الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 200103
ڈاؤنلوڈ: 4019

تبصرے:

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200103 / ڈاؤنلوڈ: 4019
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کے تمام افراد عدل و انصاف اورنظم و انتظام سے بہرہ مند ہوں_ لوگ محبت و اخوت کا اعلی اور مکمل نمونہ دیکھیں، اسی طرح کا معاشرہ ان نفسیاتی کشمش اور تاریخی اختلافات سے پاک ہوگا (بلکہ انہیں آہستہ آہستہ جڑ سے اکھاڑے گا) جنہیں معاشرے کے افراد نے باہمی تعلقات میں اپنا شیوہ بنالیا تھا_ اور جس کے کئی وجوہات کی بنا پر ظاہر ہونے کاخطرہ وسیع ، سخت اور زیادہ تباہ کن ہو سکتا تھا_ پس ایسے مضبوط باہمی روابط برقرار کرنے کی ضرورت تھی جسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''مواخات ''کے عمل سے انجام دیا ، مؤاخات کے اس عمل میںآخری ممکنہ حد تک دقت نظری اور صدیوں کی ایسی منصوبہ بندی شامل تھی جس میں باہمی روابط اور امداد کے فروغ اور استحکام کے لئے انتہائی حد تک کامل ضمانت فراہم کی گئی تھی خصوصاً جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو ایک جیسے افرادکے درمیان مؤاخات قائم کردی تھی _

یہ مواخات دو بنیادوں پر قائم تھی:_

اوّل : حق : _

حق ،انسانی تعلقات میں ایک بنیادی عنصر ہے_ اسی بنیاد پر انسانوں کے روابط و تعلقات قائم ہیں اورزندگی کے مختلف شعبوں میں معاملات اور باہمی لین دین پر یہی چیز حکمفرما ہے _ہاں حق ہی اساس و بنیاد ہے، ذاتی اور انفرادی شعور و ادراک اور ذاتی ، قبائلی اور گروہی مصالح اورمفادات نہیں _واضح ہے کہ اخوت ، باہمی ہمدردی اور احساسات کے ذریعہ سے جب حق بیان ہو اور یہ امور حق سے آراستہ ہوں تو یہ چیز حق کی بقاء ،دوام اور ان لوگوں کی حق کے ساتھ وابستگی اور حق سے دفاع کی ضمانت فراہم کرتی ہے لیکن اگر حق کو بزور بازومسلط کیا جائے تو جوں ہی یہ قوت غائب ہوگی تو حق کے بھی غائب ہونے کا خطرہ لا حق ہوجائے گا کیونکہ اس کی بقاء کی ضمانت چلی گئی ہے پس اب اس کی بقاء اور وجود کے لئے کوئی وجہ باقی نہیں رہی_ بسا اوقات اس طرح سے حق کی بقاء بھی کینہ اور نفرتوں کو جنم دیتی ہے جس سے بسا اوقات ظلم و طغیان اپنی انتہائی ، بدترین او رخوفناک صورت میں ظاہر ہوتاہے_

۱۰۱

دوم : باہمی تعاون:_

پس یہ برادری صرف جذبات کو بھڑکانے اور ذاتی شعور کو بیدار کرنے کیلئے نہ تھی بلکہ نتیجہ خیز احساس ذمہ داری تھی جس پر اسی وقت ہی فوری عملی اثرات مرتب ہوئے اور انسان اسی وقت سے ہی اس کی گہرائی اور تاثیر کو واضح طور پر محسوس کرسکتاہے بالکل اسی بھائی چارے کی طرح جس طرح قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے '' انما المؤمنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم''(۱) کیونکہ اس آیت مجیدہ میں خداوند نے مؤمنین کے درمیان صلح کی ذمہ داری کو ایمانی بھائی چارے کا حصہ بیان فرمایا ہے _جب بھائی چارہ ثمر آور اور نیک نیتی پر مشتمل ہو توفطری بات ہے کہ یہ برداری اور اسی طرح اس کی حفاظت اور پابندی بھی ممکن ترین حد تک دائمی ہوگی_ اس مؤاخات کے عظیم اور گراں قدر نتائج جہاد کی تاریخ میں بھی ظاہر ہوئے_ خداوند کریم نے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جنگ بدر میں احسان جتلاتے ہوئے فرمایاہے : وان یریدوا ان یخدعوک، فان حسبک اللہ، ھو الّذی ایدک بنصرہ و بالمومنین و الف بین قلوبھم، لو انفقت ما فی الارض جمیعاً ما الفت بین قلوبھم ، و لکن اللہ الف بینہم ، ان اللہ عزیز حکیم(۲) _ اور اگر وہ تمہیں دھو کہ دینا بھی چاہیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اطمینان ہے کہ آپ کی حمایت کے لئے خداہی کافی ہے جس نے اپنی مدداور مومنوں کے ذریعہ سے پہلے سے ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تائید اور حمایت کر رکھی ہے اور اسی نے ہی مومنوں کے دلوں کو آپس میں (محبت کے ذریعہ) جوڑ دیا ہے وگر نہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چاہے تمام دنیا و مافیہا کو بھی خرچ کر ڈالتے تب بھی ان کے دلوں میں محبت نہیں ڈال سکتے تھے ، لیکن خدا نے یہ محبت ڈال دی ہے اور خدا تو ہے ہی عزت والا اور دانا_

حضرت ابوبکر کے خلیل:

مؤرخین یہاں روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' اگر مجھے کسی کو دوست بناناہو تا تو میں ضرور ابوبکر کو دوست بناتا''(۳) لیکن یہ کس طرح صحیح ہو سکتاہے حالانکہ خود ہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کرتے ہیں:

____________________

۱) الحجرات ۱۰_ (۲) الانفال ۶۲_

۳) مصنف عبدالرزاق ج / ۱۰ از ابن الزبیر اور اس کے حاشیہ میں سعید بن منصور سے روایت نقل کی گئی ہے الغدیر ج/۹ ص ۳۴۷ ،از صحیح البخاری ج/۵ ص ۲۴۳ باب المناقب اور باب الہجرة ج/۶ ص ۴۴_نیز الطب النبوی ابن قیم ص ۲۰۷_

۱۰۲

_بے شک میری امت میں سے میرا دوست ابوبکر ہے(۱) _

_ ہر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دوست ہوتاہے اور میرا دوست سعد بن معاذ(۲) یا عثمان بن عفان ہے(۳) _

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ : حضرت عثمان کی دوستی والی حدیث کو اسحاق بن نجیح ملطی نے گھڑا ہے(۴) اور حضرت ابوبکر کی دوستی والی حدیث ( جیسا کہ معتزلی نے بھی اس کی تصریح کی ہے)(۵) نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علیعليه‌السلام کے درمیان مواخات والی حدیث کے مقابلہ میں گھڑی گئی ہے _

سلمان کی دوستی ، کس کے ساتھ؟

پھر وہ کہتے ہیں کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے جناب سلمان اور ابو دردا کے درمیان اخوت قائم کی(۶)

ایک اور روایت میں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب سلمان او رحذیفہ کے درمیان مواخات برقرار فرمائی(۷) جبکہ ایک اور روایت میں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے اور مقداد کے درمیان رشتہ اخوت برقرار کیا(۸)

حدیث مواخات کاانکار اور اس کا جواب :

