الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)9%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 209832 / ڈاؤنلوڈ: 6321
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

بھی کرلیں کہ ان کی عمر ان کی بیان کردہ مقدار سے کافی زیادہ تھی (جیساکہ ہم آگے چل کر اشارہ کریں گے) لیکن یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے کس سے حدیث نقل کی ہے _ اور یہ دعوی کہ کسی صحابی کی مرسل روایت اس کے کمزور ہونے کا سبب نہیں ہے کیونکہ ایک صحابی دوسرے صحابی سے نقل کرتاہے اور تمام صحابہ عادل ہیں بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ ان سب کی عدالت کے متعلق ہم نے اپنی کتاب '' دراسات و بحوث فی التاریخ والاسلام '' کی دوسری جلد میں '' صحابہ کتاب و سنت کی نظر میں'' کے تحت عنوان ثابت کیا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے اور یہ دعوی بھی صحیح نہیں ہے کہ ایک صحابی دوسرے صحابی سے ہی نقل کرتاہے کیونکہ ہوسکتاہے کہ ایک صحابی کسی غیر صحابی سے بھی روایت نقل کرے ، جس طرح کہ ابوہریرہ نے کعب الاحبار سے نقل کیا ہے(۱)

بہر حال اگر ان تمام چیزوں سے چشم پوشی کر بھی لیں تو پھر بھی درج ذیل نکات قابل غور ہیں:

پہلانکتہ: روایت صریحاً کہتی ہے کہ ابن دغنہ قریش کے قبیلہ بنی زہرہ کا حلیف تھا اس صورت میں اس نے حضرت ابوبکر کو قریش کی مخالفت میں پناہ دی جبکہ کوئی حلیف اس قسم کی پناہ نہیں دیتا جیساکہ ان لوگوںکے بقول اخنس بن شریق نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے مکہ میں داخل ہونے کیلئے اس سے پناہ مانگی تھی_(۲)

دوسرانکتہ: ابن دغنہ کی امان کو رد کرنے کے بعد قریش نے حضرت ابوبکر کو اذیت کیوں نہیں دی یا مکہ سے کیوں نہیں نکالا _اگر کوئی یہ کہے کہ اس کے قبیلے والوں کی حمایت کے سبب ایسا نہیں ہوسکا تھا تو سوال یہ ہے کہ یہ حمایت پہلے کیوں نہیں ہوئی اور اگر حضرت ابوبکر سے تعرض نہ کرنے کی وجہ یہ ہوتی کہ ابن دغنہ نے قریش کو ہجرت ابوبکر کی تعریف کر کے رام کرلیا تھا ، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے قبل ہی تعریف

___________________

۱_ ملاحظہ ہو : شیخ محمود ابوریہ کی کتاب شیخ المضیرہ، سید شرف الدین کی کتاب ابوہریرہ اور ملاحظہ ہو کعب الاحبار کا تعارف سیر اعلام النبلاء ج ۳ ص ۴۹۰ و غیرہ میں_

۲_ اعلام الوری ص ۵۵، البحار ج ۱۹ص ۷از قمی، سیرة ابن ہشام ج ۲ص ۲۰، البدایة و النہایة ج ۳ ص ۱۳۷، السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۶۰، السیرة النبویة (دحلان) ج ۱ص ۱۴۲اور بہجة المحافل ج ۱ ص۱۲۶ _

۸۱

کے ذریعہ ایسا کیوں نہ ہوا؟ تاکہ حضرت ابوبکر کو پناہ ڈھونڈنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی_

تیسرانکتہ: اسکافی نے اس واقعے کے دعویدار جاحظ کے دعوی کو یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ بنی جمح عثمان بن مظعون کو کیسے ستا سکتے تھے؟ حالانکہ وہ ان کے ہاں صاحب سطوت وجلالت تھے_ اور ابوبکر کو کیسے آزاد چھوڑ سکتے تھے تاکہ وہ مسجد بنائے اور اس میں وہ امور انجام دے جن کاتم لوگوں نے ذکر کیا ہے، جبکہ خود تم ہی لوگوں نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہم نے اس وقت تک اعلانیہ نماز نہیں پڑھی جب تک حضرت عمرنے اسلام قبول نہ کیا اور یہ جو تعمیر مسجد کی بات کرتے ہو وہ حضرت عمر کے مسلمان ہونے سے پہلے کی ہے_

رہا حضرت ابوبکر کی خوش الحانی اور خوبروئی کے بارے میں تمہارا بیان تو یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ واقدی اور دوسروں نے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک عرب کو دیکھا جس کی داڑھی کم تھی اس کا چہرہ پچکا ہوا تھا آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں پشت کا کبڑا تھااور اپنی تہبند سنبھال نہیں سکتا تھا اسے دیکھ کر حضرت عائشہ نے کہا میں نے اس شخص سے زیادہ حضرت ابوبکر کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا _میرے خیال میں یہاں حضرت عائشہ نے حضرت ابوبکر کی کوئی اچھی صفت بیان نہیں کی_(۱)

اسکافی کے بیان کی تصدیق مقدسی کی اس بات سے ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ انہیں چہرے کی وجاہت کے باعث عتیق کہتے تھے_ اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ اس کی رنگت سفید تھی، لب سرخ تھے بدن کمزور تھاداڑھی ہلکی تھی چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی پیشانی اور ہاتھ کی رگیں ابھری ہوئی اور کمر جھکی ہوئی تھی اپنا تہبند نہیں سنبھال سکتے تھے اور اسے ڈھیلا چھوڑتے تھے جبکہ وہ مالدار لوگوں میں سے تھے حضرت ابوبکر کے بارے میں اسی قسم کی باتیں اور لوگوں نے بھی نقل کی ہیں_(۲) اور یہ بات تو ان کے اس قول کے علاوہ ہے کہ ابوبکر کو عتیق کا لقب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان '' ہذا عتیق من النار'' ( یہ جہنم سے

___________________

۱_ شرح نہج البلاغہ (معتزلی) ج ۱۳ص ۲۶۸از اسکافی_

۲_ البدء و التاریخ ج ۵ص ۷۶،۷۷، تاریخ الخمیس ج ۲ص ۱۹۹اور تاریخ طبری ج ۲ص ۶۱۵

۸۲

آزاد شدہ ہے) کی وجہ سے ملا _ جبکہ اس سے پہلے ان کا نام عبداللہ بن عثمان تھا(۱) اور یہ بات خوبصورتی کی وجہ سے عتیق کہلانے والی بات کی منافی ہے_

چوتھانکتہ: روایت نے صریحا کہا ہے کہ حضرت ابوبکر نے بنی جمح میں ایک مسجد تیار کی لیکن انہی روایت کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اسلام کی سب سے پہلی مسجد، مسجد قبا ہے_(۲) وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عمار نے اسلام کی سب سے پہلی مسجد بنائی_(۳)

بعض لوگوں نے اس کا جواب یوں دینے کی کوشش کی ہے کہ قبا مدینے میں بننے والی پہلی مسجدہے اور عمار نے سب سے پہلے ایک عام مسجد بنائی(۴) لیکن جواب دینے والا یہ بھول گیا کہ مذکورہ قول ( مسجد قبا کے اسلام کی پہلی مسجد ہونے) سے پہلی بات (حضرت ابوبکر کے نبی جمع میں مسجد بنانے )کی نفی ہوتی ہے اور اس قول سے کہ سب سے پہلی مسجد عمار نے بنائی دوسری بات (مسجد قبا کے اسلام کی پہلی مسجد ہونے) کی نفی ہوتی ہے جیساکہ وہاں صریحا کہا گیا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے گھر میں ایک مسجد بنائی جس میں وہ عبادت کیا کرتے تھے_(۵)

پانچواں نکتہ: حضرت ابوبکر کو بنی جمح میں مسجد بنانے کی کھلی چھٹی کیسے ملی؟ بنی جمح والوں نے اس خطرے پر اعتراض کیوں نہیں کیا؟ تیمیوںنے حضرت ابوبکر کی ان عظیم خصوصیات کا کیونکر ادراک نہ کیا اور انہیں (ان کے بقول) ابن دغنہ نے سمجھ لیا تھا؟ کیا صرف ابن دغنہ نے ان صفات کا ادراک کیا؟ نیز قریش نے حضرت ابوبکر کی ان صفات کا لحاظ کیوں نہیں کیا جن کا انہوں نے بعد میں اعتراف کیا اور کیوں حضرت ابوبکر کو نکل جانے دیا؟ بلکہ ان کو اذیتیں ہی کیوں دیں_

___________________

۱_ کشف الاستار عن مسند البزار ج ۳ ص ۱۶۳ در مجمع الزوائد ج ۹ ص ۴۰_

۲_ وفاء الوفاء ج ۱ص ۲۵۰اورالسیرة الحلبیة ج ۲ص ۵۵ _

۳_ السیرة الحلبیة ج ۲ص ۵۵، طبقات ابن سعد ج ۳ص ۱۷۸،۱۷۹، تاریخ ابن کثیر ج ۷ص ۳۱۱اور الغدیر ج ۹ص ۲۰ _

۴_ سیرة الحلبیہ ج ۲ص ۵۵، وفاء الوفاء ج ۱ص ۲۵۰ _

۵_ طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۷۸اور البدایة و النہایة ج ۷ص ۳۱۱ اور ملاحظہ ہو سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۵۵ کیونکہ اس میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ یہ مسجد، بنانے والے کے ساتھ مخصوص تھی_

۸۳

عثمان بن مظعون کی فضیلت کی چوری

ہمیں ظن قوی حاصل ہے کہ بعض لوگوں نے عثمان بن مظعون کی فضیلت کو حضرت ابوبکر کیلئے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ مورخین کے بقول جب عثمان بن مظعون ہجرت حبشہ کے دوماہ بعد وہاں سے لوٹنے والوں کے ساتھ لوٹے تو خلاف توقع یہ مشاہدہ کیا کہ مشرکین اوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا مسئلہ جوں کاتوں ہے تو وہ ولیدبن مغیرہ کی امان میں داخل مکہ ہوئے_

لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کو مصائب وتکالیف میں مبتلا دیکھاجبکہ خود انہیں امان حاصل تھی تو یہ بات ان پر شاق گزری _بنابریں وہ ولید کے پاس گئے اور اس کی امان میں رہنے سے انکار کردیا_ ولید نے کہا:''اے بھتیجے کیا تجھے میری قوم کے کسی فردنے ستایا ہے؟ ''بولے:'' نہیں بلکہ میں ترجیح دیتا ہوں کہ خدا کی پناہ میں رہوں اور اس کے سوا کسی سے پناہ نہ مانگوں ''_ولیدنے کہا پس مسجدجاؤ اور میری پناہ سے نکلنے کا اعلانیہ اظہار کرو جس طرح میں نے تجھے اعلانیہ پناہ دی ہے''_چنانچہ وہ اس کے ساتھ مسجد گئے اور مسجد میں اس کی امان سے نکل جانے کا اعلان کیا_(۱)

قریش کی مایوسانہ کوشش

جب قریش ہجرت حبشہ کے سبب لگنے والے اچانک دھچکے سے کچھ سنبھل گئے اور دیکھا کہ مسلمان حبشہ میں بس گئے ہیں اور وہاں امن و سکون سے زندگی گزار رہے ہیں،(۲) تو انہوں نے سازش کی اور یہ فیصلہ کیا کہ دو آدمی مہاجرین کو لوٹانے کیلئے روانہ کئے جائیں _اس سلسلے میں ان کی نظر انتخاب عمرو بن عاص پرپڑی اور بقولے عمارہ بن ولیدبھی منتخب ہوا _چنانچہ قریش نے ان دونوں کو نجاشی اور اس کے سرداروں کیلئے تحائف کے ساتھ حبشہ بھیجا (راستے میں عمارہ اور عمرو کے درمیان ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جو عمرو بن عاص کی بیوی

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۹۲اس واقعے کا ذکر تاریخ کی متعدد بنیادی کتابوں میں ہوا ہے بنابرین تعداد کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے_

۲_ سیرت مغلطای ص ۲۲ _

۸۴

اور عمارہ کے درمیان عاشقی سے مربوط ہے عمرو نے مناسب موقع پر عمارہ کو پھنسانے کیلئے وقتی طور پر چشم پوشی کرلی) ان دونوں نے نجاشی کے پاس یہ دعوی کیا کہ ہمارے کچھ سر پھرے جوانوں نے تمہاری سرزمین میں پناہ لی ہے انہوں نے اپنے آبائی دین کو خیر باد کہہ دیا ہے اور تمہارے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں _وہ ایک جدید اور خودساختہ دین کے پیرو بن گئے ہیں جو تمہارے دین کے مطابق ہے نہ ہمارے_ ہمیں ان کی قوم کے بزرگوں نے (جن میں ان کے باپ، چچے اور اہل قبیلہ شامل ہیں) تمہاری خدمت میں بھیجا ہے تاکہ تم ان لوگوں کو واپس بھیج دو_

