الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242128 / ڈاؤنلوڈ: 6990
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

دین خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ خاص ہے_

ہوسکتا ہے کہ یہ عہد اور فیصلہ اس لئے بھی کیا گیا ہو کہ داخلی طور پر یہودیوں کو اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برا سو چنے والے بیرونی دشمنوں کے مفاد میں فتنہ انگیزیوں اور جاسوسیوں کا کوئی موقع میسر نہ آسکے_ اور اس لئے بھی یہ عہد لیا گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ اور آس پاس رہنے والے لوگوں کو بھی معلوم ہوجائے کہ یہاں پر بھی ایک ایسی طاقت موجود ہے جسے بہر صورت تسلیم کرنا ہی پڑے گا اور اس کے ساتھ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے برابری اور سچائی کے ساتھ تعلقات قائم کرنے ہوں گے_

۱۰_ اس معاہدے میں (جس میں مذکورہ عہد کی گہری تاکید کی گئی ہے اور جسے یہودیوں نے تسلیم بھی کیا اور تحریری طور پر اس کا ثبوت بھی دیا) یہ بھی بیان ہوا ہے کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے تمام تنازعوں اور مشکلات کے حل کا مرجع اور مرکز صرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی ذات والا صفات ہی ہے_ البتہ ہم یہاں اس شق کے سیاسی مدلول اور یہودیوں نیزمدینہ کے رہائشےی دیگر افراد اسی طرح پورے علاقے کے باسیوں پر ذاتی ، انفرادی اور اجتماعی اثرات پر بحث کرنے کے درپے نہیں_ البتہ یہ ضرور بتاتے چلیں کہ اس شق کی وجہ سے عقائد کی حفاظت کا سامان بھی فراہم کیا گیا اور اگر تھوڑی سی دقت کی جائے تو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس میں فقہی پہلوؤں کی مراعات بھی کی گئی ہے _اس بارے میں کسی اور مقام پر تفصیلی بحث کریں گے_

۱۱_ ان تمام شقوں کے علاوہ اس معاہدے نے فتنہ انگیزی نہ کرنے کی شرط پر انصاری یہودیوں کے '' امن '' اور '' آزادی'' جیسے عمومی حقوق کے تحفظ کی ضمانت بھی دی ہے_ اور یہ دونوں خاص کر آزادی کا حق عطا کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جب تک کوئی چیز حقیقت اور سچائی کی بنیادوں پر برقرار رہتی ہے اور حقیقت کے راستے پر گامزن ہوتی ہے تب تک اسلام کو بھی کسی چیز سے خطرہ محسوس نہیں ہوتا _ اسلام صرف اور صرف فتنہ انگیزی اور فساد سے ڈرتا ہے_ یہ چیز اس بات کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے کہ اسلام علم اور معرفت کے حصول کی تاکید کرتا ہے کیونکہ اسلام ہی ہے جو ( تخریبی رستوں سے ہٹ کر صرف) تعمیری راستوں میں علم اور معرفت سے سب سے زیادہ استفادہ کرسکتاہے_

۱۲۱

۱۲_ پھر اس معاہدے میں منافقوں اور مشرکوں بلکہ یہودیوں کی طرف سے بھی یہ اعتراف پایا جاتا ہے کہ مسلمان ہی سب سے بہتر اور معتدل تر ہدایت پر ہیں_ حالانکہ انہی لوگوں نے پہلے یہ پھیلا رکھا تھا کہ یہ نبی ہمارے اتفاق اور اجتماع میں رخنہ ڈالنے اور ہماری امیدوں اور لائحہ عمل پر پانی پھیرنے آیا ہے اور اسی طرح کے دیگر الزامات بھی تھے جو بطور مثال عمرو بن عاص نے حبشہ ( ایتھوپیا) کے بادشاہ نجاشی سے ذکر کئے تھے_

۱۳_ اس معاہدے میں قبیلہ پرستی کو بھی ناجائز قرار دے دیا گیا کیونکہ قبیلہ پرستی ، افراد قبیلہ کی ہر قسم کی اور ہر صورت میں مدد کا باعث بنتی تھی چاہے وہ دوسروں پر ظلم اور زیادتی کے بھی مرتکب ہوتے_

اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ قاتل جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو تمام مؤمنوں پر اس کا تعاقب اور پیچھا ضروری ہے _ نیز اس شق میں ریاست ، سرداری اور مجرم کے قبیلہ کی قسم جیسے دیگر امتیازی قوانین اور سلوک کو بھی باطل قرار دیا گیا _ جس طرح بنی قریظہ اور بنی نضیر کی حالت تھی _ کیونکہ اس معاملے میں بنی قریظہ پر بنی نضیر کو امتیازی حیثیت حاصل تھی_

۱۴_ پھر اس قرار داد نے مسلمانوں کو ( تمام مشرکوں کو چھوڑکر ) صرف قریشیوں کے اموال ضبط کرنے کا حق بھی دیا_ کیونکہ قریشیوں نے بھی ان سے تمام اموال چھین کر انہیں اپنے گھروں سے نکال باہر کردیا تھا_ اور یہ ضبطی اس ادلے کا بدلہ ہوگا_ حتی کہ مشرکوں نے بھی مسلمانوں کے اس حق کا اعتراف کیا حالانکہ وہ بھی اس معاہدے کے فریق تھے_ اس شق کے متعلق مشرکوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس معاملے میں وہ قریش کی کوئی مدد نہیں کرسکتے اور اس معاملے کو دوسرے رنگ میں ڈھالنا شروع کر دیا تھا _ اسی شق نے انسانی ضمیر میں انسانیت کی قدر بڑھائی اور اسے فعال کردار عطا کیا جسے یا تو وہ لوگ بھلا چکے تھے یا بھلانے لگے تھے_

۱۵_ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس معاہدے میں '' مسلمانوں'' کی بجائے'' مومنوں'' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے_ روابط اور تعلقات کے میدان میں اس لفظ کے بہت اثرات ہیں _ اسی طرح مخلصین کے لئے بھی اس میں اشارے پائے جاتے ہیں تا کہ ان کے خلوص اور اخلاص میں اضافہ ہو نیز ان منافقوں کے لئے بھی

۱۲۲

اشارے پائے جاتے ہیں جو خدا اور مؤمنوں کو دھو کا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ صرف اپنے آپ کو ہی دھوکا دیتے ہیں_ اسی طرح مختلف گروہوں کی شناخت میں اس کے سیاسی اثرات بھی ہیں تا کہ یہ پہچان اور امتیاز مذہبی اور دینی تعصب کی روسے نہ ہو _

۱۶_ اس معاہدے میں ایمان کی عظمت کا اظہار بھی ہے جس کی روسے ترجیحات اور امتیازات عطا ہوتے ہیں_ نیزکفر کو پست ترین رتبہ دیا گیا ہے کیونکہ اس معاہدے میں یہ کہا گیا ہے کہ کافر کے مقابلے میں کوئی بھی مؤمن کسی مؤمن کو قتل نہیں کرے گا اور نہ ہی مؤمن کے خلاف کسی کافر کی مدد اور حمایت کرے گا_

۱۷_ یہ شق کفر اور ایمان کے لشکر کے درمیان امتیازات کی واضح جنگ اور اس حالت جنگ کی بنیاد ڈالنے کی جانب ایک قدم ہے_

۱۸_ ملاحظہ ہو کہ یہ قرار داد یہ بیان کر رہی ہے کہ جو اس معاہدے کے مندرجات کا اقرار کرتا ہے اسے کسی بدعتی کی مدد ، حمایت اور پناہ کا کوئی حق نہیں پہنچتا_ اور یہ شق امن عامہ کو پھیلانے ، لوگوں کو ایک طرح سے مطمئن اور آسودہ خاطر رکھنے نیز اوس اور خزرج پر منڈلاتے ہوئے خوف کے بادلوں کو کم کرنے کی طاقت رکھتی ہے_ اسی طرح اس شق میں مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی علاقے میں بسنے والے یہودیوں اور مشرکوں کو ڈھکی چھپی دھمکی بھی پائی جاتی ہے_

۱۹_ اسی طرح دشمنوں کے سامنے مسلمانوں کا یہ دعوی ہے کہ '' وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے والی ایک متحد اور منسجم طاقت ہیں'' _ اور دوسروں کے دلوں میں اپنی ہیبت اور رعب و دبدبہ بٹھانے کے لئے نیز قبائلی یا دیگر قسم کے جذبات سے کھیل کر ان کے ذریعے مسلمانوں کی صفوں میں نفوذ کرنے والوں کی سوچ اور طمع کو دور کرنے اور مٹانے کے لئے اس دعوے کا بہت زیادہ اثر اور کردار ہے_

۲۰_ آخر میں یہ نکتہ بھی ملاحظہ ہو کہ یہ معاہدہ مشرکوں کے لئے کسی اضافی حق کا قائل نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ان پر کئی پابندیاں عائد کردیں_ پس اس معاہدے کی روسے کسی مشرک کو قریش کے کسی شخص یا مال کو پناہ اور امان دینے بلکہ ان کی خاطر مومنوں اور قریشیوں کے درمیان حائل ہونے کا بھی کوئی حق نہیں ہے_

۱۲۳

یہی وہ چند نکات تھے جنہیں ہم عجلت میں سرسری طور پر ذکر کرنا چاہتے تھے _ امید ہے کہ کسی فرصت میں بہت سے دیگر نکات کا بھی مطالعہ کریں گے_

۵_ یہودیوں سے صلح :

بنی قریظہ ، نضیر اور قینقاع کے یہودی ( نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں ) آئے اور انہوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صلح کی خواہش کی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے تحریر لکھ دی کہ (یہ صلح) اس شرط پر ہوگی کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف کسی شخص کی مدد نہیں کریں گے _ نیز زبان ، ہاتھ، اسلحہ یا سواری کے ساتھ یعنی کسی بھی ذریعے سے اور خفیہ یا علانیہ اور رات یا دن میں یعنی کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی بھی صحابی کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی مزاحمت ایجاد نہیں کریں گے _ اور اگر انہوں نے ان میں سے کوئی کام انجام دیا تو ان کا خون بہانے، ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنانے اورا ن کے اموال ضبط کرنے کا اختیار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو ہوگا _اور ہر قبیلہ کے لئے جدا گانہ تحریر لکھ دی(۱) _ لیکن یہودی ، اس معاہدے کو توڑ کر دوبارہ اپنی مکر و فریب والی عادت پر پلٹ گئے_

____________________

۱) اعلام الوری ص۶۹،البحارج/۱۹س ص ۱۱۰/۱۱۱ عنہ، السیرة النبویة لدحلان ج/۱ ص ۱۷۵_

۱۲۴

۱۲۹

چوتھی فصل: شرعی احکام

۱۲۵

اذان کی تشریع :

یہاں پرمؤرخین ذکر کرتے ہیں کہ : ہجرت کے پہلے سال اذان تشریع کی گئی _ ایک قول یہ ہے کہ دوسرے سال میںتشریع ہوئی لیکن اس چیز کی تحقیق ہمارے لئے زیادہ اہم نہیں_

البتہ تشریع اذان کی کیفیت اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس فکر میںتھے کہ لوگوں کو نماز کے لئے کس طرح اکٹھا کیا جائے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک پر چم نصب کریں جب لوگ دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو اطلاع دے دیں گے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے پسند نہ فرمایا _ صحابیوںنے ( یہود یوںکے بگل کی طرح ) بگل بجانے کا مشورہ دیا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے بھی پسند نہیں کیا اور فرمایا کہ یہ یہود یوںکی رسم ہے _ انہوں نے ناقوس ( بجانے کا ) مشورہ دیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (اسے بھی ناپسند کرتے ہوئے )فرمایا کہ یہ نصاری کی عادت ہے غالباً آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے اسے ناپسندفرمایا پھر اس کا حکم دے دیا اوراسے لکڑی سے بنایا گیا_

