الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242132 / ڈاؤنلوڈ: 6991
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

کے تمام افراد عدل و انصاف اورنظم و انتظام سے بہرہ مند ہوں_ لوگ محبت و اخوت کا اعلی اور مکمل نمونہ دیکھیں، اسی طرح کا معاشرہ ان نفسیاتی کشمش اور تاریخی اختلافات سے پاک ہوگا (بلکہ انہیں آہستہ آہستہ جڑ سے اکھاڑے گا) جنہیں معاشرے کے افراد نے باہمی تعلقات میں اپنا شیوہ بنالیا تھا_ اور جس کے کئی وجوہات کی بنا پر ظاہر ہونے کاخطرہ وسیع ، سخت اور زیادہ تباہ کن ہو سکتا تھا_ پس ایسے مضبوط باہمی روابط برقرار کرنے کی ضرورت تھی جسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''مواخات ''کے عمل سے انجام دیا ، مؤاخات کے اس عمل میںآخری ممکنہ حد تک دقت نظری اور صدیوں کی ایسی منصوبہ بندی شامل تھی جس میں باہمی روابط اور امداد کے فروغ اور استحکام کے لئے انتہائی حد تک کامل ضمانت فراہم کی گئی تھی خصوصاً جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو ایک جیسے افرادکے درمیان مؤاخات قائم کردی تھی _

یہ مواخات دو بنیادوں پر قائم تھی:_

اوّل : حق : _

حق ،انسانی تعلقات میں ایک بنیادی عنصر ہے_ اسی بنیاد پر انسانوں کے روابط و تعلقات قائم ہیں اورزندگی کے مختلف شعبوں میں معاملات اور باہمی لین دین پر یہی چیز حکمفرما ہے _ہاں حق ہی اساس و بنیاد ہے، ذاتی اور انفرادی شعور و ادراک اور ذاتی ، قبائلی اور گروہی مصالح اورمفادات نہیں _واضح ہے کہ اخوت ، باہمی ہمدردی اور احساسات کے ذریعہ سے جب حق بیان ہو اور یہ امور حق سے آراستہ ہوں تو یہ چیز حق کی بقاء ،دوام اور ان لوگوں کی حق کے ساتھ وابستگی اور حق سے دفاع کی ضمانت فراہم کرتی ہے لیکن اگر حق کو بزور بازومسلط کیا جائے تو جوں ہی یہ قوت غائب ہوگی تو حق کے بھی غائب ہونے کا خطرہ لا حق ہوجائے گا کیونکہ اس کی بقاء کی ضمانت چلی گئی ہے پس اب اس کی بقاء اور وجود کے لئے کوئی وجہ باقی نہیں رہی_ بسا اوقات اس طرح سے حق کی بقاء بھی کینہ اور نفرتوں کو جنم دیتی ہے جس سے بسا اوقات ظلم و طغیان اپنی انتہائی ، بدترین او رخوفناک صورت میں ظاہر ہوتاہے_

۱۰۱

دوم : باہمی تعاون:_

پس یہ برادری صرف جذبات کو بھڑکانے اور ذاتی شعور کو بیدار کرنے کیلئے نہ تھی بلکہ نتیجہ خیز احساس ذمہ داری تھی جس پر اسی وقت ہی فوری عملی اثرات مرتب ہوئے اور انسان اسی وقت سے ہی اس کی گہرائی اور تاثیر کو واضح طور پر محسوس کرسکتاہے بالکل اسی بھائی چارے کی طرح جس طرح قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے '' انما المؤمنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم''(۱) کیونکہ اس آیت مجیدہ میں خداوند نے مؤمنین کے درمیان صلح کی ذمہ داری کو ایمانی بھائی چارے کا حصہ بیان فرمایا ہے _جب بھائی چارہ ثمر آور اور نیک نیتی پر مشتمل ہو توفطری بات ہے کہ یہ برداری اور اسی طرح اس کی حفاظت اور پابندی بھی ممکن ترین حد تک دائمی ہوگی_ اس مؤاخات کے عظیم اور گراں قدر نتائج جہاد کی تاریخ میں بھی ظاہر ہوئے_ خداوند کریم نے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جنگ بدر میں احسان جتلاتے ہوئے فرمایاہے : وان یریدوا ان یخدعوک، فان حسبک اللہ، ھو الّذی ایدک بنصرہ و بالمومنین و الف بین قلوبھم، لو انفقت ما فی الارض جمیعاً ما الفت بین قلوبھم ، و لکن اللہ الف بینہم ، ان اللہ عزیز حکیم(۲) _ اور اگر وہ تمہیں دھو کہ دینا بھی چاہیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اطمینان ہے کہ آپ کی حمایت کے لئے خداہی کافی ہے جس نے اپنی مدداور مومنوں کے ذریعہ سے پہلے سے ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تائید اور حمایت کر رکھی ہے اور اسی نے ہی مومنوں کے دلوں کو آپس میں (محبت کے ذریعہ) جوڑ دیا ہے وگر نہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چاہے تمام دنیا و مافیہا کو بھی خرچ کر ڈالتے تب بھی ان کے دلوں میں محبت نہیں ڈال سکتے تھے ، لیکن خدا نے یہ محبت ڈال دی ہے اور خدا تو ہے ہی عزت والا اور دانا_

حضرت ابوبکر کے خلیل:

مؤرخین یہاں روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' اگر مجھے کسی کو دوست بناناہو تا تو میں ضرور ابوبکر کو دوست بناتا''(۳) لیکن یہ کس طرح صحیح ہو سکتاہے حالانکہ خود ہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کرتے ہیں:

____________________

۱) الحجرات ۱۰_ (۲) الانفال ۶۲_

۳) مصنف عبدالرزاق ج / ۱۰ از ابن الزبیر اور اس کے حاشیہ میں سعید بن منصور سے روایت نقل کی گئی ہے الغدیر ج/۹ ص ۳۴۷ ،از صحیح البخاری ج/۵ ص ۲۴۳ باب المناقب اور باب الہجرة ج/۶ ص ۴۴_نیز الطب النبوی ابن قیم ص ۲۰۷_

۱۰۲

_بے شک میری امت میں سے میرا دوست ابوبکر ہے(۱) _

_ ہر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دوست ہوتاہے اور میرا دوست سعد بن معاذ(۲) یا عثمان بن عفان ہے(۳) _

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ : حضرت عثمان کی دوستی والی حدیث کو اسحاق بن نجیح ملطی نے گھڑا ہے(۴) اور حضرت ابوبکر کی دوستی والی حدیث ( جیسا کہ معتزلی نے بھی اس کی تصریح کی ہے)(۵) نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علیعليه‌السلام کے درمیان مواخات والی حدیث کے مقابلہ میں گھڑی گئی ہے _

سلمان کی دوستی ، کس کے ساتھ؟

پھر وہ کہتے ہیں کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے جناب سلمان اور ابو دردا کے درمیان اخوت قائم کی(۶)

ایک اور روایت میں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب سلمان او رحذیفہ کے درمیان مواخات برقرار فرمائی(۷) جبکہ ایک اور روایت میں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے اور مقداد کے درمیان رشتہ اخوت برقرار کیا(۸)

حدیث مواخات کاانکار اور اس کا جواب :

