الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 417
مشاہدے: 177108
ڈاؤنلوڈ: 4378

تبصرے:

جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177108 / ڈاؤنلوڈ: 4378
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اکسانے والی ایسی گھٹیا بات کی جسے سن کر نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ اقدس سے غصہ کے آثار ظاہر ہوئے_ جنگ احد میں وہ بھاگ گئے، حنین میں بھی بھاگ گئے حالانکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطرہ در پیش ہے_ لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہ کی اور فقط اپنی جان بچانے کی سوچی_ادھر خیبر میں ان کا فرار تو اور بھی باعث تعجب ہے کیونکہ وہاں ان کے ساتھ ان کا بچاؤ کرنے والے بھی تھے_ رہا غزوہ خندق تو وہاں وہ عمرو بن عبدود کے مقابلے پرنکلنے کی جرا ت ہی نہ کرسکے_ادھر جنگ احدمیں جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا_ کون ہے جو اس تلوار کو لے اوراس کا حق ادا کرے تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے وہ تلوار مانگی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دونوں کو نہ دی بلکہ اسے ابودجانہ کے حوالے فرمایا_ ان کے علاوہ اور بھی مثالیں ملتی ہیں جن کے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں ہے _ان میں سے بعض واقعات کی طرف ہم آئندہ صفحات میں اشارہ کریں گے انشاء اللہ تعالی_

عجیب بات تو یہ ہے کہ حضرت عمر حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان تینوں نے کسی ایک شخص کو بھی ( میدان جنگ میں ) قتل نہیں کیا اور نہ ہی کسی سے (دو بدو) جنگ کی ہے ، اور اس بارے میں مذکور واقعات کو ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وہ صحیح نہیں ہیں_ اسی طرح انہوں نے راہ خدا میں کوئی بھی زخم نہیں کھا یا حتی کہ ان کی انگلیوں سے بھی خون کے قطرے تک نہیں ٹپکے جبکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے بزرگ صحابہ نے راہ خدا میں مصیبتیں بھی اٹھائیں اور شہید بھی ہوئے_ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنوںمیں تو بہادر بنتے تھے لیکنبوقت جنگ ہرگز بہادر نہیں تھے_

۳_ہم قبل ازیں اشارہ کرچکے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے سال وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا پیغام لے کر مکہ والوں کے پاس جانے کی ہمت نہ کرسکے اور بہانہ یہ بنایا کہ اگراس کو ایذاء دی گئی تو بنی عدی اس کی مدد نہیں کریں گے_ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص مذکورہ کارکردگی اوربہادری کا حامل رہا ہو اسے بنی عدی یا کسی اور کی ضرورت ہی کیاتھی؟

۴_فتح مکہ کے دوران ابوسفیان اور عباس مسلمانوں کے جھنڈوں کا جائزہ لے رہے تھے انہوں نے

۲۸۱

حضرت عمر کو گزرتے دیکھا جبکہ ان کے ساتھ لوگوں کی ایک جماعت تھی اس وقت ابوسفیان نے عباس سے کہا: '' اے ابوالفضل یہ کون ہے جو بات کر رہا ہے؟ ''عباس نے جواب دیا :''یہ عمر بن خطاب ہے''_ابوسفیان بولا : ''واللہ بنی عدی کو ذلت وپستی اور قلت عدد کے بعد عزت مل گئی''_ عباس بولا :''اے ابوسفیان اللہ جس کسی کا مقام جس طریقے سے چا ہے بلند کردیتا ہے اور عمر بھی ان لوگوں میں سے ایک ہے جس کا مقام اسلام کی بدولت بلند ہوا ہے''_(۱)

۵_یہ لوگ اسی بات پر متفق ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سارے لوگوں سے زیادہ شجاع تھے_ بلکہ (جلدہی ذکر ہوگا کہ) ان میں سے بعض حضرات نے اس بات کا دعوی کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت ابوبکر تمام صحابہ سے زیادہ شجاع تھے( جبکہ بعدمیں ہم یہ دیکھیں گے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے) ہجرت کے واقعے میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ غار میں چھپ گئے اور حضرت ابوبکر ڈرکے مارے روتے رہے حالانکہ وہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھے جن کی حفاظت اور حمایت کی ذمہ داری خدانے لے رکھی تھی_اور اس بات کے ثبوت میں بہت سے معجزات بھی دیکھنے میں آئے ہیں_ خدانے بھی قرآن میں حضرت ابوبکر کے حزن وغم کا ذکر کیا ہے جبکہ حضرت ابوبکر کے چاہنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے بعد سب سے زیادہ بہادر شخص تھے_ پس یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ دو تو ڈریں لیکن حضرت عمر نہ ڈریں؟

پھر حضرت عمر نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دفاع کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مکہ سے مدینہ کیوں نہیں پہنچایا؟

نیز حضرت عمرنے یہ کیسے گوارا کرلیا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اس قدرمشکلات اور مصیبتیں جھیلتے رہیں یہاں تک کہ بعد میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود ہی مشکلات کے گرداب سے نکلنے میں کامیاب ہوئے بلکہ حضرت عمر میں اتنی شجاعت اور طاقت تھی تو پھر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہجرت کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟ اس سورما کو چاہیئےتھا کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت وحفاظت کرتا اور قریش کی ایذاء رسانیوں سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو محفوظ رکھتا_

ان باتوں کے علاوہ ہم نہیں سمجھ سکے کہ تاریخ نے حضرت حمزہ کے بارے میں اس قسم کے مردانہ اقدام کا

___________________

۱_ مغازی الواقدی ج ۲ ص ۸۲۱ و از کنز العمال ج ۵ ص ۲۹۵ از ابن عساکر اور واقدی_

۲۸۲

ذکر کیوں نہیں کیا جبکہ حضرت حمزہعليه‌السلام اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیر تھے_ انہوں نے ہی ابوجہل کا سر پھوڑا تھا اور مسلمانوں کو ان کے قبول اسلام سے سرفرازی حاصل ہوئی تھی_

نیز کیا وجہ تھی کہ حضرت عمر نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اوربنی ہاشم کو شعب ابیطالب میں چھوڑے رکھا یہاں تک کہ وہ بھوک سے قریب المرگ ہوگئے تھے اور کوئی شخص ان تک کھانے کا سامان پہنچانے کی جرا ت نہ کرتا تھا جبکہ مذکورہ لوگوں کے نزدیک حضرت عمر شعب ابوطالب کے محاصرے سے قبل مسلمان ہوچکے تھے( اگرچہ ہم قبل ازین قطعی طور پر یہ ثابت کرچکے ہیں کہ حضرت عمر ہجرت سے کچھ ہی مدت پہلے مسلمان ہوئے تھے)_

