الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 200019
ڈاؤنلوڈ: 4015

تبصرے:

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200019 / ڈاؤنلوڈ: 4015
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہی وجہ ہے کہ حضرت حمزہ نے جہنی کی وساطت اور ثالثی کو قبول کرلیا تھا_ اسی طرح عبیدہ بن الحارث نے بھی اس قافلے کا پیچھا نہ کیا جو اس سے آگے نکل گیا تھا نیز قریش کے تین اور قافلے بھی بڑے آسانی اور سلامتی سے گزرگئے تھے اور مسلمان مناسب وقت پر ان تک نہ پہنچ سکے تھے_ یہاں تک کہ جنگ بدر کے موقع پر بھی مسلمان قریش کے قافلے کوپہنچ نہیں پائے تھے لیکن اس کے باوجود قریش نے ہی مسلمانوں سے جنگ کرنے کی ٹھان لی _ انشاء اللہ اس پر بعد میں گفتگو کریں گے _

پس ان سرایا کا مقصد قریش کو یہ باور کرانا تھا کہ اس علاقے میں قریش اب آزادا نہ دندناتے نہیں پھر سکتے اور نہ اب ان کا قانون چلے گا اور آج کے بعد سے شام کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں کی امنیت بھی خطرے میں ہے اور جب تک وہ عقل اور منطق سے کام نہیں لیتے، حکمت کی سیدھی راہ اختیار نہیں کرتے نیز ظلم و تکبر اور جور وستم کار استہ ترک نہیں کردیتے تب تک ان کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا _ اور اب انہیں اپنا مکمل محاسبہ کرنا ہوگا تا کہ انہیں یہ یقین ہوجائے کہ اب ان کے لئے طاقت کے ساتھ اس موقف کی سرکوبی نہایت مشکل ہوگئی ہے اور اب جلد یا بدیر ان کے لئے حقیقت کے اعتراف کرنے اور حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہے گا _ ور نہ دوسری صورت میں وہ خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دعوت جنگ دیں گے جس کے نتیجے میں ان کا غرور اور تکبر سب کچھ خاک میں مل جائے گا _ اور ہوا بھی یہی _

بہر حال مسلمانوں نے قریش کے تجارتی قافلوں کو چھیڑنے پر اکتفا کیا اور قافلوں کو لوٹنے کی کوشش نہیں کی صرف اس لئے کہ قریش کے لئے سامنے کا ایک دروازہ کھلا رکھیں اور انہیں اس معاملے میں سوچ بچار کی مہلت دیں _ و گرنہ وہ قافلوں کو لوٹنے کا حق بھی رکھتے تھے _ کیونکہ یہ قریش سے عادلانہ اور منصفانہ بدلہ ہوتا جنہوں نے دشمنی کی ابتدا کی تھی اور ظلم اور زیادتی کی حدیں توڑدی تھیں _ بہر حال اگر مسلمانوں کو یہ لوٹنا مہنگانہ پڑتاتو اپنے حق کے حصول کی جد و جہد میں کوئی اور رکاوٹ نہیں تھی _ البتہ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ ان سرایا کا مقصد جنگ نہیں بلکہ کچھ اور تھا کیونکہ ان سرایا میں بھیجے جانے والے مسلمان جنگجوؤں کی تعداد کم

۲۰۱

ہوتی تھی_ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ سرایا کے مقاصد کو سمجھنے کے لئے یہ دلیل کافی اور قانع کرنے والی نہیں ہے کیونکہ تجارتی قافلوں کو روکنے یاانہیں لوٹنے کے لئے کم افراد ہی کافی ہوتے ہیں اور اتنی تعداد میں جنگجوؤں کے شریک ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی _ہم یہاں صرف اس بات کا ذکر کریں گے کہ مسلمانوں کے ان قافلوں پر گھات لگانے اور چھیڑ چھاڑ کے بعد قریش نے جو سب سے بڑا تجارتی قافلہ بھیجا یہ وہی تھا جس کے نتیجے میں جنگ بدر واقع ہوئی (حالانکہ چھیڑچھاڑ طبعی طور پر محافظین کی تعدا بڑھانے کا باعث ہوئی تھی ) اس قافلے کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی_ جبکہ اس قافلے کے ساتھ صرف بیس(۲۰) سے کچھ زیادہ افراد تھے حالانکہ یہ قافلے دوہزار سے بھی زیادہ اونٹوں پر مشتمل تھا اور اس میں قریش کا تجارتی سامان بھی موجود تھا _

۳_سپاہیوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصیحتیں

سرایا کے لئے جانے والے سپاہیوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گذشتہ نصیحتوں کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقصد صر ف زمین کو آباد کرنا اور زمین سے فتنہ و فساد کا خاتمہ تھا ، منحرفوں اور ظالموں سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جہاد کی نوعیت بھی ایسی ہی تھی بالفاظ دیگر یہ عمل کڑوی دوا کی طرح تھا_ پس جو عمل بھی اس ہدف سے دور ہوتاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں انتہائی قابل نفرت اور قابل مذمت تھا _چاہے یہ عمل اصحاب نے یا کسی قریبی نے ہی انجام دیا ہو_ اس سلسلے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصیحتوں کے گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے تا کہ صاحب انصاف با ضمیر اور زندہ دل انسان بہت سے اہم حقائق کا ادراک کر کے اپنے گفتار اور کردار نیز نظریات اور اعمال میںان سے استفادہ کرے اور اس سے زندگی کا بہترین راستہ منتخب کرے _ حضرت علی علیہ السلام بھی اپنے فوجیوں کو نصیحت کرنے کے معاملے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نقش قدم پر چلے ہیں _ اس بارے میں مندرجہ ذیل منابع کا مطالعہ فرمائیں(۱) _

____________________

۱) تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۱۸۲ و ۱۸۳، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱ ص ۲۳ الفتوح ابن اکثم ج ۳ ص ۴۵ و ۱۳۵ و انساب الاشراف با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۲۶۲ و ص ۲۴۰و ص ۳۰۲و ص ۳۳۱ و ص ۴۷۹_

۲۰۲

۴_ صرف مہاجرین ہی کیوں ؟

یہ بات قابل غور ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر سے پہلے کے غزوات اور سرایا میں صرف مہاجرین کو ہی بھیجتے تھے_اس لئے یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسا کیوں کرتے تھے؟اور اس امر میں کیا حکمت پوشیدہ تھی ؟

اس کا ایک جواب یہ دیا جاتاہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار کو سمجھانا چاہتے تھے کہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے مقاصد کے حصول پر مصمم ہیں چاہے انصار مدد نہ بھی کریں اور انصار کہیں یہ تصور نہ کریں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،مہاجرین کا بچاؤ کر کے ہمیں اپنے اہداف کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں_اوراس گمان سے انصارکہیں مظلومیت اور کمزوری کا احساس نہ کریں_

ہمارے خیال میں بات اس سے کہیں زیادہ گہری ہے لہذا ہم مندرجہ ذیل عناوین سے اس کا جائزہ لیتے ہیں_

