الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 417
مشاہدے: 177067
ڈاؤنلوڈ: 4373

تبصرے:

جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177067 / ڈاؤنلوڈ: 4373
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سے مکمل طور پر مبرا ہوکر اغیار کے مقابلے میں متحد ہونا بھی ضروری ہے_ اور یہ کہ ان کے باہمی تعاون والفت اور آپس کی رحمدلی و ہمدردی کی بنیاد دین اور عقیدہ ہو نہ کہ نسلی و خاندانی تعلقات یا مفادات پر مبنی روابط وغیرہ_

علاوہ ازیں واقعہ ہجرت ہمیں حسن تدبیر، باریک بینی اور صحیح منصوبہ بندی کا بھی درس دیتا ہے جسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے پیش نظر رکھاکیونکہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کا محاصرہ کرنے والوں کو کسی نے آکر یہ خبر دی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھرسے نکل گئے ہیں تو اس وقت جس چیزنے ان کو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بستر پر موجودگی کے بارے میں مطمئن رکھا وہ علیعليه‌السلام کا بستر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رات گزارنا تھا_(۱)

ابوطالبعليه‌السلام اور حدیث غار

بعض روایات میں مذکور ہے کہ جب قریش نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے خلاف سازش کی تو ابوطالب علیہ السلام نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا:'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو علم ہے کہ انہوں نے کیا سازش کی ہے؟'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا:'' وہ چاہتے ہیں کہ مجھے قید کریں یا قتل کریں یا وطن سے نکال باہر کریں''_ حضرت ابوطالبعليه‌السلام نے عرض کیا ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کس نے خبردی؟ ''فرمایا: ''میرے رب نے''_ حضرت ابوطالبعليه‌السلام بولے: ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رب سب سے بہترین رب ہے''_(۲)

لیکن واضح ہے کہ یہ روایت درست نہیں ہوسکتی کیونکہ قریش کی سازش ہجرت سے کچھ ہی مدت پہلے عقبہ کی دوسری بیعت کے بعد ہوئی تھی یعنی بعثت کے تیر ہویں سال_ حالانکہ حضرت ابوطالبعليه‌السلام بعثت کے دسویں سال وفات پاچکے تھے یعنی شعب ابیطالب سے مسلمانوں کے خارج ہونے کے بعد_

___________________

۱_ تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۰۰ _

۲_ درمنثور ج ۳ ص ۲۷۹ نے سنید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ سے نقل کیا ہے _

۳۰۱

آیت غار

خداوند عالم نے فرمایا( الا تنصروه فقد نصره الله اذ اخرجه الذین کفروا ثانی اثنین اذهما فی الغار اذ یقول لصاحبه لاتحزن ان الله معنا فانزل الله سکینته علیه وایده بجنود لم تروها وجعل کلمة الذین کفروا السفلی وکلمة الله هی العلیا والله عزیز حکیم ) (۱)

یعنی تم نے اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد نہ کی تو کوئی پروا نہیں_ اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے، جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا_ جب وہ دومیں سے دوسرا تھا، دونوں غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا'' غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے''_ پس اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جوتم کو نظر نہ آتے تھے اوراس نے کا فروں کا بول نیچا کردیا اور اللہ کا تو بول بالاہی ہے اور اللہ زبردست دانا و بینا ہے_

کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ آیت درج ذیل وجوہات کی بنا پر حضرت ابوبکر کی فضیلت کو ثابت کرتی ہے_

(الف) آیت نے حضرت ابوبکر کو ''ثانی اثنین'' (دو میں سے دوسرا) کے الفاظ سے یاد کیا ہے بنابریں حضرت ابوبکر فضیلت کے لحاظ سے دو افراد میں سے ایک ٹھہرے اور اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہوسکتی ہے کہ حضرت ابوبکر حضرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے قرین قرار پائیں_

(ب) آیت کی رو سے حضرت ابوبکر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھی قرار پائے_ اس عظیم موقعے پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھی بن جانا بہت بڑا اعزاز ہے_

(ج) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا، خدا ہمارے ساتھ ہے_ یعنی اللہ کی نصرت اور اس کا نظر کرم ان دونوں پر ہے_ بنابریں جو شخص اللہ کی طرف سے ہونے والی مدد میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شریک ٹھہرے اس کا شمار عظیم ترین لوگوں میں ہوگا_

___________________

۱_ سورہ توبہ آیت ۴۰ _

۳۰۲

(د) اللہ تعالی نے فرمایا ''اور اللہ نے اس پر سکون قلب نازل کیا''_ پس یہ سکون قلب جس پر نازل ہوا وہ حضرت ابوبکر تھے اس لئے کہ اس کی ضرورت ابوبکر کو تھی( کیونکہ ان کا دل گھبرا گیا تھا) نہ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تو علم تھا ہی کہ اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو محفوظ رکھے گا_(۱)

لیکن یہ ساری باتیں نادرست ہیں کیونکہ:

الف: حضرت عائشہ کہتی ہیں_ خدانے ہمارے بارے میں قرآن کی کوئی آیت نازل نہیں کی سوائے اس کے کہ اس نے میرے عذر کا ذکر کیا_(۲)

ہماری تحقیق کی رو سے ثابت ہوا ہے کہ حضرت عائشہ کے عذر کے بارے میں بھی کسی آیت کا اترنا صحیح نہیں ہوسکتا جیساکہ ہم نے اپنی کتاب ''حدیث الافک'' میں ذکر کیا ہے_

ب: حضرت ابوبکر کے بارے میں ثانی اثنین ''کہنے سے کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ان الفاظ میں عدد بیان کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں دوسرا فرد کوئی بچہ یا جاہل یا مؤمن یا فاسق وغیرہ بھی ہوسکتا ہے_ نیز واضح ہے کہ قرآن کی رو سے فضیلت کا معیار فقط تقوی ہے نہ کہ عدد میں دوسرے نمبر پر قرار پانا_ جیساکہ فرمایا ہے( ان اکرمکم عند الله اتقاکم ) یعنی تم میں سب سے زیادہ صاحب عزت، اللہ کے ہاں وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو_

شیخ مظفر (رحمة اللہ علیہ) اضافہ کرتے ہیں کہ اگر دو کا بیان فضیلت و شرف کے نقطہ نظر سے ہو تو پھر حضرت ابوبکر کا مقام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام سے بھی زیادہ ہوگا_ کیونکہ آیت کی رو سے حضرت ابوبکر پہلے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسرے (ثانی) ہیں_(۳)

___________________

۱_ رجوع ہو ، دلائل الصدق ج ۲ ص ۴۰۴ و ۴۰۵ _

۲_ بخاری مطبوعہ ۱۳۰۹ ج ۳ ص ۱۲۱ و تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۱۵۹ و فتح القدیر ج ۴ ص ۲۱ و الدر المنثور ج ۶ ص ۴۱ نیز ملاحظہ ہو الغدیر ج۸ ص ۲۴۷_

