الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 200030
ڈاؤنلوڈ: 4015

تبصرے:

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200030 / ڈاؤنلوڈ: 4015
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دین خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ خاص ہے_

ہوسکتا ہے کہ یہ عہد اور فیصلہ اس لئے بھی کیا گیا ہو کہ داخلی طور پر یہودیوں کو اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برا سو چنے والے بیرونی دشمنوں کے مفاد میں فتنہ انگیزیوں اور جاسوسیوں کا کوئی موقع میسر نہ آسکے_ اور اس لئے بھی یہ عہد لیا گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ اور آس پاس رہنے والے لوگوں کو بھی معلوم ہوجائے کہ یہاں پر بھی ایک ایسی طاقت موجود ہے جسے بہر صورت تسلیم کرنا ہی پڑے گا اور اس کے ساتھ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے برابری اور سچائی کے ساتھ تعلقات قائم کرنے ہوں گے_

۱۰_ اس معاہدے میں (جس میں مذکورہ عہد کی گہری تاکید کی گئی ہے اور جسے یہودیوں نے تسلیم بھی کیا اور تحریری طور پر اس کا ثبوت بھی دیا) یہ بھی بیان ہوا ہے کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے تمام تنازعوں اور مشکلات کے حل کا مرجع اور مرکز صرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی ذات والا صفات ہی ہے_ البتہ ہم یہاں اس شق کے سیاسی مدلول اور یہودیوں نیزمدینہ کے رہائشےی دیگر افراد اسی طرح پورے علاقے کے باسیوں پر ذاتی ، انفرادی اور اجتماعی اثرات پر بحث کرنے کے درپے نہیں_ البتہ یہ ضرور بتاتے چلیں کہ اس شق کی وجہ سے عقائد کی حفاظت کا سامان بھی فراہم کیا گیا اور اگر تھوڑی سی دقت کی جائے تو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس میں فقہی پہلوؤں کی مراعات بھی کی گئی ہے _اس بارے میں کسی اور مقام پر تفصیلی بحث کریں گے_

۱۱_ ان تمام شقوں کے علاوہ اس معاہدے نے فتنہ انگیزی نہ کرنے کی شرط پر انصاری یہودیوں کے '' امن '' اور '' آزادی'' جیسے عمومی حقوق کے تحفظ کی ضمانت بھی دی ہے_ اور یہ دونوں خاص کر آزادی کا حق عطا کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جب تک کوئی چیز حقیقت اور سچائی کی بنیادوں پر برقرار رہتی ہے اور حقیقت کے راستے پر گامزن ہوتی ہے تب تک اسلام کو بھی کسی چیز سے خطرہ محسوس نہیں ہوتا _ اسلام صرف اور صرف فتنہ انگیزی اور فساد سے ڈرتا ہے_ یہ چیز اس بات کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے کہ اسلام علم اور معرفت کے حصول کی تاکید کرتا ہے کیونکہ اسلام ہی ہے جو ( تخریبی رستوں سے ہٹ کر صرف) تعمیری راستوں میں علم اور معرفت سے سب سے زیادہ استفادہ کرسکتاہے_

۱۲۱

۱۲_ پھر اس معاہدے میں منافقوں اور مشرکوں بلکہ یہودیوں کی طرف سے بھی یہ اعتراف پایا جاتا ہے کہ مسلمان ہی سب سے بہتر اور معتدل تر ہدایت پر ہیں_ حالانکہ انہی لوگوں نے پہلے یہ پھیلا رکھا تھا کہ یہ نبی ہمارے اتفاق اور اجتماع میں رخنہ ڈالنے اور ہماری امیدوں اور لائحہ عمل پر پانی پھیرنے آیا ہے اور اسی طرح کے دیگر الزامات بھی تھے جو بطور مثال عمرو بن عاص نے حبشہ ( ایتھوپیا) کے بادشاہ نجاشی سے ذکر کئے تھے_

۱۳_ اس معاہدے میں قبیلہ پرستی کو بھی ناجائز قرار دے دیا گیا کیونکہ قبیلہ پرستی ، افراد قبیلہ کی ہر قسم کی اور ہر صورت میں مدد کا باعث بنتی تھی چاہے وہ دوسروں پر ظلم اور زیادتی کے بھی مرتکب ہوتے_

اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ قاتل جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو تمام مؤمنوں پر اس کا تعاقب اور پیچھا ضروری ہے _ نیز اس شق میں ریاست ، سرداری اور مجرم کے قبیلہ کی قسم جیسے دیگر امتیازی قوانین اور سلوک کو بھی باطل قرار دیا گیا _ جس طرح بنی قریظہ اور بنی نضیر کی حالت تھی _ کیونکہ اس معاملے میں بنی قریظہ پر بنی نضیر کو امتیازی حیثیت حاصل تھی_

۱۴_ پھر اس قرار داد نے مسلمانوں کو ( تمام مشرکوں کو چھوڑکر ) صرف قریشیوں کے اموال ضبط کرنے کا حق بھی دیا_ کیونکہ قریشیوں نے بھی ان سے تمام اموال چھین کر انہیں اپنے گھروں سے نکال باہر کردیا تھا_ اور یہ ضبطی اس ادلے کا بدلہ ہوگا_ حتی کہ مشرکوں نے بھی مسلمانوں کے اس حق کا اعتراف کیا حالانکہ وہ بھی اس معاہدے کے فریق تھے_ اس شق کے متعلق مشرکوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس معاملے میں وہ قریش کی کوئی مدد نہیں کرسکتے اور اس معاملے کو دوسرے رنگ میں ڈھالنا شروع کر دیا تھا _ اسی شق نے انسانی ضمیر میں انسانیت کی قدر بڑھائی اور اسے فعال کردار عطا کیا جسے یا تو وہ لوگ بھلا چکے تھے یا بھلانے لگے تھے_

۱۵_ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس معاہدے میں '' مسلمانوں'' کی بجائے'' مومنوں'' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے_ روابط اور تعلقات کے میدان میں اس لفظ کے بہت اثرات ہیں _ اسی طرح مخلصین کے لئے بھی اس میں اشارے پائے جاتے ہیں تا کہ ان کے خلوص اور اخلاص میں اضافہ ہو نیز ان منافقوں کے لئے بھی

۱۲۲

اشارے پائے جاتے ہیں جو خدا اور مؤمنوں کو دھو کا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ صرف اپنے آپ کو ہی دھوکا دیتے ہیں_ اسی طرح مختلف گروہوں کی شناخت میں اس کے سیاسی اثرات بھی ہیں تا کہ یہ پہچان اور امتیاز مذہبی اور دینی تعصب کی روسے نہ ہو _