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے سوالات ابھرتے ہیں جن کا کوئی معقول اور قابل قبول جواب ان لوگوں کے پاس موجود نہیں_

حقیقت

حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دھمکی امیرالمومنین علیعليه‌السلام نے اس وقت دی تھی جب وہ ہجرت کر رہے تھے اورضجنان کے مقام پر ان کی سات مشرکین سے مڈبھیڑ ہوگئی تھی_ اس قصے کا تفصیلی ذکر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کے بعد امیرالمومنین علیعليه‌السلام کی ہجرت کے بیان میں ہوگا_ لیکن حضرت علیعليه‌السلام کے دشمن ان کی یہ فضیلت برداشت نہ کرسکے خاص کراس حقیقت کے بعد کہ وہ اپنی یہ شجاعت شب ہجرت بستر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سوکر ثابت کرچکے تھے_

وہ حضرت علیعليه‌السلام کے بستر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سونے کا انکار تو نہیں کرسکے اس لئے اپنی عادت کے مطابق انہوں نے آپعليه‌السلام کی دوسری فضیلت پرڈاکہ ڈال کر کسی اورکی طرف اس کی نسبت دے دی_ غار والے واقعے میں حضرت ابوبکرکی شان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا (جیساکہ بعد میں ذکر ہوگا)_ بلکہ وہ تو سوائے اس کے کسی بات پر راضی نہ ہوئے کہ حضرت عمر کی فضیلت خود حضرت علیعليه‌السلام کی زبانی بیان کی جائے جیساکہ ہمیں اس قسم کے موقعوں پر ان کے اس وطیرہ کا باربار مشاہدہ کرنے کی عادت ہوچکی ہے_ کیونکہ یہ طریقہ دلوں پر زیادہ اثر

۲۸۳

کرتا ہے_ شکوک وشبہات سے دورتراورزیادہ قابل قبول ہوتا ہے_

لیکن اللہ تعالی فرماتا ہے( نقذف بالحق علی الباطل فیدمغه فاذا هو زاهق ) (۱) یعنی ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں یوں باطل ذلیل ہوکر نابود ہوجاتا ہے_ چنانچہ ایساہی ہوا_

ہجرت مدینہ کا راز

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا اور یہ امر خود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کا مقدمہ تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا :''خداوند عالم نے تمہارے لئے غم خوار بھائیوں اور امن وسکون سے رہنے کیلئے گھروں کا بندو بست کیا ہے''_ پس مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی _کچھ چھپ چھپا کرچلے گئے اور کچھ اعلانیہ_ انہوں نے اس مقصد کیلئے اپنے وطن، اپنے تعلقات اور بہت سوں نے مال و دولت اور معاشرتی حیثیت کی قربانی دی_ یہ سب کچھ انہوں نے اپنے دین اور عقیدے کی راہ میں انجام دیا_

بالفاظ دیگر دین اور نظریے کی حیثیت ہر چیز سے زیادہ اہم اور بالاتر ہے_ پس وطن، مال اور جاہ و مقام وغیرہ کی اس وقت کوئی قیمت نہیں رہتی جب دین کو خطرہ لاحق ہو کیونکہ دین حق کی حفاظت میں ہی وطن، مال اور دیگر چیزوں کی حفاظت کاراز پوشیدہ ہے _اگر دین حق محفوظ نہ رہے تو ہر چیز اگر ایک مصیبت یا بہت سے موقعوں پر انسان کیلئے خطرناک نہیں تو کم از کم زوال پذیر ضرور ہوجاتی ہے_

قریش اور ہجرت

ہجرت حبشہ کا ذکر کرتے ہوئے ہم نے ہجرت اور اس کے مقابلے میں قریش کی پالیسی سے متعلق تھوڑی سی گفتگو کی تھی_ چنانچہ یہاں اس کا اعادہ نہیں کرتے_یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قریش نے ہجرت

___________________

۱_ سورہ انبیاء آیت ۱۸_

۲۸۴

حبشہ کی اس قدرسخت مخالفت کی تھی یہاں تک کہ مسلمانوں کوارض حبشہ سے واپس لانے کی کوشش کی تو پھر ہجرت مدینہ کے مقابلے میں ان کا موقف کیا ہوگا ؟جبکہ انہیں مسلمانوںکی اس ہجرت میں اپنے مفادات، اپنے وجوداوراپنے مستقبل کیلئے زبردست خطرات نظر آرہے تھے_

چنانچہ قریش نے مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو ہجرت سے روکنے کی کوشش کی_ اگر کوئی مسلمان ان کے ہاتھ لگتا تو وہ اس کو قید کرتے اسے اپنے دین سے برگشتہ کرنے کی کوشش اور اس کے خلاف ظلم وتشددکے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے_ لیکن انہیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی_ دوسری طرف قریش اکثر مسلمانوں کا صفایاکرنے سے بھی اپنے آپ کو عاجز پاتے تھے کیونکہ اکثر مہاجرین کا تعلق مکی قبائل سے تھا اور ان میں سے کسی کا بھی قتل خود قریش کے درمیان خانہ جنگی کا باعث بن جاتا اور اس بات میں شک کی گنجائشے نہیں کہ یہ کام کسی صورت میں بھی قریش کے مفادمیں نہ تھا_

ہمارے ان عرائض کی تائید ابوسلمہ کے واقعے سے ہوتی ہے چنانچہ جب وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ وہاں سے نکلا تو بنی مغیرہ کے بعض مردوں نے اس کا رخ کیا اور اس کی بیوی کو چھین لیا کیونکہ اس کی بیوی کا تعلق ان کے قبیلے سے تھا_ اس بات کے نتیجے میں ابوسلمہ کا قبیلہ بنی عبدالاسد جوش میں آگیا اور انہوں نے سلمہ (ابوسلمہ کے بیٹے) کو اس کی ماں سے چھین لیا_ یہ واقعہ تاریخ اور رجال کی کتابوں میں معروف ہے_(۱)

قریش اس نتیجہ پر پہنچ گئے تھے کہ اس بڑی ہجرت کے بعد خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس لئے ہجرت کرجائیں گے تاکہ وہاں زیادہ وسیع اور گہری بنیادوں پر مکمل آزادی کے ساتھ قیادت و رہبری اور ہدایت کا عمل انجام دے سکیں اور مدینہ والے بھی تمام تر وسائل کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کریں گے_ بنابر ایں انہیں سوائے اس بات کے کسی اور چیز کی فکر نہ تھی کہ ہر ممکنہ طریقے اور حیلے سے اس عمل کا راستہ روکا جائے_

