الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242047 / ڈاؤنلوڈ: 6986
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ترجمہ : انسانوں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنكى باتيں زندگانى دنيا ميں بھلى لگتى ہيں اور وہ اپنے دل كى باتوں پر خدا كو گواہ بناتے ہيں حالانكہ وہ بد ترين دشمن ہيں ، كو حضرت على (ع) سے منسوب كر دے اور'' و من الناس من يشرى نفسہ بتغاء مرضات اللہ واللّہ رئوف با العباد '' سورہ بقرہ آيت ۲۰۷كو جو حضرت على (ع) كى شان ميں نازل ہوئي تھى اسكے متعلق ايك حديث رسول (ص) سے منسوب كر كے امير المومنين كے قاتل ابن ملجم كے نام كر دے ، سمرہ بن جندب نے قبول نہيں كيا _

معاويہ نے مزيد دو لاكھ درہم بھجوائے پھر بھى قبول نہيں كيا ليكن جب معاملہ چار لاكھ درہم تك پہونچ گيا تب جا كر سمرہ بن جندب نے رسول اكرم (ص) سے جھوٹى حديث ان آيتوں كے سلسلے ميں گڑھى اور لوگوں سے بيان كيا(۱)

معاويہ كے مقابلے ميں بعض دليروں كا كردار

پرو پيگنڈے كى جنگ اتنى خطرناك تھى كہ ايمان كى اساس طوفان كے زد پر اكر فنا ہو رہى تھى ، اور بعض صحابہ و تابعين نے معاويہ كى آواز پر لبيك كہہ كر اپنا خوب پيٹ بھرا_

مملكت اسلامى كے با رسوخ افراد مسلمانوں كے بيت المال سے خريدے جانے لگے اور ان لوگوں كو خوب سونے اور چاندى كى تھيلياں دى جانے لگيں يا كسى حكومتى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، مگر ايك چھوٹا سا گروہ تھا جس نے دين و شرافت كو مد نظر ركھتے ہوئے معاويہ كى ہونكارى نہيں بھرى تھى ، ان لوگوں كو اتنا ستايا گيا كہ انھوں نے اپنى جان و مال سب كچھ راہ خدا ميں قربان كر ديا _

جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ ہزاروں جھوٹى حديثيں منظر عام پر اگئيں اور اسلامى معاشرہ تاريك ماحول ميں چلا گيا ، ان گڑھى ہوئي حديثوں كے ہوتے ہوئے كون انسان اسلام حقيقى كو پہچان سكتا تھا اور دوسرے يہ كہ وہ ہزاروں افراد جو متقى و پرہيزگار تھے وہ سختيوں كو جھيل كر موت كے دامن ميں سو چكے تھے _

ہم نے اس سے پہلے ان لوگوں كا تذكرہ كيا ہے جنھوں نے معاويہ كے دام فريب ميں اكر جھوٹى حديثيں گڑھيں كہ انہى ميں ايك سمرہ بن جندب ہے ، يہ وہ شخص ہے جو معاويہ كے اشارے پر ناچتا رہا جسكى وجہ سے اسكو بصرہ كى حكومت ملى تھى _

سمرہ كى اور سياہكاريوں كو چھوڑ كر صرف جو كوفہ ميں تباہياں اور قتل و غارتگرى كا اس نے بازار گرم كيا تھا ، اسكو طبرى يوں بيان كرتا ہے _

____________________

۱_شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۳۶۱

۱۸۱

مشہور عالم ابن سيريں سے پوچھا گيا كہ سمرہ بن جندب نے كسى كو قتل كيا ہے يا نہيں سيرين نے جواب ديا ، تم لوگ سمرہ كے قتل كو شمار كر لو گے ؟

ايك مرتبہ زياد نے بصرہ ميں اپنا جا نشين بنا ديا تو چھہ مہينے كے اندر اس نے اٹھ ہزار بے گناہ مسلمانوں كو قتل كيا جن ميں پينتاليس افراد وہ تھے جو حافظان قران تھے(۲)

طبرى مزيد كہتا ہے ، جب معاويہ نے زياد كى جگہ سمرہ بن جندب كو چند مہينے تك حاكم بصرہ بنا كر معزول كر ديا تو اس نے كہا ، خدا معاويہ كو غارت كرے ، خدا كى قسم ، ميں نے جس طرح معاويہ كے حكم كو مانا تھا اگر اسى طرح اپنے پروردگار كى اطاعت كرتا تو ہرگز مستحق عذاب نہ ہوتا(۳)

انھيں ميں دوسرا ضمير فروش مغيرہ بن شعبہ تھا ، جس نے سات سال كچھ مہينے كوفہ پر حكومت كى اور ايك لمحہ بھى حضرت على (ع) اور قاتلان عثمان پر نفريں كئے بغير اور عثمان كے حق ميں دعا كئے بغير چين و سكون سے نہيں بيٹھا _

البتہ مغيرہ اپنى چالاكى و ذہانت كيوجہ سے حكومتى امور كو كبھى نرميت اور خاطر مدارات كے ذريعے تو كبھى سختى سے انجا م ديتا تھا _

طبرى لكھتے ہيں :

ايك روز مغيرہ بن شعبہ نے صحابى امام (ع) صعصہ بن صوحان سے كہا ، ذرا كان كھول كر سن لو ، ايسا نہ ہو كہ ايك دن تمھارى خبر عثمان كى بد گوئي كرتے ہوئے ميرے كانوں تك پہونچے ، اگر على (ع) كے فضائل كو بيان كرنا ہے تو علنى طور پر بيان نہ كرنا بلكہ مخفى مقام پر بيان كرنا جس طرح على (ع) كے فضائل تم جانتے ہو اسى طرح ميں بھى واقف ہوں ليكن كيا كروں حكومت اموى كى طرف سے ڈنڈا ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہو ، البتہ ميں نے اكثر مقامات پر ان امور ميں رو گردانى كى ہے مگر جہاں پر مجبور ہو جاتا ہوں تو اپنى محافظت كے لئے بعض جملے برائي كے كہہ ڈالتا ہوں ، اگر زياد ہ فضائل على (ع) كے بيان كرنے كا شوق ركھتے ہو تو اپنے قريبى رشتہ داروں كے گھروں ميں بيان كرنا مگر مسجد اور شاہراہ پر بيان كرنا ايك ايسا مسئلہ ہے جسكو خليفہ ( معاويہ ) برداشت نہيں كر سكتا ، اور نہ ہى اس سلسلے ميں ميرے عذر كو قبول كر سكتا ہے(۴)

____________________

۲_ طبرى ج۶ ص ۱۳۲ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۸۹

۳_طبرى ج۶ ص ۱۶۴ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۱۲

۴_طبرى ج۶ ص ۱۰۸

۱۸۲

اخر ى فرد زياد بن ابيہ كى ہے جس نے معاويہ كے حكم كو نافذ كرنے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا ہے ، حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ جو اس نے سلوك كيا تھا اسكو اپ نے ملاحظہ فرمايا ليكن اس وقت اسى واقعہ كى ايك كڑى جو زياد اور صيفى بن فسيل كے درميان آيا تھا اسكو بيان كر رہا ہوں _

ايك روز زياد نے صيفى كو بلوايا اور اس سے كہا ، اے دشمن خدا تم ابو تراب كے بارے ميں كيا كہتے ہو ، صيفى نے كہا ، ابو تراب كس كا نام ہے _

زياد نے كہا _ تمھيں نہيں معلوم ہے ارے تم اچھى طرح سے ان كو پہچانتے ہو _

صيفى نے كہا _ مجھے نہيں معلوم ہے _

زياد نے كہا _ على بن ابيطالب كا لقب ہے _

صيفى نے كہا _ اچھا وہ ہيں _

ايك طويل مدت تك ايسے ہى مكالمہ ہوتا رہا ، اخر زياد نے چھڑى منگوائي اور صيفى سے كہا كہ اب بتائو تمھارا على (ع) كے بارے ميں كيا خيال ہے _

صيفى نے كہا ، اس بندئہ خدا ميں جو خوبى ہو گى اسى كو بيان كرونگا _

زياد نے اپنے جلادوں سے كہا كہ اسكو اتنا مارو كہ انكى گردن ٹوٹ جائے ، ان لوگوں نے صيفى كى خوب پٹائي كى _

زياد نے پھر پوچھا ، اب على (ع) كے بارے ميں كيا كہتے ہو _

صيفى نے كہا خدا كى قسم ، اگر تم لوگ مجھے تلوار سے ٹكڑے ٹكڑے بھى كر دو گے تو وہى كہوں گا جو انكى خوبى كى علامت ہے _

زياد نے كہا _ اگر على (ع) پر نفرين نہيں كرو گے تو تمہارى گردن اڑا دو نگا _

صيفى نے جواب ديا _ تم ميرى گردن كو تن سے جدا كر سكتے ہو مگر جس چيز كو سننا چاہتے ہو اسكو ميرى زبان سے نہيں سن سكتے ہو ، ميں قتل ہو كر خوش نصيب بن جائو نگا اور تم قتل كر كے بدبخت ہو جائو گے _

يہ سننا تھا كہ زياد نے حكم ديا كہ اسكو زنجيروں ميں جكڑ كر قيد خانہ ميں ڈال ديا جائے اخر اس شخص ( صيفى ) كو بھى حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ شھيد كر ديا گيا(۵)

____________________

۵_ طبرى ج۶ ص ۱۴۹ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۴ ، اغانى ج ۱۶ ص ۷ ، ابن عساكر ج ۶ ص ۴۵۹

۱۸۳

،واقعہ يہ ہے كہ زياد نے حضر موت كے اطراف سے دو ادميوں كو معاويہ كے پاس بھيجا اور اس نے خط ميں يہ لكھا كہ يہ لوگ دين على (ع) اور انكے چاہنے والے ہيں _

معاويہ نے جواب ديا _ جو بھى دين على (ع) اور انكى اطاعت ميں ہے انكو قتل كر كے ان كى لاشوں كو پا ئمال كر دو _

زياد نے ان دونوں محبان على (ع) كو كوفے كے دار الامارہ پر سولى ديدى(۶)

ايك دوسرا خط معاويہ كے پاس يہ لكھا كہ ايك قبيلہ خثعمى كے فرد نے ميرے سامنے على (ع) كى مدح سرائي كى ہے اور عثمان كو

برے الفاظ سے ياد كيا ہے ، اس سلسلہ ميں تمھارا حتمى فيصلہ كيا ہے _

معاويہ نے جواب ديا _ اس شخص كو زندہ در گور كر دو ، زياد نے يہ كام معاويہ كے كہنے پر انجام ديا كہ لوگ خوف و دہشت كے مارے فضائل على (ع) كو بيان نہ كر سكيں(۷) _

مورخين نے زياد كى تباہكاريوں كے سلسلے ميں بہت كچھ تحرير كيا ہے خود ابن عساكر لكھتا ہے ، ايك روز زياد نے تمام اہل كوفہ كو دعوت دى جب مسجد كوفہ لوگوں سے بھر گئي تو زياد نے اس جم غفير كو حكم ديا كہ تم لوگ على (ع) پر نفريں كرو(۸) _

مسعودى لكھتے ہيں :

زياد نے اہل كوفہ كو اپنے قصر ميں بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ تم لوگ على (ع) كو برا بھلا كہو اور اپنے مامورين سے جتا ديا كہ اگر كوئي شخص على (ع) پر نفرين كرنے سے كترائے تو اسكى گردن فوراً اڑا دو مگر خوش قسمتى يہ رہى كہ اسى وقت مرض طاعون ميں مبتلا ہو گيا اور اس دنيا سے مر كھپ گيا اس طرح اہل كوفہ نے چين و سكون كى سانس لى(۹)

____________________

۶_ المحبر ص ۴۷۹

۷_طبرى ج۶ ص ۱۶۰ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۹ ، ا غانى ج ۱۶ ص ۱۰ ، ابن عساكر ج۲ ص ۳۷۹

۸_ ابن عساكر ج۲ ص ۵۱۷

۹_ مروج الذھب ج۳ ص ۳۰

۱۸۴

عمرو بن حمق خزاعى كى ذات وہ تھى جن كا شماربہادروں ميں ہوتا تھا ، مگر حاكم كوفہ زياد نے انكے قتل كا فرمان جارى كر ديا تھا ، يہ امام عليہ السلام پر تبرا نہ بھيجنے كے ڈر سے جنگل ميں جا كر چھپ گئے ، ليكن حاكم كوفہ ( زياد ) كے ظالم سپاہيوں نے انكو چراغ كے ذريعہ ڈھونڈھنا شروع كيا اخر كار عراق كے تپتا صحراء كے ايك غار ميں انكو گرفتار كر ليا گيا اور حاكم كوفہ كى خدمت ميں پيش كيا گيا ، مگر عمر و بن حمق خزاعى نے امام (ع) كو كچھ نہ كہا جسكے بدلے ميں انكو زياد نے قتل كر ديا پھر انكے سر كو معاويہ كے پاس بھيجا اس نے حكم ديا كہ اس سر كو بازار ميں لٹكا ديا جائے تاكہ لوگ اس سر سے عبرت ليں _

چند دنوں بعد اس سر كو عمرو بن حمق كى بيوى كے پاس بھيجا گيا جو خود اسى محبت على (ع) كيوجہ سے قيد خانہ كى صعوبتوں كو برداشت كر رہى تھيں ، جب انھوں نے اپنے شوہر كے كٹے ہوئے سر كو ديكھا تو حسرت و ياس كے مارے يہ كہا ، كتنا زمانہ ہو گيا كہ تم لوگوں نے ميرے شوہر كو مجھ سے چھڑا ديا تھا ، ليكن اب اسكے سر كو ميرى خدمت ميں تحفہ بنا كر پيش كرتے ہو ارے يہ تحفہ بڑا قيمتى _(۱۰) _

بلاد اسلامى كے منبروں سے امير المومنين پر نفرين

امام عليہ السلام كے اصحاب كو صفحہ ہستى سے مٹانے كى كوشش اور جھوٹى حديثوں كے ذريعہ نيك كردار كو بد نام كرنا نيز بد كردار كو نيك كردار كرنے كى سازش يہ سارى كى سارى معاويہ كى سياست تھى جو تمام بلاد اسلامى ميں اگ كى طرح پھيل چكى تھى ، زياد بن ابيہ اور معاويہ كے ديگر حكمرانوں نے اس سياست كو تر ويج دينے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا تھا اور اس سلسلہ ميں مورخين نے ان حكمرانوں كى زيادتيوں اور تباہكاريوں كو بيان بھى كيا ہے _