لیکن ابن سعد کہتاہے کہ ہمیں محمد بن عمر نے خبر دی ہے کہ مجھے موسی بن محمد بن ابراہیم بن حارث نے اپنے باپ سے ایک قول نقل کرکے بتایا ہے نیز مجھے محمد بن عمر نے کہا ہے کہ محمد بن عبداللہ نے مجھے زہری سے

____________________

۱) ارشاد الساری ج/۶ ص ۸۳ ،۸۴، کنزالعمال ج/۶ ص ۱۳۸ ، اور ص ۱۴۰ ، الریاض النضرة ج/۱ ص ۸۳_نیز الغدیر مذکورہ کتب سے_

۲)الغدیر ج/۹ ص ۳۴۷ ، از کنزالعمال ج/۶ ص۸۳،منتخب کنزالعمال (مسند کے حاشیہ پر ) ج/۵ ص ۲۳۱_ (۳)تاریخ بغداد خطیب ج۶ ص ۳۲۱ و الغدیر ج۹ ص ۳۴۶ و ۳۴۷_ (۴)ملاحظہ ہو: الغدیر ج ۹ ص ۷۴۳_ (۵)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۱ ص ۴۹_ (۶) الاصابہ ج۲ ص ۶۲ ، اس کے حاشیہ میں الاستیعاب ج۲ ص ۶۰ و ج۴ ص ۵۹ ، الغدیر ج۱۰ ص ۱۰۳ تا ۱۰۴ و ج۳ ص ۱۷۴ اس میں اس روایت پر مناقشہ کیا گیا ہے ، السیرة النبویہ ابن ہشام ج۲ ص ۱۵۲ ، اسد الغابہ ج۲ ص ۳۳۰ _۳۳۱ ، طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج۴ حصہ اول ص ۶۰ تہذیب تاریخ دمشق ج۶ ص ۲۰۳ ، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج۱۸ ص ۳۷ ، تہذیب الاسماء ج۱ ص ۲۲۷، قاموس الرجال ج۷ ص ۲۵۶ ، نفس الرحمان ص ۹۱ و ۸۵ از ابن عمرو المناقب خوارزمی فصل ۱۴ نیز تہذیب التہذیب ج۴ ص ۱۳۸_ (۷)طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج۴ حصہ اول ص ۶۰_ (۸)نفس الرحمان ص ۸۵ از حسین بن حمدان_

۱۰۳

ایک روایت بیان کی ہے_ یہ دونوں (حارث کا باپ اور زہری) واقعہ بدر کے بعد ہر قسم کی مواخات کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ بدر نے (بھائی چارے کی بنیاد پر) میراث کا معاملہ ہی ختم کردیا تھا جبکہ سلمان اس وقت غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے اور وہ اس کے بعد آزاد ہوئے تھے اور انہوں نے سب سے پہلے پانچویں ہجری میں واقع ہونے والی جنگ خندق میں شرکت کی تھی(۱) _

اس لئے بلاذری نے یہ کہا ہے کہ '' اور ایک گروہ کا کہناہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابودر داء اور سلمان کے درمیان مواخات برقرار فرمائی _ حالانکہ سلمان واقعہ احد اور خندق کے درمیانی عرصہ میں مسلمان ہوئے _ اور واقدی کہتاہے کہ علمائ، بدر کے بعد کسی بھی قسم کی مواخات کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ بدر نے ہر قسم کی (مؤاخاتی) وراثت کو منقطع کردیا ہے''(۲) _

'' اور ابن ابی الحدید کا کہناہے کہ ابوعمر کے بقول رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تو سلمان کو بھی ابودرداء کا بھائی بنایا تھا_ لیکن مخفی نہ رہے کہ یہ قول ضعیف اور عجیب و غریب ہے''(۳) جبکہ ہمیں مذکورہ بیانات پر کئی اعتراضات ہیں جنہیں ہم مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں بطور خلاصہ بیان کرتے ہیں :

۱ _ ان کا یہ کہنا کہ جنگ بدر کے بعد مواخات کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا_ گذشتہ باتوں کی رو سے صحیح نہیں ہے _ پس ان لوگوں کے اس بات کو عجیب و غریب سمجھ کر انکا ر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے_

۲ _ ان کا یہ کہنا بھی کہ '' بدر کے بعد مواخات کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے سلمان کا کسی بھی آدمی کے ساتھ اخوت کا مسئلہ صحیح نہیں ہوسکتا'' درست نہیں کیونکہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بدر سے پہلے سلمان کی ( چاہے وہ غلام ہی ہو) کسی اور آزاد آدمی سے مواخات کیوں نہیں کی ؟ اس پرمزید یہ کہ عنقریب ہم بیان کریں گے کہ جناب سلمان ہجرت کے پہلے برس میں ہی مسلمان اور آزاد ہوگئے تھے_

____________________

۱) طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج۴ حصہ اول ص ۶۰_

۲)انساب الاشراف ( حصہ حیات طیبہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم ) ج۱ ص ۲۷۱_

۳) نفس الرحمان ص ۸۵ از انساب الاشراف_

۱۰۴

۳_ پس بلاذری کا یہ دعوی کہ'' سلمان ، احد اورخندق کے درمیانی عرصے میں مسلمان ہوئے تھے'' صحیح نہیں ہے کیونکہ جس طرح ہم نے کہا ہے وہ ہجرت کے پہلے سال ہی مسلمان ہوگئے تھے_ ہاں البتہ مورخین یہ کہتے ہیں کہ وہ جنگ خندق سے کچھ عرصہ قبل آزاد ہوئے تھے_

پس جب وہ مواخات کے عمل کے موقعہ پر مسلمان تھے تو کسی بھی مسلمان کے ساتھ ان کی مؤاخات ہوسکتی تھی، چاہے وہ دوسرا آدمی آزاد ہو، کیونکہ اسلام کی نگاہ میں ایمان اور انسانیت و غیرہ کے لحاظ سے آزاد اور غلام میں کوئی فرق نہیں ہے _

یہ تو اس صورت میں ہے جب انہیں اس وقت تک غلام مان لیا جائے_

۴_بدر کے بعد جس چیز کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا وہ ایسے مؤاخاتی بھائیوں کے درمیان توارث کا حکم ہے، خود مؤاخات نہیں _ یہ بھی ان لوگوں کے بقول ہے وگرنہ ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ توارث کا مسئلہ تو اس سے پہلے بھی نہیں تھاشاید بعض مسلمانوں نے یہ گمان کرلیا تھا کہ بھائی بننے والوں کے درمیان توارث کا سلسلہ بھی موجود ہے تو آیت اس گمان کی نفی اور اس شک کے ازالہ کے لئے ناز ل ہوئی _ اس آیت کے نزول کازمانہ اور جنگ بدر کازمانہ ایک ساتھ ہوگئے جس سے دو اور غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور وہ یہ کہ :

الف: توارث کا سلسلہ پہلے یقینی تھا_

ب: توارث کا سلسلہ منقطع ہوتے ہی اخوت کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیاہے_

جبکہ یہ دونوں گمان ، باطل اور نادرست ہیں_

۵_ان کے اس قول '' سلمان اور ابودردا کے درمیان بھائی چارہ ہوا تھا '' کے مقابلے میں مندرجہ ذیل اقوال ہیں:

الف: ہمارے امام زین العابدین علیہ السلام کا فرمان ہے: '' اگر ابوذر کو معلوم ہوجاتا کہ سلمان کے دل میں کیا ہے تو وہ اسے قتل کرڈالتا، حالانکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا _ تو پھر

۱۰۵

دوسرے لوگوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟''(۱) _

ب: حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام کا فرمان ہے : '' نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے سلمان اور ابوذر کے درمیان مواخات برقرار کیا تھا اور ابوذر پر یہ شرط عائد کردی تھی کہ وہ سلمان (کاہر کہنا مانے گا اور اس ) کی نافرمانی نہیں کرےگا(۲) _

ج: ہمارا بھی یہی نظریہ ہے کہ سلمان کی مؤاخات ، ابوذر کے ساتھ ہی صحیح اور مؤرخین و محدثین کے اس بات کے زیادہ موافق ہے کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے ہر شخص کو اسی کی طرح کے فرد کا بھائی بنایا _ اور ابودردا کی نسبت ابوذر ہی گفتار و کردار کے لحاظ سے سلمان سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے کیونکہ قرآن اور حکومت کے ٹکراؤ کی صورت میں جناب سلمان قرآن مجید کا دامن تھامنے اور اس کا ساتھ دیتے ہوئے اس پر ڈٹ جانے کی تاکید کیا کرتے تھے_ اسی طرح جب کوئی حکومت کسی بڑے انحرافی رستے پر چل نکلتی تو جناب ابوذر حکومت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرتے تھے _ پس وہ حق کی طرفداری کرتے تھے اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے کا پر زور اعلان کرتے تھے_ اسی طرح جناب ابوذر اور جناب سلمان کا واقعہ سقیفہ اور اس کے نتائج پر ایک ہی موقف تھا(۳) _

لیکن ابودردا ئ وہ حکومت کا ترجمان اور جابر حکمرانوں کا مددگار بن گیا تھا_ یہانتک کہ ہم معاویہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس اچھائی کے بدلے میں اس کی تعریف توصیف اور تمجید میں رطب اللسان رہتا تھا(۴)

اسی ابودرداء نے ( جیسا کہ بیان ہوچکا ہے ) سلمان کو ایک خط میں مقدس سرزمین کی طرف دعوت دی تھی_ اور اس کے گمان میں سرزمین مقدس، شام ہے مکہ اور مدینہ نہیں پس پڑھتے جائیں اور تعجب کرتے جائیں کیونکہ زمانے کا دستور نرالا ہوتاہے_

____________________

۱) بصائر الدرجات ص ۲۵ ، الکافی ج۱ ص ۳۳۱ الغدیر ج۷ ص ۳۵ از مذکورہ دونوں، اختیار معرفة الرجال ص ۱۷ ، بحار الانوار ج۲۲ ص ۳۴۳ ، مصابیح الانوار ج۱ ص ۳۴۸ ، قاموس الرجال ج۴ ص ۴۱۸ ،۴۱۹ بظاہر یہ روایت معتبر بھیہے _

۲) الکافی ج۸ ص ۱۶۲ ، بحارالانوار ج۲۲ ص ۳۴۵ از کافی نیز نفس الرحمان ص ۹۱_

۳)ملاحظہ ہو مؤلف کی کتاب '' سلمان الفارسی فی مواجہة التحدی''_

۴)طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج۲ حصہ ۲ ص ۱۱۵

۱۰۶

اس کے متعلق یہ تذکرہ ہی کافی ہوگا کہ یزید بن معاویہ نے بھی ابودرداء کی مدح اور تعریف کی(۱) جبکہ معاویہ نے اسے دمشق کا گورنر بنایا تھا(۲) اس پرمزید یہ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ابودردا کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تمہارے اندر جاہلیت پائی جاتی ہے _ اس نے پوچھا کہ کفر والی جاہلیت یا اسلام والی؟ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ کفر والی جاہلیت(۳) _

د: جب جناب سلمان ہجرت کے پہلے سال مسلمان ہوئے تھے (جیسا کہ ایک علیحدہ فصل میں اس کے متعلق گفتگو ہوگی) اور ابودرداء جنگ احد کے بعد بہت دیر سے مسلمان ہوا تھا(۴) تو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے سلمان کو کسی کا بھائی بنائے بغیر اتنا لمبا عرصہ کیوں چھوڑے رکھا ؟

ھ : اگر ہم واقدی کے اس قول کو مان لیں کہ '' علماء ، بدر کے بعد کسی بھی قسم کی مواخات کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ واقعہ بدر نے (اخوت کی بنیاد پر ) ہر قسم کی میراث کو منقطع کردیا ہے ''(۵) تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ علماء ، سلمان اور ابودرداء کے درمیان مؤاخات کے منکر ہیں _ کیونکہ ابودرداء جنگ بدر کے بہت عرصہ بعد مسلمان ہوا تھا_

و: اور آخر کار بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابودردا اور عوف بن مالک اشجعی کے درمیان رشتہ اخوت برقرار فرمایا تھا(۶) اور شاید یہ روایت ہی زیادہ صحیح اور قبول کرنے کے زیادہ قابل ہو

ابوذر ،سلمان کی مخالفت نہ کرے

کلینی نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان اور ابوذرکے درمیان

____________________

۱) تذکرة الحفاظ ج۱ ص ۲۵ (۲) الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج۳ ص ۱۷ و ج۴ ص ۶۰ ، الاصابہ ج۳ ص ۴۶ نیز التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۴۲۶، ۴۲۷

۳) الکشاف ج۳ ص ۵۳۷ ، قاموس الرجال ج ۱۰ ص ۶۹_ (۴)الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج۳ ص ۱۶، نیز ملاحظہ ہو ج۴ ص۶۰_

۵)قاموس الرجال ج۷ ص ۲۵۶ و ج۱۰ ص ۶۹ ، انساب الاشراف ( حصہ حیات طیبہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم) ج۱ ص ۲۷۱ نیز ملاحظہ ہو: طبقات ابن سعد ج۴ حصہ اول ص ۶۰_

