الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 417
مشاہدے: 177064
ڈاؤنلوڈ: 4373

تبصرے:

جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177064 / ڈاؤنلوڈ: 4373
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بھی کرلیں کہ ان کی عمر ان کی بیان کردہ مقدار سے کافی زیادہ تھی (جیساکہ ہم آگے چل کر اشارہ کریں گے) لیکن یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے کس سے حدیث نقل کی ہے _ اور یہ دعوی کہ کسی صحابی کی مرسل روایت اس کے کمزور ہونے کا سبب نہیں ہے کیونکہ ایک صحابی دوسرے صحابی سے نقل کرتاہے اور تمام صحابہ عادل ہیں بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ ان سب کی عدالت کے متعلق ہم نے اپنی کتاب '' دراسات و بحوث فی التاریخ والاسلام '' کی دوسری جلد میں '' صحابہ کتاب و سنت کی نظر میں'' کے تحت عنوان ثابت کیا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے اور یہ دعوی بھی صحیح نہیں ہے کہ ایک صحابی دوسرے صحابی سے ہی نقل کرتاہے کیونکہ ہوسکتاہے کہ ایک صحابی کسی غیر صحابی سے بھی روایت نقل کرے ، جس طرح کہ ابوہریرہ نے کعب الاحبار سے نقل کیا ہے(۱)

بہر حال اگر ان تمام چیزوں سے چشم پوشی کر بھی لیں تو پھر بھی درج ذیل نکات قابل غور ہیں:

پہلانکتہ: روایت صریحاً کہتی ہے کہ ابن دغنہ قریش کے قبیلہ بنی زہرہ کا حلیف تھا اس صورت میں اس نے حضرت ابوبکر کو قریش کی مخالفت میں پناہ دی جبکہ کوئی حلیف اس قسم کی پناہ نہیں دیتا جیساکہ ان لوگوںکے بقول اخنس بن شریق نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے مکہ میں داخل ہونے کیلئے اس سے پناہ مانگی تھی_(۲)

دوسرانکتہ: ابن دغنہ کی امان کو رد کرنے کے بعد قریش نے حضرت ابوبکر کو اذیت کیوں نہیں دی یا مکہ سے کیوں نہیں نکالا _اگر کوئی یہ کہے کہ اس کے قبیلے والوں کی حمایت کے سبب ایسا نہیں ہوسکا تھا تو سوال یہ ہے کہ یہ حمایت پہلے کیوں نہیں ہوئی اور اگر حضرت ابوبکر سے تعرض نہ کرنے کی وجہ یہ ہوتی کہ ابن دغنہ نے قریش کو ہجرت ابوبکر کی تعریف کر کے رام کرلیا تھا ، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے قبل ہی تعریف

___________________

۱_ ملاحظہ ہو : شیخ محمود ابوریہ کی کتاب شیخ المضیرہ، سید شرف الدین کی کتاب ابوہریرہ اور ملاحظہ ہو کعب الاحبار کا تعارف سیر اعلام النبلاء ج ۳ ص ۴۹۰ و غیرہ میں_

۲_ اعلام الوری ص ۵۵، البحار ج ۱۹ص ۷از قمی، سیرة ابن ہشام ج ۲ص ۲۰، البدایة و النہایة ج ۳ ص ۱۳۷، السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۶۰، السیرة النبویة (دحلان) ج ۱ص ۱۴۲اور بہجة المحافل ج ۱ ص۱۲۶ _

۸۱

کے ذریعہ ایسا کیوں نہ ہوا؟ تاکہ حضرت ابوبکر کو پناہ ڈھونڈنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی_

تیسرانکتہ: اسکافی نے اس واقعے کے دعویدار جاحظ کے دعوی کو یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ بنی جمح عثمان بن مظعون کو کیسے ستا سکتے تھے؟ حالانکہ وہ ان کے ہاں صاحب سطوت وجلالت تھے_ اور ابوبکر کو کیسے آزاد چھوڑ سکتے تھے تاکہ وہ مسجد بنائے اور اس میں وہ امور انجام دے جن کاتم لوگوں نے ذکر کیا ہے، جبکہ خود تم ہی لوگوں نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہم نے اس وقت تک اعلانیہ نماز نہیں پڑھی جب تک حضرت عمرنے اسلام قبول نہ کیا اور یہ جو تعمیر مسجد کی بات کرتے ہو وہ حضرت عمر کے مسلمان ہونے سے پہلے کی ہے_

رہا حضرت ابوبکر کی خوش الحانی اور خوبروئی کے بارے میں تمہارا بیان تو یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ واقدی اور دوسروں نے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک عرب کو دیکھا جس کی داڑھی کم تھی اس کا چہرہ پچکا ہوا تھا آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں پشت کا کبڑا تھااور اپنی تہبند سنبھال نہیں سکتا تھا اسے دیکھ کر حضرت عائشہ نے کہا میں نے اس شخص سے زیادہ حضرت ابوبکر کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا _میرے خیال میں یہاں حضرت عائشہ نے حضرت ابوبکر کی کوئی اچھی صفت بیان نہیں کی_(۱)

اسکافی کے بیان کی تصدیق مقدسی کی اس بات سے ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ انہیں چہرے کی وجاہت کے باعث عتیق کہتے تھے_ اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ اس کی رنگت سفید تھی، لب سرخ تھے بدن کمزور تھاداڑھی ہلکی تھی چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی پیشانی اور ہاتھ کی رگیں ابھری ہوئی اور کمر جھکی ہوئی تھی اپنا تہبند نہیں سنبھال سکتے تھے اور اسے ڈھیلا چھوڑتے تھے جبکہ وہ مالدار لوگوں میں سے تھے حضرت ابوبکر کے بارے میں اسی قسم کی باتیں اور لوگوں نے بھی نقل کی ہیں_(۲) اور یہ بات تو ان کے اس قول کے علاوہ ہے کہ ابوبکر کو عتیق کا لقب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان '' ہذا عتیق من النار'' ( یہ جہنم سے

___________________

۱_ شرح نہج البلاغہ (معتزلی) ج ۱۳ص ۲۶۸از اسکافی_

۲_ البدء و التاریخ ج ۵ص ۷۶،۷۷، تاریخ الخمیس ج ۲ص ۱۹۹اور تاریخ طبری ج ۲ص ۶۱۵

۸۲

آزاد شدہ ہے) کی وجہ سے ملا _ جبکہ اس سے پہلے ان کا نام عبداللہ بن عثمان تھا(۱) اور یہ بات خوبصورتی کی وجہ سے عتیق کہلانے والی بات کی منافی ہے_

چوتھانکتہ: روایت نے صریحا کہا ہے کہ حضرت ابوبکر نے بنی جمح میں ایک مسجد تیار کی لیکن انہی روایت کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اسلام کی سب سے پہلی مسجد، مسجد قبا ہے_(۲) وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عمار نے اسلام کی سب سے پہلی مسجد بنائی_(۳)

