الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242091 / ڈاؤنلوڈ: 6987
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

نے ترقى بھى كى جب ايران منگولوں كے وحشيانہ حملوں كى زد ميں تھا اسى زمانہ ميں مصر كے سلطان بيبرس آرٹسٹ حضرات اور جنگجووں كى حمايت كر رہے تھے _ ايك قلعہ ميں ايك بلند ٹيلے پر سلطان بيرس كے حكم پر حصار نما د،يوار نماپناہ گاہ بنائي گى اسميں قديم اہرام جيزہ كے پتھر استعمال كيے گئے _ اسى زمانہ ميں شيشہ گر حلب اور دمشق ميں موجودتھے كہ جنكے شاہكاروں كوعيسائي لوگ پسند كرتے تھے اور خريدتے تھے _ يہ شيشہ گر لوگ اپنے ظروف كو سونے كے پانى اور براق زرد، سرخ اور سبز رنگ كے پانى سے آراستہ كرتے تھے _

اسلامى جلد سازى كا ہنر جسميں ہندسى ( Geomatrical )اشكال كو كتابوں كى چرمى جلدوں پر استعمال كيا جاتا تھا كى كشش نے مصر اور شمالى افريقہ كے ہنرمندوں كو اپنى طرف كھينچا اور يہ بالكل وہى زمانہ تھا كہ قلمى نسخہ جات ميں سے كوفى خط رخصت ہو رہا تھا اور اسكى جگہ خط نسخ لے رہا تھا كہ جسميں كوفى خط كى نسبت لچك زيادہ تھى(۱)

ساتويں ايل خان غازان خان (۷۰۳_ ۶۹۴ قمرى ) نے اپنے دار الحكومت تبريز كو علم و دانش اور اسلامى فنون كے مركز ميں تبديل كرديا تھا _ وہ با قاعدہ طور پر مسلمان ہوچكا تھا اس نے تبريز كے جنوب ميں ايك نيا شہر بسايا اور وہاں دينى مدارس ، كتابخانہ ، ہسپتال اور ايك محل تعمير كروايا اسكے وزير رشيد الدين فضل اللہ ہمدانى جو كہ خود بھى اپنے زمانہ كے اديبوں ميں سے تھے انہوں نے تبريز كے مشرقى حصہ ميں ربع رشيدى كے نام سے ايك كمپليكس بنوايا جو بہت سے ثقافتى مراكز اور طالب علموں ، مصوروں ، خطاطوں اور نسخوں كو سونے اور رنگوں كے پانى مزين كرنے والوں كے ليے تربيت گاہوں پر مشتمل تھا _ خود انہوں نے كتاب'' جامع التواريخ '' تاليف كى كہ آج اسكے كچھ حصے مولف كے زمانہ كى تصاوير كے ساتھ موجود ہيں _

ايران كى قديم ترين پينٹنگ وہ تصاوير ہيں كہ جو كتاب منافع الحيوان كيلئے بنائي گئيں اور يہ كتاب ۴۹۹ قمرى ميں منگول بادشاہ كے حكم پر مراغہ ميں دوبارہ لكھى گئي _ اس كتاب كى پينٹنگ اور شاہنامہ فردوسى كے ايك نفيس نسخے جس كى نقل (۷۲۰ ھ ق) ميں تيار كى گئي كى تصاوير ميں چينى فن كى اسلامى ايران كى مصورى پر تاثير واضح طور پر محسوس كى جاسكتى ہے_

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۶۹_

۱۴۱

مصورى كى مانند مٹى كے برتن بنانے كا ايرانى فن بھى چينى فن سے متاثر تھا،يہ برتن بنانے والے بجائے اسكے كہ اسى سلجوقى روش كو آگے بڑھاتے انہوں نے مختلف (جديد)اور آزاد روشوں كو اختيار كرليا_ ان برتنوں اور ديواروں كى كاشى كارى ميں سياہ ، خاكسترى ، فيروزى ، ارغوانى اور نيلے رنگ ہلكے اور رقيق انداز بہت دلفريب اور بھلے معلوم ہوتے تھے _

ايلخانى (منگول)دور ميں ايرانى اور اسلامى اديبوں كى منگولوں كى اولاد ميں تمدن كى روح پھونكنے كى كوششيں ابھى ثمر آور ہوئيں ہى تھيں كہ يہ حكومت اندرونى مخالفتوں اور بغاوتوں كا شكار ہوگئي اور ختم ہوگئي انكے بعد تيمور لنگ ايران پر قابض ہوگيا اسكے وحشيانہ حملوں كى زد سے كوئي بھى سرزمين ايران ، ہند ، شام ، مصر اور ايشيا ئے صغير محفوظ نہيں رہى ليكن تيمور كے بيٹے اور اسكے پوتے اور نواسے بالخصوص شاہرخ ، بايسنقر، الغ بيگ، سلطان حسين ، بايقرا اور تيمور كى اولاد كا وہ سلسلہ كہ جو ہندوستان كے عظيم مغل بادشاہ كہلائے انہوں نے مختلف فنى ميدانوں ميں بہت سے فنى نمونے ايجاد كرنے كے اسباب مہيا كيے_

پندرہويں صدى عيسوى كے آخر ميں اندلس مسلمان كے ہاتھوں سے نكل گيا اسلامى حكومت كا وہ چھوٹاسا مركز اپنى زندگى كے آخرى سالوں ميں بہت ہى خوبصورت فنون سے آراستہ تھا _ اس دور كى ايك باشكوہ عمارت قصر الحمرا ، ( سرخ محل) تھى جب بنى نصر كے پہلے امير محمد بن احمد نے ۶۳۴ قمرى اور ۱۲۳۶ عيسوى ميں غرناطہ كو فتح كيا تو اس نے اپنا محل ايك بلند پہاڑ پر ايك چٹان پر بنايا اسكے بعد اسكى نسل كے ہر بادشاہ نے اس محل ميں كچھ نہ كچھ اضافہ كيا_

اسى سلسلہ كے ايك بادشاہ محمد پنجم نے چھٹى صدى ہجرى ميں الحمراء كو انتہائي خوبصورت صورت ميں آراستہ كيا كہ جو ابھى تك موجود ہے تقريبا اسى زمانہ ميں كہ جب الحمراء محل تعمير ہو رہا تھا قاہرہ ميں مدرسہ سلطان حسين تعمير ہوا البتہ دونوں كى معمارى ميں بڑا فرق تھا_ مدرسہ سلطان حسين كى وہ سمت جو قبلہ كى طرف تھى سلطان كے مقبرہ سے متصل تھى _ يہ عمارت مكعب شكل ميں تھى اور اسكا گنبد بيزانس كے گنبدوں سے مشابہہ تھا_

۱۴۲

مسلمانوں كے خوبصورت محلات نے ہسپانيہ كے عيسائي معماروں كو حيران كن انداز سے متاثر كيا _ عيسائي بادشاہ ہسپانيہ كو فتح كرنے كے بعد مسلمان صنعت گروں كو اسلامى طرز پر كام كرنے كا كہتے تھے چونكہ انہيں مسلمانوں كے صحن والے گھروں سے انس ہوگيا تھا اس ليے وہ يہ طرز و روش امريكا بھى لے گئے _ تيمورى دور ميں جيسا كہ ذكر ہوا لوٹ مار اور قتل و غارت كے باوجود تيمور نے ہنر و فن ميں ترقى كا راستہ اختيار كيا تيمور كے بيٹے شاہرخ نے دارالحكومت كو سمرقند سے ہرات كى طرف منتقل كيا _ اور اپنے باپ كے ہاتھوں سے ہونے والى ويرانيوں كو دوبارہ آباديوں ميں تبديل كيا _

شاہرخ كى ملكہ گوہر شاد نے امام رضا (ع) كے روضہ كے قريب اپنے نام سے ايك مسجد بنائي _ شاہرخ اور اسكے بعد والے بادشاہوں كے دور ميں مشہد اور اصفہان كى رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا عمارتوں ميں رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا _ اسى طرح تيمورى دوربالخصوص شاہرخ اور بايسنقر كے دورنفيس قلمى كتابوں كے تيار ہونے كا زرين زمانہ تھا _ اس دور جيسا جلد سازى ، خطاطى ، پينٹنگ اور پينٹنگ كا ہنر كسى اور دورميں نہيں ملتا ( ۱)

مصوّرين نے تصويروں كے بنانے ميں خاص روش ايجاد كى جو ''مكتب ہرات ''كہلائي _ ہرات كى پينٹنگ كا اسلوب اور شيوہ بغداد اور شيراز كے فن مصورى سے كافى حد تك مختلف تھا اور ايلخانى دور كے چينى ہنر سے متاثر تھا مكتب ہرات شاہرخ كے بعد بھى جارى رہا _ شاہرخ كا بيٹا بايسنقر ميرزا جو كہ ہنر پسند اور آرام پسند طبيعت كا مالك بادشاہ تھا اس نے ايران كے بہترين چاليس مصوروں كو ہرات ميں جمع كيا تا كہ وہ اسكے كتابخانہ كے قلمى نسخوں كيلئے تصاوير تيار كريں اسكى دلچسپى كى بنا پر اس دور ميں جو مشہورترين كام ہوا وہ بايسنقر معروف شاہنامہ تھا كہ جسكى پينٹنگ كا كام ۸۳۳ ميں مكمل ہوا _ تركمانى بادشاہ '' قراقوينلو اور آق قوينلو '' كے دور ميں شيراز كے اہل فن حضرات نے ايك نيا طريقہ دريافت كيا كہ جو'' تركمان'' كے عنوان سے معروف ہوا_

____________________

۱) كريستين ، پرايس، سابقہ حوالہ، ص ۱۲۹_

۱۴۳

نويں صدى كے وسط ميں ايك بچے نے اس جہان ميں آنكھيں كھوليں كہ جسے بہزاد كا نام ملا يہ بچہ بڑا ہو كہ ہرات ميں سلطان حسين كے دربار ميں مصورى كے كام ميں مشغول ہوا تھوڑى ہى مدت كے بعد اسكا نام ايرانى فن مصورى ميں امر ہوگيا كمال الدين بھزاد نے ايك نيا شيوہ ايجاد كيا كہ اس ميں وہ روزانہ كى حقيقى زندگى كى جزئيات بيان كرتا تھا _ اس طرز كى بہترين اور بولتى ہوئي پينٹنگ طہماسپ صفوى كے دور حكومت ميں تبريز ، قزوين اور مشہد ميں تيار ہوئيں ان تصوير وں ميں جذاب رنگوں كے استعمال كے ساتھ ايرانى لوگوں كى روزانہ كى زندگى كو پيش كيا جاتا تھا _(۱)

ايشيا ئے صغير ميں عثمانى تركوں كى مملكت بھى اسلامى فنون كے آشكار ہونے كى ايك اور نظير تھى '' اياصوفيہ'' كہ جو شروع ميں كليسا تھا پھر مسجد بنا اسكے اثرات انكے دل و جان ميں اسقدر تھے كہ نويں صدى كے اختتام اور اسكے بعد تك اسكى معمارى كے اثرات قسطنطنيہ شہر يا ديگر عثمانى حكومت كے علاتوں ميں باقى اور واضح تھے ان ميں سب سے بڑا اور عظيم معمارى كا شاہكار مسجد سلطان احمد اول ہے جو سن ۱۶۰۹ عيسوى سے ۱۶۱۶ عيسوى تك تعمير ہوئي _ اسى طرح اسلامى معمارى كا ايك اور نمونہ مسجد سليمانيہ ہے كہ جو سلطان سليمان قانونى كے حكم پر ''سنان پاشا ''كى معمارى اور نقشہ سازى كے مطابق كے ساتھ تيار ہوئي _ سنان پاشا كہ جس نے ۹۶۸ قمرى ميں مسجد سليمانيہ ميں كام ختم كيا ايك اور مسجد بنام رستم پاشا كو بھى تعمير كيا _ وہ محل كہ جسكى تعمير كا آغاز سلطان محمد فاتح نے شروع كيا تھاسليمان قانونى كے دور ميں ايك چھوٹے سے شہر كى شكل اختيار كر گيا تھا جسكے چار بڑے صحن اور چند دروازے تھے _

يہ مسلم سى بات ہے كہ مشرق قريب بالخصوص ايران ميں پانچ قرن قبل مسيح قالين سازى كى صنعت رائج تھى _ سائبيريا كے جنوب ميں ''پا زير يك'' نام كى جگہ پر پانچ قرن قبل چھوٹا سا پشمى قالين معجزانہ طريقہ سے ہمارے ليے برف ميں محفوظ رہا _ يہ قالين جس جگہ سے ملا وہ جگہ '' قالى پا زير يك '' كے عنوان سے مشہور ہوگئي

____________________

۱) فورست دلدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۳۱۲_

۱۴۴

ان سب چيزوں كے باوجود ساتويں صدى سے ايك جيسى روش كے ساتھ بہت زيادہ تعداد ميں قالين تيار ہونے كا كام رائج تھا _ ايسے قالينوں كا ايك مكمل سيٹ قونيہ اور ديگر شہروں ميں سلجوقيوں كى بڑى مساجد سے ملاہے _ ايران ميں قالين باف افراد نے خطى نسخوں كو سونے كے پانى سے آراستہ كرنے كى روش كى مانند كام كيا قالينوں كے وسط اور حاشيوں پر مختلف انواع كے جذاب رنگ استعمال كيے _ صفوى دور ميں نفيس ترين ايرانى قالين مساجد ، معابد اور متبرك مقامات كو ہديہ كيے جا تے تھے كہ ان ميں سے ايك ابھى تك باقى ہے يہ قالين شيخ صفى كى آرامگاہ كيلئے تيار ہوا تھا اس قالين كا نقشہ مقصود كاشانى نے تيار كيا تھا كہ يہ ۹۶۶ قمرى ميں مكمل ہوا تھا اور اب يہ لندن كے ميوزيم ميں موجود ہے _

