الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)17%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242151 / ڈاؤنلوڈ: 6991
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

پہلی فصل : جنگ کی فضاؤں میں

دوسری فصل : جنگ کے نتائج

تیسری فصل : مال غنیمت اور جنگی قیدی

چوتھی فصل : سیرت سے مربوط کچھ ابحاث

۲۲۱

پہلی فصل :

جنگ کی فضاؤں میں

۲۲۲

قریش کی ناکام سازش

نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے مدینہ رہنے کے کچھ عرصہ بعد ،جنگ بدر کے واقعہ سے پہلے ،جن دنوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں تشریف فرما تھے ، کفار قریش نے عبداللہ ابن ابی بن سلول اور اوس و خزرج کے بت پرستوں کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا جس میں تحریر تھا :

'' مدینہ والوں نے ہمارے ایک مطلوبہ آدمی کو پناہ دے رکھی ہے ، حالانکہ مدینہ والوں میں تمہاری تعداد بہت زیادہ ہے یا تو تم لوگ اسے قتل کر ڈالو یا اسے نکال باہر کرو نہیں تو پھر ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو پورے عرب کو تمہارے بائیکاٹ پر اکٹھا کرلیں گے یا پھر ہم سب مل کرتمہارے اوپر چڑھائی کردیں گے اور اس صورت میں تمہارے تمام جنگجوؤں کو تہہ تیغ اور تمہاری عورتوں کو اپنے لئے حلال کردیں گے '' _

جب یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں تک پہنچا تو انہو ں نے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کر کے سب کو اکٹھا کیا اور سب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل پر متفق ہوگئے _ جب یہ خبر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب تک پہنچی تو انہوں نے ایک گروہ کی صورت میں ان لوگوں سے ملاقات کی اور کہا : '' قریش کی دھمکیوں سے تم بہت ہی زیادہ متاثر ہوگئے ہو _ وہ تمہارے خلاف اتنی بڑی چال نہیں چل سکتے جتنی بڑی تم خود اپنے خلاف چل رہے ہو _تم تو اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو _'' پس جب انہوں نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی زبانی یہ الفاظ سنے تو منتشر ہوگئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل سے دستبردار ہوگئے _ اور جب یہ بات قریش تک پہنچی تو ( وہ بہت جزبز ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف جنگ کی ترکیبیں سوچنے لگے جس کے نتیجے میں ) جنگ بدر کا واقعہ رونما ہوا(۱) _

____________________

۱)المصنف صنعانی ج ۴ ص ۳۵۸ و ۳۵۹_

۲۲۳

بدر کی جانب روانگی:

سترہ(۱۷) رمضان المبارک ۲ ہجری میں مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان بدر عظمی کی جنگ ہوئی _اور وہ اس طرح کہ غزوة العشیرہ میں مسلمانوں نے قریش کے جس قافلے کا پیچھا کیا تھا وہ ان سے بچ بچا کر شام نکل گیا تھا _آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پھر بھی اس کی تاک میں تھے ، یہاں تک کہ اس کی واپسی کا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو علم ہوا _ یہ قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں کم و بیش تیس(۳۰) یا چالیس(۴۰) یا زیادہ سے زیادہ سترہ(۷۰) سواروں پر مشتمل تھا جس میں قریش کا تجارتی سامان بھی موجود تھا_ اس کی مالیت کے بارے میں اتنا تک بھی کہا جاتا ہے کہ اس سامان کی مالیت پچاس(۵۰) ہزار دینار کے برابر تھی _ حالانکہ اس وقت پیسوں کی بہت زیادہ قیمت ہوتی تھی(۱) _

بہرحال جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس قافلے کی آمد کا علم ہوا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو اس قافلے کی طرف جانے کا کہا تو لوگوں نے تردید کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز پر لبیک کہا ، کیونکہ بعض تو فوراً آمادہ ہوگئے لیکن کچھ لوگوں نے پس و پیش کیا _ شاید وہ قریش کے انتقامی حملے سے ڈرتے تھے کیونکہ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ قریش کے بنیادی مفادات کو نشانہ بنانا ان کے غضب اور انتقام کا باعث بن سکتا ہے _

اس کے متعلق کئی مؤرخین کہتے ہیں :'' نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی حکم عدولی کرکے بہت سے صحابہ مدینہ میں رہ گئے اور ان لوگوں نے اس مشن پر جانا گوارا نہیں کیا _ اس مشن پر جانے کی بات پر بہت اختلاف اور لے دے ہوئی_ کئی صحابیوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس مشن پر جانا بھی اچھا نہ لگا اور بعض صاحب رائے اور با بصیرت افراد بھی اس مشن پر نہیں گئے ، کیونکہ انہیں جنگ چھڑ جانے کا گمان بھی نہیں تھا ، وہ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ لوگ مال غنیمت کے حصول کے لئے جا رہے ہیں_ اور اگر انہیں یہ گمان بھی ہوتا کہ وہاں جنگ بھی چھڑجائے گی تو وہ ہرگز پیچھے نہ رہتے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نکل پڑتے ''(۲) _

____________________

۱)اس کی مالیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جاسکتا ہے کہ وہ مال دو ہزار سے بھی زیادہ اونٹوں پر لدا ہوا تھا _ مترجم_

۲)ملاحظہ ہو ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۸۵ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۲۰ و ۱۲ ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۳۲۸ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۳_

۲۲۴

جبکہ واقدی کہتا ہے :'' رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے کچھ صحابیوں نے بدر جانا گوارا نہیں کیا _ وہ کہنے لگے کہ ہم تعداد میں بہت کم ہیں ،حالانکہ یہ من پسند بات نہیں تھی _ بہر حال اس بات پر صحابیوں میں بہت زیادہ اختلاف پیدا ہوگیا''(۱) خدانے اس واقعہ کی حکایت یوں بیان کی ہے( کما اخرجک ربک من بیتک بالحقّ و ان فریقاً من المؤمنین لکارهون _ یجادلونک فی الحق بعد ما تبيّن کانّما یساقون الی الموت و هم ینظرون ) (۲) _ ''خدا نے تمہیں (بدر کی طرف نکلنے کے لئے بالکل اسی طرح کہا ہے ) جس طرح گھر سے (ہجرت کے لئے) نکلنے کا کہا تھا _ لیکن اس کے باوجود مؤمنوں کا ایک ٹولہ اسے گوارا نہیں کرتا _ وہ حق کے واضح ہونے کے بعد بھی تمہارے ساتھ ایسے جھگڑتے اور بحث کرتے ہیں گویا کہ انہیں ان کے جانتے بوجھتے ہوئے موت کی طرف زبردستی لے جایا جارہا ہو ''_ جی ہاں وہ اس لئے جانا نہیں چاہتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ قریش اتنی بڑی بات پر ہرگز چپ نہیں رہ سکتے_

یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مؤرخین کی یہ بات کہ مدینہ رہنے والے صحابیوں کو ہرگز یہ گمان بھی نہیں تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جنگ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا(۳) _ نہ صرف بے جا ہے بلکہ یہ جنگ سے پیچھے رہ جانے والوں کے لئے ناکام اور نہایت نامعقول بہانہ تراشی ہے _ وگرنہ گذشتہ آیت ، مذکورہ نظریئے کے غلط ہونے پر بہترین دلیل ہے_

بہرحال ادھر سے مسلمان تجارتی قافلے کو روکنے کے ارادے سے نکلے تو ابوسفیان کو ادھر اس بات کا علم ہوگیا _ جس پر اس نے ایک قاصد مکہ بھیج کر قریش کو قافلہ بچانے کے لئے بلوایا_

لوگوں سے ڈرنے والے

یہاںیہ کہا جاتا ہے کہ عبدالرحمان بن عوف ، سعد بن ابی وقاص ، مقداد اور قدامہ بن مظعون کو جب مکہ

____________________

۱) المغازی واقدی ج ۱ ص ۱۳۱_

۲)انفال ، ۵،۶_

۳)الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۱۶_

۲۲۵

میں اذیتیں دی جاتی تھیں تو وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشرکین سے لڑنے کی اجازت مانگتے تھے جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اس کی اجازت نہیں دیتے تھے _ لیکن پھر جب انہیں لڑائی اور بدر کی طرف جانے کا حکم ملا تو کچھ لوگوں پر یہ بات گراں گذری جس پر یہ آیت نازل ہوئی:

( الم تر الی الذین قیل لهم کفوا ایدیکم و اقیموا الصلوة و آتوا الزکوة اذا فریق منهم یخشون الناس کخشیة الله او اشد خشیة و قالوا ربنا لم کتبت علینا القتال لو لا اخرتنا الی اجل قریب قل متاع الدنیا قلیل و الآخرة خیر لمن اتقی ) (۱)

''ان لوگوں کی حالت تو دیکھو جنہیں یہ کہا گیا تھا کہ ابھی ( لڑائی سے) اپنے ہاتھ روک رکھو اور نماز قائم کرو اور زکات ادا کرو تو ( جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو ) ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے ایسا ڈرنے لگے جس طرح خدا سے ڈراجاتا ہے بلکہ وہ تو اس سے بھی زیادہ ڈرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہم پر جنگ کا فریضہ کیوں عائد کیا ہے ؟ تھوڑی دیر اور رک جاتے_ ( اے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) ان سے کہہ دو کہ دنیاوی ساز و سامان اور فائدہ بہت کم ہے اورپرہیزگاروں کے لئے آخرت سب سے بہتر ہے''_

لیکن ہم کہتے ہیں کہ مقداد کی شخصیت ، نفسیات اور چند صفحات بعد ذکر ہونے والے اس کے عظیم موقف کی روسے ایسا نہیں لگتا کہ اس پر جنگ کا فریضہ گراں گذرا ہو _ اس پر مزید یہ کہ گذشتہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ افراد نے جنگ کے معاملے میں بزدلی دکھائی ہے _ اور ان کا لوگوں سے یہ ڈر اور خوف ، خوف خدا سے بھی بہت زیادہ تھا_ اور اس کی وجہ زندگی اور دنیا سے محبت تھی _ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مقداد ہرگز بزدل نہیں تھا اور نہ ہی وہ دین اور اسلام کے ارشادات سے ہٹ کر دنیا سے محبت کرنے والا شخص

____________________

۱)بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۰۹ ، مجمع البیان ج ۳ ص ۷۷ و الدر المنثور ج ۲ ص ۱۸۴ از نسائی ، ابن جریر ابن ابی حات ، حاکم اور اس کے مطابق روایت صحیح ہے ، بیہقی در السنن ، عبد بن حمید و ابن منذر _

۲۲۶

تھا اور اس کا طرز زندگی ہماری اس بات کی بہترین دلیل ہے_اسی طرح مذکورہ روایت اور آیت میں بھی آیا ہے کہ مذکورہ افراد میں سے بعض پر جنگ ناگوار گذری ہے ، سب پر نہیں _ البتہ مقداد کے علاوہ روایت میں مذکور دیگر افراد کے طرز زندگی اور مختلف موقعوں پر ان کے موقف اور نظریات سے ظاہر ہونے والی دنیا داری اور دنیا سے محبت سے لگتا ہے کہ ان پر جنگ کا فریضہ گراں گذرا ہوگا_

عبدالرحمن بن عوف کے متعلق تو بہر حال کوئی شک نہیں کہ اس نے یہ بات کی ہوگی _ کیونکہ بعض روایات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے(۱) اور اس شخص نے مرتے وقت بہت مشہور و معروف تر کہ چھوڑا جس کی وجہ سے ابوذر ، عثمان اور کعب الاحبار کے درمیان جھگڑا ہوا(۲) مؤرخین و غیرہ صراحت کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف قریش کا سب سے مالدار شخص تھا(۳) _ شوری کے دن بھی اس کا موقف بہت مشہور ہے _ اسی نے حضرت علیعليه‌السلام کے حق میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام وصیتوں اور خدا کے احکام کو پس پشت ڈال دیا تھا _ وہ تو دنیا سے محبت اور دنیا کو اہمیت دینے کی وجہ سے خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احکام کی زیادہ پروا نہیں کیا کرتا تھا_ اور قدامہ کو شراب پینے پر حضرت عمر نے حد میں کوڑے مارے تھے اور اسی نے حضرت علیعليه‌السلام کے بیعت سے انکار کیا تھا(۴) _ اور یہ سب کام اس نے دنیا طلبی اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں کئے تھے_

اور سعد نے بھی حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے انکار کردیا تھا_ اور جنگوں میں بھی اس نے حق کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا_ حضرت علیعليه‌السلام نے بیت المال سے اس کا الاؤنس کاٹ دیا تھا ، عمار نے اس سے قطع تعلق کرکے بول چال بھی بند کردی تھی اور اسی نے کوفہ کے بیت المال کا کچھ مال غبن کر لیا تھا(۵) _

