیه من یشاء و الله ذوالفضل العظیم ) _

ھ_ ابولہب کا موقف

ابولہب نے دعوت اسلام کی حقیقت کو سمجھ لیا تھا اور اندازہ کرلیا تھا کہ اب یہ تحریک سنجیدگی کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے _ وہ ایک نیا معجزہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا تھا_ اس سے قبل بھی وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے

___________________

۱_ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے حضرت علیعليه‌السلام کی کفالت کے باعث شیخ الابطح ابوطالبعليه‌السلام پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا( جیساکہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں )کیونکہ جناب عبداللہ اور جناب ابوطالب اپنے باقی بھائیوں کے برخلاف ایک ہی ماں سے پیدا ہوئے تھے_ ادھر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش ابوطالبعليه‌السلام نے کی تھی_ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاطمہ بنت اسد کو ماں کہہ کر پکارتے تھے حضرت ابوطالب اور ان کی زوجہ حضرت فاطمہ بنت اسد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا بڑا خیال رکھتے تھے اسی طرح رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علیعليه‌السلام کی عمروں میں تفاوت کو مدنظر رکھتے ہوئے ( یہ کہا جاسکتاہے کہ ) حضرت علیعليه‌السلام بھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بیٹے کی حیثیت رکھتے تھے_

۳۴

متعدد معجزات و کرامات کا مشاہدہ کرچکا تھا اور آج بھی اس نے دیکھا کہ کس طرح گوشت کی ایک ران اور دودھ کا ایک برتن چالیس افراد کیلئے کافی ثابت ہوا_

ابولہب اس دین کی حقیقت اور اہداف کو سمجھ رہا تھا جس کی جانب حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہدایت فرمارہے تھے اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان امتیازات کی کوئی حیثیت نہیں جو طاقت، ظلم و عدوان اور ناجائز طریقوں سے حاصل ہوئے ہوں_ بنابرایں وہ اپنی غیرمعقول سوچ کے مطابق یہ ضروری سمجھتا تھا کہ اس دین کے مقابلے پر اتر آئے اور ہر ممکنہ طریقے سے اس دین کو اس کے اہداف تک پہنچنے سے روکے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو موقع سے فائدہ اٹھانے کی مہلت نہ دے تاکہ یوں ایک طرف سے وہ اپنے مفادات کو بچائے، اور دوسری جانب سے اپنے سینے میںکینے اور حسد کی بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرسکے_ اس کینے کی کوئی وجہ اور بنیاد نہ تھی سوائے اس کے کہ وہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات میں صفات جمیلہ اور اخلاق کریمہ کا مشاہدہ کرتا تھا_ ظاہر ہے اس کی نظر میں اس سے بڑا جرم اور کیا ہوسکتا تھا_

ابولہب نے عملی طور پر اس کینہ و حسد کا ثبوت دیا_ اس نے کھانے والے معجزے کو (جسے سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا) غلط رنگ دیا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ پر جادو کا الزام لگاتے ہوئے کہا: ''تمہارے ساتھی نے تم پر بڑا سخت جادو کر دکھایا''_ یہ سن کر وہ لوگ اس دن چلے گئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اپنے دل کی بات نہ کرسکے_ یہاں تک کہ دوسرا دن آیا اور حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حکم الہی کو ان تک پہنچانے اور اتمام حجت کرنے میں کامیاب ہوئے جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے_

و_ پہلے انذار پھر

واقعہ انذار کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بتانا ضروری ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو خدا کی جانب سے حکم ہوا تھا کہ آپ پہلے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو ڈرائیں چنانچہ ارشاد ہوا: (وانذر عشیرتک الاقربین)(۱)

___________________

۱_ سورہ شعرائ، آیت ۲۱۴_

۳۵

اوردوسرے لوگوں کے معاملے میں بھی یہی صورت حال تھی_ چنانچہ سورہ مدثر میں (جو بعثت کے اوائل میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے) اللہ نے اپنے پیارے نبی سے فرمایا: (قم فانذر) اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٹھو اور لوگوں کو (عذاب الہی سے) ڈراؤ_(۱) _

ایسا کیوں ہے ؟ حالانکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ لوگوں کیلئے مبشر و نذیر (خوشخبری دینے اور ڈرانے والے) کی حیثیت سے مبعوث ہوئے تھے جس طرح خود قرآن ، ہدایت بھی ہے اور بشارت بھی_ اس کی علت واضح ہے کیونکہ لوگ ابتدائے بعثت میں کافر تھے اور ظلم و انحراف کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے_ بنابریں پہلے ان کو ڈرانے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اس خطرناک صورتحال کی طرف متوجہ ہوں جس میں وہ زندگی گزار رہے تھے اور ان خوفناک و تباہ کن نتائج سے باخبر ہوں جو مذکورہ صورتحال کے نتیجے میں پیش آتے ہیں_ عذاب کی جانب ان کی توجہ ، غفلت سے بیدار ہونے اور اس خطرناک صورتحال سے نکلنے کے لئے عملی قدم اٹھانے کے لئے مؤثر ہوسکتی تھی_

اس کے بعد انفرادی و اجتماعی سطح پر معاشرے کو غلط آداب و رسوم اور خرابیوں سے نجات دلانے اور اجنبی اوربے سور افراد سے پاک کرنے کا مرحلہ آتا_ اس کے ساتھ ساتھ صحیح انسانی جذبات، باہمی روابط اور سب سے بڑھ کر فکری و تہذیبی سطح پر اسلامی معاشرے کو صاف اور مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی باری آتی_ پھر اس اسلامی معاشرے کو کائنات، زندگی اور طاقتور ہوتے ہوئے بھی کمزور انسان کے حقیقی مفہوم سے آگاہ کرنے کا موقع ملتا اور انسان کی باطنی تعلیم و تربیت و اصلاح کیلئے قدم اٹھایا جاسکتا،جو نبی، امام اور مبلغین حق کی ذمہ داری ہے،چنانچہ کتاب کے اس حصّہ کے شروع میں ہم نے اس آیت قرآنی کی طرف اشارہ کیا:( هو الذی بعث فی الامیین رسولاً منهم یتلوعلیهم آیاته ویزکیهم ویعلمهم الکتاب والحکمة ) یعنی اللہ ہی نے مکہ والوں میں ،انہی میں سے ایک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتا اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی باتیں سکھاتا ہے_

___________________

۱_ سورہ مدثر/۲_

۳۶

اسلام کے طریقہ تبلیغ کے بارے میں جو کچھ ہم نے عرض کیا وہ درحقیقت ہر اس دعوت یا تحریک کا فطری تقاضا ہے جو بنیادی اصلاح اور مشکلات زندگی کو حل کرنے کی طالب ہو_

ز_روز انذار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا فرمان :

بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''اے اولاد عبدالمطلب میں خدا کی جانب سے تمہیں ڈرانے آیا ہوں میں وہ چیز لے کر آیا ہوں جسے اب تک کوئی عرب لیکر نہیں آیا اگر میری اطاعت کرو گے تو ہدایت، فلاح اور نجات پاؤگے آج کے اس کھانے کے بارے میں مجھے خدا کی جانب سے حکم ہوا تھا_ پس میں نے اسے تمہارے لئے تیار کیا جیساکہ حضرت عیسیعليه‌السلام نے اپنی قوم کیلئے کھانے کا بندوبست کیا تھا _اس کے بعد اگر تم میں سے کسی نے کفران کیا تو خداوند عالم اس کو ایسے شدید عذاب میں مبتلاکرے گا کہ پورے عالم میں کسی اور کو مبتلا نہ کیا ہوگا پس خدا سے ڈرو اور میری بات سنو_

اے بنی عبدالمطلب جان لو کہ خدا نے کسی نبی کو بغیر کسی بھائی، وزیر، وصی اور وارث کے مبعوث نہیں کیا_ بتحقیق اس نے میرے لئے بھی کسی کو وصی قرار دیا ہے جس طرح مجھ سے پہلے والے انبیاء کیلئے قرار دیا تھا_ بے شک اللہ نے مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا ہے اور مجھ پر یہ حکم نازل کیا ہے( وانذر عشیرتک الاقربین ) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں اور مخلص لوگوں کو خدا کا خوف دلاؤ_

خدا کی قسم اس نے مجھے اپنے وصی اور وزیر کی خبر دی ہے اور اس فرد کا نام بھی بتا دیا ہے لیکن میں تمہیں دعوت دیتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں_ نیز تمہیں اس عہدے کی پیشکشکرتا ہوں تاکہ بعد میں تمہارے لئے کوئی بہانہ نہ ر ہے، تم لوگ میرے رشتہ دار اور میرے قبیلہ والے ہو _پس تم میں سے کون ہے جو اس امرکی طرف پیش قدمی کرے تاکہ وہ خدا کی راہ میں میرا بھائی میرا وزیر اور مددگار بنے''_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا یہ کلام کتاب کی اس فصل کی ابتدا میں مذکور عبارت سے ہم آہنگ ہے_(۱) اور یہ تصریح شاید اس جیسے عظیم موقف

___________________

۱_ بحار الانوار ج۱۸ص ۲۱۵،۲۱۶ نے ابن طاووس کی کتاب سعد السعود ص ۱۰۶ سے نقل کیا ہے_

