الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)17%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242134 / ڈاؤنلوڈ: 6991
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

نکتہ:

حضرت علیعليه‌السلام سے منقول گذشتہ روایت کو اگر صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی اس کی یہ توجیہ کرنی ہوگی کہ آپعليه‌السلام اپنے بارے میں نہیں بلکہ دوسروں کے متعلق مذکورہ جملہ ارشاد فرما رہے ہیں(۱) کیونکہ حضرت علی علیہ السلام نہ مشرکوں سے ڈرنے والے تھے اور نہ ہی انہیں اپنی حفاظت کے لئے کسی پناہ گاہ کی ضرورت تھی _ انہیں جائے پناہ کی ضرورت کیونکر ہو سکتی تھی جبکہ بدر کے آدھے سے زیادہ مقتولین کو انہوں نے اکیلے ہی قتل کیا تھا اور باقی نصف کے قتل میں بھی شریک تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مذکورہ بات کی مثال ایسے سے جیسے کوئی یہ کہے کہ ہمارے شہر میں یہ چیز کھائی جاتی ہے ، یہ پہنی جاتی ہے یا ہم اس شہر میں فلاں چیز بناتے ہیں_ حالانکہ ہو سکتا ہے اس شخص نے کبھی بھی وہ چیز نہ کھائی ہو ، و ہ لباس نہ پہنا ہو یا وہ چیز نہ بنائی ہو_

جنگ کی ابتدائ:

جنگ کی ابتداء عتبہ ، شیبہ اور ولید نے دوبدو لڑائی کے لئے حریف طلب کرنے کے ساتھ کی ، جن کے جواب میں ادھر سے تین انصاری نکلے، لیکن انہوں نے ان سے کہا کہ تم لوگ واپس چلے جاؤ، ہم تم سے لڑنے نہیں آئے ہم تو قریش سے اپنا ہم پلہ حریف طلب کر رہے ہیں_ ان کی اس بات پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے انہیں واپس بلا لیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کی ابتداء اپنے رشتہ داروں سے کی کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار سے اس جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتے تھے(۲) _اور یہ کہہ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ بن حارث کو پکارا:'' عبیدہ چچا جان علیعليه‌السلام اٹھو اور ان سے اپنے اس حق کا مطالبہ کرو جسے خدا نے تمہارے لئے قرار دیا ہے ...''_

جب وہ رن میں گئے تو عتبہ نے ان سے حسب و نسب کے متعلق پوچھا تو سب نے اپنا تعارف کرایا اور شیبہ نے جناب حمزہ سے اس کا حسب نسب پوچھا تو اس نے کہا :'' میں عبدالمطلب کا سپوت اور خدا اور اس

____________________

۱) البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور بے جگری سے لڑائی کے بیان میں مبالغہ آرائی کی ہو کہ علیعليه‌السلام جیسا نڈر شیر بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پناہ ڈھونڈھ رہا تھا_ اس کی اردو میں مثال میرا نیس کا یہ مصرع ہے انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں (بلکہ پوری نظم)_

۲) تفسیر قمی ج ۱ ص ۶۶۴، بحار الانور ج ۱۹ ص ۳۱۳ و ص ۳۵۳ و سعد السعود ص ۱۰۲ _

۲۶۱

کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیر حمزہ ہوں'' _ اس پر شیبہ نے کہا: '' اے خدا کے شیر اب تمہارا سامنا حلفاء(۱) کے شیر سے ہے اب دیکھتے ہیں تم میں کتنا دم خم ہے''_

