الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242133 / ڈاؤنلوڈ: 6991
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

پہلی فصل : جنگ کی فضاؤں میں

دوسری فصل : جنگ کے نتائج

تیسری فصل : مال غنیمت اور جنگی قیدی

چوتھی فصل : سیرت سے مربوط کچھ ابحاث

۲۲۱

پہلی فصل :

جنگ کی فضاؤں میں

۲۲۲

قریش کی ناکام سازش

نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے مدینہ رہنے کے کچھ عرصہ بعد ،جنگ بدر کے واقعہ سے پہلے ،جن دنوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں تشریف فرما تھے ، کفار قریش نے عبداللہ ابن ابی بن سلول اور اوس و خزرج کے بت پرستوں کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا جس میں تحریر تھا :

'' مدینہ والوں نے ہمارے ایک مطلوبہ آدمی کو پناہ دے رکھی ہے ، حالانکہ مدینہ والوں میں تمہاری تعداد بہت زیادہ ہے یا تو تم لوگ اسے قتل کر ڈالو یا اسے نکال باہر کرو نہیں تو پھر ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو پورے عرب کو تمہارے بائیکاٹ پر اکٹھا کرلیں گے یا پھر ہم سب مل کرتمہارے اوپر چڑھائی کردیں گے اور اس صورت میں تمہارے تمام جنگجوؤں کو تہہ تیغ اور تمہاری عورتوں کو اپنے لئے حلال کردیں گے '' _

جب یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں تک پہنچا تو انہو ں نے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کر کے سب کو اکٹھا کیا اور سب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل پر متفق ہوگئے _ جب یہ خبر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب تک پہنچی تو انہوں نے ایک گروہ کی صورت میں ان لوگوں سے ملاقات کی اور کہا : '' قریش کی دھمکیوں سے تم بہت ہی زیادہ متاثر ہوگئے ہو _ وہ تمہارے خلاف اتنی بڑی چال نہیں چل سکتے جتنی بڑی تم خود اپنے خلاف چل رہے ہو _تم تو اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو _'' پس جب انہوں نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی زبانی یہ الفاظ سنے تو منتشر ہوگئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل سے دستبردار ہوگئے _ اور جب یہ بات قریش تک پہنچی تو ( وہ بہت جزبز ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف جنگ کی ترکیبیں سوچنے لگے جس کے نتیجے میں ) جنگ بدر کا واقعہ رونما ہوا(۱) _

____________________

۱)المصنف صنعانی ج ۴ ص ۳۵۸ و ۳۵۹_

۲۲۳

بدر کی جانب روانگی:

سترہ(۱۷) رمضان المبارک ۲ ہجری میں مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان بدر عظمی کی جنگ ہوئی _اور وہ اس طرح کہ غزوة العشیرہ میں مسلمانوں نے قریش کے جس قافلے کا پیچھا کیا تھا وہ ان سے بچ بچا کر شام نکل گیا تھا _آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پھر بھی اس کی تاک میں تھے ، یہاں تک کہ اس کی واپسی کا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو علم ہوا _ یہ قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں کم و بیش تیس(۳۰) یا چالیس(۴۰) یا زیادہ سے زیادہ سترہ(۷۰) سواروں پر مشتمل تھا جس میں قریش کا تجارتی سامان بھی موجود تھا_ اس کی مالیت کے بارے میں اتنا تک بھی کہا جاتا ہے کہ اس سامان کی مالیت پچاس(۵۰) ہزار دینار کے برابر تھی _ حالانکہ اس وقت پیسوں کی بہت زیادہ قیمت ہوتی تھی(۱) _

بہرحال جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس قافلے کی آمد کا علم ہوا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو اس قافلے کی طرف جانے کا کہا تو لوگوں نے تردید کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز پر لبیک کہا ، کیونکہ بعض تو فوراً آمادہ ہوگئے لیکن کچھ لوگوں نے پس و پیش کیا _ شاید وہ قریش کے انتقامی حملے سے ڈرتے تھے کیونکہ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ قریش کے بنیادی مفادات کو نشانہ بنانا ان کے غضب اور انتقام کا باعث بن سکتا ہے _

اس کے متعلق کئی مؤرخین کہتے ہیں :'' نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی حکم عدولی کرکے بہت سے صحابہ مدینہ میں رہ گئے اور ان لوگوں نے اس مشن پر جانا گوارا نہیں کیا _ اس مشن پر جانے کی بات پر بہت اختلاف اور لے دے ہوئی_ کئی صحابیوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس مشن پر جانا بھی اچھا نہ لگا اور بعض صاحب رائے اور با بصیرت افراد بھی اس مشن پر نہیں گئے ، کیونکہ انہیں جنگ چھڑ جانے کا گمان بھی نہیں تھا ، وہ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ لوگ مال غنیمت کے حصول کے لئے جا رہے ہیں_ اور اگر انہیں یہ گمان بھی ہوتا کہ وہاں جنگ بھی چھڑجائے گی تو وہ ہرگز پیچھے نہ رہتے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نکل پڑتے ''(۲) _

____________________

۱)اس کی مالیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جاسکتا ہے کہ وہ مال دو ہزار سے بھی زیادہ اونٹوں پر لدا ہوا تھا _ مترجم_

۲)ملاحظہ ہو ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۸۵ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۲۰ و ۱۲ ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۳۲۸ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۳_