الف: انصار کا گمان

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انصار کا خیال تھاکہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد و نصرت کا فریضہ فقط اپنے علاقے تک ہی محدود ہے_ اگر اچانک کوئی معاملہ پیش آگیا تو وہ اس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اسی طرح کریںگے جیسے وہ اپنی حفاظت کرتے ہیں لیکن اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود حملہ فرماتے ہیں یا کسی اور علاقے میں جنگ ہوتی ہے تو انصار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد نہیں کریں گے_ اس بات پر غالباً بیعت عقبہ کے موقع پراتفاق ہوا تھا_ اس پر مؤرخین کی یہ بات بھی دلیل ہے جو انھوں نے جنگ بدر کے حالات میں نہایت واضح طور پر بیان کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ انصار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مددنہیں کریں گے مگر یہ کہ مدینے میںآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اچانک کوئی افتاد آن پڑتی _ اس لئے انصار کا آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس جنگ پر جانا ضروری نہیں تھا_ اس کی تفصیلات غزوہ بدر کے حالات میں آئیں گی_

انشاء اللہ تعالی

۲۰۳

باء : جنگ اور امن کا مسئلہ

اہل مدینہ کے لئے جنگ کوئی آسان مسئلہ نہ تھا_کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ انہیں ہی جنگ کی نہایت اہم ذمہ داریوں کو قبول کرنا ہوگا_ اس راہ میں اپنی جان اور مال کی قربانی دینی ہوگی _ اور انہیں ہی اپنے وسیع معاشرتی، اقتصادی ، سیاسی اور دیگر تعلقات پر اس کے اثرات و نتائج کا سامنا کرنا ہوگا_ عربوں کے نزدیک یہ مسئلہ انتہائی اہم اورخطیر تھا کیونکہ یہ مسئلہ خون، انتقام، زندگی، موت، خوشبختی اور بدبختی کا مسئلہ تھا_

جب جنگ کا مطلب ہی یہی کچھ ہے تو پھر ان لوگوں میں اعلی سطح کے صبر، برداشت اور تحمل کے ہو نے کے علاوہ ان لوگوں کا اپنی مرضی سے ان جنگوں میں حصہ لینا نہایت ضروری تھا_ اگر ( آغاز ہی میں) ان پر جنگ کا فریضہ عائد کردیا جاتا تو ممکن تھا کہ اس کے نتائج بالکل برعکس ہوتے یا شاید انتہائی خطرناک ہوتے جن کے نتیجے میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل پر بہت زیادہ مشکلات اور مصیبتیںنازل ہوتیں جن کامداوا بھی مشکل ہوتا_ ان مشکلات سے اپنے عظیم اور اعلی ہدف کی کامیابی کے ساتھ اپنی مرضی اور عزت سے نکلنا ممکن نہ ہوتا _

یہی سبب ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر اور احد کے سلسلے میں اپنے اصحاب سے مشاورت فرمائی_ اس بات پر ہم انشاء اللہ بعد میں گفتگوکریں گے_

ج :انصار کے مخصوص حالات

انصار اپنے علاقے میں (اپنے رسوم و رواج اور طبعی سماجی تعلقات میں گھرے)امن و امان کی زندگی بسر کررہے تھے_ یہ لوگ اپنے ماحول سے بہت زیادہ مانوس تھے_ اپنے معاشی معاملات اور زراعت کے مسائل میں مصروف تھے اور اپنی زمینوں سے استفادہ کررہے تھے_ یہ لوگ اپنی خوشحال زندگی کے معاملات میں مگن تھے اور یہی چیز اس بات کا باعث تھی کہ وہ اپنی زندگی سے پیار کریں _ ان حالات میںکسی ایسے بہت ہی طاقتور عامل یا سبب کی ضرورت تھی جو انہیں ان حالات سے نکال کرحال اور مستقبل میں کٹھن مشکلات،

۲۰۴

اور تکالیف میں گھرے نئے حالات میں لے جاتا_

اسی طرح کل کلاںانصار کو قریش سے جنگ بھی کرنا ہوگی_اور قریش ایک ایسا قبیلہ تھاجو عربوں میںبہت بڑاخطرناک ، با اثر اور بانفوذ بلکہ محترم قبیلہ تھا_ پس انصار کے لئے اہل مکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں ڈالنے والے کسی بھی کام کے اقدام سے پہلے اپنے آپ کو ذہنی ، عملی اور سماجی طور پر اس نئے معاشرے اور نئے حالات سے ہم آہنگ کرنا ضروری تھا_خصوصاً جبکہ مکہ والوں سے دشمنی مول لینے سے تمام عربوں کی طرف سے دشمنی کا خطرہ لاحق تھا _خاص طور پر ایسے حالات میں جبکہ دوسروں کی نظر میں اہل مدینہ قصور واربھی ہوں_ اور ایسا ہوا بھی ہے کیونکہ تاریخی دستاویزات میں ابی بن کعب کی یہ بات مذکور ہے کہ جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اصحاب نے مدینہ ہجرت فرمائی اور انصار نے انہیں پناہ دی توسارا عرب ان کا دشمن بن گیااسکے بعد اہل مدینہ راتوں کو اسلحہ لے کر سوتے اور دن کو بھی اسلحہ سے لیس ہوتے تھے(۱) جس پر خدا نے دشمنوں کی سازشوں کا توڑ اور اپنا دفاع کرنے کے لئے انہیں جنگ اور جہاد کی اجازت دی کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے (اذن للذین یقاتلون بانھم ظلمواوان اللہ علی نصرہم قدیر)(۲)

لیکن دوسری طرف مہاجرین کے حالات اس لحاظ سے ان سے بالکل مختلف تھے_ ان کی قریش سے جنگ اور نبرد آزمائی سہل اور آسان تھی_ ان کی قریش کے خلاف معرکہ آرائی کی وجوہات واضح طور پربالکل ذاتی اور معاشرتی نوعیت کی تھیں_ کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ قریش ہی وہ ظالم قوت تھی جس نے ان مہاجرین کی ا ہانت کی ، ان کواذیتوں سے دوچار کیا، ان کے گھر وں سے انہیں نکال باہر کیااور ان کے اموال چھین لئے تھے _ اور یہ دھتکارے ہوئے، مغلوب مہاجرین، قریش کے ظلم کومحسوس کر چکے تھے اور یہ جانتے تھے کہ قریش اخلاقیات کے حدوں کو پھلانگ چکے ہیں، معاشرتی رسم و رواج کی بیخ کنی کرچکے ہیں اور عقلی ، دینی اور فطری احکام کی بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں_ پس ایسے مسلمان مہاجرین کا غصہ اور دفاع

____________________

۱)منتخب کنزالعمال ج/۱ص ۴۶۵دبر حاشیہ مسند احمد) از دلائل النبوة بیہقی ، ابن مردویہ ،ابن منذر،کنز العمال ج/۱ ص۲۹۵ از مذکورہ افراد و از ،طبرانی ، الحاکم، سعیدبن منصور، اور روح المعانی ج/۶ ص ۹۸ نیز ملاحظہ ہو : سیرہ حلبیہ ، ج ۲ ، ص ۱۲۳، بحارالانوار ، ج ۱۹، ص ۸، اعلام الوری ، ص ۵۵_