نجاشی نے عمرو اور عمارہ کے مدعا کے بارے میں تحقیق کرنے سے پہلے مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا _چنانچہ مسلمان حاضر کئے گئے اور نجاشی نے ان سے سوالات کئے_ اس کے جواب میں جناب جعفر بن ابوطالبعليه‌السلام نے فرمایا:''اے بادشاہ ہم جاہل اور بت پرست تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریوں میں مشغول رہتے تھے، قطع رحم کرتے تھے، ہمسایوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے، اور کمزوروں کے حقوق کو پامال کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے ہم میں سے ایک شخص کورسول بناکر بھیجا _ہم اس کے نسب، اس کی صداقت، امانت اور پاکدامنی سے خوب آگاہ ہیں_اس نے ہمیں خدا کی طرف بلایا تاکہ ہم اس کی وحدانیت کا اقرار کریں، اس کی عبادت کریں، اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور جن پتھروں اور بتوں کی پوجا ہم اور ہمارے آباء واجداد کرتے تھے انہیں ترک کریں_

اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت کو ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے، ہمسائے کے ساتھ نیکی کرنے اور حرام چیزوں اور خونریزی سے اجتناب کرنے کا حکم دیا _اس نے ہمیں بدکاری کرنے، جھوٹ بولنے ، یتیموں کا مال کھانے اور پاکدامن عورتوں پر ناروا الزام لگانے سے منع کیا اور حکم دیاکہ ہم خدائے واحد کی عبادت کریں، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نماز، زکواة اور روزہ کا بھی حکم دیا ''_(۱)

___________________

۱_ مختلف منابع میں زکوة اور روزے کا ذکر ہوا ہے_ رجوع کریں سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۶۰ و السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ ص ۲۱، الکامل ابن کثیر ج ۲ص ۸۰ (اس نے زکوة کا ذکر نہیں کیا)، نیز اعلام الوری ص ۴۴ (روزہ کے ذکر کے بغیر)، البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۴، تاریخ الخمیس ج۱ص ۲۹۰، السیرة الحلبیة ج۱ ص ۳۴۰ (بقیہ مآخذ کا ذکر نماز اور زکوة کے مدینے میں واجب ہونے کی بحث کے دوران ہوگا_ غزوہ بدر کے ذکر سے پہلے)_

۸۵

اس کے بعد حضرت جعفرعليه‌السلام نے نجاشی کے دربار میں سورہ کہف کی بعض آیات کی تلاوت کی جنہیں سن کر نجاشی روپڑا یہاں تک کہ اس کی داڑھی بھیگ گئی _نیز وہاں موجود پادری بھی روئے ،اس کے بعد نجاشی نے کہا:'' بے شکیہ کلام اور وہ کلام جوعیسیعليه‌السلام لے آئے دونوں ایک ہی نورانی سرچشمہ سے پھوٹے ہیں_ تم دونوں چلے جاؤ خدا کی قسم میں انہیں تمہارے حوالے نہیں کروں گا''_

دوسرے دن عمرو نجاشی کے پاس یہ بتانے گیا کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق عیسیعليه‌السلام بن مریم انسان ہیں_ نجاشی نے مسلمانوں کو بلاکر پوچھا تو حضرت جعفرعليه‌السلام نے اس سے کہا: '' ہم عیسیعليه‌السلام کے بارے میں وہی کہتے ہیں جو ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا ہے ،وہ بندہ خدا ہیں اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اس کی روح اور اس کا وہ کلمہ ہیں جسے خدانے پاکدامن مریم کو عطاکیا''_ یہ سن کر نجاشی نے کہا خدا کی قسم عیسیعليه‌السلام کا مقام اس سے زیادہ نہ تھا جو تم نے بیان کیا بادشاہ کی بات کو درباریوں اور امراء نے نا پسند کیا،لیکن نجاشی نے کہا :''اگرچہ یہ بات تم لوگوں کو پسند نہ آئے''_ پھر (مسلمانوں سے) کہا :'' جاؤ تمہیں امان حاصل ہے جس نے تمہاری برائی بیان کی وہ خسارے میں رہا''_ یہ بات اس نے تین بار دہرائی پھر بولا :''میں سونے کے ایک پہاڑ کے بدلے بھی تم میں سے کسی ایک کو ستانا قبول نہیں کروں گا''_ اس کے بعد نجاشی نے قریش کے تحائف واپس کردیئے_

نوٹ: کچھ لوگ اس روایت کے جعلی ہونے کا احتمال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں روزے کا ذکرہے حالانکہ روزہ مدینہ میں واجب ہوا_(۱)

لیکن یہ احتمال باطل ہے کیونکہ روزہ، اور زکواة وغیرہ کا حکم مکہ میں ہی نازل ہوا انشاء اللہ ہجرت کے بعد کے واقعات میں اس مسئلے پر روشنی ڈالیں گے اور ثابت کریں گے کہ مذکورہ نظریہ (کہ روزہ کا حکم مدینہ میں نازل ہوا) باطل ہے لہذا فی الحال اس مسئلے پر بحث نہیں چھیڑتے کیونکہ مورخین اس کا تذکرہ وہاں کرتے ہیں_

___________________

۱_ فجر الاسلام( احمد امین) ص ۷۶_

۸۶

محقق محترم روحانی صاحب کانظریہ ہے کہ احمد امین اور اس کے ہم خیال افراد کی بے بنیاد تحقیقات کا اصلی مقصداس پہلو کو مشکوک کرنا ہے جس سے حضرت جعفرعليه‌السلام کی مردانگی، جرا ت، حکمت، عقل اور ہوش کا اظہار ہوتا ہے_

اس قسم کی نا انصافی حضرت جعفرعليه‌السلام کے بارے میں دوسرے مقام پر بھی ہوئی ہے یعنی جنگ موتہ میں سپہ سالار ہونے کے بارے میں _کچھ لوگوں کو اس بات سے نہایت دلچسپی ہے کہ حضرت جعفر کی بجائے زید بن حارثہ کو لشکر اسلام کا پہلا سپہ سالار ثابت کرسکیں_

وجہ صرف یہ ہے کہ حضرت جعفرعليه‌السلام حضرت علیعليه‌السلام کے بھائی ہیں، اس سلسلے میں ہماری کتاب ''دراسات وبحوث فی التاریخ والاسلام''کی جلداول میں اس مقالے کی طرف رجوع کریں جس کا موضوع ہے جنگ موتہ کا پہلا سپہ سالار کون تھا؟_

قریش اور مستقبل کے منصوبے

حقیقت یہ ہے کہ ہجرت حبشہ قریش کیلئے ایک کاری ضرب ثابت ہوئی جس نے ان کے اوسان خطا کردیئے اور ان کے وجود کو ہلاکر رکھ دیا_ لہذا انہوں نے خطرات کی روک تھام کیلئے کوششیں کیں، چنانچہ قریش نے مسلمانوں کا پیچھا کیا تاکہ انہیں حبشہ سے لوٹاکر اپنے زیر تسلط رکھیں، لیکن پانی سر سے گزرچکا تھا_ جب قریش نے محسوس کیا کہ حالات ان کے قابوسے باہر ہو رہے ہیں تو ان کواپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوئی_ اس کی وجوہات درج ذیل تھیں:

۱) انہوں نے دیکھا کہ مختلف قبائل میں موجود مسلمانوں کو سزائیں دینے کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل رہا بلکہ اس سے الٹا اندرونی اختلافات اور خانہ جنگی کو ہوا لگنے کا احتمال ہے_

یہ بات قریش کی شہرت وعزت کیلئے سخت خطرناک تھی_ نیز ہر قبیلہ اس بات پر بھی راضی نہ تھا کہ وہ اپنے اندر موجود مسلمانوں کاصفایا کرے کیونکہ وہ قبائلی طرزفکر رکھتے تھے اور اس کے مطابق فیصلے کرتے چلے

۸۷

آرہے تھے،یہاں تک کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے مشن کی مخالفت پر اتفاق کے باوجود بھی قبائلی طرزفکر مذکورہ امرکی راہ میں رکاوٹ بنا رہا_ اس قبائلی طرز تفکر کی یہی مثال کافی ہے کہ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ ہر قبیلے کے مسلمانوں کو وہی قبیلہ سزادے گا ،کوئی دوسرا قبیلہ مداخلت نہیں کرے گا_

۲) قریش دیکھ رہے تھے کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت ایک عالم گیر پیغام بن کر اُبھر رہی ہے جو مکہ وحجاز کے لوگوں سے مختص نہیں اور مسلمانوں کی حبشہ کی طرف ہجرت فقط سزاؤں سے فرار کرنے کی غرض سے نہ تھی کیونکہ ہجرت کرنے والوں میں بہت سے افراد ایسے تھے جن کو اذیتیں نہیں دی گئی تھیں اور ایک خاص بات یہ تھی کہ مہاجرین مکہ کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے_اس لئے وہ خاص طور پر اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے حاصل ہونے والے کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھے کیونکہ ہر ایک کے لئے واضح ہوگیا تھا کہ مکہ کے مسلمانوں کا مرجانا اسلام کے خاتمہ کی نشانی نہیں ہے_

۳) قریش یہ بھی مشاہدہ کررہے تھے کہ مسلمانوں کے اس طرح ہجرت کرنے اور انکے تسلط سے خارج ہونے کے نتیجے میں ان کو مستقبل قریب میں ایک ہمہ گیر مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اوران کے مفادات کو سخت خطرہ لاحق ہوگا_ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوذر نے تن تنہا قریش کا ناطقہ بندکردیا تھا جب وہ عسفان نامی مقام پر قافلوں کی گزرگاہ پر بیٹھے رہتے اور وہاں سے گزرنے والے کاروانوں کوروکے رکھتے (اور سمجھاتے تھے) یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رسول اللہ نہ کہہ دیتے_ حضرت ابوذر جنگ احد کے بعد تک اسی روش پر قائم رہے جب حضرت ابوذر نے قریش کے ساتھ اس قدر سختی کی جبکہ وہ جانتے تھے کہ قریش کیلئے ان سے نپٹنا آسان تر تھا کیونکہ وہ قریش کی سرزمین کے اندر موجود تھے _نیز حضرت ابوذر کی جلد گرفتاری اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی بھی آسان تھی اسلئے کہ وہ قریش کے دوستوں اور تابعداروں کے درمیان موجود تھے_ علاوہ برایں حضرت ابوذر ان لوگوں کی نظر میں ایک اجنبی اور انتہا پسند شخص تھے _خلاصہ یہ کہ جب ایک حضرت ابوذر کے سامنے ان کی یہ حالت تھی تو پھر ان مسلمانوں کا (جن کا تعلق خود قریش سے تھا) ان کے تسلط اور اثر ونفوذ سے دور حبشہ میں امن وسکون کے ساتھ رہنا قریش اور ان کے مفادات کیلئے

۸۸

نہایت خطرناک تھا_ یہ حقیقت قریش کو صبر وحوصلے اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کرتی تھی، خصوصاً ان حالات میں جبکہ شیخ الابطح حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی حمایت اور ابولہب ملعون کے علاوہ دیگر ہاشمیوں کی حمایت کی بنا پر وہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاخاتمہ کرنے یا ان کو خاموش کرنے کی تدبیر نہ کرپاتے تھے_

لہذا انہوں نے نجاشی کے پاس اپنے دو نمائندے بھیجے تاکہ وہ مہاجرین کو واپس بھیج دے لیکن انہیں ناکامی اور سیہ روئی کے ساتھ واپس ہونا پڑا _اس کے بعد قریش نے باقی ماندہ مسلمانوں پر نئے سرے سے مظالم ڈھانے کا سلسلہ شروع کیا_انہوں نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ستانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑانے کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ساحر ومجنون اور کاہن ہونے کی تہمت لگائی نیز مختلف قسم کے نفسیاتی حربوں سے کام لینے لگے_

نجاشی کے خلاف بغاوت

حبشہ میں مسلمانوں کی موجودگی نجاشی کیلئے کئی ایک مشکلات کا سبب بنی، کیونکہ اہل حبشہ نے اس پریہ الزام لگایا کہ وہ ان کے دین سے خارج ہوگیا ہے_ یوں اس کے خلاف بغاوت ہوئی لیکن نجاشی اپنی فہم وفراست کے باعث بغاوت کی آگ بجھانے میں کامیاب رہا اور مسلمان اس کے پاس نہایت امن وسکون کی زندگی گزارتے رہے ،یہاں تک کہ وہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ چلے گئے (جس کا آگے چل کر تذکرہ ہوگا)_

محمد بن اسحاق نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے اور انہوں نے اپنے والد گرامیعليه‌السلام سے نقل کیا ہے کہ حبشہ والوں نے مل کر نجاشی سے کہا کہ تم ہمارے دین سے نکل گئے ہو اس طرح انہوں نے اس کے خلاف بغاوت کی_ نجاشی نے حضرت جعفر اور دیگر مہاجرین کیلئے کشتیوں کا بندوبست کیا اور کہا :'' ان میں سوار ہوجاؤ اور بدستور یہیں رہو اگر مجھے شکست ہوئی تو جہاں چاہو چلے جاؤ لیکن اگر مجھے کامیابی ہوئی تو یہیں رہو'' اس کے بعد وہ باغیوں کے پاس گیا اور ان سے بحث کی ،نتیجتاً وہ متفرق ہوکر چلے گئے_(۱)