۲۲۴

جبکہ واقدی کہتا ہے :'' رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے کچھ صحابیوں نے بدر جانا گوارا نہیں کیا _ وہ کہنے لگے کہ ہم تعداد میں بہت کم ہیں ،حالانکہ یہ من پسند بات نہیں تھی _ بہر حال اس بات پر صحابیوں میں بہت زیادہ اختلاف پیدا ہوگیا''(۱) خدانے اس واقعہ کی حکایت یوں بیان کی ہے( کما اخرجک ربک من بیتک بالحقّ و ان فریقاً من المؤمنین لکارهون _ یجادلونک فی الحق بعد ما تبيّن کانّما یساقون الی الموت و هم ینظرون ) (۲) _ ''خدا نے تمہیں (بدر کی طرف نکلنے کے لئے بالکل اسی طرح کہا ہے ) جس طرح گھر سے (ہجرت کے لئے) نکلنے کا کہا تھا _ لیکن اس کے باوجود مؤمنوں کا ایک ٹولہ اسے گوارا نہیں کرتا _ وہ حق کے واضح ہونے کے بعد بھی تمہارے ساتھ ایسے جھگڑتے اور بحث کرتے ہیں گویا کہ انہیں ان کے جانتے بوجھتے ہوئے موت کی طرف زبردستی لے جایا جارہا ہو ''_ جی ہاں وہ اس لئے جانا نہیں چاہتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ قریش اتنی بڑی بات پر ہرگز چپ نہیں رہ سکتے_

یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مؤرخین کی یہ بات کہ مدینہ رہنے والے صحابیوں کو ہرگز یہ گمان بھی نہیں تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جنگ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا(۳) _ نہ صرف بے جا ہے بلکہ یہ جنگ سے پیچھے رہ جانے والوں کے لئے ناکام اور نہایت نامعقول بہانہ تراشی ہے _ وگرنہ گذشتہ آیت ، مذکورہ نظریئے کے غلط ہونے پر بہترین دلیل ہے_

بہرحال ادھر سے مسلمان تجارتی قافلے کو روکنے کے ارادے سے نکلے تو ابوسفیان کو ادھر اس بات کا علم ہوگیا _ جس پر اس نے ایک قاصد مکہ بھیج کر قریش کو قافلہ بچانے کے لئے بلوایا_

لوگوں سے ڈرنے والے

یہاںیہ کہا جاتا ہے کہ عبدالرحمان بن عوف ، سعد بن ابی وقاص ، مقداد اور قدامہ بن مظعون کو جب مکہ

____________________

۱) المغازی واقدی ج ۱ ص ۱۳۱_

۲)انفال ، ۵،۶_

۳)الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۱۶_

۲۲۵

میں اذیتیں دی جاتی تھیں تو وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشرکین سے لڑنے کی اجازت مانگتے تھے جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اس کی اجازت نہیں دیتے تھے _ لیکن پھر جب انہیں لڑائی اور بدر کی طرف جانے کا حکم ملا تو کچھ لوگوں پر یہ بات گراں گذری جس پر یہ آیت نازل ہوئی:

( الم تر الی الذین قیل لهم کفوا ایدیکم و اقیموا الصلوة و آتوا الزکوة اذا فریق منهم یخشون الناس کخشیة الله او اشد خشیة و قالوا ربنا لم کتبت علینا القتال لو لا اخرتنا الی اجل قریب قل متاع الدنیا قلیل و الآخرة خیر لمن اتقی ) (۱)

''ان لوگوں کی حالت تو دیکھو جنہیں یہ کہا گیا تھا کہ ابھی ( لڑائی سے) اپنے ہاتھ روک رکھو اور نماز قائم کرو اور زکات ادا کرو تو ( جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو ) ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے ایسا ڈرنے لگے جس طرح خدا سے ڈراجاتا ہے بلکہ وہ تو اس سے بھی زیادہ ڈرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہم پر جنگ کا فریضہ کیوں عائد کیا ہے ؟ تھوڑی دیر اور رک جاتے_ ( اے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) ان سے کہہ دو کہ دنیاوی ساز و سامان اور فائدہ بہت کم ہے اورپرہیزگاروں کے لئے آخرت سب سے بہتر ہے''_

لیکن ہم کہتے ہیں کہ مقداد کی شخصیت ، نفسیات اور چند صفحات بعد ذکر ہونے والے اس کے عظیم موقف کی روسے ایسا نہیں لگتا کہ اس پر جنگ کا فریضہ گراں گذرا ہو _ اس پر مزید یہ کہ گذشتہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ افراد نے جنگ کے معاملے میں بزدلی دکھائی ہے _ اور ان کا لوگوں سے یہ ڈر اور خوف ، خوف خدا سے بھی بہت زیادہ تھا_ اور اس کی وجہ زندگی اور دنیا سے محبت تھی _ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مقداد ہرگز بزدل نہیں تھا اور نہ ہی وہ دین اور اسلام کے ارشادات سے ہٹ کر دنیا سے محبت کرنے والا شخص

____________________

۱)بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۰۹ ، مجمع البیان ج ۳ ص ۷۷ و الدر المنثور ج ۲ ص ۱۸۴ از نسائی ، ابن جریر ابن ابی حات ، حاکم اور اس کے مطابق روایت صحیح ہے ، بیہقی در السنن ، عبد بن حمید و ابن منذر _

۲۲۶

تھا اور اس کا طرز زندگی ہماری اس بات کی بہترین دلیل ہے_اسی طرح مذکورہ روایت اور آیت میں بھی آیا ہے کہ مذکورہ افراد میں سے بعض پر جنگ ناگوار گذری ہے ، سب پر نہیں _ البتہ مقداد کے علاوہ روایت میں مذکور دیگر افراد کے طرز زندگی اور مختلف موقعوں پر ان کے موقف اور نظریات سے ظاہر ہونے والی دنیا داری اور دنیا سے محبت سے لگتا ہے کہ ان پر جنگ کا فریضہ گراں گذرا ہوگا_

عبدالرحمن بن عوف کے متعلق تو بہر حال کوئی شک نہیں کہ اس نے یہ بات کی ہوگی _ کیونکہ بعض روایات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے(۱) اور اس شخص نے مرتے وقت بہت مشہور و معروف تر کہ چھوڑا جس کی وجہ سے ابوذر ، عثمان اور کعب الاحبار کے درمیان جھگڑا ہوا(۲) مؤرخین و غیرہ صراحت کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف قریش کا سب سے مالدار شخص تھا(۳) _ شوری کے دن بھی اس کا موقف بہت مشہور ہے _ اسی نے حضرت علیعليه‌السلام کے حق میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام وصیتوں اور خدا کے احکام کو پس پشت ڈال دیا تھا _ وہ تو دنیا سے محبت اور دنیا کو اہمیت دینے کی وجہ سے خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احکام کی زیادہ پروا نہیں کیا کرتا تھا_ اور قدامہ کو شراب پینے پر حضرت عمر نے حد میں کوڑے مارے تھے اور اسی نے حضرت علیعليه‌السلام کے بیعت سے انکار کیا تھا(۴) _ اور یہ سب کام اس نے دنیا طلبی اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں کئے تھے_