۲) حج ۶/۳۹_

۲۰۵

فطری طور پر انتہائی عظیم اور شدید تھا_ اس وجہ سے قریش کے قافلوں کو تنگ کرناان کے لئے نہایت آسان تھا_ کیونکہ یہ تجارتی قافلے اس لٹے پٹے گروہ کے لئے دشمنیوں کا مجسم نمونہ تھے اس لئے کہ ان تجارتی قافلہ والوں کے پاس جو بھی مال تھا سب ان لٹے پٹے اور شہر بدر کئے گئے لوگوں کامال تھا _ خلاصہ یہ کہ مہاجرین کی ان جنگوں کو زیادتی اور دشمنی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ قریشیوں کے خلاف مہاجرین کی جنگ تو انتہائی عادلانہ اور حقوق کے حصول کے لئے تھی _ کیونکہ ان مہاجرین کے ساتھ قریش کا تو معاملہ ہی ایسا تھا اور مخالفین کے ساتھ ان کا سلوک بھی تو بہت برا تھا_ اور وہ مخالف تھے کون ؟ وہ تو باقی لوگوںکی نسبت ان کے سب سے زیادہ قریبی اور پیارے تھے_ پس یہیں سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ غیروں کے ساتھ ان کا کیا سلوک ہوگا جن کے ساتھ نہ توان کا کوئی قریبی رابطہ و تعلق تھا اور نہ ہی کوئی رشتہ داری بنتی تھی_

د: مہاجرین کی نفسیاتی کیفیت

گذشتہ عرائض کی روشنی میں معلوم ہو جاتا ہے کہ انصار کی بہ نسبت مہاجرین کے لئے جہاد نہایت آسان تھا _ کیونکہ یہ دشمنی اور چڑھائی شمار نہیں ہوتی تھی بلکہ دفاع شمار ہوتا تھا _ پس اس صورت میں اس جہاد کے لئے سیاسی اور اجتماعی بلکہ ایسے ذاتی اہداف اور مقاصد بھی پائے جاتے تھے کہ جن کا حصول بھی نہایت ضروری تھا اور جس کی وجہ سے انصار بھی اسلام کی مضبوط ڈھال اور کاٹ دار تلوار کی حیثیت سے اس جہاد میں شامل ہو جاتے _پس مہاجرین نے اپنی فعالیت شروع کردی اور اس فعالیت سے ان غریب الوطن مہاجرین کو ایک موقع ملا کہ وہ اس نئے علاقے کی جغرافیائی شناخت قائم کرسکیں ،چاہے محدود پیمانے پر ہی سہی _ کیونکہ نفسیانی طور پر مجروح یہ مہاجرین اس نئے علاقے سے اجنبیت کا شدید احساس رکھتے تھے_ انہیں ایک ایسے تحرک کی ضرورت تھی جس سے ان کی خود اعتمادی دوبارہ لوٹ سکے انہیں معنوی ترقی حاصل ہو اور ان میں قوت، استقلال اور آزادی کا احساس و شعوراجا گر ہو _ اب ان تحرکات سے ان میں یہ احساس پیدا ہوگیا تھا کہ ، اب وہ قریش کو تنگ کرنے اور ان پردباؤ ڈالنے کی طاقت رکھتے ہیں _ اب ان لوگوں میں خود اعتمادی

۲۰۶

کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی _

نیز اس علاقے میں رہنے والے دیگر قبائل کے ساتھ رسولعليه‌السلام خدا کے صلح کے معاہدے نے بھی ان کی خود اعتمادی میں مزید اضافہ کردیا تھا _ لیکن انصار ان مذکورہ باتوںسے بالکل بے نیاز تھے_ پس وہ مہاجرین جن پر آزمائشےوں نے گہرے اثرات چھوڑے ہوں اور صدمات نے ان کے ایمان کو متزلزل کردیا ہو ان کا جہاد کرنا اور اس دین کی راہ میں قربانی دینا انہیں ( نفسانی کمزوری کے سبب) شیطان کے چنگل اور وسوسوں میں پھنسنے سے بچا سکتا ہے _ کوئی مسلمان جب خود کو دین اور عقیدے کی راہ میں مصروف عمل ، اس راہ میں قربانی دیتا ہوا اور اپنے اس عمل کو پر ثمر اوراس کا نتیجہ خوب سے خوب تر دیکھے گا تو اسے پھر سے ثبات ، استقلال اور اطمینان قلب حاصل ہوگا اور اس کی آزمائشےیں کم سے کمتر ہوں گی جن کا منفی رد عمل بھی نایاب ہوگا اور جس مقصد اور چیز کے لئے اس نے قربانیاں دی ہیں اور مشقتیںاٹھائی ہیں اس کے ساتھ اس کا تعلق مزید پختہ اور مضبوط ہوجائے گا _

عربوں میں خون کا معاملہ

عرب، خون کبھی معاف نہیں کرتے تھے اور کبھی بھی اس سے چشم پوشی نہیں کرتے تھے '' خون کا بدلہ خون'' کی بنیاد پر مختلف قبائل اور اقوام کے آپس میں سیاسی ، اقتصادی ، معاشرتی اور دیگر روابط قائم ہوتے تھے_ بعض اوقات تو خون کے انتقام کا یہ مسئلہ کئی نسلوں تک چلتا تھا_

اب جب ایک ایسے اسلامی معاشرے کی تشکیل کی ضرورت ہے جس میںہر کوئی ایک دوسرے کا ضامن ہو اور ایک جسم کی طرح سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں تو ایسے معاشرے کے لئے خون اور اس کے بدلے کا دائرہ ممکنہ حد تک تنگ کرنا ضروری تھا_تاکہ اس کینے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے جو روحوں میں سرایت کر چکا تھا اور اس کے اثرات آنے والی نسلوں پر کئی دہائیوں بلکہ صدیوں تک باقی رہتے تھے _

۲۰۷

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اگر چہ جنگ بدر میں انصار کی تعداد مہاجرین کی نسبت چاریا پانچ گنا زیادہ تھی لیکن اکثر مشرکین کا قتل حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حمزہ کے ہاتھوں ہو اجو مہاجر اور قریشی تھے _