لیکن ابن سعد کہتاہے کہ ہمیں محمد بن عمر نے خبر دی ہے کہ مجھے موسی بن محمد بن ابراہیم بن حارث نے اپنے باپ سے ایک قول نقل کرکے بتایا ہے نیز مجھے محمد بن عمر نے کہا ہے کہ محمد بن عبداللہ نے مجھے زہری سے

____________________

۱) ارشاد الساری ج/۶ ص ۸۳ ،۸۴، کنزالعمال ج/۶ ص ۱۳۸ ، اور ص ۱۴۰ ، الریاض النضرة ج/۱ ص ۸۳_نیز الغدیر مذکورہ کتب سے_

۲)الغدیر ج/۹ ص ۳۴۷ ، از کنزالعمال ج/۶ ص۸۳،منتخب کنزالعمال (مسند کے حاشیہ پر ) ج/۵ ص ۲۳۱_ (۳)تاریخ بغداد خطیب ج۶ ص ۳۲۱ و الغدیر ج۹ ص ۳۴۶ و ۳۴۷_ (۴)ملاحظہ ہو: الغدیر ج ۹ ص ۷۴۳_ (۵)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۱ ص ۴۹_ (۶) الاصابہ ج۲ ص ۶۲ ، اس کے حاشیہ میں الاستیعاب ج۲ ص ۶۰ و ج۴ ص ۵۹ ، الغدیر ج۱۰ ص ۱۰۳ تا ۱۰۴ و ج۳ ص ۱۷۴ اس میں اس روایت پر مناقشہ کیا گیا ہے ، السیرة النبویہ ابن ہشام ج۲ ص ۱۵۲ ، اسد الغابہ ج۲ ص ۳۳۰ _۳۳۱ ، طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج۴ حصہ اول ص ۶۰ تہذیب تاریخ دمشق ج۶ ص ۲۰۳ ، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج۱۸ ص ۳۷ ، تہذیب الاسماء ج۱ ص ۲۲۷، قاموس الرجال ج۷ ص ۲۵۶ ، نفس الرحمان ص ۹۱ و ۸۵ از ابن عمرو المناقب خوارزمی فصل ۱۴ نیز تہذیب التہذیب ج۴ ص ۱۳۸_ (۷)طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج۴ حصہ اول ص ۶۰_ (۸)نفس الرحمان ص ۸۵ از حسین بن حمدان_

۱۰۳

ایک روایت بیان کی ہے_ یہ دونوں (حارث کا باپ اور زہری) واقعہ بدر کے بعد ہر قسم کی مواخات کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ بدر نے (بھائی چارے کی بنیاد پر) میراث کا معاملہ ہی ختم کردیا تھا جبکہ سلمان اس وقت غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے اور وہ اس کے بعد آزاد ہوئے تھے اور انہوں نے سب سے پہلے پانچویں ہجری میں واقع ہونے والی جنگ خندق میں شرکت کی تھی(۱) _

اس لئے بلاذری نے یہ کہا ہے کہ '' اور ایک گروہ کا کہناہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابودر داء اور سلمان کے درمیان مواخات برقرار فرمائی _ حالانکہ سلمان واقعہ احد اور خندق کے درمیانی عرصہ میں مسلمان ہوئے _ اور واقدی کہتاہے کہ علمائ، بدر کے بعد کسی بھی قسم کی مواخات کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ بدر نے ہر قسم کی (مؤاخاتی) وراثت کو منقطع کردیا ہے''(۲) _

'' اور ابن ابی الحدید کا کہناہے کہ ابوعمر کے بقول رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تو سلمان کو بھی ابودرداء کا بھائی بنایا تھا_ لیکن مخفی نہ رہے کہ یہ قول ضعیف اور عجیب و غریب ہے''(۳) جبکہ ہمیں مذکورہ بیانات پر کئی اعتراضات ہیں جنہیں ہم مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں بطور خلاصہ بیان کرتے ہیں :

۱ _ ان کا یہ کہنا کہ جنگ بدر کے بعد مواخات کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا_ گذشتہ باتوں کی رو سے صحیح نہیں ہے _ پس ان لوگوں کے اس بات کو عجیب و غریب سمجھ کر انکا ر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے_

۲ _ ان کا یہ کہنا بھی کہ '' بدر کے بعد مواخات کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے سلمان کا کسی بھی آدمی کے ساتھ اخوت کا مسئلہ صحیح نہیں ہوسکتا'' درست نہیں کیونکہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بدر سے پہلے سلمان کی ( چاہے وہ غلام ہی ہو) کسی اور آزاد آدمی سے مواخات کیوں نہیں کی ؟ اس پرمزید یہ کہ عنقریب ہم بیان کریں گے کہ جناب سلمان ہجرت کے پہلے برس میں ہی مسلمان اور آزاد ہوگئے تھے_

____________________

۱) طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج۴ حصہ اول ص ۶۰_

۲)انساب الاشراف ( حصہ حیات طیبہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم ) ج۱ ص ۲۷۱_

۳) نفس الرحمان ص ۸۵ از انساب الاشراف_

۱۰۴

۳_ پس بلاذری کا یہ دعوی کہ'' سلمان ، احد اورخندق کے درمیانی عرصے میں مسلمان ہوئے تھے'' صحیح نہیں ہے کیونکہ جس طرح ہم نے کہا ہے وہ ہجرت کے پہلے سال ہی مسلمان ہوگئے تھے_ ہاں البتہ مورخین یہ کہتے ہیں کہ وہ جنگ خندق سے کچھ عرصہ قبل آزاد ہوئے تھے_

پس جب وہ مواخات کے عمل کے موقعہ پر مسلمان تھے تو کسی بھی مسلمان کے ساتھ ان کی مؤاخات ہوسکتی تھی، چاہے وہ دوسرا آدمی آزاد ہو، کیونکہ اسلام کی نگاہ میں ایمان اور انسانیت و غیرہ کے لحاظ سے آزاد اور غلام میں کوئی فرق نہیں ہے _

یہ تو اس صورت میں ہے جب انہیں اس وقت تک غلام مان لیا جائے_

۴_بدر کے بعد جس چیز کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا وہ ایسے مؤاخاتی بھائیوں کے درمیان توارث کا حکم ہے، خود مؤاخات نہیں _ یہ بھی ان لوگوں کے بقول ہے وگرنہ ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ توارث کا مسئلہ تو اس سے پہلے بھی نہیں تھاشاید بعض مسلمانوں نے یہ گمان کرلیا تھا کہ بھائی بننے والوں کے درمیان توارث کا سلسلہ بھی موجود ہے تو آیت اس گمان کی نفی اور اس شک کے ازالہ کے لئے ناز ل ہوئی _ اس آیت کے نزول کازمانہ اور جنگ بدر کازمانہ ایک ساتھ ہوگئے جس سے دو اور غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور وہ یہ کہ :

الف: توارث کا سلسلہ پہلے یقینی تھا_

ب: توارث کا سلسلہ منقطع ہوتے ہی اخوت کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیاہے_

جبکہ یہ دونوں گمان ، باطل اور نادرست ہیں_

۵_ان کے اس قول '' سلمان اور ابودردا کے درمیان بھائی چارہ ہوا تھا '' کے مقابلے میں مندرجہ ذیل اقوال ہیں:

الف: ہمارے امام زین العابدین علیہ السلام کا فرمان ہے: '' اگر ابوذر کو معلوم ہوجاتا کہ سلمان کے دل میں کیا ہے تو وہ اسے قتل کرڈالتا، حالانکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا _ تو پھر