۶)طبقات ابن سعد ج۴ حصہ اول ص ۲۲_

۱۰۷

مؤاخات برقرار فرمائی اور ابوذر پر یہ شرط عائد کی کہ وہ سلمان کی نافرمانی نہ کرے(۱) اور واضح سی بات ہے کہ ابوذر کے سلمان کی اطاعت کرنے کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ یہ اطاعت حق تک پہنچانے والی اور اخوت اور حق کے دوام اور ان سے وابستگی اور اس سے دفاع تک لے جانے والی تھی اور اس کی ایک اوروجہ یہ بھی ہے کہ سلمان خدائے بزرگ و برتر تک رسائی اور اعلی مقاصد تک پہنچنے کے لئے ذہنی ، نظریاتی اور علمی بلکہ ہر قسم کی حرکات و سکنات کے لحاظ سے اعلی سطح پراس عظیم دینی شعور اور اعلی ظرفی کا عملی نمونہ تھے جو ثمر بخش پختہ ایمان اور راسخ عقیدہ کا، حمایت یافتہ تھا،تا کہ زندگی اس ایمان کے سائے میں بسر کریں _ بہر حال جناب سلمان میں صحیح معنوں میں تمام کمالات بدرجہ اتم موجود تھے_ کیونکہ ایمان کے کل دس درجے ہیں اور سلمان دسویں درجے پر فائز تھے ، ابوذر نویں درجے پر اور مقداد آٹھویں درجے پر تھے(۲) _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابوذر کو سلمان کی اطاعت کرنے کے حکم سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ : اطاعت کا معیار اور میزان صرف یہی مذکورہ چیز ہے _ قرآن کریم نے بھی اسی چیز کو یقین اور تقوی تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیاہے_ فرمان الہی ہے:(ہل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون)(۳) اور (انمایخشی اللہ من عبادہ العلمائ)(۴) اور(ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم)(۵) پس اس صورت میں ایک دوسرے پر فضیلت حاصل کرنے اور امتیازی حیثیت پیدا کرنے میں رنگ و خون اور جاہ و مال و غیرہ کا کسی قسم کا اور کسی بھی شخص کے حق میں کوئی کردار نہیں ہے_ بلکہ ان تمام امور میں معیار اور میزان صرف اورصرف وہ تقوی ہے جو پختہ ایمان، روشن فکر اور عظیم دینی شعور کے زیر سایہ ہوتی ہے_ اسی وجہ سے ابوذر پر ضروری تھا کہ وہ سلمان کی نافرمانی نہ کرے_ وہ سلمان جو علم و معرفت کے ا س درجہ پر فائز تھے کہ اگر ابوذر کو معلوم ہوجاتا کہ سلمان کے دل میں کیا ہے اسے قتل کردیتا(۶) _ فضل سے منقول ہے کہ اسلام کے

____________________

۱) روضة الکافی ص ۱۶۲_ (۲) قاموس الرجال ج/۴ ص ۴۲۳ ازخصال للصدوق _

۳) الزمر ۹_ (۴) فاطر ۲۸_

۵) الحجرات ۱۳_

۶) قاموس الرجال ج/۴ ص ۴۱۸_

۱۰۸

زیر سایہ پرورش پانے والے تمام لوگوں میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو سلمان فارسی سے زیادہ فقیہ ہو(۱) _

اور بالکل اسی طرح سے دوسرے زبر دستی حاکم بننے والے جاہلوں ، طاغوتوں اور جابر لوگوں کی اطاعت کی بجائے ائمہ ھدیعليه‌السلام کی اطاعت ضروری ہے جو علم و معرفت اور در نتیجہ تقوی کی انتہائی بلندترین چوٹی پر فائز ہیں اور زمین پر خلافت الہی کا حقیقی نمونہ ہیں _

۴_ جدید معاشرے میں تعلقات کی بنیاد:

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے کچھ عرصہ بعد اور بعض کے بقول پانچ مہینوں(۲) کے بعد اپنے اور یہودیوں کے درمیان ایک تحریر یا سند لکھی جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اپنے دین اور اموال کا مالک رہنے دیا لیکن ان پر یہ شرط عائد کی کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف کسی کی مدد نہیں کریں گے اور جنگ اور اضطراری صورت حال میں ان پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنا ضروری ہوگا جیسا کہ اس کے بدلہ میں مسلمانوں پر بھی یہ چیز لازم ہے لیکن یہود یوں نے بہت جلدی اس عہد و پیمان کو توڑدیا اور مکر وفریب سے کام لینے لگے _ لیکن جو دوسروں کے لئے کنواں کھودتا ہے ، اسی کے لئے کھائی تیار ملتی ہے _

قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ اس سند میںصرف اغیار کے ساتھ مسلمانوں کے روابط کی نوعیت و کیفیت کے بیان پر ہی اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ اس کا اکثرو بیشتر حصہ خود مسلمانوں کے درمیان روابط کے ایسے ضروری اصولوں اور قواعد پر مشتمل ہے جو احتمالی غلطیوں کے واقع ہونے سے پہلے ہی ان کی روک تھام کرسکے اور یہ سند ایک ایسے دستور العمل کی مانند ہے کہ جس میںنئی حکومت کے داخلی و خارجی روابط کا بنیادی ڈھانچہ پیش کیا گیا ہو _حق بات تو یہ ہے کہ یہ سند ان اہم ترین قانونی اسناد میں سے ایک ایسی سند ہے جس کا مطالعہ ماہرین قانون اور قانون گذاروں کو پوری دقت اور توجہ کے ساتھ کرنا چاہیے تا کہ اس سے دلائل او ر احکام استخراج کرسکیں اور اسلام کے اعلی مقاصد اور قوانین کی عظمت و بلندی کو درک کرسکیں _ نیزاس سند کا دیگر

____________________

۱)قاموس الرجال ج ۴ ص ۴۱۸ و غیرہ _

۲) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۳_

۱۰۹

انسانوں کے بنائے ہوئے ان قوانین کے ساتھ موازنہ کرنا چاہئے جن پر اس امت کے فکری طورپر مستضعف افرادبھی مرے جا رہے ہیں حالانکہ یہ قوانین انسان کی فطری و غیر فطری ضروریات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں_یہاں پر ہم سند کے متن کو درج کرتے ہیں_

سند کا متن

ابن اسحاق کے بقول :

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے مہاجرین اور انصار کے لیے ایک قرار داد تحریر فرمائی جس میں یہود یوں کے ساتھ بھی عہد و پیمان کیا اور انہیں اپنے دین اور مال کا مالک رہنے دیا اور طرفین کے لئے کچھ شرائط بھی طے پائیں_

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ کے رسول محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے یہ معاہدہ یثرب اور قریش کے مسلمانوں ، مومنوں، ان کے پیروکاروں ، ان سے ملحق ہونے والوں اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنے والوںکے درمیان ہے_ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں یہ سب کے سب ایک امت ہیں _ قریشی مہاجرین اپنے رسوم و رواج کے مطابق آپس میں خون بہا کے معاملات طے کریں گے جبکہ اپنے قیدیوں کا فدیہ بہتر طریقے سے اور برابر برابر مسلمانوں سے لے کرادا کریں گے_ (البتہ یہ شقیں ذو معنی الفاظ رکھتی ہیں لیکن ان کا یہی معنی مناسب لگتاہے_مترجم)

بنی عوف بھی اپنے رسوم و رواج کے مطابق خون بہا کے گذشتہ معاملات طے کریں گے جبکہ ہر قبیلہ اپنے قیدیوں کا فدیہ بہتر طریقے سے اور برابر برابر مؤمنین سے لے کرادا کرے گا _

اسی طرح بنی ساعدہ ، بنی الحارث ، بنی جشم، بنی نجار، بنی عمرو بن عوف ، بنی النبیت اور بنی اوس بھی اپنے رسوم و رواج کے مطابق خون بہا کے گذشتہ معاملات طے کرلیں گے جبکہ اپنے قیدیوں کا فدیہ بہتر طریقے سے اور برابر برابر مؤمنین سے لے کراداکریں گے _

۱۱۰

اور مومنین اپنے درمیان کسی کثیر العیال مقروض کو اپنے حال پر نہیں چھوڑیں گے اور مناسب طریقے سے اسے فدیہ اور خون بہا کا حصہ عطا ء کریں گے _

اور پرہیزگار مؤمنین سب مل کربا ہمی طور پر بغاوت کرنے والے یا ظلم ، گناہ، دشمنی یا مومنین کے درمیان فساد پھیلانے جیسے کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف اقدام کریں گے چا ہے وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو_

اور کسی مومن کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے مومن کو کسی کافر کی خاطر قتل کرے اور مومن کے خلاف کافر کی مدد کرے_

