الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242048 / ڈاؤنلوڈ: 6986
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

دین خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ خاص ہے_

ہوسکتا ہے کہ یہ عہد اور فیصلہ اس لئے بھی کیا گیا ہو کہ داخلی طور پر یہودیوں کو اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برا سو چنے والے بیرونی دشمنوں کے مفاد میں فتنہ انگیزیوں اور جاسوسیوں کا کوئی موقع میسر نہ آسکے_ اور اس لئے بھی یہ عہد لیا گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ اور آس پاس رہنے والے لوگوں کو بھی معلوم ہوجائے کہ یہاں پر بھی ایک ایسی طاقت موجود ہے جسے بہر صورت تسلیم کرنا ہی پڑے گا اور اس کے ساتھ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے برابری اور سچائی کے ساتھ تعلقات قائم کرنے ہوں گے_

۱۰_ اس معاہدے میں (جس میں مذکورہ عہد کی گہری تاکید کی گئی ہے اور جسے یہودیوں نے تسلیم بھی کیا اور تحریری طور پر اس کا ثبوت بھی دیا) یہ بھی بیان ہوا ہے کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے تمام تنازعوں اور مشکلات کے حل کا مرجع اور مرکز صرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی ذات والا صفات ہی ہے_ البتہ ہم یہاں اس شق کے سیاسی مدلول اور یہودیوں نیزمدینہ کے رہائشےی دیگر افراد اسی طرح پورے علاقے کے باسیوں پر ذاتی ، انفرادی اور اجتماعی اثرات پر بحث کرنے کے درپے نہیں_ البتہ یہ ضرور بتاتے چلیں کہ اس شق کی وجہ سے عقائد کی حفاظت کا سامان بھی فراہم کیا گیا اور اگر تھوڑی سی دقت کی جائے تو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس میں فقہی پہلوؤں کی مراعات بھی کی گئی ہے _اس بارے میں کسی اور مقام پر تفصیلی بحث کریں گے_

۱۱_ ان تمام شقوں کے علاوہ اس معاہدے نے فتنہ انگیزی نہ کرنے کی شرط پر انصاری یہودیوں کے '' امن '' اور '' آزادی'' جیسے عمومی حقوق کے تحفظ کی ضمانت بھی دی ہے_ اور یہ دونوں خاص کر آزادی کا حق عطا کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جب تک کوئی چیز حقیقت اور سچائی کی بنیادوں پر برقرار رہتی ہے اور حقیقت کے راستے پر گامزن ہوتی ہے تب تک اسلام کو بھی کسی چیز سے خطرہ محسوس نہیں ہوتا _ اسلام صرف اور صرف فتنہ انگیزی اور فساد سے ڈرتا ہے_ یہ چیز اس بات کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے کہ اسلام علم اور معرفت کے حصول کی تاکید کرتا ہے کیونکہ اسلام ہی ہے جو ( تخریبی رستوں سے ہٹ کر صرف) تعمیری راستوں میں علم اور معرفت سے سب سے زیادہ استفادہ کرسکتاہے_

۱۲۱

۱۲_ پھر اس معاہدے میں منافقوں اور مشرکوں بلکہ یہودیوں کی طرف سے بھی یہ اعتراف پایا جاتا ہے کہ مسلمان ہی سب سے بہتر اور معتدل تر ہدایت پر ہیں_ حالانکہ انہی لوگوں نے پہلے یہ پھیلا رکھا تھا کہ یہ نبی ہمارے اتفاق اور اجتماع میں رخنہ ڈالنے اور ہماری امیدوں اور لائحہ عمل پر پانی پھیرنے آیا ہے اور اسی طرح کے دیگر الزامات بھی تھے جو بطور مثال عمرو بن عاص نے حبشہ ( ایتھوپیا) کے بادشاہ نجاشی سے ذکر کئے تھے_

۱۳_ اس معاہدے میں قبیلہ پرستی کو بھی ناجائز قرار دے دیا گیا کیونکہ قبیلہ پرستی ، افراد قبیلہ کی ہر قسم کی اور ہر صورت میں مدد کا باعث بنتی تھی چاہے وہ دوسروں پر ظلم اور زیادتی کے بھی مرتکب ہوتے_

اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ قاتل جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو تمام مؤمنوں پر اس کا تعاقب اور پیچھا ضروری ہے _ نیز اس شق میں ریاست ، سرداری اور مجرم کے قبیلہ کی قسم جیسے دیگر امتیازی قوانین اور سلوک کو بھی باطل قرار دیا گیا _ جس طرح بنی قریظہ اور بنی نضیر کی حالت تھی _ کیونکہ اس معاملے میں بنی قریظہ پر بنی نضیر کو امتیازی حیثیت حاصل تھی_

۱۴_ پھر اس قرار داد نے مسلمانوں کو ( تمام مشرکوں کو چھوڑکر ) صرف قریشیوں کے اموال ضبط کرنے کا حق بھی دیا_ کیونکہ قریشیوں نے بھی ان سے تمام اموال چھین کر انہیں اپنے گھروں سے نکال باہر کردیا تھا_ اور یہ ضبطی اس ادلے کا بدلہ ہوگا_ حتی کہ مشرکوں نے بھی مسلمانوں کے اس حق کا اعتراف کیا حالانکہ وہ بھی اس معاہدے کے فریق تھے_ اس شق کے متعلق مشرکوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس معاملے میں وہ قریش کی کوئی مدد نہیں کرسکتے اور اس معاملے کو دوسرے رنگ میں ڈھالنا شروع کر دیا تھا _ اسی شق نے انسانی ضمیر میں انسانیت کی قدر بڑھائی اور اسے فعال کردار عطا کیا جسے یا تو وہ لوگ بھلا چکے تھے یا بھلانے لگے تھے_

۱۵_ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس معاہدے میں '' مسلمانوں'' کی بجائے'' مومنوں'' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے_ روابط اور تعلقات کے میدان میں اس لفظ کے بہت اثرات ہیں _ اسی طرح مخلصین کے لئے بھی اس میں اشارے پائے جاتے ہیں تا کہ ان کے خلوص اور اخلاص میں اضافہ ہو نیز ان منافقوں کے لئے بھی

۱۲۲

اشارے پائے جاتے ہیں جو خدا اور مؤمنوں کو دھو کا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ صرف اپنے آپ کو ہی دھوکا دیتے ہیں_ اسی طرح مختلف گروہوں کی شناخت میں اس کے سیاسی اثرات بھی ہیں تا کہ یہ پہچان اور امتیاز مذہبی اور دینی تعصب کی روسے نہ ہو _

۱۶_ اس معاہدے میں ایمان کی عظمت کا اظہار بھی ہے جس کی روسے ترجیحات اور امتیازات عطا ہوتے ہیں_ نیزکفر کو پست ترین رتبہ دیا گیا ہے کیونکہ اس معاہدے میں یہ کہا گیا ہے کہ کافر کے مقابلے میں کوئی بھی مؤمن کسی مؤمن کو قتل نہیں کرے گا اور نہ ہی مؤمن کے خلاف کسی کافر کی مدد اور حمایت کرے گا_

۱۷_ یہ شق کفر اور ایمان کے لشکر کے درمیان امتیازات کی واضح جنگ اور اس حالت جنگ کی بنیاد ڈالنے کی جانب ایک قدم ہے_

۱۸_ ملاحظہ ہو کہ یہ قرار داد یہ بیان کر رہی ہے کہ جو اس معاہدے کے مندرجات کا اقرار کرتا ہے اسے کسی بدعتی کی مدد ، حمایت اور پناہ کا کوئی حق نہیں پہنچتا_ اور یہ شق امن عامہ کو پھیلانے ، لوگوں کو ایک طرح سے مطمئن اور آسودہ خاطر رکھنے نیز اوس اور خزرج پر منڈلاتے ہوئے خوف کے بادلوں کو کم کرنے کی طاقت رکھتی ہے_ اسی طرح اس شق میں مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی علاقے میں بسنے والے یہودیوں اور مشرکوں کو ڈھکی چھپی دھمکی بھی پائی جاتی ہے_

۱۹_ اسی طرح دشمنوں کے سامنے مسلمانوں کا یہ دعوی ہے کہ '' وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے والی ایک متحد اور منسجم طاقت ہیں'' _ اور دوسروں کے دلوں میں اپنی ہیبت اور رعب و دبدبہ بٹھانے کے لئے نیز قبائلی یا دیگر قسم کے جذبات سے کھیل کر ان کے ذریعے مسلمانوں کی صفوں میں نفوذ کرنے والوں کی سوچ اور طمع کو دور کرنے اور مٹانے کے لئے اس دعوے کا بہت زیادہ اثر اور کردار ہے_

۲۰_ آخر میں یہ نکتہ بھی ملاحظہ ہو کہ یہ معاہدہ مشرکوں کے لئے کسی اضافی حق کا قائل نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ان پر کئی پابندیاں عائد کردیں_ پس اس معاہدے کی روسے کسی مشرک کو قریش کے کسی شخص یا مال کو پناہ اور امان دینے بلکہ ان کی خاطر مومنوں اور قریشیوں کے درمیان حائل ہونے کا بھی کوئی حق نہیں ہے_

۱۲۳

یہی وہ چند نکات تھے جنہیں ہم عجلت میں سرسری طور پر ذکر کرنا چاہتے تھے _ امید ہے کہ کسی فرصت میں بہت سے دیگر نکات کا بھی مطالعہ کریں گے_

۵_ یہودیوں سے صلح :

بنی قریظہ ، نضیر اور قینقاع کے یہودی ( نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں ) آئے اور انہوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صلح کی خواہش کی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے تحریر لکھ دی کہ (یہ صلح) اس شرط پر ہوگی کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف کسی شخص کی مدد نہیں کریں گے _ نیز زبان ، ہاتھ، اسلحہ یا سواری کے ساتھ یعنی کسی بھی ذریعے سے اور خفیہ یا علانیہ اور رات یا دن میں یعنی کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی بھی صحابی کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی مزاحمت ایجاد نہیں کریں گے _ اور اگر انہوں نے ان میں سے کوئی کام انجام دیا تو ان کا خون بہانے، ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنانے اورا ن کے اموال ضبط کرنے کا اختیار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو ہوگا _اور ہر قبیلہ کے لئے جدا گانہ تحریر لکھ دی(۱) _ لیکن یہودی ، اس معاہدے کو توڑ کر دوبارہ اپنی مکر و فریب والی عادت پر پلٹ گئے_

____________________

۱) اعلام الوری ص۶۹،البحارج/۱۹س ص ۱۱۰/۱۱۱ عنہ، السیرة النبویة لدحلان ج/۱ ص ۱۷۵_

۱۲۴

۱۲۹

چوتھی فصل: شرعی احکام

۱۲۵

اذان کی تشریع :

یہاں پرمؤرخین ذکر کرتے ہیں کہ : ہجرت کے پہلے سال اذان تشریع کی گئی _ ایک قول یہ ہے کہ دوسرے سال میںتشریع ہوئی لیکن اس چیز کی تحقیق ہمارے لئے زیادہ اہم نہیں_

البتہ تشریع اذان کی کیفیت اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس فکر میںتھے کہ لوگوں کو نماز کے لئے کس طرح اکٹھا کیا جائے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک پر چم نصب کریں جب لوگ دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو اطلاع دے دیں گے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے پسند نہ فرمایا _ صحابیوںنے ( یہود یوںکے بگل کی طرح ) بگل بجانے کا مشورہ دیا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے بھی پسند نہیں کیا اور فرمایا کہ یہ یہود یوںکی رسم ہے _ انہوں نے ناقوس ( بجانے کا ) مشورہ دیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (اسے بھی ناپسند کرتے ہوئے )فرمایا کہ یہ نصاری کی عادت ہے غالباً آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے اسے ناپسندفرمایا پھر اس کا حکم دے دیا اوراسے لکڑی سے بنایا گیا_

عبداللہ بن زید گھر واپس آئے جبکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فکرمندہونے کی وجہ سے غمگین تھے _ اس رات انہوں نے خواب میں اذان دیکھی_ خود عبداللہ بن زید بیان کرتے ہیں: ''صبح کے وقت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواذان کے متعلق بتایا پھر عرض کی کہ یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ میں نیند اور بیداری کی حالت میں تھا کہ کوئی میرے پاس آیااور اس نے مجھے اذان کی کیفیت دکھائی ''_

وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب اس واقعہ سے پہلے اذان کو دیکھ چکے تھے اورانہوں نے بیس دن تک اسے چھپائے رکھا _ پھر جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بتایا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ پھر مجھے بتانے سے کون سی چیز مانع

۱۲۶

تھی؟ جواب دیا کہ عبداللہ بن زید نے مجھ پر سبقت لے لی لیکن میں جھجکتا رہا ( اس پر ) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ بلال اٹھو اور دیکھو کہ عبداللہ بن زیدتجھے کس چیز کا حکم دیتا ہے تم اسے بجا لاؤ _یوںحضرت بلال نے اذان کہی ( الحدیث) _تشریع اذان کی کیفیت کے سلسلہ میں وارد ہونے والی روایات میں سے ایک نصّ یہ تھی_ یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے مزید اطلاع کے لئے حاشیہ میں مندرج کتب کی طرف رجوع کریں(۱) _

اذان کی روایات پر بحث:

ہم معتقد ہیںکہ یہ بات درست نہیں اور اس سلسلہ میںہمارے پاس مندرجہ ذیل دلائل ہیں_

ایک : ان روایات کے مطالعہ اور ایک دوسرے کے ساتھ تقابل سے ظاہر ہوتاہے کہ ان روایات میں سخت اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ چیز کسی روایت کے ضعیف ہونے کا باعث بنتی ہے اور اس پر کئی طرح کے سوالات اٹھتے ہیں_مثلاً گذشتہ روایت کہتی ہے کہ ابن زید نے نیند اور بیداری کی حالت میں اذان دیکھی_