بہرحال ،حضرت علی علیہ السلام جب ولید کو قتل کرکے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ جناب حمزہ اور شیبہ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہیں اور دونوں کے ہاتھوں میں اپنی اپنی ٹوٹی ہوئی تلوار ہے _ یہ منظر دیکھ کر حضرت علیعليه‌السلام نے جناب حمزہ سے فرمایا:'' چچا جان اپنا سر نیچے کیجئے '' _ اور چونکہ جناب حمزہ طویل القامت تھے اس لئے انہیں اپنا سر شیبہ کے سینے میں گھسانا پڑا ، تو حضرت علیعليه‌السلام نے شیبہ کے سر پر تلوار کا ایسا زور دار وار کیا کہ اس کا آدھا حصہ ( بھیجا) اڑکر دور جاگرا _ ادھر عتبہ نے عبیدہ کی ٹانگ کاٹ دی تھی اور عبیدہ نے بھی اس کا سر پھوڑا ہوا تھا پھر حضرت علیعليه‌السلام نے آکر اس کا کام بھی تمام کردیا _ یوں حضرت علیعليه‌السلام تینوں کے قتل میں شریک ہوئے تھے_(۲) اور کتاب '' المقنع '' میں ہندہ جگر خوارہ کے مندرجہ ذیل اشعار بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام تینوں کے قتل میں حصہ دار تھے:_

ما کان لی عن عتبة من صبر

ابی ، و عمی و شقیق صدری

اخی الذی کان کضوء البدر

بهم کسرت یا علیعليه‌السلام ظهری(۳)

عتبہ کی جدائی پر مجھ سے صبر نہیں ہوسکتا _ اے علیعليه‌السلام تونے میرے باپ، چچا اور میرے جگر کے ٹکڑے اور چاند سے بھائی کو مار کرمیری کمر توڑ دی ہے_

____________________

۱) یہ زمانہ جاہلیت کے اس عہد کی طرف اشارہ ہے جس میں قریش کے چند خاندانوں اور قبیلوں نے خون میں ہاتھ رنگ کر ایک دوسرے کی مدد اور حمایت کا اعلان اور عہد کیا تھا_ اسے حلف لعقة دم کہا جاتا تھا ، معاہدے کے فریقوں کو حلیف اور سب کو حلفاء یا احلاف کہا جاتا تھا _ حضرت علیعليه‌السلام نے بھی نہج البلاغہ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے _مترجم_ (۲) ملاحظہ ہو : المناقب ج ۳ ص ۱۱۹ از الاغانی و غیرہ ..._

۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۳ ص ۲۸۳ ب، العثمانیہ ، قسم نقوض الاسکا فی ص ۴۳۲ ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۹۲ و المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۱_

۲۶۲

اسی طرح سید حمیری مرحوم نے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ثنامیں مندرجہ ذیل شعر کہے ہیں:_

و له ببدر وقعة مشهوره

کانت علی اهل الشقاء دماراً

فا ذاق شیبة و الولید منیة

اذ صبحاه جحفلاً جراراً

و اذاق عتبة مثلها اهوی لها

عضباً صقیلاً مرهفاً تیاراً(۱)

حضرت علی علیہ السلام نے بدر میں مشہور و معروف کارنامہ سرانجام دیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دن ان بدبختوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا _ جب دن کو بہت بڑے لشکر سے آپعليه‌السلام کا سامنا ہوا تو آپعليه‌السلام نے شیبہ اور ولید اور اسی طرح عتبہ کو بھی اپنی تیز ، آبدار اور کاٹ دار تلوار سے موت کا جام پلایا_ نیز حسان بن ثابت کے اشعار کے جواب میں قبیلہ بنی عامرکے کسی شخص نے مندرجہ ذیل اشعار کہے جو ہمارے مدعا کی تائید کرتے ہیں:_

ببدر خرجتم للبراز فردکم

شیوخ قریش جهرة و تاخروا

فلما اتاهم حمزة و عبیدة

و جاء علی بالمهند یخطر

فقالوا نعم اکفاء صدق فاقبلوا

الیها سراعاً اذ بغوا و تجبروا

فجال علی جولة ها شمیة

فدمرهم لما بغو ا و تکبروا(۲)

بدر میں تم لوگ لڑنے نکلے تو قریش کے سرداروں نے کھلم کھلاتمہیں واپس پلٹا دیا اور تم سے جنگ گوارا نہیں کیا اور دوسرے جنگجوؤں کے منتظر ہوئے_ پھر جب حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ

____________________

۱) دیوان سید حمیری ص ۲۱۵ و الماقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۲_ (۲) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۹ و بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۹۱_

