الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)14%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 209828 / ڈاؤنلوڈ: 6321
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

دوسری جلد

مؤلف: جناب حجة الاسلام والمسلمین سید جعفر مرتضی عاملی (ادام اللہ توفیقاتہ)

مترجم:

معارف اسلام پبلشرز

۳

مؤلف: علامہ محقق جناب حجة الاسلام والمسلمین سید جعفر مرتضی عاملی (ادام اللہ توفیقاتہ)

مترجم:معارف اسلام پبلشرز

ناشر:نور مطاف

جلد: دوسری

اشاعت:دوم

تاریخ اشاعت:شوال المکرم ۱۴۲۵ ھ _ق

تعداد: ۲۰۰۰

Web : www.maaref-foundation.com

E-mail: info@maaref-foundation.com

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہیں _

۴

بسم الله الرحمن الرحیم

و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین

و لکم فی رسول الله اسوة حسنة

مقدمہ

عالم خلقت میں برترین اور کامل ترین طرز زندگی کا نمونہ بوستان زندگی کے وہ گل ہیں جن کی سیرت پورے عالم کیلئے پیروی کابہترین نمونہ ہے _ اس گلستان میں سیرت کے اعتبار سے سب سے ممتاز اور درخشندہ ہستی پیغمبر اکرم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات مبارکہ ہے کہ پیروی اور اطاعت کیلئے ان سے زیادہ بہتر ہستی پوری کائنات میں نہیں مل سکتی _

یہ کتاب'' الصحیح من سیرة النبی الاعظم '' ، علامہ محقق جناب حجة الاسلام والمسلمین سید جعفر مرتضی عاملی (ادام اللہ توفیقاتہ) کی قیمتی اور گراں بہا تالیف ہے جس میں ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ کو بیان کیا گیاہے_

اس کتاب میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ کے تمام پہلوؤںپر تحقیقی گفتگو کی گئی ہے اور انہیں دقیق و منصفانہ تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ خود غرضی، تنگ نظری اور محدود فکری کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر تحقیق کے روشن و منور مقام پر لاکر منظر عام میں پیش کیا گیا ہے _ علامہ موصوف کی یہ کتاب اہل تحقیق حضرات کیلئے باعث حیرت و دلچسپی واقع ہوئی ہے اور ان کی جانب سے علامہ کی اس کاوش کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اور یہ کتاب عالم اسلام میں بہت مقبول ہوئی ہے _

۵

معارف اسلام پبلشرز خداوند متعال کا شکرگزار ہے کہ اپنے اصل فرائض (یعنی اردو زبان جاننے والوں کی ضروریات کے مطابق،اخلاق ، عقائد، فقہ، تفسیر، تاریخ اور سیرت جیسے اہم اور ضروری موضوعات پر مختلف کتابوں کے ترجمہ اور نشرو اشاعت کے فرائض)کو انجام دیتے ہوئے، ایک طولانی انتظار کے بعد اللہ تعالی کی توفیق سے اس کتاب '' الصحیح من سیرة النبی الاعظم'' کی دوسری جلد کو اہل تحقیق و مطالعہ اور حق کے متلاشی افراد کی خدمت میں پیش کررہاہے _ امید ہے کہ یہ کوشش خداوند متعال کی بارگاہ اور ولی خدا امام زمانہ حضرت حجة ابن الحسن العسکری (عج) کے نزدیک مقبول قرار پائے_

آخر میں اس نکتہ کا ذکر بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے کہ یہ ترجمہ عربی متن کی آخری چاپ کے ساتھ کاملا مطابقت رکھتاہے اور اس کے مطالب وموضوعات کی ترتیب میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں اور منابع کی تکمیل کی گئی ہے اس ترجمہ میں ان کا مکمل خیال رکھا گیا ہے لہذا ہم ان تمام فاضل شخصیات اور محققین محترم کے تہ دل سے شکرگزار ہیں جنہوں نے اسکے ترجمے، تصحیح ، نظر ثانی اور بالخصوص مطابقت والے طاقت فرسا کام کو انجام دیا ہم خداوند عالم سے اپنے اور ان کے لئے مزید توفیقات اور امداد کے طالب ہیں_

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

معارف اسلام پبلشرز

۶

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمین، الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین، ایاک نعبد

و ایاک نستعین، اهدنا الصراط المستقیم

والصلاة والسلام علی محمد المصطفی، خاتم الأنبیاء والمرسلین،

وآله الکرام البرزة الطیبین الطاهرین

واللعنة علی أعدائهم أجمعین، من الأولین والآخرین ، الی یوم الدین و بعد

چند اہم نکات

ہم اپنی اس تحقیق و تالیف کو محترم قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں لہذا چند اہم نکات کی جانب اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں_

۱ _ اکثر و بیشتر ، بنیادی طور پر ہم نے اپنی اس کتاب میں قدماء کی تالیفات کو پیش نظر رکھا اور ان کی جانب رجوع کیا ہے_ ہم عصر مؤلفین کی کتابوں کی جانب کم رجوع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کتابیںصرف مطالب اور ابواب کی ترتیب میں فرق کے ساتھ عموماً اسلاف کے مطالب کا تکرار ہیں ، اور پھر اسلاف کے مطالب ہی کی توجیہ اور اس پر گفتگو کی گئی ہے _ انہوں نے اپنی ساری کوششوں کو اس بات میں صرف کیا ہے کہ حسین عبارتوں اور پر کشش کلمات کے ذریعہ اسلاف کے لکھے ہوئے مطالب کی تایید اور اسی پر تاکید کی جائے اور ان مطالب کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں انہوں نے کوئی غور و فکر ہی نہیں کیا اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی کوئی تحقیق انجام نہیں دی _یہاں تک کہ انہوں نے اپنی کتاب کے قارئین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا اسلاف کے یہ مطالب جو انہوں نے حسین اور عمدہ عبارتوں میں بیان کئے ہیں وحی الہی ہیں جن میں شک و شبہ کی کوئی گنجائشے نہیں _

۷

چاہے یہ مطالب جتنا بھی آپس میں متضاد و متناقض ہوں پھر بھی ان سب کو جمع کرنا انہوں نے ضروری سمجھا اور اس کیلئے ایسی توجیہات تراشی ہیں جنہیں عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی اور نہ ہی انسان کا ضمیر اسے قبول کرتاہے _ اس کے علاوہ اسلاف کے جن مطالب کی وہ توجیہ نہیں کر سکے یا کسی طرح ان کی متضاد باتوں کو جمع کرنے میں ناکام رہے ہیں وہاں انہوں نے خاموشی اختیار کی اور یہ اعتراف کیا ہے کہ یہاں حقیقت حال کو سمجھنے سے وہ عاجز و قاصر ہیں اور یہ ایمان کی انتہائی کمزوری ہے _

۲ _اس کتاب میں ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ ان تمام مطالب کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں تحقیق کریں جن کے تاریخ اسلام اور سیرت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونے کا دعوی کیا گیا ہے لیکن یہ تحقیق ہماری اس مختصر تصنیف کے مطابق کی گئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بقدر امکان قارئین کو اس تاریخی دور کے حقائق سے تقریباً نزدیک کردیا جائے جو انتہائی نازک اور حساس واقعات سے پر نظر آتاہے_ یہ وہ دور ہے جو بنیادی طور پر ہمیشہ اہل دنیا، نفس پرست و منفعت طلب افراد اور متعصب لوگوں کی نظر میں بڑی اہمیت کا حامل رہاہے _

بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ تاریخ انسانیت کا سب سے اہم ترین اور خطرناک ترین دور گزرا ہے کیونکہ اس دور نے نہ فقط انسانی معاشرے کی غلط بنیادوں اور تمام انسانوں کی جاہلانہ اقدار و رسومات کی اصلاح کی بلکہ بنی نوع انسان کی تاریخ کو یکسر بدل کر ایک نئے مرحلے میں داخل کردیا_ اگر چہ اس دور کی تاریخ کو رقم کرنے کیلئے حقیقتاً انتہائی زحمت و مشقت کی ضرورت ہے لیکن اس کی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر (خصوصاً اس صورت میں کہ تمام جوانب سے بحث کامل نہیں )ہم نے اس کام کو انجام دینے کی سعی و کوشش کی ہے اگر چہ ناقص ہی سہی البتہ_ ہماری یہ کوشش و کاوش ، اہم تاریخی و اقعات اور حوادث کو گہرائی کے ساتھمکمل طور پر تحقیقی انداز میں سمجھنے کی جانب پہلا قدم اور سنگ میل ہے _