۳_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۴۰۴_

۳۰۳

ج:علاوہ بریں یہ بات بھی واضح ہے کہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کس قدر سخت حالات سے دوچار تھے اور یہ کہ اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت یا حمایت کرنے والا کوئی نہ تھا_ رہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھی تو وہ نہ صرف یہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت نہیں کر رہا تھا بلکہ پریشانی اور خوف و ہراس کے باعث آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ایک سنگین بوجھ بن چکا تھا_ بنابریں وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بوجھ ہلکا کرنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اعانت کرنے کی بجائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے دلجوئی کا محتاج تھا_ کم ازکم یہ بات تو مسلم ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی حمایت و حفاظت اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درپیش مشقتوں میں تخفیف کے سلسلے میں حضرت ابوبکر نے کچھ بھی نہ کیا، ہاں اس نے تعداد میں اضافہ کیا یوں ایک کی بجائے دو افراد ہوگئے_

د: رہا حضرت ابوبکر کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مصاحب قرار دینا تو اس میں بھی فضیلت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتاکیونکہ مصاحبت سے تو فقط اتنا ثابت ہوتا ہے کہ وہ دونوں باہم اور ایک مقام پر جمع تھے اور یہ امر عالم وجاہل، صغیر وکبیر، مومن وغیر مومن وغیرہ کے درمیان بھی واقع ہوسکتا ہے_ چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے:( وما صاحبکم بمجنون ) (۱) یعنی اے اہل مکہ، تمہارا ساتھی مجنون نہیں ہے_ نیز فرمایا ہے( قال له صاحبه وهو یحاوره اکفرت بالذی خلقک ) (۲) یعنی اس کے ساتھی نے اس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کیا تو انکار کرتا ہے اس ذات کا جس نے تجھے پیدا کیا_

بنابریں مصاحبت برائے مصاحبت کوئی فضیلت نہیں رکھتی_

ھ: ادھر خدا کا قول (ان اللہ معنا) حضرت ابوبکر کو تسلی دینے کیلئے آیا تھا تاکہ ان کاحزن جاتا رہے_ یوں حضرت ابوبکر کو بتایا جارہا ہے کہ خداوند عالم انہیں مشرکین کی نظروں سے محفوظ رکھے گا_ اس میں فضیلت کا کوئی پہلو موجود نہیں_ بلکہ اس میں یہ خبردی جارہی ہے کہ اللہ ان کو دشمنوں کے شرسے نجات دے گا_ یعنی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی حفاظت کے پیش نظر حضرت ابوبکر کی بھی حفاظت کرے گا_یہ بالکل اس آیت کی طرح ہے'' و ما کان اللہ لیعذبہم و انت فیہم '' یعنی جب تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان لوگوں کے درمیان موجود ہیں خدا انہیں

___________________

۱_ سورہ تکویر آیت ۲۲ _

۲_ سورہ کہف آیت ۳۷ _

۳۰۴

عذاب میں مبتلاء نہیں کرے گا _ پس رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی وجہ سے یا کسی مومن کی موجودگی سے عذاب الہی سے مشرکین کی نجات ان کی فضیلت کا باعث نہیں بنتی _

و: مورخین کے بقول حضرت ابوبکر محزون ہوئے تھے جبکہ وہ خدا کی واضح نشانیاں اور ایسے صریح معجزات دیکھ چکے تھے جن سے انسان کو یقین ہوجاتاہے کہ اللہ اپنے نبی کی حفاظت کرے گا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دشمنوں کے شرسے نجات دے گا_ حضرت ابوبکر کو معلوم تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ قریش کے (شمشیر زنوں کے) درمیان سے گزرکر نکلے تھے لیکن وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں دیکھ سکے تھے_ نیز غار کے دہانے پر مکڑی کا جالا بنانا اور کبوتر کا انڈے دے کر بیٹھ جانا بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا_ اس کے علاوہ اور چیزوں کا بھی مشاہدہ کیا تھا مثال کے طور پر یہ کہ حضورعليه‌السلام فرمایا کرتے تھے ''کہ اللہ جلد ہی ان کے ہاتھوں قیصر وکسری کے خزانوں کے دروازے کھول دے گا_ اپنے دین کو غالب کرے گا_ اور اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرے گا'' بنابریں ان حالات میں ان کا محزون ہونا اور اللہ کی مدد پر بھروسہ نہ کرنا جبکہ وہ خداکی جانب سے اس قدر معجزات کا مشاہدہ کرچکے تھے، ایک غیر پسندیدہ اور ممنوع عمل ہونا چاہیئے اور ممنوعیت بھی مولی ہونے کے اعتبار سے(۱) ہونی چاہیئے یعنی جناب کا رونا ناجائز تھا_ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک اللہ کی جلالت وعظمت کا احساس ان کے دل میں راسخ نہیں ہوا تھا_

کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے کہا :''اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرا حزن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی علی ابن ابیطالب کے بارے میں ہے کہ کہیں ان کو کچھ ہوانہ ہو''_ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' خدا ہمارے ساتھ ہے''_(۲)

ز: رہا یہ دعوی کہ خدا کی نصرت ان دونوں کے شامل حال ہوئی تھی لہذا وہ اس مدد میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حصہ دار تھے اور یہ بہت بڑی فضیلت ہے تو یہ بھی غلط ہے اور قرآن کی آیت صریحاً اس بات کی نفی کرتی ہے کیونکہ آیت نے تو اللہ کی مدد کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مختص قرار دیا ہے (شاید اس لئے کہ اللہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کفار کے شر سے نجات دی)_

___________________

۱_ نہی مولوی وہ ہے جس کی مخالفت باعث عقاب ہو (مترجم) _

۲_ کراجکی کی کتاب کنز الفوائد ص ۲۰۵ _

۳۰۵

چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے( الا تنصروه فقد نصره الله اذ اخرجه ) یعنی اگر تم لوگوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد نہ کی تو کوئی بات نہیں، اللہ اس کی مدد کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا_ یہاں ضمیر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹتی ہے_ بنابریں اللہ کی مدد فقط رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھ مختص ہوئی ہے_ ابوبکر تو بس طفیلی کی حیثیت رکھتے تھے_اللہ کی مدد کا حضرت ابوبکر کے شامل حال ہونا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ایک مقام پر موجود ہونے کی وجہ سے تھا_ اور یہ بات حضرت ابوبکر کی کسی فضیلت کو ثابت نہیں کرتی_(۱) بالفاظ دیگر اللہ کا حضرت ابوبکر کی حفاظت کرنا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی حفاظت کے پیش نظر تھا، جیساکہ ہم عرض کرچکے ہیں_