۲۶۳

کاٹ کار تلواریں لہراتے ہوئے نکلے تو انہوں نے مطمئن ہو کر کہا کہ ہاں یہ بالکل ہمارے ہم پلّہ ہیں_ اور جب انہوں نے تکبّر کےساتھ انہیں للکارا تو وہ جلدی سے جنگ میں کود پڑے اور جب انہوں نے تکبر اور سرکشی دکھانی شروع کردی تو حضرت علیعليه‌السلام کا ہاشمی خون جوش میں آیا اور انہوں نے اُن سب کونیست و نابود کر کے رکھ دیا_

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ کو ایک خط میں لکھا:''بالکل میں ہی ابوالحسن تمہارے دادا عتبہ ، چچا شیبہ ، ماموں ولید اور بھائی حنظلہ کا قاتل ہوں _ ان کا خون خدا نے ہی میرے ہاتھوں بہا یا تھا _ اب بھی میرے پاس وہی تلوار ہے اور میں نے اسی رعب و دبدبے اور جوش سے اپنے دشمنوں کو پچھاڑ اتھا''(۱) _

تینوں جنگجوؤں کے قتل کے بعد

اس کے بعد حضرت علیعليه‌السلام اور حضرت حمزہ جناب عبیدہ بن حارث کو اٹھا کر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں لے آئے تو اس نے آنسو بہاتے ہوئے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیا میں شہید نہیں ہوں؟'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''بالکل تم تو میرے اہل بیت کے سب سے پہلے شہید ہو''_ ( یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عنقریب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت سے شہیدوں کا تانتا بندھ جائے گا _ اور ہوا بھی یہی) _ پھر اس نے کہا : '' اگر اس وقت آپعليه‌السلام کے چچا بزرگوار زندہ ہوتے اور اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا دیکھتے تو یہ جان لیتے کہ ہم ان کی باتوں سے بہر حال بہترہیں''_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا :'' تم کس چچا کی بات کر رہے ہو ؟ ''_ اس نے کہا :'' ابوطالب کی ، کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ :

کذبتم و بیت الله یبزی محمد

و لما نطا عن دونه و نناظل

و نسلمه حتی نصرع دونه

و نذهل عن ابنائنا و الحلائل

____________________

۱) الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۴۳۵ ، شرح نہج البلاغہ محمد عبدہ ج ۳ ص ۱۳ و الغدیر ج ۱۰ ص ۱۵۱_

۲۶۴

(قریشیو) خدا کی قسم تم یہ جھوٹ کہتے ہو کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک تر لقمہ ہے _ کیونکہ ہم اس کی حمایت میں تیروں تلواروں اور نیزوں سے تم سے سخت جنگ کریں گے اور اپنے بیوی ، بچوں کو بھی اس پر قربان کردیں گے اور تم ہماری لاشوں سے گذر کر ہی اس تک پہنچ سکوگے ( یعنی وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت ابوطالب نے صرف باتیں کی تھیں لیکن ہم عمل کرکے دکھا رہے ہیں _ از مترجم )''_ اس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا :'' کیاتم یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس کا ایک بیٹا خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں کے سامنے بپھرے ہوئے شیر کی طرح چوکس کھڑا ہے اور دوسرا بیٹا حبشہ کی سرزمین میں خدا کی راہ میں جہاد میں مصروف ہے؟ '' _ اس نے عرض کیا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حالت میں بھی مجھے ڈانٹ رہے ہیں؟ '' _ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' میں تم پر ناراض نہیں ہو الیکن تم نے میرے پیارے چچا کا نام لیا تو مجھے اس کی یاد ستانے لگی ''(۱) _

اس روایت کے آخری حصے کو چھوڑ کر بہت سے مؤرخین نے اس روایت کو نقل کیا ہے _ مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ آیت ان چھ مذکورہ افراد کے بارے میں نازل ہوئی( هذان خصمان اختصموا فی ربهم فالذین کفروا قطعت لهم ثیاب من نار ) ترجمہ : '' یہ دونوں متحارب (گروہ ) اپنے اپنے رب کی خاطر لڑ رہے تھے اور کافروں کے لئے جہنم کی آگ کے کپڑے تیار ہو چکے ہیں''_ اور بخاری میں مذکور ہے کہ ابوذر قسم اٹھا کر کہتا تھا کہ یہ آیت انہی مذکورہ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۲) _نیز حضرت علیعليه‌السلام ،جناب حمزہ اور عبیدہ کے بارے میں یہ آیت بھی نازل ہوئی( من المومنین رجال صدقوا