دوسری روایت میں اس کے برعکس یہ ہے کہ انہوں نے یہ اذان حالت خواب میں دیکھی جبکہ تیسری روایت میں آیا ہے کہ خود ابن زید نے کہا '' لوگ اگرباتیں بنا کرمیرے درپے نہ ہوتے تو میں یقیناً یہی کہتا کہ میں تو سو ہی نہیں رہا تھا بلکہ حالت بیداری میں تھا ''_ ایک اور روایت یوں کہتی ہے '' یقیناً ابن زید نے اذان ہوتے ہوئے دیکھی اور پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کی اطلاع دی'' مزید ایک روایت میں ہے کہ یقیناً جبرائیل نے دنیا کے آسمان پر اذان دی حضرت عمر اور حضرت بلال دونوںنے سنا ، لیکن حضرت عمرنے حضرت بلال

____________________

۱)سنن ابی داؤد ج/۱ ص ۳۳۵،۳۳۸ ، المصنف عبد الرزاق ج /۱ص۴۵۵تا۴۶۵، السیرة الحلبیةج/۲ ص ۹۳ تا ۹۷ ، تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۹، الموطا ج۱ نیزشرح موطا للزرقانی ج/۱ص۱۲۰تا ۱۲۵،الجامع الصحیح للترمذی ج/۱ص۳۵۸تا۳۶۱،مسند احمدج/۴ ص ۴۲ ، سنن ابن ماجہ ج/۱ص ۱۲۴، سنن البیہقی ج/۱ ص۳۹۰و۳۹۱،سیرةابن ھشام ج/۲ص۱۵۴،۱۵۵،۱۲۵،نصب الرایة ج/۱ ص ۲۵۹تا۲۶۱، فتح الباری ج/۲ ص ۶۳تا۶۶، طبقات ابن سعدج/۱جزء ۲ص ۸،البدایةوالنھایة ج/۳ ص۲۳۲و ۲۳۳، المواھب اللدنیة ج/۱ص۷۱، منتخب کنزالعمال(حاشیہ مسنداحمدپر)ج/۳ ص۲۷۳، اور ۲۷۵ ، تبیین الحقائق للزیلعی ج /۱ ص ۹۰، الروض الانف ج/۲ ص ۲۸۵،۲۸۶، حیاة الصحابة ج/۳ ص ۱۳۱، از کنز العمال ج/۴ ص ۲۶۳،۲۴۶،اور اسی طرح ابی شیخ ابن حبان اور ابن خزیمہ سے بھی نقل کیا گیاہے ، سنن الدار قطنی۰۶۶ ج/۱، ۲۴۱ ، ۲۴۲ ، اور ۲۴۵ ، علاوہ ازین دیگر کثیرکتب_

۱۲۷

پر سبقت لیتے ہو پہلے جاکر پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کی اطلاع دی _جب حضرت بلال آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تم سے پہلے عمر نے مجھے اس کی اطلاع دے دی ہے'' _

لیکن ایک روایت میں ملتاہے کہ فقط ابن زید نے اس اذان کو دیکھا _اس کے برعکس ایک روایت یوں کہتی ہے کہ انصار کے سات افراد نے اذان دیکھی جبکہ ایک قول میں یہ تعداد چودہ بیان ہوئی ہے، ایک روایت میں عبداللہ بن ابی بکر کابھی اضافہ کیا گیا ہے علاوہ بر ایں ایک روایت میں ہے کہ یقیناً یہ بلال ہی تھے جنہوںنے سب سے پہلے ''اشھد ان لا الہ الا اللہ حی علی الصلاة'' کہا_ اس پر حضرت عمر نے ''اشھد ان محمد رسول اللہ'' کا اضافہ کیا پس نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سنتے ہی حضرت بلال سے فرمایا :''جیسے عمر نے کہا ہے تم بھی ویسے ہی کہو''_

بعض روایات میں اذان کی فصلیں ایک مرتبہ اور بعض میں دو مرتبہ ذکر ہوئی ہیں_ان روایات میں طرح طرح کے دیگر اختلافات بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان سب کو بیان نہیں کیا جاسکتا _ اس سلسلے میں آپ اصل منابع کی طرف رجوع کرکے روایات میں تقابل کرسکتے ہیں _

دو: یہ بات کہ حضرت عمر اور حضرت بلال نے خود حضرت جبرائیلعليه‌السلام کی آواز سنی یا ابن زید نے یہ اذان حالت بیداری میں ہوتے ہوئے دیکھی ، قابل قبول نہیںکیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ سب لوگ بھی نبی ہیں کیونکہ انہوں نے جبرائیلعليه‌السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھااو ر جبرائیلعليه‌السلام سے ایک شرعی ، توقیفی حکم سنا جبکہ یہ امر تو انبیاءعليه‌السلام و رسلعليه‌السلام سے مخصوص ہے_

حالت خواب میں دیکھی گئی اذان کے متعلق عسقلانی لکھتے ہیں:

'' عبداللہ ابن زید کے خواب کی بنیاد پر اذان کے حکم شرعی کے ثبوت پر یہ اعتراض کیا گیاہے کہ غیر نبیعليه‌السلام کا خواب حکم شرعی نہیں ہوتا _ البتہ اس کاجواب یہ دیا جاسکتاہے کہ ممکن ہے کہ وحی بھی اس کے مطابق نازل ہوئی ہو؟''(۱) _

____________________

۱) فتح الباری ج/ ۲ ص ۶۲ _

۱۲۸

لیکن یہ جواب قانع کنندہ نہیں کیونکہ صرف احتمال سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی _حالانکہ ان کے ہاں معتبر اور قابل اعتماد مذکورہ روایات میں ایسے کسی احتمال کی طرف اشارہ بھی نہیں پایا جاتابلکہ یہ روایات فقط رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس حکم پر اکتفاء کرتی ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ ابن زیدسے اذان کی تعلیم حاصل کرو _

اس کے علاوہ اس معاملے میں شروع ہی سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی نازل کیوں نہ ہوئی _ حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سر گردان ، فکرمنداور رنجیدہ خاطر تھے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں_

یہاںایک یہ سوال باقی رہ جاتاہے کہ اذان، اس کیفیت سے کیوں شروع ہوئی جبکہ باقی سب احکام ایسے نہیں ہیں؟

''سہیلی ''نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ اذان در اصل خدا کی شان اور ذکر کو بلند کرناہے پس غیر نبی کی زبان پر اس کی شان نہایت بلند اور عظیم المرتبت ہونی چاہئے اس لئے اسے پہلے صحابیوں کو سکھا یا گیا(۱) _

اگر چہ عسقلانی و غیرہ نے اس جواب کو سراہا ہے لیکن یہ جواب بھی بے معنی اور کم وزن ہے _اگر یہ جواب صحیح ہو تو شریعت میں نماز، زیارتیں، دعائیں، اسی طرح خدا کی توحید کا اقرار اور پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی گواہی اور دیگر احکام اسلام سب کے سب غیرنبی کی زبان سے جاری ہونے چاہئیں_ کیونکہ اس کا مطلب اللہ کا ذکر بلند کرنا اور اس کے حکم کو عظمت سے بجا لاناہے_ یہی حال خصوصاً ان قرآنی آیات کا بھی ہے جن میں حضور سرور کائناتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعریف و توصیف بیان ہوئی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے_

( وَ انَّكَ لَعَلی خلق عظیم )

اور اس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں_ گذشتہ مطالب کے علاوہ ہم یہ کہیں گے کہ پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زید کے خواب کے مطابق عمل کرنے کا حکم دینا تو وحی کے بغیر بلکہ اپنی ذاتی خواہش کے تابع ہوگا جبکہ یہ بات خداوند متعال کے اس فرمان( و ما ینطق عن الهوی ) سے منافات رکھتی ہے_

____________________

۱) الروض الانف ج/ ۲ ص ۲۸۵_

۱۲۹

پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دینی امور میں اپنے صحابیوں سے مشورہ کرنا یقیناً محال ہے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''وحی'' کے ہوتے ہوئے اس امر سے مستغنی تھے _البتہ دنیاوی امور میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا کرتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کئی وجوہات کی بنا پر چاہتے تھے کہ دنیاوی امور کو مشورت سے انجام دیں _انشاء اللہ جنگ بدر و احد کے واقعات میں ہم ان وجوہات کا ذکر کریںگے_

تین: یہ کیسے ممکن ہے کہ پیامبر گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے تو یہود و نصاری کے فعل سے موافقت کو ناپسند فرمایا ہو اور پھر اسی پر ہی رضایت دے دی ہو؟ ایک قبیح امر کیسے اچھا ہوگیا ؟ ایک برائی اچھائی میں تبدیل ہوگئی یا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان لوگوںسے موافقت پر مجبور تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہ تھا؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک منادی کیوں نہ مقرر فرما دیا جو لوگوں کو نماز کے لئے بلاتا؟ جیسا کہ نماز یا دیگر مواقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے اوروہ ''الصلاة جامعة'' پکار پکار کر لوگوں کو اکٹھا کرتے تھے_

اس مشکل کے حل کے لئے صرف نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عبداللہ ابن زید (یا حضرت عمر ) ہی کیوں فکرمند تھے؟ اور یہ مشکل آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رضامندی سے صرف ناقوس بنانے پر ہی حل ہوگئی؟ اور کوئی حل باقی نہیں رہا تھا؟ یا کوئی اور آدمی موجوود نہیں تھا؟_

بہر حال اس سے اہم بات یہ ہے کہ وہ یہ روایت کرتے ہیں (گرچہ ہم اس کی تصدیق و تائید نہیں کرتے بلکہ اس کے جھوٹ ہونے پر ہمیں یقین ہے) کہ جن امور میں وحی نازل نہیں ہوئی تھی ان تمام امور میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اہل کتاب کی پیروی کرنا چاہتے تھے(۱) تو پھر مذکورہ معاملے میں یہ کیونکر ہوا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کراہت و ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اوراسی کے لئے فکرمند اور پریشان ہوئے_ یہ تو بہت عجیب و غریب تناقض گوئی ہے جسے آنحضور( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف نسبت دی گئی ہے_

چہار: الصباح المزنی ، سدیر الصیرفی، محمد بن النعمان الا حول اور عمر بن اذینہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم امام صادقعليه‌السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' اے عمر بن اذینہ یہ ناصبی اپنی اذان و نماز کے

____________________

۱) روز عاشور کے روزے کے متعلق گفتگو میں اس کی طرف اشارہ کریں گے (انشاء اللہ )

۱۳۰

متعلق کیا کہتے ہیں''؟ میں نے عرض کیا:'' میری جان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہو وہ کہتے ہیں کہ اسے ابی بن کعب انصاری نے خواب میں دیکھا تھا''_ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' خدا کی قسم جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ خدا وند قدوس کے دین کی شان خواب میں دکھائے جانے سے بالاتر ہے'' _ ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ حضرتعليه‌السلام نے فرمایا:'' اللہ نے تمہارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس کے متعلق وحی نازل فرمائی لیکن یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے عبداللہ بن زید سے سیکھا ہے''(۱) _

۲ _ابی علاء سے روایت ہے کہ میں نے محمد بن حنفیہ سے کہا: '' ہم تو یہ بیان کرتے ہیں کہ اذان کی ابتداء ایک ایسے خواب سے ہوئی جسے ایک انصاری نے خواب میں دیکھا تھا'' اس پر محمد حنفیہ سختغصہ ہوگئے اورگرج کر کہا :''شریعت مقدسہ اسلام اور دینی معارف کی بنیادوں کو تم نے نشانہ بنا لیا ہے_تمہارا گمان ہے کہ اسے ایک انصاری نے خواب میں دیکھا ہے جس میں جھوٹ اور سچ دونوں کا احتمال پایا جاتا ہے _ اور اکثر اوقات تو یہ خواب ویسے ہی بے تعبیر اور لاحاصل ہوتے ہیں''؟

میں نے کہا :''یہ حدیث تو لوگوں میں پھیل چکی ہے''؟

انہوں نے کہا :'' خدا کی قسم یہ غلط ہے_'' پھر کہا :''مجھے میرے والد گرامی نے بتایا تھاکہ حضرت جبرائیلعليه‌السلام نے شب معراج بیت المقدس میں اذان و اقامت کہی اور پھر جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے آسمان کی طرف معراج فرمائی تو انہیں پھر دہرایا''(۲) _

۳_ اس طرح امام حسن مجتبیعليه‌السلام نے بھی اس بات کا انکار فرمایاہے _ جب آپعليه‌السلام کے سامنے اذان کے بارے میں گفتگو ہوئی اور عبداللہ ابن زید کے خواب کا تذکرہ کیا گیا تو آپعليه‌السلام نے فرمایا '':اذان کی عظمت اس افسانے سے کہیں بالاتر ہے_

حضرت جبرائیلعليه‌السلام نے آسمان میں دو دو مرتبہ اذان کہی اور پھراسی طرح اقامت کہی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس

____________________

۱)بحار الانوار ج/۱۸ ص۳۵۴ ، علل الشرائع ص ۱۱۲ / ۱۱۳ ، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ عن الشہید فی الذکری نیز وسائل الشیعہ ج۴ ص ۶۱۲ و ۶۱۳_

۲) السیرة الحلبیہ ج/ ۲ ص ۹۶ ، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ و کتاب العلوم (امالی احمد بن عیسی بن زید) ج۱ ص ۹۰_

۱۳۱

کی تعلیم دی''(۱) _

۴ _ جب حضرت امام حسینعليه‌السلام سے اذان اور لوگوں کی باتوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپعليه‌السلام نے فرمایا:

'' تمہارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی نازل ہوتی ہے اور تم لوگ یہ گمان کرتے ہو کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عبداللہ بن زید سے اذان سیکھی ہے ؟ جبکہ میں نے اپنے والد حضرت علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) سے سنا ہے کہ جب حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو معراج پر لے جایا جانے لگا تو ایک فرشتے نے اتر کر اذان اور اقامت کی فصلوں کو دو دو مرتبہ دہرا کرا ذان و اقامت کہی پھر جبرائیلعليه‌السلام نے آپعليه‌السلام سے کہا : '' یا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز کی اذان بھی اسی طرح ہے ''(۲) _