بالکل اسی لئے نیز مقتولین کی تعداد کم کرنے کے لئے امیر المومنینعليه‌السلام نے جنگ صفین میں قبیلہ ازداور قبیلہ خثم کو فرمایا کہ صرف اپنے ہم قبیلہ لوگوں کے ساتھ لڑو ، اسی طرح اہل عراق کے ہر قبیلہ کو فرمایا کہ وہ اہل شام کے اپنے ہم قبیلہ افراد کے مقابل ہو ں مگر یہ کہ اہل شام میںان کے ہم قبیلہ افراد نہ ہوں یا بہت کم ہوں مثلاً شامی فوج میں بجیلہ کے بہت کم لوگ تھے تو انہیں قبیلہ لخم کے مقابل قرار دیا(۱) یہی معاملہ جنگ جمل میں ہوا_ جنگ جمل میں حضرت علیعليه‌السلام نے جناب عائشہ کی فوج میں ایک منادی کو یہ اعلان کرنے کے لئے بھیجا(۲) کہ مالک اشتر اور جندب بن زہیر کی تلوار سے بچو(۳) پھر آپعليه‌السلام نے ہی ان کی طرف صلح نامہ بھیج کر انہیں کتاب و سنت کے مطابق صلح کرنے کا کہا لیکن ا نہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قاصد ہی قتل کردیا _ یہ تو ان کوششوں کے علاوہ ہے جو آپعليه‌السلام نے طلحہ ، زبیر اور عائشہ کو جنگ سے روکنے کے لئے صرف کر دی تھیں _ اور آپعليه‌السلام نے ہی بی بی عائشہ کی ناقہ کی کونچیں کٹ جانے پر جنگ ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا اور مقتولین پر اظہار افسوس بھی کیا تھا _ اسی طرح جنگ صفین میں بھی آپعليه‌السلام نے معاویہ اور اس کے حلیفوں کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے باز رہنے اور احکام خداوندی کو قبول کرنے کے لئے راضی کرنے کی کئی ہفتوں پر محیط بہت کوششیں کیں _

یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ حضرت علیعليه‌السلام انسانوں کو قتل نہ کرنا چاہتے تھے بلکہ آپعليه‌السلام کا مقصد فقط امت محمدیہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اور زندہ دلی کے لئے کم سے کم نقصان میں فتنہ و فساد کا قلع قمع اور دین کا نفاذ تھا اس بات کی تاریخی گواہی یوں دی جاسکتی ہے کہ مختار ثقفی نے پہلے ابراہیم بن مالک اشتر سے کہا کہ وہ قبیلہ مضر یا اہل یمن کی طرف جائے لیکن پھر اس نے اپنا نظریہ بدل کر اس کے مضر کی طرف جانے کو ترجیح دی _طبری نے لکھا ہے''با

____________________

۱)وقعہ صفین نصر بن مزاحم ص ۲۲۹ ، انساب الاشراف ج/۲ ص ۳۰۵، الفتوح ابن اعثم ج ۳ ص ۱۴۱و ج ۲ ص ۲۹۹ ،۱ و تاریخ الامم و الملوک ج ۴ ص ۹ اور اس میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے پہلے شامی قبائل کے متعلق جستجو اور پوچھ گچھ کی پھر مذکورہ فیصلہ کیا_

۲)الفتوح لابن اعثم ج/ ۲ ص ۲۹۹_ (۳)لباب الآداب ص ۱۸۷ ، الاصابة ج/ ۱ ص ۲۴۸ _الجمل شیخ مفید ص ۱۴۹_

۲۰۸

بصیرت مختارنے سوچا کہ ابراہیم اگر اپنی قوم کی طرف جائے گا تو قتل و غارت بھی کم کرے گا_پس مختار نے یوں کہا کہ جاؤ مضر کی طرف جھاڑوپھیرو ''(۱) خلاصہ یہ کہ جب ایک ہی قبیلے کے بعض افراد یا بعض گروہوں کے درمیان جنگ ہو تو غالباً خون کم بہتا ہے ( جب کہ دو مختلف قبائل میں ایسا نہیں ہوتا) کیونکہ دونوںطرف نسلی ہمدردیاں اور قبائلی قرابت داری موجودہوتی ہے جس سے کینہ ختم کرنا آسان ہوتا ہے_ اس لئے کہ خلوص ، پیار اور محبت سے معمور زندگی کی طرف دوبارہ لوٹنے کے لئے حالات مساعد ہوتے ہیں _ ہماری اس بات کی دلیل یہ ہے کہ قریش ایک لمبی مدت تک انصار کے زخم نہ بھولے اور بد لہ لینے کی کوشش میں انہوں نے نہ ہی کھل کر غم منایا اور نہ ہی کوئی اور کسر چھوڑی_ بلکہ قریش تو (حضرت علیعليه‌السلام کے انہیں ذلیل و خوار کرنے کی وجہ سے )پورے قبیلہ بنی ہاشم کے خلاف اپنے دلوں میں سخت کینہ رکھتے تھے _ خود رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ان کینوں کے نیتجے میں اپنے اہل بیتعليه‌السلام پر ہونے والے مظالم کے تصور سے گریہ فرمایا کرتے تھے(۲) _

گذشتہ تمام باتیں تو اس بات کے علاوہ ہیں کہ اپنوں کے خلاف اس جہاد میں ان کی آزمائشے بھی ہو رہی تھی ، کیونکہ اپنے رشتہ داروں کے قتل جیسی کٹھن ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے پختہ ایمان اور مکمل اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے _ خدا نے بنی اسرائیل کو بھی اسی طرح آزمایا تھا بلکہ خود حضرت اسماعیلعليه‌السلام کے معاملے میں بھی حضرت ابراہیمعليه‌السلام کا اسی طرح کا امتحان لیا تھا _

قریش اور انصار

انصار کے خلاف قریش کے جذبات اور عزائم کے مطالعے کے سلسلے میں سب سے پہلے جنگ بدر کے بعد کہے گئے ابوسفیان کے مندرجہ ذیل اشعار کا مطالعہ ضروری ہے _

____________________

۱)تاریخ طبری ط الاستقامة ج/۴ ص ۵۲۱_

۲) ملاحظہ ہو: امالی شیخ صدوق ص ۱۰۲، فرائد السمطین ج ۲ ص ۳۶، بحار الانوار ج ۲۸ ص ۳۷، ص ۳۸، ص ۴۱، ص ۵۱و ص ۸۱و ج ۴۳ ص ۱۷۲و ص ۱۵۶ ، العوالم ص ۲۱۶، ص ۲۱۷و ص ۲۱۸، کشف الغمہ اربلی ج ۲ ص ۳۶، انساب الاشراف بلاذری و مسند ابویعلی ج ۱ ص ۴۲۷، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۱۸ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۳۹، المطالب العالیہ ج ۴ ص ۶۱ طبع دار المعرفہ_

۲۰۹

آلیت لا اقرب النساء و لا

یمس راسی و جلدی الغسل

حتی تبیروا قبائل الاوس والخزرج

ان الفؤاد یشتعل

میں نے قسم کھالی ہے کہ جب تک اوس و خزرج کو نابودنہیں کردوں گا تب تک میں عورتوں کے قریب جاؤں گا نہ اپنے جسم کے کسی حصے کو دھوؤں گا_ کیونکہ دل مسلسل آگ میں جل رہاہے_

اس بات کو انصار بھی اچھی طرح جانتے تھے _اسی لئے جب پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت ہوئی تو انصار نے بہت گریہ کیا کیونکہ انہیں معلوم نہ تھا کہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چلے جانے کے بعد ان کے ساتھ کیا کریں گے(۱) _