بعض لوگوں نے اس کا جواب یوں دینے کی کوشش کی ہے کہ قبا مدینے میں بننے والی پہلی مسجدہے اور عمار نے سب سے پہلے ایک عام مسجد بنائی(۴) لیکن جواب دینے والا یہ بھول گیا کہ مذکورہ قول ( مسجد قبا کے اسلام کی پہلی مسجد ہونے) سے پہلی بات (حضرت ابوبکر کے نبی جمع میں مسجد بنانے )کی نفی ہوتی ہے اور اس قول سے کہ سب سے پہلی مسجد عمار نے بنائی دوسری بات (مسجد قبا کے اسلام کی پہلی مسجد ہونے) کی نفی ہوتی ہے جیساکہ وہاں صریحا کہا گیا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے گھر میں ایک مسجد بنائی جس میں وہ عبادت کیا کرتے تھے_(۵)

پانچواں نکتہ: حضرت ابوبکر کو بنی جمح میں مسجد بنانے کی کھلی چھٹی کیسے ملی؟ بنی جمح والوں نے اس خطرے پر اعتراض کیوں نہیں کیا؟ تیمیوںنے حضرت ابوبکر کی ان عظیم خصوصیات کا کیونکر ادراک نہ کیا اور انہیں (ان کے بقول) ابن دغنہ نے سمجھ لیا تھا؟ کیا صرف ابن دغنہ نے ان صفات کا ادراک کیا؟ نیز قریش نے حضرت ابوبکر کی ان صفات کا لحاظ کیوں نہیں کیا جن کا انہوں نے بعد میں اعتراف کیا اور کیوں حضرت ابوبکر کو نکل جانے دیا؟ بلکہ ان کو اذیتیں ہی کیوں دیں_

___________________

۱_ کشف الاستار عن مسند البزار ج ۳ ص ۱۶۳ در مجمع الزوائد ج ۹ ص ۴۰_

۲_ وفاء الوفاء ج ۱ص ۲۵۰اورالسیرة الحلبیة ج ۲ص ۵۵ _

۳_ السیرة الحلبیة ج ۲ص ۵۵، طبقات ابن سعد ج ۳ص ۱۷۸،۱۷۹، تاریخ ابن کثیر ج ۷ص ۳۱۱اور الغدیر ج ۹ص ۲۰ _

۴_ سیرة الحلبیہ ج ۲ص ۵۵، وفاء الوفاء ج ۱ص ۲۵۰ _

۵_ طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۷۸اور البدایة و النہایة ج ۷ص ۳۱۱ اور ملاحظہ ہو سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۵۵ کیونکہ اس میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ یہ مسجد، بنانے والے کے ساتھ مخصوص تھی_

۸۳

عثمان بن مظعون کی فضیلت کی چوری

ہمیں ظن قوی حاصل ہے کہ بعض لوگوں نے عثمان بن مظعون کی فضیلت کو حضرت ابوبکر کیلئے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ مورخین کے بقول جب عثمان بن مظعون ہجرت حبشہ کے دوماہ بعد وہاں سے لوٹنے والوں کے ساتھ لوٹے تو خلاف توقع یہ مشاہدہ کیا کہ مشرکین اوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا مسئلہ جوں کاتوں ہے تو وہ ولیدبن مغیرہ کی امان میں داخل مکہ ہوئے_

لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کو مصائب وتکالیف میں مبتلا دیکھاجبکہ خود انہیں امان حاصل تھی تو یہ بات ان پر شاق گزری _بنابریں وہ ولید کے پاس گئے اور اس کی امان میں رہنے سے انکار کردیا_ ولید نے کہا:''اے بھتیجے کیا تجھے میری قوم کے کسی فردنے ستایا ہے؟ ''بولے:'' نہیں بلکہ میں ترجیح دیتا ہوں کہ خدا کی پناہ میں رہوں اور اس کے سوا کسی سے پناہ نہ مانگوں ''_ولیدنے کہا پس مسجدجاؤ اور میری پناہ سے نکلنے کا اعلانیہ اظہار کرو جس طرح میں نے تجھے اعلانیہ پناہ دی ہے''_چنانچہ وہ اس کے ساتھ مسجد گئے اور مسجد میں اس کی امان سے نکل جانے کا اعلان کیا_(۱)

قریش کی مایوسانہ کوشش

جب قریش ہجرت حبشہ کے سبب لگنے والے اچانک دھچکے سے کچھ سنبھل گئے اور دیکھا کہ مسلمان حبشہ میں بس گئے ہیں اور وہاں امن و سکون سے زندگی گزار رہے ہیں،(۲) تو انہوں نے سازش کی اور یہ فیصلہ کیا کہ دو آدمی مہاجرین کو لوٹانے کیلئے روانہ کئے جائیں _اس سلسلے میں ان کی نظر انتخاب عمرو بن عاص پرپڑی اور بقولے عمارہ بن ولیدبھی منتخب ہوا _چنانچہ قریش نے ان دونوں کو نجاشی اور اس کے سرداروں کیلئے تحائف کے ساتھ حبشہ بھیجا (راستے میں عمارہ اور عمرو کے درمیان ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جو عمرو بن عاص کی بیوی

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۹۲اس واقعے کا ذکر تاریخ کی متعدد بنیادی کتابوں میں ہوا ہے بنابرین تعداد کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے_

۲_ سیرت مغلطای ص ۲۲ _

۸۴

اور عمارہ کے درمیان عاشقی سے مربوط ہے عمرو نے مناسب موقع پر عمارہ کو پھنسانے کیلئے وقتی طور پر چشم پوشی کرلی) ان دونوں نے نجاشی کے پاس یہ دعوی کیا کہ ہمارے کچھ سر پھرے جوانوں نے تمہاری سرزمین میں پناہ لی ہے انہوں نے اپنے آبائی دین کو خیر باد کہہ دیا ہے اور تمہارے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں _وہ ایک جدید اور خودساختہ دین کے پیرو بن گئے ہیں جو تمہارے دین کے مطابق ہے نہ ہمارے_ ہمیں ان کی قوم کے بزرگوں نے (جن میں ان کے باپ، چچے اور اہل قبیلہ شامل ہیں) تمہاری خدمت میں بھیجا ہے تاکہ تم ان لوگوں کو واپس بھیج دو_

نجاشی نے عمرو اور عمارہ کے مدعا کے بارے میں تحقیق کرنے سے پہلے مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا _چنانچہ مسلمان حاضر کئے گئے اور نجاشی نے ان سے سوالات کئے_ اس کے جواب میں جناب جعفر بن ابوطالبعليه‌السلام نے فرمایا:''اے بادشاہ ہم جاہل اور بت پرست تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریوں میں مشغول رہتے تھے، قطع رحم کرتے تھے، ہمسایوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے، اور کمزوروں کے حقوق کو پامال کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے ہم میں سے ایک شخص کورسول بناکر بھیجا _ہم اس کے نسب، اس کی صداقت، امانت اور پاکدامنی سے خوب آگاہ ہیں_اس نے ہمیں خدا کی طرف بلایا تاکہ ہم اس کی وحدانیت کا اقرار کریں، اس کی عبادت کریں، اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور جن پتھروں اور بتوں کی پوجا ہم اور ہمارے آباء واجداد کرتے تھے انہیں ترک کریں_

اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت کو ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے، ہمسائے کے ساتھ نیکی کرنے اور حرام چیزوں اور خونریزی سے اجتناب کرنے کا حکم دیا _اس نے ہمیں بدکاری کرنے، جھوٹ بولنے ، یتیموں کا مال کھانے اور پاکدامن عورتوں پر ناروا الزام لگانے سے منع کیا اور حکم دیاکہ ہم خدائے واحد کی عبادت کریں، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نماز، زکواة اور روزہ کا بھی حکم دیا ''_(۱)