۳۷

سے بھی مکمل ہم آہنگ ہے_ اسی طرح یہ الفاظ آیت میں حکم انذارسے بھی پوری طرح مرتبط ہیںکیونکہ ہر تحریک کا پہلا قدم ''انذار'' ہی ہوتا ہے جس طرح کہ ہم نے یہ بات پہلے بھی کئی مرتبہ ذکر کی ہے_

ح_ بشارت و انذار

عظیم محقق شہید شیخ مرتضی مطہری کہتے ہیں: ''جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کسی فرد کو کسی کام پر آمادہ کرے تو اس کے دو طریقے ہیں ایک بشارت و حوصلہ افزائی اور اس کام کے فوائد کو بیان کرنا اور دوسرا اس کام کے ترک کرنے پر جو برے نتائج ہیں ان سے ڈرانا''_

اسی لئے کہا گیا ہے کہ انذار پیچھے سے حیوان کو ہانکنے کی طرح اور بشارت و تشویق آگے سے کھینچنے کی طرح ہے_

قرآن و اسلام کی نظر میں انسان ان دونوں باتوں کا ایک ساتھ محتاج ہے_ ان میں سے فقط ایک کافی نہیں بلکہ اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ بشارت اور تشویق کے پلڑے کو انذاز و تخویف کے پلڑے پر بھاری ہونا چاہئے اسی لئے قرآن کی اکثر آیات میں بشارت کو انذار پر مقدم کیاگیا ہے_

چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بھی معاذ بن جبل کو یمن بھیجتے وقت فرمایا ''یسر ولاتعسر وبشر ولاتنفر'' (آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرو نہ کہ کاموں کو مشکل بنانے کی نیز لوگوں کو راضی رکھنے کی کوشش کرو نہ کہ دور کرنے کی)_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہاں انذار و تخویف کی نفی نہیں کی بلکہ یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حکمت عملی کا حصہ تھا _ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تشویق کے پہلو کو زیادہ اہمیت دی کیونکہ اس پہلو سے اسلام کی معنویت اور خوبیوں کا بہتر ادراک ہوسکتا تھا_

علاوہ بریں اس طرح لوگوں کا قبول اسلام مکمل رضا و رغبت کے ساتھ عمل میں آتا_ رہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ''لاتنفر'' فرمانا تو اس کی وجہ واضح ہے کیونکہ انسان کی روح نہایت لطیفہے اور بہت جلد ردعمل کا اظہار کرتی ہے_ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں اس وقت عبادت کرنے کا حکم دیا ہے جب دلی رغبت موجود ہو_

۳۸

دباؤ یا ناقابل برداشت امور پر زبردستی کی صورت میں نفس اس چیز کو قبول نہیں کرتا_ سہولت اور آسانی پر مبنی اسلامی شریعت میں اس کی بہت ساری مثالیں مل سکتی ہیں_(۱)

مذکورہ بیانات کی روشنی میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اپنے رشتہ داروں کو جو دعوت دی تھی اس میں آپ نے ہر چند ابتدا تخویف و انذار سے کی تھی لیکن کیوں تشویق کے پہلوکو بھی مدنظر رکھا اور فرمایا :'' جو میری کی مدد کرے گا وہ میرےبعد میرا خلیفہ ہوگا'' اور یہ ذکرکیاکہ میں دنیا و آخرت کی جملہ خوبیاں لے کر ان کے پاس آیا ہوں_ اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ طرز عمل ان لوگوں کی اندرونی خواہشات اور رغبتوں سے ہم آہنگ تھا_ اور یہ پیشکش اس ذات کی جانب سے تھی جسے کسی بھی صورت میں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا_

ط_ میرا بھائی اور میرا وصی

یہاں پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ ارشاد کہ وہ شخص میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہوگا، بھی قابل توجہ ہے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہ الفاظ اس الفت و محبت کی شدت کو خوب واضح کرتے ہیں جو آپ کی حمایت ونصرت کرنے والے فرد سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تھی _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنا بھائی قرار دیا گویا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس شخص کی نسبت حاکم و محکوم اور بڑے اور چھوٹے مرتبے والے کی سی نہ تھی بلکہ ان دونوں کا باہمی تعلق دو ہم مرتبہ انسانوں کا اور تعمیری مقاصد میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر مبنی تھا_ جس طرح ایک بھائی کا تعلق دوسرے بھائی سے ہوتا ہے محبت اعتماد اور خلوص سے لبریز_

فاصدع بما تؤمر

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے قریبی رشتہ داروں پر اتمام حجت کرچکے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کا مسئلہ مکہ میں معروف ہوچکا تو قریش نے مسئلے کی سنگینی اور اس کے جوانب کا ادراک کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

___________________

۱_ رجوع کریں: روزنامہ جمہوری اسلامی (فارسی) شمارہ ۲۵۴سال ۱۳۵۹ ہجری شمسی_ مقالات مطہریا_

۳۹

کے اوپر تہمتیں لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا_ تا کہ عام لوگوں کے سامنے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مرتبے کو گھٹائیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت کو مخدوش کریں، حالانکہ ابھی تک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے انہیں اپنی تعلیمات پر ایمان لانے کی دعوت نہیں دی تھی قریش کے اس رویے کی وجہ حسد، کینہ اور مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ خطرات کے علاوہ اورکچھ نہ تھا_

قریش کے تمسخرنے طبیعی طور پر اورخاص کر قبول اسلام کی جانب عوامی رغبت پر اپنا زبردست اثر دکھایا_ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس امر سے سخت فکرمند ہوئے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنی دعوت کے پھیلاؤ اور اپنے مشن کی راہ میں زبردست رکاوٹ سمجھا _چنانچہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا کہ اپنی دعوت کو ظاہر کریں اور کھل کر قریش سے خداپر ایمان لانے کا مطالبہ کریں_ اس کی ساتھ ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پکا وعدہ کیا کہ وہ مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری مدد کرے گا_ بنابریں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ضروری تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اہمیت نہ دیتے اور انہیں نظر انداز کردیتے ،حکم خدا یہ تھا:( فاصدع بما تؤمر و اعرض عن المشرکین انا کفیناک المستهزئین ) (۱) یعنی اے رسول جس چیزکا آپ کو حکم ہوا ہے اس کا بر ملا اظہار کریں اور مشرکین کو نظر انداز کردیں ہم مسخرہ کرنے والوں کے شرسے آ پ کو بچائیں گے_

اللہ تعالی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے واضح کیا کہ مستقبل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لائحہ عمل کیا ہوگا چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم ہوا کہ حسن سلوک کو اپنائیں ،مشرکین کے معاملے کواہمیت نہ دیں، پریشان نہ ہوں اور ان کی باتوں سے دل گیر بھی نہ ہوں_ ان کا انجام اس خدا کے ہاتھ میں ہے جو ہر چھوٹی بڑی چیز سے آگاہ ہے_

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم خداوندی کی تعمیل کی ، اپنی تبلیغ کو آشکار کیا اور سارے لوگوں کو خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی_ کہتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک پتھر پرکھڑے ہوکر فرمایا: ''اے گروہ قریش و عرب میں تمہیں اس بات کی گواہی دینے کی دعوت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں تمہیں مصنوعی خداؤں اور بتوں کے چھوڑنے کا حکم دیتا ہوں _میری بات مانو ،اگر ایسا کرو گے تو پورے عرب کے

___________________

۱_ سورہ حجر، آیت ۹۴،۹۵_

۴۰

مالک بن جاؤ گے اور عجم بھی تمہارے مطیع ہونگے نیز جنت میں بھی تمہاری بادشاہی ہوگی''_ لیکن قریش نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑایا اور وہ کہنے لگے کہ محمد بن عبداللہ مجنون ہوگیا ہے البتہ حضرت ابوطالب کی سماجی حیثیت کے پیش نظر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف کوئی عملی کاروائی نہ کرسکے_(۱)

یہ بھی منقول ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صفاکی پہاڑی پر کھڑے ہو کر قریش کو پکارا جب وہ جمع ہوگئے تو فرمایا:''اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک لشکر تمہارا منتظر ہے تو کیاتم میری تصدیق کرو گے؟''_ وہ بولے:'' کیوں نہیں ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں کوئی بدی نہیں دیکھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کبھی کوئی جھوٹ نہیں سنا تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہیں شدید عذاب سے ڈراتا ہوں ...'' اس پر ابولہب نے کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہا ''تیرا سارا دن بربادی میں گزرے، کیا اتنی سی بات کیلئے لوگوں کو اکٹھا کیا تھا؟'' یہ سن کر سارے لوگ متفرق ہوگئے اور اس پر سورہ( تبت یدا ابی لهب ) نازل ہوئی_(۲)

ناکام مذاکرات

ابن اسحاق وغیرہ کا بیان ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بحکم خدا اپنی قوم کے سامنے علی الاعلان ًاسلام کو پیش کیا تو اس وقت لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دور ہوئے نہ آپ کی مخالفت کی_ لیکنجب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے معبودوں کی برائی بیان کی تو اس وقت انہوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف متحد ہوگئے سوائے ان لوگوں کے کہ جن کواللہ تعالی نے اسلام کے ذریعے ان سے بچایا_ یہ لوگ کم بھی تھے اور بے بس بھی_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے چچا حضرت ابوطالب نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کرتے ہوئے دشمنوں کے مقابلے میں آپ کا دفاع کیا اور پیغمبراکرم بلاروک ٹوک اعلانیہ حکم الہی بجالاتے رہے_