۱۰۵

دوسرے لوگوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟''(۱) _

ب: حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام کا فرمان ہے : '' نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے سلمان اور ابوذر کے درمیان مواخات برقرار کیا تھا اور ابوذر پر یہ شرط عائد کردی تھی کہ وہ سلمان (کاہر کہنا مانے گا اور اس ) کی نافرمانی نہیں کرےگا(۲) _

ج: ہمارا بھی یہی نظریہ ہے کہ سلمان کی مؤاخات ، ابوذر کے ساتھ ہی صحیح اور مؤرخین و محدثین کے اس بات کے زیادہ موافق ہے کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے ہر شخص کو اسی کی طرح کے فرد کا بھائی بنایا _ اور ابودردا کی نسبت ابوذر ہی گفتار و کردار کے لحاظ سے سلمان سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے کیونکہ قرآن اور حکومت کے ٹکراؤ کی صورت میں جناب سلمان قرآن مجید کا دامن تھامنے اور اس کا ساتھ دیتے ہوئے اس پر ڈٹ جانے کی تاکید کیا کرتے تھے_ اسی طرح جب کوئی حکومت کسی بڑے انحرافی رستے پر چل نکلتی تو جناب ابوذر حکومت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرتے تھے _ پس وہ حق کی طرفداری کرتے تھے اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے کا پر زور اعلان کرتے تھے_ اسی طرح جناب ابوذر اور جناب سلمان کا واقعہ سقیفہ اور اس کے نتائج پر ایک ہی موقف تھا(۳) _

لیکن ابودردا ئ وہ حکومت کا ترجمان اور جابر حکمرانوں کا مددگار بن گیا تھا_ یہانتک کہ ہم معاویہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس اچھائی کے بدلے میں اس کی تعریف توصیف اور تمجید میں رطب اللسان رہتا تھا(۴)

اسی ابودرداء نے ( جیسا کہ بیان ہوچکا ہے ) سلمان کو ایک خط میں مقدس سرزمین کی طرف دعوت دی تھی_ اور اس کے گمان میں سرزمین مقدس، شام ہے مکہ اور مدینہ نہیں پس پڑھتے جائیں اور تعجب کرتے جائیں کیونکہ زمانے کا دستور نرالا ہوتاہے_

____________________

۱) بصائر الدرجات ص ۲۵ ، الکافی ج۱ ص ۳۳۱ الغدیر ج۷ ص ۳۵ از مذکورہ دونوں، اختیار معرفة الرجال ص ۱۷ ، بحار الانوار ج۲۲ ص ۳۴۳ ، مصابیح الانوار ج۱ ص ۳۴۸ ، قاموس الرجال ج۴ ص ۴۱۸ ،۴۱۹ بظاہر یہ روایت معتبر بھیہے _

۲) الکافی ج۸ ص ۱۶۲ ، بحارالانوار ج۲۲ ص ۳۴۵ از کافی نیز نفس الرحمان ص ۹۱_

۳)ملاحظہ ہو مؤلف کی کتاب '' سلمان الفارسی فی مواجہة التحدی''_

۴)طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج۲ حصہ ۲ ص ۱۱۵

۱۰۶

اس کے متعلق یہ تذکرہ ہی کافی ہوگا کہ یزید بن معاویہ نے بھی ابودرداء کی مدح اور تعریف کی(۱) جبکہ معاویہ نے اسے دمشق کا گورنر بنایا تھا(۲) اس پرمزید یہ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ابودردا کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تمہارے اندر جاہلیت پائی جاتی ہے _ اس نے پوچھا کہ کفر والی جاہلیت یا اسلام والی؟ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ کفر والی جاہلیت(۳) _

د: جب جناب سلمان ہجرت کے پہلے سال مسلمان ہوئے تھے (جیسا کہ ایک علیحدہ فصل میں اس کے متعلق گفتگو ہوگی) اور ابودرداء جنگ احد کے بعد بہت دیر سے مسلمان ہوا تھا(۴) تو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے سلمان کو کسی کا بھائی بنائے بغیر اتنا لمبا عرصہ کیوں چھوڑے رکھا ؟

ھ : اگر ہم واقدی کے اس قول کو مان لیں کہ '' علماء ، بدر کے بعد کسی بھی قسم کی مواخات کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ واقعہ بدر نے (اخوت کی بنیاد پر ) ہر قسم کی میراث کو منقطع کردیا ہے ''(۵) تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ علماء ، سلمان اور ابودرداء کے درمیان مؤاخات کے منکر ہیں _ کیونکہ ابودرداء جنگ بدر کے بہت عرصہ بعد مسلمان ہوا تھا_

و: اور آخر کار بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابودردا اور عوف بن مالک اشجعی کے درمیان رشتہ اخوت برقرار فرمایا تھا(۶) اور شاید یہ روایت ہی زیادہ صحیح اور قبول کرنے کے زیادہ قابل ہو

ابوذر ،سلمان کی مخالفت نہ کرے

کلینی نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان اور ابوذرکے درمیان

____________________

۱) تذکرة الحفاظ ج۱ ص ۲۵ (۲) الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج۳ ص ۱۷ و ج۴ ص ۶۰ ، الاصابہ ج۳ ص ۴۶ نیز التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۴۲۶، ۴۲۷

۳) الکشاف ج۳ ص ۵۳۷ ، قاموس الرجال ج ۱۰ ص ۶۹_ (۴)الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج۳ ص ۱۶، نیز ملاحظہ ہو ج۴ ص۶۰_

۵)قاموس الرجال ج۷ ص ۲۵۶ و ج۱۰ ص ۶۹ ، انساب الاشراف ( حصہ حیات طیبہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم) ج۱ ص ۲۷۱ نیز ملاحظہ ہو: طبقات ابن سعد ج۴ حصہ اول ص ۶۰_