اور سعد نے بھی حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے انکار کردیا تھا_ اور جنگوں میں بھی اس نے حق کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا_ حضرت علیعليه‌السلام نے بیت المال سے اس کا الاؤنس کاٹ دیا تھا ، عمار نے اس سے قطع تعلق کرکے بول چال بھی بند کردی تھی اور اسی نے کوفہ کے بیت المال کا کچھ مال غبن کر لیا تھا(۵) _

____________________

۱)در منثور کی روایتوں کے اطلاق سے مذکورہ بات سمجھ میں آتی ہے _ ملاحظہ فرمائیں_ (۲) ملاحظہ ہو : مروج الذہب ج ۲ ص ۳۴۰ ، مسند احمد ج ۱ ص ۶۳ ، حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۱۶۰، الغدیر ج ۸ ص ۳۵۱، انساب الاشراف ج ۵ ص ۵۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۵۴و ج ۸ص ۲۵۶ ، تفسیر المیزان ج ۹ ص ۲۵۱ ،۲۵۸ و تاریخ الامم و الملوک و دیگر کتب_ (۳)کشف الاستار عن مسند البزار ج ۳ ص۱۷۲ و مجمع الزوائد ج ۹ ص ۷۲_

۴)قاموس الرجال ج ۷ ص ۳۸۵ اور اس کی شراب خوری کی حد کے متعلق ملاحظہ ہو: الاصابہ ج ۳ ص ۲۲۸و ۲۲۹، الاستیعاب ج ۳ ص ۳۶۱ ، اسد الغابہ ج ۴ ص ۱۹۹ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲۰ ص ۲۳_ (۵)قاموس الرجال ج ۴ ص ۳۱۲ ، ۳۱۵_

۲۲۷

اس کے علاوہ اور باتیں بھی ہیں جو اس کی دنیا طلبی اور خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احکام سے لا پروائی پر دلالت کرتی ہیں_ پس ہوسکتا ہے آیت اور روایت کا مدّ نظر یہی افراد ہوں لیکن اس وقت کی سیاست اور سیاست دانوں کے منظور نظر ہونے کی وجہ سے راویوں نے ان کا نام چھپا کر دوسرے افراد کے ساتھ ملا دیا ہو_ اور یہ بات بالکل واضح ہے_

عاتکہ کا خواب

مؤرخین کہتے ہیں کہ عبدالمطلب کی بیٹی عاتکہ نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا تھا کہ اونٹ پر سوار ایک شخص یہ آواز لگاتا آرہا ہے کہ اے آل غالب ( البتہ ایک روایت میں یا آل غُدُر '' اے کمینو'' آیا ہے ) کل صبح کو اپنی قبروں کی طرف نکل پڑو _ پھر ابو قبیس کے پہاڑ سے ایک بڑا پتھر لڑھکا اور مکہ کے تمام گھروں میں اس کا ایک ایک ٹکڑا گرا_

عاتکہ نے یہ خواب اپنے بھائی عباس کو سنا یا اور اس نے عتبہ بن ربیعہ کو یہ خواب سنا یا تو اس نے کہا : ''اس کا مطلب ہے کہ قریش پر مصیبت آنے والی ہے ''_ لیکن ابوجہل نے یہ سن کر کہا :'' لو اب عبدالمطلب کے خاندان میں دوسری نبیہ پیدا ہوگئی ہے_ لات و عُزّی کی قسم ہم تین دن تک صبر کریں گے _ اگر اس کا خواب سچا ہوا تو ٹھیک و گرنہ ہم اپنے درمیان یہ تحریر لکھ لیں گے کہ بنی ہاشم کا گھرانہ عرب کے تمام مردوں اور عورتوں سے زیادہ جھوٹا ہے''_پھر جب تیسرا دن ہوا تو ایک ایلچی یہ آواز لگاتا ہوا آیا :'' اے آل غالب اے غالب کی اولاد غضب ہوگیا ، غضب ہوگیا ''(۱) _

____________________

۱)ملاحظہ ہو : سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۳ و ۱۴۴، تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۱۳۶و ۱۳۷ ، الروض الانف ج ۳ ص ۴۳ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۶۹ از ابن اسحاق ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۲۹ ، السیرة النبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۵۹ ، دلائل النبوة بیہقی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ج ۳ ص ۲۹ و ۳۰، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۱۶ و ۱۱۷ ، تاریخ الاسلام ( مغازی ) ص ۵۳، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۴۵ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۳۵۷ و السیرة النبویة ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۲ _

۲۲۸

قریش کی تیاری :

قریش کے تمام بڑوں اور سرداروں نے لشکر کی تیاری میں اپنا مال دیا _ اور انہوں نے یہ اعلان بھی کردیا کہ جو بھی اس جنگ پر نہیں جائے گا ہم اس کا گھر تباہ کر دیں گے_ اس لئے جو بھی اس جنگ پر خود نہ جاسکا اس نے اپنی جگہ پر کسی آدمی کو ضرور بھیجا(۱) _ ابولہب نے بھی اپنی جگہ پر عاصی بن ہشام کو ان چار ہزار درہم کے عوض بھیجا جو بقولے جوئے میں ہارنے کی وجہ سے اس کے ذمے واجب الادا تھے(۲) _