ح: نزول سکینہ (اطمینان قلبی) کے بارے میں بھی ان کا یہ دعوی باطل ہے کہ سکون حضرت ابوبکر پر نازل ہوا تھا_ حقیقت یہ ہے کہ سکینہ (سکون قلب) کا نزول فقط رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ پر ہوا کیونکہ اس سے قبل اور اس کے بعد کی ساری ضمیریں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی طرف پلٹتی ہیں اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے_( تنصروہ، نصرہ، یقول، اخرجہ، لصاحبہ، ایدہ کے الفاظ میں)_ بنابریں ایک ضمیر کا کسی اور کی طرف پلٹنا خلاف ظاہر ہے اور قرینہ قطعیہ کا طالب ہے_

جاحظ کا بیان اور اس پر تبصرہ

جاحظ اور دوسروں نے مذکورہ باتوں پر تنقیدکی ہے_(۲) اور کہا ہے: ''کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو اطمینان قلبی کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ اس کا نزول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ہوتا''_ گویا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس بات کے بہانے، لفظ کو اس کے ظاہری مفہوم سے جدا کریں_

لیکن ان کا دعوی غلط ہے کیونکہ:

الف: خدانے سورہ توبہ کی آیت ۲۶ میں جنگ حنین کے بارے میں فرمایا ہے:( ثم انزل الله سکینته

___________________

۱_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۴۰۵ _

۲_ العثمانیة ص ۱۰۷ _

۳۰۶

علی رسوله وعلی المؤمنین ) یعنی اللہ نے اپنا سکینہ (اطمینان قلبی) اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین پر نازل کیا_ نیز سورہ فتح کی آیت ۲۶ میں ارشاد فرمایا ہے_( فانزل الله سکینته علی رسوله و علی المؤمنین ) یعنی پس اللہ نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین پر سکینہ نازل کیا_

اسی طرح اللہ نے مومنین پرنزول سکینہ کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا ہے:( هوالذی انزل السکینة فی قلوب المومنین لیزدادوا ایماناً ) (۱) یعنی اللہ ہی ہے کہ جس نے مومنین کے دلوں میں اطمینان نازل کیا تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو_

نیز یہ بھی فرمایا:( فعلم ما فی قلوبهم فانزل السکینة علیهم واثابهم فتحا قریبا ) (۲) یعنی اللہ نے ان کے دل کی بات جان لی پس ان پر اطمینان قلبی نازل کیا اور ان کو بطور انعام قریبی فتح عنایت کی_

بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کو سکون کی نعمت سے محروم کرنے کا راز کیا تھا؟ حالانکہ خدانے یہاں اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور دیگر مقامات پر نبی کریم اور مومنین پر اسے نازل فرمایا ہے؟ میری عرض یہ ہے کہ شاید اس کاجواب یوں دیا جائے کہ یہاں فقط رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس کا نزول کافی تھا کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نجات میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم سفر کی بھی نجات تھی لیکن یہ ایک کمزور جواب ہے کیونکہ ''سکینہ'' اطمینان قلب کا موجب ہے اور پریشانی کے زائل ہونے کا باعث ہے_ نجات پانے اور بچ جانے سے اس کا کوئی سروکار نہیں_ یوں مذکورہ سوال تشنہ جواب ہی رہ جاتا ہے_

ب: سکینہ (اطمینان قلب) اللہ کی ایک نعمت ہے اور یہ ضروری نہیں کہ نزول نعمت کے وقت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی ضد (نعمت کے فقدان) سے متصف ہوں_ اسی لئے ایک نعمت کے بعد دوسری نعمت نازل ہوتی ہے_

ج: انہیں کہاں سے علم حاصل ہوا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو نزول سکینہ کی ضرورت نہ تھی؟ جبکہ آیت اس بات پر دلالت نہیں کرتی_بنابریں یہ آیت بھی جنگ حنین کے بارے میں اترنے والی آیت کی طرح ''سکینہ'' کیلئے یہ اعلان کر رہی ہے کہ شدید خطرہ اب ٹل چکا ہے_

___________________

۱_ سورہ فتح آیت ۴ _

۲_ سورہ فتح آیت ۱۸ _

۳۰۷

نیز رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ حضرت ابوبکر کے حزن، خوف و ہراس اور رونے کی وجہ کچھ اور ہے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگرچہ یہ جانتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آخر کار اس خطرے سے نجات مل جائے گی لیکن حضرت ابوبکر کی روش مشکلات اور مسائل پیدا کرے گی اور وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے ان مقاصد اور اہداف تک پہنچنے میں تاخیر کا باعث بنیں گے جن کا مرحلہ ابھی دور تھا_

د: علامہ طباطبائی کا نظریہ یہ ہے کہ اس آیت سے قبل اللہ کی طرف سے ان حالات میں اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کا ذکر ہوا ہے جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کوئی فرد ایسا نہ تھا جو آپ کی مدد کرسکتا_ اس مدد کی ایک صورت نزول سکینہ اور خدائی لشکروں کے ذریعے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تقویت تھی_لفظ (اذ) کا تین بار تکرار اس بات کی دلیل ہے_ ان میں سے ہرایک پہلے والے کی کسی نہ کسی صورت میں توضیح کرتا ہے_ یہ لفظ اس مقام پر کبھی نصرت الہی کا وقت بیان کرنے کیلئے، کبھی آپ کی حالت بیان کرنے کیلئے اورکبھی اس حالت کا وقت بیان کرنے کیلئے استعمال ہوا ہے_ بنابریں خدائی لشکروں کے ذریعے اس شخص کی تائید کی گئی جس پر سکون کا نزول ہوا تھا_(۱)

محقق محترم سید مہدی روحانی کہتے ہیں: ''چونکہ حضرت ابوبکر نے غم نہ کھانے اور خوف نہ کرنے کے بارے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے حکم کی تعمیل نہ کی، اس لئے سکینہ کا نزول فقط رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ پر ہوا_ اور ابوبکر (اطمینان قلبی سے) محروم ہی رہے_ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر اللہ کے اس فضل وکرم کے اہل ہی نہ تھے''_

شیخ مفید کا بیان اور اس کا جواب

شیخ مفید اور دیگر افراد کہتے ہیں کہ اگر حضرت ابوبکر کا حزن اطاعت خدا کیلئے تھا تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اطاعت الہی سے منع کریں_ بنابریں ایک راہ رہ جاتی ہے وہ یہ کہ مذکورہ عمل حرام تھا، اسی لئے

___________________

۱_ تفسیر المیزان ج ۹ ص ۲۸۰ مطبوعہ بیروت_

۳۰۸

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اس سے منع کیا_(۱)