___________________

۱_ تفسیر نور الثقلین ج۳ص۳۴کہ تفسیر قمی سے نقل کیا ہے_

۲_ اس حدیث کو مفسرین نے نقل کیا ہے اور سیوطی نے در منثور میں، نیز غیر شیعہ مورخین نے بھی واقعہ انذار کے ضمن میں نقل کیا ہے لیکن ہم واضح کرچکے ہیں کہ آیہ انذار میں سارے رشتہ دار مراد نہیں بلکہ فقط قریبی رشتہ دار ہی منظور ہیں_ بنابریں یہ روایت مذکورہ ارشاد الہی (فاصدع بما تو مر) کے ساتھ ہی سازگار معلوم ہوتی ہے_

۴۱

جب قریش نے یہ دیکھا کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی مخالفت کے باوجود باز نہیں آتے، ان کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے نہیں رکتے اور آپ کے چچا حضرت ابوطالب بھی آپ کی حمایت کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قریش کے حوالے کرنے سے گریزاں ہیں تو انہوں نے حضرت ابوطالب کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی_ یہ مذاکرات (ا بن اسحاق وغیرہ کے خیال میں) تین مراحل سے گزرے اور سب کے سب بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئے_

پہلا مرحلہ:

قریش کے چند سر کردہ افراد (جن کے ناموں کا مورخین نے ذکر کیا ہے) حضرت ابوطالب کے پاس گئے اور کہا :''اے ابوطالب آپ کے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا ہے ہمارے دین کی برائی بیان کی ہے_ ہمارے نظریات کو باطل اور ہمارے آباء و اجداد کو گمراہ قرار دیا ہے پس یاتو آپ خود اس کو روکیں یا ہمارے اور اس کے درمیان حائل نہ ہوں کیونکہ آپ بھی ہماری طرح ( نظریاتیلحاظ سے) اس کے مخالف ہیں_ یوں ہم اس سے آپ کو بھی بچائیں گے''_ حضرت ابوطالبعليه‌السلام نے ان سے نرم گفتگو کی اور اچھے طریقے سے انہیں ٹال دیا چنانچہ وہ چلے گئے_

دوسرا مرحلہ:

جب مشرکین نے دیکھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنے دین کی ترویج وتبلیغ میں مصروف ہیں یہاں تک کہ ان کے درمیان معاملہ بگڑنے لگا ہے_ لوگوں میں دشمنی اور اختلاف پیدا ہوچکا ہے اور قریش کے در میان کثرت سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا ذکر ہونے لگا ہے تو وہ حضرت ابوطالب کے پاس گئے اور دھمکی دی کہ اگر وہ اپنے بھتیجے کو ان کے آباء و اجداد کو برا بھلا کہنے ، ان کے نظریات کو باطل ٹھہرانے اور ان کے خداؤں کو بُرا کہنے سے نہیں روکیں گے تو وہ ان دونوں کے مقابلے پر اترآئیں گے اور ان سے جنگ

۴۲

کریں گے یہاں تک کہ کوئی ایک فریق ہلاک ہوجائے_ اس دھمکی کے بعد وہ چلے گئے_

حضرت ابوطالب نے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بات کی اطلاع دی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اور ان کے اوپر رحم کھائیں اور ناقابل برداشت بوجھ نہ ڈالیں حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سوچاکہ چچا کا ارادہ بدل چکا ہے اور وہ آپ کی نصرت و حمایت کی طاقت نہیں رکھتے چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' اے چچا خدا کی قسم اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تاکہ میں اس امر سے دست بردار ہوجاؤں پھر بھی میں ہرگز باز نہیں آؤں گا یہاں تک کہ خدا اپنے دین کوغالب کر دے یا میں اس دین کی راہ میں قتل ہوجاؤں'' یہ دیکھ کر حضرت ابوطالب نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کا وعدہ کیا_

تیسرا مرحلہ:

اس دفعہ قریش نے حضرت ابوطالب کویہ پیشکش کی کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی جگہ عمارة بن ولید کو اپنا بیٹا بنالیں اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو( جن کے بارے میں قریش کا خیال تھا کہ انہوں نے ابوطالب اور ان کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی تھی، مشرکین میں اختلاف ڈالا تھا اور ان کی آرزوؤں کو پامال کیا تھا) ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کریں_ تو اس طرح سے آدمی کا بدلہ آدمی سے ہوجائے گا _

حضرت ابوطالب نے کہا:'' خدا کی قسم تم نے میرے ساتھ نہایت برا سودا کرنے کا ارادہ کیا ہے_ تم چاہتے ہو کہ اپنا بیٹاپلنے کے لئے میرے حوالے کرو اوراس کے بدلے میں میں اپنا بیٹا قتل ہونے کے لئے تمہارے حوالے کردوں _خدا کی قسم ایسا کبھی نہیں ہوسکتا''_

یہ سن کر مطعم بن عدی نے کہا:'' اے ابوطالب اللہ کی قسم تیری قوم نے تیرے ساتھ انصاف کیا ہے انہوں نے اس چیز (افتراق و انتشار) سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جوتجھے بھی نا پسند ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تو ان کی کوئی بات قبول نہیں کرنا چاہتا''_ حضرت ابوطالب نے کہا:'' واللہ انہوں نے تومیرے ساتھ نا انصافی کی ہے لیکن تونے مجھے بے یار ومددگار بنانے اور لوگوں کو میرے مقابلے میں لاکھڑا

۴۳

کرنے کا ارادہ کیا ہے_ پس تیری جو مرضی ہو وہ کر کے دیکھ لے''_ حضرت ابوطالب کی اس بات کے بعد معاملہ بگڑ گیا مخالفت کا بازار گرم ہوگیا اور لوگوں نے کھلم کھلا دشمنی شروع کردی_

ممکن ہے کہ یہ مراحل اسی ترتیب سے واقع ہوئے ہوں اور ممکن ہے کہ یہ ترتیب نہ رہی ہو_ بہرحال ہم نے جو کچھ کہا وہ ہمارے نزدیک بلا کم و کاست حالات و واقعات کے(۱) طبیعی سفر کی ایک تصویر کشی تھی البتہ اس گفتگو کے سلسلے کو جاری رکھنے سے قبل درج ذیل نکات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں_

الف: اس ناکامی کے بعد

ہم نے ملاحظہ کیا کہ مشرکین مکہ نے شروع شروع میں یہ کوشش کی کہ وہ حضرت ابوطالب اور بنی ہاشم کے ساتھ نہ الجھیں_ چنانچہ انہوں نے خود حضرت ابوطالب کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے موقف سے ہٹائیں اور اس چیز کا خاتمہ کریں جسے وہ اپنے لئے مشکلات اور خطرات کا سرچشمہ سمجھتے تھے_ انہوں نے ابوطالب کو بھڑکانے اور انہیں اپنے بھتیجے کے خلاف یہ سمجھاکر اکسانے کی کوشش کی کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پیغام ان کے مفادات کے منافی اور دیگر لوگوں کے علاوہ خود حضرت ابوطالب کی ہمدردی و شفقت کو زک پہنچانے کے مترادف ہے_

اس بناپر طبیعی تھا کہ خود حضرت ابوطالب اپنے بھتیجے کی سرگرمیاں محدود کرتے_ اور قریش کو اس مسئلے سے نجات دلاتے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابوطالب نے ان کی بے سروپا باتوں کو تسلیم نہیں کیا اور ان کی ذات اور مفادات کو درپیش خطرات کی روک تھام کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو وہ دھمکی دینے پر اترآئے _ اس کے بعد انہوں نے مکروفریب اور دھوکے کی سیاست اپنائی( جیساکہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برائے قتل ان کے حوالے کرنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بدلے عمارة بن ولید کو بطورفرزند، حضرت ابوطالب کے حوالے کرنے کی کوشش سے ظاہر ہوتا ہے)اس واقعے نے ان کے دلوں میں پوشیدہ مقصد کو بھی ظاہر کر دیا _ نیز حضرت ابوطالب اور

___________________

۱_ رجوع کریں: سیرت ابن ہشام ج۱ ص۲۸۲،۲۸۶نیز البدء والتاریخ ج۴ص ۴۷،۱۴۹ نیز تاریخ طبری ج ۲ ص ۶۵،۶۸_

۴۴

دیگر لوگوں کیلئے واضح ہوا کہ ان کا مقصد دین حق کومٹانے اور نورالہی کو بجھانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں_ اس امرنے حضرت ابوطالب کو دین حق اور پیغمبراسلام کی حمایت پر مزید کمربستہ کر دیا_

ب: قریش کی ہٹ دھرمی کا راز

مشرکین مکہ کی ہٹ دھرمی اور نور الہی کو بجھانے کی کوششوں کا راز درج ذیل امور میں مضمر معلوم ہوتا ہے:

۱)قریش ،مکہ اور دوسرے مقامات کے غریبوں، غلاموں اور کمزوروں سے اپنے مفادات کے حصول کیلئے کام لیتے تھے_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے آکران بیچارے لوگوں کے اندر ایک تازہ روح پھونکی_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انسانی عظمت اور حریت کے تصور کو واضح کرنے کی کوشش شروع کی اورساتھ ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی دستگیری کرتے اور مسائل و مشکلات زندگی میں ان کے مددگار ہوتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی حقیقت خودان کیلئے آشکارکرتے تھے اور اسلامی تعلیمات سے ان کو بہرہ ور فرماتے تھے _ان تعلیمات کی ابتدائی باتوں میں سے ایک، ان ظالموں کے تسلط اور ظلم سے رہائی کی ضرورت کا مسئلہ بھی تھا_