۱۶_ اس معاہدے میں ایمان کی عظمت کا اظہار بھی ہے جس کی روسے ترجیحات اور امتیازات عطا ہوتے ہیں_ نیزکفر کو پست ترین رتبہ دیا گیا ہے کیونکہ اس معاہدے میں یہ کہا گیا ہے کہ کافر کے مقابلے میں کوئی بھی مؤمن کسی مؤمن کو قتل نہیں کرے گا اور نہ ہی مؤمن کے خلاف کسی کافر کی مدد اور حمایت کرے گا_

۱۷_ یہ شق کفر اور ایمان کے لشکر کے درمیان امتیازات کی واضح جنگ اور اس حالت جنگ کی بنیاد ڈالنے کی جانب ایک قدم ہے_

۱۸_ ملاحظہ ہو کہ یہ قرار داد یہ بیان کر رہی ہے کہ جو اس معاہدے کے مندرجات کا اقرار کرتا ہے اسے کسی بدعتی کی مدد ، حمایت اور پناہ کا کوئی حق نہیں پہنچتا_ اور یہ شق امن عامہ کو پھیلانے ، لوگوں کو ایک طرح سے مطمئن اور آسودہ خاطر رکھنے نیز اوس اور خزرج پر منڈلاتے ہوئے خوف کے بادلوں کو کم کرنے کی طاقت رکھتی ہے_ اسی طرح اس شق میں مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی علاقے میں بسنے والے یہودیوں اور مشرکوں کو ڈھکی چھپی دھمکی بھی پائی جاتی ہے_

۱۹_ اسی طرح دشمنوں کے سامنے مسلمانوں کا یہ دعوی ہے کہ '' وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے والی ایک متحد اور منسجم طاقت ہیں'' _ اور دوسروں کے دلوں میں اپنی ہیبت اور رعب و دبدبہ بٹھانے کے لئے نیز قبائلی یا دیگر قسم کے جذبات سے کھیل کر ان کے ذریعے مسلمانوں کی صفوں میں نفوذ کرنے والوں کی سوچ اور طمع کو دور کرنے اور مٹانے کے لئے اس دعوے کا بہت زیادہ اثر اور کردار ہے_

۲۰_ آخر میں یہ نکتہ بھی ملاحظہ ہو کہ یہ معاہدہ مشرکوں کے لئے کسی اضافی حق کا قائل نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ان پر کئی پابندیاں عائد کردیں_ پس اس معاہدے کی روسے کسی مشرک کو قریش کے کسی شخص یا مال کو پناہ اور امان دینے بلکہ ان کی خاطر مومنوں اور قریشیوں کے درمیان حائل ہونے کا بھی کوئی حق نہیں ہے_

۱۲۳

یہی وہ چند نکات تھے جنہیں ہم عجلت میں سرسری طور پر ذکر کرنا چاہتے تھے _ امید ہے کہ کسی فرصت میں بہت سے دیگر نکات کا بھی مطالعہ کریں گے_

۵_ یہودیوں سے صلح :

بنی قریظہ ، نضیر اور قینقاع کے یہودی ( نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں ) آئے اور انہوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صلح کی خواہش کی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے تحریر لکھ دی کہ (یہ صلح) اس شرط پر ہوگی کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف کسی شخص کی مدد نہیں کریں گے _ نیز زبان ، ہاتھ، اسلحہ یا سواری کے ساتھ یعنی کسی بھی ذریعے سے اور خفیہ یا علانیہ اور رات یا دن میں یعنی کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی بھی صحابی کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی مزاحمت ایجاد نہیں کریں گے _ اور اگر انہوں نے ان میں سے کوئی کام انجام دیا تو ان کا خون بہانے، ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنانے اورا ن کے اموال ضبط کرنے کا اختیار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو ہوگا _اور ہر قبیلہ کے لئے جدا گانہ تحریر لکھ دی(۱) _ لیکن یہودی ، اس معاہدے کو توڑ کر دوبارہ اپنی مکر و فریب والی عادت پر پلٹ گئے_

____________________

۱) اعلام الوری ص۶۹،البحارج/۱۹س ص ۱۱۰/۱۱۱ عنہ، السیرة النبویة لدحلان ج/۱ ص ۱۷۵_

۱۲۴

۱۲۹

چوتھی فصل: شرعی احکام

۱۲۵

اذان کی تشریع :

یہاں پرمؤرخین ذکر کرتے ہیں کہ : ہجرت کے پہلے سال اذان تشریع کی گئی _ ایک قول یہ ہے کہ دوسرے سال میںتشریع ہوئی لیکن اس چیز کی تحقیق ہمارے لئے زیادہ اہم نہیں_

البتہ تشریع اذان کی کیفیت اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس فکر میںتھے کہ لوگوں کو نماز کے لئے کس طرح اکٹھا کیا جائے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک پر چم نصب کریں جب لوگ دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو اطلاع دے دیں گے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے پسند نہ فرمایا _ صحابیوںنے ( یہود یوںکے بگل کی طرح ) بگل بجانے کا مشورہ دیا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے بھی پسند نہیں کیا اور فرمایا کہ یہ یہود یوںکی رسم ہے _ انہوں نے ناقوس ( بجانے کا ) مشورہ دیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (اسے بھی ناپسند کرتے ہوئے )فرمایا کہ یہ نصاری کی عادت ہے غالباً آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے اسے ناپسندفرمایا پھر اس کا حکم دے دیا اوراسے لکڑی سے بنایا گیا_

عبداللہ بن زید گھر واپس آئے جبکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فکرمندہونے کی وجہ سے غمگین تھے _ اس رات انہوں نے خواب میں اذان دیکھی_ خود عبداللہ بن زید بیان کرتے ہیں: ''صبح کے وقت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواذان کے متعلق بتایا پھر عرض کی کہ یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ میں نیند اور بیداری کی حالت میں تھا کہ کوئی میرے پاس آیااور اس نے مجھے اذان کی کیفیت دکھائی ''_

وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب اس واقعہ سے پہلے اذان کو دیکھ چکے تھے اورانہوں نے بیس دن تک اسے چھپائے رکھا _ پھر جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بتایا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ پھر مجھے بتانے سے کون سی چیز مانع

۱۲۶

تھی؟ جواب دیا کہ عبداللہ بن زید نے مجھ پر سبقت لے لی لیکن میں جھجکتا رہا ( اس پر ) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ بلال اٹھو اور دیکھو کہ عبداللہ بن زیدتجھے کس چیز کا حکم دیتا ہے تم اسے بجا لاؤ _یوںحضرت بلال نے اذان کہی ( الحدیث) _تشریع اذان کی کیفیت کے سلسلہ میں وارد ہونے والی روایات میں سے ایک نصّ یہ تھی_ یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے مزید اطلاع کے لئے حاشیہ میں مندرج کتب کی طرف رجوع کریں(۱) _