يہ تمام تباہكارياں اور گندى سياست بنى اميہ كے دور ميں ديكھنے ميں اتى ہے ، كيونكہ ان لوگوں نے مسلمانوں كے ذہن و دماغ كو اسى لئے حقائق سے دور ركھا تھا تاكہ تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا كہا جائے اور صرف ايك سيستان كا صوبہ تھا جو معاويہ كے حكم كو نہيں مان رہا تھا اور ايك مرتبہ كے علاوہ اہل سيستان نے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا نہيں كہا :

____________________

۱۰_ابن قتيبہ كى المعارف ص ۱۲۷ ، استيعاب ج۲ ص ۵۱۷ ، اصابہ ج۲ ص ۵۲۶ ، ابن كثير ج۸ ص ۴۸ ، المعبر ص ۴۹۰

۱۸۵

اس ايك مرتبہ كے بعد سيستانيوں نے اموى اركان خلافت سے عہد و پيمان كيا كہ ہم كو حضرت امير المومنين (ع) پر نفرين كرنے سے باز ركھا جائے ، درانحاليكہ اسى زمانے ميں شہر اسلامى كے دو مقدس ترين شھروں ( مكہ و مدينہ ) ميں منبروں سے امام (ع) پر لعنت بھيجى جا رہى تھى(۱۱)

ضمير فروش خطيبوں نے خاندان علوى (ع) كے سامنے امام (ع) بزرگوار پر لعن و طعن كى تھى جنھيں مورخين نے نقل كئے ہيں ،ليكن ميں ان تمام واقعات كو چھوڑتے ہوئے صرف ايك واقعہ پيش كر رہا ہوں _

ايك مرتبہ عمر و بن عاص نے منبر سے حضرت على (ع) كو خوب برا بھلا كہا ، جب يہ اترگيا تو اسكے بعد مغيرہ بن شعبہ منبر پر اگيا اور اس نے بھى امام (ع) كے حق ميں نا زيبا كلمات زبان پر جارى كئے ، درانحاليكہ اس مجلس ميں حضرت امام حسن مجتبى (ع) موجود تھے ، حاضرين نے امام (ع) سے ان دونوں ( عمر و عاص، مغيرہ ) كا جواب دينے كے لئے كہا :

انحضرت (ص) نے ايك صورت ميں جواب دينے كى پيشكش كو قبول كيا كہ اگر ميں حق بات كہوں تو تم سب ميرى تصديق كرنا اور اگر نا حق بات كہوں تو ( العياذ باللہ ) ميرى تكذيب كرنا ، امام عليہ السلام اس عہد و پيمان كے بعد منبر پر گئے اور حمدالہى كے بعد عمر واور مغيرہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ ، تم دونوں سے خدا كى قسم ديكر پوچھتا ہوں كہ آيا تم دونوں بھول گئے ہو جو رسول (ص) نے مہار پكڑنے والے كو اور مركب ہنكانے والے كو نيز سوار پر لعنت بھيجى تھى جن ميں ايك فلاں شخص ( معاويہ ) تھا(۱۲) _

حاضرين نے كہا اپ سچ كہتے ہيں :

دوسرى مرتبہ پھر عمر و عاص و مغيرہ كو مخاطب كرتے ہوئے كہا :

ايا تم دونوں كو معلوم نہيں ہے جو پيغمبر اسلام (ص) نے عمر و عاص كے ہر شعركے بيت پر لعنت بھيجى تھى(۱۳) ، تمام لوگوں نے كہا خدا كى قسم اپ سچ كہتے ہيں(۱۴) _

____________________

۱۱_ياقوت حموى ج۵ ص ۳۸ مطبوعہ مصر

۱۲_ سوار ابو سفيان، مہار تھامنے والا يزيد بن ابو سفيان نيز ہنكانے والا معاويہ تھا اور پيغمبر اسلام (ص) نے ان تينوں پر لعنت بھيجى تھي

۱۳_ عمر و عاص نے عصر جاہليت ميں ايك قصيدہ رسول (ص) كى مذمت ميں كہا تھا انحضرت نے بد دعا كر كے خدا وند عالم سے درخواست كى كہ اسكے ہر بيت پر ايك لعنت بھيجے

۱۴_ تطہير اللسان ص۵۵

۱۸۶

ليكن جو مومن اور اہلبيت عليہم السلام كے چاہنے والے تھے كبھى بھى خطبوں ميں نيز جس نشست ميں على (ع) كو برا بھلا كہا جاتا تھا اس ميں شريك نہيں ہوتے تھے ، اور قبل اسكے كہ خطبہ ديا جائے مسجد كو چھوڑ ديتے تھے _

يہى وجہ تھى جو معاويہ كے حكمرانوں نے حكم خدا و رسو ل(ص) كو بدل ديا تھا ، اور جس نماز ميں پہلے خطبہ تھا اسكو بعد ميں پڑھا گيا _

كتاب محلى ميں ابن حزم رقمطراز ہيں :

بنى اميہ كى حكومت ميں سب سے پہلے جو كام انجام ديا گيا وہ يہ تھا كہ خطبہ نماز كو نماز پر مقدم كر ديا گيا ، ان لوگوں نے اپنے نا مشروع فعل كى توجيہ و تاويل اس طرح كى كہ لوگ نماز ختم ہونے كے بعد چلے جاتے ہيں اور خطبہ كو نہيں سنتے ہيں _

ليكن حقيقت تو يہ ہے كہ ان لوگوں نے اتنا على (ع) كو برا بھلا كہا كہ نمازى اپنى نماز تمام كر كے مسجد سے بھاگ جاتے تھے اور مسلمان كا يہ فعل صحيح معنوں ميں درست و حق تھا(۱۵)

صحيح بخارى اور صحيح مسلم نيز حديث كى دوسرى معتبر كتابوں ميں ابو سعيد خدرى سے يوں نقل ہوا ہے _

ميں ( سعيد ) حاكم مدينہ مروان كے ساتھ عيد الاضحى يا عيد الفطر كى نماز عيد گاہ ميں پڑھنے گيا ، كثير بن صلت كے بنائے ہوئے منبر كے قريب جيسے ہى مروان پہونچا تو اس پر چڑھ گيا اور نماز سے پہلے خطبہ دے ڈالا ، ميں نے اسكو لاكھ روكا مگر وہ نہ مانا ، جب خطبہ ديكر مروان نيچے اترا تو ميں نے اس سے كہا كہ خدا كى قسم ، تم نے تو دين و شريعت كو بدل ڈالا ہے

مروان نے كہا ، اے ابو سعيد جن چيزوں كو تم بنام دين سمجھتے ہو وہ تمام كى تمام دنيا سے اٹھ گئي ہيں _

ابو سعيد نے كہا ، خدا كى قسم ، ان بدعتوں سے بھتر يہ تھا كہ كچھ جانتے ہى نہيں ، مروان نے كہا ، اگر نماز سے پہلے خطبہ نہ ديتے تو لوگ ميرے خطبے كو ہرگز نہيں سنتے اسى وجہ سے ميں نے نماز سے پہلے خطبہ ديديا ہے(۱۶)

____________________

۱۵_ محلى ج۵ ص ۱۸۶ ، امام شافعى ج۱ ص ۲۰۸

۱۶_بخارى ج۲ ص ۱۱۱ ، مسلم ج۳ ص ۲۰ ، سنن ابى داو د ج۱ ص ۱۷۸ ، ابن ماجہ ج۱ ص ۳۸۶ ، بيہقى ج۳ ص ۲۹۷ ، مسند احمد ج۳ ص ۲۰

۱۸۷

بعض لوگوں كا لعنت سے گريز خلافت اموى كے حكام و مامورين نے صرف عام لوگوں سے حضرت على (ع) پر لعنت نہيں بھجوائي ، بلكہ اصحاب رسول (ص) جو اسلام كى معرفت ركھنے كيوجہ سے زيادہ مستحق پيروى تھے ان سے بھى كہا كہ ميرے حكم كو مانيں اور على (ع) پر لعنت بھيجيں _

سہل بن سعد كہتے ہيں :

ايك روز ال مروان(۱۷) كے ايك حاكم نے مدينہ ميں مجھے طلب كيا اور ہم سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، ميں نے حاكم مدينہ كى بات كو ٹھكرا ديا _

حاكم نے كہا اچھا ابو تراب(ع) پر لعنت بھيج دو _

سہل نے كہا ، حضرت على (ع) كو سارے ناموں ميں سب سے زيادہ محبوب نام ابو تراب(ع) تھا اور جب لوگوں نے اس نام سے ياد كيا تو اپ بہت خوش ہوئے _

حاكم مدينہ نے كہا _ مجھے اس نام كى داستان سے مطلع كرو اور خوش ہونے كا سبب بتائو ، ميں نے كہا ايك مرتبہ پيغمبر(ص)

اسلام جناب سيدہ(ع) كے گھر تشريف لائے اور على (ع) كو وہاں موجود نہ پاكر اپنى بيٹى سے پوچھا كہ تمھارے چچا زاد بھائي كہا ں ہيں _

فاطمہ(ع) نے كہا كہ ميرے اور ان كے درميان تھوڑا سا سخت كلامى ہو گئي ہے اور اسكے بعد انھوں نے گھر ميں ارام نہيں كيا اور باہر چلے گئے _

انحضرت (ص) نے ايك شخص سے كہا كہ جا كر ديكھوكہ على (ع) كہا ں ہيں اس نے جب مسجد ميں حضرت على (ع) كو ليٹے ہوئے ديكھا تو رسول اكرم (ص) سے جا كر كہا كہ وہ مسجد ميں سو رہے ہيں ، جب رسول اكرم (ص) نے على (ع) كو خاك ميں اٹے ہوئے ديكھا تو بڑى مہر بانى سے انكے جسم سے خاك كو جھاڑا اور كہا ، اٹھو ابو تراب ، اٹھو ابو تراب(۱۸)

____________________

۱۷_مقصود مروان بن حكم ہو گا

۱۸_صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۴

۱۸۸

ابو تراب كے معنى مٹى كو دوست ركھنے والا ہے بنى اميہ نے يہ گمان كر ليا تھا كہ على (ع) كى يہ كيفييت ذليل و حقير ہے درانحاليكہ انكو يہ بھى نہ معلوم ہو سكا كہ يہ لقب خود على (ع) كے كمال كى دليل ہے جو اس طرح رسول (ص) اپ سے لطف و مہربانى سے پيش ارہے تھے ، ورنہ بنى اميہ لوگوں سے يہ نہ كہتے كہ ابو تراب(ع) پر لعنت بھيجو _

عامر بن سعد جو خود اس واقعہ كا چشم ديد گواہ ہے كہتا ہے :

ايك مرتبہ معاويہ نے ميرے باپ ( سعد ) كو اپنى خدمت ميں بلايا اور ان سے كہنے لگا كہ تم على (ع) كو برا بھلا كيوں نہيں كہتے ہو ؟

ميرے باپ نے جواب ديا كہ _ اے معاويہ جب تك مجھے يہ تين حديثيں ياد رہيں گى كبھى على (ع) كو برا بھلا نہيں كہہ سكتا ، اور رسول (ص) كى يہ حديثيں ميرى نظر ميں عرب كے سرخ رنگ كے اونٹوں سے زيادہ قيمتى ہيں _

۱_ جب رسول (ص) ايك جنگ ( تبوك ) ميں جا رہے تھے اور على (ع) كو ساتھ نہ لے گئے اور انكو شہر مدينہ كے منافقوں سے نپٹنے كے لئے چھوڑ ديا تھا تو اس وقت على (ع) نے بہت گريہ كيا اور انحضرت (ص) سے فرمايا : اے رسول(ص) خدا مجھے عورتوں اور بچوں كے درميان چھوڑ كر جاتے ہيں تو ميں نے اپنے كانوں سے رسول(ص) اكرم كو يہ فرماتے ہوئے سنا تھا ''اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الّا انه لا نبى بعدى ''

ترجمہ : آيا تم راضى نہيں ہو كہ تمھارا وہى مرتبہ ہے جو موسى كے لئے ہارون كا تھا فرق اتنا ہے كہ ميرے بعد كوئي نبى ہونے والا نہيں ہے _

۲_ دوسرى مرتبہ جنگ خيبر ميں كہتے ہوئے سنا تھا''لاعطينّ الراية غدا رجلا ً يحب الله و رسوله و يحبه الله و رسوله ''

ترجمہ : كل ميں اس مرد كو علم دوں گا جو خدا و رسول كو دوست ركھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اسے دوست ركھتے ہيں ،ہم تمام لوگ گردنوں كو بلند كر كے رسول (ص) خدا كو ديكھنے لگے اپ (ص) نے فرمايا : على (ع) كہاں ہيں ؟

۱۸۹

حاضرين ان كو بلانے كے لئے دوڑے جبكہ على (ع) كے انكھوں ميں شديد درد تھا وہ اسى حالت ميں پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں لائے گئے ، انحضرت (ص) نے ان كى انكھوں ميں اپنا لعاب دہن لگايا پھر علم جنگ انكے ہاتھوں ميں ديا جسكے بعد خدا وند عالم نے انكو فتحيابى سے ہمكنار كيا _

مجھے وہ بھى وقت ياد ہے جب يہ آيت نازل ہوئي تھى ،كہ''فقل تعالوا ندع ابنا ئنا الخ_

ترجمہ : پس ان سے كہو كہ ائو اس طرح فيصلہ كر ليں كہ ہم اپنے بيٹوں كو لاتے ہيں تم اپنے بيٹوں كو لائو ، پيغمبر(ص) اسلام نے على (ع) ، فاطمہ(ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) كو بلايا اور كہا ، اے ميرے مالك يہى ہمارے اہلبيت(ع) ہيں _

مسعودى سعد بن وقاص اور معاويہ كى ملاقات كو طبرى سے يوں نقل كرتا ہے _

جب معاويہ حج كرنے كے لئے مكہ آيا تو سعد بن وقاص سے طواف كعبہ كے وقت ملاقات ہوئي ، جب طواف كر چكا تو سعد كو ليكر دار الندوہ ( جو عصر جاہليت ميں بزرگان قريش كے اجتماع كى جگہ تھى ) آيا اور سعد سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، معاويہ كى اس بات پر سعد كو اتنا غصہ آيا كہ اپنى جگہ سے كھڑے ہو گئے اور كہا :