اور خدا کا ذمہ ایک ہی ہے اسی لئے مسلمانوں میں سے ادنی ترین شخص بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے_

اور دوسرے لوگوں کے مقابلے میں تمام مؤمنین ایک دوسرے کے دوست اور ساتھی ہیں_

اورجو یہودی بھی ہماری پیروی کرے گا تو اس کی مدد اور برابری کے حقوق ضروری ہیں_اور اس پر ظلم نہیں کیا جائے گا اور اس کے خلاف کسی کی مدد نہیں کی جائے گی _

اورتمام مومنین کی صلح و سلامتی ایک ہے اور کوئی مومن بھی دوسرے مومن کی موافقت کے بغیر جہاد فی سبیل اللہ میں کسی سے صلح نہیں کرسکتا مگر سب اکٹھے ہوں اور عدالت کی رعایت کی جائے _

اور جو قبیلہ بھی ہمارے ساتھ مل کر جنگ کرے گا اس کے سب افراد ایک دوسرے کی مدد کریںگے _

اور مومنین کا جو خون راہ خدا میں بہے گا وہ اس میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور(راضی بہ رضا رہنے والے) متقی مومنین بہترین اور محکم ترین ہدایت پر ہیں _

کسی مشرک شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قریش کے کسی شخص یا اس کے مال کو پناہ دے اور مومن کے اس پر مسلط ہونے سے مانع ہو_

اور جو شخص بھی ناحق کسی مومن کو قتل کرے گا اور قتل ثابت ہوجائے تواسے اس کے بدلے قتل کیا جائے گا مگر یہ کہ مقتول کے وارثین ( دیت لینے پر) راضی ہوجائیں اور تمام مؤمنین کواس قاتل کے خلاف قیام کرنا

۱۱۱

پڑے گا اوران پر قاتل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ضروری اور واجب ہوگا_

اور جو مومن اس معاہدے میں درج امور کا اقرار کرتا ہے اور خدا اور قیامت پر ایمان رکھتاہے اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی بدعت گزار کی مدد کرے یا اس کو پناہ دے اورجو شخص بھی اس کو پناہ دے گا یا اس کی مدد کرے گا تو قیامت کے دن خدا کی لعنت اور غضب کا مستوجب قرار پائے گا اور اس سے اس چیز کا معاوضہ یا بدلہ قبول نہیں کیا جائے گا_

اور جب بھی کسی چیز کے متعلق تمہارے درمیان اختلاف واقع ہو تو ( اس اختلاف کو حل کرنے کا ) مرجع و مرکز خدا اور ( اس کے رسول ) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں_

اور جنگ کے دوران یہود ی بھی مومنین کے ساتھ ساتھ جنگ کے اخراجات برداشت کریں گے اور بنی عوف کے یہودیوں کا شمار بھی مومنین کے ساتھ ایک گروہ میں ہوگا( اس فرق کے ساتھ کہ ) یہود یوں اور مسلمانوں کا اپنا اپنا دین ، دوستیاں اور ذاتیات ہوں گے مگر جو شخص ظلم یا گناہ کا ارتکاب کرے گا تو ( اس صورت میں) وہ صرف اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو ہی ہلاکت میں ڈال دے گا _ بنی نجار کے یہودیوں کا معاملہ بھی بنی عوف کے یہودیوں کی طرح ہے_ اسی طرح بنی حارث ، بنی ساعدہ ، بنی اوس اور بنی ثعلبہ کے یہودیوں کا معاملہ بھی بنی عوف کے یہودیوں کی طرح ہے مگر جو شخص ظلم یا گناہ کاارتکاب کرے گا تو ( اس صورت میں ) وہ صرف اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو ہی ہلاکت میں ڈالے گا_ ثعلبہ کے خاندان ، جفنہ کا معاملہ بھی ثعلبہ کی طرح ہے_ اسی طرح بنی شطیبہ کا معاملہ بھی بنی عوف کے یہودیوں کی طرف ہے_ اور نیکی اور برائی کا علیحدہ علیحدہ حساب کتاب ہے_ ثعلبہ کے ساتھیوں کا معاملہ بھی انہی کی طرح ہے_ نیز یہودیوں کے قریبی افراد کا معاملہ بھی انہی کی طرح ہے_

اور(حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی بھی یہودی مدینہ شہر سے خارج نہیں ہوگا نیز کسی بھی قبیلہ کو اس معاہدے سے خارج نہیں کیا جائے گا_ اور زخمیوںکا بدلہ لینے میں بھی کوئی زیادہ روی نہیں کی جائے گی اور جو ناحق خونریزی کرے گا اس کا اور اس کا گھر والوں کا خون بہایا جائے گا_ لیکن مظلوم ہونے کی

۱۱۲

صورت میں اسے اس بات کی اجازت ہے اور خدا بھی اسی بات پر راضی ہے_

یہودی اور مسلمان ہر ایک اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے اور اس معاہدے کو قبول کرنے والوں میں سے کسی فریق کے خلاف جنگ کی گئی تو یہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے_

اوریہ لوگ پند و نصیحت اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے ، گناہ کے کاموں میں نہیں _ کوئی شخص بھی اپنے حلیف سے بدی نہیں کرے گا اور (اس صورت میں)مظلوم کی مدد کی جائے گی _

اور یہود ی مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگی اخراجات برداشت کریں گے جب تک وہ جنگ میں مصروف ہیں _اس معاہدے کو قبول کرنے والوں کے لئے یثرب (مدینہ) شہر جائے امن وا حترام ہے_

اور ( ہر شخص کا)ہمسایہ اور پناہ گیر خود اسی کی طرح ہے اور اسے ضر ر اور تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے _ کسی شخص کو نا حق پناہ نہیں دی جائے گی مگر اس کے خاندان کی اجازت سے_

اور اگر اس معاہدے کو قبول کرنے والے اشخاص کے درمیان ایسا جھگڑا اور نزاع واقع ہو جس سے فساد کا خوف ہو تو اسے حل کرنے کا مرجع و مرکز خدا اور ( اس کا رسول ) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے اور خداوند متعال یقیناً اس عہد و پیمان کے مندرجات پر ر اضی خوشنود ہے_ مشرکین قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی یثرب پر حملہ کرنے والوں کے خلاف سب ایک دوسرے کی مدد کریںگے_ اگر (مؤمنین ) انہیں صلح کی دعوت دیں(۱) اور وہ قبول کرلیں تو تمام مؤمنین بھی اس کے مطابق عمل کریں گے اور اگر وہ مومنین کو صلح کی دعوت دیں گرچہ ان کامؤمنین کی طرح یہ حق ہے مگر جو شخص دین کے بارے میں جنگ کرے تو اس کی پیشکش کو قبول نہیں کیا جائے گا_ اور ہر شخص کو اپنے ذمہ لئے جانے والا حصہ(۲) ادا کرنا چاہئے_اوس کے یہود ی خود اور ان کے ساتھیوںکے بھی وہی حقوق ہیں جو اس معاہدے کو قبول کرنے والوں کے لئے ثابت ہیں_ ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے_ اچھائی اور

____________________

۱) کتاب الاموال ابوعبید کی روایت ہے کہ اگر ( مومنوں میں سے) یہودیوں کا کوئی حلیف انہیں صلح کی دعوت دے گا تو سب کو ان کے ساتھ صلح کرنی پڑے گی اور اگر وہ یہ کام کریں تو مومنوں کی طرح ان کابھی یہ حق بنتا ہے مگر جو دین کے خلاف جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں_