اذان کی روایات پر بحث:

ہم معتقد ہیںکہ یہ بات درست نہیں اور اس سلسلہ میںہمارے پاس مندرجہ ذیل دلائل ہیں_

ایک : ان روایات کے مطالعہ اور ایک دوسرے کے ساتھ تقابل سے ظاہر ہوتاہے کہ ان روایات میں سخت اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ چیز کسی روایت کے ضعیف ہونے کا باعث بنتی ہے اور اس پر کئی طرح کے سوالات اٹھتے ہیں_مثلاً گذشتہ روایت کہتی ہے کہ ابن زید نے نیند اور بیداری کی حالت میں اذان دیکھی_

دوسری روایت میں اس کے برعکس یہ ہے کہ انہوں نے یہ اذان حالت خواب میں دیکھی جبکہ تیسری روایت میں آیا ہے کہ خود ابن زید نے کہا '' لوگ اگرباتیں بنا کرمیرے درپے نہ ہوتے تو میں یقیناً یہی کہتا کہ میں تو سو ہی نہیں رہا تھا بلکہ حالت بیداری میں تھا ''_ ایک اور روایت یوں کہتی ہے '' یقیناً ابن زید نے اذان ہوتے ہوئے دیکھی اور پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کی اطلاع دی'' مزید ایک روایت میں ہے کہ یقیناً جبرائیل نے دنیا کے آسمان پر اذان دی حضرت عمر اور حضرت بلال دونوںنے سنا ، لیکن حضرت عمرنے حضرت بلال

____________________

۱)سنن ابی داؤد ج/۱ ص ۳۳۵،۳۳۸ ، المصنف عبد الرزاق ج /۱ص۴۵۵تا۴۶۵، السیرة الحلبیةج/۲ ص ۹۳ تا ۹۷ ، تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۹، الموطا ج۱ نیزشرح موطا للزرقانی ج/۱ص۱۲۰تا ۱۲۵،الجامع الصحیح للترمذی ج/۱ص۳۵۸تا۳۶۱،مسند احمدج/۴ ص ۴۲ ، سنن ابن ماجہ ج/۱ص ۱۲۴، سنن البیہقی ج/۱ ص۳۹۰و۳۹۱،سیرةابن ھشام ج/۲ص۱۵۴،۱۵۵،۱۲۵،نصب الرایة ج/۱ ص ۲۵۹تا۲۶۱، فتح الباری ج/۲ ص ۶۳تا۶۶، طبقات ابن سعدج/۱جزء ۲ص ۸،البدایةوالنھایة ج/۳ ص۲۳۲و ۲۳۳، المواھب اللدنیة ج/۱ص۷۱، منتخب کنزالعمال(حاشیہ مسنداحمدپر)ج/۳ ص۲۷۳، اور ۲۷۵ ، تبیین الحقائق للزیلعی ج /۱ ص ۹۰، الروض الانف ج/۲ ص ۲۸۵،۲۸۶، حیاة الصحابة ج/۳ ص ۱۳۱، از کنز العمال ج/۴ ص ۲۶۳،۲۴۶،اور اسی طرح ابی شیخ ابن حبان اور ابن خزیمہ سے بھی نقل کیا گیاہے ، سنن الدار قطنی۰۶۶ ج/۱، ۲۴۱ ، ۲۴۲ ، اور ۲۴۵ ، علاوہ ازین دیگر کثیرکتب_

۱۲۷

پر سبقت لیتے ہو پہلے جاکر پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کی اطلاع دی _جب حضرت بلال آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تم سے پہلے عمر نے مجھے اس کی اطلاع دے دی ہے'' _

لیکن ایک روایت میں ملتاہے کہ فقط ابن زید نے اس اذان کو دیکھا _اس کے برعکس ایک روایت یوں کہتی ہے کہ انصار کے سات افراد نے اذان دیکھی جبکہ ایک قول میں یہ تعداد چودہ بیان ہوئی ہے، ایک روایت میں عبداللہ بن ابی بکر کابھی اضافہ کیا گیا ہے علاوہ بر ایں ایک روایت میں ہے کہ یقیناً یہ بلال ہی تھے جنہوںنے سب سے پہلے ''اشھد ان لا الہ الا اللہ حی علی الصلاة'' کہا_ اس پر حضرت عمر نے ''اشھد ان محمد رسول اللہ'' کا اضافہ کیا پس نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سنتے ہی حضرت بلال سے فرمایا :''جیسے عمر نے کہا ہے تم بھی ویسے ہی کہو''_

بعض روایات میں اذان کی فصلیں ایک مرتبہ اور بعض میں دو مرتبہ ذکر ہوئی ہیں_ان روایات میں طرح طرح کے دیگر اختلافات بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان سب کو بیان نہیں کیا جاسکتا _ اس سلسلے میں آپ اصل منابع کی طرف رجوع کرکے روایات میں تقابل کرسکتے ہیں _

دو: یہ بات کہ حضرت عمر اور حضرت بلال نے خود حضرت جبرائیلعليه‌السلام کی آواز سنی یا ابن زید نے یہ اذان حالت بیداری میں ہوتے ہوئے دیکھی ، قابل قبول نہیںکیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ سب لوگ بھی نبی ہیں کیونکہ انہوں نے جبرائیلعليه‌السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھااو ر جبرائیلعليه‌السلام سے ایک شرعی ، توقیفی حکم سنا جبکہ یہ امر تو انبیاءعليه‌السلام و رسلعليه‌السلام سے مخصوص ہے_

حالت خواب میں دیکھی گئی اذان کے متعلق عسقلانی لکھتے ہیں:

'' عبداللہ ابن زید کے خواب کی بنیاد پر اذان کے حکم شرعی کے ثبوت پر یہ اعتراض کیا گیاہے کہ غیر نبیعليه‌السلام کا خواب حکم شرعی نہیں ہوتا _ البتہ اس کاجواب یہ دیا جاسکتاہے کہ ممکن ہے کہ وحی بھی اس کے مطابق نازل ہوئی ہو؟''(۱) _

____________________

۱) فتح الباری ج/ ۲ ص ۶۲ _

۱۲۸

لیکن یہ جواب قانع کنندہ نہیں کیونکہ صرف احتمال سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی _حالانکہ ان کے ہاں معتبر اور قابل اعتماد مذکورہ روایات میں ایسے کسی احتمال کی طرف اشارہ بھی نہیں پایا جاتابلکہ یہ روایات فقط رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس حکم پر اکتفاء کرتی ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ ابن زیدسے اذان کی تعلیم حاصل کرو _

اس کے علاوہ اس معاملے میں شروع ہی سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی نازل کیوں نہ ہوئی _ حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سر گردان ، فکرمنداور رنجیدہ خاطر تھے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں_