___________________

۱_ مختلف منابع میں زکوة اور روزے کا ذکر ہوا ہے_ رجوع کریں سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۶۰ و السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ ص ۲۱، الکامل ابن کثیر ج ۲ص ۸۰ (اس نے زکوة کا ذکر نہیں کیا)، نیز اعلام الوری ص ۴۴ (روزہ کے ذکر کے بغیر)، البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۴، تاریخ الخمیس ج۱ص ۲۹۰، السیرة الحلبیة ج۱ ص ۳۴۰ (بقیہ مآخذ کا ذکر نماز اور زکوة کے مدینے میں واجب ہونے کی بحث کے دوران ہوگا_ غزوہ بدر کے ذکر سے پہلے)_

۸۵

اس کے بعد حضرت جعفرعليه‌السلام نے نجاشی کے دربار میں سورہ کہف کی بعض آیات کی تلاوت کی جنہیں سن کر نجاشی روپڑا یہاں تک کہ اس کی داڑھی بھیگ گئی _نیز وہاں موجود پادری بھی روئے ،اس کے بعد نجاشی نے کہا:'' بے شکیہ کلام اور وہ کلام جوعیسیعليه‌السلام لے آئے دونوں ایک ہی نورانی سرچشمہ سے پھوٹے ہیں_ تم دونوں چلے جاؤ خدا کی قسم میں انہیں تمہارے حوالے نہیں کروں گا''_

دوسرے دن عمرو نجاشی کے پاس یہ بتانے گیا کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق عیسیعليه‌السلام بن مریم انسان ہیں_ نجاشی نے مسلمانوں کو بلاکر پوچھا تو حضرت جعفرعليه‌السلام نے اس سے کہا: '' ہم عیسیعليه‌السلام کے بارے میں وہی کہتے ہیں جو ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا ہے ،وہ بندہ خدا ہیں اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اس کی روح اور اس کا وہ کلمہ ہیں جسے خدانے پاکدامن مریم کو عطاکیا''_ یہ سن کر نجاشی نے کہا خدا کی قسم عیسیعليه‌السلام کا مقام اس سے زیادہ نہ تھا جو تم نے بیان کیا بادشاہ کی بات کو درباریوں اور امراء نے نا پسند کیا،لیکن نجاشی نے کہا :''اگرچہ یہ بات تم لوگوں کو پسند نہ آئے''_ پھر (مسلمانوں سے) کہا :'' جاؤ تمہیں امان حاصل ہے جس نے تمہاری برائی بیان کی وہ خسارے میں رہا''_ یہ بات اس نے تین بار دہرائی پھر بولا :''میں سونے کے ایک پہاڑ کے بدلے بھی تم میں سے کسی ایک کو ستانا قبول نہیں کروں گا''_ اس کے بعد نجاشی نے قریش کے تحائف واپس کردیئے_

نوٹ: کچھ لوگ اس روایت کے جعلی ہونے کا احتمال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں روزے کا ذکرہے حالانکہ روزہ مدینہ میں واجب ہوا_(۱)

لیکن یہ احتمال باطل ہے کیونکہ روزہ، اور زکواة وغیرہ کا حکم مکہ میں ہی نازل ہوا انشاء اللہ ہجرت کے بعد کے واقعات میں اس مسئلے پر روشنی ڈالیں گے اور ثابت کریں گے کہ مذکورہ نظریہ (کہ روزہ کا حکم مدینہ میں نازل ہوا) باطل ہے لہذا فی الحال اس مسئلے پر بحث نہیں چھیڑتے کیونکہ مورخین اس کا تذکرہ وہاں کرتے ہیں_

___________________

۱_ فجر الاسلام( احمد امین) ص ۷۶_

۸۶

محقق محترم روحانی صاحب کانظریہ ہے کہ احمد امین اور اس کے ہم خیال افراد کی بے بنیاد تحقیقات کا اصلی مقصداس پہلو کو مشکوک کرنا ہے جس سے حضرت جعفرعليه‌السلام کی مردانگی، جرا ت، حکمت، عقل اور ہوش کا اظہار ہوتا ہے_

اس قسم کی نا انصافی حضرت جعفرعليه‌السلام کے بارے میں دوسرے مقام پر بھی ہوئی ہے یعنی جنگ موتہ میں سپہ سالار ہونے کے بارے میں _کچھ لوگوں کو اس بات سے نہایت دلچسپی ہے کہ حضرت جعفر کی بجائے زید بن حارثہ کو لشکر اسلام کا پہلا سپہ سالار ثابت کرسکیں_

وجہ صرف یہ ہے کہ حضرت جعفرعليه‌السلام حضرت علیعليه‌السلام کے بھائی ہیں، اس سلسلے میں ہماری کتاب ''دراسات وبحوث فی التاریخ والاسلام''کی جلداول میں اس مقالے کی طرف رجوع کریں جس کا موضوع ہے جنگ موتہ کا پہلا سپہ سالار کون تھا؟_

قریش اور مستقبل کے منصوبے

حقیقت یہ ہے کہ ہجرت حبشہ قریش کیلئے ایک کاری ضرب ثابت ہوئی جس نے ان کے اوسان خطا کردیئے اور ان کے وجود کو ہلاکر رکھ دیا_ لہذا انہوں نے خطرات کی روک تھام کیلئے کوششیں کیں، چنانچہ قریش نے مسلمانوں کا پیچھا کیا تاکہ انہیں حبشہ سے لوٹاکر اپنے زیر تسلط رکھیں، لیکن پانی سر سے گزرچکا تھا_ جب قریش نے محسوس کیا کہ حالات ان کے قابوسے باہر ہو رہے ہیں تو ان کواپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوئی_ اس کی وجوہات درج ذیل تھیں:

۱) انہوں نے دیکھا کہ مختلف قبائل میں موجود مسلمانوں کو سزائیں دینے کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل رہا بلکہ اس سے الٹا اندرونی اختلافات اور خانہ جنگی کو ہوا لگنے کا احتمال ہے_

یہ بات قریش کی شہرت وعزت کیلئے سخت خطرناک تھی_ نیز ہر قبیلہ اس بات پر بھی راضی نہ تھا کہ وہ اپنے اندر موجود مسلمانوں کاصفایا کرے کیونکہ وہ قبائلی طرزفکر رکھتے تھے اور اس کے مطابق فیصلے کرتے چلے

۸۷

آرہے تھے،یہاں تک کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے مشن کی مخالفت پر اتفاق کے باوجود بھی قبائلی طرزفکر مذکورہ امرکی راہ میں رکاوٹ بنا رہا_ اس قبائلی طرز تفکر کی یہی مثال کافی ہے کہ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ ہر قبیلے کے مسلمانوں کو وہی قبیلہ سزادے گا ،کوئی دوسرا قبیلہ مداخلت نہیں کرے گا_