____________________

۱) تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۶۵، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۵۵ البتہ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۸۰ میں ہے کہ اس دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے عبیدہ اور ابوطالبعليه‌السلام دونوں کے لئے مغفرت طلب فرمائی _ نیز الغدیر ج ۷ ص ۳۱۶ _ لیکن نسب قریش مصعب زبیری ص ۹۴ میں یوں آیا ہے کہ عبیدہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا : '' یا رسول اللہ کاش ابوطالب آج زندہ ہوتے تو اپنے ان اشعار کا مصداق اور تعبیر دیکھ لیتے ...''_ بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ عبیدہ کے ادب اور اخلاص سے یہی بات زیادہ سازگار ہے _ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ گذشتہ بات بھی اس کے ادب اور خلوص کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دین کی راہ میں جان قربان کئے ہوئے دیکھ رہا تھا، اس بنا پر اس کی مذکورہ بات میں کوئی حرج نہیں تھا _(۲) بخاری مطبوعہ میمینہ ج ۳ ص ۴ ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۸ از مسلم البتہ ابوذر کی قسم کے بغیر ، مستدرک حاکم ج ۲ ص ۳۸۶ اور اسی نے اور ذہبی نے اس کی تخلیص میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ، الغدیر ج ۷ ص ۲۰۲از تفسیر ابن کثیر ج۳ ص ۲۱۲ ، تفسیر ابن جزی ج ۳ ص ۳۸ ، تفسیر خازن ج ۳ ص ۶۹۸ ، تفسیر قرطبی ج ۲ ص ۲۵_ ۲۶ ، صحیح مسلم ج ۲ ص ۵۵۰ و طبقات ابن سعد ص ۵۱۸ اور ابن عباس ، ابن خیثم ، قیس بن عباد ، ثوری ، اعمش ، سعید بن جبیر اور عطاء سے بھی یہی منقول ہے_

۲۶۵

ما عاهدوا الله علیه ) ترجمہ : '' مومنوں میں کئی ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے خدا سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کر دکھایا(۱) _البتہ یہ بھی منقول ہے کہ یہ آیت فقط حضرت علی علیہ السلام کے حق میں اتری(۲) _ اس کے علاوہ جنگ بدر میں حضرت علی علیہ السلام کی تعریف میں کئی اور آیات بھی نازل ہوئیںجنہیں آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں(۳) _

اس واقعہ کی روشنی میں ہم مندرجہ ذیل چند عرائض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف: حضرت ابوطالبعليه‌السلام کے حق میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ:

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتنے مہذب اور محدود پیمانے پر اپنے چچا کے ناروا ذکر پر غصہ ہوسکتے ہیں تو خود ہی سوچئے کہ جناب ابوطالب پر کفر اور شرک کا ناروا الزام لگانے اور انہیں خدا کی بھڑکتی ہوئی آگ میں دردناک عذاب کے مستحق ٹھہرانے پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا موقف اور ردّ عمل ہوگا؟ کیا آپ لوگوں کے خیال میں اس بات سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خوش ہوں گے؟ ہرگز نہیں_ حالانکہ یہ بے بنیاد باتیں سیاست کی ابجد سے بھی ناواقف افراد کی طرف سے صرف سیاسی مقاصد کے لئے گھڑی گئیں_

ب: اپنے رشتہ داروں سے آنحضرتعليه‌السلام کی جنگ کی ابتدائ:

یہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی انصار کے تین جنگجوؤں کو واپس بلا کر حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ بن حارث کو رن میں جاکر سب سے پہلے دشمن کا سامنا کرنے کا حکم دیا(۴) _ اور یہ تینوں شخصیات