____________________

۱)در منثور کی روایتوں کے اطلاق سے مذکورہ بات سمجھ میں آتی ہے _ ملاحظہ فرمائیں_ (۲) ملاحظہ ہو : مروج الذہب ج ۲ ص ۳۴۰ ، مسند احمد ج ۱ ص ۶۳ ، حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۱۶۰، الغدیر ج ۸ ص ۳۵۱، انساب الاشراف ج ۵ ص ۵۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۵۴و ج ۸ص ۲۵۶ ، تفسیر المیزان ج ۹ ص ۲۵۱ ،۲۵۸ و تاریخ الامم و الملوک و دیگر کتب_ (۳)کشف الاستار عن مسند البزار ج ۳ ص۱۷۲ و مجمع الزوائد ج ۹ ص ۷۲_

۴)قاموس الرجال ج ۷ ص ۳۸۵ اور اس کی شراب خوری کی حد کے متعلق ملاحظہ ہو: الاصابہ ج ۳ ص ۲۲۸و ۲۲۹، الاستیعاب ج ۳ ص ۳۶۱ ، اسد الغابہ ج ۴ ص ۱۹۹ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲۰ ص ۲۳_ (۵)قاموس الرجال ج ۴ ص ۳۱۲ ، ۳۱۵_

۲۲۷

اس کے علاوہ اور باتیں بھی ہیں جو اس کی دنیا طلبی اور خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احکام سے لا پروائی پر دلالت کرتی ہیں_ پس ہوسکتا ہے آیت اور روایت کا مدّ نظر یہی افراد ہوں لیکن اس وقت کی سیاست اور سیاست دانوں کے منظور نظر ہونے کی وجہ سے راویوں نے ان کا نام چھپا کر دوسرے افراد کے ساتھ ملا دیا ہو_ اور یہ بات بالکل واضح ہے_

عاتکہ کا خواب

مؤرخین کہتے ہیں کہ عبدالمطلب کی بیٹی عاتکہ نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا تھا کہ اونٹ پر سوار ایک شخص یہ آواز لگاتا آرہا ہے کہ اے آل غالب ( البتہ ایک روایت میں یا آل غُدُر '' اے کمینو'' آیا ہے ) کل صبح کو اپنی قبروں کی طرف نکل پڑو _ پھر ابو قبیس کے پہاڑ سے ایک بڑا پتھر لڑھکا اور مکہ کے تمام گھروں میں اس کا ایک ایک ٹکڑا گرا_

عاتکہ نے یہ خواب اپنے بھائی عباس کو سنا یا اور اس نے عتبہ بن ربیعہ کو یہ خواب سنا یا تو اس نے کہا : ''اس کا مطلب ہے کہ قریش پر مصیبت آنے والی ہے ''_ لیکن ابوجہل نے یہ سن کر کہا :'' لو اب عبدالمطلب کے خاندان میں دوسری نبیہ پیدا ہوگئی ہے_ لات و عُزّی کی قسم ہم تین دن تک صبر کریں گے _ اگر اس کا خواب سچا ہوا تو ٹھیک و گرنہ ہم اپنے درمیان یہ تحریر لکھ لیں گے کہ بنی ہاشم کا گھرانہ عرب کے تمام مردوں اور عورتوں سے زیادہ جھوٹا ہے''_پھر جب تیسرا دن ہوا تو ایک ایلچی یہ آواز لگاتا ہوا آیا :'' اے آل غالب اے غالب کی اولاد غضب ہوگیا ، غضب ہوگیا ''(۱) _

____________________

۱)ملاحظہ ہو : سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۳ و ۱۴۴، تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۱۳۶و ۱۳۷ ، الروض الانف ج ۳ ص ۴۳ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۶۹ از ابن اسحاق ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۲۹ ، السیرة النبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۵۹ ، دلائل النبوة بیہقی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ج ۳ ص ۲۹ و ۳۰، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۱۶ و ۱۱۷ ، تاریخ الاسلام ( مغازی ) ص ۵۳، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۴۵ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۳۵۷ و السیرة النبویة ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۲ _

۲۲۸

قریش کی تیاری :

قریش کے تمام بڑوں اور سرداروں نے لشکر کی تیاری میں اپنا مال دیا _ اور انہوں نے یہ اعلان بھی کردیا کہ جو بھی اس جنگ پر نہیں جائے گا ہم اس کا گھر تباہ کر دیں گے_ اس لئے جو بھی اس جنگ پر خود نہ جاسکا اس نے اپنی جگہ پر کسی آدمی کو ضرور بھیجا(۱) _ ابولہب نے بھی اپنی جگہ پر عاصی بن ہشام کو ان چار ہزار درہم کے عوض بھیجا جو بقولے جوئے میں ہارنے کی وجہ سے اس کے ذمے واجب الادا تھے(۲) _

امیہ بن خلف کا موقف

امیہ بن خلف جنگ پر جانے میں پس و پیش کر رہا تھا _ کیونکہ کچھ عرصہ پہلے عمرہ کی غرض سے جب سعدبن معاذ مکہ آیا تھا تو دونوں کے درمیان دوستی کی وجہ سے وہ امیہ کے ہاں ٹھہرا _ ایک دن سعد ، امیہ کے ساتھ طواف کرنے نکلا تو راستے میں ابوجہل سے مڈ بھیڑ ہوگئی _ ابوجہل نے سعد سے کہا :'' تم دیکھ لو کہ یہاں کس طرح امن و امان اور اطمینان سے مکہ میں طواف میں مصروف ہو حالانکہ چند چھو کرے بھاگ کر تمہارے پاس آگئے ہیں اور تم یہ سمجھ رہے ہو کہ تم ان کی مدد کر رہے ہو اور انہیں پناہ دے رہے ہو؟ لیکن خدا کی قسم اگر تم ابوصفوان کے ساتھ نہیں ہوتے تو اپنے گھر تک صحیح سالم واپس نہیں جاسکتے تھے'' _ سعد نے اس سے اونچی آواز میں بات کرتے ہوئے کہا :'' اگر تم مجھے یہ دھمکی دے رہے ہو تو میں تمہیں اس سے بڑی اور سخت دھمکی دے سکتا ہوں _ تمہارا ( تجارتی ) راستہ مدینہ سے ہی گذرتا ہے''_امیہ نے اپنے گمان میں سردار مکہ کی آواز سے اپنی آواز اونچی کرنے پر سعد کو ٹوکا تو سعد نے کہا :'' چھوڑ دو مجھے ، خدا کی قسم میں نے خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے یہ بات سنی ہے کہ وہ تم لوگوں کو قتل کرنے والے ہیں'' _ جس پر امیہ نے کہا :'' کیا مکہ میں آکر؟'' _ تو سعد نے کہا : '' یہ میں نہیں جانتا '' _ امیہ نے کہا : '' خدا کی قسم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا'' _ اور

____________________

۱)السیرة النبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۶۱_

۲) اسیرة الحلبیہ ج ۲ ص ۱۴۵، انساب الاشراف ج ۱ ص ۲۹۲، السیرة النبویة ابن ہشام ج۲ ص ۲۶۱، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۰ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۳۳، تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۱۳۷ و البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۵۸_

۲۲۹

وہ بہت گھبرا گیا ( یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے اسی گھبرا ہٹ اور خوف میں اپنے کپڑے گیلے کردیئے اور مکہ سے کبھی نہ نکلنے کا تہیہ کرلیا _ اسی بنا پر وہ مکہ سے نکلنے سے ہچکچا رہا تھا _ پھر جنگ بدر کے موقع پر ابوجہل نے امیہ سے ساتھ جانے کے لئے بہت اصرار کیا _حتی کہ یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ عقبہ بن ابی معیط اس کے پاس دھونی والی انگیٹھی لے آیا اور اس نے اس کے سامنے انگیٹھی رکھ کر کہا : '' لو عورتوں کی طرح بیٹھ کر دھونی دو کہ تم نامرد ہو'' _ جس پر اس کی غیرت کی رگ پھڑ کی اور جانے کا پکا ارادہ کرلیا حالانکہ اس کی بیوی نے یہ کہہ کر اسے روکنا بھی چاہا کہ دیکھ لو خدا کی قسم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جھوٹ نہیں بولتا لیکن وہ جانے پر مصمم ہی رہا اور بدر میں ماراگیا(۱) _

مذکورہ واقعہ پرچند نکات

یہاں مندرجہ ذیل تین نکات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے:

۱_یہاں پر قابل ملاحظہ بات سعد کی ابوجہل کو ''مدینہ کے راستے میں اس پر ڈاکہ ڈالنے اور اس کا راستہ روکنے ''کی دھمکی ہے _ اور اس دھمکی پر عملدار آمد ابوجہل کی'' مدینہ والوں کو مکہ نہ آنے دینے ''کی دھمکی سے زیادہ سخت تھی اور ابوجہل پر یہ بات نہایت گراں گذری _ اور اس کا سبب بھی نہایت واضح ہے کیونکہ مکیوں کی اقتصادی زندگی تجارت سے وابستہ تھی _ اور ان کا اہم ترین تجارتی مرکز شام تھا_ اور اگر ان پر اتنا سخت اقتصادی دباؤ پڑتا کہ انہیں دوسروں کا محتاج ہونا پڑتا تو اس سے ان کی سیاسی ، معاشرتی اور اجتماعی حیثیت خطرے میں پڑجاتی اور دوسرے قبائل پر سے ان کا رعب ، نفوذ اور ان کی اہمیت جاتی رہتی _ پھر وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں سے کس بات پر اور کیوں جنگ کرتے ؟ کیا ان کی جنگ اس نفوذ اور سرداری کی بقاء کے لئے نہیں تھی جسے وہ ہر چیز سے بلند و بالا اور بڑھ کر سمجھتے تھے؟_ ہجرت کے متعلق گفتگو میں اس بارے میں بھی مختصراً گفتگو ہوئی ہے_

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج ۲ ص۱۴۵ نیز ملاحظہ ہو : صحیح بخاری کتاب المغازی ، باب غزوہ بدر و باب علامات النبوة و السیرة النبویہ ابن کثیر ج۲ ص ۸۳۴و ۸۳۵_

۲۳۰

۲_یہاں ہم یہ مشاہدہ بھی کرتے ہیں کہ امیہ بن خلف کے نظریات ، گفتار اور کردار عقل اور ضمیر کے تابع نہیں ہیں _ کیونکہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سچائی کا قائل ہونے کے باوجود بھی جب جنگ پر نہ جانے کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اپنی جان کے خوف سے ایسا کرتا ہے _ اور جنگ کا قصد بھی اس لئے نہیں کرتا کہ اس کا نظریہ بدل جاتا ہے بلکہ وہ غیرت ، جوش اور جاہلی غرور اور نخوت میں آکر جنگ کا فیصلہ کرتا ہے _ جس کی وجہ سے اسے دنیا اور آخرت دونوں میں ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا _ خدا نے اس جیسے افراد کی حالت واضح الفاظ کے ساتھ یوں بیاں کی ہے:

( و جحدوا بها و استقینتها انفسهم ظلما و علوا ً فانظر کیف کان عاقبة المفسدین ) (۱)

'' اورانہوں نے حقیقت کے قائل ہونے کے باوجود بھی تکبر اور دشمنی کی وجہ سے اس کا انکار کیا _ اب تم دیکھ لو ان فسادیوں کا کیا حشر ہوا''

۳_ اس واقعہ میں اس بات کی واضح دلالت بھی پائی جاتی ہے کہ تمام لوگوں کے دلوں میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت زیادہ عظمت اور اونچی شان بیٹھی ہوئی تھی نیز وہ اپنے ضمیر کی عدالت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی باتوں میں بالکل سچا پاتے تھے اور وہ تہہ دل سے اس حد تک اس حقیقت کے قائل اور معترف تھے کہ وہ قسمیں اٹھا کر کہتے تھے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی باتوں میں بالکل سچے ہیں اور وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے _ لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود وہ مادی اور دنیاوی فوائد اور قبائلی اثر و رسوخ و غیرہ کی خاطر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی کو ضروری سمجھتے تھے_

طالب بن ابی طالب کی جنگ سے واپسی

مشرکین کے ساتھ ساتھ بنی ہاشم کے بھی پانچ آدمی عباس ، عقیل ، نوفل بن حارث اور طالب بن ابی طالب بھی اس جنگ میں شریک ہوئے _ طالب کو تو زبردستی لے آیا گیا جس پر اس نے یہ رجز کہا :

____________________

۱)نمل ، ۱۴_

۲۳۱

یا رب اما یغزون طالب

فی مقنب من هذه المقانب

فلیکن المسلوب غیر السالب

و لیکن المغلوب غیر الغالب

پالنے والے طالب ان لٹیروں کے ٹولے میں پھنس کر اس جنگ کے لئے آیا ہے _ میری خواہش ہے کہ یہ شکست کھا کر لٹ پٹ جائیں ، فتح کے نشے میں یہ لٹیرے لوٹ مارکریں گے_

