الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)9%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 209824 / ڈاؤنلوڈ: 6321
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

دوسری جلد

مؤلف: جناب حجة الاسلام والمسلمین سید جعفر مرتضی عاملی (ادام اللہ توفیقاتہ)

مترجم:

معارف اسلام پبلشرز

۳

مؤلف: علامہ محقق جناب حجة الاسلام والمسلمین سید جعفر مرتضی عاملی (ادام اللہ توفیقاتہ)

مترجم:معارف اسلام پبلشرز

ناشر:نور مطاف

جلد: دوسری

اشاعت:دوم

تاریخ اشاعت:شوال المکرم ۱۴۲۵ ھ _ق

تعداد: ۲۰۰۰

Web : www.maaref-foundation.com

E-mail: info@maaref-foundation.com

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہیں _

۴

بسم الله الرحمن الرحیم

و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین

و لکم فی رسول الله اسوة حسنة

مقدمہ

عالم خلقت میں برترین اور کامل ترین طرز زندگی کا نمونہ بوستان زندگی کے وہ گل ہیں جن کی سیرت پورے عالم کیلئے پیروی کابہترین نمونہ ہے _ اس گلستان میں سیرت کے اعتبار سے سب سے ممتاز اور درخشندہ ہستی پیغمبر اکرم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات مبارکہ ہے کہ پیروی اور اطاعت کیلئے ان سے زیادہ بہتر ہستی پوری کائنات میں نہیں مل سکتی _

یہ کتاب'' الصحیح من سیرة النبی الاعظم '' ، علامہ محقق جناب حجة الاسلام والمسلمین سید جعفر مرتضی عاملی (ادام اللہ توفیقاتہ) کی قیمتی اور گراں بہا تالیف ہے جس میں ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ کو بیان کیا گیاہے_

اس کتاب میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ کے تمام پہلوؤںپر تحقیقی گفتگو کی گئی ہے اور انہیں دقیق و منصفانہ تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ خود غرضی، تنگ نظری اور محدود فکری کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر تحقیق کے روشن و منور مقام پر لاکر منظر عام میں پیش کیا گیا ہے _ علامہ موصوف کی یہ کتاب اہل تحقیق حضرات کیلئے باعث حیرت و دلچسپی واقع ہوئی ہے اور ان کی جانب سے علامہ کی اس کاوش کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اور یہ کتاب عالم اسلام میں بہت مقبول ہوئی ہے _

۵

معارف اسلام پبلشرز خداوند متعال کا شکرگزار ہے کہ اپنے اصل فرائض (یعنی اردو زبان جاننے والوں کی ضروریات کے مطابق،اخلاق ، عقائد، فقہ، تفسیر، تاریخ اور سیرت جیسے اہم اور ضروری موضوعات پر مختلف کتابوں کے ترجمہ اور نشرو اشاعت کے فرائض)کو انجام دیتے ہوئے، ایک طولانی انتظار کے بعد اللہ تعالی کی توفیق سے اس کتاب '' الصحیح من سیرة النبی الاعظم'' کی دوسری جلد کو اہل تحقیق و مطالعہ اور حق کے متلاشی افراد کی خدمت میں پیش کررہاہے _ امید ہے کہ یہ کوشش خداوند متعال کی بارگاہ اور ولی خدا امام زمانہ حضرت حجة ابن الحسن العسکری (عج) کے نزدیک مقبول قرار پائے_

آخر میں اس نکتہ کا ذکر بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے کہ یہ ترجمہ عربی متن کی آخری چاپ کے ساتھ کاملا مطابقت رکھتاہے اور اس کے مطالب وموضوعات کی ترتیب میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں اور منابع کی تکمیل کی گئی ہے اس ترجمہ میں ان کا مکمل خیال رکھا گیا ہے لہذا ہم ان تمام فاضل شخصیات اور محققین محترم کے تہ دل سے شکرگزار ہیں جنہوں نے اسکے ترجمے، تصحیح ، نظر ثانی اور بالخصوص مطابقت والے طاقت فرسا کام کو انجام دیا ہم خداوند عالم سے اپنے اور ان کے لئے مزید توفیقات اور امداد کے طالب ہیں_

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

معارف اسلام پبلشرز

۶

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمین، الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین، ایاک نعبد

و ایاک نستعین، اهدنا الصراط المستقیم

والصلاة والسلام علی محمد المصطفی، خاتم الأنبیاء والمرسلین،

وآله الکرام البرزة الطیبین الطاهرین

واللعنة علی أعدائهم أجمعین، من الأولین والآخرین ، الی یوم الدین و بعد

چند اہم نکات

ہم اپنی اس تحقیق و تالیف کو محترم قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں لہذا چند اہم نکات کی جانب اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں_

۱ _ اکثر و بیشتر ، بنیادی طور پر ہم نے اپنی اس کتاب میں قدماء کی تالیفات کو پیش نظر رکھا اور ان کی جانب رجوع کیا ہے_ ہم عصر مؤلفین کی کتابوں کی جانب کم رجوع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کتابیںصرف مطالب اور ابواب کی ترتیب میں فرق کے ساتھ عموماً اسلاف کے مطالب کا تکرار ہیں ، اور پھر اسلاف کے مطالب ہی کی توجیہ اور اس پر گفتگو کی گئی ہے _ انہوں نے اپنی ساری کوششوں کو اس بات میں صرف کیا ہے کہ حسین عبارتوں اور پر کشش کلمات کے ذریعہ اسلاف کے لکھے ہوئے مطالب کی تایید اور اسی پر تاکید کی جائے اور ان مطالب کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں انہوں نے کوئی غور و فکر ہی نہیں کیا اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی کوئی تحقیق انجام نہیں دی _یہاں تک کہ انہوں نے اپنی کتاب کے قارئین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا اسلاف کے یہ مطالب جو انہوں نے حسین اور عمدہ عبارتوں میں بیان کئے ہیں وحی الہی ہیں جن میں شک و شبہ کی کوئی گنجائشے نہیں _

۷

چاہے یہ مطالب جتنا بھی آپس میں متضاد و متناقض ہوں پھر بھی ان سب کو جمع کرنا انہوں نے ضروری سمجھا اور اس کیلئے ایسی توجیہات تراشی ہیں جنہیں عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی اور نہ ہی انسان کا ضمیر اسے قبول کرتاہے _ اس کے علاوہ اسلاف کے جن مطالب کی وہ توجیہ نہیں کر سکے یا کسی طرح ان کی متضاد باتوں کو جمع کرنے میں ناکام رہے ہیں وہاں انہوں نے خاموشی اختیار کی اور یہ اعتراف کیا ہے کہ یہاں حقیقت حال کو سمجھنے سے وہ عاجز و قاصر ہیں اور یہ ایمان کی انتہائی کمزوری ہے _

۲ _اس کتاب میں ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ ان تمام مطالب کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں تحقیق کریں جن کے تاریخ اسلام اور سیرت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونے کا دعوی کیا گیا ہے لیکن یہ تحقیق ہماری اس مختصر تصنیف کے مطابق کی گئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بقدر امکان قارئین کو اس تاریخی دور کے حقائق سے تقریباً نزدیک کردیا جائے جو انتہائی نازک اور حساس واقعات سے پر نظر آتاہے_ یہ وہ دور ہے جو بنیادی طور پر ہمیشہ اہل دنیا، نفس پرست و منفعت طلب افراد اور متعصب لوگوں کی نظر میں بڑی اہمیت کا حامل رہاہے _

بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ تاریخ انسانیت کا سب سے اہم ترین اور خطرناک ترین دور گزرا ہے کیونکہ اس دور نے نہ فقط انسانی معاشرے کی غلط بنیادوں اور تمام انسانوں کی جاہلانہ اقدار و رسومات کی اصلاح کی بلکہ بنی نوع انسان کی تاریخ کو یکسر بدل کر ایک نئے مرحلے میں داخل کردیا_ اگر چہ اس دور کی تاریخ کو رقم کرنے کیلئے حقیقتاً انتہائی زحمت و مشقت کی ضرورت ہے لیکن اس کی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر (خصوصاً اس صورت میں کہ تمام جوانب سے بحث کامل نہیں )ہم نے اس کام کو انجام دینے کی سعی و کوشش کی ہے اگر چہ ناقص ہی سہی البتہ_ ہماری یہ کوشش و کاوش ، اہم تاریخی و اقعات اور حوادث کو گہرائی کے ساتھمکمل طور پر تحقیقی انداز میں سمجھنے کی جانب پہلا قدم اور سنگ میل ہے _

۳ _ اس کتاب میں مکمل طور پر تمام پہلوں سے بحث کرنے کی روش میں ممکن ہے کبھی قارئین نقائص پائیں اور نشیب و فراز کا مشاہدہ کریں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب ایک طولانی عرصہ میں ترتیب دی گئی ہے اور اس اثناء میں انسان کی بہت ساری مصروفیات مانع ہوجاتی ہیں کہ وہ اپنے وقت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے کام کو کامل ، افضل اور بے مثال طریقہ سے انجام دے سکے _ طبیعی ہے، کہ طولانی مدت میں انسان پر عارض ہونے والے مختلف حالات واضح طور پر انسان کی تحریر پر اثر انداز ہونے کا باعث بنتے ہیں اور نتیجتاً اس کی جانب سے پیش کئے جانے والے مطالب اور ان کے بیان کرنے کی روش میں تھوڑا سا تفاوت پایا جائے _

۸

۴ _ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ تاریخ اسلام نے بہت سے ایسے واقعات نقل کئے ہیں جنہیں ہوا و ہوس کی پیروی کرنے والوں اور سیاسی و مذہبی مفاد پرستوں نے اپنا کھلونا بنالیا _ اہل کتاب اور دیگر افراد کی جانب سے بھی بعض جھوٹے ، باطل اور من گھرٹ قصے شامل کردئے گئے اور پھر گناہ گار اور دشمن عناصر کی جانب سے تاریخ میں تحریف اور تبدیلی کی کوششیں کی گئی ہیں جن کی بناپر بعض اوقات حقائق تک پہنچنا،ناممکن نہ سہی تو حد درجہ دشوار ضرور ہوجاتاہے _ لہذا ہم نے مندرجہ ذیل نکات اور اصولوں کو اپنانا ضروری سمجھا_

الف: خاص قسم کی تالیفات اور مؤلفین پر انحصار کرنا کبھی کبھی سبب بنتاہے کہ قارئین ان نصوص کے بارے میں مطلع نہ ہوسکیں جو یہاں وہاں مختلف منابع میں پھیلی ہوئی ہیں اور حقائق سے پردہ اٹھاسکتی ہیں اور ایک حد تک تحریف سے بچ کر ہم تک پہنچی ہیں _کیونکہ تحریف گر سیاست دانوں نے ان میں کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا اور مذہبی تعصب رکھنے والوں کو اس میں کوئی نقصان نظر نہ آیا اور وہ روایات ہم تک پہنچ گئیں اور حقیقت کے متلاشی اور حق شناسی کے عاشق( جو اگر چہ بہت کم ہیں لیکن وہ )متعصبین کے شر و سازش او رپیشہ ور بلوائیوں کے غضب و شرارت سے محفوظ و مامون رہ کر ان روایات سے استفادہ کرسکتے ہیں _

