الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)9%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 209837 / ڈاؤنلوڈ: 6321
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

ہجرت مدینہ کے بعد تو حضرت ابوبکر اپنے مال کے معاملے میں سخت بخیل ہوگئے تھے_ ان کے پاس اس وقت پانچ ہزار یا چھ ہزار درہم تھے جیساکہ بعض لوگ نقل کرتے ہیں_ حضرت ابوبکرہرکسی کے ساتھ بخل کرتے تھے یہاں تک کہ اپنی بیٹی اسماء کے ساتھ بھی جو مدینہ آنے کے بعد فقر اور مشکلات کا سخت شکار تھی_ یہاں تک کہ وہ ایک گھرمیں خدمت کرتی تھی، وہاں کے گھوڑے کی دیکھ بھا ل کرتی اور اونٹ کیلئے گٹھلیاں کوٹتی ،اس کو دانہ پانی کھلاتی اوردوتہائی فرسخ(۱) کے فاصلے سے گٹھلیوں کو اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھی_ آخر کار حضرت ابوبکر نے اس کیلئے ایک نوکر بھیج دیا جس نے گھوڑے کی دیکھ بال کا کام سنبھال لیا جیساکہ وہ خود کہتی ہے_(۲)

اس کے علاوہ خود پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام بھی کئی سال تک مشکلات اور تنگی کا شکار رہے بالخصوص جنگ خیبر سے پہلے_ یہاں تک کہ بسا اوقات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دو یا تین دن تک فاقے کرتے تھے اور نوبت یہاں تک پہنچتی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے شکم اطہر پر پتھربھی باندھتے تھے_(۳) انصار باہمی مشورے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے کھانے کا بند وبست کرتے تھے_ اس وقت حضرت ابوبکر کے وہ ہزاروں درہم اور اموال کہاں گئے تھے جوغزوہ تبوک تک باقی تھے_کیونکہ ان لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ اس وقت وہ اپنی تمام دولت ( چار ہزار درہم) کے ساتھ حاضر ہوئے_(۴)

ب: مذکورہ باتیں اس صورت میں تھیں کہ ان لوگوں کے نزدیک ''منّت'' سے مراد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ پر مال خرچ کرنا ہو_ لیکن اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر منت سے مراد اللہ کی راہ میں انفاق ہو تو یہ بات بھی صحیح نہیں کیونکہ ہمیں تاریخ میں اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی بلکہ تاریخی شواہد تو اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں کیونکہ حضرت ابوبکر نے

___________________

۱_ یعنی تقریبا چار کلومیٹر کے فاصلے سے (از مترجم)

۲_ حدیث الافک ص ۱۵۲ _

۳_ حضرت عائشہ نے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر والوں کی جو حالت بیان کی ہے اس سے انسان کا دل چھلنی ہو جاتا ہے _ رجوع کریں طبقات ابن سعد ج ۱ حصہ دوم ص ۱۲۰و ص ۱۱۲ سے ص ۱۲۰ تک_

۴_ حیات الصحابة ج ۱ ص ۴۲۹ از ابن عساکر ج ۱ ص ۱۱۰ _

۳۴۱

اپنے مال کے معاملے میں اس قدر کنجوسی برتی کہ واقعہ ''نجوی'' میں دو درھم بھی صدقہ دینے پر آمادہ نہ ہوئے اور سوائے امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے کسی نے یہ اقدام نہ کیا یہاں تک کہ قرآن کی آیت اتری جس میں اللہ تعالی نے اصحاب کے رونے کی مذمت و ملامت کی، ارشاد ہوا( ا اشفقتم ان تقدموا بین یدی نجواکم صدقات فاذلم تفعلوا وتاب الله علیکم ) (۱) یعنی کیا تم اس بات سے ڈرگئے کہ (رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھ) سر گوشی کرنے سے پہلے تمہیں صدقات دینے ہوں گے_ اب اگر تم ایسا نہ کرو اور اللہ نے تم کو اس سے معاف کردیا تو ..._ اگر حضرت ابوبکر دو درہموں کا صدقہ دیتے تو ان لوگوں کی صف میں شامل نہ ہوتے جن کی اللہ نے ملامت کی(بلکہ اور جعلی فضائل کوچھوڑ کر اسی پر مباہات کرتے اور حضرت علیعليه‌السلام سے برتری کا یہ نادر موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے _ از مترجم)_

ج: مذکورہ باتوں سے بھی اہم نکتہ یہ ہے کہ خدا کی خوشنودی کیلئے مال خرچ کرنے کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا پر احسان جتلانے کا کوئی معنی نہیں بنتا (جیساکہ مذکورہ روایت سے اس کا شائبہ ملتا ہے) چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھی اس بات کی خبردی ہے_ بلکہ منت تو در اصل اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ان پر ہے_

خدا نے احسان جتلانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے( لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والاذی ) (۲) یعنی احسان جتلاکر یا آزار دے کر اپنے صدقات کو رائیگاں نہ کرو، نیز فرمایا( ولاتمنن تستکثر ) (۳) یعنی اور احسان نہ جتلاؤ زیادہ حاصل کرنے کیلئے، اس لئے یہ بات ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اس منّت پر، منت کرنے والے کی تعریف کریں خاص کر یہ کہیں کہ اس نے اپنی مصاحبت اور مال کے ذریعے، سارے لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کیا ہے_

___________________

۱_ سورہ مجادلہ آیت ۱۳ نیز رجوع کریں دلائل الصدق ج ۲ ص ۱۲۰، الاوائل ج ۱ ص ۲۹۷ و حاشیة تلخیص الشافی ج ۳ ص ۲۳۵ اور ۳۷ (جو بہت سے مآخذ سے منقول ہے) کی طرف _

۲_ سورہ بقرہ آیت ۲۶۴ _

۳_ سورہ مدثر آیت ۶ _

۳۴۲

ایک اہم اشارہ

انہی وجوہات کی بنا پر بظاہر جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت ابوبکر کو راہ خدا میں اپنا گھر بار مکہ چھوڑ آنے ،غار میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہنے ،خطرات جھیلنے اور خوف اعداء سے محزون و پریشان ہونے اور اس قسم کے دیگر طعنے دینے سے نہ روک سکے تو لوگوں کو حضرت ابوبکر کی اس حالت سے آگاہ کرنے پر مجبور ہوئے ،شاید وہ اس طرح اپنے بعض کاموں سے دستبردار ہوجاتے_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجبور ہوکر آخری اقدام کے طور پر یہ طریقہ کار اختیار کیا جو تعلیم و تربیت کے اسالیب میں سے ایک اسلوب ہے_ خصوصاً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام پر اس قسم کااحسان فقط حضرت ابوبکر نے نہیں کیا تھا کیونکہ سارے مہاجرین اپنے اموال اپنا وطن، اپنی سرزمین چھوڑ کر مدینہ چلے آئے تھے_ سب نے مشکلات وخطرات کا مقابلہ کیا تھا_ ان میں سے بہت سوں نے سخت ترین قسم کی ایذا رسانیوں اور سزاؤں کا سامنا کیا تھا_ غار میں حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کے بارے میں واضح رہے کہ امیرالمومنین کو در پیش خطرہ ان کو در پیش خطرے سے کہیں زیادہ تھا_ بنابریں یہ احسان حضرت ابوبکر کا حصہ کیوں بن جائے؟ یہاں تک کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان کو اپنا سب سے بڑا محسن قرار دیں؟

د: طوسی اور مفیدکے بقول ابتدا میں حضرت ابوبکربچوں کے معلم تھے_ پھر درزی کا کام کرنے لگے_ بیت المال سے ان کا حصہ دوسرے مسلمانوں کے برابر تھا اسی لئے وہ انصار کی مدد کے محتاج ہوئے ان کے والد شکاری تھے پھر اپنا پیٹ بھرنے اور بدن چھپانے کیلئے ابن جدعان(۱) کے دسترخوان پر مکھیاں اڑانے اور لوگوں کو بلانے کا کام کرنے لگے_(۲) ان حالات میں فطری بات ہے کہ حضرت ابوبکر پانچ ہزار درہم کے کیسے

___________________

۱_ ابن جد عان کے متعلق بظاہر کہا یہی جاتا ہے کہ وہ ایک مالدار یہودی آدمی تھا_ (از مترجم)

۲_ تلخیص الشافی ج ۳ ص ۲۳۸ دلائل الصدق ج ۲ ص ۱۳۰ و الافصاح ص ۱۳۵ اور الغدیر ج ۸ ص ۵۱_ محقق سید مہدی روحانی نے ابوبکر کے معلم ہونے کو درست نہیں سمجھا کیونکہ بچوں کو مکتب میں جمع کر کے پڑھانے کی رسم بعد میں نکلی ہے اور ایام جاہلیت میں مکہ کے اندر یہ رسم نہ تھی نیز وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر وہ معلم تھے تو ان کے شاگرد کون تھے؟ اس مکہ کے اندر چند معدود افراد کے علاوہ پڑھے لکھے افراد کیوں نہیں پائے جاتے تھے_ جیساکہ کتاب کی ابتدا میں اس کا ذکر ہوچکا ہے_بلکہ جرجی زیدان نے اپنی کتاب تاریخ تمدن میں لکھا ہے کہ حضور کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے وقت پورے مکہ میں صرف سات پڑھے لکھے آدمی تھے_

۳۴۳

مالک ہوسکتے تھے، چالیس ہزار درہم یا دینار تو دور کی بات ہے کیونکہ اس قسم کی دولت یا تجارت سے حاصل ہوتی ہے یا زراعت سے، حضرت ابوبکر اس طرح کے پیشوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے، بنابریں بعض لوگ کیسے یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کا شمار قریش کے رؤسا، مالداروں اور صاحبان جاہ ومقام میں سے ہوتا تھا؟ اگر ان کی یہ حالت تھی تو پھر اپنی بیٹی (اسمائ) کی خبر کیوں نہ لی اور خاص کر اپنے باپ کو ابن جدعان کے پاس کیوں رہنے دیا؟_

ھ: جب امیرالمومنینعليه‌السلام نے تھوڑا سا مال بطور صدقہ دیا (جیساکہ آپ نے یتیم، مسکین اور اسیر کو کھانا کھلا کر اس کا ثبوت دیا) تو اس کے بارے میں قرآن کی یہ آیت اتری:

( ویطعمون الطعام علی حبه مسکینا ویتیما واسیرا انما نطعمکم ) (۱) اور جب انہوں نے اپنی انگوٹھی بطور صدقہ دی تو یہ آیت نازل ہوئی( انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلاة ویوتون الزکاة وهم راکعون ) (۲) نیز جب انہوں نے ایک درہم چھپاکر

___________________

۱_ سورہ انسان (دھر) آیت ۸ اور روایات کے منابع یہ ہیں : المناقب (خوارزمی) ص ۱۸۹ ، ۱۹۵ ، ریاض النضرةج۳ ص ۲۰۸ و ۲۰۹ ، التفسیر الکبیر ج۳۰ ص ۲۳۴ _۲۴۴ از واحدی و الزمخشری ، غرائب القرآن (حاشیہ جامع البیان پر مطبوع،) ج۲۹ ص ۱۱۲، ۱۱۳، کشاف ج۴ ص ۶۷۰،نوادرالاصول ص ۶۴ ، ۶۵ ، الجامع لاحکام القرآن ج۱۹ ص ۱۳۱ از نقاش ، ثعلبی، قشیری و دیگر مفسرین، کشف الغمہ ج۱ ص ۱۶۹ ، تفسیر نورالثقلین ج۵ ص۴۶۹_۴۷۷ از امالی شیخ صدوق، قمی ، طبرسی و ابن شہر آشوب ، ذخائر العقبی ص ۸۹ وسائل الشیعہ ج۱۶ ص ۱۹۰ ، فرائد السمطین ج۲ ص ۵۴ تا ۵۶ ، مجمع البیان ج۱۰ ص۴۰۴ ، ۴۰۵ ، المناقب ( ابن مغازلی) ص ۲۷۳ ، الاصابہ ج۴ ص ۳۷۸ ، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج۱ ص ۲۱، اور اسدالغابہ ج۵ ص ۵۳۰ ، ۵۳۱ اور دیگر کثیر منابع_

۲_ سورہ مائدہ آیت ۵۵ اور حدیث کے مآخذ یہ ہیں : الکشاف ج۱ ص ۶۴۹ ، اسباب النزول ص ۱۱۳ ، تفسیر المنار ج۶ ص ۴۴۲ نیز کہا ہے کہ کئی طریقوں سے روایت کی گئی ہے ، تفسیر نورالثقلین ج ۱ ص ۵۳۳ و ۳۳۷ از الکافی ، احتجاج ، خصال، تفسیر قمی اور امالی شیخ صدوق، تفسیر الکبیر ج۱۲ ص ۲۶، الدرالمنثور ج۲ ص ۲۹۳ ، ۲۹۴ از ابوشیخ، ابن مردویہ ، طبرانی، ابن ابی حاتم، ابن عساکر ، ابن جریر و ابونعیم و غیرہ ، فتح القدیر ج۲ ص۵۳خطیب کی کتاب المتفق و المفترق سے ، الجامع لاحکام القرآن ج۶ ص ۲۲۱ ، شواہد التنزیل ج۱ ص ۱۷۳ _ ۱۸۴ کنز العمال ج۱۵ ص ۱۴۶ ، الفصول المہمہ ( ابن صباغ) ص ۱۰۸ ، تذکرة الخواص ص ۱۵ ، المناقب خوارزمی ص ۱۸۶ ، ۱۸۷ ، ریاض النضرة ج ۳ ص ۲۰۸ ، ذخائر العقبی ص ۱۰۲ از واقدی و ابو الفرج ابن جوزی اور وسائل الشیعہ ج۶ ص ۳۳۴ ، ۳۳۵ و دیگر منابع _

۳۴۴

اور ایک درہم اعلانیہ نیز ایک درہم رات کو اور ایک درہم دن کو صدقہ دیا تو اللہ تعالی نے یوں توصیف فرمائی( الذین ینفقون اموالهم باللیل و النهار سرا وعلانیة فلهم اجرهم عند ربهم ) (۱) اسی طرح آیہ نجوی پر بھی سوائے حضرت علیعليه‌السلام کے کسی اور نے عمل پیراہو کر نہیں دکھایا(۲) _