اس رجز کے بعد قریشیوں کا طالب کے ساتھ جھگڑا ہوگیا _ جس میں انہوں نے کہا : '' خدا کی قسم ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ تمہارا دل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہے'' _ اس لئے وہ دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ واپس مکہ لوٹ آیا_ اسی وجہ سے نہ تو وہ بدر کے مقتولین میں نظر آیا ، نہ قیدیوں میں اور نہ ہی مکہ واپس جانے والوں میں نظر آیا(۱) ؟ _ بعض نے یہ دعوی بھی کیا ہے وہ جنگ بدر میں اس وقت ماراگیا جب مشرکوں نے اسے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے بھیجا(۲) _

ہمارا نظریہ

الف: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ( راستے میں پلٹ جانے کے باوجود بھی ) مکہ پہنچنے والے لوگوں میں نظر نہ آئے ہوں ، حالانکہ ابن ہشام نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مدح اور ( ابن ہشام کے بقول ) قلیب ( جنگ بدر)کے مقتولین کے مرثیہ میں اس کے اشعار نقل کئے ہیں جس میں وہ نوفل اور عبدشمس کے خاندان سے بنی ہاشم سے جنگ نہ کرنے کی اپیل کرتا ہے کیونکہ اس کا نتیجہ صرف دکھ، درد، تکلیفیں اور مصیبتیں ہی ہوں گی_

____________________

۱)ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۹۴ و ۲۹۵ ، روضہ کافی ص ۳۷۵، تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۴۴، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۱، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۱، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۶ ، انساب الاشراف ج ۲ ص ۴۱، البتہ اس میں صرف یہ آیا ہے کہ وہ مشرکین کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے_

۲)تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۱۶۳_

۲۳۲

اس نظم کے چند اشعار یہ ہیں:

فما ان جنینا فی قریش عظیمة

سوی ان حمینا خیر من وطا التربا

اخاثقة فی النائبات مرزا

کریماً ثناه ، لا بخیلا و لا ذربا

یطیف به العافون یغشون بابه

یؤمّون نهراً لا نزوراً و لا ضرباً

فوالله لاتنکف عینی حزینة تململ

حتی تصدقوا الخزرح الضربا(۱)

قریش نے ہم بنی ہاشم کے ساتھ ایسی جانی دشمنی کیوں کرلی ہے ؟ حالانکہ ہم تو قریش کے خلاف کسی بھی زیادتی کے مرتکب نہیں ہوئے _ ہم نے تو صرف روئے زمین کی سب سے بہترین ، فیاض ، اور شریف شخصیت کی حمایت کی ہے جو سختیوں میں قابل اعتماد ساتھی ہے _ اس نے کبھی بخل اور ترشروئی نہیں کی ہے_ اچھائی کے متلاشی پروانوں کا اس کے گرد ایسے جم گھٹا لگا رہتا ہے جیسے لوگ کسی لبالب بھری نہر پر جمع ہوجاتے ہیں_ اس کی عطا نہ کم ہوتی ہے نہ کبھی ختم ہوتی ہے بلکہ یکساں طور پر سب کے لئے جاری ہے _ پس اب میں ہمیشہ گریاں اور نالاں رہوں گا یہاں تک کہ خزرج والوں کی جیت نہیں ہوتی_

اس کی یہ نظم اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جنگ بدر کے واقعہ کے بعد بھی زندہ رہا _ البتہ اس کا جنگ بدر کے مقتولین پر گریہ شاید قریش کا ساتھ دینے کی غرض سے ہوگا ( کیونکہ وہ خود کا فریا مشرک نہیں تھا) اس لئے کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے متعلق اس کے مدحیہ اشعار اور نوفل اور عبد شمس کے خاندان سے اس کی بنی ہاشم کے خاندان سے نہ لڑنے کی التجا ہماری مذکورہ بات پر دلالت کرتی ہیں_ و گرنہ اس کے اس شعر کی کیا توجیہ کی جاسکتی ہے؟

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج ۳ ص ۲۷ و ۲۸ و البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۳۴۰_

۲۳۳

و لیکن المسلوب غیر السالب

و لیکن المغلوب غیر الغالب

ب: ایک مرسل روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ طالب مسلمان ہوگیا تھا(۱) اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مندرجہ ذیل شعر بھی اسی کا ہے:

و خیر بنی هاشم احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

رسول الا له علی فترة(۲)

اور بنی ہاشم کے بھی بہترین فرد زمانہ جاہلیت میں مبعوث ہونے والے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں_

البتہ یہ بات بھی بعید نہیں ہے کہ قریش نے جنگ بدر و غیرہ میں ( حضرت علیعليه‌السلام کے کارناموں کی وجہ سے ) مارے جانے والے اپنے ساتھیوں کا انتقام لینے کے لئے طالب سے چھٹکارے کی خاطر کوئی چال چل دی ہو جس کی وجہ سے آج تک طالب کا کوئی صحیح اتا پتا معلوم نہیں ہوسکا_

مجبور اور واپس پلٹ جانے والے

جب ابوسفیان اپنا تجارتی قافلہ بچا کر دوسرے راستے سے نکال کرلے گیا تو اس نے قریش سے اب واپس پلٹنے کو کہا لیکن ابوجہل بدر جاکر وہاں تین دن تک شراب و کباب کی محفل سجانے پر اس لئے مصر رہا کہ تمام عرب ان کے اس خروج اور اتنے بڑے مجمع کے متعلق سنیں گے تو ہمیشہ کے لئے ان سے ڈرتے رہیں گے_ لیکن اخنس بن شریق وہاں سے قبیلے بنی زہرہ کے افراد کو لے کر واپس پلٹ گیا_

البتہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس قبیلہ کے دو افراد جنگ بدر میں مارے گئے _ بلکہ تلمسانی نے تو'' الشفائ'' کی شرح میں یہاں تک بھی لکھا ہے کہ خود اخنس بھی جنگ بدر میں ماراگیا تھا البتہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ عمر کی خلافت کے دوران مراتھا_

____________________

۱) البحار ج/۱۹ ص ۲۹۴_

۲)شرح نہج البلاغہ ج ۱۴ ص ۷۸_

۲۳۴

مؤرخین اخنس کی قبیلہ بنی زہرہ کے ساتھ واپسی کی وجوہات کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے چپکے سے ابوسفیان سے پوچھا کہ کیا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جھوٹ بولتا ہے؟ تو اس نے کہا کہ اس نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا _ ہم تو اسے ''امین'' کہا کرتے تھے، لیکن یہ تو دیکھو کہ عبدالمطلب والوں کے پاس اگرسقایت ( پانی پلانے) ، رفادت (مہمان داری) اور مشورت کے عہدوں کے ساتھ ساتھ نبوت بھی آجائے تو پھر ہمارے لئے کیا بچے گا؟ _ یہ بات سن کر اخنس پیچھے ہٹ گیا اور بنی زہرہ والوں کو لے کر واپس لوٹ آیا(۱) _

اسی طرح قبیلہ بنی عدی کا بھی کوئی فرد جنگ بدر میں شریک نہیں ہوا _ اور بنی ہاشم نے بھی واپس لوٹنے کا ارادہ کیا تو ابوجہل نے انہیں نہیں جانے دیا اور کہا : '' (حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ) یہ رشتہ دار تب تک ہمارا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے جب تک ہم صحیح سالم واپس نہیں لوٹ جاتے''(۲) _

مذکورہ افراد کے متعلق نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا موقف

مکہ میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اور مسلمانوں کے متعلق بنی ہاشم کے مؤقف اور ان کی حمایت کی وجہ سے نیز مذکورہ وجوہات کی بنا پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر میں بنی ہاشم کے افراد کو قتل کرنے سے منع فرمایا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسی طرح ابوالبختری ولید بن ہشام کو بھی قتل کرنے سے منع فرمایا کیونکہ یہ شخص بھی بائیکاٹ والی دستاویز کی مخالفت اور بائیکاٹ ختم کر نے میں پہل کرنے والوں میں شامل تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہ صرف خود اذیت نہیں دیتا تھا بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کام سے روکتا تھا_ لیکن بدر میں جب اس نے اپنے ساتھی کے بغیر قیدی بننا گوارا نہ کیا تو اسے اس کے ساتھی سمیت قتل کردیا گیا _ اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حارث بن نوفل کو بھی قتل کرنے سے اس لئے منع فرمایا کہ اسے جنگ کے لئے زبردستی لایا گیا تھا، لیکن اس سے ناآشنا ایک شخص نے اسے قتل کردیا_ اور زمعہ بن اسود کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا_

____________________

۱)ملاحظہ ہو ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۳_

۲)ملاحظہ ہو : سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۱، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۴و ج ۱ ص ۲۹۱ و تاریخ الاسلام ذہبی ( حصہ مغازی) ص ۳۱و ۳۳_

۲۳۵

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مؤقف پر ایک سر سری نظر

گذشتہ واقعہ سے سبق لینے کے لئے مندرجہ ذیل نکات بیان کئے جاتے ہیں:

الف: مذکورہ افراد کے قطعی موقف کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جنگ سے مقصد کامیابی ، غلبہ ، حکومت اور سلطنت کا حصول نہیں تھا اور نہ ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خون بہانا، پسر مردہ ماؤں اور بیواؤں کو رلانا اور کشتوں کے پشتے لگانا پسند تھا_ بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقصد اور ہدف تو ان باتوں سے افضل اور اعلی تھا جس کا عام فائدہ تمام امت کو بلکہ کئی نسلوں کو پہنچتاا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ممکنہ حد تک انتہائی کم قربانیوں سے اپنے اصلی مقصد تک رسائی چاہتے تھے_

ب: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے موقف اور نظریات کی قیمت ان کے حسن خلق ، اچھی عادت اور فطرت ، بہادری اور نیک خصلتوں کی وجہ سے لگاتے تھے_ چاہے وہ شخص کوئی بھی ہوتا ، اس کی وابستگی جس کے ساتھ بھی ہوتی اور اس کا عقیدہ اور نظریہ جو بھی ہوتا اس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی وہ کامل انسان اور انسانیت کے ایسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے جو ان اچھی صفات کو صحیح طریقے سے سمجھ سکتے تھے اور کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ ان کی قیمت لگا سکتے تھے_ اسی وجہ سے ان سب لوگوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یکساں موقف رہا جنہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کے ساتھ چاہے ایک بار ہی سہی حسن سلوک اور نیک رفتاری کا مظاہرہ کیا تھا_کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ مذکورہ موقف صرف اپنے عزیزوں اور خاندان والوں کے ساتھ منحصر نہیں تھا _اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رشتہ داریوں سے متاثر ہو کر کوئی موقف یا نظریہ اپنا نے والے نہیں تھے اور اس جیسا پرخطر موقف عقل سلیم کے لحاظ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصلحت میں تھا بھی نہیں_

ج: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان مشکل گھڑیوں کو بھی اچھی طرح سمجھ رہے تھے جن سے بعض لوگ گھبرائے ہوئے تھے_ ان لوگوں پر یہ گھڑی آئی ہوئی تھی کہ قریش نے انہیں ایسا مؤقف اپنا نے پر مجبور کردیا جو ان کے اغراض و مقاصد یا کم از کم ذاتی خواہشات اور رجحان کے برخلاف تھا_ اگر چہ کہ ایک لحاظ سے وہ قصور وار بھی تھے کیونکہ وہ حق کی مدد کرسکتے تھے اور عقل سلیم کے مطابق ایک صحیح موقف بھی اپنا سکتے تھے _ جس طرح کہ ان کے دیگر

۲۳۶

مسلمان بھائیوں نے اس طرح کیا تھا اور اپنے آپ کو ہنسی خوشی مشقتوں اور تکلیفوں میں جھونک دیا تھا _ یہاں تک کہ خدا نے ان کی مدد کی اور حق کا بول بالا ہوا_

جنگ کے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مشورہ لینا

مسلمان جب بدر کے قریب پہنچے اور انہیں قریش کے اکٹھے ہونے اور جنگ کے لئے روانہ ہونے کی اطلاع ملی تو وہ اس بات سے بہت خوفزدہ ہوئے_ جس کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کرنے یا تجارتی قافلے کے پیچھے جانے کے متعلق اپنے اصحاب سے مشورہ لیا_

حضرت ابوبکر نے کھڑے ہوکر کہا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ یہ قریشی اپنے لشکر کے ساتھ غرور اور تکبر میں اور کیل کانٹوں سے مکمل طور پر لیس ہو کر آرہے ہیں_ یہ ہمیشہ سے بے ایمان کافر اور ناقابل شکست رہے ہیں_ جبکہ ہم جنگ کرنے کے لئے بھی نہیں نکلے''(۱) _ اس پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اس سے فرمایا:'' بیٹھ جاؤ'' _ تو وہ بیٹھ گیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر فرمایا :'' مجھے مشورہ دو '' _ تو عمر نے کھڑے ہوکر ابوبکر کی بات دہرائی _ اسے بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیٹھ جانے کو کہا تو وہ بیٹھ گیا _ لیکن واقدی اور حلبی نے مذکورہ باتوں کو عمر سے منسوب کرتے ہوئے ابوبکر کے متعلق کہا کہ اس نے بہترین مشورہ دیا تھا(۲) _