۳ _ اس کتاب میں مکمل طور پر تمام پہلوں سے بحث کرنے کی روش میں ممکن ہے کبھی قارئین نقائص پائیں اور نشیب و فراز کا مشاہدہ کریں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب ایک طولانی عرصہ میں ترتیب دی گئی ہے اور اس اثناء میں انسان کی بہت ساری مصروفیات مانع ہوجاتی ہیں کہ وہ اپنے وقت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے کام کو کامل ، افضل اور بے مثال طریقہ سے انجام دے سکے _ طبیعی ہے، کہ طولانی مدت میں انسان پر عارض ہونے والے مختلف حالات واضح طور پر انسان کی تحریر پر اثر انداز ہونے کا باعث بنتے ہیں اور نتیجتاً اس کی جانب سے پیش کئے جانے والے مطالب اور ان کے بیان کرنے کی روش میں تھوڑا سا تفاوت پایا جائے _

۸

۴ _ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ تاریخ اسلام نے بہت سے ایسے واقعات نقل کئے ہیں جنہیں ہوا و ہوس کی پیروی کرنے والوں اور سیاسی و مذہبی مفاد پرستوں نے اپنا کھلونا بنالیا _ اہل کتاب اور دیگر افراد کی جانب سے بھی بعض جھوٹے ، باطل اور من گھرٹ قصے شامل کردئے گئے اور پھر گناہ گار اور دشمن عناصر کی جانب سے تاریخ میں تحریف اور تبدیلی کی کوششیں کی گئی ہیں جن کی بناپر بعض اوقات حقائق تک پہنچنا،ناممکن نہ سہی تو حد درجہ دشوار ضرور ہوجاتاہے _ لہذا ہم نے مندرجہ ذیل نکات اور اصولوں کو اپنانا ضروری سمجھا_

الف: خاص قسم کی تالیفات اور مؤلفین پر انحصار کرنا کبھی کبھی سبب بنتاہے کہ قارئین ان نصوص کے بارے میں مطلع نہ ہوسکیں جو یہاں وہاں مختلف منابع میں پھیلی ہوئی ہیں اور حقائق سے پردہ اٹھاسکتی ہیں اور ایک حد تک تحریف سے بچ کر ہم تک پہنچی ہیں _کیونکہ تحریف گر سیاست دانوں نے ان میں کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا اور مذہبی تعصب رکھنے والوں کو اس میں کوئی نقصان نظر نہ آیا اور وہ روایات ہم تک پہنچ گئیں اور حقیقت کے متلاشی اور حق شناسی کے عاشق( جو اگر چہ بہت کم ہیں لیکن وہ )متعصبین کے شر و سازش او رپیشہ ور بلوائیوں کے غضب و شرارت سے محفوظ و مامون رہ کر ان روایات سے استفادہ کرسکتے ہیں _

ب : ان حالات میںہم نے یہ مشاہدہ کیا کہ روایتوں کی اسناد سے بحث اور نتیجتاً ان کو قبول یا رد کرنے کے سلسلہ میں ایک خاص معیار پر اعتماد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بہت ہی کم روایات پر اکتفا کیا جائے جو بہت کلی اور اجمالی مطالب اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجمالی سیرت مبارکہ کے تصور کیلئے بھی ناکافی ہیں چہ جائیکہ وہ اسلام کے ابتدائی دور کے واقعات کی تفصیلات کو بیان کرسکیں _ جبکہ ہم بہت سی ایسی نصوص دیکھتے ہیں جو صحیح ہیں لیکن وہ سند قبول کرنے کی بیان کردہ شرائط پہ پوری نہیں اترتیں_

اس کے علاوہ تحقیق کرنے والا شخص اگر ان محدود روایات پر اکتفاء کرے تو آزادانہ تحقیق نہیں کرسکتا اور نہ ہی آزادی کے ساتھ کسی نتیجے تک پہنچ سکتاہے _اس کے (زمانے ، حالات اور مختلف سیاسی اور فکری خطوط کو سمجھنے کے لئے طویل مشقوں کے بعد حاصل ہونے والے ) عمیق ادراک و فہم کو ہر قسم کی مؤثر فعالیت سے کنارہ کشی کرنا پڑے گی جو تاریخی حقائق کو سمجھنے اور منکشف کرنے کیلئے ضروری ہے تا کہ وہ حقائق ،ابہام کے سیاہ پردوں میں چھپ نہ جائیں_ اس کے علاوہ رجالی بحث کرنے کیلئے ایک شخص کو ایسی بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کیلئے ضروری ہوجائے گا کہ وہ ان پر غلبہ پائے تب وہ سندی بحث کرسکتا ہے کہ کون سی بحث و سند ارباب فکر اور اساطین علم کے نزدیک مقبول و معقول ہے _

ان مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل وہ معیار و ضوابط ہیں جنہیں قبول یا رد کرنے کے میزان کے طور پر پیش

۹

کیا گیا ہے جن میں سے بعض کی بنیاد ان کے اپنے محدود عقائد ہیں _ان میں بہت ساری ابحاث ایسی ہیں جو اگر انسان کے کسی نتیجے تک پہنچنے سے مانع نہ بھی ہوں تو کم از کم انسان کیلئے بے انتہا مشقت اور طویل وقت کے صرف کرنے کا باعث بنتی ہیں_

بعض لوگوں کی طرف سے تو یہ اصرار ہوتاہے کہ بس ان کے محدود نظریات کے مطابق راہ اختیار کی جائے (خصوصاً عقائد کے مسئلہ میں )چاہے ان کے نظریات حقیقت کے ساتھ ہم آہنگ نہ بھی ہوں _ اس قسم کے افراد کے بارے میں ہم صرف یہی کہتے ہیں کہ خداوند متعال ہوا پرستی ، تعصب اور شخصی و گروہی منافع کے پیچھے دوڑنے کی صفت سے نجات عطا فرمائے_

اسی وجہ سے ہم نے یہاں اگر سندی بحث کی بھی ہے تو وہ اس مقبول و معروف قاعدہ کی بناپر ہے : '' الزموہم بما الزموا بہ انفسہم'' یعنی مد مقابل کو اسی چیز کے ذریعہ قائل کرو جس کا وہ خود پابند و قائل ہے _ یا پھر ان بعض طریقوں کے ذریعہ بحث کی ہے جنہیں تمام نہیں تو اکثر فرقے اور گروہ قبول کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ انسان ایسے نتائج تک پہنچ جاتاہے جو سب کے نزدیک قابل قبول ہیں، چاہے ان کو قبول کرنے کی دلیل میں مختلف زمانوں میں ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا رہاہو_

ج: ہم نے اسلام کے بنیادی اصولوں ، قرآن کریم اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخلاق حسنہ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت سے کچھ ایسے اصولوں کو حاصل کیا ہے جو روایات کے قبول اور رد کرنے کا معیار ہیں اور انہی کے ذریعہ نقل کی جانے والی اکثر روایات کی حیثیت واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کس قدر ان مسلم اور بنیادی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ تمام شخصیات کی سیرت، ان کے اخلاق ، ان کے نظریات اور ان کے موقف کو سمجھا جاسکتاہے_

د: اس کے علاوہ ہم نے تاریخی بحث کے مختلف وسائل اور طریقوں سے استفادہ کیا ہے جن کیلئے بہت تمرین و ممارست کی ضرورت ہوتی ہے جیسے نصوص کے تعارض میں بحث کرنا _ یا دقیق تاریخی محاسبات کی روشنی میں تاریخی اعتبار سے کسی واقعہ کے ممکن ہونے کی بحث کرنا اور دیگر وہ طریقے جن سے ہم نے تاریخی ابحاث میں استفادہ کیا ہے اور ہمارے قارئین مطالعہ کے دوران ان کی طرف متوجہ ہوجائیں گے_

۵_ مجموعی طور پر مسلمانوں نے تاریخ اسلام کی تدوین میں بہت اہتمام کیا ہے اور دیگر اقوام وامتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی _ بہر حال تمام نقائص اور وارد ہونے والے اعتراضات کے باوجود حق یہ ہے کہ انہوں نے امت اسلامیہ کی تاریخ کو رقم کیا اور اسے مستغنی کردیا ہے _

تاریخی واقعات کے تمام جوانب اور پہلوؤں سے بحث کرنا ایک مشکل کام ہی نہیں بلکہ ہمارے لئے ناممکن تھا،

۱۰

لہذا ہم نے تاریخ کو رقم کرنے میں ان جوانب سے بحث کی ہے جس کے ذریعہ انسان پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ کی حیات طیبہ کو تقریباً سمجھ سکتاہے اور اس بارے میں حقائق سے آشنا ہوسکتاہے_

۶ _ قارئین محترم کیلئے یہ واضح ہوجائے گا کہ ہم نے اپنی اس کتاب میں جتنے کم سے کم حوالوں ،شواہد ،دلائل اور ان کے منابع کی ضرورت تھی اسی پر اکتفا کیا ہے اگر چہ کتاب کے مطالب و حقائق کی تایید اور ان پر تاکید کیلئے اور بھی زیادہ حوالوں اور شواہد کا اضافہ کیا جاسکتا تھا_