ان ساری باتوں کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت ابوبکر نے چالیس ہزار درہم یا دینار راہ خدا میں خرچ کئے ہوتے اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ان کا اتنا بڑا احسان ہوتا کہ جس کا بدلہ خدا ہی دیتا یہاں تک کہ کسی کے مال نے حضرت ابوبکر کے مال کی مانند آپ کو فائدہ نہ پہنچایا ہوتا تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا قرآن میں اس کا ذکر ہی نہ کرے اور تاریخ یا حدیث کی کتابوں میں کم از کم اس کا ایک نمونہ بھی ایسا دکھائی نہ دے جو قابل اثبات ہو؟ کیا مورخین اور محدثین نے حضرت ابوبکر کے فضائل سے عمداً چشم پوشی کی؟ اگر ہاں تو پھر اس

___________________

۱_ سورہ بقرہ آیت ۲۷۴ روایات ان کتابوں میں موجود ہیں : الکشاف ج۱ ص ۳۱۹ ، تفسیر المنار ج۳ ص ۹۲ از عبدالرزاق و ابن جریر وغیرہ ، التفسیر الکبیر ج۷ ص ۸۳ ، الجامع لاحکام القرآن ج ۳ ص ۳۴۷ ، تفسیر قرآن العظیم ج۱ ص ۳۲۶ از ابن جریر ، ابن مردویہ و ابن ابی حاتم، فتح القدیر ج ۱ ص ۲۹۴ از عبد الرزاق ، عبد بن حمید و ابن منذر، طبرانی اور ابن عساکر و غیرہ ، الدرالمنثور ج۱ ص ۳۶۳ ، لباب النقول ص ۵۰ مطبوعہ دار احیاء العلوم، اسباب النزول ص ۵۰ ، تفسیر نورالثقلین ج۱ ص ۳۴۱ از عیاشی والفصول المہمہ (ابن صباغ) ص ۱۰۷ ، نظم درر السمطین ص ۹۰ ، ذخائر العقبی ص ۸۸ ، تفسیر البرہان ج۴ ص ۴۱۲ ، المناقب ابن مغازلی ص ۲۸۰ ، ینابیع المودة ص ۹۲ ، روضة الواعظین ص ۳۸۳ و ۱۰۵ او ر شرح نہج البلاغہ معتزلی ج۱ ص ۲۱_

۲_ ملاحظہ ہو: المناقب خوارزمی ص ۱۹۶ ، ریاض النضرة ج ۳ ص ۱۸۰ ، الصواع المحرقہ ص ۱۲۹ ا زواقدی ، نظم در ر السمطین ص ۹۰، ۹۱ ، تفسیر القرآن العظیم ج۴ ص ۳۲۷، ۳۲۶، جامع البیان ج۲۸ ص ۱۴ ، ۱۵ ، غرائب القرآن (حاشیہ جامع البیان پر) ج۲۸ ص ۲۴ ، ۲۵ ، کفایة الطالب ص ۱۳۶ ، ۱۳۷ ، احکام القرآن جصاص ج ۳ ص ۴۲۸ ، مستدرک حاکم ج۲ ص ۴۸۲ ، تلخیص مستدرک ( ذہبی ، مطبوعہ حاشیہ مستدرک) ج۲ ص ۶۷۳، ۶۷۵، لباب التاویل ج۴ ص ۲۲۴، مدارک التنزیل( مطبوعہ حاشیہ لباب التاویل) ج۴ ص ۲۲۴، اسباب النزول ص ۲۳۵، شواہد التنزیل ج۲ ص ۲۳۱ _۲۴۰، الدر المنثور ج۶ ص ۱۸۵ ، از ابن ابی شیبہ ، عبد بن حمید، ابن منذر ، ابن مردویہ ، ابن ابی حاتم، عبدالرزاق، حاکم( جس نے اسے صحیح قرار دیا ہے ) ، سعید بن منصور و ابن راہویہ، فتح القدیر ج۵ ص ۱۹۱ ، التفسیر الکبیر ج۲۹ ص ۲۷۱ ، الجامع لاحکام القرآن ج۱۷ ص ۳۰۲ ، الکشاف ج۴ ص ۴۹۴ ، کشف الغمہ ج۱ ص ۱۶۸ ، احقاق الحق ( حصہ ملحقات) ج۳ ص ۱۲۹ تا ۴۰ ۱ و ج۱۴ ص ۲۰۰ ، ۲۱۷ و ج۲۰ ص ۱۸۱ ، ۱۹۲ مذکورہ بعض مآخذ سے نیز دیگر کثیر منابع سے اور اعلام الوری ص ۱۸۸ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جگہ کی کمی کے پیش نظر اس حدیث اور گذشتہ تین روایات کے اکثر منابع و مآخذ ذکر نہیں کئے گئے وگرنہ مذکورہ منابع سے کہیں زیادہ کتب میں یہ روایات ملتی ہیں_

۳۴۵

سلسلے میں حضرت علیعليه‌السلام کے فضائل سے چشم پوشی کیوں نہیں کی؟

کیا حکمرانوں، بادشاہوں، ان کے ما تحتوں اور بڑے علماء نے حضرت ابوبکر پر ظلم کرتے ہوئے لوگوں کو ان کے فضائل بیان کرنے یا نقل کرنے سے روکا؟ (جس طرح حضرت علیعليه‌السلام پر ظلم کیا تھا؟) البتہ انہوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکرنے مکہ میں مجبور اور ستم دیدہ غلاموں کو آزاد کیا تھا لیکن ہم عرض کرچکے کہ اس کا اثبات ناممکن ہے_ چنانچہ اسکافی معتزلی نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی قیمت اس زمانے میں سو درہم بھی نہ تھی (بشرطیکہ روایت کی صحت کو تسلیم کرلیاجائے) _

کیا خدا کی عدالت کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت علیعليه‌السلام کے صدقات کا (کم ہونے کے باوجود) قرآن اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبانی ذکر ہو لیکن حضرت ابوبکر کے عطیات کا کئی ہزار کی حد تک پہنچنے کے باوجود، تذکرہ نہ ہو؟ کیا یہ عدل ہے؟ منزہ ہے وہ اللہ جو بادشاہ بھی ہے، حق بھی اور عدل مبین بھی، جس کے ہاں کسی پر ذرہ بھر بلکہ اس سے بھی کم ظلم نہیں ہوتا_

اب کیا یہ کہنا صحیح نہیںہوگا کہ حضرت ابوبکر کے عطیات خالص خدا کی رضا کیلئے نہ تھے؟ اور اگر یہ سب ان کے فطری جود وسخاوت کا نتیجہ تھا ا ور اسی لئے اللہ نے ان کو نظر انداز فرمایا تھا تو پھر کم از کم خدا اسی خصلت کی ہی تعریف فرماتا اور اگر ان کے عطیات کی کوئی قدر وقیمت ہی نہ تھی تو پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے کیونکر فرمایا کہ اللہ بہت جلد اس کی جزا عنایت کرے گا؟ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے سوالات ابھرتے ہیں جن کا کوئی مفید، قانع کنندہ اور قابل قبول جواب آپ کو نہیں ملے گا_

ان ساری باتوں سے قطع نظر حضرت ابوبکر کی مالداری کا ذکر فقط ان کی بیٹی حضرت عائشہ سے منقول ہے( جیساکہ شیخ مفید علیہ الرحمةنے کہا ہے )اوراس کے راویوں میں شعبی جیسے افراد بھی موجود ہیں جو رضائے بنی امیہ کے حصول کی خاطر تعصب اور اپنی دروغ گوئی اور افترا پردازی کے باعث معروف اور مشہور ہیں_(۱)

___________________

۱_ الافصاح فی امامة امیرالمومنینعليه‌السلام ص ۱۳۱_۱۳۳ _

۳۴۶

ماہر چوروں کا تذکرہ

یہاں روتوں کو ہنسانے والی سب سے عجیب بات یہ ہے کہ بعض کے بقول چور جب حضرت ابوبکر کے چار سوا ونٹ اور چالیس غلاموں کو چوری کر کے لے گئے اور نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا نہیں غمگین دیکھا تو ان سے اس کا سبب پوچھا _ جب انہوں نے چوری کا واقعہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بتایا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:''(اچھا یہ بات ہے) میں سمجھا تھا کہ تم سے کوئی نماز قضا ہوگئی ہے ...''(۱) لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ان ماہر چوروں نے غلاموں اوراونٹوں کی اتنی بڑی مقدار کو کہاں چھپایا تھا؟ پھر ان میں سے ایک غلام نے بھی وہاں سے بھاگ کر جناب ابوبکر کو خبر دار نہیں کیا ؟ پھر کیسے ہوا کہ اس دور کی تاریخ کے سب سے بڑے قافلے کے چلنے کی آواز نے مکہ اور مدینہ کے کسی فرد کو بھی نہیں جگایا؟ پھر یہ بھی نہیں معلوم کہ حضرت ابوبکر کے پاس اتنی زیادہ ثروت کہاں سے آگئی؟ پھر وہ جزیرة العرب کے سب سے زیادہ متمول آدمی کے طور پر چاردانگ عالم میں مشہور کیوں نہیں ہوئے؟ آخر کار ہمیں یہ پتا بھی نہیں چل سکا کہ جناب ابوبکر مسروقہ چیزوں کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوسکے یا نہیں؟

حضرت ابوبکر کی دولت سے مربوط اقوال پر آخری تبصرہ

ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کی دولت مندی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اسے خرچ کرنے کے بارے میں جو اقوال موجود ہیں وہ خلیفہ اول کے حامیوں کے شدید رد عمل کا نتیجہ ہیں کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف سے تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ قیمت اداکئے بغیر ان کی پیش کردہ سواری کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں(۲) اور دوسری طرف سے حضرت علی،عليه‌السلام آپعليه‌السلام کے عطیات اور شب ہجرت اور دیگر مقامات پر آپعليه‌السلام کی

___________________

۱_ نزہة المجالس ج ۱ ص ۱۱۶_

۲_ صحیح بخاری مطبوعہ مشکولی ج ۵ ص ۷۵ تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۰۴ سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۱۳۱ طبقات ابن سعد ج ۱ حصہ اول ص ۱۵۳ البدایة والنہایة ج ۳ ص ۱۸۴_۱۸۸ مسند احمد ج ۵ ص ۲۴۵ الکامل ابن اثیر اور دیگر بہت سارے مآخذ کے علاوہ سیرت حلبی ج ۲ ص ۳۲ کی طرف رجوع کریں _

۳۴۷

قربانیوں کے بارے میں قرآن کی آیتیں اتر رہی ہیں_

بنابریں ضروری تھا کہ وہ حضرت ابوبکر کیلئے عظیم فضائل اور قربانیاں ثابت کرنے کی جد وجہد کرتے_

اس کے بعد یہ لوگ سواری والے واقعے کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اپنی جان اوراپنے مال کے ساتھ راہ خدا میں ہجرت کرنا چاہتے تھے_(۱)

لیکن جب وہ ہجرت کے واقعات میں زاد راہ والی چمڑے کی تھیلی، پکی ہوئی بکری اور گوسفند کے دودھ کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس تاویل کو بھول جاتے ہیں اور اپنی گفتار کے اندر موجود واضح تضاد سے غافل ہوجاتے ہیں کہ ایک طرف تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنی جان اور فقط اپنے مال کے ساتھ ہجرت کا ارادہ فرمائیں اور دوسری طرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت ابوبکر کی طرف سے دیئے گئے مال، زاد راہ اور دودھ وغیرہ سے استفادہ کریں_

جی ہاں اگر (نعوذ باللہ )رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے افعال واقوال میں تضاد نظر آئے تو کوئی فرق نہیں پڑتا بشرطیکہ حضرت ابوبکر کی فضیلت میں کمی یا فضائل سے ان کی محرومی کا باعث نہ بنے_

دروغ پردازی اور جعل سازی

حقیقت یہ ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے اموال کے بارے میں فرمایا تھا ''ما نفعنی مال قط مثل ما نفعنی مال خدیجة '' (مجھے کسی مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا خدیجہ کے مال نے) جیساکہ ذکر ہوچکا ہے_ لیکن اس حدیث کو حضرت ابوبکر کے حق میں تبدیل کردیا گیا ہے_ اس کو مختلف شکلوں اور عبارتوں میں ڈھالاگیا ہے جو ایک ہی مقصد کی حامل اور ایک ہی واضح ہدف کی غماز ہیں اور وہ ہے حضرت ابوبکر کیلئے فضیلت تراشی اور بس_ دیگر بہت ساری ان روایات کی مانند جن کا ذکر ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ میں کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ امیرالمومنین حضرت علیعليه‌السلام کے فضائل کے مقابلے میں حضرت ابوبکر کے معتقدین کی وضع کردہ ہیں جیساکہ تحقیق اور موازنہ کرنے کی صورت میں ہر کسی کیلئے واضح ہے_

___________________

۱_ فتح الباری ج ۷ باب الہجرة ص ۱۸۳ و السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۳۲ _

۳۴۸

ابوبکر اور دیدار الہی

حضرت انس سے مروی ہے کہ جب حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار سے خارج ہوئے تو حضرت ابوبکر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رکاب تھام لی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ان کی طرف نظر کی اور فرمایا :''اے ابوبکر تجھے خوشخبری نہ دوں؟'' بولے :''کیوں نہیں میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان جائیں''_ فرمایا: ''بیشک خدا روز قیامت تمام لوگوں کے سامنے اپنا دیدار عام کرائے گا لیکن تمہارے لئے بطور خاص اپنی تجلی دکھائے گا''_(۱) یہاں پہلے تو ہم نہیں سمجھے کہ اس تجلی سے کیا مراد ہے_ مگر یہ کہ مذہب مجسّمہ (جو ایک گمراہ مذہب ہے) کی رو سے اس کا معنی کیا جائے_ اس کے علاوہ فیروز آبادی نے اس حدیث کو حضرت ابوبکر کے حق میں گھڑی گئی مشہور و معروف جعلی احادیث میں شمار کیا ہے جن کا باطل ہونا عقل سلیم کے نزدیک بدیہی اور واضح امر ہے_ خطیب نے نقلی علوم کے ماہرین کے نزدیک اس کے جعلی ہونے کی تصدیق کی ہے_ اس کے علاوہ ذہبی، عجلونی، ابن عدی، سیوطی، عسقلانی اور قاری وغیرہ نے بھی اس کے جعلی اور بے بنیاد ہونے کا فیصلہ دیا ہے_(۲)