یہاںایک یہ سوال باقی رہ جاتاہے کہ اذان، اس کیفیت سے کیوں شروع ہوئی جبکہ باقی سب احکام ایسے نہیں ہیں؟

''سہیلی ''نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ اذان در اصل خدا کی شان اور ذکر کو بلند کرناہے پس غیر نبی کی زبان پر اس کی شان نہایت بلند اور عظیم المرتبت ہونی چاہئے اس لئے اسے پہلے صحابیوں کو سکھا یا گیا(۱) _

اگر چہ عسقلانی و غیرہ نے اس جواب کو سراہا ہے لیکن یہ جواب بھی بے معنی اور کم وزن ہے _اگر یہ جواب صحیح ہو تو شریعت میں نماز، زیارتیں، دعائیں، اسی طرح خدا کی توحید کا اقرار اور پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی گواہی اور دیگر احکام اسلام سب کے سب غیرنبی کی زبان سے جاری ہونے چاہئیں_ کیونکہ اس کا مطلب اللہ کا ذکر بلند کرنا اور اس کے حکم کو عظمت سے بجا لاناہے_ یہی حال خصوصاً ان قرآنی آیات کا بھی ہے جن میں حضور سرور کائناتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعریف و توصیف بیان ہوئی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے_

( وَ انَّكَ لَعَلی خلق عظیم )

اور اس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں_ گذشتہ مطالب کے علاوہ ہم یہ کہیں گے کہ پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زید کے خواب کے مطابق عمل کرنے کا حکم دینا تو وحی کے بغیر بلکہ اپنی ذاتی خواہش کے تابع ہوگا جبکہ یہ بات خداوند متعال کے اس فرمان( و ما ینطق عن الهوی ) سے منافات رکھتی ہے_

____________________

۱) الروض الانف ج/ ۲ ص ۲۸۵_

۱۲۹

پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دینی امور میں اپنے صحابیوں سے مشورہ کرنا یقیناً محال ہے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''وحی'' کے ہوتے ہوئے اس امر سے مستغنی تھے _البتہ دنیاوی امور میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا کرتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کئی وجوہات کی بنا پر چاہتے تھے کہ دنیاوی امور کو مشورت سے انجام دیں _انشاء اللہ جنگ بدر و احد کے واقعات میں ہم ان وجوہات کا ذکر کریںگے_

تین: یہ کیسے ممکن ہے کہ پیامبر گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے تو یہود و نصاری کے فعل سے موافقت کو ناپسند فرمایا ہو اور پھر اسی پر ہی رضایت دے دی ہو؟ ایک قبیح امر کیسے اچھا ہوگیا ؟ ایک برائی اچھائی میں تبدیل ہوگئی یا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان لوگوںسے موافقت پر مجبور تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہ تھا؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک منادی کیوں نہ مقرر فرما دیا جو لوگوں کو نماز کے لئے بلاتا؟ جیسا کہ نماز یا دیگر مواقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے اوروہ ''الصلاة جامعة'' پکار پکار کر لوگوں کو اکٹھا کرتے تھے_

اس مشکل کے حل کے لئے صرف نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عبداللہ ابن زید (یا حضرت عمر ) ہی کیوں فکرمند تھے؟ اور یہ مشکل آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رضامندی سے صرف ناقوس بنانے پر ہی حل ہوگئی؟ اور کوئی حل باقی نہیں رہا تھا؟ یا کوئی اور آدمی موجوود نہیں تھا؟_

بہر حال اس سے اہم بات یہ ہے کہ وہ یہ روایت کرتے ہیں (گرچہ ہم اس کی تصدیق و تائید نہیں کرتے بلکہ اس کے جھوٹ ہونے پر ہمیں یقین ہے) کہ جن امور میں وحی نازل نہیں ہوئی تھی ان تمام امور میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اہل کتاب کی پیروی کرنا چاہتے تھے(۱) تو پھر مذکورہ معاملے میں یہ کیونکر ہوا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کراہت و ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اوراسی کے لئے فکرمند اور پریشان ہوئے_ یہ تو بہت عجیب و غریب تناقض گوئی ہے جسے آنحضور( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف نسبت دی گئی ہے_

چہار: الصباح المزنی ، سدیر الصیرفی، محمد بن النعمان الا حول اور عمر بن اذینہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم امام صادقعليه‌السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' اے عمر بن اذینہ یہ ناصبی اپنی اذان و نماز کے

____________________

۱) روز عاشور کے روزے کے متعلق گفتگو میں اس کی طرف اشارہ کریں گے (انشاء اللہ )

۱۳۰

متعلق کیا کہتے ہیں''؟ میں نے عرض کیا:'' میری جان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہو وہ کہتے ہیں کہ اسے ابی بن کعب انصاری نے خواب میں دیکھا تھا''_ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' خدا کی قسم جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ خدا وند قدوس کے دین کی شان خواب میں دکھائے جانے سے بالاتر ہے'' _ ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ حضرتعليه‌السلام نے فرمایا:'' اللہ نے تمہارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس کے متعلق وحی نازل فرمائی لیکن یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے عبداللہ بن زید سے سیکھا ہے''(۱) _

۲ _ابی علاء سے روایت ہے کہ میں نے محمد بن حنفیہ سے کہا: '' ہم تو یہ بیان کرتے ہیں کہ اذان کی ابتداء ایک ایسے خواب سے ہوئی جسے ایک انصاری نے خواب میں دیکھا تھا'' اس پر محمد حنفیہ سختغصہ ہوگئے اورگرج کر کہا :''شریعت مقدسہ اسلام اور دینی معارف کی بنیادوں کو تم نے نشانہ بنا لیا ہے_تمہارا گمان ہے کہ اسے ایک انصاری نے خواب میں دیکھا ہے جس میں جھوٹ اور سچ دونوں کا احتمال پایا جاتا ہے _ اور اکثر اوقات تو یہ خواب ویسے ہی بے تعبیر اور لاحاصل ہوتے ہیں''؟

میں نے کہا :''یہ حدیث تو لوگوں میں پھیل چکی ہے''؟

انہوں نے کہا :'' خدا کی قسم یہ غلط ہے_'' پھر کہا :''مجھے میرے والد گرامی نے بتایا تھاکہ حضرت جبرائیلعليه‌السلام نے شب معراج بیت المقدس میں اذان و اقامت کہی اور پھر جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے آسمان کی طرف معراج فرمائی تو انہیں پھر دہرایا''(۲) _

۳_ اس طرح امام حسن مجتبیعليه‌السلام نے بھی اس بات کا انکار فرمایاہے _ جب آپعليه‌السلام کے سامنے اذان کے بارے میں گفتگو ہوئی اور عبداللہ ابن زید کے خواب کا تذکرہ کیا گیا تو آپعليه‌السلام نے فرمایا '':اذان کی عظمت اس افسانے سے کہیں بالاتر ہے_