ب : ان حالات میںہم نے یہ مشاہدہ کیا کہ روایتوں کی اسناد سے بحث اور نتیجتاً ان کو قبول یا رد کرنے کے سلسلہ میں ایک خاص معیار پر اعتماد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بہت ہی کم روایات پر اکتفا کیا جائے جو بہت کلی اور اجمالی مطالب اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجمالی سیرت مبارکہ کے تصور کیلئے بھی ناکافی ہیں چہ جائیکہ وہ اسلام کے ابتدائی دور کے واقعات کی تفصیلات کو بیان کرسکیں _ جبکہ ہم بہت سی ایسی نصوص دیکھتے ہیں جو صحیح ہیں لیکن وہ سند قبول کرنے کی بیان کردہ شرائط پہ پوری نہیں اترتیں_

اس کے علاوہ تحقیق کرنے والا شخص اگر ان محدود روایات پر اکتفاء کرے تو آزادانہ تحقیق نہیں کرسکتا اور نہ ہی آزادی کے ساتھ کسی نتیجے تک پہنچ سکتاہے _اس کے (زمانے ، حالات اور مختلف سیاسی اور فکری خطوط کو سمجھنے کے لئے طویل مشقوں کے بعد حاصل ہونے والے ) عمیق ادراک و فہم کو ہر قسم کی مؤثر فعالیت سے کنارہ کشی کرنا پڑے گی جو تاریخی حقائق کو سمجھنے اور منکشف کرنے کیلئے ضروری ہے تا کہ وہ حقائق ،ابہام کے سیاہ پردوں میں چھپ نہ جائیں_ اس کے علاوہ رجالی بحث کرنے کیلئے ایک شخص کو ایسی بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کیلئے ضروری ہوجائے گا کہ وہ ان پر غلبہ پائے تب وہ سندی بحث کرسکتا ہے کہ کون سی بحث و سند ارباب فکر اور اساطین علم کے نزدیک مقبول و معقول ہے _

ان مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل وہ معیار و ضوابط ہیں جنہیں قبول یا رد کرنے کے میزان کے طور پر پیش

۹

کیا گیا ہے جن میں سے بعض کی بنیاد ان کے اپنے محدود عقائد ہیں _ان میں بہت ساری ابحاث ایسی ہیں جو اگر انسان کے کسی نتیجے تک پہنچنے سے مانع نہ بھی ہوں تو کم از کم انسان کیلئے بے انتہا مشقت اور طویل وقت کے صرف کرنے کا باعث بنتی ہیں_

بعض لوگوں کی طرف سے تو یہ اصرار ہوتاہے کہ بس ان کے محدود نظریات کے مطابق راہ اختیار کی جائے (خصوصاً عقائد کے مسئلہ میں )چاہے ان کے نظریات حقیقت کے ساتھ ہم آہنگ نہ بھی ہوں _ اس قسم کے افراد کے بارے میں ہم صرف یہی کہتے ہیں کہ خداوند متعال ہوا پرستی ، تعصب اور شخصی و گروہی منافع کے پیچھے دوڑنے کی صفت سے نجات عطا فرمائے_

اسی وجہ سے ہم نے یہاں اگر سندی بحث کی بھی ہے تو وہ اس مقبول و معروف قاعدہ کی بناپر ہے : '' الزموہم بما الزموا بہ انفسہم'' یعنی مد مقابل کو اسی چیز کے ذریعہ قائل کرو جس کا وہ خود پابند و قائل ہے _ یا پھر ان بعض طریقوں کے ذریعہ بحث کی ہے جنہیں تمام نہیں تو اکثر فرقے اور گروہ قبول کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ انسان ایسے نتائج تک پہنچ جاتاہے جو سب کے نزدیک قابل قبول ہیں، چاہے ان کو قبول کرنے کی دلیل میں مختلف زمانوں میں ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا رہاہو_

ج: ہم نے اسلام کے بنیادی اصولوں ، قرآن کریم اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخلاق حسنہ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت سے کچھ ایسے اصولوں کو حاصل کیا ہے جو روایات کے قبول اور رد کرنے کا معیار ہیں اور انہی کے ذریعہ نقل کی جانے والی اکثر روایات کی حیثیت واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کس قدر ان مسلم اور بنیادی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ تمام شخصیات کی سیرت، ان کے اخلاق ، ان کے نظریات اور ان کے موقف کو سمجھا جاسکتاہے_

د: اس کے علاوہ ہم نے تاریخی بحث کے مختلف وسائل اور طریقوں سے استفادہ کیا ہے جن کیلئے بہت تمرین و ممارست کی ضرورت ہوتی ہے جیسے نصوص کے تعارض میں بحث کرنا _ یا دقیق تاریخی محاسبات کی روشنی میں تاریخی اعتبار سے کسی واقعہ کے ممکن ہونے کی بحث کرنا اور دیگر وہ طریقے جن سے ہم نے تاریخی ابحاث میں استفادہ کیا ہے اور ہمارے قارئین مطالعہ کے دوران ان کی طرف متوجہ ہوجائیں گے_

۵_ مجموعی طور پر مسلمانوں نے تاریخ اسلام کی تدوین میں بہت اہتمام کیا ہے اور دیگر اقوام وامتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی _ بہر حال تمام نقائص اور وارد ہونے والے اعتراضات کے باوجود حق یہ ہے کہ انہوں نے امت اسلامیہ کی تاریخ کو رقم کیا اور اسے مستغنی کردیا ہے _

تاریخی واقعات کے تمام جوانب اور پہلوؤں سے بحث کرنا ایک مشکل کام ہی نہیں بلکہ ہمارے لئے ناممکن تھا،

۱۰

لہذا ہم نے تاریخ کو رقم کرنے میں ان جوانب سے بحث کی ہے جس کے ذریعہ انسان پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ کی حیات طیبہ کو تقریباً سمجھ سکتاہے اور اس بارے میں حقائق سے آشنا ہوسکتاہے_

۶ _ قارئین محترم کیلئے یہ واضح ہوجائے گا کہ ہم نے اپنی اس کتاب میں جتنے کم سے کم حوالوں ،شواہد ،دلائل اور ان کے منابع کی ضرورت تھی اسی پر اکتفا کیا ہے اگر چہ کتاب کے مطالب و حقائق کی تایید اور ان پر تاکید کیلئے اور بھی زیادہ حوالوں اور شواہد کا اضافہ کیا جاسکتا تھا_

۷_ ہم نے جس نکتہ سے استفادہ کیا یا جس دلیل سے استدلال کیا اسے اس کے قائل ، لکھنے والے یا نقل کرنے والے کی طرف منسوب کیا ہے اس کے علاوہ وہ نکات یا افکار جن کے کوئی منابع ذکر نہیں کئے گئے وہ ہماری اپنی فکر اور ہمارے اپنے نکات ہیں _

۸_ آخر میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ بعض مواقع پر جب فکری نشاط حاصل رہی تو ہم نے فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے بعض واقعات میں ان کی تفسیر یا ان پر تنقید و اعتراضات سے گریز نہیں کیا ، اگر چہ اکثر اوقات ہماری بحث اس جہت سے کامل نہ رہی کیونکہ اکثر اوقات اختصار کے ساتھ اس بحث کو سمیٹ لیا گیا لیکن پھر بھی وہمقامات جہاں اس جہت سے کچھ گفتگو کی گئی ہے قارئین محترم کیلئے باعث تسکین و رضایت ہوں گے جیسا کہ خود لکھنے والے کیلئے ثابت ہوئے ہیں_ اب کتاب کے قاری کو حق حاصل ہے کہ ان استدلالی ابحاث کو پڑھنے کے بعد چاہے اس کی حمایت میں اور چاہے تو اس کی مخالفت میں قضاوت کرے اور اگر اس کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا تب بھی اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ اس کتاب کی گہرائی، دقت اور خوبصورتی میں مزید اضافہ کرے _

ہمارے ان عرائض کے اختتام پر قارئین محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اپنی آراء و مشوروں اور تنقید و اعتراضات سے آگاہ کرکے شکریہ کا موقع دیں گے_

والحمد لله والصلاة والسلام علی عباده الذین

اصطفی محمد و آله الطیبین الطاهرین

والسلام

جعفر مرتضی حسینی عاملی

۱۱

۱۲

تیسرا باب

اعلان نبوت سے لے کر وفات ابوطالب تک

پہلی فصل : ہجرت حبشہ تک

دوسری فصل : ہجرت حبشہ اور اس سے مربوط امور

تیسری فصل : شعب ابوطالب تک کے حالات

چوتھی فصل : شعب ابوطالب میں

پانچویں فصل : ابوطالب مؤمن قریش

۱۳

پہلی فصل

ہجرت حبشہ تک

۱۴

مقدمہ:

اسلام قبول کرنے والوں کا تذکرہ اور بعثت کے بعد کے حالات کو بیان کرنے سے پہلے دو اہم باتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں_

پہلی بات تو یہ کہ اسلام کے اہداف اوردنیاوی زندگی کے حوالے سے اس کے مقاصد کیا ہیں، اور دوسری یہ کہ کسی بھی دعوت کا طبیعی طریقہ کار کیسا ہونا چاہیئے اور اس کی ابتدا کہاں سے ہونی چاہیئے؟

اسلام کے اہداف و مقاصد

سب سے پہلے یہ عرض کرتا چلوں کہ اسلام کا اصل مقصد فقط قیام عدل (اگرچہ اس کے وسیع تر مفہوم کے تناظر میں ہی سہی) نہیں_ کیونکہ اگر مقصد صرف یہی ہو_ تو پھر دین و عقیدے کی راہ میں جہاد کرنے اور جان کی قربانی دینے کا حکم بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ایک انسان تو اپنی جان گنوائے جبکہ دوسرے لوگ زندگی اور اس کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں_ علاوہ ازیں خدا کے نزدیک ایثار اور ایثار کرنے والے کے محبوب اور پسندیدہ ہونے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی _ جس طرح ارشاد خداوندی ہے:( و یؤثرون علی انفسهم و لو کان بهم خصاصة ) (۱)

کیونکہ اگر فقط عدل مقصود و مطلوب ہو تو پھر ایثار کی کوئی گنجائشے نہیں رہتی _نیز کینہ و حسد سے پرہیز کا حکم

___________________

۱_ سورہ حشر آیت ۹_

۱۵

بھی غیرمعقول ہو کر رہ جائے گا _ اس کے علاوہ بھی کئی اور مثالیں ہیں جن کے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں_ خلاصہ یہ کہ مذکورہ و غیرمذکورہ احکام اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسلام کا ہدف صرف قیام عدل میں محدود نہیں بلکہ اس سے بھی اعلی ،اہم اور مقدس ہدف ہے_

اسلام کا حقیقی ہدف انسان کی انسانیت کو پروان چڑھانا اور اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اسے اس قابل بنانا ہے کہ وہ زمین پر خلافت الہی کے منصب کی اہلیت پیدا کرے تا کہ خدا اس کے متعلق یہ دعوی کرسکے_

