الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 200035
ڈاؤنلوڈ: 4015

تبصرے:

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200035 / ڈاؤنلوڈ: 4015
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

قانون سازی کا محور کوئی بڑی اور سرکردہ شخصیت بھی نہ بننے پائے ورنہ اسلام ایک مردے کی فکر ہوگی جوصرف اور صرف عجائب گھر میں رکھنے کے قابل ہوگی جس کا تعلق معاشرتی زندگی سے قطعاً نہیں ہوگا(۱)

اگر رائے ، فکر اور عقیدہ کی آزادی ہو تو یہ بات دوسروںکے حوصلے کا سبب بنے گی کہ وہ لوگ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوکرتکلیفوں ، اذیتوں ، مختلف قسم کے دباؤ اور اس فتنہ کی آگ سے بھی محفوظ رہیں جو اسلام کی نظر میں قتل سے زیادہ خطرناک ہے _ پس مسلما ن جب جنگ کرتے ہیں تو وہ اپنے ان حقوق کے دفاع کے لئے جنگ لڑتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے قرار دیئےیں_ اس سلسلے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث بھی ہیں جن کا ذکر بعد میں آئے گا_نیز قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے_

( اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا و ان الله علی نصرهم لقدیر الذین اخرجو من دیارهم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا الله ) (الحج ۳۹ ، ۴۰)

جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارہی ہے انہیں ان کی مظلومیت کی بنا پر(جنگ کی) اجازت دی گئی ہے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ہے_ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے نا حق نکال دیئے گئے ہیںان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں اللہ ہمارا پروردگار ہے_

پس مسلمانوں کو جنگ کی اجازت اس صورت میں ملی کہ دوسروں نے ان پر جنگ مسلط کردی تھی اور انہیں اپنے گھروں سے بھی نکال باہر کیاتھا لیکن اگر ایسی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے جن میں غزوات کا ذکر ہے تو قاری کے ذہن میں یہ تصور ابھرتاہے کہ اسلام تو قتل و نابودی کا مذہب ہے_ آپ واقدی کی '' فتوح الشام'' کی طرف رجوع کرکے دیکھیں _یہ سب کچھ غالباً اس لئے ہے کہ اس میں بنی امیہ کی شان و شوکت اور اقتدار و غلبے کا ذکر ہے_ بعض محققین نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے(۱) _

____________________

۱) مصنف کا اشارہ شاید کیمونزم کی جانب ہے جس کے متعلق خمینی بت شکن نے گورباچف کے نام اپنے خط میں پیشین گوئی کردی تھی کہ (دوسرے باطل عقائدو مذاہب کی طرح) یہ بھی تاریخ کے میوزیم میں منتقل ہوجائے گا _ اور ہوا بھی یہی اب صرف چند مردہ پرست ہی اس دنیا میں رہ گئے ہیں جو اسے زندہ رکھنے کی نام کوششوں میں مصروف ہیں _ مترجم

۲)آیت الل ہ سید مہدی الحسینی الروحانی_

۱۸۱

جیم: گزشتہ گفتگو کی روشنی میںیہ بات قابل ذکر ہے کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوںکی سیرت اور عادت یہ تھی کہ وہ دشمنوں کے سامنے نہایت منصفانہ انتخاب رکھتے تھے_ حتی کہ ان پیشکشوں کے بعد بعض مشرکین یہ اقرار کرتے تھے کہ اس پیشکش کے بعد اب جنگ پر اصرار ظلم و زیادتی کے علاوہ اور کچھ نہیں لیکن سریہ ابن حجش میں ابن حضرمی کے قتل کے بعد باقی مشرکوں نے ان پیشکشوں کو ٹھکرانا شروع کردیا تھا کیونکہ وہ مسلمانوں سے جنگ کا پختہ ارادہ کرچکے تھے(۱) _

حالانکہ وہ ابن حضرمی کے قتل کا بدلہ دو طرح سے لے سکتے تھے_ایک یہ کہ محدود پیمانے پر اس کا بدلہ لیا جاتا دوسرا یہ کہ دیت قبول کرلی جاتی حالانکہ یہ دونوں عمل عربوں کے رسم و رواج کا حصہ تھے اور ان کی اخلاقیات کے لحاظ سے بعید بھی نہیں تھے _

دال: معاہدے توڑنے والوںکے خلاف قیام کرنااور انہیں اپنی حدود میں رکھنا کیونکہ یہودی معاہدے توڑتے تھے اور پھر کفار و مشرکین مکہ بھی وہ لوگ تھے جو صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ چکے تھے_

ہائ: جنگ کے شعلے بھڑ کانے والوں اورزیادتی کرنے والوں کے مقابلے میں اپنا دفاع _ جن لوگوں نے مدینہ پر لشکر کشی کی اور لوٹ مار مچائی ان کا پیچھا _

بہر حال ہم دیکھتے ہیں کہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف مسلسل معرکہ آرائی جاری رکھی جبکہ مسلمان صلح حدیبیہ تک ہمیشہ اپنا دفاع کرتے رہے_ حتی کہ بخاری لکھتے ہیں کہ نبی کریم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے غزوہ بنی قریظہ سے پلٹنے کے بعد فرمایا: '' اب ہم ان کے خلاف جنگ کر سکتے ہیں لیکن وہ ہمارے خلاف جنگ نہیں کرسکتے '' _اس کا ذکر انشاء اللہ آئے گا _

کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟

گذشتہ مطالب کی روشنی میں ہمارے لئے واضح ہوجاتاہے : کہ'' اسلام علیعليه‌السلام کی تلوار سے پھیلا '' کے

____________________

۱)تاریخ طبری ج/۲ ص ۱۳۱ کامل ابن اثیر ج/ ۲ ص ۱۱۶_

۱۸۲

مقولے کا مطلب ہر گزیہ نہیں ہے کہ حضرتعليه‌السلام نے لوگوںکے سر پر تلوار رکھ کر فرمایا ہو کہ اسلام لے آؤ یا قتل کے لئے تیار ہوجاؤ_ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کی تلوار فقط اور فقط اسلام کے دفاع کے لئے اٹھی_ اس تلوار نے دشمنوںکی زیادتیوںکو روکا اور آزادی رائے ، فکر اور عقیدہ کی حفاظت کی اور اسلام کے دفاع میں اپنا گہرا اثر چھوڑا_

اور چونکہ اسلامی جنگوں کا مقصد انسان کی حفاظت ، اس کی شخصیت کاتحفظ اور آزادی فکر و عقیدہ و رائے کے لئے فضا ہموارکرنا تھا ،اس لئے ان وجوہات کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جنگیں ممکنہ طور پر اتنی مختصر تھیں جن سے فقط مقصد حاصل ہوجائے_یہی وجہ ہے کہ انتہائی ضبط نفس اور تقوی کا خیال رکھا جاتا تھا_ یہاں تک کہ خطرناک ترین حالات اور لحظوں میںبھی ان چیزوں کا لحاظ کیا جاتا تھا_ اسی لئے پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دس سالہ مدنی زندگی کے مختصر عرصے میں غزوات اور سریوں پر مشتمل دسیوں جنگوں میں مؤرخین کے بقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلوار سے مقتولین کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز نہیںکرتی(۱) حالانکہ ان جنگوں سے مشرکین کا مقصد پورے جزیرة العرب میں اسلامی حکومت کے نفوذ و قدرت کے زیادہ ہونے نیزاسکی حدود کو اس سے کہیں زیادہ پھیلنے سے روکنا تھا بلکہ سرے سے اسلام کا ہی قلع قمع کرنا تھا_