حلبی وغیرہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ خدانے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا ہے (ولایحزنک قولہم) ان لوگوں کی باتوں سے محزون نہ ہو، یہاں خدا کے نبی کو حزن و پریشانی سے منع کرنا بس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دلجوئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خوشخبری دینے کیلئے تھا_ بالکل یہی حال نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ابوبکر کو منع کرنے کا تھا_(۲)

ہمارے خیال میں حلبی کا جواب غیر مناسب ہے_ اسکی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کا حزن اور اللہ کی مدد پر ان کاشک کوئی مستحسن اور قابل تعریف امر نہ تھا جسکی طرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا(ان اللہ معنا) کہنا اشارہ کر رہا ہے_ ان کو تو اللہ کی طرف سے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کا یقین حاصل ہوناچاہیئے تھا کیونکہ وہ ان واضح معجزات اور صریح نشانیوں کو دیکھ چکے تھے جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اللہ اپنے نبی کو جلد ہی مشرکین کے شر سے نجات دے گا_

بنابریں یہ کہنا درست نہیں کہ یہ آیت ان کی تعریف و تمجید میں نازل ہوئی_ پس اس سے اس کا ظاہری مفہوم ہی مراد لینا چاہیئے کیونکہ ظاہری معنی سے ہٹ کر کسی اور معنی میں استعمال کیلئے قرینے کی ضرورت ہوتی ہے_ بلکہ ہم نے جو کچھ عرض کیا وہ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہی ظاہری معنی ہی مراد ہے_

حضرت ابوبکر کے حزن کو نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حزن کے مشابہ قرار نہیں دیا جاسکتا_ جس کی طرف اللہ نے یوں اشارہ کیا ہے_( ولایحزنک قولهم ) یعنی ان کی باتیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دلگیر و محزون نہ کریں_ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا تو بس اس لئے محزون ہوتے تھے کیونکہ آپ اپنی قوم کی ہٹ دھرمی اور کفر وطغیان کے باعث اپنی دعوت اور دین اسلام کی راہ میں مشکلات اور رکاوٹوں کا مشاہدہ کرتے تھے لہذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت موسیعليه‌السلام کو خدا کی جانب سے جو ممانعت ہوئی ہے وہ نہی تحریمی نہیں ہے بلکہ اس نہی کا مقصد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دلجوئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بات کی بشارت دینا ہے کہ دین اسلام کو جلد فتح نصیب ہوگی نیز یہ بتاناہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمنوں کی

___________________

۱_ الافصاح فی امامة امیرالمومنین علیعليه‌السلام ص ۱۱۹ و کنز الفوائد کراجکی ص ۲۰۳_

۲_ سیرت حلبی ج ۲ ص ۳۸_

۳۰۹

بات پر توجہ نہ دیں اور ان کا غم نہ کھائیں کیونکہ وہ اس کے لائق نہیں ہیں_ لہذا یہاں نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حزن وغم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایمان کی گہرائی اور فنا فی اللہ ہونے کی علامت ہے_ اس حزن کا قیاس اس شخص کے حزن پر نہیں کیا جاسکتا جو فقط اپنی ذات کیلئے محزون ہوتا ہو_

قرآن کی آیات ہمارے عرائض پر صریحاً دلالت کرتی ہیں چنانچہ ایک آیت کہتی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی قوم کو کفر کی طرف لپکتے دیکھ کر محزون ہوتے تھے_ ارشادہوتا ہے( ولا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر ) (۱) یعنی کفر کی طرف سبقت کرنے والوں کو دیکھ کر آپ غمگین نہ ہوں_

اور دوسری آیت کہتی ہے کہ آپ کا حزن ان کی طرف سے اپنی تکذیب کے باعث تھا فرمایا ہے( قدنعلم انه لیحزنک الذی یقولون فانهم لایکذبونک ) (۲) یعنی ہم جانتے ہیں کہ آپ ان کی باتوں سے محزون ہوتے ہیں_

نیز ارشاد ہے:( ومن کفر فلا یحزنک کفره ) (۳) یعنی جو کافر ہوجائے اس کے کفر سے محزون نہ ہوں_ایک اور آیت یہ کہتی ہے کہ آپ اس لئے محزون ہوتے تھے کیونکہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کو پوجتے تھے_ چنانچہ ارشاد ہوا( فلا یحزنک قولهم انا نعلم ما یسرون وما یعلنون ) (۴) اس کے علاوہ دیگر آیات بھی موجود ہیں جو صاحب نظر افراد سے پوشیدہ نہیں_

خلاصہ یہ کہ ان آیات کی مثال اس آیت کی طرح ہے_( فلا تذهب نفسک علیهم حسرات ) (۵) یعنی ان لوگوں پر افسوس کرتے کرتے خواہ مخواہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان نہ گھلے_

ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اگر ہم حضرت ابوبکر کے حزن کی علت کو نہ بھی جان سکیں تب بھی ان کے حزن کو معصوم نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حزن کی طرح قرار نہیں دے سکتے بلکہ ہمیں تو نہی الہی کے

___________________

۱_ سورہ آل عمران ۱۷۶ و سورہ مائدہ ۴۱ _

۲_ سورہ انعام آیت ۳۳ _ ۳_ سورہ لقمان آیت ۲۳ _

۴_ سورہ ی س آیت ۷۶ _ ۵_ سورہ فاطر آیت ۸ _

۳۱۰

ظاہری معنی کوہی لینا چاہیئے یعنی ''حرمت حزن'' کیونکہ ظاہری معنی سے صرف نظر کرنے کیلئے قرینے اور دلیل کی ضرورت ہوتی ہے_

ایک جواب طلب سوال

آیات ومعجزات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود جب حضرت ابوبکر محزون ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور صاحب یقین صابروں کا اجر حاصل کرنے کیلئے صبر نہ کرسکے تو پھر اگر انہیں اس رات امیرالمومنینعليه‌السلام کی جگہ بستر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سونا پڑتا تو پتہ نہیں ان کا کیا حال ہوتا؟ کیا وہ ان مشکل لمحات میں قریش کے مکر کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک دیتے اور ان کی طاقت وجبروت کے آگے ہتھیار نہ ڈال دیتے، یوں حالات بالکل پیچھے کی طرف پلٹ جاتے_

یہ سوال خود بخود سامنے آیا ہے اور شاید اس کا کم از کم مستقبل قریب میں شافی جواب ہرگز نہ مل سکے_

سوال دیگر: کیا اس کے بعد ہم اس دعوے کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اصحاب میں سب سے زیادہ شجاع تھے؟

غزوہ بدر کی بحث کے دوران اس (دو سرے) سوال سے مربوط بعض پہلوؤں کا ذکر آئے گا انشاء اللہ تعالی_ لہذا اس بحث کو وہاں پر موقوف کرتے ہیں_

نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محافظت کی سخت مہم

لیکن یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کا یہ قول کس حد تک صحیح ہے کہ غار کی طرف جاتے ہوئے حضرت ابوبکر کبھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے آگے چلنے لگ جاتے تھے کبھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیچھے، نیز کبھی دائیں جانب اور کبھی بائیں جانب_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے عرض کیا:'' اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب مجھے دشمن کے گھات کا خطرہ یاد آتا ہے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آگے ہوجاتا ہوں اور جب ان کے تعاقب کا خطرہ محسوس ہوتا ہے تو پیچھے چلا جاتا ہوں پھر کبھی دائیں اور کبھی بائیں چلنے لگتا ہوں مجھے آپ کے بارے میں (دشمن کا) خطرہ محسوس

۳۱۱

ہوتا ہے''_(۱)

یہ کلام نادرست ہے کیونکہ (ان معجزات الہیہ کا مشاہدہ کرنے کے باوجود جنہیں اس روایت کے راویوں نے ہی نقل کیا ہے) حضرت ابوبکر کا محزون ہونا اور خوف کھانا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کی کدورت خاطر کا باعث بنا یہاں تک کہ آپ خدا کی طرف سے نزول سکینہ کے محتاج ہوئے_

اس بات سے قطع نظر، دشمن کی طرف سے گھات کا خوف معقول نہیں کیونکہ قریش مطمئن تھے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان کے محاصرے میں ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے مکر وفریب سے بچ کرہرگز نہیں نکل سکتے پھر حضرت ابوبکر کے پاس کونسا اسلحہ تھا جس کے ذریعے وہ اپنی یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی کسی طرح حفاظت کرتے؟

ان باتوں کے ساتھ اس بات کا بھی اضافہ کرتا چلوں کہ حضرت ابوبکر احد، حنین اور خیبر میں بھاگ گئے تھے_ جس کا ہم آگے چل کر انشاء اللہ مشاہدہ کریں گے_ ان کے علاوہ حضرت ابوبکر کی جانب سے کسی شجاعانہ اقدام کا کوئی نام ونشان دکھائی نہیں دیتا_البتہ ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ در اصل جناب ابوبکر دائیں بائیں اور آگے پیچھے اس لئے پھرتے تھے کہ انہیں دلی اطمینان اور مقام امن کی تلاش تھی جو انہیں تو نہیں مل سکی لیکن واقعہ کو تحریف کرکے دوسرے رخ کے ساتھ پیش کیا گیا_

حضرت ابوبکر کی پرزور حمایت کا راز

ہمیں تو تقریباً یقین حاصل ہے کہ ان کوششوں کا مقصد حضرت ابوبکر کی شان میں اس فضیلت کی کمی کو پوری کرنا ہے جو بستر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سونے کی وجہ سے حضرت علیعليه‌السلام کو حاصل ہوئی اور جس پر اللہ تعالی نے فرشتوں سے اظہارمباہات کیا تھا_ جیساکہ ہم آگے چل کر ذکر کریں گے انشاء اللہ تعالی_

من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله :

روایت ہے کہ اللہ تعالی نے جبرئیلعليه‌السلام اور میکائیلعليه‌السلام سے کہا میں نے تم دونوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار

___________________

۱_ تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۲۶ اور سیرت حلبی ج ۲ ص ۳۴ _

۳۱۲

دیا_ اور ایک کی عمر دوسرے سے زیادہ قرار دی اب تم دونوں میں سے کون ہے جو اپنے ساتھی کو اپنے اوپر ترجیح دے تاکہ وہ زیادہ زندہ رہے؟ جواباً ان دونوں نے زندہ رہنے، کی خواہش کی_ اس وقت پروردگارعالم نے ان سے فرمایا کیا تم دونوں علی ابن ابیطالبعليه‌السلام جیسے نہیں بن سکتے؟ میں نے اس کے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا_ پس وہ اس پر اپنی جان قربان کرنے کیلئے اس کے بستر پر سوگیا اور اس کی زندگی کو اپنی زندگی پر ترجیح دی ہے اب تم دونوں زمین پر اترجاؤ اور دشمنوں سے اس کی حفاظت کرو_ چنانچہ وہ دونوں زمین پر اترآئے_ جبرئیلعليه‌السلام ان کے سرکی جانب اور میکائیل ان کے پیروں کی طرف، جبرئیلعليه‌السلام یہ پکار رہے تھے ''شاباش ہو آپ جیسے افراد پر یا علیعليه‌السلام ابن ابیطالب _اللہ تمہاری وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر ومباہات کرتا ہے_ اس وقت اللہ کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی:

( ومن الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله ، والله رؤوف بالعباد ) (۱)

___________________

۱_ سورہ بقرہ آیت ۲۰۷ اور روایت کیلئے رجوع کریں اسد الغابة ج ۴ ص ۲۵ و المستجاد (تنوخی) ص ۱۰ و ثمرات الاوراق ص ۳۰۳ و تفسیر البرہان ج ۱ ص ۲۰۷ و احیاء العلوم ج ۳ ص ۲۵۸ و تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۳۹ و کفایة الطالب ص ۲۳۹ و شواہد التنزیل ج ۱ _ص ۹۷ و نور الابصار ص ۸۶ و فصول المہمة (ابن صباغ مالکی) ص ۳۱ و تذکرة الخواص ص ۳۵ از ثعلبی و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۲۵ اور ۳۲۶، بحار ج ۱۹ ص ۳۹ و ۶۴ اور ۸۰ ثعلبی سے کنز الفوائد سے نیز از فضائل احمد ص ۱۲۴_۱۲۵، از الروضة ص ۱۱۹، المناقب خوارزمی ص ۷۴، ینابیع المودّة ص ۹۲ از ابن عقبہ ، نیز حبیب السیر ج۲ ص ۱۱ میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ تاریخ اور سیرت کی اکثر کتابوں میں مذکور ہے _ التفسیر الکبیر ج۵ ص ۲۰۴ ، الجامع لاحکام القرآن ج۳ ص ۲۱ ، سیرت حلبی ج۳ ص ۱۶۸ ، سیرہ نبویہ دحلان ج۱ ص ۱۵۹ ، فرائد السمطین ج۱ ص ۳۳۰ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص۴ نیز اسی کے حاشیہ پر تلخیص مستدرک ذہبی بالکل اسی صفحہ پر ، مسند احمد ج۱ ص ۳۳۱ ، دلائل الصدق ج۲ ص ۸۱ _ ۸۲ ، المواہب اللدنیہ ج۱ ص ۶۰ ، اللوامع ج۲ ص ۳۷۶ ، ۳۷۵ ، ۳۷۷ از مجمع البیان ، المبانی، ابونعیم ،ثعلبی و غیرہ و از البحر المحیط ج۲ ص ۱۱۸ نیز معارج النبوة ج۱ ص ۴ و مدارج النبوة ص ۷۹ ، روح المعانی ج۲ ص ۷۳ از امامیہ و دیگر افراد، نیز از مرآة المؤمنین ص ۴۵ ، امتاع الاسماع ص ۳۸ ، مقاصد الطالب ص ۷ و سیلة النجاة ص ۷۸ ، المنتقی کا زرونی ص ۷۹ مخطوط و دیگر معروف و غیر معروف کتب_ اور امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۴ سے نقل کیا ہے_ ابن شہر آشوب کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو ثعلبی نے نیز ابن عاقب نے ملحمہ میں، ابوالسعادات نے فضائل عشرہ میں اور غزالی نے احیاء العلوم اور کیمیاء السعادة میں (عمار سے) روایت کیا ہے علاوہ ازیں ابن بابویہ، ابن شاذان، کلینی، طوسی، ابن عقدہ، برقی، ابن فیاض، عبدلی، صفوانی اور ثقفی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس، ابورافع اور ھند ابن ابوھالہ سے روایت کیا ہے_ نیز رجوع کریں الغدیر ج ۲ ص ۴۸ ( گذشتہ بعض منابع سے )نیز نزھة المجالس ج ۲ ص ۲۰۹ (از سلفی) محمودی نے شواہد تنزیل کے حاشیہ میں، مذکورہ مآخذ میں سے نیز ابوالفتوح رازی (ج ۲ ص ۱۵۲) و غایة المرام باب ۴۵ ص ۳۴۶ سے نقل کیا ہے اسی طرح سیرت مغلطای ص ۳۱، المستطرف اور کنوز الحقائق ص ۳۱ میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے_