___________________

۱_ سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۶۵و البدایة و النہایة ج۳ص ۷۷و سیرت حلبی ج ۲ص ۲۰۲_

۸۹

یہ واقعہ قریش کی طرف سے عمرو اور عمارہ کو حبشہ بھیجنے سے پہلے کا ہے کیونکہ نجاشی نے ان دونوں سے کہا تھا، خداکی قسم اس (اللہ ) نے مجھے حکومت واپس کردی لیکن مجھ سے اس کے بدلے کچھ نہیں لیا_ اس نے میرے بارے میں لوگوں کی بات نہیں مانی پس میں اس کے بارے میں لوگوں کی بات کیونکرمانوں؟ ان کے تحائف واپس کردو مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں اور تم دونوں میری سرزمین سے نکل جاؤ پس وہ دونوں بے آبرو اور ناکام ہوکر واپس لوٹے_(۱)

بعض مہاجرین کی واپسی

حبشہ میں مسلمانوں کو خبر ملی کہ مکہ میں وقتی طورپر صلح ہوگئی ہے _ادھر مسلمانوں نے یہ بھی دیکھاکہ ان کے باعث نجاشی کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے_ چنانچہ بعض مسلمانوں نے دو یا تین ماہ بعد مکہ واپسی کی ٹھانی اورتیس سے زیادہ افراد واپس ہوئے جنمیں سے عثمان بن مظعون کو ولید بن مغیرہ نے پناہ دی _ حضرت عثمان کی طرف سے ولید کی پناہ سے نکل جانے اور امان الہی پر اکتفا کرنے کا واقعہ گزرچکا ہے_

حبشہ سے بعض مسلمانوں کی واپسی کی وجہ صرف یہی تھی نہ افسانہ غرانیق جسے اسلام دشمنوں نے گھڑا ہے اورہم اس پر بحث کرنے والے ہیں_

غرانیق کا افسانہ(۲)

اس خودساختہ کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ ہجرت حبشہ کے دوماہ بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے مشرکین کے ساتھ ایک نشست رکھی_ اتنے میں خداکی طرف سے سورہ نجم نازل ہوئی ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی تلاوت شروع کی یہاں

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۵از ابن اسحاق اور سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۶۲ _

۲_ غرانیق غرنوق کی جمع ہے یعنی آبی پرندے چونکہ پرندے بہت بلندی پر پرواز کرتے ہیں اسلئے بتوں کو ان سے تشبیہہ دی گئی ہے تاکہ بتوں کی عظمت ظاہر ہو نیز غرنوق سفید اور خوبصورت جوانوں کو بھی کہتے ہیں_

۹۰

تک کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس آیت پر پہنچے( افرا یتم اللات والعزی ومناة الثالثة الاخری ) تو شیطان نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل میں دوباتیں ڈالیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دونوں باتوں کو وحی الہی سمجھتے ہوئے زبان پر جاری کردیا_وہ دو جملے یہ ہیں( تلک الغرانیق العلی وان شفاعتهن لترتجی ) یعنی یہ بلند مرتبہ غرانیق ہیں جن کی شفاعت مقبول ہے_ اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بقیہ آیات پڑھیں جب سجدے والی آیت پر پہنچے توآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سجدہ کیا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مسلمانوں اور مشرکین نے بھی سجدہ کیا لیکن ولیدبن مغیرہ نے بڑھاپے یا بقولے تکبر کی بناء پر سجدہ نہ کیا_ اس نے کچھ مٹی اٹھاکر اپنی پیشانی کے قریب کی اور اس پر سجدہ کیا_ ایک قول کی بنا پر یہ شخص سعید بن عاص تھا نیز کہا گیا ہے کہ وہ دونوں تھے،ایک اور قول کی رو سے وہ شخص امیہ بن خلف تھا ،ابولہب اور مطلّب کے بارے میں بھی اقوال موجود ہیں_

بخاری نے مسلمانوں کے ساتھ جنوں اور انسانوں کے سجدے کا بھی ذکر کیا ہے_جب یہ خبر مکہ میں پھیلی تو مشرکین نے خوشی منائی یہاں تک کہ بقولے انہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکاندھوں پر اٹھاکر پورے مکے کا چکرلگایا_

جب رات ہوئی تو حضرت جبریل آئے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مذکورہ سورہ دہرایا اوران دوجملوں کو بھی پڑھا حضرت جبریل نے ان کی نفی کی اور کہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خداسے وہ چیز منسوب کی ہے جو اس نے نہیں فرمائی اس وقت خدانے یہ آیت نازل کی( وان کادوا لیفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیره واذا لاتخذوک خلیلا ولولا ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیهم شیئا قلیلا اذا لاذقناک ضعف الحیاة وضعف الممات ثم لا تجد لک علینا نصیرا ) یعنی یہ لوگ کوشاں تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہماری وحی سے ہٹاکر دوسری باتوں کے افتراء پر آمادہ کریں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوستی گھڑلیتے اگر ہماری توفیق خاص نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی طرف کچھ نہ کچھ مائل ضرور ہوتے پھر ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دنیا کی زندگی اور موت دونوں مرحلوں پر دوھرا مزا چکھاتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے مقابل اپنا کوئی مددگارنہ پاتے_

اس افسانے کی صحت پر درج ذیل آیت سے استدلال کیا گیا ہے (اور دعوی کیا گیا ہے کہ آیت اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہے)_

۹۱

ارشاد رب العزت ہے:

( وما ارسلنا من قبلک من رسول و لا نبيّ الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیته فینسخ الله مایلقی الشیطان ثم یحکم الله آیاته والله علیم حکیم لیجعل مایلقی الشیطان فتنة للذین فی قلوبهم مرض ) یعنی اور ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے کوئی رسول یا نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزؤوں کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی لیکن خدانے شیطان کی ڈالی ہوئی رکاوٹوں کو دور کردیا اور اپنی آیات کو مستحکم بنادیا ،وہ نہایت جاننے والا اور صاحب حکمت ہے تاکہ وہ شیطانی القاء کو امتحان قراردے ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں میں مرض ہے_

بعض حضرات کے نزدیک اس واقعے کی بعض اسانید درست ہیں_(۱)

کہتے ہیں کہ جب حبشہ میں مسلمان مہاجرین نے یہ سنا کہ مکہ میں قریش اور مسلمانوں کے درمیان موافقت اور صلح ہوگئی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ واپس مکہ آگئے لیکن دیکھا کہ صورت حال برعکسہے _ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہ روایت جھوٹی اور جعلی ہے بہت سے علماء اس نظریئے میں ہمارے ہم خیال ہیں_

جب محمد بن اسحاق سے اس بارے میں سوال ہوا تو اس نے جواب دیا اس کو زندیقوں نے گھڑا ہے_ موصوف نے اس کی رد میں ایک الگ کتاب بھی لکھی ہے_(۲)

قاضی عبدالجبار نے اس روایت کے متعلق کہا ہے کہ یہ بے بنیاد ہے ،اس قسم کی احادیث ملحدین کی سازش کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوسکتیں_(۳)

___________________

۱_ رجوع کریں: الدر المنثور ج ۴ص ۱۹۴، ص ۳۶۶اور ص ۳۶۸، السیرة الحلبیة ج۱ص ۳۲۵اور ۳۲۶، تفسیر طبری ج ۱۷ص ۱۳۱اور ۱۳۴، فتح الباری ج ۸ص ۳۳۳اور بخاری نے بھی اصل واقعے کی طرف ایک سے زیادہ بار اشارہ کیا ہے نیز البدایة و النہایة ج ۳ص ۹۰میں بھی مذکور ہے_ سیوطی نے در منثور میں بعض اسانید کی صحت کی تصریح کی ہے_ رجوع کریں لباب النقول اور تفسیر طبری_ مختلف تفاسیر میں بھی یہ واقعہ موجود ہے (مذکورہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں) بنابریں مآخذ کی تعداد بیان کرنے کی ضرورت نہیں_

۲_ رجوع کریں البحر المحیط ( ابی حیان) ج ۶ص ۳۸۱ _

۳_ تنزیہ القرآن عن المطاعن ص ۲۴۳ _

۹۲

ابوحیان کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی کتاب کو اس قصے کے ذکر سے پاک رکھا ہے_(۱)

بیضاوی نے اس کی اسناد پر اعتراض کرتے ہوئے اسے رد کیا ہے نیز بیہقی، نووی، رازی، نسفی، ابن عربی اور سید مرتضی کا بھی یہی نظریہ ہے_ تفسیر خازن میں لکھا ہے صاحبان علم نے اس واقعے کوبے بنیاد قرار دیا ہے_(۲)

عیاض کہتے ہیں کہ معتبراحادیث نقل کرنے والوں نے اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی ثقہ نے اسے درست اور مدلل سندکے ساتھ نقل کیا ہے _ اس قسم کی روایات سے دلچسپی ان مفسرین اور مورخین کو ہے جو ہر قسم کی ضعیف روایت سے بھی شغف رکھتے ہیں اور کتابوں سے ہر صحیح وسقیم روایت کو نقل کرتے ہیں_

قاضی بکربن علاء مالکی نے سچ کہا ہے کہ لوگ بعض ہوا پرست مفسروںکے ہاتھوں پھنس گئے اور ملحدین بھی اسی سے چمٹ گئے حالانکہ اس حدیث کے راوی ضعیف اور اس کی اسناد مبہم و منقطع ہیں، نیز اس کے کلمات میں بھی تضاد ہے_(۳)

ہم اس بات کی تائید کرتے ہیں کیونکہ:

۱) سعید بن جبیر کی سند کے علاوہ اس واقعے کی تمام اسناد یا تو ضعیف ہیں یا منقطع ہیں_(۴) سعید کی روایت بھی مرسل ہے اور اکثر محدثین کے نزدیک مرسل کا شمار بھی ضعیف احادیث میں ہی ہوتا ہے کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ راوی نے اسے غیر ثقہ افراد سے نقل کیا ہو_(۵)

علاوہ برایں اگر ہم حدیث مرسل سے استدلال کو صحیح قرار دے بھی دیں تو اس کا فائدہ فقط فرعی مسائل میںہوگا اعتقادی امور میں نہیں_ جبکہ یہاں ہماری بحث اعتقادی مسئلے میں ہے جسں میں قطعی دلیل کی

___________________

۱_ تفسیر البحر المحیط ج ۲ص ۳۸۱ _

۲_ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۹۱، الہدی الی دین المصطفی ج ۱ص ۱۳۰، الرحلة المدرسیة ص ۳۸، فتح الباری ج ۸ص ۳۳۳ اور تفسیر رازی ج ۲۳ص ۵۰ _

۳_ الشفاء ج ۲ص ۱۲۶، مطبوعہ عثمانیہ اور المواہب اللدنیہ ج۱ ص ۵۳_

۴_ فتح الباری ج ۸ص ۳۳۳ _

۵_ رجوع کریں مقدمہ ابن صلاح ص ۲۶ _

۹۳

ضرورت ہے_ ان باتوں سے قطع نظر اس قصے کے اسناد کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی اسناد یا کسی تابعی پر ختم ہوتی ہیں یا ایسے صحابی پر جواس واقعہ کے بعد پیدا ہوا ہے اگر ہم اس حدیث کے سلسلے کو متصل بھی قرار دیں تب بھی اس حدیث کو رد کرنے اور اس کے جعلی اور جھوٹی ہونے پر یقین رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ عقل سلیم کے خلاف ہے اوریہ اعتراض قسطلانی، عسقلانی اور ان لوگوں پر وارد ہوتا ہے جنہوں نے اسے صحیح گردانا ہے اور کثرت اسناد کے بہانے اسے معتبر سمجھا ہے_(۱)

۲) مضامین کا اختلاف_ سجدہ نہ کرنے والے کے بارے میں اختلاف کا ذکر تو پہلے گزرچکا ہے یہاں ہم مزید اختلافات اور تضادات کی طرف اشارہ کریں گے; مثلاً کبھی کہا گیا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حالت نماز میں مذکورہ جملے ادا کئے اور کبھی کہا گیا ہےکہ قریش کی مجلس میں، نیز اس میں بھی اختلاف ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان الفاظ پر فقط غور کیا یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان پر جاری بھی ہوئے؟ نیز اختلاف ہے کہ شیطان نے ان کو خبردی تھی ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ایسا فرمایا، یا یہ کہ مشرکین نے اسے پڑھا_

