الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)14%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 209833 / ڈاؤنلوڈ: 6321
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ایسے شخص کا پتہ پوچھا جو سب سے زیادہ بات پھیلانے والاہو لوگوں نے اس شخص کی نشاندہی کی_ حضرت عمر نے اسے اپنے مسلمان ہونے کی خبردی_ اس شخص نے قریش کے درمیان اس بات کا اعلان کیا یہ سن کر لوگ حضرت عمرکو مارنے کیلئے اٹھے لیکن ان کے خالو نے انہیں امان دے دی یوں لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا_

لیکن حضرت عمر نے اس کی امان میں رہنے سے انکار کیا کیونکہ دوسرے مسلمانوں کو مارپڑ رہی تھی اوران کو نہیں_ راوی کہتا ہے کہ نتیجتاً حضرت عمر بھی مار کھاتے رہے یہاں تک کہ خدانے اپنے دین کو ظاہر کردیا_

پانچویں روایت کے مطابق طواف کرتے وقت حضرت عمر سے ابوجہل نے کہا : ''فلان شخص کا خیال ہے کہ تم نے اپنا دین چھوڑ دیا ہے'' _ حضرت عمر نے کلمہ دین پڑھا تو یہ سن کر مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے _ حضرت عمر، عتبہ ابن ربیعہ کوپچھاڑ کر مارنے لگے_ پھر اپنی دونوں انگلیوں کو اس کی آنکھوں میں ڈال دیا_ عتبہ چیخنے لگا تو لوگ بکھر گئے اور حضرت عمر بھی اٹھ کھڑے ہوئے_ یہ دیکھ کر سوائے بزرگوں کے کوئی ان کی طرف بڑھنے کی جرا ت نہ کرسکا اور حضرت حمزہ لوگوں کو وہاں سے ہٹانے لگے_

چھٹی روایت کی رو سے وہ قبول اسلام سے قبل شراب نوشی کیا کرتے تھے_ایک رات وہ اپنی پسندیدہ محفل کی طرف نکل پڑے لیکن وہاں کسی کو نہ پایا_ شراب فروش کو ڈھونڈا لیکن وہ بھی نہ مل سکا _پھر طواف کرنے گئے تو دیکھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز پڑھ رہے ہیں_ حضرت عمر کا دل چاہا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سنے چنانچہ وہ کعبے کے پردے کی آڑ میں بیٹھ کر سننے لگے، یوں اسلام ان کے دل میں داخل ہوا_ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا وہاں سے اٹھے اور اپنے گھر جو قطاء کے نام سے معروف تھا، کی طرف چلے تو راستے میں حضرت عمر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جا ملے اوراظہار اسلام کر کے اپنے گھر کی راہ لی_

''العمدہ''کے مطابق کہتے ہیں کہ حضرت عمر تینتیس ۳۳ مردوں اور چھ عورتوں کے قبول اسلام کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے_ ابن مسیب نے کہا ہے کہ چالیس مردوں اور دس عورتوں کے بعد حضرت عمر مسلمان ہوئے_ عبداللہ بن ثعلبہ کا بیان ہے پینتالیس ۴۵ مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد ایسا ہوا _ یہ بھی

۱۲۱

کہا گیا ہے کہ حضرت عمر چالیسویں مسلمان تھے _ پھر حضرت عمرکے قبول اسلام کے بعد یہ آیت اتری (یایہا النبی حسبک اللہ و من اتبعک من المومنین)(۱) یعنی اے حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کیلئے بس خدا اور جو مومنین آپ کے تابع فرمان ہیں کافی ہیں_(۲)

مزید تمغے

بعض افراد کا کہنا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت عمر کے مسلمان ہونے سے قبل یوں دعا کی تھی: ''اے اللہ اسلام کی تقویت فرما ،عمر ابن خطاب کے ذریعے''_ ایک اور جگہ یوں نقل ہوا ہے: ''خدا اسلام کی مدد فرما (یاتقویت فرما) ابوالحکم بن ہشام کے ذریعے یا عمر ابن خطاب کے ذریعے'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بدھ کے روز یہ دعا کی اور حضرت عمر جمعرات کے دن مسلمان ہوئے_

ابن عمر سے مروی ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا :''خدایا ابوجہل یا عمر بن خطاب میں سے تیرے نزدیک جو زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے اسلام کی تقویت فرما''_ ابن عمر کہتا ہے خداکے نزدیک عمرزیادہ عزیز تھے_ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عمر کا قبول اسلام ، اسلام کی فتح تھی، ان کی ہجرت اسلام کی نصرت تھی اور ان کی حکومت خدا کی رحمت تھی _جب وہ مسلمان ہوئے تو قریش سے لڑتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں

___________________

۱_ سورہ انفال، آیت ۶۴ _

۲_ رجوع کریں: الاوائل (عسکری) ج ۱ص ۲۲۱_۲۲۲نیز الثقات (ابن حبان) ص ۷۲_۷۵ البدء و التاریخ ج ۵ص ۸۸_۹۰مجمع الزوائد ج ۹ص ۶۱از بزار و طبرانی تاریخ طبری ۲۳ہجری کے حالات میں، طبقات ابن سعد ج ۳ص ۱۹۱، عمدة القاری ( عینی) ج ۸ص ۶۸، سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۶۶_۳۷۴، تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۹۵_۲۹۷، تاریخ عمر بن خطاب(ابن جوزی)ص ۲۳_۳۵، البدایة و النہایة ج ۳ ص ۳۱ اور ۷۵_۸۰ _نیز السیرة الحلبیة ج۱ص ۳۲۹_۳۳۵، السیرة النبویة (دحلان) ج ۱ص ۱۳۲_۱۳۷، المصنف (حافظ) ج ۵ص ۳۲۷_۳۲۸، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۲ص ۱۸۲_۱۸۳، اسباب انزول (واحدی)، حیاة الصحابة ج ۱ص ۲۷۴_۲۷۶ و الاتقان ج ۱ص ۱۵اور الدر المنثور ج ۳ص ۲۰۰ کشف الاستار از مسند البزار ج۳ ص ۱۶۹ تا ۱۷۲ اور لباب النقول مطبوعہ دار احیاء العلوم ص ۱۱۳،ان کے علاوہ دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۴ تا ۹ مطبوعہ دار النصر للطباعة اور دیگر کتب تاریخ اور حدیث کی طرف رجوع کریں_

۱۲۲

نے کعبہ کے پاس نماز پڑھی_(۱)

ان کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کہاگیا ہے جس کے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں_ ترمذی نے ان میں سے بعض روایات کو صحیح مانتے ہوئے بھی ان تمام روایات پر تعجب کا اظہار کیا ہے _

ہم حضرت عمرکے قبول اسلام سے مربوط تمام مذکورہ بالا باتوں اور روایات کو بھی شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں بلکہ ہمیں یقین ہے کہ یہ باتیں بالکل بے بنیاد ہیں _ اس بات کی توضیح کیلئے درج ذیل نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

۱_ عمر کب مسلمان ہوئے؟

گذشتہ روایات کی رو سے وہ حمزہ بن عبد المطلب کے قبول اسلام کے تین دن بعد مسلمان ہوئے_ عمر کا قبول اسلام اس بات کا سبب بنا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ارقم کے گھرسے باہر نکلیں ، یعنی جب مسلمانوں کی تعداد چالیس یا اس کے لگ بھگ ہوگئی_

یہاں درج ذیل امور قابل ذکر ہیں:

الف: وہ خود ہی کہتے ہیں کہ ارقم کے گھر سے نکلنے کا واقعہ بعثت کے تیسرے سال کا ہے جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا، جبکہ اہلسنت کہتے ہیں کہ حضرت عمر بعثت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے_

ب: ان کا کہنا ہے کہ حضرت عمر نے ہجرت حبشہ کے بعد اسلام قبول کیا چنانچہ جب مسلمان کوچ کی

___________________

۱_ ان روایات کے بارے میں رجوع کریں: البدء و التاریخ ج ۵ص ۸۸، سیرت مغلطای ص ۲۳و منتخب کنز العمال حاشیہ مسند احمد ج ۴ص ۴۷۰از طبرانی، احمد، ابن ماجہ، حاکم، بیہقی، ترمذی، نسائی از عمر، خباب، ابن مسعود، الاوائل ج ۱ص ۲۲۱، طبقات ابن سعد ج ۳حصہ اول ص ۱۹۱_۱۹۳ و جامع ترمذی مطبوعہ ہند ج ۴ص ۳۱۴_۳۱۵، دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۷ نیز تحفہ الاحوذی ج ۴ص ۳۱۴ نیز البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۹و البخاری مطبوعة میمنیة، المصنف عبدالرزاق ج ۵ ص۳۲۵، الاستیعاب حاشیة الاصابة ج ۱ ص۲۷۱ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۳۰تاریخ اسلام (ذہبی) ج ۲ص ۱۰۲و تاریخ الخمیس و سیرت ابن ہشام و سیرت دحلان و مسند احمد و سیرت المصطفی و طبرانی در الکبیر و الاوسط و مشکاة_ نیز دیگر کتب تاریخ اور حدیث_

۱۲۳

تیاری کررہے تھے تو حضرت عمر کا دل بھر آیا یہاں تک کہ مسلمانوں نے امید ظاہر کی کہ حضرت عمر مسلمان ہوجائے گا اور ہجرت حبشہ بعثت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے جبکہ ارقم کے گھر سے نکلنے کا واقعہ اس سے پہلے یعنی بعثت کے تیسرے سال وقوع پذیر ہوا_

ج:حضرت عمر مسلمانوں کو ستانے میں مشرکین کے ساتھ تھے اور یہ بات ارقم کے گھر سے نکلنے اور اعلانیہ دعوت شروع ہونے کے بعد کی بات ہے ،بلکہ ہم تو یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بعثت کے چھٹے سال تک بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے کیونکہ:

اولًا: یہی لوگ خود کہتے ہیں کہ حضرت عمر نماز ظہر کے فرض ہونے کے بعد مسلمان ہوئے چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت عمر کی مدد سے نماز ظہر اعلانیہ پڑھی (جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے) جبکہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ نماز ظہر واقعہ معراج (جو خود ان کے نزدیک بعثت کے بارہویں یا تیرہویں سال پیش آیا) کے دوران واجب ہوئی_ بنابریں ان کی باتوں میں تضاد ہے_ بعض لوگوں نے اس کی یہ توجیہہ پیش کی ہے کہ یہاں مراد نماز صبح ہے_(۱) لیکن یہ توجیہہ غلط ہے کیونکہ لفظ ''ظہر'' ، ''صبح'' کے لئے استعمال نہیں ہوتا اور اگر ان کی مراد یہ ہو کہ رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی صبح کی نماز سورج کے ابھرنے تک مؤخر کر کے پڑھتے تھے تو یہ توجیہ بھی نامعقول ہے کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی نماز میں کسی عذر شرعی کے بغیر کیسے تاخیر کرسکتے تھے؟

ثانیاً: عبداللہ بن عمر صریحاً کہتا ہے کہ جب اس کے والد مسلمان ہوئے تو اس وقت اس کی عمر چھ سال تھی_(۲) بعض حضرات کا خیال ہے کہ وہ پانچ سال کا تھا_(۳)

اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر کے قبول اسلام کے وقت عبداللہ بن عمر گھرکی چھت پر موجود تھااس نے دیکھا کہ لوگوں نے اس کے باپ کے خلاف ہنگامہ کر رکھا ہے ادر اسے گھر میں محصور کردیا ہے_ اتنے میں

___________________

۱_ سیرت حلبی ج ۱ص ۳۳۵ _

۲_ تاریخ عمر بن خطاب از ابن جوزی ص ۱۹و طبقات ابن سعد ج ۳ص ۱۹۳ (حصہ اول) و شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۲ص ۱۸۲_

۳_ فتح الباری ج ۷ص ۱۳۵ _

۱۲۴

عاص بن وائل نے آکر ان کو منتشر کردیا_ اس وقت ابن عمرنے اپنے باپ سے بعض چیزوں کے متعلق استفسار کیا جس کا ذکر آگے آئےگا_

نیز ابن عمر کہتا ہے کہ جب اس کا باپ مسلمان ہوا تو اس نے باپ کی نگرانی شروع کی کہ وہ کیا کرتا ہے، کہتا ہے اس وقت میرے لڑکپن کا دور تھا اور میں جو کچھ دیکھتا اسے سمجھتا بھی تھا_(۱) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن عمر ان دنوں باشعور اور سمجھدار تھا_ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمرنے بعثت کے نویں سال اسلام قبول کیا جیساکہ بعض لوگوں کا خیال بھی ہے_(۲) کیونکہ ابن عمر بعثت کے تیسرے سال پیدا ہوا تھا ہجرت کے پانچویں سال جب جنگ خندق ہوئی تو ابن عمر کی زندگی کے پندرہ سال گزر چکے تھے چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے (بنابرمشہور) اس کو جنگ میں شرکت کی اجازت دی(۳) بلکہ ابن شہاب کے مطابق تو حفصہ اور عبداللہ ابن عمر اپنے باپ عمر سے پہلے مسلمان ہوئے تھے اور جب ان کا باپ عمر مسلمان ہوا تو اس وقت عبدا للہ کی عمر سات سال کے لگ بھگ تھی(۴) اس بات کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر بعثت کے دسویں سال مسلمان ہوئے _ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حضرت عمر ہجرت سے قدرے پہلے تک مسلمان نہیں ہوئے تھے_ اس کی دلیل درج ذیل امور ہیں:

الف: یہ کہ انہیں خبر ملی کہ ان کی بہن مردار نہیں کھاتی_(۵)

واضح ہے کہ مردار کھانے کی مخالفت سورہ انعام میں ہوئی ہے جو مکہ میں ایک ساتھ نازل ہوئی_ اس وقت قبیلہ اوس کی ایک عورت (اسماء بنت یزید) نے بعض روایات کی بنا پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اونٹنی کی لگام تھام رکھی تھی(۶) واضح رہے کہ قبیلہ اوس اور مدینہ والوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طائف کی ہجرت کے بعد اسلام قبول کیا

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۱و تاریخ الاسلام (ذہبی) ج ۲ص ۱۰۵و سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۷۳_۳۷۴ _

۲_ السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۳۹البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۲و مروج الذہب مطبوعہ دار الاندلس بیروت ج ۲ص ۳۲۱_

۳_ سیر اعلام النبلاء ج ۳ ص ۲۰۹، تہذیب الکمال ج ۱۵ ص ۳۴۰ ، الاصابہ ج ۲ ص ۳۴۷، اسی کے حاشیہ پر الاستیعاب ج ۲ ص ۳۴۲ اور باقی منابع کے لئے ملاحظہ ہو ہماری کتاب '' سلمان الفارسی فی مواجہة التحدی'' (سلمان فارسی چیلنجوں کے مقابلے میں )ص ۲۴_

۴_ سیر اعلام النبلاء ج ۳ ص ۲۰۹_ ۵_ المصنف ( حافظ عبد الرزاق) ج ۵ص ۳۲۶ _ ۶_ الدر المنثور ج ۳ص ۲از طبرانی اور ابن مردویہ_

۱۲۵

کیا تھا اور ان کی عورتیں پہلی بیعت عقبہ کے بعد مکہ آئی تھیں_

ب:بعض لوگوں نے اس بات کو حقیقت سے قریب تر سمجھا ہے کہ حضرت عمر نے ہجرت حبشہ کے بعد چالیس یا پینتالیس افراد کے مسلمان ہونے کے بعد اسلام قبول کیا(۱) اس کی تائید یوں ہوتی ہے کہ بعثت کے پانچویں سال حبشہ جانیوالے افراد کی تعداد اسّی ۸۰ مردوں سے زیادہ تھی اور ان کے بقول حضرت عمر بعثت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پینتالیس مسلمان ہونے والے افراد لازمی طور پر ہجرت کرنے والے ان اسّی افراد کے علاوہ ہونے چاہئیں_اگرچہ ابن جوزی نے حضرت عمر سے قبل مسلمان ہونے والوں کو شمار کیا ہے اور حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد بیشتر بتائی ہے_(۲)

نیز اس امر کی تائیدان روایات سے بھی ہوتی ہے جن کے مطابق حضرت عمر بعثت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے اور یہ کہ حبشہ جانے والوں کو دیکھ کر ان کا دل پسیجا یہاں تک کہ مسلمانوں کو حضرت عمر کے مسلمان ہونے کی امید بندھی_

جب صورت حال یہ ہے تو واضح ہواکہ (جیساکہ مدینہ میں مہاجرین وانصار کے درمیان مواخات کی بحث میں آگے چل کر ذکر ہوگا) اس وقت مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا اس کے لگ بھگ تھی(۳) یعنی ہجرت حبشہ کے بعد مسلمان ہونے والے صرف یہی پینتالیس کے قریب افراد تھے _ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عمر ہجرت مدینہ سے کچھ ہی پہلے اسلام لائے تھے اور اس کے بعد ہجرت کی تھی اور شاید اسی لئے مکہ میں وہ مشرکین کی ایذا رسانی سے بچے رہے_

ج:حضرت عمر کے قبول اسلام کے حوالے سے روایات میں ذکر ہوا ہے کہ ایک دفعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ بلند

___________________

۱_ الثقات از ابن حسان ج ۱ ص ۷۳، البدایة و النہایة ج ۳ ص ۸۰، البدء و التاریخ ج ۵ ص ۸۸_

۲_ تاریخ عمر بن خطاب از ابن جوزی ص ۲۸_۲۹_

۳_ اگرچہ ابن ہشام نے ہجرت کرنے والوں کی تعداد ستر کے قریب بتائی ہے لیکن یہ بات قابل قبول نہیں کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جن لوگوں میں بھائی چارہ قائم کیا ان کی تعداد ایک سے زیادہ اسناد کے ساتھ منقول ہے اور یہ امر غیرقابل قبول ہے کہ حضور نے کسی صحابی کا بھائی چارہ دوسرے کے ساتھ قائم نہ کیا ہو_

۱۲۶

آواز سے نماز پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آئے اور سنا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ آیات پڑھ رہے ہیں( وما کنت تتلو من قبله من کتاب ولاتخطه بیمینک الظالمون ) (۱) واضح ہے کہ یہ دو آیتیں سورہ عنکبوت کی ہیں جو یاتو مکہ میں نازل ہونے والی آخری سورت ہے یا آخری سے پہلی سورت_(۲) پس معلوم ہوا کہ حضرت عمر ہجرت کے قریب قریب مسلمان ہوئے تھے_

د:بخاری نے صحیح بخاری میں نافع سے روایت کی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابن عمر اپنے باپ حضرت عمر سے پہلے مسلمان ہوا _نافع نے اس کی یوں تاویل کی ہے کہ ابن عمرنے بیعت شجرہ کے موقع پرحضرت عمر سے پہلے بیعت کی تھی اسلئے لوگ کہتے ہیں کہ ابن عمر نے حضرت عمر سے پہلے اسلام قبول کیا_(۳)

لیکن ہم نافع سے سوال کرتے ہیں کہ کیا لوگ عربی زبان نہ جانتے تھے؟اگر جانتے تھے تو پھر انہوں نے یہ کہنے کی بجائے کہ ابن عمر نے اپنے باپ سے پہلے بیعت کی تھی کیونکر یہ کہا کہ وہ اپنے باپ سے پہلے مسلمان ہوا _نیز کیا ان میں کوئی اتنا بھی نہ جانتا تھا کہ بیعت کرنا اور چیز ہے ، اسلام قبول کرنا اور چیز ہے_ پس بیعت سے مراد قبول اسلام کیسے ہوسکتا ہے؟

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگ جو کہتے تھے وہی درست ہے، یعنی یہ کہ ابن عمر دس سال کی عمر میں ہجرت سے کچھ پہلے مسلمان ہوااور اس کے بعد اس کے باپ مسلمان ہوئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی_

۲_ حضرت عمر کو فاروق کس نے کہا؟

گذشتہ روایات میں ہم نے پڑھا کہ جب حضرت عمر مسلمان ہوئے تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان کو فاروق کا لقب دیا _ لیکن ہماری نظر میں یہ بات نہایت مشکوک ہے کیونکہ زہری کہتا ہے ''ہمیں خبر ملی ہے کہ اہل کتاب

___________________

۱_ المصنف (حافظ عبدالرزاق) ج ۵ص ۳۲۶نیز حضرت عمر کے قبول اسلام کے بارے میں ذکرشدہ مآخذ کی طرف رجوع کریں_

۲_ الاتقان ج ۱ ص ۱۰_۱۱_

۳_ صحیح بخاری (مطبوعہ مشکول) ج ۵ص ۱۶۳ _

۱۲۷

نے پہلے پہل حضرت عمر کو الفاروق کہہ کرپکارا _ مسلمانوں نے یہ لفظ ان سے لیا ہے اور ہمیں کوئی ایسی روایت نہیں ملی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اس قسم کا لقب دیا ہو''(۱) جبکہ فاروق کا لقب انہیں ایام خلافت میں ملا تھا(۲)

۳_ کیا حضرت عمر کو پڑھنا آتا تھا؟

روایات میں مذکور ہے کہ حضرت عمر کو پڑھنا آتا تھا اور انہوں نے صحیفہ قرآنی کو خود پڑھا تھا_

ہمارے نزدیک تو یہ بات بھی مشکوک ہے اور ہمارا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عمر کو نہ پڑھنا آتا تھا نہ لکھنا خصوصاً شروع شروع میں_ زندگی کے آخری ایام میں لکھنا پڑھنا سیکھ گئے ہوں تویہ اور بات ہے_ اس کی دو وجوہات ہیں:

پہلی وجہ: بعض حضرات نے صریحاً کہا ہے کہ خباب بن ارت نے انہیں نوشتہ قرآنی پڑھ کر سنایا تھا_(۳) پس اگر وہ پڑھ سکتے تو معاملے کی سچائی اور حقیقت جاننے کے لئے اسے خود کیوں نہیں پڑھا_

دوسری وجہ: حافظ عبدالرزاق نے( ان لوگوں کے بقول) صحیح سند کے ساتھ مذکورہ واقعے کو نقل کیا ہے لیکن اس نے کہا ہے کہ حضرت عمرنے (اپنی بہن کے گھر میں) شانے کی ہڈی (جس پر قرآن کی آیات مرقوم تھیں) تلاش کی اور جب وہ مل گئی تو حضرت عمرنے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ تو وہ کھانا نہیں کھاتی جو میں کھاتا ہوں_ پھر اس ہڈی سے اپنی بہن کو مارا اور اس کے سر کو دوجگہوں سے زخمی کردیا _ پھر وہ ہڈی لیکر نکلے اور کسی سے پڑھوایا_ حضرت عمر ان پڑھ تھے _جب وہ نوشتہ انہیں پڑھ کرسنایا گیا تو ان کا دل دہل گیا_(۴) اس بات کی تائید عیاض ابن ابوموسی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ عمر بن خطاب نے ابوموسی سے کہا:

___________________

۱_ تاریخ عمر ابن خطاب ( ابن جوزی )ص ۳۰، طبقات ابن سعد ج ۳حصہ اول ص ۱۹۳، البدایة و النہایة ج ۷ص ۱۳۳، تاریخ طبری ج ۳ص ۲۶۷سنہ۲۳ہجری کے واقعات اور ذیل المذیل ج ۸از تاریخ طبری_

۲_ ملاحظہ ہو: طبقات الشعراء (ابن سلام ) ۴۴_

۳_ تاریخ ابن خلدون ج۲ص ۹ _

۴_ المصنف (حافظ عبدالرزاق) ج ۵ص ۳۲۶_

۱۲۸

''اپنے محرر کو بلاؤ تاکہ وہ ہمیں شام سے پہنچنے والے چند خطوط پڑھ کر سنائے''_ ابوموسی نے کہا : ''وہ مسجد میں داخل نہیں ہوتا'' عمرنے پوچھا : ''کیا وہ مجنب ہے؟ ''جواب ملا : ''نہیں بلکہ وہ تو نصرانی ہے'' _ پس حضرت عمر نے اپنا ہاتھ اٹھاکر اس کی ران پر مارا ،قریب تھا کہ ران کی ہڈی ٹوٹ جاتی_(۱)

ممکن ہے کوئی یہ جواب دے کہ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی خلفاء کبھی کبھی اپنے عہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے بذات خود نہیں پڑھتے تھے ، یا یہ کہ وہ خطوط عربی میں نہیں لکھے گئے تھے_ لیکن بظاہر یہ تکلفات بعد کی پیداوار ہیں _علاوہ برایں شامیوں کی زبان ہمیشہ عربی رہی ہے اور یہ بعید بات ہے کہ انہوں نے عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں خطوط لکھے ہوں_

مذکورہ بات کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر عالمانہ ذہنیت کے مالک نہ تھے_ اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے بارہ سال میں سورہ بقرہ یادکیا_ جب یاد کرلیا تو حیوان کی قربانی دی_(۲)

بلکہ یہ بھی منقول ہے کہ جب حضرت عمر نے حضرت حفضہ سے کہا کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے کلالہ کا حکم معلوم کرے اور حضرت حفصہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند تحریروں کی صورت میں انہیں املا کر دیا_ پھر فرمایا: '' عمر نے تجھے اس کا حکم دیا ہے ؟میرا تو یہ خیال ہے کہ وہ اسے نہیں سمجھ پائے گا_(۳)

بہت سے لوگوں کی روایت کے مطابق نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمر کے روبرو یہی بات کہی_(۴)