صفوى دور كے قالين بيشتر پشم سے تيار ہوتے تھے _ ليكن شاہ عباس كبير كے دور ميں كبھى ريشمى اور كبھى توسونے وچاندى كى تاروں سے قاليں تيار ہوتے تھے_ قفقاز والوں نے بعض ايرانى قالين بطور قرض ليے اور انہيں اس روش كے ساتھ كہ جن ميں گل بوٹے اور جانور و غيرہ تھے تيار كيا _ صفوى دور كے ريشمى اور سونے كى تاروں سے تيار كپڑے ابھى يورپ والوں كے پاس موجود ہيں اس قسم كے كپڑوں پر ڈيزائن زيادہ تر پھول اور كبھى تو جانوروں اور آدميوں كى صورت كے ساتھ بنائے جاتے تھے_

صفوى بادشاہوں ميں شاہ عباس كبير سب سے ممتاز شخصيت كا مالك تھا وہ ہنر و فن كا دلدادہ اور ہنر پروردہ شخصيت كا حامل تھا در اصل اصفہان كى رونق اور شہرت اسى كے مرہون منت ہے_قديم اصفہان كے مغربى جنوبى علاقہ يعنى نئے اصفہان ميں چوك ، ميدان ، مساجد ، محلات ، بازار اور بہت سے باغ كہ جو اس نے بنوائے ان كى بدولت اصفہان نصف جہا ن بنا _

شاہ عباس كے زمانے ميں شہرى اور عمومى تعميرات كيلئے علاقے كا نقشہ تيار ہوا ايك بہت بڑا ميدان يا چوك اس نے بنايا كہ جسے ميدان نقش جہان كا نام ديا گيا _پھر اسكے تمام چاركونوں كے درميان ايك بڑى عمارت بنائي گى ان عمارتوں كا عمومى نقشہ چار ايوانوں پر مشتمل ايك عمارت كا تھا كہ جو ايرانى معمارى ميں قديم

۱۴۵

ادوار سے ربط ركھتا تھا _ يہ چار بہترين عمارتيں يہ تھيں : مسجد شاہ ، مسجد شيخ لطف اللہ ، قيصريہ كے بازار كا دروازہ اور عالى قاپو كى عمارت _(۱)

شہر كے درميان ميدان شاہ پانچ سوميٹر سے زيادہ رقبہ پر مشتمل تھا بازار بھى تھا اورساتھ ساتھ چوگان بازى اور تير اندازى كے ميدان كا كام بھى ديتا تھا ميدان كے تمام اطراف كو ايك دو طبقہ عمارت نے گھيرے ميں ليا ہواتھا نچلے طبقہ ميں دھات كارى اور كندہ كارى والوں كى دوكانيں تھيں كہ جہاں وہ لوگ اپنى فنى ايجادات ميں مصروف تھے_

اس ميدان كے مشرقى حصے ميں مشہور اور خوبصورت مسجد يعنى مسجد شيخ لطف اللہ تعمير ہوئي تھى _ (۱۰۱۲ قمرى ، ۱۶۰۳ عيسوى ) البتہ مسجد شاہ اصفہان مسجد شيخ لطف اللہ سے بڑى ہے اور اسميں ايك قابل ديد اور باشكوہ صحن ہے _ ميدان شاہ كے مغربى جانب چھ طبقات پر مشتمل عالى قاپو كا محل تھا كہ اسكے چوتھے طبقہ ميں بہت سے ستونوں والا ايك ايوان ہے جہاں بادشاہ بيٹھ كہ كھيليں اور جشن ديكھا كرتا تھا _ شاہ عباس نے شہر كے مركز ميں ايك كھلى اور وسيع سڑك بنوائي كر جسكا نام چارباغ ہے كہ جسكے كناروں پر درخت چنار كى چندقطاريں لگوائيں اس سڑك كا اختتام سى و سہ پل يا پل اللہ ورديخان پر ہوتا ہے _

شايد جانسن كى بات درست ہے كہ اس نے گيارہويں صدى كے اوائل يعنى ستريں صدى عيسوى كے ابتدائي پچاس سال كو معمارى كى دنيا ميں اسلامى عروج اور ترقى كا آخرى مرحلہ قرار ديا ہے كيونكہ اس دور ميں عالم اسلام كے تين مقامات پرفن كے تين شاہكار وجود ميں آئے :ايران ميں ميدان شاہ اصفہان ، ہندوستان ميں تاج محل يا ارجمند بانو بيگم كى آرامگاہ اور عثمانى مملكت ميں مسجد سلطان احمد اول _(۲)

____________________

۱) ہورست و لدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۲۰۰

۲)سابقہ حوالہ، ص ۲۰۲_

۱۴۶

اصفہان ميں شاہ عباس كے دور ميں ايك يا دو مصوروں كى تصاوير اور پينٹنگ بہت زيادہ رائج تھيں اور لوگوں ميں مقبول تھيں وہ آقا رضا اور پھر رضا عباسى تھے جو اس فنى روش كے سردار مانے جاتے تھے اس فنى اسلوب ميں معروفترين ہنرمند رضا عباسى تھااسكا شاہ عباس كے دربار سے تعلق تھا اسكى تمام پينٹنگز اس دور كے تمام ہنرمندوں كيلئے نمونہ عمل كا درجہ اختيار كر گئي تھيں _ گيا رھويں صدى كے پہلے چوتھائي حصہ ميں ايك اور نامى گرامى مصور معين مصور تھے كہ جنكى افسانوں اور تاريخ كے حوالے سے پينٹنگز شہرہ آفاق تھيں _

ہندوستان ميں تيمور لنگ كا نواسہ بابر ميرزا كى ہنر سے دلچسپى كے باعث مكتب ہرات كے بعض فنى آثار خصوصاً بہزادكے تمام فن پاروں كو جمع كيا گيا ، بابر كا بيٹا ہمايوں كہ جس نے فن و ہنر سے عشق اپنے والد سے وراثت ميں ليا تھا ايران ميں ايك سال كے قيام كے بعد ہنرمندوں كا ايك گروہ بھى ہندوستان ساتھ لے گيا اس سے ايرانى كلچر اور ہنر دوبارہ ہندوستان پر چھانے لگا مصورى ميں ہندوستان كے مغليہ آرٹ كى روش ايرانى اور ہندوستانى مصورى كى آميزش كا ثمرہ تھى _ ہند ميں مغليہ آرٹ كے بانى مير سيد على تبريزى اور عبدالصمد شيرازى تھے_ امير حمزہ كى داستان كو تصويروں ميں لانے كے بہت بڑے كام پر مير سيد على اور پچاس ديگر ہندوستانى ہنرمندوں نے كام كيا اور يہ كام ہمايوں كے بيٹے اكبر بادشاہ كے زمانے ميں ختم ہوا _(۱)

اكبر كہ جو مغليہ سلسلہ كا سب سے بڑا بادشاہ تھا معمارى سے بہت زيادہ دلچسپى ركھتا تھا اس نے آگرہ اور فتح پور سيكرى ميں بہت سے گنبد اور قبّے اور محلات تعمير كروائے فتح پور كى بڑى مسجد ايرانى اور ہندوستانى آرٹ كا ملاپ تھى _ اس نے ۱۰۱۴ قمرى ميں انتقال كيا اور اسكا بيٹا جھانگير تخت حكومت پر رونق افروز ہوا وہ مصورى اور افسانوى پيٹنگ كا دلدادہ تھا _ اسى ليے ہندوستان ميں فن مصورى كى مقبوليت جارى رہى _ ۱۰۳۸ ميں جھانگير كا بيٹا شہاب الدين المعروف شاہ جہان بادشاہ بنا تو اس دور تك فن مصورى بہت ترقى كر چكا تھا وہ اس كے ساتھ ساتھ معمارى ميں بھى كافى دلچسپى ركھتا تھا اس نے اپنى ملكہ ارجمند بانو بيگم كى ابدى آرامگاہ كے

____________________

۱) ذبيح اللہ صفا ، سابقہ حوالہ، ص ۱۳_ ۴۱_

۱۴۷

عنوان سے خوبصورت اور عظيم الشان'' تاج محل '' بنانے كا حكم صادر كيا اس تاريخى عمارت كا فن معمارى تيمور كے دور كى ايرانى معمارى سے متاثر تھا _ يہ آرامگاہ اگر چہ شاہ جہاں نے اپنى ملكہ كيلئے تيار كروائي تھى ليكن وہ خود بھى ساتھ ہى دفن ہے _

ايران ميں صفوى عہد كا آخرى زمانہ اور ہندوستان ميں مغليہ دور كا آخرى زمانہ دونوں ہى اندرونى اختلافات اور جنگوں سے دوچار تھے ليكن اسكے باوجود دونوں حكومتيں سانس لے رہيں تھيں كہ نادرشاہ افشار نے دونوں بادشاہتوں كو ختم كرديا _ اسى زمانہ ميں عثمانى بادشاہت كافى حد تك اطمينان و آسايش سے بہرہ مند تھى اور سلطان احمد جشن و سرور كا دلدادہ تھا _ اسى ليے اس دور كے فنكاروں كى افسانوى تصاوير اور پينٹنگز مثلا لونى(۱) ابھى بھى موجود ميں اور انكى تعداد سو سے بھى زيادہ ہے ۱۷۲۷ عيسوى يا ۱۱۴۰ قمرى ميں استانبول ميں چھاپ خانے كى صنعت آنے سے قلمى نسخوں اور كتابوں كو دربارہ لكھنے اور انكى تصويريں بنانے كا دور شروع ہوا _ سلطان احمد سوم كے آخرى دور سے عثمانى سلطنت كى معمارى يورپى معمارى سے متاثر ہوئي اور ديگر اسلامى فنون مصورى ، مٹى كے برتن بنانا اور اينٹوں پر نقش و نگار دسويں صدى ہجرى كى رونق كھو چكے تھے ،البتہ قيمتى پتھروں كو تراشنے ، كپڑوں پر كڑھائي اور زرى كا كام سترھويں صدى كے وسط تك چلتا رہا_

قاجارى دور ميں صفوى دور كے فنون كو باقى ركھنے كى كوششيں ہوئيں مگر كامياب نہ ہو سكےں كيونكہ بہت سے فنون زوال كا شكار ہوگئے تھے ليكن خوشنويسى كا ہنر تينوں اقسام نستعليق ، شكستہ نستعليق اور نسخ ميں اپنى بلندى كو چھونے لگا _ اسى طرح پھول اور پرندوں كے حوالے سے مصورى كے فن خصوصاً لاكى كے آثار نے بہت ترقى كى اور اسى دور ميں كتاب سے ہٹ كر فن مصورى نے ايك ايرانى مكتب كى شكل اختيار كى _(۲)

____________________

۱) Levni

۲) مرصع رنگين ، منتخبى از آثار نفيس خوشنويسان بزرگ ايران تا نيمہ قرن چہاردہم ،تہران ، ج ۱، نگارستان خط ، مجموعہ آثار ميرزا غلامرضا اصفہانى ، احمد سھيل خوانسارى كى كوشش_

۱۴۸

۲_ علم موسيقي

عباسى خلافت كے دور ميں اور اس زمانہ ميں كہ جب تحريك ترجمہ اپنے عروج پر تھى _ ايران ، ہندوستان اور يونان سے موسيقى كى كتب ترجمہ ہوئيں _ عباسى خلفاء نے بھى علم موسيقى كى ترويج اور وسعت ميں بھر پور سعى كى _ يہاں ہم عباسى دور كے موسيقيدانوں كے آثار اوراختراعات كا مختصر سا ذكر كرتے ہيں :

ابراہيم بن ماہان موصلى (۱۸۸ _ ۱۲۵ قمرى ) اسكا والد ماہان ،ارجان يا ارگان فارس كا دہقان تھا فارس سے ہجرت كرتاہوا كوفہ پہنچا وہاں ايك ايرانى خاندان ميں شادى كى _ ابراہيم نے موسيقى كا فن ايرانى موسقيدانوں ''جو انويہ ''سے سيكھا اور حيرت انگيز ترقى كى كہ اسكى شہرت عباسى خليفہ مہدى كى دربار تك پہنچى عباس خليفہ مہدى اور اسكے بيٹے ہارون الرشيد كى دعوت سے ابراہيم نے دربار ميں خاص مقام و منزلت پائي _ بغداد اور دربار خلفاء كے اكثر گلوكار ، موسيقار، بالخصوص فن موسيقى كے بزرگ دانشور حضرات مثلا اسحاق موصلى اسى كے تربيت يافتہ شاگرد تھے _(۱)

اسحاق موصلي، ابراہيم موصلى كا بيٹا تھا كہ جو تقريباً ۱۵۰ قمرى ميں رى ميں پيدا ہوا اس نے علم موسيقى كے اصول و قواعد اپنے والد اور ماموں منصور زلزل كے ہاں سيكھے اور اپنے دور ميں علم موسيقى ميں بے نظير مقام حاصل كيا اسكے موسيقى ميں مكتوب آثار مثلا الاغانى و الكبير ، النغم ، الايقاع اغانى معبد اور كتاب الرقص اب موجود نہيں ہيں يہ ہارون الرشيد ، مامون ، معتصم اور واثق عباسى كے دور ميں رہا اور ۲۳۵ ميں اسكا انتقال ہوا _

ابوالحسن على بن نافع ، اسكا لقب زرياب تھا وہ بصرى كے عنوان سے معروف تھا اور نسب كے اعتبار سے ايرانى اور اسحاق موصلى كے شاگردوں ميں سے تھا _ اس نے ايرانى موسيقى كے آلہ'' بربط'' ميں جدت پيدا كي_ بربط كے چارتاروں ميں ايك اور تار كا اضافہ كيا اور بربط كو بنانے كيلئے عقاب كے ناخن اور شير كے بچے كى انتڑيوں كو استعمال كيا كہ اس سے بربط كى آواز زيادہ جاذب ہوگئي زرياب نے اپنے مكتب ميں فن موسيقى كے

____________________

۱) ابوالفرج اصفہانى ، الاغانى ، قاہرہ ، ج ۵ ، ص ۲۰۸، ص ۲۳۰_

۱۴۹

حوالے سے نئے اصول و قواعد بنائے_ اور اسى كا شيوہ اہل مغرب ميں بھى مقبول ہوا بالخصوص اسپين كے مكتب موسيقى كى ايك روش زرياب كى تخليق تھى كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئي_(۱)