۷_ ہم نے جس نکتہ سے استفادہ کیا یا جس دلیل سے استدلال کیا اسے اس کے قائل ، لکھنے والے یا نقل کرنے والے کی طرف منسوب کیا ہے اس کے علاوہ وہ نکات یا افکار جن کے کوئی منابع ذکر نہیں کئے گئے وہ ہماری اپنی فکر اور ہمارے اپنے نکات ہیں _

۸_ آخر میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ بعض مواقع پر جب فکری نشاط حاصل رہی تو ہم نے فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے بعض واقعات میں ان کی تفسیر یا ان پر تنقید و اعتراضات سے گریز نہیں کیا ، اگر چہ اکثر اوقات ہماری بحث اس جہت سے کامل نہ رہی کیونکہ اکثر اوقات اختصار کے ساتھ اس بحث کو سمیٹ لیا گیا لیکن پھر بھی وہمقامات جہاں اس جہت سے کچھ گفتگو کی گئی ہے قارئین محترم کیلئے باعث تسکین و رضایت ہوں گے جیسا کہ خود لکھنے والے کیلئے ثابت ہوئے ہیں_ اب کتاب کے قاری کو حق حاصل ہے کہ ان استدلالی ابحاث کو پڑھنے کے بعد چاہے اس کی حمایت میں اور چاہے تو اس کی مخالفت میں قضاوت کرے اور اگر اس کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا تب بھی اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ اس کتاب کی گہرائی، دقت اور خوبصورتی میں مزید اضافہ کرے _

ہمارے ان عرائض کے اختتام پر قارئین محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اپنی آراء و مشوروں اور تنقید و اعتراضات سے آگاہ کرکے شکریہ کا موقع دیں گے_

والحمد لله والصلاة والسلام علی عباده الذین

اصطفی محمد و آله الطیبین الطاهرین

والسلام

جعفر مرتضی حسینی عاملی

۱۱

۱۲

تیسرا باب

اعلان نبوت سے لے کر وفات ابوطالب تک

پہلی فصل : ہجرت حبشہ تک

دوسری فصل : ہجرت حبشہ اور اس سے مربوط امور

تیسری فصل : شعب ابوطالب تک کے حالات

چوتھی فصل : شعب ابوطالب میں

پانچویں فصل : ابوطالب مؤمن قریش

۱۳

پہلی فصل

ہجرت حبشہ تک

۱۴

مقدمہ:

اسلام قبول کرنے والوں کا تذکرہ اور بعثت کے بعد کے حالات کو بیان کرنے سے پہلے دو اہم باتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں_

پہلی بات تو یہ کہ اسلام کے اہداف اوردنیاوی زندگی کے حوالے سے اس کے مقاصد کیا ہیں، اور دوسری یہ کہ کسی بھی دعوت کا طبیعی طریقہ کار کیسا ہونا چاہیئے اور اس کی ابتدا کہاں سے ہونی چاہیئے؟

اسلام کے اہداف و مقاصد

سب سے پہلے یہ عرض کرتا چلوں کہ اسلام کا اصل مقصد فقط قیام عدل (اگرچہ اس کے وسیع تر مفہوم کے تناظر میں ہی سہی) نہیں_ کیونکہ اگر مقصد صرف یہی ہو_ تو پھر دین و عقیدے کی راہ میں جہاد کرنے اور جان کی قربانی دینے کا حکم بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ایک انسان تو اپنی جان گنوائے جبکہ دوسرے لوگ زندگی اور اس کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں_ علاوہ ازیں خدا کے نزدیک ایثار اور ایثار کرنے والے کے محبوب اور پسندیدہ ہونے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی _ جس طرح ارشاد خداوندی ہے:( و یؤثرون علی انفسهم و لو کان بهم خصاصة ) (۱)

کیونکہ اگر فقط عدل مقصود و مطلوب ہو تو پھر ایثار کی کوئی گنجائشے نہیں رہتی _نیز کینہ و حسد سے پرہیز کا حکم

___________________

۱_ سورہ حشر آیت ۹_

۱۵

بھی غیرمعقول ہو کر رہ جائے گا _ اس کے علاوہ بھی کئی اور مثالیں ہیں جن کے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں_ خلاصہ یہ کہ مذکورہ و غیرمذکورہ احکام اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسلام کا ہدف صرف قیام عدل میں محدود نہیں بلکہ اس سے بھی اعلی ،اہم اور مقدس ہدف ہے_

اسلام کا حقیقی ہدف انسان کی انسانیت کو پروان چڑھانا اور اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اسے اس قابل بنانا ہے کہ وہ زمین پر خلافت الہی کے منصب کی اہلیت پیدا کرے تا کہ خدا اس کے متعلق یہ دعوی کرسکے_

( و اذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الارض خلیفة ) (۱)

واضح ہو کہ عدل اور دیگر معنوی مقامات اور کمالات اس اعلی اور مقدس ترین ہدف تک پہنچنے کے وسائل اور مراحل میں سے ہیں، یہ ہدف حقیقی عدل سمیت تمام انسانی کمالات و فضائل اور مکمل خوش بختی و کامرانی کا حامل ہے_

یہ ہے اسلام کا بنیادی ہدف جس کے حصول کی تگ و دو کی جاتی ہے_

اس بات کی واضح ترین دلیل درج ذیل آیت ہے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذمہ داریوں میں پیام الہی کو لوگوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو حکمت کی تعلیم دینے اور ان کے تزکیہ و تطہیر کی ذمہ داریوں کو بیان کرتی ہے:( هو الذی بعث فی الامیین رسولاً منهم، یتلو علیهم آیاته، و یزکیهم، و یعلمهم الکتاب و الحکمة، و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ) (۲)

یہ ارشاد بھی قابل غور ہے:

( ما یرید الله لیجعل علیکم من حرج، و لکن یرید لیطهرکم، و لیتم نعمته علیکم، لعلکم تشکرون ) (۳)

___________________

۱_ سورہ بقرہ آیت ۳۰_

۲_سورہ جمعہ، آیت ۲_

۳_سورہ مائدہ، آیت ۶_

۱۶

خدا تمہیں کسی بے جا سختی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک و پاکیزہ کرے اور تم لوگوں پر اپنی نعمتوں کو کامل کرے تاکہ تم شکرگزار بنو_

آیات قرآنی کی طرف رجوع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بہت ساری آیات مذکورہ حقیقت پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں_ بنابرایں مزید دلائل و شواہد اور توضیح و تشریح کی ضرورت باقی نہیں رہتی_

وزیر اور وصی کی ضرورت

جب ہمیں اسلام کے اصلی مقصد کا علم ہوگیا ہے تو ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ یہ مقصد نہایت ہی مشکل اور کٹھن ہے_ اس لئے کہ ابتداء ہی میں یہ ہدف اشخاص کی ذات سے ہی متصادم ہے _ کیونکہ اس مقصد کے تحقق کے لئے افراد کے عزائز اور نفسانی خواہشات پر غلبہ پانا ضروری ہے تاکہ مثالی انسان کی شخصیت تعمیر ہوسکے_ اسی طرح معاشرے کی معاشرتی ، سیاسی اور دیگر اصولوں کی بنیادی تبدیلیوں کا ہدف ہے_ تا کہ شرکی جڑیں اکھاڑ پھینکے اور انحراف کے تمام عوامل و اسباب کو ختم کرڈالے _ اور اس کے بدلے میں خیر ، برکت ، نیکی اور خوشبختی کے تناور درخت اگائے_

جی ہاں یہی تو نہایت مشکل ہدف ہے اور اس سے بڑھ کر مشکل کوئی چیز نہیں _ اس لئے کہ اس کے تحقق اور دوام کے لئے اس وقت تک سخت اور مسلسل جد و جہد کی ضرورت ہے جب تک انسان اپنے اندر وہ تبدیلیاں نہ پالے جس کے لئے خدا نے اسے خلق کیا ہے تا کہ یہ تبدیلیاں اس کی بقاء ، سعادت اور سکون کی عامل بنیں_اور خدا نے بھی انسان کو ان خواہشات پر قابو پانے اور انہیں ہدف مند کرنے کے وسائل فراہم کئے ہیں_ لیکن بسا اوقات یہ وسائل ان خواہشات پر قابو پانے میں ناکام ہوجاتے ہیںاور جب تک ان کے درمیان جنگ جاری ہے انحراف کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں_ اور چونکہ طول زمانہ میں انسان کے وجود کے ساتھ جنگ بھی جاری رہے گی _ اس لئے انحراف اور بھٹکنے کا خطرہ بھی دائمی رہے گا پس انبیاء کو عقل کو مسحور کردینے والی آیتوں کی تلاوت اور اسلامی احکام کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور تزکیہ کی مہم پر توجہ دینے ،