۲) قریش دیکھ رہے تھے کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت ایک عالم گیر پیغام بن کر اُبھر رہی ہے جو مکہ وحجاز کے لوگوں سے مختص نہیں اور مسلمانوں کی حبشہ کی طرف ہجرت فقط سزاؤں سے فرار کرنے کی غرض سے نہ تھی کیونکہ ہجرت کرنے والوں میں بہت سے افراد ایسے تھے جن کو اذیتیں نہیں دی گئی تھیں اور ایک خاص بات یہ تھی کہ مہاجرین مکہ کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے_اس لئے وہ خاص طور پر اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے حاصل ہونے والے کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھے کیونکہ ہر ایک کے لئے واضح ہوگیا تھا کہ مکہ کے مسلمانوں کا مرجانا اسلام کے خاتمہ کی نشانی نہیں ہے_

۳) قریش یہ بھی مشاہدہ کررہے تھے کہ مسلمانوں کے اس طرح ہجرت کرنے اور انکے تسلط سے خارج ہونے کے نتیجے میں ان کو مستقبل قریب میں ایک ہمہ گیر مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اوران کے مفادات کو سخت خطرہ لاحق ہوگا_ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوذر نے تن تنہا قریش کا ناطقہ بندکردیا تھا جب وہ عسفان نامی مقام پر قافلوں کی گزرگاہ پر بیٹھے رہتے اور وہاں سے گزرنے والے کاروانوں کوروکے رکھتے (اور سمجھاتے تھے) یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رسول اللہ نہ کہہ دیتے_ حضرت ابوذر جنگ احد کے بعد تک اسی روش پر قائم رہے جب حضرت ابوذر نے قریش کے ساتھ اس قدر سختی کی جبکہ وہ جانتے تھے کہ قریش کیلئے ان سے نپٹنا آسان تر تھا کیونکہ وہ قریش کی سرزمین کے اندر موجود تھے _نیز حضرت ابوذر کی جلد گرفتاری اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی بھی آسان تھی اسلئے کہ وہ قریش کے دوستوں اور تابعداروں کے درمیان موجود تھے_ علاوہ برایں حضرت ابوذر ان لوگوں کی نظر میں ایک اجنبی اور انتہا پسند شخص تھے _خلاصہ یہ کہ جب ایک حضرت ابوذر کے سامنے ان کی یہ حالت تھی تو پھر ان مسلمانوں کا (جن کا تعلق خود قریش سے تھا) ان کے تسلط اور اثر ونفوذ سے دور حبشہ میں امن وسکون کے ساتھ رہنا قریش اور ان کے مفادات کیلئے

۸۸

نہایت خطرناک تھا_ یہ حقیقت قریش کو صبر وحوصلے اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کرتی تھی، خصوصاً ان حالات میں جبکہ شیخ الابطح حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی حمایت اور ابولہب ملعون کے علاوہ دیگر ہاشمیوں کی حمایت کی بنا پر وہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاخاتمہ کرنے یا ان کو خاموش کرنے کی تدبیر نہ کرپاتے تھے_

لہذا انہوں نے نجاشی کے پاس اپنے دو نمائندے بھیجے تاکہ وہ مہاجرین کو واپس بھیج دے لیکن انہیں ناکامی اور سیہ روئی کے ساتھ واپس ہونا پڑا _اس کے بعد قریش نے باقی ماندہ مسلمانوں پر نئے سرے سے مظالم ڈھانے کا سلسلہ شروع کیا_انہوں نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ستانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑانے کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ساحر ومجنون اور کاہن ہونے کی تہمت لگائی نیز مختلف قسم کے نفسیاتی حربوں سے کام لینے لگے_

نجاشی کے خلاف بغاوت

حبشہ میں مسلمانوں کی موجودگی نجاشی کیلئے کئی ایک مشکلات کا سبب بنی، کیونکہ اہل حبشہ نے اس پریہ الزام لگایا کہ وہ ان کے دین سے خارج ہوگیا ہے_ یوں اس کے خلاف بغاوت ہوئی لیکن نجاشی اپنی فہم وفراست کے باعث بغاوت کی آگ بجھانے میں کامیاب رہا اور مسلمان اس کے پاس نہایت امن وسکون کی زندگی گزارتے رہے ،یہاں تک کہ وہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ چلے گئے (جس کا آگے چل کر تذکرہ ہوگا)_

محمد بن اسحاق نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے اور انہوں نے اپنے والد گرامیعليه‌السلام سے نقل کیا ہے کہ حبشہ والوں نے مل کر نجاشی سے کہا کہ تم ہمارے دین سے نکل گئے ہو اس طرح انہوں نے اس کے خلاف بغاوت کی_ نجاشی نے حضرت جعفر اور دیگر مہاجرین کیلئے کشتیوں کا بندوبست کیا اور کہا :'' ان میں سوار ہوجاؤ اور بدستور یہیں رہو اگر مجھے شکست ہوئی تو جہاں چاہو چلے جاؤ لیکن اگر مجھے کامیابی ہوئی تو یہیں رہو'' اس کے بعد وہ باغیوں کے پاس گیا اور ان سے بحث کی ،نتیجتاً وہ متفرق ہوکر چلے گئے_(۱)

___________________

۱_ سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۶۵و البدایة و النہایة ج۳ص ۷۷و سیرت حلبی ج ۲ص ۲۰۲_

۸۹

یہ واقعہ قریش کی طرف سے عمرو اور عمارہ کو حبشہ بھیجنے سے پہلے کا ہے کیونکہ نجاشی نے ان دونوں سے کہا تھا، خداکی قسم اس (اللہ ) نے مجھے حکومت واپس کردی لیکن مجھ سے اس کے بدلے کچھ نہیں لیا_ اس نے میرے بارے میں لوگوں کی بات نہیں مانی پس میں اس کے بارے میں لوگوں کی بات کیونکرمانوں؟ ان کے تحائف واپس کردو مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں اور تم دونوں میری سرزمین سے نکل جاؤ پس وہ دونوں بے آبرو اور ناکام ہوکر واپس لوٹے_(۱)

بعض مہاجرین کی واپسی

حبشہ میں مسلمانوں کو خبر ملی کہ مکہ میں وقتی طورپر صلح ہوگئی ہے _ادھر مسلمانوں نے یہ بھی دیکھاکہ ان کے باعث نجاشی کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے_ چنانچہ بعض مسلمانوں نے دو یا تین ماہ بعد مکہ واپسی کی ٹھانی اورتیس سے زیادہ افراد واپس ہوئے جنمیں سے عثمان بن مظعون کو ولید بن مغیرہ نے پناہ دی _ حضرت عثمان کی طرف سے ولید کی پناہ سے نکل جانے اور امان الہی پر اکتفا کرنے کا واقعہ گزرچکا ہے_

حبشہ سے بعض مسلمانوں کی واپسی کی وجہ صرف یہی تھی نہ افسانہ غرانیق جسے اسلام دشمنوں نے گھڑا ہے اورہم اس پر بحث کرنے والے ہیں_

غرانیق کا افسانہ(۲)

اس خودساختہ کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ ہجرت حبشہ کے دوماہ بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے مشرکین کے ساتھ ایک نشست رکھی_ اتنے میں خداکی طرف سے سورہ نجم نازل ہوئی ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی تلاوت شروع کی یہاں

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۵از ابن اسحاق اور سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۳۶۲ _