پھر مقداد نے اٹھ کر کہا : '' یا رسول اللہ ٹھیک ہے کہ وہ مغرور قریشی ہیں اور ساتھ ہی ان کا لاؤ لشکر ہے ، لیکن ہم بھی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لانے والے ، تصدیق کرنے والے اور یہ گواہی دینے والے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرف سے حق بات لے کر آئے ہیں_ خدا کی قسم اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیں جھاؤ جیسے سخت درخت کے تنے کے گودے یا نوکیلی خاردار جھاڑیوں میں گھسنے ( دوسرے لفظوں میں گہرے کنویں میں کو دنے) کا حکم بھی دیں گے تو ہم بے چون و چرا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان میں گھس جائیں گے_ اور ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بنی اسرائیل کی وہ بات نہیں کریں گے

____________________

۱) البتہ جناب ابوبکر کے اور بھی الفاظ ہیں جن میں انہوں نے تجارتی قافلے کے لوٹ مارکی ترغیب دلائی تھی جو یہاں مذکور نہیں ہےں لیکن دیگر کتابوں میں مذکور ہےں_ مترجم_

۲)ملاحظہ ، مغازی واقدی ج ۱ ص ۴۸ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۰، در منثور ج ۳ ص ۱۶۶از دلائل النبوة بیہقی ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۴۷ و تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۵۸_

۲۳۷

جو انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے کی تھی کہ جاؤ تم اور تمہارا رب دونوں جاکر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں(۱) _ بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رب جاکر لڑیں ہم بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانہ بشانہ جنگ کریں گے_ خدا کی قسم ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دائیں ، بائیں ، آگے اور پیچھے چاروں طرف سے لڑیں گے ( اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کریں گے) اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمندر میں بھی کو دجائیں گے اور برک الغماد(۲) تک بھی لے جائیں گے تو بھی ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ساتھ رہیں گے_

یہ بات سن کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ کھل اٹھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خوش ہو کر اسے دعا دی بلکہ مؤرخین کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کھکھلا کرہنسے تھے(۳) _

نوٹ : مذکورہ تمام باتیں مہاجرین کی تھیں اور ان کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنگ نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ ہر قیمت پر اس ٹکراؤ سے بچنا چاہتے ہیں لیکن مقداد نے مہاجر ہونے کے با وجود شیخین کی مذکورہ باتوں کو ٹھکرادیا اور ان کے موقف کو رد کردیا_

پھر تاریخی دستاویزات کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انصار کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا :'' مجھے مشورہ دو '' _ اس بات سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد انصار تھے، کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فوج کا بیشتر حصہ انصار پر مشتمل تھا_ نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بات کا خطرہ بھی تھا کہ ان کے ذہن میں یہ بات نہ ہو کہ ان پر صرف مدینہ میں ہی دشمن کے حملہ کے وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنے کا فریضہ عائد ہوتا ہے مدینہ سے باہر نہیں_ پس سعد بن معاذ نے (البتہ سعد بن عبادہ کا نام بھی لیا گیا ہے لیکن یہ ایک خیال اور وہم سے زیادہ کچھ نہیں ، اس لئے کہ وہ تو بچھو و غیرہ کے ڈسنے کی وجہ سے چلنے پھر نے سے معذور تھا اس لئے وہ بدر نہیں جاسکتا تھا)(۴) کھڑے ہوکر کہا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ میرے ماں باپ بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر

____________________

۱)بنی اسرائیل کی مذکورہ بات سورہ مائدہ آیت ۲۴ میں مذکور ہے_ (۲) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۳ کے مطابق برک الغماد حبشہ کا ایک شہر ہے جبکہ واقدی کی المغازی ج ۱ ص ۴۸ کے مطابق برک الغماد مکہ سے سمندر کی جانب پانچ دن کے فاصلے پر ساحل کے ساتھ ایک جگہ ہے جبکہ یہ جگہ مکہ سے یمن کے راستے میں آٹھ دن کے فاصلے پر ہے_ (۳) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۳ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۰ ازالکشاف و المغازی و اقدی ج ۱ ص ۴۸ _ البتہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس بات کو مؤرخین نے بہترین مشورہ قرار دیا وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی ناراضگی موجب کیوں بنا؟ (۴) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۰_

۲۳۸

قربان شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم سے مشورہ چاہتے ہیں؟'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' ہا ںبالکل'' _ اس نے کہا :'' شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نکلے کسی اور کام سے ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم کسی اور کام کاملا ہے؟ ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' ایسا ہی ہے''_ تو اس نے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ میرے ماں باپ بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہم تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لاچکے ہیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق کر چکے ہیں اور یہ گواہی بھی دے چکے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرف سے حق بات لے کر آئے ہیں_ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیں جو چاہیں حکم دے سکتے ہیں'' یہاں تک کہ اس نے کہا :'' خدا کی قسم اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیں یہ حکم دیں کہ اس سمندر میں کود پڑو تو ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم پر کود پڑیں گے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا نام لے کر ہمیں لے چلیں ، ہوسکتا ہے ہمارے کارناموں سے خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راضی اور خوشنود کردے''_

اس بات سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہایت خوش ہوئے اور انہیں آگے بڑھنے کا کہا اورانہیں یہ خوشخبری دی کہ خدا نے مجھ سے دوگروہوں ( تجارتی قافلے یا لشکر قریش) میں سے کسی ایک پر کامیابی کا وعدہ کیا ہے_ اور خدا کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ پیشین گوئی بھی فرمائی کہ گویا میں ابوجہل بن ہشام ، عتبہ بن ربیعہ اور ہشام کی لاشیں دیکھ رہا ہوں _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں سے چلے اور بدر آکر پڑاؤکیا_

بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکثر صحابہ تجارتی قافلے کا پیچھا کرنے کے خواہش مند تھے اور جنگ سے کترا رہے تھے(۱) _

خداوند عالم نے قرآن مجید میں مذکورہ بات کا تذکرہ اپنی اس آیت میں کیا ہے:

( واذ یعدکم الله احدی الطائفتین انها لکم وتودون ان غیر ذات الشوکة تکون لکم و یرید الله ان یحق الحق بکلماته ویقطع دابر الکافرین ) (۲)

____________________

۱)در منثور ج ۳ ص ۱۶۳و ۱۶۹ از ابن جریر ، ابوالشیخ ، ابن منذر ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، کشاف ، بیہقی و عبد بن حمید و البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳_

۲)انفال : ۷_

۲۳۹

اور ( وہ قت یاد کرو) جب خدا نے تم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارا ہی ہے لیکن تم یہ چاہتے تھے کہ بے وقعت چیز تمہارے ہاتھ لگے جبکہ اس بات سے خدا کاارادہ حق کابول بالا کرنے اور کافروں کی جڑیں کاٹنے کا تھا''_

بہرحال آگے بڑھنے سے قبل مندرجہ ذیل چھ نکات کی طرف اشارہ کرتے چلیں:

۱_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے صحابہ سے مشورہ

اس بارے میں ہم پہلے بھی جنگوں میں مہاجرین کو بھیجنے کی وجوہات کے متعلق گفتگو کے دوران بات کرچکے ہیں اور بعد میں بھی غزوہ احد کے باب میں '' جنگ چھڑنے سے پہلے'' کی فصل میں اس بارے میں انشاء اللہ سیر حاصل گفتگو کریں گے_

لیکن یہاں اس اشارے پر اکتفا کرتے ہیں کہ بدر جیسی فیصلہ کن جنگ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے صحابہ سے مشورہ لینا ضروری تھا کیونکہ اس علاقے میں کم از کم مستقبل قریب تک ایمان اور کفر کا انجام اس جنگ کے نتائج پر منحصر تھا_بلکہ یہ ہمیشہ کے لئے ایک فیصلہ کن جنگ تھی جس طرح کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی اس دعا '' خدا یا اگر تیرے یہ پیارے مارے گئے تو تیری عبادت کبھی نہیں ہوگی'' میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے_

البتہ یہ بات واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے مشورے کی بذات خود کوئی ضرورت نہیں تھی _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے مشورہ اس لئے لیا کہ اس جنگ کا بوجھ بھی انہیں ہی اٹھا نا تھا اور نتائج بھی انہیں ہی بھگتنا تھے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس ذریعے سے ان کے اندر کا حال بھی جاننا چاہتے تھے جس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مؤمن کو منافق سے ، بہادر کو بزدل سے ، صحیح سمجھ دار کو کم سمجھ جاہل سے ، دوست کو دشمن سے ، طاقتور کو کمزور سے اور مفاد پر ست کو فریضے پر عمل کرنے والے اطاعت گذار سے جدا کرنا چاہتے تھے_ ہماری اس بات کی دلیل سعدبن معاذ کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہ سوال ہے جس میں اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا کہ شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نکلے کسی کام سے ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو

۲۴۰

حکم کسی اور کام کا ملا ہے؟ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا تھا کہ ہاں ایسا ہی ہے_ اور یہ جملے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جنگ کا فیصلہ پہلے سے ہوچکا تھا اور خدا کی طرف سے یہ حکم پہلے ہی آچکا تھا_ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشورے کی وجوہات وہی تھیں جو ہم ابھی کہہ چکے ہیں، پہلے بھی کہہ چکے تھے اور غزوہ احد میں بھی کہیں گے_

۲_ بہترین رائے ، قریش سے جنگ

یہ بات بھی واضح ہے کہ صحیح رائے قریش سے جنگ ہی تھی جس میں خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مرضی بھی تھی_

کیونکہ مسلمان ایک دورا ہے پر کھڑے تھے:

یا تو تجارتی قافلے اور قریش کی فوج کا سامنا کئے بغیر مسلمان واپس پلٹ جاتے_ اور یہ بات مسلمانوں کی واضح روحی اور نفسیاتی شکست اور مشرکوں ، یہودیوں اور منافقوں کو اپنے اوپر جری کرنے کا باعث تھی_

یا پھر وہ تجارتی قافلے تک پہنچ کر کئی لوگوں کو قتل یا قید کرنے کے بعد اسے لوٹ لیتے _ اس صورت میں قریشی ہرگز خاموش نہ رہتے بلکہ وہ وسیع پیمانے پر اور مکمل طور پر لیس ہو کر مسلمانوں سے جنگ کرتے _ وہ تو اس صورتحال میں مسلمانوں کے واپس مدینہ پہنچنے سے بھی پہلے مدینہ پر چڑھائی کر کے مسلمانوں پر مہلک وار کرسکتے تھے_ کیونکہ اتنی بڑیتعد اد اور تیاری کے ساتھ قریشی اتنی بڑی بات پر چپ نہیں رہ سکتے تھے بلکہ وہ جلدی سے اپنی جاتی ہوئی حیثیت ، ہیبت ، رعب و دبدبے اور بزرگی کے اعادے کی کوشش کرتے_

پس مسلمانوں کے سامنے صرف ایک ہی راستہ باقی رہتا تھا_ اور وہ قریش (کو پہلے اپنا عادلانہ ،عاقلانہ اور قابل قبول چہرہ اور طاقت دکھانے نیز منصفانہ پیشکش سامنے رکھنے کے بعد اب ان )کے مقابل کھڑا ہونا تھا_ پس ان حالات میں قریش سے جنگ ہی بہترین اور بے مثال انتخاب تھا_ خاص طور پر جب وہ قریش کے تجارتی قافلے کے تعاقب میں نکل بھی چکے تھے اور اس کام سے ان کا پیچھے ہٹنا مسلمانوں کے لئے عدیم المثال پیچیدگیوں، مشکلات اور اعتراضات کا باعث بنتا_

۲۴۱

ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر مسلمان عزت اور وقار کی ایسی زندگی گذارنا چاہتے ہیں کہ ان کا کوئی بھی ہمسایہ ، مشرک ، یہودی ، منافق اور کوئی بھی دشمن ان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھے تو انہیںجنگ کے لئے پیش قدمی کرنی ہوگی_ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے_

۳_ نفسیاتی تربیت:

اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیںکہ :

الف: اس جنگ میں پہلے پہل عام مسلمانوں کا مقصد مال کا حصول تھا_ لیکن خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اس دنیاوی مقصد سے کہیں بلند ، قیمتی اور بہترین ہدف کی طرف لے جانا چاہا و گرنہ قریشیوں کی اس لشکر کشی اور جنگ کے پیچھے بھی تو دنیاوی ، اقتصادی ، اجتماعی ( معاشرتی ) اور سیاسی مقاصد کار فرماتھے_پھر تو مسلمانوں اور مشرکوں میں کوئی فرق باقی نہ رہتا_

ب: جنگ بدر نے مسلمانوں کے اندر خود اعتمادی کی روح پھونکنے اور بھر پور قوت اور شجاعت کے ساتھ آئندہ کے خطرات کا سامنا کرنے کی جرات پیدا کرنے میں اپنا بہت بڑا اثر دکھا یا _ کیونکہ انہیں خدا کے ''ہوکر رہنے والے حتمی ''کام کی انجام دہی کے لئے قریش کے جابروں، متکبروں اور سرداروں کو قتل اور قید کرنا پڑا اور اس امتحان میں وہ سرخرو ہوگئے ہیں تواب انہیں عرب اور عجم سمیت پوری دنیا سے جنگ کی تیاری کرنی تھی _