اے معاويہ ، تو مجھے اسى لئے ليكر آيا ہے تاكہ على (ع) جيسے شخص پر لعن و طعن كروں خدا كى قسم ، اگر على كے فضائل و كمالات ميں سے ايك فضيلت ميرے اندر ہوتى تو دنيا كى تمام چيزوں سے زيادہ محبوب و قيمتى ہوتى(۱۹)

مسعودى نے اس واقعہ كو لكھنے كے بعد ايك عبارت پيش كى ہے جو اس واقعہ سے تھوڑا سا فرق ركھتى ہے_

سعد نے معاويہ سے كہا كہ ، خدا كى قسم ، جب تك زندہ رہو نگا تيرے گھر ميں قدم نہيں ركھوں گا يہ كہا اور اٹھ كھڑے ہوئے(۲۰)

ابن عبد ربہ اندلسى اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں :

امام حسن (ع) مجتبى كى شہادت كے بعد معاويہ خليفہ بن كر مكہ حج كرنے گيا پھر مدينہ كى طرف رخ كيا اسكى اس سفر ميں يہ خواہش تھى كہ مسجد النبوى (ص) كے منبر سے على (ع) كو برا بھلا كہے_

____________________

۱۹_صحيح مسلم ج۷ ص ۱۲۰ ، ترمذى ج ۱۳ ص ۱۷۱ ، مستدرك ج۳ ص ۱۰۹ ، اصابہ ج۲ ص ۵۰۲

۲۰_مروج الذھب ج۳ ص ۲۴

۱۹۰

معاويہ كے اطرافيوں نے اس سے كہا ، اس شہر ( مدينہ ) ميں فاتح ايران اور با عظمت صحابى سعد بن وقاص رہتے ہيں ، وہ اس كام كو ہرگز ہونے نہيں ديں گے لہذا بہتر يہى ہے كہ انكے پاس جا كر ان سے پوچھ ليا جائے _

مامورين معاويہ، سعد كے پاس گئے جيسے ہى انھوں نے سنا تو ان لوگوں سے كہا _ اگر اس كام كو انجام ديا گيا تو ياد ركھو جس مسجد كے در سے على (ع) كو برا بھلا كہا گيا اس در ميں ہرگز قدم نہيں ركھےں گے_

يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب ہميں يہ معلوم ہو جائے كہ مدينہ ميں مسجد نبوى (ص) كے بارے ميں گفتگو ہوئي تھى يا كوئي اور مسجد تھى _

معاويہ سعد كے نفوذ كے سامنے مات كھا گيا اورجب تك وہ زندہ رہے معاويہ اس كام كو انجام نہ دے سكا _

ليكن جب سعد بن وقاص اس دنيا سے چلے گئے تو معاويہ نے مدينہ كے اندر بار ديگر سعى و كوشش كى اور امام على (ع) كو مسجد نبوى (ص) كے منبر سے گالى دي_

يہى وہ دور تھا جس ميں معاويہ نے اپنے تمام كارندوں كو خط لكھا اور حضرت على (ع) پر تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے لعن و طعن كروائي _

زوجہ رسول (ص) ام سلمى نے كئي خطوط معاويہ كے پاس بھيجے جن ميں ان باتوں كو لكھا اے معاويہ ، تو تمام منبروں سے على (ع) اور انكے ساتھيوں پر نفرين كروا رہا ہے جبكہ يہ نفرين خدا و رسول (ص) پر ہو رہى ہے _

ميں قسم كھاتى ہوں كہ خدا اور پيغمبر(ص) اسلام اسكو دوست ركھتے تھے ، مگر ام سلمى كے خط نے كوئي خاص اثر معاويہ پر نہيں ڈالا

۱۹۱

بلكہ اس نے ان خطوط كو ردى كى ٹوكرى ميں ڈال ديا تھا _(۲۱) _

معاويہ كا اخرى ہدف

جب بھى معاويہ اپنے حسب و نسب اور اپنے خاندان كے كرتوت پر (جو اسلام كے مقابلے ميں جنگ كى تھى )نظر دوڑاتا تھا تو شرم و حياء كے مارے اسكا سر جھك جاتا تھا اور يہ تمام چيزيں اسكى حيرانى و پريشانى كى باعث بن جاتى تھيں ، كيونكہ ايك طرف اسلام نے اس كو اور اسكے خاندان كو ضرب كارى لگا كر ذلت و رسوائي كے كھنڈر ميں ڈال ديا تھا _

دوسرى طرف اس كے ديرينہ رقيب بنى ہاشم شہرت كے فلك چہارم پر جا رہے تھے ، يہ تمام مشكلات اسكے ذہن و دماغ پر پہاڑ كى طرح بوجھ بنى ہوئي تھى ، جنكو ہلكا كرنے كے لئے اس نے اصحاب پيغمبر (ص) سے جنگ كى تھى _

ليكن ان تمام جنگوں ميں امير شام معاويہ كى يہى كوشش رہى كہ كہيں سے اپنے كينے كا اظہار نہ ہو كيونكہ ابھى حكومت نئي ہے ورنہ جان و مال خطرے ميں پڑ جائے گا ، ليكن جب ايك دن مغيرہ بن شعبہ كے ساتھ تنہائي ميں بيٹھا، چونكہ دونوں عصر جاہليت سے اپس ميں دوست تھے نيز سالہا سال دونوں سياہكاريوں و تباہكاريوں ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹا رہے تھے تو معاويہ نے اپنى سياست كو فاش كر ديا _

كتاب الموفقيات ميں زبير بن بكار ، مطرف بن مغيرہ ، سے نقل كرتے ہيں ، ميں اپنے والد (مغيرہ ) كے ساتھ شام گيا ہم دونوں كا قيام معاويہ كے يہاں تھا ميرے والد ہر روز امير شام معاويہ كے پاس جا يا كرتے تھے اور جا كر گھنٹوں باتيں كيا كرتے تھے اور جب معاويہ كے پاس سے اتے تھے تو سارى باتوں كو بيان كرتے تھے _ايك دن معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے كھانا حاضر كيا ، ليكن انھوں نے نہيں كھايا ، ميں اپنے دل ميں سوچنے لگا كہ كہيں ہم سے كوئي خطا تو سرزد نہيں ہو گئي ہے _

لہذا ميں نے اپنے باپ ( مغيرہ ) سے سوال كيا كہ اج كى شب اپ كيوں اتنا كبيدہ خاطر ہيں _

____________________

۲۱_عقد الفريد ج۳ ص ۱۲۷

۱۹۲

ميرے باپ نے جواب ديا كہ ، اے ميرے لال ، اج ہم خبيث ترين و كافر ترين شخص كے پاس سے ارہے ہيں _

ميں نے پوچھا وہ كون ہے ؟

ميرے باپ نے كہا ارے وہى معاويہ ہے اج اسكى مجلس اغيار سے خالى تھى ، تو ميں نے اس سے كہا كہ اے امير المومنين اپ تو اپنے ہدف تك پہونچ گئے ہيں _

لہذا اس بوڑھاپے ميں عدل و انصاف سے كام ليجئے اور اپنے رشتہ داروں ( بنى ہاشم ) پر رحم و كرم كيجئے تاكہ لوگ اپكى تعريف و تمجيد كريں _

خدا كى قسم ، اب ان لوگوں سے كسى چيز كا خوف نہيں ہے _

اس پر معاويہ نے كہا ، جو كچھ تم نے كہا ہے بہت مشكل ہے ، ابو بكر تخت خلافت پر آئے عدل و انصاف كيا تمام زحمتوں كو برداشت كيا مگر خدا كى قسم ، ايك موذن بھى ان كا نام اذان ميں نہيں ليتا ہے _

عمر خليفہ بنے دس سال كى طويل مدت تك سختيوں كو جھيلا مرنے كے بعد كوئي بھى ان كا نام ليوا نہيں ہے _

اخر ميں ہمارے بھائي عثمان تخت خلافت پربرا جمان ہوئے جو نسب كے اعتبار سے كوئي بھى ان كا ہم پلہ نہيں ہے اور جو كچھ كرنا تھا انھوں نے انجام ديا ليكن ان كے ساتھ كيسا حادثہ پيش آيا جسكى وجہ سے مار ڈالے گئے ، مگر ان كا بھى كوئي نام نہيں ليتا ہے ، اور لوگوں نے انكى كار كردگى كو بالائے طاق ركھ ديا ہے درانحاليكہ اس مرد ہاشمى ( محمد(ص) ) كا نام موذن ہر روز پانچ مرتبہ تمام بلاد اسلامى كے گلدستہ اذان سے ليتا ہے كہ

اشھد ان محمد رسول(ص) اللہ_

اے مغيرہ تم ہى فيصلہ كرو كہ ايسى صورت ميں كون سا اچھا كام اور كس كا نام باقى رہ سكتا ہے _

خدا كى قسم ، جب تك اس نام كو نہ مٹادونگا اس وقت تك چين و سكون سے نہيں بيٹھوں گا(۲۲) رسول خدا (ص) كى شہرت

عامہ سے معاويہ كا سينہ اگ كى بھٹى ہو رہا تھا ( كيونكہ معاويہ كے بھائي ، ماموں اور دوسرے رشتہ داروں كو جنگ بدر ميں مارا تھا ) لہذا اس نام كو مٹانے كے لئے اس نے ان دو سياستوں انتخاب كيا ، اسكى پہلى سياست يہ تھى جس كا خلاصہ يہ ہے ، كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى زمين پر زندہ نہ رہے يہ بات صرف ميں نہيں كہہ رہا ہوں ، بلكہ اسكى وضاحت خود مولائے

____________________

۲۲_مروج الذھب ج ۹ ص ۴۹ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۴۶۳

۱۹۳

كائنات امير المومنين (ع) نے بھى كى ہے كہ خدا كى قسم معاويہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى روئے زمين پر باقى نہ رہے اور خدا كا نور بجھ جائے درانحاليكہ خدا وند عالم اپنے نور كو تمام عالم ميں پھيلا كر رہے گا چاہے كافروں كو برا ہى كيوں نہ لگے(۲۳)

معاويہ كى دوسرى سياست يہ تھى كہ بنى ہاشم كے نام و نشان كو صفحہ ہستى سے مٹا ديا جائے اسى لئے جھوٹى حديثوں اور سيرت و تاريخ كا ايك بڑا كارخانہ كھولا تاكہ ان كى منقصت كر كے كردار كو بد نام كر ديا جائے اور بنى اميہ كى فضيلت و منزلت كا پر چار كيا جائے ، يہى وجہ تھى كہ اس نے رسول (ص) كى لعنت والى حديث جو خود اسكے اور ابو سفيان يا خاندان اموى كى كسى ايك فرد جسيے عمر و بن عاص كے سلسلے ميں تھى كے مقابلے ميں رسول اسلام (ص) سے جھوٹى حديث منسوب كر كے لوگوں كے درميان پر چار كرائي كہ ، بارالہا ميں انسان ہوں _

اگر غصے كى حالت ميں كسى پر غلطى سے لعنت بھيجدى ہے يا اسكى مذمت كر دى ہے تو اس لعن و تشنيع كے بدلہ ميں اسكے گناہوں كو معاف كر دے تاكہ پاك و پاكيزہ ہو جائے _

ان جعلى حديثوں نے معاويہ كے حق ميں شمشير برّان كا كام كيا ، ايك طرف رسول اكرم (ص) نے جو كچھ ا س كے يا اس كے خاندان والوں كے سلسلے ميں كہا تھا جو حقيقت ميں سچ تھا ان حديثوں سے اس نے داغدار دامن كو پاك و صاف كر ليا _

دوسرى طرف پيغمبروں (ص) كو ايك معمولى انسان دكھايا كہ انھوں نے جو كچھ كہا تھا وہ سب غصے ميں كہا ، جبكہ اپ لوگ اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ خدا وند عالم نے اپنے رسول(ص) كے اخلاق و كردار كى كتنى تعريف و تمجيد كى ہے ، اور انكو انك لعلى خلق عظيم سے ياد كيا ہے ، اور اپكے متعلق سورہ ال عمران ميں ارشاد فرمايا ہے ، ''فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو كنت فظا غليط القلب لا نفضوا من حولك ''نيز دوسرى جگہ كہا كہ ، انكى تمام باتيں وحى الہى كا سر چشمہ ہيں '' وما ينطق عن الھوى ان ھو الّا وحى يوحى '' سورہ نجم آيت۳_۳

معاويہ كى اس برى سياست كو ہر كس و نا كس نہيں سمجھ پايا تھا يہى وجہ تھى جو سادہ لوح افراد تھے اور وہ اپنى ذات سے بے بہرہ تھے اسكى آواز پر دوڑنے لگے ، اور معاويہ كى ہاں ميں ہاں ملانے لگے ، اور جو ضمير فروشوں نے اسكے حكم سے بناوٹى حديثيں تيار كى تھيں انھيں ہر جگہ بيان كرنے لگے اگر چہ معاويہ نے اپنے اندر ونى كينے كو لوگوں كے سامنے ظاہر نہيں كيا

____________________

۲۳_ مروج الذھب ج۳ ص ۲۸

۱۹۴

ليكن اپنى نا پاك تمنائوں كو كھلے عام انجام ديا ہاں ،اس نے ايك طرف عثمان اور ان كے ہمراہيوں كا كھل كر ساتھ ديا_ اور دوسرى طرف على (ع) اور ان كے خاندان والوں نيز ان كے چاہنے والوں پر كہ جنھوں نے اس كى سياہكاريوں ميں ہاتھ نہيں بٹايا تھا ظلم و ستم كا پہاڑ ڈھايا ، اور كسى كو اذيت دى تو كسى كو قيد خانے ميں ڈلوايا تو كسى كو زندہ در گور كيا گيا ، ہمارى بحث كى محور ام المومنين عائشه كى ذات ہے كہ جس وقت انسانيت سولى پر چڑھائي جا رہى تھى اور شيعيان على (ع) كو شكنجوں اور قيد خانوں كى اذيتوں ميں مبتلا كيا جا رہا تھا اپ اسوقت بھى اركان حكومت اموى كى نظر ميں باعث صد احترام تھيں اور معاويہ نے جو امير المومنين (ع) سے جنگ كى تھى تو اس ميں بھى اپ نے معاويہ ہى كا ساتھ ديا تھا ،جب اپ حضرات نے يہاں تك ان كى كاركردگى كو ملاحظہ فرما ليا تو اس بات كو بھى ذہن نشين كر ليجئے كہ انھوں نے معاويہ كى جعلى حديثوں كے كار خانے ميں كتنا حصہ ليا ہے_