البتہ اقامت کی فصلوں کاایک ایک مرتبہ ہونا اہل بیتعليه‌السلام کی قطعی تعلیمات کے بالکل مخالف ہے_ کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ اہل بیتعليه‌السلام کی روایات اور نظریات میں اس کی دودو فصلیں بیان ہوئی ہیں اور اصحاب تابعین اور فقہائے اسلام کی اکثریت کی بھی یہی رائے ہے _ایک ایک مرتبہ والی بات امراء کے ہاتھوں کی صفائی معلوم ہوتی ہے کیونکہ بقول مورخین اس ذریعہ سے انہوں نے اقامت کی تحقیر، بے قدری اور توہین کرنے کی کوشش کی(۳) ورنہ اقامت کی فصلیں بھی دو دو مرتبہ ہیں_

پانچ: خو د عبداللہ ابن زید سے روایت ہے : '' میں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اذان سنی ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو دو مرتبہ اذان و اقامت کہی(۴) ''_

پس اگر ابن زید نے ہی خواب میں اذان دیکھی ہوتی تو وہ دوسروں کی نسبت اس ا مر سے سب سے زیادہ آگاہ ہوتا ، پھر اس کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے یہ حدیث کیسی؟

چھ: داؤود ی کی ابن اسحاق سے حکایت ہے کہ عبداللہ بن زید اور حضرت عمر کے خواب میں دیکھنے سے آٹھ روز قبل حضرت جبرائیلعليه‌السلام اذان لے کر آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے'' _ اس بات کی تائید اس

____________________

۱) النص و الاجتہاد ص ۲۰۵ از مشکل الآثار ،ابن مردویہ اور کنزالعمال ج/۶ ص ۲۷۷ نیز مستدرک حاکم ج۳ ص ۱۷۱_

۲) گذشتہ و آئندہ منابع ملاحظہ فرمائیں_ (۳) المصنف عبدالرزاق ج/ ۱ ص ۴۶۳ ، سنن البیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۵ _

۴) مسند ابی عوانہ ج/ ۱ ص ۳۳۱ سنن دارقطنی ج/ ۱ ص ۲۴۱_

۱۳۲

روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر ناقوس( گھنٹی) خریدنے جارہے تھے کہ اطلاع ملی ابن زید نے خواب میں اذان دیکھی ہے وہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بتانے کے لئے واپس آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تمہارے بتانے سے پہلے وحی نازل ہوچکی ہے ''(۱) _

سات: ہم اذان کے شرعی حکم کے ہجرت سے قبل مکہ میں نزول کو ترجیح دیتے ہیں ، کیونکہ یہ بات محمد حنفیہ والی گذشتہ روایت میں بیان ہوچکی ہے اور مندرجہ ذیل روایات میں بھی مذکور ہے_

۱_ جناب زید بن علی نے اپنے اجداد طاہرینعليه‌السلام سے روایت کی ہے: ''رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شب معراج اذان کی تعلیم دی گئی اور نماز فرض ہوئی ''_ یہ بات امیر المومنینعليه‌السلام ، امام باقر ، ابن عمر اور حضرت عائشہ سے بھی روایت کی گئی ہے(۲) _ امام باقرعليه‌السلام سے بھی صحیح سند کے ساتھ تقریباً یہی مطلب نقل ہوا ہے(۳) _

۲ _ انس روایت کرتے ہیں کہ جب نماز فرض ہوئی تو اس وقت جبرائیلعليه‌السلام نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذان کا بھی حکم دیا(۴) _

امام باقرعليه‌السلام کی اس مذکورہ روایت کو سھیلی نے بھی صحیح قرار دیا ہے جس میں آیا ہے کہ اذان کا شرعی حکم شب معراج لاگو ہوا_ لیکن اس روایت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک تو اس کی سند میں زیاد بن منذر ہے جو شیعہ تھا(۵) اور دوسرایہ کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے موقع پر اذان کا حکم نہیںدیا تھا(۶) _

____________________

۱) المصنف عبدالرزاق ج/۱ص۴۵۶،تاریخ الخمیس ج/۱ ص۳۶۰،البدایة والنہایة ج/ ۳ ص ۲۳۳ ، السیرة الحلبیہ ج/ ۲ ص ۹۶ ، ۹۷_

۲)منتخب کنزالعمال ( مسند احمد کے حاشیہ پر ) ج/۳ ص ۲۷۳ از طبرانی سے اوسط السیرة الحلبیہ ج/ ۱ ص ۳۷۳ ، ج/ ۲ ص ۹۳ ، ۹۵ مجمع الزوائد ج/ ۱ ص ۳۲۹ و ۳۲۸ ، نصب الرایة ج/۱ ص ۲۶۲ و ۲۶۰ ، المواھب اللدنیہ ج/۱ ص ۷۱ ، ۷۲ فتح الباری ج/ ۲ ص ۶۳ ، الدرالمنثور ج۴ ص ۱۵۴ از بزار ، ابن مردویہ ، طبرانی و ابو نعیم در دلائل النبوہ ، الروض الانف ج/ ۲ ص ۲۸۵ و ۲۸۶ ، البدایةوالنہایة ج/۳ ص ۲۳۳ ، تبیین الحقائق از البزار، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ از مشکل الآثار و شہید در ذکری ، کنزالعمال ج۱۴ ص ۴ ، از ابن مردویہ، قصار الجمل ج۱ ص ۱۳ ، الوسائل ج۴ ص ۶۶۰ و کافی ج۳ ص ۳۰۲_

۳) الکافی ج/۳ ص ۳۰۲_ (۴) المواھب اللدنیہ ج/۱ ص ۷۲ و فتح الباری ج/۲ ص ۶۳_ (۵) نصب الرایة ج/ ۱ ص ۲۶۱_

۶) البدایة و النہایہ ج / ۳ ص ۲۳۳ ، مستدرک الحاکم ج/ ۳ ص ۱۷۱ ، نصب الرایہ ج/ ۱ ص ۲۶۱ ، حاکم نے اس بارے میں سکوت کیا ہے جبکہ ذھبی نے نوح بن دراج پر جرح کی ہے شاید انہوں نے اپنی عادت کے مطابق اس کے شیعہ ہونے کی بناپر ایسا کیا ہے_

۱۳۳

جبکہ ان کے پہلے اعتراض کے متعلق تو معلوم ہوچکاہے کہ وہ ہے ہی بے بنیاد لیکن دوسرے اعتراض کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ یہی تو اختلاف کا مقام ہے _ اسی مناسبت سے یہاں ذکر کرتے چلیں کہ:

روایات میں یہ بھی آیاہے کہ جب حضرت آدمعليه‌السلام جنت سے نکالے گئے تو جبرائیلعليه‌السلام نے اس وقت اذان کہی(۱) گذشتہ بیانات سے ابن عباس سے مروی یہ روایت بھی غلط ثابت ہوجاتی ہے کہ سورہ جمعہ کی اس آیت ''یا ایھا الذین آمنوا اذا نودی للصلاة من یوم الجمعة ''کے نزول کے ساتھ ہی اذان فرض ہوئی تھی(۲) اس روایت کے رو سے تو اذان کے شرعی حکم کا نزول ، ہجرت کے ساتویں سال سورہ جمعہ کے نزول کے ساتھ اور جنگ احد میں یا اس کے کچھ عرصہ بعد قتل ہونے والے عبداللہ بن زیاد کی وفات کے بعد جا بنے گا _

اسی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے حاکم نے کہا ہے'' بخاری و مسلم نے عبداللہ بن زید کی خواب میں اذان والی اس روایت کو مذکورہ حدیث کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے کیونکہ عبداللہ اس سے پہلے ہی رحلت کرگئے تھے کیونکہ کہا گیا ہے کہ عبداللہ بن زید جنگ احد میں اور بقولے اس کے کچھ ہی عرصہ بعد شہید ہو گئے تھے''(۳) _

لیکن درمنثور کی عبارت یوں ہے ''نماز کے فرض ہونے کے ساتھ اذان رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوئی _( یا ایها الذین آمنوا اذا نودی للصلاة ) اب اس عبارت سے ان کا مقصود یہ ہوسکتاہے کہ اذان مکہ میں اس وقت شروع ہوئی جب نماز فرض کی گئی لیکن مذکورہ آیت کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی اذان کے بارے میں اشارہ کیا ہے اگر یہ صحیح ہو تو اس روایت کا ماسبق سے کوئی تعارض اور اختلاف نہیں_

آٹھ: حضرت عائشہ ، عکرمہ ، قیس بن ابی حازم و غیرہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی کے اس قول( و

____________________

۱)فتح الباری ج/ ۲ ص ۶۴ ، السیرة الحلبیہ ج/۲ ص ۹۳_

۲)فتح الباری ج ۲ ص ۶۲، الدر المنثور ج ۶ ص ۲۱۸از ابو شیخ_

۳) مستدرک الحاکم ج/۴ ص ۳۴۸_

۱۳۴

من احسن قولاً ممن دعا الی الله و عمل صالحاً ) (۱) سے مراد اذان و اقامت کے درمیان دو رکعت نماز کی ادائیگی ہے(۲) _

یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ آیت سورہ مبارکہ فصلت کی ہے جو مکی سورت ہے_ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اذان و اقامت کا حکم مکہ میں دیا گیاتھااور یہ آیت اذان اور اقامت کے احکام اور مسائل بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے_

البتہ اس دعوی کہ '' یہ آیت بھی ان آیتوں میں سے ہے جن کا حکم ان کے نزول کے کچھ عرصہ بعد لاگو ہوا '' اس کی سوائے ابن زید کی گذشتہ روایت کے کوئی اور دلیل نہیں ہے اور یہ ہم جان چکے ہیںکہ اس روایت پراعتماد نہیں کیاجاسکتا بلکہ اس کے جھوٹے ہونے پر بھی دلیل قائم کی گئی ہے_

نو: مفسرین نے اس آیت ( و رفعنا لک ذکرک) کے متعلق کہا ہے کہ یہ آیت اذان کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۳) اور کئی مفسروں نے اسے ابن عباس اور مجاہد سے نقل کیا ہے(۴) اور یہ آیت سورہ انشراح میں ہے اور یہ بھی مکی ہے_

آخری بات

حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ حضرتعليه‌السلام نے فرمایا '' جب جبرائیلعليه‌السلام اذان لے کر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تشریف لائے تو جبرائیلعليه‌السلام نے خود اذان و اقامت کہی_ اسی موقع پر آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام سے فرمایا کہ حضرت بلال کو بلالائیں _آپعليه‌السلام نے حضرت بلال کو بلایا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت

____________________

۱)اس سے بہتر بات کس کی ہوگی جو لوگوں کو اللہ اور عمل صالح کی طرف دعوت دے_

۲) السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۹۳، درمنثور ج / ۵ ص ۳۶۴ ، از عبد بن حمید ، سعید بن منصور، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابن ابی شیبہ ، ابن منذر خطیب در تاریخ _

۳) الکشاف مطبوعہ دار الفکر ج۴ ص ۲۶۶ ، جوامع الجامع ص ۵۴۵ ، البحر المحیط ج۸ ص ۴۸۸ ، مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۰۸ ، التفسیر الکبیر ج۳۲ ص۵ و مدارک التنزیل ( مطبوعہ بر حاشیہ الخازن) ج۴ ص ۳۸۹_

۴) ملاحظہ ہو: تفسیر القرآن العظیم ج۴ ص ۵۲۵، الجامع لاحکام القرآن ج۲۰ ص ۱۰۶ و لباب التاویل ج۴ ص ۳۸۹_

۱۳۵

بلال کو اذان کی تعلیم دی اور اذان دینے کا امر فرمایا''(۱) _

اور اس روایت میں گذشتہ روایتوں کے ساتھ کوئی تضاد نہیں پایا جاتا_ کیونکہ عین ممکن ہے کہ جبرائیلعليه‌السلام مکہ میں اذان لے کر نازل ہوئے ہوں _ اسی طرح وقت معراج تشریع ہونے والی اذان فرداً فرداً کہی جانے والی اذان ہو جبکہ جس اذان کو جبرائیلعليه‌السلام (مدینہ میں ) لے کر نازل ہوئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بلال کو اس کی تعلیم دی اور اسے بلند آواز سے کہنے کا حکم دیا وہ اذان اعلان ( نماز جماعت کے قیام کا اعلان کرنے والی اذان ) ہو_

مدینہ میں رونما ہونے والے واقعہ کے متعلق شاید زیادہ مناسب وہ روایت ہو جو یہ کہتی ہے: ''مسلمان جب مدینہ پہنچے تو وہ اکٹھے ہوکر وقت نماز کا انتظار کیا کر تے تھے جبکہ کوئی منادی بھی نہیں تھا_ ایک دن انہوں نے اس بارے میں آپس میں گفتگو کی_ بعض نے کہا کہ ناقوس (گھنٹی) بجائی جائے جیسے عیسائی بجاتے ہیں_ بعض نے کہا کہ یہودیوں کی طرح بگل بجایا جائے _ حضرت عمر نے کہا کہ ایسے کچھ افراد مقرر کئے جائیں جو لوگوں کو نماز کے لئے بلائیں جس پر رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ اٹھو اذان دو''(۲)

اس روایت کے مطابق اختلاف خود مسلمانوں کے درمیان پیدا ہوگیا اور وہ ہی تھے جو ایک دوسرے سے بعض ذرائع اور اسباب کی فرمائشے کرنے لگے تھے _ جبکہ اس جھگڑے کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت بلال کو اذان کا حکم دے کر نمٹایا_ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اذان کا شرعی حکم اس سے قبل (مثلاً شب معراج )آچکا تھا _

لیکن یہ افراد یا تو نو مسلم ہونے کی وجہ سے اس امر سے بے خبر تھے یا وہ سب یا بعض افراد اس بات سے باخبر تو تھے لیکن یہ اذان والی بات ان کے دل کو نہیں لگی تھی اس لئے وہ اس میں تبدیلی کے خواہش مند تھے_