امیہ بن خلف کا موقف

امیہ بن خلف جنگ پر جانے میں پس و پیش کر رہا تھا _ کیونکہ کچھ عرصہ پہلے عمرہ کی غرض سے جب سعدبن معاذ مکہ آیا تھا تو دونوں کے درمیان دوستی کی وجہ سے وہ امیہ کے ہاں ٹھہرا _ ایک دن سعد ، امیہ کے ساتھ طواف کرنے نکلا تو راستے میں ابوجہل سے مڈ بھیڑ ہوگئی _ ابوجہل نے سعد سے کہا :'' تم دیکھ لو کہ یہاں کس طرح امن و امان اور اطمینان سے مکہ میں طواف میں مصروف ہو حالانکہ چند چھو کرے بھاگ کر تمہارے پاس آگئے ہیں اور تم یہ سمجھ رہے ہو کہ تم ان کی مدد کر رہے ہو اور انہیں پناہ دے رہے ہو؟ لیکن خدا کی قسم اگر تم ابوصفوان کے ساتھ نہیں ہوتے تو اپنے گھر تک صحیح سالم واپس نہیں جاسکتے تھے'' _ سعد نے اس سے اونچی آواز میں بات کرتے ہوئے کہا :'' اگر تم مجھے یہ دھمکی دے رہے ہو تو میں تمہیں اس سے بڑی اور سخت دھمکی دے سکتا ہوں _ تمہارا ( تجارتی ) راستہ مدینہ سے ہی گذرتا ہے''_امیہ نے اپنے گمان میں سردار مکہ کی آواز سے اپنی آواز اونچی کرنے پر سعد کو ٹوکا تو سعد نے کہا :'' چھوڑ دو مجھے ، خدا کی قسم میں نے خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے یہ بات سنی ہے کہ وہ تم لوگوں کو قتل کرنے والے ہیں'' _ جس پر امیہ نے کہا :'' کیا مکہ میں آکر؟'' _ تو سعد نے کہا : '' یہ میں نہیں جانتا '' _ امیہ نے کہا : '' خدا کی قسم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا'' _ اور

____________________

۱)السیرة النبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۶۱_

۲) اسیرة الحلبیہ ج ۲ ص ۱۴۵، انساب الاشراف ج ۱ ص ۲۹۲، السیرة النبویة ابن ہشام ج۲ ص ۲۶۱، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۰ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۳۳، تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۱۳۷ و البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۵۸_

۲۲۹

وہ بہت گھبرا گیا ( یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے اسی گھبرا ہٹ اور خوف میں اپنے کپڑے گیلے کردیئے اور مکہ سے کبھی نہ نکلنے کا تہیہ کرلیا _ اسی بنا پر وہ مکہ سے نکلنے سے ہچکچا رہا تھا _ پھر جنگ بدر کے موقع پر ابوجہل نے امیہ سے ساتھ جانے کے لئے بہت اصرار کیا _حتی کہ یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ عقبہ بن ابی معیط اس کے پاس دھونی والی انگیٹھی لے آیا اور اس نے اس کے سامنے انگیٹھی رکھ کر کہا : '' لو عورتوں کی طرح بیٹھ کر دھونی دو کہ تم نامرد ہو'' _ جس پر اس کی غیرت کی رگ پھڑ کی اور جانے کا پکا ارادہ کرلیا حالانکہ اس کی بیوی نے یہ کہہ کر اسے روکنا بھی چاہا کہ دیکھ لو خدا کی قسم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جھوٹ نہیں بولتا لیکن وہ جانے پر مصمم ہی رہا اور بدر میں ماراگیا(۱) _

مذکورہ واقعہ پرچند نکات

یہاں مندرجہ ذیل تین نکات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے:

۱_یہاں پر قابل ملاحظہ بات سعد کی ابوجہل کو ''مدینہ کے راستے میں اس پر ڈاکہ ڈالنے اور اس کا راستہ روکنے ''کی دھمکی ہے _ اور اس دھمکی پر عملدار آمد ابوجہل کی'' مدینہ والوں کو مکہ نہ آنے دینے ''کی دھمکی سے زیادہ سخت تھی اور ابوجہل پر یہ بات نہایت گراں گذری _ اور اس کا سبب بھی نہایت واضح ہے کیونکہ مکیوں کی اقتصادی زندگی تجارت سے وابستہ تھی _ اور ان کا اہم ترین تجارتی مرکز شام تھا_ اور اگر ان پر اتنا سخت اقتصادی دباؤ پڑتا کہ انہیں دوسروں کا محتاج ہونا پڑتا تو اس سے ان کی سیاسی ، معاشرتی اور اجتماعی حیثیت خطرے میں پڑجاتی اور دوسرے قبائل پر سے ان کا رعب ، نفوذ اور ان کی اہمیت جاتی رہتی _ پھر وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں سے کس بات پر اور کیوں جنگ کرتے ؟ کیا ان کی جنگ اس نفوذ اور سرداری کی بقاء کے لئے نہیں تھی جسے وہ ہر چیز سے بلند و بالا اور بڑھ کر سمجھتے تھے؟_ ہجرت کے متعلق گفتگو میں اس بارے میں بھی مختصراً گفتگو ہوئی ہے_

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج ۲ ص۱۴۵ نیز ملاحظہ ہو : صحیح بخاری کتاب المغازی ، باب غزوہ بدر و باب علامات النبوة و السیرة النبویہ ابن کثیر ج۲ ص ۸۳۴و ۸۳۵_

۲۳۰

۲_یہاں ہم یہ مشاہدہ بھی کرتے ہیں کہ امیہ بن خلف کے نظریات ، گفتار اور کردار عقل اور ضمیر کے تابع نہیں ہیں _ کیونکہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سچائی کا قائل ہونے کے باوجود بھی جب جنگ پر نہ جانے کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اپنی جان کے خوف سے ایسا کرتا ہے _ اور جنگ کا قصد بھی اس لئے نہیں کرتا کہ اس کا نظریہ بدل جاتا ہے بلکہ وہ غیرت ، جوش اور جاہلی غرور اور نخوت میں آکر جنگ کا فیصلہ کرتا ہے _ جس کی وجہ سے اسے دنیا اور آخرت دونوں میں ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا _ خدا نے اس جیسے افراد کی حالت واضح الفاظ کے ساتھ یوں بیاں کی ہے:

( و جحدوا بها و استقینتها انفسهم ظلما و علوا ً فانظر کیف کان عاقبة المفسدین ) (۱)