ہم نے عجلت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ورنہ جہاد کا موضوع تو بہت زیادہ طول و تفصیل کا طالب ہے_ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ قرآن حکیم کی آیات ،پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آئمہ ہدیعليه‌السلام کی احادیث ، انکے جہادی موقف اور کوششوں پر گہری نظر ڈالی جائے_

____________________

۱)ملاحظہ ہو سید ھادی خسرو شاہی کا مضمون '' سیمای اسلام'' _

۱۸۳

چھٹی فصل:

جنگ بدر سے پہلے کی لڑائیاں

۱۸۴

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوات اور سرایا:

''غزوہ'' سے مراد ایسی جنگ ہے جس میں خود حضور سرور کائناتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنفس نفیس شرکت فرمائی ہو اور ''سریہ' ' ایسی جنگ ہے جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے براہ راست شرکت نہ فرمائی ہو_

ان جنگوں کی تعداد میں مورخین کے ہاں خاصا اختلاف پایا جاتاہے _ہمارے خیال میں اس مطلب کی تحقیق میں کلام کو طول دینے کی ضرورت نہیں_ ہم صرف ان اہم جنگوں کا ذکر کریں گے جن کا کوئی عمومی فائدہ تھا_ البتہ اس سے قبل دو نکات کا بیان ضروری محسوس ہوتا ہے _

ایک : معرکہ سے فرار

علماء نے یہاں بیان کیا ہے کہ ابتدائے امر میں ایک مسلمان کا دس مشرکین کے مقابلہ سے فرار کرنا جائز نہیں تھا(۱) ( یعنی ایک مسلمان پر بیک وقت دس مشرکوں کا مقابلہ واجب تھا ) پھر اللہ تعالی کی جانب سے مسلمانوں پر تخفیف اور رعایت کا حکم آیا کہ اب ایک مسلمان دو کا مقابلہ کرسکتاہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

( یا ایها النبی حرض المومنین علی القتال ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مئتین و ان یکن منکم مئة یغلبوا الفاً من الذین کفروا بانهم قوم لا یفقهون

____________________

۱) الجامع لاحکام القرآن ج ۸ ص ۴۴ ، جامع البیان ج ۱۰ ص ۲۷ و تفسیر المنارج ۱۰ ص ۷۷_

۱۸۵

الان خفف الله عنکم و علم ان فیکم ضعفاً فان یکن منکم مئة صابرة یغلبوا مئتین و ان یکن منکم الف یغلبوا الفین باذن الله و الله مع الصابرین ) (انفال ۶۵ ، ۶۶)

اے پیامبر آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کو جہاد پر آمادہ کریں_ اگر ان میں بیس افراد بھی صبر کرنے والے ہوں گے تووہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سوہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے_ اس لئے کہ کفار سمجھ بوجھ نہیں رکھتے البتہ اب اللہ نے تمہارا بار ہلکاکر دیاہے کیونکہ اس نے دیکھ لیا ہے کہ اب تم لوگوں میں کمزوری پائی جاتی ہے تو اب تم میں اگر سو افراد بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر ہزار ہوں گے تو بحکم خدا دو ہزار پر غالب آئیں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے_

اس بات کی مزید تفصیل جنگ بدر کے باب کی آخری فصل ''جنگ کے نتائج '' میں ذکر ہوگی _

دو: سرایا کے لئے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت :

دوسری قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ حضور سرور دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کسی سریہ کے لئے مسلمانوں کو بھیجنے کا ارادہ فرماتے تو مسلمانوں کو بلاتے_ اپنے سامنے بٹھاتے اور فرماتے:

(سیروا باسم الله ، و بالله و فی سبیل الله و علی ملة رسول الله و لا تغلوا و لا تمثلوا و لا تعذرو و لا تقتلوا شیخاً فانیاً و لاصبیاً و لا امراة و لا تقطعوا شجراً الاّ ان تضطروا الیها ؟ و ایما رجل من ادنی المسلمین او افضلهم نظر الی رجل من المشرکین فهو جار حتی یسمع کلام الله فان تبعکم فاخوکم فی الدین و ان ابی فابلغوه مأمنه و

____________________

۱)تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۶ ، السیرة الحلبیہ ج/۳ ص ۱۵۲_

۱۸۶

استعینوا بالله علیه . ..)

اللہ کے نام اور اللہ ( کی لا یزال قوت )کے ساتھ اور اللہ کی راہ میں اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے دین پر ہوکے سفر کرو اور دور تک تیر نہ پھینکو اورنہ ہی کسی کا ناک یا کان کاٹو(۱) ، کسی کے ساتھ بدعہدی اور خیانت نہ کرنا ، کسی نہایت بوڑھے کو قتل نہ کرنا اور نہ ہی کسی بچے یا خاتون کو قتل کرنا ، کسی درخت کو نہ کاٹنا مگر یہ کہ کوئی مجبوری پیش آجائے، تم میں سے جس چھوٹے یا بڑے مسلمان نے کسی بھی مشرک پر نظر کرم کی تو وہ ا سے پناہ دینے والا ہے یہاں تک کہ وہ کلام الہی کو سنے پس اگر اس نے اطاعت کی تووہ تمہارا دینی بھائی ہے اور اگر اس نے انکار کیا تو اسے اس کی پناہ گاہ تک چھوڑ آؤ اور اس پر کامیابی کے لئے اللہ سے مدد طلب کرو(۲) یہ وصیت طولانی ہے اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دیگر وصیتیں بھی ہیں جن کے مطالعہ کے لئے ان کے منابع کی طرف رجوع فرمائیں(۳) _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دشمن پر کبھی بھی شب خون نہیں مارا(۴) بلکہ جب کبھی بھی کسی لشکر کو کہیں بھیجتے تو دن چڑھے بھیجتے تھے(۵) _

اس کتاب میں ہمارا مطمح نظر:

ہم اپنی اس کتاب میں تمام غزوات اور سرایا کے متعلق مکمل تفصیلی گفتگو نہیں کرسکتے اس لئے ہم ان جنگوں کے ذکر پر اکتفا کریں گے جن میں لڑائی ہوئی ہے البتہ دوسرے غزوات اور سرایا کی طرف تھوڑا سا اشارہ بھی کریں گے _ مگر ان میں کوئی ایسا نیا نکتہ پایاجائے جس پر روشنی ڈالنے کے لئے ان کا ذکر ناگزیر ہوجائے تو ان کا بھی تفصیلی ذکر آئے گا _ البتہ اس فصل میں مندرجہ ذیل سرایا کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

____________________

۱)روایت میں لفظ مثلہ کرنا آیا ہے جس کا مطلب ٹکڑے ٹکڑے کرنا یا دوسرے لفظوں میں ناک کان کاٹنا ہے_

۲)الکافی ج/۱ص ۳۳۴ ، ۳۳۵ ، البحار ج/۱۹ ص ۱۷۷ ، ۱۷۹ نیز ملاحظہ ہو سند احمد ج ۱ ص ۳۰۰ و غیرہ ، التہذیب شیخ طوسی ج ۶ ص ۱۳۸ و ص ۱۳۹ و الاموال ص ۳۵_ (۳)النظم الاسلامیہ صبحی صالح ص ۵۱۴_