بہر حال اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لئے امام عبدالحسین شرف الدین کی بہترین کتاب '' النص والاجتہاد '' کی طرف مراجعہ فرمائیں(۳) _

____________________

۱) الوسائل ج/۱ ، ص ۳۲۶، الکافی ج/۳ ص ۳۰۲ ، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ ، اس روایت کو جناب شیخ صدوق اور شیخ مفید رحمھما ا اللہ تعالی نے بھی نقل کیا ہے_ (۲) سنن دار قطنی ج/۱ ص ۲۳۷_ (۳)النص و الاجتہاد ص ۱۹۷ تا ۲۰۵_

۱۳۶

اذان میں حی علی خیر العمل:

وہ امور جو مسلمانوں میں اختلاف کا باعث بنے ، ان میں سے ایک اذان میں '' حی عل الفلاح '' کے بعد دو مرتبہ ''حی علی خیر العمل'' کہنے کا مسئلہ بھی ہے_ بعض اس کے قائل ہیں اور بعض انکار کرتے ہیں _

مسلمانوں کا ایک گروہ اپنے پیشواؤںکی اطاعت میں اذان میں''حی علی خیر العمل''کہنے کو صحیح نہیں سمجھتا _ انہیںاہل سنت و الجماعت کہتے ہیں_ البتہ بعض اس کو مکروہ سمجھتے ہیں_ اسکی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ جملہآنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ثابت نہیں ہے جبکہ اذان میں اضافہ مکروہ ہے(۱) _

عما د الدین یحیی بن محمد بن حسن بن حمید مقری کی توضیح المسائل سے نقل کرتے ہوئے قاسم بن محمد بن علی کہتاہے: '' رویانی نے کہا ہے کہ مشہور قول کے مطابق شافعی اس کے جواز کا قائل ہے نیز مالکی مذہب کے علاوہ حنفی اور شافعی مذہب کے اکثر علماء کا بھی کہناہے کہ '' حی علی خیر العمل'' کا جملہ اذان کا ہی حصہ تھا_ اسی طرح زرکشی نے اپنی بحر المحیط نامی کتاب میں کہا ہے : '' بعض مسائل تو ایسے ہیں جن کے متعلق دوسرے شہروںکے علاوہ خود مدینہ کے اندر ہی اختلاف پایا جاتا تھا_ خود مدینہ والوں کے پیشوا جناب عبداللہ ابن عمر اذان کی فصلوں کو ایک ایک کرکے پڑھتے تھے اور اس میں '' حی علی خیر العمل'' بھی کہتے تھے _ یہانتک کہ مقری کہتاہے کہ رویانی کی یہ بات درست ہے کہ شافعی کا مشہور قول ''حی علی خیر العمل '' کے اثبات کے متعلق ہے(۲) _

لیکن اہل بیتعليه‌السلام اور ان کے شیعہ '' حی علی خیر العمل'' کو اذان و اقامت کا جزء سمجھتے ہیں بلکہ اسکے بغیر اذان و اقامت کو صحیح نہیں سمجھتے_ ان کے نزدیک اس حکم پر سب کا اجماع ہے_(۳)

____________________

۱) سنن بیہقی ج/۱ ص ۴۲۵ ، البحر الرائق ج/۱ ص۲۷۵ شرح المھذب سے _

۲)الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۷

۳) الانتصار للسید المرتضی ص ۳۹_

۱۳۷

اس نظریئےو شوکانی نے عترت سے منسوب کیا ہے(۱) اور کہا ہے کہ البحر میں مہدی نے اس قول کو شافعی کے دو اقوال میں سے ایک قرار دیا ہے(۲) شوکانی کہتاہے کہ یہ قول شافعی مذہب کی موجودہ کتابوں میں موجود قول کے برخلاف ہے(۳) _

لیکن اس بات میں شیعیان اہل بیتعليه‌السلام کے ہاں قطعاً کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا_ اس پر ان کی دلیل اجماع اور اہل بیتعليه‌السلام کی بہت ساری روایات ہیں مثلاً مندرجہ ذیل روایات ہیں_

ابو ربیع ، زرارہ، فضیل بن یسار، محمد بن مہران کی امام صادقعليه‌السلام سے روایات، فقہ الرضا میں امام ہشتمعليه‌السلام کی روایت ،ابن سنان، معّلی بن خنیس ، ابو بکر حضرمی اور کلیب اسدی کی امام صادقعليه‌السلام سے روایات، ابو بصیر کی امام باقرعليه‌السلام یا امام صادقعليه‌السلام سے روایت ، محمد بن ابی عمیر کی امام ابوالحسن الکاظمعليه‌السلام سے روایت، امیر المؤمنین علیعليه‌السلام اور حضرت محمد حنفیہ کی پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت اور عکرمہ کی ابن عباس سے روایت ہے(۴) _

اس اختلاف کے ہوتے ہوئے ہمارے لئے اہلعليه‌السلام بیت علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کا نظریہ اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے _ اس سلسلے میں ہم فقط اجماع پریا پھر صرف اہل بیتعليه‌السلام سے مروی روایات پر بھروسہ نہیں کررہے حالانکہ یہ ہستیاں ثقلین کا ایک حصہ ہیں اور خدا نے ان سے ہر قسم کی پلیدی کو دور رکھاہے اور انہیں ہر قسم کی آلائشےوں سے بالکل پاک اور پاکیزہ رکھاہے بلکہ اسکے علاوہ بھی ایسے بہت سے شواہد اور دلائل ہیں جو دوسروں کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں_

بطور مثال وہ بعض روایات جو صحیح اسناد کے ساتھ مندرجہ ذیل شخصیات سے منقول ہیں_

۱_ عبداللہ بن عمر ۲_ حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام

۳_ سھل بن حنیف ۴ _ بلال

____________________

۱)نیل الاوطار ج۲ ص ۱۸_ (۲)نیل الاوطار ج۲ ص ۱۸ ، ۱۹ ، البحر الزخار ج۲ ص ۱۹۱ نیز الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۷ ، ۳۰۸ ، مؤخر الذکر دونوں کتابوں میں شافعی کے ایک قول کی بجائے شافعی کا آخری (حتمی) نظریہ ذکر ہوا ہے_

۳) نیل الاوطار ج۲ص ۱۹_

۴)الوسائل، جامع احادیث الشیعہ، البحار، مستدرک الوسائل ابواب اذان_

۱۳۸

۵_حضرت امام علیعليه‌السلام ۶_ ابو محذورة

۷ _ابن ابی محذورة ۸_ زید بن ارقم

۹_ حضرت امام باقرعليه‌السلام ۱۰ _ حضرت امام صادقعليه‌السلام

۱۱ _ حضرت امام حسنعليه‌السلام ۱۲_ حضرت امام حسینعليه‌السلام

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی شخصیات ہیں_

عبداللہ بن عمر سے روایات:

۱ _ مالک بن انس، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ جناب عبداللہ بن عمر بسا اوقات ''حی علی الفلاح'' کے بعد ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۱) _

۲_ لیث بن سعد ، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ جناب ابن عمر سفر میں کبھی بھی اذان نہیں کہتے تھے بلکہ وہ صرف ''حی علی الفلاح'' کہتے تھے اور بسااوقات ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۲) _

۳ _ لیث بن سعد، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ جناب عبداللہ بن عمر اذان میں بعض اوقات''حی علی خیر العمل'' کا اضافہ کرتے تھے، یہی روایت انس بن مالک نے نافع کے ذریعے عبداللہ بن عمر سے نقل کی ہے(۳) نیز عطاء نے بھی عبداللہ بن عمر سے یہی روایت نقل کی ہے(۴) _

۴_محمد بن سیرین نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ وہ ہمیشہ اذان میں ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۵) _

____________________

۱) سنن بیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۴ الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۷ و ص ۳۰۸ و ۳۱۲_

۲) سنن بیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۴ نیز ملاحظہ ہو نیل الاوطار ج۲ ص ۱۹_ (۳) سنن بیہقی ج /۱ ص۴۲۴ ، دلائل الصدق ج/ ۳ جزء دوم ص ۱۰۰ از مبادی الفقہ الاسلامی للعرفی ص ۳۸ شرح تجرید ، جواہر الاخبار اور صعدی کی الآثار المستخرجہ من لجة البحر الزخارج ۲ ص ۱۹۲ کے مطابق ، ابن ابی شیبہ نے اسے ''الشفائ'' میں نقل کیا ہے، نیز الاعصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۸ _ (۴) الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۹ نیز ملاحظہ ہو ص ۳۱۰_ (۵) سنن بیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۵ نیز الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۸ از سنن بیہقی_

۱۳۹

۵_ نسیربن ذعلوق ، ابن عمر کے بارے میںکہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سفر میں '' حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۱) _

۶_ عبدالرزاق، ابن جریح سے اور وہ نافع سے روایت کرتے کہ عبداللہ بن عمر سفر میں جب بھی نماز پڑھتے تو نماز کے لئے اقامت کہتے اور اس میں دو یا تین مرتبہ یوں کہتے تھے''حی علی الصلاة حی علی الصلاة، حی علی خیر العمل(۲)

۷_ عبدالرزاق ، معمر سے وہ یحیی بن ابی کثیر اور وہ کسی ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر اذان میں ہمیشہ ''حی علی الفلاح ''کے بعد ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے اور پھر'' اللہ اکبر، اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ'' کہتے(۳) اسی روایت کوابن ابی شیبہ نے ابن عجلان اور عبیداللہ ، نافع اور عبداللہ ابن عمر کی سندسے روایت کی ہے(۴)

۸_ زید بن محمد نے نافع سے روایت نقل کی ہے کہ عبداللہ بن عمر جب بھی اذان کہتا تھا '' حی علی خیر العمل'' کہتا تھا(۵) صاحب اعتصام نے ابن عون ، ابن جریح ،عثمان بن مقسم ، عبداللہ بن عمر اور جویریہ بن اسماء کی نافع سے روایتیں بیان کی ہیں(۶) اس لئے وہاں انہیں ملاحظہ فرمائیں _ اسی طرح کی ایک روایت حلبی و غیرہ نے بھی عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے(۷)

امام زین العابدینعليه‌السلام سے روایات

۹_ حاتم بن اسماعیل نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے انہوں نے اپنے والد گرامی سے اور انہوں نے حضرت

____________________

۱) مذکورہ منابع_

۲) مصنف عبدالرزاق ج/ ۱ ص ۴۶۴_

۳)سنن بیہقی ج۱ ص ۴۶۰ نیز الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۹_

۴) مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص ۱۴۵ حاشیہ مصنف عبدالرزاق ج۱ ص ۴۶۰ از مذکورہ کتاب نیز ملاحظہ ہو الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۶_

۵) الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۵_

۶) الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۶ تا۲۹۹_

۷) سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۹۸ ، الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۱۱ ، ۳۱۲ ، از ابن حزم در کتاب '' الاجماع''_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ترجمہ : انسانوں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنكى باتيں زندگانى دنيا ميں بھلى لگتى ہيں اور وہ اپنے دل كى باتوں پر خدا كو گواہ بناتے ہيں حالانكہ وہ بد ترين دشمن ہيں ، كو حضرت على (ع) سے منسوب كر دے اور'' و من الناس من يشرى نفسہ بتغاء مرضات اللہ واللّہ رئوف با العباد '' سورہ بقرہ آيت ۲۰۷كو جو حضرت على (ع) كى شان ميں نازل ہوئي تھى اسكے متعلق ايك حديث رسول (ص) سے منسوب كر كے امير المومنين كے قاتل ابن ملجم كے نام كر دے ، سمرہ بن جندب نے قبول نہيں كيا _

معاويہ نے مزيد دو لاكھ درہم بھجوائے پھر بھى قبول نہيں كيا ليكن جب معاملہ چار لاكھ درہم تك پہونچ گيا تب جا كر سمرہ بن جندب نے رسول اكرم (ص) سے جھوٹى حديث ان آيتوں كے سلسلے ميں گڑھى اور لوگوں سے بيان كيا(۱)

معاويہ كے مقابلے ميں بعض دليروں كا كردار

پرو پيگنڈے كى جنگ اتنى خطرناك تھى كہ ايمان كى اساس طوفان كے زد پر اكر فنا ہو رہى تھى ، اور بعض صحابہ و تابعين نے معاويہ كى آواز پر لبيك كہہ كر اپنا خوب پيٹ بھرا_

مملكت اسلامى كے با رسوخ افراد مسلمانوں كے بيت المال سے خريدے جانے لگے اور ان لوگوں كو خوب سونے اور چاندى كى تھيلياں دى جانے لگيں يا كسى حكومتى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، مگر ايك چھوٹا سا گروہ تھا جس نے دين و شرافت كو مد نظر ركھتے ہوئے معاويہ كى ہونكارى نہيں بھرى تھى ، ان لوگوں كو اتنا ستايا گيا كہ انھوں نے اپنى جان و مال سب كچھ راہ خدا ميں قربان كر ديا _

جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ ہزاروں جھوٹى حديثيں منظر عام پر اگئيں اور اسلامى معاشرہ تاريك ماحول ميں چلا گيا ، ان گڑھى ہوئي حديثوں كے ہوتے ہوئے كون انسان اسلام حقيقى كو پہچان سكتا تھا اور دوسرے يہ كہ وہ ہزاروں افراد جو متقى و پرہيزگار تھے وہ سختيوں كو جھيل كر موت كے دامن ميں سو چكے تھے _

ہم نے اس سے پہلے ان لوگوں كا تذكرہ كيا ہے جنھوں نے معاويہ كے دام فريب ميں اكر جھوٹى حديثيں گڑھيں كہ انہى ميں ايك سمرہ بن جندب ہے ، يہ وہ شخص ہے جو معاويہ كے اشارے پر ناچتا رہا جسكى وجہ سے اسكو بصرہ كى حكومت ملى تھى _

سمرہ كى اور سياہكاريوں كو چھوڑ كر صرف جو كوفہ ميں تباہياں اور قتل و غارتگرى كا اس نے بازار گرم كيا تھا ، اسكو طبرى يوں بيان كرتا ہے _