۶)طبقات ابن سعد ج۴ حصہ اول ص ۲۲_

۱۰۷

مؤاخات برقرار فرمائی اور ابوذر پر یہ شرط عائد کی کہ وہ سلمان کی نافرمانی نہ کرے(۱) اور واضح سی بات ہے کہ ابوذر کے سلمان کی اطاعت کرنے کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ یہ اطاعت حق تک پہنچانے والی اور اخوت اور حق کے دوام اور ان سے وابستگی اور اس سے دفاع تک لے جانے والی تھی اور اس کی ایک اوروجہ یہ بھی ہے کہ سلمان خدائے بزرگ و برتر تک رسائی اور اعلی مقاصد تک پہنچنے کے لئے ذہنی ، نظریاتی اور علمی بلکہ ہر قسم کی حرکات و سکنات کے لحاظ سے اعلی سطح پراس عظیم دینی شعور اور اعلی ظرفی کا عملی نمونہ تھے جو ثمر بخش پختہ ایمان اور راسخ عقیدہ کا، حمایت یافتہ تھا،تا کہ زندگی اس ایمان کے سائے میں بسر کریں _ بہر حال جناب سلمان میں صحیح معنوں میں تمام کمالات بدرجہ اتم موجود تھے_ کیونکہ ایمان کے کل دس درجے ہیں اور سلمان دسویں درجے پر فائز تھے ، ابوذر نویں درجے پر اور مقداد آٹھویں درجے پر تھے(۲) _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابوذر کو سلمان کی اطاعت کرنے کے حکم سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ : اطاعت کا معیار اور میزان صرف یہی مذکورہ چیز ہے _ قرآن کریم نے بھی اسی چیز کو یقین اور تقوی تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیاہے_ فرمان الہی ہے:(ہل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون)(۳) اور (انمایخشی اللہ من عبادہ العلمائ)(۴) اور(ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم)(۵) پس اس صورت میں ایک دوسرے پر فضیلت حاصل کرنے اور امتیازی حیثیت پیدا کرنے میں رنگ و خون اور جاہ و مال و غیرہ کا کسی قسم کا اور کسی بھی شخص کے حق میں کوئی کردار نہیں ہے_ بلکہ ان تمام امور میں معیار اور میزان صرف اورصرف وہ تقوی ہے جو پختہ ایمان، روشن فکر اور عظیم دینی شعور کے زیر سایہ ہوتی ہے_ اسی وجہ سے ابوذر پر ضروری تھا کہ وہ سلمان کی نافرمانی نہ کرے_ وہ سلمان جو علم و معرفت کے ا س درجہ پر فائز تھے کہ اگر ابوذر کو معلوم ہوجاتا کہ سلمان کے دل میں کیا ہے اسے قتل کردیتا(۶) _ فضل سے منقول ہے کہ اسلام کے

____________________

۱) روضة الکافی ص ۱۶۲_ (۲) قاموس الرجال ج/۴ ص ۴۲۳ ازخصال للصدوق _

۳) الزمر ۹_ (۴) فاطر ۲۸_

۵) الحجرات ۱۳_

۶) قاموس الرجال ج/۴ ص ۴۱۸_

۱۰۸

زیر سایہ پرورش پانے والے تمام لوگوں میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو سلمان فارسی سے زیادہ فقیہ ہو(۱) _

اور بالکل اسی طرح سے دوسرے زبر دستی حاکم بننے والے جاہلوں ، طاغوتوں اور جابر لوگوں کی اطاعت کی بجائے ائمہ ھدیعليه‌السلام کی اطاعت ضروری ہے جو علم و معرفت اور در نتیجہ تقوی کی انتہائی بلندترین چوٹی پر فائز ہیں اور زمین پر خلافت الہی کا حقیقی نمونہ ہیں _

۴_ جدید معاشرے میں تعلقات کی بنیاد:

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے کچھ عرصہ بعد اور بعض کے بقول پانچ مہینوں(۲) کے بعد اپنے اور یہودیوں کے درمیان ایک تحریر یا سند لکھی جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اپنے دین اور اموال کا مالک رہنے دیا لیکن ان پر یہ شرط عائد کی کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف کسی کی مدد نہیں کریں گے اور جنگ اور اضطراری صورت حال میں ان پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنا ضروری ہوگا جیسا کہ اس کے بدلہ میں مسلمانوں پر بھی یہ چیز لازم ہے لیکن یہود یوں نے بہت جلدی اس عہد و پیمان کو توڑدیا اور مکر وفریب سے کام لینے لگے _ لیکن جو دوسروں کے لئے کنواں کھودتا ہے ، اسی کے لئے کھائی تیار ملتی ہے _

قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ اس سند میںصرف اغیار کے ساتھ مسلمانوں کے روابط کی نوعیت و کیفیت کے بیان پر ہی اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ اس کا اکثرو بیشتر حصہ خود مسلمانوں کے درمیان روابط کے ایسے ضروری اصولوں اور قواعد پر مشتمل ہے جو احتمالی غلطیوں کے واقع ہونے سے پہلے ہی ان کی روک تھام کرسکے اور یہ سند ایک ایسے دستور العمل کی مانند ہے کہ جس میںنئی حکومت کے داخلی و خارجی روابط کا بنیادی ڈھانچہ پیش کیا گیا ہو _حق بات تو یہ ہے کہ یہ سند ان اہم ترین قانونی اسناد میں سے ایک ایسی سند ہے جس کا مطالعہ ماہرین قانون اور قانون گذاروں کو پوری دقت اور توجہ کے ساتھ کرنا چاہیے تا کہ اس سے دلائل او ر احکام استخراج کرسکیں اور اسلام کے اعلی مقاصد اور قوانین کی عظمت و بلندی کو درک کرسکیں _ نیزاس سند کا دیگر

____________________

۱)قاموس الرجال ج ۴ ص ۴۱۸ و غیرہ _

۲) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۳_

۱۰۹

انسانوں کے بنائے ہوئے ان قوانین کے ساتھ موازنہ کرنا چاہئے جن پر اس امت کے فکری طورپر مستضعف افرادبھی مرے جا رہے ہیں حالانکہ یہ قوانین انسان کی فطری و غیر فطری ضروریات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں_یہاں پر ہم سند کے متن کو درج کرتے ہیں_

سند کا متن

ابن اسحاق کے بقول :

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے مہاجرین اور انصار کے لیے ایک قرار داد تحریر فرمائی جس میں یہود یوں کے ساتھ بھی عہد و پیمان کیا اور انہیں اپنے دین اور مال کا مالک رہنے دیا اور طرفین کے لئے کچھ شرائط بھی طے پائیں_

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ کے رسول محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے یہ معاہدہ یثرب اور قریش کے مسلمانوں ، مومنوں، ان کے پیروکاروں ، ان سے ملحق ہونے والوں اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنے والوںکے درمیان ہے_ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں یہ سب کے سب ایک امت ہیں _ قریشی مہاجرین اپنے رسوم و رواج کے مطابق آپس میں خون بہا کے معاملات طے کریں گے جبکہ اپنے قیدیوں کا فدیہ بہتر طریقے سے اور برابر برابر مسلمانوں سے لے کرادا کریں گے_ (البتہ یہ شقیں ذو معنی الفاظ رکھتی ہیں لیکن ان کا یہی معنی مناسب لگتاہے_مترجم)

بنی عوف بھی اپنے رسوم و رواج کے مطابق خون بہا کے گذشتہ معاملات طے کریں گے جبکہ ہر قبیلہ اپنے قیدیوں کا فدیہ بہتر طریقے سے اور برابر برابر مؤمنین سے لے کرادا کرے گا _

اسی طرح بنی ساعدہ ، بنی الحارث ، بنی جشم، بنی نجار، بنی عمرو بن عوف ، بنی النبیت اور بنی اوس بھی اپنے رسوم و رواج کے مطابق خون بہا کے گذشتہ معاملات طے کرلیں گے جبکہ اپنے قیدیوں کا فدیہ بہتر طریقے سے اور برابر برابر مؤمنین سے لے کراداکریں گے _

۱۱۰

اور مومنین اپنے درمیان کسی کثیر العیال مقروض کو اپنے حال پر نہیں چھوڑیں گے اور مناسب طریقے سے اسے فدیہ اور خون بہا کا حصہ عطا ء کریں گے _

اور پرہیزگار مؤمنین سب مل کربا ہمی طور پر بغاوت کرنے والے یا ظلم ، گناہ، دشمنی یا مومنین کے درمیان فساد پھیلانے جیسے کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف اقدام کریں گے چا ہے وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو_

اور کسی مومن کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے مومن کو کسی کافر کی خاطر قتل کرے اور مومن کے خلاف کافر کی مدد کرے_