۲)الاموال کے مطابق ، ہر کسی کو اپنے ذمہ لئے جانے والے خرچہ کا حصہ ادا کرنا چاہئے_

۱۱۳

برائی کا علیحدہ حساب کتاب ہے اور جو بوئے گا وہی کاٹے گا_ خداوند اس معاہدے کے مندرجات پر خوشنود وراضی ہے اوراس قرار داد کی خلاف ورزی صرف ظالم اور گناہگار افراد ہی کریں گے_ ( اور اس قرارداد کو قبول کرنے والے اشخاص میں سے ) جو شخص بھی مدینہ سے خارج ہو یا مدینہ میں رہے امان میں ہے مگر یہ کہ ظلم کرے اور گناہ کا مرتکب ہو _یقینا خدا اور اس کا رسول محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیک اور پرہیزگار لوگوں کی پناہ گاہ ہیں(۱) _

یہ ایک اہم اور بلند پایہ سند ہے لیکن مؤرخین نے(۱) اسے زیادہ اہمیت نہیں دی اور محققین و مؤلفین نے اس میں تحقیق کرنے میں کوتاہی کی ہے ، ہم روشن فکر اشخاص کو اس سند میں غور و خوض اور گہرے سوچ بچار کی دعوت دیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اس کی عظمت کے مطابق اسے اہمیت دی جائے گی واللہ ھو الموفق والمسدد_البتہ ہم بھی اپنی حیثیت کے مطابق اس کے متعلق چند نکات بیان کریں گے_

معاہدہ یا معاہدے؟

مؤرخین ، اس معاہدے کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ایسا دستور العمل ہے جو ایک طرف سے تو مہاجرین اور انصار کے درمیان اور دوسری طرف سے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت معین کرتاہے بعض مؤرخین کا دعوی ہے کہ یہ ایک معاہدہ نہیں ہے بلکہ یہ کئی علیحدہ علیحدہ سلسلہ وار معاہدوں کا مجموعہ ہے جنہیں مندرجہ ذیل دو مرحلوں میں آپس میں ترکیب کیا گیا ہے :

پہلا مرحلہ : اس مرحلہ میں مختلف عرب قبائل کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی قیادت میں مدینہ میں یکجا کیا گیا _

دوسرا مرحلہ : اس مرحلہ میں کسی بھی بیرونی دباؤ کے مقابلے کی خاطر مدینہ کے یہودیوں کے تعاون کے حصول کے لئے مذکورہ قبائل کے اجتماع اور تعاون کی قوت سے مدد لی گئی_

____________________

۱) سیرة ابن ھشام ج/۲ ص ۱۴۷ تا ۱۵۰ ، البدایة والنھایة ج/۳ ص ۲۲۴ تا ۲۲۶، الاموال ص ۲۰۲ تا ص ۲۰۷،مجموعة الوثائق السیاسیہ نیز مسند احمد ج ۱ ص ۲۷۱ و مسند ابویعلی ج ۴ ص ۳۶۶_۳۶۷ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_

۱۱۴

اور یہ بھی لازمی نہیں ہے کہ یہ معاہدے ایک ہی وقت میں طے پائے ہوں _ بلکہ ان دومرحلوں میں بھی کئی ایسے چھوٹے چھوٹے مراحل ہیں جو (اس معاہدے کی شقوں پر نظر ثانی کا باعث بننے والے) ہر نئے پیش آنے والے حالات و واقعات کے مطابق دقتاً فوقتاً مذکورہ معاہدے کی شقوں اور جملوں میں اضافہ کا باعث بنے _ جن کی رو سے مدنی معاشرے کے مختلف ارکان کے درمیان مذکورہ تبدیلی کے اثرات کی حامل شقوں اور جملوں کا اضافہ ہوا _ لیکن مذکورہ بیانات پر ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ اس معاہدے میں بعض جملوں کا تکرار ہوا ہے _ خاص کر جب یہ ملاحظہ کیا جائے کہ یہ جملے ایک ہی شق اور شرط کو بیان کررہے ہیں بطور مثال مندرجہ ذیل عبارتیں ہیں جو یہ بیان کررہی ہیں کہ '' جنگ کے دوران یہودی بھی مومنوں کے ساتھ ساتھ جنگ کے اخراجات برداشت کریں گے'' اور '' اس معاہدے کے حلیفوں کے درمیان جب بھی کسی چیز کے متعلق اختلاف واقع ہو تو اسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حضور پیش کریں '' اسی طرح '' اچھائی اور برائی کا حساب جدا جدا ہے'' اور '' ہر قبیلہ اپنے قیدیوں کا فدیہ بہتر طریقے سے اور برابر برابر تمام مومنین کے درمیان تقسیم کریں گے'' جبکہ یہ جملے اوس اور خزرج کے مختلف قبیلوں کی بہ نسبت کئی بار تکرار ہوئے ہیں(۱) _

جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ واضح سی بات ہے کہ یہ دلیل ان کے اس گمان کے اثبات کے لئے ناکافی ہے _ کیونکہ یہ تکرار یقینا ہر قبیلے کی بہ نسبت اس معاہدے کی جداگانہ تاکید کے لئے آیا ہے جو تحریری معاہدوں میں دقت اور صراحت کے حصول کے لئے ایک پسندیدہ امر ہے تا کہ کسی بہانہ جو اور حیلہ گر کے لئے عذر اور بہانہ کا کوئی بھی موقع نہ رہے_ اور یہ وضاحت اور تصریح ہر گروہ ، خاندان اور قبیلہ کے لئے بیان ہوئی ہے کیونکہ مقصود یہ تھا کہ اس گروہ یا قبیلہ کو وضاحت سے ہر وہ بات معلوم ہوجائے جو اس کے لئے اور اس سے مطلوب ہے پس یہ معاہدہ ان تمام قرار دادوں کا مجموعہ ہے جسے ہر قبیلہ نے دوسرے قبیلوں ،گروہوں یا خود قبیلہ کے افراد کے ساتھ طے کئے تھے_ پس ان تمام قراردادوں کا بیان ضروری تھا_ اسی بناپر اس ایک معاہدے میں کئی مختلف معاہدوں کی خصوصیات پیدا ہوگئیں_البتہ اس معاہدے میں مذکور یہودیوں سے مراد بنی اسرائیل

____________________

۱) مذکورہ بیانات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب '' نشا الدولة الاسلامیہ ص ۲۵ ، ۲۷''