___________________

۱_ البدایة ج ۳ ص ۱۶۹، السیرة النبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۱۱۲ اور السیرة النبویة ابن کثیر ج ۲ ص ۲۱۵ ، ۲۱۶_

۲۸۵

دوسری فصل

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت

۲۸۶

سازش:

قریش کے رؤسا''دار الندوة'' میں جمع ہوئے_ اس اجتماع میں بنی عبد الشمس، بنی نوفل، بنی عبدالدار، بنی جمح، بنی سہیم، بنی اسد، اور بنی مخزوم وغیرہ کے رؤسا موجود تھے_انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کی مجلس میں کوئی تہامی شامل نہ ہو کیونکہ تہامیوں کی ہمدردیاں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھیں_(۱)

انہوں نے اس بات کو بھی مدنظر رکھا کہ ان کے درمیان ہاشمیوں یا ان سے مربوط افراد کا کوئی جاسوس موجود نہ ہو_(۲)

روایات کے مطابق ابلیس بھی نجدی شیخ کی صورت میں ان کے درمیان موجود تھا(۳) _ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے_ بعض شرکاء نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لوہے میں جکڑ کر قید کرنے کا مشورہ دیا لیکن ان کو یہ خطرہ نظر آیا کہ کہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مددگار آپ کو چھڑا نہ لیں_ پھر یہ تجویز پیش ہوئی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وطن سے نکال کر کسی اور علاقے میں بھیج دیا جائے لیکن اس میں یہ خامی دیکھی کہ اس سے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے دین کی اشاعت میں مدد مل سکتی ہے_ آخر کار ابوجہل یا شیطان کی تجویز کے مطابق یہ فیصلہ ہوا کہ ہر قبیلے سے ایک مضبوط اور باہمت جوان چن لیا جائے جو اپنی قوم میں شریف النسب، صحیح النسب اور ممتاز ہو_ ان میں سے ہر ایک کوایک ایک شمشیر آبدار تھمائی جائے تاکہ وہ اپنی تلواریں لیکر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہوں اور مل کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کریں_ اس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قتل ہوجائیں گے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خون کی ذمہ داری سارے قبائل میں تقسیم ہوجائے گی _ کیونکہ بنی عبد مناف ان سب قبائل کا مقابلہ نہیں کرسکتے نتیجتاً وہ دیت قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں گے جو تمام قبائل مل کر انہیں دیں گے اور یوں معاملہ صاف ہوجائے گا_

___________________

۱،۲_ تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۲۱ اور سیرت حلبی ج ۲ ص ۲۵ نیز رجوع کریں نور الابصار ص ۱۵_

۳_ تاریخ الامم والملوک ج ۲ ص ۶۸ ، البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۱۷۵ نیز تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۲۱ و ۳۲۲_

۲۸۷

واضح ہے کہ ان دس افراد کیلئے جو شرائط رکھی گئیں تھیں ان کا مقصد یہ تھا کہ کوئی قبیلہ دوسرے قبیلے کو اس امرمیں تنہا نہ چھوڑے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ امر قریش پر ضرب لگانے کیلئے بنی ہاشم کی قوت میں اضافے کا باعث بن سکتا تھا خواہ وہ ضربت کتنی ہی محدود پیمانے پر کیوں نہ ہوتی_

اس کے علاوہ یہ شرائط اس بات کا باعث بنتیں کہ اس جرم کے ارتکاب کیلئے آمادہ ہونے والے زیادہ اطمینان اور شجاعت کے ساتھ اس خطرناک مہم کو انجام دیتے جس میں شک وتردید اور بزدلی کی کوئی گنجائشے باقی نہ رہتی_

بہرحال خدانے وحی کے ذریعے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس سازش سے باخبر کیا اور یہ آیت نازل فرمائی: (واذ یمکربک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک ویمکرون و یمکر اللہ واللہ خیرالماکرین)(۱) یعنی جب کافروں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف سازش کی تاکہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قید کریں یا قتل کریں یا نکال باہر کریںتو وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے_ خدائی مکر کسی دوسرے کی چال کو پوشیدہ طریقہ سے ناکام بنانے والی تدبیر کا نام ہے_

علیعليه‌السلام کی نیند اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت:

مورخین کہتے ہیں کہ جن لوگوں کو قریش نے منتخب کیا تھا وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے دروازے پر جمع ہوئے یعنی بعض روایات کی بنا پر عبد المطلب کے دروازے پر جمع ہوئے(۲) اور گھات لگا کر بیٹھ گئے اور آپکے سونے کا انتظار کرنے لگے وہ افراد یہ تھے: حکم ابن ابی العاص، عقبہ بن ابی معیط، نضر بن حارث، امیہ بن خلف، زمعة بن اسود، ابولہب، ابوجہل، ابوالغیطلہ، طعمہ بن عدی، ابی ابن خلف، خالد بن ولید، عتبہ، شیبہ، حکیم بن حزام، اور حجاج کے بیٹے نبیہ و منبہ_(۳)

___________________

۱_ سورہ انفال آیت ۳۰ _

۲_ بحار ج ۱۹ ص ۷۳ از الخرائج والجرائح

۳_ ان کے ناموں کا ذکر السیرة الحلبیة ج ۲ و بحارالانوار ج ۱۹ ص ۷۲ و ۳۱ اور مجمع البیان وغیرہ میں کہیں مکمل طور پر اور کہیں جزوی طور پر ہوا ہے _

۲۸۸

یوں قریش نے اپنے ان پندرہ قبائل میں سے دس یا پندرہ افراد بلکہ اس سے بیشتر کا انتخاب کیا (بنابر اختلاف اقوال) تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوایک ساتھ وار کر کے قتل کر دیں_ ایک ضعیف قول کی بنا پر ان کی تعداد سوتھی(۱) لیکن ہماری نظر میں یہ روایت حقیقت سے دور ہے کیونکہ دیگر روایات کی مخالف ہے_

خلاصہ یہ کہ وہ جمع ہوگئے اور اللہ نے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے مکر سے آگاہ فرمایا_

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمؤمنین حضرت علیعليه‌السلام کو قریش کے منصوبے سے آگاہ فرمانے کے بعد حکم دیا کہ وہ رات کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر سو جائیں_ حضرت علیعليه‌السلام نے عرض کیا ''اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا میرے وہاں سونے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان بچ جائے گی''_