منصور زلزل عباسى دور ميں ايك ايرانى موسيقى دان تھا كہ جو بربط بجانے ميں استاد اور بے نظير گلوكار تھا _ ابونصرفارابى (۳۳۹ _ ۲۵۹ يا ۲۶۰ قمرى ) ايران كا عظيم الشان فلسفى ، رياضى دان اور موسيقيدان تھا _ فارابى نے موسيقى ميں قيمتى ترين كتابيں تاليف كيں ، اسكى موسيقى كے حوالے سے كتابيں مندرجہ زيل ہيں : المدخل الى صناعة الموسيقي، كلام فى الموسيقا، احصاء الايقاع ، كتاب فى النقرة مضافا الى الايقاع اور مقالات كے عنوان سے رسالہ ان ميں سے بعض كتابيں ختم ہو چكى ہيں _ موسيقى كے حوالے سے فارابى كى اہم ترين كتاب احصاء العلوم و الموسيقى الكبير ہے اسى وجہ سے قرون وسطى ميں فارابى كو موسيقى ميں سب سے بڑا مصنف جانا جاتا ہے _ فارابى نے موسيقى كے دو معروف پردوں '' وسطاى زلزل اور وسطاى فرس ميں دقيق مطالعہ كيا اور انكے فاصلوں كو بيان كيا _(۲)

ابوعلى سينا (۴۲۸ _ ۳۷۰ قمرى ) طب ، فلسفہ ، منطق ميں عظيم تاليفات كے ساتھ ساتھ فن موسيقى ميں انتہائي اہم تاليفات كے حامل ہيں انہوں نے كتاب شفا ميں فن موسيقى كيلئے ايك باب خاص كيا بوعلى سينا پہلے شخص ہيں كہ اسلام ميں موسيقى كے بارے ميں انكى فارسى ميں كتاب ابھى تك موجود ہے يہ وہى كتاب النجاة ہے جسكا انكے شاگرد ابوعبيدہ جو زجانى نے ترجمہ كيا اور اسكا نام ''دانشنامہ علايى ''ركھا_(۳)

____________________

۱) H.G. Farmer A historY of Arabian Music to the Xth Century London p .

۲) احصاء العلوم ، فصل موسيقى ، ہنرى جورج فارمو، سابقہ حوالہ، ص ۱۴۴، مہدى يركشلى ، موسيقى ، ايوانشہر، كميسيون ملى يونسكو در ايران نيز Encyclopaedia of Islam. New Edition S v Musiki Byo. Wright

۳)مہدى بركشلى ، سابقہ حوالہ، دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ذيل ابن سينا ، موسيقى ، تقى بينش ، ہنرى جارج فارمر، تاريخ موسيقى خاور زمين ، ترجمہ بہزاد باشى ، تہران ، ص ۳۶۸_

۱۵۰

صفى الدين عبدالمومن ارموى (۶۱۹ _ ۶۱۳ قمرى ) ساتويں صدى ہجرى ميں ايرانى موسيقى كا درخشاں ستارہ تھا ، انكى دو معتبر كتابيں '' الادوار'' اور '' رسالہ الشرفيہ '' كے مطالعہ سے يہ حقيقت آشكار ہوتى ہے كہ فارابى كے بعد وہ سب سے بڑا اور اہم ترين شخص ہے جنہوں نے فن موسيقى كے قواعد ميں تحقيق كى ہے _ اسكى كتاب ''الادوار ''ميں فارسى اور عربى كے قديم ترين راگ موجود ہيں _

عبدالقادر غيبى مراتمى (۸۳۸ قمرى ) تيمورى دور (تيمور اور شاہرخ كے دربار) ميں نظرى علم موسيقى كا اہم ترين عالم شمار ہوتا ہے اسكى سب سے بڑى كتاب ''جامع الالحان ''ہے دوسرى كتاب ''مقاصد الالحان ''جو جامع الالحان كى نسبت چھوٹى ہے ، شرح الادوار بھى مراغى كى تاليف ہے كہ ابھى بھى موجود ہے _ اسى طرح مراغى كى كتاب كنزالالحان انتہائي قيمتى كتاب تھى كہ جو فن موسيقى سے آشنا لوگوں كيلئے بہت اہميت كى حامل تھى اور اس كے نغموں پر مشتمل تھى ليكن اب موجود نہيں ہے اسكا بيٹا اور پوتا بھى موسيقيدان تھے اسكے بيٹے كا نام عبدالعزيز تھا جس نے ''نقاوة الادوار'' اور پوتے نے ''مقاصد الادوار'' كتابيں لكھيں _

نويں صدى ہجرى كے بعد ايران ميں كوئي بڑا موسيقيدان ظاہر نہيں ہوا كبھى كبھى كوئي شخصيت سامنے آتى رہى ليكن كسى نے جدت پيدا نہيں كى _ ايرانى موسيقى كے ترك موسيقى اور عرب ممالك حتى كہ مشرق بعيد كے ممالك كى موسيقى ميں اثرات واضح ہيں اور موسيقى كى فارسى اصطلاحات ان مناطق كى زبان اور تہذيب ميں واضح اور آشكار ہيں _(۱)

____________________

۱)ہنرى جارج فارمر، مجلہ روزگار نو ، ش ۱، ۱۹۴۲_

۱۵۱

چھٹا باب :

اسلامى تہذيب كےمغربي تہذيب پر اثرات

۱۵۲

دنيا كى موجودہ تہذيب پورى تاريخ ميں تمام اقوام كى كوششوں كا نتيجہ ہے اگر چہ موجودہ تہذيب ديگر اقوام كى تہذيبوں سے خصوصيات كے اعتبار سے مختلف ہے ليكن يہ حقيقت ميں گذشتہ تہذيبوں كا مركب ہے _ واضح سى بات ہے كہ اس جديد تہذيب كے وجود ميں آنے اور وسعت پانے ميں اسلام كا كردار ديگر تہذيبوں سے كم نہيں ہے _ ميرے خيال ميں گوناگوں تہذيبوں كى تركيب اور اقوام عالم ميں نظرياتى تبادلہ اس جديد تہذيب كے وجود ميں آنے اور وسعت پانے ميں بہت زيادہ كردار ركھتا ہے _ اور اسلام بھى اس امتزاج كے اسباب مہيا كرنے ميں متاثر كن اور اساسى كردار ركھتا ہے _ اس باب ميں اس موضوع پر گفتگو ہوگى كہ مختلف تہذيبوں كے امتزاج اور ان ميں فكرى ، ثقافتى اور علوم كے تبادلہ اور انكو مغرب ميں منتقل كرنے ميں اسلام كا كردار كيسا تھا ؟

اسلام سے مغرب ميں علم اور تہذيب كا نقل و انتقال تين راہوں سے انجام پايا :

۱) مسلمانوں كااسپين ، اٹلى ،سسلى اور صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كے ساتھ ميل جول اور انكا عالم اسلام كے مختلف مناطق ميں اسلامى تہذيب اور كلچر سے آشنا ہونے اور عالم اسلام كى باہر كى دنيا سے سرحدوں كے ذريعے_

۲) پانچويں صدى سے ساتويں صدى ہجرى تك عربى كتب كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ _

۳) ان عربى كتب كى تدريس اور ان سے فائدہ اٹھانا كہ جنہيں مسلمان دانشوروں نے علمى مراكز ميں تحرير يا ترجمہ كيا تھا_

مغرب والوں كا اسلامى تہذيب و تمدن سے آشنائي كا ايك اہم ترين مركز اسپين تھا _ اسپين كے عيسائيوں

۱۵۳

پر اسلامى نظريات كى چھاپ انكے عيسائي رہبروں پر اسلامى نظريات كے اثرات سے ديكھى جا سكتى ہے _ جيسا كہ كہاگيا ہے كہ ٹولڈو(طليطلہ ) شہر كے پادرى ايلى پنڈس نے اسلامى عقائد سے متاثر ہوتے ہوئے حضرت عيسى كى الوہيت كا انكار كيا اور كہا كہ وہ بشر اور خدا كے منہ بولے بيٹے تھے دوسرى طرف اس زمانہ ميں اسپين كے لوگ عربى لباس پہنتے تھے اور اسلامى و عربى آداب كاخيال ركھتے تھے كہا جاتا ہے كہ غرناطہ (گرايناڈا) شہر كى دو لاكھ مسلمان آبادى ميں سے فقط پانچ سو عرب تھے باقى سب خود اسپين كے لوگ تھے _(۱)

اسلامى آثار كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ : مجموعى طور پر عربى زبان سے يورپى زبانوں ميں ترجمہ كے رواج كو عيسائي مملكت كے اندرونى اوربيرونى دو قسم كے اسباب ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے _

صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كا مسلمانوں كى تہذيب سے آشنا ہونا اور مسلمانوں كى علمى ميراث اور كتابوں كے ايك مجموعہ كا سامنا كرنے كو بيرونى سبب شمار كيا جا سكتا ہے،عيسائيوں ميں اہم ترين اندرونى سبب يہ ہے كہ عيسائي دانشور حضرات كو معلوم نہ تھا كہ يونانى علماء بالخصوص ارسطو ، سقراط، بطلميوس اور جالينوس كے علمى آثار كے مقابلے ميں كيا كريں ، بہت سارے دلائل اس بات كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ عيسائي علماء اور فلاسفہ ان يونانى آثار كے اصلى متون سے استفادہ كرنے پر قادر نہيں تھے ، چونكہ يونانى معيارى زبان اور ان آثار كى كتابت كے مابين بارہ صديوں كے فاصلے كے باعث عيسائيوں كے بہترين زبان شناس اور مترجمين بھى ان متون كے ادراك سے عاجز تھے ، اور ساتھ بہت سے يونانى كلاسيكى آثار ختم ہوچكے تھے اور ان تك پہنچنے كيلئے عربى زبان سے ترجمہ كے علاوہ كوئي اور راستہ نہ بچا تھا اسى ليے عربى آثار سے لاطينى ميں ترجمہ كى تحريك شروع ہوئي_

يہ تحريك دو بڑے ادوار ميں تقسيم ہوتى ہے:پہلا دورہ ويٹيكن كے پاپ سيلوسٹر دوم ( ۱۰۰۳ _ ۹۹۸عيسوي) كے اس عہدے پر پہنچنے سے شروع ہوا اور اسپين كے مقامى حاكموں ميں سے آلفونسوى دہم كى حكومت كے

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۱۰ ، ذيل انڈلس_

۱۵۴

زمانہ ميں ختم ہوا _ اور دوسرا دور اين آلفونسو (۱۲۸۴ _ ۱۲۵۳ عيسوى ) كے زمانہ سے شروع ہوا _ دونوں ادوار ميں اہم فرق يہ ہے كہ پہلے دور ميں عربى آثار سے عمومى طور پر لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا جبكہ دوسرے دور ميں زيادہ تر عربى زبان سے اسپينى اور رومى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا اس دور ميں وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ بہت سے مترجم افراد سامنے آئے كہ جنكى تعداد كا ۱۵۰ تك تخمينہ لگايا گيا ہے _(۱)

ان افراد ميں بعض افراد كى اس حوالے سے خدمات پر يوں نگاہ ڈالى جا سكتى ہے :

افريقى گروہ ميں كينسٹينٹن كے ذريعے وسيع پيمانہ پر آثار كا ترجمہ ہوا اسكے ترجمہ شدہ آثار ميں طب كے حوالے سے جالينوس كے آثار اور فلسفہ ميں ارسطو كے آثار قابل ذكر ہيں _ ہوگوسينٹالايى نے ارسطو ، يعقوب بن اسحاق كندى ، ابومعشر بلخى اور ديگر افراد كے آثار كا ترجمہ كيا ، يوہيس ہيسپايسنر نے ارسطو ، بتّانى ، فارابى ، فرغانى ، قبيسي، محمد بن موسى خوارزمى ، يعقوب بن اسحاق كندى اور ابو معشر بلخى كے كثير آثار كاترجمہ كيا اسكا اہم ترين كام بوعلى سينا كے آثار كو لاطينى زبان ميں ترجمہ كرنا ہے مايكل اسكاٹ نے بھى بہت سے ترجمے كيے بالخصوص اسكا اہم كام ارسطو كے تمام آثار كا ترجمہ كرنا ہے _ پلاٹوى ٹيولياى نے بھى مختلف علمى ميدانوں مثلا نجوم ، رياضى ، ہندسہ ، اور فلسفہ ميں بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ كيا _(۲)

عربى سے لاطينى زبان ميں ترجمہ كى تحريك ''گراردوى كرموناي'' كا مقام انتہائي كى اہميت كا حامل ہے اس نے لاطينى زبان ميں ستر كے قريب آثار كا ترجمہ كيا ان ميں بہت سے علمى موضوعات مثلا طب ، فلسفہ ، نجوم ، اخلاق ، سياست و غيرہ شامل ہيں ، طب كے حوالے سے اسكے قلم سے ترجمہ شدہ جالينوس اور سقراط كے آثار اور اسكے ساتھ مسلمان شارحين كے آثار كا ترجمہ يونانى طب كا ايك مكمل مجموعہ كہلاتا ہے _

۱_ عقلى علوم ، اسلامى فلسفہ اور الہى علوم كے مغربى تہذيب پر اثرات

بارہويں صدى عيسوى كے ابتدائي سالوں ميں گونڈيسالومى اور خواں شقوبى نے بوعلى سينا ، فارابى اور غزالي

____________________

۱)دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۷ ، ذيل ترجمہ ، نہضت (سيد احمد قاسمى )_

۲)سابقہ حوالہ، ج ۵ ، ذيل پلاوى تيولياى ، فريد قاسملو_

۱۵۵

كے آثار كا ترجمہ كيا ، اہل مغرب ان ترجمہ شدہ كتابوں كے ذريعے ارسطو كے نظريات و عقائد سے آشنا ہوئے ، حقيقى بات يہى ہے كہ اہل مغرب ارسطو كے بارے معلومات حاصل كرنے ميں مسلمانوں كے احسان مند ہيں اور اسميں كوئي شك و شبہہ نہيں ہے كہ يورپ والے مسلمانوں كے نظريات سے آگاہ ہونے كے بعد فلسفہ كے عاشق ہوئے اور ارسطو كے آثار كا مطالعہ كرنے لگے_