ہاں ممکن ہے حضرت عمرنے مشقت اٹھاکر نئے سرے سے لکھنا پڑھنا سیکھا ہو جیساکہ بخاری نے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر کہاکرتے تھے اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا ہے تو آیہ رجم کو اپنے ہاتھ سے لکھتے

___________________

۱_ عیون الاخبار (ابن قتیبة) ج ۱ ص ۴۳، الدرالمنثور ج۲ ص ۲۹۱ از ابن ابی حاتم و بیہقی در شعب الایمان اور حیاة الصحابہ ج۲ ص ۷۸۵ از تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۶۸_

۲_ تاریخ عمر از ابن جوزی ص ۱۶۵، الدر المنثور ج ۱ص ۲۱از خطیب نیز البیہقی در شعب الایمان و شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۲ص ۶۶، الغدیر ج ۶ص ۱۹۶از مآخذ مذکور و از تفسیر قرطبی ج ۱ ص۳۴ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۲۸۰ از تنویر الحوالک ج ۲ ص ۶۸_

۳_ المصنف ( حافظ عبد الرزاق) ج ۱۰ص ۳۰۵ _

۴_ رجوع کریں: الغدیر ج ۶ص ۱۱۶ (ایک سے زیادہ مآخذ سے منقول) اور ص ۱۲۸ _

۱۲۹

بہر حال معاملہ جو بھی ہو لیکن خلیفہ ثانی کے پڑھے لکھے ہونے کے متعلق شک کرنے والے ہم پہلے آدمی نہیں ہیں بلکہ یہ موضوع تو پہلی صدی ہجری سے ہی معرکة الآراء رہا ہے یہی زہری کہتاہے کہ '' ہم عمر بن عبدالعزیز ( جو اس وقت مدینہ کا گورنر تھا _ پھر اس کے بعد عبداللہ بن عبداللہ بن عتبہ مدینہ کا گورنر بنا تھا) کے پاس بیٹھے اس موضوع کے متعلق بحث کررہے تھے تو اس نے کہا :'' اگر ان لوگوں کے پاس اس بارے میں کوئی خبر ہے تو میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا عمر لکھنا جانتا تھا؟'' عروة نے کہا : '' ہاں جانتا تھا'' اس نے پوچھا : '' تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟ ''عروہ نے کہا : '' عمر کا یہ کہنا کہ اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے قرآن مجید میں اضافہ کیا ہے تو میں آیت رجم کو اپنے ہاتھوں سے قرآن میں لکھتا اس کی دلیل ہے'' _ عبداللہ کہتاہے : '' کیا عروہ نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ اسے یہ حدیث کس نے بتائی ہے ؟ ''میں نے کہا : '' نہیں'' عبیداللہ کہتاہے: '' عروة کی مثال اس مچھر کی طرح ہے جو خون تو چوستاہے مگر اپنا نشان کہیں نہیں چھوڑتا ہماری حدیثیں چوری کرتاہے لیکن ہمیں چھپا دیتاہے'' یعنی حدیث میں نے بیان کی ہے_

نکتہ :

جب یہ بات مشکوک یا ثابت ہوجائے کہ حضرت عمر پڑھے لکھے نہیں تھے تو لا محالہ ان کا یہ قول بھی مشکوک ہوجائے گا کہ وہ کاتب وحی تھے_ اور شاید یہ بھی ان تمغوں میں سے ہے جنہیں حضرت عمر کے ان وفاداروں نے گھڑا ہے جنہیں حضرت عمر کی اس فضیلت سے محرومی بہت گراں گزری ہے _ مزید یہ کہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جناب عمر نے ابوموسی کی ران پر اس زور سے مارا کہ اس کے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوگیا صرف اس لئے

___________________

۱_ حلیة الاولیاء ج ۹ص ۳۴از کنز العمال ج ۵ص ۵۰از ابن سعد، سعید بن منصور، ابن منذر، ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم_

۲_ کنز العمال ج ۶ ص ۲۹۵_

۱۳۰

کہ اس نے نصرانی محرر رکھا ہوا تھا_ جبکہ وہ لوگ خود ہی کہتے ہیں کہ خود حضرت عمر کا اپنا ایک نصرانی غلام تھا جو آخری دم تک مسلمان نہیں ہوا تھا _ وہ اسے اسلام لانے کی پیشکش کرتے لیکن وہ انکار کرتا رہا یہاں تک کہ حضرت عمر کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے نصرانی غلام کو آزاد کردیا(۱) _ خلیفہ ثانی کے موقف میں یہ کتنا تضاد ہے ؟ اور اس کی کیا توجیہ ہوسکتی ہے ؟ صرف یہ کہ ابوموسی پر اس کا اعتراض اس کے منصبی لحاظ سے صرف اس بناپر تھا کہ مسلمانوں کے داخلی امور میں ایک نصرانی سے کام لیتا تھا_ اور یہ کام مسلمانوں کی خدمت غیر مسلم سے کرانے والا مسئلہ بھی نہیں (کیونکہ حساس مسئلہ تھا_ جبکہ خلیفہ وقت کے پاس ایک نصرانی گھر کا بھیدی تھا _از مترجم)

۴_ کیا واقعی حضرت عمر اسلام کی سربلندی کا باعث بنے ہیں؟

منقول ہے کہ حضرت عمر کی برکت سے اسلام کو تقویت یا سربلندی ملی اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے خدا سے دعا مانگی تھی کہ وہ حضرت عمر کے ذریعے اسلام کو سربلندی اور تقویت عطا کرے ...بلکہ بعض روایتوں کے مطابق تو وہ زمانہ جاہلیت میں بھی زور آور تھے _ کیونکہ جب انہوں نے ابوبکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کا ہمدرد اور مونس ہے تو حضرت ابوبکر نے ان سے کہا :''میرا تو تیری حمایت کرنے کا ارادہ تھا اور تو میرے متعلق یہ کہہ رہا ہے _ اس لئے کہ تو جاہلیت میں تو زور آور تھا لیکن اسلام میں بزدل ہے ...''(۲) ہمارے نزدیک یہ بات نہ فقط مشکوک ہےبلکہ بے بنیاد ہے اور اس کی وجوہات یہ ہیں:

___________________

۱_ حلیة الاولیاء ج۹ ص ۳۴ از کنز العمال ج۵ ص ۵۰ از ابن سعد، سعید بن منصور ، ابن منذر ، ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم، طبقات الکبری ج۶ ص ۱۰۹ ، التراتیب الاداریہ ج۱ ص ۱۰۲ ، نظام الحکم فی الشریعة والتاریخ والحیاة الدستوریہ ص ۵۸ از تاریخ عمر ( ابن جوزی) ص ۸۷ و ص ۱۴۸ _

۲_ کنز العمال ج۶ ص ۲۹۵_

۱۳۱

الف: جب شیخ ابطح حضرت ابوطالب ،خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیر حضرت حمزہ(جنہوں نے مشرکین کے سرغنہ ابوجہل کا سر پھوڑا تھا )اور بنی ہاشم کے دیگر صاحبان عزت وشرف افراد کے بارے میں یہ نہیں کہتے کہ ان سے اسلام کو عزت وتقویت ملی تو پھر حضرت عمر اسلام کی تقویت اور عزت کا باعث کیسے بن سکتے ہیں؟ جو خود ایک معمولی خادم(۱) کی حیثیت سے شام کے سفر میں ولید بن عقبہ کے ساتھ گئے تھے_(۲) وہ عمر جن کے قبیلے میں کوئی قابل ذکر بزرگ یا رئیس نہ تھا_(۳)

وہ عمر جنہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ گزرنے والی پوری زندگی میں شجاعت ومردانگی کی کوئی ایک مثال بھی قائم نہیں کی_ ہم تو دیکھتے ہیں کہ حضرت عمرنے نہ ہی کوئی لڑائی لڑی، نہ کسی جنگ میں کوئی جرا ت مندانہ اقدام کیا، جبکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے دور میں بہت سی جنگیں ہوئیں _

بلکہ اس کے برعکس ہم تو کئی جنگوں میں حضرت عمر کو میدان جنگ سے فرار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں_ مثال کے طور پر جنگ احد، جنگ حنین اور جنگ خیبر میں _جیساکہ سیرت نگاروں، تاریخ نویسوں اور محدثین کی ایک بڑی تعداد نے اس کا ذکر کیا ہے_ آئندہ اس کا تذکرہ ہوگا انشاء اللہ _

زمخشری نے یہاں ایک عجیب لطیفے کی بات نقل کی ہے اور وہ یہ کہ انس بن مدرکہ نے ایام جاہلیت میں قریش کے ایک گلے پر ڈاکہ ڈالا اور اس کو لے کر چلتا بنا _اپنی خلافت کے دوران حضرت عمرنے اس سے کہا :''ہم نے اس رات تمہارا تعاقب کیا تھا اگر ہمارے ہاتھ لگ جاتے تو تمہاری خیر نہیں تھی'' اس نے جواب دیا:''اس صورت میں آج آپ، لوگوں کے خلیفہ نہ ہوتے''_(۴)

جی ہاں اسلام کی سرافرازی اور تقویت حضرت عمر کے ذریعے کیسے ہوسکتی تھی؟ کیونکہ نہ توانہیں بذات خود کوئی حیثیت حاصل تھی، نہ ہی اپنے قبیلے کی وجہ سے کوئی عزت تھی اور نہ ہی وہ اتنے بہادر تھے کہ لوگ ان سے ڈرتے_

___________________

۱_ رجوع کریں: اقرب الموارد لفظ ''عسف''_اور''عسیف '' کا ایک اور معنی کرایہ کامزدور یا غنڈہ بھی ہے _

۲_ المنمق ( ابن حبیب) مطبوعہ ھند صفحہ ۱۴۷اور شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۲ص ۱۸۳_

۳_ المنمق ص ۱۴۷ _

۴_ ربیع الابرار ج ۱ص ۷۰۷ _

۱۳۲

ب: چاہے ہم اس بات کے قائل ہوں کہ حضرت عمر شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے واقعہ سے پہلے مسلمان ہوئے یا یہ کہیں کہ اس واقعہ کے بعد مسلمان ہوئے ، پھر بھی حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ حالات جوں کے توں رہے کیونکہ اگر ہم حضرت عمر کے قبول اسلام سے پہلے اور اس کے بعد دعوت اسلام کے تدریجی سفرکو ملاحظہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کے قبول اسلام کے بعد کوئی زیادہ پیشرفت نہیں ہوئی بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہوا_ ایک طرف سے مشرکین نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بنی ہاشم کو شعب ابوطالب میں محصور کردیا ، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرنے کے قریب ہوگئے _ان کے مرد درخت ببول کے پتے کھاتے تھے اور ان کے بچے بھوک سے بلبلا تے تھے_

ادھر مشرکین نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو قتل کرنے کی سازش کی اور وفات ابوطالب کے بعد جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سفر طائف سے لوٹے تو بہت مشکل سے شہر مکہ میں داخل ہوسکے_ ان سخت حالات میں عمر نے کہیں بھی کسی قسم کا حل پیش کرنے میں مدد نہیں کی _ان باتوں کے علاوہ ابولہب نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو ستانے کیلئے مسلسل اذیتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا_

ج: امام بخاری نے صحیح بخاری اور دیگر کتب میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ جب عمر ڈرکے مارے گھرمیں محصور تھے، اس وقت عاص بن وائل ان کے پاس آیا اور اس نے پوچھا'' تمہاراکیا حال ہے؟'' وہ بولے :''تمہاری قوم کا کیا پتہ ہے اگر مسلمان ہوجاؤں تووہ مجھے قتل کردیں '' _وہ بولا :'' جب میں نے تجھے امان دے دی ہے تو وہ تجھے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے'' _حضرت عمر کہتے ہیں:''جب اس نے یہ کہا تو مجھے سکون حاصل ہوا اور میں ایمان لایا'' _ اس کے بعد اس نے ذکر کیا ہے کہ عاص نے کس طرح لوگوں کو حضرت عمر سے دور رکھا _ذہبی نے حضرت عمر کے اس قول ''مجھے اس کی قوت وجبروت سے حیرت ہوئی ...''کا بھی اضافہ کیا ہے _(۱)

___________________

۱_ رجوع کریں: صحیح بخاری ج ۵ص ۶۰_۶۱مطبوعہ مشکول (اس میں دو روایتیں مذکور ہیں) نیز تاریخ الاسلام (ذہبی) ج ۲ص ۱۰۴، نسب قریش از مصعب زبیری ص ۴۰۹تاریخ عمر از ابن جوزی ص ۲۶و السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۳۲، سیرت نبویہ (دحلان) ج ۱ص ۱۳۵، سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۷۴،ر البدایة و النہایة ص ۸۲ اور دلائل النبوة (بیہقی) مطبوعہ دار النصر ج ۲ ص۹_