عبداللہ بن زید گھر واپس آئے جبکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فکرمندہونے کی وجہ سے غمگین تھے _ اس رات انہوں نے خواب میں اذان دیکھی_ خود عبداللہ بن زید بیان کرتے ہیں: ''صبح کے وقت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواذان کے متعلق بتایا پھر عرض کی کہ یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ میں نیند اور بیداری کی حالت میں تھا کہ کوئی میرے پاس آیااور اس نے مجھے اذان کی کیفیت دکھائی ''_

وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب اس واقعہ سے پہلے اذان کو دیکھ چکے تھے اورانہوں نے بیس دن تک اسے چھپائے رکھا _ پھر جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بتایا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ پھر مجھے بتانے سے کون سی چیز مانع

۱۲۶

تھی؟ جواب دیا کہ عبداللہ بن زید نے مجھ پر سبقت لے لی لیکن میں جھجکتا رہا ( اس پر ) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ بلال اٹھو اور دیکھو کہ عبداللہ بن زیدتجھے کس چیز کا حکم دیتا ہے تم اسے بجا لاؤ _یوںحضرت بلال نے اذان کہی ( الحدیث) _تشریع اذان کی کیفیت کے سلسلہ میں وارد ہونے والی روایات میں سے ایک نصّ یہ تھی_ یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے مزید اطلاع کے لئے حاشیہ میں مندرج کتب کی طرف رجوع کریں(۱) _

اذان کی روایات پر بحث:

ہم معتقد ہیںکہ یہ بات درست نہیں اور اس سلسلہ میںہمارے پاس مندرجہ ذیل دلائل ہیں_

ایک : ان روایات کے مطالعہ اور ایک دوسرے کے ساتھ تقابل سے ظاہر ہوتاہے کہ ان روایات میں سخت اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ چیز کسی روایت کے ضعیف ہونے کا باعث بنتی ہے اور اس پر کئی طرح کے سوالات اٹھتے ہیں_مثلاً گذشتہ روایت کہتی ہے کہ ابن زید نے نیند اور بیداری کی حالت میں اذان دیکھی_

دوسری روایت میں اس کے برعکس یہ ہے کہ انہوں نے یہ اذان حالت خواب میں دیکھی جبکہ تیسری روایت میں آیا ہے کہ خود ابن زید نے کہا '' لوگ اگرباتیں بنا کرمیرے درپے نہ ہوتے تو میں یقیناً یہی کہتا کہ میں تو سو ہی نہیں رہا تھا بلکہ حالت بیداری میں تھا ''_ ایک اور روایت یوں کہتی ہے '' یقیناً ابن زید نے اذان ہوتے ہوئے دیکھی اور پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کی اطلاع دی'' مزید ایک روایت میں ہے کہ یقیناً جبرائیل نے دنیا کے آسمان پر اذان دی حضرت عمر اور حضرت بلال دونوںنے سنا ، لیکن حضرت عمرنے حضرت بلال

____________________

۱)سنن ابی داؤد ج/۱ ص ۳۳۵،۳۳۸ ، المصنف عبد الرزاق ج /۱ص۴۵۵تا۴۶۵، السیرة الحلبیةج/۲ ص ۹۳ تا ۹۷ ، تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۹، الموطا ج۱ نیزشرح موطا للزرقانی ج/۱ص۱۲۰تا ۱۲۵،الجامع الصحیح للترمذی ج/۱ص۳۵۸تا۳۶۱،مسند احمدج/۴ ص ۴۲ ، سنن ابن ماجہ ج/۱ص ۱۲۴، سنن البیہقی ج/۱ ص۳۹۰و۳۹۱،سیرةابن ھشام ج/۲ص۱۵۴،۱۵۵،۱۲۵،نصب الرایة ج/۱ ص ۲۵۹تا۲۶۱، فتح الباری ج/۲ ص ۶۳تا۶۶، طبقات ابن سعدج/۱جزء ۲ص ۸،البدایةوالنھایة ج/۳ ص۲۳۲و ۲۳۳، المواھب اللدنیة ج/۱ص۷۱، منتخب کنزالعمال(حاشیہ مسنداحمدپر)ج/۳ ص۲۷۳، اور ۲۷۵ ، تبیین الحقائق للزیلعی ج /۱ ص ۹۰، الروض الانف ج/۲ ص ۲۸۵،۲۸۶، حیاة الصحابة ج/۳ ص ۱۳۱، از کنز العمال ج/۴ ص ۲۶۳،۲۴۶،اور اسی طرح ابی شیخ ابن حبان اور ابن خزیمہ سے بھی نقل کیا گیاہے ، سنن الدار قطنی۰۶۶ ج/۱، ۲۴۱ ، ۲۴۲ ، اور ۲۴۵ ، علاوہ ازین دیگر کثیرکتب_

۱۲۷

پر سبقت لیتے ہو پہلے جاکر پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کی اطلاع دی _جب حضرت بلال آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تم سے پہلے عمر نے مجھے اس کی اطلاع دے دی ہے'' _

لیکن ایک روایت میں ملتاہے کہ فقط ابن زید نے اس اذان کو دیکھا _اس کے برعکس ایک روایت یوں کہتی ہے کہ انصار کے سات افراد نے اذان دیکھی جبکہ ایک قول میں یہ تعداد چودہ بیان ہوئی ہے، ایک روایت میں عبداللہ بن ابی بکر کابھی اضافہ کیا گیا ہے علاوہ بر ایں ایک روایت میں ہے کہ یقیناً یہ بلال ہی تھے جنہوںنے سب سے پہلے ''اشھد ان لا الہ الا اللہ حی علی الصلاة'' کہا_ اس پر حضرت عمر نے ''اشھد ان محمد رسول اللہ'' کا اضافہ کیا پس نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سنتے ہی حضرت بلال سے فرمایا :''جیسے عمر نے کہا ہے تم بھی ویسے ہی کہو''_

بعض روایات میں اذان کی فصلیں ایک مرتبہ اور بعض میں دو مرتبہ ذکر ہوئی ہیں_ان روایات میں طرح طرح کے دیگر اختلافات بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان سب کو بیان نہیں کیا جاسکتا _ اس سلسلے میں آپ اصل منابع کی طرف رجوع کرکے روایات میں تقابل کرسکتے ہیں _

دو: یہ بات کہ حضرت عمر اور حضرت بلال نے خود حضرت جبرائیلعليه‌السلام کی آواز سنی یا ابن زید نے یہ اذان حالت بیداری میں ہوتے ہوئے دیکھی ، قابل قبول نہیںکیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ سب لوگ بھی نبی ہیں کیونکہ انہوں نے جبرائیلعليه‌السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھااو ر جبرائیلعليه‌السلام سے ایک شرعی ، توقیفی حکم سنا جبکہ یہ امر تو انبیاءعليه‌السلام و رسلعليه‌السلام سے مخصوص ہے_

حالت خواب میں دیکھی گئی اذان کے متعلق عسقلانی لکھتے ہیں:

'' عبداللہ ابن زید کے خواب کی بنیاد پر اذان کے حکم شرعی کے ثبوت پر یہ اعتراض کیا گیاہے کہ غیر نبیعليه‌السلام کا خواب حکم شرعی نہیں ہوتا _ البتہ اس کاجواب یہ دیا جاسکتاہے کہ ممکن ہے کہ وحی بھی اس کے مطابق نازل ہوئی ہو؟''(۱) _

____________________

۱) فتح الباری ج/ ۲ ص ۶۲ _

۱۲۸

لیکن یہ جواب قانع کنندہ نہیں کیونکہ صرف احتمال سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی _حالانکہ ان کے ہاں معتبر اور قابل اعتماد مذکورہ روایات میں ایسے کسی احتمال کی طرف اشارہ بھی نہیں پایا جاتابلکہ یہ روایات فقط رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس حکم پر اکتفاء کرتی ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ ابن زیدسے اذان کی تعلیم حاصل کرو _

اس کے علاوہ اس معاملے میں شروع ہی سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی نازل کیوں نہ ہوئی _ حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سر گردان ، فکرمنداور رنجیدہ خاطر تھے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں_

یہاںایک یہ سوال باقی رہ جاتاہے کہ اذان، اس کیفیت سے کیوں شروع ہوئی جبکہ باقی سب احکام ایسے نہیں ہیں؟

''سہیلی ''نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ اذان در اصل خدا کی شان اور ذکر کو بلند کرناہے پس غیر نبی کی زبان پر اس کی شان نہایت بلند اور عظیم المرتبت ہونی چاہئے اس لئے اسے پہلے صحابیوں کو سکھا یا گیا(۱) _

اگر چہ عسقلانی و غیرہ نے اس جواب کو سراہا ہے لیکن یہ جواب بھی بے معنی اور کم وزن ہے _اگر یہ جواب صحیح ہو تو شریعت میں نماز، زیارتیں، دعائیں، اسی طرح خدا کی توحید کا اقرار اور پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی گواہی اور دیگر احکام اسلام سب کے سب غیرنبی کی زبان سے جاری ہونے چاہئیں_ کیونکہ اس کا مطلب اللہ کا ذکر بلند کرنا اور اس کے حکم کو عظمت سے بجا لاناہے_ یہی حال خصوصاً ان قرآنی آیات کا بھی ہے جن میں حضور سرور کائناتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعریف و توصیف بیان ہوئی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے_

( وَ انَّكَ لَعَلی خلق عظیم )

اور اس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں_ گذشتہ مطالب کے علاوہ ہم یہ کہیں گے کہ پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زید کے خواب کے مطابق عمل کرنے کا حکم دینا تو وحی کے بغیر بلکہ اپنی ذاتی خواہش کے تابع ہوگا جبکہ یہ بات خداوند متعال کے اس فرمان( و ما ینطق عن الهوی ) سے منافات رکھتی ہے_

____________________

۱) الروض الانف ج/ ۲ ص ۲۸۵_

۱۲۹

پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دینی امور میں اپنے صحابیوں سے مشورہ کرنا یقیناً محال ہے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''وحی'' کے ہوتے ہوئے اس امر سے مستغنی تھے _البتہ دنیاوی امور میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا کرتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کئی وجوہات کی بنا پر چاہتے تھے کہ دنیاوی امور کو مشورت سے انجام دیں _انشاء اللہ جنگ بدر و احد کے واقعات میں ہم ان وجوہات کا ذکر کریںگے_

تین: یہ کیسے ممکن ہے کہ پیامبر گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے تو یہود و نصاری کے فعل سے موافقت کو ناپسند فرمایا ہو اور پھر اسی پر ہی رضایت دے دی ہو؟ ایک قبیح امر کیسے اچھا ہوگیا ؟ ایک برائی اچھائی میں تبدیل ہوگئی یا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان لوگوںسے موافقت پر مجبور تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہ تھا؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک منادی کیوں نہ مقرر فرما دیا جو لوگوں کو نماز کے لئے بلاتا؟ جیسا کہ نماز یا دیگر مواقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے اوروہ ''الصلاة جامعة'' پکار پکار کر لوگوں کو اکٹھا کرتے تھے_

اس مشکل کے حل کے لئے صرف نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عبداللہ ابن زید (یا حضرت عمر ) ہی کیوں فکرمند تھے؟ اور یہ مشکل آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رضامندی سے صرف ناقوس بنانے پر ہی حل ہوگئی؟ اور کوئی حل باقی نہیں رہا تھا؟ یا کوئی اور آدمی موجوود نہیں تھا؟_

بہر حال اس سے اہم بات یہ ہے کہ وہ یہ روایت کرتے ہیں (گرچہ ہم اس کی تصدیق و تائید نہیں کرتے بلکہ اس کے جھوٹ ہونے پر ہمیں یقین ہے) کہ جن امور میں وحی نازل نہیں ہوئی تھی ان تمام امور میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اہل کتاب کی پیروی کرنا چاہتے تھے(۱) تو پھر مذکورہ معاملے میں یہ کیونکر ہوا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کراہت و ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اوراسی کے لئے فکرمند اور پریشان ہوئے_ یہ تو بہت عجیب و غریب تناقض گوئی ہے جسے آنحضور( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف نسبت دی گئی ہے_