ان لوگوں نے سعد بن عبادہ کی بیعت بھی صرف اور صرف اسی خیال کے تحت کی _اس بات کو حباب بن منذر نے سقیفہ کے دن یوں بیان کیا:'' ہمیں تو اس بات کا ڈرہے کہ حکومت تمہارے بعد ان لوگوں کے ہاتھ آجائے گی جن کے آباء و اجداد ، بھائیوں اور بیٹوں کو ہم لوگ قتل کرچکے ہیں ''_(۲) حضرت علیعليه‌السلام نے سعد بن عبادہ کے اپنے لئے بیعت طلب کرنے کی وجوہات بھی بیان کی ہیں _ آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب کو ایک خط میں لکھا : ''جب سعد نے دیکھا کہ لوگ ابوبکر کی بیعت کرنے لگے ہیں تو اس نے پکار کر کہا کہ لوگو خدا کی قسم جب میں نے دیکھا کہ تم لوگ حضرت علیعليه‌السلام سے روگردانی کرچکے ہو تب میں نے یہ کام کیا _ او رجب تک علیعليه‌السلام بیعت نہیں کرتے میں بھی تم سے بیعت نہیں لیتا _ اور علیعليه‌السلام کی خاطر میں کچھ بھی نہیں کروں گا چاہے وہ بیعت کر بھی لیں ''_ نیز اسی خط میں ہی ایک جگہ تحریر ہے کہ انصار نے کہا : '' پس اگر تم حکومت علیعليه‌السلام کے سپرد نہیں کرتے تو ہمارا سردار دیگر تمام لوگوں سے زیادہ اس کا حق دار ہے ''(۳) اس سے واضح ہوتا ہے کہ انصار نے یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ انہیں یہ یقین ہوگیا تھا کہ عرب اور قریش مل کر علیعليه‌السلام کو اقتدار نہیں دینا چاہتے، جبکہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سخت ،

____________________

۱) مسند احمد ج ۵ ص ۳۳۹ و مجمع الزوائد ج ۹ ص ۳۴ از مسند احمد _

۲) حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۲۰_

۳) معادن الحکمة ص ۱۵۳ و ۱۵۴ ، نیز اسی کتاب کے ص ۴۷۰، تا ۴۷۳ کا حاشیہ بھی ملاحظہ فرمائیں تو اس میں کثیر منابع تحریر ہیں _

۲۱۰

غلیظ اور( نعوذ باللہ ) توہین آمیز الفاظ میں تحریر لکھنے سے منع کئے جانے اور پھر اسامہ کے لشکر کی روانگی میں تاخیر اور دیگر واقعات و حالات سے ان کا یہ یقین مزید پختہ ہو گیا تھا _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعدوہی ہوا جس کاڈر تھا یعنی انصار کو مصیبتوں نے گھیر لیا ،ان پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، ساری قوتیں ، ترجیحات اور اہمیتیں مہاجرین کو حاصل ہوگئیں_ یہ اس بات کی تائید و تصدیق تھی جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں بتایا تھا کہ میرے بعد تم لوگوں پر مصیبتیں آئیں گی_ پھر فرمایا تھا کہ تم لوگ صبر کرنا یہاں تک حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو_(۱)

مندرجہ ذیل امور اسکی دلیل ہیں_

۱ _ محمد بن مسلمہ نے جب قریش کو قیمتی پوشاکیں پہن کر تکبر کرتے ہوئے دیکھا تو مسجد میں آکر بلند آواز سے تکبیر بلند کی جس پر حضرت عمر نے اسے بلوا یا اور اس سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے تکبر و خودپسندی کے اس منظر کو بیان کیا پھر کہا : ''استغفر اللہ میں دوبارہ یہ کام نہیں کروں گا ''(۲) _ حالانکہ محمد بن مسلمہ حکمران طبقے کے قریبیوں اور انتہائی وفادار یا رو انصار میں سے تھا جس پر وہ اطمینان و اعتماد کا اظہار کیا کرتے تھے_

۲ _ حضرت عمر نے اپنی خلافت کے آخری ایا م میںمالداروں کا زائد مال لے کر مہاجرین کے فقیروں میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا(۳) _

۳_ حضرت عمر جمعہ کے دن دو اہم کام کیا کرتے ایک یہ کہ مہاجرین کے یتیموں کے اموال کی دیکھ بھال کرتے تھے اور دوسرا غلاموں کے حالات کا جائزہ لیتے(۴) _

____________________

۱) ملاحظہ ہو : حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۰۹ و ص ۴۱۱ و ص ۴۱۴_

۲)حیاة الصحابہ ج/ ۱ ص ۴۱۳ ،کنز العمال ج/ ۱ ص ۳۲۹ ،از ابن عساکر _

۳)ہمارے مضمون '' ابوذر سو شلسٹ ، کیمونسٹ یا مسلمان''کا آخری حصہ ہماری کتاب ''دراسات و بحوث فی التاریخ والاسلام'' میں ملاحظہ کریں_

۴) المصنف ج/۲ ص ۳۴۹ اوراس کے حاشیہ ج/۱ص ۶۹ پر مالک سے _

۲۱۱

۴ _ حضرت عمر انصار کی ضروریات اور درخواستوں کا کوئی خیال نہ رکھتے تھے البتہ ابن عباس اگر کبھی رابطہ کرتے تو کچھ کردیتے_(۱) _

۵ _ صرف بنی ہاشم ہی تھے جو انصار کا خیال رکھتے تھے حضرت عمر کے زمانے کے بعدتو انصار کے حالات مزید بگڑ گئے حتی کہ :

۶ _ یزید نے کعب بن جعیل کو بلایا اوراس سے انصار کی برائی بیان کرنے کا مطالبہ کیا _ کعب نے اس سے کہا: '' کیا تم مجھے دوبارہ شرک کی طرف پلٹاناچاہتے ہو_ کیا میں اس قوم کی برائی بیان کرو ں جس نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کی اور انہیں پنا ہ دی ؟'' اس کے بعد کعب نے یزید کو اخطل نصرانی کے متعلق کہا جس نے یزید کی فرمائشے پر یہ شعر پڑھا_

ذهبت قریش بالسماحة والندی

واللؤم تحت عمائم الانصار(۲)

قریش نے بڑی سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کیا لیکن انصار کے عماموں تلے کمینگی چھپی ہوئی ہے_

۷ _ اسکے بعد یزید نے'' حرہ '' کے واقعہ میں ظلم و جنایات کی حدیں توڑ کے رکھ دیں_ اس واقعہ میں انصار کے عزیزوں کو ذلیل کیا گیا ، ان کی ہتک حرمت کی گئی ، ان کی عزتوں کو لوٹا گیااور ان کے مردوں کو قتل کردیا گیا_ یہ واقعہ اموی حکمرانوں کے ننگ و عار کا منہ بولتا ثبوت ہے اور انکے ماتھے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کلنک کاٹیکا بن کے رہ گیا _ امویوں نے پرانے بغض ،کینے اور دشمنی کی بناپر ذلت و عار کا ارتکاب کیالیکن یہ رسوائی ہمیشہ کے لئے کینہ پرور اموری حکمرانوں اور ان کے چاہنے والوں اور پیروکاروں کے دامن پر کبھی نہ مٹنے والا داغ بن گئی ہے _