فضائل کے بارے میں ایک اہم یاددہانی

مدائنی کہتے ہیں معاویہ نے ہر جگہ اپنے عاملوں کو لکھا کہ کسی شیعہ کی شہادت قبول نہ کی جائے_ نیز یہ بھی لکھا :''اپنے درمیان عثمان کے طرفداروں، دوستوں اور چاہنے والوں کو تلاش کرو، جو اس کے فضائل ومناقب بیان کریں ان کی مجالس میں حاضری دو، انہیں اپنے قریب لاؤ، ان کا احترام ملحوظ رکھو اور ان میں سے ہر کسی کی روایتوں کے ساتھ اس کا نام نیز اس کے باپ اور خاندان کے نام لکھ کر میرے پاس بھیج دو'' چنانچہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل کی یہاں تک کہ حضرت عثمان کے فضائل و مناقب کی حد کردی کیونکہ معاویہ

___________________

۱_ الغدیر ج۵ ص ۳۰۱ _ ۳۰۲ اور دیگر مآخذ اگلے حاشیہ میں ذکر ہوں گے نیز ملاحظہ ہو: سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۴۱_

۲_ تاریخ خطیب بغدادی ج ۲ ص ۲۸۸ اور ج ۱۲ ص ۱۹ و کشف الخفاء ج ۲ ص ۴۱۹ اللئالی المصنوعة ج ۱ ص ۱۴۸، لسان المیزان ج ۲ ص ۶۴ میزان الاعتدال ج ۲ ص ۲۱، ۲۳۲ اور ۲۶۹ اور جلد سوم ص ۳۳۶ اور الغدیر ج ۵ ص ۳۰۲ جو مذکورہ مآخذ کے علاوہ اسنی المطالب ص ۶۳ سے ماخوذ ہے_

۳۴۹

ان کو انعام و اکرام عطیات، وظائف اور خلعتوں سے نوازتا تھا خواہ وہ عرب ہوں یا غیر غرب_ یوں ہر شہر میں یہ کام عام ہوگیا اور لوگ دنیوی مال و مقام حاصل کرنے کیلئے اس کام میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگ گئے_ معاویہ کا کوئی عامل ایسا نہ تھا جس کے پاس کوئی شخص آکر حضرت عثمان کی شان میں کوئی فضیلت یا منقبت بیان کرتا مگر یہ کہ وہ اس کا، اس کے رشتہ داروں، اور اس کی بیوی کا نام فہرست میں شامل کرلیتا_ یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلتارہا_

پھر معاویہ نے اپنے عمال کو لکھا کہ اب حضرت عثمان کی شان میں احادیث کی شہرت ہر شہر اور ہر جگہ پہنچ چکی ہے_ لہذا جب میرا یہ خط تمہیں ملے تو لوگوں کو صحابہ اور خلیفہ اول وخلیفہ دوم کے فضائل بیان کرنے کی دعوت دو_ ابوتراب علیعليه‌السلام کے بارے میں مسلمانوں کے پاس موجود ایک ایک روایت کے مقابلے میں صحابہ کے دس فضائل میرے پاس لے آؤ کیونکہ یہ بات مجھے بہت زیادہ پسند ہے اور میری آنکھوں کیلئے زیادہ ٹھنڈک کا باعث ہے، نیز یہ عمل حضرت عثمان کے فضائل و مناقب کی بہ نسبت ابوتراب اور اس کے شیعوں کی دلیلوں کے مقابلہ میں بہتراور سخت تر ثابت ہوگا _

معاویہ کے خطوط لوگوں کو پڑھ کر سنائے گئے_ یوں صحابہ کی شان میں جعلی احادیث کا تانتا بندھ گیا جن کی کوئی حقیقت نہ تھی_ لوگ اس قسم کی روایتیں نقل کرنے میں کوشاں ہوگئے_ یہاں تک کہ منبروں پر ان کا ذکر ہونے لگا_ قرآن پڑھانے والوں تک بھی یہ احادیث پہنچائی گئیں_انہوں نے بچوں اور نوجوانوں کو وسیع پیمانے پر یہ احادیث سکھائیں_ چنانچہ انہوں نے قرآن کی طرح ان کو سیکھ لیا اور دوسروں کیلئے نقل کیا_

یہاں تک کہ انہوں نے عورتوں، لڑکیوں، اور نوکروں تک کو بھی یہ احادیث سکھا دیں اور اس کام میں عرصہ دراز تک مشغول رہے_

پھر اس نے تمام شہروں میں اپنے عاملوں کے نام ایک ہی مضمون پر مشتمل فرمان لکھا_ ''جس شخص کے خلاف یہ شہادت ملے کہ وہ حضرت علیعليه‌السلام اور اس کے اہلبیت سے محبت کرتا ہے تو اس کا نام رجسٹر سے کاٹ لو_ اس کا وظیفہ اور روزی بند کردو''_ اس کے بعد ایک اور خط اس کے ساتھ یوں لکھا ''جن لوگوں پر تم ان (علیعليه‌السلام

۳۵۰

اور ان کی اہلبیت) کے ساتھ محبت کا الزام لگاچکے ہو_ان کو عبرت ناک سزائیں دو اور ان کے گھروں کو منہدم کرادو'' اس کے نتیجے میں عراق والوں پر سب سے زیادہ مصیبت ٹوٹ پڑی خصوصاً کوفہ میں_ یہاں تک کہ جب کسی شیعہ کے پاس اس کا قابل وثوق آدمی آتا اور اس کے گھر میں داخل ہوتا تاکہ اسے راز کی کوئی بات بتائے تو وہ اس کے غلاموں اور نوکروں سے بھی خوف محسوس کرتا تھا اور اس وقت تک اس کے ساتھ بات نہ کرتا جب تک اسے راز محفوظ رکھنے کی قسمیں نہ دے لیتا_ یوں کثیر تعداد میں جھوٹی احادیث اور بہتانوں کا سلسلہ پھیل گیا_ علمائ، قاضی اور والی ان پر عمل کرتے تھے _ اس کام میں سب سے زیادہ ضعیف الایمان اور ریا کار قاری مبتلا ہوئے جو خضوع اور خشوع کا دکھلاوا کرتے تھے اور جھوٹی احادیث گھڑتے تاکہ حکمرانوں سے فائدہ لے سکیں اور ان کی مجالس کی قربت نصیب ہوسکے_ نیز مال و جائیداد اور مرتبہ و مقام حاصل کرسکیں_ نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ جھوٹی احادیث دیندار لوگوں تک بھی پہنچیں جو جھوٹ اور بہتان کو جائز نہیں سمجھتے تھے لیکن انہوں نے صحیح سمجھ کر ان کو قبول کیا اور نقل بھی کیا، اگر ان کو علم ہوتا کہ یہ جھوٹی ہیں تو وہ ان کو نقل نہ کرتے اور نہ مانتے_ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ امام حسن بن علی علیہما السلام کی شہادت ہوئی اور فتنہ وبلا میں مزیداضافہ ہوگیا ..._(۱)

انگشت خونین

ایک روایت میں مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر غار کے اندر سوراخوں کو بند کرنے لگے_ اس اثنا میں ان کی انگلی زخمی ہوئی اوراس سے خون نکلنے لگا_ وہ اپنی انگلی صاف کرنے کے ساتھ ساتھ انگلی سے مخاطب ہوکر یہ کہہ رہے تھے_

ما انت الا اصبع دمیت

وفی سبیل الله مالقیت(۲)

___________________

۱_النصایح الکافیہ ص ۷۲_۷۳ از مدائنی و شرح نہج البلاغہ معتزلی ج۱۱ ص ۴۴_

۲_ حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۲۲ البدایة و النہایة ج ۳ ص ۱۸۰ السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۳۵_۳۶_

۳۵۱

تو سوائے ایک خونین انگلی کے کچھ بھی نہیں _ یہ تکلیف تجھے خدا کی راہ میں جھیلنی پڑی ہے_

یہ روایت بھی غلط ہے کیونکہ یہ عبداللہ بن رواحہ کے ان اشعار میں سے ایک ہے جو انہوں نے اپنی انگلی زخمی ہونے پر جنگ موتہ میں کہے تھے_(۱) البتہ صحیحین میں جندب ابن سفیان سے منقول ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے یہ شعر کسی مجلس میں یا غار میں اپنی انگلی کے زخمی ہونے پر پڑھا_(۲)

بعض دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب حضرت ابوبکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملحق ہوئے تو اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ شعر کہا کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سمجھا کہ وہ مشرکین میں سے کوئی ہے چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رفتار بڑھالی نتیجتاً ایک پتھر سے ٹکرا کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا انگوٹھا زخمی ہوگیا_(۳) ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دمیت اور لقیتکے الفاظ، ان دونوں کی یاء کو زبر دیکراورتاء کو ساکن کر کے ادا کئے ہوں تاکہ شعر نہ رہے کیونکہ آپ شعر نہیں کہتے تھے اور شعر کہنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے مناسب بھی نہیں تھا_ بعض مآخذ میں مذکور ہے کہ یہ شعر ولید بن ولید بن مغیرہ نے اس وقت کہا جب مشرکین سے جان چھڑانے کیلئے ہجرت کی تھی یا اس وقت جب وہ ہشام بن عاص اور عباس بن ربیعہ کو چھڑانے کیلئے گیا تھا_(۴) ایک قول کی رو سے یہ شعر ابودجانہ نے جنگ احد میں کہا_(۵)

یوں واضح ہوا کہ حقیقت سے قریب بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ الفاظ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ادا کئے تھے لیکن اس کی جھوٹی نسبت حضرت ابوبکر کی طرف دی گئی تاکہ (حکمران طبقہ کا) قرب حاصل کیا جاسکے اور بس ظاہر ہے یہ بات نہ کسی کمزور کو موٹا بنا سکتی ہے اور نہ کسی بھوکے کو سیر کرسکتی ہے (یعنی کسی کام کی نہیں)_

___________________

۱_ السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۶۹ اور ۳۶ _

۲_ صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۸۱ اور ۱۸۲ صحیح بخاری ج ۲ ص ۸۹ مطبوعہ المیمنیة و حیات الصحابة ج ۱ ص ۵۱۸ _

۳_ ملاحظہ ہو بحار ج ۱۹ ص ۹۳ از مسند احمد و تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۰۰ و السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۳۶ از ابن جوزی_

۴_ نسب قریش (مصعب زبیری) ص ۳۲۴ والمصنف (عبدالزراق) ج ۲ ص ۴۴۷ و سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۲۲۰ _

۵_ البدء و التاریخ ج ۴ ص ۲۰۲ _

۳۵۲

حضرت ابوبکر کے اہم فضائل

قابل توجہ اور عجیب نکتہ یہ ہے کہ صرف غار میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی مصاحبت اور عمرکے لحاظ سے بزرگی کو سقیفہ کے دن حضرت ابوبکر کے استحقاق خلافت کو ثابت کرنے کیلئے بنیادی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا نہ کہ کسی اور چیز کو_ چنانچہ حضرت عمرنے سقیفہ کے دن کہا''کون ہے جو ان تین صفات کا حامل ہو_ غار میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا واحد ساتھی ہو ،جب وہ محزون ہوئے تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے کہا غم مت کھا، اللہ ہمارے ساتھ ہے''_

حضرت عمرنے مزید کہا کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو غار میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا واحد ساتھی تھا، ابوبکر سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں اور عمر رسیدہ بھی_عام بیعت کے دن حضرت عمرنے کہا ''ابوبکر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا ساتھی ہے اور غار میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان کے سوا کوئی نہ تھا_ تمہارے امور کی باگ ڈور سنبھالنے کا وہ سب سے زیادہ حقدار ہے_ پس اٹھو اور انکی بیعت کرو''_(۱)

حضرت سلمان سے منقول ہے''اصبتم ذا السن فیکم ولکنکم اخطاتم اهلبیت نبیکم ...'' یعنی تم لوگوں نے عمر رسیدہ شخص کو تو پالیا لیکن اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل سے منحرف ہوگئے_

جب یہودیوں نے حضرت ابوبکر سے اپنے ساتھی (رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ) کا تعارف کرانے کی خواہش کا اظہار کیا تو بولے :''اے قوم یہودمیں اپنی ان دو انگلیوں کی طرح غار میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہا تھا''_ حضرت عثمان سے مروی ہے ''ابوبکر صدیق (ہمارے خیال میں اس لفظ کا اضافہ بھی راویوں نے مذکورہ وجوہات کی بنا پر کیا ہے) لوگوں میں اس امر کا سب سے زیادہ حقدار ہے، وہ صدیق ہے ، رسول کا یار غار اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھی ہے ''_ابوعبیدہ نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے_

حضرت علیعليه‌السلام اور زبیر سے منقول ہے ''الغار وشرفہ وکبرہ وصلاتہ بالناس'' یعنی غار، ان کا شرف،

___________________

۱_ ان نصوص کیلئے رجوع ہو مجمع الزوائد ج ۵ ص ۱۸۲ از طبرانی (اس کے راوی ثقہ ہیں) بعض ابن ماجہ سے ہیں سیرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۱۱، البدایة و النہایة ج ۵ ص ۲۴۸ از بخاری نیز السیرة الحلبیة ج ۳ ص ۳۵۹، شرح نہج البلاغة معتزلی ۶ ص ۸، المصنف عبدالرزاق ج ۵ ص ۴۳۸ و الغدیر ج ۷ ص ۹۲ مذکورہ مآخذ میں سے بعض سے اور الریاض النضرة ج ۱ ص ۱۶۲_۱۶۶ سے_