علاوہ ازیں کبھی کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پڑھتے وقت اس طرف متوجہ بھی تھے اور کبھی یہ کہ آپ شام تک متوجہ ہی نہیں ہوئے_ کلاعی نے تو یہ کہا ہے کہ حقیقت حال اتنی جلدی منکشف نہ ہوئی بلکہ بات اس وقت واضح ہوئی جب حبشہ میں مسلمانوں کو خبر ملی کہ مکہ میں مسلمانوں کو امان حاصل ہوگئی ہے چنانچہ حبشہ سے مسلمان واپس آگئے پھر شیطان کی طرف سے القاء شدہ جملوں کے منسوخ ہونے کے بارے میں آیت اتری اور جب خدانے اپنا حکم واضح کیا تو مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ اپنا رویہ سخت کرلیا_(۲) اسلئے کہتے ہیں: دروغگو را حافظہ نباشد_

۳) اس افسانے سے نہ صرف سہو و خطا سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معصوم ہونے کی نفی ہوتی ہے( خصوصاً تبلیغ کے بارے میں) جس پر امت کا اجماع ہے اور قطعی دلائل قائم ہیں بلکہ اس افسانے سے (نعوذ باللہ ) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارتدادبھی لازم آتا ہے_ خدا ہمیں اس قسم کے گمراہ کن نظریات سے بچائے_

___________________

۱_ فتح الباری ج ۸ص ۳۳۳ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۲۶اور سیرت مغلطای ص ۲۴از المواہب اللدنیة ج۱ ص ۵۳_

۲_ رجوع کریں: الاکتفاء (کلاعی) ج ۱ص ۳۵۲/۳۵۳_

۹۴

۴)یہ واقعہ اس آیت کے منافی ہے( ان عبادی لیس لک علیهم سلطان ) (۱) یعنی اے شیطان تجھے میرے برگزیدہ بندوں پر تسلط حاصل نہ ہوگا _نیز اس آیت سے بھی متصادم ہے( انه لیس له سلطان علی الذین آمنوا وعلی ربهم یتوکلون ) (۲) یعنی شیطان کو ان پر تسلط حاصل نہ ہوگا جوایمان لے آئے اور جو اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں_ ہاں اگر وہ لوگ یہ فرض کرلیں کہ نعوذ باللہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے برگزیدہ بندوں میں شامل نہیں اور نہ ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں میں، تویہ اور بات ہے، اور ایسا کہنا ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے کے سوا اور کیاہوسکتا ہے؟ جیساکہ صاف ظاہر ہے_

۵) کلاعی صریحاً کہتا ہے کہ جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سورہ کے آخر تک پہنچے تو مسلمانوں اور مشرکین سب نے سجدہ کیا اور مسلمانوں نے مشرکین کے سجدے پر تعجب کیا کیونکہ مسلمانوں نے اس چیز کو نہیں سنا تھا جسے شیطان نے مشرکین کی زبان پر جاری کیا تھا حالانکہ خود کلاعی چند سطر قبل صریحاًیہ کہتا ہے کہ شیطان نے ان کلمات کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان پر جاری کیا(۳) اس واضح تناقض کے علاوہ یہ سوال پیش آتا ہے کہ مشرکین نے وہ بات کیونکر سنی جو شیطان نے نعوذ باللہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان پر جاری کی تھی جبکہ مسلمانوں نے نہیں سنی؟ حالانکہ وہ بھی ان کے ساتھ تھے پھر تو لازمی طورپر مسلمانوں کی نسبت کافررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے قریب تر ہوئے ؟ _

۵) ساری مذکورہ آیات ممکن ہی نہیں کہ ان روایات کے ساتھ مناسبت رکھتی ہوں کیونکہ:

الف:سورہ نجم کی آیات میں خدانے مشرکین کے بتوں (لات، منات، عزی) کے بارے میں کہا ہے( ان هی اسماء سمیتموها انتم وآباء کم ما انزل الله بها من سلطان ان یتبعون الا الظن وما تهوی الانفس ولقد جائهم من ربهم الهدی ) (۴) یعنی یہ نام توصرف تم اور تمہارے آباء نے رکھے ہیں

___________________

۱_ سورہ اسراء آیت ۶۵_

۲_ سورہ نمل آیت ۹۹_

۳_ رجوع کریں: الاکتفاء (کلاعی) ج ۱ص ۳۵۲_

۴_ سورہ نجم آیت ۲۳_

۹۵

خدانے اس کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی درحقیقت وہ تو بس ظن وگمان اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں جبکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے ہاں ہدایت آچکی ہے_

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرکین اپنے معبودوں کی اس قدر تند لہجے میں مذمت پر کیوں راضی ہوئے اور پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سے خوش ہوکر سربسجودبھی ہوگئے؟ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام میں اس واضح تضاد کوکیوں محسوس نہیں کیا یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور بات یہاں تک آن پہنچی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اٹھاکر پورے مکہ میں یہ کہتے ہوئے چکر لگایا کہ یہ بنی عبد مناف کا نبی ہے_

دوسرا سوال یہ ہے کہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اس واضح تضاد کو کیوں نہ سمجھ سکے اور رات تک غافل رہے یہاں تک کہ جبریل آئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس تضاد سے آگاہ کیا؟ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس دوران (نعوذ باللہ) غائب دماغ رہے تھے یا (نعوذ باللہ ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ذہن کام نہیں کر رہا تھا؟_

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ اسی سورہ نجم کی اس آیت سے منافات نہیں رکھتا جس میں قسم اٹھانے کے بعد فرمایا گیا ہے( وما ینطق عن الهوی ان هو الاوحی یوحی ) یعنی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگو خواہشات کے تابع نہیں بلکہ نازل شدہ وحی ہوتی ہے_ پھر کیسے ہوسکتا ہے کہ اس صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی خواہش کے مطابق بات کریں بلکہ شیطان کی طرف سے القاء شدہ جملوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ آیات کے طور پر دہرائیں؟ جبکہ فرمان الہی ہے:( ولو تقوّل علینا بعض الاقاویل لاخذنا منه بالیمین ثم لقطعنا منه الوتین ) (۱) (اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتاتو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑلیتے اور پھر اس کی گردن اڑادیتے) پس خدا نے مذکورہ جملوں کے گھڑنے پرکوئی اقدام کیوں نہیں کیا(۲) اگر یہ آیت سورہ نجم کے بعد اتری ہو تو پھر بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ آیت ایک قاعدہ کلیہ اور قانون بیان کر رہی ہے نہ یہ کہ ایک خارجی واقعے کی طرف اشارہ کررہی ہو اور بس_

___________________

۱_ سورہ الحاقّہ آیت ۴۴_۴۶_

۲_ یہ اس صورت میں ہے کہ آیت میں تقوّل سے مراد صرف جان بوجھ کر جھوٹ بولنا نہ ہو کیونکہ آیت میں تقول کا لفظ آیا ہے اور تقول کا مطلب ہے کہ جان بوجھ کر کوئی بات گھڑی جائے_

۹۶

ب: رہی آیہ تمنّی تو وہ سورہ حج میںہے جو سب کے نزدیک مدنی ہے _بالخصوص اس میں لوگوں کیلئے اعلان حج ،نیز جنگ وجہاد کا حکم ہوا ہے، مسجد حرام کا راستہ روکنے کا بھی تذکرہ ہوا ہے اور یہ ساری باتیں ہجرت کے بعد کی ہیں _کچھ احکام تو ہجرت کے کئی سال بعد کے بھی ہیں اس پر مستزاد یہ کہ ابن عباس، قتادہ اور ابن زبیر وغیرہ نے بھی اسے مدنی قرار دیا ہے _

اگر یہ مدنی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غرانیق والے افسانے کے سالہا سال بعد یہ آیت نازل ہوئی کیونکہ غرانیق کا واقعہ بعثت کے پانچویں سال سے منسوب ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تسلی دینے میں سالہا سال تک تاخیر فرمائے؟

علاوہ ازیں آیت کا مفہوم بھی اس واقعے کے ساتھ بالکل ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ تمنّی کا مطلب کسی مرغوب اور پسندیدہ امر کی خواہش ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گرامی فقط اسی چیز کی خواہش کرسکتے ہیں جو ایک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیثیت سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذمہ داریوں کے مناسب ہو_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسے انسانوں کی سب سے بڑی خواہش حق وہدایت کی ترویج اور باطل کی سرکوبی ہوتی ہے_ شیطان اپنی گمراہی کے باعث لوگوں کے دلوں میں ایسے وسوسے ڈالتا ہے جو اس نیک خواہش کو دھندلاکر دکھاتاہے ،یوں جن کے دلوں میں مرض ہو وہ اس آزمائشے میں گرفتار ہو جاتے ہیں جیساکہ شیطان نے امت موسیعليه‌السلام کے دلوں میں وسوسہ ڈالا، لیکن خدا ہدایت کے نور سے شیطانی وسوسوں کو دور کرتا ہے اور عقل سلیم رکھنے والوں کیلئے حق کو واضح کرتا ہے_

اور اگر ان لوگوں کے بقول تمنا سے مراد تلاوت لی جائے تو تمنی کا یہ معنی بہت نادر، خلاف قاعدہ اور انوکھا ہوگا جو وضع لغوی کے بھی مخالف ہوگااور ظاہر لفظ کے بھی _ آخر کس نے اب تک '' تمنا'' کا معنی '' پڑھنا'' کیا ہے؟ ہمیں تو کوئی شک نہیں کہ اس خیالی واقعہ کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لئے اس آیت کی مذکورہ تفسیر گھڑی گئی ہے _ اور اسی طرح حسان بن ثابت سے منقول شعر(۱) بھی اسی مقصد کے لئے گھڑا گیا ہے _

___________________

۱_ تنزیہ الانبیاء کے ص ۱۰۷ میں حسان سے یہ شعر منسوب ہے :

تمنی کتاب الله اوّل لیلة و آخره لاقی حمام المقادر

جبکہ ممکن ہے کہ یہاں تمنی سے مراد محبت اور شوق ہو_

۹۷

اور تاریخ کی کتابوں میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں _ اور اگر تمنا کا معنی تلاوت بھی لے لیں تو اس آیت کا مطلب وہی ہوگا جو سید مرتضی نے فرمایاہے_

سید مرتضی فرماتے ہیں کہ اگر مراد تلاوت ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی قوم کیلئے آیات کی تلاوت کی تو قوم نے ان میں تحریف کی اور کمی بیشی کے مرتکب ہوئے_ جس طرح یہودی اپنے نبی پر جھوٹ باندھتے ہوئے اس امر کے مرتکب ہوئے تھے اس صورت میں اسے شیطان کی طرف منسوب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ درحقیقت دلوں میں وسوسہ ڈالنے والا وہی شیطان ہے لیکن خدا اس وسوسے کو اپنی دلیلوں کے ذریعے زائل اور باطل کردیتا ہے_(۱)

ج: سورہ اسرا کی آیات( وان کادوا لیفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیره ) کے بارے میں ان لوگوں کا یہ دعوی کہ یہ آیات غرانیق کے مسئلے میں نازل ہوئیں تو یہ بھی غیرمعقول قول ہے کیو نکہ ان آیا ت کا اس واقعے سے کوئی ربط نہیں بلکہ ان کے درمیان منافات ہے پس ان آیات کا شان نزول مذکورہ واقعہ کیسے ہوسکتا ہے؟

آیات کہتی ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان کی طرف مائل نہیں ہوئے بلکہ اس امر کے قریب بھی نہیں ہوئے اور اللہ نے ان کو ثابت قدم رکھا نیزاگران کی طرف مائل ہوتے تو خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سزادیتا جبکہ غرانیق کاافسانہ کہتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ صرف مائل ہوئے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول بھی کیا اور (نعوذ باللہ ) خدا پر جھوٹ باندھا اور جو بات خدا کی طرف سے نہ تھی اسے قرآن میں داخل کرلیا_

آیت کا مقصود تو یہ ہے کہ مشرکین نے اس بات پر اصرار کیا کہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے انہوں نے حضرت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت ابوطالب کے ساتھ متعدد مذاکرات بھی کئے _پس بعید نہیںکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان کو کچھ مہلت دینے کا سوچاہو تاکہ غور کریں اور باطل کو چھوڑ دیں پس یہ آیت نازل ہوئی تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واضح کردے کہ ان کو مہلت دینے میں مصلحت نہیں بلکہ مصلحت سختی کرنے میں ہے_

ان تمام دلائل سے قطع نظر وہ کہتے ہیں کہ سورہ اسرا کی مذکورہ آیات بنی ثقیف کے بارے میں اس وقت

___________________

۱_ تنزیہ الانبیاء ص ۱۰۷ ، ۱۰۸_

۹۸

اتریں جب انہوں نے قبول اسلام کیلئے ایسی شرائط پیش کیں جو ان کے مقام کو بلند کریں_ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیات قریش کے بارے میں اتریں جب انہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو حجر اسود مس کرنے سے روکا_ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدینہ کے یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئیں جب انہوں نے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شام چلے جائیں_(۱) قاضی بیضاوی نے یہی آرا ء بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے_