۴) التہذیب شیخ طوسی ج ۶ ص ۱۷۴ ، الکافی ج ۱ ص ۳۳۴و ص ۳۳۵ و بحار الانوار ج ۱۹ص ۱۷۷ تا ص ۱۷۹ _

۵) التراتیب الاداریہ ج ۲ ص ۲۲و الجامع الصحیح ج ۳ ص ۵۱۷_

۱۸۷

ابتدائی جنگیں :

مؤرخین کہتے ہیں کہ :

۱_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ تشریف آوری کے سات ماہ بعد ( البتہ دیگر اقوال بھی ہیں ) ابوجہل کا پیچھا کرنے کے لئے جناب حمزہ بن عبدالمطلب کو تیس مہاجرین کا سردار بنا کر بھیجا ( یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس دستے میں انصار کے کچھ افراد بھی شامل تھے لیکن یہ بات ناقابل وثوق ہے کیونکہ جنگ بدر سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی بھی انصاری کو کسی جنگی مشن پر نہیں بھیجا تھا)(۱) انہوں نے ابوجہل کو تین سو مشرکوں میں گھرے ہوئے جالیا _ لیکن وہاں فریقین کے ثالث مجدی بن عمرو جہنی ان کے اس مشن کے آڑے آگیا اور وہ جنگ کئے بغیر واپس لوٹ آئے _

۲_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ تشریف آوری کے بعد ٹھیک آٹھویں مہینے کی ابتداء میں دوسو افراد میں گھرے ابوسفیان کو '' رابع'' کے میدان میں جا پکڑنے کے لئے عبیدہ بن حارث بن مطلب کی سرکردگی میں ساٹھ افراد کا ایک لشکر بھیجا _ اس سریہ میں مقداد اور عتبہ بن غزو ان ابوسفیان کے دستے سے بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ مل گئے(۲) _

۳_ اس کے بعد مہاجرین کے ایک گروہ کی سرکردگی میں سعد بن ابی وقاص کا سریہ بھی ہے جو قریش کے ایک قافلے کا مقابلہ کرنے نکلا تھا لیکن وہ قافلہ ان کی پہنچ سے باہر جا چکا تھا _ البتہ ایک قول کے مطابق یہ واقعہ جنگ بدر کے بعد پیش آیا(۳) _

۴_ اس واقعہ کے بعد یعنی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کے کم و بیش ایک سال بعد غزوہ ابواء کا واقعہ پیش آیا _ اس غزوہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنفس نفیس قریش اور قبیلہ بنی مرّہ بن بکر سے جنگ کرنے نکلے لیکن '' ابوائ'' کے مقام پر قبیلہ بنی مرّہ کے سردار سے مڈبھیڑ ہوگئی جہاں انہوں نے آپس میں صلح کرلی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واپس مدینہ پلٹ آئے(۴) _

____________________

۱) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۵۶، سیرہ حلبیہ ج ۳ ص ۱۵۲، السیرة النبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۴۵_

۲) السیرة النبویہ دحلان ( مطبوعہ بر حاشیہ سیرہ حلبیہ ) ج ۱ ص ۳۶۰و ۳۵۹ _ نیز ملاحظہ ہو تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۵۹_

۳) تاریخ الخمیس ج ۱ ۳۵۹_ (۴) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۶۳، السیرة النبویة ابن ہشام ج ۲ ص ۲۴۱ ، السیرة النبویہ دحلان ( مطبوعہ بر حاشیہ سیرہ حلبیہ ) ج ۱ ص ۳۶۱_

۱۸۸

۵_ اس کے بعد غزوہ '' بواط'' کا واقعہ پیش آیا ( بواط مدینہ کے قریب جہینہ قبیلہ سے متعلق ایک پہاڑی تھی ) اس غزوہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسو مہاجرین کو لے کر قبیلہ بنی ضمرہ کے قافلے کا سامنا کرنے نکلے لیکن بواط تک پیچھا کرنے کے بعد پھر واپس پلٹ آئے اور کوئی لڑائی نہیں کی(۱) البتہ اس غزوہ میں مہاجرین کی تعداد کے متعلق اپنا اعتراض ہم محفوظ رکھتے ہیں _

۶_ مذکورہ غزوہ کے چند دن بعد '' غزوة العشیرہ '' کا واقعہ پیش آیا _ اس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبیلہ بنی مدلج اور اس کے حلیف بنی ضمرہ سے صلح کر کے واپس مدینہ پلٹ آئے _ اس غزوہ میں بھی کوئی لڑائی نہیں ہوئی _ البتہ اس غزوہ میں حضرت علی علیہ السلام کو '' ابوتراب '' کا لقب ملا جس کے متعلق ہم بعد میں گفتگو کریں گے(۲) _

۷_ نخلہ کی وادی میں عبداللہ بن حجش کا سریہ :

اس کے بعد ہجرت کے دوسرے سال رجب یا جمادی الثانی کے مہینے میں عبداللہ بن حجش کی جنگ کا واقعہ رونما ہوا _ جس میں آٹھ یا بارہ مہاجرین نے حصہ لیا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عبداللہ بن حجش کو ایک خط دے کر روانہ کیا اور فرمایا کہ اس خط کو دو دن کے بعد کھول کردیکھنا ( یہ حکم غالباً اس لئے تھا کہ کوئی اسلام دشمن یہودی اور مشرک اس خط کے مضمون سے مطلع نہ ہونے پائے جس سے یہ بات تمام دشمنوں میں پھیل سکتی تھی ) _ دو دن چلنے کے بعد جب اس نے خط کھول کردیکھا تو اس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد لکھا تھا :

'' امّا بعد خدا کی برکت سے اپنے ساتھیوں سمیت نخلہ کی وادی میں جا کر قریش کے ایک قافلے پر گھات لگاؤ ( ایک روایت میں آیا ہے کہ قریشیوں کے خلاف گھات لگاؤ) یہاں تک کہ ہمارے پاس کوئی اچھی خبر لے کر آو'' _

عبداللہ بن حجش نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے حکم دیا ہے کہ اپنے کسی ساتھی پر بھی زبردستی نہیں کرو بلکہ انہیں اس بات کا اختیار دو کہ وہ تمہارے ساتھ جائیں یا پھر واپس پلٹ آئیں _ لیکن اس کے تمام ساتھی اس کے ساتھ ہولئے _ پھر یہ دستہ وادی نخلہ میں ٹھہرا تو وہاں سے قریش کے ایک قافلے کا

____________________

۱) ملاحظہ ہو : تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۶۳، السیر النبویہ دحلان ج ۱ ص ۳۶۱، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۶و السیرة النبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۴۹_

۲)ملاحظہ ہو : تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۶۳، السیرة النبویہ دحلان ج ۱ ص ۳۶۱ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۶، السیرة النبویہ ابن ہشام ج۲ ص ۲۴۹_