چہار: الصباح المزنی ، سدیر الصیرفی، محمد بن النعمان الا حول اور عمر بن اذینہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم امام صادقعليه‌السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' اے عمر بن اذینہ یہ ناصبی اپنی اذان و نماز کے

____________________

۱) روز عاشور کے روزے کے متعلق گفتگو میں اس کی طرف اشارہ کریں گے (انشاء اللہ )

۱۳۰

متعلق کیا کہتے ہیں''؟ میں نے عرض کیا:'' میری جان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہو وہ کہتے ہیں کہ اسے ابی بن کعب انصاری نے خواب میں دیکھا تھا''_ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' خدا کی قسم جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ خدا وند قدوس کے دین کی شان خواب میں دکھائے جانے سے بالاتر ہے'' _ ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ حضرتعليه‌السلام نے فرمایا:'' اللہ نے تمہارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس کے متعلق وحی نازل فرمائی لیکن یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے عبداللہ بن زید سے سیکھا ہے''(۱) _

۲ _ابی علاء سے روایت ہے کہ میں نے محمد بن حنفیہ سے کہا: '' ہم تو یہ بیان کرتے ہیں کہ اذان کی ابتداء ایک ایسے خواب سے ہوئی جسے ایک انصاری نے خواب میں دیکھا تھا'' اس پر محمد حنفیہ سختغصہ ہوگئے اورگرج کر کہا :''شریعت مقدسہ اسلام اور دینی معارف کی بنیادوں کو تم نے نشانہ بنا لیا ہے_تمہارا گمان ہے کہ اسے ایک انصاری نے خواب میں دیکھا ہے جس میں جھوٹ اور سچ دونوں کا احتمال پایا جاتا ہے _ اور اکثر اوقات تو یہ خواب ویسے ہی بے تعبیر اور لاحاصل ہوتے ہیں''؟

میں نے کہا :''یہ حدیث تو لوگوں میں پھیل چکی ہے''؟

انہوں نے کہا :'' خدا کی قسم یہ غلط ہے_'' پھر کہا :''مجھے میرے والد گرامی نے بتایا تھاکہ حضرت جبرائیلعليه‌السلام نے شب معراج بیت المقدس میں اذان و اقامت کہی اور پھر جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے آسمان کی طرف معراج فرمائی تو انہیں پھر دہرایا''(۲) _

۳_ اس طرح امام حسن مجتبیعليه‌السلام نے بھی اس بات کا انکار فرمایاہے _ جب آپعليه‌السلام کے سامنے اذان کے بارے میں گفتگو ہوئی اور عبداللہ ابن زید کے خواب کا تذکرہ کیا گیا تو آپعليه‌السلام نے فرمایا '':اذان کی عظمت اس افسانے سے کہیں بالاتر ہے_

حضرت جبرائیلعليه‌السلام نے آسمان میں دو دو مرتبہ اذان کہی اور پھراسی طرح اقامت کہی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس

____________________

۱)بحار الانوار ج/۱۸ ص۳۵۴ ، علل الشرائع ص ۱۱۲ / ۱۱۳ ، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ عن الشہید فی الذکری نیز وسائل الشیعہ ج۴ ص ۶۱۲ و ۶۱۳_

۲) السیرة الحلبیہ ج/ ۲ ص ۹۶ ، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ و کتاب العلوم (امالی احمد بن عیسی بن زید) ج۱ ص ۹۰_

۱۳۱

کی تعلیم دی''(۱) _

۴ _ جب حضرت امام حسینعليه‌السلام سے اذان اور لوگوں کی باتوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپعليه‌السلام نے فرمایا:

'' تمہارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی نازل ہوتی ہے اور تم لوگ یہ گمان کرتے ہو کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عبداللہ بن زید سے اذان سیکھی ہے ؟ جبکہ میں نے اپنے والد حضرت علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) سے سنا ہے کہ جب حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو معراج پر لے جایا جانے لگا تو ایک فرشتے نے اتر کر اذان اور اقامت کی فصلوں کو دو دو مرتبہ دہرا کرا ذان و اقامت کہی پھر جبرائیلعليه‌السلام نے آپعليه‌السلام سے کہا : '' یا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز کی اذان بھی اسی طرح ہے ''(۲) _

البتہ اقامت کی فصلوں کاایک ایک مرتبہ ہونا اہل بیتعليه‌السلام کی قطعی تعلیمات کے بالکل مخالف ہے_ کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ اہل بیتعليه‌السلام کی روایات اور نظریات میں اس کی دودو فصلیں بیان ہوئی ہیں اور اصحاب تابعین اور فقہائے اسلام کی اکثریت کی بھی یہی رائے ہے _ایک ایک مرتبہ والی بات امراء کے ہاتھوں کی صفائی معلوم ہوتی ہے کیونکہ بقول مورخین اس ذریعہ سے انہوں نے اقامت کی تحقیر، بے قدری اور توہین کرنے کی کوشش کی(۳) ورنہ اقامت کی فصلیں بھی دو دو مرتبہ ہیں_

پانچ: خو د عبداللہ ابن زید سے روایت ہے : '' میں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اذان سنی ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو دو مرتبہ اذان و اقامت کہی(۴) ''_

پس اگر ابن زید نے ہی خواب میں اذان دیکھی ہوتی تو وہ دوسروں کی نسبت اس ا مر سے سب سے زیادہ آگاہ ہوتا ، پھر اس کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے یہ حدیث کیسی؟

چھ: داؤود ی کی ابن اسحاق سے حکایت ہے کہ عبداللہ بن زید اور حضرت عمر کے خواب میں دیکھنے سے آٹھ روز قبل حضرت جبرائیلعليه‌السلام اذان لے کر آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے'' _ اس بات کی تائید اس

____________________

۱) النص و الاجتہاد ص ۲۰۵ از مشکل الآثار ،ابن مردویہ اور کنزالعمال ج/۶ ص ۲۷۷ نیز مستدرک حاکم ج۳ ص ۱۷۱_

۲) گذشتہ و آئندہ منابع ملاحظہ فرمائیں_ (۳) المصنف عبدالرزاق ج/ ۱ ص ۴۶۳ ، سنن البیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۵ _

۴) مسند ابی عوانہ ج/ ۱ ص ۳۳۱ سنن دارقطنی ج/ ۱ ص ۲۴۱_

۱۳۲

روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر ناقوس( گھنٹی) خریدنے جارہے تھے کہ اطلاع ملی ابن زید نے خواب میں اذان دیکھی ہے وہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بتانے کے لئے واپس آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تمہارے بتانے سے پہلے وحی نازل ہوچکی ہے ''(۱) _

سات: ہم اذان کے شرعی حکم کے ہجرت سے قبل مکہ میں نزول کو ترجیح دیتے ہیں ، کیونکہ یہ بات محمد حنفیہ والی گذشتہ روایت میں بیان ہوچکی ہے اور مندرجہ ذیل روایات میں بھی مذکور ہے_

۱_ جناب زید بن علی نے اپنے اجداد طاہرینعليه‌السلام سے روایت کی ہے: ''رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شب معراج اذان کی تعلیم دی گئی اور نماز فرض ہوئی ''_ یہ بات امیر المومنینعليه‌السلام ، امام باقر ، ابن عمر اور حضرت عائشہ سے بھی روایت کی گئی ہے(۲) _ امام باقرعليه‌السلام سے بھی صحیح سند کے ساتھ تقریباً یہی مطلب نقل ہوا ہے(۳) _

۲ _ انس روایت کرتے ہیں کہ جب نماز فرض ہوئی تو اس وقت جبرائیلعليه‌السلام نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذان کا بھی حکم دیا(۴) _

امام باقرعليه‌السلام کی اس مذکورہ روایت کو سھیلی نے بھی صحیح قرار دیا ہے جس میں آیا ہے کہ اذان کا شرعی حکم شب معراج لاگو ہوا_ لیکن اس روایت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک تو اس کی سند میں زیاد بن منذر ہے جو شیعہ تھا(۵) اور دوسرایہ کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے موقع پر اذان کا حکم نہیںدیا تھا(۶) _

____________________

۱) المصنف عبدالرزاق ج/۱ص۴۵۶،تاریخ الخمیس ج/۱ ص۳۶۰،البدایة والنہایة ج/ ۳ ص ۲۳۳ ، السیرة الحلبیہ ج/ ۲ ص ۹۶ ، ۹۷_

۲)منتخب کنزالعمال ( مسند احمد کے حاشیہ پر ) ج/۳ ص ۲۷۳ از طبرانی سے اوسط السیرة الحلبیہ ج/ ۱ ص ۳۷۳ ، ج/ ۲ ص ۹۳ ، ۹۵ مجمع الزوائد ج/ ۱ ص ۳۲۹ و ۳۲۸ ، نصب الرایة ج/۱ ص ۲۶۲ و ۲۶۰ ، المواھب اللدنیہ ج/۱ ص ۷۱ ، ۷۲ فتح الباری ج/ ۲ ص ۶۳ ، الدرالمنثور ج۴ ص ۱۵۴ از بزار ، ابن مردویہ ، طبرانی و ابو نعیم در دلائل النبوہ ، الروض الانف ج/ ۲ ص ۲۸۵ و ۲۸۶ ، البدایةوالنہایة ج/۳ ص ۲۳۳ ، تبیین الحقائق از البزار، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ از مشکل الآثار و شہید در ذکری ، کنزالعمال ج۱۴ ص ۴ ، از ابن مردویہ، قصار الجمل ج۱ ص ۱۳ ، الوسائل ج۴ ص ۶۶۰ و کافی ج۳ ص ۳۰۲_

۳) الکافی ج/۳ ص ۳۰۲_ (۴) المواھب اللدنیہ ج/۱ ص ۷۲ و فتح الباری ج/۲ ص ۶۳_ (۵) نصب الرایة ج/ ۱ ص ۲۶۱_

۶) البدایة و النہایہ ج / ۳ ص ۲۳۳ ، مستدرک الحاکم ج/ ۳ ص ۱۷۱ ، نصب الرایہ ج/ ۱ ص ۲۶۱ ، حاکم نے اس بارے میں سکوت کیا ہے جبکہ ذھبی نے نوح بن دراج پر جرح کی ہے شاید انہوں نے اپنی عادت کے مطابق اس کے شیعہ ہونے کی بناپر ایسا کیا ہے_

۱۳۳

جبکہ ان کے پہلے اعتراض کے متعلق تو معلوم ہوچکاہے کہ وہ ہے ہی بے بنیاد لیکن دوسرے اعتراض کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ یہی تو اختلاف کا مقام ہے _ اسی مناسبت سے یہاں ذکر کرتے چلیں کہ:

روایات میں یہ بھی آیاہے کہ جب حضرت آدمعليه‌السلام جنت سے نکالے گئے تو جبرائیلعليه‌السلام نے اس وقت اذان کہی(۱) گذشتہ بیانات سے ابن عباس سے مروی یہ روایت بھی غلط ثابت ہوجاتی ہے کہ سورہ جمعہ کی اس آیت ''یا ایھا الذین آمنوا اذا نودی للصلاة من یوم الجمعة ''کے نزول کے ساتھ ہی اذان فرض ہوئی تھی(۲) اس روایت کے رو سے تو اذان کے شرعی حکم کا نزول ، ہجرت کے ساتویں سال سورہ جمعہ کے نزول کے ساتھ اور جنگ احد میں یا اس کے کچھ عرصہ بعد قتل ہونے والے عبداللہ بن زیاد کی وفات کے بعد جا بنے گا _

اسی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے حاکم نے کہا ہے'' بخاری و مسلم نے عبداللہ بن زید کی خواب میں اذان والی اس روایت کو مذکورہ حدیث کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے کیونکہ عبداللہ اس سے پہلے ہی رحلت کرگئے تھے کیونکہ کہا گیا ہے کہ عبداللہ بن زید جنگ احد میں اور بقولے اس کے کچھ ہی عرصہ بعد شہید ہو گئے تھے''(۳) _