۲)کفار مکہ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی تبلیغ اور اس کے مقاصد کو دیکھ کر یہ اندازہ کرچکے تھے کہ وہ اس دین کے زیر سایہ اپنے ناجائز امتیازات کو برقرار نہیں رکھ سکتے جنہیں ان ظالموں نے اپنے لئے مخصوص کررکھا تھا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ انہیں رد کر ر ہے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تاکید فرماتے تھے کہ خدا کی عدالت میں سب لوگ مساوی ہیں اس کے علاوہ یہ مشرکین، دین اسلام کے سائے تلے اپنی غیراخلاقی اور غیر انسانی اطوار کو برقرار نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ اسلام مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے آیا تھا اور یہ لوگ اپنے رسوم کے زبردست پابند تھے حتی کہ اپنے ان معبودوں کی عبادت سے بھی زیادہ پابند رسوم تھے جن کی نگہبانی کے وہ دعویدار تھے_ چنانچہ ایک دفعہ ایک عرب نے بھوک لگنے پر اپنے اس خدا کو کھالیا جسے اس نے کھجوروں سے تیار کیاہوا تھا_

۳)تیسرے سبب کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے( وقالوا ان نتبع الهدی معک نتخطف من ارضنا ) (۱) یعنی اگر ہم تمہارے ساتھ ایمان لے آئیں تو اپنی سرزمین سے اچک لئے جائیں گے،

۴۵

بالفاظ دیگر انہوں نے اسلام قبول نہ کرنے کیلئے یہ بہانہ تراشا کہ اگر وہ ایمان لے آئے تو مشرکین عرب ان کے ایمان لانے اور بتوں کو ٹھکرانے کی وجہ سے ناراض ہوجائیں گے_

قرآن نے اس کا جواب یوں دیا ہے( اولم نمکن لهم حرما آمنا يُجبی الیه ثمرات کل شی رزقا من لدنا ) (۲) کیا ہم نے انہیں امن کے مقام حرم مکہ میں جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل ہماری دی ہوئی روزی کی بناپر چلے آر ہے ہیں_

بنابرایں اس خوف کی کوئی وجہ نہ تھی نیز اس خوف کے بہانے شرک پر باقی رہنے سے بھی خطرہ ٹل نہیں سکتا تھا کیونکہ کتنی ہی بستیوں کو خدانے ہلاک کرڈالا تھا جن کے مکین نعمتوں کی کثرت کے باعث بہک گئے پھر ان گھروں میں رہنے والا کوئی نہ رہا بلکہ یہی بات دنیا میں ان کی ہلاکت کی وجہ بنی کیونکہ اگر ان تمام امکانات اور مادی وسائل کو صحیح راہوں پر چلانے والے اور حال و مستقبل کے لحاظ سے انفرادی اور اجتماعی طور پر فائدہ مند بنانے والے کوئی قواعد و ضوابط موجود نہ ہوں تو یہی چیزیں باہمی اختلافات، ظلم و استبداد اور معاشرتی و قومی بربادی والے دیگر انحرافات کا باعث بنتی ہیں_

ہر چیز کا اختیار خداکے دست قدرت میں ہے_ جو کوئی بھی اس کی نافرمانی کرتاہے وہ اپنی ذات کو دنیوی اور اخروی ہلاکت میں ڈال دیتا ہے پھر خدانے ان کیلئے قارون کی مثال بھی دی جس کے پاس اس قدر خزانے تھے جن کی چابیاں اٹھانے سے ایک طاقتورجماعت بھی عاجز تھی_ لیکن جب اس نے ہٹ دھرمی تکبر اور نافرمانی کا مظاہرہ کیا اور احکام الہی کی مخالفت کی تو خدانے اسے گھر سمیت زمین کے اندر دھنسا دیا_

متعلقہ سورہ کی آیات میں عجیب نکتے اور لطیف معانی پوشیدہ ہیں جو مستقل اور عمیق مطالعے کے محتاج ہیں لیکن یہاں اس کی گنجائشے نہیں یہاں ہم اسی اجمال اور اشارے پر اکتفا کرتے ہیں، خداوند عالم توفیق عطا کرنے اور مدد کرنے والا ہے_

___________________

۱ و ۲ _سورہ قصص، آیت ۵۷_

۴۶

مذاکرات کی ناکامی کے بعد

مذاکرات کی ناکامی کے بعدحضرت ابوطالب سمجھ گئے تھےکہ اب معاملہ سنگین صورت اختیار کرچکا ہے اور مشرکین سے کھلی جنگ کا مرحلہ قریب ہے لہذا حضرت ابوطالب نے حفظ ماتقدم کے طورپر بنی ہاشم اور بنی مطلّب سب کو جمع کیا اور ان کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی حمایت و حفاظت کرنے کی دعوت دی تو ابولہب ملعون کے سوا انہوں نے مثبت جواب دیااور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کیلئے آمادہ ہوگئے _

خدانے بھی اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور مشرکین آپ کا بال بھی بیکا نہ کرسکے ہاں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مجنون، ساحر، کاہن، اور شاعر کہہ کرپکارتے ر ہے لیکن قرآن ان لوگوں کو جھٹلاتا رہا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم راہ حق پرقائم ر ہے مشرکین کی افتراپردازیاں آپ کو خفیہ و اعلانیہ دعوت حق دینے سے کبھی نہ روک سکیں_

درحقیقت جب مشرکین نے دیکھا کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات کو ضرر پہنچانے کا نتیجہ مسلح جھڑپ ہوگا جس کیلئے وہ آمادہ نہ تھے اور خاص کر بنی ہاشم کے روابط اور قبائل کے ساتھ ان کے معاہدوں مثلاً مطیبین کے معاہدہ اور جناب عبدالمطلب کے ساتھ مکہ کے نواح میں رہنے والے قبیلہ خزاعہ کے معاہدے کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ بھی یقیننہ تھا کہ اس جھڑپ کا نتیجہ ان کے حق میں نکلے گا_ بلکہ اگر یہ جنگ چھڑتی تو ممکن تھا کہ اس سے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو تیز کرنے کا موقع ملتا_(۱) توان تمام باتوں کے پیش نظر مشرکین نے بہتر یہ سمجھا کہ جنگ سے بچا جائے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کمزور بنانے اور اس کی تبلیغ کا مقابلہ کرنے کیلئے دیگر طریقوں سے کام لیا جائے_

چنانچہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مشرکین:

الف : لوگوں کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبانی آیات قرآن سننے سے منع کرتے تھے جیساکہ

___________________

۱_ بعض محققین کا خیال ہے کہ شاید حضرت ابوطالب نے کبھی نرمی اور کبھی سختی برتنے کی روش اسلئے اختیار کی تاکہ اس قسم کی ایک جنگ چھڑ جائے جس سے نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنا پیغام پھیلانے کا بہتر موقع مل جائے_

۴۷

ارشاد الہی ہے:( وهم ینهون عنه وینا وْنَ عنه ) (۱) یعنی وہ قرآن سے دوسروں کو منع کرتے تھے اور خود بھی دوری اختیار کرتے تھے_ نیزفرمایا:( وقال الذین کفروا لا تسمعوا لهذا القرآن و الغوافیه لعلکم تغلبون ) (۲) یعنی کافروں نے کہا اس قرآن کو نہ سنو اور اس کی تلاوت کے وقت شور مچاؤ شاید اس طرح ان پر غالب آسکو_

ب: حضور کا مذاق اڑانے اور آپ پر بے بنیاد تہمتیں لگانے کی روش اختیار کئے ہوئے تھے تاکہ وہ:

۱_ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات پر دباؤ ڈال سکیں کیونکہ ان کے گمان باطل میں شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نفسیاتی طورپر شکست کھاجائیں گے اور احساس کمتری و حقارت کاشکار ہوکر اپنے مشن سے ہاتھ اٹھا لیں گے_

۲_نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مرتبے کو گھٹاکر نیز آپ کی شخصیت کو مسخ کر کے کمزور ارادے کے مالک افراد کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین میں داخل ہونے سے روکیں _اسی مقصد کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بیوقوف لوگوں کو اس بات پر اکساتے تھے کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کواذیت پہنچائیں اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جھٹلائیں _بسا اوقات قریش کے رو سا بھی اس قسم کے کاموں کا ارتکاب کرتے تھے یہاں تک کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنے کسی غلام کو حکم دیا کہ وہ حیوان کی اوجھڑی اور گوبر حالت نماز میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوپر ڈال دے چنانچہ غلام نے اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کاندھوں پر پھینک دیا _اس بات سے حضرت ابوطالب غضبناک ہوئے اور آ کر وہ گندگی مشرکین کی مونچھوں پر مل دی _اس طرح خدا نے ان کے اوپر رعب طاری کر دیا_ مشرکین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوپر مٹی اور بکری کی بچہ دانی وغیرہ بھی ڈالتے تھے_

ان باتوں نے لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دور رکھنے اور انہیں قبول اسلام سے روکنے میں کچھ حد تک اپنا اثردکھایا یہاں تک کہ عروة بن زبیر اور دوسروں کاکہنا ہے کہ مشرکین حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو ناپسند کرتے تھے، وہ اپنے زیر دست افراد کو آپ کے خلاف اکساتے تھے یوں عام لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوری اختیار کرگئے_(۳)