۱۸۹

گذر ہوا جس پر انہوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فاقلے پرہلہ بول دیا ، ان کے ایک آدمی کو قتل اور دو کو قید کر کے ان کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا _ یہ واقعہ اختلاف اقوال کی بناپر رجب کی پہلی تاریخ کو یا اس سے ایک دن پہلے پیش آیا _ پھر جب وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پاس آئے تو انہوں نے وہ قافلہ مع مال و اسباب اور دو قیدی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور پیش کردیئےیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے ایک دھیلا بھی لینے سے انکار کردیا ( لیکن ابو ہلال عسکری کہتا ہے کہ عبداللہ بن حجش نے اس مال کو پانچ حصوں میں تقسیم کر کے پانچواں حصہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حضور پیش کردیا اور باقی کو اپنے ساتھیوں کے درمیان تقسیم کردیا _ اور اس کا یہ خمس اسلام کا پہلا خمس تھا)(۱) _ البتہ دوسرے مسلمان بھائیوں نے ان کو سخت سرزنش کی _ اس واقعہ کی وجہ سے قریشیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ (حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حرام مہینے کی حرمت کو پایمال کیا ہے _ اس مہینے میں ان لوگوں نے خون بہایا، مال لوٹا اور کئی آدمیوں کو قیدی بنایا ہے _ اس وجہ سے انہوں نے مسلمانوں کو بہت برا بھلا بھی کہا اور اس بارے میں کئی خطوط بھی لکھے _ اس کے ساتھ ساتھ اس معاملہ کو مزید ہوا دینے کے لئے یہودیوں کو بھی بھڑ کانا شروع کردیا_ جب ان کی سرگرمیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو مہاجرین کے اس کام کی دلیل اور توجیہ بیان کرنے کے لئے یہ آیتیں نازل ہوئیں:

( یسالونک عن الشهر الحرام قتال فیه قل قتال فیه کبیر و صد عن سبیل الله و کفر به و المسجد الحرام و اخراج اهله منه اکبر عندالله و الفتنة اکبر من القتل ) (۲)

اے پیغمبر وہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے (طنز یہ طور پر ) محترم مہینے میں جنگ کے متعلق پوچھتے ہیں تو

____________________

۱) الاوائل ، ج ۱ ، ص۱۷۶ ، سیرہ حلبیہ، ج ۳ ، ص ۱۵۷ ، الاستیعاب زندگی عبداللہ بن جحش، نیز ملاحظہ ہو : السیرة النبویة ابن ہشام ، ج ۳، ص ۲۵۲ و ۲۵۳_ المغازی واقدی ، ج ۱ ، ص ۱۳ ، طبقات الکبری ، ج ۲ ، ص ۱۰ ، مطبوعہ۱۴۰۵ ھ _ تاریخ الامم و الملوک ، ج ۲ ، ص ۴۱۰تا ۴۱۳ ، السنن الکبری ، ج ۹ ، ص ۱۲ ، دلائل النبوة بیہقی ، ج ۲ ، ص ۳۰۷و ۳۰۸ ، تاریخ الاسلام ذہبی (مغازی ) ص ۲۹ ، اسباب النزول ص ۳۶ ، بحارالانوار ، ج ۲۰ ، ص ۱۸۹و ۱۹۰، رجال مامقانی ، ج ۲ ، ص ۱۷۳، قصص الانبیاء راوندی ، ص ۳۳۹_ السیرة النبویہ ابن کثیر ، ج ۲ ص۳۶۶، الکامل فی التاریخ ، ج ۲ ، ص ۱۱۳، تاریخ الخمیس ، ج ۱ ، ص ۳۶۵ _ تاریخ یعقوبی ، ج ۲ ، ص ۶۹_ الدرالمنثور سیوطی ، ج ۱ ص ۲۵۱_ مجمع الزوائد ، ج ۲ ، ص ۱۹۸_ السیرة النبویہ دحلان (مطبوعہ بر حاشیہ سیرہ حلبیہ) ، ج ۱ ، ص ۳۶۲ و دیگر کتب_

۲) بقرہ / ۲۱۷_

۱۹۰

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں کہہ دیجیے کہ اس مہینے میں جنگ کرنا بہت بڑا گناہ اور خدا کے راستے سے روکنے اور خدا اور مسجد الحرام کے انکار کے مترادف ہے لیکن مسجد الحرام میں رہنے والوں کو اپنے گھروں سے نکال با ہر کرنا خدا کے نزدیک اس سے بھی بڑا جرم ہے نیز فتنہ اور سازش بھی قتل سے بہت بڑا جرم ہے_

ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت اس وقت اتری جب مشرکین مکہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آکر بطور طنز اور تنقید حرام مہینے میں جنگ کی کیفیت کے متعلق سوال کیا تو اس آیت کے ذریعہ سے خدانے مسلمانوں کی مشکل آسان کردی اور قریشیوں کو اپنے قیدیوں کا فدیہ دے کر انہیں چھڑواناپڑا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا(۱)

۸_ غزوة العشیرہ کے چند دن بعد غزوہ بدر اولی کا واقعہ پیش آیا _ جب کرز بن جابر فہری ،مدینہ کے چوپائے غارت کر کے اپنے ساتھ لے گیا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود اس کا پیچھا کرنے کے لئے نکلے لیکن جب بدر کی جانب سفوان کی وادی تک پہنچے تو وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دسترس سے باہر نکل چکاتھا، جس کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوبارہ مدینہ پلٹ آئے(۲)

یہاں ہم کچھ اہم امور پر بحث ضروری تصور کرتے ہیں ان کاتعلق گزشتہ ابحاث سے ہے اور وہ مندرجہ ذیل ہیں_

۱ _ حضرت علیعليه‌السلام کی کنیت ابوتراب قرار دینا:

غزوة العشیرہ میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المومنین علیعليه‌السلام کی کنیت ابوتراب رکھی_ یہ کنیت حضرتعليه‌السلام کو بہت زیادہ پسند تھی لیکن بنوامیہ اس کنیت کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے_

____________________

۱) ملاحظہ ہو : تاریخ الخمیس ، ج ۱ ص ۳۶۶ ، السیرة النبویہ دحلان (مطبوعہ بر حاشیہ سیرہ حلبیہ ) ، ج ۱ ، ص ۳۶۳ و السیرة النبویہ ابن ہشام ، ج ۲ ، ص ۲۵۴و ۲۵۵_

۲)سیرہ حلبیہ ، ج ۲ ، ص ۱۲۸، السیرة النبویہ ابن ہشام ، ج ۲ ، ص ۲۵۱_

۱۹۱

جناب عمار بن یاسر کی روایت کے مطابق معاملہ اختصار کے ساتھ کچھ یوں ہے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اصحاب کے ہمراہ غزوة العشیرہ کے مقام پر پہنچے تو حضرت عمار اور حضرت علیعليه‌السلام قبیلہ بنی مدلج کے حالات جانچنے گئے وہاں انہوں نے دیکھا کہ وہ لوگ اپنے لئے کنواں کھود رہے تھے اور کھجور کے درختوں پر کام کررہے تھے_ دیکھتے ہی دیکھتے ان دونوں پر نیند طاری ہونے لگی تووہ چل کر کھجور کے درخت کے سائے تلے پہلو کے بل مٹی کے اوپر لیٹ گئے_ حضرت عمار کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ابھی ہم سونے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ ہمیں اٹھانے کے لئے رسول اللہ بنفس نفیس تشریف لائے اور پاؤں سے ہمیں جھنجھوڑا_ ہم لوگ جس مٹی پر سوگئے تھے اس سے اٹے ہوئے تھے_ اس روز رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کے بدن پر مٹی دیکھ کر ان کو ''ابوتراب'' کہہ کر آواز دی اور فرمایا :'' اے ابوتراب کیا بات ہے ؟''(۱) _ ''مؤاخات'' کے متعلق گفتگومیں بھی ابوتراب کی کنیت کاتذکرہ گزرچکاہے_ عبدالباقی العمری نے ان اشعار میں نہایت احسن انداز سے اس معنی کو بیان کیا ہے_