( و اذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الارض خلیفة ) (۱)

واضح ہو کہ عدل اور دیگر معنوی مقامات اور کمالات اس اعلی اور مقدس ترین ہدف تک پہنچنے کے وسائل اور مراحل میں سے ہیں، یہ ہدف حقیقی عدل سمیت تمام انسانی کمالات و فضائل اور مکمل خوش بختی و کامرانی کا حامل ہے_

یہ ہے اسلام کا بنیادی ہدف جس کے حصول کی تگ و دو کی جاتی ہے_

اس بات کی واضح ترین دلیل درج ذیل آیت ہے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذمہ داریوں میں پیام الہی کو لوگوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو حکمت کی تعلیم دینے اور ان کے تزکیہ و تطہیر کی ذمہ داریوں کو بیان کرتی ہے:( هو الذی بعث فی الامیین رسولاً منهم، یتلو علیهم آیاته، و یزکیهم، و یعلمهم الکتاب و الحکمة، و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ) (۲)

یہ ارشاد بھی قابل غور ہے:

( ما یرید الله لیجعل علیکم من حرج، و لکن یرید لیطهرکم، و لیتم نعمته علیکم، لعلکم تشکرون ) (۳)

___________________

۱_ سورہ بقرہ آیت ۳۰_

۲_سورہ جمعہ، آیت ۲_

۳_سورہ مائدہ، آیت ۶_

۱۶

خدا تمہیں کسی بے جا سختی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک و پاکیزہ کرے اور تم لوگوں پر اپنی نعمتوں کو کامل کرے تاکہ تم شکرگزار بنو_

آیات قرآنی کی طرف رجوع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بہت ساری آیات مذکورہ حقیقت پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں_ بنابرایں مزید دلائل و شواہد اور توضیح و تشریح کی ضرورت باقی نہیں رہتی_

وزیر اور وصی کی ضرورت

جب ہمیں اسلام کے اصلی مقصد کا علم ہوگیا ہے تو ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ یہ مقصد نہایت ہی مشکل اور کٹھن ہے_ اس لئے کہ ابتداء ہی میں یہ ہدف اشخاص کی ذات سے ہی متصادم ہے _ کیونکہ اس مقصد کے تحقق کے لئے افراد کے عزائز اور نفسانی خواہشات پر غلبہ پانا ضروری ہے تاکہ مثالی انسان کی شخصیت تعمیر ہوسکے_ اسی طرح معاشرے کی معاشرتی ، سیاسی اور دیگر اصولوں کی بنیادی تبدیلیوں کا ہدف ہے_ تا کہ شرکی جڑیں اکھاڑ پھینکے اور انحراف کے تمام عوامل و اسباب کو ختم کرڈالے _ اور اس کے بدلے میں خیر ، برکت ، نیکی اور خوشبختی کے تناور درخت اگائے_

جی ہاں یہی تو نہایت مشکل ہدف ہے اور اس سے بڑھ کر مشکل کوئی چیز نہیں _ اس لئے کہ اس کے تحقق اور دوام کے لئے اس وقت تک سخت اور مسلسل جد و جہد کی ضرورت ہے جب تک انسان اپنے اندر وہ تبدیلیاں نہ پالے جس کے لئے خدا نے اسے خلق کیا ہے تا کہ یہ تبدیلیاں اس کی بقاء ، سعادت اور سکون کی عامل بنیں_اور خدا نے بھی انسان کو ان خواہشات پر قابو پانے اور انہیں ہدف مند کرنے کے وسائل فراہم کئے ہیں_ لیکن بسا اوقات یہ وسائل ان خواہشات پر قابو پانے میں ناکام ہوجاتے ہیںاور جب تک ان کے درمیان جنگ جاری ہے انحراف کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں_ اور چونکہ طول زمانہ میں انسان کے وجود کے ساتھ جنگ بھی جاری رہے گی _ اس لئے انحراف اور بھٹکنے کا خطرہ بھی دائمی رہے گا پس انبیاء کو عقل کو مسحور کردینے والی آیتوں کی تلاوت اور اسلامی احکام کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور تزکیہ کی مہم پر توجہ دینے ،

۱۷

انسانی اور اخلاقی فضائل کو انسان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھرنے اور پھر اس کی تطبیق اور اس دائمی کشمکش کی نگرانی کرنے کی ضرورت رہے گی _انہی باتوں سے نبی کے وزیر ، وصی ، مددگار ، بھائی اور حامی کی ضرورت واضح ہوتی ہے _ پس رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی جانب سے خلافت پر حضرت علیعليه‌السلام کی تنصیب ،راہ جہاد اور دعوت الی اللہ کے سلسلے میں ایک عقلمندانہ فیصلہ تھا _ پس دعوت ذوالعشیرة اور اس میں حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ، وزیر اور خلیفہ کے عنوان سے حضرت علیعليه‌السلام کی تنصیب کا واقعہ ان بہت زیادہ واقعات میں سے ایک ہے جن میں اس امر خلافت پر قوت اور شدت کے ساتھ تاکید کی گئی ہے_ دعوت ذوالعشیرة کا واقعہ کچھ یوں ہے:

دعوت ذوالعشیرہ

بعثت کے ابتدائی تین سالوں کے بعد ایک اہم، جدید اورکٹھنمرحلہ کا آغاز ہوا اور وہ تھا اسلام کی طرف اعلانیہ دعوت کا مرحلہ_

پہلے پہل نسبتاً ایک محدود دائرے سے اس کی ابتدا ہوئی کیونکہ خدا کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی_ (وانذر عشیرتک الاقربین)(۱) یعنی اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو (کفر و گمراہی کے عذاب سے) ڈراؤ_

مؤرخین کے بقول ( الفاظ تاریخ طبری کے ہیں) جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو بلاکر کھانا تیار کرنے اور بنی عبدالمطلب کو دعوت دینے کا حکم دیا تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ساتھ گفتگو کرکے حکم الہی کو ان تک پہنچاسکیں_

پس حضرت علیعليه‌السلام نے ایک صاع (تقریباً تین کلو) آٹے کی روٹیاں تیار کرائیں اور بکرے کی ایک ران بھی پکالی نیز دودھ کا کاسہ بھی بھر کر رکھ دیا_ بعدازاں انہیں دعوت دی حالانکہ اس وقت ان کی تعداد چالیس کے لگ بھگ تھی جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ابوطالب، حمزہ، عباس اور ابولہب بھی شامل تھے_ حضرت علیعليه‌السلام کا

___________________

۱_ سورہ شعرائ، آیت ۲۱۴_

۱۸

بیان ہے کہ انہوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا لیکن کھانا جوں کا توں رہا صرف انگلیوں کے نشان دکھائی دے رہے تھے_ قسم ہے اس خدا کی جس کے ہاتھ میں علی کی جان ہے وہ کھانا جو میں نے ان کیلئے تیار کیا وہ سارے کا سارا ان میں سے ایک آدمی کھا سکتا تھا_ اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں دودھ پلانے کا حکم دیا_ میں دودھ کا برتن لیکر ان کے پاس آیا انہوں نے جی بھر کر پیا_ خدا کی قسم وہ سارا دودھ ان میں سے اکیلا آدمی پی سکتا تھا_ اس کے بعد جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے گفتگو کرنی چاہی تو ابولہب نے پہل کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے ساتھی نے تم پر کیسا سخت جادو کردیا_ یہ سن کر وہ لوگ متفرق ہوگئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ان سے گفتگو نہ کرسکے_

دوسرے دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو حسب سابق دعوت دینے کا حکم دیا_ چنانچہ جب لوگ کھا پی کر فارغ ہوگئے تو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:'' اے آل عبدالمطلب خدا کی قسم جہاں تک مجھے علم ہے عرب کا کوئی جوان آج تک اپنی قوم کیلئے کوئی ایسا تحفہ لیکر نہیں آیا جس قسم کا تحفہ میں لایا ہوں_ میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی سعادت کا تحفہ لیکر آیا ہوں خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف دعوت دوں_ اب تم میں سے کوئی ہے جو اس امر میں میرا ہاتھ بٹائے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین قرار پائے''_ یہ سن کر سب چپ ہوگئے حضرت علیعليه‌السلام نے عرض کیا: ''اے اللہ کے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس امر میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہاتھ بٹاؤں گا''_ (حضرت علیعليه‌السلام کہتے ہیں کہ) یہ سن کر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: ''بے شک یہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین ہے، پس اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو''_

حضرت علیعليه‌السلام کا کہنا ہے کہ وہ لوگ ہنستے ہوئے اور جناب ابوطالب سے یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ لو اب اس نے تجھے حکم دیا ہے کہ اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو_ بعض روایات میں صریحاً بیان ہوا ہے کہ جب حضرت علیعليه‌السلام نے اٹھ کر جواب دیا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو بٹھا دیا اور اپنی بات کا تکرار کیا_ حضرت علیعليه‌السلام نے بھی دوبارہ وہی جواب دیا_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر آپ کو بٹھا دیا اور حاضرین کے سامنے تیسری بار اپنی بات دہرائی_ لیکن سوائے علیعليه‌السلام کے کسی نے بھی جواب نہ دیا_ اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مذکورہ کلمات ارشاد فرمائے_

۱۹

اسکافی کی تصریح کے مطابق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''یہ ہے میرا بھائی، میرا وصی اور میرے بعد میرا جانشین''_ یہ سن کر حاضرین نے ابوطالب سے کہا:'' لو اب اپنے بیٹے کی اطاعت کرو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تو اسے تمہارے اوپر حاکم بنادیا ہے''_(۱)

اندھا تعصّب

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ طبری نے اپنی تاریخ میں تو اس حدیث کو مذکورہ بالا انداز میں بیان کیا ہے_ لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ بعد میں وہ پشیمان ہوا کیونکہ اس نے اپنی تفسیر میں مذکورہ حدیث کو متن و سند کی رو سے مکمل طور پر اور حرف بہ حرف نقل کیا ہے البتہ ایک عبارت میں تحریف کی ہے اور اسے یوں ذکر کیا ہے:

( فایکم یوازرنی علی هذا الامر، علی ان یکون اخی، وکذاوکذا ) (۲)