۶) آخری نکتہ یہ ہے کہ مشرکین نے خدا کا قول (فاسجدوا للہ واعبدوا) سن کر کیونکر سجدہ کیا؟ جبکہ وہ اللہ تعالی کیلئے سجدہ کرنے کے قائل نہیں تھے، چنانچہ ارشاد باری ہے( اذا قیل لهم اسجدو للرحمان قالوا وما الرحمان ا نسجد لما تأمرنا وزادهم نفورا ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمان کیلئے سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمان کیا چیزہے؟ کیا ہم اس چیز کیلئے سجدہ کریں جسکا تو ہمیں حکم دیتا ہے؟ اسطرح انکی نفرت میں مزید اضافہ ہوتا ہے_

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ منظر دیکھ کر کسی مسلمان کا ایمان متزلزل کیوں نہیں ہوا؟ یاوہ دین سے خارج کیوں نہیں ہوا جبکہ وہ دیکھ رہا ہو کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ (نعوذ باللہ ) اصنام کی تعریف کر رہے ہیں اور ان کی شفاعت کو مقبول قرار دے رہے ہیں؟(۲)

مسئلے کی حقیقت

یہاں مسئلے کی حقیقت کچھ یوں معلوم ہوتی ہے (جیساکہ نقل ہوا ہے) کہ جب حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآن کی تلاوت کرتے تو کفار فضول اور غلط باتوں کا سلسلہ شروع کردیتے تاکہ کوئی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سننے نہ پائے سورہ فصّلت کی آیت ۲۶میں ارشاد ہے:( و قال الذین کفروا لا تسمعوا لهذا القرآن و الغوا فیه لعلکم تغلبون ) یعنی کفار آپس میں کہتے ہیں کہ اس قرآن کو نہ سنو اور شور مچاؤ شایداس طرح سے غالب آسکو_ پس جب

___________________

۱_ رجوع کریں: سیرہ حلبی ج۱ص ۳۲۶نیز الدر المنثور و تفسیر خازن اور تفسیر کی دیگر کتب میں بھی مرقوم ہے_

۲_ رجوع ہو حاشیہ الاکتفاء (کلاعی) ج ۱ص ۳۵۳_۳۵۴_

۹۹

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سورہ نجم کی تلاو ت کی اور اس مقام( افرایتم اللات و العزی و مناة ثالثة اخری ) پرپہنچے تومشرکین نے حسب معمول مداخلت کرتے ہوئے کہا( تلک الغرانیق العلی ) _(۱)

ہاں اس کے بعدجب کرایہ کے قصہ پردازوں اور کینہ توزوں کی باری آئی تو انہوں نے اپنے شیطانی مفادات کے پیش نظر اس میں مزید پیوند کاری کرتے ہوئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی عصمت کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایااور قرآن میں موجود ہر چیز میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس حدتک جاہل ثابت کرسکیں کہ گویا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واضح تضادات کو بھی نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ نعوذ باللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شیطان کے آگے بھی بے بس تھے، شیطانی وغیر شیطانی امور میں تمیز نہیں کرپاتے تھے_

لیکن ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان باتوں کے مقابلے میں یہی لوگ کہتے ہیں کہ شیطان حضرت عمر کی آہٹ سے بھی ڈرتا تھا(۲) نیز یہ کہ جب سے حضرت عمر مسلمان ہوئے ،شیطان کا ان سے جب بھی سامنا ہوتا تھا تو شیطان منہ کے بل گر پڑتا تھا(۳) یا یہ کہ جس وادی سے حضرت عمر گزرتے تھے شیطان وہاں سے کترا کرنکل جاتا تھا(۴) گویا ان لوگوں کی مراد یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کی طرح نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھی ایک شیطان تھا جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اثر انداز ہوتا رہتا تھا_ ان سارے مسائل پر پہلے بحث ہوچکی ہے_

اس کے بعد اسلام دشمن متعصب مستشرقین کی باری آئی انہوں نے ان بے بنیاد باتوں اور افسانوں سے استفادہ کرتے ہوئے ہمارے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اعتراضات کا نشانہ بنایا_(۵)

___________________

۱_ سیرة النبویة (دحلان) ج ۱ص ۱۲۸ اور تنزیہ الانبیاء ص ۱۰۷نیز رجوع کریں حاشیہ الاکتفاء (کلاعی) ج۱ص ۳۵۴از سہیلی_ کلبی نے کتاب الاصنام میں نقل کیا ہے کہ قریش یہ جملے اپنے بتوں کی تعریف میں جو کعبہ کے اردگرد رکھے گئے تھے ادا کرتے تھے_

۲_ الریاض النضرہ ج ۲ ص ۱۰۳_

۳_ عمدة القاری ج ۱۶ ص۱۹۶ اور ملاحظہ ہو تاریخ عمر ص ۶۲_

۴_ صحیح مسلم ج ۷ ص ۱۱۵ اور اسی کے قریب قریب واقعہ تاریخ عمر ص ۳۵ نیز ص ۶۲ ، الغدیر ج ۸ ص ۹۴ ، مسند احمد ج ۱ ص ۱۷۱، ص ۱۸۲، ص۱۸۷ صحیح بخاری ج۲ ص ۴۴و ص ۱۸۸ اور عمدة القاری ج ۱۶ ص ۱۹۶_

۵_ رجوع ہو تاریخ الشعوب الاسلامیة ص ۳۴از بروکلمان اور کتاب الاسلام ص ۳۵/۳۶ (الفریڈ ھیوم)_

۱۰۰

لیکن اللہ نے ان کی کوششوں کوناکام بنادیا(۱) یوں وہ اپنے مکر وفریب کے جال میں خود پھنس کررہ گئے کیونکہ حق صبح کی طرح روشن اور شرافت ونجابت وپاکیزگی اور عصمت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سورج کی طرح تابناک ہے_

___________________

۱_ قابل ذکر ہے کہ سلمان رشدی نے بھی استعماری طاقتوں کی پشت پناہی اور سازش کے سائے میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق میں تاریخی بے ادبی کرتے ہوئے شیطانی آیات نامی کتاب لکھی_ اس کتاب میں ان بے بنیاد روایات اور افسانوں سے بھی مدد لی گئی ، تمام باطل قوتیں حق کو مسخ کرنے کیلئے متحد ہوئیں لیکن علیعليه‌السلام کے لال روح اللہ خمینی بت شکن کے ایک جملے نے عصر حاضر کے شیاطین کے مکر و فریب کو خاک میں ملا دیا _( مترجم)

۱۰۱

تیسری فصل

شعب ا بوطالب تک کے حالات

۱۰۲

حضرت حمزہعليه‌السلام کے قبول اسلام کی تاریخ میں اختلاف

کہتے ہیں کہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب نے بعثت کے دوسرے سال اسلام قبول کیا، کبھی یہ کہتے ہیں کہ ارقم کے گھر میں حضوراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تشریف فرما ہونے کے بعد مسلمان ہوئے_ یہ دونوں باتیں آپس میں منافات رکھتی ہیں کیونکہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعثت کے تیسرے سال کے اواخر میں ارقم کے گھر تشریف لے گئے تھے_ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت حمزہ عمر سے تین روز قبل مسلمان ہوئے جبکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ بعثت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ارقم کے گھر سے نکلے_ اور اس میں بھی واضح تضاد پایا جاتا ہے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعثت کے تیسرے سال کے اواخر میں صرف ایک ماہ کیلئے حضرت ارقم کے گھر میں رہے (جیساکہ کہا گیا ہے ...اور آئندہ اس کا بھی ذکرہوگاکہ حضرت عمر حضرت حمزہ کے اسلام لانے کے کئی سال بعد اسلام لائے)_

حضرت حمزہ کا قبول اسلام

ابن ہشام اور دوسروں نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ہجرت حبشہ کے بعد اسلام قبول کیا یعنی بعثت کے تقریبا چھٹے سال_ ہم بھی اسی قول کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ جب وہ مسلمان ہوئے تو (جیساکہ مقدسی کہتا ہے) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور مسلمانوں کو تقویت حاصل ہوئی_ یہ بات مشرکین پر گراں گزری چنانچہ انہوں نے عداوت اوردوری اختیار کرنے کے بجائے دوسری راہ اختیار کی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مال و انعام کی لالچ دینے لگے_

۱۰۳

انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حسین لڑکیوں سے شادیوں کی بھی پیشکش کی_(۱) یہ پیشکش ہجرت حبشہ کے بعد کی بات ہے جیساکہ سیرت ابن ہشام سے ظاہر ہے _نیز حضرت حمزہ اعلانیہ دعوت شروع ہونے کے بعد مسلمان ہوئے جب حضرت ابوطالب اور قریش کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد قریش نے دشمنی اور ایذا رسانی کا راستہ اپنایا_

بہرحال حضرت حمزہ کا قبول اسلام ایک سنگ میل کی صورت اختیار کرگیا جس کے بارے میں قریش نے سوچا بھی نہ تھا _اس واقعے سے حالات کی کایا پلٹ گئی اور قریش کی قوت پرکاری ضرب لگی_ ان کے خطرات میں اضافہ ہوا اوران کی سرکشی ومنہ زوری کو لگام لگ گئی(۲) _

ایک دفعہ ابوجہل کوہ صفا کے پاس رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے نزدیک سے گزرا ،اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت دی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برا بھلا کہا ، نیز اسلام کی عیب جوئی اور امر رسالت کی برائی کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کی_ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے کوئی بات نہیں کی_

حضرت حمزہعليه‌السلام شکاری تھے شکار سے لوٹتے تو پہلے خانہ کعبہ جاکر طواف کیا کرتے اور وہاں موجود افراد سے سلام وکلام کرتے اور پھر گھر لوٹتے تھے_ اس دفعہ حضرت حمزہعليه‌السلام شکار سے لوٹے ہی تھے کہ ایک عورت نے ابوجہل کی طرف سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے ادبی کے بارے میں انہیں بتایا_ حضرت حمزہ غضبناک ہوکر سیدھے مسجد الحرام آئے تو انہوں نے ابوجہل کو لوگوں کے ساتھ بیٹھے پایا _وہ اس کی طرف بڑھے ، جب قریب پہنچے تو اپنی کمان اٹھائی اور زور سے اس کے سر پردے ماری جس سے ابوجہل کا سر پھٹ گیا _پھر انہوں نے کہا اے ابوجہل کیاتم اس شخص کی ملامت کرتے ہو؟ لو میں اس کے دین پرہوں اور وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے، اگر تم میں طاقت ہے تو آؤ میرا مقابلہ کرو_ان باتوں سے قبل ابوجہل نے ان کے سامنے عاجزی دکھائی اور گڑ گڑانے لگا لیکن انہوں نے قبول نہ کیا _بنی مخزوم کے افراد ابوجہل کی حمایت کیلئے کھڑے ہوگئے اور حضرت حمزہ سے کہا:'' ہم دیکھتے ہیں کہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے'' _حضرت حمزہ نے کہا: '' کیوں

___________________

۱_ البدء و التاریخ ج۴ص ۱۴۸_۱۴۹ اور یہی بات سیرت ابن ہشام سے بھی ظاہر ہے جس نے حضرت حمزہ کے قبول اسلام کا ذکر کرنے کے بعد ان امور کا بھی تذکرہ کیا ہے_

۲_ ملاحظہ ہو : کنز العمال ج ۱۴ ص ۴۸ ابن عساکر اور بیہقی کی الدلائل النبوة سے_

۱۰۴

نہ بدلوں میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں_اور ان کا قول حق ہے_ خدا کی قسم میں اس دین سے بازنہیں آؤں گا اگر تم سچے ہوتو مجھے روک کر دیکھو''_

ابوجہل نے کہا: '' ابوعمارہ (حمزہ) کومت چھیڑو کیونکہ واقعاً میں نے اس کے بھتیجے کو ناروا گالی دی تھی''_ مقدسی کہتا ہے کہ جب حضرت حمزہ مسلمان ہوئے تو اس سے اسلام اور مسلمانوں کی حیثیت مضبوط ہوئی(۱) اور نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہایت خوشی ہوئی_

قریش نے دیکھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ قوت پکڑ گئے ہیں، بنابریں آپ کو گالی گلوچ دینے سے باز آگئے_ حضرت حمزہ نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے عرض کیا: '' بھتیجے اپنے دین کا کھلم کھلا پرچار کرو، خدا کی قسم مجھے یہ منظور نہیں کہ میں اپنے سابقہ دین پر باقی رہوں خواہ مجھے پوری دنیا ہی کیوں نہ مل جائے''(۲) _ حضرت حمزہ کو قریش کے تمام جوانوں پر برتری حاصل تھی اور وہ سب سے زیادہ غیور تھے_(۳)

حمزہ کا قبول اسلام جذباتی فیصلہ نہ تھا

بظاہربلکہ حقیقت میں بھی انہوں نے اسلام کو معرفت کے ساتھ قبول کیا تھا _کیونکہ آپ کے مذکورہ قول (کہ میرے لئے واضح ہوگیا ہے کہ وہ اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور ان کا قول حق ہے) سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے فقط جذبات سے مغلوب ہوکر اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے اقوال وکردار کے قریبی مشاہدے کی بنا پر پہلے سے ہی اطمینان حاصل کرلیا تھا_