یا ابا الاوصیاء انت لطه---- صهره و ابن عمه و اخوه

ان لله فی معانیک سراً ---- اکثر العالمین ما علموه

انت ثانی الآباء فی منتهی---- الدور و آباؤه تعد بنوه

اے ابوالاوصیائ( حضرت علیعليه‌السلام )آپعليه‌السلام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داماد چچازاد اور بھائی ہیں_ اللہ کے ہاں آپعليه‌السلام کے (اسماء القاب اور صفات کے ) معانی میں کئی رازپوشیدہ ہیں جنہیں اہل جہاں نہیں جانتے _ آپعليه‌السلام اس آخری دور میں دوسرے ابوالبشر ہیں جن کے آباء بھی ان کے بیٹے کہلاتے ہیں_

____________________

۱)البدایہ والنہایہ ج/۳ ص ۲۴۷، الآحاد والمثانی مخطوط کتابخانہ کوپر لی شمارہ ۲۳۵، صحیح ابن حبان مخطوط ، البحار ج/ ۱۹ ص ۱۸۸ ، مسند احمد ج/۴ ص ۲۶۳ و ۲۶۴، تاریخ طبری ج/۲ص ۱۲۳،۱۲۴،لکامل ابن اثیر ج/۲ص۱۲ ط صادر، سیرة ابن ہشام ج/۲ ص ۲۴۹،۲۵۰، مستدرک الحاکم ج/۳ ص ۱۴۰ ، کنز العمال ج/ ۱۵ ص ۱۲۳،۱۲۴ازالمصنف ، البغوی،الطبرانی در الکبیر ،ابن مردویہ ، ابو نعیم در معرفة الصحابة ،ابن النجار ابن عساکر ودیگرا فراد، شواھد التنزیل ج/۲ ص ۳۴۲ ، مجمع الزوائد ج/۹ ص ۱۰۰، ۱۳۶از طبرانی در الاوسط و الکبیر ، البزارو احمد اوراس روایت کی بعض اسناد کی اس نے توثیق کی ہے _ تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۶۴ ، تاریخ ابن عساکرامام علیعليه‌السلام کے حالات زندگی ج/۳ ص۸۶محمودی کی تحقیق سے، انساب الاشراف ج/۲ ص ۹۰، السیرة الحلبیہ ج/ ۲ ص ۱۲۶ ، طبقات ابن سعد، السیرة النبویہ ابن کثیر ج/۲ص۳۶۳،کتاب الفضائل احمد بن حنبل ج۲۹۵ ، الغدیر ج/۶ص۳۳۴،عیون الاثر ابن سید الناس ج/۱ص۲۲۶، الامتاع مقریزی ص۵۵ و دلائل النبوہ بیہقی ، ج ۲ ، ص ۳۰۳ اور دیگر حوالہ جات بھی ہیں _بہرحال غزوة العشیرة کے حالات اگرکوئی تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں ملاحظہ کرے تواس مطلب کو پائے گا_

۱۹۲

دغابازی اور جھوٹ:

لیکن مذکورہ باتوں کے با وجود بھی بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب حضرت علیعليه‌السلام کی بی بی فاطمہعليه‌السلام سے شکر رنجی ہوئی تو آپعليه‌السلام نے غصے میں آکر اپنے سر پر مٹی ڈال دی _ پھر جب نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ منظر دیکھا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو اس خطاب سے نوازا(۱) بعض یہ بھی کہتے ہیںکہ جب حضرت علیعليه‌السلام جناب فاطمہعليه‌السلام پر ناراض ہوگئے تو مسجد کی طرف چلے گئے اور مٹی پر سوگئے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پتہ چلا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علیعليه‌السلام کی تلاش میں نکلے ، جب آپعليه‌السلام کو دیکھا تو اس خطاب سے مخاطب فرمایا(۲) اس طرح وہ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام جناب فاطمہ پر سخت گیری کیا کرتے تھے تو جناب فاطمہعليه‌السلام نے کہا: '' خدا کی قسم میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پاس جا کر ان سے تمہاری شکایت کرتی ہوں'' _ یہ بات کہہ کر وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرف چل پڑیں جبکہ حضرت علیعليه‌السلام بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے _ وہاں انہوں نے رسولعليه‌السلام خدا سے شکایت کی تو حضرت علیعليه‌السلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سخت غصہ ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برابھلا کہا ، جس پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دختر سے فرمایا:'' بیٹی میری یہ بات خوب کان کھول کر سنو اور اسے ذہن نشین کرلو، وہ عورت کبھی راج نہیں کر سکتی جو شوہر کے چپ ہورہنے کی صورت میں اس کی مرضی کے مطابق نہیں چلتی '' _ اس کے بعد حضرت علیعليه‌السلام جو پہلے چپ کھڑے تھے بولے: ''اب میں اسے کچھ نہیں کہوں گا '' _ اس پر حضرت فاطمہعليه‌السلام نے فرمایا کہ اب میں بھی ہرگز ایسا کام نہیں کروں گی جو اسے ناپسند ہوگا(۳) ایک داستان یوں بھی ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام اور جناب فاطمہعليه‌السلام کے در میان کچھ تلخ کلامی ہوگئی اور ان کے گھر میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا آئے تو حضرت علیعليه‌السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بستر بچھا یا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر لیٹ گئے جناب زہراعليه‌السلام آئیں تو وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک طرف لیٹ گئیں اور دوسری جانب حضرت علیعليه‌السلام آکر لیٹ گئے _آپعليه‌السلام نے حضرت علیعليه‌السلام اور حضرت فاطمہعليه‌السلام کے ہاتھ پکڑ کر اپنے شکم پر رکھا اور دونوں کے ہاتھ پکڑ پکڑ کر اپنے شکم پر رکھتے رہے حتی کہ دونوں میں پھر سے صلح ہوگئی(۴) یہاں بعض نے اس طرح بھی کہا ہے کہ مؤاخات کے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

۱)السیرة الحلبیہ ج/ ۲ ص ۱۲۷ ، انساب الاشراف ج/۲ ص ۹۰_ (۲)البدایة والنہایة ج/ ۳ ص ۳۴۷ ، الغدیر ج/۶ ص ۳۳۶ ازسیرة ابن ھشام ج /۲ ص ۲۳۷ ، عمدة القاری ج/۷ ص ۶۳۰ السیرةالنبویةلابن کثیرج/۲ص۳۶۳از صحیح البخاری ،المناقب للخوارزمی ص ۷ ، انساب الاشراف ج/۲ص ۹۰ ، معرفة علوم الحدیث للحاکم ص ۲۱۱_ (۳و۴)طبقات ابن سعدط لیڈن ، ج ۸ ، ص ۱۶_

۱۹۳

نے حضرت علیعليه‌السلام اور کسی اور کے درمیان مؤاخات کا سلسلہ قائم نہ فرمایا تو آپعليه‌السلام پر یہ بات گراں گزری اور آپعليه‌السلام مسجد کی طرف نکل گئے اور مٹی پر سوگئے_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپعليه‌السلام کے پاس پہنچے تو انہیں '' ابوتراب'' کے خطاب سے مخاطب فرمایا_

لیکن یہ سب اقوال صحیح نہیں ہیں _کیونکہ اس بات سے قطع نظر کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسی شخصیت نے میاں بیوی میں صلح کرانے کے لئے (نعوذ باللہ ) وہ مزعومہ بھونڈا طریقہ کیوں اختیار کیا اور اپنی بیٹی پر (نعوذ باللہ ) ظلم کرنے و الے کے مقابلے میں اپنی بیٹی کی حمایت اور طرفداری کی بجائے اسے ہی سرزنش کرنا کیوں شروع کردیا؟ اس کی وجوہات ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں ، لیکن پھر بھی ان باتوں سے قطع نظر ہمارے پاس گذشتہ بے بنیاد تہمتوں کے صحیح نہ ہونے کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