ارسطو اور ابن رشد كى تعليمات آپس ميں مخلوط ہو چكى تھيں اس كى روش اور نظريات وسيع پيما نہ پر يہوديوں ميں پھيل چكے تھے_ اسى طرح يہ نظريات عيسائيوں ميں بہت گہرائي تك اس طرح سرايت كر رہے تھے كہ كليسا والے پريشان ہونے لگے يہاں تك كہ سن تھامس نے عربى زبان كے مترجميں پر تنقيد كى اور ارسطو اور اسكى كتابوں كے عرب شارحين كے عقائد و افكار ميں فرق پر زور ديا ابن رشد كے علاوہ بو على سيناكى آراء و افكار كا بھى سرزمين مغرب ميں بہت زيادہ استقبال ہوا_

بوعلى سينا كے جو افكار مغرب ميں منتقل ہوئے ان ميں سے ايك معقولات كا موضوع تھايعنى وہ چيزيں جو عقل كے ذريعے قابل درك ہيں بوعلى سينا كا ايك نظريہ يہ بھى تھا كہ ہر موجود كى اساس تجزيہ كے قابل نہيں ہے اور موجودات ميں كثرت و اختلاف كى بنياد بذات خود مادہ ہے _

سرزمين مغرب كے بعض دانشور مثلا راجر بيكن كا يہ عقيدہ تھا كہ ارسطو كے فلسفہ كے اثرات مغرب ميں زيادہ نہيں تھے خواہ اسكى وجہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا كم ہونا ہو خواہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا آسانى سے درك نہ ہونا ہو يہاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) كے بعد اسلام كے بڑے فلاسفہ مثلا بوعلى سينا اور ابن رشد نے ارسطو كے فلسفہ كو سمجھا اور موضوع بحث قرار ديا اگر چہ اس دور ميں بوئيٹس نے ارسطو كے بعض آثار كو ترجمہ كرديا تھا فقط مانيكل اسكاٹ كے دور ميں كہ جب اس نے ارسطو كى طبيعت اور حكمت كے بارے ميں بعض كتابوں كا عربى سے لاطينى ميں ترجمہ كيا تو اس دور ميں مغرب ميں ارسطو كے فلسفہ كو پسند كيا گيا(۱) _

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۳ ذيل'' ابن رشد'' ( شرف الدين خراسانى اُ جَ ع ذيل'' ابن سينا''_

۱۵۶

۶۴۸ قمرى ہجرى ميں عيسائي مبلغين كے حكم پر ٹولڈو شہر ميں مشرقى علوم سے آشنائي كيلئے پہلا ادارہ قائم ہوا، اس ادارہ ميں عربى زبان ، عيسائي اور يہودى دينى علوم كى تعليم دى جاتى تھى تا كہ مسلمانوں ميں تبليغ كيلئے افراد تيار كيے جائيں اس ادارہ كا سب سے بہترين طالب علم ريمنڈ مارٹن تھا ،اسكا يورپ ميں مسلمان مصنفين كے بارے ميں معلومات كے حوالے سے كوئي ثانى نہ تھا وہ نہ صرف يہ كہ قرآنى آيات اور اسلامى احاديث سے آگاہى ركھتا تھا بلكہ فارابى سے ليكر ابن رشد تك علم الہى اور اسلامى فلسفہ كے تمام علماء سے نكات بھى جانتا تھا ريمونڈ مارٹين نے غزالى كى مشہور كتاب تھافت الفلاسفہ پر بھى تحقيق كى اور اس كتاب كے بعض حصوں كو اپنى كتاب ''پوگو فيڈي'' ميں نقل كيا غزالى كے افكار و عقائد جب سے يورپى دانشوروں كے ہاں منتقل ہوئے اسى وقت سے عيسائي اہل فكر كيلئے بہت اہميت كے حامل ہيں اور اب بھى ان كے ليے مفيد ہيں _

فلسفہ ميں اسلام كى ديگر عظيم شخصيات ميں سے كہ جو يورپ ميں مشہور ہوئيں جناب ابن رشد تھےاٹلى ميں انكے افكار و نظريات تقريباً سولھويں صدى عيسوى تك چھائے رہے،ان كے عقائد عيسائيوں ميں بہت سى مباحث كا باعث قرار پائے_ مغرب ميں ابن رشد كے فلسفہ كى پيروى كہ جسے اصطلاحى طور پريوروازم كانام ديا گيا جديد علوم كے ظہور تك يورپ ميں فلسفہ كى بقا كے اسباب ميں سے ايك سبب تھا(۱) _

يہ مسلمہ بات ہے كہ اس علم الہى كے حوالے سے مسلمانوں كى خدمات بے حد اہميت كى حامل ہيں اور وہ لوگ جو اسلامى دانشوروں كو جدت و بنياد سے محروم كہتے ہيں يقيناً انہوں نے ابن رشد اور غزالى كے آثار كا مطالعہ نہيں كيا ٹوماز ايكوئنس كى مشہور كتاب ''سوما''اسى كوتاہ فكرى پر ايك دليل ہے_

چارصديوں سے زيادہ مدت تك يورپ كے تمام تعليمى اور ثقافتى مراكز پر اسلامى تہذيب و تمدن كے اثرات چھائے رہے _ جب يورپ ميں اسلامى افكار كى برترى كا دور ختم ہو ا پھر بھى مشرق و مغرب ميں ثقافتى رابطہ باقى رہا اور يہ رابط و تعلق تيرھويں صدى عيسوى ميں اپنے عروج كو پہنچا ، اگر ہم اس دور كے باقى ماندہ

____________________

۱) سابقہ حوالہ ج ۲_

۱۵۷

آثار كا تجزيہ كريں تو ديكھيں گے كہ اسلامى تسلط ہميشہ جارى رہا اور يہ اسلامى برترى قرون وسطى كے ادوار ميں اس سے كہيں زيادہ تھى كہ جس كا تذكرہ آج كيا جاتا ہے_

۲_ اسلامى طب كے مغربى تہذيب پراثرات

اسلامى طب نے مغربى طب پر مختلف انداز سے اثرات ڈالے ان ميں سے ايك اسلامى طبيبوں كے بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہونا تھا، ان اطباء ميں سے ايك اہم ترين طبيب محمد بن زكريا رازى ہيں كہ جنكے بہت سے آثار لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئے اور ہر كتاب باربار شايع ہوئي بہت سے مغربى مورخين اور دانشوروں كا يہ نظريہ ہے كہ رازى كى كتاب '' الجدرى و الحصبة'' ( پھوڑے اور خسرہ) انكى سب سے بڑى تاليف ہے يہ كتاب ۱۴۹۸عيسوى ميں پہلى بار ترجمہ ہو كر شايع ہوئي اس كے علاوہ يہ كتاب چاليس بار يورپ ميں شايع ہوئي معلوم يہ ہوتا ہے كہ اسلامى تہذيب ميں اسلامى طبى كتابوں ميں سے اس كتاب كے ترجموں اور چھپنے كى تعداد ديگر كتب سے بہت زيادہ ہے _

رازى كى ايك اور كتاب'' الحصى المتولدہ فى الكلى و المثانہ ۱۸۹۶ عيسوى ميں پيرس ميں شايع ہوئي _

۱۲۷۹ عيسوى ميں چارلس اول كے دور ميں رازى كى كتاب الحاوى فرح بن سالم نامى ايك يہودى طبيب كے ذريعے لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئي اور ۱۵۴۲ عيسوى ميں پانچ بار شايع ہوئي _ يہ كتاب يورپ ميں علم طب كے نصاب كى اہم ترين كتاب شمار ہوتى تھى _

دوسرے طبيب كہ جنہوں نے مغربى طب كو متاثر كيا جناب بو على سينا ہيں انكى كتاب قانون بہت سالوں تك مغرب كى اہم ترين طبى كتاب شمار ہوتى رہى پندرھويں صدى عيسوى كے آخر ميں اس كتاب كى سولہ بار يورپ ميں اشاعت كى گئي جو پندر ہ بار لاطينى زبان اور ايك بار عبرى زبان ميں تھى _ اس كتاب كى لاطينى اور عربى زبان ميں لكھى گئي تفاسيربے شمار ہيں يہ كتاب سترويں صدى عيسوى كے دوسرے نصف حصے تك كئي بار شايع ہوئي اور ايك طويل مدت تك ايك نصابى كتاب شمار ہوئي رہى شايد علم طب ميں آج تك اسكى مانند كوئي كتاب اسقدر رائج نہ رہى ہو_

۱۵۸

اس كے علاوہ اور كئي پہلوں سے اسلامى علم طب نے مغربى طب كو متاثر كيا_ ميرے خيال ميں يورپ ميں ہسپتالوں كا وجود ميں آنا شرقى اور اسلامى ہسپتالوں سے متاثر ہونے كى بناء پر تھا_ علاوہ ازيں يورپى طبيب جس چيزميں مسلمانوں كے احسان مند ميں وہ مختلف بيماريوں كے طريقہ علاج تھا يہ تو ہم جانتے ہيں كہ يورپى طبيبوں نے بہت سى بيماريوں مثلا خسرہ ، ٹائيفائڈاور طاعون كا علاج اور اسى طرح بہت سے طبى آپريشنوں كے طريقہ كار كو مسلمانوں سے سيكھا جسكى مثال يہ ہے كہ مسلمان طبيب زھراوى قرطبى كا طبى رسالہ يورپ ميں آج علم جراحت كى اساس كے طور پر جانا گيا ہے _(۱)

۳_ اسلامى رياضيات كے مغربى تہذيب پر اثرات

مغرب ميں علم رياضى كى ترقى كے حوالے سے اسلامى رياضى دانوں كے اثرات بہت زيادہ ہيں يورپى لوگ مسلمانوں كے ذريعے دہائي نظام كى عدد نويسى اور ہندى اعداد كى شكل سے آشنا ہوئے جو آج بھى مورد توجہ ہے _ يہ اثرات خاص طور پر كتاب '' المختصر فى الجبر و المقابلہ'' كے ترجمہ كے ذريعے پڑے _ يہ كتاب بار بار لاطينى زبان ميں '' لبيبر الگوريسمي'' ( يعنى خوارزمى كى كتاب) كے نام سے ترجہ ہوئي اسى كتاب كے لاطينى ترجمہ سے كلمہ '' algorism '' كا معنى حساب كرنا اور حساب كرنے كى روش ليا گيا _

قرون وسطى كے ادوار ميں يہ كتاب يورپ ميں شہرہ آفاق تھي_ اور سولھويں صدى عيسوى ميں فرانسيسى رياضى دان فرانسويت كے زمانہ تك يورپى رياضى دانوں كے مطالعات كى بنياد چلى آئي _ خوارزمى كى ايك اور اہم ترين كتاب كہ جسكا نام '' حساب ھند'' ہے ،خود اصل كتاب تو اب باقى نہيں رہى ليكن چودھويں صدى عيسوى ميں اسكا لاطينى زبان ميں ہونے والا ترجمہ موجود ہے _ اسلامى ماخذات ميں يہ كتاب '' الجمع و التفريق بحساب الہندسہ'' كے نام سے پہچانى جاتى ہے _

____________________

۱) فؤاڈ سزگين : تاريخ نگارشہا ى عربى ، ج ۳ ترجمہ اشاعت از خانہ كتاب ، مقدمہ ، ص ۳۰ كے بعد_

۱۵۹

خوارزمى كے علاوہ ديگر اسلامى دانشوروں كے كى كتابيں بھى اسى دور ميں اور بعد كے ادوار ميں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں(۱) مثلا خيام ، خواجہ نصير الدين طوسى اور فارابى كى علم رياضى ميں كتابيں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں _

آخرى مسلمان رياضى دان كہ جنگے قرون وسطى بعد كے ادوار ميں آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوا جناب بہاء الدين عادلى تھے كہ جو شيخ بہائي كے نام سے مشہورترين ہيں انكى كتاب '' خلاصة الحساب انگلش ، فرانسيسي، اور جرمنى زبان ميں ترجمہ ہوئي رياضى كے پرعملى پہلو مثلاًچند حصوں پر مشتمل منظم و غير منظم اشكال الجبرا كى مساواتوں كے متعدد عددى اور ہندسى راہ حل ، p عدد( n ) كے دقيق ميزان تك پہچنا اور متعدد اضلاع پر مشتمل چيزوں كى حدود اور مساحت كى نمائشے كيلئے مختلف روشيں و غيرہ اس مسلمان رياضى دان كے محنتوں كا ثمرہ تھا كر جو مغرب ميں منتقل ہوا(۲)

۴_ اسلامى علم فلكيات كے مغربى تہذيب پر اثرات

اسلامى ماہرين فلكيات كى معلومات و تحقيقات ميں انكى بہت سى اختراعات بھى شامل ہيں مثلا مختلف انداز كى جنتريوں كا بنانا اور ستاروں كے حوالہ سے مختلف معلومات اسى طرح سياروں كى حركت كے بارے ميں جديدنظريات يہ سب اسلامى نجوم كے اہم ثمرات تھے كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئے_

آج تو مكمل طور پر واضح ہو چكا ہے كہ مغربى ماہرين فلكيات مثلا نيوٹن ، كپلر اور كوپرينك اسلامى علم نجوم سے آشنا تھے اور اسلامى ماہرين فلكيات كى تحقيقات اور ثمرات سے بہت زيادہ بہرہ مند تھے قرون وسطى كے ادوار ميں سب سے پہلے اسلامى ماہر فلكيات كہ جو مغرب ميں بہت زيادہ مشہور ہوے احمد بن كثير فرغانى تھے انكى كتاب '' جوامع علم نجوم'' گوارڈوى كرموناى اور يوھنيس ھسپالنسز كے ذريعے يورپ ميں ترجمہ ہوئي اور يہ