۱۳۳

پس جس شخص کو لوگ قتل کی دھمکی دیں اور وہ ڈرکے مارے گھرمیں دبک کر بیٹھ جائے وہ صاحب عزت وجبروت نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسلام کو اس کے طفیل قوت وحیثیت حاصل ہوسکتی ہے_ البتہ اسلام کے صدقے خود انہیں عزت ومقام حاصل ہوا (جس کا آگے چل کر ذکر کریں گے) ان باتوں کے علاوہ بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ ابوجہل نے حضرت عمر کوپناہ دی تھی(۱) بنابرایں مناسب یہ تھا کہ ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس شخص کے ذریعے دین کی تقویت و عزت کیلئے دعا کرتے جس نے عمر کو پناہ دی تھی اور جس کے جبروت سے لوگ حیرت زدہ تھے، گھر کے کونے میں چھپنے والے خوفزذہ حضرت عمر کے ذریعے نہیں_

د:عجیب بات تو یہ ہے کہ جن دو افراد کے حق میں اہلسنت کی روایات کے مطابق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے دعا کی ان میں سے ایک کا سر حضرت حمزہ نے اپنی کمان سے بڑی طرح پھوڑ دیا ، وہ بھی اس کے طرفداروں کے عین سامنے اور وہ بات کرنے کی بھی جرا ت نہ کرسکا _پھر وہ جنگ بدر میںہی ( جو مشرکین کے ساتھ پہلی جنگ تھی)، مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیااور دوسرا شخص بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توقعات کے خلاف نکلا_یعنی خدانے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی دعا اس کے حق میں قبول نہیں فرمائی،کیونکہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے اسلام کی کوئی تقویت نہیں ہوئی_ جبکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ فرمایا کرتے تھے : ''میں نے اپنے رب سے کوئی دعا نہیں کی مگر یہ کہ خدانے اسے قبول کرلیا''(۲) لیکن یہاں توبات ہی برعکس ہے، کیونکہ عبدالرزاق کہتا ہے کہ جب حضرت عمرنے اپنے اسلام کو ظاہر کیا تو مشرکین سیخ پا ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کی ایک جماعت کوسخت اذیتیں دیں_(۳)

ھ: یہاں نعیم بن عبداللہ النحام عدوی اور عمر بن خطاب عدوی کے درمیان موازنہ فائدے سے خالی نہیں ہے_ نعیم حضرت عمر سے قبل مسلمان ہوا اور اپنے ایمان کو چھپاتا رہا_ اس کی قوم نے اسے ہجرت کرنے سے روکا کیونکہ بنی عدی کے یتیموں اور بیواؤں پر مال خرچ کرنے کی بنا پر اسے قوم کے درمیان عزت و شرف

___________________

۱_ تاریخ عمر(ابن جوزی) ص ۲۴ و ۲۵ اور ملاحظہ ہو: کشف الاستار ج۳ ص ۱۷۱ اور مجمع الزوائد ج۹ ص ۶۴ البتہ یہاں ذکر ہوا ہے کہ اس کے ماموں نے اسے پناہ دی تھی اور ابن اسحاق کہتاہے کہ یہاں ان کے ماموں سے مراد'' ابوجہل'' ہے _ لیکن ابن جوزی اس بات سے قانع نہیں ہوئے _ پس مراجعہ فرمائیں_

۲_ رجوع کریں: حالات زندگی حضرت علیعليه‌السلام از تاریخ عساکر با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۲۷۵_۲۷۶ (حاشیہ کے ساتھ) اور ۲۷۸، فرائد السمطین باب ۴۳حدیث ۱۷۲، کنز العمال ج ۱۵ص ۱۵۵طبع دوم از ابن جریر (جس نے اسے صحیح قرار دیا ہے)، ابن ابی عاصم اور طبرانی در الاوسط نیز ابن شاھین در السنة اور ریاض النضرة ج ۲ص ۲۱۳_ ۳_ رجوع کریں المصنف (عبدالرزاق) ج۵ص۳۲۸_

۱۳۴

حاصل تھا چنانچہ انہوں نے کہا :''آپ ہمارے ہاں ہی ٹھہر یئےور جس دین کی چاہیں پیروی کرتے رہیں خدا کی قسم کوئی شخص بھی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا مگر یہ کہ پہلے ہماری جانیں چلی جائیں''_(۱)

عروہ نے نعیم کے گھرانے کے بارے میں کہا ہے کہ بنی عدی کے کسی فردنے اس گھرانے کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا(۲) یعنی اس کے مقام و منزلت کے پیش نظر انہوں نے کچھ نہیں کہا _ادھر حضرت عمر کو دیکھئے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حدیبیہ میں انہیں مکہ بھیجنا چاہا تاکہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے رؤسائے قریش کو ایک پیغام پہنچائے _یہ پیغام اس کام سے متعلق تھا جس کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے تھے _ لیکن عمرنے انکار کیا اور کہا:''میں قریش سے جانی خطرہ محسوس کرتا ہوں اور مکے میں بنی عدی کا کوئی فرد ایسا نہیں جو میری حمایت و حفاظت کرے''_ پھر اس نے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عثمان بن عفان کو بھیجنے کیلئے اشارہ کیا_(۳)

و:ابن عمرنے نعیم النحام کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو نعیم نے اسے ٹھکرادیا اور کہا :''میں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ میرا گوشت مٹی میں مل جائے'' پھر اس کی شادی نعمان بن عدی بن نضلہ سے کردی_(۴)

ز:دوران خلا فت شام کے دورے پر جاتے ہوئے جب حضرت عمر نے اپنے موزے اتار کر کاندھے پر رکھے اور اپنی اونٹنی کی مہار تھام کر پانی میں داخل ہوئے تو ابو عبیدہ نے اعتراض کیا_ حضرت عمرنے جواب دیا:'' ہم ذلیل ترین قوم کے افراد تھے لیکن خدانے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت دی پس جب ہم اسلام کے علاوہ کسی اور چیز کے ذریعے عزت طلب کریں گے تو خدابھی ہمیں ذلیل کردے گا''_(۵) حضرت عمر سے منقول ایک اور عبارت یوں ہے ''ہم وہ لوگ ہیں جنہیں خدانے اسلام کی برکت سے حیثیت بخشی ہے ، پس ہم کسی اور چیز کے ذریعے عزت و حیثیت طلب نہیں کریں گے''_(۶)

___________________

۱_ اسدالغابة ج ۲ص ۳۳نیز رجوع کریں: نسب قریش ( مصعب) ص ۳۸۰_ ۲_ نسب قریش (مصعب) ص ۳۸۱ _

۳_ البدایة و النہایة ج۴ ص ۱۶۷از ابن اسحاق، حیات صحابہ ج ۲ص_ ۳۹۷_۳۹۸از کنز العمال ج ۱ ص ۸۴، ۵۶ و ج ۵ص ۲۸۸از ابن ابی شیبہ، رویانی، ابن عساکر اور ابویعلی، طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۴۶۱اور سنن البیہقی ج ۹ص ۲۲۱ _ ۴_ نسب قریش ( مصعب) ص ۳۸۰ _

۵_ مستدرک حاکم: ج ۱ص ۶۱اور اس کی تلخیص (ذہبی) حاشیہ کے ساتھ جس نے بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق اسے صحیح قرار دیا ہے_

۶_ مستدرک حاکم ج ۱ص ۶۲ _

۱۳۵

ح:فتح مکہ کے موقع پرجب ابوسفیان جھنڈوں کا جائزہ لے رہا تھا اور اس کی نظر حضرت عمر پر پڑی جو ایک جماعت کے سا تھ تھے تو اس نے عباس سے پوچھا :'' اے ابوالفضل یہ متکلم کون ہے؟'' وہ بولے:'' عمر بن خطاب ہے''_ ابوسفیان نے کہا:'' خدا کی قسم بنی عدی کو ذلت وپستی اور قلت عدد کے بعد عزت وحیثیت ملی ہے''_عباس نے کہا :''اے ابوسفیان خدا جس کا مرتبہ بلندکرنا چاہے کرتا ہے، عمر کو خدا نے اسلام کی بدولت عزت بخشی ہے''_(۱)

۵_ حضرت عمر کا غسل جنابت

اہلسنت کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی بہن نے ان کو غسل کرنے کیلئے کہا تاکہ وہ نوشتہ قرآنی کو چھوسکیں حالانکہ قرآن کو چھونے کیلئے مشرک کا غسل عبث ہے ،کیونکہ ان میں اصل مانع شرک تھا نہ جنابت ،اسی لئے ان کی بہن نے کہا تھا کہ تم مشرک اور نجس ہو اور قرآن کو پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں_(۲)

رہا غسل جنابت تو کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی غسل جنابت کیا کرتے تھے(۳) پھر حضرت عمر کی بہن نے ان سے یہ کیونکر کہا کہ تم غسل جنابت نہیں کرتے ہو_ ہاں اگر عام لوگوں کے برخلاف حضرت عمر کی عادت ہی غسل جنابت نہ کرنا تھی تویہ اور بات ہے _مشرکین کے غسل جنابت کرنے پر ایک دلیل یہ ہے کہ ابوسفیان نے جنگ بدر سے شکست کھاکر لوٹنے کے بعد قسم کھائی تھی کہ وہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ کرنے سے قبل غسل جنابت نہیں کرے گا _واضح رہے کہ جنگ سویق ابوسفیان نے اپنی مذکورہ قسم کو نبھانے کیلئے لڑی تھی(۴) اس بات کا ہم آگے چل کر تذکرہ کریں گے

___________________

۱_ مغازی الواقدی ج ۲ص ۸۲۱اور کنز العمال ج ۵ص ۲۹۵از ابن عساکر اور واقدی_

۲_ الثقات ج ۱ص ۷۴نیز رجوع کریں مذکورہ روایت کے مآخذ کی جانب_

۳_ سیرت حلبی ج ۱ص ۳۲۹ از دمیری اور سہیلی، دمیری نے کہا ہے یہ ابراہیم و اسماعیل کے دین کی یادگار ہے نیز کہا ہے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کفار ایام جاہلیت میں غسل جنابت کرتے تھے اور اپنے مردوں کو بھی دھوتے تھے ان کو کفن بھی دیتے تھے نیز ان کیلئے دعا بھی کرتے تھے_

۴_ البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۳۴۴، السیرة النبویہ ( ابن کثیر) ج ۲ ص ۵۴۰ ، تاریخ الخمیس ج۱ ص ۴۱۰ ، السیرة الحلبیہ ج ۲ ص ۲۱۱ ، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۳۹، السیرة النبویہ ( دحلان، سیرہ حلبیہ کے حاشیہ پر مطبوع) ج۲ ص ۵ بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲ اور تاریخ الامم والملوک ج ۲ ص۱۷۵_

۱۳۶

۶_ حضرت عمر کا قبول اسلام اور نزول آیت؟

کہتے ہیں کہ( یا یها النبی حسبک الله ومن اتبعک من المؤمنین ) والی آیت حضرت عمر کے قبول اسلام کی مناسبت سے اتری_ یعنی اس وقت جب اس نے تینتالیس افراد کے بعد قبول اسلام کیا(۱) لیکن اس قول کی مخالفت کلبی سے مروی اس روایت سے ہوتی ہے کہ یہ آیت غزوہ بدر کے متعلق مدینہ میں نازل ہوئی(۲) واقدی سے منقول ہے کہ یہ آیت بنی قریظہ اور بنی نظیر کے بارے میں اتری ہے_(۳) یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ یہ سورہ انفال کی آیت ہے جو مکی نہیں، مدنی ہے زہری سے بھی مروی ہے کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی(۴) _

اس کے علاوہ مذکورہ آیت سے قبل کی آیات جنگ وجہاد سے متعلق ہیں اور ظاہر ہے کہ جہاد کا حکم مدینے میں نازل ہوا تھا اسی لئے یہ آیت ان آیات کے ساتھ مکمل طور پر ہماہنگ ہے_ قارئین ان آیات میں غوروفکر فرمائیں_اس آیت کامدنی ہونا اس لحاظ سے بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مدینے میں ہی اسلام کو قوت وشوکت اور مومنین کو عزت حاصل ہوئی_

آخری نکات

آخر میں ہم درج ذیل امور کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ:

۱) حضرت عمر کے قبول اسلام سے مربوط روایات کا مطالعہ کرنے والا اس حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے کہ ان کے درمیان مکمل تضاد موجود ہے_

___________________

۱_ الدرالمنثور ج ۳ ص ۲۰۰ از طبرانی ، ابو شیخ و ابن مردویہ نیز ملاحظہ ہوں وہ احادیث جنہیں بزار _ ابن منذر اور ابن ابی حاتم سے نقل کیا گیا ہے _