۴_ جنگ سے متعلق مشوروں پر ایک سرسری نگاہ

یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اکثر مؤرخین نے اس مرحلے میں عمر اور ابوبکر کا کلام حذف کر کے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ابوبکر نے کھڑے ہوکر اچھی رائے دی او رعمر نے بھی کھڑے ہوکر بہترین مشورہ دیا پھر

۲۴۲

مقداد نے کھڑے ہوکر فلاں بات کی(۱) _ بلکہ ان میں سے کچھ لوگوں کی طرف ایسی باتیں بھی منسوب کرتے ہیں جن کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سوال سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا_(۲) بہرحال شیخین کی مذکورہ باتیں چونکہ اکثر مؤرخین کو اچھی نہیں لگیں اس لئے وہ مذکورہ طریقے سے اس سے کنی کتراگئے _ لیکن یہ واضح سی بات ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقداد کی باتوں پر خوش ہوکر اسے دعائیں دینا اس بات کی دلیل ہے کہ شیخین کی باتیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشاورتی مقاصد سے میل نہیں کھاتی تھیں بلکہ وہ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعلی مقاصد کے بالکل برخلاف تھیں_ وگر نہ اگر ان کی باتیں لائق ذکر ہوتیں تو ان کے چاہنے والے راوی اور مؤرخین ان کی باتوں کو ضرور بڑھا چڑھاکر پیش کرتے_ لیکن مقداد کا مشورہ چونکہ بالکل صحیح ، منطقی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعلی اہداف و مقاصد کے موافق نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توقعات کے عین مطابق تھا اس لئے مقداد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاؤں اور تعریفوں کا مستحق ٹھہرا_

بلکہ کتابوں میں یہاں تک بھی آیا ہے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی آمد کی اطلاع ملی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے صحابیوں سے مشورہ لیا_ یہاں ابوبکر نے کوئی بات کی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی بات کو رد کردیا اور عمر نے بھی کوئی بات کی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی باتوں کو بھی ٹھکرا دیا(۳) _ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ان کی باتوں کو رد کردینا صرف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار کا جواب سننا چاہتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رو گردانی ان دونوں کے قریش سے جنگ نہ کرنے پر اکسانے نیز ان الفاظ کے ساتھ قریش کی تعریف کرنے کی وجہ سے تھی کہ یہ ہمیشہ سے ناقابل شکست اور بے ایمان کا فرر ہے ہیں _ وگرنہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقداد کی باتوں سے خوش ہوکر اسے دعائیں کیوں دی تھیں؟ حالانکہ وہ بھی تو ایک مہاجر تھا ؟حتی کہ ابن مسعود نے اس کے اس موقف کے متعلق کہا کہ اس کی ہم وزن کسی بھی چیز سے زیادہ مجھے اس کا ساتھی بننا بہت پسند تھا(۴) _ اور ابوایوب انصاری

____________________

۱) بطور مثال ملاحظہ ہو: البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۲ و الثقات ج ۱ ص ۱۵۷_

۲)وہ بات قریش کے تجارتی قافلے کو لوٹنے والی بات تھی (۳) صحیح مسلم باب غزوہ بدر ج ۵ ص ۱۷۰ مسند احمد ج ۳ ص ۲۱۹ دو اسناد کے ساتھ نیز از الجمع بین الصحیحین ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳ و السیرة النبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۹۴_

۴) صحیح بخاری باب '' تستغیثون ربکم'' مطبوعہ المیمنیہ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۲ _ ۲۶۳و سنن نسائی _

۲۴۳

نے بھی اپنی باتوں کے دوران یہ اظہار کیا کہ ہم انصار جماعت کی یہ حسرت رہی کہ اے کاش اس دن ہم نے بھی مقداد کی طرح باتیں کہی ہوتیں ( اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعائیں سمیٹی ہوتیں) تو یہ چیز ہمیں بہت زیادہ مال سے بھی زیادہ پسند تھی _ جس پر خدا نے یہ آیت نازل کی تھی( کما اخرجک ربّک من بیتک بالحق و ان فریقاًمن المؤمنین لکارهون ) (۱) _

گذشتہ تمام باتوں کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام مہاجرین و انصار سب کے لئے دعوت عام تھا _ اسی طرح جنگ پر بیعت نہ کرنے کے لحاظ سے مہاجرین بھی انصار ہی کی طرح تھے_پس مؤرخین کی یہ بات کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخاطب صرف انصار تھے صحیح نہیں ہے_

۵_ مقداد اور سعد کی باتوں پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سرور کی وجوہات

مقداداور سعد بن معاذ کی باتوں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی مشورہ نہیں دیا نہ جنگ کا اورنہ ہی صلح کا بلکہ انہوں نے تو صرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے چون و چرا اطاعت اور فرمانبرداری کا اظہار کیا تھا_ انہوں نے تو اپنی کسی رائے کا اظہار کیا نہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کسی چیز کا مشورہ دیا _ اور یہ ایمان خلوص ، اطاعت ، فرض شناسی اور موقع شناسی کی انتہا ہے _

خدا کا فرمان ہے کہ( و ما کان لمؤمن و لامؤمنة اذا قضی الله و رسوله امراً ان یکون لهم الخیرة من امرهم ) (۲) ترجمہ : '' جب خدا اور اس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوئی فیصلہ کرلیں تو کسی بھی مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت کو اپنی مرضی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے '' _ نیز( یا ایها الذین آمنوا لاتقدموا بین یدی الله و رسوله و اتقو الله ان الله سمیع علیم ) (۳) ترجمہ : '' اے مؤمنوا خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی چیز میں پیش قدمی نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرو کہ خدا خوب سننے اور جاننے والا ہے '' _ اور خدا کے ان

____________________

۱) البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳ و ص ۲۶۴ از ابوحاتم و ابن مردویہ_

۲) احزاب /۳۶ _

۳) حجرات_

۲۴۴

فرامین کی روشنی میں یہ دونوں شخصیات خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فیصلے کے سامنے اپنی کوئی حیثیت نہیں سمجھتے تھے اور اپنے لئے کسی بھی مرتبے کے قائل نہیں تھے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خوشی اور سرور بھی ان کے اسی گہرے اور پختہ ایمان اور بے چون و چرا فرمانبرداری کی وجہ سے تھی _

۶_ حضرت علی علیہ السلام نے مشورہ کیوں نہیں دیا؟

یہاں قابل ملاحظہ بات یہ بھی ہے کہ اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے عقلمندی اور دانائی کا سرچشمہ ہونے کے باوجود اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اپنا موقف اور مشورہ سنانے کی انہیں کوئی جلدی تھی_ آپ لوگوں کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟

اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا موقف بعینہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاہی موقف تھا _ کیونکہ آیت مباہلہ میں خدا نے ان الفاظ میں حضرت علی علیہ السلام کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات اور نفس قرار دیا :

( فقل: تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم ونسائنا و نسائکم و انفسناو انفسکم )

تو ( اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صورت میں انہیں ) کہہ دو کہ پھر آؤ ہم اور تم اپنے اپنے سپوتوں ، عورتوں اور اپنی سب سے پیاری شخصیتوں کو بلالیں

مزید یہ کہ حضرت علی علیہ السلام خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی معاملے میں پیش قدمی کرنے والے تھے ہی نہیں _ اور اس موقع پر وہ خدا اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے خاموشی ، رضا اور سر تسلیم خم کرنے کو اپنے لئے ضروری سمجھتے تھے اور اس کام میں انہیں کوئی عار بھی محسوس نہیں ہوتا تھا _

'' حباب'' اچھی رائے والا

مؤرخین کے بقول جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بدر کے مقام پرپانی کے کنویں کے قریب پڑاؤ کیا تو حباب بن

۲۴۵

منذر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ مشورہ دیا کہ دشمن کی فوج کی بہ نسبت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پانی کے زیادہ قریب پڑاؤ کریں اور وہاں پانی کا ایک حوض بنائیں پھر دیگر تمام کنوؤں کا پانی نکال لیں_ اس سے مسلمان تو پانی استعمال کرسکیں گے لیکن مشرکین ایسا نہ کرسکیں گے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا ہی کیا توحباب کے مشورہ کو درست پایا_ اس پر حباب کو '' حباب ذوالرا ی '' ( حباب بہترین رائے والا ) پکارا جانے لگا(۱) _

لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے _ کیونکہ :

ایک : پختہ دلیلوں سے ثابت ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کچھ سوچتے یا کرتے تھے وہ سب صحیح اور بہترین ہوتا تھا _ اور یہ نظریہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیاوی معاملات میں غلطی کرسکتے تھے ، ناقابل اعتبار ہے کیونکہ یہ بات عقل اور آیات و روایات کے بالکل بر خلاف ہے (البتہ خطا اور نسیان سے عصمت کے اختیاری ہونے کی گفتگو عنقریب ہوگی انشاء اللہ )

دو : '' عدوة القصوی '' جہاں مشرکوں نے پڑاؤ کیا تھا پانی بھی وہاں تھا اور وہ ایک بہترین زمین تھی جبکہ '' عدوة الدنیا '' میں کوئی پانی نہیں تھا ، جبکہ وہاں کی زمین اتنی نرم تھی کہ اس میں پاؤں دھنس جاتے تھے(۲)

تین : مسلمانوں سے پہلے مشرکوں نے بدر کے مقام پر آکر پڑاؤ کیا تھا _ اور یہ معقول ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ایسی جگہ جا کر پڑاؤ کیا ہو جہاں کوئی پانی نہ ہو اور پانی والا حصہ اوروں کے لئے چھوڑدیا ہو_

چار : خود ابن اسحاق یہ بیان کرتا ہے کہ مشرکین حوض سے پانی لینے آئے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ انہیں پانی بھرنے دیا جائے(۳) _ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے بھی جنگ صفین میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی میں اپنے سرکش دشمنوں کو بھی پانی لینے کی اجازت دے رکھی تھی_ حالانکہ انہوں نے پہلے آپعليه‌السلام کو اسی

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۲ ، تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۷۶، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۵، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۲، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۴۰۳و ص ۴۰۲ و البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۶۷ و غیرہ _ (۲) ملاحظہ ہو : فتح القدیر ج ۲ ص ۲۹۱ از زجاج و ص ۳۱۱ و کشاف ج ۲ ص ۲۰۳ تا ۲۲۳ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵ ، تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۹۲ از ابن عباس ، قتادہ ، سدی و ضحاک ، در منثور ج ۳ ص ۱۷۱ از ابن منذر ، ابوالشیخ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۴ ، سیرہ ابن کثیر ج ۲ ص ۴۰۰ ، کشاف ، انوار التنزیل و مدارک و غیرہ _ (۳) ملاحظہ ہو : الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۳_

۲۴۶

پانی سے محروم کیا ہوا تھا(۱) اور یہ واضح سی بات ہے کہ دشمنوں کو پانی سے روکنا اور منع کرنا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اخلاقیات اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے سازگار نہیں ہے _

پس صحیح روایت یہ ہے کہ پہلے پہل مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا _ لیکن ایک رات خدا نے موسلا دھار بارش برسائی تو وادی میں سیلاب سا آگیا اور مسلمان نے کئی حوض (گڑھے) بنالئے ، خود بھی پانی پیا اور جانوروں کو بھی پلایا ، نہایا دھویا بھی اور اپنی مشکیں بھی بھر لیں(۲) _ اس بات کی طرف یہ آیت اشارہ کررہی ہے _ ( اذ یغشیکم الناس امنة منہ و ینزل علیکم من السماء مائً لیطہرکم بہ و یذہب رجز الشیطان و لیربط علی قلوبکم و یثبت بہ الاقدام )(۳) پس حوض بنانے کے وجوہات وہ نہیں جو پہلے ذکر ہوئی ہیں بلکہ یہی ہےں جواب ذکر ہوئی ہےں_

مسلمانوں اور مشرکوں کی تعداد اور ساز و سامان

جناب طالوت کے ساتھیوں کی تعداد کے مطابق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس جنگ میں اپنے تین سو تیرہ صحابیوں کو لے کر نکلے ( البتہ کم یا زیادہ تعداد کے اقوال اور نظریات بھی ہیں لیکن مذکورہ قول اکثر بزرگان کا نظریہ ہے(۴) _ اور ان کے ساتھ ستر اونٹ تھے جن پر دود ویا تین تین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے _ خود نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت علیعليه‌السلام اور مرثد بن ابی مرثد ( البتہ بعض مؤرخین کے مطابق تیسرا شخص زید بن حارثہ تھا ) ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے _ مؤرخین کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ اس لشکر میں ایک گھوڑا مقداد کا ضرور تھا لیکن باقی کے متعلق اختلاف ہے _ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ فقط یہی ایک گھوڑا تھا(۵) اور یہ قول حضرت علیعليه‌السلام سے بھی منقول ہے(۶) ایک نظریہ یہ ہے کہ ایک گھوڑا زبیر کا یا مرثد کا بھی تھا جبکہ یہ بھی کہا