۳۵۳

ان کا عمر رسیدہ ہونا اور لوگوں کیلئے ان کا نماز پڑھانا_(۱)

آخر میں عسقلانی یہ کہتا ہے کہ یہ تھے ابوبکر کے وہ چیدہ چیدہ فضائل جن کی بدولت وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت کے مستحق ٹھہرے اسی لئے عمر بن خطاب نے کہا ''ابوبکر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھی اور یار غار ہیں وہ سارے مسلمانوں میں تمہارے امور کی باگ ڈور سنبھالنے کے سب سے زیادہ حقدار ہیں''_

جب حضرت ابوبکر کے سب سے بڑے فضائل یہی تھے جن کی بناپر وہ مستحق خلافت ٹھہرے اور یہ لوگ ان کے علاوہ کوئی اور فضیلت نہ پاسکے (جبکہ وہ انصارکے مقابلے میں مشکل ترین بحران سے دوچار تھے اور انہیں ایک ایک تنکے کے سہارے کی بھی ضرورت تھی) تو پھر حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے عظیم فضائل (جو روز روشن کی طرح واضح تھے) کے مقابلے میں ان کا رد عمل کیا ہوگا؟ کیا ان کے مقابلے میں وہ کوئی قابل قبول دلیل قائم کرسکتے ہیں؟ اور کیا ان کے پاس رعب و دبدبے، دہشت اور طاقت کی زبان استعمال کرنے کے علاوہ کوئی جواب موجود ہے؟

پس جب فضیلت تراشی میں مدعی اس فضیلت کو بھی ثابت کرنے سے عاجز رہا اورخالی ہاتھ رہ گیا، یہاں تک کہ بلال کو ان پر ترجیح دی جانے لگی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ حضرت بلال اس کی تردید پر مجبور ہوئے (شاید تاریخ اس کی وجہ بیان نہ کرسکی) اور کہا تم مجھے ان پر ترجیح کیسے دیتے ہو جبکہ میں ان کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں_(۲) تو اب حضرت ابوبکر کی آبرو اور حیثیت کی حفاظت کیلئے کیا رہ جاتا ہے؟

ہم اس سوال کا جواب نکتہ دان اور منصف قاری پر چھوڑتے ہیں_

___________________

۱_ مذکورہ تمام باتوں یا اس کے بعض حصوں کیلئے رجوع کریں شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۶ ص ۸ و مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۶۶ و سنن بیہقی ج ۸ ص ۱۵۳ یہ مسئلہ الغدیر ج ۵ ص ۳۶۹ ج۷ ص ۹۲ اور ج ۱۰ ص ۷ میں مکمل یا جزوی طور پر درج ذیل مآخذ سے منقول ہے: مسند احمد ج ۱ ص ۳۵ ،طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۲۸ و نہایہ ابن اثیر ج ۳ ص ۲۴۷ و صفہ الصفوة ج ۱ ص ۹۷ و السیرة الحلبیة ج ۳ ص ۳۸۶ الصواعق المحرقہ ص۷ سے، شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۱ ص ۱۳۱ اور ج ۲ ص ۱۷، الریاض النضرة ج ۲ ص ۱۹۵ و کنز العمال ج ۳ ص ۱۴۰ ازطرابلسی (فضائل صحابہ میں) نیز منقول ہے الکنز ج ۳ ص ۱۳۹، ۱۳۶ اور ۱۴۰ سے از ابن ابی شیبہ، ابن عساکر ، ابن شاہین، ابن جریر، ابن سعد اور احمد ،اس کے تمام راوی صحاح والے راوی ہیں_

۲_ الغدیر ج ۱۰ ص ۱۳ از تاریخ ابن عساکر ج ۲ ص ۳۱۴ اور تہذیب تاریخ دمشق ج۳ ص ۳۱۷_

۳۵۴

حضرت عثمان اور واقعہ غار

ابن مندہ نے ایک بے بنیاد سند کے ساتھ اسماء بنت ابوبکر سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا''جب میرا باپ غار میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھ تھا تو میں اس کیلئے کھانا لے گئی تھی اس وقت حضرت عثمان نے آنحضرتعليه‌السلام سے اذن ہجرت مانگا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دی''_(۱) لیکن یہ بات واضح ہے کہ حضرت عثمان نے واقعہ غار سے آٹھ سال پہلے حبشہ کو ہجرت کی تھی_ اگر کوئی یہ کہے کہ یہاں غار سے مراد غار ثور نہیں بلکہ کوئی اور غار ہے تو اس کاجواب یہ ہے کہ یہ بات دلیل کی محتاج ہے اور ہم تاریخ میں کوئی ایسی دلیل نہیں پاتے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی اور غار میں داخل ہوئے ہوں اور اس میں حضرت ابوبکر کے ساتھ ایک مدت تک رہے ہوں_ ان باتوں سے قطع نظر پہلے گزر چکا ہے کہ اسماء کا ان دونوں کیلئے غار میں کھانا پہنچانے والی بات ہی بے بنیاد ہے کیونکہ حضرت علیعليه‌السلام ہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے غار میں کھانا لے کر جاتے تھے_

یوم غار اور یوم غدیر

ابن عماد وغیرہ نے کہا ہے کہ شیعہ حضرات کئی صدیوں سے عاشورا کے دن اپنے آپ کو پیٹنے اور رونے دھونے نیز عید غدیر کے دن قبے بنانے، زیب و زینت کرنے اور دیگر مراسم کے ذریعے اپنی گمراہی کا ثبوت دیتے آئے ہیں_ اس کے نتیجے میں متعصب سنی طیش میں آئے اور انہوں نے یوم غدیر کے مقابلے میں ٹھیک آٹھ دن بعد یعنی ۲۶ ذی الحجہ کو یوم غار منانے کی بنیاد رکھی اوریہ فرض کرلیا کہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت ابوبکر اس تاریخ کو غار میں پنہاں ہوئے تھے_ حالانکہ یہ بات جہالت اور غلطی پر مبنی ہے کیونکہ غار والے ایام کا تعلق قطعی طور پر ماہ صفر اور ربیع الاول کی ابتدا سے ہے''_(۲)

___________________

۱_ کنز العمال ج۲۲ ص ۲۰۸ از ابن عساکر اور الاصابة ج ۴ ص ۳۰۴ _

۲_ شذرات الذہب ج ۳ ص ۱۳۰ و الامام الصادق و المذاھب الاربعة ج ۱ ص ۹۴ و بحوث مع اہل السنة و السلیفة ص ۱۴۵ و المنتظم (ابن جوزی) ج ۷ ص ۲۰۶ ، البدایہ والنہایہ ج۱۱ ص ۳۲۵ ، الخطط المقریزیہ ج۱ ص ۳۸۹ ، الکامل فی التاریخ ج۹ص ۱۵۵ ، نہایة الارب (نویری) ج۱ ص ۱۸۵ ، ذیل تجارب الامم (ابوشجاع) ج۳ ص ۳۳۹ ، ۳۴۰ و تاریخ الاسلام ذہبی (واقعات سال ۳۸۱_ ۴۰۰ ) ص ۲۵_

۳۵۵

یہاں یہ کہنا چاہ یے کہ مذکورہ بات عداوت و جہالت سے عبارت تھی جس نے ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا تھا اور بصیرت زائل کردی تھی کیا یوم غار (جس میں حضرت ابوبکر نے اپنی کمزوری اور بے یقینی کو ظاہر کردیا اور ہر ایک کو معلوم ہوگیا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بغیر قیمت کی ادائیگی کے ان کا اونٹ قبول نہیں کیا تھا) یوم غدیر کی مانند ہوسکتا ہے (جس دن خدانے اہلبیت کو ثقلین میں سے ایک قرار دیا جن سے تمسک کرنے والا ہرگزگمراہ نہیں ہوسکتا اور علیعليه‌السلام کو مومنین کا مولا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان کا امام قرار دیا) ان کے علاوہ دیگر نکات کو محققین اور بڑے بڑے محدثین نے نقل کیا ہے_

حدیث غار کے بارے میں آخری تبصرہ

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

من کان یخلق ما یقول

فحیلتی فیه قلیلة

جو اپنی طرف سے بنا بناکر باتیں کرتا ہے بس اس کے مقابلے میں کوئی چارہ کار نہیں _

واقعہ غار کے بارے میں بعض لوگوں کی ساختہ وپرداختہ اور پسندیدہ جعلی روایات پر ہم نے جو تبصرہ کیا ہے ،یہاں ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں_ محترم قارئین نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ ہم نے مذکورہ نصوص کے مآخذ کا زیادہ ذکر نہیں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی، کیونکہ ہم نے دیکھا کہ یہ نصوص تاریخ اور حدیث کی مختلف کتابوں میں وافر مقدار میں موجود ہیں اور محترم قارئین کو ان کی تلاش و تحقیق کی صورت میں زیادہ زحمت نہیں کرنا پڑے گی، جس قدر ہم نے عرض کیا شاید قارئین کرام اسی کو کافی سمجھیںگے_

امید ہے کہ مذکورہ عرائض قارئین کو ان بہت ساری باتوں کے بے بنیاد ہونے سے باخبر کریں گے جن کا ہم نے یہاں تذکرہ نہیں کیا، کیونکہ ان کا کذب وبطلان واضح ہے_ اب باری ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطر آگین سیرت کے ذکر کی طرف دوبارہ پلٹنے کی_ تو آیئےل کے سیرت طیبہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مطالعہ کرتے ہیں_

۳۵۶

تیسری فصل

قباکی جانب

۳۵۷

مدینہ کی راہ میں

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے ''جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ غار سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو چونکہ قریش نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گرفتاری پر سواونٹوں کا انعام رکھا تھا اس لئے سراقہ بن جشعم بھی حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلاش میں نکلا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گیا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا فرمائی ''اے خدا جس طریقے سے تو چا ہے، مجھے سراقہ کے شر سے بچا ''_نتیجتاًسراقہ کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے جس سے اس کی ٹانگ دوھری ہوگئی اور وہ مشکل میں پڑگیا اس نے کہا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''اگر تمہیں یقین ہوکہ میرے گھوڑے کی ٹانگوں پر جو مصیبت آئی ہے وہ تیری طرف سے ہے تو خدا سے دعا کرو کہ وہ میرے گھوڑے کو چھوڑ دے_ مجھے جان کی قسم (اس صورت میں) اگر تم لوگوں کو میری طرف سے کوئی نیکی نہ پہنچی تو کم از کم کوئی بدی بھی نہیں پہنچے گی''_ چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے دعاکی اور اللہ نے اس کے گھوڑے کو آزاد کردیا لیکن وہ دوبارہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا تعاقب کرنے لگا_ یہاں تک کہ تین بار اس واقعے کا تکرار ہوا جب تیسری بار اس کے گھوڑے کی ٹانگیں رہا ہوئیں تو اس نے کہا:'' اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ رہا میرا اونٹ جس پر میرا غلام سوار ہے اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سواری یا دودھ کی ضرورت پڑے تو اس سے استفادہ کر لینا اور یہ رہا بطور نشانی اورعلامت میرے ترکش کا ایک تیر_ اب میں لوٹتا ہوں اور آپ کے تعاقب سے دوسروں کو روکتا ہوں''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' مجھے تمہاری کسی چیز کی ضرورت نہیں''_

نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے سراقہ کی پیشکش کو ٹھکرانے کی وجہ شاید یہ دلیل ہوکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں چاہتے تھے کہ کسی مشرک کا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کوئی حق ہواور اس بات کی تائید کرنے والی بعض روایات کا ذکر گزرچکا ہے_اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ ام معبد کے خیمے تک پہنچ گئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں

۳۵۸

اتر گئے اور اس عورت کے پاس مہمان بننے کی خواہش کی وہ بولی میرے پاس کچھ بھی موجود نہیں ہے_ اتنے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی نظر ایک بکری پر پڑی جوکسی تکلیف کے باعث باقی چوپایوں کے ساتھ نہ جاسکی تھی_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کیا اس کو دوہنے کی اجازت ہے؟ وہ بولی ہاں، لیکن اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا ہاتھ اس کی پشت پر پھیرا تو وہ تمام بھیڑ بکریوں سے زیادہ موٹی تازی ہوگئی پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا ہاتھ اس کے تھن پر پھیرا تو اس کے تھن حیرت انگیز طریقے سے بڑھ گئے اور دودھ سے لبریز ہوگئے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک برتن مانگ کر دودھ دوہا_ یوں سب نے اتنا دودھ پیا کہ سیر ہوگئے_

پھر ام معبد نے اپنا بیٹا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور پیش کیا جو گوشت کے ایک لوتھڑے کے مانند تھا_ وہ نہ تو بات کرسکتا تھا اور نہ اٹھ سکتا تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک کجھور اٹھا کر چبایا اور اس کے منہ میں ڈال دیا_ وہ فوراً اٹھ کر چلنے اور باتیں کرنے لگا_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کجھور کی گٹھلی زمین میں دبادی تو اسی وقت ایک درخت بن گئی اور تازہ کجھور اس سے لٹکنے لگیں_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے آس پاس کی طرف اشارہ کیا تو وہ زمین چرا گاہ بن گئی_

اس کے بعد آپ وہاں سے روانہ ہوئے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اس درخت نے پھل نہیں دیا_ جب حضرت علیعليه‌السلام شہید ہوئے تو وہ سوکھ گیااور پھر جب امام حسینعليه‌السلام شہید کئے گئے تو اس سے خون بہنے لگا_(۱)

جب ابومعبد واپس آیا اور وہاں کا منظر دیکھا تو اس کی علت پوچھی_ ام معبد بولی قریش کا ایک مرد میرے ہاں سے گزرا ہے اس کے حالات اور واقعات اس قسم کے تھے (ام معبد نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جو توصیف کی وہ مشہور و معروف ہے)_ یہ سن کر ابومعبد نے جان لیا کہ وہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں_ چنانچہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس گیا اور اپنے گھرانے کے ساتھ مسلمان ہوگیا_(۲)