۱۷

انسانی اور اخلاقی فضائل کو انسان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھرنے اور پھر اس کی تطبیق اور اس دائمی کشمکش کی نگرانی کرنے کی ضرورت رہے گی _انہی باتوں سے نبی کے وزیر ، وصی ، مددگار ، بھائی اور حامی کی ضرورت واضح ہوتی ہے _ پس رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی جانب سے خلافت پر حضرت علیعليه‌السلام کی تنصیب ،راہ جہاد اور دعوت الی اللہ کے سلسلے میں ایک عقلمندانہ فیصلہ تھا _ پس دعوت ذوالعشیرة اور اس میں حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ، وزیر اور خلیفہ کے عنوان سے حضرت علیعليه‌السلام کی تنصیب کا واقعہ ان بہت زیادہ واقعات میں سے ایک ہے جن میں اس امر خلافت پر قوت اور شدت کے ساتھ تاکید کی گئی ہے_ دعوت ذوالعشیرة کا واقعہ کچھ یوں ہے:

دعوت ذوالعشیرہ

بعثت کے ابتدائی تین سالوں کے بعد ایک اہم، جدید اورکٹھنمرحلہ کا آغاز ہوا اور وہ تھا اسلام کی طرف اعلانیہ دعوت کا مرحلہ_

پہلے پہل نسبتاً ایک محدود دائرے سے اس کی ابتدا ہوئی کیونکہ خدا کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی_ (وانذر عشیرتک الاقربین)(۱) یعنی اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو (کفر و گمراہی کے عذاب سے) ڈراؤ_

مؤرخین کے بقول ( الفاظ تاریخ طبری کے ہیں) جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو بلاکر کھانا تیار کرنے اور بنی عبدالمطلب کو دعوت دینے کا حکم دیا تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ساتھ گفتگو کرکے حکم الہی کو ان تک پہنچاسکیں_

پس حضرت علیعليه‌السلام نے ایک صاع (تقریباً تین کلو) آٹے کی روٹیاں تیار کرائیں اور بکرے کی ایک ران بھی پکالی نیز دودھ کا کاسہ بھی بھر کر رکھ دیا_ بعدازاں انہیں دعوت دی حالانکہ اس وقت ان کی تعداد چالیس کے لگ بھگ تھی جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ابوطالب، حمزہ، عباس اور ابولہب بھی شامل تھے_ حضرت علیعليه‌السلام کا

___________________

۱_ سورہ شعرائ، آیت ۲۱۴_

۱۸

بیان ہے کہ انہوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا لیکن کھانا جوں کا توں رہا صرف انگلیوں کے نشان دکھائی دے رہے تھے_ قسم ہے اس خدا کی جس کے ہاتھ میں علی کی جان ہے وہ کھانا جو میں نے ان کیلئے تیار کیا وہ سارے کا سارا ان میں سے ایک آدمی کھا سکتا تھا_ اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں دودھ پلانے کا حکم دیا_ میں دودھ کا برتن لیکر ان کے پاس آیا انہوں نے جی بھر کر پیا_ خدا کی قسم وہ سارا دودھ ان میں سے اکیلا آدمی پی سکتا تھا_ اس کے بعد جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے گفتگو کرنی چاہی تو ابولہب نے پہل کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے ساتھی نے تم پر کیسا سخت جادو کردیا_ یہ سن کر وہ لوگ متفرق ہوگئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ان سے گفتگو نہ کرسکے_

دوسرے دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو حسب سابق دعوت دینے کا حکم دیا_ چنانچہ جب لوگ کھا پی کر فارغ ہوگئے تو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا:'' اے آل عبدالمطلب خدا کی قسم جہاں تک مجھے علم ہے عرب کا کوئی جوان آج تک اپنی قوم کیلئے کوئی ایسا تحفہ لیکر نہیں آیا جس قسم کا تحفہ میں لایا ہوں_ میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی سعادت کا تحفہ لیکر آیا ہوں خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف دعوت دوں_ اب تم میں سے کوئی ہے جو اس امر میں میرا ہاتھ بٹائے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین قرار پائے''_ یہ سن کر سب چپ ہوگئے حضرت علیعليه‌السلام نے عرض کیا: ''اے اللہ کے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس امر میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہاتھ بٹاؤں گا''_ (حضرت علیعليه‌السلام کہتے ہیں کہ) یہ سن کر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: ''بے شک یہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین ہے، پس اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو''_

حضرت علیعليه‌السلام کا کہنا ہے کہ وہ لوگ ہنستے ہوئے اور جناب ابوطالب سے یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ لو اب اس نے تجھے حکم دیا ہے کہ اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو_ بعض روایات میں صریحاً بیان ہوا ہے کہ جب حضرت علیعليه‌السلام نے اٹھ کر جواب دیا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو بٹھا دیا اور اپنی بات کا تکرار کیا_ حضرت علیعليه‌السلام نے بھی دوبارہ وہی جواب دیا_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر آپ کو بٹھا دیا اور حاضرین کے سامنے تیسری بار اپنی بات دہرائی_ لیکن سوائے علیعليه‌السلام کے کسی نے بھی جواب نہ دیا_ اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مذکورہ کلمات ارشاد فرمائے_

۱۹

اسکافی کی تصریح کے مطابق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''یہ ہے میرا بھائی، میرا وصی اور میرے بعد میرا جانشین''_ یہ سن کر حاضرین نے ابوطالب سے کہا:'' لو اب اپنے بیٹے کی اطاعت کرو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تو اسے تمہارے اوپر حاکم بنادیا ہے''_(۱)

اندھا تعصّب

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ طبری نے اپنی تاریخ میں تو اس حدیث کو مذکورہ بالا انداز میں بیان کیا ہے_ لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ بعد میں وہ پشیمان ہوا کیونکہ اس نے اپنی تفسیر میں مذکورہ حدیث کو متن و سند کی رو سے مکمل طور پر اور حرف بہ حرف نقل کیا ہے البتہ ایک عبارت میں تحریف کی ہے اور اسے یوں ذکر کیا ہے:

( فایکم یوازرنی علی هذا الامر، علی ان یکون اخی، وکذاوکذا ) (۲)

___________________

۱_ اس واقعہ کے سلسلہ میں مراجعہ ہو، تاریخ طبری ج ۲ ص ۶۳، مختصر التاریخ ابوالفدء ج ۲ ص ۱۴ (دار الفکر بیروت)، شواہد التنزیل ج ۱ ص ۳۷۲ و ص ۴۲۱ و کنز العمال طبع دوم ج ۱۵ ص ۱۱۶_۱۱۷ و ۱۱۳ و ۱۳۰ از ابن اسحاق و ابن جریرجبکہ احمد، ابن ابوحاتم، ابن مردویہ، ابونعیم اور بیہقی نے الدلائل میں اور تاریخ ابن عساکر میں اسے صحیح ہے ،تاریخ ابن عساکر نیز زندگی نامہ امام علی (بتحقیق محمودی) ج۱، ص ۸۷_۸۸، شرح نہج البلاغة (معتزلی) ج ۱۳ ص ۲۴۴ از اسکافی، حیات محمد ( ھیکل) طبع اول ص ۲۸۶ و کامل ابن اثیر ج ۲ ص ۶۲،۶۳، السیرة الحلبیة ج ۱ ص ۲۸۶، مسند احمد ج ۱ ص ۱۵۹ نیز رجوع کریں کفایة الطالب ص ۲۰۵ از ثعلبی، منھاج السنة ج ۳ ص ۸۰ از بغوی و ابن ابی حاتم و واحدی و ثعلبی و ابن جریر نیز مسند احمد ج ۱ ص ۱۱۱ و فرائد السمطین بہ تحقیق محمودی ج ۱ ص ۸۶ و اثبات الوصیة (از مسعودی) ص ۱۱۵ و ص ۱۱۶ والسیرة النبویة ابن کثیر ج ۱ ص ۴۶۰،۴۵۹، الغدیر ج ۲ ص ۲۷۸،۲۸۴ بعض مذکورہ کتب سے اور انباء نجباء الابناء ص ۴۶،۴۷ سے نیز شرح الشفا_ (خفاجی) ج ۳ ص ۳۷ و تفسیر خازن ج ص ۳۹۰ و کتاب سلیم بن قیس وغیرہ اور خصائص نسائی ص ۸۶ حدیث ۶۳ نیز رجوع کریں بحارالانوار ج ۳۸ و درمنثور ج ۵ ص ۹۷ از منابع کنز العمال لیکن اس نے اس میں تحریف کی ہے نیز مجمع الزوائد ج ۸ ص ۳۰۲ کچھ کمی کے ساتھ و ینابیع المودة ص ۱۰۵ و غایت المرام ص ۳۲۰ ابن بطریق کی کتاب و العمدة و تفسیر ثعالبی و تفسیر طبری ج ۱۹ ص ۷۵ و البدایة و النہایة ج ۳ ص ۴۰ و تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۳۵۰و۳۵۱_