فرمایا ہاں_ یہ سن کر حضرت علیعليه‌السلام خوشی سے مسکرائے اور زمین پر سجدہ ریز ہوگئے تاکہ اللہ کا شکرادا کریں_ یوں وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے بستر پر سوگئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حضرمی چادر اوڑھ لی_ اس کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ رات کے پہلے حصے میں خارج ہوئے جبکہ قریش کے افراد گھر کے اردگرد گھات لگائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منتظر بیٹھے تھے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ آیت پڑھتے ہوئے نکلے( وجعلنا من بین ایدیهم سدا ومن خلفهم سدا فاغشیناهم فهم لایبصرون ) (۲) یعنی ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے اب انہیں کچھ نہیں سوجھتا_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دست مبارک میں ایک مشت مٹی تھی_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ مٹی ان کے سروں پر پھینک دی_ اور ان کے درمیان سے گزرگئے_ اور انہیں احساس تک نہ ہوا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غار ثور کی راہ لی_

ادھر امیرالمؤمنینعليه‌السلام سوئے ہوئے تھے اور حضرت ابوبکر آئے اور کہا :''اے اللہ کے رسول''_ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ سونے والے اللہ کے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں حضرت علیعليه‌السلام نے ان سے فرمایا :''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ چاہ میمونہ کی طرف

___________________

۱_ السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۲۸۰ اور نور الابصار ص ۱۵

۲_ سورہ ی س آیت ۹ و امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۰_۸۱

۲۸۹

چلے گئے ہیں پس ان کی خدمت میں پہنچ جاؤ''_ چنانچہ حضرت ابوبکر چلے گئے اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ غار میں داخل ہوئے _(۱)

کہتے ہیں کہ مشرکین نے حضرت علیعليه‌السلام کو پتھر مارنے شروع کئے جس طرح وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو مارتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم درد سے تڑپتے اور پیچ وتاب کھاتے رہے_ آپ نے اپنے سر کو کپڑے میں لپیٹ رکھا تھا اورصبح تک اس سے باہر نہ نکالا_ پھر مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے_ جب حضرت علیعليه‌السلام نے ان کو تلوار سونتے اپنی طرف آتے

___________________

۱_ آخری جملوں کیلئے رجوع کریں مناقب خوارزمی حنفی ص ۷۳ و مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۳۳ و تلخیص مستدرک (ذہبی) حاشیہ کے ساتھ ان دونوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے، مسند احمد ج ۱ ص ۳۲۱ و تذکرة الخواص (سبط ابن جوزی) ص ۳۴، شواہدالتنزیل ج ۱ ص ۹۹_۱۰۰،۱۰۱، تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۰۰، تفسیر برہان ج ۱ ص ۲۰۷ ابن صباغ مالکی کی کتاب فصول المہمة ص ۳۰، و نسائی کی خصائص امیرالمومنین مطبوعہ نجف ص ۶۳ و السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۳۵ مجمع الزوائد ج ۹ _ص ۱۲۰ از احمد (اس کے سارے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں سوائے ایک راوی کے جو ثقہ ہے و از طبرانی درکبیر و اوسط_ بحار ج ۱۹ ص ۷۸_۹۳ از طبری و احمد، عیاشی اور کفایة الطالب، فضائل الخمسة ج ۱ ص ۲۳۱، ذخائر العقبی ص ۸۷ اور کفایة الطالب ص ۲۴۳ اس کتاب میں مذکور ہے کہ ابن عساکر نے اسے اربعین طوال میں ذکر کیا ہے_

نیز رجوع کریں : الامام علی بن ابیطالب در تاریخ ابن عساکر بہ تحقیق المحمودی ج ۱ ص ۱۸۶ و ۱۹۰ محمودی نے اسے اپنے حاشیے میں احمد بن حنبل کی کتاب الفضائل (حدیث نمبر ۲۹۱) نیز غایة المرام (ص ۶۶) سے طبرانی ج ۳ (ورق نمبر ۱۶۸ ب) کے واسطے سے نقل کیا ہے علاوہ بریں کفایة الطالب کے حاشیے میں ریاض النضرة ج ۲ ص ۲۰۳ سے نقل ہوا ہے_ رہے آخری جملے تو وہ احادیث و تاریخ کی مختلف کتب میں موجود ہیں_

بحار ج ۱۹ ص ۶۱ و امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۱ میں مذکور ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت ابوبکر اور ہند بن ہالہ کو حکم دیا کہ وہ غار کے راستے میں ایک معینہ مقام پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا انتظار کریں_ اور بحار ج ۱۹ ص ۷۳ میں الخرائج و الجرائح سے منقول ہے حضور روانہ ہوئے جبکہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں دیکھ رہے تھے_ پھر حضرت ابوبکر کو دیکھا جو رات کے وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلاش میں نکلے تھے_ وہ قریش کے منصوبے سے آگاہ ہوچکے تھے چنانچہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت ابوبکر کو اپنے ساتھ غار کی طرف لے گئے_

اگر اس بات کو صحیح تسلیم کرلیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے منصوبے سے کیوں آگاہ نہیں کیا؟ مگر یہ کہ کہا جائے وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اطلاع دینے آئے تھے_ اس سے بھی اہم سوال یہ کہ قریش نے حضرت ابوبکر کو اپنے منصوبے سے کیونکر آگاہ کیا جبکہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھ معمولی سے روابط رکھنے والے سے بھی اس کو چھپانے کی زبردست کوشش کرتے تھے جبکہ دیار بکری وغیرہ کا صریح بیان اس سے قبل گزر چکا ہے_

۲۹۰

دیکھا جبکہ خالد بن ولید آگے آگے تھا تو حضرت علیعليه‌السلام اس پرجھپٹ پڑے اور اس کے ہاتھ پر مارا خالد بچھڑے کی طرح اوپر نیچے چھلانگیں لگانے اور اونٹ کی طرح بلبلانے لگا_

آپعليه‌السلام نے اس کی تلوار چھین لی اورمشرکین پر حملہ آور ہوئے_ مشرکین چوپایوں کی طرح خوفزدہ ہو کر گھرسے باہر بھاگ نکلے_ پھر انہوں نے غورسے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ تو حضرت علیعليه‌السلام ہیں_ وہ بولے'' کیا تم علیعليه‌السلام ہو؟''_ انہوں نے فرمایا:'' ہاں میں علیعليه‌السلام ہوں'' مشرکین نے کہا: ''ہمیں تم سے کوئی غرض نہ تھی_ یہ بتاؤ کہ تمہارا ساتھی کہاں گیا؟'' فرمایا :''مجھے کوئی خبر نہیں''_(۱)