____________________

۱) گوسٹالو بون _ ص ۵۶۷_

۲) سيد حسين نصر، علم و تمدن در اسلام ، ترجمہ احمد آرام ، تہران ۱۳۵۹ ، ج ۲ ص ۱۳۷_۱۳۸_

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

یہی وجہ ہے کہ حضرت حمزہ نے جہنی کی وساطت اور ثالثی کو قبول کرلیا تھا_ اسی طرح عبیدہ بن الحارث نے بھی اس قافلے کا پیچھا نہ کیا جو اس سے آگے نکل گیا تھا نیز قریش کے تین اور قافلے بھی بڑے آسانی اور سلامتی سے گزرگئے تھے اور مسلمان مناسب وقت پر ان تک نہ پہنچ سکے تھے_ یہاں تک کہ جنگ بدر کے موقع پر بھی مسلمان قریش کے قافلے کوپہنچ نہیں پائے تھے لیکن اس کے باوجود قریش نے ہی مسلمانوں سے جنگ کرنے کی ٹھان لی _ انشاء اللہ اس پر بعد میں گفتگو کریں گے _

پس ان سرایا کا مقصد قریش کو یہ باور کرانا تھا کہ اس علاقے میں قریش اب آزادا نہ دندناتے نہیں پھر سکتے اور نہ اب ان کا قانون چلے گا اور آج کے بعد سے شام کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں کی امنیت بھی خطرے میں ہے اور جب تک وہ عقل اور منطق سے کام نہیں لیتے، حکمت کی سیدھی راہ اختیار نہیں کرتے نیز ظلم و تکبر اور جور وستم کار استہ ترک نہیں کردیتے تب تک ان کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا _ اور اب انہیں اپنا مکمل محاسبہ کرنا ہوگا تا کہ انہیں یہ یقین ہوجائے کہ اب ان کے لئے طاقت کے ساتھ اس موقف کی سرکوبی نہایت مشکل ہوگئی ہے اور اب جلد یا بدیر ان کے لئے حقیقت کے اعتراف کرنے اور حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہے گا _ ور نہ دوسری صورت میں وہ خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دعوت جنگ دیں گے جس کے نتیجے میں ان کا غرور اور تکبر سب کچھ خاک میں مل جائے گا _ اور ہوا بھی یہی _

بہر حال مسلمانوں نے قریش کے تجارتی قافلوں کو چھیڑنے پر اکتفا کیا اور قافلوں کو لوٹنے کی کوشش نہیں کی صرف اس لئے کہ قریش کے لئے سامنے کا ایک دروازہ کھلا رکھیں اور انہیں اس معاملے میں سوچ بچار کی مہلت دیں _ و گرنہ وہ قافلوں کو لوٹنے کا حق بھی رکھتے تھے _ کیونکہ یہ قریش سے عادلانہ اور منصفانہ بدلہ ہوتا جنہوں نے دشمنی کی ابتدا کی تھی اور ظلم اور زیادتی کی حدیں توڑدی تھیں _ بہر حال اگر مسلمانوں کو یہ لوٹنا مہنگانہ پڑتاتو اپنے حق کے حصول کی جد و جہد میں کوئی اور رکاوٹ نہیں تھی _ البتہ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ ان سرایا کا مقصد جنگ نہیں بلکہ کچھ اور تھا کیونکہ ان سرایا میں بھیجے جانے والے مسلمان جنگجوؤں کی تعداد کم

۲۰۱

ہوتی تھی_ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ سرایا کے مقاصد کو سمجھنے کے لئے یہ دلیل کافی اور قانع کرنے والی نہیں ہے کیونکہ تجارتی قافلوں کو روکنے یاانہیں لوٹنے کے لئے کم افراد ہی کافی ہوتے ہیں اور اتنی تعداد میں جنگجوؤں کے شریک ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی _ہم یہاں صرف اس بات کا ذکر کریں گے کہ مسلمانوں کے ان قافلوں پر گھات لگانے اور چھیڑ چھاڑ کے بعد قریش نے جو سب سے بڑا تجارتی قافلہ بھیجا یہ وہی تھا جس کے نتیجے میں جنگ بدر واقع ہوئی (حالانکہ چھیڑچھاڑ طبعی طور پر محافظین کی تعدا بڑھانے کا باعث ہوئی تھی ) اس قافلے کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی_ جبکہ اس قافلے کے ساتھ صرف بیس(۲۰) سے کچھ زیادہ افراد تھے حالانکہ یہ قافلے دوہزار سے بھی زیادہ اونٹوں پر مشتمل تھا اور اس میں قریش کا تجارتی سامان بھی موجود تھا _

۳_سپاہیوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصیحتیں

سرایا کے لئے جانے والے سپاہیوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گذشتہ نصیحتوں کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقصد صر ف زمین کو آباد کرنا اور زمین سے فتنہ و فساد کا خاتمہ تھا ، منحرفوں اور ظالموں سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جہاد کی نوعیت بھی ایسی ہی تھی بالفاظ دیگر یہ عمل کڑوی دوا کی طرح تھا_ پس جو عمل بھی اس ہدف سے دور ہوتاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں انتہائی قابل نفرت اور قابل مذمت تھا _چاہے یہ عمل اصحاب نے یا کسی قریبی نے ہی انجام دیا ہو_ اس سلسلے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصیحتوں کے گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے تا کہ صاحب انصاف با ضمیر اور زندہ دل انسان بہت سے اہم حقائق کا ادراک کر کے اپنے گفتار اور کردار نیز نظریات اور اعمال میںان سے استفادہ کرے اور اس سے زندگی کا بہترین راستہ منتخب کرے _ حضرت علی علیہ السلام بھی اپنے فوجیوں کو نصیحت کرنے کے معاملے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نقش قدم پر چلے ہیں _ اس بارے میں مندرجہ ذیل منابع کا مطالعہ فرمائیں(۱) _

____________________

۱) تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۱۸۲ و ۱۸۳، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱ ص ۲۳ الفتوح ابن اکثم ج ۳ ص ۴۵ و ۱۳۵ و انساب الاشراف با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۲۶۲ و ص ۲۴۰و ص ۳۰۲و ص ۳۳۱ و ص ۴۷۹_

۲۰۲

۴_ صرف مہاجرین ہی کیوں ؟

یہ بات قابل غور ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر سے پہلے کے غزوات اور سرایا میں صرف مہاجرین کو ہی بھیجتے تھے_اس لئے یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسا کیوں کرتے تھے؟اور اس امر میں کیا حکمت پوشیدہ تھی ؟

اس کا ایک جواب یہ دیا جاتاہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار کو سمجھانا چاہتے تھے کہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے مقاصد کے حصول پر مصمم ہیں چاہے انصار مدد نہ بھی کریں اور انصار کہیں یہ تصور نہ کریں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،مہاجرین کا بچاؤ کر کے ہمیں اپنے اہداف کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں_اوراس گمان سے انصارکہیں مظلومیت اور کمزوری کا احساس نہ کریں_

ہمارے خیال میں بات اس سے کہیں زیادہ گہری ہے لہذا ہم مندرجہ ذیل عناوین سے اس کا جائزہ لیتے ہیں_

الف: انصار کا گمان

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انصار کا خیال تھاکہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد و نصرت کا فریضہ فقط اپنے علاقے تک ہی محدود ہے_ اگر اچانک کوئی معاملہ پیش آگیا تو وہ اس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اسی طرح کریںگے جیسے وہ اپنی حفاظت کرتے ہیں لیکن اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود حملہ فرماتے ہیں یا کسی اور علاقے میں جنگ ہوتی ہے تو انصار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد نہیں کریں گے_ اس بات پر غالباً بیعت عقبہ کے موقع پراتفاق ہوا تھا_ اس پر مؤرخین کی یہ بات بھی دلیل ہے جو انھوں نے جنگ بدر کے حالات میں نہایت واضح طور پر بیان کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ انصار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مددنہیں کریں گے مگر یہ کہ مدینے میںآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اچانک کوئی افتاد آن پڑتی _ اس لئے انصار کا آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس جنگ پر جانا ضروری نہیں تھا_ اس کی تفصیلات غزوہ بدر کے حالات میں آئیں گی_

انشاء اللہ تعالی

۲۰۳

باء : جنگ اور امن کا مسئلہ

اہل مدینہ کے لئے جنگ کوئی آسان مسئلہ نہ تھا_کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ انہیں ہی جنگ کی نہایت اہم ذمہ داریوں کو قبول کرنا ہوگا_ اس راہ میں اپنی جان اور مال کی قربانی دینی ہوگی _ اور انہیں ہی اپنے وسیع معاشرتی، اقتصادی ، سیاسی اور دیگر تعلقات پر اس کے اثرات و نتائج کا سامنا کرنا ہوگا_ عربوں کے نزدیک یہ مسئلہ انتہائی اہم اورخطیر تھا کیونکہ یہ مسئلہ خون، انتقام، زندگی، موت، خوشبختی اور بدبختی کا مسئلہ تھا_

جب جنگ کا مطلب ہی یہی کچھ ہے تو پھر ان لوگوں میں اعلی سطح کے صبر، برداشت اور تحمل کے ہو نے کے علاوہ ان لوگوں کا اپنی مرضی سے ان جنگوں میں حصہ لینا نہایت ضروری تھا_ اگر ( آغاز ہی میں) ان پر جنگ کا فریضہ عائد کردیا جاتا تو ممکن تھا کہ اس کے نتائج بالکل برعکس ہوتے یا شاید انتہائی خطرناک ہوتے جن کے نتیجے میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل پر بہت زیادہ مشکلات اور مصیبتیںنازل ہوتیں جن کامداوا بھی مشکل ہوتا_ ان مشکلات سے اپنے عظیم اور اعلی ہدف کی کامیابی کے ساتھ اپنی مرضی اور عزت سے نکلنا ممکن نہ ہوتا _

یہی سبب ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر اور احد کے سلسلے میں اپنے اصحاب سے مشاورت فرمائی_ اس بات پر ہم انشاء اللہ بعد میں گفتگوکریں گے_

ج :انصار کے مخصوص حالات

انصار اپنے علاقے میں (اپنے رسوم و رواج اور طبعی سماجی تعلقات میں گھرے)امن و امان کی زندگی بسر کررہے تھے_ یہ لوگ اپنے ماحول سے بہت زیادہ مانوس تھے_ اپنے معاشی معاملات اور زراعت کے مسائل میں مصروف تھے اور اپنی زمینوں سے استفادہ کررہے تھے_ یہ لوگ اپنی خوشحال زندگی کے معاملات میں مگن تھے اور یہی چیز اس بات کا باعث تھی کہ وہ اپنی زندگی سے پیار کریں _ ان حالات میںکسی ایسے بہت ہی طاقتور عامل یا سبب کی ضرورت تھی جو انہیں ان حالات سے نکال کرحال اور مستقبل میں کٹھن مشکلات،

۲۰۴

اور تکالیف میں گھرے نئے حالات میں لے جاتا_

اسی طرح کل کلاںانصار کو قریش سے جنگ بھی کرنا ہوگی_اور قریش ایک ایسا قبیلہ تھاجو عربوں میںبہت بڑاخطرناک ، با اثر اور بانفوذ بلکہ محترم قبیلہ تھا_ پس انصار کے لئے اہل مکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں ڈالنے والے کسی بھی کام کے اقدام سے پہلے اپنے آپ کو ذہنی ، عملی اور سماجی طور پر اس نئے معاشرے اور نئے حالات سے ہم آہنگ کرنا ضروری تھا_خصوصاً جبکہ مکہ والوں سے دشمنی مول لینے سے تمام عربوں کی طرف سے دشمنی کا خطرہ لاحق تھا _خاص طور پر ایسے حالات میں جبکہ دوسروں کی نظر میں اہل مدینہ قصور واربھی ہوں_ اور ایسا ہوا بھی ہے کیونکہ تاریخی دستاویزات میں ابی بن کعب کی یہ بات مذکور ہے کہ جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اصحاب نے مدینہ ہجرت فرمائی اور انصار نے انہیں پناہ دی توسارا عرب ان کا دشمن بن گیااسکے بعد اہل مدینہ راتوں کو اسلحہ لے کر سوتے اور دن کو بھی اسلحہ سے لیس ہوتے تھے(۱) جس پر خدا نے دشمنوں کی سازشوں کا توڑ اور اپنا دفاع کرنے کے لئے انہیں جنگ اور جہاد کی اجازت دی کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے (اذن للذین یقاتلون بانھم ظلمواوان اللہ علی نصرہم قدیر)(۲)

لیکن دوسری طرف مہاجرین کے حالات اس لحاظ سے ان سے بالکل مختلف تھے_ ان کی قریش سے جنگ اور نبرد آزمائی سہل اور آسان تھی_ ان کی قریش کے خلاف معرکہ آرائی کی وجوہات واضح طور پربالکل ذاتی اور معاشرتی نوعیت کی تھیں_ کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ قریش ہی وہ ظالم قوت تھی جس نے ان مہاجرین کی ا ہانت کی ، ان کواذیتوں سے دوچار کیا، ان کے گھر وں سے انہیں نکال باہر کیااور ان کے اموال چھین لئے تھے _ اور یہ دھتکارے ہوئے، مغلوب مہاجرین، قریش کے ظلم کومحسوس کر چکے تھے اور یہ جانتے تھے کہ قریش اخلاقیات کے حدوں کو پھلانگ چکے ہیں، معاشرتی رسم و رواج کی بیخ کنی کرچکے ہیں اور عقلی ، دینی اور فطری احکام کی بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں_ پس ایسے مسلمان مہاجرین کا غصہ اور دفاع

____________________

۱)منتخب کنزالعمال ج/۱ص ۴۶۵دبر حاشیہ مسند احمد) از دلائل النبوة بیہقی ، ابن مردویہ ،ابن منذر،کنز العمال ج/۱ ص۲۹۵ از مذکورہ افراد و از ،طبرانی ، الحاکم، سعیدبن منصور، اور روح المعانی ج/۶ ص ۹۸ نیز ملاحظہ ہو : سیرہ حلبیہ ، ج ۲ ، ص ۱۲۳، بحارالانوار ، ج ۱۹، ص ۸، اعلام الوری ، ص ۵۵_