'' اورانہوں نے حقیقت کے قائل ہونے کے باوجود بھی تکبر اور دشمنی کی وجہ سے اس کا انکار کیا _ اب تم دیکھ لو ان فسادیوں کا کیا حشر ہوا''

۳_ اس واقعہ میں اس بات کی واضح دلالت بھی پائی جاتی ہے کہ تمام لوگوں کے دلوں میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت زیادہ عظمت اور اونچی شان بیٹھی ہوئی تھی نیز وہ اپنے ضمیر کی عدالت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی باتوں میں بالکل سچا پاتے تھے اور وہ تہہ دل سے اس حد تک اس حقیقت کے قائل اور معترف تھے کہ وہ قسمیں اٹھا کر کہتے تھے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی باتوں میں بالکل سچے ہیں اور وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے _ لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود وہ مادی اور دنیاوی فوائد اور قبائلی اثر و رسوخ و غیرہ کی خاطر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی کو ضروری سمجھتے تھے_

طالب بن ابی طالب کی جنگ سے واپسی

مشرکین کے ساتھ ساتھ بنی ہاشم کے بھی پانچ آدمی عباس ، عقیل ، نوفل بن حارث اور طالب بن ابی طالب بھی اس جنگ میں شریک ہوئے _ طالب کو تو زبردستی لے آیا گیا جس پر اس نے یہ رجز کہا :

____________________

۱)نمل ، ۱۴_

۲۳۱

یا رب اما یغزون طالب

فی مقنب من هذه المقانب

فلیکن المسلوب غیر السالب

و لیکن المغلوب غیر الغالب

پالنے والے طالب ان لٹیروں کے ٹولے میں پھنس کر اس جنگ کے لئے آیا ہے _ میری خواہش ہے کہ یہ شکست کھا کر لٹ پٹ جائیں ، فتح کے نشے میں یہ لٹیرے لوٹ مارکریں گے_

اس رجز کے بعد قریشیوں کا طالب کے ساتھ جھگڑا ہوگیا _ جس میں انہوں نے کہا : '' خدا کی قسم ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ تمہارا دل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہے'' _ اس لئے وہ دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ واپس مکہ لوٹ آیا_ اسی وجہ سے نہ تو وہ بدر کے مقتولین میں نظر آیا ، نہ قیدیوں میں اور نہ ہی مکہ واپس جانے والوں میں نظر آیا(۱) ؟ _ بعض نے یہ دعوی بھی کیا ہے وہ جنگ بدر میں اس وقت ماراگیا جب مشرکوں نے اسے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے بھیجا(۲) _

ہمارا نظریہ

الف: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ( راستے میں پلٹ جانے کے باوجود بھی ) مکہ پہنچنے والے لوگوں میں نظر نہ آئے ہوں ، حالانکہ ابن ہشام نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مدح اور ( ابن ہشام کے بقول ) قلیب ( جنگ بدر)کے مقتولین کے مرثیہ میں اس کے اشعار نقل کئے ہیں جس میں وہ نوفل اور عبدشمس کے خاندان سے بنی ہاشم سے جنگ نہ کرنے کی اپیل کرتا ہے کیونکہ اس کا نتیجہ صرف دکھ، درد، تکلیفیں اور مصیبتیں ہی ہوں گی_

____________________

۱)ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۹۴ و ۲۹۵ ، روضہ کافی ص ۳۷۵، تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۴۴، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۱، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۱، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۶ ، انساب الاشراف ج ۲ ص ۴۱، البتہ اس میں صرف یہ آیا ہے کہ وہ مشرکین کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے_

۲)تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۱۶۳_

۲۳۲

اس نظم کے چند اشعار یہ ہیں:

فما ان جنینا فی قریش عظیمة

سوی ان حمینا خیر من وطا التربا

اخاثقة فی النائبات مرزا

کریماً ثناه ، لا بخیلا و لا ذربا

یطیف به العافون یغشون بابه

یؤمّون نهراً لا نزوراً و لا ضرباً

فوالله لاتنکف عینی حزینة تململ

حتی تصدقوا الخزرح الضربا(۱)

قریش نے ہم بنی ہاشم کے ساتھ ایسی جانی دشمنی کیوں کرلی ہے ؟ حالانکہ ہم تو قریش کے خلاف کسی بھی زیادتی کے مرتکب نہیں ہوئے _ ہم نے تو صرف روئے زمین کی سب سے بہترین ، فیاض ، اور شریف شخصیت کی حمایت کی ہے جو سختیوں میں قابل اعتماد ساتھی ہے _ اس نے کبھی بخل اور ترشروئی نہیں کی ہے_ اچھائی کے متلاشی پروانوں کا اس کے گرد ایسے جم گھٹا لگا رہتا ہے جیسے لوگ کسی لبالب بھری نہر پر جمع ہوجاتے ہیں_ اس کی عطا نہ کم ہوتی ہے نہ کبھی ختم ہوتی ہے بلکہ یکساں طور پر سب کے لئے جاری ہے _ پس اب میں ہمیشہ گریاں اور نالاں رہوں گا یہاں تک کہ خزرج والوں کی جیت نہیں ہوتی_

اس کی یہ نظم اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جنگ بدر کے واقعہ کے بعد بھی زندہ رہا _ البتہ اس کا جنگ بدر کے مقتولین پر گریہ شاید قریش کا ساتھ دینے کی غرض سے ہوگا ( کیونکہ وہ خود کا فریا مشرک نہیں تھا) اس لئے کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے متعلق اس کے مدحیہ اشعار اور نوفل اور عبد شمس کے خاندان سے اس کی بنی ہاشم کے خاندان سے نہ لڑنے کی التجا ہماری مذکورہ بات پر دلالت کرتی ہیں_ و گرنہ اس کے اس شعر کی کیا توجیہ کی جاسکتی ہے؟

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج ۳ ص ۲۷ و ۲۸ و البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۳۴۰_

۲۳۳

و لیکن المسلوب غیر السالب

و لیکن المغلوب غیر الغالب

ب: ایک مرسل روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ طالب مسلمان ہوگیا تھا(۱) اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مندرجہ ذیل شعر بھی اسی کا ہے:

و خیر بنی هاشم احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

رسول الا له علی فترة(۲)

اور بنی ہاشم کے بھی بہترین فرد زمانہ جاہلیت میں مبعوث ہونے والے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں_

البتہ یہ بات بھی بعید نہیں ہے کہ قریش نے جنگ بدر و غیرہ میں ( حضرت علیعليه‌السلام کے کارناموں کی وجہ سے ) مارے جانے والے اپنے ساتھیوں کا انتقام لینے کے لئے طالب سے چھٹکارے کی خاطر کوئی چال چل دی ہو جس کی وجہ سے آج تک طالب کا کوئی صحیح اتا پتا معلوم نہیں ہوسکا_

مجبور اور واپس پلٹ جانے والے

جب ابوسفیان اپنا تجارتی قافلہ بچا کر دوسرے راستے سے نکال کرلے گیا تو اس نے قریش سے اب واپس پلٹنے کو کہا لیکن ابوجہل بدر جاکر وہاں تین دن تک شراب و کباب کی محفل سجانے پر اس لئے مصر رہا کہ تمام عرب ان کے اس خروج اور اتنے بڑے مجمع کے متعلق سنیں گے تو ہمیشہ کے لئے ان سے ڈرتے رہیں گے_ لیکن اخنس بن شریق وہاں سے قبیلے بنی زہرہ کے افراد کو لے کر واپس پلٹ گیا_

البتہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس قبیلہ کے دو افراد جنگ بدر میں مارے گئے _ بلکہ تلمسانی نے تو'' الشفائ'' کی شرح میں یہاں تک بھی لکھا ہے کہ خود اخنس بھی جنگ بدر میں ماراگیا تھا البتہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ عمر کی خلافت کے دوران مراتھا_

____________________

۱) البحار ج/۱۹ ص ۲۹۴_

۲)شرح نہج البلاغہ ج ۱۴ ص ۷۸_

۲۳۴

مؤرخین اخنس کی قبیلہ بنی زہرہ کے ساتھ واپسی کی وجوہات کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے چپکے سے ابوسفیان سے پوچھا کہ کیا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جھوٹ بولتا ہے؟ تو اس نے کہا کہ اس نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا _ ہم تو اسے ''امین'' کہا کرتے تھے، لیکن یہ تو دیکھو کہ عبدالمطلب والوں کے پاس اگرسقایت ( پانی پلانے) ، رفادت (مہمان داری) اور مشورت کے عہدوں کے ساتھ ساتھ نبوت بھی آجائے تو پھر ہمارے لئے کیا بچے گا؟ _ یہ بات سن کر اخنس پیچھے ہٹ گیا اور بنی زہرہ والوں کو لے کر واپس لوٹ آیا(۱) _

اسی طرح قبیلہ بنی عدی کا بھی کوئی فرد جنگ بدر میں شریک نہیں ہوا _ اور بنی ہاشم نے بھی واپس لوٹنے کا ارادہ کیا تو ابوجہل نے انہیں نہیں جانے دیا اور کہا : '' (حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ) یہ رشتہ دار تب تک ہمارا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے جب تک ہم صحیح سالم واپس نہیں لوٹ جاتے''(۲) _

مذکورہ افراد کے متعلق نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا موقف

مکہ میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اور مسلمانوں کے متعلق بنی ہاشم کے مؤقف اور ان کی حمایت کی وجہ سے نیز مذکورہ وجوہات کی بنا پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر میں بنی ہاشم کے افراد کو قتل کرنے سے منع فرمایا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسی طرح ابوالبختری ولید بن ہشام کو بھی قتل کرنے سے منع فرمایا کیونکہ یہ شخص بھی بائیکاٹ والی دستاویز کی مخالفت اور بائیکاٹ ختم کر نے میں پہل کرنے والوں میں شامل تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہ صرف خود اذیت نہیں دیتا تھا بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کام سے روکتا تھا_ لیکن بدر میں جب اس نے اپنے ساتھی کے بغیر قیدی بننا گوارا نہ کیا تو اسے اس کے ساتھی سمیت قتل کردیا گیا _ اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حارث بن نوفل کو بھی قتل کرنے سے اس لئے منع فرمایا کہ اسے جنگ کے لئے زبردستی لایا گیا تھا، لیکن اس سے ناآشنا ایک شخص نے اسے قتل کردیا_ اور زمعہ بن اسود کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا_

____________________

۱)ملاحظہ ہو ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۳_

۲)ملاحظہ ہو : سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۱، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۴و ج ۱ ص ۲۹۱ و تاریخ الاسلام ذہبی ( حصہ مغازی) ص ۳۱و ۳۳_

۲۳۵

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مؤقف پر ایک سر سری نظر

گذشتہ واقعہ سے سبق لینے کے لئے مندرجہ ذیل نکات بیان کئے جاتے ہیں:

الف: مذکورہ افراد کے قطعی موقف کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جنگ سے مقصد کامیابی ، غلبہ ، حکومت اور سلطنت کا حصول نہیں تھا اور نہ ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خون بہانا، پسر مردہ ماؤں اور بیواؤں کو رلانا اور کشتوں کے پشتے لگانا پسند تھا_ بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقصد اور ہدف تو ان باتوں سے افضل اور اعلی تھا جس کا عام فائدہ تمام امت کو بلکہ کئی نسلوں کو پہنچتاا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ممکنہ حد تک انتہائی کم قربانیوں سے اپنے اصلی مقصد تک رسائی چاہتے تھے_