۱۱۵

کے یہودی نہیں ہیں اور ان کے قبیلے قینقاع، نضیر اور قریظہ ہیں _ بلکہ یہاں پر یہودیوں سے مراد قبائل انصار کے یہودی ہیں_کیونکہ انصار کے قبیلوں کے چند گروہ یہودیت اختیا ر کرچکے تھے اور معاہدے میں بھی ان کا ذکر ان کے قبیلہ کے ذکر کے ساتھ ہوا ہے _ ابن واضح کا کہنا ہے : '' اوس اور خزرج کا ایک گروہ یمن سے خارج ہونے کے بعد خیبر ، قریظہ اور نضیر کے یہودیوں کے ساتھ ہمسائیگی کی وجہ سے یہودی ہوگیا_ نیز بنی حارث بن کعب، غسان اور جذام کے افراد بھی یہودی ہوگئے ''(۱) _ اسی طرح بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ انصار کی ایک نسل اس سبب سے یہودی ہوگئی تھی کہ جب بھی کسی عورت کا بچہ زندہ نہ بچتا تھا تو وہ اپنے آپ سے یہ عہد کرتی تھی اور یہ نذر مان لیتی تھی کہ اگر اس کا بچہ زندہ بچا تو وہ اسے یہودی بنائے گی _ پھر جب قبیلہ بنی نضیر کو جلا وطن کیا جانے لگا تو انہی کے بزرگوں نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے جس پر خدا نے ( لا اکراہ فی الدین ) ( دین اختیار کرنے پر کوئی جبر نہیں) والی آیت نازل کی _ مورخین و محدثین کہتے ہیں کہ یہ حکم ان مذکور افراد کے لئے خاص ہے جو اسلام کے آنے سے پہلے یہودی ہوگئے تھے(۲) _

معاہدے پر سرسری نگاہ :

بہر حال معاملہ جو بھی ہو _ لیکن یہ معاہدہ یا معاہدے اس نئے معاشرے میں تعلقات استوار کرنے کے سلسلے میں کئی نہایت اہم اور بنیادی نکات کے حامل ہیں اس بات پر بطور مثال ہم مندرجہ ذیل امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ _ اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ تمام تر قبائلی ، نسبتی ، فکری نیز کمی اور کیفی لحاظ سے نظریاتی،معاشی ، معاشرتی اور دیگر اختلافات کے با وجود مسلمان ایک امت اور گروہ ہوں گے_

____________________

۱) تاریخ یعقوبی ج۱ ص ۲۵۷_

۲)ملاحظہ ہو: سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۲۶۷ ، الجامع لاحکام القرآن ج۳ ص ۲۸۰ از ابوداؤد ، لباب التاویل ج۱ ص ۱۸۵ فتح القدیر ج۵ ص ۲۷۵، از ابوداؤد، نسائی ، ابن جریر ، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان ، ابن مردویہ ، بیہقی در سنن و ضیاء در المختارہ ، درمنثور ج۱ ص۳۲۸

۱۱۶

اس عہد کے کئی سیاسی پہلو ہیں _ نیز اس کے حقوقی اور دیگر اثرات بھی ہیں_ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور معاشرتی ڈھانچے اور نجی ، جذباتی ، فکری ، معاشی حتی کہ بنیادی حالات و تعلقات پر بھی اس کے عمومی سطح پر گہرے اثرات اور نتائج مرتب ہوتے ہیں_ لیکن ہم اس کی تفصیل اور جزئیات میں جانے کے درپے نہیں ہیں_

۲_ اس معاہدے میں قریش مہاجرین کو دیت اور خون بہا کے معاملے میں اپنی عادت اور رسم پر باقی رکھنا بھی شامل ہے_ گرچہ مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ شق بعد میں منسوخ ہوگئی تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ شقیں بعد میں بھی برقرار رہیں_ جبکہ یہ ان رسومات میں سے ہے جنہیں جناب عبدالمطلب نے رواج دیا تھا _ یا دین حنیفیت سے ان تک پہنچی تھی _ اس وجہ سے استثنائی طور پر صرف اس رسم کو اسلام میں باقی رکھا گیا اور بطور مثال قریشیوں کی تجارتی یا دوسرے نجی رسومات کو باقی نہیں رکھا گیا_

حتی کہ اگر بعض مقامات پر یہ صورتحال نہ بھی ہو تو عین ممکن ہے کہ شرعی احکام کی تشریع اور انہیںلاگو کرنے کے باب میں اس دور کے معاشی اوراقتصادی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے تدریج کا سہارا لیا گیا ہو_

۳_ مہاجرین اور دوسرے قبائل کا اپنے قیدیوں کا فدیہ عدل و انصاف سے سب قبائل میں تقسیم کرنے کا فریضہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تمام قبائل کو ایک دوسرے کی کفالت اور معاشرتی اور اجتماعی احساس ذمہ داری کی حالت میں گذر بسر کرنا ہوگی _ مزید یہ کہ یہ چیز ان لوگوں کے درمیان ایک قسم کے تعلق ، ایک دوسرے کے دفاع اور خطرے اور مشکلات کے لمحات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی ضامن ہے_ اس کے علاوہ اپنے جنگی حلیف کو یہ احساس دلانا ہے کہ یہاں اس کے خیرخواہ موجود ہیں اور اس کے قیدی ہونے کی صورت میں اسے آزاد کرانے کے لئے اپنا مال خرچ کرنے پر بھی تیار ہیں اور یہ بات اس کی امنگوں ، خود اعتمادی اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے ارادوں میں اضافہ کا باعث بنے گا_ اس پر مزید یہ کہ اگر اقتصادی اور معاشی بوجھ کو بہت سے افراد مل کر برداشت کریں تو وہ بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے_ اور مشکلات سے دوچار (غریب) افراد پر بھی زیادہ بوجھ نہیں پڑتا_

۱۱۷

یہاں پر قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ اس شق میں قسط (عد ل و انصاف) اور معروف (نیکی اور بھلائی) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں _ کیونکہ قسط کا لفظ قبیلہ کے افراد میں حصّہ رسد کی برابر تقسیم میں کسی بھی قسم کی کمی یا بیشی کے انکار اور ممانعت پر دلالت کرتا ہے _ لیکن معروف کا لفظ اس سے بھی وسیع مطلب پر دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ لفظ بتاتا ہے کہ اس شق یا کسی بھی ایسے شرعی حکم کا عملی نفاذ بہتر اور احسن انداز میں ہونا ضروری ہے جس کا تعلق عام لوگوں سے ہوتا ہے اور وہ حکم ان کی مالی یا غیر مالی حالات کی معاونت کے متعلق ہو _ پس صادرہ احکام یا عمومی قانون کے بہانے مذکورہ طریقے اور راستے سے ادھر ادھر ہونا صحیح نہیں ہے_

۴_ اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ اگر کسی مقروض کا کوئی ایسا خاندان نہ ہو جو اس کے قیدی کی رہائی کے بدلے، فدیہ دینے میں اس کی مدد کرسکے تو اس قیدی کی رہائی کے لئے تمام مسلمانوں پر اس کی مدد لازمی ہے_ اور یہ شق ، قبائل پر فدیہ کی ادائیگی ضروری قرار دینے والے مذکورہ حکم سے پیدا ہونے والے شگاف کو پرکرنے کے لئے منظور کی گئی ہے_ اور اس نکتہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ مذکورہ دونوں شقیں اس وقت کی مالی مشکلات کو حل کرنے کے لئے وضع ہوئیں جب مسلمانوں کے پاس ایسا کوئی بیت المال (خزانہ داری )نہیں تھا جو ان مشکل اور کٹھن حالات میں مسلمانوں کی کفایت کرتا _ کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان دوسروں کی ضروریات تو اپنی جگہ ، اپنی ذاتی ضروریات تک پوری کرنے سے قاصر تھے_ اور کوئی ایسا متبادل ذریعہ بھی نہیں تھا جس سے وہ اس بارے میں استفادہ کرتے_