___________________

۱_سورہ انعام، آیت ۲۶_

۲_ سورہ فصلت، آیت ۲۶_

۳_تاریخ طبری، ج ۲ ص ۶۸_

۴۸

مکہ کے ستم دیدہ مسلمان

مذکورہ باتوں کے علاوہ مشرکین نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان اصحاب سے انتقام لینے کی ٹھانی جو مختلف قبائل میں زندگی گزارتے تھے _چنانچہ ہر قبیلے نے اپنے اندر موجود مسلمانوں کو ستانے، انہیں اپنے دین سے دوبارہ پلٹانے، قیدکرنے، مارنے پیٹنے، بھوکا رکھنے، مکہ کی تپتی زمینوں پر سزا دینے، نیزدیگر ظالمانہ اور وحشیانہ طریقوں سے ان کو اذیت دینے کا سلسلہ شروع کیا_

ذکر مظلوم :

مشرکین نے کئی مسلمانوں پر ستم کیا _ عمر بن خطاب نے بھی قبیلہ بنی عدی کی شاخ بنی مؤمل کی ایک مسلمان لڑکی پر تشدد کیا_ وہ اسے مارتا رہا اور جب وہ مار مار ہلکان ہوگیا تو بولا '' میں تمہیں صرف تھکاوٹ سے تنگ آکر چھوڑ رہا ہوں''(۱) _ شاید قبیلہ بنی مؤمل نے عمر بن خطاب کو اپنے قبیلے کی لڑکی پر تشدد کرنے کی اجازت دے رکھی تھی وگرنہ معاشرے میں اس کی اتنی حیثیت ہی نہیں تھی کہ اسے اس جیسے کام کی کھل چھٹی دے دی جاتی _ اسی طرح مشرکین نے خباب بن الارت ، ام شریک ، مصعب بن عمیر اور دیگر لوگوں پر بھی تشدد کیا جن کے نام اور واقعات کے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں ہے_

انہی لوگوں نے ہمارے لئے توحید اور عقیدے کی خاطر استقامت اور جہاد کی عمدہ مثال پیش کی ہے_ حالانکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ارادہ الہی کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو مشرکوں کو اس تشدد سے باز رکھ سکے _ پھر بھی انہوں نے اپنے اسلام کے بل بوتے پر اس پوری دنیا کو چیلنج کیا ہوا تھا جو اپنی تمام تر توانائیوں سمیت ان کے مقابلے پر اتر آئی تھی _ اور اسی چیز میں ہی ان کی عظمت اور خصوصیت پوشیدہ تھی _

___________________

۱_ سیرہ ابن ہشام ج۱ ص ۳۴۱ ، سیرہ حلبیہ ج۱ ص ۳۰۰ اور ملاحظہ ہو: السیرة النبویہ ابن کثیر ج۱ ص ۴۹۳ اور المحبر ص ۱۸۴_

۴۹

حضرت ابوبکر نے کن کو آزاد کیا؟

راہ خدامیں اذیت پانے والوں میں بلال حبشی اور عامر بن فہیرہ بھی تھے، کہتے ہیں کہ ان کو حضرت ابوبکر نے خرید کر آزاد کیا اور انہیں حضرت ابوبکر کی وجہ سے نجات حاصل ہوئی_ لیکن یہ بات ہمارے نزدیک مشکوک ہے کیونکہ:

اولا: اسکافی نے کہا ہے'' بلال اور عامربن فہیرہ کو خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے آزاد کیاہے''_ اور اسے واقدی اور ابن اسحاق نے بھی نقل کیا ہے_(۱)

علاوہ ازیں ابن شہر آشوب نے بلال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں آزاد شدگان میں شمار کیا ہے_(۲)

ثانیا: اس بارے میں وہ خود متضاد روایتیں ذکر کرتے ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی ربط ہی نہیں بنتا_

اس سلسلے میں اتنا ہی کافی ہے کہ ہم حضرت ابوبکر کی طرف سے اداکی جانے والی قیمت میں اختلاف کا ہی ذکر کریں چنانچہ ایک روایت کہتی ہے حضرت ابوبکر نے اس کی قیمت میں اپنا ایک غلام دے دیا جو (بلال) سے زیادہ مضبوط تھا_

دوسری روایت کہتی ہے کہ اس کی قیمت کے طورپر ایک غلام، اس کی بیوی اور بیٹی کے علاوہ دو سو دینار بھی دیئے_

تیسری روایت کی رو سے سات اوقیہ(۳) سونے میں خریدا_

چوتھی روایت کے مطابق نو اوقیہ میں_

___________________

۱_ شرح نہج البلاغة (معتزلی) ج ۱۳ ص ۲۷۳ اور قاموس الرجال ج ۵ ص ۱۹۶ و ج ۲ ص ۲۳۸ کی طرف رجوع کریں_

۲_المناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۷۱_

۳_ اوقیہ رطل کا بارہواں حصہ جو چو تھائی چھٹانک تک ہوتا ہے_ (المنجد، مترجم)_

۵۰

پانچویں روایت کے مطابق پانچ اوقیہ کے بدلے اور چھٹی روایت کے مطابق ایک رطل(۱) سونے کے عوض خریدا_

ساتویں روایت کا کہنا ہے کہ حضرت ابوبکر نے اسے اپنے غلام قسطاس کے بدلے خریدا جو دس ہزار دینار کے علاوہ کنیزوں، غلاموں اور مویشیوں کا مالک تھا_

آٹھویں روایت کی رو سے اس کی قیمت ایک کمبل اور دس اوقیہ چاندی تھی علاوہ بریں اس مسئلے میں مزید اختلاف موجود ہے(۲) _

ثالثا :کہتے ہیں کہ اسی مناسبت سے( فاما من اعطی واتقی وصدق بالحسنی فسنیسره للیسری ) (۳) والی آیات حضرت ابوبکر کے حق میں نازل ہو ئیں(۴) حالانکہ:

۱_ اسکافی نے اسے رد کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک قول کے مطابق یہ آیات مصعب ابن عمیر کے بارے میں اتری ہیں_(۵)

۲_ علاوہ برآں ابن عباس وغیرہ بلکہ خودرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے مروی احادیث میں اس آیت کی تفسیر کو عام قرار دیا گیا ہے اور اسے کسی فردسے مختص نہیں سمجھا گیا، شیعوں کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت علیعليه‌السلام کے حق میں نازل ہوئی، حلبی نے ان پر اعتراض کیا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے احسان چکا دیا تھا اور وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ہاں آپ کا تربیت پانا تھا جبکہ آیات یہ کہتی ہیں کہ اس پرکسی کاکوئی احسان نہیں جس کا چکانا ضروری ہو_ رازی نے بھی یہی اعتراض کیا ہے_(۶)

___________________

۱_ رطل، ایک وزن مساوی ۱۲ اوقیہ کے ہے_ (المنجد، مترجم)_

۲_ گذشتہ اختلافات کے معاملہ میں مراجعہ ہو: سیرہ حلبیہ ج۱ ص ۲۹۸ و ۲۹۹ ، قاموس الرجال ج ۱ ص ۲۱۶ ، سیر اعلام النبلاء ج۱ ص ۳۵۳، سیرہ نبویہ ابن ہشام ج۱ ص ۳۴۰ ، حلیة الاولیاء ج۱ ص ۱۴۸ اور بہت سے دیگر منابع

۳_ سورہ لیل، آیت ۵،۷_

۴_ درمنثور ء ۶ ص ۳۵۸،۳۹۰ کئی کتب سے ماخوذ نیز السیرة الحلبیة ہ ج ۱ ص ۲۹۹ اور شرح نہج البلاغة (معتزلی) ج ۱۳ ص ۲۷۳ بہ نقل از جاحظ اور عثمانیہ ص ۲۵ _

۵_ شرح نہج البلاغہ ج ۱۳ ص ۲۷۳_

۶_ السیرة الحلبیة ج ۱ ص ۲۹۹_

۵۱

لیکن رازی اور حلبی یہ نہیں جانتے کہ یہاںمرادکچھ اورہے یعنی خدا اس صاحب تقوی شخص کی صفت بیان نہیں کررہا بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ مال جو وہ خرچ کررہا ہے اسلئے خرچ نہیں کر رہا کہ کسی شخص کی طرف سے اس کی جزا ملے بلکہ وہ فقط اور فقط خدا کی مرضی کیلئے خرچ کررہا ہے _

۳_ ابن حاتم کے بیان کے مطابق یہ سورہ سمرة بن جندب کے بارے میں نازل ہوئی جو ایک درخت کھجور کا مالک تھا اس درخت کی شاخ ایک نادار شخص کے گھر میں تھی_ جب سمرة کھجور چننے درخت پر چڑھتا تو گاہے کچھ دانے گرپڑتے اور نادار شخص کے بچے وہ اٹھالیتے _یہ دیکھ کر سمرة درخت سے اترتا اور ان کے ہاتھوں سے دانے چھین لیتا اوراگر وہ منہ میں ڈال لیتے تو اپنی انگلی ڈال کر کھجور باہر نکال لیتا _پس نادار شخص نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس اس کی شکایت کی _اس کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی سمرة سے ملاقات ہوئی ،آپ نے اس سے کہا کہ وہ اس درخت کو جنت کے ایک درخت کے بدلے فروخت کر دے_ سمرة بولامجھے بہت کچھ ملا ہوا ہے میں خرما کے بہت سارے درختوں کا مالک ہوں ان میں سے کسی کا پھل اس درخت کے پھل سے زیادہ مجھے پسند نہیں_