۳۱۳

لوگوں میں و ہ بھی ہے جو رضائے الہی کی طلب میں اپنی جان کا سودا کرتا ہے_ ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے_

اسکافی کہتے ہیں کہ: تمام مفسرین نے روایت کی ہے کہ( ومن الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله ) والی آیت شب ہجرت حضرت علیعليه‌السلام کے بستر (رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) پر سونے کے بارے میں اتری ہے_(۱)

جھوٹے کامنہ کالا

یہیں سے فضل ابن روزبہان کے اس جھوٹ کا بھی پول کھل جاتا ہے کہ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت زبیر اور مقداد کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان کو اس لئے مکہ بھیجا تھا کہ وہ خبیب بن عدی کو پھانسی کے تختے سے اتاریں_ اس تختے کے اردگرد چالیس مشرکین موجود تھے لیکن ان دونوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اسے اتارا چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی_

اس بات کی تکذیب اسکافی کے مذکورہ بالا بیان کے علاوہ ان مآخذ سے بھی ہوتی ہے جن کا ذکر اس آیت کے حضرت علیعليه‌السلام کی شان میں اترنے کے بیان میں ہوا ہے_

شیخ مظفر فرماتے ہیں کہ مفسرین نے اس بات (فضل کی بات ) کا ذکر نہیں کیا یہاں تک کہ سیوطی رازی اور کشاف نے بھی اس کا تذکرہ نہیں کیا حالانکہ رازی نے اپنی تفسیر میں ان کے تمام اقوال کو جمع کیا ہے اور سیوطی نے ان کی تمام روایات کو_

الاستیعاب میں ''خبیب'' کے حالات زندگی میں مذکور ہے کہ جس شخص کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے (خبیب) کی لاش اتارنے کیلئے بھیجا وہ عمر بن امیہ ضمری تھے_(۲) اس پرمزید تحقیق آئندہ بیان ہوگی_

___________________

۱_ رجوع کریں شرح نہج البلاغة ج ۱۳ ص ۲۶۲ _

۲_ رجوع کریں دلائل الصدق ج ۲ ص ۸۲ _

۳۱۴

ابن تیمیہ کیا کہتا ہے:

ابن تیمیہ نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شان میں اس آیت کے نزول سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ محدثین اور سیرت نگاروں کا اس کے جھوٹ ہونے پر اتفاق ہے اس کے علاوہ حضرت علیعليه‌السلام کو صادق (رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ) کے اس قول سے ''کہ ان کی طرف سے تجھے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی'' اطمینان قلبی حاصل ہوگیا تھا_ بنابریں جان کی قربانی یا فداکاری کا مسئلہ ہی در پیش نہ تھا_ یہ آیت سورہ بقرہ میں مذکور ہے جس کے مدنی ہونے پر سب کا اتفاق ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ یہ آیت صہیب کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب انہوں نے ہجرت کی_(۱)

ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ:

الف: اگر حضرت علیعليه‌السلام کی بہ نسبت یہ آیت مدنی ہے تو صہیب کے متعلق بھی تو یہ آیت مدنی ہے_ بات تو ایک ہی ہے_

ب: اسکافی معتزلی نے جاحظ کے دعوے ''کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے علیعليه‌السلام سے فرمایا (تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی'' کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے یہ واضح طورپر جھوٹ اور جعلی حدیث ہے جوبات معروف ہے اور منقول بھی_ وہ یہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام سے فرمایا :''میرے بسترپر سوجاؤاور میری حضرمی چادر اوڑھ لو_ آئندہ یہ لوگ (مشرکین) مجھے نہ پاسکیں گے_ اور میرا بستر نہ دیکھ سکیں گے شاید یہ لوگ تمہیں دیکھ کر صبح تک مطمئن ہوجائیں_ پس جب صبح ہوجائے تو میری امانت کی ادائیگی کے پیچھے چلے جانا''_

جاحظ نے جوبات کی ہے اسے کسی نے نقل نہیں کیا فقط ابوبکر اصم (بہرے) نے اسے گھڑا ہے اور جاحظ نے اس سے اخذ کیا ہے جبکہ اس کی کوئی بنیادہے ہی نہیں_

___________________

۱_ السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۲۷ _

۳۱۵

اگر (رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے منسوب) یہ بات صحیح ہوتی تو حضرت علیعليه‌السلام کو مشرکین کی طرف سے کوئی تکلیف نہ پہنچتی_ حالانکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ انہیں مارا گیا اور انہیں پہچاننے سے قبل ان کی طرف پتھر پھینکے گئے، یہاں تک کہ وہ درد سے پیچ وتاب کھاتے رہے اور انہوں نے ان سے کہا ہم نے تمہارا پیچ وتاب کھانا دیکھا_(۱)

اسکے علاوہ پہلے گزر چکا ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت علیعليه‌السلام سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گزارنے کے بعد غار میں ملاقات کے دوران امانتوں کو واپس کرنے اور مکہ میں اس کا اعلان کرنے کا حکم دیا تو اس وقت فرمایا تھا کہ ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور یہ اطمینان دلایا تھا کہ تمہارا یوں اعلان کرنا مشکلات اور مسائل پیدا کرنے کا باعث نہیں بنے گا_