۲_تفسیر طبری ج ۱۹ ص ۷۵ _

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پھر خدا نے ایسی کتاب بھیجی جو نہ بجھنے والا نور اور چراغ ہے ایسا راستہ ہے جو اپنے رہروں کو گمراہ نہیں کرتا اور حق و باطل کو جدا کرنے والی ایسی چیز ہے جس کی دلیلیں کمزور نہیں پڑتیں۔

شیعوں کے امام عالی مقام کے قول سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن ایسا چراغ ہے جو ابد تک جلتا رہے گا اور اپنے پیروکاروں کو اندھیرے میں راستہ دکھاتا رہے گا اور اس میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی کہ جس کی بنا پر یہ چراغ گل ہوجائے۔ اور اس کے پیروکار راستہ سے بھٹک جائیں۔

3۔ شیعہ علماء کا اتفاق ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا :

'' میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ ایک قرآن اور دوسرے اہل بیت ہیں۔ میری عترت ہے۔ جب تک ان سے متمسک رہو گے گمراہ نہیں ہوگے۔ ''

یہ حدیث اسلام کی ان متواتر احادیث میں سے ہے جسے شیعہ سنی دونوں نے نقل کیا ہے اس حدیث کی روشنی میں بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ شیعوں کی نظر میں قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اگر قرآن میں تحریف ہوجائے تو اس سے تمسک ہدایت کے بجائے گمراہی کا باعث ہوگا ۔ جبکہ حدیث متواتر یہ کہتی ہے کہ اس سے تمسک کرنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوگا۔

4۔ شیعوں کے آئمہ سے نقل شدہ روایتوں میں۔ جنہیں علماء اور فقہاء نے نقل کیا ہے اس بات کی تصریح موجود ہے کہ حق و باطل، صحیح اور غلط کی تشخیص کا معیار قرآن ہے۔ یعنی اگر کوئی چیز ہماری روایت کے نام پر تمہارے سامنے آئے تو اسے قرآن سے

۴۱

پرکھو اگر قرآن کی آیتوں سے مطابقت رکھتی ہے تو وہ حق اور درست ہے اور اگر مطابقت نہ رکھتی ہو تو باطل اور غلط ہے۔

شیعوں کی فقہ اور حدیث کی کتابوں میں اس طرح کی روایتیں بہت زیادہ ہیں کہ ہم یہاں اُن میں سے صرف ایک حدیث نقل کررہے ہیں۔

'' مالم یوافق من الحدیث القرآن فهو زخرف'' (1)

جو حدیث قرآن کے موافق نہ ہو وہ بیہودہ اور باطل ہے۔

اس طرح کی روایتوں سے بھی بخوبی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن میں تبدیلی ممکن نہیں ہے لہٰذا یہ مقدس کتاب ابد تک میزان حق و باطل کے عنوان سے پہچانی جاتی رہے گی۔

5۔ شیعوں کے بزرگ علماء جو اسلامی اور شیعی ثقافت کے پیشرو تھے وہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ قرآن میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ ان تمام علماء اعلام کا ذکر تو یہاں مشکل ہے لیکن نمونہ کے طور پر ہم ان میں سے چند علماء کے نام درج کررہے ہیں۔

1۔ ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بابویہ قمی، معروف بہ ''صدوق'' متوفی 381ھ ق فرماتے ہیں:'' ہمارا عقیدہ قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ یہ خدا کی کتاب ہے ، وحی الٰہی ہے ایسی کتاب ہے جس میں باطل کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اِسے خدائے حکیم و دانا نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ اصول کافی، ج1، کتاب فضل العلم، باب الأخذ بالسنة وشواہد الکتاب، روایت 4

(2)۔ الاعتقادات س 93

۴۲

2۔ سید مرتضیٰ علی ابن الحسین موسوی علوی، معروف بہ ''علم الھدیٰ'' متوفی 436ھ ق، فرماتے ہیں:''اصحاب کی ایک جماعت مثلاً عبداللہ بن مسعود، أبی بن کعب وغیرہ نے شروع سے آخر تک قرآن مجید کو پیغمبر اسلام(ص) کے سامنے بارہا پڑھا جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن بغیر کسی کمی یا پراکندگی کے مرتب تھا۔(1)

3۔ ابو جعفر محمد ابن حسن طوسی معروف بہ شیخ الطائفہ ، متوفی 460ھ ق فرماتے ہیں:''قرآن میں کمی اور زیادتی کی بات تو اس کتاب کے شایان شان ہی نہیں ہے کیونکہ سارے مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن میں زیادتی نہیں ہوئی ہے اس میں کمی کے بارے میں بھی مسلمانوں میں ظاہر یہی ہے کہ کمی نہیں ہوئی ہے اور یہ بات (قرآن میں زیادتی کا نہ ہونا) ہمارے مذہب کے لیے مناسب ہے۔ اس بات کو سید مرتضیٰ نے قبول کیا ہے اور اس کی تائید بھی کی ہے اور ظاہر روایات بھی اسی حقیقت کا ثبوت ہیں۔ ایسی بہت کم روایتیں ہیں جن میں قرآن میں کمی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کی کتابوں میں موجود ہیں لیکن یہ روایتیں خبر واحد ہیں جو علم و عمل کا موجب نہیں ہیں اور ان سے اعراض کرنا ہی بہتر ہے۔(2)

4۔ ابو علی طبرسی صاحب تفسیر ''مجمع البیان'' فرماتے ہیں :

'' قرآن میں زیادتی کی بات کے بے بنیاد ہونے پر تمام امت اسلامی کا اتفاق ہے لیکن قرآن میں کمی کی روایتیں ہمارے بعض اصحاب نیز اہل سنت میں فرقہ ''حشویہ'' سے نقل ہوئی ہیں لیکن ہمارے مذہب میں جو چیز قبول شدہ حقیقت ہے وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ مجمع البیان ج1، ص 10 منقول از جواب ''المسائل الطرابلسیّات'' سید مرتضیٰ

(2)۔ تبیان ج1، ص 3

۴۳

اس کے برخلاف ہے۔(1)

5۔ علی بن طاؤوس حلی معروف بہ سید ابن طاؤوس متوفی 664ھ ق فرماتے ہیں: ''شیعوں کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہوسکتی''(2)

نتیجہ :

خلاصہ بحث یہ ہے کہ شیعہ سنی تقریباً تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ آسمانی کتاب وہی قرآن ہے جو پیغمبر اسلام(ص) پر نازل ہوا تھا اس میں کسی قسم کی تحریف ، تبدیلی اور کمی زیادتی واقع نہیں ہوئی ہے۔

اس بیان سے اس تہمت کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے جو شیعوں پر لگائی جاتی رہی ہے۔ اگر ضعیف روایتوں کا نقل کرنا اتہام کا سبب ہے تو ایسی روایتیں صرف شیعوں ہی کی کتابوں میں نہیں پائی جاتیں بلکہ مفسرین اہل سنت نے بھی اسی طرح کی ضعیف روایتیںاپنی کتابوں میں نقل کی ہیں جن میں بعض نمونہ کے طور پر ملاحظہ ہوں۔

1۔ ابو عبداللہ محمد بن انصاری قرطبی اپنی تفسیر میں ابوبکر انباری سے اور وہ ابی ابن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ سورہ احزاب (73 آیات) پیغمبر(ص) کے زمانہ میں سورہ بقرہ کے برابر (286 آیات) تھا اس سورہ میں آیت ''رجم'' بھی موجود تھی۔ اوراب سورہ احزاب میں ایسی کوئی آیت نظر نہیں آتی(3 )اسی کتاب میں جناب عائشہ سے منقول ہے: ''سورہ احزاب پیغمبر اسلام(ص) کے زمانے میں دو سو آیتوں پر مشتمل تھا، لیکن جب مصحف لکھا گیا تو اب جتنی آیتیں موجود ہیں ان سے زیادہ آیتیں نہیں مل سکیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ مجمع البیان، ج1، ص 10 (2)۔ سعد العود، ص 44 (3)۔ تفسیر قرطبی جزء 14، ص 113

۴۴

2۔ صاحب کتاب الاتقان نقل کرتے ہیں کہ جناب أبی '' کے مصحف میں 116 سورہ تھے۔ کیونکہ ''حقہ'' اور ''خلع'' کے نام سے بھی دو دوسرے سورے موجود تھے۔(1)

حالانکہ ہم سب کو معلوم ہے کہ قرآن مجید میں ایک سو چودہ سورے ہیں اور اب ان دو سوروں (حقہ اور خلع) کا قرآن میں کہیں بھی کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

3۔ ہبة اللہ بن سلامہ کتاب ''الناسخ والمنسوخ'' میں انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں :

'' پیغمبر اسلام(ص) کے زمانہ میں ایک سورہ سورہ توبہ کے برابر تھا مجھے اس سورہ کی صرف ایک آیت یاد ہے اور وہ یہ ہے۔ ''