ایک اورشخص جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور سمرة کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی تھی وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس آیا اورعرض کیا کہ اگر میں اس درخت کو حاصل کروں توآپ مجھے وہی چیز عنایت کریں گے جس کا آپ نے سمرة سے وعدہ فرمایا تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے یہ سن کر وہ چلا گیا اور درخت کے مالک سے ملا _پھر خرما کے چالیس درختوں کے بدلے اس نے سمرة سے وہ درخت خرید لیا_ پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا اور درخت آپ کو ہدیہ کر دیا_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مالک مکان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا اب یہ درخت تمہارا اور تمہارے گھروالوں کا ہے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:( واللیل اذا یغشی ) (۱)

اسی لئے سیوطی نے سورہ اللیل کے بارے میں کہا ہے کہ قول معروف کے مطابق یہ سورہ مکی ہے نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدنی ہے کیونکہ اس کے سبب نزول میں خرما کے درخت کا واقعہ منقول ہے جیساکہ ہم نے اسباب نزول کے بارے میں ذکر کیا ہے_(۲)

___________________

۱_ درالمنثور ج ۶ ص ۳۵۷ از ابن ابی حاتم از ابن عباس اور تفسیر برہان ج ۴ ص ۴۷۰ از علی ابن ابراہیم ، در منشور سے منقول بات سے کچھ اختلاف کے ساتھ_

۲_ الاتقان ج ۱ ص ۱۴_

۵۲

یہاں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ یہ منقول واقعہ ان آیات کے ساتھ متناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ آیت کہتی ہے، کسی نے راہ خدا میں مال دیکر تقوی اختیار کیا لیکن کسی نے بخل سے کام لیا اور لاپروائی اختیار کی_

ہاں اگر ان کا عقیدہ یہ ہو کہ بخل کرنے والے سے مراد (نعوذ باللہ ) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تھے تو اور بات ہے جبکہ یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مال کے فقدان کی صورت میں آپ پر بخل صادق نہیں آتا، نیز خود یہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مال ہوتا تو بلال کو خرید لیتے_ یا پھر بخلکرنے والے سے مراد جناب عباس تھے جن کے بارے میں روایات کہتی ہیں کہ اس نے جاکر بلال کو خریدا اور ابوبکر کے پاس بھیجا پھر انہوں نے بلال کو آزاد کیا_

۴_ حدیث غار میں ہم حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کریں گے کہ قرآن میں آل ابوبکر کے بارے میں کوئی آیت نازل ہی نہیں ہوئی_ ہاں حضرت عائشہ کا عذر نازل ہوا یعنی سورہ نور میں حدیث افک (تہمت) سے متعلق آیات اور حضرت عائشہ کی اپنے متعلق صفائی بھی نازل ہوئی_ لیکن درحقیقت وہ آیت بھی حضرت عائشہ کے متعلق نازل نہیں ہوئی جیساکہ ہم نے اپنی کتاب حدیث الافک میں اس کا تذکرہ کیا ہے_

رابعاً: یہ بات بھی ہماری سمجھ میں نہیں آسکی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے یہ کیونکر فرمایا کہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مال ہوتا تو بلال کو خرید لیتے کیونکہ ایک طرف تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول ہے اور دوسری طرف ان لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوبکر سے بلال کو مشترکہ طور پر خریدنے کا تقاضا کیا تو ابوبکر نے بتایا کہ اس نے بلال کو آزاد کر دیا ہے_(۱) وہ ان دو اقوال کے درمیان کیسے ہماہنگی پیدا کرسکتے ہیں؟ علاوہ برایں کیا حضرت خدیجہ (س) کے اموال آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اختیار میں نہ تھے؟ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ کے مسلمانوں پر یہ اموال خرچ نہ کرتے تھے؟ جیساکہ اسماء بنت عمیس کو حضرت عمرنے ہجرت کے شرف سے محروم رہنے کا طعنہ دیا تو اس نے جواب میں کہا: ''بے شک وہ اور اس کے دیگر مسلمان ساتھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھ تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھوکوں کو سیر کراتے اور جاہلوں کو علم سکھاتے تھے'' اس واقعے کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ اپنے مقام پرہوگا_

___________________

۱_ طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۶۵_

۵۳

رہا اس بات کا احتمال کہ بلال والا واقعہ ہجرت سے قبل کے آخری سالوں میں واقع ہوا ہے تو اسے مورخین قبول نہیں کرتے کیونکہ نووی کہتے ہیں '' وہ اعلان نبوت کی ابتدا میں مسلمان ہوئے وہ سب سے پہلے اسلام کا اظہار کرنے والوں میں سے تھے''_(۱) مگر یہ کہا جائے کہ بلال مسلمان تو بہت پہلے ہوگئے تھے لیکن کچھ سال بعد انہیں خرید کر آزاد کیا گیا تھا_

ان ساری باتوں کے علاوہ یہ بھی روایت ہوئی ہے کہ حضرت بلال کو حضرت عباس نے خرید کر حضرت ابوبکر کے پاس بھیجا اور انہوں نے اسے آزاد کیا_(۲) بعض دیگر روایات کہتی ہیں کہ حضرت بلال کو حضرت ابوبکر نے بذات خود خرید کر آزاد کیا_ نیز ایسی روایات بھی ملتی ہیں جو کہتی کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی وفات ہوئی تو حضرت بلال نے ابوبکر سے کہا ''اگر تم نے مجھے اپنے لئے خریدا تھا تو اپنا غلام بنائے رکھو اور اگر رضائے الہی کیلئے خریدا تھا تو پھر مجھے آزاد کردو''_

اس روایت کی رو سے تو وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک حضرت ابوبکر نے حضرت بلال کو آزاد نہیں کیا تھا_ رہی حضرت عباس کے حضرت بلال کو خریدنے کی بات تو یہاں ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ حضرت عباس نے اگر بلال کو اپنے لئے خریدا تھا تو انہوں نے خود حضرت بلال کو آزاد کیوں نہیں کیا؟ اور اگرحضرت عباس نے حضرت ابوبکر کے لئے خریدا تھا تو وہ حضرت ابوبکر کے وکیل کب بنے تھے؟ اور اس قسم کے کاموں میں کب سے دلچسپی لینے لگے تھے؟ جبکہ انہی لوگوں کے بقول حضرت عباس نے فتح مکہ کے سال یا جنگ بدر میں اسلام قبول کیا تھا_

بعض لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ حضرت عباس نے امیة بن خلف سے بات کی پھر حضرت ابوبکرنے آکر حضرت بلال کو خریدلیا_(۳) یہ تو نہایت ہی تعجب انگیز بات ہے _ زمانے کا دستور نرالا ہوتاہے_

گذشتہ نکات کے علاوہ اس بات کی طرف اشارہ کرنابھی ضروری ہے کہ خود حضرت ابوبکر کے معاشی

___________________

۱_تہذیب الاسماء و اللغات ج ۱ ص ۱۳۶_

۲_سیرت نبویہ از دحلان ج ۱ ص ۱۲۶ و السیرة الحلبیة ج ۱ ص ۲۹۹ نیز رجوع کریں المصنف ج ۱ ص ۲۳۴ کی طرف_

۳_ سیرت نبویہ از دحلان ج ۱ ص ۱۲۶ و السیرة الحلبیة ج ۱ ص ۲۹۹ نیز رجوع کریں المصنف ج ۱ ص ۲۳۴ کی طرف_

۵۴

حالات اس بات کی اجازت کب دیتے تھے کہ وہ کئی سو دینار دے سکتے؟ چہ جائیکہ ان کاایک غلام دس ہزار دینار کے علاوہ کنیزوں اور مویشیوں وغیرہ کا بھی مالک ہو( اگرچہ ہم فرض بھی کرلیں کہ اس دور میں عربوں کے غلام مال و دولت کے مالک بھی بن سکتے تھے) کیونکہ حضرت ابوبکر تاجر نہ تھے بلکہ چھوٹے بچوں کے استاد تھے پس ان کے پاس ہزاروں یاکم از کم سینکڑوں درہم و دینار کہاں سے آگئے تھے کہ جس سے سات یا نو افرادکو خرید کر آزاد کرتے_ غار والے واقعہ پر بحث کے دوران ہم انشاء اللہ حضرت ابوبکر کی مال و دولت کے بارے میں بھی اشارہ کریں گے_

بعض لوگوں نے تو حضرت ابوبکر سے منسوب غلاموں میں سے کئی ایک کے وجود میں ہی شک کیا ہے بالخصوص زنیرہ وغیرہ کے بارے میں_ جس کے متعلق سہیلی نے کہا ہے کہ عورتوں میں زنیرہ کا نام و نشان تک نہیں ملتا_(۱)