____________________

۱) حیاة الصحابہ ج/ ۱ ص ۴۱۴ ، ۴۱۵، ۴۱۶_

۲)الشعر والشعراء لابن قتیبة ص ۳۰۲_

۲۱۲

تاریخی دغابازی

مدائنی کہتاہے کہ مجھے ابن شہاب نے بتایا ،اس نے کہا کہ مجھے خالد بن عبداللہ القسری نے کہا کہ میرے لئے نسب نامہ لکھو _میں نے ''مضر'' کے نسب نامے سے شروع کیا _ ابھی اسے مکمل بھی نہ کیا تھا کہ اس نے کہا : ''اس کو کاٹ دو ، کاٹ دو _ اللہ ان کی جڑیں کاٹے ''_ پھر اس نے کہا :'' میرے لئے کوئی سیرت تحریر کرو'' _ میں نے کہا : '' اگر کہیں حضرت علی بن ابن طالب کی سیرت کا ذ کر آجائے تو کیا اسے بھی لکھوں ؟'' تو خالد نے کہا : ''نہیں ،لیکن صرف اس صورت میں کہ اسے جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں دکھاؤ'' (خدا خالد اور اسکے چاہنے والوں پر لعنت کرے اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر اللہ کا درود و سلام ہو)(۱)

جب معاویہ کو حضرت علی علیہ السلام کا اپنے فضائل پر مشتمل خط ملا تو اس نے کہا : '' اس خط کو چھپا دو کہیں شامیوں کے ہتھے نہ چڑھ جائے و گرنہ وہ علی بن ابی طالب کے حامی بن جائیں گے''(۲) _ ہشام بن عبدالملک نے اعمش کو خط لکھ کر اس سے عثمان کے فضائل اور حضرت علیعليه‌السلام کی برائیاں لکھنے کا مطالبہ کیا لیکن اس نے انکار کردیا(۳) _ شعبی کہتا ہے کہ اگر میں حضرت علیعليه‌السلام پر جھوٹ گھڑ نے کے بدلے میں ان امویوں سے غلام بننے یا گھر سونے سے بھر دینے کا مطالبہ بھی کرتا تو وہ ایسا کر گذرتے(۴) _ ابو احمد عسکری کا کہنا ہے کہ اوزاعی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے (حدیث کساء کے علاوہ ) فضائل اہل بیتعليه‌السلام کی کوئی روایت ذکر نہیں کی ، واللہ اعلم _ اسی طرح زہری نے بھی صرف ایک حدیث ذکر کی ہے _ یہ دونوں بنی امیہ کے مظالم سے ڈرتے تھے _(۵) ان مؤرخین کی اس تاریخی دغابازی پر یہی دلیل کافی ہے کہ مورخین کے اس دعوے کے باوجود کہ جنگ جمل میں سات سو مہاجر اور انصار ، ستر یا اسی بدری اور بیعت شجرہ میں شامل دو سو صحابی حضرت علیعليه‌السلام کے ساتھ تھے(۶) (شعبی کے بقول ) دشمنان علیعليه‌السلام اور تاریخی دھوکہ باز مؤرخین کی ڈھٹائی اس حد

____________________

۱)الاغانی ج/ ۱۹ ص ۵۹_ (۲) معجم الادباء ج ۵ ص ۲۶۶_ (۳) شدرات الذہب ج ۱ ص ۲۲۱_

۴) تاریخ واسط ص ۱۷۳_ (۵) اسعد الغابہ ج ۲ ص ۲۰_

۶) المعیار و الموازنہ ص ۲۲، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۰۴، الغدیر ج ۱۰ص ۱۶۳ از صفین و ص ۲۶۶ تا ص ۲۶۸ و از شرح نہج البلاغہ ج ۱ ص ۴۸۳و جمہرة خطب العرب ج ۱ ص ۱۷۹و ص ۱۸۳ _

۲۱۳

تک بڑھ گئی کہ وہ یہ کہنے لگے : '' جس کو یہ گمان ہو کہ جنگ جمل میں چار سے زیادہ بدری صحابی موجود تھے اسے جھٹلادو _ علیعليه‌السلام اور عمار ایک طرف اور طلحہ اور زبیر بھی ایک طرف تھے''(۱) _ اسکافی کہتا ہے کہ معاویہ نے صحابہ اور تابعین کے ایک گروہ کو پر کشش تنخواہ اور مراعات پر صرف اس لئے ملازم رکھا ہوا تھا کہ وہ حضرت علیعليه‌السلام کے خلاف ایسی گھٹیا حدیثیں گھڑیں جس سے لوگ حضرت علیعليه‌السلام سے متنفر ہوجائیں اور آپعليه‌السلام پر انگلی اٹھانے لگیں _ اور انہوں نے بھی معاویہ کی من پسند حدیثیں گھڑیں _ ان صحابیوں میں ابوہریرہ ، عمروبن عاص اور مغیرہ بن شعبہ بھی تھے اور تابعیوں میں عروة بن زبیر نام آور ہے(۲) _ نیز معاویہ شامیوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ حضرت علیعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے ساتھی بے نمازی ہیں(۳) _

یہی معاملہ انصار کے ساتھ بھی تھا_ زبیر بن بکار کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ سلیمان بن عبدالملک جب ولی عہد تھا حج کرنے کے لئے نکلا اور مدینے سے گزرا تو ابان بن عثمان سے کہا کہ وہ پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت اور غزوات کا حال تحریر کرے_ ابان نے کہا : '' صحیح سیرت کا ایک نسخہ میرے پاس ہے جسے میں نے بہت مؤثق آدمی سے لیا ہے'' _ سلیمان نے کہا: '' اس سے ایک نسخہ تیار کرو'' ابان نے نسخہ تیار کیا اور لے گیا _ جب سلیمان نے اس پر نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ عقبتین ( عقبہ اولی اور عقبہ ثانیہ کے معروف واقعے ) میںانصار کا ذکر ہے اورجنگ بدر میں بھی انصار کا ذکر ہے تو اس نے کہا کہ میں تو ان لوگوں کے لئے کسی ایسی فضیلت کا قائل نہیں _ اس واقعہ میں یا تو ہمارے خاندان کے متعلق جھوٹ لکھا گیا ہے یا پھر انصار ایسے نہیں تھے _

ابان نے کہا : ''اے امیر شہید مظلوم(۴) کے ساتھ ان کی ظلم و زیادتی ہمارے حق بات بیان کرنے سے مانع تو نہیں ہے _ وہ لوگ ایسے ہی تھے جیسے اس کتاب میں تحریر ہے '' _

سلیمان نے کہا :''جب تک میں امیر المؤمنین سے پوچھ نہ لوں مجھے اس نسخے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ

____________________

۱) العقد الفرید ابن عبدربہ ج ۴ ص ۳۲۸ _ (۲) شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۴ ص ۶۴_

۳)الغدیر ج ۹ ص ۱۲۲ از صفین منقری ص ۴۰۲ و تاریخ طبری ج ۶ ص ۲۳ و شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۲ ص ۲۷۸ و از الکامل فی التاریخ ج ۳ ص ۱۳۵_