سعد بن ہشام نے حكيم بن افلح سے عائشه كے گھر جانے كو كہا ، اس نے كہا كہ ہم ان كے يہاں ہر گز نہيں جائيں گے ، ميں نے عائشه كو جب دو گروہوں (حزب علوى اور حزب عثمان ) ميں اختلاف چل رہا تھا تو ان كو مداخلت كرنے سے منع كيا ليكن انھوں نے ميرى بات نہيں مانى اور اپنى ڈگر پر چلتى رہيں(۲۴) يہ جو افلح نے عائشه كے بارے ميں كہا كہ حزب علوى (ع) اور حزب عثمان كے اختلاف ميں مداخلت كي، اس كا مطلب كيا ہے ؟

اپ نے پہلے ديكھا نيز ائندہ ملاحظہ فرمائيں گے كہ عائشه نے ان حالات ميں عثمان كے پارٹى كى خوب تعريف و تمجيد كى اور ان كے حق ميں رسول اسلام(ص) سے جھوٹى حديثوں كو منسوب كر كے بيان كيا تھا _

انھوں نے حزب علوى (ع) كى خدمت ميں يقيناً حديثيں گڑھى ہو نگى ، ان ہى باتوں كى وجہ سے حكيم افلح نے انكو منع كيا ليكن انھوں نے اسكى بات پر كان نہيں دھرا _

عائشه كى ايك حديث

احمد بن حنبل اپنى مسند ميں نعمان بن بشير سے نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے مجھے ايك خط ديكر عائشه كے يہاں بھيجا ، ميں نے اس خط كو عائشه كى خدمت ميں پيش كيا تو اپ نے فرمايا ، اے ميرے لال ، ميں نے جو كچھ پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے اس كو تم سے بيان نہ كروں ؟

___________________

۲۴_مسند احمد ج۶ ص ۵۶ ، تہذيب التہذيب ج۲ ص ۴۴۴

۱۹۵

نعمان نے كہا ، ضرور بيان كيجئے :

عائشه نے كہا ، ايك روز ہم اور حفصہ رسول (ص) كى خدمت ميں بيٹھى ہوئي تھى كہ اپ(ص) نے فرمايا كہ كتنا اچھا ہوتا كہ كوئي بات كرنے والا اجاتا _

عائشه نے كہا اے رسول خدا (ص) ہم اپنے باپ ( ابو بكر ) كو بلا ديں

انحضرت (ص) نے كچھ جواب نہيں ديا

رسول (ص) نے بار ديگر اپنى خواہش بيان كى حفصہ نے كہا ہم اپنے باپ ( عمر )كو بلاديں حضور (ص) خاموش رہے _

اس كے بعد رسول اسلام (ص) نے ايك شخص كو بلايا اور چپكے سے اسكے كان ميں كچھ كہا وہ ادمى چلا گيا ، تھوڑى دير بعد عثمان اگئے ، انحضرت(ص) نے ان سے خوب باتيں كيں ، گفتگو كے درميان ميں نے سنا كہ حضور(ص) يہ فرما رہے ہيں _

اے عثمان ، عنقريب خدا وند متعال تمہارے جسم پر ايك لباس ( خلافت ) پہنانے والا ہے اگر لوگوں نے اس لباس كو تم سے چھيننے كى كوشش كى تو تم اسكو ہر گز نہ اتارنا _

رسول(ص) خدا نے اس فقرے كو تين بار دہرايا

نعمان بن بشير كہتا ہے كہ ميں نے كہا :

اے ام المومنين يہ حديث عثمان كى مخالفت كرتے وقت اور لوگوں كو انكے خلاف بھڑكاتے وقت ياد نہيں رہى تھى _

عائشه نے كہا اے نعمان ميں اسكو ايسا بھول گئي تھى گويا كبھى سنا ہى نہيں تھا(۲۵)

يہ واقعہ اس زمانہ ميں پيش آيا كہ خليفہ وقت معاويہ نے عائشه كو خط لكھا اور نعمان اس كو ليكر گيا اور يہ اس كا منتظر ہے كہ يہ

جواب ديں ايسے وقت ميں رسول (ص) كى ايك حديث عائشه كو ياد ائي ہے اور قاصد سے بيان فرمائي كہ رسول (ص) نے عثمان كے بارے ميں وصيت كى تھى كہ ائندہ كا خليفہ عثمان ہے پھر لباس خلافت كو ہرگز جسم سے نہ اتارنا _

غور طلب بات يہ ہے كہ اس خط سے حديث كا كيا ربط ہے ؟

ايا معاويہ نے اپنے خط ميں ان سے سفارش كى تھى كہ عثمان كا دفاع كريں ؟

__________________

۲۵_مسند احمد ج۶ ص ۱۴۹

۱۹۶

يا يہ كہ جب قاصد امير شام معاويہ كے يہاں پلٹ كر جائے تو انكى حديث كو معاويہ سے بيان كرے ؟

يا كوئي دوسرى بات تھى ؟

ايا ممكن ہے كہ جو عائشه ايك طويل مدت تك عثمان سے جھگڑا كرتى رہيں اور لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكاتى رہيں يا اسى قسم كى دوسرى باتيں جو معاويہ كے زمانے ميں پيش ائيں ، اور لوگوں سے بيان كيا تھا اسكى وجہ صرف اتنى ہے كہ معاويہ كے زمانے ميں عائشه ايك كنيز كى طرح زندگى گذار رہى تھيں _

اور جو كچھ جھوٹى حديثيں اپنے باپ يا عمر و طلحہ نيز خاندان كى فضيلت ميں بيان كى تھى اسكى وجہ يہ تھى كہ معاويہ كى حديث گڑھنے والى سياست كو كامياب بنا كر اس كو خوش كرنا تھا اور اس سلسلہ ميں انھوں نے اپنے رشتہ دار اور چاہنے والوں كے فضائل كو نشر كرنے ميں ايڑى چوٹى كا زور بھى لگايا تھا اسى لئے محاورہ بھى ہے كہ جسكو چوٹ لگتى ہے اسى كو درد ہوتا ہے '' ليست الثكلى المستاجرہ ''

ہم نے ان بحثوں ميں نہ كسى كے فضائل كو بڑھا چڑھا كر بيان كيا ہے اور نہ ہى ميرا مقصد كسى كى عيب جوئي كرنا تھا ، بلكہ ہمارا واحد ہدف يہ تھا كہ ان حديثوں كى جانچ پڑتال كى جائے جو رسول اسلام (ص) سے جھوٹ منسوب كر كے بيان كى گئي ہيں جسكو انشاء اللہ اس كتاب كى اخرى بحث ميں ملاحظہ فرمائيں گے _

تحقيق اور نتيجہ

ہم نے اس سے پہلے زندگانى عائشه كى اچھى طرح تحقيق كى تاكہ ان كى سياسى و اجتماعى اور معاشراتى كارناموں كے ساتھ انكے اغراض و مقاصد سامنے اجائيں ، اب اس كے پس منظر ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا كہ وہ كون سى چيز باعث بنى جنھوں نے حديث نقل كرنے پر بر انگيختہ كيا تھا _

اگر اس كا خلاصہ كيا جائے تو يہ ہو گا كہ ، عائشه ايك تيز طرار عورت كے ساتھ ساتھ ايك بہترين خطيبہ تھيں جس كے ذريعہ عالم و جاہل سب كے افكار و قلوب كو جذب كر ليتى تھيں ، ايك بہترين سياستدان تھيں جس كى وجہ سے لشكر عظيم كو كنٹرول كر ليتى تھيں ، ان كا عوام ميں اتنا اثر و رسوخ تھا كہ ايك اشارے پر لوگوں كو خليفہ وقت كے خلاف ايسا بھڑكا ديا كہ انھوں نے اسكى بساط حكومت كو پلٹ ديا _

۱۹۷

عائشه جاہ و حشم كى بھوكى عورت كا نام ہے جس كو حاصل كرنے ميں كسى چيز سے خوف نہيں كھايا تھا ، بلكہ كسى نہ كسى طرح اس كو حاصل كر كے رہيں ، انھوں نے اپنے چاہنے والوں كے ساتھ اتنا مہربانى كى كہ حد سے اگے بڑھ گئيں _

اپنے خاندان اور اپنے مخالفوں كى نسبت اتنى كينہ توز تھيں كہ ان كے دشمنوں سے مرنے مارنے پر اجاتى تھيں ، المختصر يہ كہ ايسى عورت تاريخ ميں ڈھونڈھنے سے بھى نہ ملے گى ، اگر كوئي بات اپنے خاندان يا چاہنے والوں كے حق ميں كہہ دى تو وہ سب كے زبان پر چڑھ جاتى تھى ، اور تاريخ كے صفحات ميں زندہ جاويد ہو جاتى تھى تاكہ لوگوں كے لئے مشعل راہ بن جائے اور انے والى پيڑياں انكى معرفت و شہرت سے پہچان ليں _

اگر كوئي بات اپنے دشمنوں كو شكست دينے كے لئے بيان كر دى تو تاريخ نے ہميشہ كےلئے اپنے دامن ميں جگہ ديدى ، يا يوں كہوں كہ اگر اس نے كسى كى حمايت يا مخالفت ميں كوئي بات كسى سے كہہ ڈالى تو يہ بات مسافروں و كاردانوں كے ذريعہ ايك دوسرے تك پہونچ جاتى تھى اور لوگ اس كو حديث سمجھ كر ايك شہر سے دوسرے شہر تحفہ سمجھ كرلے جاتے تھے اخر ميں يہ باتيں كتابوں ميں منتقل ہو گئيں اور انے والى نسلوں نے ان باتوں كو حديث كا نام دے ديا _

يہ تمام باتيں خود ام المومنين عائشه كى عظمت و منزلت كى بڑى دليليں ہيں ، ہم نے جب عائشه كے چہرے كو تاريخ كى حقيقت ميں ديكھا اور جن لوگوں نے ان كى ذات كو عظمت كے سانچے ميں ڈھال كے پيش كيا تو ان دونوں ميں بہت

۱۹۸

فرق پايا ، ليكن جن لوگوں نے ان كى عظمتوں كا گيت گايا ہے ان سے ميرى ايك درخواست ہے كہ عائشه كے بطن سے ايك رسول (ص) كا بيٹا دكھا ديجئے ، البتہ يہ دونوں فضيلتيں حقيقت سے كوسوں دور ہيں _

ہميں صدر اسلام كى شخصيتوں كى اپنى طرف سے تعريف نہيں كرنى چاہيئے ، كيونكہ ايسى صورت ميں مدح و ثنا ء ايك خيالى ہو كر رہ جائيگى جسكى كوئي حيثيت نہيں ہے ، ہمارى پيش كى ہوئي سارى باتيں حقيقت سے تعلق ركھتى ہيں _

زندگانى عائشه كى تحقيق كا مقصد ہم نے بارہا كہا اور اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ام المومنين عائشه نے اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے دو زبردست چيزوں كا سہارا ليا تھا _

۱_ عائشه نے اپنى پورى زندگى ميں زوجہء رسول (ص) نيز ام المومنين كے لقب كا سہارا ليا اور اس سے اپنى طرف لوگوں كى توجہ مبذول كروائي ، اور اس موثر حربے كو استعمال كر كے اپنے مخالفوں كى زد و كوب كى اور اپنے چاہنے والوں كى ہمت افزائي كى _

۲_ وقت كى نزاكت كو ديكھتے ہوئے پيغمبر(ص) اسلام سے ان كى حديث نقل كى ، يا اپنى قابليت جھاڑنے كے لئے زوجيت كا فائدہ اٹھا كر جھوٹى حديثيں گڑھيں ، عائشه نے جن جگہوں پر رسول (ص) كى بيوى ہونے كے ناطے فائدہ اٹھايا ہے اس كو اس مختصر بحث ميں بيان كرنا بہت مشكل ہے ، ليكن نمونے كے طور پر دو تين حديثيں پيش كر رہا ہوں _

۱_ مسلم اپنى صحيح ميں نقل كرتے ہيں :

عائشه فرماتى ہيں : جب رسول خدا (ص) بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے ہم سے فرمايا:

اے عائشه _ اپنے باپ ( ابو بكر )اور بھائي كو بلا لائو تاكہ ايك وصيت لكھدوں كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں لوگ ارزو نہ كرنے لگيں اور كہنے والے يہ نہ كہنے لگيں كہ ميں خلافت كا زيادہ مستحق تھا ، درانحاليكہ ، خدا اور مومنين ابو بكر ہى كو چاہتے ہيں _

۲_ صحيح بخارى ميں ہے كہ : عائشه فرماتى ہيں ، جب رسول خدا (ص) پر مرض نے شدت پكڑلى تو عبد الرحمن بن ابو بكر سے فرمايا : ہڈى يا كوئي تختى لے ائو تاكہ ميں ابو بكر كے حق ميں نوشتہ لكھدوں تاكہ ميرے بعد كوئي اس ( ابوبكر ) سے خلافت كے

۱۹۹

سلسلے ميں جھگڑا كرنے نہ لگے ، عبد الرحمن ادھر تختى وغيرہ لينے گئے تو پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا :اے ابو بكر خدا اور مومنين تمھارے سلسلہ ميں تھوڑا سا بھى اختلاف نہيں ركھتے ہيں _

اپ نے ديكھا كہ عائشه نے ان دو حديثوں سے اپنے باپ كى حكومت و خلافت كو رسول (ص) كى بيمارى سے ملتے جلتے واقعات سے كس طرح ثابت كر ديا اور اپنے باپ كى خلافت كے لئے دو دليليں پيش كر ديں _

۳_ جب عائشه كے روابط عثمان سے مسالمت اميز تھے تو ان كى خوب مدد كى اور ان كى حكومت كى حمايت ميں بولتى رہيں ، اور زوجيت رسول (ص) سے فائدہ اٹھا تے ہوئے عثمان كے حق ميں ايك حديث بھى گڑھ ڈالى تھى ، جس كو صحيح مسلم نے عائشه سے نقل كيا ہے كہ :