سید حسنی کہتے ہیں: ''قریش ایمان لانے والوں کو سزائیں دیتے تھے تاکہ اسلام نہ پھیلے _وہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہرقسم کا قیمتی اور نفیس مال دینے پر آمادہ تھے تاکہ وہ اپنے مشن سے دست بردار ہوجائیں _اس صورت میں قریش حضرت ابوبکر کے حق میں اپنے غلاموں سے کیسے دست بردار ہوسکتے تھے؟ اور ان کو سزا دیئے بغیر اتنی آسانی سے کیسے چھوڑ سکتے تھے''(۲) مگریہ کہاجائے کہ مال و دولت سے قریش کی محبت اور ساتھ ساتھ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی مایوسی کے سبب انہوں نے ایسا کیا (جیساکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے)_

کیا حضرت ابوبکر نے بھی تکلیفیں برداشت کیں؟

مؤرخین کہتے ہیں کہ اسلام کی راہ میں حضرت ابوبکر نے بھی تکلیفیں برداشت کی ہیں_ کیونکہ جب ابوبکر اور طلحہ بن عبداللہ تیمی نے اسلام قبول کیا تو عمر بن عثمان نے دونوں کو پکڑکر ایک رسی میں ایک ساتھ باندھ دیا اور نوفل بن خویلد نے ان پر تشدد کرکے انہیں دین سے پھیرنے کی کوشش کی_ اسی لئے ابوبکر اور طلحہ کو'' قرینین ''

___________________

۱_ الروض الانف ج ۲ ص ۷۸_

۲_سیرة المصطفی ص ۱۴۹_

۵۵

کہا جاتا ہے _ البتہ بعض مؤرخین کے مطابق انہیں باندھ کر ان پر تشدد کرنے والا صرف نوفل ہی ہے جبکہ اس دوران عمر بن عثمان کا کہیں ذکر ہی نہیں ملتا(۱) اس کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ :

۱_ وہ خود ہی کہتے ہیں'' خدانے حضرت ابوبکر کی حفاظت اس کی قوم کے ذریعہ سے کی ''(۲) اور یہ ان کے اس قول '' حضرت ابوبکر نے بھی تکلیفیں اٹھائیں'' کے بالکل متضاد ہے_ اسی طرح ابن دغنہ کے اس قول ''اسے قوم سے نکال دیا گیا'' سے بھی متناقض ہے_

۲_ سیرت کی کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جس قبیلہ سے بھی کوئی شخص اسلام لاتا تو صرف وہی قبیلہ اس پر تشدد کرتا تھا_ دوسرے قبیلہ والوں کو اس پر تشدد کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی_

۳_ اسکافی نے بھی یہی کہا ہے کہ ہمیں تو صرف یہ معلوم ہے کہ یہ تشدد صرف غلاموں یا کرائے کے غنڈوں کے ذریعہ سے ہوتا اور اس شخص پر ہوتا جس کی حمایت کرنے والا کوئی خاندان نہیں ہوتا تھا_(۳) اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب ابوبکر بڑے قابل اطاعت سردار اور بزرگ تھے_(۴) جس کے منتظر بزرگان قریش بھی رہتے تھے اور اس کی عدم موجودگی میں کوئی بھی فیصلہ نہیں کرتے تھے_ حتی کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاملے میں بھی (جیسا کہ ابوبکر کے اسلام لانے والے واقعہ میں گذر چکا ہے) اسی کے پاس کوئی قطعی فیصلہ کرنے آئے تھے_ ان کی تعریفوں کے مطابق وہ بلند پایہ شخصیت ، بزرگ سردار اور قریش کے محترم رئیس تھے_(۵) پھر جناب ابوبکر اس گروہ سے کیسے ستائے گئے جو ان کے قبیلے سے بھی

___________________

۱_ اس بارے میں ملاحضہ ہو : العثمانیہ جاحظ ص ۲۷و ۲۸ ، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۳ ص ۲۵۳، سیرة ابن ہشام ج ۱ ص ۳۰۱، نسب قریش مصعب زبیری ص ۲۳۰، البدایہ و النہایہ ج ۲ ص ۲۹ ، بیہقی اور مستدرک حاکم ج ۳ ص ۳۶۹ اور البدء و التاریخ ج ۵ ص ۸۲_

۲_ البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۸ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۲۸۴ حاکم نے بھی اور ذہبی نے بھی اس کی تلخیص کے حاشیہ میں اس قول کو صحیح جانا ہے ، حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۱۴۹، استیعاب ج ۱ ص ۱۴۱، سنن احمد ، سنن ابن ماجہ ، سیرہ نبویہ دحلان ج ۱ ص ۱۲۶، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۱ ص ۴۳۶از کنز العمال ج ۷ ص ۱۴از ابن ابی شیبہ اور طبقات الکبری ابن سعد مطبوعہ صادر ج ۳ ص ۲۳۳_

۳_ شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۳ ص ۲۵۵_ ۴_ ملاحظہ ہو : شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۳ ص ۲۵۵، سیرہ نبویہ دحلان ج ۱ ص ۱۲۳ اور سیرہ حلبیہ ج ۱ ص ۲۷۳_ ۵_ سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۱ ص ۴۳۳ اور البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶_

۵۶

نہ تھے؟ اور اس کی قوم نے اپنے سردار اور بلند پایہ شخصیت کو ایسے کیسے چھوڑدیا کہ وہ لوگ اس کی توہین کرتے رہیں؟اور ابن ہشام و غیرہ کے مطابق :'' اپنی قوم کا مونس ، محبت کرنے والا اور نرم خو تھا '' حتی کہ وہ کہتا ہے ''اس کی قوم کے افراد اس کے پاس جاکر کئی ایک امور کے لئے اس کی حمایت حاصل کرتے(۱) اور ابن دغنہ کے زعم میں : '' ایسے شخص کو کیونکر نکالا جاسکتا ہے؟ کیا تم ایسے شخص کو نکال باہر کر رہے جو گمنامی کا طالب ہے ، صلہ رحمی کرتاہے ، دوسروں کا بوجھ اٹھاتا ہے ، مہمان نوا ز اور زمانے کی مصیبتوں پر دوسروں کا مدد گار ہے؟''(۲) _

توجہ : یہ ا لفاظ تقریباً وہی الفاظ ہیں جو وقت بعثت حضرت خدیجہ نے حضور کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دلجوئی کے لئے کہے تھے_ ان الفاظ کو ابن دغنہ نے جناب ابوبکر کے ہجرت حبشہ کے وقت اس کے حق میں کہے ہیں جن کا سقم آئندہ معلوم ہوگا _یہاں بس پڑھتے جائیں ، سنتے جائیں اور پیش آیند پر تعجب بھی کرتے جائیں_ سنتا جاشرماتاجا _

پہلانکتہ : کیا حضرت ابوبکر قبیلہ کے سردار تھے؟

گذشتہ تمام باتیں ہم نے صرف ان کی باتوں کے اختلاف اور تناقض کو بیان کرنے کے لئے ذکر کی ہیں_ کیونکہ اگر ایک بات صحیح ہے تو دوسری صحیح نہیں ہے_ وگرنہ ہمیں ابوبکر کے عظیم سردار اور قابل اطاعت بزرگ ہونے میں شک ہے ، کیونکہ :

۱_ حضرت ابوبکر جب ابوسفیان کے ساتھ حج کوگئے تو (وقت تلبیہ) اس نے اپنی آواز ابوسفیان کی آواز سے اونچی رکھی ، ابوقحافہ نے اس سے کہا :'' ابوبکر اپنی آواز ابن حرب کی آواز سے دھیمی رکھو'' جس پر ابوبکر نے کہا :'' اے ابوقحافہ خدا نے اسلام میں وہ گھر بنائے ہیں جو پہلے نہیں بنے تھے اور وہ گھر ڈھادیئےیں جو زمانہ جاہلیت میں بنے ہوئے تھے_ اور ابوسفیان کا گھر بھی ڈھائے جانے والے گھروں میں سے ہے''_(۳)

۲_ جب ابوبکر کی بیعت کی جا رہی تھی تو ابوسفیان چلا اٹھا: '' امر خلافت کے لئے قریش کا سب سے پست

___________________

۱_ سیرہ ابن ہشام ج ۱ ص ۳۶۷ اور سیرہ نبویہ ابن کثیر ص ۴۳۷_

۲_ سیرہ حلبیہ ج ۱ ص ۱۰۳ اور اس بارے میں مزید منابع کا ذکر ہجرت ابوبکر کی بحث کی دوران ہوگا ان شاء اللہ _

۳_ ملاحظہ ہو : النزاع و التخاصم مقریزی ص ۱۹ اور اسی ماخذ سے ذکر کرتے ہوئے الغدیر ج ۳ ص ۳۵۳_

۵۷

گھرانہ تم پر غالب آگیا ہے'' اور حاکم کی عبارت میںیوں آبا ہے '' اس امر خلافت کا کیا ہوگا جو قریش کے سب سے کم مرتبہ اور ذلیل شخص یعنی ابوبکر کے پاس آیا ہے''(۱) جبکہ بلاذری کی عبارت یوں ہے: ''ابوسفیان نے حضرت علیعليه‌السلام کے پاس آکر کہا ہے '' یا علیعليه‌السلام تم لوگوں نے قریش کے ذلیل ترین قبیلے کے آدمی کی بیعت کی ہے''(۲)

۳_ شاعر عوف بن عطیہ کا کہنا ہے:

و اما الا لامان بنوعدی ---- و تیم حین تزد حم الامور

فلا تشهد بهم فتیان حرب ---- و لکن ادن من حلیب و عیر

اذا رهنوا رماحهم بزبد ---- فان رماح تیم لا تضیر(۳)