___________________

۱_ تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۳۵ از ربیع الابرار _

۲_ ام معبد کا واقعہ مورخین کے درمیان مشہور و معروف ہے_ مذکورہ عبارت ابتدا سے لے کر یہاں تک بحار الانوار ج ۱۹ ص ۷۵_۷۶ سے نقل ہوئی ہے_ جو الخرائج و الجرائح سے لی گئی ہے نیز ملاحظہ ہو: تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۳۴، دلائل النبوة بیہقی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ج۱ ص ۲۷۹ و سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۴۹ _ ۵۰ و دیگر منابع و مآخذ_

۳۵۹

مشکلات کے بعد معجزات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی واضح کرامات اور روشن معجزات کے سامنے مذکورہ معجزات کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اشرف المخلوقات تھے اور خدا کے نزدیک تا روز قیامت اولین وآخرین کے مقابلے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقام سب سے زیادہ معزز و مکرم تھا_

دوسری طرف سے ہجرت کی دشواریوں کے فوراً بعد ان کرامات کا ظہور اس حقیقت کی تائید کرتا ہے (جس کا ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں اور وہ یہ) کہ ہجرت کا عمل معجزانہ طریقے سے بھی انجام پاسکتا تھا لیکن اللہ کی منشا بس یہی ہے کہ سارے امور عام اسباب کے تحت انجام پذیر ہوں تاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشکلات زندگی سے نبرد آزما ہونے اور دعوت الی اللہ کی سنگین ذمہ داریوں کو( تمام تر سختیوں، مصائب اور کٹھن مراحل میں)بطور احسن نبھانے کے حوالے سے ہر شخص کیلئے نمونہ عمل اور اسوہ حسنہ قرار پائیں_ علاوہ ازیں یہ امر انسان کی تربیت اور اس کو تدریجاً معاشرے کا ایک فعال، تعمیری اور مفید عنصر بنانے کے عمل میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے تاکہ وہ انسان فقط طفیلی یا دوسرے کے رحم وکرم پرہی اکتفا کرنے والا نہ بنا رہے _ان کے علاوہ دیگر فوائد ونتائج بھی ہیں جنہیں گزشتہ عرائض کی روشنی میں معلوم کیا جاسکتا ہے_

امیرالمؤمنینعليه‌السلام کی ہجرت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سفر ہجرت جاری رکھا یہاں تک کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ کے قریب پہنچے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے پہلے قبا میں عمرو بن عوف کے گھر تشریف لے گئے_ حضرت ابوبکر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مدینہ میں داخل ہونے کی درخواست کی اور اس پر اصرار کیا_ لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انکار کرتے ہوئے فرمایا:'' میں داخل مدینہ نہیں ہوں گا جب تک میری ماں کا بیٹا اور میرا بھائی نیز میری بیٹی( یعنی حضرت علیعليه‌السلام اور حضرت فاطمہعليه‌السلام ) پہنچ نہ جائیں''_(۱)

___________________

۱_ الفصول المہمة (ابن صباغ مالکی) ص ۳۵ (یہاں نام لئے بغیر ذکر ہوا ہے) امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۳ نیز اعلام الوری ص ۶۶ بحار ج ۱۹ ص ۶۴، ۱۰۶، ۱۱۵، ۱۱۶ و ۷۵ اور ۷۶ و ج۲۲ ص ۳۶۶ از الخرائج و الجرائح_

۳۶۰

جب شام ہوئی تو حضرت ابوبکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جدا ہوئے اور مدینہ میں داخل ہوکر کسی انصاری کے ہاں چلے گئے لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ قبا کے مقام پر ہی کلثوم بن ہدم کے ہاں تشریف فرما رہے_(۱)

پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بھائی حضرت علیعليه‌السلام کو ایک خط لکھا اور انہیں جلدسے جلد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف آنے کا حکم دیا_ یہ خط آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوواقد لیثی کے ہاتھ ارسال فرمایا_

جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا خط حضرت علیعليه‌السلام کو ملا تو آپعليه‌السلام سفر ہجرت کیلئے آمادہ ہوگئے اور اپنے ساتھ (مکہ میں) موجود بے چارے اور ضعیف مسلمانوں کو اس کی اطلاع دی اور حکم دیا کہ وہ رات کی تاریکی میں خاموشی کے ساتھ جلدی سے ذی طوی کی طرف حرکت کریں_ امیرالمومنین حضرت علیعليه‌السلام حضرت فاطمہ بنت الرسول، اپنی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم اور فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب کو ساتھ لیکر نکلے_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے آزاد کر دہ غلام ایمن بن ام ایمن اور ابوواقد بھی ان کے ساتھ ہولئے_ ابوواقد جانوروں کو ہانک رہے تھے_ اس نے جب ان سواریوں کے ساتھ تندی برتی تو امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اس کو نرمی کا حکم دیا_ اس نے تعاقب کے خوف کا عذر پیش کیا امیرالمؤمنینعليه‌السلام نے فرمایا اطمینان رکھو، بتحقیق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے مجھ سے فرمایا ہے (یعنی غار سے روانگی کے وقت ، جیساکہ پہلے بیان ہوچکا ہے) ''اے علیعليه‌السلام اس کے بعد یہ لوگ تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچا سکیں گے''_

ضجنان کے قریب تعاقب کرنے والے ان تک پہنچ گئے جن کی تعداد سات تھی اور وہ نقاب پہنے ہوئے تھے_ آٹھواں آدمی حارث بن امیہ کا آزاد کردہ غلام جناح تھا_

حضرت علیعليه‌السلام نے عورتوں کو اتارا اورتلوار سونت کر ان لوگوں کے پاس آئے ان لوگوں نے انہیں واپس چلنے کیلئے کہا انہوں نے فرمایا: ''اگر میں ایسا نہ کروں تو؟'' وہ بولے :''تمہیں مجبوراً چلنا پڑے گا وگرنہ تمہیں سرکے بالوں سے پکڑ کرلے جائیں گے اور یہ تمہارے لئے موت سے بھی بدتر ہوگا''_

پھر وہ سوار حملہ کرنے کیلئے سواریوں کی طرف بڑھے لیکن حضرت علیعليه‌السلام ان کے اور سواریوں کے درمیان

___________________

۱_ اعلام الوری ص ۶۶ اور بحار ج ۱۹ ص ۱۰۶ از اعلام الوری_

۳۶۱

حائل ہوگئے اتنے میں جناح نے اپنی تلوار سے وار کیا لیکن حضرت علیعليه‌السلام نے پہلو بچا کر اس کا وار ضائع کردیا پھرآپعليه‌السلام نے اس کے کندھے پروار کیا، تلوار تیزی سے اترتی چلی گئی یہاں تک کہ اس کے گھوڑے کی پشت تک جاپہنچی اس کے بعد حضرت علیعليه‌السلام درج ذیل رجز پڑھتے ہوئے اپنی تلوار کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑے_

خلوا سبیل الجاهد المجاهد

آلیت لا اعبد غیر الواحد

اس زحمت کش مجاہد کا راستہ نہ روکو میں نے خدائے واحد کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے_

یہ دیکھ کر وہ لوگ وہاں سے ہٹ گئے اور کہنے لگے :''اے فرزند ابوطالب ہماری طرف سے بے فکر ہوجاؤ''_ انہوں نے فرمایا:'' میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس یثرب جارہاہوں_ جس کی یہ خواہش ہو کہ میں اس کے گوشت کے ٹکڑے کروں یا اس کا خون بہادوں تو وہ میرے پیچھے آئے یا میرے نزدیک آنے کی کوشش کرے''_پھر حضرت علیعليه‌السلام اپنے دونوں ساتھیوں (ایمن اور ابوواقد) کے پاس آئے اور فرمایا:'' اپنی سواریوں کو آزاد چھوڑ دو''_ اس کے بعد وہ بے فکر ہو کر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ ضجنان پہنچ گئے_ وہاں انہوں نے تقریباً ایک دن اور ایک رات استراحت فرمائی بعض کمزور اور بے چارے مومنین وہاں پہنچ کر حضرت علیعليه‌السلام سے مل گئے ان میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی آزاد کردہ کنیز ام ایمن بھی تھیں_ اس رات انہوں نے کھڑے ہو کر بیٹھ کراور پہلوؤں کے بل لیٹ کر اللہ کی عبادت کی یہاں تک کہ جب صبح ہوگئی تو حضرت علیعليه‌السلام نے ان کے ساتھ نماز فجر پڑھی _اس کے بعد ان کے ساتھ دوبارہ سفر کا آغاز کیا اور ہرمنزل پر اس عمل کا اعادہ کرتے گئے یہاں تک کہ مدینہ پہنچ گئے_ ان کی آمد سے قبل ہی ان کی شان میں یوں وحی نازل ہوئی_( الذین یذکرون الله قیاما وقعودا وعلی جنوبهم ویتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا ما خلقت هذا باطلا فاستجاب لهم ربهم انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی ) (۱) یعنی جولوگ کھڑے ہوکر، بیٹھ کر اور پہلوؤں کے بل خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی خلقت میں غور کرتے

___________________

۱_ سورہ آل عمران آیت ۱۹۱_۱۹۵ _

۳۶۲

اور کہتے ہیں خدایا تونے ان کو بے مقصد خلق نہیں کیا پس خدا نے ان کے جواب میں فرمایا: تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں، خواہ مرد ہو یا عورت_

جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علیعليه‌السلام کی آمد کی خبر ملی تو فرمایا :''علیعليه‌السلام کو میرے پاس بلاؤ''عرض کیا گیا :''اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ چلنے پر قادر نہیں ہیں ''_یہ سن کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود ان کے پاس آئے اور انہیں اپنے سینے سے لگایا_ جب ان کے سوجے ہوئے پیروں پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر پڑی تو شفقت کی بنا پر گریہ فرمایاکیونکہ ان کے قدموں سے خون ٹپک رہا تھا_ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علیعليه‌السلام سے فرمایا:'' اے علیعليه‌السلام تم ایمان کے لحاظ سے اس امت کے سب سے پہلے مومن ہو اور اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف ہجرت کرنے والے سب سے پہلے لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے ملحق ہونے والے سب سے آخری فرد ہو_ مجھے قسم ہے اس کی جس کے اختیار میں میری جان ہے تجھ سے محبت نہیں کرے گا مگروہ جو مومن ہوگا اور اس کا ایمان آزمایا جاچکا ہوگا اور تجھ سے بغض نہیں رکھے گا مگروہ جو منافق یا کافر ہوگا''_(۱)

بنابریں یہ واضح ہوا کہ کھلم کھلا ہجرت کرنے اور ہجرت سے روکنے والوں کو قتل کی دھمکی دینے والے شخص علی ابن ابیطالب تھے نہ کہ عمرابن خطاب_ حضرت عمر کی طرف اس بات کی نسبت کے غلط ہونے سے متعلق تھوڑی سی بحث پہلے گزر چکی ہے_ یہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ امیرالمومنینعليه‌السلام کے دیگر بہت سے فضائل کی طرح ان کی اس فضیلت کو بھی دوسروں سے منسوب کرنے کی کوشش کی گئی ہے_

تبع اول کا خط

بعض لوگ کہتے ہیں کہ تبع اول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت سے سینکڑوں سال قبل آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لاچکا تھا_یہ واقعہ طویل ہے اور ہم اس کے ذکر سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اس کی صحت کے بارے میں اطمینان حاصل نہیں ہے البتہ قرطبی اور ابن حجت حموی نے (قرطبی سے) ثمرات الاوراق (ص ۲۹۰_ ۲۹۱) میں

___________________

۱_ امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۳_۸۶ بحار ج ۱۹ ص ۶۴ _ ۶۷، ۸۳ اور ۸۵ تفسیر برہان ج ۱ ص ۳۳۲_۳۳۳ از الشیبانی (در نہج البیان) الاختصاص (شیخ مفید) المناقب (ابن شہر آشوب) ج ۱ ص ۱۸۳_۱۸۴، اعلام الوری ۱۹۰ اور امتاع الاسماع (مقریزی) ج ۱ ص ۴۸ _

۳۶۳

اس کا تذکرہ کیا ہے جو حضرات تحقیق کے طالب ہوں وہ ادھر رجوع کریں_

حضرت ابوبکر معروف بزرگ؟

بعض جگہوں میں ذکر ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ آئے تو حضرت ابوبکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ایک ہی سواری پر سوار تھے اور یہ کہ حضرت ابوبکر ایک جانے پہچانے بزرگ تھے لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ایک غیر معروف نوجوان تھے_ لوگ حضرت ابوبکر سے ملاقات کرتے اور پھر ان سے پوچھتے تھے کہ اے ابوبکر یہ تیرے آگے کون ہے؟ احمد کے الفاظ ہیں'' یہ لڑکا کون ہے جو تیرے آگے ہے؟'' وہ جواباً کہتے تھے :''یہ مجھے راستہ دکھاتا ہے''_ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کو سفر کے راستے سے آگاہ کرتے ہیں حالانکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم راہ حق دکھانے والے ہیں_

تمہید میں مذکور ہے کہ ''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سواری پر حضرت ابوبکر کے پیچھے بیٹھے تھے اور جب لوگ حضرت ابوبکر سے پوچھتے تھے کہ یہ تمہارے پیچھے کون ہے؟ ''

قسطلانی نے صاف الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ بنی عمرو بن عوف کے ہاں سے روانگی یعنی قباسے مدینے کو روانگی کے وقت کا ہے_

ایک اور روایت میں مذکور ہے کہ ''جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ تشریف لائے اور مسلمانوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا استقبال کیاتو اس وقت حضرت ابوبکر لوگوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیٹھ گئے_ اس وقت حضرت ابوبکر بوڑھے تھے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جوان_ جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں دیکھا تھا ہ حضرت ابوبکر کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھ کر ان کے پاس آتے تو وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا تعارف کراتے تھے یہاں تک کہ جب سورج کی شعاعیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ پر پڑنے لگیں تو حضرت ابوبکر نے اپنی چادر سے آپ پر سایہ کردیا تب جاکر لوگوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہچانا_(۱)