۱ _ حضرت بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا مقام اور مرتبہ اس بات سے کہیں ارفع و اعلی ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام آپعليه‌السلام پر غضب ناک ہوں _ وہ صدیقہ طاہرہ ہیں _ قرآن کریم کی نص کے مطابق آپعليه‌السلام ہیں جن کو اللہ تعالی نے ہر طرح کے '' رجس'' سے پاک و پاکیزہ فرمایا اور ایسا پاک فرمایا جس طرح پاکیزہ رکھنے کا حق ہے _ قرآن حکیم کی یہ آیت مبارکہ آپعليه‌السلام کی شان میں نازل ہوئی:

( انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا ) (احزاب _۳۳)

اے اہل بیت بس اللہ کا ارادہ ہے کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جس طرح پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے_

اسی طرح حضرت علیعليه‌السلام کی ذات و الا صفا ت بھی اس بات سے انتہائی بالاتر اور ارفع و اعلی تھی _کیونکہ آپعليه‌السلام کی شان میں بھی آیہ تطہیرنازل ہوئی_ اسی طرح قرآن پاک میں آپعليه‌السلام کی شان میں نازل ہونے والی دیگر آیات بھی ہیںجو آپعليه‌السلام کی سیرت کے بعض پہلوؤںکو واضح کرتی ہیں_

۲ _ حضرت علی علیہ الصلوة والسلام نے گویا پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ کینہ پرورلوگ آپعليه‌السلام پر جھوٹ

۱۹۴

باندھیں گے اور تہمتیں لگائیں گے_اسی لئے آپعليه‌السلام نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ ''اللہ کی قسم میں اس ( حضرت فاطمہعليه‌السلام ) کے آخری دم تک نہ تو کبھی اس پر غضبناک ہوا اور نہ ہی اسے کسی کام پر مجبور کیا اور نہ فاطمہعليه‌السلام نے مجھے کبھی غضبناک کیا اور نہ ہی کبھی میری نافرمانی کی_ میںجب بھی فاطمہعليه‌السلام کی طرف دیکھتا تھا میرے سارے دکھ درد دور ہوجاتے تھے''_(۱) ۳_اپنی بیوی پر غصہ ہونے کی صورت میں اپنے سر پر مٹی ڈالنا حضرت امیرالمؤمنینعليه‌السلام جیسے کسی عاقل، حکیم اور دانا انسان سے بہت بعید ہے کیونکہ یہ عمل تو بچوں کی کھیل کود سے زیادہ شباہت رکھتاہے _ ۴_ امیرالمومنینعليه‌السلام وصی خاتم المرسلین کی ذات گرامی جو جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والی ہے وہ کبھی بھی اللہ اور اسکے حبیبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت نہیں دے سکتی کیونکہ جو کوئی اللہ اور اس کے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت دے یقیناً اس کی جزا جنت نہیں ہے اورادھر سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ جس نے فاطمہعليه‌السلام کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس کسی نے فاطمہعليه‌السلام کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا(۲) _ نیز فرمایا کہ خدا بھی فاطمہعليه‌السلام کے غصہ پر غضبناک اور اس کے راضی ہونے پر خوش ہوتا ہے(۳) _ ۵_ حضرت علیعليه‌السلام کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خفا ہونے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برا بھلا کہنے کا کوئی امکان ہی نہیںکیونکہ آپعليه‌السلام جانتے

____________________

۱)مناقب الخوارزمی ص ۲۵۶، کشف الغمة ج/ ۱ ص ۳۶۳، البحار ج/۴۳ ص ۱۳۴_ (۲)البخاری ط مشکول ج/۵ ص ۳۶، بحارالانوار ، ج ۲۸، ص ۷۶; احقاق الحق ، ج ۱۰ ، ص ۱۹۰; حلیة الاولیاء ، ج ۲ ، ص ۴۰ ; نیابیع المودة ص ۱۷۱و ۱۷۳ و۳۶۰;السنن الکبری ، ج ۱۰ ، ص ۶۴و ۲۰۱; مستدرک حاکم ج ۳ ، ص ۱۵۹ ; نیز اسی کے حاشیہ پر اسی کا خلاصہ ، اعلام النساء ، ج ۴ ، ص ۱۲۵; کنزالعمال ، ج ۱۳ ، ص ۹۳; الاصابہ، : ۴، ص ۳۷۸; تہذیب التہذیب ، ج ۱۲، ص ۴۴۱، نیز ابوجہل کی بیٹی سے حضرت علیعليه‌السلام کی خواستگاری والے جعلی افسانے میں بھی بعض دیگر منابع ذکر ہوئے ہیں اس لئے ملاحظہ ہو : ذخائر العقبی ، ص ۳۷، ۳۸; کفایة الطالب ، ص ۳۶۵ ; مقتل الحسین خوارزمی ، ج ۱ ، ص ۵۳ ; نظم درر السمطین ، ص ۱۷۶، السیرة النبویہ دحلان (برحاشیہ حلبیہ) ، ج ۲ ، ص ۱۰; الخصائص نسائی ، ص ۱۲۰، صفة الصفوة ، ج ۲ ، ص ۱۳، الجامع الصحیح ، ج ۵ ، ص ۶۹۸ ; مسند احمد، ج ۴ ، ص ۳۲۸; البدایہ و النہایہ ، ج ۶ ، ص ۳۳۳ ; نیز الصواعق المحرقہ ، ص ۱۸۸_ (۳) ملاحظہ ہو : فرائد السمطین ، ج ۲ ، ص ۴۶ ، مجمع الزوائد ، ج ۹ ، ص ۲۰۳ ; مقتل الحسین خوارزمی ، ج ۱ ، ص ۵۲; کفایہ الطالب ، ص ۳۶۴، ذخائر العقبی ، ص ۳۹ ، اسدالغابہ ، ج ۵ ، ص ۵۲۲، تہذیب التہذیب ، ج ۱۲، ص ۴۴۲، ینابیع المودة ، ص ۱۷۳، ص ۱۷۴، ص ۱۷۹، ص ۱۹۸; نظم درر السمطین ، ص ۱۷۷ ; مستدرک حاکم، ج ۳، ص ۱۵۴، ۱۵۸; تلخیص مستدرک ذہبی (برحاشیئہ مستدرک ) ، کنز العمال ، ج ۱۳، ص ۹۶و ج ۶ ، ص ۲۱۹و ج ۷ ، ص ۱۱۱; الغدیر ، ج ۷ ، ص ۲۳۱تا ۲۳۶; احقاق الحق ، ج ۱۰، ص ۱۱۶، السنن الکبری ، ج ۷ ، ص ۶۴، الصواعق المحرقہ، ص ۱۸۶و سیر اعلام النبلاء ، ج ۲ ، ص ۱۳۲_

۱۹۵

تھے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کوئی عمل بھی ان کی ذات اقدس کی طرف سے نہیں بلکہ سب اللہ تعالی کی جانب سے ہوتاہے_ آپعليه‌السلام کی سیرت تو یہ تھی کہ اگر ایک حرف بھی پیامبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے نکلتا تو آپعليه‌السلام اس پر مو بہ مو عمل فرماتے_حتی کہ جنگ خیبر کے موقع پر جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا کہ خیبر کی فتح کے لئے جاؤ اور پیچھے مڑکر نہ دیکھنا تو آپعليه‌السلام اللہ تبارک و تعالی کی ذات اقدس کے توکل پر چلے پھر توقف کیا اور اپنا رخ نہ موڑتے ہوئے عرض کیا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ...''(۱) _