۲_ مجمع البیان ج ۴ص ۵۵۷ _

۳_ شیخ طوسی کی کتاب التبیان ج ۵ص ۱۵۲ _

۴_ الدرالمنثور ج ۳ ص ۲۰۰ از ابن اسحاق و ابن ابی حاتم_

۱۳۷

۲) ان میں سے ایک روایت کے مطابق عمر کی نعیم النحام یا سعد سے ملاقات اور ان کے درمیان گفتگو ہوئی نعیم نے عمر کو اس کی بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے سے آگاہ کیا اور اسے ان دونوں کے خلاف اکسایا_ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سعد مسلمان تھا او رنعیم عمر سے پہلے پوشیدہ طور پر مسلمان ہوچکا تھا تو پھر وہ عمر کو اس کی بہن اور بہنوئی کے خلاف کیونکر اکساتاہے ؟ اگر کوئی یہ کہے کہ نعیم کو حضرت عمر سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے بارے میں خطرہ محسوس ہوا_ اسلئے اس نے مذکورہ فعل انجام دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس تو حضرت حمزہ اور حضرت علیعليه‌السلام جیسے پورے چالیس بہادر مرد موجود تھے اس کے باوجود بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کو خطرہ محسوس ہوتا ہے _ لیکن نعیم کو ان دونئے مسلمانوں کے بارے میں حضرت عمر کا خوف محسوس نہیں ہوا جبکہ ان کی مدد کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا اور نہ ان کے پاس کوئی موجود تھا_

۳) رہا ان لوگوں کا یہ کہنا کہ مسلمانوں نے عمر کے قبول اسلام کے بعداعلانیہ نماز پڑھی تو اس کے جواب میں ہم انہی لوگوں کا یہ قول پیش کرتے ہیں کہ سب سے پہلے علی الاعلان نماز پڑھنے والاابن مسعود تھا_ نیز ابن مسعود کے علاوہ دیگر حضرات کے بارے میں بھی اس قسم کی بات کرتے ہیں_

نتیجہ بحث

مذکورہ عرائض کی روشنی میں عرض ہے کہ جو شخص حضرت عمر کے قبول اسلام کی روایات کا مطالعہ کرے گا وہ بآسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ درحقیقت وہ حضرت حمزہ کے قبول اسلام کے واقعے کی پردہ پوشی کی کوششیں ہیں ،وہ حمزہ جس کی وجہ سے اسلام کو حقیقی طور پر شان وشوکت نصیب ہوئی اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو زبردست سروراور خوشی حاصل ہوئی _یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ مذکورہ روایات میں حضرت عمر کا موازنہ حضرت حمزہ سے بار بار کرتے ہیں اور ان دونوں کو مساوی حیثیت دیتے ہیں بلکہ حضرت عمر کو ایک حدتک ترجیح بھی دیتے ہیں_

اسی طرح ان لوگوں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ امان کو رد کرنے کے بارے میں عثمان بن مظعون کی فضیلت حضرت عمر کے نام منتقل کرسکیں_ بلکہ ہم بعض روایات میں دیکھتے ہیں کہ شام کے اہل کتاب نے

۱۳۸

حضرت عمر کو خوشخبری دی تھی کہ اس نئے دین کی لگام مستقبل میں ان کے ہاتھ آجائے گی(۱) جس طرح انہوں نے بصری میں حضرت ابوبکر کو بھی اسی قسم کی خوشخبری سنائی(۲) _نیز خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو بھی خوشخبری دی تھی(۳) _ انہوں نے حضرت عمر کے اندر ان علامات کا مشاہدہ کیا تھا جن سے ان کے دعوی کی تقویت ہوتی تھی، جس طرح اس سے قبل حضرت ابوبکر میں ان کا مشاہدہ کیا تھاادھر حضرت عمر کا اسلام قبول کرنا تھا اور ادھر ان لوگوں کی پوری کوشش اس بات پر مبذول رہی کہ حضرت عمر کیلئے فضائل اور کرامات وضع کریں_فتبارک الله احسن الخالقین _

ابن عرفة نے کہا ہے:'' صحابہ کے اکثر فضائل بنی امیہ کے دور میں گھڑے گئے ہیں تاکہ بنی ہاشم کے مقام کو گھٹا سکیں''_چنانچہ معاویہ نے لوگوں کو خلفائے ثلاثہ کی شان میں احادیث وضع کرنے کا حکم دیا تھا ،جس کا بعد میں تذکرہ ہوگا_یہاں ہم مذکورہ عرائض پر اکتفا کرتے ہیں اور حقیقت اور ہدایت کے متلاشیوں کیلئے اسے کافی سمجھتے ہیں_

___________________

۱_ ملاحظہ ہو: الریاض النضرة ج ۲ ص ۳۱۹_

۲_ ملاحظہ ہو: السیرة الحلبیہ ج ۱ ص ۲۷۴ ، ۲۷۵ و ص ۱۸۶ اور الریاض النضرة ج۱ ص ۲۲۱_

۳_ ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد میں آغاز وحی کی روایات کے تحت عنوان اس واقعہ میں ورقہ بن نوفل کے کردار کی طرف بھی اشارہ کیا تھا اور اس کے سقم کو بھی ثابت کیا تھا _ پس وہاں مراجعہ فرمائیں_

۱۳۹

چو تھی فصل

شعب ابوطالب میں

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

فطرت اور عقل سلیم کا بھی تقاضا ہے) ہی حالات کے مقابلے میں آگاہانہ اور لچک دار روش اپنا نے کا صحیح طریقہ کارہے_ یہ اس صورت میں ہے کہ جب اہل باطل مادی طور پرطاقتورہوں اور اہل حق اپنا دفاع کرنے پر قادر نہ ہوں_

بیعت کی شرائط

یہاں ہم اس بات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے انہیں اسلام کی تبلیغ اور حفاظت کی راہ میں آئندہ پیش آنے والی مشکلات اور سختیوں کے بارے میں خبردار کیا تاکہ وہ لوگ شروع سے ہی آگاہ رہیں اور بغیر کسی ابہام یا شک کے آگاہی و بیداری کے ساتھ اقدام کریں تاکہ کل ان کیلئے اس قسم کے بہانے کی کوئی گنجائشے نہ رہے کہ وہ نہیں جانتے تھے کے حالات اس قدر سنگین صورت اختیار کرجائیں گے_

حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے وہم و گمان سے مکمل طور پر اس بات کونکال باہر کرنا چاہتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا نخواستہ ان کے ساتھ کوئی دھوکہ کیا ہو_ نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان میں سے ہر ایک کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سبز باغ دکھا کر کسی کو بھی پھنسانے کا ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی خوبصورت خوابوں اور امیدوں کی خیالی دنیا میں بسانا چاہتے ہیں کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک وسیلہ ہدف کا ہی ایک حصہ تھااگرچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی مدد کے سخت محتاج تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تو اپنی دعوت کے پورے عرصے میں ان لوگوں کے سوا کسی قوم کو اپنا حامی نہیں پایا تھا_

نقیبوں کی کیا ضرورت تھی؟

وعدے اور عہد کی پابندی عربوں کی طبیعت میں شامل تھی ہر قبیلہ اپنے کسی فرد یا حلیف کے عہد وپیمان کو پورا کرنے کا اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا تھا_

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار سے ایمان لانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کرنے پر بیعت لی (جیساکہ بیان ہوچکا ہے) تو آپ نے ایک محدود پیمانے پر ان کو (اس بیعت کا) پابند بنانے کا ارادہ فرمایا

۲۶۱

تاکہ مستقبل میں کچھ ایسے ذمہ دار افراد موجود ہوں جن سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس عہد و پیمان کو پورا کرنے کا مطالبہ کرسکیں_ ان وعدوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری انہی نقیبوں پر آتی تھی اور انہی سے مذکورہ مطالبہ کیا جاسکتا تھا_ کیونکہ یہی لوگ اپنی اور اپنی قوم کی مرضی سے ان کے ضامن بنے تھے_

لیکن اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ان امور کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے تو ممکن تھا کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں اور وعدوں سے جان چھڑاتا اور نتائج کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر اپنے آپ کو ان سے بری سمجھتا اور یہ خیال کرتا کہ انفرادی حیثیت سے اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی_

لیکن جب بعض افراد ضامن بن گئے (جن کا تعلق مختلف قبائل سے تھا) تو ذمہ داریوں کا دائرہ بھی معین اور مشخص ہوگیا اور یہ بات ممکن ہوگئی کہ ضرورت کے موقع پر بالخصوص جنگ یا دفاع کی صورت میں ان سے عہد کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا جاسکے_

یوں اس مسئلے کو لوگوں کی انفرادی خواہشات بلکہ اس سے بھی اہم مسئلہ یعنی اجتماعی مسائل میں افراتفری اور بے نظمی سے نجات مل گئی_ یوں انفرادی و اجتماعی سطح پر معاشرے کو بنانے اور منظم کرنے کا مرحلہ شروع ہوا_

مشرکین کا ردعمل

ہم یہاں مشاہدہ کرتے ہیں کہ مشرکین نے عقبہ کی دوسری بیعت کے مسئلے کو زبردست اہمیت دی_ یہاں تک کہ انہوں نے مدینہ والوں کو داخلی کمزوری اور اوس اور خزرج کے درمیان خانہ جنگیوں کے باعث پیدا شدہ خلفشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں جنگ کی دھمکی دی_

جی ہاں قریش نے ان کو جنگ کی دھمکی دی حالانکہ اس قسم کی جنگ ان کیلئے زبردست اقتصادی نقصانات کا باعث بنتی کیونکہ شام (جو قریش کیلئے بہترین تجارتی منڈی تھا) کی طرف ان کے تجارتی قافلے مدینہ کے راستے سے گزرتے تھے_ اس کا مطلب یہ تھا کہ مشرکین کو اس بیعت سے زبردست خطرہ لاحق ہوگیا تھا جس

۲۶۲

کے باعث وہ دعوت اسلامی کو قبول کرنے اور اس کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ اپنے دوستانہ روابط کو بھی قربان کرنے پر مجبور ہوچکے تھے اگرچہ وہ اہل مدینہ ہی کیوں نہ ہوں جن کے ساتھ جنگ سے وہ زبردست کتراتے تھے_ چنانچہ عبداللہ بن ابی سے اس سلسلے میں ان کی گفتگو کا ذکر پہلے ہوچکا ہے_ یہاں سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ مکہ ہیں رہنے والے مسلمان ظلم و ستم کی چکی میں کس طرح پس رہے تھے_

خلافت کے اہل افراد کی مخالفت

جیساکہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بیعت کے متن میں اہل مدینہ کیلئے جو شرائط رکھی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ مدینہ والے مسئلہ خلافت میں اس کے اہل سے نزاع نہیں کریں گے_

بیعت کے متن میں اس شرط کا رکھنا فتح و شکست کے نقطہ نظر سے اسلام کیلئے تقدیر ساز تھا اور اس شرط کو نبھانے سے انکار کی صورت میں پوری بیعت سے نکل جانے کا خطرہ تھا چنانچہ بنی عامر کے مسئلے میں یہی ہوا تھا (جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے)_ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی نظر میں(جن کا نظریہ اسلام کے حقیقی نظریات کاترجمان تھا)، نہایت اہمیت کا حامل تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بارے میں کسی قسم کی رو رعایت کیلئے ہرگز آمادہ نہ تھے اگرچہ عظیم ترین خطرات سے دوچار ہی کیوں نہ ہوں_ بالفاظ دیگر مسئلہ خلافت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اختیار میں نہ تھا بلکہ خدا کے اختیار میں تھا تاکہ جسے مناسب سمجھتا خلافت سے سرفراز کرتا_ یہ وہ امر تھا جس کو پہنچائے بغیر تبلیغ رسالت بے معنی ہوکررہ جاتی_

اس کے علاوہ ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ابتدا سے ہی ایک خاص اور معینہ ہدف کیلئے راستہ ہموار کررہے تھے وگرنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک طرف سے تو لوگوں کو حکومت و خلافت کے مستحق معینہ افراد سے نزاع نہ کرنے کا حکم دیں لیکن دوسری طرف سے اس مخصوص خلیفہ کی نشاندہی بھول جائیں_

یہاں اس واقعے کی کڑی کوپہلے ذکر شدہ دعوت ذوالعشیرہ، (جب حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو عذاب الہی سے ڈراتے وقت مذکورہ شخص کی نشاندہی کی تھی) کے واقعے سے ملانااور پھر اس واقعے کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۲۶۳

کی ان پالیسیوں، بیانات اور اشارات خصوصاً غدیر کے واقعہ کے ساتھ جوڑنا ضروری معلوم ہوتا ہے جن کا ذکر بعد میں ہوگا_

ابھی تک جنگ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا

ایک اور نکتہ کی طرف بھی توجہ ضرور رہے وہ یہ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے عقبہ میں جمع ہونے والوں کو تلواروں کے ساتھ قریش کا مقابلہ کرنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس اقدام کا مطلب اس دین اور اس کے مومن طرف داروں کا خاتمہ تھا_ خصوصاً ان کی قلت اور ایام حج کے پیش نظر جب لوگ ہر طرف سے مکہ میں جمع ہوئے تھے اور وہ سب قریش کے طریقہ و مسلک و مزاج پرتھے نیز دینی، نظریاتی اور فکری نقطہ نظر سے قریش کے تابع تھے_ یہاں تک کہ ان کے مفادات بھی قریش سے وابستہ تھے_ ان حالات میں انصار کیلئے اپنے دشمنوں پر خود ان کے علاقے میں فتح حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہ تھا_