___________________

۱_ ان ساری باتوں یا بعض باتوں کیلئے رجوع کریں ارشاد الساری ج۶ ص ۲۱۴ ، سیرت حلبی ج۲ ص ۴۱ ، صحیح بخاری مطبوعہ مشکول باب ہجرت ج۶ ص ۵۳ و سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۱۳۷ ، مسند احمد ج۳ ص ۲۸۷ ، المواہب اللدنیة ج۱ ص ۸۶ ، عیون الاخبار (ابن قتیبہ) ج۲ ص ۲۰۲ والمعارف (ابن قتیبہ) ص ۷۵ ، الغدیر ج۷ ص ۲۵۸ (مذکورہ مآخذ میں سے متعدد کتب نیز الریاض النضرة ج۱ ص ۷۸ _ ۸۰ اور طبقات ابن سعد ج۲ ص۲۲۲ سے منقول)_

۳۶۴

لیکن یہ باتیں درست نہیں ہوسکتیں کیونکہ:

الف: یہ امر قابل قبول نہیں کہ حضرت ابوبکر معروف تھے لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا غیر معروف_ کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکے آنے والے مختلف قبائل سے سالہا سال تک ملاقاتیں کرتے رہے تھے_ یوں آپ کا ذکر ہر جگہ پھیل چکا تھا اور اہل مدینہ کے اسّی سے زیادہ افراد صرف تین ماہ قبل آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کرچکے تھے پھر کیونکر ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوبکر تو جانی پہچانی شخصیت ٹھہریں لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا غیر معروف؟(۱) اس کے علاوہ حضرت ابوبکر تو قبا پہنچتے ہی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے جدا ہوکر مدینہ چلے گئے تھے اور مدینہ پہنچنے تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نہیں رہے تھے_

ب: اہل مدینہ نہایت بے صبری سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد کے منتظر تھے اور جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لائے تو تقریباً پانچ سو سواروں(۲) نے حرّہ کے اس طرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا استقبال کیا تھا_ اس وقت عورتیں بچے اور جوان اس طرح کا ترانہ الاپ رہے تھے_

طلع البدر علینا

من ثنیات الوداع

ثنیات وداع سے آج ہمارے لئے چودہویں کا چاند نکل آیا ہے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبا میں چند روز لوگوں سے ملتے رہے تھے پھر کیا یہ ممکن ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (بقول قسطلانی) ، قبا سے مدینہ تشریف لاتے وقت غیر معروف ہوجائیں(۳) ؟ _

پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں داخل تو ہوئے ہوں لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ قبا یا مدینہ کے رہنے والوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو پھر اس وقت حضرت علیعليه‌السلام کہاں چلے گئے تھے؟ کیا اہل مدینہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیدار کے لئے جتھوں کی صوت میں یا اکیلے قبا نہیں آئے تھے؟ پھر انجان لوگوں کو جاننے والوں نے کیوں نہیں بتا یا اور چپ کیوں سادھ گئے؟

___________________

۱_ الغدیر ج۷ ص ۲۵۸ کی طرف رجوع کریں_

۲_ الثقات ( ابن حیان) ج۱ ص ۱۳۱ و دلائل النبوة ج۲ ص ۲۳۳ وفاء الوفاء ج۱ ص ۲۵۵ از تاریخ صغیر (بخاری) و سیرت حلبی ج۲ ص ۵۲ و سیرت نبویہ (دحلان) حاشیہ حلبیہ ج۱ ص ۳۲۵ اور تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۲۶_

۳_ ارشاد الساری ج۶ ص ۲۱۴_

۳۶۵

ج: رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ابوبکر سے دوسال اور چند ماہ بڑے تھے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عام الفیل میں پیدا ہوئے اور حضرت ابوبکر بھی اپنی خلافت کے آخر میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی عمر کو پہنچ چکے تھے (جیساکہ ان کا دعوی ہے) کیونکہ ان کی عمر وفات کے وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی عمر کے برابر یعنی ترسٹھ سال ہوچکی تھی_(۱)

بنابریں یہ کیسے معقول ہوسکتا ہے کہ وہ تو عمر رسیدہ بزرگ ہوں لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جوان؟ ہماری ان معروضات کی روشنی میں یزید بن اصم (جو دوسری صدی ہجری میں تہتر سال کی عمر میں مرے) سے مروی اس قول کا بطلان بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے حضرت ابوبکر سے فرمایا'' میری عمر زیادہ ہوگی یا تمہاری؟'' انہوں نے جواب دیا ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بزرگی اور عزت وشرف مجھ سے زیادہ ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے بہتر ہیں لیکن میں عمر میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بڑاہوں''_(۲)

یہ بہانہ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے بر خلاف حضرت ابوبکر کے چہرے اور داڑھی میں بڑھاپے کے آثار زیادہ نمایاں تھے_(۳) یا یہ کہ حضرت ابوبکر تاجر تھے اس لئے لوگ ان کو ملک شام جانے آنے کی وجہ سے پہچان چکے تھے_ درست نہیں کیونکہ بالوں کا سفید ہونا یا نہ ہونا بڑھاپے اور جوانی کو نہیں چھپا سکتا _حتی کہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں ''ما ھذا الغلام بین یدیک؟'' (یہ لڑکا کون ہے جو تیرے آگے ہے؟) غور کیجئے ایک ایسے مرد کو جس کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہوچکی ہو ''لڑکا'' کہنا کس قدر ستم ظریفی ہے؟

___________________

۱_ المعارف (ابن قتیبہ) ص ۷۵ جس میں اس بات کے متفق علیہ ہونے کا دعوی کیا گیا ہے ، اسدالغابة ج ۳ ص ۲۲۳، مرآة الجنان ج ۱ ص ۶۵ و ص ۶۹ ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۶۰، الاصابہ ج ۲ ص ۳۴۱ تا ۳۴۴ الغدیر ج۷ ص ۲۷۱ جس میں مذکورہ مآخذ کے علاوہ درج ذیل مآخذ سے بھی نقل ہوا ہے _ الکامل ابن اثیر ج۱ ص ۱۸۵ اور ج ۲ ص ۱۷۶ عیون الاثر ج ۱ ص ۴۳ و سیرت حلبی ج ۳ ص ۳۹۶ الطبری ج ۲ ص ۱۲۵ اور ج ۴ ص ۴۷ الاستیعاب ج ۱ ص ۳۳۵ جس میں کہا گیا ہے کہ اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ وفات کے وقت ان کی عمر ۶۳ سال تھی و سیرت ابن ہشام ج ۱ ص ۲۰۵_

۲_ الغدیر ج۷ ص ۲۷۰ از الاستیعاب ج ۲ ص ۲۲۶ الریاض النضرة ج۱ ص ۱۲۷ تاریخ الخلفاء ص ۷۲ خلیفة بن خیاط، احمد بن حنبل اور ابن عساکر سے_

۳_ فتح الباری ج۷ ص ۱۹۵ ، الغدیر ج۷ ص ۲۶۰ ،۲۶۱ _

۳۶۶

اسکے علاوہ ابن عباس نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، آپ تو بوڑھے ہوگئے، فرمایا مجھے سورہ ہود اور سورہ واقعہ نے بوڑھا کردیا محدثین نے ابن مسعود اور ابن ابی جحیفہ سے بھی اس قسم کی روایت نقل کی ہے کہ لوگوں نے کہا ''اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو بوڑھے ہوگئے ہیں''_ فرمایا:'' مجھے ہود اور اس کے ساتھ والی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے''_(۱) واضح ہے کہ مذکورہ سورتیں مکی ہیں_ مذکورہ روایات کا مطلب یہ ہے کہ بڑھاپے نے وقت سے پہلے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو آلیا_ اسی لئے لوگ اس کے بارے میں سوال کر رہے تھے_(۲)

رہا یہ کہنا کہ حضرت ابوبکر تاجر تھے اور شام آیا جایا کرتے تھے تو اس سلسلے میں ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ایام جاہلیت میں وہ بچوں کو پڑھاتے تھے اور اس کے بعد درزی کا کام کرنے لگے_ علاوہ ازیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ بھی تو شام کا سفر کیا کرتے تھے اور خصوصاً آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قریش اور عربوں کے درمیان حاصل بزرگی و سیادت اور اہل مدینہ کے ساتھ رشتہ داری کی بناپرلوگوں کے درمیان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پہچان بدرجہ اولی اور زیادہ ہونی چاہئے_

ان ساری باتوں کے علاوہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سالہا سال تک مکہ آنے والے قبائل کے ساتھ بنفس نفیس ملاقاتیں بھی کرتے رہے تھے_

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت کا تعارف کراتی تھیں _ چنانچہ ام معبد نے اپنے شوہر سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صفات کا تذکرہ کیا تو اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوپہچان لیا_ رہے حضرت ابوبکر تو ان کی صفات کا تذکرہ حضرت عائشہ وغیرہ کی زبانی اس کتاب میں پہلے گزر چکا ہے_آخر کار ہمیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور حضرت ابوبکر ایک ہی ناقہ کے سوار کیسے ہوگئے؟ حالانکہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ دو اونٹ تھے یعنی ہر کسی کے پاس اپنی سواری تھی_

___________________

۱_ مستدرک الحاکم ج۲ ص ۳۴۳ و تلخیص مستدرک ذہبی ( اسی صفحے کے حاشیہ میں) نیز اللمع (ابو نصر) ص ۲۸۰ و تفسیر ابن کثیر ج۲ ص ۴۳۵ و الغدیر ج۷ ص ۳۶۱ مذکورہ مآخذ اور تفسیر قرطبی ج۷ ص ۱ و تفسیر الخازن ج۲ ص ۳۳۵ نیز جامع الحافظ ترمذی و نواد ر الاصول(حکیم ترمذی) ابویعلی، طبرانی اور ابن ابی شیبہ سے _

۲_ الغدیر ج۷ ص ۲۶۱_

۳۶۷

علامہ امینی رحمة اللہ علیہ کا نقطہ نظر

علامہ امینی (قدس سرہ) کا نظریہ یہ ہے کہ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے بزرگ ہیں لیکن میں آپ سے زیادہ عمر رسیدہ ہوں'' والی بات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور سعید بن یربوع المخزومی کے درمیان پیش آئی ہے سعید ۵۴ ہجری میں ایک سوبیس سال کی عمر میں چل بسے تھے_

ان کا یہ بھی خیال ہے کہ سقیفہ کے دن اپنے مخالفین کے مقابلے میں حضرت ابوبکر کی دلیل ان کی بزرگسالی تھی_ بنابریں ان کے چاہنے والوں نے اس دعوے کی تائید ان کے مذکورہ جعلی قول سے کرنے کی کوشش کی کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے مقابلے میں عمر رسیدہ لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان کے مقابلے میں زیادہ برگزیدہ ہیں اور یہ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ایک غیر معروف جوان بلکہ ایک لڑکے تھے اور حضرت ابوبکر ایک جانے پہچانے بزرگ تھے_(۱)

مکہ میں منافقت کا کھیل

ہجرت کے بعد کے حالات کا ذکر چھیڑنے سے پہلے مکی زندگی سے مربوط ایک مسئلے کی طرف اشارہ اور اس کے بعض ظاہری پہلوؤں پر اظہار نظر مناسب معلوم ہوتا ہے اگرچہ اس مسئلے کا ہجرت کے بعد مدنی زندگی سے بھی گہرا تعلق ہے_ وہ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہجرت سے قبل مسلمان ہونے والے مکیوں میں منافقین بھی تھے جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور تھا یا نہیں ؟

اور کیا مکے کی فضا اس قسم کے افراد کو جو بظاہر اسلام قبول کریں اور اندر سے کافر ہی رہیں، وجود میں لانے کیلئے سازگار تھی یا نہیں؟

اس سلسلے میں علامہ طباطبائی کا حاصل کلام یہ ہے_

ممکن ہے کوئی کہے کہ نہیں مکے میں منافقین کا کوئی وجود نہ تھا کیونکہ وہاں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور مسلمانوں کو طاقت اور اثرونفوذ حاصل ہی نہ تھاکہ جس کے باعث لوگ ان سے مرعوب اور خائف ہوتے یا ان سے کسی

___________________

۱_ الغدیر ج ۷ ص ۲۷۱_

۳۶۸

قسم کے مادی یا روحانی فائدے کی امید رکھتے _پس وہ کیونکر ان کے قرب کے متلاشی ہوتے اور اپنی باطنی کیفیت کے برعکس ایمان کا اظہار کرتے؟

بلکہ مسلمان تو مکے میں کمزور مظلوم اور ستمدیدہ تھے_ بنابریں ہونا تو یہ چاہ ے تھا کہ قریش کے رؤسا اور بزرگان کے مقابلے میں (خواہ خوف کی بنا پر ہو یا امید ورغبت کی بنا پر) مسلمانوںکی جانب سے اندرونی کیفیت کو چھپانے کی کوشش کی جاتی نہ اس کے برعکس _

اس کے برعکس مدنی زندگی میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی پوزیشن مستحکم ہوچکی تھی مسلمانوں کا اثر ونفوذ واضح ہوچکا تھا اور وہ اپنی حفاظت یا اپنا دفاع کرنے کی طاقت حاصل کرچکے تھے_ مدینہ کے ہر گھر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعوان و انصار اور پیروکار موجود تھے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوامر کی متابعت اور اپنی ہر قیمتی اور نفیس چیز کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم پر قربان کرتے تھے_ رہے باقی ماندہ مٹھی بھر لوگ تو وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اعلانیہ مخالفت کا دم خم نہ رکھتے تھے_ چنانچہ انہوں نے اپنی خیریت اسی میں جانی کہ بظاہر مسلمان ہوجائیں اور باطناً کافر ہی رہیں تاکہ جب بھی موقع ملے مسلمانوں کے ساتھ مکر وفریب اور سازش وحیلہ گری سے کام لے سکیں_

خلاصہ یہ کہ اس انداز میں بعض لوگوں نے ابتدائی مسلمانوں کے درمیان منافقوں کی عدم موجودگی پر استدلال کیا ہے_ لیکن یہ استدلال جیساکہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں بے بنیاد ہے_