___________________

۱_ اس واقعہ کے سلسلہ میں مراجعہ ہو، تاریخ طبری ج ۲ ص ۶۳، مختصر التاریخ ابوالفدء ج ۲ ص ۱۴ (دار الفکر بیروت)، شواہد التنزیل ج ۱ ص ۳۷۲ و ص ۴۲۱ و کنز العمال طبع دوم ج ۱۵ ص ۱۱۶_۱۱۷ و ۱۱۳ و ۱۳۰ از ابن اسحاق و ابن جریرجبکہ احمد، ابن ابوحاتم، ابن مردویہ، ابونعیم اور بیہقی نے الدلائل میں اور تاریخ ابن عساکر میں اسے صحیح ہے ،تاریخ ابن عساکر نیز زندگی نامہ امام علی (بتحقیق محمودی) ج۱، ص ۸۷_۸۸، شرح نہج البلاغة (معتزلی) ج ۱۳ ص ۲۴۴ از اسکافی، حیات محمد ( ھیکل) طبع اول ص ۲۸۶ و کامل ابن اثیر ج ۲ ص ۶۲،۶۳، السیرة الحلبیة ج ۱ ص ۲۸۶، مسند احمد ج ۱ ص ۱۵۹ نیز رجوع کریں کفایة الطالب ص ۲۰۵ از ثعلبی، منھاج السنة ج ۳ ص ۸۰ از بغوی و ابن ابی حاتم و واحدی و ثعلبی و ابن جریر نیز مسند احمد ج ۱ ص ۱۱۱ و فرائد السمطین بہ تحقیق محمودی ج ۱ ص ۸۶ و اثبات الوصیة (از مسعودی) ص ۱۱۵ و ص ۱۱۶ والسیرة النبویة ابن کثیر ج ۱ ص ۴۶۰،۴۵۹، الغدیر ج ۲ ص ۲۷۸،۲۸۴ بعض مذکورہ کتب سے اور انباء نجباء الابناء ص ۴۶،۴۷ سے نیز شرح الشفا_ (خفاجی) ج ۳ ص ۳۷ و تفسیر خازن ج ص ۳۹۰ و کتاب سلیم بن قیس وغیرہ اور خصائص نسائی ص ۸۶ حدیث ۶۳ نیز رجوع کریں بحارالانوار ج ۳۸ و درمنثور ج ۵ ص ۹۷ از منابع کنز العمال لیکن اس نے اس میں تحریف کی ہے نیز مجمع الزوائد ج ۸ ص ۳۰۲ کچھ کمی کے ساتھ و ینابیع المودة ص ۱۰۵ و غایت المرام ص ۳۲۰ ابن بطریق کی کتاب و العمدة و تفسیر ثعالبی و تفسیر طبری ج ۱۹ ص ۷۵ و البدایة و النہایة ج ۳ ص ۴۰ و تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۳۵۰و۳۵۱_

۲_تفسیر طبری ج ۱۹ ص ۷۵ _

۲۰

''تم میں سے کون اس امر میں میرا مددگار ہوگا تاکہ وہ میرا بھائی اوروغیرہ وغیرہ ہو یہاں تک کہ فرما یا یہ میرا بھائی وغیرہ وغیرہ ہے''_*

ابن کثیر شامی نے بھی یہاں طبری کی تقلید کی ہے چنانچہ اس نے اس حدیث کو تاریخ طبری کی بجائے تفسیر طبری سے نقل کیا ہے حالانکہ تاریخ لکھتے وقت اس نے تاریخ طبری پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اپنی تاریخ کا ماخذ قرار دیا ہے_(۱)

اسی طرح محمد حسین ھیکل (مصری) نے بھی ''حیات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' نامی کتاب کے پہلے ایڈیشن کے صفحہ ۱۰۴ پر تاریخ طبری سے مذکورہ حدیث نقل کی ہے لیکن دوسرے ایڈیشن مطبوعہ (۱۳۵۴ ھ) کے صفحہ ۱۳۹ میں ''و خلیفتی فیکم'' کے الفاظ حذف کردیئے اور ''و یکون اخی و وصیی'' لکھنے پر اکتفا کیا ہے_ یہ کام اس نے پانچ سو جنیة (مصری کرنسی) کی وصولی یا اس کتاب کے ایک ہزار نسخوں کی خریداری کے عوض انجام دیا_(۲)

ابن تیمیہ اور حدیث الدار(۳)

ادھر ابن تیمیہ نے بھی سید الاوصیاء امیرالمومنین حضرت علیعليه‌السلام کے فضائل کو جھٹلانے کے سلسلے میں اپنی عادت کے مطابق حدیث دار کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے_ ابن تیمیہ نے اس حدیث پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے_

___________________

۱_ تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۳۵۱ نیز البدایة و النہایة ج ۳ ص ۴۰ والسیرة النبویة از ابن کثیر ج ۱ ص ۴۵۹_

خلاصہ یہ کہ طبری نے اپنی تفسیر میں ''وصیی وخلیفتی فیکم'' کے الفاظ کو حذف کر کے انکی جگہ کذا وکذا کے مبہم الفاظ لکھ کر تحریف میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا ہے_ (مترجم)

۲_ رجوع کریں: فلسفة التوحید و الولایة ص ۱۷۹ و ص ۱۳۲ و سیرة المصطفی ص ۱۳۱ و۱۳۰_

۳_ دعوت ذوالعشیرہ والی روایتیں حدیث الدار اور حدیث انذار کے نام سے بھی معروف ہیں لیکن اردو میں یہ واقعہ دعوت ذوالعشیرہ سے ہی معروف ہے (مترجم)_

۲۱

۱) طبری کی روایت کے سلسلہ سند میں ابومریم کوفی بھی ہے جس کے متروک ہونے پر سب کا اتفاق ہے_ احمد نے کہا ہے کہ ''وہ ثقہ نہیں''_ ابن مدینی نے اس پر حدیث گھڑنے کا الزام لگایا ہے_

۲) روایت کے مطابق حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عبدالمطلب کی اولاد کو جمع کیا جس کی تعداد چالیس تھی حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت آل عبدالمطلب کے مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ نہ تھی_

۳) روایت کا یہ بیان کہ ان میں سے ایک شخص اکیلا ہی ایک پورا بکرا کھا جاتا اور اکیلا ہی ایک فُرق(۱) دودھ پی جاتا تھا جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ بنی ہاشم میں کوئی شخص ایک بکرا ہڑپ کرنے یا ایک فرق دودھ پی جانے میں معروف نہ تھا_

۴) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت میں مثبت جواب دینے کا مطلب یہ نہ تھا کہ جواب دینے والا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وصی اور خلیفہ بن جاتا کیونکہ تمام مومنین نے اسلام کی دعوت پر لبیک کہی اس امر میں آپ کی مدد کی نیز اسلام کی راہ میں جان و مال کی قربانی بھی دی علاوہ براں اگر چالیس یا ان میں سے کچھ افراد اکٹھے مثبت جواب دیتے تو کیا وہ سب کے سب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلیفہ بن جاتے؟

۵) جناب حمزہ، جعفر اور عبیدہ ابن حرث نے بھی حضرت علیعليه‌السلام کی طرح مثبت جواب دیا تھا بلکہ جناب حمزہ نے تو مومنین کی تعداد چالیس ہونے سے پہلے اسلام قبول کیا تھا_(۲)

ابن تیمیہ کے اعتراضات کا جواب

ابن تیمیہ کے اعتراضات حقیقت سے دور اور سب کے سب بے بنیاد ہیں کیونکہ

___________________

۱_ فرق ایک پیمانہ ہے تین صاع یعنی تقریباً نوکلو_

۲_ منہاج السنة ج ۴ ص ۸۱،۸۳_

۲۲

پہلے اعتراض کا جواب

ابومریم کے بارے میں اس کے اعتراض کا جواب ابن عدی کا یہ قول ہے کہ ''میں نے ابن عقدہ کو ابومریم کی تعریف و تمجید کرتے سنا اور اس نے اس کی انتہا درجے کی تعریف بیان کی ہے''_(۱) شعبہ نے بھی اس کو سراہا ہے_(۲) ذہبی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ صاحب علم تھا اور علم رجال میں دسترس رکھتا تھا_(۳) ان باتوں کے علاوہ بعض حضرات نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ابومریم کو غیرمعتبر قرار دینے کی وجہ اس کا شیعہ ہونا ہے جبکہ واضح ہے کہ یہ بات اس کے خلاف نہیں جاتی کیونکہ اصحاب صحاح خصوصاً بخاری اور مسلم نے دسیوں اہل تشیع (شیعوں) سے احادیث نقل کی ہیں_(۴) ان تمام چیزوں سے قطع نظر ، متقی ہندی نے طبری سے نقل کیا ہے کہ اس نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے_(۵) اسی طرح اسکافی معتزلی نے بھی اسے صحیح جانا ہے_(۶) اور خفاجی نے بھی شرح الشفا میں اس حدیث کی صحت کو قبول کیا ہے_(۷) احمد بن حنبل نے اس حدیث کو اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس کے تمام افراد صحاح ستہ کے غیرمتنازعہ افراد ہیںاس سند کے راوی یہ ہیں: شریک، اعمش، منہال، عباد اور حضرت علیعليه‌السلام _(۸) اگر مذکورہ اعتراض کو تسلیم کر بھی لیں پھر بھی اس حدیث کی اسناد مستفیضہ ہیں(۹) اور یہ اسناد ایک

___________________

۱_ الغدیر ج ۲ ص ۲۸۰ و لسان المیزان ج ۴ ص ۴۳ کی طرف رجوع کریں_

۲_ لسان المیزان ج ۴ ص ۴۲_

۳،۴_ میزان الاعتدال ذہبی ج ۲ ص ۶۴۰،۶۴۱ و لسان المیزان ج ۳ ص ۴۲ _

۵_ کنز العمال ج ۱۵ ص ۱۱۳_

۶_ شرح نہج البلاغة (معتزلی) ج ۱۳ ص ۲۴۴ کی جانب رجوع کریں_

۷_ الغدیر ج ۲ ص ۲۸ کی طرف رجوع کریں_

۸_ الغدیر و نیز مسند احمد ج ۱ ص ۱۱۱ کی طرف رجوع کریں_

۹_ علم حدیث میں مستفیض اور استفاضہ ایک اصطلاح ہے جس کا معنی راویوں کی ایسی کثرت ہے (یعنی روایت کو کثیر راویوں نے نقل کیا ہو) جس سے یہ اطمینان ہوجائے کہ روایت سچی ہے ، لیکن اس کا درجہ حدیث متواتر سے قدرے کم ہے _ (مترجم)

۲۳

دوسرے کی تقویت کرتی ہیں_ بنابریں کسی ایک سند میں کسی راوی کے ضعف سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا_

اس سے بھی زیادہ عجیب بات بعض لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ کتب حدیث میں اس واقعہ کے بعد مسئلہ خلافت کا تذکرہ نہیں ہوا ہے، کیونکہ جو شخص مذکورہ بالا مآخذ کی طرف رجوع کرے گا وہ جان لے گا کہ مسئلہ خلافت کا تذکرہ دسیوں منابع اور مسانید میں ہوچکا ہے_

رہی ابوحاتم کی روایت تو اسکے سلسلہ سند پر اس وجہ سے اعتراض ہوا ہے کہ اس میں عبداللہ بن عبدالقدوس موجود ہے جسے دار قطنی نے ضعیف قرار دیا ہے نسائی کا کہنا ہے ''وہ ثقہ نہیں ہے'' اور ابن معین کہتا ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں وہ تو خبیث رافضی ہے_