قریش پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلاش میں

قریش نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیچھے اپنے جاسوس چھوڑ دیئےور وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تعاقب میںسخت جان اور تا بعدار سواریوں پر سوار ہوکر نکل کھڑے ہوئے_ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدموں کے نشانات دیکھتے گئے_ یہاں تک کہ کھوجی (جو قدموں کے نشانات معلوم کرنے کا ماہر ہوتا ہے) اس جگہ پہنچا جہاں ابوبکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملحق ہوئے تھے_ اس نے مشرکین کو بتایا کہ وہ جس شخص کو تلاش کر رہے ہیں یہاں سے ایک اور شخص بھی اس کے ساتھ ہوگیا ہے_ بہرحال وہ قدموں کے نشانات دیکھتے گئے یہاں تک کہ غار کے دھانے پر پہنچ گئے لیکن اللہ نے انہیں لوٹا دیا کیونکہ مکڑی نے غار کے دھانے پر جالا بن لیا تھا_ اور ایک جنگلی کبوترنے غار کے اندر داخل ہونے کے راستے میں ہی انڈے دے دیئے تھے اور اسی طرح کی دوسری باتیں جو تاریخ میں مذکورہیں_ چنانچہ ان لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ یہ غار متروکہ ہے اور اس میں کوئی داخل نہیں ہوا وگرنہ مکڑی کا جالاکٹ جاتا اور انڈے ٹوٹ جاتے، اور جنگلی کبوتر بھی غار کے دھانے پر بسیرا نہ کرتا(۲) _

ادھر امیرالمؤمنینعليه‌السلام نے رات تک انتظار فرمایااور پھر رات کی تاریکی میں ہند ابن ابی ہالہ کو ساتھ لیکر چلے گئے یہاں تک کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس غار میں داخل ہوگئے_ پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ہند کو حکم دیا کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور

___________________

۱_ امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۲_۸۳_

۲_ تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۲۸ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۳۷ اور البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۱۸۱ و ۱۸۲_

۲۹۱

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھی کیلئے دو اونٹ خرید کرلائے_

اس وقت حضرت ابوبکر نے کہا :''اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں نے اپنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے دو سواریوں کا بندوبست کر رکھا ہے آپ انہیں ساتھ لیکر یثرب کا سفر کیجئے''_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' قیمت اداکئے بغیرمجھے ان دونوں کی ضرورت ہے نہ ان میں سے ایک کی''_

ابوبکر نے عرض کیا :''پس آپ قیمت دیکر ان کو لیجئے''_

آپ کے حکم سے حضرت علیعليه‌السلام نے حضرت ابوبکر کو قیمت ادا کردی(۱) _

اس کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت علیعليه‌السلام کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذمہ داریاں نبھانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امانتیں ادا کرنے کی نصیحت کی کیونکہ قریش اور حج کے ایام میں مکہ آنے والے عرب حجاج اپنا مال و متاع رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس بطور امانت رکھتے تھے_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ وہ صبح و شام مکے میں پکار پکار کر یہ اعلان کریں ''جس کسی کی کوئی امانت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ہو وہ آکر ہم سے وصول کرے''_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس وقت یعنی جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تعاقب ختم ہوچکا تو حضرت علیعليه‌السلام سے فرمایا:''یا علیعليه‌السلام وہ لوگ آپ کے خلاف کوئی ایسی حرکت نہ کرپائیں گے جو آپ کو ناپسند ہویہاں تک کہ آپ میرے پاس پہنچ جائیں گے_ پس میری امانتیں کھلے عام ادا کرو، میں اپنی بیٹی فاطمہ کو آپ کے حوالے کرتا ہوں اور آپ دونوں کواللہ کے حوالے کرتا ہوں اور اس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دونوں کی حفاظت کا طلبگار ہوں''_

ہجرت کا خرچہ

پھر حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپعليه‌السلام کو حکم دیا کہ اپنے اور فواطم (فاطمہ کی جمع ہے) یعنی فاطمہ زہراعليه‌السلام ، فاطمہ بنت اسد (مادر حضرت علیعليه‌السلام ) اور فاطمہ بنت زبیر جن کا ذکر ہجرت علیعليه‌السلام کے بیان میں ہوگااور ان کے علاوہ بنی ہاشم کے ان افراد کیلئے جو ہجرت کا عزم رکھتے ہوںسواریاں خرید لیں_

___________________

۱_ بحارالانوار ج۱۹ ص ۶۲ ، امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۳ ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حضرت ابوبکر سے قیمت ادا کئے بغیر سواریوں کا نہ لینے کا واقعہ سیرت النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لکھی جانے والی تقریباً تمام کتابوں میں ملے گا_ نیز مراجعہ ہو : وفاء الوفاء ج۱ ص ۲۳۷_

۲۹۲

ابو عبیدہ کا بیان ہے: میں نے ابوعبداللہ (یعنی ابن ابی رافع) سے کہا کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اس قدر خرچ کرنے پر قادر تھے؟

اس نے جواب دیا میرا باپ مجھ سے یہی بات (جو تونے بتائی) نقل کیا کرتا تھا اور میں نے اس سے یہی سوال کیا تھا جو تم نے مجھ سے کیا_ میرے باپ نے جواباً کہا_ تو پھر حضرت خدیجہ (س) کا مال کہاں چلاگیا_ میرے باپ نے کہا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے فرمایاہے : ''خدیجہ کے مال نے مجھے جتنا فائدہ پہنچایا ہے کسی اور مال نے نہیں پہنچایا'' رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ حضرت خدیجہ کے مال سے لوگوں کا قرض ادا کرتے اور قیدیوں کو چھڑاتے تھے، ضعیفوں کی مدد کرتے تھے، سختیوں کے وقت خرچ کرتے تھے، مکہ میں اپنے فقیر اصحاب کو سہارا دیتے تھے اور ہجرت کا ارادہ رکھنے والوں کی بھی اعانت فرماتے تھے(۱) _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تین دن غار کے اندر گزارنے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے_(۲)

امیرالمؤمنینعليه‌السلام نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے بستر پر جورات گزاری اس کا تذکرہ آپعليه‌السلام نے یوں کیا ہے_