ب: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے موقف اور نظریات کی قیمت ان کے حسن خلق ، اچھی عادت اور فطرت ، بہادری اور نیک خصلتوں کی وجہ سے لگاتے تھے_ چاہے وہ شخص کوئی بھی ہوتا ، اس کی وابستگی جس کے ساتھ بھی ہوتی اور اس کا عقیدہ اور نظریہ جو بھی ہوتا اس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی وہ کامل انسان اور انسانیت کے ایسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے جو ان اچھی صفات کو صحیح طریقے سے سمجھ سکتے تھے اور کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ ان کی قیمت لگا سکتے تھے_ اسی وجہ سے ان سب لوگوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یکساں موقف رہا جنہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کے ساتھ چاہے ایک بار ہی سہی حسن سلوک اور نیک رفتاری کا مظاہرہ کیا تھا_کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ مذکورہ موقف صرف اپنے عزیزوں اور خاندان والوں کے ساتھ منحصر نہیں تھا _اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رشتہ داریوں سے متاثر ہو کر کوئی موقف یا نظریہ اپنا نے والے نہیں تھے اور اس جیسا پرخطر موقف عقل سلیم کے لحاظ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصلحت میں تھا بھی نہیں_

ج: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان مشکل گھڑیوں کو بھی اچھی طرح سمجھ رہے تھے جن سے بعض لوگ گھبرائے ہوئے تھے_ ان لوگوں پر یہ گھڑی آئی ہوئی تھی کہ قریش نے انہیں ایسا مؤقف اپنا نے پر مجبور کردیا جو ان کے اغراض و مقاصد یا کم از کم ذاتی خواہشات اور رجحان کے برخلاف تھا_ اگر چہ کہ ایک لحاظ سے وہ قصور وار بھی تھے کیونکہ وہ حق کی مدد کرسکتے تھے اور عقل سلیم کے مطابق ایک صحیح موقف بھی اپنا سکتے تھے _ جس طرح کہ ان کے دیگر

۲۳۶

مسلمان بھائیوں نے اس طرح کیا تھا اور اپنے آپ کو ہنسی خوشی مشقتوں اور تکلیفوں میں جھونک دیا تھا _ یہاں تک کہ خدا نے ان کی مدد کی اور حق کا بول بالا ہوا_

جنگ کے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مشورہ لینا

مسلمان جب بدر کے قریب پہنچے اور انہیں قریش کے اکٹھے ہونے اور جنگ کے لئے روانہ ہونے کی اطلاع ملی تو وہ اس بات سے بہت خوفزدہ ہوئے_ جس کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کرنے یا تجارتی قافلے کے پیچھے جانے کے متعلق اپنے اصحاب سے مشورہ لیا_

حضرت ابوبکر نے کھڑے ہوکر کہا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ یہ قریشی اپنے لشکر کے ساتھ غرور اور تکبر میں اور کیل کانٹوں سے مکمل طور پر لیس ہو کر آرہے ہیں_ یہ ہمیشہ سے بے ایمان کافر اور ناقابل شکست رہے ہیں_ جبکہ ہم جنگ کرنے کے لئے بھی نہیں نکلے''(۱) _ اس پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اس سے فرمایا:'' بیٹھ جاؤ'' _ تو وہ بیٹھ گیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر فرمایا :'' مجھے مشورہ دو '' _ تو عمر نے کھڑے ہوکر ابوبکر کی بات دہرائی _ اسے بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیٹھ جانے کو کہا تو وہ بیٹھ گیا _ لیکن واقدی اور حلبی نے مذکورہ باتوں کو عمر سے منسوب کرتے ہوئے ابوبکر کے متعلق کہا کہ اس نے بہترین مشورہ دیا تھا(۲) _

پھر مقداد نے اٹھ کر کہا : '' یا رسول اللہ ٹھیک ہے کہ وہ مغرور قریشی ہیں اور ساتھ ہی ان کا لاؤ لشکر ہے ، لیکن ہم بھی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لانے والے ، تصدیق کرنے والے اور یہ گواہی دینے والے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرف سے حق بات لے کر آئے ہیں_ خدا کی قسم اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیں جھاؤ جیسے سخت درخت کے تنے کے گودے یا نوکیلی خاردار جھاڑیوں میں گھسنے ( دوسرے لفظوں میں گہرے کنویں میں کو دنے) کا حکم بھی دیں گے تو ہم بے چون و چرا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان میں گھس جائیں گے_ اور ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بنی اسرائیل کی وہ بات نہیں کریں گے

____________________

۱) البتہ جناب ابوبکر کے اور بھی الفاظ ہیں جن میں انہوں نے تجارتی قافلے کے لوٹ مارکی ترغیب دلائی تھی جو یہاں مذکور نہیں ہےں لیکن دیگر کتابوں میں مذکور ہےں_ مترجم_

۲)ملاحظہ ، مغازی واقدی ج ۱ ص ۴۸ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۰، در منثور ج ۳ ص ۱۶۶از دلائل النبوة بیہقی ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۴۷ و تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۵۸_

۲۳۷

جو انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے کی تھی کہ جاؤ تم اور تمہارا رب دونوں جاکر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں(۱) _ بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رب جاکر لڑیں ہم بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانہ بشانہ جنگ کریں گے_ خدا کی قسم ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دائیں ، بائیں ، آگے اور پیچھے چاروں طرف سے لڑیں گے ( اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کریں گے) اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمندر میں بھی کو دجائیں گے اور برک الغماد(۲) تک بھی لے جائیں گے تو بھی ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ساتھ رہیں گے_

یہ بات سن کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ کھل اٹھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خوش ہو کر اسے دعا دی بلکہ مؤرخین کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کھکھلا کرہنسے تھے(۳) _

نوٹ : مذکورہ تمام باتیں مہاجرین کی تھیں اور ان کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنگ نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ ہر قیمت پر اس ٹکراؤ سے بچنا چاہتے ہیں لیکن مقداد نے مہاجر ہونے کے با وجود شیخین کی مذکورہ باتوں کو ٹھکرادیا اور ان کے موقف کو رد کردیا_