ان باتوں کے جواب میں شیخ مظفر فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عبدالقدوس پر ان لوگوں کا اعتراض غلط ہے اور تقریب نامی کتاب میں ابن حجر کے اس قول '' انہ صدوق ( وہ راستگو ہیں ) '' سے متصادم ہے ادھر تہذیب التھذیب میں محمدبن عیسی کا قول درج ہے کہ وہ ثقہ ہیں_ نیز ابن حبان نے بھی اسے ثقات میں شمار کیا ہے_بخاری کا کہنا ہے'' حقیقت میں وہ راستگو ضرور ہے لیکن ضعیف القول افراد سے حدیث نقل کرتا ہے''_ علاوہ ازیں وہ سنن ترمذی کے راویوں میں بھی شامل ہے_

پس انہی مذکورہ افراد کی تعریف ہی مقدم ہے کیونکہ اختلاف مذہب کی بنا پر ایک دوسرے کی مخالفت قابل اعتبار نہیں_ ہاں اگر ایک مخالف دوسرے کی تعریف کرے تو مقبول ہے_ ظاہر ہے ان لوگوں نے تشیع کے جرم میں اس پر مذکورہ الزامات لگائے ہیں_ اگرچہ ہم اسے شیعہ راویوں میں سے شمار نہیں کرتے_

لیکن ابن عدی کا بیان ہے کہ عموماً اہلسنت حضرات فضائل اہلبیتعليه‌السلام کے بارے میں احادیث نقل نہیں کیاکرتے اور شاید اس (عبداللہ بن عبدالقدوس) پر ان کے الزامات کا راز بھی یہی ہو_(۱)

___________________

۱_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۲۳۴_

۲۴

دوسرے اعتراض کا جواب

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ''عبد'' کا اضافہ راویوں نے کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بعض روایات میں صریحاً بیان ہوا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی ہاشم کو دعوت دی_(۱) کچھ اور روایات میں یوں ذکر ہوا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام بنی عبدالمطلب کو اور بنی مطلب کے بعض افراد کو دعوت دی(۲) بنابرایں شاید راوی نے غلط فہمی سے مطلب کی جگہ عبدالمطلب لکھ دیا ہے_ اس قسم کی غلطیاں اکثردیکھنے میں آتی ہیں_ اس بیان کی روشنی میں واضح ہوا کہ مذکورہ اعتراض اصل واقعہ (جو متفق علیہ ہے) کے جھٹلانے کا باعث نہیں بن سکتا_ جب حضرت عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے اور اس وقت ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر بھی ساٹھ سال کے قریب تھی پھر جب ان کی اولاد کو بھی ساتھ ملالیں تو کیسے چالیس تک نہیں پہنچیںگے ؟ بلکہ وہ تو اس سے بھی بہت زیادہ ہوجائیں گے پس اس تعداد کو بعید جاننے کی کیا وجہ ہے؟

تیسرے اعتراض کا جواب

شیخ مظفر نے اس کا جواب یوں دیا ہے_ ''کھانے پینے میں ان کا مشہور نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ حقیقت میں بھی وہ ایسے نہ تھے بلکہ ان کا ایسا ہونا عین ممکن ہے اور اگر ہم تسلیم کرلیں کہ وہ اس حد تک نہ کھاتے تھے تو پھر مذکورہ بات سے یہی مطلب نکلتا ہے کہ راوی نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس معجزے کو بیان کرنے میں مبالغہ سے کام لیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھیڑ کی ایک ران سے ان سب کو سیر کیا اور دودھ کے ایک برتن سے انہیں سیراب کیا''_(۳)

___________________

۱_ السیرة النبویة از ابن کثیر ج ۱ ص ۴۵۹ از ابن ابی حاتم نیز البدایة و النہایة ج ۳ ص ۴۰ اور رجوع کریں کنز العمال ج ۱۵ ص ۱۱۳، مسند احمد ج ۱ ص ۱۱۳، تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۳۵۰، ابن عساکر، زندگی نامہ امام علی بہ تحقیق المحمودی ج ۱ ص ۸۷ و اثبات الوصیة (مسعودی) ص ۱۱۵ تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۷ اور مسند البزار خطی نسخہ در کتابخانہ مراد نمبر ۵۷۸_

۲_ الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۶۲_

۳_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۲۳۵ _

۲۵

چوتھے اعتراض کا جواب

شیخ مظفر فرماتے ہیں کہ یہ اعتراض بھی درست نہیں کیونکہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذکورہ بیان استحقاق خلافت کیلئے علت تامہ کی حیثیت نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات کا دعوی کیا تھا_ اگر ایسی بات ہوتی تو پھر آپ کے رشتہ داروں کے علاوہ دیگر لوگ بھی اس کے مستحق ٹھہرتے_ بلکہ آپ کو حکم ہوا تھا کہ اپنے رشتہ داروں کو خبردار کریں کیونکہ آپ کی حمایت و نصرت کیلئے یہی لوگ زیادہ مناسب تھے_ بنابرایں یہ مقام فقط انہی کیلئے مختص ہوا_

نیز آپ کا مقصد ابتدا میں ہی یہ بتا دینا تھا کہ یہ مقام علیعليه‌السلام کے ساتھ مختص ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بخوبی علم تھا کہ نبی کی دعوت پر لبیک کہنے اور آپ کی مدد کرنے والا علیعليه‌السلام کے سوا کوئی نہ ہوگا_ بنابرایں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا یہ طرز عمل لوگوں کے اوپر اتمام حجت کرتے ہوئے حضرت علیعليه‌السلام کی امامت کے اثبات کےلئے تھا_ اگر بالفرض آپ کی دعوت پر دوسرے افراد بھی لبیک کہتے تو آپ ان لوگوں کے درمیان میں سے زیادہ مناسب فرد کا انتخاب فرماتے_(۱)

محقق جلیل سید مہدی روحانی نے شیخ مظفر کے مذکورہ بیان کی یوں وضاحت کی ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خطاب سب کیلئے تھا لیکن آپ ان لوگوں کی فطری عادتوں، خصلتوں اور طبیعتوں کے پیش نظر جانتے تھے کہ سوائے علیعليه‌السلام کے ان میں سے کوئی بھی ہامی نہیں بھرے گا_ مزید یہ کہ خدا نے بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس امر کی اطلاع دی تھی_ قول مصنف: اس حقیقت کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جسے ہم سید ابن طاؤوس کی زبانی بحارالانوار سے نقل کریں گے_ بحار میں''ماذا قال النبی یوم الانذار'' (نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ کے دن کیا فرمایا) کے عنوان سے اس کا تذکرہ ہوا ہے_

وہاں پر ہم نے یہ عرض کیا ہے کہ یہی روایت قرآن کی آیت سے ہم آہنگ ہے_ کیونکہ اسحدیث میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''خدا نے کسی بھی نبی کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے قریبوںمیں سے کسی کو اس کا بھائی وزیر، وصی اور وارث قرار دیا ہے_ یقینا اس نے گذشتہ انبیا کی طرح میرے لئے بھی ایک وزیر مقرر کیا ہے''_

___________________

۱_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۲۳۶_

۲۶

پھرفرمایا:'' اللہ کی قسم اس نے مجھے اس بات کی خبر دی ہے اور اس کا نام بھی مجھے بتادیا ہے لیکن اس اللہ کا حکم یہ ہے کہ میں تمہیں دعوت دے کر نصیحت کروں اور اس مسئلے کو تمہارے سامنے پیش کروں تاکہ آئندہ تمہارے پاس کوئی بہانہ نہ رہے اور حجت تمام ہوجائے''_(۱)

محقق روحانی نے اس بات کا بھی احتمال دیا ہے کہ شاید حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقصد یہ ہو کہ اس خطاب کے نتیجے میں کوئی ایک فرد جواب دیدے_ اسی لئے ان سے فرمایا ''تم میں کون ہے جو میرا ہاتھ بٹائے'' بنابرایں سب سے پہلے لبیک کہنے والا ہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وعدے کا مستحق ٹھہرتا_ ایک سے زیادہ افراد کا جواب دینا بہت بعید ہے اور عرف عام میں اس احتمال کی کوئی وقعت نہیں_ بالخصوص یہ اعتراض اس وقت ہوسکتا ہے جب ایک سے زیادہ افراد باہم جواب دیتے حالانکہ یہ تو اور بھی بعید تھا_

اس پر مزید یہ کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو علم تھا کہ ان میں سے سوائے ایک فرد کے کوئی بھی مدد کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگا_

البتہ بعض بزرگان کا کہنا ہے کہ رسول کی مدد سے مراد چند امور میں ہاتھ بٹانا ہوہی نہیں سکتا _ کیونکہ تمام اصحاب اپنے مرتبے کے اختلاف کے باوجود بھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے پس یہاں پر نصرت سے مراد تمام امور اور حالات میں مدد کرنا ہے_ اور دین میں مکمل مدد صبر اور علم کے بلند مرتبہ اور درجہ عصمت تک بلندی روح کی متقاضی ہے _ جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف مذکورہ صفات کا حامل ہی امامت کا مستحق ہوسکتا ہے _ کوئی اور شخص مثلا ظالم آدمی نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا فرماتا ہے '' لا ینال عہدی الظالمین'' میرا عہدہ ظالموں کو نہیں مل سکتا_ اور ایسا شخص صرف علیعليه‌السلام ہی ہوسکتا ہے_

قول مصنف : حضرت علیعليه‌السلام کی امامت اور خلافت نبی کی طر ف سے بھی نہیں بلکہ خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے تا کہ مانگی گئی اور ترغیب دی گئی مدد کا نتیجہ بنے_ حالانکہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے کہ علیعليه‌السلام کے سوا اور کوئی جواب دینے والا نہیں ہے_ پس دعوت ذوالعشیرہ کا ماجرا ا تمام حجت کے لئے تھا تا کہ کوئی بہانہ بھی باقی نہ رہے پس جناب مظفر صاحب کی بات ہی بہتر اور حقیقت کے قریب ہے_

___________________

۱_ بحارالانوار ج ۱۸ ص ۲۱۵،۲۱۶ نے سعد السعود ص ۱۰۶ سے نقل کیا ہے_

۲۷

پانچویں اور آخری اعتراض کا جواب

یہ آخری اعتراض تو کسی صورت میں بھی درست نہیں کیونکہ اولاً: جناب حمزہعليه‌السلام کا قبول اسلام اس وقت مانع بن سکتا ہے جب یہ آیہ انذار کے نزول سے قبل واقع ہوا ہو اور ہم تو اس کا احتمال بھی نہیں دے سکتے چہ جائیکہ اس کا یقین کریں_

کیونکہ جناب حمزہعليه‌السلام کے قبول اسلام کی کیفیت میں منقول روایات کی رو سے صریحاً نہیں تو بظاہر یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آپ اعلانیہ دعوت اسلام کے بعد اس وقت مسلمان ہوئے جب قریش کھل کر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت پر اتر آئےتھے اور حضرت ابوطالب کے ساتھ ان کے مذاکرات بھی ہوچکے تھے_