اور قبیلہ بنی عدی اور تیم تو مشکلات کی بھیڑ میں واویلا کرنے والے پست اور بے صبرے ہیں_ انہیں کوئی جنگجو نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ ایک جماعت اور قافلے سے بھی مغلوب ہونے والے ہیں_ انہیں مکھن (چکنی چپڑی باتوں) کے بدلے میں نیزے گروی رکھ لینے چاہئیں کیونکہ اب ان کے نیزے کسی کام کے نہیں ہیں_

___________________

۱_ ملاحظہ ہو : المصنف عبدالرزاق ج ۵ ص ۴۵۱ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۷۸ از ابن عساکرو ابواحمد دہقان ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۳۲۶، تاریخ طبری ج ۲ ص ۹۴۴، النزاع و التخاصم ص ۱۹ اور کنز العمال ج ۵ ص ۳۸۳و ۳۸۵از ابن عساکروابواحمد دہقان_

۲_ انساب الاشراف بلاذری (حصہ حیات طیبہ) ص ۵۸۸ _(اسی طرح منہاج الراعہ شرح نہج البلاغہ حبیب اللہ خوئی کے ترجمہ اردو ج ۳ ص ۵۰ پر جناب ابوبکر کے خاندانی پس منظر کے ذکر کے بعد آیا ہے کہ جب حضرت ابوبکر مسند اقتدار پر فائز ہوئے تو ابوسفیان نے ان کا خاندانی پس منظر یاد کرکے حضرت علیعليه‌السلام سے کہا:'' ارضیتم یا بنی عبد مناف ان یلی علیکم تیمی رذل'' اے بنی عبد مناف کیا تم ایک رذیل تیمی کی حکومت پر راضی ہوچکے ہو؟ ''حاکم نیشاپوری اور ان حجر نے لکھا ہے کہ جب ابوقحافہ نے اپنے بیٹے کی حکومت کا سناتو کہا : '' کیا بنی عبدمناف اور بنی مغیرہ میرے بیٹے کی حکومت پر راضی ہوگئے؟ '' لوگوں نے بتایا : '' جی ہاں'' تو اس وقت اس نے کہا تھا :'' اللهم لا واضع لما رفعت و لا رافع لما وضعت '' خدایا جسے تو بلند کرے اسے کوئی پست نہیں کرسکتا اور جسے تو پست کرے اسے کوئی بلندی نہیں دے سکتا_ اگر چہ کہ ابوسفیان کی باتیں نیک نیتی کی بناپر نہیں تھیں لیکن اس سے دو باتوں کا علم ہوتا ہے : ۱_ حضرت ابوبکر نہ صرف قبیلہ کے رئیس نہیں تھے بلکہ ان کا خاندانی پس منظر بھی کچھ قابل ذکر نہیں ہے اس لئے تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ پھر بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے حضرت ابوبکر کی دولت سے اپنے نبی کو مالامال کردیا تھا_۲_ حضرت علیعليه‌السلام ہر لحاظ سے خلافت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زیادہ حقدار تھے _ اسی لئے ابوسفیان صرف حضرت علیعليه‌السلام کے پاس آیا تا کہ وہ حق دار ہونے کی بنا پر اٹھ کھڑے ہوں گے اور اس موقع سے فائدہ اٹھاکر ابوسفیان اپنے مقاصد حاصل کرے گا لیکن حضرت علیعليه‌السلام نے اس کے ارادے بھانپ لئے تھے اور مناسب جواب دیا تھا _ از مترجم)_ ۳_ طبقات الشعراء ابن سلام ص ۳۸_

۵۸

دوسرا نکتہ :

دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو کہتے ہیں :'' ابوبکر اظہار اسلام کرنے والا پہلا شخص ہے جس کی قوم نے اس کی حمایت کی'' یا'' جس پر اسے اتنا ماراگیا کہ وہ مرنے کے قریب ہوگیا ''(۱) تو ان لوگوں کی مذکور باتوں کو بہت ساری گذشتہ باتیں بھی جھٹلاتی ہیں اور یہاں پر بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ دعوت اسلام کے اعلان کرنے والی سب سے پہلی شخصیت رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات والا صفات تھی جناب ابوبکر نہیں تھے_ اور مذکورہ بات تو ان متضاد باتوں کے علاوہ ہے جو یہ لوگ کبھی تو کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود نے سب سے پہلے اظہار اسلام کیا تھا ، کبھی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے کیا تھا اور یہاں پر وہ یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر نے ایسا کیا تھا؟ (حافظہ کہاںگیا؟)

اسی طرح ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ ابوبکر کا اظہار اسلام اس وقت تھا جب مسلمانوں کی تعداد ۳۸ افراد تک پہنچ گئی تھی اور حضور کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ارقم کے گھر میں تشریف فرماتھے_ جبکہ ہم پہلے یہ بتاچکے ہیں کہ ابوبکر تو اس وقت تک بھی اسلام نہیں لائے تھے کیونکہ وہ پچاس سے زیادہ افراد کے اسلام لانے کے بعد مسلمان ہوئے تھے_ مگر یہ کہا جائے کہ اس روایت کا مقصد یہ ہے کہ ہجرت حبشہ کے بعد اسلام لانے والوں کی تعداد ۳۸ افراد تک پہنچنے کے بعد ابوبکر مسلمان ہوا تھا_ لیکن یہ بات بھی روایت کی اس تصریح کے ساتھ جوڑ نہیں کھاتی جس میں آیاہے کہ ابوبکر کا مسلمان ہونا جناب حمزہ کے اسلام لانے کے دن تھا جس وقت نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ارقم کے گھر میں تشریف فرما تھے_

اسلام میں سب سے پہلی شہادت

قریش کے ہاتھوں آل یاسرکو سخت ترین سزائیں دی گئیں نتیجتاً حضرت عمار کی ماں حضرت سمیہ، فرعون قریش ابوجہل (لعنة اللہ علیہ) کے ہاتھوں شہید ہوگئیں وہ اسلام کی راہ میں شہید ہونے والی سب سے پہلی

___________________

۱_ سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۱ ص ۴۳۹ تا ۴۴۹ ، البدایہ و النہایة ج ۳ ص ۳۰ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۲۹۴ اور الغدیر ج ۷ ص ۳۲۲ از تاریخ الخمیس و الریاض النضرہ ج ۱ ص ۴۶_

۵۹

ہستی ہیں_(۱) حضرت سمیہ کے بعد حضرت یاسر (رحمة اللہ علیہ) شہید ہوئے_البتہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کے پہلے شہید حضرت حارث ابن ابوہالہ ہیں_ وہ اس طرح کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد الحرام میں کھڑے ہو کر فرمایا: '' اے لوگو لا الہ الا اللہ کہو تاکہ نجات پاؤ ''یہ سن کر قریش آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ٹوٹ پڑے، سب سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فریاد رسی کیلئے پہنچنے والا یہی حارث تھا اس نے قریش پر حملہ کرکے انہیں آپ کے پاس سے ہٹایا جبکہ قریش نے حارث کارخ کیا اور اسے قتل کر دیا_(۲)

لیکن یہ واقعہ درست نہیں کیونکہ (جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا) خدانے حضرت ابوطالب اور بنی ہاشم کے ذریعے اپنے نبی کی حفاظت کی، چنانچہ قریش آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بال بھی بیکا کرنے کی جر ات نہ کرسکے_اسی طرح بنی ہاشم کے دوسرے ایمان لانے والوں کی حالت ہے کیونکہ وہ لوگ حضرت جعفر (رض) حضرت علیعليه‌السلام اور دیگر افراد پر بھی حضرت ابوطالب کے مقام کی وجہ سے تشدد نہیں کرسکے_

علاوہ برایں مورخین کا تقریبا ًاتفاق ہے کہ اسلام کی راہ میں سب سے پہلی شہادت حضرت سمیہ اور اس کے شوہر حضرت یاسر کو نصیب ہوئی مزید یہ کہ اعلانیہ تبلیغ کی کیفیت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ مذکورہ باتوں کے صریحاً منافی ہے (عنوان '' فاصدع بما تؤمر'' کا مطالعہ فرمائیں)_

یہاں ہمارے خیال کے مطابق اس واقعے کو گھڑنے کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ حضرت خدیجہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کرنے سے قبل ایک یا ایک سے زیادہ بار شادی کی تھی اور ان دونوں سے ان کی اولاد ہوئی لیکن قبل ازیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے ان کی شادی کی بحث میں اس کا ذکر ہوچکا ہے جو مذکورہ بالا بات کو مشکوک ظاہر کرتی ہے_

عمار بن یاسر

بنی مخزوم نے عمار بن یاسر کوبھی زبردست اذیتیں پہنچائیں یہاں تک کہ وہ قریش کی من پسند بات کہنے پر

___________________

۱ _ الاستیعاب حاشیہ الاصابہ ج ۴ ص ۳۳۰ و ۳۳۱ و ۳۳۳ ، الاصابہ ج۴ ص ۳۳۴ و ۳۳۵، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج۱ ص ۴۹۵، اسد الغابہ ج۵ ص ۴۸۱ اور تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۸_

۲_ نور القبس ص ۲۷۵ از شرقی ابن قطامی، الاصابة ج ۱ ص ۲۹۳ از کلبی، ابن حزم اور عسکری نیز الاوائل ج ۱ ص ۳۱۱،۳۱۲_

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417