۲) حج ۶/۳۹_

۲۰۵

فطری طور پر انتہائی عظیم اور شدید تھا_ اس وجہ سے قریش کے قافلوں کو تنگ کرناان کے لئے نہایت آسان تھا_ کیونکہ یہ تجارتی قافلے اس لٹے پٹے گروہ کے لئے دشمنیوں کا مجسم نمونہ تھے اس لئے کہ ان تجارتی قافلہ والوں کے پاس جو بھی مال تھا سب ان لٹے پٹے اور شہر بدر کئے گئے لوگوں کامال تھا _ خلاصہ یہ کہ مہاجرین کی ان جنگوں کو زیادتی اور دشمنی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ قریشیوں کے خلاف مہاجرین کی جنگ تو انتہائی عادلانہ اور حقوق کے حصول کے لئے تھی _ کیونکہ ان مہاجرین کے ساتھ قریش کا تو معاملہ ہی ایسا تھا اور مخالفین کے ساتھ ان کا سلوک بھی تو بہت برا تھا_ اور وہ مخالف تھے کون ؟ وہ تو باقی لوگوںکی نسبت ان کے سب سے زیادہ قریبی اور پیارے تھے_ پس یہیں سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ غیروں کے ساتھ ان کا کیا سلوک ہوگا جن کے ساتھ نہ توان کا کوئی قریبی رابطہ و تعلق تھا اور نہ ہی کوئی رشتہ داری بنتی تھی_

د: مہاجرین کی نفسیاتی کیفیت

گذشتہ عرائض کی روشنی میں معلوم ہو جاتا ہے کہ انصار کی بہ نسبت مہاجرین کے لئے جہاد نہایت آسان تھا _ کیونکہ یہ دشمنی اور چڑھائی شمار نہیں ہوتی تھی بلکہ دفاع شمار ہوتا تھا _ پس اس صورت میں اس جہاد کے لئے سیاسی اور اجتماعی بلکہ ایسے ذاتی اہداف اور مقاصد بھی پائے جاتے تھے کہ جن کا حصول بھی نہایت ضروری تھا اور جس کی وجہ سے انصار بھی اسلام کی مضبوط ڈھال اور کاٹ دار تلوار کی حیثیت سے اس جہاد میں شامل ہو جاتے _پس مہاجرین نے اپنی فعالیت شروع کردی اور اس فعالیت سے ان غریب الوطن مہاجرین کو ایک موقع ملا کہ وہ اس نئے علاقے کی جغرافیائی شناخت قائم کرسکیں ،چاہے محدود پیمانے پر ہی سہی _ کیونکہ نفسیانی طور پر مجروح یہ مہاجرین اس نئے علاقے سے اجنبیت کا شدید احساس رکھتے تھے_ انہیں ایک ایسے تحرک کی ضرورت تھی جس سے ان کی خود اعتمادی دوبارہ لوٹ سکے انہیں معنوی ترقی حاصل ہو اور ان میں قوت، استقلال اور آزادی کا احساس و شعوراجا گر ہو _ اب ان تحرکات سے ان میں یہ احساس پیدا ہوگیا تھا کہ ، اب وہ قریش کو تنگ کرنے اور ان پردباؤ ڈالنے کی طاقت رکھتے ہیں _ اب ان لوگوں میں خود اعتمادی

۲۰۶

کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی _

نیز اس علاقے میں رہنے والے دیگر قبائل کے ساتھ رسولعليه‌السلام خدا کے صلح کے معاہدے نے بھی ان کی خود اعتمادی میں مزید اضافہ کردیا تھا _ لیکن انصار ان مذکورہ باتوںسے بالکل بے نیاز تھے_ پس وہ مہاجرین جن پر آزمائشےوں نے گہرے اثرات چھوڑے ہوں اور صدمات نے ان کے ایمان کو متزلزل کردیا ہو ان کا جہاد کرنا اور اس دین کی راہ میں قربانی دینا انہیں ( نفسانی کمزوری کے سبب) شیطان کے چنگل اور وسوسوں میں پھنسنے سے بچا سکتا ہے _ کوئی مسلمان جب خود کو دین اور عقیدے کی راہ میں مصروف عمل ، اس راہ میں قربانی دیتا ہوا اور اپنے اس عمل کو پر ثمر اوراس کا نتیجہ خوب سے خوب تر دیکھے گا تو اسے پھر سے ثبات ، استقلال اور اطمینان قلب حاصل ہوگا اور اس کی آزمائشےیں کم سے کمتر ہوں گی جن کا منفی رد عمل بھی نایاب ہوگا اور جس مقصد اور چیز کے لئے اس نے قربانیاں دی ہیں اور مشقتیںاٹھائی ہیں اس کے ساتھ اس کا تعلق مزید پختہ اور مضبوط ہوجائے گا _

عربوں میں خون کا معاملہ

عرب، خون کبھی معاف نہیں کرتے تھے اور کبھی بھی اس سے چشم پوشی نہیں کرتے تھے '' خون کا بدلہ خون'' کی بنیاد پر مختلف قبائل اور اقوام کے آپس میں سیاسی ، اقتصادی ، معاشرتی اور دیگر روابط قائم ہوتے تھے_ بعض اوقات تو خون کے انتقام کا یہ مسئلہ کئی نسلوں تک چلتا تھا_

اب جب ایک ایسے اسلامی معاشرے کی تشکیل کی ضرورت ہے جس میںہر کوئی ایک دوسرے کا ضامن ہو اور ایک جسم کی طرح سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں تو ایسے معاشرے کے لئے خون اور اس کے بدلے کا دائرہ ممکنہ حد تک تنگ کرنا ضروری تھا_تاکہ اس کینے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے جو روحوں میں سرایت کر چکا تھا اور اس کے اثرات آنے والی نسلوں پر کئی دہائیوں بلکہ صدیوں تک باقی رہتے تھے _

۲۰۷

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اگر چہ جنگ بدر میں انصار کی تعداد مہاجرین کی نسبت چاریا پانچ گنا زیادہ تھی لیکن اکثر مشرکین کا قتل حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حمزہ کے ہاتھوں ہو اجو مہاجر اور قریشی تھے _

بالکل اسی لئے نیز مقتولین کی تعداد کم کرنے کے لئے امیر المومنینعليه‌السلام نے جنگ صفین میں قبیلہ ازداور قبیلہ خثم کو فرمایا کہ صرف اپنے ہم قبیلہ لوگوں کے ساتھ لڑو ، اسی طرح اہل عراق کے ہر قبیلہ کو فرمایا کہ وہ اہل شام کے اپنے ہم قبیلہ افراد کے مقابل ہو ں مگر یہ کہ اہل شام میںان کے ہم قبیلہ افراد نہ ہوں یا بہت کم ہوں مثلاً شامی فوج میں بجیلہ کے بہت کم لوگ تھے تو انہیں قبیلہ لخم کے مقابل قرار دیا(۱) یہی معاملہ جنگ جمل میں ہوا_ جنگ جمل میں حضرت علیعليه‌السلام نے جناب عائشہ کی فوج میں ایک منادی کو یہ اعلان کرنے کے لئے بھیجا(۲) کہ مالک اشتر اور جندب بن زہیر کی تلوار سے بچو(۳) پھر آپعليه‌السلام نے ہی ان کی طرف صلح نامہ بھیج کر انہیں کتاب و سنت کے مطابق صلح کرنے کا کہا لیکن ا نہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قاصد ہی قتل کردیا _ یہ تو ان کوششوں کے علاوہ ہے جو آپعليه‌السلام نے طلحہ ، زبیر اور عائشہ کو جنگ سے روکنے کے لئے صرف کر دی تھیں _ اور آپعليه‌السلام نے ہی بی بی عائشہ کی ناقہ کی کونچیں کٹ جانے پر جنگ ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا اور مقتولین پر اظہار افسوس بھی کیا تھا _ اسی طرح جنگ صفین میں بھی آپعليه‌السلام نے معاویہ اور اس کے حلیفوں کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے باز رہنے اور احکام خداوندی کو قبول کرنے کے لئے راضی کرنے کی کئی ہفتوں پر محیط بہت کوششیں کیں _

یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ حضرت علیعليه‌السلام انسانوں کو قتل نہ کرنا چاہتے تھے بلکہ آپعليه‌السلام کا مقصد فقط امت محمدیہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اور زندہ دلی کے لئے کم سے کم نقصان میں فتنہ و فساد کا قلع قمع اور دین کا نفاذ تھا اس بات کی تاریخی گواہی یوں دی جاسکتی ہے کہ مختار ثقفی نے پہلے ابراہیم بن مالک اشتر سے کہا کہ وہ قبیلہ مضر یا اہل یمن کی طرف جائے لیکن پھر اس نے اپنا نظریہ بدل کر اس کے مضر کی طرف جانے کو ترجیح دی _طبری نے لکھا ہے''با

____________________

۱)وقعہ صفین نصر بن مزاحم ص ۲۲۹ ، انساب الاشراف ج/۲ ص ۳۰۵، الفتوح ابن اعثم ج ۳ ص ۱۴۱و ج ۲ ص ۲۹۹ ،۱ و تاریخ الامم و الملوک ج ۴ ص ۹ اور اس میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے پہلے شامی قبائل کے متعلق جستجو اور پوچھ گچھ کی پھر مذکورہ فیصلہ کیا_

۲)الفتوح لابن اعثم ج/ ۲ ص ۲۹۹_ (۳)لباب الآداب ص ۱۸۷ ، الاصابة ج/ ۱ ص ۲۴۸ _الجمل شیخ مفید ص ۱۴۹_

۲۰۸

بصیرت مختارنے سوچا کہ ابراہیم اگر اپنی قوم کی طرف جائے گا تو قتل و غارت بھی کم کرے گا_پس مختار نے یوں کہا کہ جاؤ مضر کی طرف جھاڑوپھیرو ''(۱) خلاصہ یہ کہ جب ایک ہی قبیلے کے بعض افراد یا بعض گروہوں کے درمیان جنگ ہو تو غالباً خون کم بہتا ہے ( جب کہ دو مختلف قبائل میں ایسا نہیں ہوتا) کیونکہ دونوںطرف نسلی ہمدردیاں اور قبائلی قرابت داری موجودہوتی ہے جس سے کینہ ختم کرنا آسان ہوتا ہے_ اس لئے کہ خلوص ، پیار اور محبت سے معمور زندگی کی طرف دوبارہ لوٹنے کے لئے حالات مساعد ہوتے ہیں _ ہماری اس بات کی دلیل یہ ہے کہ قریش ایک لمبی مدت تک انصار کے زخم نہ بھولے اور بد لہ لینے کی کوشش میں انہوں نے نہ ہی کھل کر غم منایا اور نہ ہی کوئی اور کسر چھوڑی_ بلکہ قریش تو (حضرت علیعليه‌السلام کے انہیں ذلیل و خوار کرنے کی وجہ سے )پورے قبیلہ بنی ہاشم کے خلاف اپنے دلوں میں سخت کینہ رکھتے تھے _ خود رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ان کینوں کے نیتجے میں اپنے اہل بیتعليه‌السلام پر ہونے والے مظالم کے تصور سے گریہ فرمایا کرتے تھے(۲) _

گذشتہ تمام باتیں تو اس بات کے علاوہ ہیں کہ اپنوں کے خلاف اس جہاد میں ان کی آزمائشے بھی ہو رہی تھی ، کیونکہ اپنے رشتہ داروں کے قتل جیسی کٹھن ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے پختہ ایمان اور مکمل اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے _ خدا نے بنی اسرائیل کو بھی اسی طرح آزمایا تھا بلکہ خود حضرت اسماعیلعليه‌السلام کے معاملے میں بھی حضرت ابراہیمعليه‌السلام کا اسی طرح کا امتحان لیا تھا _

قریش اور انصار

انصار کے خلاف قریش کے جذبات اور عزائم کے مطالعے کے سلسلے میں سب سے پہلے جنگ بدر کے بعد کہے گئے ابوسفیان کے مندرجہ ذیل اشعار کا مطالعہ ضروری ہے _

____________________

۱)تاریخ طبری ط الاستقامة ج/۴ ص ۵۲۱_

۲) ملاحظہ ہو: امالی شیخ صدوق ص ۱۰۲، فرائد السمطین ج ۲ ص ۳۶، بحار الانوار ج ۲۸ ص ۳۷، ص ۳۸، ص ۴۱، ص ۵۱و ص ۸۱و ج ۴۳ ص ۱۷۲و ص ۱۵۶ ، العوالم ص ۲۱۶، ص ۲۱۷و ص ۲۱۸، کشف الغمہ اربلی ج ۲ ص ۳۶، انساب الاشراف بلاذری و مسند ابویعلی ج ۱ ص ۴۲۷، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۱۸ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۳۹، المطالب العالیہ ج ۴ ص ۶۱ طبع دار المعرفہ_

۲۰۹

آلیت لا اقرب النساء و لا

یمس راسی و جلدی الغسل

حتی تبیروا قبائل الاوس والخزرج

ان الفؤاد یشتعل

میں نے قسم کھالی ہے کہ جب تک اوس و خزرج کو نابودنہیں کردوں گا تب تک میں عورتوں کے قریب جاؤں گا نہ اپنے جسم کے کسی حصے کو دھوؤں گا_ کیونکہ دل مسلسل آگ میں جل رہاہے_

اس بات کو انصار بھی اچھی طرح جانتے تھے _اسی لئے جب پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت ہوئی تو انصار نے بہت گریہ کیا کیونکہ انہیں معلوم نہ تھا کہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چلے جانے کے بعد ان کے ساتھ کیا کریں گے(۱) _