۲_ غرانیق غرنوق کی جمع ہے یعنی آبی پرندے چونکہ پرندے بہت بلندی پر پرواز کرتے ہیں اسلئے بتوں کو ان سے تشبیہہ دی گئی ہے تاکہ بتوں کی عظمت ظاہر ہو نیز غرنوق سفید اور خوبصورت جوانوں کو بھی کہتے ہیں_

۹۰

تک کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس آیت پر پہنچے( افرا یتم اللات والعزی ومناة الثالثة الاخری ) تو شیطان نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل میں دوباتیں ڈالیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دونوں باتوں کو وحی الہی سمجھتے ہوئے زبان پر جاری کردیا_وہ دو جملے یہ ہیں( تلک الغرانیق العلی وان شفاعتهن لترتجی ) یعنی یہ بلند مرتبہ غرانیق ہیں جن کی شفاعت مقبول ہے_ اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بقیہ آیات پڑھیں جب سجدے والی آیت پر پہنچے توآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سجدہ کیا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مسلمانوں اور مشرکین نے بھی سجدہ کیا لیکن ولیدبن مغیرہ نے بڑھاپے یا بقولے تکبر کی بناء پر سجدہ نہ کیا_ اس نے کچھ مٹی اٹھاکر اپنی پیشانی کے قریب کی اور اس پر سجدہ کیا_ ایک قول کی بنا پر یہ شخص سعید بن عاص تھا نیز کہا گیا ہے کہ وہ دونوں تھے،ایک اور قول کی رو سے وہ شخص امیہ بن خلف تھا ،ابولہب اور مطلّب کے بارے میں بھی اقوال موجود ہیں_

بخاری نے مسلمانوں کے ساتھ جنوں اور انسانوں کے سجدے کا بھی ذکر کیا ہے_جب یہ خبر مکہ میں پھیلی تو مشرکین نے خوشی منائی یہاں تک کہ بقولے انہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکاندھوں پر اٹھاکر پورے مکے کا چکرلگایا_

جب رات ہوئی تو حضرت جبریل آئے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مذکورہ سورہ دہرایا اوران دوجملوں کو بھی پڑھا حضرت جبریل نے ان کی نفی کی اور کہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خداسے وہ چیز منسوب کی ہے جو اس نے نہیں فرمائی اس وقت خدانے یہ آیت نازل کی( وان کادوا لیفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیره واذا لاتخذوک خلیلا ولولا ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیهم شیئا قلیلا اذا لاذقناک ضعف الحیاة وضعف الممات ثم لا تجد لک علینا نصیرا ) یعنی یہ لوگ کوشاں تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہماری وحی سے ہٹاکر دوسری باتوں کے افتراء پر آمادہ کریں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوستی گھڑلیتے اگر ہماری توفیق خاص نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی طرف کچھ نہ کچھ مائل ضرور ہوتے پھر ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دنیا کی زندگی اور موت دونوں مرحلوں پر دوھرا مزا چکھاتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے مقابل اپنا کوئی مددگارنہ پاتے_

اس افسانے کی صحت پر درج ذیل آیت سے استدلال کیا گیا ہے (اور دعوی کیا گیا ہے کہ آیت اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہے)_

۹۱

ارشاد رب العزت ہے:

( وما ارسلنا من قبلک من رسول و لا نبيّ الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیته فینسخ الله مایلقی الشیطان ثم یحکم الله آیاته والله علیم حکیم لیجعل مایلقی الشیطان فتنة للذین فی قلوبهم مرض ) یعنی اور ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے کوئی رسول یا نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزؤوں کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی لیکن خدانے شیطان کی ڈالی ہوئی رکاوٹوں کو دور کردیا اور اپنی آیات کو مستحکم بنادیا ،وہ نہایت جاننے والا اور صاحب حکمت ہے تاکہ وہ شیطانی القاء کو امتحان قراردے ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں میں مرض ہے_

بعض حضرات کے نزدیک اس واقعے کی بعض اسانید درست ہیں_(۱)

کہتے ہیں کہ جب حبشہ میں مسلمان مہاجرین نے یہ سنا کہ مکہ میں قریش اور مسلمانوں کے درمیان موافقت اور صلح ہوگئی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ واپس مکہ آگئے لیکن دیکھا کہ صورت حال برعکسہے _ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہ روایت جھوٹی اور جعلی ہے بہت سے علماء اس نظریئے میں ہمارے ہم خیال ہیں_

جب محمد بن اسحاق سے اس بارے میں سوال ہوا تو اس نے جواب دیا اس کو زندیقوں نے گھڑا ہے_ موصوف نے اس کی رد میں ایک الگ کتاب بھی لکھی ہے_(۲)

قاضی عبدالجبار نے اس روایت کے متعلق کہا ہے کہ یہ بے بنیاد ہے ،اس قسم کی احادیث ملحدین کی سازش کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوسکتیں_(۳)

___________________

۱_ رجوع کریں: الدر المنثور ج ۴ص ۱۹۴، ص ۳۶۶اور ص ۳۶۸، السیرة الحلبیة ج۱ص ۳۲۵اور ۳۲۶، تفسیر طبری ج ۱۷ص ۱۳۱اور ۱۳۴، فتح الباری ج ۸ص ۳۳۳اور بخاری نے بھی اصل واقعے کی طرف ایک سے زیادہ بار اشارہ کیا ہے نیز البدایة و النہایة ج ۳ص ۹۰میں بھی مذکور ہے_ سیوطی نے در منثور میں بعض اسانید کی صحت کی تصریح کی ہے_ رجوع کریں لباب النقول اور تفسیر طبری_ مختلف تفاسیر میں بھی یہ واقعہ موجود ہے (مذکورہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں) بنابریں مآخذ کی تعداد بیان کرنے کی ضرورت نہیں_

۲_ رجوع کریں البحر المحیط ( ابی حیان) ج ۶ص ۳۸۱ _

۳_ تنزیہ القرآن عن المطاعن ص ۲۴۳ _

۹۲

ابوحیان کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی کتاب کو اس قصے کے ذکر سے پاک رکھا ہے_(۱)

بیضاوی نے اس کی اسناد پر اعتراض کرتے ہوئے اسے رد کیا ہے نیز بیہقی، نووی، رازی، نسفی، ابن عربی اور سید مرتضی کا بھی یہی نظریہ ہے_ تفسیر خازن میں لکھا ہے صاحبان علم نے اس واقعے کوبے بنیاد قرار دیا ہے_(۲)

عیاض کہتے ہیں کہ معتبراحادیث نقل کرنے والوں نے اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی ثقہ نے اسے درست اور مدلل سندکے ساتھ نقل کیا ہے _ اس قسم کی روایات سے دلچسپی ان مفسرین اور مورخین کو ہے جو ہر قسم کی ضعیف روایت سے بھی شغف رکھتے ہیں اور کتابوں سے ہر صحیح وسقیم روایت کو نقل کرتے ہیں_

قاضی بکربن علاء مالکی نے سچ کہا ہے کہ لوگ بعض ہوا پرست مفسروںکے ہاتھوں پھنس گئے اور ملحدین بھی اسی سے چمٹ گئے حالانکہ اس حدیث کے راوی ضعیف اور اس کی اسناد مبہم و منقطع ہیں، نیز اس کے کلمات میں بھی تضاد ہے_(۳)