اور خدا کا ذمہ ایک ہی ہے اسی لئے مسلمانوں میں سے ادنی ترین شخص بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے_

اور دوسرے لوگوں کے مقابلے میں تمام مؤمنین ایک دوسرے کے دوست اور ساتھی ہیں_

اورجو یہودی بھی ہماری پیروی کرے گا تو اس کی مدد اور برابری کے حقوق ضروری ہیں_اور اس پر ظلم نہیں کیا جائے گا اور اس کے خلاف کسی کی مدد نہیں کی جائے گی _

اورتمام مومنین کی صلح و سلامتی ایک ہے اور کوئی مومن بھی دوسرے مومن کی موافقت کے بغیر جہاد فی سبیل اللہ میں کسی سے صلح نہیں کرسکتا مگر سب اکٹھے ہوں اور عدالت کی رعایت کی جائے _

اور جو قبیلہ بھی ہمارے ساتھ مل کر جنگ کرے گا اس کے سب افراد ایک دوسرے کی مدد کریںگے _

اور مومنین کا جو خون راہ خدا میں بہے گا وہ اس میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور(راضی بہ رضا رہنے والے) متقی مومنین بہترین اور محکم ترین ہدایت پر ہیں _

کسی مشرک شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قریش کے کسی شخص یا اس کے مال کو پناہ دے اور مومن کے اس پر مسلط ہونے سے مانع ہو_

اور جو شخص بھی ناحق کسی مومن کو قتل کرے گا اور قتل ثابت ہوجائے تواسے اس کے بدلے قتل کیا جائے گا مگر یہ کہ مقتول کے وارثین ( دیت لینے پر) راضی ہوجائیں اور تمام مؤمنین کواس قاتل کے خلاف قیام کرنا

۱۱۱

پڑے گا اوران پر قاتل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ضروری اور واجب ہوگا_

اور جو مومن اس معاہدے میں درج امور کا اقرار کرتا ہے اور خدا اور قیامت پر ایمان رکھتاہے اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی بدعت گزار کی مدد کرے یا اس کو پناہ دے اورجو شخص بھی اس کو پناہ دے گا یا اس کی مدد کرے گا تو قیامت کے دن خدا کی لعنت اور غضب کا مستوجب قرار پائے گا اور اس سے اس چیز کا معاوضہ یا بدلہ قبول نہیں کیا جائے گا_

اور جب بھی کسی چیز کے متعلق تمہارے درمیان اختلاف واقع ہو تو ( اس اختلاف کو حل کرنے کا ) مرجع و مرکز خدا اور ( اس کے رسول ) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں_

اور جنگ کے دوران یہود ی بھی مومنین کے ساتھ ساتھ جنگ کے اخراجات برداشت کریں گے اور بنی عوف کے یہودیوں کا شمار بھی مومنین کے ساتھ ایک گروہ میں ہوگا( اس فرق کے ساتھ کہ ) یہود یوں اور مسلمانوں کا اپنا اپنا دین ، دوستیاں اور ذاتیات ہوں گے مگر جو شخص ظلم یا گناہ کا ارتکاب کرے گا تو ( اس صورت میں) وہ صرف اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو ہی ہلاکت میں ڈال دے گا _ بنی نجار کے یہودیوں کا معاملہ بھی بنی عوف کے یہودیوں کی طرح ہے_ اسی طرح بنی حارث ، بنی ساعدہ ، بنی اوس اور بنی ثعلبہ کے یہودیوں کا معاملہ بھی بنی عوف کے یہودیوں کی طرح ہے مگر جو شخص ظلم یا گناہ کاارتکاب کرے گا تو ( اس صورت میں ) وہ صرف اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو ہی ہلاکت میں ڈالے گا_ ثعلبہ کے خاندان ، جفنہ کا معاملہ بھی ثعلبہ کی طرح ہے_ اسی طرح بنی شطیبہ کا معاملہ بھی بنی عوف کے یہودیوں کی طرف ہے_ اور نیکی اور برائی کا علیحدہ علیحدہ حساب کتاب ہے_ ثعلبہ کے ساتھیوں کا معاملہ بھی انہی کی طرح ہے_ نیز یہودیوں کے قریبی افراد کا معاملہ بھی انہی کی طرح ہے_

اور(حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی بھی یہودی مدینہ شہر سے خارج نہیں ہوگا نیز کسی بھی قبیلہ کو اس معاہدے سے خارج نہیں کیا جائے گا_ اور زخمیوںکا بدلہ لینے میں بھی کوئی زیادہ روی نہیں کی جائے گی اور جو ناحق خونریزی کرے گا اس کا اور اس کا گھر والوں کا خون بہایا جائے گا_ لیکن مظلوم ہونے کی

۱۱۲

صورت میں اسے اس بات کی اجازت ہے اور خدا بھی اسی بات پر راضی ہے_

یہودی اور مسلمان ہر ایک اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے اور اس معاہدے کو قبول کرنے والوں میں سے کسی فریق کے خلاف جنگ کی گئی تو یہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے_

اوریہ لوگ پند و نصیحت اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے ، گناہ کے کاموں میں نہیں _ کوئی شخص بھی اپنے حلیف سے بدی نہیں کرے گا اور (اس صورت میں)مظلوم کی مدد کی جائے گی _

اور یہود ی مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگی اخراجات برداشت کریں گے جب تک وہ جنگ میں مصروف ہیں _اس معاہدے کو قبول کرنے والوں کے لئے یثرب (مدینہ) شہر جائے امن وا حترام ہے_

اور ( ہر شخص کا)ہمسایہ اور پناہ گیر خود اسی کی طرح ہے اور اسے ضر ر اور تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے _ کسی شخص کو نا حق پناہ نہیں دی جائے گی مگر اس کے خاندان کی اجازت سے_

اور اگر اس معاہدے کو قبول کرنے والے اشخاص کے درمیان ایسا جھگڑا اور نزاع واقع ہو جس سے فساد کا خوف ہو تو اسے حل کرنے کا مرجع و مرکز خدا اور ( اس کا رسول ) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے اور خداوند متعال یقیناً اس عہد و پیمان کے مندرجات پر ر اضی خوشنود ہے_ مشرکین قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی یثرب پر حملہ کرنے والوں کے خلاف سب ایک دوسرے کی مدد کریںگے_ اگر (مؤمنین ) انہیں صلح کی دعوت دیں(۱) اور وہ قبول کرلیں تو تمام مؤمنین بھی اس کے مطابق عمل کریں گے اور اگر وہ مومنین کو صلح کی دعوت دیں گرچہ ان کامؤمنین کی طرح یہ حق ہے مگر جو شخص دین کے بارے میں جنگ کرے تو اس کی پیشکش کو قبول نہیں کیا جائے گا_ اور ہر شخص کو اپنے ذمہ لئے جانے والا حصہ(۲) ادا کرنا چاہئے_اوس کے یہود ی خود اور ان کے ساتھیوںکے بھی وہی حقوق ہیں جو اس معاہدے کو قبول کرنے والوں کے لئے ثابت ہیں_ ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے_ اچھائی اور

____________________

۱) کتاب الاموال ابوعبید کی روایت ہے کہ اگر ( مومنوں میں سے) یہودیوں کا کوئی حلیف انہیں صلح کی دعوت دے گا تو سب کو ان کے ساتھ صلح کرنی پڑے گی اور اگر وہ یہ کام کریں تو مومنوں کی طرح ان کابھی یہ حق بنتا ہے مگر جو دین کے خلاف جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں_