''لو انّ لِابن آدم وادیان من الذهب لابتغیٰ اِلَیْهِمٰا ثَالِثًا وَ لَوْ اَنّ لَهُ ثالِثًا لابتغیٰ اِلَیْهٰا رابعاً وَلَا یملأَ جَوْفَ ابن آدم اِلّا التُراب ویتوبُ اللّٰه علٰی مَن تابَ''

حالانکہ قرآن میں اس قسم کی آیت موجود نہیں ہے اور درحقیقت یہ آیت قرآن کی بلاغت کے منافی ہے۔

4۔ جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر ''درالمنثور'' میں عمر بن خطاب'' سے روایت کرتے ہیں کہ سورہ احزاب، سورہ بقرہ کے برابر تھا اور اس میں آیہ رجم بھی موجود تھی۔(2)

بہرحال شیعہ اور سنی فرقوں کے بعض افراد نے قرآن میں تحریف کے سلسلے کی کچھ ضعیف

روایتیں نقل کی ہیں لیکن شیعہ اور سنی اکثریت کے لیے یہ روایتیں قابل قبول نہیں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ اتقان۔ ج1، ص 67(2)۔ درالمنثور ج5، ص 180

۴۵

بلکہ نص قرآن، صحیح اور متواتر روایات، ہزاروں اصحاب پیغمبر(ص) اور دنیا کے مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی تبدیلی ، کمی اور زیادتی نہ ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔

سوالات

1۔عدم تحریف قرآن پر قرآن سے کوئی آیت پیش کریں ؟

2۔حدیث ثقلین کس طرح عدم تحریف قرآن پر دلالت کرتی ہے ؟

3۔عدم تحریف قرآن کے بارے میں شیخ صدوق اور علم الھدیٰ کیا فرماتے ہیں ؟

4 ۔ کیا اہل سنت کی کتابوں میں تحریف قرآن پر دلالت کرنے والی روایات موجود ہیں ؟ کوئی دو مورد بیان کیجئے ؟

۴۶

درس نمبر 8 ( منصب امامت )

شیعہ منصب خلافت کو پابند نص کیوں سمجھتے ہیں؟

جواب: دین اسلام ایک عالمی اور زندہ و جاوید دین ہے جب تک پیغمبر اسلام (ص) موجود تھے تو لوگوں کی ہدایت کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر تھی۔ آپ کی رحلت کے بعد ہدایت اور رہنمائی کی ذمہ داری اس کے سپرد ہونی چاہیے جو امت میں سب سے زیادہ اس عہدہ کے لائق ہو۔

پیغمبر اسلام (ص) کے بعد خلافت کا عہدہ پابند نص ہے یعنی خدا کے حکم سے پیغمبر (ص) کسی کے خلیفہ ہونے کا اعلان کریں گے یا یہ کہ اسے انتخاب کے ذریعہ حل کیا جائے گا؟ اس سلسلہ میں دو نظریئے ہیں :

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ منصب خلافت پابند نص ہے اورپیغمبر کے جانشین کو خدا کی طرف سے معین ہونا چاہیے۔

اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ یہ مسئلہ انتخابی ہے یعنی پیغمبر کے بعد ساری امت مل کر کسی ایک فرد کو حکومت اور امت کے امور کی نگرانی کے لیے چن لے گی۔

آنحضرت کے زمانہ کی سیاست کا تجزیہ منصب خلافت کے پابند نص ہونے پر دلیل ہے۔

شیعہ علماء نے عقائد کی کتابوں میں منصب خلافت کے پابند نص ہونے کے بارے

۴۷

میں بہت سی دلیلیں بیان کی ہیں۔ لیکن ہم یہاں عہد رسالت کے حاکم کے شرائط کا تجزیہ پیش کریں گے جس سے شیعوں کے نظریہ کا صحیح اور درست ہونا واضح ہوجائے گا۔

پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ کی داخلی اور خارجی سیاست کا تجزیہ بتاتا ہے کہ آپ(ص) کا جانشین خدا کیطرف سے معین ہونا چاہے۔ اور اس کا اعلان پیغمبر اسلام کی طرف سے کیا جانا ضروری تھا کیونکہ اسلامی معاشرہ کو تین طرف سے خطروں نے گھیر رکھا تھا۔ ایک طرف روم کی شہنشاہیت دوسری طرف ایران کی بادشاہت اور تیسری طرف منافقین کی سازشیں، اس طرح کی چیزوں کو دیکھتے ہوئے مصلحت امت کا تقاضا تھا کہ آنحضرت(ص) اپنا ایک جانشین معین کرکے ساری امت کو متحد کردیں اور داخلی اختلافات کی وجہ سے جو دشمن کو نفوذ کا موقع ملتا ہے اس کا راستہ بند کردیں ۔

وضاحت :

اسلام کو درپیش خطرات کا ایک حصہ روم کی شہنشاہیت تھی جزیرہ عرب کے شمال میں یہ بڑی قدرت کے عنوان سے موجود تھی۔ اور پیغمبر اسلام (ص) کو ہمیشہ اس کا کھٹکا لگا رہتا تھا اپنی عمر کے آخری وقت تک آپ کو اس فکر سے چھٹکارا نہیں مل سکا۔

روم کے عیسائی لشکر سے مسلمانوں کا پہلا ٹکرائو 8ھ میں سرزمین فلسطین پر ہوا۔ جس میں تین سپہ سالار، جناب جعفرطیار، زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ شہید ہوگے اور مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ اس شکست سے قیصر روم کے لشکر کی جرأت بڑھ گئی اور ہر لمحہ ان کے حملے کا خطرہ رہتا تھا۔ اس لیے پیغمبر اسلام (ص) نے 9ھ میں ایک بڑے لشکر کے ساتھ شام کی طرف کوچ کیا تاکہ کسی بھی قسم کے فوجی اقدام کی بہ نفس نفیس رہبری کریں اِس پر مشقت ِ سفر سے لشکر اسلام اپنی دیرینہ حیثیت بچانے اور سیاسی

۴۸

حیات کی تجدید میں کامیاب ہوا۔

اس سطحی کامیابی سے پیغمبر اسلام (ص) مطمئن نہیں ہوئے اور اپنی بیماری سے چند دنوں پہلے آنحضرت(ص) نے اسامہ بن زید کی سپہ سالاری میں لشکر اسلام کو شام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔

اسلام کا دوسرا دشمن ایران کی شہنشاہیت تھی۔ خسرو ایران کی دشمنی کا یہ عالم تھا کہ اُس نے غصہ میں آکر پیغمبر اسلام (ص) کا خط پھاڑ دیا اور سفیر کی توہین کے ساتھ اُسے نکال دیا۔ اور اس نے یمن کے حاکم کو لکھا کہ پیغمبر اسلام کو گرفتار کرلو اور اگر وہ آسانی سے گرفتار نہ ہوں تو انہیں قتل کردو۔

ایران کا بادشاہ خسرو پرویز اگرچہ آنحضرت (ص) کی حیات طیبہ ہی میں مر گیا مگر یمن کی آزادی اور استقلال کا مسئلہ ایرانی شہنشاہوںکے لیے لمحہ فکریہ بنارہا۔ ایرانی سیاستدانوں کا غرور و تکبر کسی ایسی طاقت کو برداشت نہیں کرسکتا تھا۔

تیسرا خطرہ اُن منافقوں کا تھا جو مسلمانوں کے درمیان بیٹھ کر نفاق کے ذریعہ اسلام کی جڑیں کمزور کرنے میں مشغول تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے پیغمبر اسلام (ص) کو تبوک اور مدینہ کے درمیان قتل کرنے کا ارادہ بھی کرلیا تھا۔ اور بعض افراد ایسے بھی تھے جو آپس میں یہ کہا کرتے تھے کہ پیغمبر اسلام کے انتقال کے بعد اسلامی تحریک کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور ہم سب چین کی نیند سوئیں گے۔ منافقین کی تخریبی پالیسیاں اتنی خطرناک تھیں کہ قرآن نے انہیں سورہ آل عمران،نسائ،مائدہ، انفال، توبہ، عنکبوت،

احزاب ، محمد، فتح، مجادلہ، حدید، منافقون میں ذکر کیا ہے۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ فروغ ابدیت، (آقا ی جعفر سبحانی) سے اقتباس

۴۹

کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام کی گھات میں لگے رہنے والے ایسے قوی دشمنوں کی موجودگی کے باوجود پیغمبر اسلام (ص) نئے اسلامی معاشرہ کے لیے اپنی جانب سے کوئی دینی اور سیاسی رہبر معین نہ کریں؟

اس وقت کے معاشرہ کے حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کو ایک جانشین اور رہبر معین کرکے اسلامی اتحاد کو بچانا اور دفاعی طاقت کو مضبوط بنانا ضروری تھا۔ پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد امت کو افراتفری اور برے حالات _ کہ ہر گروہ یہ کہے کہ أمیر ہم میں سے ہوگا _ سے بچانے کے لیے رہبر کے علاوہ اور کوئی راستہ ممکن نہ تھا۔اس وقت کے یہ تمام حالات منصب خلافت کے پابند نص ہونے کے نظریہ کی درستی اور صحت کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔

پیغمبر اسلام (ص) کی طرف سے نص :

پیغمبر اسلام نے معاشرہ کی بنیادی ضرورت کے پیش نظر ابتدائے بعثت سے اپنی عمر کے آخری حصہ تک ہر موقع پر جانشینی اور خلافت کے مسئلہ کا حل پیش کیا۔ آغاز رسالت میں دعوت ذو العشرہ کے موقع پر آپ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کے درمیان اس مسئلہ کو واضح کیا۔ اپنی عمر کے آخری ایام میں حجة الوداع سے واپسی کے وقت مقام غدیر پر بھی آپ نے اپنا جانشین اور خلیفہ معین فرمایا، اسکے علاوہ بھی مختلف مناسبتوں کے موقع پر اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے رہے۔ صدر اسلام کے معاشرتی حالات اور امیر المومنین ـ کی جانشینی کے بارے میں آنحضرت کے ارشادات کے بعد یہ بات واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ خلافت کے مسئلہ کا تنصیبی ہونا ضروری ہے۔

۵۰

سوالات

1۔پیغمبر اسلام (ص) کے بعد خلافت کا عہدہ پابند ِنص ہے اس سے کیا مراد ہے ؟

2۔خلافت کے تعیّن کے سلسلے میں اہل سنّت کا نظریہ بیان کیجئے ؟

3۔خلافت کے تعیّن کے سلسلے میں شیعوں کا نظریہ بیان کیجئے ؟

4۔ خلافت کا عہدہ پابند ِنص ہے اس نظریہ کی درستی پر دلیل پیش کیجئے ؟

5۔ پیغمبر اسلام (ص)نے کتنے موارد پر حضرت علی (ع) کی خلافت کا اعلان کیا کوئی دو مورد بیان کیجئے ؟

۵۱

درس نمبر 9 ( صحابہ کرام )

صحابہ کے بارے میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟

جواب: جن لوگوں نے پیغمبر اسلام کا دیدار کیا اور آپ کی صحبت اختیار کی شیعوں کی نظر میں ان کی چند قسمیں ہیں اس گفتگو کی وضاحت سے پہلے اجمالی طور پر صحابی کی تعریف کردینا مناسب ہے۔

صحابی کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

1 ۔سعید بن مسیب کہتے ہیں: ''صحابی وہ ہے جو ایک یا دو سال تک پیغمبر(ص) کے ساتھ رہا ہو اور ایک یا دوجنگ میں اس نے آپ(ص) کے ساتھ شریک ہوکر جنگ کی ہو۔''(1)

2۔ واقدی کہتے ہیں: '' جس نے پیغمبر(ص) کو دیکھا ، اسلام قبول کیا، دین کے مسائل میں غوروفکر سے کام لیا، دین سے راضی رہا وہ ہمارے نزدیک صحابی ہے چاہے وہ پیغمبر(ص) کے ساتھ ایک گھنٹہ ہی کیوں نہ رہا ہو۔''(2)

3۔ محمد بن اسماعیل کہتے ہیں: جس مسلمان نے پیغمبر (ص) کی صحبت اختیار کی یا آپ کو دیکھا وہ صحابی ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ اسد الغابہ ج1، ص 11 اور 12(2)۔ اسد الغابہ ج1، ص 12 ۔ 11

(3)۔ اسد الغابہ ج1، ص 12 ۔11(1)۔ اسد الغابہ ج1، ص 21 ۔ 11

۵۲

4۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں: جس نے ایک مہینہ ، ایک دن ، یا ایک گھنٹہ بھی پیغمبر(ص) کی محبت

میں گزارا، یا آپ کی زیارت کی وہ صحابی ہے۔(1)

دوسری طرف علمائے اہل سنت کے نزدیک ''عدالت صحابہ'' ایک اصل مسلم ہے ۔ ا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے پیغمبر(ص) کی صحبت اختیار کی وہ عادل ہے۔(2)

اب ہم یہاں آیات قرآن کی روشنی میں ان اقوال کو پرکھ کر اس سلسلے میں شیعہ نظریہ بیان کریں گے جو منطق وحی پر استوار ہے۔

تاریخ میں بارہ ہزار سے زیادہ ان افراد کا ذکر موجود ہے جو صحابی پیغمبر(ص) کے نام سے پہچانے جاتے ہیں اور ان میں مختلف قسم کے افراد پائے جاتے ہیں۔

بیشک پیغمبر اسلام(ص) کی صحبت ایک بہت بڑا افتخار ہے جو ایک خاص گروہ کو حاصل ہوا ہے۔ ان افراد کو امت اسلامیہ نے ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ کیوں کہ وہ دین اسلام کو قبول کرنے والوں میں پیش پیش تھے کہ جنہوں نے سب سے پہلے شوکت اور عزت اسلام کا پرچم لہرایا تھا۔قرآن نے بھی ان پرچم داروں کی تعریف کی ہے :

(لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل اولئک اعظم درجة من الذین انفقوا من بَعْد و قاتلوا) (3)

جن افراد نے فتح مکہ سے پہلے انفاق و جہاد کیا وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد انفاق و جہاد کیا بلکہ ان کا درجہ بلند ہے۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کرلینا بھی ضروری ہے کہ پیغمبر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ اسد الغابہ ج1، ص 21 ۔ 11 (2)۔ الاستیعاب فی اسماء الاصحاب ج1، ص 2، حاشیہ '' الاصابہ''، اسد الغابہ ج1ص 3۔ منقول از ابن اثیر۔ (3)۔ سورہ مبارکہ حدید آیت 10

۵۳

اسلام(ص) کی صحبت کوئی ایسا کیمیا نہیں تھی جو انسان کی ماہیت بدل دے اور آخر عمر تک کی

ضمانت لے لے اور انہیں عادلوں کی فہرست میں قرار دے دے۔

اس مسئلہ کی ضمانت کے لئے مناسب ہے کہ ہم قرآن مجید کا سہارا لیںجس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔

صحابہ قرآن کی نظر میں :

منطق وحی میں پیغمبر اسلام(ص) کی صحبت سے شرفیاب ہونے والوں کی دو قسمیں ہیں۔

پہلا گروہ:اس میں وہ افراد شامل ہیں، جن کی قرآن مجید نے مدح و ستائش کی ہے۔اوران کو اسلام کی شان و شوکت کی بنیاد رکھنے والوں میں شمارکیاہے قرآنی آیات کے چند نمونے ملاحظہ ہوں۔

1۔ سابقین :

(والسَّابقونَ الاوّلون من المهاجرین والانصار والّذین اتبعُوهم باحسان رضی اللّٰه عنهم و رضوا عنه' وَ أَعَدَّ لهم جَنّاتٍ تَجْری من تَحْتِهَا الانهار خالدین فِیْهٰا اَبَدًا ذٰلِکَ الفوز العظیم ) (1)

'' اور مہاجرین اور انصار میں سے (ایمان کی طرف) سبقت کرنے والے اور وہ لوگ جنہوں نے نیک نیتی سے (قبول ایمان میں) اُن کا ساتھ دیا، خدا اُن سے راضی اور وہ خدا سے خوش اور اُن کے واسطے خدا نے وہ (ہرے بھرے) باغ جن کے نیچے نہریں جاری ہیں تیار کر رکھے ہیں۔ وہ ہمیشہ ابدالاباد تک اُن میں رہیں گے یہی تو بڑی کامیابی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ توبہ، آیت نمبر 100

۵۴

ہے۔ ''

2۔ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے :

( لَقَدْ رَضِیَ اللّٰه عَنِ المُؤمِنِیْنَ اِذْ یُبٰایِعُونَکَ تحت الشجرةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلوبِهِمْ فَأنزلَ السکینة عَلَیهِم وَ أثابَهُمْ فَتْحًا قریبًا ) (1)

جس وقت مومنین تم سے درخت کے نیچے (لڑنے مرنے) کی بیعت کررہے تھے تو خدا ان سے ( اس بات پر ) ضرور خوش ہوا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا خدا نے اُسے دیکھ لیا پھر ان پر تسلی نازل فرمائی۔ اور انہیں اس کے عوض میں بہت جلد فتح عنایت کی۔

3۔ مہاجرین :

( لِلْفُقراء المُهٰاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ أُخرِجُوا مِنْ دِیٰارِهِمْ وَ أَمْوالِهمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللّٰهِ وَ رِضْواناً وَ یَنْصُرُونَ اللّٰه وَ رَسُوَله' أُولٰئِکَ هُمُ الصَّادِقُونَ ) (2)

( اس مال میں) ان مفلس مہاجروں کا (حصہ) بھی ہے جو اپنے گھروں سے اور مالوں سے نکالے اور الگ کئے گئے (اور) خدا کے فضل اور خوشنودی کے طلب گار ہیں۔ اور خدا کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ سچے ایماندار ہیں۔