____________________

۱) ملاحظہ ہو مصنف کی کتاب '' الاسلام و مبدا المقابلة بالمثل '' _ (۲) ملاحظہ ہو : کشاف ج ۲ ص ۲۰۳ وص ۲۰۴ و تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۹۲ البتہ اس میں حوض بنانے کا ذکر نہیں ہے _ (۳) انفال /۱۱_ (۴)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۴۹_ (۵) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱ از کشاف ، مناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۷ ، بحار الانوار ج ۹ ۱ ص ۳۲۳ از تفسیر عیاشی ج ۲ ص ۲۵ و ۵۴ و حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۹۳ از الترغیب ج ۱ ص ۱۳۱۶ از ابن خزیمہ نیز ملاحظہ ہو _ المغازی ذہبی ( تاریخ الاسلام ) ض ۵۶و ۵۹ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۹ ، دلائل النبوة بیہقی مطبوعہ مکتبة العلمیہ ج ۳ ص ۳۸ و ص ۳۹ و ۴۹ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۲۷ و تاریخ الام و الملوک ج ۲ ص ۳۵_ (۶) تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۳۵، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۹ و سیرہء نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۸_

۲۴۷

گیا ہے کہ دونوں کے گھوڑے تھے_ اسلحہ میں صرف چھے ڈھالیں اور آٹھ تلوار یں تھیں(۱)

ان تین سو تیرہ سپاہیوں میں سے مہاجرین کی تعداد کے متعلق مختلف اقوال ہیں_ چونسٹھ (۶۴) بھی کہا گیا ہے ستر (۷۰) بھی، چھیتر (۷۶) بھی ، ستتر (۷۷) اور اسی (۸۰) تک بھی کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو سو ستر (۲۷۰) انصاری تھے اور باقی دوسرے لوگ تھے _ اس کے علاوہ دیگر اقوال بھی ہیں(۲) _ اور انصارمیں سے کہا گیا ہے کہ ایک سو ستر (۱۷۰) خزرجی تھے البتہ اس تعداد میں بھی اختلاف پایا جاتاہے_ لیکن مشرکین نشے میں بد مست تھے اور اپنے ساتھ ڈفلی بجانے والی گلوکار ائیں بھی لائے تھے جنہیں انہوں نے راستے سے ہی واپس پلٹا دیا تھا_ ان کے ساتھ سات سو اونٹ تھے(۳) _ البتہ گھوڑوں کی تعداد میں اختلاف ہے _ چارسو بھی کہا گیا ہے(۴) ، دو سو بھی کہا گیا ہے اور ایک سو بھی(۵) نیز دیگر اقوال بھی ہیں_ اور ان سب کے پاس ڈھالیں تھیں اور ڈھال والی فوج کی کل تعداد چھ سو(۶۰۰) تھی(۶) _ پورے لشکر کے کھانے پینے کا بند و بست کرنے والے کل بارہ آدمی تھے جن میں عتبہ ، شیبہ ، عباس ، ابو جہل اور حکیم بن حزام بھی تھے _ البتہ مشہور یہ ہے کہ مؤخر الذکر بعد میں مؤلفة القلوب میں شمار ہونے لگا تھا _ بہرحال ان بارہ آدمیوں میں سے ہر ایک پورے لشکر کے ایک دن کا کھانا اپنے ذمہ لے لیتاتھا _ اور وہ ان کے لئے نو یاد س اونٹ ذبح کرتا تھا_

____________________

۱) ملاحظہ ہو :مناقب آل ابی طالب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۷، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۰۶، مجمع البیان ج ۲ ص ۲۱۴ البتہ دار احیاء التراث کی طباعت کے مطابق ج ۱ ص ۴۱۵ و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱_

۲) ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج ۱۹ ص ۳۲۳، دلائل النبوة بیہقی ج ۳ ص ۴۰، البدایة و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۹، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۶، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۶۰۳ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱، انساب الاشراف ج ۱ ص ۲۹۰، مجمع الزوائد ج ۶ ص ۹۳، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۱۸ و دیگر کتب_

۳) ملاحظہ ہو گذشتہ چند حاشیوں میں مذکور منابع_

۴) تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۶۲_ (۵) ملاحظہ ہو : مناقب آل ابی طالب ج ۱ ص ۱۸۷، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۶، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۲۴ و ص ۲۰۶، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۱۸ ، مجمع البیان و دیگر کتب نیز سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۷_

۶) التنبیہ و الاشراف ص۲۰۴ و سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۷_

۲۴۸

مشرکوں کی ہٹ دھر می اور کینہ توزی

بدر کے کنویں پر مسلمانوں نے قریش کے چند ایک غلاموں کو پکڑ ان سے تجارتی قافلے کے متعلق پوچھ گچھ کی توانہوں نے اس سے لا علمی کا اظہار کیا جس پر مسلمانوں نے انہیں مارا پٹیا_ اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز میں مصروف تھے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جلدی جلدی نماز مکمل کی اور فرمایا:'' وہ تمہیں سچ سچ بتا رہے ہیں تو تم انہیں مار رہے ہو کیا جھوٹ بولنے پر انہیں چھوڑ وگے؟ '' _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے لشکر قریش کی تعداد کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس سے بھی لا علمی کا اظہار کیا _ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا : '' وہ ہر روز کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟'' _ انہوں نے کہا :'' نو سے دس تک ذبح کرتے ہیں'' _ اس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' اس کا مطلب ہے وہ لوگ نو سو سے ایک ہزار تک کی تعداد میں ہیں''(۱) _ (البتہ اس سے زیادہ تعداد بھی بتائی گئی ہے حتی کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد تین ہزار تک تھی لیکن یہ صحیح نہیں ہے) _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کو قید کرنے کا حکم دیا تو انہیں قید کر لیا گیا _ جب مشرکین کو اس بات کا علم ہوا تو وہ اپنے بدر آنے پر بہت نادم اور پریشان ہوئے کیونکہ تجارتی قافلے کے صحیح سالم بچ نکلنے کی خبر سن کر بھی انہوں نے عربوں پر اپنی دہشت بٹھانے کے لئے بدر آنے پر بہت اصرار کیا تھا_ عتبہ بن ربیعہ ( جس کا بیٹا ابو حذیفہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے ساتھ تھا) نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ تجارتی قافلے کی نجات کے بعد ان کا بدر آنا ہٹ دھرمی اور کینہ توزی پر مبنی تھا_ حالانکہ واپسی کا متفقہ فیصلہ کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن ابوجہل نے واپسی سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا : '' نہیں ، لات و عزّی کی قسم جب تک ان پر یثرب میں دھا و ابول کر انہیں قید کرکے ( ذلت اور خواری کے ساتھ) مکہ نہیں لے آئیں گے یہاں سے واپس نہیں پلٹیں گے _ تا کہ سارے عرب میں اس بات کا چرچا ہو اور آئندہ کوئی بھی ناپسندیدہ شخص ہمارے اور ہمارے تجارتی راستے کے درمیان رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش نہ کرے''(۲) البتہ

____________________

۱) ملاحظہ ہو : سیرہ نبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۶۹ تا ص ۲۹۸ ، المغازی و اقدی ج ۱ ص ۵۳ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳تا ص ۲۶۴، دلائل النبوة بیہقی ج ۲ ص ۳۲۷ و ص ۳۲۸، السنن الکبری ج ۹ ص ۱۴۷ و ص ۱۴۸ ، زاد المعاد ج۳ ص ۱۷۵، صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۷۰، کشف الاستار ج ۲ ص ۳۱۱ ، طبقات الکبری مطبوعہ صادر ج ۲ ص ۱۵، تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۱۳۲ تا ص ۱۳۴ و ص ۱۴۲ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۲_

۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۵۰ از تفسیر قمی نیز ملاحظہ ہو : المغازی واقدی ج ۱ ص ۷۱_

۲۴۹

جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے اخنس بن شریق کے ایماء پر بنی زہرہ کا قبیلہ وہیں سے واپس پلٹ گیا تھا_

دونوں فوجوں کا پڑاؤ

مشرکین، بدر کے مقام پر پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے مکہ کے راستے پر پڑنے والی'' عدوة القصوی '' نامی وادی میں پڑاؤ کیا جہاں پانی موجود تھااور ان کے پڑاؤ کی جگہ سخت تھی_ قریش کا تجارتی قافلہ بھی مشرکین کی فوج کے پیچھے موجود تھا(۱) ارشاد خداوند ہے ( و الرکب اسفل منکم) _جبکہ مسلمانوں نے مدینہ کی جانب پڑنے والی '' عدوة الدنیا '' نامی وادی میں پڑاؤ کیا جہاں پانی بھی نہیں تھا اور زمین بھی ایسی نرم تھی کہ قدم بھی نہیں جم سکتے تھے _ جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کی جگہ فوجی نقطہ نظر سے نہایت نامناسب تھی _ لیکن خدا نے دشمنوں کے مقابلے میں اپنے بندوں کی مدد اور حمایت کی اور راتوں رات مشرکوں کی جگہ پر بارش برسی تو ان کی جگہ کیچڑ میں تبدیل ہوگئی جبکہ اسی بارش نے مسلمانوں کی جگہ پر برس کر زمین کو سخت اور ٹھوس کردیا تھا اور مسلمانوں نے گڑھوں اور تالابوں میں پانی بھر لیا تھا(۲) _

مسلمانوں کی معنویات اور پروردگار کی عنایات

جب مسلمانوں تک مشرکوں کی کثرت کی خبر پہنچی تو وہ گھبراگئے اور خدا سے دعا اور زاری کرنے لگے_ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے مشرکوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کو دیکھا تو قبلہ رو ہو کر یہ دعا مانگی :'' پروردگار اپنی مدد کا وعدہ پورا کر _ خدایا اگر تونے اپنے ان عزیزوں کو ماردیا تو پھر زمین پر کبھی تیری عبادت نہیں ہوگی''_

____________________

۱) البتہ عنقریب ذکر ہوگا کہ وہ تجارتی قافلہ صحیح سالم بچ کرنکل گیا تھا کیونکہ ابوسفیان اس قافلہ کو مدینہ اور مسلمانوں کے رستے سے دور ساحل سمندر کے راستے سے بچا کر لے گیا تھا_

۲) سیرہ نبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۱ و ص ۲۷۲ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵ ، تاریخ الامم و الملوک مطبوعہ الاستقامہ ج ۲ ص ۱۴۴ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۴، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۲۲، دلائل النبوة بیہقی مطبوعہ دار الکتاب العلمیہ ج ۳ ص ۳۵ و البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۶_

۲۵۰

اس پر یہ آیت نازل ہوئی :

( اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملائکة مردفین و ما جعله الله الا بشری و لتطمئن به قلوبکم ) (۱۰)

'' (اور وہ وقت یا کرو ) جب تم اپنے پروردگار سے گڑ گڑا کر مدد مانگ رہے تھے تو خدا نے بھی تمہاری سن لی اور قطار اندر قطار ایک ہزار فرشتے بھیجے اور خدا نے انہیں صرف خوشخبری دے کر بھیجا تا کہ تمہارے دل مطمئن ہو جائیں''

پس کمزوری اور گھبرا ہٹ محسوس کرکے خدا سے امداد کی درخواست کرنے والے مسلمانوں کی مدد صرف ان کی تسکین خاطر اورروحانی تقویت نیز سرد پڑتے دلوں کو گرمانے کے لئے تھے _ پھر اس کے بعد خدا نے مسلمانوں پر نیند طاری کردی اور وہ سوگئے اور اس کے بعد خدا نے بارش بھیج دی _ اس کا ذکر خدا نے یوں کیاہے( اذ یغشیکم النعاس امنة منه و ینزل علیکم من السماء ماء لیطهرکم به و یذهب عنکم رجز الشیطان و لیربط علی قلوبکم و یثبت به الاقدام ) (۲) _ ترجمہ '' ( یاد کرو اس وقت کو ) جب خدا کی طرف سے تمہیں پر امن نیند نے آلیا اور آسمان سے اس لئے مینہ برسا کہ تمہیں ( اور تمہارے دلوں کو ) صاف ستھرا کردے ، شیطان کے وسوسوں کو نکال باہر کرے ، تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہیں ثابت قدم رکھے''_

جی ہاں اتنے ہولناک خطرے کا سامنا کرنے والے ایسے لوگوں کے لئے اونگھ اور ہلکی نیند بہت ضروری تھی جویہ جانتے تھے کہ ان کے پاس اس خطرے کا سامنا کرنے اور اسے ٹالنے کے لئے کوئی قابل ذکر مادی وسائل نہیں ہیں_ ہاں یہ نیند ان کے لئے ضروری تھی تا کہ ایسی خطرناک رات میں شیطانی وسوسے ان پر غلبہ نہ پالیں جس میں چھوٹی چیزیں بھی بڑی اور موٹی نظر آتی ہیں_ اور اگر وہ چیز خود طبیعی طور پر بڑی ہو تو پھر