۶_ حضرت فاطمہعليه‌السلام نے (بوقت شہادت) حضرت علیعليه‌السلام سے کہا: '' آپعليه‌السلام نے کبھی بھی مجھے جھوٹا اور خائن نہیں پایا اور مشترکہ زندگی کی ابتدا سے اب تک میں نے کبھی بھی آپعليه‌السلام کی مخالفت نہیں کی '' _ اور حضرت علیعليه‌السلام نے بھی ان کی اس بات کی تصدیق کی(۲)

۷_ اس پر مزید یہ کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھی جنگ بدر اور احد و غیرہ جیسے مختلف امور میں اپنے صحابیوں سے کوئی مشورہ لیتے تو ان کے جی میں جو بھی آتا کہہ دیتے لیکن حضرت علیعليه‌السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور کبھی بھی اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا_ وہ تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے پہلے یا ان کی اجازت کے بغیر کوئی کام کرتے ہی نہیں تھے _ صرف ایک بار ام المؤمنین حضرت ماریہ پر کچھ افراد کے ناروا تہمت(۳) کے معاملے میں حضرتعليه‌السلام نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بی بی عائشہ کو طلاق دینے کا مشورہ دیا تا کہ اس سے شاید وہ ڈر ، سہم اور پچھتا کر اپنے خیالوں اور کرتوتوں سے باز آجائے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازدواج کو اذیت دینے سے دستبردار ہوجائے_ آپعليه‌السلام کیوں غضبناک ہوتے اوربرا بھلا کہتے ؟ کیا آپعليه‌السلام ہجرت سے قبل آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برادر نہ تھے؟ اور اس کے بعد کے حالات جیسے بھی رہے آپعليه‌السلام کی یہ اخوت قائم و دائم رہی_

____________________

۱)انساب الاشراف با تحقیق محمودی ، ج ۲ ، ص ۹۳; زندگانی امام علی بن ابی طالبعليه‌السلام از تاریخ ابن عساکر با تحقیق محمودی ، ج ۱ ، ص ۱۵۹ ، صحیح ابن حبان زندگانی حضرت علیعليه‌السلام (قپو سرای لائبریری استانبول میں خطی نسخہ ) ، فضائل الخمسة من الصحاح الستہ ، ج ۱ ، ص ۲۰۰و الغدیر ، ج ۱۰ ، ص ۲۰۲_

۲) روضة الواعظین، ص ۱۵۱_ (۳) ام المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہ چونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صاحب اولاد ہوئی تھیں جبکہ بی بی عائشہ اور حفصہ بانجھ ہونے کی وجہ سے صاحب اولاد نہیں ہو سکتی تھیں اس لئے حسد کے مارے انہوں نے بی بی ماریہ پر بدکاری کا بہت بڑا اور گھٹیا الزام لگایا جسے سن کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوبہت صدمہ ہوا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک انتہائی فیصلہ کیا_ یہاں پر حضرت علیعليه‌السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کچھ مشورے دیئےس پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام معاملہ حضرت علیعليه‌السلام کے سپرد کردیا اور انہوں نے اپنی درایت سے یہ گتھی سلجھادی_

۱۹۶

بہر حال ہم ہرگز اللہ کے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن کریم کو نہ جھٹلائیں گے بلکہ ان کی تصدیق کریں گے _ ہم ان لوگوںکے باطل خیالات کو کینہ توزی پر مبنی سمجھتے ہیں جوہمیشہ حضرت علیعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے اہل بیت (صلوات اللہ و سلامہ علیھم اجمعین ) کے خلاف رہے _

یہ جعل سازیاں کیوں؟

ان باطل نظریات کا سبب شاید یہ تھا کہ لوگ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کی طرح حضرت علیعليه‌السلام کا گھر بھی جھگڑوںاور اختلافات کی آماجگاہ تھا_ اوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے گھر میں یہ حالات بی بی عائشہ اور حفصہ جیسی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعض ازواج نے پیدا کئے تھے_اس بات سے وہ غالباً یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ حالا ت تو فطری ،معمولی ، مطابق معمول اور ازدواجی زندگی کا حصہ ہیں_ لہذا اس سے کسی کی شخصیت کم نہیں ہوتی اورنہ ہی یہ بات کسی طرح کے اعتراض اور ملامت کا باعث بنتی ہے_ جیسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج جھگڑالو تھیں ویسی (نعوذ باللہ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیٹی بھی تھی _ جس طرح عائشہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو ناراض کرتی تھی اسی طرح حضرت فاطمہعليه‌السلام بھی حضرت علیعليه‌السلام کو ناراض کیا کرتی تھیں، پس حساب برابر_

دوسری جہت یہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول کہ جس کسی نے فاطمہعليه‌السلام کو غضبناک کیا پس اس نے مجھے غضبناک کیا ، یہ قول جس طرح فلاں فلاں پر صادق آتا ہے اسی طرح یہ قول خود علیعليه‌السلام پر بھی صادق آتا ہے_ یعنی جس طرح جناب ابوبکر اور عمر نے حضرت فاطمہعليه‌السلام کو ناراض اور غضبناک کیا اسی طرح حضرت علیعليه‌السلام نے بھی انہیں غضبناک کیاپس یہ امر کسی دوسرے پر اعتراض کا باعث نہیں بنتا؟_بلکہ ان تہمتوں سے وہ حضرت علیعليه‌السلام کو ایک ایسے شخص کی صورت میں دکھا نا چاہتے ہیں کہ وہ حضرت فاطمہعليه‌السلام زہرا کو ناپسند تھے اور بی بی کی ان سے شادی بی بی کی مرضی کے بغیر ہوئی تھی ، اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے (نعوذ باللہ ) شر سے بچنے کے لئے ان کار شتہ منظور کیا تھا _ اور ان باتوں سے وہ حضرت علیعليه‌السلام سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دامادی کی فضیلت اور شرف سلب کرنا چاہتے ہیں _

۱۹۷

اس کنیت کی اہمیت :