لیکن درمنثور کی عبارت یوں ہے ''نماز کے فرض ہونے کے ساتھ اذان رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوئی _( یا ایها الذین آمنوا اذا نودی للصلاة ) اب اس عبارت سے ان کا مقصود یہ ہوسکتاہے کہ اذان مکہ میں اس وقت شروع ہوئی جب نماز فرض کی گئی لیکن مذکورہ آیت کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی اذان کے بارے میں اشارہ کیا ہے اگر یہ صحیح ہو تو اس روایت کا ماسبق سے کوئی تعارض اور اختلاف نہیں_

آٹھ: حضرت عائشہ ، عکرمہ ، قیس بن ابی حازم و غیرہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی کے اس قول( و

____________________

۱)فتح الباری ج/ ۲ ص ۶۴ ، السیرة الحلبیہ ج/۲ ص ۹۳_

۲)فتح الباری ج ۲ ص ۶۲، الدر المنثور ج ۶ ص ۲۱۸از ابو شیخ_

۳) مستدرک الحاکم ج/۴ ص ۳۴۸_

۱۳۴

من احسن قولاً ممن دعا الی الله و عمل صالحاً ) (۱) سے مراد اذان و اقامت کے درمیان دو رکعت نماز کی ادائیگی ہے(۲) _

یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ آیت سورہ مبارکہ فصلت کی ہے جو مکی سورت ہے_ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اذان و اقامت کا حکم مکہ میں دیا گیاتھااور یہ آیت اذان اور اقامت کے احکام اور مسائل بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے_

البتہ اس دعوی کہ '' یہ آیت بھی ان آیتوں میں سے ہے جن کا حکم ان کے نزول کے کچھ عرصہ بعد لاگو ہوا '' اس کی سوائے ابن زید کی گذشتہ روایت کے کوئی اور دلیل نہیں ہے اور یہ ہم جان چکے ہیںکہ اس روایت پراعتماد نہیں کیاجاسکتا بلکہ اس کے جھوٹے ہونے پر بھی دلیل قائم کی گئی ہے_

نو: مفسرین نے اس آیت ( و رفعنا لک ذکرک) کے متعلق کہا ہے کہ یہ آیت اذان کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۳) اور کئی مفسروں نے اسے ابن عباس اور مجاہد سے نقل کیا ہے(۴) اور یہ آیت سورہ انشراح میں ہے اور یہ بھی مکی ہے_

آخری بات

حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ حضرتعليه‌السلام نے فرمایا '' جب جبرائیلعليه‌السلام اذان لے کر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تشریف لائے تو جبرائیلعليه‌السلام نے خود اذان و اقامت کہی_ اسی موقع پر آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام سے فرمایا کہ حضرت بلال کو بلالائیں _آپعليه‌السلام نے حضرت بلال کو بلایا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت

____________________

۱)اس سے بہتر بات کس کی ہوگی جو لوگوں کو اللہ اور عمل صالح کی طرف دعوت دے_

۲) السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۹۳، درمنثور ج / ۵ ص ۳۶۴ ، از عبد بن حمید ، سعید بن منصور، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابن ابی شیبہ ، ابن منذر خطیب در تاریخ _

۳) الکشاف مطبوعہ دار الفکر ج۴ ص ۲۶۶ ، جوامع الجامع ص ۵۴۵ ، البحر المحیط ج۸ ص ۴۸۸ ، مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۰۸ ، التفسیر الکبیر ج۳۲ ص۵ و مدارک التنزیل ( مطبوعہ بر حاشیہ الخازن) ج۴ ص ۳۸۹_

۴) ملاحظہ ہو: تفسیر القرآن العظیم ج۴ ص ۵۲۵، الجامع لاحکام القرآن ج۲۰ ص ۱۰۶ و لباب التاویل ج۴ ص ۳۸۹_

۱۳۵

بلال کو اذان کی تعلیم دی اور اذان دینے کا امر فرمایا''(۱) _

اور اس روایت میں گذشتہ روایتوں کے ساتھ کوئی تضاد نہیں پایا جاتا_ کیونکہ عین ممکن ہے کہ جبرائیلعليه‌السلام مکہ میں اذان لے کر نازل ہوئے ہوں _ اسی طرح وقت معراج تشریع ہونے والی اذان فرداً فرداً کہی جانے والی اذان ہو جبکہ جس اذان کو جبرائیلعليه‌السلام (مدینہ میں ) لے کر نازل ہوئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بلال کو اس کی تعلیم دی اور اسے بلند آواز سے کہنے کا حکم دیا وہ اذان اعلان ( نماز جماعت کے قیام کا اعلان کرنے والی اذان ) ہو_

مدینہ میں رونما ہونے والے واقعہ کے متعلق شاید زیادہ مناسب وہ روایت ہو جو یہ کہتی ہے: ''مسلمان جب مدینہ پہنچے تو وہ اکٹھے ہوکر وقت نماز کا انتظار کیا کر تے تھے جبکہ کوئی منادی بھی نہیں تھا_ ایک دن انہوں نے اس بارے میں آپس میں گفتگو کی_ بعض نے کہا کہ ناقوس (گھنٹی) بجائی جائے جیسے عیسائی بجاتے ہیں_ بعض نے کہا کہ یہودیوں کی طرح بگل بجایا جائے _ حضرت عمر نے کہا کہ ایسے کچھ افراد مقرر کئے جائیں جو لوگوں کو نماز کے لئے بلائیں جس پر رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ اٹھو اذان دو''(۲)

اس روایت کے مطابق اختلاف خود مسلمانوں کے درمیان پیدا ہوگیا اور وہ ہی تھے جو ایک دوسرے سے بعض ذرائع اور اسباب کی فرمائشے کرنے لگے تھے _ جبکہ اس جھگڑے کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت بلال کو اذان کا حکم دے کر نمٹایا_ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اذان کا شرعی حکم اس سے قبل (مثلاً شب معراج )آچکا تھا _

لیکن یہ افراد یا تو نو مسلم ہونے کی وجہ سے اس امر سے بے خبر تھے یا وہ سب یا بعض افراد اس بات سے باخبر تو تھے لیکن یہ اذان والی بات ان کے دل کو نہیں لگی تھی اس لئے وہ اس میں تبدیلی کے خواہش مند تھے_

بہر حال اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لئے امام عبدالحسین شرف الدین کی بہترین کتاب '' النص والاجتہاد '' کی طرف مراجعہ فرمائیں(۳) _

____________________

۱) الوسائل ج/۱ ، ص ۳۲۶، الکافی ج/۳ ص ۳۰۲ ، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ ، اس روایت کو جناب شیخ صدوق اور شیخ مفید رحمھما ا اللہ تعالی نے بھی نقل کیا ہے_ (۲) سنن دار قطنی ج/۱ ص ۲۳۷_ (۳)النص و الاجتہاد ص ۱۹۷ تا ۲۰۵_

۱۳۶

اذان میں حی علی خیر العمل:

وہ امور جو مسلمانوں میں اختلاف کا باعث بنے ، ان میں سے ایک اذان میں '' حی عل الفلاح '' کے بعد دو مرتبہ ''حی علی خیر العمل'' کہنے کا مسئلہ بھی ہے_ بعض اس کے قائل ہیں اور بعض انکار کرتے ہیں _

مسلمانوں کا ایک گروہ اپنے پیشواؤںکی اطاعت میں اذان میں''حی علی خیر العمل''کہنے کو صحیح نہیں سمجھتا _ انہیںاہل سنت و الجماعت کہتے ہیں_ البتہ بعض اس کو مکروہ سمجھتے ہیں_ اسکی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ جملہآنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ثابت نہیں ہے جبکہ اذان میں اضافہ مکروہ ہے(۱) _

عما د الدین یحیی بن محمد بن حسن بن حمید مقری کی توضیح المسائل سے نقل کرتے ہوئے قاسم بن محمد بن علی کہتاہے: '' رویانی نے کہا ہے کہ مشہور قول کے مطابق شافعی اس کے جواز کا قائل ہے نیز مالکی مذہب کے علاوہ حنفی اور شافعی مذہب کے اکثر علماء کا بھی کہناہے کہ '' حی علی خیر العمل'' کا جملہ اذان کا ہی حصہ تھا_ اسی طرح زرکشی نے اپنی بحر المحیط نامی کتاب میں کہا ہے : '' بعض مسائل تو ایسے ہیں جن کے متعلق دوسرے شہروںکے علاوہ خود مدینہ کے اندر ہی اختلاف پایا جاتا تھا_ خود مدینہ والوں کے پیشوا جناب عبداللہ ابن عمر اذان کی فصلوں کو ایک ایک کرکے پڑھتے تھے اور اس میں '' حی علی خیر العمل'' بھی کہتے تھے _ یہانتک کہ مقری کہتاہے کہ رویانی کی یہ بات درست ہے کہ شافعی کا مشہور قول ''حی علی خیر العمل '' کے اثبات کے متعلق ہے(۲) _

لیکن اہل بیتعليه‌السلام اور ان کے شیعہ '' حی علی خیر العمل'' کو اذان و اقامت کا جزء سمجھتے ہیں بلکہ اسکے بغیر اذان و اقامت کو صحیح نہیں سمجھتے_ ان کے نزدیک اس حکم پر سب کا اجماع ہے_(۳)

____________________

۱) سنن بیہقی ج/۱ ص ۴۲۵ ، البحر الرائق ج/۱ ص۲۷۵ شرح المھذب سے _

۲)الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۷

۳) الانتصار للسید المرتضی ص ۳۹_

۱۳۷

اس نظریئےو شوکانی نے عترت سے منسوب کیا ہے(۱) اور کہا ہے کہ البحر میں مہدی نے اس قول کو شافعی کے دو اقوال میں سے ایک قرار دیا ہے(۲) شوکانی کہتاہے کہ یہ قول شافعی مذہب کی موجودہ کتابوں میں موجود قول کے برخلاف ہے(۳) _

لیکن اس بات میں شیعیان اہل بیتعليه‌السلام کے ہاں قطعاً کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا_ اس پر ان کی دلیل اجماع اور اہل بیتعليه‌السلام کی بہت ساری روایات ہیں مثلاً مندرجہ ذیل روایات ہیں_

ابو ربیع ، زرارہ، فضیل بن یسار، محمد بن مہران کی امام صادقعليه‌السلام سے روایات، فقہ الرضا میں امام ہشتمعليه‌السلام کی روایت ،ابن سنان، معّلی بن خنیس ، ابو بکر حضرمی اور کلیب اسدی کی امام صادقعليه‌السلام سے روایات، ابو بصیر کی امام باقرعليه‌السلام یا امام صادقعليه‌السلام سے روایت ، محمد بن ابی عمیر کی امام ابوالحسن الکاظمعليه‌السلام سے روایت، امیر المؤمنین علیعليه‌السلام اور حضرت محمد حنفیہ کی پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت اور عکرمہ کی ابن عباس سے روایت ہے(۴) _

اس اختلاف کے ہوتے ہوئے ہمارے لئے اہلعليه‌السلام بیت علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کا نظریہ اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے _ اس سلسلے میں ہم فقط اجماع پریا پھر صرف اہل بیتعليه‌السلام سے مروی روایات پر بھروسہ نہیں کررہے حالانکہ یہ ہستیاں ثقلین کا ایک حصہ ہیں اور خدا نے ان سے ہر قسم کی پلیدی کو دور رکھاہے اور انہیں ہر قسم کی آلائشےوں سے بالکل پاک اور پاکیزہ رکھاہے بلکہ اسکے علاوہ بھی ایسے بہت سے شواہد اور دلائل ہیں جو دوسروں کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں_