____________________

۱) انفال : ۹و ۱۰_

۲) ص : ۱۱_

۲۵۱

کیا حال ہوگا؟ _ یہ نیند اس لئے بھی ضروری تھی کہ انہیں اطمینان اور سکون کی ضرورت تھی '' امنة '' _ نیز اسی امن و سکون اور ایمان کے ذریعہ ان کے دلوں کو مضبوط کرنے کی بھی ضرورت تھی تا کہ خطرے کا سامنا کرتے وقت وہ کمزوری نہ دکھائیں اور کمزوری ، تاثیر پذیری اور گھبرا ہٹ کی بجائے عقل سے کام لیں اور غور و فکر کے ساتھ کوئی کام کریں اور موقف اپنائیں_ اسی نیند اور بارش کے ذریعہ سے خدا نے ان کے دلوں کو مضبوط اور طاقتور بنادیا _ حتی کہ وہ ان باتوں سے یہ جان کر مطمئن ہوگئے کہ ان پر خدا کی نظر کرم ہے اور خدا کی الطاف و عنایات ان کے شامل حال ہیں_ جس کے بعد انہیں کمر شکن حادثات اور دشمن کی صف شکن کثیر تعداد کی بھی کوئی پرواہ نہ رہی _ جبکہ اس کے بدلے میں خدا نے کافروں کے دلوں میں رعب اور خوف طاری کر دیا تھا_ اس کی طرف انشاء اللہ بعد میں اشارہ کریں گے_

یہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدا نے سورہ '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''جیسی مکی سورتوں میں ، اپنے انبیاء کے خلاف گروہ بندی کر کے محاذ آرائی کرنے والوں اور ثمود اور فرعون کے ذکر کے بعد یہ خبر دے دی تھی اور پیشین گوئی کر دی تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسے حادثات و واقعات پیش آئیں گے جو ان گروہوں کے ساتھ پیش آئے تھے_ بعض کے بقول آیت (جند ما ہنالک مہزوم من الاحزاب )(۱) _ترجمہ '' یہاں کئی ایسے لشکر بھی ہیں جو چھوٹے گروہوں سے شکست کھانے والے ہیں'' _ واقعہ بدر کے متعلق ہے_

اس جنگ کے مقاصد

یہاں پر سب سے اہم اور قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہاں خود صراحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ یہ جنگ ایک فیصلہ کن جنگ ہے _ اور اس کا مقصد بھی خدا کی عبادت کے لئے آزادی کا حصول تھا _ اس جنگ سے نہ ذات کی پرستش مقصود تھی ، نہ مال ، نہ کوئی امتیاز ، نہ مقام ، نہ حکومت اور نہ ہی کوئی اور چیز _ یعنی خدا کی عبادت میں آزادی کے حصول کے علاوہ اس جنگ کا کوئی اور مقصد نہیں تھا _

____________________

۱) ص : ۱۱ _

۲۵۲

خاص طور پر جب قریش کو یہ احساس بھی ہوگیا تھا کہ وہ اقتصادی اور نفسیاتی طور پر تنگی ، ذلت اور کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ شام اور دیگر علاقوں تک جانے والے ان کے تجارتی قافلوں کے راستے اتنے پر خطر ہوگئے ہیں کہ قریشیوں کے ارادے پست کر سکتے ہیں بلکہ ان کے وجود کو بھی متزلزل کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمزور موقف اپنا نے پر بھی مجبور ہو جائیں گے _ ( اس صورت میں مسلمان ان اہداف کی خاطر بھی لڑسکتے تھے لیکن ان کا مقصد ان چھوٹی چیزوں سے کہیں بلند و بالا تھا)_ جبکہ مشرکوں نے بھی اپنا موقف واضح کردیا تھا _ اور یہ بتادیا تھا کہ اس جنگ سے ان کا مقصد عربوں پر اپنی دھاک بٹھانا اور اپنے اور تجارتی راستے کے درمیان کسی ناپسندیدہ شخص کو حائل ہونے سے روکنا تھا _ فریقین کے اہداف نیز ہر ایک کی بہ نسبت جنگ کے نتائج میں بھی زمین اور آسمان کا فرق تھا _ جس پر انشاء اللہ بعد میں گفتگو کریں گے_

صف آرائی

جب صبح ہوئی تو حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنے اصحاب کی صفوں کو منظم کیا _ اس دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا علم مبارک امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں تھا(۱) _ اور عنقریب غزوہ احد میں ہم یہ بھی انشاء اللہ ثابت کریں گے کہ جنگ بدر بلکہ ہر موقع پر حضرت علی علیہ السلام ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علمدار تھے(۲) _ پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ جنگ بدر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک سے زیادہ علم تھے کہ مصعب بن عمیر یا حباب بن منذر کے پاس بھی ایک علم تھا ، یہ صحیح نہیں ہے _ مگر یہ کہا جائے کہ مہاجرین کا پرچم مصعب کے پاس اور انصار کا پرچم

____________________

۱) المناقب خوارزمی ص ۱۰۲، الآحاد و المثانی ابن ابی عاصم النبیل کو پلی لائبریری میں خطی نسخہ نمبر ۲۳۵ ، مسند الکلابی در انتہاء المناقب ابن مغازلی ص ۴۳۴ ، خود المناقب ابن مغازلی ص ۳۶۶، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۳ ص ۳۳ و ص ۳۴ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۱ ، اس کے حاشیہ پر تلخیص مستدرک ذہبی ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۲۵ ، منقول از شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید طبع اولی ج ۲ ص ۱۰۲ ، جمہرة الخطب ج ۱ ص ۴۲۸، الاغانی مطبوعہ دار الکتب ج ۴ ص ۱۷۵ وتاریخ طبری مطبوعہ دار المعارف ج ۲ ص ۴۳۰_

۲) زندگانی امام امیر المؤمنینعليه‌السلام از تاریخ ابن عسا کر با تحقیق محمودی ج ۱ ص ۱۴۵ ، ذخائر العقبی ص ۷۵ از احمددر المناقب ، طبقات ابن سعد ج ۳حصہ اول ص ۱۴ ، کفایت الطالب ص ۳۳۶ ، اسی کے حاشیہ میں از کنز العمال ج ۶ ص ۳۹۸ از طبرانی و الریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۰۲ نیز اسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بات کو نظام الملک نے اپنی کتاب امالی میں ذکر کیا ہے_

۲۵۳

حباب کے پاس تھا یا اس طرح کی کوئی اور بات کہی جائے تو اور بات ہے وگرنہ اختلاف کو دور کرنے کی غرض سے پرچم (رایة ) اور علم ( لوائ) میں فرق بیان کرنے کی ان کی کوشش بھی ایک بے سود اور ناکام کوشش ہے _ کیونکہ دونوں چیزوں کے متعلق روایات ملتی ہیں کہ یہ دونوں چیزیں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ خاص تھیں _ جس طرح کہ مندرجہ ذیل حاشیوں میں مذکور دستاویزات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے(۱) _ نیز مزید وضاحت انشاء اللہ واقعہ جنگ احد کے بیان میں ہوجائے گی_

مزید یہ کہ ابن سعد اور ابن اسحاق نے یہ ذکر کیا ہے کہ پرچم ( رایة) واقعہ بدر کے بعد اور جنگ خیبر کے دوران بنایا گیا(۲) _ یہ تو اس صورت میں ہے کہ ہم علم ( لوائ) اور پرچم ( رایة) کے درمیان کسی فرق کے قائل ہوں وگرنہ بعض اہل لغت کے مطابق یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے مترادف ہیں(۳) _

طوفان سے قبل آرام

حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے صحابہ کی صفین منظم کرنے کے بعد ان سے فرمایا ، '' نگاہیں نیچی کرلو ، لڑائی میں پہل مت کرو اور کسی سے بھی بات مت کرو ''(۴) _مسلمانوں نے بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کی تعمیل میں خاموشی اختیار کر لی اور نگاہیں نیچی کرلیں_ اس صورتحال نے قریشیوں پر اپنا واضح اثر دکھا یا حتی کہ جب ان کا ایک آدمی کسی گھات و غیرہ کی تلاش میں اپنے گھوڑے پر سوار مسلمانوں کے لشکر کا چکر لگا کر اپنی فوج کی طرف واپس پلٹا تو اس نے وہاں جاکر کہا : '' ان کے لشکر کے کسی بھی جگہ اور حصہ سے گھات یا کسی مدد و غیرہ کی کوئی امید نہیں ہے _ لیکن یثرب ( مدینہ ) کے جنگجو دردناک اور اچانک موت ساتھ لائے ہیں _ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ وہ ایسے گونگے ہوگئے ہیں کہ کچھ بھی نہیں بول رہے؟اور ادہوں کی طرح پھنکار رہے ہیں _ ان کی

____________________

۱) ملاحظہ ہوں پچھلے دو حاشیوں میں مذکور منابع_

۲) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۷_

۳،۴) سیرہ حلبیہ ج ص ۱۴۷ و ص ۱۴۸_

۲۵۴

پناہ گاہیں صرف ان کی تلواریں ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ پیچھے نہیں ہٹیں گے بلکہ مارے جائیں گے اور کم از کم اپنی تعداد جتنا افراد مارکر ہی مریں گے''_ اس پر ابوجہل نے اسے برابھلا کہا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس بات سے اس کے ساتھیوں میں خوف کی لہر دوڑ رہی تھی _

پھر ابوجہل نے مسلمانوں کی قلیل تعداد کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کہا : '' وہ تو گنتی کے چند آدمی ہیں ، اگر ہم اپنے غلاموں کو ان کی طرف روانہ کردیں تو وہ بھی انہیں ہاتھ سے پکڑ کرلے آئیں گے_''

اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشرکین کی طرف اپنے ایک آدمی کے ذریعہ یہ پیغام بھیجا کہ'' اے قریشیو میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا _ مجھے تم عربوں کے حوالے کر کے واپس چلے جاؤ_اگر میں سچا ہوا تو میری بڑائی اور بلندی تمہاری ہی بلندی اور عظمت ہے لیکن اگر میں جھوٹا ہوا تو عرب کے درندے میرا کام تمام کرکے تمہارا مقصد پورا کردیں گے _'' یہاں پر مؤرخین کے بقول عتبہ بن ربیعہ نے مشرکوں سے اس بات کو قبول کرنے پر زور اصرار کیا لیکن ابوجہل نے اس پر بزدلی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ( حضرت ) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ کر اس کا پتا پانی ہوگیا ہے _ اور اسے (حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ شامل ہونے والے اپنے بیٹے ابوحذیفہ کی جان کا خطرہ لا حق ہوگیا ہے _ جب عتبہ تک ابوجہل کی یہ بات پہنچی تو وہ غصہ سے آگ بگولہ ہوگیا اورکہا : '' ابھی اس چوتیے(۱) کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کا پتا پانی ہوا ہے میرا یا اس کا ؟ '' _ اس بات سے اس کی غیرت کی رگ بھی پھڑکی اور اس نے اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کے ساتھ زرہ پہنی اور وہ رن میں جاکر حریف طلب کرنے لگے_

یہاں پر ہم مندرجہ ذیل نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:_

____________________

۱) ان الفاظ سے لگتا یہی ہے کہ اس نے ابوجہل کو مفعول ہونے کی گالی دی تھی، کیونکہ انصار بھی اسے اسی نام سے پکارتے تھے_ ملاحظہ ہو: مجمع الامثال ج۱ ص ۲۵۱ ضرب المثل ''اخنث من مصفر استہ'' ، البرصان والعرجان ص ۱۰۲ و ص ۱۰۳ متن و حاشیہ ، الغدیر ج ۸ ص ۲۵۱ از الصواعق المحرقہ ابن حجر ص ۱۰۸ ازدمیری در حیاة الحیوان نیز الدرة الفاخرہ فی الامثال السائرہ ج۱ ص ۱۸۸_

۲۵۵

الف: مشرکین کے خوف کی وجوہات:

مشرکین کو اس بات کا پورا پورا علم تھا کہ مسلمان جنگ کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں_ اور اپنے دین اور عقیدے کی راہ میں کم از کم اپنی تعداد جتنے آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد سب کے سب مرنے کے لئے بالکل تیار ہیں_ اور اسی بات نے مشرکوں کے دل میں رن کی دھاک بٹھادی کیونکہ وہ تو اپنے خیال میں اس دنیا میں بقاء اور دنیاوی لذتوں اور فائدوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے یہ جنگ لڑ رہے تھے_ اس صورتحال میں مسلمانوں کا غیض و غضب کی شدت سے سکوت بھی ان کے خوف کی فضا میں اضافے کا باعث بنا اور مشرکوں کے دلوں میں ان کا خوف اور رعب مزید بیٹھ گیا _ اور ابھی ان کی سرگردانی اور حیرت میں مزید اضافہ ہونا تھا کیونکہ کچھ دیر بعد شروع ہونے والی جنگ کی صورتحال اور مد مقابل کی چالوں سے وہ لا علم تھے اور انہیں کوئی ایسا اشارہ بھی نہیں مل رہا تھا جو انہیں جنگ کی صورتحال ، مد مقابل کی چالوں اور جنگ کے اثرات اور نتائج کی طرف رہنمائی کرتا_