قریش کی نظر میں مدینہ کی بڑی اہمیت تھی خاص کر اس لحاظ سے کہ مدینہ شام کی طرف جانے والے قریش کے تجارتی قافلوں کی اہم گزرگاہ تھی_ اسی وجہ سے انہوں نے سعد بن عبادہ کو رہا کیا تھا لیکن یہی قریش انصارکے اس موقف پر خاموش نہ رہ سکتے تھے یوں قریش کے سامنے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہتا کہ تمام حاجیوں حتی مدینہ کے مشرکین کی موجودگی میں انصار پرفیصلہ کن اور مہلک وار کرتے کیونکہ جنگ کرنے کی صورت میں انصار متجاوز محسوب ہوتے اور قریش کیلئے اپنی صوابدید کے مطابق مناسب کیفیت اور کمیت کے ساتھ اس تجاوز کا مقابلہ کرنا ضروری ہوتا_

۲۶۴

پانچواں باب

مکہ سے مدینہ تک

پہلی فصل : ہجرت مدینہ کا آ غاز

دوسری فصل : ہجرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

تیسری فصل : قبا کی جانب

چوتھی فصل : مدینہ تک

۲۶۵

پہلی فصل

ہجرت مدینہ کا آغاز

۲۶۶

وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے _

آئمہ معصومینعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ''حب الوطن من الایمان''(۱) یعنی وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے_ پہلی نظر میں اس جملے کا کوئی درست اور قابل قبول مفہوم بنتا نظر نہیں آتا کیونکہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وطن کی محبت کیونکر ایمان کا حصہ قرارپائے؟ کیا اس خاک کو جس پر انسان کی ولادت ہوئی اور جس کی فضاؤں میں اس نے زندگی گزاری ہے صرف خاک ہونے کے ناطے اس قدر اہمیت اور احترام حاصل ہے کہ اس کی محبت ایمان کا حصہ قرار پائے؟ خواہ جغرافیائی طور پر اس کی حالت کتنی ہی بدتر کیوں نہ ہو؟ کیا اس محبت کے فقدان کی صورت میں انسان کا ایمان ناقص اور مطلوبہ اثرات سے عاری ہوگا؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ہمیں یہ نکتہ ملحوظ خاطر رکھناہوگا کہ اسلام کی نظر میں اہمیت کی حامل اس محبت سے مراد ایسی اندھی محبت نہیں ہوسکتی جس کا کوئی مقصد یا فائدہ نہ ہو یا اسلام کی مخالف سمت میں ہو بلکہ اس سے مراد ایسی محبت ہے جو اسلام کے عظیم اہداف سے ہم آہنگ ہو_ نیز حقیقی ایمان اور دینی بنیادوں پر استوار ہو_ اس قسم کی محبت ہی ایمان کا حصہ ہوسکتی ہے_

علاوہ براین وطن (جس کی محبت کو ایمان قرار دیا جارہا ہے) سے مراد وہ جگہ بھی نہیں جہاں انسان کی پیدائشے واقع ہو بلکہ اس سے مراد وہ عظیم اسلامی وطن ہے جس کی حفاظت دین اور انسانیت کی حفاظت شمار ہوتی ہو کیونکہ یہ دین کی تقویت اور اعلاء کلمة اللہ کا باعث ہے_

نیز یہی وطن اسلام کی طاقت کا مرکز ہے کیونکہ وہ امن و سکون کی آماجگاہ، نیز فکری و روحانی اور مادی

___________________

۱_ سفینة البحار ج ۲ ص ۶۶۸_

۲۶۷

تربیت گاہ ہے اور پھر یہیں سے بہتر اور مثالی مراحل کی طرف انتقال کا عمل شروع ہوتا ہے لیکن اس وطن سے دوری اور استقلال اورسکون کے فقدان کی صورت میں (تعمیری) قوتیں ضائع ہوجاتی ہیں کیونکہ وہاں انسان کو اپنی حقیقت اور اپنے مستقبل کے بارے میں غوروفکر کی فرصت ہی نہیں ملتی اور اگر اس کا موقع مل بھی جائے تو مرکزیت جو منظم اور ٹھوس پیشرفت نیز استحکام اور عمل پیہم کا موقع فراہم کرتی ہے، کے فقدان کے باعث وہ اپنے فیصلوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا_

خلاصہ یہ کہ وطن، دین اور حق کے دفاع نیز برگزیدہ وبلند اہداف تکے پہنچنے کا وسیلہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں_ بنابریں اصل چیز دین اور انسان ہیں _رہا وطن اوردیگر چیزیں توان کو دین وانسانیت کی خدمت کا وسیلہ سمجھنا چاہیئے_

پس جو شخص اسلام کی حفاظت یا اس سے محبت کے پیش نظر اپنے وطن کی محافظت یا اس سے محبت کرتا ہے اسے ایمان کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے_

لیکن اگر وطن شرک وکفر وانحراف اور انحطاط انسانیت کی سر زمین ہو تو اس قسم کے وطن کی حفاظت یا اس سے محبت درحقیقت شرک کی تقویت اور حفاطت ہوگی_ اور اس محبت کا تعلق کفر وشرک سے ہوگا نہ کہ ایمان اور اسلام سے_

اس لئے قرآن اور اسلام نے ان لوگوں کو جو بلاد شرک میں رہتے ہوں (اوران کا وہاں رہنا دین وایمان کی کمزوری کا باعث ہو) حکم دیا کہ وہ وہاں سے ہجرت کر کے بلاد ایمان واسلام کی طرف چلے جائیں جہاں وہ اپنے دین نیز تخلیقی صلاحتیوں سے مالا مال عظیم انسانیت کی خاطرخواہ اور مؤثر حفاظت کرسکیں_ ارشاد الہی ہے( ان الذین توفاهم الملائکة ظالمی انفسهم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض قالوا الم تکن ارض الله واسعة فتهاجروا فیها فا ولئک ما واهم جهنم وسائت مصیرا ) (۱)

___________________

۱_ سورہ نساء آیت ۹۷ _

۲۶۸

یعنی فرشتے جن لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اوران سے پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے، وہ کہیں گے ہم زمین میں کمزور اور مجبور تھے_ فرشتے کہیں گے کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی تاکہ تم اس میں ہجرت کرتے، یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے_

بلکہ اگرکسی انسان کا وطن جہاں وہ پیداہوا ہو دین حق کے مقابلے پر اور نور الہی کو بجھانے کی کوشش میں ہو تو اس کو برباد کرنا ہر ایک کے اوپر لازم ہے_ یہاں تک کہ خود اس شخص پر بھی، جس کی وہاں ولادت ہوئی ہو اور زندگی گزری ہو_(۱)

بنابریں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور اصحاب کی مکہ سے مدینہ کو ہجرت فطرت انسانی، عقل سلیم اور صحیح طرزفکر کے تقاضوں کے عین مطابق تھی_ کیونکہ صحیح فکر کے سامنے اچھے اور بلند اہداف ہوتے ہیں نیز اس کی نظر میں ہر چیز کی قدر وقیمت اتنی ہی ہوتی ہے جس قدر ان اہداف کے ساتھ سازگار اور ان تک رسائی میں مددگار ثابت ہو_

آیئےب ہم دیکھتے ہیں کہ مدینہ کی طرف ہجرت کن حالات میں، کن اسباب کی بناپر، اور کس طرح ہوئی؟

ہجرت مدینہ کے اسباب

مکہ سے مدینہ ہجرت کے اسباب بیان کرتے ہوئے ہم درج ذیل نکات کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں:

۱_ مکہ دعوت اسلامی کیلئے مناسب جگہ نہ تھی_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کیلئے مکے میں کامیابی کی جتنی گنجائشے تھی وہ حاصل ہو چکی تھی اور اب اس بات کی امید نہیں تھی کہ مزید لوگ کم ازکم مستقبل قریب میں، اس نئے دین کو اپنائیں گے_

___________________

۱_ علامہ محقق شیخ علی احمدی کا خیال ہے کہ معصومین کے قول ''حب الوطن من الایمان'' کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو اپنے وطن سے محبت ہو وہ اس وطن کو انحرافات سے نجات دینے، اس کی مشکلات کو دور کرنے اور وہاں کے معاشرے کو حق و ایمان اور اسلام کی طرف رہنمائی کرنے کیلئے کوشاں ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ ایمان کا تقاضا ہے_

۲۶۹

جب تک لوگوں کے قبول اسلام کے باعث اس کی تقویت واعانت کی امید تھی مصائب ومشکلات کو برداشت کرنے کی معقول وجہ موجود تھی_لیکن اب مکہ اپنا سب کچھ دے چکا تھا_

مومن جوانوں اور مستضعفین کی کافی تعداد اسلام قبول کرچکی تھی_ لہذا اب مکہ میں وہی لوگ رہ گئے تھے جو اطاعت خدا کیلئے سد راہ تھے_ اسلام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے اور اس کے پھیلاؤ کو روک رہے تھے_ ان حالات میں مزید وہاں ٹھہرنا نہ صرف بے دلیل ہوتا بلکہ اسلامی دعوت کے ساتھ خیانت اور اس کے خلاف جنگ میں مدد اور اس کی شکست کا باعث ہوتا_ خاص کر ان حالات میں جبکہ قریش راہ خدا سے لوگوں کو روکنے اور نور الہی کو بجھانے کیلئے اپنی قوتوں کو مجتمع کر رہے تھے حالانکہ خدا کو بس یہ منظور تھا کہ وہ اپنے نور کو کامل کرے اگرچہ مشرکین کو یہ بات نا پسند ہو_

جی ہاں اب یہ بات ناگزیر ہوگئی تھی کہ ایک نئے مرکز کی طرف منتقل ہواجائے، جہاں سکون واطمینان کے ساتھ مشرکین کے دباؤ اور ان کے زیر تسلط اور زیر اثر علاقوں سے دور رہ کر زبانی اور عملی طور پر آزادی کے ساتھ تبلیغ دین کرنے کی ضمانت فراہم ہو_

ادھر ہم مشاہدہ کرچکے ہیں کہ مشرکین رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے_ وہ مسلمانوں کو دھمکیاں دیتے بلکہ اس نئے دین میں داخل ہونے والے ہر شخص کو سزائیں دیتے اور جن لوگوں کے مسلمان ہونے کا خطرہ ہوتا انہیں ڈراتے تھے_

۲_اسلام اور اس کے داعی اور نمائندہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے کسی محدود کامیابی پر اکتفا کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ اسلام پوری انسانیت کا دین تھا، ارشاد الہی ہے( وما ارسلناک الا کافة للناس ) (۱) ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تمام انسانوں کیلئے (بشیر ونذیر بناکر) بھیجا ہے _

واضح ہے کہ اب تک جو کامیابیاں نصیب ہو چکی تھیں وہ اسلام کی تعلیمات کو عملًا نافذ کرنے اور اس کے سارے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ناکافی تھیں خصوصاً لوگوں کے معاشرتی واجتماعی مسائل وغیرہ کے حل

___________________

۱_ سورہ سبا آیت ۲۸ _

۲۷۰

سے متعلق پہلوؤں کے نقطہ نظرسے کہ (قانون اور نظام کی موجودگی میں)جن کو نافذ کرنے کیلئے طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے_

ادھر بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی ذات کو تو دشمنوں کے شرسے بچانے کی ضمانت دے سکتے تھے لیکن وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب اور اس نئے آسمانی دین میں داخل ہونے والوں کی حفاظت کے ضامن نہیں بن سکتے تھے ،خاص کراس صورت میں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ بوقت ضرورت اسلامی تعلیمات کے فروغ کو ان پر ضروری قرار دینے کی کوشش فرماتے_ کیونکہ اس صورت میں تو وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی معمولی سی حمایت بھی نہ کرپاتے_

حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات کے بعد تو حالات نے خودرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے خلاف بھی خوفناک شکل اختیار کرلی تھی جیساکہ ہم ملاحظہ کرچکے اورآئندہ بھی ملاحظہ کریں گے_

۳_دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے مسلمان سالہاسال سے آزار اور مظالم کو سہتے چلے آرہے تھے یہاں تک کہ کچھ مسلمان اپنے دین کی حفاطت کے پیش نظر مکہ سے بھاگ کر دوسرے علاقوں میں چلے گئے

جو مسلمان مکہ میں باقی رہے قریش ان کو گمراہ کرنے کیلئے ظلم و زبردستی اور دھوکہ و فریب کے مختلف حربے استعمال کرتے رہے اور یہ مسلمان ان کا سامنا کرتے رہے_

اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیر (حمزہعليه‌السلام ) نیز بعض دوسرے معدود مسلمانوں ( جنہیں اپنے قبیلوں کی حمایت حاصل تھی)(۱) کے علاوہ باقی مسلمان غالباًغریب اور بے چارے لوگ تھے جن کیلئے سختیوں پر صبر وتحمل کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا _اگر یہ لوگ آلام و مشکلات کا یونہی سامنا کرتے رہتے اور امیدکی کوئی کرن بھی نظر نہ آتی تو پھر خواہ ان کا ایمان کتنا ہی قوی کیوں نہ ہوتا، فطری بات تھی کہ ان حالات میں وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے، اس قسم کی زندگی سے اکتا جاتے اور زودگزر خواہشات ان پر غلبہ پا لیتیںیوں وہ خود بھی ہلاک ہوجاتے اور

___________________

۱_ حتی کہ یہ لوگ بھی نفسیاتی اور روحانی کرب و آزار نیز تلخ اجتماعی منافرت سے محفوظ نہ تھے بسا اوقات یہ حالت بعض مسلمانوں کیلئے (شعور و آگاہی اور تیزبینی میں دوسروں سے ممتاز ہونے کی وجہ سے) جسمانی ایذا رسانی سے بھی سخت بات تھی_

۲۷۱

دوسروں کو بھی ہلاک کرتے، کیونکہ مصائب و مشکلات کے ساتھ پوری زندگی گزارنا ان کے بس کی بات نہ تھی چنانچہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب جنگ احد میں یہ افواہ پھیلی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا شہید ہوچکے ہیں تو بعض لوگ دوبارہ مشرک ہوجانے کی سوچنے لگے اور مشرکین کے ساتھ صلح کا راستہ، ڈھونڈنے لگے_ اس بارے میں قرآن کی یہ آیت اتری جس کی تلاوت قیامت تک ہوتی رہے گی_

( وما محمد الا رسول قدخلت من قبله الرسل ا فان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب منکم علی عقبیه فلن یضرالله شیئا، وسیجزی الله الشاکرین )

یعنی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو بس اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ان سے پہلے بھی متعدد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گزرچکے ہیں توکیا اگران کی موت واقع ہو یا قتل ہوجائیں تو تم الٹے پاؤں پھرجاؤگے؟ یاد رکھوتم میں سے جو شخص الٹے پاؤں پھر جائے وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا_البتہ اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو جزائے خیر دے گا_(۱)

۴_قریش آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو قتل کرنے کی ایک ایسی راہ موجود ہے جس میں بنی ہاشم کے سامنے ان پر کوئی واضح ذمہ داری عائدنہیں ہوگی بالفاظ دیگر بنی ہاشم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خون کا مطالبہ نہ کرسکیں گے کیونکہ ان کے منصوبے کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دس آدمی ملکر قتل کرتے جن کا تعلق مختلف قبائل سے ہوتا_ یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاخون بہت سے قبائل کے درمیان تقسیم ہوجاتا کیونکہ بنی ہاشم ان سب کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے_ اگر بنی ہاشم ان سب سے لڑتے تو خود مصیبت میں پھنس جاتے_ لیکن اگر دیہ (یا خون بہا) قبول کرلیتے تو یہ قریش کیلئے اور بھی اچھا ہوتا_ پس جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ قتل ہوجاتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیروکاروں کو ختم کرنا بہت آسان ہوجاتا اور قریش کو کوئی خاص پریشانی پیش نہ آتی بلکہ اگر مسلمانوں کو یونہی چھوڑ دیتے تب بھی وہ خود بخود ختم ہوجاتے_

یہ تھا قریش کا خیال اور منصوبہ، یاد رہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اگرچہ خدا کا لطف و کرم تھا اور اس کی توجہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرتھی لیکن بدیہی بات ہے کہ اگر قریش اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے تو خواہ ان کو

___________________

۱_ سورہ آل عمران آیت ۱۴۴ _

۲۷۲

کامیابی ہوتی یا ناکامی نتیجتاً بنی ہاشم اور قریش کے روابط نہایت کشیدہ ہوجاتے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے مکہ میں رہنے کی صورت میں حالات بدترہوجاتے_ ادھر خدا کا قانون یہ رہا ہے کہ وہ کسی شخص کو اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے جبری طور پر نہیں روکتا_ ہاں جب دین اور انسانیت کی حفاظت کیلئے نبی کی حفاظت ضروری ہو تو اس صورت میں اللہ کی عنایات نبی کے شامل حال ہوتی ہیں اور دشمن اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے عاجز رہتے ہیں_

خلاصہ یہ کہ ان حالات میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کیلئے مکہ سے نکل کر کسی ایسے پرامن مقام کی طرف جانا ضروری ہوگیا تھا جہاں وہ زیادہ بہتراور جامع صورت میں اپنی دعوت کو پھیلانے اور اپنے مشن کو لوگوں تک پہنچانے کی جدوجہد کرسکتے_

مدینہ کے انتخاب کی وجہ

رہا یہ سوال کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے دوسرے مقامات مثلاً حبشہ وغیرہ کو چھوڑ کر مدینہ کو کس بنا پر اپنی ہجرت اور اپنی دعوت کا مرکز منتخب کیا؟

اس سوال کے جواب میں کئی ایک اسباب کا ذکر کیا جاتا ہے _یہاں ان میں سے درج ذیل کا تذکرہ کرتے ہیں:

۱_مکے کو لوگوں کے ہاں ایک خاص روحانی مقام حاصل تھا _بنابریں مکے پر تسلط حاصل ہوئے بغیر، نیز بت پرستوں کے اثر ونفوذ کوختم کر کے اس کی جگہ اسلام کی قوت کو جاگزین کئے بغیر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کامیابی سے ہمکنار نہ ہوتی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام کوششیں رائیگاں جاتیں_ کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کو مکے کی اسی قدر ضرورت تھی جس قدر مکے کو اس دعوت کی_

اسلئے مکے سے قریب ہی ایسے مقام کا انتخاب ضروری تھا جہاں سے بوقت ضرورت مکے پر اقتصادی وسیاسی بلکہ فوجی دباؤ بھی ڈالاجاسکتا ہو کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مکے پر تسلط حاصل کرنے کی ضرورت تھی_

۲۷۳

ادھرمدینہ ہی وہ مناسب جگہ تھی جہاں اس مطلوبہ دباؤ کے سارے لوازمات موجود تھے_ مدینہ اہل مکہ کو اقتصادی بحران میں مبتلا کرسکتا تھا_کیونکہ مدینہ مکہ کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہ تھا، اور قریش کا گزارہ بھی بنیادی طور پرتجارت پرہی تھا_

چنانچہ پہلے بیان ہوچکا کہ مشرکین قریش نے بیعت عقبہ کے وقت عبداللہ بن ابی سے کہا تھا ''ہماری ناپسندیدہ ترین جنگ جو چھڑ سکتی ہے وہ تم لوگوں سے ہی ہے''_

نیز اس بات کا بھی تذکرہ ہوچکا ہے کہ جب قریش نے بیعت عقبہ کے بعد سعد بن عبادہ کو پکڑکر سزادی تو حارث بن حرب اور جبیر ابن مطعم نے آکر نجات دی_ کیونکہ وہ ان کے مال تجارت کی حفاظت کرتا تھا_

واضح ہے کہ جب اکیلے حضرت ابوذر کے ہاتھوں قریش کی جو شامت آئی سوآئی تو پھر اہل مدینہ کی طرف سے مستقبل میں ان کی جو شامت آتی وہ زیادہ شدید اور دور رس اثرات کی حامل ہوتی_

۲_ان بیانات کی روشنی میں ہم پر واضح ہوا کہ مدینے کی طرف ہجرت کئے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا کیونکہ اگر طائف کی طرف ہجرت کی جاتی تو کوئی فائدہ نہ ہوتا چنانچہ ہم دیکھ چکے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں ہجرت کی تواہل طائف نے منفی جواب دیا_ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل طائف کے خیال میں مکہ والے ان پر اقتصادی دباؤ ڈال سکتے تھے اور مکہ والوں کو ان کی اتنی ضرورت نہیں تھی جس قدر انہیں اہل مکہ کی_ نیز آئندہ (کم از کم مستقبل قریب میں) ان کیلئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ سیاسی طور پر اہل مکہ کی متابعت کرتے اور ان کے زیر تسلط رہتے_ رہے عرب کے دیگر قبائل تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آزما چکے تھے کہ وہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت قبول کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کیلئے آمادہ نہ تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اگرنقصان دہ نہیں پایا تھا تو کم از کم اس نتیجے پر ضرور پہنچے تھے کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی کام نہیں آسکتے_

ادھر یمن، فارس، روم اور شام کے علاقوں پر نظر کریں تو وہ ان دو بڑی سلطنتوں کے آگے سر تسلیم خم تھے جن سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کو سوائے مشکلات اور عظیم خطرات کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا تھا_

ہم نے اس کتاب کے باب اول کے اواخر میں اسلام کی اشاعت اور کامیابی کے اسباب کا ذکر کرتے

۲۷۴

ہوئے اس سلسلے میں کچھ بحث کی تھی_ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے کسری کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے اپنا ایلچی بھیجا تھا تو اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے خلاف ایک خطرناک کاروائی کرنے کی کوشش کی تھی_ رہی حبشہ کی بات توواضح ہے کہ حبشہ ایسا ملک نہیں تھا جو اقتصادی، سیاسی اور عسکری نقطہ نظر سے (بلکہ فکری وسماجی حوالے سے بھی) ایک عالمگیر اور جامع انقلاب کی قیادت کرسکتا_

لہذا صرف اور صرف مدینہ ہی باقی رہ جاتا تھا_ چنانچہ ہجرت کیلئے اسی سر زمین کا انتخاب ہوا_

۳_مذکورہ اسباب کے علاوہ مدینہ زرعی نقطہ نظر سے مکے کی نسبت زیادہ خود کفیل تھا_ بالفاظ دیگر اگر ان کو کسی قسم کے تجارتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا (اگرچہ مکہ والے ایسا نہیں کرسکتے تھے) تو وہ اغیار کی خواہشات کے آگے سر تسلیم خم کئے بغیر اس دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا گزارہ کر سکتے تھے اگرچہ بمشکل ہی سہی_

زرعی پہلو کے علاوہ دیگر پہلوؤں سے بھی مدینے کو ترجیح حاصل تھی_ نیز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کی دعوت کیلئے وسیع فعالیت اور ہمہ گیر جد وجہد کی ضرورت تھی کیونکہ یہ عالمی سطح پر ایک جامع انقلاب کی قیادت کرنے والی تھی_ علاوہ بریں اس دعوت کو داخلی طور پر اقتصادی استحکام کی ضرورت تھی تاکہ اس کی بدولت اس دعوت کے علمبرداروں کو اپنے دین کی اشاعت اور اپنے مشن کے پھیلاؤ کی جدوجہد کا موقع میسر ہوسکتا_

۴_چونکہ حج اسلام کے اہم ترین احکام میں سے ایک تھا بنابریں جب تک مکے پر بت پرستوں کا تسلط رہتا حج کی افادیت جاتی رہتی_ نیز عرب قبائل کے درمیان قریش کا وسیع اثر ونفوذ باقی رہتااوران قبائل کے دلوں میں مشرکین مکہ کو ایک قسم کا تقدس بھی حاصل رہتا_ بنابریں مکے کوان کے ہاتھوں سے چھڑانا ضروری تھا تاکہ لوگوں کے نزدیک ان کو جو روحانی مقام حاصل تھا اس کاخاتمہ ہوجاتا اور اس نئے دین کیلئے لوگوں کے دلوں کے دروازے پوری طرح کھل جاتے اورمسلمان کسی رکاوٹ کے بغیر مکمل آزادی کے ساتھ اس عظیم دینی فریضے کو ادا کرسکتے_

اس بات کی دلیل طبرانی وغیرہ کی روایت ہے کہ جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ذی الجوشن ضبابی کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے اس وقت تک اسلام کو قبول کرنے سے انکار کیا جب تک وہ اپنی آنکھوں سے کعبے پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا

۲۷۵

غلبہ نہ دیکھ لے_ ایک اور روایت میں مرقوم ہے کہ اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا:''میں نے دیکھا کہ آپ کی قوم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جھٹلایا اور نکال باہر کیا نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مقابلہ کیا_ اب میں دیکھتا ہوں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا کرتے ہیں_ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان پر فتح حاصل ہوئی تو میں مسلمان ہوجاؤں گا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کروں گا، لیکن اگر انہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرغلبہ حاصل ہوا تو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت نہیں کرونگا''_(۱)

علاوہ ازیں مکہ سے قریب ترین اور مناسب جگہ مدینہ تھی_ مدینہ اقتصادی طاقت کے ساتھ ساتھ اچھی خاصی افرادی قوت کابھی حامل تھا_ اورمکے والوں کے خلاف اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن انجام دینے پر قادر تھا_ مکے کے قریبی علاقوں میں سے مدینے کے علاوہ کوئی بھی علاقہ ان خصوصیات کا حامل نہ تھا_