ج: ہماری بات کی دلیل یہ ہے کہ:

۱) اگر ابن تیمیہ کی بات درست ہوتی تو پھر ان کا اپنے اس اقدام پر فخر کرنے کا کیامطلب رہ جاتا ہے؟ چنانچہ روایت ہے کہ جب حضرت عائشہ نے اپنے باپ اور غارمیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھ ان کی مصاحبت پر فخرکیا تو عبداللہ بن شداد بن الہاد نے کہا:'' تیرا علی بن ابیطالبعليه‌السلام سے کیا مقابلہ جو تلواروں کے سائے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی جگہ پر سوگئے''_ یہ سن کر حضرت عائشہ خاموش ہوگئی اور ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا_(۲)

۲) حضرت انس سے منقول ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام نے اپنے نفس کو قتل ہونے کیلئے آمادہ کرلیا تھا_(۳)

۳) بلکہ علیعليه‌السلام نے خود اس بات کی تصریح فرمائی اور ان اشعار کے ذریعے ہرقسم کے شبہات دور کردیئے جن کا تذکرہ ہوچکا ہے انہوں نے فرمایا تھا:

وقیت بنفسی خیر من وطئی الثری

میں نے اپنی جان پیش کر کے اس شخص کو بچایا جو اس زمین پر چلنے والوں میں سب سے بہتر تھا_

___________________

۱_ شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۱۳ ص ۲۶۳ _

۲_ امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۶۲ اور بحار الانوار ج ۱۹ ص ۵۶ (از امالی)

۳_ امالی شیخ طوسی اور بحارالانوار

۳۱۶

نیز یہ بھی فرمایا_

وبت اراعیهم متی یثبتوننی

وقد وطنت نفسی علی القتل والاسر

وبات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله فی الغار آمنا

هناک وفی حفظ الاله وفی ستر(۱)

میں نے رات اس انتظار میں گزاری کہ وہ کب مجھے گرفتار کرتے ہیں_ میں نے اپنے نفس کو قتل یا اسیر ہونے کیلئے آمادہ کر رکھا تھا ادھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے غار میں امن وسکون سے اور اللہ کی پناہ میں چھپ کر رات گزاری_

د:امام علیعليه‌السلام ہی سے نقل ہوا ہے کہ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے اپنے بستر پر سونے اور اپنی جان کے بدلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کا حکم دیا_ پس میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت میں اس کام کی طرف شتاب کیا_ میں اندر سے خوش تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بدلے میں قتل ہو جاؤں گا_ یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے سفر پر نکل پڑے اور میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پرسوگیا_ قریش کے مرد اس یقین کے ساتھ کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو قتل کریں گے_ جب گھر میں داخل ہوئے جہاں میں موجود تھا _میرا اور ان کا آمنا سامنا ہواتو میں نے اپنی تلوار سے ان کی خبرلی اور جس طرح میں نے ان سے اپنا دفاع کیا اسے اللہ اور لوگ بخوبی جانتے ہیں''_ پھر انہوں اپنے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا:'' کیا میرا بیان درست نہیں؟'' وہ بولے ''کیوں نہیں اے امیرالمومنینعليه‌السلام ''_(۲)

یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے علیعليه‌السلام کو مارا اور کچھ دیر قید رکھا اور پھر چھوڑ دیا_(۳)

ابن تیمیہ کا یہ دعوی کہ جبرئیل کی طرف سے ان کی حفاظت اور اس بارے میں نزول آیت والی روایت تمام محدثین اور سیرت نگاروں کے نزدیک جھوٹی ہے،یہ کسی صورت میں صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہ ابن تیمیہ کے

___________________

۱_ نور الابصار ص ۸۶، شواہد التنزیل ج ۱ ص ۱۰۲، مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۴، تلخیص مستدرک (ذہبی) اسی صفحے کے حاشیے پر، نیز امالی شیخ ج ۲ ص ۸۳ تذکرة الخواص ص ۳۵ و فرائد السمطین ج ۱ ص ۳۳۰ و مناقب خوارزمی ص ۷۴_۷۵ و فصول المہمة (ابن صباغ) ص ۳۱، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۶۳ اور تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۲۵ نیز اس شعر کے منابع بھی بہت زیادہ ہیں جن کی جستجو کی گنجائشے نہیں ہے_

۲_ بحارالانوار ج ۱۹ ص ۴۵ میں، خصال ج ۲ ص ۱۴_۱۵ سے نقل ہوا ہے _

۳_ تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۲۵ _

۳۱۷

علاوہ کسی نے بھی اس روایت کو نہیں جھٹلایا ہے _بنابریں اس نے ان لوگوں کی طرف ایسی بات کی نسبت دی ہے جن کا خود ان کو علم نہیں اور وہ اس سے بری ہیں بلکہ حاکم اور ذہبی کی طرف سے اس روایت کو صحیح قرار دینے کی بات آپ پہلے پڑھ چکے ہیں_ اس کے علاوہ ایسے بہت سے لوگوں کا بھی ذکر ہوچکا ہے جنہوں نے بڑے بڑے علماء اور حفاظ سے اس روایت کو بغیر کسی ردوکد کے نقل کیا ہے لیکن ممکن ہے کہ ابن تیمیہ کے شیطان نے اس پر وحی کی ہو کہ وہ ان لوگوں کی طرف ایسی چیز منسوب کرے جس سے وہ بری ہیں_

ھ: حلبی نے ابن تیمیہ کے اعتراض کا یوں جواب دیا ہے_''اس نے امتاع میں یہ نہیں بتایا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت علیعليه‌السلام سے مذکورہ بات کہی تھی_ بنابریں ان کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کیلئے اپنی جان کی قربانی پیش کرنا تو واضح ہے اور دوسری طرف سے یہ ممکن ہے کہ مذکورہ آیت ایک دفعہ حضرت علیعليه‌السلام کے حق میں اور ایک دفعہ حضرت صہیب کے بارے میں اتری ہواس صورت میں حضرت علیعليه‌السلام کے بارے میں لفظ شراء سے مراد بیچنا ہوگا یعنی انہوں نے اپنی جان نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کے بدلے بیچ دی اور حضرت صہیب کے بارے میں اس لفظ سے مراد ''خریدنا'' ہوگا_ صہیب نے مال دے کر اپنی جان خرید لی_ رہا اس آیت کا مکی ہونا تو یہ بات سورہ بقرہ کے مدنی ہونے کے منافی نہیں کیونکہ سورتوں کا مکی یا مدنی ہونا آیات کی اکثریت کے پیش نظر ہوتا ہے_(۱)