حضرت جبرائیلعليه‌السلام نے آسمان میں دو دو مرتبہ اذان کہی اور پھراسی طرح اقامت کہی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس

____________________

۱)بحار الانوار ج/۱۸ ص۳۵۴ ، علل الشرائع ص ۱۱۲ / ۱۱۳ ، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ عن الشہید فی الذکری نیز وسائل الشیعہ ج۴ ص ۶۱۲ و ۶۱۳_

۲) السیرة الحلبیہ ج/ ۲ ص ۹۶ ، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ و کتاب العلوم (امالی احمد بن عیسی بن زید) ج۱ ص ۹۰_

۱۳۱

کی تعلیم دی''(۱) _

۴ _ جب حضرت امام حسینعليه‌السلام سے اذان اور لوگوں کی باتوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپعليه‌السلام نے فرمایا:

'' تمہارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی نازل ہوتی ہے اور تم لوگ یہ گمان کرتے ہو کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عبداللہ بن زید سے اذان سیکھی ہے ؟ جبکہ میں نے اپنے والد حضرت علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) سے سنا ہے کہ جب حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو معراج پر لے جایا جانے لگا تو ایک فرشتے نے اتر کر اذان اور اقامت کی فصلوں کو دو دو مرتبہ دہرا کرا ذان و اقامت کہی پھر جبرائیلعليه‌السلام نے آپعليه‌السلام سے کہا : '' یا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز کی اذان بھی اسی طرح ہے ''(۲) _

البتہ اقامت کی فصلوں کاایک ایک مرتبہ ہونا اہل بیتعليه‌السلام کی قطعی تعلیمات کے بالکل مخالف ہے_ کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ اہل بیتعليه‌السلام کی روایات اور نظریات میں اس کی دودو فصلیں بیان ہوئی ہیں اور اصحاب تابعین اور فقہائے اسلام کی اکثریت کی بھی یہی رائے ہے _ایک ایک مرتبہ والی بات امراء کے ہاتھوں کی صفائی معلوم ہوتی ہے کیونکہ بقول مورخین اس ذریعہ سے انہوں نے اقامت کی تحقیر، بے قدری اور توہین کرنے کی کوشش کی(۳) ورنہ اقامت کی فصلیں بھی دو دو مرتبہ ہیں_

پانچ: خو د عبداللہ ابن زید سے روایت ہے : '' میں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اذان سنی ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو دو مرتبہ اذان و اقامت کہی(۴) ''_

پس اگر ابن زید نے ہی خواب میں اذان دیکھی ہوتی تو وہ دوسروں کی نسبت اس ا مر سے سب سے زیادہ آگاہ ہوتا ، پھر اس کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے یہ حدیث کیسی؟

چھ: داؤود ی کی ابن اسحاق سے حکایت ہے کہ عبداللہ بن زید اور حضرت عمر کے خواب میں دیکھنے سے آٹھ روز قبل حضرت جبرائیلعليه‌السلام اذان لے کر آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے'' _ اس بات کی تائید اس

____________________

۱) النص و الاجتہاد ص ۲۰۵ از مشکل الآثار ،ابن مردویہ اور کنزالعمال ج/۶ ص ۲۷۷ نیز مستدرک حاکم ج۳ ص ۱۷۱_

۲) گذشتہ و آئندہ منابع ملاحظہ فرمائیں_ (۳) المصنف عبدالرزاق ج/ ۱ ص ۴۶۳ ، سنن البیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۵ _

۴) مسند ابی عوانہ ج/ ۱ ص ۳۳۱ سنن دارقطنی ج/ ۱ ص ۲۴۱_

۱۳۲

روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر ناقوس( گھنٹی) خریدنے جارہے تھے کہ اطلاع ملی ابن زید نے خواب میں اذان دیکھی ہے وہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بتانے کے لئے واپس آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تمہارے بتانے سے پہلے وحی نازل ہوچکی ہے ''(۱) _

سات: ہم اذان کے شرعی حکم کے ہجرت سے قبل مکہ میں نزول کو ترجیح دیتے ہیں ، کیونکہ یہ بات محمد حنفیہ والی گذشتہ روایت میں بیان ہوچکی ہے اور مندرجہ ذیل روایات میں بھی مذکور ہے_

۱_ جناب زید بن علی نے اپنے اجداد طاہرینعليه‌السلام سے روایت کی ہے: ''رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شب معراج اذان کی تعلیم دی گئی اور نماز فرض ہوئی ''_ یہ بات امیر المومنینعليه‌السلام ، امام باقر ، ابن عمر اور حضرت عائشہ سے بھی روایت کی گئی ہے(۲) _ امام باقرعليه‌السلام سے بھی صحیح سند کے ساتھ تقریباً یہی مطلب نقل ہوا ہے(۳) _

۲ _ انس روایت کرتے ہیں کہ جب نماز فرض ہوئی تو اس وقت جبرائیلعليه‌السلام نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذان کا بھی حکم دیا(۴) _

امام باقرعليه‌السلام کی اس مذکورہ روایت کو سھیلی نے بھی صحیح قرار دیا ہے جس میں آیا ہے کہ اذان کا شرعی حکم شب معراج لاگو ہوا_ لیکن اس روایت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک تو اس کی سند میں زیاد بن منذر ہے جو شیعہ تھا(۵) اور دوسرایہ کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے موقع پر اذان کا حکم نہیںدیا تھا(۶) _

____________________

۱) المصنف عبدالرزاق ج/۱ص۴۵۶،تاریخ الخمیس ج/۱ ص۳۶۰،البدایة والنہایة ج/ ۳ ص ۲۳۳ ، السیرة الحلبیہ ج/ ۲ ص ۹۶ ، ۹۷_

۲)منتخب کنزالعمال ( مسند احمد کے حاشیہ پر ) ج/۳ ص ۲۷۳ از طبرانی سے اوسط السیرة الحلبیہ ج/ ۱ ص ۳۷۳ ، ج/ ۲ ص ۹۳ ، ۹۵ مجمع الزوائد ج/ ۱ ص ۳۲۹ و ۳۲۸ ، نصب الرایة ج/۱ ص ۲۶۲ و ۲۶۰ ، المواھب اللدنیہ ج/۱ ص ۷۱ ، ۷۲ فتح الباری ج/ ۲ ص ۶۳ ، الدرالمنثور ج۴ ص ۱۵۴ از بزار ، ابن مردویہ ، طبرانی و ابو نعیم در دلائل النبوہ ، الروض الانف ج/ ۲ ص ۲۸۵ و ۲۸۶ ، البدایةوالنہایة ج/۳ ص ۲۳۳ ، تبیین الحقائق از البزار، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ از مشکل الآثار و شہید در ذکری ، کنزالعمال ج۱۴ ص ۴ ، از ابن مردویہ، قصار الجمل ج۱ ص ۱۳ ، الوسائل ج۴ ص ۶۶۰ و کافی ج۳ ص ۳۰۲_