ميں رسول (ص) كے ساتھ ايك چادر ميں ارام كر رہى تھى كہ ابو بكر اگئے ، پيغمبر(ص) اسلام نے انكو اندر بلا ليا ، پھر تھوڑى دير بعد عمر بن خطاب چلے آئے رسول(ص) اسلام نے انكو بھى اسى حالت ميں بلاليا ; ليكن جب حضرت عثمان آئے تو رسول خدا (ص) چادر سے باہر اگئے پھر عثمان كو گھر ميں بلايا ، جب عثمان چلے گئے تو ميں نے رسول(ص) اسلام سے سوال كيا كہ يا رسول(ص) اللہ جب ابو بكر اور عمر آئے تو اپ چادر كے اندر ليٹے رہے ليكن جب عثمان آئے تو اپنے كو چادر سے باہر كر ليا ، اس ميں كيا راز ہے ، پيغمبر(ص) اسلام نے فرمايا : چونكہ عثمان ايك شرم و حيا كا پيكر ہے لہذا ميں ڈرا كہ اگر اسى حالت ميں عثمان سے ملاقات كر ليتا تو وہ شدت شرم سے مجھ سے بات نہ كر پاتا _

۴_ صحيح مسلم نے اسى حديث كو دوسرى طرح سے عائشه كا يوں بيان نقل كيا ہے:

ايك دن پيغمبر(ص) اسلام ميرے ساتھ چادر اوڑھے ليٹے ہوئے تھے ، جيسے ہى عثمان آئے تو رسول (ص) نے مجھ سے كہا اے عائشه تم اپنا لباس وغيرہ ٹھيك كر لو ، ميں نے كہا ، يا رسول(ص) اللہ ، ابو بكر اور عمر كے انے پر اپ نے مجھ سے لباس ٹھيك كرنے كو نہيں كہا ليكن جب عثمان آئے تو اپنے ہوش و حواس كو كھو ديا نيز ان سے ملاقات كرنے كے لئے اپنے جسم پر لباس بھى پہن ليا _

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

حکم کسی اور کام کا ملا ہے؟ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا تھا کہ ہاں ایسا ہی ہے_ اور یہ جملے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جنگ کا فیصلہ پہلے سے ہوچکا تھا اور خدا کی طرف سے یہ حکم پہلے ہی آچکا تھا_ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشورے کی وجوہات وہی تھیں جو ہم ابھی کہہ چکے ہیں، پہلے بھی کہہ چکے تھے اور غزوہ احد میں بھی کہیں گے_

۲_ بہترین رائے ، قریش سے جنگ

یہ بات بھی واضح ہے کہ صحیح رائے قریش سے جنگ ہی تھی جس میں خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مرضی بھی تھی_

کیونکہ مسلمان ایک دورا ہے پر کھڑے تھے:

یا تو تجارتی قافلے اور قریش کی فوج کا سامنا کئے بغیر مسلمان واپس پلٹ جاتے_ اور یہ بات مسلمانوں کی واضح روحی اور نفسیاتی شکست اور مشرکوں ، یہودیوں اور منافقوں کو اپنے اوپر جری کرنے کا باعث تھی_

یا پھر وہ تجارتی قافلے تک پہنچ کر کئی لوگوں کو قتل یا قید کرنے کے بعد اسے لوٹ لیتے _ اس صورت میں قریشی ہرگز خاموش نہ رہتے بلکہ وہ وسیع پیمانے پر اور مکمل طور پر لیس ہو کر مسلمانوں سے جنگ کرتے _ وہ تو اس صورتحال میں مسلمانوں کے واپس مدینہ پہنچنے سے بھی پہلے مدینہ پر چڑھائی کر کے مسلمانوں پر مہلک وار کرسکتے تھے_ کیونکہ اتنی بڑیتعد اد اور تیاری کے ساتھ قریشی اتنی بڑی بات پر چپ نہیں رہ سکتے تھے بلکہ وہ جلدی سے اپنی جاتی ہوئی حیثیت ، ہیبت ، رعب و دبدبے اور بزرگی کے اعادے کی کوشش کرتے_

پس مسلمانوں کے سامنے صرف ایک ہی راستہ باقی رہتا تھا_ اور وہ قریش (کو پہلے اپنا عادلانہ ،عاقلانہ اور قابل قبول چہرہ اور طاقت دکھانے نیز منصفانہ پیشکش سامنے رکھنے کے بعد اب ان )کے مقابل کھڑا ہونا تھا_ پس ان حالات میں قریش سے جنگ ہی بہترین اور بے مثال انتخاب تھا_ خاص طور پر جب وہ قریش کے تجارتی قافلے کے تعاقب میں نکل بھی چکے تھے اور اس کام سے ان کا پیچھے ہٹنا مسلمانوں کے لئے عدیم المثال پیچیدگیوں، مشکلات اور اعتراضات کا باعث بنتا_

۲۴۱

ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر مسلمان عزت اور وقار کی ایسی زندگی گذارنا چاہتے ہیں کہ ان کا کوئی بھی ہمسایہ ، مشرک ، یہودی ، منافق اور کوئی بھی دشمن ان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھے تو انہیںجنگ کے لئے پیش قدمی کرنی ہوگی_ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے_

۳_ نفسیاتی تربیت:

اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیںکہ :

الف: اس جنگ میں پہلے پہل عام مسلمانوں کا مقصد مال کا حصول تھا_ لیکن خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اس دنیاوی مقصد سے کہیں بلند ، قیمتی اور بہترین ہدف کی طرف لے جانا چاہا و گرنہ قریشیوں کی اس لشکر کشی اور جنگ کے پیچھے بھی تو دنیاوی ، اقتصادی ، اجتماعی ( معاشرتی ) اور سیاسی مقاصد کار فرماتھے_پھر تو مسلمانوں اور مشرکوں میں کوئی فرق باقی نہ رہتا_

ب: جنگ بدر نے مسلمانوں کے اندر خود اعتمادی کی روح پھونکنے اور بھر پور قوت اور شجاعت کے ساتھ آئندہ کے خطرات کا سامنا کرنے کی جرات پیدا کرنے میں اپنا بہت بڑا اثر دکھا یا _ کیونکہ انہیں خدا کے ''ہوکر رہنے والے حتمی ''کام کی انجام دہی کے لئے قریش کے جابروں، متکبروں اور سرداروں کو قتل اور قید کرنا پڑا اور اس امتحان میں وہ سرخرو ہوگئے ہیں تواب انہیں عرب اور عجم سمیت پوری دنیا سے جنگ کی تیاری کرنی تھی _

۴_ جنگ سے متعلق مشوروں پر ایک سرسری نگاہ

یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اکثر مؤرخین نے اس مرحلے میں عمر اور ابوبکر کا کلام حذف کر کے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ابوبکر نے کھڑے ہوکر اچھی رائے دی او رعمر نے بھی کھڑے ہوکر بہترین مشورہ دیا پھر

۲۴۲

مقداد نے کھڑے ہوکر فلاں بات کی(۱) _ بلکہ ان میں سے کچھ لوگوں کی طرف ایسی باتیں بھی منسوب کرتے ہیں جن کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سوال سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا_(۲) بہرحال شیخین کی مذکورہ باتیں چونکہ اکثر مؤرخین کو اچھی نہیں لگیں اس لئے وہ مذکورہ طریقے سے اس سے کنی کتراگئے _ لیکن یہ واضح سی بات ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقداد کی باتوں پر خوش ہوکر اسے دعائیں دینا اس بات کی دلیل ہے کہ شیخین کی باتیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشاورتی مقاصد سے میل نہیں کھاتی تھیں بلکہ وہ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعلی مقاصد کے بالکل برخلاف تھیں_ وگر نہ اگر ان کی باتیں لائق ذکر ہوتیں تو ان کے چاہنے والے راوی اور مؤرخین ان کی باتوں کو ضرور بڑھا چڑھاکر پیش کرتے_ لیکن مقداد کا مشورہ چونکہ بالکل صحیح ، منطقی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعلی اہداف و مقاصد کے موافق نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توقعات کے عین مطابق تھا اس لئے مقداد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاؤں اور تعریفوں کا مستحق ٹھہرا_

بلکہ کتابوں میں یہاں تک بھی آیا ہے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی آمد کی اطلاع ملی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے صحابیوں سے مشورہ لیا_ یہاں ابوبکر نے کوئی بات کی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی بات کو رد کردیا اور عمر نے بھی کوئی بات کی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی باتوں کو بھی ٹھکرا دیا(۳) _ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ان کی باتوں کو رد کردینا صرف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار کا جواب سننا چاہتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رو گردانی ان دونوں کے قریش سے جنگ نہ کرنے پر اکسانے نیز ان الفاظ کے ساتھ قریش کی تعریف کرنے کی وجہ سے تھی کہ یہ ہمیشہ سے ناقابل شکست اور بے ایمان کا فرر ہے ہیں _ وگرنہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقداد کی باتوں سے خوش ہوکر اسے دعائیں کیوں دی تھیں؟ حالانکہ وہ بھی تو ایک مہاجر تھا ؟حتی کہ ابن مسعود نے اس کے اس موقف کے متعلق کہا کہ اس کی ہم وزن کسی بھی چیز سے زیادہ مجھے اس کا ساتھی بننا بہت پسند تھا(۴) _ اور ابوایوب انصاری

____________________

۱) بطور مثال ملاحظہ ہو: البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۲ و الثقات ج ۱ ص ۱۵۷_

۲)وہ بات قریش کے تجارتی قافلے کو لوٹنے والی بات تھی (۳) صحیح مسلم باب غزوہ بدر ج ۵ ص ۱۷۰ مسند احمد ج ۳ ص ۲۱۹ دو اسناد کے ساتھ نیز از الجمع بین الصحیحین ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳ و السیرة النبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۹۴_

۴) صحیح بخاری باب '' تستغیثون ربکم'' مطبوعہ المیمنیہ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۲ _ ۲۶۳و سنن نسائی _

۲۴۳

نے بھی اپنی باتوں کے دوران یہ اظہار کیا کہ ہم انصار جماعت کی یہ حسرت رہی کہ اے کاش اس دن ہم نے بھی مقداد کی طرح باتیں کہی ہوتیں ( اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعائیں سمیٹی ہوتیں) تو یہ چیز ہمیں بہت زیادہ مال سے بھی زیادہ پسند تھی _ جس پر خدا نے یہ آیت نازل کی تھی( کما اخرجک ربّک من بیتک بالحق و ان فریقاًمن المؤمنین لکارهون ) (۱) _

گذشتہ تمام باتوں کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام مہاجرین و انصار سب کے لئے دعوت عام تھا _ اسی طرح جنگ پر بیعت نہ کرنے کے لحاظ سے مہاجرین بھی انصار ہی کی طرح تھے_پس مؤرخین کی یہ بات کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخاطب صرف انصار تھے صحیح نہیں ہے_

۵_ مقداد اور سعد کی باتوں پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سرور کی وجوہات

مقداداور سعد بن معاذ کی باتوں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی مشورہ نہیں دیا نہ جنگ کا اورنہ ہی صلح کا بلکہ انہوں نے تو صرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے چون و چرا اطاعت اور فرمانبرداری کا اظہار کیا تھا_ انہوں نے تو اپنی کسی رائے کا اظہار کیا نہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کسی چیز کا مشورہ دیا _ اور یہ ایمان خلوص ، اطاعت ، فرض شناسی اور موقع شناسی کی انتہا ہے _

خدا کا فرمان ہے کہ( و ما کان لمؤمن و لامؤمنة اذا قضی الله و رسوله امراً ان یکون لهم الخیرة من امرهم ) (۲) ترجمہ : '' جب خدا اور اس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوئی فیصلہ کرلیں تو کسی بھی مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت کو اپنی مرضی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے '' _ نیز( یا ایها الذین آمنوا لاتقدموا بین یدی الله و رسوله و اتقو الله ان الله سمیع علیم ) (۳) ترجمہ : '' اے مؤمنوا خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی چیز میں پیش قدمی نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرو کہ خدا خوب سننے اور جاننے والا ہے '' _ اور خدا کے ان

____________________

۱) البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳ و ص ۲۶۴ از ابوحاتم و ابن مردویہ_

۲) احزاب /۳۶ _

۳) حجرات_

۲۴۴

فرامین کی روشنی میں یہ دونوں شخصیات خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فیصلے کے سامنے اپنی کوئی حیثیت نہیں سمجھتے تھے اور اپنے لئے کسی بھی مرتبے کے قائل نہیں تھے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خوشی اور سرور بھی ان کے اسی گہرے اور پختہ ایمان اور بے چون و چرا فرمانبرداری کی وجہ سے تھی _

۶_ حضرت علی علیہ السلام نے مشورہ کیوں نہیں دیا؟

یہاں قابل ملاحظہ بات یہ بھی ہے کہ اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے عقلمندی اور دانائی کا سرچشمہ ہونے کے باوجود اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اپنا موقف اور مشورہ سنانے کی انہیں کوئی جلدی تھی_ آپ لوگوں کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟

اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا موقف بعینہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاہی موقف تھا _ کیونکہ آیت مباہلہ میں خدا نے ان الفاظ میں حضرت علی علیہ السلام کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات اور نفس قرار دیا :

( فقل: تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم ونسائنا و نسائکم و انفسناو انفسکم )

تو ( اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صورت میں انہیں ) کہہ دو کہ پھر آؤ ہم اور تم اپنے اپنے سپوتوں ، عورتوں اور اپنی سب سے پیاری شخصیتوں کو بلالیں

مزید یہ کہ حضرت علی علیہ السلام خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی معاملے میں پیش قدمی کرنے والے تھے ہی نہیں _ اور اس موقع پر وہ خدا اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے خاموشی ، رضا اور سر تسلیم خم کرنے کو اپنے لئے ضروری سمجھتے تھے اور اس کام میں انہیں کوئی عار بھی محسوس نہیں ہوتا تھا _

'' حباب'' اچھی رائے والا

مؤرخین کے بقول جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بدر کے مقام پرپانی کے کنویں کے قریب پڑاؤ کیا تو حباب بن

۲۴۵

منذر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ مشورہ دیا کہ دشمن کی فوج کی بہ نسبت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پانی کے زیادہ قریب پڑاؤ کریں اور وہاں پانی کا ایک حوض بنائیں پھر دیگر تمام کنوؤں کا پانی نکال لیں_ اس سے مسلمان تو پانی استعمال کرسکیں گے لیکن مشرکین ایسا نہ کرسکیں گے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا ہی کیا توحباب کے مشورہ کو درست پایا_ اس پر حباب کو '' حباب ذوالرا ی '' ( حباب بہترین رائے والا ) پکارا جانے لگا(۱) _

لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے _ کیونکہ :