بطور مثال وہ بعض روایات جو صحیح اسناد کے ساتھ مندرجہ ذیل شخصیات سے منقول ہیں_

۱_ عبداللہ بن عمر ۲_ حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام

۳_ سھل بن حنیف ۴ _ بلال

____________________

۱)نیل الاوطار ج۲ ص ۱۸_ (۲)نیل الاوطار ج۲ ص ۱۸ ، ۱۹ ، البحر الزخار ج۲ ص ۱۹۱ نیز الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۷ ، ۳۰۸ ، مؤخر الذکر دونوں کتابوں میں شافعی کے ایک قول کی بجائے شافعی کا آخری (حتمی) نظریہ ذکر ہوا ہے_

۳) نیل الاوطار ج۲ص ۱۹_

۴)الوسائل، جامع احادیث الشیعہ، البحار، مستدرک الوسائل ابواب اذان_

۱۳۸

۵_حضرت امام علیعليه‌السلام ۶_ ابو محذورة

۷ _ابن ابی محذورة ۸_ زید بن ارقم

۹_ حضرت امام باقرعليه‌السلام ۱۰ _ حضرت امام صادقعليه‌السلام

۱۱ _ حضرت امام حسنعليه‌السلام ۱۲_ حضرت امام حسینعليه‌السلام

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی شخصیات ہیں_

عبداللہ بن عمر سے روایات:

۱ _ مالک بن انس، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ جناب عبداللہ بن عمر بسا اوقات ''حی علی الفلاح'' کے بعد ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۱) _

۲_ لیث بن سعد ، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ جناب ابن عمر سفر میں کبھی بھی اذان نہیں کہتے تھے بلکہ وہ صرف ''حی علی الفلاح'' کہتے تھے اور بسااوقات ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۲) _

۳ _ لیث بن سعد، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ جناب عبداللہ بن عمر اذان میں بعض اوقات''حی علی خیر العمل'' کا اضافہ کرتے تھے، یہی روایت انس بن مالک نے نافع کے ذریعے عبداللہ بن عمر سے نقل کی ہے(۳) نیز عطاء نے بھی عبداللہ بن عمر سے یہی روایت نقل کی ہے(۴) _

۴_محمد بن سیرین نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ وہ ہمیشہ اذان میں ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۵) _

____________________

۱) سنن بیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۴ الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۷ و ص ۳۰۸ و ۳۱۲_

۲) سنن بیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۴ نیز ملاحظہ ہو نیل الاوطار ج۲ ص ۱۹_ (۳) سنن بیہقی ج /۱ ص۴۲۴ ، دلائل الصدق ج/ ۳ جزء دوم ص ۱۰۰ از مبادی الفقہ الاسلامی للعرفی ص ۳۸ شرح تجرید ، جواہر الاخبار اور صعدی کی الآثار المستخرجہ من لجة البحر الزخارج ۲ ص ۱۹۲ کے مطابق ، ابن ابی شیبہ نے اسے ''الشفائ'' میں نقل کیا ہے، نیز الاعصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۸ _ (۴) الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۹ نیز ملاحظہ ہو ص ۳۱۰_ (۵) سنن بیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۵ نیز الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۸ از سنن بیہقی_

۱۳۹

۵_ نسیربن ذعلوق ، ابن عمر کے بارے میںکہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سفر میں '' حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۱) _

۶_ عبدالرزاق، ابن جریح سے اور وہ نافع سے روایت کرتے کہ عبداللہ بن عمر سفر میں جب بھی نماز پڑھتے تو نماز کے لئے اقامت کہتے اور اس میں دو یا تین مرتبہ یوں کہتے تھے''حی علی الصلاة حی علی الصلاة، حی علی خیر العمل(۲)

۷_ عبدالرزاق ، معمر سے وہ یحیی بن ابی کثیر اور وہ کسی ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر اذان میں ہمیشہ ''حی علی الفلاح ''کے بعد ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے اور پھر'' اللہ اکبر، اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ'' کہتے(۳) اسی روایت کوابن ابی شیبہ نے ابن عجلان اور عبیداللہ ، نافع اور عبداللہ ابن عمر کی سندسے روایت کی ہے(۴)

۸_ زید بن محمد نے نافع سے روایت نقل کی ہے کہ عبداللہ بن عمر جب بھی اذان کہتا تھا '' حی علی خیر العمل'' کہتا تھا(۵) صاحب اعتصام نے ابن عون ، ابن جریح ،عثمان بن مقسم ، عبداللہ بن عمر اور جویریہ بن اسماء کی نافع سے روایتیں بیان کی ہیں(۶) اس لئے وہاں انہیں ملاحظہ فرمائیں _ اسی طرح کی ایک روایت حلبی و غیرہ نے بھی عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے(۷)

امام زین العابدینعليه‌السلام سے روایات

۹_ حاتم بن اسماعیل نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے انہوں نے اپنے والد گرامی سے اور انہوں نے حضرت

____________________

۱) مذکورہ منابع_

۲) مصنف عبدالرزاق ج/ ۱ ص ۴۶۴_

۳)سنن بیہقی ج۱ ص ۴۶۰ نیز الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۹_

۴) مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص ۱۴۵ حاشیہ مصنف عبدالرزاق ج۱ ص ۴۶۰ از مذکورہ کتاب نیز ملاحظہ ہو الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۶_

۵) الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۵_

۶) الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۶ تا۲۹۹_

۷) سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۹۸ ، الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۱۱ ، ۳۱۲ ، از ابن حزم در کتاب '' الاجماع''_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

خدا وند عالم کی گواھی:

اس آیہء شریفہ میں پیغمبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پہلے گواہ کے طور پر خدا وندمتعال کا ذکرہوا ہے۔ خدا وند متعال کی اس گواہی کے دوفرض ہیں:

۱ ۔ممکن ہے یہ گواہی قولی ہو اور گفتگو و کلام کے مقولہ سے ہو اس صورت میں وہی آیتیں جو آنحضرت کی رسالت کو بیان کرتی ہیں خداوندمتعال کی اس گواہی کی مصداق ہوں گی، جیسے :( والقران الحکیم انّک لمن المرسلین ) (۱) ” قرآن حکیم کی قسم آپ مرسلین میں سے ہیں“

۲ ۔ ممکن ہے یہ گواہی فعلی ہو اور خدا وندمتعال نے اسے معجزہ کی صورت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذر یعہ ظاہر کیا ہو، یہ معجزے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے سلسلہ میں دعویٰ کے لئے ایک قوی سند ، واضح دلیل اور گو یا گواہ ہیں، خاص کر قرآن مجید ، جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاایک لافانی معجزہ ہے اورہر زمانہ میں باقی رہنے والا ہے اوران معجزات کی حیثیت ایک طرح سے خداوندمتعال کے فعل کی سی ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر گواہ ہیں۔

من عندہ علم الکتاب - سے مرادکون ہے؟

دوسرے محورمیں بحث اس جہت سے ہوگی کہ ” کتاب“ سے مراد کیا ہے؟ اور جس کے پاس ” کتاب کا علم“ ہے ، وہ کون ہے؟ اس سلسلہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں کہ ہم ان پر بحث کریں گے:

پہلا احتمال :” کتاب“سے مرادقرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور کتاب کے عالم سے مرادعلمائے یہودو نصاریٰ ہیں:

اس صورت میں اس آیہ شریفہ کے معنی یوں ہوں گے: ” کہدےجئے اے پیغمبر! ہمارے

_____________________

۱-۔ سورہ یاسین/۱۔۲

۲۴۱

اورتمھارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے کافی ہے خدا وندمتعال اور وہ لوگ جن کے پاس گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم ہے جیسے علمائے یہودونصاری چونکہ ان کتابوں میں پیغمبر)صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کا نام آیا ہے اور آنحضرت کی رسالت بیان ہوئی ہے ۔ اسی لئے علمائے یہودو نصاری اس مطلب سے آگاہی رکھتے ہیں اور اس پر گواہ ہیں۔

یہ احتمال صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر چہ علمائے یہودونصاری اپنی آسمانی کتابوں کے عالم تھے ، لیکن وہ کافر تھے اور ہر گز اپنے خلاف گواہی دینے کے لئے حاضر نہیں تھے۔

دوسرا احتمال : ” کتاب “سے مراد وہی قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور ان کے عالم سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا شمار پہلے علمائے یہودونصاری ٰ میں ہوا کر تا تھالیکن بعد میں اسلام قبول کرکے وہ مسلمان ہوگئے تھے، جیسے : سلمان فارسی ، عبدالله بن سلام اور تمیم الداری۔ یہ لوگ ایک جہت سے توریت اور انجیل جیسی گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے اور ایک جہت سے آمادہ تھے تاکہ اسلام کی حقانیت اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے بارے میں جو کچھ انہیں معلوم ہے اس کی گواہی دیں۔

یہ احتمال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ سورہ رعد اور من جملہ زیر بحث آیہء شریفہ جو اس سورہ کی آخری آیت ہے ، مکہ میں نازل ہوئی ہے اور مذکورہ افراد مدینہ میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اس لئے اس کاکوئی مفہوم نہیں ہے جو ابھی کافر ہیں اور مسلمان نہیں ہوئے ہیں اپنے دین کے خلاف گواہی دینے کے لئے مدعو ہوجائیں۔

شبعی اور سعید بن جبیر سے نقل ہوئی روآیت کے مطابق انہوں نے بھی مذکورہ احتمال یعنی ” من عندہ علم الکتاب“ سے عبدالله بن سلام کو مراد لینا اس کو مسترد کر دیا ہے ۔ اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور عبداللهبن سلام مدینہ میں مسلمان ہوا ہے۔(۱)

تیسرا احتمال: ”من عنده علم الکتاب “ سے مقصود خداوندمتعال اور

____________________

۱۔ معالم التنزیل ، ج ۳-، ص ۴۶۴، ۴۶۵-۔ الاتقان ، ج ۱، ص ۳۶، دار ابن کثیر بیروت

۲۴۲

”کتاب“سے مرادلوح محفوظ ہے اور ”من عند ه علم الکتاب “ کا ” الله“ پر عطف ہونا صفت کا اسم ذات پر عطف ہونے کے باب سے ہے۔ اس صورت میں معنی یوں ہوتا ہے: خداوندمتعال اور وہ شخص جو لوح محفوظ )جس میں تمام کائنات کے حقائق ثبت ہیں ) کا علم رکھتا ہے، وہ تمہاری رسالت پر گواہ ہے۔

اول یہ کہ : جملہء( قل کفی باالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں بظاہر عطف یہ ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“ خدا وندمتعال کے علاوہ ہے کہ جس کا ذکر ابتداء میں پہلے گواہ کے طور پرآیا ہے۔

دوسرے یہ کہ: عربی ادبیات میں صفت کا عطف ، صفت پر موصوف کے سلسلہ میں مشہور اور رائج ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس قسم کا استعمال پایاجاتا ہے، جیسے :آیہء شریفہ :( تنزیل الکتاب من اللهالعزيز العلیم غافر الذّنب وقابل التوب ) (۱) میں ”غافرالذّ نب “)گناہ کو بخشنے والا) اور ”قابل التوب “ )توبہ کو قبول کرنے والا) دوصفتیں ہیں جو حرف عطف کے فاصلہ سے ایک دوسرے کے بعدہیں اور خدا وندمتعال کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ لیکن جن مواقع پر پہلے اسم ذات ذکر ہوا ہے، کبھی بھی مشہور اور رائج استعمالات میں صفت اس پر عطف نہیں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ : آیہ کریمہ میں ” من عندہ علم الکتاب“ سے مرادخدا وندمتعال ہے۔

چوتھا احتمال: کتاب سے مراد ” لوح محفوظ“ ہے اور ” جس کے پاس کتاب کا علم ہے اس سے مراد امیرلمومنین علی علیہ السلام ہیں۔

اب ہم اس احتمال پر بحث و تحقیق کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ سورہ غافر/۲