کیونکہ مکے میں بھی منافقت کی وجوہات موجود تھیں _اور اس کام کیلئے وہاں کے ماحول میں بھی گنجائشے موجود تھی_ ان میں سے بعض اسباب کا ہم یہاں تذکرہ کرتے ہیں:

(الف): منافقت کے اسباب فقط وہی نہیں جن کا اوپر تذکرہ ہوا ہے یعنی صاحب اقتدار کا خوف یا اس سے وابستہ امید اور لالچ کیونکہ ہم مختلف معاشروں میں مختلف قسم کے لوگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو خوبصورت نعروں پر، ہر قسم کی دعوت پر لبیک کہنے کیلئے آمادہ ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ ان کی امیدوں اور آرزوؤں کے ساتھ سازگار ہو، ان کی خواہشات کی برآوری کی امید دلاتی ہو اور اس میں ان کی رغبتوں کا سامان ہو_ پس وہ اس کی حمایت کرتے ہیں اگرچہ وہ ظالم ترین طاقتوں کے زیرسایہ ہی کیوں نہ ہوں اور

۳۶۹

خود، ان کی حالت انتہائی کمزور اور ضعیف کیوں نہ ہو_ یوں وہ اس کی خاطر اپنے وجود کو بہت سے خطرات میں جھونک دیتے ہیں نیز مشکلات اور سختیوں کو جھیلتے ہیں فقط اس امید میں کہ شاید کسی دن ان کی امیدوں کی کلی کھل جائے اور ان کے اہداف حاصل ہوجائیں جن کے خواب وہ دیکھا کرتے ہیں ،مثال کے طور پر حصول اقتدار اور حصول ثروت وجاہ ومقام وغیرہ_

جی ہاں وہ یہ سب کر گزرتے ہیں اگرچہ وہ اکثر وبیشتر اس دعوت پر فقط اتنا ہی ایمان رکھتے ہیں جتنا ان کے مذکورہ بالا اہداف واغراض کے حصول کیلئے ضروری ہو اور واضح ہے کہ اس قسم کا لالچی منافق دعوت کی کامیابی کی صورت میں اس دعوت کیلئے بدترین دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر اسے یہ احساس ہو کہ دعوت اس کی تمام آرزؤوں کو پورا نہیں کرسکتی (اگرچہ کسی مصلحت کے تحت ہی سہی) تو وہ منحرف اور خائن ہوجاتا ہے(۱) اس کے علاوہ وہ اس دعوت کو انحراف کی طرف لے جانے نیز اسے سابقہ روش اور راہ مستقیم سے ہٹاکر ان غلط راہوں کی طرف لے جانے پر زیادہ قادر ہوتا ہے جن راہوں کی تاریکی اور ظلمت سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی خواہشات تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکے_ پھر ان کاموں کی توجیہہ کے سارے بہانے بھی اسی کے پاس ہی ہوتے ہیں خواہ اس کی توجیہات کتنی ہی کمزور اور بے بنیاد کیوں نہ ہوں_

لیکن اگر دعوت کو ناکامی کا سامنا ہو تو وہ اپنی پوزیشن مضبوط کرچکنے کی صورت میں اپنے ہم خیال لوگوں سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم درحقیقت تمہارے ساتھ ہیں ان لوگوں کے ساتھ تو بس مذاق کر رہے تھے_ بقول قرآن (اناکنامعکم انمانحن مستھزؤون) ان باتوں کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مدینے میں اگر منافقت عام طور پر حفاظتی مقاصد یا مخصوص مفادات وروابط کے بچاؤ کے پیش نظر تھی تو مکہ والی منافقت اسلام ومسلمین کیلئے یقیناً زیادہ خطرناک، زیادہ نقصان دہ اور زیادہ پریشان کن ہوگی جیساکہ ہم پہلے وضاحت کرچکے ہیں_

___________________

۱_ تفسیر المیزان ج ۱۹ ص ۲۸۹ _

۳۷۰

خلاصہ یہ کہ اس بات کا قوی احتمال ہے کہ مکہ میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے بعض پیروکار اسلام کے مخلص نہیں تھے بلکہ ان کو فقط اپنی ذات سے غرض تھی_اس بات کی تائید اس حقیقت کو خاص کرملاحظہ کرنے سے ہوتی ہے کہ اسلام نے اپنی دعوت کے روز اول سے ہی قطعی وعدوں کا اعلان کیا تھا کہ اس کے علمبردار بہت جلد زمین کے حکمراں اور قیصر وکسری کے خزانوں کے مالک بن جائیں گے_(۱)

چنانچہ جب عفیف کندی نے عباس بن عبدالمطلب سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علیعليه‌السلام اور خدیجہعليه‌السلام کی نماز کے بارے میں پوچھا تو عباس نے جواب دیا:'' یہ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں_ اس کا دعوی ہے کہ خدانے اسے بھیجا ہے اور قیصر و کسری کے خزانے بہت جلد اس کے ہاتھ لگ جائیں گے''_ عفیف افسوس کرتا تھا کہ وہ اس دن مسلمان کیوں نہ ہوا تاکہ وہ علیعليه‌السلام کے بعد مسلمانوں میں دوسرے نمبر پر ہوتا_(۲)

نیز جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حضرت ابوطالبعليه‌السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قوم کی شکایت کا سبب پوچھا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں ان کو ایک کلمے (یعنی مقصد) پر متحد کرناچاہتا ہوں جس کے نتیجے میں عرب ان کے مطیع اور عجم ان کے خراج گزار بن جائیں_(۳)

اسی طرح یہ بھی منقول ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بکر بن وائل سے قبائل کو دعوت اسلام دینے کے سلسلے میں فرمایا: ''اور تم خدا سے یہ عہد کروگے کہ اگر تم زندہ رہو تو ان (عجم)کے گھروں میں داخل ہوگے ان کی عورتوں سے نکاح کروگے اور ان کے بیٹوں کو غلام بنالوگے''_

شیبان بن ثعلبہ سے بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تقریباً اسی قسم کی بات اس وقت کی جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے قریبی رشتہ

___________________

۱_ المیزان ج ۱۹ ص ۲۸۹ _

۲_ ذخائر العقبی ص ۵۹، دلائل النبوة ج ۱ ص ۴۱۶، لسان المیزان ج ۱ ص ۳۹۵ ابویعلی اورخصائص نسائی سے، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۵۷ مطبوعہ صادر اور تاریخ طبری ج ۲ ص ۵۷ نیز حیاة الصحابہ ج۱ ص ۳۳ _

۳_ سنن بیہقی ج ۹ ص ۸۸ و مستدرک الحاکم ج ۲ ص ۴۳۲ حاکم اور ذہبی نے تلخیص میں اسے صحیح قرار دیا ہے نیز تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۲۸ و حیات الصحابہ ج ۱ ص ۳۳ کہ ترمذی نیز تفسیر طبری، احمد، نسائی اور ابن ابی حاتم سے نقل کیا ہے_

۳۷۱

داروں کو عذاب الہی سے ڈرایا_(۱)

اس نکتے کی خوب وضاحت اس بات سے ہوتی ہے جو قبیلہ بنی عامر بن صعصعہ کے ایک فرد نے اس وقت کہی جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان کو دعوت اسلام دینے آئے تھے_ اس نے کہا ''اللہ کی قسم اگر یہ قریشی جوان میرے ہاتھ آتا تو میں اس کے ذریعے عرب کو ہڑپ کرجاتا'' اس کے بعض مآخذ کا پہلے تذکرہ ہوچکا ہے_

مختصر یہ کہ جب مذکورہ منافقت کا مقصد ذاتی اغراض کیلئے اس دعوت کے قبول کرنے کو آلہ کار قرار دینا ہو تو (اس منافق کیلئے) سوائے اس کے چارہ نہیں کہ وہ اس دعوت کی وہاں تک حفاظت کرے جہاں تک وہ اپنے مفادات ومقاصد کی حفاطت پر مجبور ہو، یعنی جب تک وہ اس دعوت کے ذریعے اپنی آرزؤوں کی تکمیل اور اپنے مقاصد تک رسائی کی امید رکھتا ہوگا تب تک وہ اس دعوت اورتحریک کی حفاظت کرے گا_

یہیں سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ضروری نہیں منافق اس دعوت (جس پر وہ ایمان نہیں رکھتا) کے خلاف مکروسازش کرنے اور اس کو خراب وبرباد کرنے کی کوشش کرے بلکہ بسا اوقات اس کا پورا لگاؤ اس کے ساتھ ہوتا ہے، اس کیلئے مال و متاع اور جاہ و حشمت کی قربانی دیتا ہے ہاں اس صورت میں کہ بعد میں اس سے بہتر نتائج حاصل کرنے کی اسے توقع ہو_ لیکن جان کی قربانی نہیں دیتا اس حقیقت کا مشاہدہ مکے کے بعض مسلمانوں کی حالت سے بخوبی ہوتا ہے جو دعوت اسلامی کی حمایت اس وقت تک کرتے رہے جب تک موت سے روبرو نہ ہونا پڑا لیکن جب موت کا مرحلہ پیش آیا تو وہ جنگوں سے بھاگ جاتے، پیٹھ پھیرتے اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے تھے_ اس نکتے کا مشاہدہ بہت سے موقعوں پر ہوتا ہے البتہ بعض اوقات اس قسم کے لوگوں میں سے بعض کے اوپر بتدریج جذبہ دینی غالب آتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ منزل اطمینان کو پہنچ جاتے ہیں بعد میں ہم غزوہ احد پر بحث کے دوران اس جانب انشاء اللہ اشارہ کریں گے_ بحث کا نتیجہ یہ نکلاکہ :

(الف):بعض لوگوں کا بنیادی ہدف اور ان کا معیار ذاتی مفاد ہوتا ہے_ بنابریں جب تک دین کے ذریعے

___________________

۱_ رجوع کریں : الثقات ج ۱ ص ۸۸، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۱۴۰، ۱۴۲ اور ۱۴۵ کہ دلائل النبوة (ابن نعیم) حاکم اور بیہقی سے نقل کیا ہے_ حیات الصحابة ج ۱ ص ۷۲ و ۸۰ از البدایة و النہایة اور کنز العمال ج ۱ ص ۲۷۷ سے منقول ہے_

۳۷۲

ان کے مفادات حاصل ہوتے رہیں وہ بھی اس دین کا ساتھ دیتے ہیں لیکن جونہی وہ دین کو اپنے مفادات کی راہ میں رکاوٹ اور ان کیلئے باعث خطر سمجھتے ہیں تو پھر وہ اس کے خلاف مکر وسازش اور اسے تباہ وبرباد کرنے کیلئے کسی قسم کی سعی وکوشش سے دریغ نہیں کرتے اور ہر قسم کا وسیلہ اپناتے ہیں_

(ب): دوسرے سبب کی طرف علامہ طباطبائی نے یوں اشارہ کیا ہے کہ یہ بات ممکن ہے کہ کوئی شخص ابتدائے بعثت میں ایمان لے آئے پھر وہ کسی ایسے امر سے روبرو ہو جس کے باعث اس کاایمان متزلزل ہو، وہ دین میں شک کرے اور مرتد ہوجائے لیکن اس کی نظر میں اہمیت کے حامل بعض مفادات مثال کے طور پر دشمنوں کی شماتت سے بچاؤ یا خاندانی، قبائلی اور تجارتی روابط کی حفاظت یا نسلی تعصب اور غیرت وغیرہ جن کے باعث سارے یا کچھ مسلمانوں سے رابطہ ضروری ہو یا کسی خاص قسم کے جاہ ومقام یا اس سے مربوط کسی اور مسئلے کی بنا پر اس کی پردہ پوشی کرتا ہو_(۱)

بسا اوقات ہم تاریخ میں ایسے افراد کا مشاہدہ کرتے ہیں جو اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اس امر میں اکثر شک کیا کرتے تھے اور یوں وہ مذکورہ حقیقت کی تائید کرتے ہیں_ یہاں تک کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر وہ ایسے شک کا شکار ہوئے جس کا شکار مسلمان ہونے کے بعد کبھی بھی نہ ہوئے تھے_(۲)

ادھر غزوہ احد میں جب انہوں نے سنا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شہید ہوگئے تو وہ معرکہ جنگ سے فرار اختیار کرگئے اور ان میں سے بعض تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی طرف (دوستی کا) ہاتھ بڑھاتے ہیں کیونکہ وہ ہماری قوم کے ہی افراد اور ہمار ے چچازاد بھائی ہیں_(۳)

(ج): مسلمانوں کی مکی زندگی کے دوران منافقوں کی موجودگی پر دلالت کرنے والی بعض آیات کی طرف علامہ طباطبائی نے بھی اشارہ کیا ہے مثال کے طور پر خداوند متعال کا یہ ارشاد:( لیقول الذین فی

___________________

۱_ تفسیر المیزان ج ۱۹ ص ۲۸۹ _

۲_ مغازی واقدی ج ۲ ص ۶۰۷ _

۳_ السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۲۲۷ جنگ احد کے واقعے میں اس سلسلے میں مزید گفتگو مآخذ کے ذکر کے ساتھ ہوگی_

۳۷۳

قلوبهم مرض والکافرون ما ذا اراد الله بهذا مثلاً ) (۱) یعنی تاکہ دل کے بیمار اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اس عجیب مثال سے کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ یہ آیت ایک مکی سورہ کی ہے_

نیز اللہ تعالی کا یہ ارشاد( ومن الناس من یقول آمنا بالله فاذا اوذی فی الله جعل فتنة الناس کعذاب الله ولئن جاء نصر من ربک لیقولن انا کنا معکم اولیس الله باعلم بما فی صدور العالمین ولیعلمن الله الذین آمنوا ولیعلمن المنافقین ) (۲)

یعنی لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے لیکن جب راہ خدا میں اسے تکلیف دی گئی تو اس نے لوگوں کی طرف سے ڈالی ہوئی آزمائشے کو عذاب الہی کے برابر قرار دیا_ اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آگئی تو یہی شخص کہے گا ہم تو تمہارے ساتھ تھے کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں_ اللہ تو ضروریہ جانتا ہے کہ ایمان والے کون ہیں اور منافق کون؟_