ایک : پختہ دلیلوں سے ثابت ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کچھ سوچتے یا کرتے تھے وہ سب صحیح اور بہترین ہوتا تھا _ اور یہ نظریہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیاوی معاملات میں غلطی کرسکتے تھے ، ناقابل اعتبار ہے کیونکہ یہ بات عقل اور آیات و روایات کے بالکل بر خلاف ہے (البتہ خطا اور نسیان سے عصمت کے اختیاری ہونے کی گفتگو عنقریب ہوگی انشاء اللہ )

دو : '' عدوة القصوی '' جہاں مشرکوں نے پڑاؤ کیا تھا پانی بھی وہاں تھا اور وہ ایک بہترین زمین تھی جبکہ '' عدوة الدنیا '' میں کوئی پانی نہیں تھا ، جبکہ وہاں کی زمین اتنی نرم تھی کہ اس میں پاؤں دھنس جاتے تھے(۲)

تین : مسلمانوں سے پہلے مشرکوں نے بدر کے مقام پر آکر پڑاؤ کیا تھا _ اور یہ معقول ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ایسی جگہ جا کر پڑاؤ کیا ہو جہاں کوئی پانی نہ ہو اور پانی والا حصہ اوروں کے لئے چھوڑدیا ہو_

چار : خود ابن اسحاق یہ بیان کرتا ہے کہ مشرکین حوض سے پانی لینے آئے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ انہیں پانی بھرنے دیا جائے(۳) _ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے بھی جنگ صفین میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی میں اپنے سرکش دشمنوں کو بھی پانی لینے کی اجازت دے رکھی تھی_ حالانکہ انہوں نے پہلے آپعليه‌السلام کو اسی

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۲ ، تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۷۶، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۵، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۲، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۴۰۳و ص ۴۰۲ و البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۶۷ و غیرہ _ (۲) ملاحظہ ہو : فتح القدیر ج ۲ ص ۲۹۱ از زجاج و ص ۳۱۱ و کشاف ج ۲ ص ۲۰۳ تا ۲۲۳ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵ ، تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۹۲ از ابن عباس ، قتادہ ، سدی و ضحاک ، در منثور ج ۳ ص ۱۷۱ از ابن منذر ، ابوالشیخ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۴ ، سیرہ ابن کثیر ج ۲ ص ۴۰۰ ، کشاف ، انوار التنزیل و مدارک و غیرہ _ (۳) ملاحظہ ہو : الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۳_

۲۴۶

پانی سے محروم کیا ہوا تھا(۱) اور یہ واضح سی بات ہے کہ دشمنوں کو پانی سے روکنا اور منع کرنا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اخلاقیات اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے سازگار نہیں ہے _

پس صحیح روایت یہ ہے کہ پہلے پہل مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا _ لیکن ایک رات خدا نے موسلا دھار بارش برسائی تو وادی میں سیلاب سا آگیا اور مسلمان نے کئی حوض (گڑھے) بنالئے ، خود بھی پانی پیا اور جانوروں کو بھی پلایا ، نہایا دھویا بھی اور اپنی مشکیں بھی بھر لیں(۲) _ اس بات کی طرف یہ آیت اشارہ کررہی ہے _ ( اذ یغشیکم الناس امنة منہ و ینزل علیکم من السماء مائً لیطہرکم بہ و یذہب رجز الشیطان و لیربط علی قلوبکم و یثبت بہ الاقدام )(۳) پس حوض بنانے کے وجوہات وہ نہیں جو پہلے ذکر ہوئی ہیں بلکہ یہی ہےں جواب ذکر ہوئی ہےں_

مسلمانوں اور مشرکوں کی تعداد اور ساز و سامان

جناب طالوت کے ساتھیوں کی تعداد کے مطابق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس جنگ میں اپنے تین سو تیرہ صحابیوں کو لے کر نکلے ( البتہ کم یا زیادہ تعداد کے اقوال اور نظریات بھی ہیں لیکن مذکورہ قول اکثر بزرگان کا نظریہ ہے(۴) _ اور ان کے ساتھ ستر اونٹ تھے جن پر دود ویا تین تین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے _ خود نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت علیعليه‌السلام اور مرثد بن ابی مرثد ( البتہ بعض مؤرخین کے مطابق تیسرا شخص زید بن حارثہ تھا ) ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے _ مؤرخین کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ اس لشکر میں ایک گھوڑا مقداد کا ضرور تھا لیکن باقی کے متعلق اختلاف ہے _ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ فقط یہی ایک گھوڑا تھا(۵) اور یہ قول حضرت علیعليه‌السلام سے بھی منقول ہے(۶) ایک نظریہ یہ ہے کہ ایک گھوڑا زبیر کا یا مرثد کا بھی تھا جبکہ یہ بھی کہا

____________________

۱) ملاحظہ ہو مصنف کی کتاب '' الاسلام و مبدا المقابلة بالمثل '' _ (۲) ملاحظہ ہو : کشاف ج ۲ ص ۲۰۳ وص ۲۰۴ و تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۹۲ البتہ اس میں حوض بنانے کا ذکر نہیں ہے _ (۳) انفال /۱۱_ (۴)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۴۹_ (۵) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱ از کشاف ، مناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۷ ، بحار الانوار ج ۹ ۱ ص ۳۲۳ از تفسیر عیاشی ج ۲ ص ۲۵ و ۵۴ و حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۹۳ از الترغیب ج ۱ ص ۱۳۱۶ از ابن خزیمہ نیز ملاحظہ ہو _ المغازی ذہبی ( تاریخ الاسلام ) ض ۵۶و ۵۹ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۹ ، دلائل النبوة بیہقی مطبوعہ مکتبة العلمیہ ج ۳ ص ۳۸ و ص ۳۹ و ۴۹ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۲۷ و تاریخ الام و الملوک ج ۲ ص ۳۵_ (۶) تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۳۵، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۹ و سیرہء نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۸_

۲۴۷

گیا ہے کہ دونوں کے گھوڑے تھے_ اسلحہ میں صرف چھے ڈھالیں اور آٹھ تلوار یں تھیں(۱)

ان تین سو تیرہ سپاہیوں میں سے مہاجرین کی تعداد کے متعلق مختلف اقوال ہیں_ چونسٹھ (۶۴) بھی کہا گیا ہے ستر (۷۰) بھی، چھیتر (۷۶) بھی ، ستتر (۷۷) اور اسی (۸۰) تک بھی کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو سو ستر (۲۷۰) انصاری تھے اور باقی دوسرے لوگ تھے _ اس کے علاوہ دیگر اقوال بھی ہیں(۲) _ اور انصارمیں سے کہا گیا ہے کہ ایک سو ستر (۱۷۰) خزرجی تھے البتہ اس تعداد میں بھی اختلاف پایا جاتاہے_ لیکن مشرکین نشے میں بد مست تھے اور اپنے ساتھ ڈفلی بجانے والی گلوکار ائیں بھی لائے تھے جنہیں انہوں نے راستے سے ہی واپس پلٹا دیا تھا_ ان کے ساتھ سات سو اونٹ تھے(۳) _ البتہ گھوڑوں کی تعداد میں اختلاف ہے _ چارسو بھی کہا گیا ہے(۴) ، دو سو بھی کہا گیا ہے اور ایک سو بھی(۵) نیز دیگر اقوال بھی ہیں_ اور ان سب کے پاس ڈھالیں تھیں اور ڈھال والی فوج کی کل تعداد چھ سو(۶۰۰) تھی(۶) _ پورے لشکر کے کھانے پینے کا بند و بست کرنے والے کل بارہ آدمی تھے جن میں عتبہ ، شیبہ ، عباس ، ابو جہل اور حکیم بن حزام بھی تھے _ البتہ مشہور یہ ہے کہ مؤخر الذکر بعد میں مؤلفة القلوب میں شمار ہونے لگا تھا _ بہرحال ان بارہ آدمیوں میں سے ہر ایک پورے لشکر کے ایک دن کا کھانا اپنے ذمہ لے لیتاتھا _ اور وہ ان کے لئے نو یاد س اونٹ ذبح کرتا تھا_

____________________

۱) ملاحظہ ہو :مناقب آل ابی طالب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۷، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۰۶، مجمع البیان ج ۲ ص ۲۱۴ البتہ دار احیاء التراث کی طباعت کے مطابق ج ۱ ص ۴۱۵ و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱_

۲) ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج ۱۹ ص ۳۲۳، دلائل النبوة بیہقی ج ۳ ص ۴۰، البدایة و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۹، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۶، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۶۰۳ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱، انساب الاشراف ج ۱ ص ۲۹۰، مجمع الزوائد ج ۶ ص ۹۳، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۱۸ و دیگر کتب_

۳) ملاحظہ ہو گذشتہ چند حاشیوں میں مذکور منابع_

۴) تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۶۲_ (۵) ملاحظہ ہو : مناقب آل ابی طالب ج ۱ ص ۱۸۷، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۶، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۲۴ و ص ۲۰۶، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۱۸ ، مجمع البیان و دیگر کتب نیز سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۷_

۶) التنبیہ و الاشراف ص۲۰۴ و سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۷_

۲۴۸

مشرکوں کی ہٹ دھر می اور کینہ توزی

بدر کے کنویں پر مسلمانوں نے قریش کے چند ایک غلاموں کو پکڑ ان سے تجارتی قافلے کے متعلق پوچھ گچھ کی توانہوں نے اس سے لا علمی کا اظہار کیا جس پر مسلمانوں نے انہیں مارا پٹیا_ اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز میں مصروف تھے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جلدی جلدی نماز مکمل کی اور فرمایا:'' وہ تمہیں سچ سچ بتا رہے ہیں تو تم انہیں مار رہے ہو کیا جھوٹ بولنے پر انہیں چھوڑ وگے؟ '' _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے لشکر قریش کی تعداد کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس سے بھی لا علمی کا اظہار کیا _ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا : '' وہ ہر روز کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟'' _ انہوں نے کہا :'' نو سے دس تک ذبح کرتے ہیں'' _ اس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' اس کا مطلب ہے وہ لوگ نو سو سے ایک ہزار تک کی تعداد میں ہیں''(۱) _ (البتہ اس سے زیادہ تعداد بھی بتائی گئی ہے حتی کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد تین ہزار تک تھی لیکن یہ صحیح نہیں ہے) _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کو قید کرنے کا حکم دیا تو انہیں قید کر لیا گیا _ جب مشرکین کو اس بات کا علم ہوا تو وہ اپنے بدر آنے پر بہت نادم اور پریشان ہوئے کیونکہ تجارتی قافلے کے صحیح سالم بچ نکلنے کی خبر سن کر بھی انہوں نے عربوں پر اپنی دہشت بٹھانے کے لئے بدر آنے پر بہت اصرار کیا تھا_ عتبہ بن ربیعہ ( جس کا بیٹا ابو حذیفہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے ساتھ تھا) نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ تجارتی قافلے کی نجات کے بعد ان کا بدر آنا ہٹ دھرمی اور کینہ توزی پر مبنی تھا_ حالانکہ واپسی کا متفقہ فیصلہ کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن ابوجہل نے واپسی سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا : '' نہیں ، لات و عزّی کی قسم جب تک ان پر یثرب میں دھا و ابول کر انہیں قید کرکے ( ذلت اور خواری کے ساتھ) مکہ نہیں لے آئیں گے یہاں سے واپس نہیں پلٹیں گے _ تا کہ سارے عرب میں اس بات کا چرچا ہو اور آئندہ کوئی بھی ناپسندیدہ شخص ہمارے اور ہمارے تجارتی راستے کے درمیان رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش نہ کرے''(۲) البتہ

____________________

۱) ملاحظہ ہو : سیرہ نبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۶۹ تا ص ۲۹۸ ، المغازی و اقدی ج ۱ ص ۵۳ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳تا ص ۲۶۴، دلائل النبوة بیہقی ج ۲ ص ۳۲۷ و ص ۳۲۸، السنن الکبری ج ۹ ص ۱۴۷ و ص ۱۴۸ ، زاد المعاد ج۳ ص ۱۷۵، صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۷۰، کشف الاستار ج ۲ ص ۳۱۱ ، طبقات الکبری مطبوعہ صادر ج ۲ ص ۱۵، تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۱۳۲ تا ص ۱۳۴ و ص ۱۴۲ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۲_

۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۵۰ از تفسیر قمی نیز ملاحظہ ہو : المغازی واقدی ج ۱ ص ۷۱_

۲۴۹

جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے اخنس بن شریق کے ایماء پر بنی زہرہ کا قبیلہ وہیں سے واپس پلٹ گیا تھا_

دونوں فوجوں کا پڑاؤ

مشرکین، بدر کے مقام پر پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے مکہ کے راستے پر پڑنے والی'' عدوة القصوی '' نامی وادی میں پڑاؤ کیا جہاں پانی موجود تھااور ان کے پڑاؤ کی جگہ سخت تھی_ قریش کا تجارتی قافلہ بھی مشرکین کی فوج کے پیچھے موجود تھا(۱) ارشاد خداوند ہے ( و الرکب اسفل منکم) _جبکہ مسلمانوں نے مدینہ کی جانب پڑنے والی '' عدوة الدنیا '' نامی وادی میں پڑاؤ کیا جہاں پانی بھی نہیں تھا اور زمین بھی ایسی نرم تھی کہ قدم بھی نہیں جم سکتے تھے _ جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کی جگہ فوجی نقطہ نظر سے نہایت نامناسب تھی _ لیکن خدا نے دشمنوں کے مقابلے میں اپنے بندوں کی مدد اور حمایت کی اور راتوں رات مشرکوں کی جگہ پر بارش برسی تو ان کی جگہ کیچڑ میں تبدیل ہوگئی جبکہ اسی بارش نے مسلمانوں کی جگہ پر برس کر زمین کو سخت اور ٹھوس کردیا تھا اور مسلمانوں نے گڑھوں اور تالابوں میں پانی بھر لیا تھا(۲) _

مسلمانوں کی معنویات اور پروردگار کی عنایات

جب مسلمانوں تک مشرکوں کی کثرت کی خبر پہنچی تو وہ گھبراگئے اور خدا سے دعا اور زاری کرنے لگے_ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے مشرکوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کو دیکھا تو قبلہ رو ہو کر یہ دعا مانگی :'' پروردگار اپنی مدد کا وعدہ پورا کر _ خدایا اگر تونے اپنے ان عزیزوں کو ماردیا تو پھر زمین پر کبھی تیری عبادت نہیں ہوگی''_