۲۴۳

لوح محفوظ اور حقائق ھستی

قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے تمام حقائق ایک مجموعہ کی شکل میں موجود ہیں کہ قرآن مجید نے اسے ” کتاب مبین“(۱) یا ” امام مبین“(۲) یا ” لوح محفوظ“(۳) کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ من جملہ سورہ نمل میں فرماتا ہے:( وما من غائبة فی السّماء والارض إلّا فی کتاب مبین ) (۴) یعنی: اور آسمان و زمین میں کوئی پوشیدہ چیزایسی نہیں ہے جس کا ذکر کتاب مبین ) لوح محفوظ ) میں نہ ہو۔

اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوح محفوظ میں درج شدہ حقائق سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے؟ اور اگر یہ ممکن ہے تو کون لوگ ان حقائق سے با خبر اور آگاہ ہیں اور کس حد تک؟

مطھّرون اور لوح محفوظ سے آگاہی

اس سلسلہ میں ہم سورہ واقعہ کی چند آیتوں پر غوروخوض کرتے ہیں:

( فلا اٴُ قسم بمواقع النجوموإنّه لقسم لوتعلمون عظیم إنّه لقرآن کریمفی کتاب مکنون لایمسّه إلّا المطهّرون ) ) سورہ واقعہ/ ۷۵ ۔-- ۷۹)

ان آیات میں ، پہلے ستاروں کے محل و مدارکی قسم کھائی گئی ہے۔ اس کے بعد اس قسم کی عظمت و اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اس کی نشاندھی کی گئی ہے۔ اس نکتہ پرتو جہ کرنا ضروری ہے کہ قسم کا معیار اور اس کی حیثیت اس حقیقت کے مطابق ہونا چا ہئیے کہ جس کے متعلق یا جس کے

____________________

۱-۔ سورہ یونس/۶۱، سورہ سبا/۱۳، سورہ نمل/۷۵

۲۔ سورہ یسین/۱۲

۳۔ سورہ بروج/ ۲۲

۴۔ سورہ نمل/۷۵

۲۴۴

اثبات کے لئے قسم کھائی جارہی ہے ۔ اگر قسم با عظمت اور بااہمیت ہے تو یہ اس حقیقت کی اہمیت کی دلیل ہے کہ جس کے لئے قسم کھائی گئی ہے۔

جس حقیقت کے لئے یہ عظیم قسم کھائی گئی ہے، وہ یہ ہے: - إنّہ لقرآن کریم فی کتاب مکنون لایمسّہ الّا المطھرون یعنی بیشک یہ بہت ہی با عظمت قرآن ہے جسے ایک پو شیدہ کتاب میں رکھاگیا ہے اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے۔ ) اس کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکتا ہے۔)آیہ شریفہ کا یہ جملہ لا یمسّہ الّاالمطھرون بہت زیادہ قابل غور ہے۔

ابتدائی نظر میں کہاجاتا ہے کہ بے طہارت لوگوں کا قرآن مجید سے مس کرنا اور اس کے خط پر ہاتھ لگانا حرام ہے، لیکن اس آیہ شریفہ پر عمیق غور وفکر کرنے سے یہ اہم نکتہ و اضح ہو جاتا ہے کہ مس سے مراد مس ظا ہری نہیں ہے اور ” مطھرون“ سے مراد باطہارت )مثلاً باوضو) افراد نہیں ہیں ۔ بلکہ مس سے مراد مس معنوی )رابطہ) اور”مطھرون “ سے مرادوہ افراد ہیں جنہیں خدا وندمتعال نے خاص پاکیزہ گی عنآیت کی ہے، اور ”لایمسہ“ کی ضمیر کتاب مکنون )لوح محفوظ) کی طرف پلٹتی ہے ۔

آیہ کریمہ سے یہ معنی )مس معنوی) استفادہ کرنے کے لئے چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

۱ ۔ جملہء ”لا یمسہ “ کا ظہور اخبار ہے نہ انشاء ، کیونکہ بظا ہر یہ جملہ دوسرے اوصاف کے مانند کہ جو اس سے قبل ذکر ہوئے ہیں، صفت ہے اور انشاء صفت نہیں بن سکتا ہے، جبکہ آیت میں غیر مطہرون کے مس سے حکم تحریم )حرمت) کا استفادہ اس بنا پر کیا جاتا ہے کہ جملہ ”لا یمسہ “ انشاء ہو ، نہ اخبار۔

۲ ۔ ” لایمسہ“ کی ضمیر بلا فاصلہ ” کتاب مکنوں“ کی طرف پلٹتی ہے ، کہ جو اس جملہ سے پہلے واقع ہے نہ قرآن کی طرف کہ جواس سے پہلے مذکور ہے اور چند کلمات نے ان کے درمیان فاصلہ ڈال دیا ہے۔

۲۴۵

۳ ۔ قرآن مجید کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک پوشیدہ اور محفوظ کتاب میں واقع ہے کہ جس تک عام انسانوں کی رسائی نہیں ہے اور یہ مطلب اس کے ساتھ مس کرنے سے کوئی تناسب نہیں رکھتا ہے۔

۴ ۔ طہارت شرعی ، یعنی وضو )جہاں پر وضو واجب ہو) یا غسل یا تیمم )جہاں پر ان کا انجام دینا ضروری وفرض)رکھنے والے کو ” متطھرّ“ کہتے ہیں نہ ”مطھّر“۔

اس تشریح سے واضح ہوجاتا ہے کہ جو کچھ جملہ ء ”( لا یمسه الّا المطهرون ) “ سے استفادہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ ” مطھر“ ) پاک قرار دئے گئے)افراد کے علاوہ کوئی بھی ”کتاب مکنون“ )لوح محفوظ) کو مس نہیں کرسکتا ہے، یعنی اس کے حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس خصوصی طہارت کے حامل افراد کون لوگ ہیں اور ”مطھرون“ سے مرادکون لوگ ہیں کہ جو ” لوح محفوظ“ سے اطلاع حاصل کرتے ہیں؟

” مطھرون “سے مرادکون ہیں؟

کیا ” مطھرون“کی اصطلاح فر شتوں سے مخصوص ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے اشارہ کیا ہے ۔(۱) یایہ کہ اس میں عمومیت ہے یعنی وہ افراد جو خدا کی جانب سے خصوصی طہارت کے حامل ہیں وہ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے:

حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ، اور خدا کی جانب سے انھیں جانشین مقرر کیا جا نا نیز

____________________

۱۔جیسے ” روح المعانی“ ج ۲۷،۱۵۴،دار احیاء التراث العربی، بیروت

۲۴۶

”اسماء“الہی کا علم رکھنا یعنی ایک ایسی حقیقت سے آگاہی کہ جس کے بارے میں ملا ئکہ نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کے لئے ملائکہ کو سجدے کا حکم دیناو غیرہ ان واقعات اور قرآنی آیات ۱ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ خاص علوم سے آگاہی اور تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت انسان کامل میں ملائکہ سے کہیں زیادہ ہے۔

مذکورہ ان صفات کے پیش نظر کوئی دلیل نہیں ہے کہ جملہ لا یمسہ الّا المطھرون کو فرشتوں سے مخصوص کیا جائے جبکہ قرآن مجید کے مطابق خدا کے ایسے منتخب بندے موجود ہیں جو خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں۔

آیہ تطہیر اور پیغمبر کا محترم خاندان

( إنّمایریدالله ليذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهر کم تطهیرا )

) سورہ احزاب/ ۳۳)

” بس الله کا ارادہ ہے اے اہل بیت : کہ تم سے ہرطرح کی برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“

یہ آیہ شریفہ دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان خدا وندمتعال کی طرف سے ایک خاص اور اعلی قسم کی پاکیزگی کا مالک ہے۔ آیہ کریمہ میں ” تطھیرا“ کا لفظ مفعول مطلق نوعی ہے جو ایک خاص قسم کی طہارت و پاکیزگی کو بیان کرتا ہے۔

ہم یہاں پر اس آیہ شریفہ سے متعلق مفصل بحث کرنا نہیں چاہتے، اس لئے کہ آیت تطہیر سے مربوط باب میں اس پر مکمل بحث گزر چکی ہے، اور اس کا نتےجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے اہل بیت کہ جن میں سب سے نمایاں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں، اس آیہ شریفہ کے مطابق خداکی طرف سے خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں اور

____________________

۱۔ سورہ بقرہ/۳۴۔۳۰

۲۴۷

”مطھرون“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ لوح محفوظ کے حقائق سے آگاہی رکھ سکتے ہیں۔

”آصف بر خیا“ اور کتاب کے کچھ حصہ کا علم

ہم جانتے ہیں کہ خدا وندمتعال نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک ایسی وسیع سلطنت عطا کی تھی کہ انسانوں کے علاوہ جناّت اور پرندے بھی ان کے تابع تھے ۔ ایک دن جب جن وانس ان کے گرد جمع تھے حضرت سلیمان نے ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو بلقیس کے مسلمان ہونے سے پہلے اس کے تخت کو میرے پاس حاضر کردے؟جنّات میں سے ایک عفریت نے سلیمان نبی سے کہا:قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھے ہیں تخت کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا۔ قرآن مجید فرماتا ہے(۱) ” کتاب کے کچھ حصہ کا علم رکھنے والے ایک شخص نے کہا: میں اتنی جلدی تخت بلقیس کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا کہ آپ کی پلک بھی جھپکنے نہیں پائے گی اور اسی طرح اس نے حاضر کیا ۔

جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ کتاب ” لوح محفوظ “ہے اور ش یعہ و سنی احادیث کے مطابق مذکورہ شخص حضرت سلیمان کا وزیر ” آصف بر خیا“ تھا ۔ قرآن مجید سے استفادہ ہوتا ہے آصف کی یہ غیر معمولی اور حیرت انگیز طاقت وصلاحیت کتاب )لوح محفوظ) کے کچھ حصہ کا علم جاننے کے سبب تھی۔

واضح رہے کہ طہارت و پاکیزگی کے چند مراحل ہیں۔ جس قدر طہارت کامل تر ہوگی اسی اعتبار سے علم وقدرت میں بھی اضا فہ ہو گا۔

جب ہمیں آیہ کریمہ( لا یمسّه إلا المطهرون ) سے یہ معلوم ہوگیا کہ لوح محفوظ کے حقایق کا علم خدا کی خاص طہارت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اور آیہ تطہیر نے اس خاص طہارت اور پاکیزگی کو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت کیا ہے، وہ بھی ایک ایسی تطہیر جو

____________________

۱۔سورہ نمل/۴۰

۲۔کچھ اردو قوال بھی ہیں کہ تفاسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے

۲۴۸

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تطہیر کے ہم پلہ ہے۔لہذا ان صفات کے پیش نظربعید نہیں ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) علیہم السلام) لوح محفوظ کے تمام حقائق کا علم رکھتے ہوں اس لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ثعلبی کہ جو اھل سنت(۱) کے نزدیک تفسیر کے استاد نیزحافظ اور امام کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں اور اہل سنت کے ائمہ رجال(۲) کے مطابق جن کی روایتیں صحیح اورقابل اعتماد جانی جاتیں ہیں ، تفسیر”الکشف و البیان“(۳) میں اور حاکم حسکانی(۴) تفسیر شواہد التنزیل(۵) میں ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن سلام اور ابن عباس جیسے چند اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ ”من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیر المومنین علی، علیہ السلام ہیں۔

بلکہ ابو سعیدخدریاور عبداللهبن سلام سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد کون ہے؟ جواب میں پیغمبر (ص)نے علی علیہ السلام کو” من عندہ الکتاب“کے مصداق کے طور پر پیش کیا۔ اسی مطلب کو )من عندہ علم الکتاب،سے مرادعلی علیہ السلام ہیں)سعید بن جبیر ،ابی صالح نیزمحمد بن حنفیہ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔

اسی طرح کئی طریقوں سے نقل کیا گیا ہے کہ عبدالله بن عطاء کہ جو امام باقر علیہ السلام کے ہمراہ تھے، جب انھوں نے عبدالله بن سلام کے بیٹے کو دیکھا تو امام باقر علیہ السلام سے سوال کیا: کیا یہ )عبداللهبن سلام کا بیٹا) اس شخص کا بیٹا ہے جس کے پاس کتاب کا علم تھا؟ حضرت نے فرمایا: نہیں،”من عندہ علم الکتاب“سے مراد )عبداللهبن سلام نہیں ہے، بلکہ) امیر

____________________

۱۔اہل سنت کے علم رجال کے جلیل القدرامام ذہبی نے ” سیر اعلام النبلاء“ ج۱۷، ص۴۳۵ میں ثعلبی کے بارے میں کہا ہے : ” الامام الحافظ العلامة شیخ التفسیر“، ۲۔ عبدالغافر نیشابوری کتاب” تاریخ نیشاپوری“ ص۱۰۹ میں اس کے بارے میں کہتا ہے: الثقة الحافظو ہو صحیح النقل موثوق بہ، ۳۔ الکشف وا لبیان، ج۵، ص ۳۰۳۔۳۰۲، داراحیا التراث العربی، بیروت، ۴۔ذہبی کی عبادت کو ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس کے متقن، محکم اسناد کے عالی ہونے کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ۵۔” شواہد التنزیل“ با تحقیق شیخ محمد باقر محمود، ج۱، ص۴۰۰

۲۴۹

المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔

اس کے علاوہ ابن شہر آشوب(۱) نے اپنی ”کتاب مناقب(۲) “ میں کہا ہے:

” محمدبن مسلم، ابوحمزہ ثمالی اور جابربن یزید نے امام باقر(علیہ السلام) سے اسی طرح علی بن فضل،فضیل بن یسار اور ابو بصیر نے امام صادق(علیہ السلام) سے نیز احمد بن محمدحلبی اور محمد بن فضیل نے امام رضا(علیہ السلام) سے روایت نقل کی ہے اور اس کے علاوہ موسی بن جعفر(علیہ السلام)، زیدبن علی، محمد بن حنفیہ، سلمان فارسی، ابوسعید خدری اور اسماعیل سدی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں خداوند متعال کے قول:( کل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) کے بارے میں کہا ہے کہ:”من عندہ علم الکتاب“سے مراد علی بن ابیطالب (علیہ السلام) ہیں۔“

شیعہ احادیث میں مختلف طریقوں سے آیا ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصو مین علیہم السلام ہیں۔ نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل حدیث پر غور فرماہئے: ثقة الاسلام کلینی نے اصول کافی(۳) میں معتبر سند سے بریدبن معاویہ سے کہ جو امام باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے روایت کی ہے انھوں نے حضرت سے عرض کی:”آیہ کریمہ( قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں ”من عندہ علم الکتاب“ سے مراد کون ہے؟حضرت نے فرمایا:اس سے صرف ہم اھل بیت معصومین(ع) کا قصد کیا گیا ہے اور علی ) علیہ السلام) پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدسب سے مقدم اورہم میں افضل ترین فرد ہیں۔

____________________

۱۔ ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس )شہر آشوب) کی صداقت کے بارے میں ابن ابی طما کی زبانی زہبی کی ستائش بیان کی ہے۔

۲۔ مناقب، ابن شہر آشوب، ج۲، ص۲۹، موسسہ انتشارات علامہ قم،

۳۔ اصول کافی، ج۱،ص۱۷۹

۲۵۰

احادیث میں جس کے پاس کتاب کا علم ہے)علی بن ابیطالب علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) اور جس کے پاس کتاب کا کچھ علم موجود ہے)آصف برخیا) کے در میان دلچسپ موازنہ کیا گیا ہے:

عن اٴبی عبد الله قال: ” الذي عنده علم الکتاب“ هو امیرالمؤمنین - علیه السلام - و سئل عن الذي عنده علم من الکتاب اٴعلم اٴم الذي عنده علم الکتاب؟ فقال: ما کان علم الّذي عنده علم من الکتاب عند الذي عنده علم الکتاب إلّا بقدر ما تاٴخذ البعوضة بجناحها من مائ البحر(۱)

یعنی: امام صادق) علیہ السلام) نے فرمایا:

”جس کے پاس کتاب کا علم تھا علی بن ابیطالب(علیہ السلام) تھے۔ سوال کیا گیا: کیا وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا یعنی آصف برخیازیادہ عالم تھا یا وہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا)یعنی حضرت علی علیہ السلام)امام نے فرمایا:جس کے پاس کتاب کا تھوڑا ساعلم تھا،اس کاموازنہ اس شخص سے کہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا ایسا ہے جیسے مچھرکے بھیگے ہوئے پر کا موازنہ سمندرسے کیاجائے۔“

یہ بحث وگفتگواس بناپرتھی کہ جب”من عندہ علم الکتاب“میں ”کتاب“سے مرادلوح محفو ظ ہو۔لیکن اگر”الکتاب“سے مرادجنس کتاب ہو،اس بنا پرکہ” الف ولام“جنس کے لئے ہے اور کوئی خاص چیز مد نظرنہ ہوتوہرکتاب اس میں شامل ہو سکتی ہے حتی لوح محفوظ بھی اس کے مصادیق میں سے ایک ہوگا،اس میں گزشتہ آسمانی کتابیں اور قرآن مجید سبھی شامل ہیں۔

____________________

۱۔ نورالثقلیب،ج۴،ص۸۸۔۸۷

۲۵۱

اس صورت میں بھی”من عندہ علم الکتاب“سے مرادحضرت علی علیہ السلام ہی ہوں گے کیونکہ حضرت کالوح محفوظ کے حقائق سے آگاہ ہونا آیہ کریمہ”( لایمسه الّا المطهرون ) “کوآیہ تطہیرکے ساتھ ضمیمہ کرنے سے معلوم ہوجا تا ہے،اورحضرت کاقرآن مجید کے تمام ابعاد سے واقف ہو نابہت سی دلیلوں من جملہ حدیث ثقلین(۱) کے ذریعہ ثابت ہے۔

اس لئے اس حدیث شریف میں آیا ہے کہ پیغمبراکرم )صلی الله علیہ و آلہ وسلم )کے اہل بیت )علیہم السلام)ہرگزقرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اور یہ حضرت علی علیہ السلام کے قرآن مجید کے تمام علوم سے آگاہی رکھنے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگرحضرت قرآن مجید کے کسی پہلوکو نہیں جانتے ہیں تو گو یاوہ اس اعتبار سے قرآن مجید سے اتنا دور ہو گئے ہیں اور یہ حدیث میں بیان کئے گئے مطلب کے خلاف ہے۔

آسمانی کتا بوں کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کے علم کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی احا دیث کی کتا بوں میں ایا ہے، من جملہ مندرجہ ذیل حدیث سے جوخود حضرت سے نقل کی گئی ہے:

لو ثنّیت لي الوسادة لحکمت بین اٴهل التوراة بتوراتهم، و بین اٴهل الإنجیل بإنجیلهم، و بین اٴهل الزبور بزبورهم(۲)

”اگر میرے لئے مسند قضا بچھادی جائے تو میں اہل توریت کے لئے توریت سے، اہل انجیل کے لئے انجیل سے اور اہل زبو ر کے لئے زبور سے فیصلہ کروں گا۔“

____________________

۱۔ سنن الترمذی،ج۵ص۶۲۲ مسنداحمد،ج۳،ص۱۴،۱۷،۲۶،۹۵وج۵،ص۱۸۹۔۱۸۸خصائص امیرالمؤمنین علی نسائی ص ۸۵۔۸۴

۲۔فرائد السمطن،ج۱،ص۳۴۱۔۹۳۳۔شواہد التنزیل ج۱،ص۳۶۶،ح۳۸۴

۲۵۲

منابع کی فہرست

(الف)

۱ ۔القرآن الکریم

۲ ۔ الاتقان،سیوطی، ۹۱۱ ئھ-،دار ابن کثیر، بیروت، لبنان

۳ ۔ احقاق الحق، قاضی سید نورالله تستری، شہادت ۱۰۱۹ ئہ-

۴ ۔ احکام القرآن، جصاص،ت ۷۳۰ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۵ ۔ احکام القرآن، ابوبکر ابن العربی المعافري، ت ۵۴۶ ئہ-

۶ ۔ اربعین، محمد بن ابی الفوارس، مخطوط کتابخانہ آستان قدس، رقم ۸۴۴۳

۷ ۔ ارجح المطالب، عبدالله الحنفي، ت ۱۳۸۱ ئہ-، طبع لاہور )بہ نقل احقاق الحق)

۸ ۔ ارشاد العقل السلیم، ابو السعود، ت ۹۵۱ ء، داراحیاء التراث العربی،بیروت، لبنان

۹ ۔ اسباب النزول،و احدی النیسابوری، ت ۴۶۸ ئہ-، دارالکتاب العلمیة، بیروت، لبنان

۱۰ ۔ اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ابن اثیر،ت ۶۳۰ ئہ- داراحیائ التراث العر بی،بیروت،لبنان

۱۱ ۔ الإصابة فی تمییز الصحابة، احمد بن علی، ابن حجر عسقلانی،ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۱۲ ۔ اضوائ البیان،شنقیطی،ت ۳۹۳ ئہ-، عالم الکتب، بیروت

۱۳ ۔اعیان الشیعة، سیدمحسن الامین، ت حدود ۱۳۷۲ ئہ-،دارالتعارف للمطبوعات، بیروت

۱۴ ۔ الامامة و السیاسة، ابن قتیبة دینوری، ت ۲۷۶ ء ہ-، منشورات الشریف الرضی،قم

۱۵ ۔انساب الاشراف،احمد بن یحیی بلاذری،ت ۲۷۹ ئہ-،دارالفکر

۱۶ ۔ایضاح المکنون، اسماعیل باشا،ت ۴۶۳ ئہ-، دارالفکر

۲۵۳

(ب)

۱۷ ۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ت ۱۱۱۱ ئہ- مؤسسة الوفاء، بیروت

۱۸ ۔ بحر العلوم، نصر بن محمد سمرقندی، ت ۳۷۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة،بیروت

۱۹ ۔ البحر المحیط، ابوحیان اندلسی، ت ۷۵۴ ء،المکتبة التجاریة

احمد الباز، مکة المکرمة

۲۰ ۔ البدایة و النہایة، ابن کثیر الدمشقی،ت ۷۷۴ ئہ-،دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۱ ۔ البرہان، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان

۲۲ ۔ البہجة المرضیة، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتب المفید)ت)

۲۳ ۔ التاج الجامع للاصول، منصور علی ناصف، ت ۱۳۷۱ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت

۲۴ ۔ تاج الفردوس، محمد مرتضی حسینی زبیدی، ت ۱۲۵۰ ء ہ-، دار الہدایة للطباعة والنشر و التوزیع، دارمکتبة الحیاة، بیروت

۲۵ ۔ تاریخ الاسلام، شمس الدین ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتاب العربی

۲۶ ۔ تاریخ بغداد، احمد بن علی خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ء ہ-، دارالفکر

۲۷ ۔ تاریخ طبری، محمد بن جریر طبری،ت ۳۱۰ ئہ-، مؤسسة عزالدین للطباعة والنشر، بیروت، لبنان

۲۸ ۔ تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ت ۵۷۱ ئہ-، دارالفکر، بیروت

۲۹ ۔ تاریخ نیسابور، عبدالغافر نیشابوری،ت ۵۲۹ ہ-

۳۰ ۔ تذکرة الحفّاظ، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان

۳۱ ۔ تذکرة الخواص، سبط بن جوزی ت ۶۵۴ ئہ-، چاپ نجف

۳۲ ۔التسہیل لعلوم التنزیل، ابن حزی الکلبی، ت ۲۹۲ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۳۳ ۔ تفسیر ابن ابی حاتم، عبد الرحمن بن محمد بن ادریسی الرازی، ت ۳۲۷ ہ-، المکتبة المصریة، بیروت