۴) یہاں شاید مراد حضرت عثمان ہیں جنہیں اپنے محل میں قتل کردیا گیا تھا _ مترجم

۲۱۴

ہوسکتاہے وہ مخالفت کریں'' پس اس نے اس کتاب کو جلانے کا حکم دیا _

جب سلیمان و اپس پہنچا اور اپنے باپ کو سب کچھ ذکر کیاتو عبدالملک نے کہا : ''ایسی کتاب کی تمہیں کیا ضرورت ہے جس میں ہماری فضیلت بیان نہ ہوئی ہو ؟ تم شامیوں کو وہ باتیں بتانا چاہتے ہو جسے ہم نہیں چاہتے کہ وہ جانیں '' _ اس نے جب اس نسخے کے پھاڑ نے(۱) کی اطلاع دی تو عبدالملک نے اس کے اس کام کو سراہا _

پھر یہ روایت ، سلیمان کے قبیصہ بن دؤیب کو سارا ماجرا بیان کرنے اور اس کے جواب کے بعد کہتی ہے کہ : پس سلیمان نے کہا :'' اے ابواسحاق کیا مجھے امیر المؤمنین اور انکے خاندان کی جانب سے انصار سے دشمنی اور انہیں اتنا پسماندہ رکھنے کی وجوہات کے متعلق نہیں بتا ئیں گے ؟''

اس نے جواب دیا: '' بھتیجے اس کا آغاز کرنے والا معاویہ بن ابی سفیان تھا _اس کے بعد عبدالملک کے والد اور پھر تمہارے والدنے یہ کام کیا '' _ سلیمان نے کہا: '' کس بنیاد پر ایسا ہوا ؟'' اس نے جواب دیا : ''خدا کی قسم میںابھی تمہیں بتانا ہی چاہتا تھا '' _ پھر کہا : ''' انصار نے بنی امیہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور ان کی ایک رسوائی حضرت عثمان کا قتل بھی ہے _ اس وجہ سے بنی امیہ نے ان سے کینہ روا رکھااور ان سے غضبناک رہے اوریہ کینہ انہوں نے نسل در نسل پروان چڑھایا لیکن میں تو امیر المؤمنین کے متعلق پہلے یہ گمان کرتا تھا کا ان کہ انصار کے ساتھ رویہ دوسروں سے مختلف ہوگا اب تم یہ بات اس سے جاکر پوچھ سکتے ہو ''_

سلیمان کہنے لگا:'' اللہ کی قسم میں ایسا ہی کرونگا'' وہ بولتا رہا اور قبیصہ بھی وہاں موجود تھا _ اسی نے جاکر عبدالملک کو ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کی رو داد سنائی تو عبدالملک نے کہا :''اللہ کی قسم میں اس کے علاوہ کچھ کرہی نہیں سکتا _ان کا ذکر بھی اب چھوڑو _ ''

____________________

۱) چند سطر اوپر اس کتاب کے جلائے جانے کا ذکر ہے لیکن یہاں پھاڑنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا ذکر ہے _ بظاہر تو اس واقعہ میں تضاد پایا جاتا ہے لیکن دستاویز چونکہ عربی زبان میں ہے اور عربی میں جلانے کو (حرق) اور پھاڑنے کو ( خرق) کہتے ہیں اس لئے اس میں صرف ایک نکتہ کا فرق ہے جو شاید طباعت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے بہر حال یہ فیصلہ یہاں مشکل ہے کہ '' حرق'' ہے یا '' خرق'' البتہ اصل منبع اور مآخذ سے معلوم ہوسکتا ہے _ مترجم

۲۱۵

اسکے بعد سب لوگ خاموش ہوگئے(۱) لیکن قبیصہ کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ انصار کی محرومیوں کا دور معاویہ کے زمانے سے شروع ہوا _

انصار کی مایوسیوں کا دور تو حضرت عمر بلکہ حضرت ابوبکر کے زمانے سے شروع ہوا تا ہم یہاں تحقیق کا مقام نہیں_ بہر حال کسی انصاری نے یہ اشعار کہے ہیں_

ویل امها امة لو ان قائدها

یتلوا الکتاب و یخشی العار والنار

اما قریش فلم نسمع بمثلهم

غدراً و اقبح فی الاسلام آثارا

ضلوا سوی عصبة حاطوا نبیهم

بالعرف عرفا ً و بالانکار انکارا(۲)

کتنی اچھی ہے وہ قوم جس کا سردار جب بھی قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو گناہ اور جہنم کے تصور سے بھی ڈرتا ہے _لیکن قریش کی خیانت اور اسلام میں انکے انتہائی مکروہ اعمال کی مثال ہم نے کبھی نہ سنی _ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے سب سے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب کے سب گمراہ ہیں _ بہرحال اچھائی کا بدلہ بھی اچھائی ہوتا ہے جبکہ برائی کا بدلہ برائی ہے _

ایک اور انصاری نے کہا ہے_

دعاها الی حرماننا و جفائنا

تذکر قتلی فی القلیب تکبکبوا

____________________

۱)اخبار الموفقیات ص ۳۳۲ _ ۳۳۴_

۲) الحور العین ص ۲۱۵_

۲۱۶

فان یغضب الابناء من قتل من مضی

فو الله ما جئنا قبیحاً فتعتبوا(۱)

انہوں نے ہمیں محرومیاں دیںاور ہم پر ظلم کی داستان رقم کی _وہ جنگ بدر کے اپنے مقتولین کو یاد کر کے تڑپتے اور لوٹتے رہتے ہیں _ ماضی میں بڑوں کے قتل سے اگر ان کے بیٹے آج ہم پر غضبناک ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے کوئی برا کام نہیں کیا تھا جس پر وہ ہم پر غصہ ہو رہے ہیں_

ھ: انصار کے متعلق پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید:

امویوں کی انصار سے دشمنی اپنے مقتولین کی وجہ سے نہیں بلکہ در اصل اسلام سے دشمنی تھی اور اسی اسلام دشمنی کی وجہ سے وہ انصار کے بھی دشمن ہوگئے تھے کیونکہ انصار نے خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کی تھی اور خدا نے ان کے ذریعہ سے شرک کو مٹایا تھا اور مشرکوں کو ذلت اور رسوائی سے دوچار کیا تھا _ یہی علت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بار بار تاکید فرمائی کہ انصار سے محبت کرواور ان کا احترام کرو کیونکہ انہوں نے ہی اس دین کو پناہ دی ، اس کی نصرت کی اور ان کے پاس جو کچھ بھی تھااسے اس دین کے لئے وقف کردیا _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انصار کی محبت کو ایمان اور ان سے نفرت کو نفاق شمار فرمایا(۲) اور فرمایا: '' جس نے انصار سے محبت کی اس نے میرا دل جیت لیا اور جس کسی نے انصار سے دشمنی اور نفرت کی اس نے میری دشمنی اور غضب کو للکارا''(۳) _