ہم اس بات کی تائید کرتے ہیں کیونکہ:

۱) سعید بن جبیر کی سند کے علاوہ اس واقعے کی تمام اسناد یا تو ضعیف ہیں یا منقطع ہیں_(۴) سعید کی روایت بھی مرسل ہے اور اکثر محدثین کے نزدیک مرسل کا شمار بھی ضعیف احادیث میں ہی ہوتا ہے کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ راوی نے اسے غیر ثقہ افراد سے نقل کیا ہو_(۵)

علاوہ برایں اگر ہم حدیث مرسل سے استدلال کو صحیح قرار دے بھی دیں تو اس کا فائدہ فقط فرعی مسائل میںہوگا اعتقادی امور میں نہیں_ جبکہ یہاں ہماری بحث اعتقادی مسئلے میں ہے جسں میں قطعی دلیل کی

___________________

۱_ تفسیر البحر المحیط ج ۲ص ۳۸۱ _

۲_ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۹۱، الہدی الی دین المصطفی ج ۱ص ۱۳۰، الرحلة المدرسیة ص ۳۸، فتح الباری ج ۸ص ۳۳۳ اور تفسیر رازی ج ۲۳ص ۵۰ _

۳_ الشفاء ج ۲ص ۱۲۶، مطبوعہ عثمانیہ اور المواہب اللدنیہ ج۱ ص ۵۳_

۴_ فتح الباری ج ۸ص ۳۳۳ _

۵_ رجوع کریں مقدمہ ابن صلاح ص ۲۶ _

۹۳

ضرورت ہے_ ان باتوں سے قطع نظر اس قصے کے اسناد کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی اسناد یا کسی تابعی پر ختم ہوتی ہیں یا ایسے صحابی پر جواس واقعہ کے بعد پیدا ہوا ہے اگر ہم اس حدیث کے سلسلے کو متصل بھی قرار دیں تب بھی اس حدیث کو رد کرنے اور اس کے جعلی اور جھوٹی ہونے پر یقین رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ عقل سلیم کے خلاف ہے اوریہ اعتراض قسطلانی، عسقلانی اور ان لوگوں پر وارد ہوتا ہے جنہوں نے اسے صحیح گردانا ہے اور کثرت اسناد کے بہانے اسے معتبر سمجھا ہے_(۱)

۲) مضامین کا اختلاف_ سجدہ نہ کرنے والے کے بارے میں اختلاف کا ذکر تو پہلے گزرچکا ہے یہاں ہم مزید اختلافات اور تضادات کی طرف اشارہ کریں گے; مثلاً کبھی کہا گیا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حالت نماز میں مذکورہ جملے ادا کئے اور کبھی کہا گیا ہےکہ قریش کی مجلس میں، نیز اس میں بھی اختلاف ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان الفاظ پر فقط غور کیا یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان پر جاری بھی ہوئے؟ نیز اختلاف ہے کہ شیطان نے ان کو خبردی تھی ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ایسا فرمایا، یا یہ کہ مشرکین نے اسے پڑھا_

علاوہ ازیں کبھی کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پڑھتے وقت اس طرف متوجہ بھی تھے اور کبھی یہ کہ آپ شام تک متوجہ ہی نہیں ہوئے_ کلاعی نے تو یہ کہا ہے کہ حقیقت حال اتنی جلدی منکشف نہ ہوئی بلکہ بات اس وقت واضح ہوئی جب حبشہ میں مسلمانوں کو خبر ملی کہ مکہ میں مسلمانوں کو امان حاصل ہوگئی ہے چنانچہ حبشہ سے مسلمان واپس آگئے پھر شیطان کی طرف سے القاء شدہ جملوں کے منسوخ ہونے کے بارے میں آیت اتری اور جب خدانے اپنا حکم واضح کیا تو مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ اپنا رویہ سخت کرلیا_(۲) اسلئے کہتے ہیں: دروغگو را حافظہ نباشد_

۳) اس افسانے سے نہ صرف سہو و خطا سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معصوم ہونے کی نفی ہوتی ہے( خصوصاً تبلیغ کے بارے میں) جس پر امت کا اجماع ہے اور قطعی دلائل قائم ہیں بلکہ اس افسانے سے (نعوذ باللہ ) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارتدادبھی لازم آتا ہے_ خدا ہمیں اس قسم کے گمراہ کن نظریات سے بچائے_

___________________

۱_ فتح الباری ج ۸ص ۳۳۳ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۲۶اور سیرت مغلطای ص ۲۴از المواہب اللدنیة ج۱ ص ۵۳_

۲_ رجوع کریں: الاکتفاء (کلاعی) ج ۱ص ۳۵۲/۳۵۳_

۹۴

۴)یہ واقعہ اس آیت کے منافی ہے( ان عبادی لیس لک علیهم سلطان ) (۱) یعنی اے شیطان تجھے میرے برگزیدہ بندوں پر تسلط حاصل نہ ہوگا _نیز اس آیت سے بھی متصادم ہے( انه لیس له سلطان علی الذین آمنوا وعلی ربهم یتوکلون ) (۲) یعنی شیطان کو ان پر تسلط حاصل نہ ہوگا جوایمان لے آئے اور جو اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں_ ہاں اگر وہ لوگ یہ فرض کرلیں کہ نعوذ باللہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے برگزیدہ بندوں میں شامل نہیں اور نہ ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں میں، تویہ اور بات ہے، اور ایسا کہنا ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے کے سوا اور کیاہوسکتا ہے؟ جیساکہ صاف ظاہر ہے_

۵) کلاعی صریحاً کہتا ہے کہ جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سورہ کے آخر تک پہنچے تو مسلمانوں اور مشرکین سب نے سجدہ کیا اور مسلمانوں نے مشرکین کے سجدے پر تعجب کیا کیونکہ مسلمانوں نے اس چیز کو نہیں سنا تھا جسے شیطان نے مشرکین کی زبان پر جاری کیا تھا حالانکہ خود کلاعی چند سطر قبل صریحاًیہ کہتا ہے کہ شیطان نے ان کلمات کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان پر جاری کیا(۳) اس واضح تناقض کے علاوہ یہ سوال پیش آتا ہے کہ مشرکین نے وہ بات کیونکر سنی جو شیطان نے نعوذ باللہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان پر جاری کی تھی جبکہ مسلمانوں نے نہیں سنی؟ حالانکہ وہ بھی ان کے ساتھ تھے پھر تو لازمی طورپر مسلمانوں کی نسبت کافررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے قریب تر ہوئے ؟ _

۵) ساری مذکورہ آیات ممکن ہی نہیں کہ ان روایات کے ساتھ مناسبت رکھتی ہوں کیونکہ:

الف:سورہ نجم کی آیات میں خدانے مشرکین کے بتوں (لات، منات، عزی) کے بارے میں کہا ہے( ان هی اسماء سمیتموها انتم وآباء کم ما انزل الله بها من سلطان ان یتبعون الا الظن وما تهوی الانفس ولقد جائهم من ربهم الهدی ) (۴) یعنی یہ نام توصرف تم اور تمہارے آباء نے رکھے ہیں