۳) الکافی ج/۳ ص ۳۰۲_ (۴) المواھب اللدنیہ ج/۱ ص ۷۲ و فتح الباری ج/۲ ص ۶۳_ (۵) نصب الرایة ج/ ۱ ص ۲۶۱_

۶) البدایة و النہایہ ج / ۳ ص ۲۳۳ ، مستدرک الحاکم ج/ ۳ ص ۱۷۱ ، نصب الرایہ ج/ ۱ ص ۲۶۱ ، حاکم نے اس بارے میں سکوت کیا ہے جبکہ ذھبی نے نوح بن دراج پر جرح کی ہے شاید انہوں نے اپنی عادت کے مطابق اس کے شیعہ ہونے کی بناپر ایسا کیا ہے_

۱۳۳

جبکہ ان کے پہلے اعتراض کے متعلق تو معلوم ہوچکاہے کہ وہ ہے ہی بے بنیاد لیکن دوسرے اعتراض کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ یہی تو اختلاف کا مقام ہے _ اسی مناسبت سے یہاں ذکر کرتے چلیں کہ:

روایات میں یہ بھی آیاہے کہ جب حضرت آدمعليه‌السلام جنت سے نکالے گئے تو جبرائیلعليه‌السلام نے اس وقت اذان کہی(۱) گذشتہ بیانات سے ابن عباس سے مروی یہ روایت بھی غلط ثابت ہوجاتی ہے کہ سورہ جمعہ کی اس آیت ''یا ایھا الذین آمنوا اذا نودی للصلاة من یوم الجمعة ''کے نزول کے ساتھ ہی اذان فرض ہوئی تھی(۲) اس روایت کے رو سے تو اذان کے شرعی حکم کا نزول ، ہجرت کے ساتویں سال سورہ جمعہ کے نزول کے ساتھ اور جنگ احد میں یا اس کے کچھ عرصہ بعد قتل ہونے والے عبداللہ بن زیاد کی وفات کے بعد جا بنے گا _

اسی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے حاکم نے کہا ہے'' بخاری و مسلم نے عبداللہ بن زید کی خواب میں اذان والی اس روایت کو مذکورہ حدیث کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے کیونکہ عبداللہ اس سے پہلے ہی رحلت کرگئے تھے کیونکہ کہا گیا ہے کہ عبداللہ بن زید جنگ احد میں اور بقولے اس کے کچھ ہی عرصہ بعد شہید ہو گئے تھے''(۳) _

لیکن درمنثور کی عبارت یوں ہے ''نماز کے فرض ہونے کے ساتھ اذان رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوئی _( یا ایها الذین آمنوا اذا نودی للصلاة ) اب اس عبارت سے ان کا مقصود یہ ہوسکتاہے کہ اذان مکہ میں اس وقت شروع ہوئی جب نماز فرض کی گئی لیکن مذکورہ آیت کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی اذان کے بارے میں اشارہ کیا ہے اگر یہ صحیح ہو تو اس روایت کا ماسبق سے کوئی تعارض اور اختلاف نہیں_

آٹھ: حضرت عائشہ ، عکرمہ ، قیس بن ابی حازم و غیرہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی کے اس قول( و

____________________

۱)فتح الباری ج/ ۲ ص ۶۴ ، السیرة الحلبیہ ج/۲ ص ۹۳_

۲)فتح الباری ج ۲ ص ۶۲، الدر المنثور ج ۶ ص ۲۱۸از ابو شیخ_

۳) مستدرک الحاکم ج/۴ ص ۳۴۸_

۱۳۴

من احسن قولاً ممن دعا الی الله و عمل صالحاً ) (۱) سے مراد اذان و اقامت کے درمیان دو رکعت نماز کی ادائیگی ہے(۲) _

یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ آیت سورہ مبارکہ فصلت کی ہے جو مکی سورت ہے_ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اذان و اقامت کا حکم مکہ میں دیا گیاتھااور یہ آیت اذان اور اقامت کے احکام اور مسائل بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے_

البتہ اس دعوی کہ '' یہ آیت بھی ان آیتوں میں سے ہے جن کا حکم ان کے نزول کے کچھ عرصہ بعد لاگو ہوا '' اس کی سوائے ابن زید کی گذشتہ روایت کے کوئی اور دلیل نہیں ہے اور یہ ہم جان چکے ہیںکہ اس روایت پراعتماد نہیں کیاجاسکتا بلکہ اس کے جھوٹے ہونے پر بھی دلیل قائم کی گئی ہے_

نو: مفسرین نے اس آیت ( و رفعنا لک ذکرک) کے متعلق کہا ہے کہ یہ آیت اذان کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۳) اور کئی مفسروں نے اسے ابن عباس اور مجاہد سے نقل کیا ہے(۴) اور یہ آیت سورہ انشراح میں ہے اور یہ بھی مکی ہے_

آخری بات

حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ حضرتعليه‌السلام نے فرمایا '' جب جبرائیلعليه‌السلام اذان لے کر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تشریف لائے تو جبرائیلعليه‌السلام نے خود اذان و اقامت کہی_ اسی موقع پر آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام سے فرمایا کہ حضرت بلال کو بلالائیں _آپعليه‌السلام نے حضرت بلال کو بلایا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت

____________________

۱)اس سے بہتر بات کس کی ہوگی جو لوگوں کو اللہ اور عمل صالح کی طرف دعوت دے_

۲) السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۹۳، درمنثور ج / ۵ ص ۳۶۴ ، از عبد بن حمید ، سعید بن منصور، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابن ابی شیبہ ، ابن منذر خطیب در تاریخ _

۳) الکشاف مطبوعہ دار الفکر ج۴ ص ۲۶۶ ، جوامع الجامع ص ۵۴۵ ، البحر المحیط ج۸ ص ۴۸۸ ، مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۰۸ ، التفسیر الکبیر ج۳۲ ص۵ و مدارک التنزیل ( مطبوعہ بر حاشیہ الخازن) ج۴ ص ۳۸۹_

۴) ملاحظہ ہو: تفسیر القرآن العظیم ج۴ ص ۵۲۵، الجامع لاحکام القرآن ج۲۰ ص ۱۰۶ و لباب التاویل ج۴ ص ۳۸۹_