اور مسلمانوں کے متعلق ابوجہل کا یہ کہنا کہ یہ تو گنتی کے چند آدمی ہیں، یہ مسلمانوں سے مشرکوں کے مرعوب نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا _ کیونکہ اس نے یہ بات صرف اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کی تھی _ کیونکہ اس نے جنگ کے متعلق اپنے ساتھیوں کی تردید اور بزدلی کا خاص طور پر مشاہدہ کیا تھا_ یہاں یہ اضافہ بھی ضرور کرتے چلیں کہ خداوند عالم نے بھی جنگ کے بعض مراحل میں مسلمانوں کی نظر میں مشرکوں کو اور مشرکوں کی نظر میں مسلمانوں کو کم تعداد میں دکھلایا تا کہ وہ آپس میں ضرور لڑیں اور خدا کا فیصلہ پورا ہو کر رہے_ اس بارے میں مزید گفتگو اس فصل کے اواخر میں ہوگی_

ب : مشرکین کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی پیشکش پر ایک نگاہ :

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشرکوں کے ساتھ ان کے نقطہ نظر ، طرز تفکر ، مفاد اور ان کی نفسیات کے مطابق بات کرنے کی کوشش کی _نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ باتیں ان کے اس مفاد کے بھی مطابق تھیں جس کے تحفظ کے لئے (وہ

۲۵۶

اپنے ہی دعوے کے مطابق) یہاں لڑنے آئے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ جملہ '' اگر میں سچا ہوا تو میری وجہ سے تمہاری ہی شان بڑھے گی '' ان مشرکوں کی حب جاہ سے بالکل میل کھاتا ہے _ کیونکہ ان کی طاقت اور سرکشی کی وجہ سے ان کے اوپر سرداری اور حکومت کا بھوت اس حد تک سوار ہوگیا تھا کہ ان کے نسلی اور قبائلی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوگیا تھا اور وہ اس کی خاطر اپنے باپ اور بیٹوں سے بھی لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے تھے_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ان سے یہ فرمانا کہ '' اگر میں جھوٹا ہوا تو عرب کے درندے میرا کام تمام کرکے تمہارا مقصد پورا کردیں گے''_ یہ بات بھی ان کی زندگی کے ساتھ محبت اور مالی مفاد سے میل کھاتی ہے _ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان و شوکت کے اعتراف کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کئے بنا ان کے واپس پلٹنے کا بھرم بھی رکھتی ہے اور اس بات سے وہ اپنی پسپائی کی تاویل اور توجیہ کرکے اپنی آبرو بھی بچا سکتے تھے_ لیکن قریش کی سرکشی اور تکبر اس بہترین ، منطقی اور قیمتی مشورے کو ماننے سے مانع ہوئی اور وہ اپنے جھوٹے تکبر اور احمقانہ اور بے باکانہ ڈینگوں کے سبب جنگ کرنے اور اس کے ہولناک نتائج بھگتنے پر بضد رہے_

ج: رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جنگ کی ابتداء نہیں کرنا چاہتے_

یہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بھی جنگ کی ابتداء نہیں کرتے اور مسلمانوں کو بھی حکم دیتے ہیں کہ جنگ شروع نہ کریں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقابل کو اس مخمصے سے آبرومندانہ طریقے سے نکلنے کا ایک موقع دینا چاہتے تھے _

لیکن اگر وہ اس پیشکش کو ٹھکرا دیتے اور اپنی ہٹ دھرمی اور سرکشی سے مسلمانوں پر چڑھائی پر بضد رہتے تو پھر مسلمان بھی اپنا دفاع کرنے اور حملہ آور کی چالوں کا جواب دینے کا حق رکھتے تھے ، چاہے وہ حملہ آور کوئی بھی ہو اور جیسا بھی ہو_

حضرت علی علیہ السلام کا بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی دشمنوں کے ساتھ یہی رویہ رہا_ بلکہ یہ تو( رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی اتباع کرنے والے ائمہ ہدی کی پیروی میں )شیعیان علیعليه‌السلام کی رسم

۲۵۷

اور ان کا خاصہ ہے _ اس پر مزید گفتگو جنگ بدر کی گفتگو کے بعد ''سیرت سے متعلق کچھ ابحاث '' کے فصل کے ذیل میں دیگر بحثوں کے ساتھ ساتھ انشاء اللہ شیعوں کی خصوصیات کی بحث میں ہوگی _ البتہ اس کے کئی اشارے ذکر بھی ہوچکے ہیں_

نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سائبان تلے؟

مؤرخین کے بقول بدر میں صحابہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کھجور کی چھڑیوں سے ایک چھولدار ی تیار کی جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ صرف جناب ابوبکر تھے اور کوئی بھی نہیں تھا_ مؤرخین یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات سے بھی اتفاق کیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ چند تازہ دم اصیل گھوڑے تیار رہیںتا کہ اگر جنگ میں کامیابی ہوئی تو ٹھیک و گرنہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ میں اپنے دیگر صحابیوںسے ملحق ہوجائیںگے(۱) _

لیکن یہ بات کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے _ کیونکہ معتزلی کے بقول : '' وہ چھولداری کی بات تو نہایت حیرت انگیز ہے _ چھولداری بنانے کے لئے ان کے پاس کھجور کی چھڑیوں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آگئی تھی ؟ حالانکہ بدر میں تو کھجور کے درخت نہیں تھے_ اور ان کے پاس جو تھوڑی بہت چھڑیاں تھیں بھی تو وہ ان کے لئے ہتھیاروں کا کام دے رہی تھیں_ کیونکہ منقول ہے کہ سات صحابیوں کے ہاتھ میں تلوار کی جگہ چھڑیاں تھیں جبکہ باقی صحابی تلواروں ، تیروں اور بھالوں سے مسلح تھے _ البتہ یہ نادر نظریہ ہے کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ تمام افراد ہتھیاروں سے مسلح تھے _ ہوسکتا ہے کہ چند چھڑیاں بھی ساتھ ہوں اور ان پر کوئی کپڑا و غیرہ ڈال کر کوئی سایہ بنایا گیا ہو و گرنہ یہاں کھجور کی چھڑیوں سے چھپر بنانے کی کوئی معقول وجہ نظر میں آتی ''(۲) لیکن ہم کہتے ہیں کہ :

الف : معتزلی کی یہ بات کہ تمام مہاجرین کے پاس اسلحہ تھا یہ ناقابل قبول ہے _ اس لئے کہ گذشتہ

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۲۲ و ص ۲۷۹ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۴۹ و ص ۵۵ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۲ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۴ ص ۱۱۸ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۵ _۱۵۶ و ص ۱۶۱ و دیگر کثیر مآخذ

۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج ۴ ص ۱۱۸

۲۵۸

دستاویزات میں ان کے اسلحہ کی تعداد مذکور ہوچکی ہے اور ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو معتزلی کی بات کی تائید کرتی ہو _ بلکہ لگتا یہی ہے کہ تھوڑے افراد ایسے تھے جو تیرکمانوں سے مسلح تھے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے یہ فرمایا تھا کہ جب مشرکین نزدیک پہنچیں تب ان پر تیراندازی کرو _ شاید بعض کے پاس نیزے ، بعض کے پاس لاٹھیاں اور بعض کے پاس تلوار یا خنجر تھے اور کچھ لوگوں کے پاس کھجور کی خشک چھڑیاں بھی تھیں جن سے وہ اپنا بچاؤ کرتے تھے اور موقع پانے کی صورت میں دشمن پر حملہ بھی کر سکتے تھے _

ب: اس کا آخری نتیجہ بھی بے جاہے _ کیونکہ جن چھڑیوں پر کپڑا و غیرہ ڈال کرسائبان و غیرہ بنایا جاتا ہے انہیں خیمہ کہا جاتا ہے چھپر نہیں _ بلکہ بعض کی رائے میں تو اسے خیمہ بھی نہیں کہتے _ اسی طرح معتزلی کا ان لوگوں کی اور ان کے تلواروں کی تعداد کے متعلق نظریہ بھی گذشتہ باتوں کے سبب مشکوک ہوجاتا ہے _

البتہ بنیادی طور پر ہم بھی اس مزعومہ سائبان کے وجود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس میں بیٹھنے اور شکست کی صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرار کے انکاری ہیں لیکن ہمارے پاس مندرجہ ذیل دلائل ہیں :

ایک : نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم جنگ کے کٹھن لمحات میں فرار کرنے والے تھے ہی نہیں _

دو : مختلف مؤرخین سے منقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ دعا'' اللهم ان تهلک هذه العصابة لا تعبد '' ( خدایا اگر تو نے اپنے ان عزیزوں کو ماردیا تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا )

بھی اس دعوے کو جھٹلاتی ہے کہ اس جنگ میں مشرکوں کی کامیابی کی صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر فرار کا ارادہ رکھتے تھے _ کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پلٹ جانے کی صورت میں بھی کرہ ارض پر خدا کی عبادت نہیں ہوسکتی تھی ( اس لئے کے بعد والی شق کے مطابق وہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والوں کا پیچھا کرتے اور جان لئے بغیر دم نہ لیتے ) _ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ بات فرما کر پھر یہ کام کیوں کرتے ؟

تین : اگر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر میں ( نعوذ با للہ ) شکست کھا جاتے توبھی مشرکین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی جان بچا کر کہیں جا کر پھر سے فوج اکٹھا کرنے کا موقع نہیں دیتے _ بلکہ وہ مدینہ پر ہی چڑھائی کر کے اس میں اپنے لئے مشکلات کھڑی کرنے والوں کو سرے سے ہی نابود کردیتے _ اس لئے کہ وہ اب مدینہ کے قریب بھی

۲۵۹

آئے ہوئے تھے ، کامیابی و کامرانی کامزہ بھی چکھ چکے ہوتے تھے اور ان کے پاس تعداد اور تیاری کے لحاظ سے ایک آئیڈیل اور قابل رشک فوج بھی موجود تھی_

چار : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چھپر کے نیچے محافظ کے ساتھ کیسے جاکر بیٹھ سکتے تھے؟ حالانکہ انہی مؤرخین کے بقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر خواب میں اپنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تلوار سونت کر یہ آیت پڑھتے ہوئے مشرکوں کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھا تھا (سیهزم الجمع و یولون الدبر ) ترجمہ : '' عنقریب ان کی فوج تتر بتر ہوکر پسپائی اختیار کرے گی ''(۱) _ وہ تویہ بھی کہتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنفس نفیس جنگ بدر میں شرکت کرکے سخت لڑائی لڑی تھی(۲) اور یہ بات بھی جنگ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت پر دلالت کرتی ہے کہ کچھ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے،ایک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دائیں ، ایک بائیں ، ایک آگے اور ایک پیچھے تھا(۳) _اور حضرت علی علیہ السلام کی زبانی بھی منقول ہے کہ '' جنگ بدر کے موقع پر ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ مشرکین سے اپنا بچاؤ کرتے تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے زیادہ دلیر شخصیت تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سب سے آگے آگے تھے''(۴)

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب ابوبکر اس وقت کہاں تھے؟ کیا رن میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ تھے؟ یا پھر جا حظ کے عنقریب ذکر ہونے والے دعوے کے مطابق وہ قائد ، سردار اور رہنما کا کردار ادا کرنے کے لئے اکیلے چھو لداری میں بیٹھ گئے تھے؟ واقعہ بدرکے بعد ایک فصل میں جناب ابوبکر کی بہادری اور چھولداری میں اس کے بیٹھنے کا ذکر آئے گا _ انشاء اللہ تعالی _

پانچ : جب مسلمانوں کے پاس صرف مقداد کے گھوڑے کے سوا کوئی اور گھوڑا تھا ہی نہیں تو پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ( نعوذ باللہ) فرار کے لئے تیار کئی اصیل گھوڑے کہاں سے آگئے تھے؟ اور یہ گھوڑے دین اور مسلمانوں سے دفاع کے لئے جنگ میں کیوں کام نہ آئے؟ حالانکہ وہاں ان کی اشد ضرورت تھی_

____________________

۱) تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۷۲_ (۲) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۳ و ص ۱۶۷ لیکن اس نے مذکورہ بات کی خلاف واقع توجیہ کی ہے کیونکہ اس نے کہا ہے کہ یہاں جہاد کا مطلب دعا ہے _ یہ سب باتیں چھپر والی حدیث کو صحیح ثابت کرنے کی کوششیں ہیں_

۳) المغازی واقدی ج ۱ ص ۷۸_

۴) ملاحظہ ہو : تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۳۵، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۳، البدایہ و النہایہ ج ۶ ص ۳۷ و حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۶۷۷ از احمد و بیہقی_

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460