____________________

۱_شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۳۶۱

۱۸۱

مشہور عالم ابن سيريں سے پوچھا گيا كہ سمرہ بن جندب نے كسى كو قتل كيا ہے يا نہيں سيرين نے جواب ديا ، تم لوگ سمرہ كے قتل كو شمار كر لو گے ؟

ايك مرتبہ زياد نے بصرہ ميں اپنا جا نشين بنا ديا تو چھہ مہينے كے اندر اس نے اٹھ ہزار بے گناہ مسلمانوں كو قتل كيا جن ميں پينتاليس افراد وہ تھے جو حافظان قران تھے(۲)

طبرى مزيد كہتا ہے ، جب معاويہ نے زياد كى جگہ سمرہ بن جندب كو چند مہينے تك حاكم بصرہ بنا كر معزول كر ديا تو اس نے كہا ، خدا معاويہ كو غارت كرے ، خدا كى قسم ، ميں نے جس طرح معاويہ كے حكم كو مانا تھا اگر اسى طرح اپنے پروردگار كى اطاعت كرتا تو ہرگز مستحق عذاب نہ ہوتا(۳)

انھيں ميں دوسرا ضمير فروش مغيرہ بن شعبہ تھا ، جس نے سات سال كچھ مہينے كوفہ پر حكومت كى اور ايك لمحہ بھى حضرت على (ع) اور قاتلان عثمان پر نفريں كئے بغير اور عثمان كے حق ميں دعا كئے بغير چين و سكون سے نہيں بيٹھا _

البتہ مغيرہ اپنى چالاكى و ذہانت كيوجہ سے حكومتى امور كو كبھى نرميت اور خاطر مدارات كے ذريعے تو كبھى سختى سے انجا م ديتا تھا _

طبرى لكھتے ہيں :

ايك روز مغيرہ بن شعبہ نے صحابى امام (ع) صعصہ بن صوحان سے كہا ، ذرا كان كھول كر سن لو ، ايسا نہ ہو كہ ايك دن تمھارى خبر عثمان كى بد گوئي كرتے ہوئے ميرے كانوں تك پہونچے ، اگر على (ع) كے فضائل كو بيان كرنا ہے تو علنى طور پر بيان نہ كرنا بلكہ مخفى مقام پر بيان كرنا جس طرح على (ع) كے فضائل تم جانتے ہو اسى طرح ميں بھى واقف ہوں ليكن كيا كروں حكومت اموى كى طرف سے ڈنڈا ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہو ، البتہ ميں نے اكثر مقامات پر ان امور ميں رو گردانى كى ہے مگر جہاں پر مجبور ہو جاتا ہوں تو اپنى محافظت كے لئے بعض جملے برائي كے كہہ ڈالتا ہوں ، اگر زياد ہ فضائل على (ع) كے بيان كرنے كا شوق ركھتے ہو تو اپنے قريبى رشتہ داروں كے گھروں ميں بيان كرنا مگر مسجد اور شاہراہ پر بيان كرنا ايك ايسا مسئلہ ہے جسكو خليفہ ( معاويہ ) برداشت نہيں كر سكتا ، اور نہ ہى اس سلسلے ميں ميرے عذر كو قبول كر سكتا ہے(۴)

____________________

۲_ طبرى ج۶ ص ۱۳۲ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۸۹

۳_طبرى ج۶ ص ۱۶۴ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۱۲

۴_طبرى ج۶ ص ۱۰۸

۱۸۲

اخر ى فرد زياد بن ابيہ كى ہے جس نے معاويہ كے حكم كو نافذ كرنے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا ہے ، حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ جو اس نے سلوك كيا تھا اسكو اپ نے ملاحظہ فرمايا ليكن اس وقت اسى واقعہ كى ايك كڑى جو زياد اور صيفى بن فسيل كے درميان آيا تھا اسكو بيان كر رہا ہوں _

ايك روز زياد نے صيفى كو بلوايا اور اس سے كہا ، اے دشمن خدا تم ابو تراب كے بارے ميں كيا كہتے ہو ، صيفى نے كہا ، ابو تراب كس كا نام ہے _

زياد نے كہا _ تمھيں نہيں معلوم ہے ارے تم اچھى طرح سے ان كو پہچانتے ہو _

صيفى نے كہا _ مجھے نہيں معلوم ہے _

زياد نے كہا _ على بن ابيطالب كا لقب ہے _

صيفى نے كہا _ اچھا وہ ہيں _

ايك طويل مدت تك ايسے ہى مكالمہ ہوتا رہا ، اخر زياد نے چھڑى منگوائي اور صيفى سے كہا كہ اب بتائو تمھارا على (ع) كے بارے ميں كيا خيال ہے _

صيفى نے كہا ، اس بندئہ خدا ميں جو خوبى ہو گى اسى كو بيان كرونگا _

زياد نے اپنے جلادوں سے كہا كہ اسكو اتنا مارو كہ انكى گردن ٹوٹ جائے ، ان لوگوں نے صيفى كى خوب پٹائي كى _

زياد نے پھر پوچھا ، اب على (ع) كے بارے ميں كيا كہتے ہو _

صيفى نے كہا خدا كى قسم ، اگر تم لوگ مجھے تلوار سے ٹكڑے ٹكڑے بھى كر دو گے تو وہى كہوں گا جو انكى خوبى كى علامت ہے _

زياد نے كہا _ اگر على (ع) پر نفرين نہيں كرو گے تو تمہارى گردن اڑا دو نگا _

صيفى نے جواب ديا _ تم ميرى گردن كو تن سے جدا كر سكتے ہو مگر جس چيز كو سننا چاہتے ہو اسكو ميرى زبان سے نہيں سن سكتے ہو ، ميں قتل ہو كر خوش نصيب بن جائو نگا اور تم قتل كر كے بدبخت ہو جائو گے _

يہ سننا تھا كہ زياد نے حكم ديا كہ اسكو زنجيروں ميں جكڑ كر قيد خانہ ميں ڈال ديا جائے اخر اس شخص ( صيفى ) كو بھى حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ شھيد كر ديا گيا(۵)

____________________

۵_ طبرى ج۶ ص ۱۴۹ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۴ ، اغانى ج ۱۶ ص ۷ ، ابن عساكر ج ۶ ص ۴۵۹

۱۸۳

،واقعہ يہ ہے كہ زياد نے حضر موت كے اطراف سے دو ادميوں كو معاويہ كے پاس بھيجا اور اس نے خط ميں يہ لكھا كہ يہ لوگ دين على (ع) اور انكے چاہنے والے ہيں _

معاويہ نے جواب ديا _ جو بھى دين على (ع) اور انكى اطاعت ميں ہے انكو قتل كر كے ان كى لاشوں كو پا ئمال كر دو _

زياد نے ان دونوں محبان على (ع) كو كوفے كے دار الامارہ پر سولى ديدى(۶)

ايك دوسرا خط معاويہ كے پاس يہ لكھا كہ ايك قبيلہ خثعمى كے فرد نے ميرے سامنے على (ع) كى مدح سرائي كى ہے اور عثمان كو

برے الفاظ سے ياد كيا ہے ، اس سلسلہ ميں تمھارا حتمى فيصلہ كيا ہے _

معاويہ نے جواب ديا _ اس شخص كو زندہ در گور كر دو ، زياد نے يہ كام معاويہ كے كہنے پر انجام ديا كہ لوگ خوف و دہشت كے مارے فضائل على (ع) كو بيان نہ كر سكيں(۷) _

مورخين نے زياد كى تباہكاريوں كے سلسلے ميں بہت كچھ تحرير كيا ہے خود ابن عساكر لكھتا ہے ، ايك روز زياد نے تمام اہل كوفہ كو دعوت دى جب مسجد كوفہ لوگوں سے بھر گئي تو زياد نے اس جم غفير كو حكم ديا كہ تم لوگ على (ع) پر نفريں كرو(۸) _

مسعودى لكھتے ہيں :

زياد نے اہل كوفہ كو اپنے قصر ميں بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ تم لوگ على (ع) كو برا بھلا كہو اور اپنے مامورين سے جتا ديا كہ اگر كوئي شخص على (ع) پر نفرين كرنے سے كترائے تو اسكى گردن فوراً اڑا دو مگر خوش قسمتى يہ رہى كہ اسى وقت مرض طاعون ميں مبتلا ہو گيا اور اس دنيا سے مر كھپ گيا اس طرح اہل كوفہ نے چين و سكون كى سانس لى(۹)

____________________

۶_ المحبر ص ۴۷۹

۷_طبرى ج۶ ص ۱۶۰ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۹ ، ا غانى ج ۱۶ ص ۱۰ ، ابن عساكر ج۲ ص ۳۷۹

۸_ ابن عساكر ج۲ ص ۵۱۷

۹_ مروج الذھب ج۳ ص ۳۰

۱۸۴

عمرو بن حمق خزاعى كى ذات وہ تھى جن كا شماربہادروں ميں ہوتا تھا ، مگر حاكم كوفہ زياد نے انكے قتل كا فرمان جارى كر ديا تھا ، يہ امام عليہ السلام پر تبرا نہ بھيجنے كے ڈر سے جنگل ميں جا كر چھپ گئے ، ليكن حاكم كوفہ ( زياد ) كے ظالم سپاہيوں نے انكو چراغ كے ذريعہ ڈھونڈھنا شروع كيا اخر كار عراق كے تپتا صحراء كے ايك غار ميں انكو گرفتار كر ليا گيا اور حاكم كوفہ كى خدمت ميں پيش كيا گيا ، مگر عمر و بن حمق خزاعى نے امام (ع) كو كچھ نہ كہا جسكے بدلے ميں انكو زياد نے قتل كر ديا پھر انكے سر كو معاويہ كے پاس بھيجا اس نے حكم ديا كہ اس سر كو بازار ميں لٹكا ديا جائے تاكہ لوگ اس سر سے عبرت ليں _

چند دنوں بعد اس سر كو عمرو بن حمق كى بيوى كے پاس بھيجا گيا جو خود اسى محبت على (ع) كيوجہ سے قيد خانہ كى صعوبتوں كو برداشت كر رہى تھيں ، جب انھوں نے اپنے شوہر كے كٹے ہوئے سر كو ديكھا تو حسرت و ياس كے مارے يہ كہا ، كتنا زمانہ ہو گيا كہ تم لوگوں نے ميرے شوہر كو مجھ سے چھڑا ديا تھا ، ليكن اب اسكے سر كو ميرى خدمت ميں تحفہ بنا كر پيش كرتے ہو ارے يہ تحفہ بڑا قيمتى _(۱۰) _

بلاد اسلامى كے منبروں سے امير المومنين پر نفرين

امام عليہ السلام كے اصحاب كو صفحہ ہستى سے مٹانے كى كوشش اور جھوٹى حديثوں كے ذريعہ نيك كردار كو بد نام كرنا نيز بد كردار كو نيك كردار كرنے كى سازش يہ سارى كى سارى معاويہ كى سياست تھى جو تمام بلاد اسلامى ميں اگ كى طرح پھيل چكى تھى ، زياد بن ابيہ اور معاويہ كے ديگر حكمرانوں نے اس سياست كو تر ويج دينے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا تھا اور اس سلسلہ ميں مورخين نے ان حكمرانوں كى زيادتيوں اور تباہكاريوں كو بيان بھى كيا ہے _

يہ تمام تباہكارياں اور گندى سياست بنى اميہ كے دور ميں ديكھنے ميں اتى ہے ، كيونكہ ان لوگوں نے مسلمانوں كے ذہن و دماغ كو اسى لئے حقائق سے دور ركھا تھا تاكہ تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا كہا جائے اور صرف ايك سيستان كا صوبہ تھا جو معاويہ كے حكم كو نہيں مان رہا تھا اور ايك مرتبہ كے علاوہ اہل سيستان نے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا نہيں كہا :

____________________

۱۰_ابن قتيبہ كى المعارف ص ۱۲۷ ، استيعاب ج۲ ص ۵۱۷ ، اصابہ ج۲ ص ۵۲۶ ، ابن كثير ج۸ ص ۴۸ ، المعبر ص ۴۹۰

۱۸۵

اس ايك مرتبہ كے بعد سيستانيوں نے اموى اركان خلافت سے عہد و پيمان كيا كہ ہم كو حضرت امير المومنين (ع) پر نفرين كرنے سے باز ركھا جائے ، درانحاليكہ اسى زمانے ميں شہر اسلامى كے دو مقدس ترين شھروں ( مكہ و مدينہ ) ميں منبروں سے امام (ع) پر لعنت بھيجى جا رہى تھى(۱۱)

ضمير فروش خطيبوں نے خاندان علوى (ع) كے سامنے امام (ع) بزرگوار پر لعن و طعن كى تھى جنھيں مورخين نے نقل كئے ہيں ،ليكن ميں ان تمام واقعات كو چھوڑتے ہوئے صرف ايك واقعہ پيش كر رہا ہوں _

ايك مرتبہ عمر و بن عاص نے منبر سے حضرت على (ع) كو خوب برا بھلا كہا ، جب يہ اترگيا تو اسكے بعد مغيرہ بن شعبہ منبر پر اگيا اور اس نے بھى امام (ع) كے حق ميں نا زيبا كلمات زبان پر جارى كئے ، درانحاليكہ اس مجلس ميں حضرت امام حسن مجتبى (ع) موجود تھے ، حاضرين نے امام (ع) سے ان دونوں ( عمر و عاص، مغيرہ ) كا جواب دينے كے لئے كہا :

انحضرت (ص) نے ايك صورت ميں جواب دينے كى پيشكش كو قبول كيا كہ اگر ميں حق بات كہوں تو تم سب ميرى تصديق كرنا اور اگر نا حق بات كہوں تو ( العياذ باللہ ) ميرى تكذيب كرنا ، امام عليہ السلام اس عہد و پيمان كے بعد منبر پر گئے اور حمدالہى كے بعد عمر واور مغيرہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ ، تم دونوں سے خدا كى قسم ديكر پوچھتا ہوں كہ آيا تم دونوں بھول گئے ہو جو رسول (ص) نے مہار پكڑنے والے كو اور مركب ہنكانے والے كو نيز سوار پر لعنت بھيجى تھى جن ميں ايك فلاں شخص ( معاويہ ) تھا(۱۲) _