وقیت بنفسی خیر من وطا الحصا---- ومن طاف بالبیت العتیق وبالحجر

محمد لما خاف ان یمکروا به---- فوقاه ربی ذوالجلال من المکر

وبت اراعیهم متی ینشروننی---- وقد وطنت نفسی علی القتل والاسر

وبات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله فی الغار آمنا---- هناک وفی حفظ الاله وفی ستر

اقام ثلاثا ثم زمت قلائص---- قلا ئص یفرین الحصا ایما یفری

اشعار کاترجمہ:

میں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اس شخص کی حفاظت کی جوزمین پر چلنے والوں اور کعبہ و حجر اسود کا طواف کرنے والوں میں سب سے بہتر تھا_ جب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دشمنوں کی چال سے خطرہ محسوس ہوا تو خدانے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے مکر سے محفوظ رکھا_ میں نے رات اس انتظار میں گزاری کہ وہ کب مجھے قتل کر دیں گے_ میں نے

___________________

۱ _ لیکن اسی روایت کو خواہشات نفسانی کے پیروکاروں نے روایت کرکے حضرت خدیجہ کے نام کو حضرت ابوبکر کے نام سے بدل دیا ہے تا کہ اس کے لئے ایک فضیلت ثابت کرسکیں جس کی کوئی بھی روایت، نص اور کوئی حقیقت تایید نہیں کرتی بلکہ اس کے برعکس ،واقعات اس کے برخلاف دلالت کرتے ہیں_

۲_ امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۱_۸۲ و البحار ج ۱۹ ص ۶۱_۶۲_

۲۹۳

اپنے نفس کو قتل یا اسیر ہونے کیلئے آمادہ کر رکھا تھا_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے غار میں امن وسکون کے ساتھ اور خدا کی پناہ میں رات گزاری، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غار میں تین دن گزارے پھر جوان اونٹوں پر سفر شروع ہوا_ یہ اونٹ ریگزاروں کو اس طرح طے کر رہے تھے جو دیکھنے کے قابل تھا_

جذبہ قربانی کے بے مثال نمونے

علامہ سید ہاشم معروف الحسنی کہتے ہیں ''جان نثاری وقربانی کی تاریخ کا عمدہ ترین قصہ یہیں سے شروع ہوتا ہے_ ٹھیک ہے کہ بہادر اور سورما لوگ دشمن کے سامنے جنگوں میں ڈٹ جاتے ہیں اور اپنے ہاں موجود اسلحے اور سامان جنگ کے ساتھ اپنے حامیوں اور مدد گاروں کے جھرمٹ میں لڑتے ہیں_ کبھی میدان جنگ ہی ان کو ثابت قدم رہنے پر مجبور کرتا ہے، اور وہ بھی اکیلے نہیں، لیکن کسی انسان کا اپنی مرضی اور خوشی سے کسی اسلحے یا سامان کے بغیر موت کے مقابلے میں یوں جانا گویا وہ کسی نرم ونازک بدن والی خوبرو عورت سے معانقہ کیلئے نکلا ہو اور ایسے بستر پر سونا جو خطرات میں گھرا ہوا ہو_ حالانکہ ایمان، خدا پر توکل اوراپنے رہبر کی سلامتی کی آرزو کے علاوہ اس کے ہمراہ کچھ بھی نہ ہوجیساکہ حضرت علیعليه‌السلام کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپعليه‌السلام کے ابن عم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو اپنے بستر پر رات گزارنے کیلئے کہا تاکہ وہ خود قریش کی سازشوں سے بچنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ وہ بات ہے جس کی مثال بہادری اور مردانگی کی تاریخ میں نہیں ملتی اور عقیدہ و ایمان کی راہ میں لڑی جانے والی جنگوں میں کسی نے اس کا ثبوت نہیں دیا_ پھر کہتے ہیں کہ شب ہجرت علیعليه‌السلام کا سونا پہلا واقعہ نہ تھا_ شعب ابوطالب میں محاصرے کے دوران بھی ابوطالبعليه‌السلام علیعليه‌السلام کو بستر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلایا کرتے تھے تاکہ اگر کوئی قاتلانہ اقدام ہو تو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بجائے علیعليه‌السلام کو نقصان ہو_ انہوں نے اس کام سے کبھی بھی گریز نہ کیا بلکہ وہ برضا و رغبت ایسا کرتے تھے_(۱)

___________________

۱_ سیرت المصطفی ص ۲۵۲_۲۵۰_

۲۹۴

بستر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سونا اور مسئلہ خلافت

یہاں تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس کا ناصبی اور علیعليه‌السلام و محبان علیعليه‌السلام کا دشمن ہونا مشہور ہے، یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ شب ہجرت حضرت علیعليه‌السلام کا بستر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سونا ان کی خلافت کا واضح اشارہ ہے_ چنانچہ وہ کہتا ہے:

''شب ہجرت حضرت علیعليه‌السلام کے اس اقدام کو بعد میں ان کی زندگی میں پیش آنے والے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو دیکھنے والے کو اس بات کے واضح اشارات ملتے ہیں کہ اس رات جس منصوبے پر عمل ہوا وہ حضرت علیعليه‌السلام کے حوالے سے کوئی اتفاقی یا عارضی بات نہ تھی بلکہ اس کے پیچھے خاص آثار ونتائج کی حامل حکمت کارفرما تھی_ بنابریں ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ:

کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا اس رات حضرت علیعليه‌السلام کو اپنی شخصیت کے روپ میں پیش کرنا اس بات کا اشارہ نہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علیعليه‌السلام کے درمیان ایک قسم کی یگانگت موجود ہے جو ان دونوں کے درمیان موجود رشتہ داری والی یگانگت سے ما وراء ہے_ کیا ہم یہاں سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے بعد حضرت علیعليه‌السلام ہی وہ ہستی ہیں جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسند پر بیٹھنے کے لئے آمادگی رکھتے ہیں اور یہ کہ آپ ہی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی نمائندگی کرنے والے اور آپ کے قائم مقام ہیں_ میرا خیال ہے کہ کسی نے ہم سے قبل مذکورہ واقعے کا اس زاویے سے جائزہ نہیں لیا یہاں تک کہ حضرت علیعليه‌السلام کے شیعوں نے بھی اس نکتے کو ہماری طرح نہیں سمجھا'' _(۱)

قریش اور علیعليه‌السلام :

۱_آخر میں ہم اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قریش نے حضرت علیعليه‌السلام پر اپنے چچا زاد بھائی کی جگہ بتانے کے سلسلے میں زورنہیں دیا اور اصرار سے کام نہیں لیا، اس کی وجہ بس یہی تھی کہ وہ اس کام کو