۲)الاموال کے مطابق ، ہر کسی کو اپنے ذمہ لئے جانے والے خرچہ کا حصہ ادا کرنا چاہئے_

۱۱۳

برائی کا علیحدہ حساب کتاب ہے اور جو بوئے گا وہی کاٹے گا_ خداوند اس معاہدے کے مندرجات پر خوشنود وراضی ہے اوراس قرار داد کی خلاف ورزی صرف ظالم اور گناہگار افراد ہی کریں گے_ ( اور اس قرارداد کو قبول کرنے والے اشخاص میں سے ) جو شخص بھی مدینہ سے خارج ہو یا مدینہ میں رہے امان میں ہے مگر یہ کہ ظلم کرے اور گناہ کا مرتکب ہو _یقینا خدا اور اس کا رسول محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیک اور پرہیزگار لوگوں کی پناہ گاہ ہیں(۱) _

یہ ایک اہم اور بلند پایہ سند ہے لیکن مؤرخین نے(۱) اسے زیادہ اہمیت نہیں دی اور محققین و مؤلفین نے اس میں تحقیق کرنے میں کوتاہی کی ہے ، ہم روشن فکر اشخاص کو اس سند میں غور و خوض اور گہرے سوچ بچار کی دعوت دیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اس کی عظمت کے مطابق اسے اہمیت دی جائے گی واللہ ھو الموفق والمسدد_البتہ ہم بھی اپنی حیثیت کے مطابق اس کے متعلق چند نکات بیان کریں گے_

معاہدہ یا معاہدے؟

مؤرخین ، اس معاہدے کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ایسا دستور العمل ہے جو ایک طرف سے تو مہاجرین اور انصار کے درمیان اور دوسری طرف سے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت معین کرتاہے بعض مؤرخین کا دعوی ہے کہ یہ ایک معاہدہ نہیں ہے بلکہ یہ کئی علیحدہ علیحدہ سلسلہ وار معاہدوں کا مجموعہ ہے جنہیں مندرجہ ذیل دو مرحلوں میں آپس میں ترکیب کیا گیا ہے :

پہلا مرحلہ : اس مرحلہ میں مختلف عرب قبائل کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی قیادت میں مدینہ میں یکجا کیا گیا _

دوسرا مرحلہ : اس مرحلہ میں کسی بھی بیرونی دباؤ کے مقابلے کی خاطر مدینہ کے یہودیوں کے تعاون کے حصول کے لئے مذکورہ قبائل کے اجتماع اور تعاون کی قوت سے مدد لی گئی_

____________________

۱) سیرة ابن ھشام ج/۲ ص ۱۴۷ تا ۱۵۰ ، البدایة والنھایة ج/۳ ص ۲۲۴ تا ۲۲۶، الاموال ص ۲۰۲ تا ص ۲۰۷،مجموعة الوثائق السیاسیہ نیز مسند احمد ج ۱ ص ۲۷۱ و مسند ابویعلی ج ۴ ص ۳۶۶_۳۶۷ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_

۱۱۴

اور یہ بھی لازمی نہیں ہے کہ یہ معاہدے ایک ہی وقت میں طے پائے ہوں _ بلکہ ان دومرحلوں میں بھی کئی ایسے چھوٹے چھوٹے مراحل ہیں جو (اس معاہدے کی شقوں پر نظر ثانی کا باعث بننے والے) ہر نئے پیش آنے والے حالات و واقعات کے مطابق دقتاً فوقتاً مذکورہ معاہدے کی شقوں اور جملوں میں اضافہ کا باعث بنے _ جن کی رو سے مدنی معاشرے کے مختلف ارکان کے درمیان مذکورہ تبدیلی کے اثرات کی حامل شقوں اور جملوں کا اضافہ ہوا _ لیکن مذکورہ بیانات پر ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ اس معاہدے میں بعض جملوں کا تکرار ہوا ہے _ خاص کر جب یہ ملاحظہ کیا جائے کہ یہ جملے ایک ہی شق اور شرط کو بیان کررہے ہیں بطور مثال مندرجہ ذیل عبارتیں ہیں جو یہ بیان کررہی ہیں کہ '' جنگ کے دوران یہودی بھی مومنوں کے ساتھ ساتھ جنگ کے اخراجات برداشت کریں گے'' اور '' اس معاہدے کے حلیفوں کے درمیان جب بھی کسی چیز کے متعلق اختلاف واقع ہو تو اسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حضور پیش کریں '' اسی طرح '' اچھائی اور برائی کا حساب جدا جدا ہے'' اور '' ہر قبیلہ اپنے قیدیوں کا فدیہ بہتر طریقے سے اور برابر برابر تمام مومنین کے درمیان تقسیم کریں گے'' جبکہ یہ جملے اوس اور خزرج کے مختلف قبیلوں کی بہ نسبت کئی بار تکرار ہوئے ہیں(۱) _

جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ واضح سی بات ہے کہ یہ دلیل ان کے اس گمان کے اثبات کے لئے ناکافی ہے _ کیونکہ یہ تکرار یقینا ہر قبیلے کی بہ نسبت اس معاہدے کی جداگانہ تاکید کے لئے آیا ہے جو تحریری معاہدوں میں دقت اور صراحت کے حصول کے لئے ایک پسندیدہ امر ہے تا کہ کسی بہانہ جو اور حیلہ گر کے لئے عذر اور بہانہ کا کوئی بھی موقع نہ رہے_ اور یہ وضاحت اور تصریح ہر گروہ ، خاندان اور قبیلہ کے لئے بیان ہوئی ہے کیونکہ مقصود یہ تھا کہ اس گروہ یا قبیلہ کو وضاحت سے ہر وہ بات معلوم ہوجائے جو اس کے لئے اور اس سے مطلوب ہے پس یہ معاہدہ ان تمام قرار دادوں کا مجموعہ ہے جسے ہر قبیلہ نے دوسرے قبیلوں ،گروہوں یا خود قبیلہ کے افراد کے ساتھ طے کئے تھے_ پس ان تمام قراردادوں کا بیان ضروری تھا_ اسی بناپر اس ایک معاہدے میں کئی مختلف معاہدوں کی خصوصیات پیدا ہوگئیں_البتہ اس معاہدے میں مذکور یہودیوں سے مراد بنی اسرائیل

____________________

۱) مذکورہ بیانات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب '' نشا الدولة الاسلامیہ ص ۲۵ ، ۲۷''