____________________

۱) البتہ عنقریب ذکر ہوگا کہ وہ تجارتی قافلہ صحیح سالم بچ کرنکل گیا تھا کیونکہ ابوسفیان اس قافلہ کو مدینہ اور مسلمانوں کے رستے سے دور ساحل سمندر کے راستے سے بچا کر لے گیا تھا_

۲) سیرہ نبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۱ و ص ۲۷۲ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵ ، تاریخ الامم و الملوک مطبوعہ الاستقامہ ج ۲ ص ۱۴۴ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۴، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۲۲، دلائل النبوة بیہقی مطبوعہ دار الکتاب العلمیہ ج ۳ ص ۳۵ و البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۶_

۲۵۰

اس پر یہ آیت نازل ہوئی :

( اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملائکة مردفین و ما جعله الله الا بشری و لتطمئن به قلوبکم ) (۱۰)

'' (اور وہ وقت یا کرو ) جب تم اپنے پروردگار سے گڑ گڑا کر مدد مانگ رہے تھے تو خدا نے بھی تمہاری سن لی اور قطار اندر قطار ایک ہزار فرشتے بھیجے اور خدا نے انہیں صرف خوشخبری دے کر بھیجا تا کہ تمہارے دل مطمئن ہو جائیں''

پس کمزوری اور گھبرا ہٹ محسوس کرکے خدا سے امداد کی درخواست کرنے والے مسلمانوں کی مدد صرف ان کی تسکین خاطر اورروحانی تقویت نیز سرد پڑتے دلوں کو گرمانے کے لئے تھے _ پھر اس کے بعد خدا نے مسلمانوں پر نیند طاری کردی اور وہ سوگئے اور اس کے بعد خدا نے بارش بھیج دی _ اس کا ذکر خدا نے یوں کیاہے( اذ یغشیکم النعاس امنة منه و ینزل علیکم من السماء ماء لیطهرکم به و یذهب عنکم رجز الشیطان و لیربط علی قلوبکم و یثبت به الاقدام ) (۲) _ ترجمہ '' ( یاد کرو اس وقت کو ) جب خدا کی طرف سے تمہیں پر امن نیند نے آلیا اور آسمان سے اس لئے مینہ برسا کہ تمہیں ( اور تمہارے دلوں کو ) صاف ستھرا کردے ، شیطان کے وسوسوں کو نکال باہر کرے ، تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہیں ثابت قدم رکھے''_

جی ہاں اتنے ہولناک خطرے کا سامنا کرنے والے ایسے لوگوں کے لئے اونگھ اور ہلکی نیند بہت ضروری تھی جویہ جانتے تھے کہ ان کے پاس اس خطرے کا سامنا کرنے اور اسے ٹالنے کے لئے کوئی قابل ذکر مادی وسائل نہیں ہیں_ ہاں یہ نیند ان کے لئے ضروری تھی تا کہ ایسی خطرناک رات میں شیطانی وسوسے ان پر غلبہ نہ پالیں جس میں چھوٹی چیزیں بھی بڑی اور موٹی نظر آتی ہیں_ اور اگر وہ چیز خود طبیعی طور پر بڑی ہو تو پھر

____________________

۱) انفال : ۹و ۱۰_

۲) ص : ۱۱_

۲۵۱

کیا حال ہوگا؟ _ یہ نیند اس لئے بھی ضروری تھی کہ انہیں اطمینان اور سکون کی ضرورت تھی '' امنة '' _ نیز اسی امن و سکون اور ایمان کے ذریعہ ان کے دلوں کو مضبوط کرنے کی بھی ضرورت تھی تا کہ خطرے کا سامنا کرتے وقت وہ کمزوری نہ دکھائیں اور کمزوری ، تاثیر پذیری اور گھبرا ہٹ کی بجائے عقل سے کام لیں اور غور و فکر کے ساتھ کوئی کام کریں اور موقف اپنائیں_ اسی نیند اور بارش کے ذریعہ سے خدا نے ان کے دلوں کو مضبوط اور طاقتور بنادیا _ حتی کہ وہ ان باتوں سے یہ جان کر مطمئن ہوگئے کہ ان پر خدا کی نظر کرم ہے اور خدا کی الطاف و عنایات ان کے شامل حال ہیں_ جس کے بعد انہیں کمر شکن حادثات اور دشمن کی صف شکن کثیر تعداد کی بھی کوئی پرواہ نہ رہی _ جبکہ اس کے بدلے میں خدا نے کافروں کے دلوں میں رعب اور خوف طاری کر دیا تھا_ اس کی طرف انشاء اللہ بعد میں اشارہ کریں گے_

یہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدا نے سورہ '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''جیسی مکی سورتوں میں ، اپنے انبیاء کے خلاف گروہ بندی کر کے محاذ آرائی کرنے والوں اور ثمود اور فرعون کے ذکر کے بعد یہ خبر دے دی تھی اور پیشین گوئی کر دی تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسے حادثات و واقعات پیش آئیں گے جو ان گروہوں کے ساتھ پیش آئے تھے_ بعض کے بقول آیت (جند ما ہنالک مہزوم من الاحزاب )(۱) _ترجمہ '' یہاں کئی ایسے لشکر بھی ہیں جو چھوٹے گروہوں سے شکست کھانے والے ہیں'' _ واقعہ بدر کے متعلق ہے_

اس جنگ کے مقاصد

یہاں پر سب سے اہم اور قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہاں خود صراحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ یہ جنگ ایک فیصلہ کن جنگ ہے _ اور اس کا مقصد بھی خدا کی عبادت کے لئے آزادی کا حصول تھا _ اس جنگ سے نہ ذات کی پرستش مقصود تھی ، نہ مال ، نہ کوئی امتیاز ، نہ مقام ، نہ حکومت اور نہ ہی کوئی اور چیز _ یعنی خدا کی عبادت میں آزادی کے حصول کے علاوہ اس جنگ کا کوئی اور مقصد نہیں تھا _

____________________

۱) ص : ۱۱ _

۲۵۲

خاص طور پر جب قریش کو یہ احساس بھی ہوگیا تھا کہ وہ اقتصادی اور نفسیاتی طور پر تنگی ، ذلت اور کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ شام اور دیگر علاقوں تک جانے والے ان کے تجارتی قافلوں کے راستے اتنے پر خطر ہوگئے ہیں کہ قریشیوں کے ارادے پست کر سکتے ہیں بلکہ ان کے وجود کو بھی متزلزل کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمزور موقف اپنا نے پر بھی مجبور ہو جائیں گے _ ( اس صورت میں مسلمان ان اہداف کی خاطر بھی لڑسکتے تھے لیکن ان کا مقصد ان چھوٹی چیزوں سے کہیں بلند و بالا تھا)_ جبکہ مشرکوں نے بھی اپنا موقف واضح کردیا تھا _ اور یہ بتادیا تھا کہ اس جنگ سے ان کا مقصد عربوں پر اپنی دھاک بٹھانا اور اپنے اور تجارتی راستے کے درمیان کسی ناپسندیدہ شخص کو حائل ہونے سے روکنا تھا _ فریقین کے اہداف نیز ہر ایک کی بہ نسبت جنگ کے نتائج میں بھی زمین اور آسمان کا فرق تھا _ جس پر انشاء اللہ بعد میں گفتگو کریں گے_

صف آرائی

جب صبح ہوئی تو حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنے اصحاب کی صفوں کو منظم کیا _ اس دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا علم مبارک امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں تھا(۱) _ اور عنقریب غزوہ احد میں ہم یہ بھی انشاء اللہ ثابت کریں گے کہ جنگ بدر بلکہ ہر موقع پر حضرت علی علیہ السلام ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علمدار تھے(۲) _ پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ جنگ بدر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک سے زیادہ علم تھے کہ مصعب بن عمیر یا حباب بن منذر کے پاس بھی ایک علم تھا ، یہ صحیح نہیں ہے _ مگر یہ کہا جائے کہ مہاجرین کا پرچم مصعب کے پاس اور انصار کا پرچم

____________________

۱) المناقب خوارزمی ص ۱۰۲، الآحاد و المثانی ابن ابی عاصم النبیل کو پلی لائبریری میں خطی نسخہ نمبر ۲۳۵ ، مسند الکلابی در انتہاء المناقب ابن مغازلی ص ۴۳۴ ، خود المناقب ابن مغازلی ص ۳۶۶، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۳ ص ۳۳ و ص ۳۴ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۱ ، اس کے حاشیہ پر تلخیص مستدرک ذہبی ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۲۵ ، منقول از شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید طبع اولی ج ۲ ص ۱۰۲ ، جمہرة الخطب ج ۱ ص ۴۲۸، الاغانی مطبوعہ دار الکتب ج ۴ ص ۱۷۵ وتاریخ طبری مطبوعہ دار المعارف ج ۲ ص ۴۳۰_

۲) زندگانی امام امیر المؤمنینعليه‌السلام از تاریخ ابن عسا کر با تحقیق محمودی ج ۱ ص ۱۴۵ ، ذخائر العقبی ص ۷۵ از احمددر المناقب ، طبقات ابن سعد ج ۳حصہ اول ص ۱۴ ، کفایت الطالب ص ۳۳۶ ، اسی کے حاشیہ میں از کنز العمال ج ۶ ص ۳۹۸ از طبرانی و الریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۰۲ نیز اسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بات کو نظام الملک نے اپنی کتاب امالی میں ذکر کیا ہے_

۲۵۳

حباب کے پاس تھا یا اس طرح کی کوئی اور بات کہی جائے تو اور بات ہے وگرنہ اختلاف کو دور کرنے کی غرض سے پرچم (رایة ) اور علم ( لوائ) میں فرق بیان کرنے کی ان کی کوشش بھی ایک بے سود اور ناکام کوشش ہے _ کیونکہ دونوں چیزوں کے متعلق روایات ملتی ہیں کہ یہ دونوں چیزیں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ خاص تھیں _ جس طرح کہ مندرجہ ذیل حاشیوں میں مذکور دستاویزات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے(۱) _ نیز مزید وضاحت انشاء اللہ واقعہ جنگ احد کے بیان میں ہوجائے گی_

مزید یہ کہ ابن سعد اور ابن اسحاق نے یہ ذکر کیا ہے کہ پرچم ( رایة) واقعہ بدر کے بعد اور جنگ خیبر کے دوران بنایا گیا(۲) _ یہ تو اس صورت میں ہے کہ ہم علم ( لوائ) اور پرچم ( رایة) کے درمیان کسی فرق کے قائل ہوں وگرنہ بعض اہل لغت کے مطابق یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے مترادف ہیں(۳) _

طوفان سے قبل آرام

حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے صحابہ کی صفین منظم کرنے کے بعد ان سے فرمایا ، '' نگاہیں نیچی کرلو ، لڑائی میں پہل مت کرو اور کسی سے بھی بات مت کرو ''(۴) _مسلمانوں نے بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کی تعمیل میں خاموشی اختیار کر لی اور نگاہیں نیچی کرلیں_ اس صورتحال نے قریشیوں پر اپنا واضح اثر دکھا یا حتی کہ جب ان کا ایک آدمی کسی گھات و غیرہ کی تلاش میں اپنے گھوڑے پر سوار مسلمانوں کے لشکر کا چکر لگا کر اپنی فوج کی طرف واپس پلٹا تو اس نے وہاں جاکر کہا : '' ان کے لشکر کے کسی بھی جگہ اور حصہ سے گھات یا کسی مدد و غیرہ کی کوئی امید نہیں ہے _ لیکن یثرب ( مدینہ ) کے جنگجو دردناک اور اچانک موت ساتھ لائے ہیں _ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ وہ ایسے گونگے ہوگئے ہیں کہ کچھ بھی نہیں بول رہے؟اور ادہوں کی طرح پھنکار رہے ہیں _ ان کی

____________________

۱) ملاحظہ ہوں پچھلے دو حاشیوں میں مذکور منابع_

۲) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۷_

۳،۴) سیرہ حلبیہ ج ص ۱۴۷ و ص ۱۴۸_

۲۵۴

پناہ گاہیں صرف ان کی تلواریں ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ پیچھے نہیں ہٹیں گے بلکہ مارے جائیں گے اور کم از کم اپنی تعداد جتنا افراد مارکر ہی مریں گے''_ اس پر ابوجہل نے اسے برابھلا کہا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس بات سے اس کے ساتھیوں میں خوف کی لہر دوڑ رہی تھی _

پھر ابوجہل نے مسلمانوں کی قلیل تعداد کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کہا : '' وہ تو گنتی کے چند آدمی ہیں ، اگر ہم اپنے غلاموں کو ان کی طرف روانہ کردیں تو وہ بھی انہیں ہاتھ سے پکڑ کرلے آئیں گے_''

اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشرکین کی طرف اپنے ایک آدمی کے ذریعہ یہ پیغام بھیجا کہ'' اے قریشیو میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا _ مجھے تم عربوں کے حوالے کر کے واپس چلے جاؤ_اگر میں سچا ہوا تو میری بڑائی اور بلندی تمہاری ہی بلندی اور عظمت ہے لیکن اگر میں جھوٹا ہوا تو عرب کے درندے میرا کام تمام کرکے تمہارا مقصد پورا کردیں گے _'' یہاں پر مؤرخین کے بقول عتبہ بن ربیعہ نے مشرکوں سے اس بات کو قبول کرنے پر زور اصرار کیا لیکن ابوجہل نے اس پر بزدلی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ( حضرت ) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ کر اس کا پتا پانی ہوگیا ہے _ اور اسے (حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ شامل ہونے والے اپنے بیٹے ابوحذیفہ کی جان کا خطرہ لا حق ہوگیا ہے _ جب عتبہ تک ابوجہل کی یہ بات پہنچی تو وہ غصہ سے آگ بگولہ ہوگیا اورکہا : '' ابھی اس چوتیے(۱) کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کا پتا پانی ہوا ہے میرا یا اس کا ؟ '' _ اس بات سے اس کی غیرت کی رگ بھی پھڑکی اور اس نے اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کے ساتھ زرہ پہنی اور وہ رن میں جاکر حریف طلب کرنے لگے_