4۔ اصحاب فتح :

( مُحمّد رسول اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ مَعَه' أَشِدّاء عَلٰی الکفّار رَحْمٰائُ بَینَهُمْ تَرٰیُهُم رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللّٰهِ وَ رِضْوٰاناً سِیْمٰا هُمْ فِی وُجُوهِهمْ مِن أَثَرِ السُّجُودِ)(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ فتح۔ آیت نمبر 8 (1)۔ سورہ مبارکہ حشر، آیت نمبر8

(3)۔ سورہ مبارکہ فتح، آیت نمبر 29

۵۵

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر بڑے سخت اور آپس میں بڑے رحمدل ہیں۔ تو ان کو دیکھے گاکہ (خدا کے سامنے) جھکے سر بسجود ہیں خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے خواستگار ہیں(کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں میں گھٹے پڑے ہوئے ہیں۔

دوسرا گروہ:پیغمبر (ص) کی صحبت اختیار کرنے والوں میں دوسرا گروہ اُن افراد پر مشتمل تھا جو دو چہرے اور بیمار دل تھے، قرآن نے انکی ماہیت کو آشکار کرتے ہوئے پیغمبر اسلام(ص) کو اُن کے وجود سے آگاہ کیا۔ اُن میں سے یہاں چند گروہ کا تذکرہ کررہے ہیں۔

1۔ جانے پہچانے منافقین :

( اِذَا جٰائَکَ المُنٰافقونَ قَالوا نشهد انّک لَرسول اللّٰهِ واللّٰه یُعلَمُ انّکَ لَرَسُولُهُ وَاللّٰهُ یَشْهَد أَنَّ المُنَافقین لَکٰاذِبُونَ) (1)

( اے رسول) جب منافقین آپ کے پاس آکر کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں خدا تو جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں وہ (خدا) گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔

2۔ انجانے منافقین :

(و مِمَّنْ حَوْلَکُم مِنَ الأَعرابِ مُنٰافِقُونَ وَ مِن أهْل المَدِیْنَهِ مَرَدُوا عَلی النّفاقِ لَا تَعْلَمَهُمْ نَحْنُ نَعْلَمَهُم )(2)

آپ کے اطراف رہنے والے کچھ بادیہ نشین منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ نفاق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ منافقون از اول تا آخر (2)۔ سورہ توبہ، آیت نمبر101

۵۶

میں ڈوبے ہوئے ہیں آپ ان کو نہیں پہچانتے میں پہچانتا ہوں۔

3۔ بیمار دل :

(واذ یقول المُنٰافقون والذین فی قلوبهم مَرَض مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ و رَسُولُه' اِلّا غُرُوراً) (1)

منافقین اور وہ لوگ جن کے دل میں مرض تھا کہنے لگے تھے کہ خدا نے اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدے کیے وہ بالکل فریب تھے۔

4۔ گناہ گار :

( و آخَرُونَ اعتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلاً صالِحًا وَ آخَرَ سَیِّئًا عسیٰ اللّٰهُ اَنْ یتوبَ عَلَیْهِمْ اِنّ اللّٰه غفور رَحِیْم ) (2)

اور کچھ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا تو اقرار کیا (مگر ) ان لوگوں نے بھلے کام اور کچھ برے کام کو ملا جلا دیا۔ قریب ہے کہ خدا ان کی توبہ قبول کرے۔ خدا تو یقینا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

قرآن مجید کی آیات کے علاوہ پیغمبر اسلام(ص) کی بہت سی روایتیں بعض اصحاب کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں جن میں سے دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔

1۔ ابو حازم نے سہل بن سعد سے روایت کی ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

میں تم کو اس حوض کی طرف بھیج رہا ہوں جہاں وارد ہونے والا اس سے سیراب ہوتا ہے اور جو اس سے سیراب ہو وہ ابد تک کبھی پیاسا نہیں ہوتا کچھ افراد وہاں میرے

پاس آئیں گے جن کو میں پہچانتا ہوں گا اور جو مجھے پہچانتے ہوں گے۔ پھرہمارے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ احزاب، آیت نمبر 12 (2)۔ سورہ مبارکہ توبہ، آیت نمبر 102

۵۷

اور ان کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔

ابو حازم کہتے ہیں کہ جب میں اس روایت کو بیان کررہا تھا تو نعمان بن ابی عیاش نے اِسے سن کر کہا کہ کیا آپ نے سھل سے اسی طرح سنا ہے؟ میں نے کہا ''ہاں'' تو ابو حازم نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ابو سعید خدری نے اس حدیث میں پیغمبر اسلام(ص) کی زبانی کچھ زیادہ بیان کیا ہے۔

(انّهم منّی فیقال انّک لا تدری ما احد ثوا بعدکَ فاقول سحقًا لِمَنْ بدّل بعدی ) (1)

'' یہ لوگ مجھ سے ہیں تو کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا پھر میں کہوونگا کہ رحمت خدا سے دور ہوجائے جس نے احکام خدا کو بدل دیا۔ ''

'' میں ان کو پہچانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے '' اور میرے بعد بدل ڈالا، یہ دونوں جملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس سے مراد آنحضرت کے وہ اصحاب ہیں جو مدتوں آپ(ص) کے ساتھ رہے۔ (اس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں نے روایت کیا ہے )

2۔ بخاری اور مسلم نے پیغمبر اسلام(ص) سے روایت نقل کی ہے۔

'' قیامت کے دن میرے اصحاب میں سے کچھ افراد۔ یا آپ نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ افراد میرے پاس آئیں گے پھر حوض کوثر سے دور ہٹا دیئے

جائیں گے۔ پھر میں کہوونگا کہ پالنے والے یہ میرے اصحاب ہیں ۔ تو خدا فرمائے گا :

آپ(ص) کے بعد اِن لوگوں نے جو کچھ کیا آپ کو نہیں معلوم وہ اپنی سابقہ حالت کی طرف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) جامع الاصول (ابن اثیر)، ج11 ص 120 ح 7972

۵۸

پلٹ گئے تھے۔(1)

نتیجہ :

قرآنی آیات اور پیغمبر اسلام(ص) کی احادیث کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آنحضرت (ص) کی صحبت میں رہنے والے تمام افراد ایک جیسے اور ایک سطح کے نہیں تھے، ایک گروہ وہ تھا جو پاکیزگی اور شائستگی کی بلندیوں پر فائز تھا۔ ان کی خدمات اسلام کی سربلندی اور سرفرازی کا سبب بنیں۔ اور دوسرا گروہ وہ تھا جو شروع ہی سے دو چہرے رکھتا تھا۔ جو منافق ، بیمار دل، اور گناہ گار تھا۔

بیان گذشتہ کی روشنی میں پیغمبر اسلام (ص) کے اصحاب کے بارے میں شیعوں کا نکتہ نظر واضح ہوجاتا ہے۔ یہ وہی نظریہ ہے جو قرآن مجید اور پیغمبر اسلام(ص) کی سنت سے حاصل ہوتا ہے۔

سوالات

1۔اہل سنت کی نظر میں صحابہ کی تعریف کیجئے؟

2۔قرآن کی نظر میں صحابہ کے کتنے گروہ ہیں ؟

3۔صحابہ کے بارے میں شیعوں کا نکتہ نظر بیان کیجئے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ جامع الاصول ج11، ص 120، ح7973

۵۹

درس نمبر 10

( شفاعت )

اسلام کے مسلم اصولوں میں سے ایک شفاعت ہے جسے تمام اسلامی فرقوں نے قرآن اور روایات کی پیروی کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے اگرچہ شفاعت کے نتیجہ میں نظریاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ شفاعت کی حقیقت یہ ہے کہ ایک محترم انسان جو خدا کے نزدیک تقرب اور خاص منزلت رکھتا ہو دوسرے انسان کی گناہوں کی بخشش یا اس کے درجات کی بلندی کا خداوند متعال کی بارگاہ میں خواستگار ہو۔

پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا :

'' أُعْطَیْتُ خمسْاً ---- وَ أُعطِیْتُ الشَّفَاعَةَ فاَدّخَرْتُهٰا لِأُمّتِي'' (1)

مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئیں ۔۔۔ مجھے حق شفاعت عطا کیا گیا لہٰذا میں نے اس کو اپنی امت کے لیے ذخیرہ کرلیا۔

شفاعت کے حدود :

پہلی بات تو یہ کہ شفاعت کرنے والے کو خدا کی طرف سے شفاعت کرنے کی اجازت حاصل ہو۔ لہٰذا صرف وہی گروہ شفاعت کرنے کا مجاز ہے جو تقرب الٰہی کے ساتھ ساتھ اس سے شفاعت کرنے کی اجازت بھی حاصل کرچکا ہو۔ قرآن مجید میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔مسند احمد ، ج1، ص 301، صحیح بخاری ج1، ص 91

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417