____________________

۱) الصواعق المحرقہ ص ۸۰_ (۲) المناقب خوارزمی ص ۱۸۸ و الکفایة خطیب ص ۱۲۲_

۳) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۸ و دیگر کتب_

۴) البتہ امالی سید مرتضی ج ۱ ص ۲۷۵ ، اعلام الوری ص ۳۰۸، بحار الانوارج ۴۸ ص ۱۴۴ اور المناقب ابن شہر آشوب ج ۴ ص ۳۱۶ میں ایک روایت مذکور ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے نفیع انصار ی سے فرمایا :'' اور اگر تم عزت اور فخر میں مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو یہ سن لو کہ خدا کی قسم ہمارے قبیلے کے مشرکوں نے تمہاری قوم کے مسلمانوں کو اپنا ہم پلّہ نہ سمجھتے ہوئے ان سے جنگ نہیں کیا بلکہ انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ اے محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش سے ہمارے ہم پلّہ جنگجوؤں کو ہمارے مقابلے میں بھیج'' _ لیکن میرے خیال میں دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مشرکین بھی ان سے جنگ کے لئے راضی نہ ہوں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھی انہیں رن میں بھیجنے کا دل نہ ہو_

۲۶۶

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ دار ہیں _ اور حضرت علی علیہ السلام نے بھی حضرت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے متعلق فرمایا: '' جب جنگ چھڑ جاتی تھی اور دوبدو لڑائی کے لئے حریف طلب کئے جاتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے رشتہ داروں کو آگے کر کے اپنے صحابہ کو بچالیتے تھے _ جس کی وجہ سے عبیدہ جنگ بدر میں ، حمزہ جنگ اُحد میں اور جعفر جنگ مؤتہ میں ماراگیا ...''(۱) _

یہاں ہم یہ کہنے ہیں حق بجانب ہیں کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگوں کی ابتداء اپنے رشتہ داروں سے کرتے ہیں تو اس بات سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مہاجرین و انصار کونہ صرف زبانی کلامی بلکہ عملی طور پر یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اپنے مقاصد تک پہنچنے اور اپنی ذات اور اپنے رشتہ داروں سے خطرات کوٹا لنے کا ذریعہ ( یعنی صرف قربانی کا بکرا) نہیں بناناچاہتے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیش نظر ایسے اعلی مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے سب کو شریک ہونا پڑے گا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی خوشی ، غمی ، سختی ، آسانی ، دکھ اور سکھ تمام حالات میں ان کے ساتھ برابر کے شریک تھے_ اور دوسروں سے جان کی قربانی طلب کرنے سے پہلے خود قربانی پیش کرتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جتنا بھی ہوسکتا تھا دوسروں کو خطرات سے نکالنے کی کوشش کرتے تھے، چاہے اس کے بدلے میں اپنے ہی رشتہ داروں کو خطرات میں جھونک دینا پڑتا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جھونک دیتے_

اور یہ ایسی بات ہے جسے ہر اعلی مقصد رکھنے والے شخص ، سیاست دان اور ہر لیڈر کے لئے بہترین نمونہ عمل ہونا چاہئے_ اسے چاہئے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے خود قربانی پیش کرے ، پھر اگر اسے دوسروں کی قربانیوں کی ضرورت پڑی تو اس کے پاس قربانی طلب کرنے کا جواز ہوگا اور ہر کوئی یہ کہے گا کہ وہ اپنے مطالبے میں سچا اور حق بجانب ہے_ اور اسے عملی طور پر اپنے اغراض و مقاصد کی طرف بڑھنے کی بجائے مضبوط قلعوں میں بیٹھ کر صرف دوسروں کو زبانی کلامی احکام صادر کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو اس ہدف کی طرف پیش قدمی کرنے والوں سے مستثنی سمجھ کر دوسروں پر صرف حکم

____________________

۱) انساب الاشراف ج ۲ ص ۸۱ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۵ ص ۷۷ ، کتاب صفین مزاحم ص ۹۰ ، نہج البلاغہ حصہ خطوط خط نمبر ۹ ، العقد الفرید ج ۴ ص ۳۳۶، المناقب خوارزمی ص ۱۷۶ و نہج البلاغہ ج ۳ ص ۱۰ و ص ۱۱_