۵_گذشتہ معروضات کے علاوہ مدینہ والے اصل میں یمن کے تارکین وطن تھے اور یمن قدیم زمانے کی ابتدائی تہذیب وتمدن کاکچھ حد تک حامل رہا تھا_ بنابریں وہ عرب نہیں تھے کہ ان کے دل قساوت سے لبریز ہوتے_ نیز قریش کی طرح اس علاقے میں ان کیلئے اقتدار یابڑے مفادات کا مسئلہ بھی در پیش نہ تھا_ نہ ہی وہ کسی خاص قسم کے نفسیاتی ماحول میں زندگی گزارتے تھے جس طرح قریش والے عدنانیوں کے درمیان اپنی خاندانی حیثیت، مکہ کی سرداری اور بیت اللہ کے متولی ہونے کے باعث ایک خاص قسم کے نفسیاتی ماحول میں رہ رہے تھے_

ان باتوں کے ساتھ ساتھ عدنانیوں اور قحطانیوں کے درمیان واضح اختلاف کا مسئلہ بھی تھا_ قحطان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو دشمنوں کے حوالے کرنے کیلئے (دینی یا نظریاتی جذبات سے قطع نظر) آمادہ نہیں ہوسکتے تھے_ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کی وفات کے بعد بھی اس اختلاف کے آثار دیکھنے میں آتے ہیں اسی بنا پر حضرت عمرنے بیت المال کی تقسیم میں عدنانیوں کو قحطانیوں پر ترجیح دی_ اس بات نے امویوں کیلئے اس روش سے استفادہ کرنے نیز یمنیوں اور قیسیوں کے درمیان فتنوں کی آگ بھڑکانے کا راستہ ہموار کیا_

___________________

۱_ مجمع الزوائد ج ۲ ص ۶۸ یہاں یوں مذکور ہے، اسے عبداللہ بن احمد اور اس کے والد نے نقل کیا ہے لیکن اس کا متن ذکر نہیں کیا_ طبرانی سے بھی اسے نقل کیا ہے_ (ان دونوں کے راوی بخاری کے راوی ہیں) نیز ابوداؤد نے اس کا کچھ حصہ نقل کیا ہے_

۲۷۶

جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی نظر میں اولاد اسماعیل کو اولاد اسحاق پر کوئی ترجیح حاصل نہ تھی_ (بہرحال یہ اس بحث کا مقام نہیں)_

۶_پھراہل مدینہ نے انحراف وگمراہی کا مزہ نہایت اچھی طرح سے چکھا تھا_ جنگوں نے ان کو تباہ وبرباد کر ڈالا تھا_ وہ مستقل طور پر خوف ودہشت کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے_ یہاں تک کہ وہ شب وروز مسلح رہتے تھے اور اپنے بدن سے اسلحوں کوجدا نہ کرتے تھے (جس کا ذکر ہو چکا ہے)_ یہ بھی بیان ہوچکا کہ خزرج والے قریش کو اپنا حلیف بنانے کیلئے مکہ بھی گئے تھے لیکن قریش نے ان کی بات نہ مانی_ اہل مدینہ اپنے دل کی گہرائیوں سے یہ چاہتے تھے کہ وہ اس گھٹن کی فضا سے نکلیں_ یہاں تک کہ اسعد بن زرارہ نے اس امر پر اپنے غم وافسوس کا اظہار کیا _چنانچہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اس کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے یوں عرض کیا:'' ہمارا تعلق یثرب کے قبیلہ خزرج سے ہے_ ہمارے اور اوسی بھائیوں کے درمیان تعلقات منقطع ہیں_اگر اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعے ان تعلقات کو بحال کردیتا ہے تو کیا ہی اچھی بات ہے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ صاحب عزت اور کوئی نہیں ''_ (ان باتوں کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے) _

اس کے علاوہ مدینے میں اسلام کے پہنچنے کے بعد وہاں کے مسلمانوں کی حفاظت اور اعانت ضروری تھی تاکہ اس دین کی حمایت اور اعلاء کلمہ حق کا سلسلہ جاری رکھ سکتے_

۷_آخری نکتہ یہ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ظہور کا زمانہ قریب ہونے کے بارے میں یہودیوں کی پیش گوئیوں کے باعث سارے لوگ اس دین کو قبول کرنے کیلئے آمادہ تھے_ لیکن ان کو مناسب فرصت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت تھی_ان حالات میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انہیں کیسے نظر انداز کرسکتے تھے_ اور ان کیلئے قبول اسلام کا موقع فراہم کرنے سے کیسے چشم پوشی کرسکتے تھے جبکہ اہل یثرب بیعت عقبہ کر کے خود ہی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو مدینہ آنے کی دعوت دے رہے تھے_

یہ تھے وہ نکات جن کی طرف فرصت کی کمی کے سبب صرف اشارہ کرناہی ہم نے کافی سمجھا_

۲۷۷

مہاجرین کے درمیان بھائی چارے کا قیام

چونکہ ہجرت کی وجہ سے مسلمانوں کو بظاہر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کیلئے اعلی سطح پر ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کی ضرورت تھی بنابریں ہجرت کی تیاری کے طورپر مواخات (بھائی چارے) کا اقدام عمل میں آیا، جس کا مقصد انسانی روابط کو مصلحتوں اور مفادات کی سطح سے بلند کر کے ایک ایسے برادرانہ رابطے کی شکل دینا تھا جو خدا پر ایمان کی بنیادوں پر استوار ہو_

تاکہ اس کی بدولت مسلمانوں کے باہمی تعلقات حقیقت سے قریب تر، منظم تر اور نفسیاتی رجحانات سے دورتر ہوں جو بسااوقات مدد کرنے والے یا مدد لینے والے کے ذہن میں ایسے خیالات پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں جن سے روابط میں (کم از کم نفسیاتی طور پر) پیچیدگی پیدا ہوتی ہے_

بہرحال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے مہاجرین کے در میان حق اور ہمدری کی بنیادوں پر بھائی چارہ قائم کیا_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے در میان، حضرت حمزہ اور حضرت زید بن حارثہ کے درمیان حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف کے د ر میان، حضرت زبیر اور حضرت ابن مسعود کے درمیان حضرت عبادة بن حارث اور حضرت بلال کے درمیان، حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص کے درمیان، حضرت ابوعبیدہ اور حضرت سالم (غلام ابوحذیفہ) کے درمیان، حضرت سعید بن زید اور حضرت طلحہ کے درمیان اور حضرت علیعليه‌السلام اور اپنے درمیان بھائی چارہ قائم کیا اور حضرت علیعليه‌السلام سے فرمایا: ''اے علیعليه‌السلام کیا تم نہیں چاہتے کہ میںتمہارا بھائی قرار پاؤں؟'' عرض کیا :''کیوں نہیں اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تو راضی ہوں''_ فرمایا:'' پس تم میرے بھائی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی''_(۱) (اس دوران عثمان کے حبشہ میں ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جیساکہ ہجرت کے بعد والے مواخات کی بحث میں اس کا تذکرہ ہوگا انشاء اللہ ) _

ہم انشاء اللہ جلدہی بتائیں گے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان

___________________

۱_ سیرت حلبیہ ج ۲ ص ۲۰ نیز دحلان کی سیرت نبویہ ج ۱ ص ۱۵۵ از استیعاب نیز تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۵۳، مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۴ اور تلخیص مستدرک ذہبی_

۲۷۸

بھائی چارہ قائم کیا تھا_ وہاں ہم حدیث مواخات کے بعض مآخذ کابھی ذکر کریں گے نیز ابن تیمیہ وغیرہ کی طرف سے حدیث مواخات کے انکار اور اس کے جواب کا بھی تذکرہ کریں گے_ اس کے علاوہ حدیث مواخات پراپنی صوا بدید کے مطابق مناسب تبصرہ بھی کریں گے انشاء اللہ _

مدینہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت کا آغاز

کہتے ہیں کہ عقبہ کی دوسری بیعت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی مدینہ کی طرف ہجرت سے تین ماہ پہلے ہوئی تھی_ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے عقبہ کی پہلی بیعت مدینہ والوں سے لی تو چونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب مشرکین کی ایذاء رسانیوں کے باعث مکہ میں ٹھہرنے اور ان کے مظالم کو برداشت کرنے پر قادر نہ تھے_ بنابریں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا نہیں مدینہ جانے کی اجازت دی_

لیکن خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکے میں ہی حکم خدا کے منتظر رہے_ یوں مسلمان مختلف ٹولیوں کی شکل میں خارج ہوئے_ یہاں تک کہ خدانے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی ہجرت کی اجازت دی (جیساکہ بعد میں ذکر ہوگا)_

بے مثال نمونہ:

یہاں اس حقیقت کو ملاحظہ کرنا ضروری ہے کہ حقیقی مسلمانوں نے اپنے وطن( جس میں ان کی پرورش ہوئی اور زندگی گزری )اور دنیا کے تمام مال ومتاع (جو انہیں حاصل ہوا) نیز اپنے معاشرتی و خاندانی رشتوں کو انہوں نے کس طرح قربان کردیا اور دین کے بدلے تمام لوگوں (یہاں تک کہ اپنے باپ بھائیوں اور بیٹوں) کے ساتھ دشمنی مول لی_ یوں وہ اپنے ہدف، اپنے دین اور اپنے عقیدے کی راہ میں وطن سے نکلے اور ایسے مستقبل کی طرف بڑھے جس کے بارے میں ان کو علم تھا کہ وہ خطرات اور حادثات سے بھر پور ہوگا_ یہ بے مثال اور حیرت انگیز نمونہ ہمیں ہجرت میں دکھائی دیتا ہے_ خواہ ہجرت مدینہ ہو یا ہجرت حبشہ_

۲۷۹

عمر ابن خطاب کی ہجرت

ایک چیز جس کی طرف یہاں ہماری توجہ مبذول ہوتی ہے وہ حضرت عمر ابن خطاب کے قبول اسلام کی کیفیت سے متعلق کہی گئی بات ہے_ چنانچہ بعض لوگ حضرت علیعليه‌السلام سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:''جہاں تک میں جانتا ہوں تمام مہاجرین نے چھپ کر ہجرت کی سوائے عمر بن خطاب کے_ کیونکہ جب حضرت عمر نے ہجرت کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنی تلوار گلے میں لٹکائی_ اور کمان دوش پر ڈالی اپنے ہاتھوں میں چند تیر اٹھائے ایک نوک دار ڈنڈا بھی ساتھ لیا_ کعبہ کی طرف چل پڑے قریش کی ایک جماعت کعبہ کے احاطے میں بیٹھی تھی پھرحضرت عمر نے کعبہ کا سات بارطواف کیااور مقام ابراہیم میں دو رکعت نماز پڑھی _اس کے بعد ایک ایک کر کے لوگوں کے آگے کھڑے ہوگئے اور کہا_ خدا بگاڑدے ان چہروں کو_ خدا ان ناکوں کو خاک میں ملا دے _ (یعنی ان کو ذلیل وخوار کرے گا) پس جویہ چاہتا ہے کہ اس کی ماں اس کے سوگ میں روئے یا اس کا فرزند یتیم ہوجائے_ یا اس کی بیوی بیوہ ہوجائے_ تو اس وادی کے اس پار میرے سامنے آئے''_ پھر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ '' کوئی بھی عمر کے پیچھے نہیں گیا اور اس نے اپنا سفر جاری رکھا''_(۱)

ہمیں یقین حاصل ہے کہ یہ بات درست نہیں ہوسکتی کیونکہ حضرت عمر اس قسم کی شجاعت کے مالک نہ تھے _ اس کی دلیل درج ذیل امور ہیں:

۱_حضرت عمر کے قبول اسلام کے متعلق بخاری وغیرہ سے نقل کیا جاچکا ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ڈرکے مارے اپنے گھر میں چھپے رہے_ یہاں تک کہ عاص بن وائل آیا اور انہیں امان دی _اس کے بعد حضرت عمر اپنے گھر سے نکلے_

۲_جنگوں میں حضرت عمر کا عام طور پر جوبزدلانہ رویہ رہا اس کے پیش نظر اس قسم کی باتوں کی تصدیق کرنے کی جرا ت ہم میں پیدا نہیں ہوسکتی_ چنانچہ جنگ بدر کے موقع پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اور مسلمانوں کو بزدلی پر

___________________

۱_ منتخب کنز العمال حاشیہ مسند احمد ج ۴ ص ۳۸۷ از ابن عساکر، السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۲۱_ ۲ اور نور الابصار ص ۱۵ میں بھی اس کی جانب اشارہ کیا گیا ہے نیز کنز العمال ج۱۴ ص ۲۲۱ و ۲۲۲ از ابن عساکر_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417