۳۴ ۔ تفسیر البیضاوی، قاضی بیضاوی،ت ۷۹۱ ئہ-

۲۵۴

۳۵ ۔ تفسیر الخازن )لباب التاویل)، علاء الدین بغدادی، ت ۷۲۵ ئہ-، دارالفکر

۳۶ ۔ تفسیر علی بن ابراہیم قمی، متوفی اواخر قرن سوم ہ-، مطبعہ نجف

۳۷ ۔ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، ت ۷۷۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۳۸ ۔ التفسیر الکبیر، فخر رازی، ت ۶۰۶ ئہ-، دار احیائ التراث العربی بیروت، لبنان

۳۹ ۔ تفسیر الماوردی، محمد بن حبیب ماوردی بصری، متوفی ۴۵۰ ہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۰ ۔ تفسیر النسفی )مدارک التنزیل وحقائق التاویل) حاشیہ تفسیر خازن، عبدالله النسفی،ت ۷۱۰ ئہ-، دارالفکر

۴۱ ۔ تفسیر المنار، رشید رضا،ت ۱۳۵۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۲ ۔ تلخیص المستدرک، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-،دارالمعرفة، بیروت

۴۳ ۔ تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۴۴ ۔تہذیب الکمال، مزّی، ت ۷۴۲ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

(ج)

۴۵ ۔جامع الاحادیث، سیوطی،ت ۹۱۱ ئہ-، دارالفکر

۴۶ ۔جامع البیان، محمد بن جریر طبری، ت ۳۱۰ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۴۷ ۔جامع احکام القرآن، قرطبی، ت ۶۷۱ ئہ-،دارالفکر

۴۸ ۔ الجامع الصحیح الترمذی، محمد بن عیسی ت ۲۷۹ ئہ-، دارالفکر

۴۹ ۔جمع الجوامع، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-

۵۰ ۔جمہرةاللغة،ابن درید،ت ۳۲۱ ئہ-

۵۱ ۔الجواہر الحسان ابوزید الثعالبی ت ۸۷۶ ء ہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت

۵۲ ۔ جواہر العقدین، سمہودی، ت ۹۱۱ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۵۵

(ح)

۵۳ ۔الحاوی للفتاوی سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتبة القدس قاہرة)بہ نقل احقاق الحق)

۵۴ ۔حاشیة الشہاب علی تفسیر البیضاوی احمد خفاجی مصری حنفی، ت ۱۰۶۹ ئہ-،دار احیائ التراث العربی، بیروت

۵۵ ۔حاشیہ الصاوی علی تفسیر الجلالین، شیخ احمد الصاوی المالکی، ت ۱۲۴۱ ئہ-، دارالفکر

۵۶ ۔حلیة الاولیاء، ابونعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ-، دارالفکر

(خ)

۵۷ ۔ خصائص امیرالمؤمنین علیہ السلام، احمد بن شعیب نسائی ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتاب العربی

۵۸ ۔خصال، محمد بن علی بن بابویہ قمی)صدوق)، ت ۳۸۱ ئہ-، دفتر انتشارات اسلامی

(س)

۵۹ ۔سفینة البحار، شیخ عباس قمی ت ۱۳۵۹ ئہ-، انتشارات کتابخانہ محمودی

۶۰ ۔السنن الکبری، ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، ت ۴۵۸ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۶۱ ۔السنن الکبری، نسائی، ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۶۲ ۔سیر اعلام النبلاء، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت، لبنان

۶۳ ۔ السیرة النبویة و الآثار المحمدیة )حاشیة السیرة الحلویة)، سیدزینی دحلان، ت ۱۳۰۴ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت، لبنان

۶۴ ۔ السیرة النبویة، ابن ہشام،ت ۲۱۸ ئہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

۲۵۶

(ش)

۶۵ ۔شرح التجرید، قوشجی، ت ۸۷۹ ئہ-

۶۶ ۔شرح السنة، بغوی، ت ۵۱۰ ئہ-، المکتب الاسلامی، بیروت

۶۷ ۔ شرح المقاصد، تفتازانی، ت ۷۹۳ ئہ-،منشورات الشریت الرضی

۶۸ ۔شرح المواقف،جرجانی،ت ۸۱۲ ئئئہ-، منشورات الشریف الرضی

۶۹ ۔ شرح التنزیل، حاکم حسکانی، ت اواخر القرن الخامس، مؤسسة الطبع و النشر

(ص)

۷۱ ۔صحاح اللغة، جوہری، ت ۳۹۳ ئہ-

۷۲ ۔صحیح ابن حبان، محمد بن حبان بستی، ت ۳۵۴ ئہ-، مؤسسة الرسالة

۷۳ ۔ صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل بخاری، ت ۲۵۶ ئہ-، دارالقلم، بیروت، لبنان-دارالمعرفة، بیروت،لبنان

۷۴ ۔ صحیح مسلم، مسلم بن حجاج نیشابوری، ت ۲۶۱ ئہ-، مؤسسة عز الدین للطباعة و النشر، بیروت، لبنان

۷۵ ۔ الصلاة و البشر،فیروز آبادی ،ت ۸۱۷ ئھجری دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان۔

۷۶ ۔الصواعق المحرقة، ابن حجر ہیتمی،ت ۹۵۴ ئہ-،مکتبة القاہرة

(ط)

۷۷ ۔ الطبقات الکبری، ابن سعد، ت ۲۳۰ ئہ-،داربیروت للطباعة والنشر

۷۸ ۔ الطرائف، علی بن موسی بن طاووس،ت ۶۶۲ ئہ-، مطبعة الخیام،قم

(ع)

۷۹ ۔العمدة، ابن بطریق، ت ۵۳۳ ئہ-، مؤسسة النشرالاسلامی

۸۰ ۔عوالم العلوم، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسة الامام المہدی علیہ السلام

۸۱ ۔عیون خبارالرضا، صدوق، ت ۳۸۱ ئہ-

۲۵۷

(غ)

۸۲ ۔غایة المرام، سید ہاشم بحرانی،ت ۱۱۰۷ ئہ-

۸۳ ۔غرائب القرآن،نیشابوری ت ۸۵۰ ئہ-، دارالکتب العلمیة بیروت

۸۴ ۔فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-

۸۵ ۔ فتح القدیر، شوکانی، ت ۱۲۵۰ ئہ-، داراکتاب العلمیة بیروت لبنان

۸۶ ۔فرائد السمطین، ابراہیم بن محمد بن جوینی،ت ۷۲۲ ئہ-، مؤسسة المحمودی للطباعة والنشر، بیروت

۸۷ ۔الفصول المہمة، ابن صباغ مالکی،ت ۸۵۵ ئہ-

۸۸ ۔فضائل الصحابة، سمعانی، ت ۵۶۲ ئہ-

(ق)

۸۹ ۔القاموس المحیط، فیروزآبادی،ت ۸۱۷ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۹۰ ۔قواعد فی علوم الحدیث، ظفر احمد تہانوی شافعی، تحقیق ابوالفتاح ابوغدة

(ک)

۹۱ ۔ الکافی، کلینی، ت ۳۲۹ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۹۲ ۔کتاب الثقات، ابن حبان، ت ۳۵۴ ء ہ-، مؤسسة الکتب الثقافیة، بیروت

۹۳ ۔کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی، ت ۱۷۵ ئہ-، مؤسسة دارالہجرة

۹۴ ۔الکشاف، زمخشری، ت ۵۸۳ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۹۵ ۔الکشف و البیان، ثعلبی نیسابوری، ت ۴۲۷ ئیا ۴۳۷ ئہ-، داراحیائ التراث العربی،بیروت، لبنان

۹۶ ۔ کفایة الطالب، محمد بن یوسف گنجی شافعی، ت ۶۵۸ ئہ-، داراحیائ تراث اہل البیت

۹۷ ۔کمال الدین، محمد بن علی بن بابویہ، ت ۳۸۱ ئہ-

۹۸ ۔کنز العمال، متقی ہندی، ت ۹۷۵ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

۲۵۸

(ل)

۹۹ ۔اللباب فی علوم الکتاب، عمر بن علی بن عادل الدمشقی الحنبلی، متوفی بعد ۸۸۰ ئہ-، دار الکتب العلمیة، بیروت

۱۰۰ ۔لسان العرب، ابن منظور، ت ۷۱۱ ئہ-، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

(م)

۱۰۱ ۔ما نزل من القرآن فی علی،ابوبکر الشیرازی، ت ۴۰۷ ئہ-

۱۰۲ ۔ ما نزل من القرآن فی علی، ابو نعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ- )بہ نقل احقاق)

۱۰۳ ۔المتفق و المتفرق خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ئہ-)بہ واسطہ کنزالعمال)

۱۰۴ ۔ مجمع البحرین، طریحی، ت ۱۰۸۵ ئہ-، دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۱۰۵ ۔مجمع البیان،طبرسی، ت ۵۶۰ ئہ-، دارالمعرفة،بیروت

۱۰۶ ۔ مجمع الزوائد،ہیثمی، ت ۸۰۷ ئہ-،دارالکتاب العربی-دارالفکر، بیروت

۱۰۷ ۔المستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۱۰۸ ۔مسند ابی داوود طیالسی،ت ۲۰۴ ئہ-،دارالکتاب اللبنانی

۱۰۹ ۔مسند ابی یعلی موصلی،ت ۳۰۷ ئہ-

۱۱۰ ۔مسند احمد،احمد بن حنبل،ت ۲۴۱ ئہ-، دارصادر،بیروت-دارالفکر

۱۱۱ ۔مسند اسحاق بن راہویہ، ت ۲۳۸ ئہ-،مکتبة الایمان، مدینة المنورة

۱۱۲ ۔مسند عبد بن حمید،ت ۲۴۹ ئہ-، عالم الکتب

۱۱۳ ۔مشکل الآثار، طحاوی، ت ۳۲۱ ئہ-،ط مجلس دائرة المعارف النظامیة بالہند

۱۱۴ ۔ المصباح المنیر احمد فیومی، ت ۷۰ ء ۷ ہ- طبع مصطفی البابی الحلبی و اولادہ بمصر

۱۱۵ ۔مصباح الہدایة، بہبہانی، ط سلمان فارسی،قم

۱۱۶ ۔المصنف،ابن ابی شیبة،ت ۲۳۵ ئہ-

۲۵۹

۱۱۷ ۔مطالب السؤول ابن طلحة نصیبی شافعی، ت ۶۵۲ ئہ-

۱۱۸ ۔معالم التنزیل، بغوی،ت ۲۱۰ ئہ-

۱۱۹ ۔المعجم الاوسط، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-،مکتبة المعارف الریاض

۱۲۰ ۔المعجم الصفیر، طبرنی، ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۱ ۔المعجم الکبیر، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۲ ۔ المعجم المختص بالمحدثین، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مکتبة الصدیق سعودی

۱۲۳ ۔معجم مقاییس اللغة، ابن فارسی بن زکریا القزوینی الرازی،ت ۳۹۰ ہ-

۱۲۴ ۔معرفة علوم الحدیث، حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۵ ۔المعرفة والتاریخ، یعقوب بن سفیان بن بسوی،ت ۲۷۷ ئہ-

۱۲۶ ۔مغنی اللبیب، ابن ہشام،ت ۷۶۱ ئ ہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۷ ۔المفردات،راغب اصفہانی،ت ۵۰۲ ئہ-

۱۲۸ ۔مقتل الحسین، خوارزمی، ت ۵۶۸ ئہ-، مکتبة المفید

۱۲۹ ۔المناقب،موفق بن احمد خوارزمی،ت ۵۶۸ ئہ-

۱۳۰ ۔مناقب ابن مغازلی شافعی،ت ۴۸۳ ئہ-،المکتبة الاسلمة

۱۳۱ ۔مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب،ت ۵۸۸ ئہ-،ذوالقربی

۱۳۲ ۔منتہی الارب عبدالرحیم بن عبدالکریم الہندی ت ۱۲۵۷ ئہ-

۱۳۳ ۔المیزان، محمد حسین طباطبائی، ت ۱۴۰۲ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۱۳۴ ۔میزان الاعتدال، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالفکر

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460