ثانیاً: اگر ہم مذکورہ بات کو تسلیم بھی کرلیں(۱) تو ممکن ہے دعوت ذوالعشیرہ کا واقعہ خفیہ دعوت کے دوران اورجناب حمزہ کے قبول اسلام سے پہلے پیش آیا ہو_ البتہ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب حضرت حمزہ کا قبول اسلام بعثت کے دوسرے سال واقع ہوا ہو اورجناب حمزہ اور ابوجہل کے درمیان پیش آنے والا واقعہ ایک حد تک دعوت اسلام کو آشکار کرنے کا باعث بنا ہو_ اور قریش نے خفیہ دعوت کے دوران ہی نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہو_ رہا مسئلہ دوسرے مسلمانوں کا تو ان کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روابط مخصوص طرز پر تھے اور ان کے قبول اسلام کے بارے میں رازداری برتی جاتی تھی_ ہماری بات کی تائید اس آیت (فاصدع بما تو مر) سے ہوتی ہےکیونکہ اسی آیت کے باعث اسلام کی خفیہ دعوت نے اعلانیہ دعوت کی شکل اختیار کرلی اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دعوت ذوالعشیرہ کا واقعہ اس سے پہلے کا ہے_

ثالثاً: اگر حضرت حمزہ اس وقت اسلام لابھی چکے ہوتے تو ان کی مثال حضرت ابوطالب جیسی تھی اور ان دونوں نے اپنے آپ کو اس دعوت کا مطلوب و مقصود ہی نہ سمجھا تھا (یعنی ان دونوں کو علم تھا کہ اس دعوت سے ہم مراد نہیں ہیں) خصوصاً جب وہ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان کا زندہ رہنا نہایت مشکل ہے_ کیونکہ حضرت حمزہ تقریباً حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم عمر تھے اور حضرت ابوطالبعليه‌السلام تو نہایت عمر رسیدہ تھے اور حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات تک

___________________

۱_ کہ جناب حمزہعليه‌السلام نے خفیہ دعوت اسلام کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا _ (مترجم)

۲۸

ان کے زندہ رہنے کی توقع نہ تھی_ بنابرایں اس بات کی گنجائشے نہ تھی کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین بننے کیلئے پیش کرتا_

خلاصہ یہ کہ ابن تیمیہ کے سارے اعتراضات بے حقیقت سراب کی مانند ہیں یا اس راکھ کی طرح ہیں جسے تند و تیز ہوا اڑا کر لے جائے_

واقعہ انذار اور چند اہم نکات

الف_ غیر معتبر روایتیں

ابن تیمیہ نے اس قسم کی احادیث کو تقویت دینے کی کوشش کی ہے جو نہ صرف حضرت علیعليه‌السلام اور اہل بیت کو منظر سے ہٹا دیتی ہیں بلکہ عمومی طور پر بنی ہاشم کو بھی نظروں سے اوجھل کردیتی ہیں_ مثال کے طور پر بخاری اور مسلم و غیرہ کی وہ روایات جو کہتی ہیں کہ جب آیہ( و انذر عشیرتک الاقربین ) اتری تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے قریش کو جمع کیا، جب سب جمع ہوگئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمومی اور خصوصی دعوت دے کر فرمایا:'' اے بنی کعب بن لوی اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، اے بنی مرة بن کعب اپنے آپ کو عذاب آتش سے بچاؤ، اے بنی ہاشم آتش الہی سے بچو، اے بنی عبدالمطلب عذاب آتش سے بچو_ اور اے فاطمہ بنت محمد آتش الہی سے اپنے آپ کو بچاؤ''_(۱) آخر روایت تک_

ایک اور روایت میں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی ہاشم کو جمع کیا، مردوں کو دروازے کے سامنے بٹھایا اور عورتوں کو گھر کے اندر بٹھایا پھر بنی ہاشم سے بات چیت کی_ اس کے بعد اپنے گھر والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:'' اے عائشہ بنت ابوبکر اے حفصہ بنت عمر اے ام سلمہ اے فاطمہ بنت محمد اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی چچی ام

___________________

۱_ رجوع کریں: منھاج السنة ج ۴ ص ۸۳ و درالمنثور ج ۵ ص ۹۵ اور ۹۶ از احمد، عبد بن حمید، بخاری، مسلم، ترمذی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور بیہقی نے حضرت عائشہ ، انس، عروہ بن زبیر، براء اور قتادہ سے نقل کیا ہے نیز تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۲۸۷_

۲۹

زبیر رضائے الہی کے بدلے اپنی جانوں کا سودا کرواور اپنی نجات کیلئے جدوجہد کرو_ میں خدا کی جانب سے تمہارے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتا''_ یہ سن کر حضرت عائشہ رو پڑی اور کہا (اس کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور حضرت عائشہ کے درمیان گفتگو کا تذکرہ ہے)_(۱)

ان کے علاوہ دیگر روایات بھی منقول ہیں جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے قریش کو دعوت دینے اور ان کو ڈرانے کا تذکرہ موجود ہے_ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایات درست نہیں ہوسکتیں کیونکہ:_

۱) جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ اس وقت تک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی _

۲) حضرت عائشےہ،(۲) حضرت حفصہ اور ام سلمہ سے اس وقت تک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی شادی ہی نہیں ہوئی تھی اور نہ وہ آپ کے اہل میں شامل تھیں ان تینوں سے آپ کی شادی کئی سال بعد مدینے میں ہوئی_

۳) یہ روایات ان احادیث کے منافی ہیں جن کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کو اس وقت دعوت اسلام دی جب (فاصدع بما تو مر ...) والی آیت نازل ہوئی_ اور '' و انذر عشیرتک الاقربین'' والی آیت کے نزول پر قریش کو دعوت نہیں دی تھی_

۴) یہ روایات خود قرآن کی آیت( انذر عشیرتک الاقربین ) کی بھی مخالف ہیں کیونکہ یہ آیت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہ تو تمام قبیلہ والوں کو دعوت کا حکم دیتی ہے اور نہ ہی تمام لوگوں کو بلکہ صرف اپنے قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم دیتی ہے _ظاہر ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبی رشتہ دار یا تو بنی ہاشم ہوسکتے ہیں یا بنی عبدالمطلب اور بنی مطلب_

___________________

۱_ درالمنثور ج۵ ص ۹۶ از طبرانی و ابن مردویہ از ابی امامہ_ یہ روایات دیگر متعدد منابع میں بھی موجود ہیں خصوصاً جن مآخذ کا ذکر ہم نے اس بحث کی ابتدا میں کیا تھا_

۲_ عجیب بات تو یہ ہے کہ ان کے عقیدے کی رو سے حضرت عائشہ بعثت کے پانچویں سال پیدا ہوئیں اور دعوت ذوالعشیرہ کا واقعہ بھی اسی سال کی بات ہے یوں وہ صریحاً تضاد گوئی کے شکار ہوئے ہیں_ اگرچہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ بعثت سے کئی سال قبل پیدا ہوئیں جس کی طرف اشارہ ہوگا_ انشاء اللہ تعالی_

۳۰

واقعہ انذار کے کئی بار واقع ہونے کا قول بھی اس ا شکال کو دور نہیں کرسکتا_ کیونکہ روایات صریحاً کہتی ہیں کہ یہ واقعہ مذکورہ آیت کے نزول کے ساتھ ہی پیش آیا_

ان باتوں کے علاوہ یہ روایات اسناد کے لحاظ سے بھی قابل اعتراض ہیں کیونکہ ان احادیث کے راویوں میں سے کوئی بھی مورخین کے بقول دعوت ذوالعشیرہ کے وقت موجود نہ تھا_

ب_ '' خلیفتی فی اھلی ''سے کیا مراد ہے؟

شیخ مظفر کے بقول یہ بات واضح ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے''خلیفتی فیکم'' یا''خلیفتی فی اهلی'' فرمانے پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا کیونکہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیک وقت دو ایسے خلیفے نہیں ہوسکتے جن میں سے ایک خاص ہو دوسرا عام بلکہ جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خلیفہ خاص ہوگا وہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خلیفہ عام بھی ہوگا_

یہاں پر صحیح ترین عبارت''من بعدی'' ہی ہوسکتی ہے (جیساکہ دیگر روایات میں بھی موجود ہے) یا پھر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ''فیکم'' پر مشتمل ارشاد میں آپ کے حقیقی مخاطب ایمان لانے والے لوگ تھے_

رہا بعض لوگوں کا یہ دعوی کہ''خلیفتی فی اهلی'' یا''فیکم'' سے مراد وہ شخص ہے جو ان کے دنیاوی امور کا ذمہ دار ہو تو یہ بات تاریخی حقیقت نہیںرکھتی_ کیونکہ واضح ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کسی ہاشمی کے دنیاوی امور کے ذمہ دار نہیں تھے_ اگر کوئی یہ کہے کہ مراد فقط حضرت حسنینعليه‌السلام اور حضرت فاطمہعليه‌السلام ہیں تو اس کا جواب بھی واضح ہے_ کیونکہ جناب حسنینعليه‌السلام ( حتی کہ ان کی والدہ بھی )اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے مزید یہ کہ وہ خلافت کی بنیاد پر ان کے کفیل نہیں تھے بلکہ وہ ویسے ہی ان تینوں کے نفقہکے ذمہ دار تھے_ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کے اخراجات آپ کے ذمہ نہ تھے اور نہ ہی آپ نے عملاً اس کام کو انجام دیا_(۱)

___________________

۱_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۲۳۹ کی طرف رجوع کریں _

۳۱

ج_ فقط رشتہ داروں کی دعوت کیوں؟

واضح سی بات ہے کہ نزدیکی رشتہ داروں کی دعوت آپ کے مشن کی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور آپ کے پیغام کو پھیلانے کا بہترین ذریعہ تھی_ کیونکہ اصلاح کی ابتدا ہمیشہ اندر سے ہونی چاہیئے تاکہ اپنے اہل خاندان اور قبیلہ کی حمایت حاصل کرنے کے بعد دوسروں کی جانب اطمینان، ثابت قدمی اور عزم راسخ کے ساتھ رخ کیا جا ئے_

علاوہ ازیں ان کو دعوت دیکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باہمی روابط اور جذبوںکے حوالے سے قوت و ضعف کے اندرونی عوامل کو پرکھ سکتے تھے اور مستقبل میں حاصل ہونے والی حمایت کا اندازہ لگا کر اس کی روشنی میں اپنے اقدامات اور پالیسیوں کی حدود کو معین فرما سکتے تھے_