___________________

۱_ عبدالکریم خطیب کی کتاب علی ابن ابیطالب ص ۱۰۵ کی طرف رجوع کریں _

۲۹۵

بے فائدہ سمجھتے تھے کیونکہ جو شخص اس حدتک مخلص ہو اوراس طرح کی بے مثال اور تاریخی قربانی دے وہ ان کے سامنے ہرگز اپناراز فاش نہیں کرسکتا تھا _اس راز کی حفاظت کیلئے تو اس نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا_ اسی لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علیعليه‌السلام کو چھوڑ دیا اور مایوسی کے عالم میں وہاں سے چلے گئے_(۱)

۲_پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں علیعليه‌السلام کا طرزعمل انسانیت کااعلی ترین نمونہ تھا_انہوں نے لوگوں کو اخلاص وقربانی کے مفہوم اورایمان کی حقیقت سے روشناس کرایاکیونکہ وہ اپنی شہادت کو ہر صورت میں قطعی دیکھ رہے تھے_ ان کے خیال میں وہ یا تو اس لئے قتل ہوجاتے کیونکہ مشرکین انہیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھ رہے تھے یا پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ، (جنہوں نے قریش کے باطل نظریات کو جھٹلایا تھا، ان کے معبودوں کی عیب جوئی کی تھی اور ان کی صفوں کو پراکندہ کر دیا تھا) کو بچانے کے جرم میں بطور انتقام قتل کردیئے جاتے_ قریش اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ علیعليه‌السلام کو کس قدر چاہتے ہیں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاں ان کا کیا مقام ہے_ ان کا قتل حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچازاد بھائی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جان نچھاور کرنے والے مخلص انسان کا قتل تھا_(۲) اور حقیقت کے واضح ہونے کے بعد ان کا حضرت علیعليه‌السلام کو چھوڑ دینا یا تو خوف کے سبب تھا کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ حضرتعليه‌السلام نے خالد بن ولید کا کیا حشر کیا تھا _ اور یا اس وجہ سے تھا کہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ پہلے اپنے اصلی اور اہم دشمن کا کام تمام کردیں، ان کو ختم کرنے کے لئے ابھی وقت بہت ہے_

قریش اور شب ہجرت علیعليه‌السلام کا کارنامہ

کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ''ہجرت کی رات حضرت علیعليه‌السلام نے قریش کو جو کھلا چیلنج دیا اور ان کو جس طرح ذلیل کیا، نیز اس کے بعد تین دن تک جس طرح ان کے درمیان چلتے پھرتے رہے ،اس داغ کو قریش کبھی بھی نہ بھلا سکتے تھے_

___________________

۱_ رجوع کریں حیات امیرالمومنین مصنفہ محمد صادق صدر ص ۱۰۶_۱۰۵_

۲_ رجوع کریں حیات امیرالمومنین ص ۱۰۷ اور ۱۰۸ _

۲۹۶

اگر اس دن ان کو قتل کرنے میں قریش کو ایسے فتنے کا خطرہ محسوس نہ ہوتا جو ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیتا اور دوسری طرف سے وہ یہ دیکھ لیتے کہ اس طرح وہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں اپنے مقصد کو بھی حاصل نہیں کرسکیں گے تو وہ انہیں قتل کر کے ضرور دل کی بھڑاس نکال لیتے _یوں وہاں قریش ان سے دست بردار ہوئے لیکن بعد میں ان کا حساب چکانے کیلئے روز شماری کرنے لگے''_(۱)

جی ہاں درحقیقت یہ ایک سخت حساب تھا جو حضرت علیعليه‌السلام کو چکانا تھا_ خصوصاً اس بات کے پیش نظر کہ انہوں نے بعد میں ان کے بزرگوں اور سرداروں کو خاک مذلت میں ملادیا تھا اور اپنے چچازاد بھائی کے شمشیرزن بازو کی حیثیت سے بوقت ضرورت کبھی یہاں اور کبھی وہاں متکبر اور جابر لوگوں پر کاری ضرب لگاتے رہے تھے_ قریش نے حضرت علیعليه‌السلام سے مذکورہ سخت حساب چکانے کا سلسلہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے فوراً بعدہی شروع کردیا، یہاں تک کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غسل وکفن اور دفن سے بھی پہلے_

موازنہ

امیرالمومنینعليه‌السلام کے بستر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رات گزارنے کے نتیجے میں قریش نے یہ موقع گنوادیا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جو سازش تیار کی تھی وہ ناکامی سے دوچار ہوئی_ اس کے علاوہ اس عمل سے دین اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوئیں اور کلمہ حق کو فروغ حاصل ہوا_

اس واقعے کا ذبح اسماعیل علیہ السلام پر قیاس کرنا صحیح بات نہیں ہے کیونکہ حضرت اسماعیلعليه‌السلام نے تو ایک مہربان اور شفیق باپ کے آگے سرتسلیم خم کیا لیکن حضرت علیعليه‌السلام نے اپنی جان ان دشمنوں کے حوالے کردی جو ان پر رحم نہ کرتے اور جن کے دل کی بھڑاس ان کا خون بہائے بغیر نہیں نکل سکتی تھی_ نیز ان کا غصّہ جان لیوا شماتت، سخت ترین تشدد اور ایذاء رسانی کے بغیر نہ نکل سکتا تھا_

اسکافی نے جاحظ کی تصنیف عثمانیہ کے جواب میں اس واقعے پر تبصرہ کیا ہے_ (اس کا کلام شرح نہج

___________________

۱_ علی ابن ابیطالب (از عبدالکریم خطیب) ص ۱۰۶ _

۲۹۷

البلاغہ معتزلی کی تیرہویں جلد میں مرقوم ہے)_ وہاں رجوع کریں اگر ہم اس نکتے کی تشریح کرنے بیٹھیں تو ہماری بحث طولانی ہوجائے گی_

ارادہ الہی

کیا یہ ممکن نہ تھا کہ اللہ اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کچھ اس طرح سے فرماتا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ غار میں چھپنے پر مجبور نہ ہوتے اور نہ حضرت علیعليه‌السلام کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر سونا پڑتا_ وہ یوں کہ اللہ اپنی قدرت کی واضح نشانیوں اور حیرت انگیز معجزات کے ذریعے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرتا_