۱۳۵

بلال کو اذان کی تعلیم دی اور اذان دینے کا امر فرمایا''(۱) _

اور اس روایت میں گذشتہ روایتوں کے ساتھ کوئی تضاد نہیں پایا جاتا_ کیونکہ عین ممکن ہے کہ جبرائیلعليه‌السلام مکہ میں اذان لے کر نازل ہوئے ہوں _ اسی طرح وقت معراج تشریع ہونے والی اذان فرداً فرداً کہی جانے والی اذان ہو جبکہ جس اذان کو جبرائیلعليه‌السلام (مدینہ میں ) لے کر نازل ہوئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بلال کو اس کی تعلیم دی اور اسے بلند آواز سے کہنے کا حکم دیا وہ اذان اعلان ( نماز جماعت کے قیام کا اعلان کرنے والی اذان ) ہو_

مدینہ میں رونما ہونے والے واقعہ کے متعلق شاید زیادہ مناسب وہ روایت ہو جو یہ کہتی ہے: ''مسلمان جب مدینہ پہنچے تو وہ اکٹھے ہوکر وقت نماز کا انتظار کیا کر تے تھے جبکہ کوئی منادی بھی نہیں تھا_ ایک دن انہوں نے اس بارے میں آپس میں گفتگو کی_ بعض نے کہا کہ ناقوس (گھنٹی) بجائی جائے جیسے عیسائی بجاتے ہیں_ بعض نے کہا کہ یہودیوں کی طرح بگل بجایا جائے _ حضرت عمر نے کہا کہ ایسے کچھ افراد مقرر کئے جائیں جو لوگوں کو نماز کے لئے بلائیں جس پر رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ اٹھو اذان دو''(۲)

اس روایت کے مطابق اختلاف خود مسلمانوں کے درمیان پیدا ہوگیا اور وہ ہی تھے جو ایک دوسرے سے بعض ذرائع اور اسباب کی فرمائشے کرنے لگے تھے _ جبکہ اس جھگڑے کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت بلال کو اذان کا حکم دے کر نمٹایا_ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اذان کا شرعی حکم اس سے قبل (مثلاً شب معراج )آچکا تھا _

لیکن یہ افراد یا تو نو مسلم ہونے کی وجہ سے اس امر سے بے خبر تھے یا وہ سب یا بعض افراد اس بات سے باخبر تو تھے لیکن یہ اذان والی بات ان کے دل کو نہیں لگی تھی اس لئے وہ اس میں تبدیلی کے خواہش مند تھے_

بہر حال اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لئے امام عبدالحسین شرف الدین کی بہترین کتاب '' النص والاجتہاد '' کی طرف مراجعہ فرمائیں(۳) _

____________________

۱) الوسائل ج/۱ ، ص ۳۲۶، الکافی ج/۳ ص ۳۰۲ ، النص والاجتہاد ص ۲۰۵ ، اس روایت کو جناب شیخ صدوق اور شیخ مفید رحمھما ا اللہ تعالی نے بھی نقل کیا ہے_ (۲) سنن دار قطنی ج/۱ ص ۲۳۷_ (۳)النص و الاجتہاد ص ۱۹۷ تا ۲۰۵_

۱۳۶

اذان میں حی علی خیر العمل:

وہ امور جو مسلمانوں میں اختلاف کا باعث بنے ، ان میں سے ایک اذان میں '' حی عل الفلاح '' کے بعد دو مرتبہ ''حی علی خیر العمل'' کہنے کا مسئلہ بھی ہے_ بعض اس کے قائل ہیں اور بعض انکار کرتے ہیں _

مسلمانوں کا ایک گروہ اپنے پیشواؤںکی اطاعت میں اذان میں''حی علی خیر العمل''کہنے کو صحیح نہیں سمجھتا _ انہیںاہل سنت و الجماعت کہتے ہیں_ البتہ بعض اس کو مکروہ سمجھتے ہیں_ اسکی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ جملہآنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ثابت نہیں ہے جبکہ اذان میں اضافہ مکروہ ہے(۱) _

عما د الدین یحیی بن محمد بن حسن بن حمید مقری کی توضیح المسائل سے نقل کرتے ہوئے قاسم بن محمد بن علی کہتاہے: '' رویانی نے کہا ہے کہ مشہور قول کے مطابق شافعی اس کے جواز کا قائل ہے نیز مالکی مذہب کے علاوہ حنفی اور شافعی مذہب کے اکثر علماء کا بھی کہناہے کہ '' حی علی خیر العمل'' کا جملہ اذان کا ہی حصہ تھا_ اسی طرح زرکشی نے اپنی بحر المحیط نامی کتاب میں کہا ہے : '' بعض مسائل تو ایسے ہیں جن کے متعلق دوسرے شہروںکے علاوہ خود مدینہ کے اندر ہی اختلاف پایا جاتا تھا_ خود مدینہ والوں کے پیشوا جناب عبداللہ ابن عمر اذان کی فصلوں کو ایک ایک کرکے پڑھتے تھے اور اس میں '' حی علی خیر العمل'' بھی کہتے تھے _ یہانتک کہ مقری کہتاہے کہ رویانی کی یہ بات درست ہے کہ شافعی کا مشہور قول ''حی علی خیر العمل '' کے اثبات کے متعلق ہے(۲) _

لیکن اہل بیتعليه‌السلام اور ان کے شیعہ '' حی علی خیر العمل'' کو اذان و اقامت کا جزء سمجھتے ہیں بلکہ اسکے بغیر اذان و اقامت کو صحیح نہیں سمجھتے_ ان کے نزدیک اس حکم پر سب کا اجماع ہے_(۳)

____________________

۱) سنن بیہقی ج/۱ ص ۴۲۵ ، البحر الرائق ج/۱ ص۲۷۵ شرح المھذب سے _

۲)الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۷

۳) الانتصار للسید المرتضی ص ۳۹_

۱۳۷

اس نظریئےو شوکانی نے عترت سے منسوب کیا ہے(۱) اور کہا ہے کہ البحر میں مہدی نے اس قول کو شافعی کے دو اقوال میں سے ایک قرار دیا ہے(۲) شوکانی کہتاہے کہ یہ قول شافعی مذہب کی موجودہ کتابوں میں موجود قول کے برخلاف ہے(۳) _

لیکن اس بات میں شیعیان اہل بیتعليه‌السلام کے ہاں قطعاً کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا_ اس پر ان کی دلیل اجماع اور اہل بیتعليه‌السلام کی بہت ساری روایات ہیں مثلاً مندرجہ ذیل روایات ہیں_