یاد رہے کہ سورہ عنکبوت بھی مکی ہے_ یہ آیت راہ خدا میں ایذاء رسانی اور آزمائشے کے بارے میں گفتگو کرتی ہے یہ باتیں مکہ کی ہیں نہ کہ مدینہ کی_ اس آیت میں اللہ کا یہ فرمان (ولئن جاء نصر من ربک) یعنی اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آگئی اس آیت کے مدنی ہونے پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ فتح ونصرت کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں_

یہاں اس نکتے کا اضافہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس آیت میں بطور عام مستقبل کے منافقین کی بھی تصویر کشی فرما رہا ہے_

اس کے بعدعلامہ طباطبائی کہتے ہیں: ''اس بات کا احتمال کہ شاید فتنہ (آزمائشے) سے مراد ہجرت کے بعدمکہ میں مسلمانوں کو پیش آنے والی مشکلات ہوں تو اس کی گنجائشے ہے کیونکہ ہجرت کے بعد مکہ میں ستائے جانے والے لوگ ہجرت سے قبل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ پر ایمان لاچکے تھے اگرچہ انہیں بعد میں اذیت دی گئی''_(۳)

___________________

۱_ سورہ مدثر آیت ۳۱ _

۲_ سورہ عنکبوت، آیت ۱۱_

۳_ تفسیر المیزان ج ۲۰ ص ۹۰_۹۱_

۳۷۴

مذکورہ باتوں پر ایک اہم تبصرہ

علامہ طباطبائی آخر میں یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ ''ہم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی وفات کے وقت تک منافقین کا کوئی نہ کوئی تذکرہ سنتے رہتے ہیں_ ان میں سے تقریباً اسّی افراد تبوک میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ گئے_ ادھر عبداللہ بن ابی، جنگ احد میں تین سو افراد کے ساتھ جدا ہوگیا تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ان منافقین کا بلا واسطہ ذکر ختم ہوگیا اور اسلام و مسلمین کے خلاف ان کی سازشوں، مکاریوں اور حیلوں کے بارے میں کوئی بات سننے میں نہیں آئی_ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے ساتھ ہی یہ سارے منافقین عادل، متقی، پرہیزگار اور انسان کامل بن گئے؟

اگر یہی بات ہو تو کیا ان کے درمیان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی موجودگی ان کے مومن ہونے کی راہ میں رکاوٹ تھی؟ جبکہ اللہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو رحمة للعالمین بناکر بھیجا تھا؟ (ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ان غلط باتوں سے جو نزول بلا اور غضب کا باعث ہوں) یا یہ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی رحلت کے ساتھ ہی یہ منافقین بھی (جن کی تعداد سینکڑوں بتائی جاتی ہے) مرگئے؟ کیا بات ہے کہ تاریخ اس سلسلے میں ہمیں کچھ نہیں بتاتی؟

یا نہیں بلکہ حقیقت یہ تھی کہ ان منافقین کو حکومت کے اندر وہ چیز ملی جو ان کی نفسانی خواہشات سے ہم آہنگ نیز ان کے ہوا و ہوس اور مفادات کے ساتھ سازگار تھی؟ یا اس کی کوئی اور وجہ اور حقیقت تھی؟'' یہ فلسفہ میری سمجھ میں تو نہیں آتا_ شاید ہوشیار اور زیرک لوگ اس کو سمجھتے ہوں_

۳۷۵

چوتھی فصل

مدینہ تک

۳۷۶

آغاز:

مدینہ پہنچنے کے بعد اسلامی معاشرہ کی تشکیل، حکومت کی بنیادیں مضبوط کرنے اور دنیا کے مختلف حصوں میں تبلیغ اسلام کی منصوبہ بندی کرنے کا کام شروع ہوا_ یوں اسلامی دعوت انفردای اصلاح کے مرحلے سے نکل کر معاشرتی اصلاح، اسلامی عقائد واحکام کے عملی نفاذ اور پوری دنیا سے جاہلیت کے تمام آثار کو مٹانے کے مرحلے میں داخل ہوئی_

اگر ہم اس سلسلے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اقدامات کا تذکرہ کریں تو اس مختصر کتاب میں ان کا تفصیلی ذکر ممکن نہ ہوگا_ نیز ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عطرآگین سیرت کے بنیادی واقعات پر بحث کرنے سے رہ جائیں گے_ اس بناپر ہم یہ کام دوسروں کیلئے چھوڑتے ہیں اور ان چیزوں کے اجمالی بیان پر اکتفا کرتے ہیں جو کسی محقق کیلئے ضروری ہوتی ہیں_ ہم جزئیات اور تفصیلات فقط اسی حد تک بیان کریں گے جو ہماری نظر میں ضروری اور معقول ہوں_

اہل مدینہ کے گیت اور(معاذ اللہ) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا رقص؟

کہتے ہیں کہ اہل مدینہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی آمد سے اتنے خوش ہوئے کہ اس قدر کسی اور سے خوش نہیں ہوئے تھے_ حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ جب حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ پہنچے تو عورتیں اور لڑکیاں یہ گیت گارہی تھیں:

طلع البدر علینا

من ثنیات الوداع

وجب الشکر علینا

ما دعا لله داع

ایها المبعوث فینا

جئت بالامر المطاع

۳۷۷

آج ثنیات وداع نامی جگہ سے چودہویں کا چاند طلوع ہوا_

جب تک کوئی دعا کرنے والا دعا گو موجود ہے ہم پر خدا کا شکر لازم ہے_

اے وہ جو ہماری طرف بھیجا گیا ہے تیرا پیغام واجب الاطاعت ہے_

تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دائیں طرف مڑے اور قبا میں پہنچ کر اتر گئے_(۱)

ایک روایت کی رو سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اپنی آستینوں کے ساتھ ناچنے لگے ( معاذ اللہ)_(۲)

قبا میں چند دن ٹھہرنے کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شہر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے_ اس وقت بنی نجار کی

عورتیں دف بجا بجاکر گارہی تھیں_

نحن نساء من بنی النجار

یا حبذا محمد من جار

ہم بنی نجارکی عورتیں ہیں، خوش نصیب ہیں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے پڑوسی بن گئے_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان سے فرمایا: ''کیا آپ مجھ سے محبت کرتی ہیں؟ ''وہ بولیں:'' ہاں اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' اللہ کی قسم میں بھی تم سے محبت رکھتا ہوں''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ جملہ تین بار فرمایا_(۳) حلبی کہتا ''ہے یہ واقعہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شادی کے علاوہ دیگر موقعوں پر بھی دف (ڈھولکی) کے ساتھ گانا سننا جائز ہے''_(۴) ابن کثیر نے صحیحین کی آئندہ آنے والے روایتوں سے استدلال کیا ہے کہ شادیوں اور مسافروں کی آمد کے موقع پر گانا بجانا جائز ہے_(۵)

___________________

۱_ تاریخ خمیس ج۱ ص ۳۴۱_۳۴۲ از الریاض النضرة ، و السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۵۴، و دلائل النبوةبیہقی ج ۲ ص ۲۳۳، و وفاء الوفاء سمہودی ج ۱ ص ۲۴۴ و ج ۴ ص۱۱۷۲ و ۲۶۲ و فتح الباری ج ۷ ص ۲۰۴_

۲_ نہج الحق الموجود فی دلائل الصدق ج ۱ ص ۳۸۹، (یعنی حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اپنی آستینوں کو نعوذ باللہ تھرکانے لگے _ از مترجم) فضل بن روز بہان نے بھی اس پراعتراض نہیں کیا بلکہ وہ اس کی توجیہ اور تاویل پیش کرنے لگے( گویا وہ اسے بالکل قبول کرتے ہیں)_

۳_ وفاء الوفاء ج ۱ ص ۲۶۳ ، فتح الباری ج ۷ ص ۲۰۴ و دلائل النبوة بیہقی ج ۲ ص ۲۳۴ و ۲۳۵ و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۴۱ و سیرت حلبی ج ۳ ص ۶۱ اور البدایة و النہایةج ۳ ص ۲۰۰ _ ۴_ سیرت حلبی ج ۲ ص ۴۱ _ ۵_ البدایة و النہایة ج ۱ ص ۲۷۶_

۳۷۸

لیکن یہ باتیں غلط ہیں:

جسکی وجوہات کچھ یوں ہیں:

(الف): ثنیات الوداع کا محل وقوع مدینے کی جانب نہیں بلکہ شام کی جانب ہے اور مکہ سے مدینہ کی طرف آنے والے کو نظر نہیں آتا اور نہ ہی وہاں سے اس کا گزر ہوتا ہے مگر یہ کہ کوئی شام کا رخ کرے(۱) بلکہ سمہودی کے بقول ''میں نے مکہ کی جانب کسی سفر میں ثنیات الوداع کا تذکرہ نہیں دیکھا_(۲)

''جن لوگوں نے اسے مکے کی جانب قرار دیا ہے بظاہر ان کی دلیل ان عورتوں کا مذکورہ جملہ ہے جو ہجرت کے موقع پر کہا گیا''_(۳) ثنیة الوداع کے شام اور خیبر کی جانب واقع ہونے کی تائید تبوک کی طرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے تشریف لے جانے اور وہاں سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لوٹنے سے ہوتی ہے_ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خیبر اور شام سے لوٹے موتہ، غزوہ عالیہ اور غزوہ غابہ کی طرف گئے، نیز اسب مضمر (وہ گھوڑا جسے گھڑ دوڑ میں شرکت سے پہلے دبلا اور بدن کا چھریرا بنانے کیلئے ایک مدت تک باندھ کر رکھتے ہیں) کی مدت کے بارے میں گھڑ دوڑ والی حدیث میں مذکورہ بات سے بھی اس امرکی تائید ہوتی ہے_(۴)

سمہودی نے مذکورہ بات کو صحیح قرار دینے کی کوشش اس طرح کی ہے کہ ان لوگوں کے بقول قبا سے مدینہ آتے وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ انصار کے گھروں سے گزرے یہاں تک کہ بنی ساعدہ کے گھروں سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گزر ہوا جو شام کی جانب واقع ہے پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شہر مدینہ میں داخل نہیں ہوئے مگر اسی طرف سے_(۵)

___________________

۱_ زاد المعاد ج ۳ ص ۱۰ اور رجوع کریں وفاء الوفاء سمہوری ج ۴ ص ۱۱۷۰ نیز التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۱۳۰_

۲_ وفاء الوفاء ج ۴ ص ۱۱۷۲_

۳_ وفاء الوفاء ج ۴ ص ۱۱۷۲_

۴_ وفاء الوفاء ج ۴ ص ۱۱۶۸و ۱۱۷۲ و ۱۱۶۹ اور ج۳ ص ۸۵۷ و۸۵۸ از بخاری ، ابن ابی شیبہ ، طبرانی اوسط میں ، ابویعلی ، ابن حبان ، ابن اسحاق ،ابن سعد اور بیہقی و غیرہ نیز ملاحظہ ہو حیاة الصحابہ ج۱ ص ۶۰۳ و ۲۰۷ اور السنن الکبری ج۹ ص ۱۷۵ و ۸۵_

۵_ وفاء الوفاء ج ۴ ص ۱۱۷۰_

۳۷۹

یہ بات قابل تعجب ہے کیونکہ بنی ساعدہ کے گھروں سے گزرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینے سے ان کی جانب سے داخل ہوئے کیونکہ عین ممکن ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبا کی جانب سے داخل ہوئے ہوں اور پھر اونٹنی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو انصار کے گھروں کے درمیان پھرایا ہو_ (جیساکہ اس نے صریحاً بیان کیا ہے) یہاں تک کہ وہ بنی ساعدہ کے گھروں تک پہنچی ہو_

سمہودی کے اس احتمال کی نفی''طلع البدر علینا'' والی روایت میں ان کے اس صریحی بیان سے ہوتی ہے کہ اہل مدینہ نے اس شعر کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا استقبال کیا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ساتھ دائیں طرف قبا کی جانب مڑے جیساکہ بیان ہوچکا ہے، بنابریں یہ شعر مکہ سے مدینہ تشریف آوری کے موقع پر کہا گیا نہ کہ قبا سے مدینہ آمد پر_

ان ساری باتوں کی روشنی میں حقیقت یہ ہے کہ مدینہ والوں نے اس شعر کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا استقبال مکہ سے تشریف آوری کے موقعے پر نہیں بلکہ تبوک سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد کے موقع پر کیا_

(ب): حلبی کا اس روایت کی بنیاد پر گانے بجانے کو جائز قرار دینا قابل تعجب امر ہے کیونکہ روایت فقط اتنا کہتی ہے کہ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد پر شعر پڑھا _ اس میں کوئی حرام چیز تو داخل نہیں تھی اور شعر پڑھنا کوئی کار حرام نہیں ہے بلکہ روایت میں ان اشعار کو لے میںپڑھنے کا ذکر بھی نہیں ہے_ اسی لئے ان کے کسی عالم کا بیان ہے کہ ''حرام اور غلط موسیقی کے حامیوں کا اس (طلع البدر والی روایت) کو دلیل بناکر ہر قسم کی موسیقی کو جائز قرار دینا بالکل اسی طرح ہے جس طرح انگور اور (نشے سے خالی )انگور کے پانی کے حلال ہونے کو دلیل بناکر (اس سے تیار شدہ) نشہ آور شراب کو بھی حلال قرار دیا جائے_ اس قسم کا قیاس ان لوگوں کے قیاس کی مانند ہے جو کہتے تھے کہ تجارت اور ربا ایک جیسے ہیں''_(۱)

اور اگر ہم تسلیم بھی کرلیں کہ نامحرم عورت کی آواز کو سننا حرام ہے تو اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ حرمت کا یہ حکم اس وقت نازل ہوچکا تھا کیونکہ اسلام کے اکثر احکام تدریجاً نازل ہوئے جیساکہ شراب کے بارے

___________________

۱_ زاد المعاد (ابن قیم) ج ۳ ص ۱۷_۱۸_

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417