ان لوگوں نے سعد بن عبادہ کی بیعت بھی صرف اور صرف اسی خیال کے تحت کی _اس بات کو حباب بن منذر نے سقیفہ کے دن یوں بیان کیا:'' ہمیں تو اس بات کا ڈرہے کہ حکومت تمہارے بعد ان لوگوں کے ہاتھ آجائے گی جن کے آباء و اجداد ، بھائیوں اور بیٹوں کو ہم لوگ قتل کرچکے ہیں ''_(۲) حضرت علیعليه‌السلام نے سعد بن عبادہ کے اپنے لئے بیعت طلب کرنے کی وجوہات بھی بیان کی ہیں _ آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب کو ایک خط میں لکھا : ''جب سعد نے دیکھا کہ لوگ ابوبکر کی بیعت کرنے لگے ہیں تو اس نے پکار کر کہا کہ لوگو خدا کی قسم جب میں نے دیکھا کہ تم لوگ حضرت علیعليه‌السلام سے روگردانی کرچکے ہو تب میں نے یہ کام کیا _ او رجب تک علیعليه‌السلام بیعت نہیں کرتے میں بھی تم سے بیعت نہیں لیتا _ اور علیعليه‌السلام کی خاطر میں کچھ بھی نہیں کروں گا چاہے وہ بیعت کر بھی لیں ''_ نیز اسی خط میں ہی ایک جگہ تحریر ہے کہ انصار نے کہا : '' پس اگر تم حکومت علیعليه‌السلام کے سپرد نہیں کرتے تو ہمارا سردار دیگر تمام لوگوں سے زیادہ اس کا حق دار ہے ''(۳) اس سے واضح ہوتا ہے کہ انصار نے یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ انہیں یہ یقین ہوگیا تھا کہ عرب اور قریش مل کر علیعليه‌السلام کو اقتدار نہیں دینا چاہتے، جبکہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سخت ،

____________________

۱) مسند احمد ج ۵ ص ۳۳۹ و مجمع الزوائد ج ۹ ص ۳۴ از مسند احمد _

۲) حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۲۰_

۳) معادن الحکمة ص ۱۵۳ و ۱۵۴ ، نیز اسی کتاب کے ص ۴۷۰، تا ۴۷۳ کا حاشیہ بھی ملاحظہ فرمائیں تو اس میں کثیر منابع تحریر ہیں _

۲۱۰

غلیظ اور( نعوذ باللہ ) توہین آمیز الفاظ میں تحریر لکھنے سے منع کئے جانے اور پھر اسامہ کے لشکر کی روانگی میں تاخیر اور دیگر واقعات و حالات سے ان کا یہ یقین مزید پختہ ہو گیا تھا _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعدوہی ہوا جس کاڈر تھا یعنی انصار کو مصیبتوں نے گھیر لیا ،ان پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، ساری قوتیں ، ترجیحات اور اہمیتیں مہاجرین کو حاصل ہوگئیں_ یہ اس بات کی تائید و تصدیق تھی جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں بتایا تھا کہ میرے بعد تم لوگوں پر مصیبتیں آئیں گی_ پھر فرمایا تھا کہ تم لوگ صبر کرنا یہاں تک حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو_(۱)

مندرجہ ذیل امور اسکی دلیل ہیں_

۱ _ محمد بن مسلمہ نے جب قریش کو قیمتی پوشاکیں پہن کر تکبر کرتے ہوئے دیکھا تو مسجد میں آکر بلند آواز سے تکبیر بلند کی جس پر حضرت عمر نے اسے بلوا یا اور اس سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے تکبر و خودپسندی کے اس منظر کو بیان کیا پھر کہا : ''استغفر اللہ میں دوبارہ یہ کام نہیں کروں گا ''(۲) _ حالانکہ محمد بن مسلمہ حکمران طبقے کے قریبیوں اور انتہائی وفادار یا رو انصار میں سے تھا جس پر وہ اطمینان و اعتماد کا اظہار کیا کرتے تھے_

۲ _ حضرت عمر نے اپنی خلافت کے آخری ایا م میںمالداروں کا زائد مال لے کر مہاجرین کے فقیروں میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا(۳) _

۳_ حضرت عمر جمعہ کے دن دو اہم کام کیا کرتے ایک یہ کہ مہاجرین کے یتیموں کے اموال کی دیکھ بھال کرتے تھے اور دوسرا غلاموں کے حالات کا جائزہ لیتے(۴) _

____________________

۱) ملاحظہ ہو : حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۰۹ و ص ۴۱۱ و ص ۴۱۴_

۲)حیاة الصحابہ ج/ ۱ ص ۴۱۳ ،کنز العمال ج/ ۱ ص ۳۲۹ ،از ابن عساکر _

۳)ہمارے مضمون '' ابوذر سو شلسٹ ، کیمونسٹ یا مسلمان''کا آخری حصہ ہماری کتاب ''دراسات و بحوث فی التاریخ والاسلام'' میں ملاحظہ کریں_

۴) المصنف ج/۲ ص ۳۴۹ اوراس کے حاشیہ ج/۱ص ۶۹ پر مالک سے _

۲۱۱

۴ _ حضرت عمر انصار کی ضروریات اور درخواستوں کا کوئی خیال نہ رکھتے تھے البتہ ابن عباس اگر کبھی رابطہ کرتے تو کچھ کردیتے_(۱) _

۵ _ صرف بنی ہاشم ہی تھے جو انصار کا خیال رکھتے تھے حضرت عمر کے زمانے کے بعدتو انصار کے حالات مزید بگڑ گئے حتی کہ :

۶ _ یزید نے کعب بن جعیل کو بلایا اوراس سے انصار کی برائی بیان کرنے کا مطالبہ کیا _ کعب نے اس سے کہا: '' کیا تم مجھے دوبارہ شرک کی طرف پلٹاناچاہتے ہو_ کیا میں اس قوم کی برائی بیان کرو ں جس نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کی اور انہیں پنا ہ دی ؟'' اس کے بعد کعب نے یزید کو اخطل نصرانی کے متعلق کہا جس نے یزید کی فرمائشے پر یہ شعر پڑھا_

ذهبت قریش بالسماحة والندی

واللؤم تحت عمائم الانصار(۲)

قریش نے بڑی سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کیا لیکن انصار کے عماموں تلے کمینگی چھپی ہوئی ہے_

۷ _ اسکے بعد یزید نے'' حرہ '' کے واقعہ میں ظلم و جنایات کی حدیں توڑ کے رکھ دیں_ اس واقعہ میں انصار کے عزیزوں کو ذلیل کیا گیا ، ان کی ہتک حرمت کی گئی ، ان کی عزتوں کو لوٹا گیااور ان کے مردوں کو قتل کردیا گیا_ یہ واقعہ اموی حکمرانوں کے ننگ و عار کا منہ بولتا ثبوت ہے اور انکے ماتھے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کلنک کاٹیکا بن کے رہ گیا _ امویوں نے پرانے بغض ،کینے اور دشمنی کی بناپر ذلت و عار کا ارتکاب کیالیکن یہ رسوائی ہمیشہ کے لئے کینہ پرور اموری حکمرانوں اور ان کے چاہنے والوں اور پیروکاروں کے دامن پر کبھی نہ مٹنے والا داغ بن گئی ہے _

____________________

۱) حیاة الصحابہ ج/ ۱ ص ۴۱۴ ، ۴۱۵، ۴۱۶_

۲)الشعر والشعراء لابن قتیبة ص ۳۰۲_

۲۱۲

تاریخی دغابازی

مدائنی کہتاہے کہ مجھے ابن شہاب نے بتایا ،اس نے کہا کہ مجھے خالد بن عبداللہ القسری نے کہا کہ میرے لئے نسب نامہ لکھو _میں نے ''مضر'' کے نسب نامے سے شروع کیا _ ابھی اسے مکمل بھی نہ کیا تھا کہ اس نے کہا : ''اس کو کاٹ دو ، کاٹ دو _ اللہ ان کی جڑیں کاٹے ''_ پھر اس نے کہا :'' میرے لئے کوئی سیرت تحریر کرو'' _ میں نے کہا : '' اگر کہیں حضرت علی بن ابن طالب کی سیرت کا ذ کر آجائے تو کیا اسے بھی لکھوں ؟'' تو خالد نے کہا : ''نہیں ،لیکن صرف اس صورت میں کہ اسے جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں دکھاؤ'' (خدا خالد اور اسکے چاہنے والوں پر لعنت کرے اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر اللہ کا درود و سلام ہو)(۱)

جب معاویہ کو حضرت علی علیہ السلام کا اپنے فضائل پر مشتمل خط ملا تو اس نے کہا : '' اس خط کو چھپا دو کہیں شامیوں کے ہتھے نہ چڑھ جائے و گرنہ وہ علی بن ابی طالب کے حامی بن جائیں گے''(۲) _ ہشام بن عبدالملک نے اعمش کو خط لکھ کر اس سے عثمان کے فضائل اور حضرت علیعليه‌السلام کی برائیاں لکھنے کا مطالبہ کیا لیکن اس نے انکار کردیا(۳) _ شعبی کہتا ہے کہ اگر میں حضرت علیعليه‌السلام پر جھوٹ گھڑ نے کے بدلے میں ان امویوں سے غلام بننے یا گھر سونے سے بھر دینے کا مطالبہ بھی کرتا تو وہ ایسا کر گذرتے(۴) _ ابو احمد عسکری کا کہنا ہے کہ اوزاعی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے (حدیث کساء کے علاوہ ) فضائل اہل بیتعليه‌السلام کی کوئی روایت ذکر نہیں کی ، واللہ اعلم _ اسی طرح زہری نے بھی صرف ایک حدیث ذکر کی ہے _ یہ دونوں بنی امیہ کے مظالم سے ڈرتے تھے _(۵) ان مؤرخین کی اس تاریخی دغابازی پر یہی دلیل کافی ہے کہ مورخین کے اس دعوے کے باوجود کہ جنگ جمل میں سات سو مہاجر اور انصار ، ستر یا اسی بدری اور بیعت شجرہ میں شامل دو سو صحابی حضرت علیعليه‌السلام کے ساتھ تھے(۶) (شعبی کے بقول ) دشمنان علیعليه‌السلام اور تاریخی دھوکہ باز مؤرخین کی ڈھٹائی اس حد

____________________

۱)الاغانی ج/ ۱۹ ص ۵۹_ (۲) معجم الادباء ج ۵ ص ۲۶۶_ (۳) شدرات الذہب ج ۱ ص ۲۲۱_

۴) تاریخ واسط ص ۱۷۳_ (۵) اسعد الغابہ ج ۲ ص ۲۰_

۶) المعیار و الموازنہ ص ۲۲، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۰۴، الغدیر ج ۱۰ص ۱۶۳ از صفین و ص ۲۶۶ تا ص ۲۶۸ و از شرح نہج البلاغہ ج ۱ ص ۴۸۳و جمہرة خطب العرب ج ۱ ص ۱۷۹و ص ۱۸۳ _

۲۱۳

تک بڑھ گئی کہ وہ یہ کہنے لگے : '' جس کو یہ گمان ہو کہ جنگ جمل میں چار سے زیادہ بدری صحابی موجود تھے اسے جھٹلادو _ علیعليه‌السلام اور عمار ایک طرف اور طلحہ اور زبیر بھی ایک طرف تھے''(۱) _ اسکافی کہتا ہے کہ معاویہ نے صحابہ اور تابعین کے ایک گروہ کو پر کشش تنخواہ اور مراعات پر صرف اس لئے ملازم رکھا ہوا تھا کہ وہ حضرت علیعليه‌السلام کے خلاف ایسی گھٹیا حدیثیں گھڑیں جس سے لوگ حضرت علیعليه‌السلام سے متنفر ہوجائیں اور آپعليه‌السلام پر انگلی اٹھانے لگیں _ اور انہوں نے بھی معاویہ کی من پسند حدیثیں گھڑیں _ ان صحابیوں میں ابوہریرہ ، عمروبن عاص اور مغیرہ بن شعبہ بھی تھے اور تابعیوں میں عروة بن زبیر نام آور ہے(۲) _ نیز معاویہ شامیوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ حضرت علیعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے ساتھی بے نمازی ہیں(۳) _

یہی معاملہ انصار کے ساتھ بھی تھا_ زبیر بن بکار کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ سلیمان بن عبدالملک جب ولی عہد تھا حج کرنے کے لئے نکلا اور مدینے سے گزرا تو ابان بن عثمان سے کہا کہ وہ پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت اور غزوات کا حال تحریر کرے_ ابان نے کہا : '' صحیح سیرت کا ایک نسخہ میرے پاس ہے جسے میں نے بہت مؤثق آدمی سے لیا ہے'' _ سلیمان نے کہا: '' اس سے ایک نسخہ تیار کرو'' ابان نے نسخہ تیار کیا اور لے گیا _ جب سلیمان نے اس پر نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ عقبتین ( عقبہ اولی اور عقبہ ثانیہ کے معروف واقعے ) میںانصار کا ذکر ہے اورجنگ بدر میں بھی انصار کا ذکر ہے تو اس نے کہا کہ میں تو ان لوگوں کے لئے کسی ایسی فضیلت کا قائل نہیں _ اس واقعہ میں یا تو ہمارے خاندان کے متعلق جھوٹ لکھا گیا ہے یا پھر انصار ایسے نہیں تھے _

ابان نے کہا : ''اے امیر شہید مظلوم(۴) کے ساتھ ان کی ظلم و زیادتی ہمارے حق بات بیان کرنے سے مانع تو نہیں ہے _ وہ لوگ ایسے ہی تھے جیسے اس کتاب میں تحریر ہے '' _

سلیمان نے کہا :''جب تک میں امیر المؤمنین سے پوچھ نہ لوں مجھے اس نسخے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ

____________________

۱) العقد الفرید ابن عبدربہ ج ۴ ص ۳۲۸ _ (۲) شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۴ ص ۶۴_

۳)الغدیر ج ۹ ص ۱۲۲ از صفین منقری ص ۴۰۲ و تاریخ طبری ج ۶ ص ۲۳ و شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۲ ص ۲۷۸ و از الکامل فی التاریخ ج ۳ ص ۱۳۵_