___________________

۱_ سورہ اسراء آیت ۶۵_

۲_ سورہ نمل آیت ۹۹_

۳_ رجوع کریں: الاکتفاء (کلاعی) ج ۱ص ۳۵۲_

۴_ سورہ نجم آیت ۲۳_

۹۵

خدانے اس کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی درحقیقت وہ تو بس ظن وگمان اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں جبکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے ہاں ہدایت آچکی ہے_

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرکین اپنے معبودوں کی اس قدر تند لہجے میں مذمت پر کیوں راضی ہوئے اور پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سے خوش ہوکر سربسجودبھی ہوگئے؟ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام میں اس واضح تضاد کوکیوں محسوس نہیں کیا یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور بات یہاں تک آن پہنچی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اٹھاکر پورے مکہ میں یہ کہتے ہوئے چکر لگایا کہ یہ بنی عبد مناف کا نبی ہے_

دوسرا سوال یہ ہے کہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اس واضح تضاد کو کیوں نہ سمجھ سکے اور رات تک غافل رہے یہاں تک کہ جبریل آئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس تضاد سے آگاہ کیا؟ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس دوران (نعوذ باللہ) غائب دماغ رہے تھے یا (نعوذ باللہ ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ذہن کام نہیں کر رہا تھا؟_

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ اسی سورہ نجم کی اس آیت سے منافات نہیں رکھتا جس میں قسم اٹھانے کے بعد فرمایا گیا ہے( وما ینطق عن الهوی ان هو الاوحی یوحی ) یعنی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگو خواہشات کے تابع نہیں بلکہ نازل شدہ وحی ہوتی ہے_ پھر کیسے ہوسکتا ہے کہ اس صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی خواہش کے مطابق بات کریں بلکہ شیطان کی طرف سے القاء شدہ جملوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ آیات کے طور پر دہرائیں؟ جبکہ فرمان الہی ہے:( ولو تقوّل علینا بعض الاقاویل لاخذنا منه بالیمین ثم لقطعنا منه الوتین ) (۱) (اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتاتو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑلیتے اور پھر اس کی گردن اڑادیتے) پس خدا نے مذکورہ جملوں کے گھڑنے پرکوئی اقدام کیوں نہیں کیا(۲) اگر یہ آیت سورہ نجم کے بعد اتری ہو تو پھر بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ آیت ایک قاعدہ کلیہ اور قانون بیان کر رہی ہے نہ یہ کہ ایک خارجی واقعے کی طرف اشارہ کررہی ہو اور بس_

___________________

۱_ سورہ الحاقّہ آیت ۴۴_۴۶_

۲_ یہ اس صورت میں ہے کہ آیت میں تقوّل سے مراد صرف جان بوجھ کر جھوٹ بولنا نہ ہو کیونکہ آیت میں تقول کا لفظ آیا ہے اور تقول کا مطلب ہے کہ جان بوجھ کر کوئی بات گھڑی جائے_

۹۶

ب: رہی آیہ تمنّی تو وہ سورہ حج میںہے جو سب کے نزدیک مدنی ہے _بالخصوص اس میں لوگوں کیلئے اعلان حج ،نیز جنگ وجہاد کا حکم ہوا ہے، مسجد حرام کا راستہ روکنے کا بھی تذکرہ ہوا ہے اور یہ ساری باتیں ہجرت کے بعد کی ہیں _کچھ احکام تو ہجرت کے کئی سال بعد کے بھی ہیں اس پر مستزاد یہ کہ ابن عباس، قتادہ اور ابن زبیر وغیرہ نے بھی اسے مدنی قرار دیا ہے _

اگر یہ مدنی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غرانیق والے افسانے کے سالہا سال بعد یہ آیت نازل ہوئی کیونکہ غرانیق کا واقعہ بعثت کے پانچویں سال سے منسوب ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تسلی دینے میں سالہا سال تک تاخیر فرمائے؟

علاوہ ازیں آیت کا مفہوم بھی اس واقعے کے ساتھ بالکل ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ تمنّی کا مطلب کسی مرغوب اور پسندیدہ امر کی خواہش ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گرامی فقط اسی چیز کی خواہش کرسکتے ہیں جو ایک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیثیت سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذمہ داریوں کے مناسب ہو_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسے انسانوں کی سب سے بڑی خواہش حق وہدایت کی ترویج اور باطل کی سرکوبی ہوتی ہے_ شیطان اپنی گمراہی کے باعث لوگوں کے دلوں میں ایسے وسوسے ڈالتا ہے جو اس نیک خواہش کو دھندلاکر دکھاتاہے ،یوں جن کے دلوں میں مرض ہو وہ اس آزمائشے میں گرفتار ہو جاتے ہیں جیساکہ شیطان نے امت موسیعليه‌السلام کے دلوں میں وسوسہ ڈالا، لیکن خدا ہدایت کے نور سے شیطانی وسوسوں کو دور کرتا ہے اور عقل سلیم رکھنے والوں کیلئے حق کو واضح کرتا ہے_

اور اگر ان لوگوں کے بقول تمنا سے مراد تلاوت لی جائے تو تمنی کا یہ معنی بہت نادر، خلاف قاعدہ اور انوکھا ہوگا جو وضع لغوی کے بھی مخالف ہوگااور ظاہر لفظ کے بھی _ آخر کس نے اب تک '' تمنا'' کا معنی '' پڑھنا'' کیا ہے؟ ہمیں تو کوئی شک نہیں کہ اس خیالی واقعہ کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لئے اس آیت کی مذکورہ تفسیر گھڑی گئی ہے _ اور اسی طرح حسان بن ثابت سے منقول شعر(۱) بھی اسی مقصد کے لئے گھڑا گیا ہے _

___________________

۱_ تنزیہ الانبیاء کے ص ۱۰۷ میں حسان سے یہ شعر منسوب ہے :

تمنی کتاب الله اوّل لیلة و آخره لاقی حمام المقادر

جبکہ ممکن ہے کہ یہاں تمنی سے مراد محبت اور شوق ہو_

۹۷

اور تاریخ کی کتابوں میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں _ اور اگر تمنا کا معنی تلاوت بھی لے لیں تو اس آیت کا مطلب وہی ہوگا جو سید مرتضی نے فرمایاہے_

سید مرتضی فرماتے ہیں کہ اگر مراد تلاوت ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی قوم کیلئے آیات کی تلاوت کی تو قوم نے ان میں تحریف کی اور کمی بیشی کے مرتکب ہوئے_ جس طرح یہودی اپنے نبی پر جھوٹ باندھتے ہوئے اس امر کے مرتکب ہوئے تھے اس صورت میں اسے شیطان کی طرف منسوب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ درحقیقت دلوں میں وسوسہ ڈالنے والا وہی شیطان ہے لیکن خدا اس وسوسے کو اپنی دلیلوں کے ذریعے زائل اور باطل کردیتا ہے_(۱)

ج: سورہ اسرا کی آیات( وان کادوا لیفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیره ) کے بارے میں ان لوگوں کا یہ دعوی کہ یہ آیات غرانیق کے مسئلے میں نازل ہوئیں تو یہ بھی غیرمعقول قول ہے کیو نکہ ان آیا ت کا اس واقعے سے کوئی ربط نہیں بلکہ ان کے درمیان منافات ہے پس ان آیات کا شان نزول مذکورہ واقعہ کیسے ہوسکتا ہے؟