۵_ اس معاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ ظالموں کو دور بھگانے کا فریضہ صرف مظلوموں پر ہی نہیں بلکہ سب پر عائد ہوتا ہے_ شاید یہ اس معاہدے کی اہم ترین شقوں میں سے ایک ہے_ چاہے اس جیسے عہد کو معاشرے کی جڑوں پر اثرات کے لحاظ سے دیکھا جائے، پھر ان اثرات کے تعلق کو معاہدے اور سیاسی موقف ، ظلم کے مسئلہ کے ساتھ حکمرانوں کے برتاؤ کے تناظر میں دیکھا جائے اور پھر اس معاہدے کے مثبت یا منفی رد عمل کے ساتھ دیکھا جائے جو ظلم سے مقابلے کو ایک معاشرتی اور اجتماعی فریضہ قرار دیتا ہے اور اسے صرف حکمران کے ساتھ ہی مخصوص نہیں کرتا، (گرچہ اکثر اوقات اس کے لئے اقتدار اور مقام کی ضرورت

۱۱۸

رہتی ہے)_ یا چاہے عوام اور امت پر روحانی ، نفسیاتی اور دیگر اثرات کے لحاظ سے اس جیسے عہد کو دیکھا جائے تو یہ پہلو بھی نہایت خطیر اور باا ہمیت ہے _ البتہ اس کی تفصیل میں جانے کی گنجائشے نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے اسلامی شریعت کی طبیعت اور فطرت کے گہرے اور دقیق مطالعہ کی ضرورت ہے_

۶_ اس معاہدے میں ایک یہ شق بھی ہے کہ کسی کافر کے بدلے میں کسی مسلمان کا خون نہیں بہا یا جائے گا_ اور اس شق میں یہ تاکید پائی جاتی ہے کہ انسان کی بزرگی اور قدر و قیمت صرف اسلام کے ساتھ ہی بڑھتی ہے_ اور یہ بات اس مقولہ سے ماخوذ ہے کہ کسی فرد یا اجتماع کے افکار و عقائد ہی اس کی قدر و قیمت کا معیار ہیں_ یہی چیزیں ہیں جو اس کی قدر بڑھاتی ہیں یا پھر گھٹاتی ہیں_ پس اسلام ، ایک مسلمان کی روح کو بلندی تک پہنچا نے والے ایسے اقدار کا مجموعہ ہے جن کے ذریعہ وہ مسلمان اپنی ذات میں انسانیت کے بلند و بالا معانی سموئے ہوئے ہو اور پھر ان پر حقیقی اور عملی زندگی میں عمل پیرا بھی ہو_ ان اقدار کے حامل مسلمان سے ایسے افراد کا قیاس ممکن ہی نہیں ہے جو یا تو اپنی انسانیت پر کاربند نہیں رہتے یا بہت قلیل مقدار میں ان اقدار کے حامل ہوتے ہیں یا سرے سے ان کے اندر انسانیت ہی نہیں پائی جاتی_ یہ صورتحال تو اس صورت کے علاوہ ہے جس میں کوئی شخص وقت پڑنے پر انسانیت کے دفاع اور اس کی راہ میں عزیز اور قیمتی چیزوں کی قربانی تو دریغ ، بلکہ وہ تو انسانیت کے لئے کسی وقعت بلکہ خود انسانیت کا بھی قائل نہ ہو اور ہر حال میں اسے اپنا مفاد عزیز ہوتاہے_

۷_ اس معاہدے میں یہ مذکور ہوا ہے کہ مسلمانوں کا کمتر شخص بھی دشمنوں کو امان دے سکتا ہے لیکن کسی مسلمان کے مقابلے میں کسی کافر کو پناہ اور امان نہیں دی جائے گی_ یہ شق بھی گذشتہ نکتہ میں مذکور مطلب پر تاکید کرتی ہے_ کیونکہ اسلام شرف اور بزرگی کو مال ، قبیلہ اور کسی دوسری چیز میں نہیں بلکہ صرف انسانیت میں دیکھتا ہے اور انسانیت ہی ہے جو اس کی قدر بڑھاتی ہے_ یہاں پر ہم یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ اس جیسا پیمان مسلمانوں کے درمیان مساوات کے احساس کو مزید پختہ کرتا ہے_ پس جب تک تمام مسلمانوں میں انسانیت کا یہ اعلی نمونہ موجود ہے تب تک امیر کو غریب پر اور طاقتور کو کمزور پر کوئی برتری نہیں ہے_ اس

۱۱۹

صورتحال میں انہیں صرف ان اعلی اقدار سے احسن انداز میں استفادہ کرنا چاہئے تا کہ ان کی زندگی کے تمام شعبوں میں بہتری ، بھلائی ، علم و فضل او رتقوی غالب ہو_

۸_ اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ مسلمان کسی بھی بدعتی کی حمایت اور مدد نہیں کریں گے بلکہ نہایت صلابت، مضبوطی ، پائیداری اور مستعدی سے اس کا اور اس کی بدعت کا مقابلہ کریں گے_ معاہدے کی اس شق میں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ، ذہنی اور فکری سلامتی کے لئے بہت زیادہ اہمیت کا قائل ہے_ اور ثقافتی ، عقائدی اور فکری میدان میں حفاظت اور صیانت کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے_ پھر اس صیانت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ عوام یا دوسرے لفظوں میں امت کو اصلی کردار فراہم کرتا ہے_ اور اس سے قبل کہ اس بدعت کا طوفان اس امت کو اپنے ساتھ اڑالے جائے اور اس سمندر کی موجزن لہریں انہیں بہالے جائیں، اسلام ان انحرافات سے نمٹنے کے لئے عوام کو گروہی اور انفرادی کردار ادا کرنے کی تاکید کرتا ہے_ کیونکہ یہ بدعت ابتداء میں امت کے افراد کو نشانہ بناتا ہے تا کہ ان کی اجتماعی طاقت کو مذاق بنا کر اسے حقیرو ذلیل کرے اور پھرا نہیں تسخیر کرکے ان کی طاقت کو اپنی بنیادیں مضبوط کرنے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے کام لائے _ جس کے بعد عوام کی یہ طاقت ایک ایسے پنجے اور کدال کی صورت اختیار کرلے گی جو ہر فضیلت پر کاری ضرب لگا کر اسے تباہ کرنے او ر ہر پستی اور برائی کو پھیلانے کے کام آئے گی_

۹_ اس معاہدے میں غلبہ اسلام کی بھی بنیاد رکھ دی گئی ہے کیونکہ اس معاہدے میں اسلام کے سخت ترین دشمنوں یعنی یہودیوں (مراد انصار قبیلوں سے دین یہودیت اختیار کرنے والے افراد) کی طرف سے بھی اسلام کے غلبہ کا تحریری اعتراف بھی موجود ہے_ حالانکہ یہودی صرف اور صرف اپنے آپ کو ہی تمام امتیازات اور خصوصیات کا مالک جانتے تھے اور ضروری تھا کہ ہر فیصلے کا مبداء ، منتہاء اور محور یہی ہوں _ خلاصہ یہ کہ یہ اپنے آپ کو حکمران اور پوری دنیا کو اپنا ایسا غلام اور حلقہ بگوش سمجھتے تھے جو پیدا ہی ان کی غلامی کرنے کے لئے ہوئے ہیں_ بہرحال اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ کوئی بھی یہودی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی اجازت کے بغیر مدینہ سے باہر قدم بھی نہیں رکھے گا_ اور حاکمیت اور فرمانروائی کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ

۱۲۰