ان کا یہ کہنا کہ کیا تم اس کو برا بھلا کہتے ہو جبکہ میں بھی اس کے دین پر ہوں اس بات کا واضح طور پرشاہد ہے کہ وہ پہلے سے ہی اسلام کو قبول کرچکے تھے لیکن حالات کے پیش نظراسے پوشیدہ رکھ رہے تھے تاکہ یوں وہ مسلمانوں اوراسلام کی بہتر حمایت کرسکیں ،کیونکہ مسلمان قریش کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے اور

___________________

۱_ البدء و التاریخ ج ۵ ص ۹۸_

۲_ ملاحظہ ہو : تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۷۲و ص ۷۳اور السیرة النبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۱۲_

۳_ ملاحظہ ہو : تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۷۲_

۱۰۵

کتنے ہی لوگ ایسے تھے جنہیں مزید روحانی تربیت کی ضرورت تھی تاکہ وہ مشرکین کے مقابلے میں ان مشکل حالات سے عہدہ بر آہوسکتے_

ابوجہل نے بزدلی کیوں دکھائی؟

یہاں اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ مشرکین کاسرغنہ ابوجہل اس دن اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ موجود تھا اور انہوں نے اس کی حمایت کیلئے آمادگی بھی ظاہرکی تھی لیکن اس کے باوجود ابوجہل نے خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے شیر کا سامنا کرنے میں عاجزی اوربزدلی دکھائی_ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت حمزہ کی مردانگی، قوت، غیرت اور شجاعت سے آگاہ تھا_وہ حضرت حمزہ کے عزم وارادے اور عقیدے کی راہ میں جذبہ قربانی کا مشاہدہ کررہا تھا_

دوسری طرف سے اسے تو فقط رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے دشمنی تھی اوراس کی وجہ حب دنیا اور اپنے مفادات کی حفاظت تھی اور وہ موت کا طلبکار نہ تھا ،بلکہ موت سے بچنا چاہتا تھا _وہ موت کو اپنے لئے سب سے بڑا خسارہ سمجھتا تھا لیکن حضرت حمزہ دین کی راہ میں موت کو کامیابی گردانتے تھے ،پس ان کیلئے کوئی وجہ نہ تھی کہ موت سے ڈرتے یا اسے شہد کی طرح شیرین نہ سمجھتے_

تیسری وجہ یہ تھی کہ ابوجہل، بنی ہاشم کامقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا کیونکہ بنی ھاشم کے درمیان اس کے بہت سے حامی موجود تھے_ اگر وہ ان کے ساتھ لڑتا توخاندان اور قبائلی تعصب کے نتیجے میں ان لوگوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا جو اس کے ہم خیال اور ہم عقیدہ تھے_ بنی ہاشم قبائلی طرزفکر کی بنا پر حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑسکتے تھے اگرچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے دین پر نہ تھے، عربوں کی سماجی ومعاشرتی پالیسیاں بھی اسی طرزفکر کی تابع ہوتی تھیں _چنانچہ ابولہب کے علاوہ باقی بنی ہاشم نے حضرت ابوطالب سے وعدہ کیا تھا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کے مقابلے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت اور حفاظت کریں گے_بلکہ ان حالات میں اگر ابوجہل حضرت حمزہ کے خلاف کوئی اقدام کرتا تو اس سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - کو تقویت ملتی اور

۱۰۶

بہت سے بنی ہاشم، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کرتے یا قومی جذبہ کے تحت دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے اور یہ بات ابوجہل کو کسی صورت گوارا نہ تھی_

ان تمام حالات اور نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اس نے اللہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیر (حمزہ) کے مقابلے میں ذلت آمیز خاموشی میں ہی عافیت جانی_

خلاصہ یہ کہ دنیوی زندگی سے ابوجہل کی محبت یا اس کی بزدلی وغیرہ (جس کے باعث وہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بنی ہاشم کی مخالفت کو مضر سمجھتا تھا) کے نتیجے میں اس نے ذلت وپستی پر مبنی موقف اپنایا _یوں اللہ نے باطل کا سرنیچاکیا اور حق کا سر اونچا_

عَبَسَ وَ تَوَلّی ؟

مورخین نے فسانہ غرانیق کے بعد ایک اور واقعے کا تذکرہ کیا ہے جس کے بارے میں '' عبس وتولی'' والی سورت نازل ہوئی یہ سورت، سورہ نجم کے بعد نازل ہوئی ہے_

اس قصے کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ قریش کے بعض رؤساکے ساتھ مصروف گفتگوتھے _یہ لوگ صاحبان مال وجاہ تھے_ اتنے میں عبداللہ ابن ام مکتوم آیا وہ نابینا تھا اس نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قرآن کی آیت سننی چاہی اورعرض کیا: '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مجھے وہ چیزیں سکھایئےواللہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سکھائی ہیں ''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے اس سے بے رخی کی اور ترشروئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے رخ موڑ لیا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی بات کو نا پسند کرتے ہوئے ان رؤسا کی طرف متوجہ ہوئے جن کو مسلمان بنانے کا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شوق تھا _اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں:( عبس وتولی ان جائه الاعمی_ و ما یدریک لعله یزکی_ او یذکر فتنفعه الذکری_ اما من استغنی_ فانت له تصدی و اما من جائک یسعی_ و هو یخشی_ فانت عنه تلهی _) (سورہ عبس، آیت ۱_۱۰)

۱۰۷

یعنی اس نے منہ بسور لیا اور پیٹھ پھیرلی کہ ان کے پاس ایک نابینا آگیا اور تمہیں کیا معلوم شاید وہ پاکیزہ نفس ہوتا یا نصیحت حاصل کرلیتا تو نصیحت اس کے کام آتی لیکن جو مستغنی بنا بیٹھا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی فکر میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرکوئی ذمہ داری نہیں ہے اگروہ پاکیزگی اختیار نہ کرے لیکن جو شخص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دوڑ کرآیا ہے اور خوف الہی بھی رکھتا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سے بے رخی کرتے ہیں_

ایک روایت میں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کا آنا پسند نہ آیا اور سوچا کہ یہ قریشی خیال کریں گے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیروکار اندھے، غلام اور بیچارے لوگ ہی ہیں ،پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منہ بسور لیا

حَكَمْ سے منقول ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے کسی فقیر یا غریب سے منہ نہیں موڑا اور کسی امیر کو اہمیت نہیں دی_ ابن زید نے کہا ہے اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ وحی کو چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو ضرور چھپاتے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں نازل ہوئی_(۱) پس ابن زید نے اس واقعے کی شدت قباحت کی بناپر رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توصیف کی ہے کہ رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس واقعہ کے بہت زیادہ قبیح ہونے کے باوجود بھی اسے نہیں چھپایا ہے _

غیرشیعہ مفسرین ومحدثین کامذکورہ واقعے کے متعلق بنیادی طور پراتفاق ہے_ لیکن ہمارے نزدیک یہ ایک جعلی کہانی ہے جس کا صحیح ہونا ممکن نہیں_ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

الف: اسناد کا ضعیف ہونا، کیونکہ تمام اسانید کی انتہاء یا تو عائشےہ، انس اور ابن عباس پرہوتی ہے جن میں سے کسی نے اس واقعے کا اپنی آنکھ سے خود مشاہدہ نہیں کیا کیونکہ اس وقت یا تو وہ بچے تھے یا ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے _(۲) یا ابومالک(۳) حکم ابن زید، ضحاک، مجاہد اور قتادہ پر منتہی ہوتی ہیں حالانکہ یہ سب تابعی ہیں _بنابریں روایت مقطوعہ ہے اور اس سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے_

___________________

۱_ رجوع کریں: مجمع البیان ج ۱۰ص ۴۳۷المیزان از مجمع و تفسیر ابن کثیر ج ۴ص ۴۷۰ از ترمذی و ابویعلی، حیات الصحابہ ج ۲ص ۵۲۰تفسیر طبری ج ۳۰ص ۳۳_۳۴ و در منثور ج ۶ص ۳۱۴_۳۱۵ نیز دیگر غیر شیعی تفاسیر_ ان تمام تفاسیر میں اس حوالے سے آپ مختلف روایات کا مشاہدہ کریں گے_ بطور مثال آخر الذکر کا مطالعہ کریں_

۲_ رجوع کریں: الہدی الی دین المصطفی ج ۱ص ۱۵۸ _ ۳_ بظاہر اس سے مراد ابومالک الاشجعی ہیں جو تفسیر و روایت میں مشہور اور تابعی ہیں _

۱۰۸

ب:عبارات والفاظ کا اختلاف(۱) یہاں تک کہ ایک ہی راوی سے منقول الفاظ میں اختلاف ہے چنانچہ ایک روایت میں حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس مشرکین کے رؤسا میں سے ایک شخص حاضر تھا_

دوسری روایت میں حضرت عائشہ ہی سے مروی ہے کہ عتبہ اور شیبہ حاضر تھے_

تیسری روایت میں حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اس مجلس میں قریش کے کئی بزرگان موجود تھے جن میں ابوجہل اور عتبہ ابن ربیعہ وغیرہ تھے_

نیز ابن عباس سے منقول ایک روایت میں ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام ، عتبہ، اپنے چچا عباس اور ابوجہل کے ساتھ مصروف گفتگو تھے لیکن ابن عباس ہی سے منسوب تفسیر میں مذکور ہے کہ وہ افراد عباس، امیہ بن خلف، صفوان بن امیہ اور ...تھے_قتادہ سے کبھی امیہ ابن خلف کانام نقل ہوا ہے اورکبھی ابی ابن خلف کا_

بقول مجاہد قریش کے سرداروں میں سے ایک سردار موجود تھا_ دوسری روایت میں مجاہد سے منقول ہے کہ عتبہ ابن ربیعہ اور امیہ ابن خلف موجود تھے_

ان باتوں کے علاوہ خود روایات میں بھی اختلاف ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا؟ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے الفاظ کیاتھے؟ اور ابن ام مکتوم کے الفاظ کیاتھے؟ یہاں ہم اسی قدر گفتگو پر اکتفا کرتے ہیں_ جو مزید تحقیق کا طالب ہو وہ متعلقہ کتابوں کا مطالعہ اور موازنہ کرے_

ج:مذکورہ آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کا آیت میں تذکرہ ہوا ہے اس کی عادت، اور طبیعت ہی یہ تھی کہ وہ امیروں پر توجہ دیتا تھا اگرچہ کافرہی کیوں نہ ہوں اور فقیروں کی اصلاح پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا اگرچہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس قسم کی صفات وعادات کے مالک نہ تھے_

___________________

۱_ الہدی الی دین المصطفی ج ۱ص ۱۵۸_۱۵۹_

۱۰۹

نیز فقیروں کے ساتھ ترشروئی اور بے اعتنائی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عادات میں شامل نہ تھیں اگرچہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمن ہی کیوں نہ ہوں_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیونکر اپنے چاہنے والوں اور مومنین کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے؟(۱) جبکہ اللہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے بارے میں فرمایا ہے:( بالمومنین رؤوف رحیم ) (۲)

بلکہ آپ کی عادت ہی یہ تھی کہ فقیروں کے ساتھ مل بیٹھتے اور ان پر توجہ دیتے_ یہاں تک کہ یہ بات اشراف قریش کو پسند نہ آئی اور ان پر شاق گزری _ قریش کے بعض بزرگوں نے توحضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان غریبوں کو دورہٹادیں تاکہ اشراف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کریں_ یہ سن کر عمرنے ان بیچاروں کو دور کرنے کا اشارہ کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی( ولاتطرد الذین یدعون ربهم بالغداة والعشی یریدون وجهه ) (۳) یعنی ان لوگوں کو دورنہ ہٹاؤ جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی مرضی کے طالب رہتے ہیں_

نیز خداوند نے اس سورہ سے قبل نازل ہونے والے سورہ قلم میں اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توصیف میں فرمایا ہے کہ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خُلق عظیم کے مرتبے پر فائز ہیں''_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیونکر مذکورہ عمل کے مرتکب ہوسکتے تھے جو اس آیت کے منافی ہو اور جس پر خدا کی طرف سے (نعوذ باللہ ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملامت ومذمت ہو؟ کیا خدا (نعوذ باللہ ) اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخلاق سے بے خبر تھا؟ یا یہ کہ باخبر ہونے کے باوجود کسی مصلحت کے تحت ایسا فرمایا _خدا ہمیں گمراہی سے بچائے، آمین_

د:مذکورہ آیات میں ارشاد ہوا ہے:( وما علیک الا یزکی ) یعنی اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے توتم پر کوئی ذمہ داری نہیں _یہ خطاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیلئے نہیں ہوسکتا کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو لوگوں کی ہدایت اور ان کو

___________________

۱_ رجوع کریں: الہدی الی دین المصطفی ج ۱ص ۱۵۸، المیزان ج ۲۰ص ۲۰۳، تنزیہ الانبیاء ص ۱۱۹، مجمع البیان ج ۱ص ۴۳۷_