اس کا جواب منفی ہے کیونکہ خدا کی منشا یہ ہے کہ سارے امور حسب معمول اور طبیعی اسباب کے مطابق انجام پائیں (ہاں انسان کی طاقت سے باہر معاملات میں اس کی رہنمائی اور عنایات شامل حال ہوں) تاکہ یہ ہم سب کیلئے بھی نمونہ عمل اور مفید درس ثابت ہوں_ ہم بھی دین وعقیدے کی راہ میں جدوجہد کریں اور آسمانی معجزات کے منتظر نہ رہیں_ اسی صورت میں اللہ کا وعدہ (لینصرن اللہ من ینصرہ) اور( ان تنصروا الله ینصرکم ) عملی شکل اختیار کرے گا_

مصلحت اندیشی اور حقیقت

مشرکین مکہ ایک عجیب تضاد کا شکار ہوئے وہ یہ کہ ایک طرف تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو جھٹلاتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تہمتیں لگاتے تھے یہاں تک کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مجنون، ساحر، شاعر اور کاہن کہہ کر پکارتے تھے_ لیکن دوسری طرف اپنے اموال اور اپنی امانات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپرد کرتے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو معتمد اور امین سمجھتے تھے یہاں تک کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچازاد بھائی (علیعليه‌السلام ) کو مکہ چھوڑ جانے پر مجبور ہوئے کہ وہ تین دن تک اعلان عام کرتے رہیں تا کہ لوگ آکر اپنی امانتیں واپس لے جائیں_ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت پر ان کا ایمان نہ لانا ہٹ دھرمی اور تکبر و عناد کے باعث تھا، نہ اس لئے کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیغام کو دلی طور پر غلط سمجھتے تھے ارشاد

۲۹۸

الہی ہے:( وجحدوا بها واستیقنتها انفسهم ) (۱) _

یعنی انہوں نے آیات الہی کا انکار کیا جبکہ قلبی طورپراس کو مانتے تھے_ بالفاظ دیگر وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی دعوت کے اس لئے منکر تھے کہ وہ بزعم خود اس طرح سے اپنے ذاتی مفادات اور مستقبل کی حفاظت کرنا چاہتے تھے یا اس لئے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید کرنے کے خواہشمند تھے یا اپنی امتیازی حیثیت اور مراعات کی حفاظت کے طالب تھے یا حسد اور دیگر وجوہات کی بنا پر ایسا کررہے تھے_

حضرت علیعليه‌السلام کو ان حساس اور خطرناک حالات میں لوگوں کی امانتیں لوٹانے کیلئے مکے میں چھوڑ جانا ایک ایسے انسان کامل کا بہترین نمونہ پیش کرتا ہے جو اپنے اصولوں پر کاربند اور اپنے نظریات کا پاسبان ہو _ایسا کامل انسان جو خدا کے معین کردہ راستے سے بال برابر بھی منحرف نہ ہوتا ہو اور بہانوں کی تلاش میں نہ پھرتا ہو_ بلکہ وہ اپنے عظیم اصولوں اور مقاصد کیلئے جیتا ہو اور اصولوں کو ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ قرار نہ دیتا ہو_

ہاں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو امین کہہ کر پکارتے تھے اور یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی واضح ترین صفات میں سے ایک صفت تھی حتی بعثت سے پہلے بھی_ یہی امین ہیں جو اب ان کی امانتیں واپس کررہے ہیں جبکہ وہ ان کے خون کے درپے ہیں لیکن یہ بات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لوگوں کی امانتوں کا خیال رکھنے سے نہیں روکتی خواہ وہ اچھے ہوں یا برے_ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی امانتیں واپس نہ کرتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پورا پورا بہانہ حاصل تھا_

ایک محقق کا کہنا ہے کہ اس عظیم صفت کی کوئی خاص اہمیت اہلسنت کی احادیث کے اندر دیکھنے میں نہیں آتی حالانکہ یہ صفت (حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امانتداری) انسانیت کی بنیاد ہے_ بالکل اسی طرح جس طرح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی وفات کے بعد سے احادیث ''حکمت'' خلفاء کی خواہش پر عمداً محو کی گئیں_ وگرنہ وہ چیز کہاں گئی جس کے بارے میں خدانے سات آیتوں میں یہ خبردی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذمہ داری لوگوں کو کتاب وحکمت کی تعلیم دینا ہے_ ہم جانتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو کتاب کی تعلیم دی جس کی خدانے حفاظت کی اور اب تک باقی

___________________

۱_ سورہ نمل آیت ۱۴

۲۹۹

ہے_( انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون ) (۱) یعنی ہم نے ہی قرآن نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں_

لیکن ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ حکمت کہاں گئی جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امت کو سکھائی؟ ہم دیکھتے ہیں کہ علماء و محدثین کے نزدیک ان میں سے فقط تقریباً پانچ سو کے لگ بھگ احادیث رہ گئی ہیں وہ بھی فقہ احکام، اخلاق اور حکمت سب کے بشمول(۲) _ ان میں سے کتنی احادیث فقط حکمت سے مربوط ہیں اس کا حشر آپ کے سامنے ہے_

البتہ ہم آئمہ معصومینعليه‌السلام کی احادیث میں کثیر مقدار میں حکمت کی باتیں پاتے ہیں_ ان کی ایک بڑی تعداد امانت اور صداقت کے متعلق ہے_ انہوں نے امانت کو عملی اخلاق کا بنیادی محور قرار دیا ہے اور اسے زبردست اہمیت دی ہے_

زمین اور عقیدہ

ہم نے دیکھ لیا کہ اسلام کی نظر میں انسان کا حقیقی مقصد زمین نہیں بلکہ خود اسلام ہے کیونکہ جب کسی سرزمین پرزندگی گزارنا اور اس کی حفاظت کرنا ذلت وخواری، محرومیت اور عظیم دینی اہداف (جو انسان کی سعادت کا باعث ہیں) کے پورا نہ ہونے کا باعث بنے تو بہتری، اصلاح، مستقبل کی تعمیر اور حقیقی سعادت وعزت کے حصول کے پیش نظر اس سرزمین کو چھوڑ کر کہیں اور جانا چاہیئے_ پس پہلے تو خود انسان اور پھر تمام باقی چیزیں اسلام کی خاطر اور اس کی خدمت کیلئے ہیں_

درس ہجرت

ہجرت کا واقعہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ مسلمانوں پرایک دوسرے کی مدد واجب ہے_ نیز نسلی تعصبات

___________________

۱_ سورہ حجر آیت ۹ _

۲_ مناقب شافعی ج۱ ص ۴۱۹ نیز عن الوحی المحمدی ص ۲۴۳_

۳۰۰