حضرت ابن عباس نے حضرت علیعليه‌السلام کی ابو تراب کی کنیت کی وجہ تسمیہ یہ بتائی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد حضرت علیعليه‌السلام ہی اس زمین کے مالک اور زمین والوں پر خدا کی حجت ہیں _ ان کے ذریعہ سے زمین کی بقاء اورٹھہراؤ ہے _ ان کے بقول : '' میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے خود سنا ہے کہ قیامت کے دن جب کا فریہ دیکھے گا کہ خدا کے نزدیک شیعیان علیعليه‌السلام کا کتنا مقام ، مرتبہ ، ثواب اور قدر و منزلت ہے تو حسرت کے ساتھ کہے گا کہ اے کاش میں بھی تراب ہوتا یعنی اے کاش میں بھی علیعليه‌السلام کا شیعہ ہوتا'' _ اس کے علاوہ خود امام علیعليه‌السلام جو اس کنیت پر فخر کیا کرتے تھے ہرگز دنیا کی خاطر اور دنیا کے راستے میں نہ جیئے اور نہ ہی دنیا آپعليه‌السلام کاہدف تھا_ البتہ ایک عظیم ترین اور افضل ترین ہدف کے حصول کی خاطر دنیا آپعليه‌السلام کی نظر میں ایک ذریعہ اور وسیلہ تھی ، جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا کہ آپعليه‌السلام اپنے اہداف و نظریات پر سختی سے قائم ہیں تو پس اب آپعليه‌السلام یقینا مشکلات پر قابو پالیں گے اور ان کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوں گے_ ایسے حالات و کیفیات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات اقدس کا حضرت علیعليه‌السلام کو ابوتراب کہنا گویا اس بات کا اعلان تھا کہ علیعليه‌السلام ہمیشہ اپنے نظریات و اہداف پر انتہائی سختی سے قائم رہے گا اور ان کی حفاظت کرے گا _یہ دنیا کو اس کے مناسب مقام پر رکھے گا ، دنیا کی رنگینیاں اور حسن و زیبائی اسکو کبھی دھوکانہ دے سکیں گی _ دنیا اسکے نظریات و اہداف اور اعمال میں کبھی تناقض پیدا نہ کرسکے گی_اور نہ ہی وہ اپنے دعوے اور عمل میں کبھی تضاد کا شکار ہوں گے_ یہی سبب ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کو یہ کنیت انتہائی پسند تھی_

لیکن بنی امیہ جو حضرت علیعليه‌السلام کو اس کنیت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے تھے ،ان کے نظریات و اعمال بھی ایک دوسرے سے منسجم تھے کیونکہ ان کی اقدار، خواہشات اور اہداف کا محور دنیاتھی_ یہ لوگ انہی چیزوں کے ہونے یا نہ ہونے کے بنیاد پر شخصیات اور نظریات کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ،اسی بنیاد پر ان کا احترام یا تحقیر کرتے _ حضرت علیعليه‌السلام چونکہ ابوتراب تھے ، انکی نظر میں دنیا کی کوئی اہمیت نہ تھی اس دنیا سے صرف اتنا لیتے جس سے ان کی زندگی قائم رہ سکے او ر اپنے اعلی اہداف تک رسائی حاصل کرسکیںاس وجہ سے بنی امیہ والے ان

۱۹۸

میں ایسے اہم عنصر کو مفقود پاتے تھے جو ان کی نظر میں عزت و عظمت اور شرافت و کرامت کا باعث تھا_ اسی سبب سے طبیعی طور پر وہ اس کنیت کا مذاق اڑاتے تھے _کیونکہ یہ عمل ان کے اہداف و خواہشات سے بالکل مطابقت رکھتا تھا لیکن دین ، قرآن ، عقل سلیم اور سالم فطرت کے بالکل مخالف تھا_

۲_ سرایا کا مقصد؟

بعض سرایا کا مقصد قریش کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا تھا_ اسی طرح بعض سرایا کا ہدف مدینہ والوں کے ریوڑ غارت کرنے والے دشمن کا پیچھا کرنا تھا_جیسے کرز بن جابر کا تعاقب کیا گیا _ ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ ان سرایا میں مسلمانوں کو جنگ کا سامنا نہ تھا اس سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے اورخود پر اعتماد بحال ہوگیا _ ان سرایا کے نتیجے میں مسلمانوں میں اتنی جرات پیدا ہوگئی کہ وہ تعداد اور وسائل کی کمی کے باوجود اسلحہ اور کیل کانٹوں سے لیس قریش کے ہزار بڑے بہادروں کا مقابلہ کرسکیں _اور یہ بات ان کے لئے کوئی خوفناک و ہولناک مسئلہ نہ رہے گر چہ ان کا ظاہری مقصد قریش کے قافلوں کے آگے رکاوٹ کھڑی کرنا تھا_

لیکن یہ تمام باتیں ہمارے لئے قانع کنندہ نہیں ہیں _ ہم ان واقعات کے اغراض و مقاصد جاننے کے لئے ان واقعات کانئے سرے سے جائزہ لینا چاہتے ہیں _ اس بناپر ہم ان کا مندرجہ ذیل دو عناوین سے جائزہ لیتے ہیں_

اول : صلح اور باہمی عہدو پیمان :

ان سرایا کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدینہ میں رہنے والے قبیلوں کو مسلمانوں کی طاقت ، ان کے جوش و جذبے اور قریش جیسے مضبوط دشمن سے مقابلے کے پختہ ارادے کا ادراک ہواجس کے نتیجہ میں مسلمانوں اور ان قبائل کے در میان صلح کے معاہدے اور دشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے باہمی عہد و پیمان ہوئے _ اس کے نتیجے میں طبیعی طور پر مدینہ کے مضافات میں رہنے والے قبیلوں کے دلوں میں بھی مسلمانوں کا اتنا

۱۹۹

رعب بیٹھ جانا تھا کہ انہیں مدینہ پر بذات خود یا اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر حملہ کرنے کے لئے کئی کئی بار غور سے سوچنا پڑتا _ کیونکہ وہ عملی طور پر یہ دیکھ رہے تھے کہ یہاں ایک ایسی زبردست طاقت موجود ہے جس کے ساتھ ایسے تعلقات بر قرار رکھنا ضروری ہیں جس سے مستقبل میں ان کے علاقائی مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچے _

ان حالات کی روشنی میں مدینے میں امن و استحکام کا یک گونہ احساس پیدا ہوا _ اسی سبب سے مسلمانوں میں قریش کی طرف سے ہونے والی سازشوں کازیادہ آزادی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا _ یہی چیزیں جنگ بدر اور بعد کے حالات میں نظر آتی ہیں_

یہ معاہدے اور عہد و پیمان قریش کے لئے بہت بڑے نفسیاتی صدمے اور پریشانیوں کا باعث بلکہ ان کے منہ پر انتہائی زوردار طمانچے تھے_ کیونکہ وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ مسلمان اب ایک ایسی طاقت بن چکے ہیں کہ مقابل کے دلوں میں رعب اور دہشت طاری کردیتے ہیں اور دوسرے قبیلے خاص کر مکہ کے تجارتی رستے میں بسنے والے ایسے قبیلے بھی مسلمانوں کے ساتھ دفاعی معاہدے کر رہے ہیں جنہیں قریشی مشکلات اور خطرات کے وقت اپنا حامی اور مددگار سمجھتے تھے _ اس پر مزید یہ کہ قریشی پھر مدینہ پر دباؤ ڈالنے اور مدینہ والوں کو مجبور کرنے کے لئے مدینہ کے قریب رہنے والے ان قبائل سے کوئی معاہدہ نہیں کرسکے _

دوم: قریش کی پریشانی

ان سرایا کا مقصد قریش کا اقتصادی اور نفسیاتی محاصرہ تھا_ مراد یہ ہے کہ جب تک قریش ان مسلمانوں کو بے وطن کرتے رہیںگے ، انہیں تکلیف اور دکھ دیتے رہیں گے ، ان کے اموال کو چھینتے رہیں گے اور بعض کو قتل کرتے رہیں گے تو مسلمان بھی ان کو آزادانہ طور پر نہیں گھومنے دیں گے _ گذشتہ معاہدے میں ہم نے دیکھا تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشرکوں پر یہ شرط عائد کی تھی کہ وہ دوسرے مشرکین کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کردیں _ یہاں پر قابل ملاحظہ بات یہ بھی ہے کہ ان سرایا کا مقصد قریش کو قتل کرنا یا ان سے جنگ کرنا نہ تھا_

۲۰۰