یہ بھی بتاتے چلیں کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریبی رشتہ داروں سے دعوت اسلام کا آغاز کیا اور اس مرحلہ میں بھی کسی کو کوئی امتیاز اور خصوصیت دینے پر تیار نہیں تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی جان لینا چاہئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اعتماد بہ نفس رکھتے ہیں اور اپنے دعوے کے صحیح ہونے پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پورا یقین ہے _ کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے سب سے پیارے افراد کے لئے یہ بھلائی چاہتے ہیں کہ وہ ان مؤمنین کی صف میں شامل ہوجائیں جو اس دین کی راہ میں سب سے بڑی قربانی دینے پر بھی تیار ہیں_ اور ہم نے دیکھا کہ واقعہ مباہلہ میں نصاری اس بات کا ادراک کرتے ہوئے مباہلہ کئے بنا واپس لوٹ گئےیہ بھی پیش نظر رہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے تھے جس میں باہمی تعلقات کی بنیاد ''قبیلہ'' تھی_ بنابریں چونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنیادی اور تقدیرساز اقدامات کرنا چاہتے تھے اور اس بات پر بھی ذاتی طور پر راضی نہ تھے کہ اپنے موقف کی حمایت یا اپنے اہداف کے حصول میں قبیلہ پرستی شامل ہو جائے، لہذا اس بات کی ضرورت تھی کہ آپ رشتہ داروں کے معاملے میں ایک واضح موقف اپناتے اور انہیں مکمل آزادی اور صدق دل کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو واضح طور پر سمجھنے کا موقع فراہم کرتے_ تاکہ اس سلسلے میں معاشرے میں رائج کسی بھی قسم کے خاندانی و قبائلی تعلقات کے دباؤ سے کام نہ لیا جائے کیونکہ یہ اسلام کی نظر میں صحیح نہیں تھا_

۳۲

یہیں سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ مختلف حالات کا سامنا کرنے اور ان کاحل پیش کرنے کے بارے میں اسلام کی روش کیا ہے_ اسلام نہیں چاہتا کہ اپنے مقاصد اور مفادات کے حصول کیلئے لوگوں کی سادگی اور جہالت سے فائدہ اٹھائے_ یہاں تک کہ ان غلط رسوم و عادات سے بھی جنہیں لوگوں نے اپنی مرضی سے اپنایا ہو_

اسلام وسیلے کو ہدف کا ایک حصہ سمجھتا ہے_ بنابرایں وسیلے کو ہدف سے ہم آہنگ ہونا چاہیئے_ جس طرح ہدف مقدس ہے اسی طرح وسیلہ کا بھی مقدس اور پاک ہونا ضروری ہے_ خدا ہمیں اسلام کی ہدایت پر چلنے اور اس کی تعلیمات سے متمسک رہنے کی توفیق عنایت فرمائے_

خدا ہی امیدوں کا بہترین مرکز ہے اور طلب حوائج کیلئے سب سے زیادہ صاحب بخشش ہستی ہے_ بہرحال شیخ بطحاء ابوطالب کی طرف سے تعاون اور مدد کے بھرپور وعدے کے بعد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس جلسہ سے نکلے_ کیونکہ ابوطالبعليه‌السلام نے جب ابولہب کے نامعقول اور غیرانسانی موقف کو دیکھا تو فرمایا: ''اے پست انسان ،اللہ کی قسم ہم ضرور ان کی مدد کریں گے_ (پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے کہا) اے بھتیجے جب تم اپنے رب کی طرف دعوت دینا چاہو تو ہمیں پکارو ہم مسلح ہو کر تمہاری مدد کریں گے''_(۱)

د_ علیعليه‌السلام اور واقعہ انذار

ہم نے مشاہدہ کیا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ کے دن چالیس افراد کی میزبانی کے فرائض سنبھالنے کیلئے حضرت علیعليه‌السلام کا انتخاب کیا اور حکم دیا کہ کھانا تیار کر کے انہیں بلائیں اس لئے کہ حضرت علیعليه‌السلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے گھر میں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے ساتھ ہوتے تھے_حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جناب خدیجہ سے بھی کھانا تیار کرنے کو کہہ سکتے تھے کیونکہ بظاہر یہ دعوت رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں ہوئی نیز اس کام کیلئے دیگر لوگ بھی موجود تھے جو حضرت علیعليه‌السلام سے زیادہ مشہور تھے، مثلاً حضرت ابوطالبعليه‌السلام یا حضرت جعفر جو عمر کے لحاظ سے حضرت علیعليه‌السلام سے بڑے تھے اور ان کے علاوہ دوسرے افراد جن کی شخصیت اور نفوذ سے استفادہ کرسکتے_

___________________

۱_ تاریخ یعقوبی، ج ۲ ص ۲۷،۲۸_

۳۳

جی ہاں حضرت علیعليه‌السلام کا انتخاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بذات خود فرمایا تھا_کیونکہ حضرت علیعليه‌السلام اس وقت عمر کے لحاظ سے اگر چہ چھوٹے تھے، لیکن درحقیقت عقل کے لحاظ سے بڑے تھے_ آپ عظیم خصوصیات اور لیاقتوں کے مالک، نیز روحانی و معنوی بزرگی کے حامل تھے_ آپ کے اہداف و مقاصد عظیم تھے_ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حاضرین میں آپ ہی واحد فرد تھے جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد و نصرت کا اعلان کیا_ ساتھ ساتھ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم نے بھی اس دن علیعليه‌السلام کے کردار کی بناء پر آپ کو اپنا بھائی، وصی اور خلیفہ ہونے کا اہل سمجھا _یہ وہ مقام تھا جس تک کوئی رسائی حاصل نہ کرسکتا تھا بلکہ ایک دن کے لئے بھی اس کے حصول کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا _

لیکن حضرت علیعليه‌السلام نے کمسنی کے باوجود اس مقام کوپالیا اور باقی سب کو پیچھے چھوڑ دیا_ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی آغوش میں پرورش پائی_ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کی کفالت و تربیت کی تھی_ وہ آپ کو کھانا ٹھنڈا کر کے کھلاتے اور علیعليه‌السلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خوشبو سونگھتے تھے_ حضرت علیعليه‌السلام حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نقش قدم پر اس طرح چلتے جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے ہوتا ہے_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپ کو بیٹے کی طرح چاہتے تھے_(۱)

( و ذلک فضل الله یؤتیه من یشاء و الله ذوالفضل العظیم ) _

ھ_ ابولہب کا موقف

ابولہب نے دعوت اسلام کی حقیقت کو سمجھ لیا تھا اور اندازہ کرلیا تھا کہ اب یہ تحریک سنجیدگی کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے _ وہ ایک نیا معجزہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا تھا_ اس سے قبل بھی وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے

___________________

۱_ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے حضرت علیعليه‌السلام کی کفالت کے باعث شیخ الابطح ابوطالبعليه‌السلام پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا( جیساکہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں )کیونکہ جناب عبداللہ اور جناب ابوطالب اپنے باقی بھائیوں کے برخلاف ایک ہی ماں سے پیدا ہوئے تھے_ ادھر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش ابوطالبعليه‌السلام نے کی تھی_ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاطمہ بنت اسد کو ماں کہہ کر پکارتے تھے حضرت ابوطالب اور ان کی زوجہ حضرت فاطمہ بنت اسد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا بڑا خیال رکھتے تھے اسی طرح رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علیعليه‌السلام کی عمروں میں تفاوت کو مدنظر رکھتے ہوئے ( یہ کہا جاسکتاہے کہ ) حضرت علیعليه‌السلام بھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بیٹے کی حیثیت رکھتے تھے_

۳۴

متعدد معجزات و کرامات کا مشاہدہ کرچکا تھا اور آج بھی اس نے دیکھا کہ کس طرح گوشت کی ایک ران اور دودھ کا ایک برتن چالیس افراد کیلئے کافی ثابت ہوا_

ابولہب اس دین کی حقیقت اور اہداف کو سمجھ رہا تھا جس کی جانب حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہدایت فرمارہے تھے اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان امتیازات کی کوئی حیثیت نہیں جو طاقت، ظلم و عدوان اور ناجائز طریقوں سے حاصل ہوئے ہوں_ بنابرایں وہ اپنی غیرمعقول سوچ کے مطابق یہ ضروری سمجھتا تھا کہ اس دین کے مقابلے پر اتر آئے اور ہر ممکنہ طریقے سے اس دین کو اس کے اہداف تک پہنچنے سے روکے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو موقع سے فائدہ اٹھانے کی مہلت نہ دے تاکہ یوں ایک طرف سے وہ اپنے مفادات کو بچائے، اور دوسری جانب سے اپنے سینے میںکینے اور حسد کی بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرسکے_ اس کینے کی کوئی وجہ اور بنیاد نہ تھی سوائے اس کے کہ وہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات میں صفات جمیلہ اور اخلاق کریمہ کا مشاہدہ کرتا تھا_ ظاہر ہے اس کی نظر میں اس سے بڑا جرم اور کیا ہوسکتا تھا_

ابولہب نے عملی طور پر اس کینہ و حسد کا ثبوت دیا_ اس نے کھانے والے معجزے کو (جسے سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا) غلط رنگ دیا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ پر جادو کا الزام لگاتے ہوئے کہا: ''تمہارے ساتھی نے تم پر بڑا سخت جادو کر دکھایا''_ یہ سن کر وہ لوگ اس دن چلے گئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اپنے دل کی بات نہ کرسکے_ یہاں تک کہ دوسرا دن آیا اور حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حکم الہی کو ان تک پہنچانے اور اتمام حجت کرنے میں کامیاب ہوئے جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے_

و_ پہلے انذار پھر

واقعہ انذار کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بتانا ضروری ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو خدا کی جانب سے حکم ہوا تھا کہ آپ پہلے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو ڈرائیں چنانچہ ارشاد ہوا: (وانذر عشیرتک الاقربین)(۱)

___________________

۱_ سورہ شعرائ، آیت ۲۱۴_

۳۵

اوردوسرے لوگوں کے معاملے میں بھی یہی صورت حال تھی_ چنانچہ سورہ مدثر میں (جو بعثت کے اوائل میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے) اللہ نے اپنے پیارے نبی سے فرمایا: (قم فانذر) اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٹھو اور لوگوں کو (عذاب الہی سے) ڈراؤ_(۱) _

ایسا کیوں ہے ؟ حالانکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ لوگوں کیلئے مبشر و نذیر (خوشخبری دینے اور ڈرانے والے) کی حیثیت سے مبعوث ہوئے تھے جس طرح خود قرآن ، ہدایت بھی ہے اور بشارت بھی_ اس کی علت واضح ہے کیونکہ لوگ ابتدائے بعثت میں کافر تھے اور ظلم و انحراف کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے_ بنابریں پہلے ان کو ڈرانے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اس خطرناک صورتحال کی طرف متوجہ ہوں جس میں وہ زندگی گزار رہے تھے اور ان خوفناک و تباہ کن نتائج سے باخبر ہوں جو مذکورہ صورتحال کے نتیجے میں پیش آتے ہیں_ عذاب کی جانب ان کی توجہ ، غفلت سے بیدار ہونے اور اس خطرناک صورتحال سے نکلنے کے لئے عملی قدم اٹھانے کے لئے مؤثر ہوسکتی تھی_