۴) یہاں شاید مراد حضرت عثمان ہیں جنہیں اپنے محل میں قتل کردیا گیا تھا _ مترجم

۲۱۴

ہوسکتاہے وہ مخالفت کریں'' پس اس نے اس کتاب کو جلانے کا حکم دیا _

جب سلیمان و اپس پہنچا اور اپنے باپ کو سب کچھ ذکر کیاتو عبدالملک نے کہا : ''ایسی کتاب کی تمہیں کیا ضرورت ہے جس میں ہماری فضیلت بیان نہ ہوئی ہو ؟ تم شامیوں کو وہ باتیں بتانا چاہتے ہو جسے ہم نہیں چاہتے کہ وہ جانیں '' _ اس نے جب اس نسخے کے پھاڑ نے(۱) کی اطلاع دی تو عبدالملک نے اس کے اس کام کو سراہا _

پھر یہ روایت ، سلیمان کے قبیصہ بن دؤیب کو سارا ماجرا بیان کرنے اور اس کے جواب کے بعد کہتی ہے کہ : پس سلیمان نے کہا :'' اے ابواسحاق کیا مجھے امیر المؤمنین اور انکے خاندان کی جانب سے انصار سے دشمنی اور انہیں اتنا پسماندہ رکھنے کی وجوہات کے متعلق نہیں بتا ئیں گے ؟''

اس نے جواب دیا: '' بھتیجے اس کا آغاز کرنے والا معاویہ بن ابی سفیان تھا _اس کے بعد عبدالملک کے والد اور پھر تمہارے والدنے یہ کام کیا '' _ سلیمان نے کہا: '' کس بنیاد پر ایسا ہوا ؟'' اس نے جواب دیا : ''خدا کی قسم میںابھی تمہیں بتانا ہی چاہتا تھا '' _ پھر کہا : ''' انصار نے بنی امیہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور ان کی ایک رسوائی حضرت عثمان کا قتل بھی ہے _ اس وجہ سے بنی امیہ نے ان سے کینہ روا رکھااور ان سے غضبناک رہے اوریہ کینہ انہوں نے نسل در نسل پروان چڑھایا لیکن میں تو امیر المؤمنین کے متعلق پہلے یہ گمان کرتا تھا کا ان کہ انصار کے ساتھ رویہ دوسروں سے مختلف ہوگا اب تم یہ بات اس سے جاکر پوچھ سکتے ہو ''_

سلیمان کہنے لگا:'' اللہ کی قسم میں ایسا ہی کرونگا'' وہ بولتا رہا اور قبیصہ بھی وہاں موجود تھا _ اسی نے جاکر عبدالملک کو ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کی رو داد سنائی تو عبدالملک نے کہا :''اللہ کی قسم میں اس کے علاوہ کچھ کرہی نہیں سکتا _ان کا ذکر بھی اب چھوڑو _ ''

____________________

۱) چند سطر اوپر اس کتاب کے جلائے جانے کا ذکر ہے لیکن یہاں پھاڑنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا ذکر ہے _ بظاہر تو اس واقعہ میں تضاد پایا جاتا ہے لیکن دستاویز چونکہ عربی زبان میں ہے اور عربی میں جلانے کو (حرق) اور پھاڑنے کو ( خرق) کہتے ہیں اس لئے اس میں صرف ایک نکتہ کا فرق ہے جو شاید طباعت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے بہر حال یہ فیصلہ یہاں مشکل ہے کہ '' حرق'' ہے یا '' خرق'' البتہ اصل منبع اور مآخذ سے معلوم ہوسکتا ہے _ مترجم

۲۱۵

اسکے بعد سب لوگ خاموش ہوگئے(۱) لیکن قبیصہ کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ انصار کی محرومیوں کا دور معاویہ کے زمانے سے شروع ہوا _

انصار کی مایوسیوں کا دور تو حضرت عمر بلکہ حضرت ابوبکر کے زمانے سے شروع ہوا تا ہم یہاں تحقیق کا مقام نہیں_ بہر حال کسی انصاری نے یہ اشعار کہے ہیں_

ویل امها امة لو ان قائدها

یتلوا الکتاب و یخشی العار والنار

اما قریش فلم نسمع بمثلهم

غدراً و اقبح فی الاسلام آثارا

ضلوا سوی عصبة حاطوا نبیهم

بالعرف عرفا ً و بالانکار انکارا(۲)

کتنی اچھی ہے وہ قوم جس کا سردار جب بھی قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو گناہ اور جہنم کے تصور سے بھی ڈرتا ہے _لیکن قریش کی خیانت اور اسلام میں انکے انتہائی مکروہ اعمال کی مثال ہم نے کبھی نہ سنی _ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے سب سے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب کے سب گمراہ ہیں _ بہرحال اچھائی کا بدلہ بھی اچھائی ہوتا ہے جبکہ برائی کا بدلہ برائی ہے _

ایک اور انصاری نے کہا ہے_

دعاها الی حرماننا و جفائنا

تذکر قتلی فی القلیب تکبکبوا

____________________

۱)اخبار الموفقیات ص ۳۳۲ _ ۳۳۴_

۲) الحور العین ص ۲۱۵_

۲۱۶

فان یغضب الابناء من قتل من مضی

فو الله ما جئنا قبیحاً فتعتبوا(۱)

انہوں نے ہمیں محرومیاں دیںاور ہم پر ظلم کی داستان رقم کی _وہ جنگ بدر کے اپنے مقتولین کو یاد کر کے تڑپتے اور لوٹتے رہتے ہیں _ ماضی میں بڑوں کے قتل سے اگر ان کے بیٹے آج ہم پر غضبناک ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے کوئی برا کام نہیں کیا تھا جس پر وہ ہم پر غصہ ہو رہے ہیں_

ھ: انصار کے متعلق پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید:

امویوں کی انصار سے دشمنی اپنے مقتولین کی وجہ سے نہیں بلکہ در اصل اسلام سے دشمنی تھی اور اسی اسلام دشمنی کی وجہ سے وہ انصار کے بھی دشمن ہوگئے تھے کیونکہ انصار نے خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کی تھی اور خدا نے ان کے ذریعہ سے شرک کو مٹایا تھا اور مشرکوں کو ذلت اور رسوائی سے دوچار کیا تھا _ یہی علت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بار بار تاکید فرمائی کہ انصار سے محبت کرواور ان کا احترام کرو کیونکہ انہوں نے ہی اس دین کو پناہ دی ، اس کی نصرت کی اور ان کے پاس جو کچھ بھی تھااسے اس دین کے لئے وقف کردیا _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انصار کی محبت کو ایمان اور ان سے نفرت کو نفاق شمار فرمایا(۲) اور فرمایا: '' جس نے انصار سے محبت کی اس نے میرا دل جیت لیا اور جس کسی نے انصار سے دشمنی اور نفرت کی اس نے میری دشمنی اور غضب کو للکارا''(۳) _

____________________

۱) الحورالعین ص ۲۱۵ از امیرنشوان حمیری _

۲)مسند احمد ج ۵ ص ۲۸۵و ج ۶ ص ۷، ج ۴ ص ۲۸۳و ص ۲۹۲و ج ۳ ص ۱۳۰ ، نیز انصار کے فضائل کے متعلق ملاحظہ ہو مسند احمد ج ۴ ص ۷۰ و ج ۶ ص ۳۸۲، مسند ابویعلی ج ۷ ص ۱۹۱ و ۲۸۵و ۲۸۵، منحة المعبود ج ۲ ص ۱۳۸و ۱۳۸، صحیح مسلم ج ۱ ص ۶۰ سنن ابن ماجہ ج ۱ ۵۷ ، ۵۸، ۱۴۰ ، صحیح بخاری ج ۲ ص ۱۹۸و ۱۹۹ و مجمع الزوائد ج ۱۰ ص ۳۹ ، ۴۰_

۳) مجمع الزوائد ج۹ ص ۳۷۶ عن الطبرانی فی الصغیر و الکبیر، البدایة والنہایة ج۳ ص ۲۰۳ ، فتح الباری ج۱ ص ۵۹ ، ۶۰ ، مجمع الزوائد باب حب الانصار ج۱۰ ص ۲۸ ، ۴۲ اس کے علاوہ کتب احادیث میں ایک باب انصار کے فضائل سے مخصوص ہے_

۲۱۷

یہ زیادہ تر انصار ہی تھے جنہوں نے اکثر مہاجرین کے برخلاف اہل بیتعليه‌السلام اور امیر المومنینعليه‌السلام کی راہ میں قربانیاں دیں _اس کے برخلاف مہاجرین ایسے نہ تھے_ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں انصار نے امیر المؤمنینعليه‌السلام کا ساتھ دیا_انصار کے دلوں میں حضرت علیعليه‌السلام کے مقام ، مرتبے اور احترام کی دلیل عمروبن عاص کی زبیر بن بکار کے ذریعہ بیان کردہ وہ روایت ہے جس میں آیا ہے کہ سعد بن عبادہ کے لئے بیعت لینے کی انصار کی ناکام کوششوں کے بعد مسجد نبوی میں عمرو بن عاص نے انصار کے خلاف بہت سخت اور غلیظ زبان استعمال کی _ زبیر کہتا ہے : '' پھر جب وہ متوجہ ہوا تو وہ عباس بن عبدالمطلب کے بیٹے فضل کو دیکھ کر اپنے کئے پر بہت نادم ہوا کیونکہ ایک تو جناب عبدالمطلب کی اولاد کی انصار کے ساتھ ننھیالی رشتہ داری تھی اور دوسرا انصار بھی اس وقت حضرت علیعليه‌السلام کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے اور ان کا دم بھرتے تھے '' پھر روایت یہ بتاتی ہے کہ کس طرح حضرت علیعليه‌السلام نے مسجد میں آکر انصار کا دفاع کیا _ یہ واقعہ بہت طویل ہے(۱) _ بنی ہاشم نے انصار کا ساتھ ا س لئے دیا کہ ایک تو پیامبر گرامی اسلام کی وصیت تھی _اور دوسرا سقیفہ کے دن جب سعد بن عبادہ کی بیعت نہ ہوسکی تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف علیعليه‌السلام کی بیعت کریںگے(۲) یہ حضرت علیعليه‌السلام ہی تھے جنہو ں نے قریش کے بڑے بڑے سور ماؤں اورمتکبروں کو ہلاک کیا تھا_

ان ساری باتوں کی وجہ غالباً یہ تھی کہ یہ لوگ صحیح معنوں میں با ایمان اور پکے دین دار تھے اور انہیں دین کا گہرا شعور حاصل تھا _یہاں تک کہ ان کی خواتین بھی ایسی ہی تھیں _یہاں یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ علماء کہتے ہیں کہ اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سارا علم انصار کے پاس تھا(۳) نیز حضرت عائشہ انصار کی خواتین کے بارے میں فرماتی ہیں : '' اگر چہ قریش کی عورتوں کی فضیلت بہت زیادہ ہے لیکن خدا کی قسم میں نے انصار کی عورتوں سے زیادہ با فضیلت کسی کو نہیں دیکھا، اللہ کی کتاب کی تصدیق کرنے میں ان سے زیادہ قوی کوئی نہیں اور نہ ہی نزول قرآن پر ایمان میں ان سے کوئی آگے ہے''(۴) _

____________________

۱) الموفقیات ص ۵۹۵ و ۵۹۶و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۶ ص ۳۳_

۲) تاریخ ابن اثیر ج ۲ ص ۳۲۵_ (۳) التراتیب الاداریہ ج ۲ ص ۳۲۵_

۴)الدرالمنثور ج/۵ ص۴۲ از ابن ابی حاتم، ابی داود،ابن مردویہ ، تفسیر ابن کثیر ج/۳ ص ۲۸۴، مسند ابوعوانہ ج ۱ ص ۳۱۷ و حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۸۷_

۲۱۸

حضرت عائشہ ہی سے روایت ہے :'' انصار کی خواتین سب سے بہترین خواتین ہیں وہ دین سیکھنے کے لئے بالکل بھی نہیں شرماتیں ''(۱) _

جنگ انصار پر معاف نہ تھی:

گذشتہ بحث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انصار کو جنگوں میں بالکل شرکت ہی نہیں کرنا چاہئے تھا _ کیونکہ اس مسئلے کا تعلق اسلام سے ہے اور اسلام تو ساری امتوں بلکہ تا ابد تمام بنی نوع بشر کے لئے ہے_

اس کی اہمیت اور اس کو در پیش خطرات بہرحال انصار کی اہمیت اور انہیں قریش کی طرف سے در پیش خطرات سے زیادہ ہیں خاص کر اس صورت میں جب اس قسم کی صورتحال کے رد عمل کے طور پر اسلام ، ان کی حفاظت کی ضروری ضمانت بھی فراہم کرتا ہے البتہ جو کچھ ہوا وہ امت کے اسلامی قوانین پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ تھا اور نہ ہی ان ضمانتوں کا خیال رکھا گیا _ اور یہ ایک علیحدہ بات ہے _

پس انصار کے لئے جنگ میں شرکت کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا البتہ یہ بھی ضروری تھا کہ قریش اور اسلام دشمنوں کے کینے کی شدت کم کرنے کے لئے کوئی عملی کام کیا جائے تا کہ مستقبل میں انصار کو در پیش مشکلات اور خطرات میں کچھ حد تک کمی کی جائے _ اور ہوا بھی اسی طرح_ انشاء اللہ جنگ بدر کی بحث میں قریش اور انصار کے مسائل پر مزید بات ہوگی_

____________________

۱)_ ملاحظہ ہو: صحیح بخاری ج۱ ص ۲۴ ، المصنف عبدالرزاق ج ۱ ص ۳۱۴،ا س کے حاشیہ میں ہے کہ یہ روایت بخاری ، مسلم اور ابن ابی شیبہ سے منقول ہے ، کنز العمال ج ۵ ح ۳۱۴۵ نیز خواتین انصار کی علم دین سیکھنے کی کوششوں سے متعلق ملاحظہ ہو: التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۳۲۱_

۲۱۹

۲۲۹

چھٹا باب:

غزوہ بدر کا عظیم معرکہ

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460