۲_ سورہ توبہ، آیت ۱۲۸_

۳_ رجوع کریں: الدر المنثور ج ۳ص ۱۲_۱۳ بظاہر یہ آیت ہجرت حبشہ سے قبل اتری کیونکہ راویوں میں ابن مسعود بھی ہے یا مہاجرین تک صلح کی افواہ پہنچنے اور ان کی مکہ واپسی کے بعد اتری_ یاد رہے کہ اس مقام پر حضرت عمر کا تذکرہ غلط ہے کیونکہ وہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے_ وہ ہجرت مدینہ سے کچھ مدت پہلے ہی مسلمان ہوئے، جس کا ذکر آئندہ ہوگا_

۱۱۰

پاکیزہ کرنے کیلئے ہی مبعوث ہوئے تھے، پھر یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذمہ داری کیوں نہ ہو؟ بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اصلی ذمہ داری ہی یہی تھی_ ارشاد الہی ہے( هو الذی بعث فی الامیین رسولا منهم یتلو علیهم آیاته و یزکیهم و یعلمهم الکتاب و الحکمة ) (۱) یعنی خدا نے ہی امیوں کے درمیان، انہی میں سے ایک کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنا کر بھیجا جو ان کیلئے آیات الہی پڑھ کرسناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور کتاب وحکمت سکھاتا ہے_ بنابریں کیونکر ہوسکتا ہے کہ خدا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس بات کی ترغیب دے کہ لوگوں کے ایمان سے بے رغبت ہوجائیں؟(۲)

ھ:آیہ انذار( وانذر عشیرتک الاقربین واخفض جناحک لمن اتبعک من المؤمنین ) (۳) (جو سورہ عبس سے دوسال قبل نازل ہوئی ہے) میں ارشاد ہوا ہے ''اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئےور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اتباع کرنے والے مومنین کے سامنے اپنے کندھوں کو جھکایئے_ تو کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ بھول گئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مومنین کے آگے شانے جھکانے کا حکم ہوا تھا؟ اگر ایسا ہو تو پھراس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اور بھی بہت ساری باتوں کو نہ بھولے ہوں؟ اور اگر بھولے نہیں تو پھراس صریحی حکم کی عمداً مخالفت کیوں فرمائی؟(۴)

و: آیت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ آیت میں مخاطب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی ذات ہے _بلکہ خداوند عالم نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو اس شخص کے متعلق خبر دی ہے جس نے( عبس و تولی ان جاء ه الاعمی ) اندھے کے آنے کی وجہ سے ترشروئی اختیار کرکے منہ پھیر لیا _ پھر خدا نے اس منہ بنانے والے کو مخاطب ہوکر کہا :( و ما یدریک لعله یزکی ) تمہیں کیا پتہ ہوسکتاہے کہ وہ پاکیزہ دل ہو_

ز:علامہ طباطبائی نے فرمایا ہے کہ ترجیح وعدم ترجیح کا معیار، امیری یا فقیری نہیں بلکہ اعمال صالحہ، اخلاق

___________________

۱_ سورہ بقرة آیت ۱۲۹

۲_ تنزیہ الانبیاء ص ۱۱۹

۳_ سورہ شعراء آیت ۲۱۴و ۲۱۵

۴_ المیزان ج ۲۰ ص ۳۰۳

۱۱۱

حسنہ اور صفات عالیہ کی موجودگی یا عدم موجودگی ہے اور یہ ایک عقلی حکم ہے جس کی تائید دین حنیف نے کی ہے پھر حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حکم کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں اور کیونکر ایک کافر کو اس کے مال وجاہ کی بنا پر کسی مومن پر ترجیح دے سکتے ہیں؟ کیا اسلام نے اس سے منع نہیں کیا؟ کیا عقل اور ضمیر کے نزدیک یہ عمل غیرمنطقی اور قبیح نہیں ہے؟(۱)

اگر کوئی یہ کہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلئے ایسا کیا تھا کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان مشرکین سے ایمان کی توقع رکھتے تھے_ یوں دین کو تقویت مل جاتی اور یہ مستحسن کام ہے کیونکہ دین کی راہ میں انجام پایا ہے_تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات قرآن کی آیات صریحہ کے خلاف ہے_ آیات کی رو سے مذکورہ فرد کی مذمت اسلئے ہوئی ہے کیونکہ وہ اس امیر پر اس کی امارت کے باعث توجہ دے رہا تھا اور اس فقیر سے اس کی فقیری کے باعث بے توجہی برت رہا تھا_

نیز اگر یہ بات درست ہوتی تو پھر لازم تھا کہ قرآن اس کے جذبہ دینی اور وظیفہ شناسی کو سراہتا نہ یہ کہ اس کی مذمت وتوبیخ کرتا_

بالآخر ہم یہ اشارہ کرتے چلیں کہ بعض لوگوں نے کہا ہے: ''ممکن ہے یہ کہا جائے کہ آیت میں خطاب کلی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جب بھی کسی فقیر کو دیکھتے تو منہ بسورکر رخ پھیر لیتے'' اس کا جواب یہ ہے کہ :

۱_ یہ قول اس بات کے مخالف ہوجائے گا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ واقعہ ایک دفعہ پیش آیا اور اس کا تکرار نہیں ہوا_

۲_ اگر تمام ناداروں سے منہ پھیر لینے کا ذکر مقصود ہے تو پھر اندھے کا ذکر کیوں آیا ہے ؟

۳_ کیا یہ صحیح ہے کہ یہ فعل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی عادت میں شامل ہو؟

___________________

۱_ المیزان ج۲۰ ص ۳۰۴ کی طرف رجوع کریں_

۱۱۲

جرم کسی اورکا:

مذکورہ باتوں کی روشنی میں واضح ہوا کہ ان آیات میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نہیں بلکہ کوئی اور شخص مراد ہے اور اس حقیقت کی تائید حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول اس روایت سے ہوتی ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ، عبداللہ ابن ام مکتوم کو دیکھتے تو فرماتے تھے مرحبا مرحبا خدا کی قسم کہ اللہ کبھی بھی تیرے بارے میں میری ملامت نہیں کرے گا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے ساتھ لطف ومہربانی اور احسان فرماتے تھے یہاں تک کہ وہ اسی لئے کثرت شرمندگی کی بنا پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوتا تھا_(۱)

اس بیان سے اس شخص کی مذمت کاپہلو نکلتا ہے جو ابن ام مکتوم کے معاملے میں مذکورہ مخالفت کا مرتکب ہوا تھا اور اس احتمال کی مکمل نفی ہوجاتی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے ایسا فعل سرزد ہوا ہو جو قابل سرزنش ہو_ اگر خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سرزنش کی ہوتی تو یہ نفی بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے_

لیکن خیانت کاروں کے ہاتھوں اس بات میں تحریف ہوئی ہے اور انہوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے تھے، مرحبا اس کیلئے جس کے بارے میں خدانے میری ملامت کی، رجوع کریں درالمنثور اور دیگر کتب تفسیر کی طرف، لیکن حقیقت وہی ہے جسے ہم نے ذکر کیا ہے_

ایک سوال کا جواب

سوال: جب مذکورہ آیت میں مقصود کوئی اور ہو تو پھر خدانے (فانت لہ تصدی) (آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی فکر میں لگے ہوئے ہیں) نیز (فانت عنہ تلہی) (آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سے بے رخی کررہے ہیں)کیوں کہا؟_ ان دو عبارتوں سے یہی ظاہر ہے کہ ایک شخص کی طرف توجہ اور دوسرے سے بے رخی کرنے والا شخص جس کا ذکر آیت میں ہوا ہے،دینی جذبے سے سرشار تھا اور اسی جذبے کے پیش نظر اس نے ایک طرف توجہ دی اور دوسری طرف بے رخی اختیار کی_

___________________

۱_ تفسیر البرہان ج۳ ص ۴۲۸ تفسیر نور الثقلین ج/ ۵ ص ۵۰۹ مجمع البیان ج۱۰ ص ۴۳۷_

۱۱۳

جواب: آیات میں اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کہ مذکورہ توجہ خدا کی طرف دعوت دینے کیلئے تھی_ ممکن ہے کہ اس توجہ کی وجہ کوئی دنیوی مقصد ہو مثلا لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا یا عزت حاصل کرنا وغیرہ_ رہی بات ارشاد الہی کی کہ (لعلہ یزکی) (شاید وہ پاکیزگی اختیار کرلے) تو اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کام اس مخاطب کے ہاتھوں انجام پائے بلکہ ممکن ہے اس مجلس میں حاضر کسی اور کے ہاتھوں یہ کام مکمل ہو مثلا رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا کسی اور کے ذریعے_

اس کے علاوہ اگر ہم فرض کریں کہ وہ شخص تبلیغ دین کی غرض سے ان امیروں کی طرف توجہ دے رہا تھاتب بھی یہ بات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے بارے میں نہیں کیونکہ تبلیغ رسول خدا کے ساتھ مخصوص نہیں چنانچہ ان لوگوں کے بقول آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ ایک اور شخص بھی اس تبلیغ پر توجہ دیتا تھا چنانچہ اس کے ذریعے کچھ لوگ مسلمان ہوئے (بشرطیکہ یہ بات درست ہو)_

درست روایت

یہاں صحیح روایت وہ معلوم ہوتی ہے جو حضرت امام صادقعليه‌السلام سے مروی ہے_ اس حدیث کے مطابق یہ آیات ایک اموی کے بارے میں نازل ہوئیں جو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس حاضر تھا_ اتنے میں ابن ام مکتوم آیا، اموی نے اسے گنداسمجھتے ہوئے تیوری چڑھائی اور سمٹ کر بیٹھ گیا نیز اس سے منہ پھیر لیا پس ان آیات میں خدانے اس کا قصہ بیان کیا اور اس کی مذمت کی_(۱)

واضح رہے کہ شروع میں آیات کا خطاب اس شخص کی طرف نہ تھا بلکہ خدا نے اس کے بارے میں غائب کا صیغہ استعمال کیا اور فرمایا اس نے منہ بسورا اور رخ پھیر لیا کیونکہ اس کے پاس ایک نابینا آیا پھر اچانک اسے مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے (وما یدریک) (یعنی تجھے کیا معلوم ...)_

لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ شروع میں خدا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہو (اس شخص کے بارے میں) اورپھر

___________________

۱_ مجمع البیان ج ۱۰ص ۴۳۷و تفسیر البرہان ج ۲ص ۴۲۸و تفسیر نور الثقلین ج ۵ص ۵۰۹ _

۱۱۴

خطاب کا رخ خود اس شخص کی طرف پھیردیاہو لیکن پہلا احتمال ذوق سلیم کی رو سے مناسب تر اور لطیف تر معلوم ہوتا ہے_

جناب عثمان پر الزام

بعض روایات میں عثمان پر الزام لگایا گیا ہے کہ مذکورہ واقعہ ابن ام مکتوم اور حضرت عثمان کے درمیان واقع ہوا_(۱)

لیکن ہم اسے مشکوک سمجھتے ہیں کیونکہ حضرت عثمان نے دیگر مہاجرین کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کی تھی پھر کیونکر مکے میں یہ واقعہ پیش آسکتا تھا؟ ممکن ہے اس کا جواب یہ دیاجائے کہ بقولے تیس سے زیادہ مہاجر دو ماہ بعد حبشہ سے واپس لوٹے (جن کا ذکر ہوچکا ہے) ان میں حضرت عثمان بھی تھے_(۲)

بہرحال حضرت عثمان یا بنی امیہ کے کسی فرد پر الزام، معصوم نبی پر الزام کے مقابلے میں آسان سی بات ہے_(۳) کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے اس قسم کے افعال کسی صورت میں بھی سرزد نہیں ہوسکتے لیکن بعض لوگ معصوم نبی پر اس قسم کی تہمت لگانے کو رواسمجھتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو اس قسم کے الزامات سے پاک ومنزہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں_

___________________

۱_ تفسیر قمی ج ۲ص ۴۰۵، تفسیر البرہان ج ۴ص ۴۲۷، تفسیر نور الثقلین ج ۵ص ۵۰۸

۲_ سیرت ابن ہشام ج ۲ص ۳

۳_ ہم حضرت عثمان کی بعض صفات کو اس آیت کے مطابق بھی پاتے ہیں جیساکہ عثمان اور عمار کے قصے سے ظاہرہوتا ہے جب مدینے میں مسجد کی تعمیر جاری تھی تو اس دوران حضرت عمار حضرت علیعليه‌السلام کے رجز کو حضرت عثمان کی طرف اشارہ کرنے کیلئے دہرا رہے تھے_ رجز یہ تھا:

لایستوی من یعمر المساجدا

یدا ب فیھا قائما و قاعداً

و من یری عن التراب حائدا

اس واقعہ کا ذکر آئندہ ہوگا _ انشاء اللہ

۱۱۵

دشمنان دین کا اس مسئلے سے سوء استفادہ

یہاں اس بات کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض متعصب عیسائیوں نے عبس وتولی والے قصے کی آڑمیں ہمارے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی کوشش کی ہے_(۱) لیکن اللہ اپنے نور کو کامل کرتا ہے اگرچہ ان کافروں کو ناگوار گزرے ہم بھی یہاں یہ کہتے ہیں کہ یہ جعلی اور باطل چیزیں ہیں جن کے لئے خدا نے کوئی دلیل نہیں اتاری ہے _