۱۱۵

کے یہودی نہیں ہیں اور ان کے قبیلے قینقاع، نضیر اور قریظہ ہیں _ بلکہ یہاں پر یہودیوں سے مراد قبائل انصار کے یہودی ہیں_کیونکہ انصار کے قبیلوں کے چند گروہ یہودیت اختیا ر کرچکے تھے اور معاہدے میں بھی ان کا ذکر ان کے قبیلہ کے ذکر کے ساتھ ہوا ہے _ ابن واضح کا کہنا ہے : '' اوس اور خزرج کا ایک گروہ یمن سے خارج ہونے کے بعد خیبر ، قریظہ اور نضیر کے یہودیوں کے ساتھ ہمسائیگی کی وجہ سے یہودی ہوگیا_ نیز بنی حارث بن کعب، غسان اور جذام کے افراد بھی یہودی ہوگئے ''(۱) _ اسی طرح بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ انصار کی ایک نسل اس سبب سے یہودی ہوگئی تھی کہ جب بھی کسی عورت کا بچہ زندہ نہ بچتا تھا تو وہ اپنے آپ سے یہ عہد کرتی تھی اور یہ نذر مان لیتی تھی کہ اگر اس کا بچہ زندہ بچا تو وہ اسے یہودی بنائے گی _ پھر جب قبیلہ بنی نضیر کو جلا وطن کیا جانے لگا تو انہی کے بزرگوں نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے جس پر خدا نے ( لا اکراہ فی الدین ) ( دین اختیار کرنے پر کوئی جبر نہیں) والی آیت نازل کی _ مورخین و محدثین کہتے ہیں کہ یہ حکم ان مذکور افراد کے لئے خاص ہے جو اسلام کے آنے سے پہلے یہودی ہوگئے تھے(۲) _

معاہدے پر سرسری نگاہ :

بہر حال معاملہ جو بھی ہو _ لیکن یہ معاہدہ یا معاہدے اس نئے معاشرے میں تعلقات استوار کرنے کے سلسلے میں کئی نہایت اہم اور بنیادی نکات کے حامل ہیں اس بات پر بطور مثال ہم مندرجہ ذیل امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ _ اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ تمام تر قبائلی ، نسبتی ، فکری نیز کمی اور کیفی لحاظ سے نظریاتی،معاشی ، معاشرتی اور دیگر اختلافات کے با وجود مسلمان ایک امت اور گروہ ہوں گے_

____________________

۱) تاریخ یعقوبی ج۱ ص ۲۵۷_

۲)ملاحظہ ہو: سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۲۶۷ ، الجامع لاحکام القرآن ج۳ ص ۲۸۰ از ابوداؤد ، لباب التاویل ج۱ ص ۱۸۵ فتح القدیر ج۵ ص ۲۷۵، از ابوداؤد، نسائی ، ابن جریر ، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان ، ابن مردویہ ، بیہقی در سنن و ضیاء در المختارہ ، درمنثور ج۱ ص۳۲۸

۱۱۶

اس عہد کے کئی سیاسی پہلو ہیں _ نیز اس کے حقوقی اور دیگر اثرات بھی ہیں_ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور معاشرتی ڈھانچے اور نجی ، جذباتی ، فکری ، معاشی حتی کہ بنیادی حالات و تعلقات پر بھی اس کے عمومی سطح پر گہرے اثرات اور نتائج مرتب ہوتے ہیں_ لیکن ہم اس کی تفصیل اور جزئیات میں جانے کے درپے نہیں ہیں_

۲_ اس معاہدے میں قریش مہاجرین کو دیت اور خون بہا کے معاملے میں اپنی عادت اور رسم پر باقی رکھنا بھی شامل ہے_ گرچہ مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ شق بعد میں منسوخ ہوگئی تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ شقیں بعد میں بھی برقرار رہیں_ جبکہ یہ ان رسومات میں سے ہے جنہیں جناب عبدالمطلب نے رواج دیا تھا _ یا دین حنیفیت سے ان تک پہنچی تھی _ اس وجہ سے استثنائی طور پر صرف اس رسم کو اسلام میں باقی رکھا گیا اور بطور مثال قریشیوں کی تجارتی یا دوسرے نجی رسومات کو باقی نہیں رکھا گیا_

حتی کہ اگر بعض مقامات پر یہ صورتحال نہ بھی ہو تو عین ممکن ہے کہ شرعی احکام کی تشریع اور انہیںلاگو کرنے کے باب میں اس دور کے معاشی اوراقتصادی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے تدریج کا سہارا لیا گیا ہو_

۳_ مہاجرین اور دوسرے قبائل کا اپنے قیدیوں کا فدیہ عدل و انصاف سے سب قبائل میں تقسیم کرنے کا فریضہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تمام قبائل کو ایک دوسرے کی کفالت اور معاشرتی اور اجتماعی احساس ذمہ داری کی حالت میں گذر بسر کرنا ہوگی _ مزید یہ کہ یہ چیز ان لوگوں کے درمیان ایک قسم کے تعلق ، ایک دوسرے کے دفاع اور خطرے اور مشکلات کے لمحات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی ضامن ہے_ اس کے علاوہ اپنے جنگی حلیف کو یہ احساس دلانا ہے کہ یہاں اس کے خیرخواہ موجود ہیں اور اس کے قیدی ہونے کی صورت میں اسے آزاد کرانے کے لئے اپنا مال خرچ کرنے پر بھی تیار ہیں اور یہ بات اس کی امنگوں ، خود اعتمادی اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے ارادوں میں اضافہ کا باعث بنے گا_ اس پر مزید یہ کہ اگر اقتصادی اور معاشی بوجھ کو بہت سے افراد مل کر برداشت کریں تو وہ بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے_ اور مشکلات سے دوچار (غریب) افراد پر بھی زیادہ بوجھ نہیں پڑتا_

۱۱۷

یہاں پر قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ اس شق میں قسط (عد ل و انصاف) اور معروف (نیکی اور بھلائی) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں _ کیونکہ قسط کا لفظ قبیلہ کے افراد میں حصّہ رسد کی برابر تقسیم میں کسی بھی قسم کی کمی یا بیشی کے انکار اور ممانعت پر دلالت کرتا ہے _ لیکن معروف کا لفظ اس سے بھی وسیع مطلب پر دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ لفظ بتاتا ہے کہ اس شق یا کسی بھی ایسے شرعی حکم کا عملی نفاذ بہتر اور احسن انداز میں ہونا ضروری ہے جس کا تعلق عام لوگوں سے ہوتا ہے اور وہ حکم ان کی مالی یا غیر مالی حالات کی معاونت کے متعلق ہو _ پس صادرہ احکام یا عمومی قانون کے بہانے مذکورہ طریقے اور راستے سے ادھر ادھر ہونا صحیح نہیں ہے_

۴_ اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ اگر کسی مقروض کا کوئی ایسا خاندان نہ ہو جو اس کے قیدی کی رہائی کے بدلے، فدیہ دینے میں اس کی مدد کرسکے تو اس قیدی کی رہائی کے لئے تمام مسلمانوں پر اس کی مدد لازمی ہے_ اور یہ شق ، قبائل پر فدیہ کی ادائیگی ضروری قرار دینے والے مذکورہ حکم سے پیدا ہونے والے شگاف کو پرکرنے کے لئے منظور کی گئی ہے_ اور اس نکتہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ مذکورہ دونوں شقیں اس وقت کی مالی مشکلات کو حل کرنے کے لئے وضع ہوئیں جب مسلمانوں کے پاس ایسا کوئی بیت المال (خزانہ داری )نہیں تھا جو ان مشکل اور کٹھن حالات میں مسلمانوں کی کفایت کرتا _ کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان دوسروں کی ضروریات تو اپنی جگہ ، اپنی ذاتی ضروریات تک پوری کرنے سے قاصر تھے_ اور کوئی ایسا متبادل ذریعہ بھی نہیں تھا جس سے وہ اس بارے میں استفادہ کرتے_