یہاں پر ہم مندرجہ ذیل نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:_

____________________

۱) ان الفاظ سے لگتا یہی ہے کہ اس نے ابوجہل کو مفعول ہونے کی گالی دی تھی، کیونکہ انصار بھی اسے اسی نام سے پکارتے تھے_ ملاحظہ ہو: مجمع الامثال ج۱ ص ۲۵۱ ضرب المثل ''اخنث من مصفر استہ'' ، البرصان والعرجان ص ۱۰۲ و ص ۱۰۳ متن و حاشیہ ، الغدیر ج ۸ ص ۲۵۱ از الصواعق المحرقہ ابن حجر ص ۱۰۸ ازدمیری در حیاة الحیوان نیز الدرة الفاخرہ فی الامثال السائرہ ج۱ ص ۱۸۸_

۲۵۵

الف: مشرکین کے خوف کی وجوہات:

مشرکین کو اس بات کا پورا پورا علم تھا کہ مسلمان جنگ کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں_ اور اپنے دین اور عقیدے کی راہ میں کم از کم اپنی تعداد جتنے آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد سب کے سب مرنے کے لئے بالکل تیار ہیں_ اور اسی بات نے مشرکوں کے دل میں رن کی دھاک بٹھادی کیونکہ وہ تو اپنے خیال میں اس دنیا میں بقاء اور دنیاوی لذتوں اور فائدوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے یہ جنگ لڑ رہے تھے_ اس صورتحال میں مسلمانوں کا غیض و غضب کی شدت سے سکوت بھی ان کے خوف کی فضا میں اضافے کا باعث بنا اور مشرکوں کے دلوں میں ان کا خوف اور رعب مزید بیٹھ گیا _ اور ابھی ان کی سرگردانی اور حیرت میں مزید اضافہ ہونا تھا کیونکہ کچھ دیر بعد شروع ہونے والی جنگ کی صورتحال اور مد مقابل کی چالوں سے وہ لا علم تھے اور انہیں کوئی ایسا اشارہ بھی نہیں مل رہا تھا جو انہیں جنگ کی صورتحال ، مد مقابل کی چالوں اور جنگ کے اثرات اور نتائج کی طرف رہنمائی کرتا_

اور مسلمانوں کے متعلق ابوجہل کا یہ کہنا کہ یہ تو گنتی کے چند آدمی ہیں، یہ مسلمانوں سے مشرکوں کے مرعوب نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا _ کیونکہ اس نے یہ بات صرف اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کی تھی _ کیونکہ اس نے جنگ کے متعلق اپنے ساتھیوں کی تردید اور بزدلی کا خاص طور پر مشاہدہ کیا تھا_ یہاں یہ اضافہ بھی ضرور کرتے چلیں کہ خداوند عالم نے بھی جنگ کے بعض مراحل میں مسلمانوں کی نظر میں مشرکوں کو اور مشرکوں کی نظر میں مسلمانوں کو کم تعداد میں دکھلایا تا کہ وہ آپس میں ضرور لڑیں اور خدا کا فیصلہ پورا ہو کر رہے_ اس بارے میں مزید گفتگو اس فصل کے اواخر میں ہوگی_

ب : مشرکین کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی پیشکش پر ایک نگاہ :

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشرکوں کے ساتھ ان کے نقطہ نظر ، طرز تفکر ، مفاد اور ان کی نفسیات کے مطابق بات کرنے کی کوشش کی _نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ باتیں ان کے اس مفاد کے بھی مطابق تھیں جس کے تحفظ کے لئے (وہ

۲۵۶

اپنے ہی دعوے کے مطابق) یہاں لڑنے آئے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ جملہ '' اگر میں سچا ہوا تو میری وجہ سے تمہاری ہی شان بڑھے گی '' ان مشرکوں کی حب جاہ سے بالکل میل کھاتا ہے _ کیونکہ ان کی طاقت اور سرکشی کی وجہ سے ان کے اوپر سرداری اور حکومت کا بھوت اس حد تک سوار ہوگیا تھا کہ ان کے نسلی اور قبائلی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوگیا تھا اور وہ اس کی خاطر اپنے باپ اور بیٹوں سے بھی لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے تھے_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ان سے یہ فرمانا کہ '' اگر میں جھوٹا ہوا تو عرب کے درندے میرا کام تمام کرکے تمہارا مقصد پورا کردیں گے''_ یہ بات بھی ان کی زندگی کے ساتھ محبت اور مالی مفاد سے میل کھاتی ہے _ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان و شوکت کے اعتراف کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کئے بنا ان کے واپس پلٹنے کا بھرم بھی رکھتی ہے اور اس بات سے وہ اپنی پسپائی کی تاویل اور توجیہ کرکے اپنی آبرو بھی بچا سکتے تھے_ لیکن قریش کی سرکشی اور تکبر اس بہترین ، منطقی اور قیمتی مشورے کو ماننے سے مانع ہوئی اور وہ اپنے جھوٹے تکبر اور احمقانہ اور بے باکانہ ڈینگوں کے سبب جنگ کرنے اور اس کے ہولناک نتائج بھگتنے پر بضد رہے_

ج: رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جنگ کی ابتداء نہیں کرنا چاہتے_

یہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بھی جنگ کی ابتداء نہیں کرتے اور مسلمانوں کو بھی حکم دیتے ہیں کہ جنگ شروع نہ کریں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقابل کو اس مخمصے سے آبرومندانہ طریقے سے نکلنے کا ایک موقع دینا چاہتے تھے _

لیکن اگر وہ اس پیشکش کو ٹھکرا دیتے اور اپنی ہٹ دھرمی اور سرکشی سے مسلمانوں پر چڑھائی پر بضد رہتے تو پھر مسلمان بھی اپنا دفاع کرنے اور حملہ آور کی چالوں کا جواب دینے کا حق رکھتے تھے ، چاہے وہ حملہ آور کوئی بھی ہو اور جیسا بھی ہو_

حضرت علی علیہ السلام کا بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی دشمنوں کے ساتھ یہی رویہ رہا_ بلکہ یہ تو( رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی اتباع کرنے والے ائمہ ہدی کی پیروی میں )شیعیان علیعليه‌السلام کی رسم

۲۵۷

اور ان کا خاصہ ہے _ اس پر مزید گفتگو جنگ بدر کی گفتگو کے بعد ''سیرت سے متعلق کچھ ابحاث '' کے فصل کے ذیل میں دیگر بحثوں کے ساتھ ساتھ انشاء اللہ شیعوں کی خصوصیات کی بحث میں ہوگی _ البتہ اس کے کئی اشارے ذکر بھی ہوچکے ہیں_

نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سائبان تلے؟

مؤرخین کے بقول بدر میں صحابہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کھجور کی چھڑیوں سے ایک چھولدار ی تیار کی جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ صرف جناب ابوبکر تھے اور کوئی بھی نہیں تھا_ مؤرخین یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات سے بھی اتفاق کیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ چند تازہ دم اصیل گھوڑے تیار رہیںتا کہ اگر جنگ میں کامیابی ہوئی تو ٹھیک و گرنہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ میں اپنے دیگر صحابیوںسے ملحق ہوجائیںگے(۱) _

لیکن یہ بات کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے _ کیونکہ معتزلی کے بقول : '' وہ چھولداری کی بات تو نہایت حیرت انگیز ہے _ چھولداری بنانے کے لئے ان کے پاس کھجور کی چھڑیوں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آگئی تھی ؟ حالانکہ بدر میں تو کھجور کے درخت نہیں تھے_ اور ان کے پاس جو تھوڑی بہت چھڑیاں تھیں بھی تو وہ ان کے لئے ہتھیاروں کا کام دے رہی تھیں_ کیونکہ منقول ہے کہ سات صحابیوں کے ہاتھ میں تلوار کی جگہ چھڑیاں تھیں جبکہ باقی صحابی تلواروں ، تیروں اور بھالوں سے مسلح تھے _ البتہ یہ نادر نظریہ ہے کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ تمام افراد ہتھیاروں سے مسلح تھے _ ہوسکتا ہے کہ چند چھڑیاں بھی ساتھ ہوں اور ان پر کوئی کپڑا و غیرہ ڈال کر کوئی سایہ بنایا گیا ہو و گرنہ یہاں کھجور کی چھڑیوں سے چھپر بنانے کی کوئی معقول وجہ نظر میں آتی ''(۲) لیکن ہم کہتے ہیں کہ :

الف : معتزلی کی یہ بات کہ تمام مہاجرین کے پاس اسلحہ تھا یہ ناقابل قبول ہے _ اس لئے کہ گذشتہ

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۲۲ و ص ۲۷۹ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۴۹ و ص ۵۵ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۲ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۴ ص ۱۱۸ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۵ _۱۵۶ و ص ۱۶۱ و دیگر کثیر مآخذ

۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج ۴ ص ۱۱۸

۲۵۸

دستاویزات میں ان کے اسلحہ کی تعداد مذکور ہوچکی ہے اور ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو معتزلی کی بات کی تائید کرتی ہو _ بلکہ لگتا یہی ہے کہ تھوڑے افراد ایسے تھے جو تیرکمانوں سے مسلح تھے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے یہ فرمایا تھا کہ جب مشرکین نزدیک پہنچیں تب ان پر تیراندازی کرو _ شاید بعض کے پاس نیزے ، بعض کے پاس لاٹھیاں اور بعض کے پاس تلوار یا خنجر تھے اور کچھ لوگوں کے پاس کھجور کی خشک چھڑیاں بھی تھیں جن سے وہ اپنا بچاؤ کرتے تھے اور موقع پانے کی صورت میں دشمن پر حملہ بھی کر سکتے تھے _

ب: اس کا آخری نتیجہ بھی بے جاہے _ کیونکہ جن چھڑیوں پر کپڑا و غیرہ ڈال کرسائبان و غیرہ بنایا جاتا ہے انہیں خیمہ کہا جاتا ہے چھپر نہیں _ بلکہ بعض کی رائے میں تو اسے خیمہ بھی نہیں کہتے _ اسی طرح معتزلی کا ان لوگوں کی اور ان کے تلواروں کی تعداد کے متعلق نظریہ بھی گذشتہ باتوں کے سبب مشکوک ہوجاتا ہے _

البتہ بنیادی طور پر ہم بھی اس مزعومہ سائبان کے وجود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس میں بیٹھنے اور شکست کی صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرار کے انکاری ہیں لیکن ہمارے پاس مندرجہ ذیل دلائل ہیں :

ایک : نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم جنگ کے کٹھن لمحات میں فرار کرنے والے تھے ہی نہیں _

دو : مختلف مؤرخین سے منقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ دعا'' اللهم ان تهلک هذه العصابة لا تعبد '' ( خدایا اگر تو نے اپنے ان عزیزوں کو ماردیا تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا )

بھی اس دعوے کو جھٹلاتی ہے کہ اس جنگ میں مشرکوں کی کامیابی کی صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر فرار کا ارادہ رکھتے تھے _ کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پلٹ جانے کی صورت میں بھی کرہ ارض پر خدا کی عبادت نہیں ہوسکتی تھی ( اس لئے کے بعد والی شق کے مطابق وہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والوں کا پیچھا کرتے اور جان لئے بغیر دم نہ لیتے ) _ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ بات فرما کر پھر یہ کام کیوں کرتے ؟

تین : اگر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر میں ( نعوذ با للہ ) شکست کھا جاتے توبھی مشرکین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی جان بچا کر کہیں جا کر پھر سے فوج اکٹھا کرنے کا موقع نہیں دیتے _ بلکہ وہ مدینہ پر ہی چڑھائی کر کے اس میں اپنے لئے مشکلات کھڑی کرنے والوں کو سرے سے ہی نابود کردیتے _ اس لئے کہ وہ اب مدینہ کے قریب بھی

۲۵۹

آئے ہوئے تھے ، کامیابی و کامرانی کامزہ بھی چکھ چکے ہوتے تھے اور ان کے پاس تعداد اور تیاری کے لحاظ سے ایک آئیڈیل اور قابل رشک فوج بھی موجود تھی_

چار : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چھپر کے نیچے محافظ کے ساتھ کیسے جاکر بیٹھ سکتے تھے؟ حالانکہ انہی مؤرخین کے بقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر خواب میں اپنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تلوار سونت کر یہ آیت پڑھتے ہوئے مشرکوں کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھا تھا (سیهزم الجمع و یولون الدبر ) ترجمہ : '' عنقریب ان کی فوج تتر بتر ہوکر پسپائی اختیار کرے گی ''(۱) _ وہ تویہ بھی کہتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنفس نفیس جنگ بدر میں شرکت کرکے سخت لڑائی لڑی تھی(۲) اور یہ بات بھی جنگ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت پر دلالت کرتی ہے کہ کچھ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے،ایک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دائیں ، ایک بائیں ، ایک آگے اور ایک پیچھے تھا(۳) _اور حضرت علی علیہ السلام کی زبانی بھی منقول ہے کہ '' جنگ بدر کے موقع پر ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ مشرکین سے اپنا بچاؤ کرتے تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے زیادہ دلیر شخصیت تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سب سے آگے آگے تھے''(۴)

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب ابوبکر اس وقت کہاں تھے؟ کیا رن میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ تھے؟ یا پھر جا حظ کے عنقریب ذکر ہونے والے دعوے کے مطابق وہ قائد ، سردار اور رہنما کا کردار ادا کرنے کے لئے اکیلے چھو لداری میں بیٹھ گئے تھے؟ واقعہ بدرکے بعد ایک فصل میں جناب ابوبکر کی بہادری اور چھولداری میں اس کے بیٹھنے کا ذکر آئے گا _ انشاء اللہ تعالی _

پانچ : جب مسلمانوں کے پاس صرف مقداد کے گھوڑے کے سوا کوئی اور گھوڑا تھا ہی نہیں تو پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ( نعوذ باللہ) فرار کے لئے تیار کئی اصیل گھوڑے کہاں سے آگئے تھے؟ اور یہ گھوڑے دین اور مسلمانوں سے دفاع کے لئے جنگ میں کیوں کام نہ آئے؟ حالانکہ وہاں ان کی اشد ضرورت تھی_

____________________

۱) تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۷۲_ (۲) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۳ و ص ۱۶۷ لیکن اس نے مذکورہ بات کی خلاف واقع توجیہ کی ہے کیونکہ اس نے کہا ہے کہ یہاں جہاد کا مطلب دعا ہے _ یہ سب باتیں چھپر والی حدیث کو صحیح ثابت کرنے کی کوششیں ہیں_

۳) المغازی واقدی ج ۱ ص ۷۸_

۴) ملاحظہ ہو : تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۳۵، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۳، البدایہ و النہایہ ج ۶ ص ۳۷ و حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۶۷۷ از احمد و بیہقی_

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460