پھر تاریخی دستاویزات کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انصار کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا :'' مجھے مشورہ دو '' _ اس بات سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد انصار تھے، کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فوج کا بیشتر حصہ انصار پر مشتمل تھا_ نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بات کا خطرہ بھی تھا کہ ان کے ذہن میں یہ بات نہ ہو کہ ان پر صرف مدینہ میں ہی دشمن کے حملہ کے وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنے کا فریضہ عائد ہوتا ہے مدینہ سے باہر نہیں_ پس سعد بن معاذ نے (البتہ سعد بن عبادہ کا نام بھی لیا گیا ہے لیکن یہ ایک خیال اور وہم سے زیادہ کچھ نہیں ، اس لئے کہ وہ تو بچھو و غیرہ کے ڈسنے کی وجہ سے چلنے پھر نے سے معذور تھا اس لئے وہ بدر نہیں جاسکتا تھا)(۴) کھڑے ہوکر کہا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ میرے ماں باپ بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر

____________________

۱)بنی اسرائیل کی مذکورہ بات سورہ مائدہ آیت ۲۴ میں مذکور ہے_ (۲) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۳ کے مطابق برک الغماد حبشہ کا ایک شہر ہے جبکہ واقدی کی المغازی ج ۱ ص ۴۸ کے مطابق برک الغماد مکہ سے سمندر کی جانب پانچ دن کے فاصلے پر ساحل کے ساتھ ایک جگہ ہے جبکہ یہ جگہ مکہ سے یمن کے راستے میں آٹھ دن کے فاصلے پر ہے_ (۳) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۳ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۰ ازالکشاف و المغازی و اقدی ج ۱ ص ۴۸ _ البتہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس بات کو مؤرخین نے بہترین مشورہ قرار دیا وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی ناراضگی موجب کیوں بنا؟ (۴) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۰_

۲۳۸

قربان شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم سے مشورہ چاہتے ہیں؟'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' ہا ںبالکل'' _ اس نے کہا :'' شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نکلے کسی اور کام سے ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم کسی اور کام کاملا ہے؟ ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' ایسا ہی ہے''_ تو اس نے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ میرے ماں باپ بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہم تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لاچکے ہیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق کر چکے ہیں اور یہ گواہی بھی دے چکے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرف سے حق بات لے کر آئے ہیں_ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیں جو چاہیں حکم دے سکتے ہیں'' یہاں تک کہ اس نے کہا :'' خدا کی قسم اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیں یہ حکم دیں کہ اس سمندر میں کود پڑو تو ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم پر کود پڑیں گے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا نام لے کر ہمیں لے چلیں ، ہوسکتا ہے ہمارے کارناموں سے خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راضی اور خوشنود کردے''_

اس بات سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہایت خوش ہوئے اور انہیں آگے بڑھنے کا کہا اورانہیں یہ خوشخبری دی کہ خدا نے مجھ سے دوگروہوں ( تجارتی قافلے یا لشکر قریش) میں سے کسی ایک پر کامیابی کا وعدہ کیا ہے_ اور خدا کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ پیشین گوئی بھی فرمائی کہ گویا میں ابوجہل بن ہشام ، عتبہ بن ربیعہ اور ہشام کی لاشیں دیکھ رہا ہوں _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں سے چلے اور بدر آکر پڑاؤکیا_

بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکثر صحابہ تجارتی قافلے کا پیچھا کرنے کے خواہش مند تھے اور جنگ سے کترا رہے تھے(۱) _

خداوند عالم نے قرآن مجید میں مذکورہ بات کا تذکرہ اپنی اس آیت میں کیا ہے:

( واذ یعدکم الله احدی الطائفتین انها لکم وتودون ان غیر ذات الشوکة تکون لکم و یرید الله ان یحق الحق بکلماته ویقطع دابر الکافرین ) (۲)

____________________

۱)در منثور ج ۳ ص ۱۶۳و ۱۶۹ از ابن جریر ، ابوالشیخ ، ابن منذر ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، کشاف ، بیہقی و عبد بن حمید و البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳_

۲)انفال : ۷_

۲۳۹

اور ( وہ قت یاد کرو) جب خدا نے تم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارا ہی ہے لیکن تم یہ چاہتے تھے کہ بے وقعت چیز تمہارے ہاتھ لگے جبکہ اس بات سے خدا کاارادہ حق کابول بالا کرنے اور کافروں کی جڑیں کاٹنے کا تھا''_

بہرحال آگے بڑھنے سے قبل مندرجہ ذیل چھ نکات کی طرف اشارہ کرتے چلیں:

۱_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے صحابہ سے مشورہ

اس بارے میں ہم پہلے بھی جنگوں میں مہاجرین کو بھیجنے کی وجوہات کے متعلق گفتگو کے دوران بات کرچکے ہیں اور بعد میں بھی غزوہ احد کے باب میں '' جنگ چھڑنے سے پہلے'' کی فصل میں اس بارے میں انشاء اللہ سیر حاصل گفتگو کریں گے_

لیکن یہاں اس اشارے پر اکتفا کرتے ہیں کہ بدر جیسی فیصلہ کن جنگ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے صحابہ سے مشورہ لینا ضروری تھا کیونکہ اس علاقے میں کم از کم مستقبل قریب تک ایمان اور کفر کا انجام اس جنگ کے نتائج پر منحصر تھا_بلکہ یہ ہمیشہ کے لئے ایک فیصلہ کن جنگ تھی جس طرح کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی اس دعا '' خدا یا اگر تیرے یہ پیارے مارے گئے تو تیری عبادت کبھی نہیں ہوگی'' میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے_

البتہ یہ بات واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے مشورے کی بذات خود کوئی ضرورت نہیں تھی _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے مشورہ اس لئے لیا کہ اس جنگ کا بوجھ بھی انہیں ہی اٹھا نا تھا اور نتائج بھی انہیں ہی بھگتنا تھے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس ذریعے سے ان کے اندر کا حال بھی جاننا چاہتے تھے جس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مؤمن کو منافق سے ، بہادر کو بزدل سے ، صحیح سمجھ دار کو کم سمجھ جاہل سے ، دوست کو دشمن سے ، طاقتور کو کمزور سے اور مفاد پر ست کو فریضے پر عمل کرنے والے اطاعت گذار سے جدا کرنا چاہتے تھے_ ہماری اس بات کی دلیل سعدبن معاذ کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہ سوال ہے جس میں اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا کہ شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نکلے کسی کام سے ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460