مزید دروغ گوئیاں

انہی لوگوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ اقرع بن حابس اور عینیہ بن حصن، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس آئے اورآپ کو عمار، صہیب، بلال اور خباب جیسے غریب مسلمانوں کے پاس تشریف فرما دیکھا_ تو ان کو حقیر سمجھا اور خلوت میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے کہا:'' عرب کے وفود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتے رہتے ہیں اور ہمیں اس بات سے شرم آتی ہے کہ وہ ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھیں _ پس جب وہ آجائیں تو ان کو یہاں سے اٹھادیں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے_

انہوں نے کہا اس بات کا تحریری طور پر وعدہ کریں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کاغذ مانگا اور حضرت علیعليه‌السلام سے لکھنے کیلئے کہا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی( و لاتطرد الذین یدعون ربهم بالغداة و العشی یریدون وجهه ما علیک من حسابهم من ...) (۲) یعنی جولوگ اپنے رب کو صبح وشام پکارتے ہیں اور اسی کو مقصود بنائے ہوئے ہیں انہیں اپنی بزم سے دور نہ کیجئے گا_ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ کاغذ دور پھینک دیا انہیں بلایا اور انہی کے ساتھ بیٹھ گئے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عادت ہی یہ ہوگئی کہ ان کے ساتھ بیٹھتے تھے جب بھی اٹھنا چاہتے تو خود اٹھ جاتے اور انہیں وہیں بیٹھا ہوا چھوڑ دیتے_ اس سلسلے میں خدا نے یہ آیت نازل کی( واصبر

___________________

۱_ رجوع کریں: الھدی الی دین المصطفی ج ۱ص ۱۵۸ _

۲_ سورہ الانعام، آیت ۵۲ _

۱۱۶

نفسک مع الذین یدعون ربهم بالغداة والعشی یریدون وجهه ولا تعد عیناک عنهم ) (۱) (اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کر جو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں، خبردار کہ تمہاری آنکھیں ان کی طرف سے پھرنے نہ پائیں) اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ساتھ اس وقت تک بیٹھے رہتے تھے جب تک وہ خود پہلے اٹھ نہ جاتے، بعض روایات میں ہے کہ ان کا مقصود ابوذر وسلمان تھے_(۲)

ان بے بنیاد باتوں کی نفی عبداللہ ابن ام مکتوم کے واقعے میں مذکور بیانات سے ہی ہو جاتی ہے_ لہذا یہاں ہم تکرار کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، علاوہ ازیں کئی ایک روایات کے مطابق پوری سورہ انعام مکے میں بیک وقت نازل ہوئی_(۳)

اس صورت میں یہ آیات کیونکر مذکورہ مناسبت سے مدینہ میں اتریں؟ اگر کوئی یہ کہے کہ پوری سورت کا ایک ساتھ اترنا اس بات کے منافی نہیں کہ مذکورہ آیات اس خاص مناسبت سے اتری ہوں تویہ بات بھی نا قابل قبول ہے کیونکہ پوری سورت ہجرت سے قبل (لیکن انصار کے قبول اسلام کے بعد) ایک ساتھ اتری، جب یہ سورت اتری تو اسماء بنت یزید انصاریہ نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی اونٹنی کی لگام تھام رکھی تھی(۴) جبکہ فرض یہ ہے کہ آیت مدینے میں نازل ہوئی_

اس کے علاوہ عبس وتولی والا واقعہ ہی اس بات کے اثبات کیلئے کافی ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس قسم کے کاموں سے باز رہتے خصوصاً اس صورت میں کہ اگر کوئی غیر معصوم شخص بھی ایسے عمل کا ارتکاب کرے تو اس کی مذمت کی جاتی ہے_

___________________

۱_ سورہ کہف آیت ۲۸_

۲_ حلیة الاولیاء ج ۱ص۱۴۶_۳۴۵، و مجمع البیان ج ۴ ص ۳۰۵ ،۳۰۶_ و البدایة و النہایة ج ۶ ص ۵۶و کنز العمال ج ۱ص ۲۴۵و ج۷ص ۴۶ابن ابی شیبہ و ابن عساکرسے نیز الدر المنثور (مذکورہ آیات کی تفسیر میں متعدد مآخذ سے)_

۳_ رجوع کریں: المیزان ج ۷ص ۱۱۰ _

۴_ الدر المنثور ج ۳ ص ۲۲_

۱۱۷

یہاں ہم اس بات کابھی اضافہ کرتے ہیں کہ سلمان تو مدینے میں مسلمان ہوئے نیز ابوذر بھی مسلمان ہونے کے فوراً بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جدا ہوکر عسفان میں مکہ والوں کے قافلوں کی گزرگاہ پر رہنے لگے تھے (جس کا ذکر ہو چکا ہے)_

بظاہر مشرکین نے اس بات پر زور دیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان غریب مسلمانوں کو اپنے پاس نہیں بٹھائیں، اس سلسلے میں انہوں نے حضرت ابوطالب سے بھی بات کی اور حضرت عمر نے بھی اس بات کو تسلیم کرنے کا اشارہ کیا( جیساکہ نقل ہوا ہے)_ پس سورہ انعام کی یہ آیات ان لوگوں کے ردمیں نازل ہوئیں _

ان آیات میں اس بات کا تذکرہ نہیں کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی رائے کو قبول کیاہو جیساکہ مذکورہ روایات کا دعوی ہے _یہاں ہم روایات کے درمیان موجوداختلاف، ان کے کمزور پہلوؤں اوران لوگوں کے باطل خیالات کو بیان کرنے سے احتراز کرتے ہیں اور ابن ام مکتوم کے واقعے میں جو کچھ عرض کیا ہے، اسی پر اکتفا کرتے ہیں_البتہ یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ آیت '' ولا تطرد الذین یدعون ربہم ...'' کا ظاہر پر یہی بتاتا ہے کہ یہ ڈانٹ ان لوگوں پر پڑی ہے جن سے یہ کام سرزد ہوا ہے اور '' ما علیک من حسابہم من شی ...'' کے قرینہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے مہربانی اور لطف فرماتے ہوئے اپنی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان لوگوں سے علیحدہ رکھا ہے _

حضرت عمر بن خطاب کا قبول اسلام

کہتے ہیں کہ حضرت حمزہ کے قبول اسلام کے تین روز بعد بعثت کے چھٹے سال حضرت عمر مسلمان ہوئے_ وہ اپنی تلوار لیکر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض اصحاب کی تلاش میں نکلے تھے جن کی تعداد چالیس کے قریب تھی_ وہ کوہ صفا کے قریب ارقم کے گھر میں جمع تھے_ ان میں حضرت ابوبکر، حضرت حمزہ اور حضرت علیعليه‌السلام بھی تھے جو حبشہ نہیں گئے تھے_ راستے میں نعیم بن عبداللہ سے حضرت عمر کی ملاقات ہوئی اس کے پوچھنے پر

۱۱۸

حضرت عمر نے بتایا کہ وہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنا چاہتے ہیں

نعیم نے سمجھایا کہ اگر وہ ایسا کرے تو بنی عبد مناف کے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتا_ نیز یہ بھی بتایا کہ تمہارے بہنوئی اور بہن نے بھی اسلام قبول کرلیا ہے_ یہ سن کر حضرت عمر ان کی طرف چل پڑے وہاں پر حضرت خباب بن ارت ،ان کو سورہ طہ کی تعلیم دے رہے تھے_ جب حضرت عمر کی آہٹ سنائی دی تو حضرت خباب ایک کوٹھڑی میں چھپ گئے اور فاطمہ بنت خطاب نے صحیفے کو اپنی ران کے نیچے چھپالیا_

حضرت عمر گھرمیں داخل ہوئے اور مختصر سی گفتگو کے بعد اپنے بہنوئی پر ٹوٹ پڑے اور بہن کا سر زخمی کردیا_ اس وقت حضرت عمر کی بہن نے بتادیا کہ وہ دونوں مسلمان ہوچکے ہیں وہ جو چاہے کرے_ حضرت عمرنے جب اپنی بہن کو خون آلود دیکھا تو اپنے طرز عمل پر پشیمان ہوئے اور نوشتہ قرآن کو طلب کیا ،لیکن اس نے نہیں دیا یہاں تک کہ حضرت عمرنے اپنے خداؤں کی قسم کھائی کہ وہ اسے واپس کردے گا _اس وقت ان کی بہن نے کہا تم مشرک اور نجس ہو نیز تم غسل جنابت بھی نہیں کرتے ہو جبکہ قرآن کو پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں _یہ سن کر حضرت عمر اٹھے اور غسل (یا وضو) کیاپھر اس نوشتہ کی ابتداء سے کچھ حصہ پڑھا اور (حضرت عمر کو لکھنا پڑھنا آتا تھا) پڑھنے کے بعد اسے پسند کیا _اتنے میں حضرت خباب نے آکر یہ خبردی کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے حق میں دعاکی ہے کہ خدا یا اس کے یا ابوجہل کے ذریعے اسلام کی تقویت فرما_

حضرت عمرنے کہا کہ وہ انہیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس لے جائیں تاکہ اسلام قبول کرسکیں_ چنانچہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نکلے، دروازہ کھٹکھٹایا، ایک شخص نے دروازے کے شگاف سے باہر نگاہ کی_جب عمر کو تلوار سجائے دیکھا تو سہم کر واپس ہوا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو خبردی_

یہ سن کر حضرت حمزہ نے کہا اسے آنے دو اگر وہ بھلائی کی تلاش میں آیا ہے تو ہم بخل نہیں کریں گے لیکن اگر وہ برے ارادے سے آیا ہے تو ہم اسی کی تلوار سے اس کاکام تمام کردیں گے_ یوں انہیں اجازت ملی اور وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف آئے اور کمرے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی_ حضرت عمرنے کہا کہ وہ تو مسلمان ہونے کیلئے آیا ہے_ یہ سن کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تکبیر بلندکی اور مسلمانوں نے بھی ایسی تکبیر کہی جسے مسجد الحرام میں

۱۱۹

بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی سن لیا_

اس کے بعد حضرت عمرنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے درخواست کی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باہر نکل کر اعلانیہ اپنا کام شروع کریں_ حضرت عمر کہتے ہیں ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوصفوں کے درمیان باہرنکالا ایک صف میں حضرت حمزہ تھے اور دوسری صف میں میں تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوپر غبار تھا جس طرح پسنے والے آٹے کا غبار ہوتا ہے _پھر ہم مسجد میں داخل ہوئے، میں نے قریش پر نظر کی وہ اتنے دل شکستہ ہوئے کہ اس قدر پہلے کبھی نہ ہوئے تھے_ اس دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت عمر کو فاروق کالقب دیا_

ایک اور روایت کے مطابق قریش نے مل کر مشورہ کیا کہ کون حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرے، حضرت عمر نے کہا یہ کام میں کروں گا پھر وہ اپنی تلوارگردن میں لٹکائے نکل پڑے کہ راستے میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے ملاقات ہوگئی_ ان کے درمیان لے دے ہوئی یہاں تک کہ دونوں نے اپنی تلواریں سونت لیں_ اتنے میں حضرت سعد نے حضرت عمر کو اس کی بہن کے مسلمان ہونے کی خبر سنائی_

تیسری روایت کی رو سے مسلمان باہر نکلے حضرت عمر ان کے آگے آگے یہ کہہ رہے تھے لا الہ الا اللہ محمد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ _جب قریش نے حضرت عمر سے ان کے پیچھے موجود افراد کے بارے میں سوال کیا تو حضرت عمر نے ان کو دھمکی دی کہ اگر ان میں سے کسی نے کوئی غلط حرکت کی تو وہ تلوار سے حملہ کریں گے _ پھر وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے آگے ہوئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم طواف فرمارہے تھے اور عمر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاطت کررہے تھے پھر حضوراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہراعلانیہ طور پر پڑھی_

چوتھی روایت میں ہے کہ جن دنوں مسلمانوں پر بہت زیادہ تشدد ہو رہا تھا تو حضرت عمر مسلمان ہوئے اور وہ اپنے خالو ابوجہل کے پاس گئے (جیسا کہ ابن ہشام کہتا ہے البتہ ابن جوزی کا کہنا ہے کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ عمر کا خالو ابوجہل نہیں بلکہ عاص بن ہاشم تھا ) حضرت عمرنے اسے خبردی کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں یہ سن کراس نے دروازہ بندکردیا حضرت عمر قریش کے دوسرے سردار کے پاس گئے تو وہاں بھی یہی ہوا _ حضرت عمرنے سوچا یہ بات مناسب نہیں کہ دوسرے مسلمانوں پرتشدد ہو لیکن مجھے کوئی نہ مارے، چنانچہ انہوں نے

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417