____________________

۱) الحورالعین ص ۲۱۵ از امیرنشوان حمیری _

۲)مسند احمد ج ۵ ص ۲۸۵و ج ۶ ص ۷، ج ۴ ص ۲۸۳و ص ۲۹۲و ج ۳ ص ۱۳۰ ، نیز انصار کے فضائل کے متعلق ملاحظہ ہو مسند احمد ج ۴ ص ۷۰ و ج ۶ ص ۳۸۲، مسند ابویعلی ج ۷ ص ۱۹۱ و ۲۸۵و ۲۸۵، منحة المعبود ج ۲ ص ۱۳۸و ۱۳۸، صحیح مسلم ج ۱ ص ۶۰ سنن ابن ماجہ ج ۱ ۵۷ ، ۵۸، ۱۴۰ ، صحیح بخاری ج ۲ ص ۱۹۸و ۱۹۹ و مجمع الزوائد ج ۱۰ ص ۳۹ ، ۴۰_

۳) مجمع الزوائد ج۹ ص ۳۷۶ عن الطبرانی فی الصغیر و الکبیر، البدایة والنہایة ج۳ ص ۲۰۳ ، فتح الباری ج۱ ص ۵۹ ، ۶۰ ، مجمع الزوائد باب حب الانصار ج۱۰ ص ۲۸ ، ۴۲ اس کے علاوہ کتب احادیث میں ایک باب انصار کے فضائل سے مخصوص ہے_

۲۱۷

یہ زیادہ تر انصار ہی تھے جنہوں نے اکثر مہاجرین کے برخلاف اہل بیتعليه‌السلام اور امیر المومنینعليه‌السلام کی راہ میں قربانیاں دیں _اس کے برخلاف مہاجرین ایسے نہ تھے_ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں انصار نے امیر المؤمنینعليه‌السلام کا ساتھ دیا_انصار کے دلوں میں حضرت علیعليه‌السلام کے مقام ، مرتبے اور احترام کی دلیل عمروبن عاص کی زبیر بن بکار کے ذریعہ بیان کردہ وہ روایت ہے جس میں آیا ہے کہ سعد بن عبادہ کے لئے بیعت لینے کی انصار کی ناکام کوششوں کے بعد مسجد نبوی میں عمرو بن عاص نے انصار کے خلاف بہت سخت اور غلیظ زبان استعمال کی _ زبیر کہتا ہے : '' پھر جب وہ متوجہ ہوا تو وہ عباس بن عبدالمطلب کے بیٹے فضل کو دیکھ کر اپنے کئے پر بہت نادم ہوا کیونکہ ایک تو جناب عبدالمطلب کی اولاد کی انصار کے ساتھ ننھیالی رشتہ داری تھی اور دوسرا انصار بھی اس وقت حضرت علیعليه‌السلام کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے اور ان کا دم بھرتے تھے '' پھر روایت یہ بتاتی ہے کہ کس طرح حضرت علیعليه‌السلام نے مسجد میں آکر انصار کا دفاع کیا _ یہ واقعہ بہت طویل ہے(۱) _ بنی ہاشم نے انصار کا ساتھ ا س لئے دیا کہ ایک تو پیامبر گرامی اسلام کی وصیت تھی _اور دوسرا سقیفہ کے دن جب سعد بن عبادہ کی بیعت نہ ہوسکی تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف علیعليه‌السلام کی بیعت کریںگے(۲) یہ حضرت علیعليه‌السلام ہی تھے جنہو ں نے قریش کے بڑے بڑے سور ماؤں اورمتکبروں کو ہلاک کیا تھا_

ان ساری باتوں کی وجہ غالباً یہ تھی کہ یہ لوگ صحیح معنوں میں با ایمان اور پکے دین دار تھے اور انہیں دین کا گہرا شعور حاصل تھا _یہاں تک کہ ان کی خواتین بھی ایسی ہی تھیں _یہاں یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ علماء کہتے ہیں کہ اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سارا علم انصار کے پاس تھا(۳) نیز حضرت عائشہ انصار کی خواتین کے بارے میں فرماتی ہیں : '' اگر چہ قریش کی عورتوں کی فضیلت بہت زیادہ ہے لیکن خدا کی قسم میں نے انصار کی عورتوں سے زیادہ با فضیلت کسی کو نہیں دیکھا، اللہ کی کتاب کی تصدیق کرنے میں ان سے زیادہ قوی کوئی نہیں اور نہ ہی نزول قرآن پر ایمان میں ان سے کوئی آگے ہے''(۴) _

____________________

۱) الموفقیات ص ۵۹۵ و ۵۹۶و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۶ ص ۳۳_

۲) تاریخ ابن اثیر ج ۲ ص ۳۲۵_ (۳) التراتیب الاداریہ ج ۲ ص ۳۲۵_

۴)الدرالمنثور ج/۵ ص۴۲ از ابن ابی حاتم، ابی داود،ابن مردویہ ، تفسیر ابن کثیر ج/۳ ص ۲۸۴، مسند ابوعوانہ ج ۱ ص ۳۱۷ و حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۸۷_

۲۱۸

حضرت عائشہ ہی سے روایت ہے :'' انصار کی خواتین سب سے بہترین خواتین ہیں وہ دین سیکھنے کے لئے بالکل بھی نہیں شرماتیں ''(۱) _

جنگ انصار پر معاف نہ تھی:

گذشتہ بحث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انصار کو جنگوں میں بالکل شرکت ہی نہیں کرنا چاہئے تھا _ کیونکہ اس مسئلے کا تعلق اسلام سے ہے اور اسلام تو ساری امتوں بلکہ تا ابد تمام بنی نوع بشر کے لئے ہے_

اس کی اہمیت اور اس کو در پیش خطرات بہرحال انصار کی اہمیت اور انہیں قریش کی طرف سے در پیش خطرات سے زیادہ ہیں خاص کر اس صورت میں جب اس قسم کی صورتحال کے رد عمل کے طور پر اسلام ، ان کی حفاظت کی ضروری ضمانت بھی فراہم کرتا ہے البتہ جو کچھ ہوا وہ امت کے اسلامی قوانین پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ تھا اور نہ ہی ان ضمانتوں کا خیال رکھا گیا _ اور یہ ایک علیحدہ بات ہے _

پس انصار کے لئے جنگ میں شرکت کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا البتہ یہ بھی ضروری تھا کہ قریش اور اسلام دشمنوں کے کینے کی شدت کم کرنے کے لئے کوئی عملی کام کیا جائے تا کہ مستقبل میں انصار کو در پیش مشکلات اور خطرات میں کچھ حد تک کمی کی جائے _ اور ہوا بھی اسی طرح_ انشاء اللہ جنگ بدر کی بحث میں قریش اور انصار کے مسائل پر مزید بات ہوگی_

____________________

۱)_ ملاحظہ ہو: صحیح بخاری ج۱ ص ۲۴ ، المصنف عبدالرزاق ج ۱ ص ۳۱۴،ا س کے حاشیہ میں ہے کہ یہ روایت بخاری ، مسلم اور ابن ابی شیبہ سے منقول ہے ، کنز العمال ج ۵ ح ۳۱۴۵ نیز خواتین انصار کی علم دین سیکھنے کی کوششوں سے متعلق ملاحظہ ہو: التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۳۲۱_

۲۱۹

۲۲۹

چھٹا باب:

غزوہ بدر کا عظیم معرکہ

۲۲۰