آیات کہتی ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان کی طرف مائل نہیں ہوئے بلکہ اس امر کے قریب بھی نہیں ہوئے اور اللہ نے ان کو ثابت قدم رکھا نیزاگران کی طرف مائل ہوتے تو خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سزادیتا جبکہ غرانیق کاافسانہ کہتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ صرف مائل ہوئے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول بھی کیا اور (نعوذ باللہ ) خدا پر جھوٹ باندھا اور جو بات خدا کی طرف سے نہ تھی اسے قرآن میں داخل کرلیا_

آیت کا مقصود تو یہ ہے کہ مشرکین نے اس بات پر اصرار کیا کہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے انہوں نے حضرت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت ابوطالب کے ساتھ متعدد مذاکرات بھی کئے _پس بعید نہیںکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان کو کچھ مہلت دینے کا سوچاہو تاکہ غور کریں اور باطل کو چھوڑ دیں پس یہ آیت نازل ہوئی تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واضح کردے کہ ان کو مہلت دینے میں مصلحت نہیں بلکہ مصلحت سختی کرنے میں ہے_

ان تمام دلائل سے قطع نظر وہ کہتے ہیں کہ سورہ اسرا کی مذکورہ آیات بنی ثقیف کے بارے میں اس وقت

___________________

۱_ تنزیہ الانبیاء ص ۱۰۷ ، ۱۰۸_

۹۸

اتریں جب انہوں نے قبول اسلام کیلئے ایسی شرائط پیش کیں جو ان کے مقام کو بلند کریں_ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیات قریش کے بارے میں اتریں جب انہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو حجر اسود مس کرنے سے روکا_ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدینہ کے یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئیں جب انہوں نے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شام چلے جائیں_(۱) قاضی بیضاوی نے یہی آرا ء بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے_

۶) آخری نکتہ یہ ہے کہ مشرکین نے خدا کا قول (فاسجدوا للہ واعبدوا) سن کر کیونکر سجدہ کیا؟ جبکہ وہ اللہ تعالی کیلئے سجدہ کرنے کے قائل نہیں تھے، چنانچہ ارشاد باری ہے( اذا قیل لهم اسجدو للرحمان قالوا وما الرحمان ا نسجد لما تأمرنا وزادهم نفورا ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمان کیلئے سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمان کیا چیزہے؟ کیا ہم اس چیز کیلئے سجدہ کریں جسکا تو ہمیں حکم دیتا ہے؟ اسطرح انکی نفرت میں مزید اضافہ ہوتا ہے_

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ منظر دیکھ کر کسی مسلمان کا ایمان متزلزل کیوں نہیں ہوا؟ یاوہ دین سے خارج کیوں نہیں ہوا جبکہ وہ دیکھ رہا ہو کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ (نعوذ باللہ ) اصنام کی تعریف کر رہے ہیں اور ان کی شفاعت کو مقبول قرار دے رہے ہیں؟(۲)

مسئلے کی حقیقت

یہاں مسئلے کی حقیقت کچھ یوں معلوم ہوتی ہے (جیساکہ نقل ہوا ہے) کہ جب حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآن کی تلاوت کرتے تو کفار فضول اور غلط باتوں کا سلسلہ شروع کردیتے تاکہ کوئی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سننے نہ پائے سورہ فصّلت کی آیت ۲۶میں ارشاد ہے:( و قال الذین کفروا لا تسمعوا لهذا القرآن و الغوا فیه لعلکم تغلبون ) یعنی کفار آپس میں کہتے ہیں کہ اس قرآن کو نہ سنو اور شور مچاؤ شایداس طرح سے غالب آسکو_ پس جب

___________________

۱_ رجوع کریں: سیرہ حلبی ج۱ص ۳۲۶نیز الدر المنثور و تفسیر خازن اور تفسیر کی دیگر کتب میں بھی مرقوم ہے_

۲_ رجوع ہو حاشیہ الاکتفاء (کلاعی) ج ۱ص ۳۵۳_۳۵۴_

۹۹

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سورہ نجم کی تلاو ت کی اور اس مقام( افرایتم اللات و العزی و مناة ثالثة اخری ) پرپہنچے تومشرکین نے حسب معمول مداخلت کرتے ہوئے کہا( تلک الغرانیق العلی ) _(۱)

ہاں اس کے بعدجب کرایہ کے قصہ پردازوں اور کینہ توزوں کی باری آئی تو انہوں نے اپنے شیطانی مفادات کے پیش نظر اس میں مزید پیوند کاری کرتے ہوئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی عصمت کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایااور قرآن میں موجود ہر چیز میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس حدتک جاہل ثابت کرسکیں کہ گویا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واضح تضادات کو بھی نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ نعوذ باللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شیطان کے آگے بھی بے بس تھے، شیطانی وغیر شیطانی امور میں تمیز نہیں کرپاتے تھے_

لیکن ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان باتوں کے مقابلے میں یہی لوگ کہتے ہیں کہ شیطان حضرت عمر کی آہٹ سے بھی ڈرتا تھا(۲) نیز یہ کہ جب سے حضرت عمر مسلمان ہوئے ،شیطان کا ان سے جب بھی سامنا ہوتا تھا تو شیطان منہ کے بل گر پڑتا تھا(۳) یا یہ کہ جس وادی سے حضرت عمر گزرتے تھے شیطان وہاں سے کترا کرنکل جاتا تھا(۴) گویا ان لوگوں کی مراد یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کی طرح نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھی ایک شیطان تھا جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اثر انداز ہوتا رہتا تھا_ ان سارے مسائل پر پہلے بحث ہوچکی ہے_

اس کے بعد اسلام دشمن متعصب مستشرقین کی باری آئی انہوں نے ان بے بنیاد باتوں اور افسانوں سے استفادہ کرتے ہوئے ہمارے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اعتراضات کا نشانہ بنایا_(۵)

___________________

۱_ سیرة النبویة (دحلان) ج ۱ص ۱۲۸ اور تنزیہ الانبیاء ص ۱۰۷نیز رجوع کریں حاشیہ الاکتفاء (کلاعی) ج۱ص ۳۵۴از سہیلی_ کلبی نے کتاب الاصنام میں نقل کیا ہے کہ قریش یہ جملے اپنے بتوں کی تعریف میں جو کعبہ کے اردگرد رکھے گئے تھے ادا کرتے تھے_

۲_ الریاض النضرہ ج ۲ ص ۱۰۳_

۳_ عمدة القاری ج ۱۶ ص۱۹۶ اور ملاحظہ ہو تاریخ عمر ص ۶۲_

۴_ صحیح مسلم ج ۷ ص ۱۱۵ اور اسی کے قریب قریب واقعہ تاریخ عمر ص ۳۵ نیز ص ۶۲ ، الغدیر ج ۸ ص ۹۴ ، مسند احمد ج ۱ ص ۱۷۱، ص ۱۸۲، ص۱۸۷ صحیح بخاری ج۲ ص ۴۴و ص ۱۸۸ اور عمدة القاری ج ۱۶ ص ۱۹۶_

۵_ رجوع ہو تاریخ الشعوب الاسلامیة ص ۳۴از بروکلمان اور کتاب الاسلام ص ۳۵/۳۶ (الفریڈ ھیوم)_

۱۰۰