اس کے بعد انفرادی و اجتماعی سطح پر معاشرے کو غلط آداب و رسوم اور خرابیوں سے نجات دلانے اور اجنبی اوربے سور افراد سے پاک کرنے کا مرحلہ آتا_ اس کے ساتھ ساتھ صحیح انسانی جذبات، باہمی روابط اور سب سے بڑھ کر فکری و تہذیبی سطح پر اسلامی معاشرے کو صاف اور مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی باری آتی_ پھر اس اسلامی معاشرے کو کائنات، زندگی اور طاقتور ہوتے ہوئے بھی کمزور انسان کے حقیقی مفہوم سے آگاہ کرنے کا موقع ملتا اور انسان کی باطنی تعلیم و تربیت و اصلاح کیلئے قدم اٹھایا جاسکتا،جو نبی، امام اور مبلغین حق کی ذمہ داری ہے،چنانچہ کتاب کے اس حصّہ کے شروع میں ہم نے اس آیت قرآنی کی طرف اشارہ کیا:( هو الذی بعث فی الامیین رسولاً منهم یتلوعلیهم آیاته ویزکیهم ویعلمهم الکتاب والحکمة ) یعنی اللہ ہی نے مکہ والوں میں ،انہی میں سے ایک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتا اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی باتیں سکھاتا ہے_

___________________

۱_ سورہ مدثر/۲_

۳۶

اسلام کے طریقہ تبلیغ کے بارے میں جو کچھ ہم نے عرض کیا وہ درحقیقت ہر اس دعوت یا تحریک کا فطری تقاضا ہے جو بنیادی اصلاح اور مشکلات زندگی کو حل کرنے کی طالب ہو_

ز_روز انذار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا فرمان :

بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''اے اولاد عبدالمطلب میں خدا کی جانب سے تمہیں ڈرانے آیا ہوں میں وہ چیز لے کر آیا ہوں جسے اب تک کوئی عرب لیکر نہیں آیا اگر میری اطاعت کرو گے تو ہدایت، فلاح اور نجات پاؤگے آج کے اس کھانے کے بارے میں مجھے خدا کی جانب سے حکم ہوا تھا_ پس میں نے اسے تمہارے لئے تیار کیا جیساکہ حضرت عیسیعليه‌السلام نے اپنی قوم کیلئے کھانے کا بندوبست کیا تھا _اس کے بعد اگر تم میں سے کسی نے کفران کیا تو خداوند عالم اس کو ایسے شدید عذاب میں مبتلاکرے گا کہ پورے عالم میں کسی اور کو مبتلا نہ کیا ہوگا پس خدا سے ڈرو اور میری بات سنو_

اے بنی عبدالمطلب جان لو کہ خدا نے کسی نبی کو بغیر کسی بھائی، وزیر، وصی اور وارث کے مبعوث نہیں کیا_ بتحقیق اس نے میرے لئے بھی کسی کو وصی قرار دیا ہے جس طرح مجھ سے پہلے والے انبیاء کیلئے قرار دیا تھا_ بے شک اللہ نے مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا ہے اور مجھ پر یہ حکم نازل کیا ہے( وانذر عشیرتک الاقربین ) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں اور مخلص لوگوں کو خدا کا خوف دلاؤ_

خدا کی قسم اس نے مجھے اپنے وصی اور وزیر کی خبر دی ہے اور اس فرد کا نام بھی بتا دیا ہے لیکن میں تمہیں دعوت دیتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں_ نیز تمہیں اس عہدے کی پیشکشکرتا ہوں تاکہ بعد میں تمہارے لئے کوئی بہانہ نہ ر ہے، تم لوگ میرے رشتہ دار اور میرے قبیلہ والے ہو _پس تم میں سے کون ہے جو اس امرکی طرف پیش قدمی کرے تاکہ وہ خدا کی راہ میں میرا بھائی میرا وزیر اور مددگار بنے''_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا یہ کلام کتاب کی اس فصل کی ابتدا میں مذکور عبارت سے ہم آہنگ ہے_(۱) اور یہ تصریح شاید اس جیسے عظیم موقف

___________________

۱_ بحار الانوار ج۱۸ص ۲۱۵،۲۱۶ نے ابن طاووس کی کتاب سعد السعود ص ۱۰۶ سے نقل کیا ہے_

۳۷

سے بھی مکمل ہم آہنگ ہے_ اسی طرح یہ الفاظ آیت میں حکم انذارسے بھی پوری طرح مرتبط ہیںکیونکہ ہر تحریک کا پہلا قدم ''انذار'' ہی ہوتا ہے جس طرح کہ ہم نے یہ بات پہلے بھی کئی مرتبہ ذکر کی ہے_

ح_ بشارت و انذار

عظیم محقق شہید شیخ مرتضی مطہری کہتے ہیں: ''جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کسی فرد کو کسی کام پر آمادہ کرے تو اس کے دو طریقے ہیں ایک بشارت و حوصلہ افزائی اور اس کام کے فوائد کو بیان کرنا اور دوسرا اس کام کے ترک کرنے پر جو برے نتائج ہیں ان سے ڈرانا''_

اسی لئے کہا گیا ہے کہ انذار پیچھے سے حیوان کو ہانکنے کی طرح اور بشارت و تشویق آگے سے کھینچنے کی طرح ہے_

قرآن و اسلام کی نظر میں انسان ان دونوں باتوں کا ایک ساتھ محتاج ہے_ ان میں سے فقط ایک کافی نہیں بلکہ اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ بشارت اور تشویق کے پلڑے کو انذاز و تخویف کے پلڑے پر بھاری ہونا چاہئے اسی لئے قرآن کی اکثر آیات میں بشارت کو انذار پر مقدم کیاگیا ہے_

چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بھی معاذ بن جبل کو یمن بھیجتے وقت فرمایا ''یسر ولاتعسر وبشر ولاتنفر'' (آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرو نہ کہ کاموں کو مشکل بنانے کی نیز لوگوں کو راضی رکھنے کی کوشش کرو نہ کہ دور کرنے کی)_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہاں انذار و تخویف کی نفی نہیں کی بلکہ یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حکمت عملی کا حصہ تھا _ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تشویق کے پہلو کو زیادہ اہمیت دی کیونکہ اس پہلو سے اسلام کی معنویت اور خوبیوں کا بہتر ادراک ہوسکتا تھا_

علاوہ بریں اس طرح لوگوں کا قبول اسلام مکمل رضا و رغبت کے ساتھ عمل میں آتا_ رہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ''لاتنفر'' فرمانا تو اس کی وجہ واضح ہے کیونکہ انسان کی روح نہایت لطیفہے اور بہت جلد ردعمل کا اظہار کرتی ہے_ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں اس وقت عبادت کرنے کا حکم دیا ہے جب دلی رغبت موجود ہو_

۳۸

دباؤ یا ناقابل برداشت امور پر زبردستی کی صورت میں نفس اس چیز کو قبول نہیں کرتا_ سہولت اور آسانی پر مبنی اسلامی شریعت میں اس کی بہت ساری مثالیں مل سکتی ہیں_(۱)

مذکورہ بیانات کی روشنی میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اپنے رشتہ داروں کو جو دعوت دی تھی اس میں آپ نے ہر چند ابتدا تخویف و انذار سے کی تھی لیکن کیوں تشویق کے پہلوکو بھی مدنظر رکھا اور فرمایا :'' جو میری کی مدد کرے گا وہ میرےبعد میرا خلیفہ ہوگا'' اور یہ ذکرکیاکہ میں دنیا و آخرت کی جملہ خوبیاں لے کر ان کے پاس آیا ہوں_ اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ طرز عمل ان لوگوں کی اندرونی خواہشات اور رغبتوں سے ہم آہنگ تھا_ اور یہ پیشکش اس ذات کی جانب سے تھی جسے کسی بھی صورت میں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا_

ط_ میرا بھائی اور میرا وصی

یہاں پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ ارشاد کہ وہ شخص میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہوگا، بھی قابل توجہ ہے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہ الفاظ اس الفت و محبت کی شدت کو خوب واضح کرتے ہیں جو آپ کی حمایت ونصرت کرنے والے فرد سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تھی _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنا بھائی قرار دیا گویا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس شخص کی نسبت حاکم و محکوم اور بڑے اور چھوٹے مرتبے والے کی سی نہ تھی بلکہ ان دونوں کا باہمی تعلق دو ہم مرتبہ انسانوں کا اور تعمیری مقاصد میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر مبنی تھا_ جس طرح ایک بھائی کا تعلق دوسرے بھائی سے ہوتا ہے محبت اعتماد اور خلوص سے لبریز_

فاصدع بما تؤمر

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے قریبی رشتہ داروں پر اتمام حجت کرچکے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کا مسئلہ مکہ میں معروف ہوچکا تو قریش نے مسئلے کی سنگینی اور اس کے جوانب کا ادراک کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

___________________

۱_ رجوع کریں: روزنامہ جمہوری اسلامی (فارسی) شمارہ ۲۵۴سال ۱۳۵۹ ہجری شمسی_ مقالات مطہریا_

۳۹

کے اوپر تہمتیں لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا_ تا کہ عام لوگوں کے سامنے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مرتبے کو گھٹائیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت کو مخدوش کریں، حالانکہ ابھی تک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے انہیں اپنی تعلیمات پر ایمان لانے کی دعوت نہیں دی تھی قریش کے اس رویے کی وجہ حسد، کینہ اور مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ خطرات کے علاوہ اورکچھ نہ تھا_

قریش کے تمسخرنے طبیعی طور پر اورخاص کر قبول اسلام کی جانب عوامی رغبت پر اپنا زبردست اثر دکھایا_ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس امر سے سخت فکرمند ہوئے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنی دعوت کے پھیلاؤ اور اپنے مشن کی راہ میں زبردست رکاوٹ سمجھا _چنانچہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا کہ اپنی دعوت کو ظاہر کریں اور کھل کر قریش سے خداپر ایمان لانے کا مطالبہ کریں_ اس کی ساتھ ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پکا وعدہ کیا کہ وہ مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوری مدد کرے گا_ بنابریں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ضروری تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اہمیت نہ دیتے اور انہیں نظر انداز کردیتے ،حکم خدا یہ تھا:( فاصدع بما تؤمر و اعرض عن المشرکین انا کفیناک المستهزئین ) (۱) یعنی اے رسول جس چیزکا آپ کو حکم ہوا ہے اس کا بر ملا اظہار کریں اور مشرکین کو نظر انداز کردیں ہم مسخرہ کرنے والوں کے شرسے آ پ کو بچائیں گے_

اللہ تعالی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے واضح کیا کہ مستقبل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لائحہ عمل کیا ہوگا چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم ہوا کہ حسن سلوک کو اپنائیں ،مشرکین کے معاملے کواہمیت نہ دیں، پریشان نہ ہوں اور ان کی باتوں سے دل گیر بھی نہ ہوں_ ان کا انجام اس خدا کے ہاتھ میں ہے جو ہر چھوٹی بڑی چیز سے آگاہ ہے_

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم خداوندی کی تعمیل کی ، اپنی تبلیغ کو آشکار کیا اور سارے لوگوں کو خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی_ کہتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک پتھر پرکھڑے ہوکر فرمایا: ''اے گروہ قریش و عرب میں تمہیں اس بات کی گواہی دینے کی دعوت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں تمہیں مصنوعی خداؤں اور بتوں کے چھوڑنے کا حکم دیتا ہوں _میری بات مانو ،اگر ایسا کرو گے تو پورے عرب کے

___________________

۱_ سورہ حجر، آیت ۹۴،۹۵_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417