حاضرين نے كہا اپ سچ كہتے ہيں :

دوسرى مرتبہ پھر عمر و عاص و مغيرہ كو مخاطب كرتے ہوئے كہا :

ايا تم دونوں كو معلوم نہيں ہے جو پيغمبر اسلام (ص) نے عمر و عاص كے ہر شعركے بيت پر لعنت بھيجى تھى(۱۳) ، تمام لوگوں نے كہا خدا كى قسم اپ سچ كہتے ہيں(۱۴) _

____________________

۱۱_ياقوت حموى ج۵ ص ۳۸ مطبوعہ مصر

۱۲_ سوار ابو سفيان، مہار تھامنے والا يزيد بن ابو سفيان نيز ہنكانے والا معاويہ تھا اور پيغمبر اسلام (ص) نے ان تينوں پر لعنت بھيجى تھي

۱۳_ عمر و عاص نے عصر جاہليت ميں ايك قصيدہ رسول (ص) كى مذمت ميں كہا تھا انحضرت نے بد دعا كر كے خدا وند عالم سے درخواست كى كہ اسكے ہر بيت پر ايك لعنت بھيجے

۱۴_ تطہير اللسان ص۵۵

۱۸۶

ليكن جو مومن اور اہلبيت عليہم السلام كے چاہنے والے تھے كبھى بھى خطبوں ميں نيز جس نشست ميں على (ع) كو برا بھلا كہا جاتا تھا اس ميں شريك نہيں ہوتے تھے ، اور قبل اسكے كہ خطبہ ديا جائے مسجد كو چھوڑ ديتے تھے _

يہى وجہ تھى جو معاويہ كے حكمرانوں نے حكم خدا و رسو ل(ص) كو بدل ديا تھا ، اور جس نماز ميں پہلے خطبہ تھا اسكو بعد ميں پڑھا گيا _

كتاب محلى ميں ابن حزم رقمطراز ہيں :

بنى اميہ كى حكومت ميں سب سے پہلے جو كام انجام ديا گيا وہ يہ تھا كہ خطبہ نماز كو نماز پر مقدم كر ديا گيا ، ان لوگوں نے اپنے نا مشروع فعل كى توجيہ و تاويل اس طرح كى كہ لوگ نماز ختم ہونے كے بعد چلے جاتے ہيں اور خطبہ كو نہيں سنتے ہيں _

ليكن حقيقت تو يہ ہے كہ ان لوگوں نے اتنا على (ع) كو برا بھلا كہا كہ نمازى اپنى نماز تمام كر كے مسجد سے بھاگ جاتے تھے اور مسلمان كا يہ فعل صحيح معنوں ميں درست و حق تھا(۱۵)

صحيح بخارى اور صحيح مسلم نيز حديث كى دوسرى معتبر كتابوں ميں ابو سعيد خدرى سے يوں نقل ہوا ہے _

ميں ( سعيد ) حاكم مدينہ مروان كے ساتھ عيد الاضحى يا عيد الفطر كى نماز عيد گاہ ميں پڑھنے گيا ، كثير بن صلت كے بنائے ہوئے منبر كے قريب جيسے ہى مروان پہونچا تو اس پر چڑھ گيا اور نماز سے پہلے خطبہ دے ڈالا ، ميں نے اسكو لاكھ روكا مگر وہ نہ مانا ، جب خطبہ ديكر مروان نيچے اترا تو ميں نے اس سے كہا كہ خدا كى قسم ، تم نے تو دين و شريعت كو بدل ڈالا ہے

مروان نے كہا ، اے ابو سعيد جن چيزوں كو تم بنام دين سمجھتے ہو وہ تمام كى تمام دنيا سے اٹھ گئي ہيں _

ابو سعيد نے كہا ، خدا كى قسم ، ان بدعتوں سے بھتر يہ تھا كہ كچھ جانتے ہى نہيں ، مروان نے كہا ، اگر نماز سے پہلے خطبہ نہ ديتے تو لوگ ميرے خطبے كو ہرگز نہيں سنتے اسى وجہ سے ميں نے نماز سے پہلے خطبہ ديديا ہے(۱۶)

____________________

۱۵_ محلى ج۵ ص ۱۸۶ ، امام شافعى ج۱ ص ۲۰۸

۱۶_بخارى ج۲ ص ۱۱۱ ، مسلم ج۳ ص ۲۰ ، سنن ابى داو د ج۱ ص ۱۷۸ ، ابن ماجہ ج۱ ص ۳۸۶ ، بيہقى ج۳ ص ۲۹۷ ، مسند احمد ج۳ ص ۲۰

۱۸۷

بعض لوگوں كا لعنت سے گريز خلافت اموى كے حكام و مامورين نے صرف عام لوگوں سے حضرت على (ع) پر لعنت نہيں بھجوائي ، بلكہ اصحاب رسول (ص) جو اسلام كى معرفت ركھنے كيوجہ سے زيادہ مستحق پيروى تھے ان سے بھى كہا كہ ميرے حكم كو مانيں اور على (ع) پر لعنت بھيجيں _

سہل بن سعد كہتے ہيں :

ايك روز ال مروان(۱۷) كے ايك حاكم نے مدينہ ميں مجھے طلب كيا اور ہم سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، ميں نے حاكم مدينہ كى بات كو ٹھكرا ديا _

حاكم نے كہا اچھا ابو تراب(ع) پر لعنت بھيج دو _

سہل نے كہا ، حضرت على (ع) كو سارے ناموں ميں سب سے زيادہ محبوب نام ابو تراب(ع) تھا اور جب لوگوں نے اس نام سے ياد كيا تو اپ بہت خوش ہوئے _

حاكم مدينہ نے كہا _ مجھے اس نام كى داستان سے مطلع كرو اور خوش ہونے كا سبب بتائو ، ميں نے كہا ايك مرتبہ پيغمبر(ص)

اسلام جناب سيدہ(ع) كے گھر تشريف لائے اور على (ع) كو وہاں موجود نہ پاكر اپنى بيٹى سے پوچھا كہ تمھارے چچا زاد بھائي كہا ں ہيں _

فاطمہ(ع) نے كہا كہ ميرے اور ان كے درميان تھوڑا سا سخت كلامى ہو گئي ہے اور اسكے بعد انھوں نے گھر ميں ارام نہيں كيا اور باہر چلے گئے _

انحضرت (ص) نے ايك شخص سے كہا كہ جا كر ديكھوكہ على (ع) كہا ں ہيں اس نے جب مسجد ميں حضرت على (ع) كو ليٹے ہوئے ديكھا تو رسول اكرم (ص) سے جا كر كہا كہ وہ مسجد ميں سو رہے ہيں ، جب رسول اكرم (ص) نے على (ع) كو خاك ميں اٹے ہوئے ديكھا تو بڑى مہر بانى سے انكے جسم سے خاك كو جھاڑا اور كہا ، اٹھو ابو تراب ، اٹھو ابو تراب(۱۸)

____________________

۱۷_مقصود مروان بن حكم ہو گا

۱۸_صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۴

۱۸۸

ابو تراب كے معنى مٹى كو دوست ركھنے والا ہے بنى اميہ نے يہ گمان كر ليا تھا كہ على (ع) كى يہ كيفييت ذليل و حقير ہے درانحاليكہ انكو يہ بھى نہ معلوم ہو سكا كہ يہ لقب خود على (ع) كے كمال كى دليل ہے جو اس طرح رسول (ص) اپ سے لطف و مہربانى سے پيش ارہے تھے ، ورنہ بنى اميہ لوگوں سے يہ نہ كہتے كہ ابو تراب(ع) پر لعنت بھيجو _

عامر بن سعد جو خود اس واقعہ كا چشم ديد گواہ ہے كہتا ہے :

ايك مرتبہ معاويہ نے ميرے باپ ( سعد ) كو اپنى خدمت ميں بلايا اور ان سے كہنے لگا كہ تم على (ع) كو برا بھلا كيوں نہيں كہتے ہو ؟

ميرے باپ نے جواب ديا كہ _ اے معاويہ جب تك مجھے يہ تين حديثيں ياد رہيں گى كبھى على (ع) كو برا بھلا نہيں كہہ سكتا ، اور رسول (ص) كى يہ حديثيں ميرى نظر ميں عرب كے سرخ رنگ كے اونٹوں سے زيادہ قيمتى ہيں _

۱_ جب رسول (ص) ايك جنگ ( تبوك ) ميں جا رہے تھے اور على (ع) كو ساتھ نہ لے گئے اور انكو شہر مدينہ كے منافقوں سے نپٹنے كے لئے چھوڑ ديا تھا تو اس وقت على (ع) نے بہت گريہ كيا اور انحضرت (ص) سے فرمايا : اے رسول(ص) خدا مجھے عورتوں اور بچوں كے درميان چھوڑ كر جاتے ہيں تو ميں نے اپنے كانوں سے رسول(ص) اكرم كو يہ فرماتے ہوئے سنا تھا ''اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الّا انه لا نبى بعدى ''

ترجمہ : آيا تم راضى نہيں ہو كہ تمھارا وہى مرتبہ ہے جو موسى كے لئے ہارون كا تھا فرق اتنا ہے كہ ميرے بعد كوئي نبى ہونے والا نہيں ہے _

۲_ دوسرى مرتبہ جنگ خيبر ميں كہتے ہوئے سنا تھا''لاعطينّ الراية غدا رجلا ً يحب الله و رسوله و يحبه الله و رسوله ''

ترجمہ : كل ميں اس مرد كو علم دوں گا جو خدا و رسول كو دوست ركھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اسے دوست ركھتے ہيں ،ہم تمام لوگ گردنوں كو بلند كر كے رسول (ص) خدا كو ديكھنے لگے اپ (ص) نے فرمايا : على (ع) كہاں ہيں ؟

۱۸۹

حاضرين ان كو بلانے كے لئے دوڑے جبكہ على (ع) كے انكھوں ميں شديد درد تھا وہ اسى حالت ميں پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں لائے گئے ، انحضرت (ص) نے ان كى انكھوں ميں اپنا لعاب دہن لگايا پھر علم جنگ انكے ہاتھوں ميں ديا جسكے بعد خدا وند عالم نے انكو فتحيابى سے ہمكنار كيا _

مجھے وہ بھى وقت ياد ہے جب يہ آيت نازل ہوئي تھى ،كہ''فقل تعالوا ندع ابنا ئنا الخ_

ترجمہ : پس ان سے كہو كہ ائو اس طرح فيصلہ كر ليں كہ ہم اپنے بيٹوں كو لاتے ہيں تم اپنے بيٹوں كو لائو ، پيغمبر(ص) اسلام نے على (ع) ، فاطمہ(ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) كو بلايا اور كہا ، اے ميرے مالك يہى ہمارے اہلبيت(ع) ہيں _

مسعودى سعد بن وقاص اور معاويہ كى ملاقات كو طبرى سے يوں نقل كرتا ہے _

جب معاويہ حج كرنے كے لئے مكہ آيا تو سعد بن وقاص سے طواف كعبہ كے وقت ملاقات ہوئي ، جب طواف كر چكا تو سعد كو ليكر دار الندوہ ( جو عصر جاہليت ميں بزرگان قريش كے اجتماع كى جگہ تھى ) آيا اور سعد سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، معاويہ كى اس بات پر سعد كو اتنا غصہ آيا كہ اپنى جگہ سے كھڑے ہو گئے اور كہا :

اے معاويہ ، تو مجھے اسى لئے ليكر آيا ہے تاكہ على (ع) جيسے شخص پر لعن و طعن كروں خدا كى قسم ، اگر على كے فضائل و كمالات ميں سے ايك فضيلت ميرے اندر ہوتى تو دنيا كى تمام چيزوں سے زيادہ محبوب و قيمتى ہوتى(۱۹)

مسعودى نے اس واقعہ كو لكھنے كے بعد ايك عبارت پيش كى ہے جو اس واقعہ سے تھوڑا سا فرق ركھتى ہے_

سعد نے معاويہ سے كہا كہ ، خدا كى قسم ، جب تك زندہ رہو نگا تيرے گھر ميں قدم نہيں ركھوں گا يہ كہا اور اٹھ كھڑے ہوئے(۲۰)

ابن عبد ربہ اندلسى اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں :

امام حسن (ع) مجتبى كى شہادت كے بعد معاويہ خليفہ بن كر مكہ حج كرنے گيا پھر مدينہ كى طرف رخ كيا اسكى اس سفر ميں يہ خواہش تھى كہ مسجد النبوى (ص) كے منبر سے على (ع) كو برا بھلا كہے_

____________________

۱۹_صحيح مسلم ج۷ ص ۱۲۰ ، ترمذى ج ۱۳ ص ۱۷۱ ، مستدرك ج۳ ص ۱۰۹ ، اصابہ ج۲ ص ۵۰۲

۲۰_مروج الذھب ج۳ ص ۲۴

۱۹۰

معاويہ كے اطرافيوں نے اس سے كہا ، اس شہر ( مدينہ ) ميں فاتح ايران اور با عظمت صحابى سعد بن وقاص رہتے ہيں ، وہ اس كام كو ہرگز ہونے نہيں ديں گے لہذا بہتر يہى ہے كہ انكے پاس جا كر ان سے پوچھ ليا جائے _

مامورين معاويہ، سعد كے پاس گئے جيسے ہى انھوں نے سنا تو ان لوگوں سے كہا _ اگر اس كام كو انجام ديا گيا تو ياد ركھو جس مسجد كے در سے على (ع) كو برا بھلا كہا گيا اس در ميں ہرگز قدم نہيں ركھےں گے_

يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب ہميں يہ معلوم ہو جائے كہ مدينہ ميں مسجد نبوى (ص) كے بارے ميں گفتگو ہوئي تھى يا كوئي اور مسجد تھى _