۵_ اس معاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ ظالموں کو دور بھگانے کا فریضہ صرف مظلوموں پر ہی نہیں بلکہ سب پر عائد ہوتا ہے_ شاید یہ اس معاہدے کی اہم ترین شقوں میں سے ایک ہے_ چاہے اس جیسے عہد کو معاشرے کی جڑوں پر اثرات کے لحاظ سے دیکھا جائے، پھر ان اثرات کے تعلق کو معاہدے اور سیاسی موقف ، ظلم کے مسئلہ کے ساتھ حکمرانوں کے برتاؤ کے تناظر میں دیکھا جائے اور پھر اس معاہدے کے مثبت یا منفی رد عمل کے ساتھ دیکھا جائے جو ظلم سے مقابلے کو ایک معاشرتی اور اجتماعی فریضہ قرار دیتا ہے اور اسے صرف حکمران کے ساتھ ہی مخصوص نہیں کرتا، (گرچہ اکثر اوقات اس کے لئے اقتدار اور مقام کی ضرورت

۱۱۸

رہتی ہے)_ یا چاہے عوام اور امت پر روحانی ، نفسیاتی اور دیگر اثرات کے لحاظ سے اس جیسے عہد کو دیکھا جائے تو یہ پہلو بھی نہایت خطیر اور باا ہمیت ہے _ البتہ اس کی تفصیل میں جانے کی گنجائشے نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے اسلامی شریعت کی طبیعت اور فطرت کے گہرے اور دقیق مطالعہ کی ضرورت ہے_

۶_ اس معاہدے میں ایک یہ شق بھی ہے کہ کسی کافر کے بدلے میں کسی مسلمان کا خون نہیں بہا یا جائے گا_ اور اس شق میں یہ تاکید پائی جاتی ہے کہ انسان کی بزرگی اور قدر و قیمت صرف اسلام کے ساتھ ہی بڑھتی ہے_ اور یہ بات اس مقولہ سے ماخوذ ہے کہ کسی فرد یا اجتماع کے افکار و عقائد ہی اس کی قدر و قیمت کا معیار ہیں_ یہی چیزیں ہیں جو اس کی قدر بڑھاتی ہیں یا پھر گھٹاتی ہیں_ پس اسلام ، ایک مسلمان کی روح کو بلندی تک پہنچا نے والے ایسے اقدار کا مجموعہ ہے جن کے ذریعہ وہ مسلمان اپنی ذات میں انسانیت کے بلند و بالا معانی سموئے ہوئے ہو اور پھر ان پر حقیقی اور عملی زندگی میں عمل پیرا بھی ہو_ ان اقدار کے حامل مسلمان سے ایسے افراد کا قیاس ممکن ہی نہیں ہے جو یا تو اپنی انسانیت پر کاربند نہیں رہتے یا بہت قلیل مقدار میں ان اقدار کے حامل ہوتے ہیں یا سرے سے ان کے اندر انسانیت ہی نہیں پائی جاتی_ یہ صورتحال تو اس صورت کے علاوہ ہے جس میں کوئی شخص وقت پڑنے پر انسانیت کے دفاع اور اس کی راہ میں عزیز اور قیمتی چیزوں کی قربانی تو دریغ ، بلکہ وہ تو انسانیت کے لئے کسی وقعت بلکہ خود انسانیت کا بھی قائل نہ ہو اور ہر حال میں اسے اپنا مفاد عزیز ہوتاہے_

۷_ اس معاہدے میں یہ مذکور ہوا ہے کہ مسلمانوں کا کمتر شخص بھی دشمنوں کو امان دے سکتا ہے لیکن کسی مسلمان کے مقابلے میں کسی کافر کو پناہ اور امان نہیں دی جائے گی_ یہ شق بھی گذشتہ نکتہ میں مذکور مطلب پر تاکید کرتی ہے_ کیونکہ اسلام شرف اور بزرگی کو مال ، قبیلہ اور کسی دوسری چیز میں نہیں بلکہ صرف انسانیت میں دیکھتا ہے اور انسانیت ہی ہے جو اس کی قدر بڑھاتی ہے_ یہاں پر ہم یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ اس جیسا پیمان مسلمانوں کے درمیان مساوات کے احساس کو مزید پختہ کرتا ہے_ پس جب تک تمام مسلمانوں میں انسانیت کا یہ اعلی نمونہ موجود ہے تب تک امیر کو غریب پر اور طاقتور کو کمزور پر کوئی برتری نہیں ہے_ اس

۱۱۹

صورتحال میں انہیں صرف ان اعلی اقدار سے احسن انداز میں استفادہ کرنا چاہئے تا کہ ان کی زندگی کے تمام شعبوں میں بہتری ، بھلائی ، علم و فضل او رتقوی غالب ہو_

۸_ اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ مسلمان کسی بھی بدعتی کی حمایت اور مدد نہیں کریں گے بلکہ نہایت صلابت، مضبوطی ، پائیداری اور مستعدی سے اس کا اور اس کی بدعت کا مقابلہ کریں گے_ معاہدے کی اس شق میں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ، ذہنی اور فکری سلامتی کے لئے بہت زیادہ اہمیت کا قائل ہے_ اور ثقافتی ، عقائدی اور فکری میدان میں حفاظت اور صیانت کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے_ پھر اس صیانت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ عوام یا دوسرے لفظوں میں امت کو اصلی کردار فراہم کرتا ہے_ اور اس سے قبل کہ اس بدعت کا طوفان اس امت کو اپنے ساتھ اڑالے جائے اور اس سمندر کی موجزن لہریں انہیں بہالے جائیں، اسلام ان انحرافات سے نمٹنے کے لئے عوام کو گروہی اور انفرادی کردار ادا کرنے کی تاکید کرتا ہے_ کیونکہ یہ بدعت ابتداء میں امت کے افراد کو نشانہ بناتا ہے تا کہ ان کی اجتماعی طاقت کو مذاق بنا کر اسے حقیرو ذلیل کرے اور پھرا نہیں تسخیر کرکے ان کی طاقت کو اپنی بنیادیں مضبوط کرنے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے کام لائے _ جس کے بعد عوام کی یہ طاقت ایک ایسے پنجے اور کدال کی صورت اختیار کرلے گی جو ہر فضیلت پر کاری ضرب لگا کر اسے تباہ کرنے او ر ہر پستی اور برائی کو پھیلانے کے کام آئے گی_

۹_ اس معاہدے میں غلبہ اسلام کی بھی بنیاد رکھ دی گئی ہے کیونکہ اس معاہدے میں اسلام کے سخت ترین دشمنوں یعنی یہودیوں (مراد انصار قبیلوں سے دین یہودیت اختیار کرنے والے افراد) کی طرف سے بھی اسلام کے غلبہ کا تحریری اعتراف بھی موجود ہے_ حالانکہ یہودی صرف اور صرف اپنے آپ کو ہی تمام امتیازات اور خصوصیات کا مالک جانتے تھے اور ضروری تھا کہ ہر فیصلے کا مبداء ، منتہاء اور محور یہی ہوں _ خلاصہ یہ کہ یہ اپنے آپ کو حکمران اور پوری دنیا کو اپنا ایسا غلام اور حلقہ بگوش سمجھتے تھے جو پیدا ہی ان کی غلامی کرنے کے لئے ہوئے ہیں_ بہرحال اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ کوئی بھی یہودی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی اجازت کے بغیر مدینہ سے باہر قدم بھی نہیں رکھے گا_ اور حاکمیت اور فرمانروائی کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460