لیکن حلبی کے اس جواب کی بعض باتیں قابل تنقید ہیں کیونکہ لفظ شراء ''کو ایک دفعہ بیچنے'' کے معنی میں اور ایک دفعہ خریدنے کے معنی میں استعمال کرناقابل قبول نہیں کیونکہ لفظ مشترک کے ایک سے زیادہ معانی میں استعمال کا موجب بنتا ہے جبکہ علماء کی ایک جماعت نے اس سے منع کیا ہے_ علاوہ ازیں صہیب کو اپنا مال خرچ کرنے کی وجہ سے دوسروں پر کوئی ترجیح حاصل نہیں ہوتی_ کیونکہ بہت سے مہاجرین ہجرت کے باعث اپنے اموال سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے_ وہ ان کو مشرکین کے پاس چھوڑ کر راہ خدا میں مکہ سے نکل گئے تھے_

___________________

۱_ السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۲۷ _

۳۱۸

صہیب کا واقعہ اور ہمارا نقطہ نظر

نقل کرتے ہیں کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے غار کی طرف حرکت کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابوبکر کو دو یا تین بار صہیب کے پاس بھیجا_ انہوں نے صہیب کو نماز پڑھتے پایا چنانچہ انہیں اچھا نہ لگا کہ وہ نماز توڑ دیں_ جب واقعہ ہوچکا تو صہیب حضرت ابوبکر کے گھر آئے اور اپنے دونوں بھائیوں (ابوبکر اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ) کے بارے میں پوچھا_ چنانچہ انہیں واقعے کے بارے میں بتایا گیا_ نتیجتاً وہ اکیلے ہی ہجرت کیلئے آمادہ ہوگئے لیکن مشرکین نے انہیں نہ چھوڑا یہاں تک کہ انہوں نے اپنا مال ومتاع ان کے حوالے کردیا_ جب قباء کے مقام پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھ مل گئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا صہیب فائدے میں رہا صہیب فائدے میں رہا_ یا فرمایا اس کی تجارت سود مند رہی چنانچہ خداوند عالم نے یہ آیت اتاری( ومن الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله ) (۱)

اس روایت کے الفاظ مختلف ہیں جیساکہ تفسیر درمنثور اور دیگر تفاسیر کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے _یہاں اتنا کہناہی کافی ہے کہ ان میں سے ایک روایت کے مطابق یہ آیت اس وقت اتری جب مشرکین نے صہیب کو سزا دینے کیلئے پکڑ لیا_ اور صہیب نے کہا میں ایک بے ضرربوڑھا آدمی ہوں خواہ میرا تعلق تم سے ہو یا تمہارے غیر سے_ کیا تم میرا مال لیکر مجھے اپنے دین کے معاملے میں آزاد نہیں چھوڑ سکتے؟ نتیجتاً انہوں نے ایسا ہی کیا_(۲)

ایک اور روایت نے اس کا تذکرہ اس واقعے کی طرح کیا ہے جو حضرت علیعليه‌السلام کے ساتھ ہجرت کے وقت پیش آیا یعنی جب مشرکین انکی دھمکی سے ڈر کر واپس چلے گئے تھے_(۳)

___________________

۱_ الاصابة ج ۲ (صہیب کے ذکر میں)، السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۲۳ و ۲۴، الدر المنثور ج ۱ ص ۲۰۴ از ابن سعد، ابن ابی اسامہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم و ابونعیم '' الحلیة '' میں اسی طرح ابن عساکر، ابن جریر، طبرانی، حاکم، بیہقی در الدلائل اور ابن ابی خیثمہ سے (عبارات میںکچھ اختلاف ہے) _

۲_ السیرة الحلبیة ج ۳ ص ۱۶۸ _

۳_ السیرة الحلبیة ج ۳ ص ۱۶۸ _

۳۱۹

لیکن یہ قصہ صحیح نہیں کیونکہ:

۱) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا ان حالات میں صہیب کے پاس تین بار حضرت ابوبکر کو بھیجنا معقول بات نہیں خصوصاً ان حالات میں جبکہ انہی کے بقول مشرکین رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھ حضرت ابوبکرکو بھی تلاش کررہے تھے اور انہیں تلاش کرنے والے کیلئے سو اونٹوں کاانعام مقرر کیا تھا(۱) _( اگرچہ ہماری نظر میں یہ بھی درست نہیں جیساکہ آپ آئندہ صفحات میں مشاہدہ کریں گے) لیکن بہرحال اس بات میں شک کی گنجائشے نہیں کہ قریش کی کوشش اس لئے تھی کہ حضرت ابوبکر کے ذریعے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا سراغ لگایا جائے_

۲) حالت نماز میں صہیب کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا پیغام پہنچانے سے ان کی نماز کیوں ٹوٹتی کیونکہ حضرت ابوبکر کیلئے یہ ممکن تھا کہ اپنی بات صہیب سے کہتے اور ان کی نماز توڑے بغیر لوٹتے یا ایک دو منٹ ٹھہر کر اس کا نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کر لیتے_ پھر اس قسم کا اتفاق نہایت ہی کم ہوتا ہے_لہذا کیسے ہوسکتاہے کہ وہ دو یا تین بار آئیں اور صہیب پھر بھی مشغول نماز ہوں_

۳) کیا وجہ ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے صہیب کو تو اہمیت دی لیکن دوسرے بے چارے مسلمانوں کو نظر انداز کردیا؟ (جن کے اوپر قریش ہرقسم کا تشدد روا رکھتے تھے) اور ان کے پاس تین بار تو کیا ایک بار بھی کسی کو نہ بھیجا؟ کیا یہ بات امت کے بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عادلانہ رویہ اور عطوفت ومہربانی سے ہم آہنگ ہے؟ ہاں مگر یہ کہا جائے کہ شاید صہیب کے علاوہ دوسرے مسلمانوں پر مشرکین کی کڑی نظر تھی یا یہ کہ صہیب دوسروں سے زیادہ گرفتار بلا تھے یا اسی طرح کے دیگر احتمالات جن کی طرف بعض لوگوں نے اشارہ کیا ہے_

۴) ہم بعض ایسی روایات بھی پاتے ہیں جن کے مطابق حضرت ابوبکر نے (نہ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے) صہیب سے کہا تھا اے صہیب تیری تجارت سود مند رہی(۱) جیساکہ ابن ہشام نے بھی اس واقعے کو ذکر کیا ہے لیکن اس نے نزول آیت کا تذکرہ نہیں کیا_(۲)

___________________

۱_تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۳۰ سیرت حلبی ج ۲ ص ۳۹ البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۱۸۲ اور ارشاد الساری ج۶ ص ۲۱۸_

۲_ مجمع البیان ج ۶ ص ۳۶۱، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۳۵، السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۲۴ نیز ملاحظہ ہو صفین (منقری) ص ۳۲۵__

۳_ سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۱۲۱ _

۳۲۰