معاويہ سعد كے نفوذ كے سامنے مات كھا گيا اورجب تك وہ زندہ رہے معاويہ اس كام كو انجام نہ دے سكا _

ليكن جب سعد بن وقاص اس دنيا سے چلے گئے تو معاويہ نے مدينہ كے اندر بار ديگر سعى و كوشش كى اور امام على (ع) كو مسجد نبوى (ص) كے منبر سے گالى دي_

يہى وہ دور تھا جس ميں معاويہ نے اپنے تمام كارندوں كو خط لكھا اور حضرت على (ع) پر تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے لعن و طعن كروائي _

زوجہ رسول (ص) ام سلمى نے كئي خطوط معاويہ كے پاس بھيجے جن ميں ان باتوں كو لكھا اے معاويہ ، تو تمام منبروں سے على (ع) اور انكے ساتھيوں پر نفرين كروا رہا ہے جبكہ يہ نفرين خدا و رسول (ص) پر ہو رہى ہے _

ميں قسم كھاتى ہوں كہ خدا اور پيغمبر(ص) اسلام اسكو دوست ركھتے تھے ، مگر ام سلمى كے خط نے كوئي خاص اثر معاويہ پر نہيں ڈالا

۱۹۱

بلكہ اس نے ان خطوط كو ردى كى ٹوكرى ميں ڈال ديا تھا _(۲۱) _

معاويہ كا اخرى ہدف

جب بھى معاويہ اپنے حسب و نسب اور اپنے خاندان كے كرتوت پر (جو اسلام كے مقابلے ميں جنگ كى تھى )نظر دوڑاتا تھا تو شرم و حياء كے مارے اسكا سر جھك جاتا تھا اور يہ تمام چيزيں اسكى حيرانى و پريشانى كى باعث بن جاتى تھيں ، كيونكہ ايك طرف اسلام نے اس كو اور اسكے خاندان كو ضرب كارى لگا كر ذلت و رسوائي كے كھنڈر ميں ڈال ديا تھا _

دوسرى طرف اس كے ديرينہ رقيب بنى ہاشم شہرت كے فلك چہارم پر جا رہے تھے ، يہ تمام مشكلات اسكے ذہن و دماغ پر پہاڑ كى طرح بوجھ بنى ہوئي تھى ، جنكو ہلكا كرنے كے لئے اس نے اصحاب پيغمبر (ص) سے جنگ كى تھى _

ليكن ان تمام جنگوں ميں امير شام معاويہ كى يہى كوشش رہى كہ كہيں سے اپنے كينے كا اظہار نہ ہو كيونكہ ابھى حكومت نئي ہے ورنہ جان و مال خطرے ميں پڑ جائے گا ، ليكن جب ايك دن مغيرہ بن شعبہ كے ساتھ تنہائي ميں بيٹھا، چونكہ دونوں عصر جاہليت سے اپس ميں دوست تھے نيز سالہا سال دونوں سياہكاريوں و تباہكاريوں ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹا رہے تھے تو معاويہ نے اپنى سياست كو فاش كر ديا _

كتاب الموفقيات ميں زبير بن بكار ، مطرف بن مغيرہ ، سے نقل كرتے ہيں ، ميں اپنے والد (مغيرہ ) كے ساتھ شام گيا ہم دونوں كا قيام معاويہ كے يہاں تھا ميرے والد ہر روز امير شام معاويہ كے پاس جا يا كرتے تھے اور جا كر گھنٹوں باتيں كيا كرتے تھے اور جب معاويہ كے پاس سے اتے تھے تو سارى باتوں كو بيان كرتے تھے _ايك دن معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے كھانا حاضر كيا ، ليكن انھوں نے نہيں كھايا ، ميں اپنے دل ميں سوچنے لگا كہ كہيں ہم سے كوئي خطا تو سرزد نہيں ہو گئي ہے _

لہذا ميں نے اپنے باپ ( مغيرہ ) سے سوال كيا كہ اج كى شب اپ كيوں اتنا كبيدہ خاطر ہيں _

____________________

۲۱_عقد الفريد ج۳ ص ۱۲۷

۱۹۲

ميرے باپ نے جواب ديا كہ ، اے ميرے لال ، اج ہم خبيث ترين و كافر ترين شخص كے پاس سے ارہے ہيں _

ميں نے پوچھا وہ كون ہے ؟

ميرے باپ نے كہا ارے وہى معاويہ ہے اج اسكى مجلس اغيار سے خالى تھى ، تو ميں نے اس سے كہا كہ اے امير المومنين اپ تو اپنے ہدف تك پہونچ گئے ہيں _

لہذا اس بوڑھاپے ميں عدل و انصاف سے كام ليجئے اور اپنے رشتہ داروں ( بنى ہاشم ) پر رحم و كرم كيجئے تاكہ لوگ اپكى تعريف و تمجيد كريں _

خدا كى قسم ، اب ان لوگوں سے كسى چيز كا خوف نہيں ہے _

اس پر معاويہ نے كہا ، جو كچھ تم نے كہا ہے بہت مشكل ہے ، ابو بكر تخت خلافت پر آئے عدل و انصاف كيا تمام زحمتوں كو برداشت كيا مگر خدا كى قسم ، ايك موذن بھى ان كا نام اذان ميں نہيں ليتا ہے _

عمر خليفہ بنے دس سال كى طويل مدت تك سختيوں كو جھيلا مرنے كے بعد كوئي بھى ان كا نام ليوا نہيں ہے _

اخر ميں ہمارے بھائي عثمان تخت خلافت پربرا جمان ہوئے جو نسب كے اعتبار سے كوئي بھى ان كا ہم پلہ نہيں ہے اور جو كچھ كرنا تھا انھوں نے انجام ديا ليكن ان كے ساتھ كيسا حادثہ پيش آيا جسكى وجہ سے مار ڈالے گئے ، مگر ان كا بھى كوئي نام نہيں ليتا ہے ، اور لوگوں نے انكى كار كردگى كو بالائے طاق ركھ ديا ہے درانحاليكہ اس مرد ہاشمى ( محمد(ص) ) كا نام موذن ہر روز پانچ مرتبہ تمام بلاد اسلامى كے گلدستہ اذان سے ليتا ہے كہ

اشھد ان محمد رسول(ص) اللہ_

اے مغيرہ تم ہى فيصلہ كرو كہ ايسى صورت ميں كون سا اچھا كام اور كس كا نام باقى رہ سكتا ہے _

خدا كى قسم ، جب تك اس نام كو نہ مٹادونگا اس وقت تك چين و سكون سے نہيں بيٹھوں گا(۲۲) رسول خدا (ص) كى شہرت

عامہ سے معاويہ كا سينہ اگ كى بھٹى ہو رہا تھا ( كيونكہ معاويہ كے بھائي ، ماموں اور دوسرے رشتہ داروں كو جنگ بدر ميں مارا تھا ) لہذا اس نام كو مٹانے كے لئے اس نے ان دو سياستوں انتخاب كيا ، اسكى پہلى سياست يہ تھى جس كا خلاصہ يہ ہے ، كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى زمين پر زندہ نہ رہے يہ بات صرف ميں نہيں كہہ رہا ہوں ، بلكہ اسكى وضاحت خود مولائے

____________________

۲۲_مروج الذھب ج ۹ ص ۴۹ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۴۶۳

۱۹۳

كائنات امير المومنين (ع) نے بھى كى ہے كہ خدا كى قسم معاويہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى روئے زمين پر باقى نہ رہے اور خدا كا نور بجھ جائے درانحاليكہ خدا وند عالم اپنے نور كو تمام عالم ميں پھيلا كر رہے گا چاہے كافروں كو برا ہى كيوں نہ لگے(۲۳)

معاويہ كى دوسرى سياست يہ تھى كہ بنى ہاشم كے نام و نشان كو صفحہ ہستى سے مٹا ديا جائے اسى لئے جھوٹى حديثوں اور سيرت و تاريخ كا ايك بڑا كارخانہ كھولا تاكہ ان كى منقصت كر كے كردار كو بد نام كر ديا جائے اور بنى اميہ كى فضيلت و منزلت كا پر چار كيا جائے ، يہى وجہ تھى كہ اس نے رسول (ص) كى لعنت والى حديث جو خود اسكے اور ابو سفيان يا خاندان اموى كى كسى ايك فرد جسيے عمر و بن عاص كے سلسلے ميں تھى كے مقابلے ميں رسول اسلام (ص) سے جھوٹى حديث منسوب كر كے لوگوں كے درميان پر چار كرائي كہ ، بارالہا ميں انسان ہوں _

اگر غصے كى حالت ميں كسى پر غلطى سے لعنت بھيجدى ہے يا اسكى مذمت كر دى ہے تو اس لعن و تشنيع كے بدلہ ميں اسكے گناہوں كو معاف كر دے تاكہ پاك و پاكيزہ ہو جائے _

ان جعلى حديثوں نے معاويہ كے حق ميں شمشير برّان كا كام كيا ، ايك طرف رسول اكرم (ص) نے جو كچھ ا س كے يا اس كے خاندان والوں كے سلسلے ميں كہا تھا جو حقيقت ميں سچ تھا ان حديثوں سے اس نے داغدار دامن كو پاك و صاف كر ليا _

دوسرى طرف پيغمبروں (ص) كو ايك معمولى انسان دكھايا كہ انھوں نے جو كچھ كہا تھا وہ سب غصے ميں كہا ، جبكہ اپ لوگ اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ خدا وند عالم نے اپنے رسول(ص) كے اخلاق و كردار كى كتنى تعريف و تمجيد كى ہے ، اور انكو انك لعلى خلق عظيم سے ياد كيا ہے ، اور اپكے متعلق سورہ ال عمران ميں ارشاد فرمايا ہے ، ''فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو كنت فظا غليط القلب لا نفضوا من حولك ''نيز دوسرى جگہ كہا كہ ، انكى تمام باتيں وحى الہى كا سر چشمہ ہيں '' وما ينطق عن الھوى ان ھو الّا وحى يوحى '' سورہ نجم آيت۳_۳

معاويہ كى اس برى سياست كو ہر كس و نا كس نہيں سمجھ پايا تھا يہى وجہ تھى جو سادہ لوح افراد تھے اور وہ اپنى ذات سے بے بہرہ تھے اسكى آواز پر دوڑنے لگے ، اور معاويہ كى ہاں ميں ہاں ملانے لگے ، اور جو ضمير فروشوں نے اسكے حكم سے بناوٹى حديثيں تيار كى تھيں انھيں ہر جگہ بيان كرنے لگے اگر چہ معاويہ نے اپنے اندر ونى كينے كو لوگوں كے سامنے ظاہر نہيں كيا

____________________

۲۳_ مروج الذھب ج۳ ص ۲۸

۱۹۴

ليكن اپنى نا پاك تمنائوں كو كھلے عام انجام ديا ہاں ،اس نے ايك طرف عثمان اور ان كے ہمراہيوں كا كھل كر ساتھ ديا_ اور دوسرى طرف على (ع) اور ان كے خاندان والوں نيز ان كے چاہنے والوں پر كہ جنھوں نے اس كى سياہكاريوں ميں ہاتھ نہيں بٹايا تھا ظلم و ستم كا پہاڑ ڈھايا ، اور كسى كو اذيت دى تو كسى كو قيد خانے ميں ڈلوايا تو كسى كو زندہ در گور كيا گيا ، ہمارى بحث كى محور ام المومنين عائشه كى ذات ہے كہ جس وقت انسانيت سولى پر چڑھائي جا رہى تھى اور شيعيان على (ع) كو شكنجوں اور قيد خانوں كى اذيتوں ميں مبتلا كيا جا رہا تھا اپ اسوقت بھى اركان حكومت اموى كى نظر ميں باعث صد احترام تھيں اور معاويہ نے جو امير المومنين (ع) سے جنگ كى تھى تو اس ميں بھى اپ نے معاويہ ہى كا ساتھ ديا تھا ،جب اپ حضرات نے يہاں تك ان كى كاركردگى كو ملاحظہ فرما ليا تو اس بات كو بھى ذہن نشين كر ليجئے كہ انھوں نے معاويہ كى جعلى حديثوں كے كار خانے ميں كتنا حصہ ليا ہے_

سعد بن ہشام نے حكيم بن افلح سے عائشه كے گھر جانے كو كہا ، اس نے كہا كہ ہم ان كے يہاں ہر گز نہيں جائيں گے ، ميں نے عائشه كو جب دو گروہوں (حزب علوى اور حزب عثمان ) ميں اختلاف چل رہا تھا تو ان كو مداخلت كرنے سے منع كيا ليكن انھوں نے ميرى بات نہيں مانى اور اپنى ڈگر پر چلتى رہيں(۲۴) يہ جو افلح نے عائشه كے بارے ميں كہا كہ حزب علوى (ع) اور حزب عثمان كے اختلاف ميں مداخلت كي، اس كا مطلب كيا ہے ؟

اپ نے پہلے ديكھا نيز ائندہ ملاحظہ فرمائيں گے كہ عائشه نے ان حالات ميں عثمان كے پارٹى كى خوب تعريف و تمجيد كى اور ان كے حق ميں رسول اسلام(ص) سے جھوٹى حديثوں كو منسوب كر كے بيان كيا تھا _

انھوں نے حزب علوى (ع) كى خدمت ميں يقيناً حديثيں گڑھى ہو نگى ، ان ہى باتوں كى وجہ سے حكيم افلح نے انكو منع كيا ليكن انھوں نے اسكى بات پر كان نہيں دھرا _

عائشه كى ايك حديث

احمد بن حنبل اپنى مسند ميں نعمان بن بشير سے نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے مجھے ايك خط ديكر عائشه كے يہاں بھيجا ، ميں نے اس خط كو عائشه كى خدمت ميں پيش كيا تو اپ نے فرمايا ، اے ميرے لال ، ميں نے جو كچھ پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے اس كو تم سے بيان نہ كروں ؟

___________________

۲۴_مسند احمد ج۶ ص ۵۶ ، تہذيب التہذيب ج۲ ص ۴۴۴

۱۹۵

نعمان نے كہا ، ضرور بيان كيجئے :