ابو ربیع ، زرارہ، فضیل بن یسار، محمد بن مہران کی امام صادقعليه‌السلام سے روایات، فقہ الرضا میں امام ہشتمعليه‌السلام کی روایت ،ابن سنان، معّلی بن خنیس ، ابو بکر حضرمی اور کلیب اسدی کی امام صادقعليه‌السلام سے روایات، ابو بصیر کی امام باقرعليه‌السلام یا امام صادقعليه‌السلام سے روایت ، محمد بن ابی عمیر کی امام ابوالحسن الکاظمعليه‌السلام سے روایت، امیر المؤمنین علیعليه‌السلام اور حضرت محمد حنفیہ کی پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت اور عکرمہ کی ابن عباس سے روایت ہے(۴) _

اس اختلاف کے ہوتے ہوئے ہمارے لئے اہلعليه‌السلام بیت علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کا نظریہ اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے _ اس سلسلے میں ہم فقط اجماع پریا پھر صرف اہل بیتعليه‌السلام سے مروی روایات پر بھروسہ نہیں کررہے حالانکہ یہ ہستیاں ثقلین کا ایک حصہ ہیں اور خدا نے ان سے ہر قسم کی پلیدی کو دور رکھاہے اور انہیں ہر قسم کی آلائشےوں سے بالکل پاک اور پاکیزہ رکھاہے بلکہ اسکے علاوہ بھی ایسے بہت سے شواہد اور دلائل ہیں جو دوسروں کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں_

بطور مثال وہ بعض روایات جو صحیح اسناد کے ساتھ مندرجہ ذیل شخصیات سے منقول ہیں_

۱_ عبداللہ بن عمر ۲_ حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام

۳_ سھل بن حنیف ۴ _ بلال

____________________

۱)نیل الاوطار ج۲ ص ۱۸_ (۲)نیل الاوطار ج۲ ص ۱۸ ، ۱۹ ، البحر الزخار ج۲ ص ۱۹۱ نیز الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۷ ، ۳۰۸ ، مؤخر الذکر دونوں کتابوں میں شافعی کے ایک قول کی بجائے شافعی کا آخری (حتمی) نظریہ ذکر ہوا ہے_

۳) نیل الاوطار ج۲ص ۱۹_

۴)الوسائل، جامع احادیث الشیعہ، البحار، مستدرک الوسائل ابواب اذان_

۱۳۸

۵_حضرت امام علیعليه‌السلام ۶_ ابو محذورة

۷ _ابن ابی محذورة ۸_ زید بن ارقم

۹_ حضرت امام باقرعليه‌السلام ۱۰ _ حضرت امام صادقعليه‌السلام

۱۱ _ حضرت امام حسنعليه‌السلام ۱۲_ حضرت امام حسینعليه‌السلام

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی شخصیات ہیں_

عبداللہ بن عمر سے روایات:

۱ _ مالک بن انس، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ جناب عبداللہ بن عمر بسا اوقات ''حی علی الفلاح'' کے بعد ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۱) _

۲_ لیث بن سعد ، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ جناب ابن عمر سفر میں کبھی بھی اذان نہیں کہتے تھے بلکہ وہ صرف ''حی علی الفلاح'' کہتے تھے اور بسااوقات ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۲) _

۳ _ لیث بن سعد، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ جناب عبداللہ بن عمر اذان میں بعض اوقات''حی علی خیر العمل'' کا اضافہ کرتے تھے، یہی روایت انس بن مالک نے نافع کے ذریعے عبداللہ بن عمر سے نقل کی ہے(۳) نیز عطاء نے بھی عبداللہ بن عمر سے یہی روایت نقل کی ہے(۴) _

۴_محمد بن سیرین نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ وہ ہمیشہ اذان میں ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۵) _

____________________

۱) سنن بیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۴ الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۷ و ص ۳۰۸ و ۳۱۲_

۲) سنن بیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۴ نیز ملاحظہ ہو نیل الاوطار ج۲ ص ۱۹_ (۳) سنن بیہقی ج /۱ ص۴۲۴ ، دلائل الصدق ج/ ۳ جزء دوم ص ۱۰۰ از مبادی الفقہ الاسلامی للعرفی ص ۳۸ شرح تجرید ، جواہر الاخبار اور صعدی کی الآثار المستخرجہ من لجة البحر الزخارج ۲ ص ۱۹۲ کے مطابق ، ابن ابی شیبہ نے اسے ''الشفائ'' میں نقل کیا ہے، نیز الاعصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۸ _ (۴) الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۹ نیز ملاحظہ ہو ص ۳۱۰_ (۵) سنن بیہقی ج/ ۱ ص ۴۲۵ نیز الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۸ از سنن بیہقی_

۱۳۹

۵_ نسیربن ذعلوق ، ابن عمر کے بارے میںکہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سفر میں '' حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۱) _

۶_ عبدالرزاق، ابن جریح سے اور وہ نافع سے روایت کرتے کہ عبداللہ بن عمر سفر میں جب بھی نماز پڑھتے تو نماز کے لئے اقامت کہتے اور اس میں دو یا تین مرتبہ یوں کہتے تھے''حی علی الصلاة حی علی الصلاة، حی علی خیر العمل(۲)

۷_ عبدالرزاق ، معمر سے وہ یحیی بن ابی کثیر اور وہ کسی ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر اذان میں ہمیشہ ''حی علی الفلاح ''کے بعد ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے اور پھر'' اللہ اکبر، اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ'' کہتے(۳) اسی روایت کوابن ابی شیبہ نے ابن عجلان اور عبیداللہ ، نافع اور عبداللہ ابن عمر کی سندسے روایت کی ہے(۴)

۸_ زید بن محمد نے نافع سے روایت نقل کی ہے کہ عبداللہ بن عمر جب بھی اذان کہتا تھا '' حی علی خیر العمل'' کہتا تھا(۵) صاحب اعتصام نے ابن عون ، ابن جریح ،عثمان بن مقسم ، عبداللہ بن عمر اور جویریہ بن اسماء کی نافع سے روایتیں بیان کی ہیں(۶) اس لئے وہاں انہیں ملاحظہ فرمائیں _ اسی طرح کی ایک روایت حلبی و غیرہ نے بھی عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے(۷)

امام زین العابدینعليه‌السلام سے روایات

۹_ حاتم بن اسماعیل نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے انہوں نے اپنے والد گرامی سے اور انہوں نے حضرت

____________________

۱) مذکورہ منابع_

۲) مصنف عبدالرزاق ج/ ۱ ص ۴۶۴_

۳)سنن بیہقی ج۱ ص ۴۶۰ نیز الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۹_

۴) مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص ۱۴۵ حاشیہ مصنف عبدالرزاق ج۱ ص ۴۶۰ از مذکورہ کتاب نیز ملاحظہ ہو الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۶_

۵) الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۵_

۶) الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۶ تا۲۹۹_

۷) سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۹۸ ، الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۱۱ ، ۳۱۲ ، از ابن حزم در کتاب '' الاجماع''_

۱۴۰