عائشه نے كہا ، ايك روز ہم اور حفصہ رسول (ص) كى خدمت ميں بيٹھى ہوئي تھى كہ اپ(ص) نے فرمايا كہ كتنا اچھا ہوتا كہ كوئي بات كرنے والا اجاتا _

عائشه نے كہا اے رسول خدا (ص) ہم اپنے باپ ( ابو بكر ) كو بلا ديں

انحضرت (ص) نے كچھ جواب نہيں ديا

رسول (ص) نے بار ديگر اپنى خواہش بيان كى حفصہ نے كہا ہم اپنے باپ ( عمر )كو بلاديں حضور (ص) خاموش رہے _

اس كے بعد رسول اسلام (ص) نے ايك شخص كو بلايا اور چپكے سے اسكے كان ميں كچھ كہا وہ ادمى چلا گيا ، تھوڑى دير بعد عثمان اگئے ، انحضرت(ص) نے ان سے خوب باتيں كيں ، گفتگو كے درميان ميں نے سنا كہ حضور(ص) يہ فرما رہے ہيں _

اے عثمان ، عنقريب خدا وند متعال تمہارے جسم پر ايك لباس ( خلافت ) پہنانے والا ہے اگر لوگوں نے اس لباس كو تم سے چھيننے كى كوشش كى تو تم اسكو ہر گز نہ اتارنا _

رسول(ص) خدا نے اس فقرے كو تين بار دہرايا

نعمان بن بشير كہتا ہے كہ ميں نے كہا :

اے ام المومنين يہ حديث عثمان كى مخالفت كرتے وقت اور لوگوں كو انكے خلاف بھڑكاتے وقت ياد نہيں رہى تھى _

عائشه نے كہا اے نعمان ميں اسكو ايسا بھول گئي تھى گويا كبھى سنا ہى نہيں تھا(۲۵)

يہ واقعہ اس زمانہ ميں پيش آيا كہ خليفہ وقت معاويہ نے عائشه كو خط لكھا اور نعمان اس كو ليكر گيا اور يہ اس كا منتظر ہے كہ يہ

جواب ديں ايسے وقت ميں رسول (ص) كى ايك حديث عائشه كو ياد ائي ہے اور قاصد سے بيان فرمائي كہ رسول (ص) نے عثمان كے بارے ميں وصيت كى تھى كہ ائندہ كا خليفہ عثمان ہے پھر لباس خلافت كو ہرگز جسم سے نہ اتارنا _

غور طلب بات يہ ہے كہ اس خط سے حديث كا كيا ربط ہے ؟

ايا معاويہ نے اپنے خط ميں ان سے سفارش كى تھى كہ عثمان كا دفاع كريں ؟

__________________

۲۵_مسند احمد ج۶ ص ۱۴۹

۱۹۶

يا يہ كہ جب قاصد امير شام معاويہ كے يہاں پلٹ كر جائے تو انكى حديث كو معاويہ سے بيان كرے ؟

يا كوئي دوسرى بات تھى ؟

ايا ممكن ہے كہ جو عائشه ايك طويل مدت تك عثمان سے جھگڑا كرتى رہيں اور لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكاتى رہيں يا اسى قسم كى دوسرى باتيں جو معاويہ كے زمانے ميں پيش ائيں ، اور لوگوں سے بيان كيا تھا اسكى وجہ صرف اتنى ہے كہ معاويہ كے زمانے ميں عائشه ايك كنيز كى طرح زندگى گذار رہى تھيں _

اور جو كچھ جھوٹى حديثيں اپنے باپ يا عمر و طلحہ نيز خاندان كى فضيلت ميں بيان كى تھى اسكى وجہ يہ تھى كہ معاويہ كى حديث گڑھنے والى سياست كو كامياب بنا كر اس كو خوش كرنا تھا اور اس سلسلہ ميں انھوں نے اپنے رشتہ دار اور چاہنے والوں كے فضائل كو نشر كرنے ميں ايڑى چوٹى كا زور بھى لگايا تھا اسى لئے محاورہ بھى ہے كہ جسكو چوٹ لگتى ہے اسى كو درد ہوتا ہے '' ليست الثكلى المستاجرہ ''

ہم نے ان بحثوں ميں نہ كسى كے فضائل كو بڑھا چڑھا كر بيان كيا ہے اور نہ ہى ميرا مقصد كسى كى عيب جوئي كرنا تھا ، بلكہ ہمارا واحد ہدف يہ تھا كہ ان حديثوں كى جانچ پڑتال كى جائے جو رسول اسلام (ص) سے جھوٹ منسوب كر كے بيان كى گئي ہيں جسكو انشاء اللہ اس كتاب كى اخرى بحث ميں ملاحظہ فرمائيں گے _

تحقيق اور نتيجہ

ہم نے اس سے پہلے زندگانى عائشه كى اچھى طرح تحقيق كى تاكہ ان كى سياسى و اجتماعى اور معاشراتى كارناموں كے ساتھ انكے اغراض و مقاصد سامنے اجائيں ، اب اس كے پس منظر ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا كہ وہ كون سى چيز باعث بنى جنھوں نے حديث نقل كرنے پر بر انگيختہ كيا تھا _

اگر اس كا خلاصہ كيا جائے تو يہ ہو گا كہ ، عائشه ايك تيز طرار عورت كے ساتھ ساتھ ايك بہترين خطيبہ تھيں جس كے ذريعہ عالم و جاہل سب كے افكار و قلوب كو جذب كر ليتى تھيں ، ايك بہترين سياستدان تھيں جس كى وجہ سے لشكر عظيم كو كنٹرول كر ليتى تھيں ، ان كا عوام ميں اتنا اثر و رسوخ تھا كہ ايك اشارے پر لوگوں كو خليفہ وقت كے خلاف ايسا بھڑكا ديا كہ انھوں نے اسكى بساط حكومت كو پلٹ ديا _

۱۹۷

عائشه جاہ و حشم كى بھوكى عورت كا نام ہے جس كو حاصل كرنے ميں كسى چيز سے خوف نہيں كھايا تھا ، بلكہ كسى نہ كسى طرح اس كو حاصل كر كے رہيں ، انھوں نے اپنے چاہنے والوں كے ساتھ اتنا مہربانى كى كہ حد سے اگے بڑھ گئيں _

اپنے خاندان اور اپنے مخالفوں كى نسبت اتنى كينہ توز تھيں كہ ان كے دشمنوں سے مرنے مارنے پر اجاتى تھيں ، المختصر يہ كہ ايسى عورت تاريخ ميں ڈھونڈھنے سے بھى نہ ملے گى ، اگر كوئي بات اپنے خاندان يا چاہنے والوں كے حق ميں كہہ دى تو وہ سب كے زبان پر چڑھ جاتى تھى ، اور تاريخ كے صفحات ميں زندہ جاويد ہو جاتى تھى تاكہ لوگوں كے لئے مشعل راہ بن جائے اور انے والى پيڑياں انكى معرفت و شہرت سے پہچان ليں _

اگر كوئي بات اپنے دشمنوں كو شكست دينے كے لئے بيان كر دى تو تاريخ نے ہميشہ كےلئے اپنے دامن ميں جگہ ديدى ، يا يوں كہوں كہ اگر اس نے كسى كى حمايت يا مخالفت ميں كوئي بات كسى سے كہہ ڈالى تو يہ بات مسافروں و كاردانوں كے ذريعہ ايك دوسرے تك پہونچ جاتى تھى اور لوگ اس كو حديث سمجھ كر ايك شہر سے دوسرے شہر تحفہ سمجھ كرلے جاتے تھے اخر ميں يہ باتيں كتابوں ميں منتقل ہو گئيں اور انے والى نسلوں نے ان باتوں كو حديث كا نام دے ديا _

يہ تمام باتيں خود ام المومنين عائشه كى عظمت و منزلت كى بڑى دليليں ہيں ، ہم نے جب عائشه كے چہرے كو تاريخ كى حقيقت ميں ديكھا اور جن لوگوں نے ان كى ذات كو عظمت كے سانچے ميں ڈھال كے پيش كيا تو ان دونوں ميں بہت

۱۹۸

فرق پايا ، ليكن جن لوگوں نے ان كى عظمتوں كا گيت گايا ہے ان سے ميرى ايك درخواست ہے كہ عائشه كے بطن سے ايك رسول (ص) كا بيٹا دكھا ديجئے ، البتہ يہ دونوں فضيلتيں حقيقت سے كوسوں دور ہيں _

ہميں صدر اسلام كى شخصيتوں كى اپنى طرف سے تعريف نہيں كرنى چاہيئے ، كيونكہ ايسى صورت ميں مدح و ثنا ء ايك خيالى ہو كر رہ جائيگى جسكى كوئي حيثيت نہيں ہے ، ہمارى پيش كى ہوئي سارى باتيں حقيقت سے تعلق ركھتى ہيں _

زندگانى عائشه كى تحقيق كا مقصد ہم نے بارہا كہا اور اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ام المومنين عائشه نے اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے دو زبردست چيزوں كا سہارا ليا تھا _

۱_ عائشه نے اپنى پورى زندگى ميں زوجہء رسول (ص) نيز ام المومنين كے لقب كا سہارا ليا اور اس سے اپنى طرف لوگوں كى توجہ مبذول كروائي ، اور اس موثر حربے كو استعمال كر كے اپنے مخالفوں كى زد و كوب كى اور اپنے چاہنے والوں كى ہمت افزائي كى _

۲_ وقت كى نزاكت كو ديكھتے ہوئے پيغمبر(ص) اسلام سے ان كى حديث نقل كى ، يا اپنى قابليت جھاڑنے كے لئے زوجيت كا فائدہ اٹھا كر جھوٹى حديثيں گڑھيں ، عائشه نے جن جگہوں پر رسول (ص) كى بيوى ہونے كے ناطے فائدہ اٹھايا ہے اس كو اس مختصر بحث ميں بيان كرنا بہت مشكل ہے ، ليكن نمونے كے طور پر دو تين حديثيں پيش كر رہا ہوں _

۱_ مسلم اپنى صحيح ميں نقل كرتے ہيں :

عائشه فرماتى ہيں : جب رسول خدا (ص) بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے ہم سے فرمايا:

اے عائشه _ اپنے باپ ( ابو بكر )اور بھائي كو بلا لائو تاكہ ايك وصيت لكھدوں كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں لوگ ارزو نہ كرنے لگيں اور كہنے والے يہ نہ كہنے لگيں كہ ميں خلافت كا زيادہ مستحق تھا ، درانحاليكہ ، خدا اور مومنين ابو بكر ہى كو چاہتے ہيں _

۲_ صحيح بخارى ميں ہے كہ : عائشه فرماتى ہيں ، جب رسول خدا (ص) پر مرض نے شدت پكڑلى تو عبد الرحمن بن ابو بكر سے فرمايا : ہڈى يا كوئي تختى لے ائو تاكہ ميں ابو بكر كے حق ميں نوشتہ لكھدوں تاكہ ميرے بعد كوئي اس ( ابوبكر ) سے خلافت كے

۱۹۹

سلسلے ميں جھگڑا كرنے نہ لگے ، عبد الرحمن ادھر تختى وغيرہ لينے گئے تو پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا :اے ابو بكر خدا اور مومنين تمھارے سلسلہ ميں تھوڑا سا بھى اختلاف نہيں ركھتے ہيں _

اپ نے ديكھا كہ عائشه نے ان دو حديثوں سے اپنے باپ كى حكومت و خلافت كو رسول (ص) كى بيمارى سے ملتے جلتے واقعات سے كس طرح ثابت كر ديا اور اپنے باپ كى خلافت كے لئے دو دليليں پيش كر ديں _

۳_ جب عائشه كے روابط عثمان سے مسالمت اميز تھے تو ان كى خوب مدد كى اور ان كى حكومت كى حمايت ميں بولتى رہيں ، اور زوجيت رسول (ص) سے فائدہ اٹھا تے ہوئے عثمان كے حق ميں ايك حديث بھى گڑھ ڈالى تھى ، جس كو صحيح مسلم نے عائشه سے نقل كيا ہے كہ :

ميں رسول (ص) كے ساتھ ايك چادر ميں ارام كر رہى تھى كہ ابو بكر اگئے ، پيغمبر(ص) اسلام نے انكو اندر بلا ليا ، پھر تھوڑى دير بعد عمر بن خطاب چلے آئے رسول(ص) اسلام نے انكو بھى اسى حالت ميں بلاليا ; ليكن جب حضرت عثمان آئے تو رسول خدا (ص) چادر سے باہر اگئے پھر عثمان كو گھر ميں بلايا ، جب عثمان چلے گئے تو ميں نے رسول(ص) اسلام سے سوال كيا كہ يا رسول(ص) اللہ جب ابو بكر اور عمر آئے تو اپ چادر كے اندر ليٹے رہے ليكن جب عثمان آئے تو اپنے كو چادر سے باہر كر ليا ، اس ميں كيا راز ہے ، پيغمبر(ص) اسلام نے فرمايا : چونكہ عثمان ايك شرم و حيا كا پيكر ہے لہذا ميں ڈرا كہ اگر اسى حالت ميں عثمان سے ملاقات كر ليتا تو وہ شدت شرم سے مجھ سے بات نہ كر پاتا _

۴_ صحيح مسلم نے اسى حديث كو دوسرى طرح سے عائشه كا يوں بيان نقل كيا ہے:

ايك دن پيغمبر(ص) اسلام ميرے ساتھ چادر اوڑھے ليٹے ہوئے تھے ، جيسے ہى عثمان آئے تو رسول (ص) نے مجھ سے كہا اے عائشه تم اپنا لباس وغيرہ ٹھيك كر لو ، ميں نے كہا ، يا رسول(ص) اللہ ، ابو بكر اور عمر كے انے پر اپ نے مجھ سے لباس ٹھيك كرنے كو نہيں كہا ليكن جب عثمان آئے تو اپنے ہوش و حواس كو كھو ديا نيز ان سے ملاقات كرنے كے لئے اپنے جسم پر لباس بھى پہن ليا _

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460