۲۶۷

چلانے پر اسے اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے بھی دوسروں کے شانہ بشانہ اپنے مقصد کی طرف بڑھنا چاہئے بلکہ اسے دوسروں سے آگے آگے ہونا چاہئے کیونکہ ہدف چاہے کتنا ہی بلند ، اعلی اور مقدس ہولیکن پھر بھی اس کی جانب پیش قدمی پر اکسا نے اور ابھارنے کے لئے صرف باتوں کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی خاطر خواہ نتیجہ نکلتا ہے بلکہ اس کے ساتھ عمل کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے_

ج : شیبہ کا توہین آمیز رویہ:

ہم نے وہاں یہ بھی مشاہدہ کیا کہ حضرت حمزہ کے اپنے آپ کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے شیر کہنے پر شیبہ نے ان کا کس طرح مذاق اڑایا اور اپنے '' حلفائ''کے شیر ہونے پروہ کس طرح اکڑ رہا تھا _ حالانکہ انصاف کا تقاضا اور حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے_ ان حلفاء کے خاص مفاد اور قبائلی طرز تفکر پر مبنی حلف کے بعض پست اور بے وقعت اہداف و مقاصد پر ہم پہلے روشنی ڈال چکے ہیں_ انہی مقاصد کے حصول کے لئے وہ بدر جیسی جنگیں لڑ رہے تھے_ اور ہم سب کو معلوم ہے بلکہ ان مشرکوں کو بھی معلوم تھا کہ خدا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور شیر خدا کے روئے زمین پر قربانی دینے کا مقصد صرف اور صرف دنیا اور آخرت میں انسانیت کی نجات ، بھلائی اور کامیابی ہے_

د: خدا کی طرف سے مسلمانوں کو ملنے والا حق:

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ کو نسا حق تھا جس کی طرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام ، حضرت حمزہ اور جناب عبیدہ کو جنگ کا حکم دیتے ہوئے یوں اشارہ فرمایا تھا :'' ان سے اپنے اس حق کا مطالبہ کرو جسے خدا نے تمہارے لئے قرار دیا ہے''_ کیا یہ وہی عقیدے اور فکر کی آزادی کا حق نہیں تھا؟ اور کیا یہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والے، انہیں اپنے ہی گھروں سے نکال باہر کرنے والے اور ان کا مال لوٹنے والے بلکہ کئی مسلمانوں کو قتل کرنے والے اور ان سب پربد ترین زیادتیوں کے مرتکب ہونے والے قریشیوں اور ان کے حملے کے مقابلے میں دین الہی اور اپنی ذات کے دفاع کا حق نہیں تھا؟

۲۶۸

خلاصہ کلام : یہ کہ مسلمان آزاد زندگی گذارنا چاہتے تھے اور منحرفوں اور ظالموں کے مقابلے میںدین الہی کا دفاع کرنا چاہتے تھے _ اور مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر ظلم اور زیادتی کرنے والے سے انصاف کا مطالبہ کرے_ خاص کر جب حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبی کریم نے ان مشرکین کے سامنے وہ مذکورہ پیشکش رکھی تھی لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھول کر بھی باز نہیں آئے بلکہ وہ پھونکوں سے چراغ الہی کو بجھانے ، مسلمانوں سے جنگ کرنے اور انہیں نیچاد کھانے پر بضدر ہے ، اسی لئے خداوند عالم کو یہ کہنا پڑا( اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا و ا ن الله علی نصرهم لقدیر الذین اخرجوا من دیارهم بغیر حق الّا ان یقولوا ربنا الله ) (۱)

جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے

جب ابوجہل نے عتبہ ، شیبہ اور ولید کو قتل ہوتے دیکھا تو حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگا : '' ربیعہ کے بیٹوں کی طرح جلد بازی اور تکبر نہ کرو _ ایسا کرو کہ یثرب والوں ( یعنی انصاریوں ) پر حملہ کر کے ان سب کو گا جرمولی کی طرح کاٹ کر رکھ دو اور قریشیوں کو اچھی طرح کس کر قید کر لو تا کہ انہیں مکہ لے جا کر ان سے اچھی طرح پوچھ گچھ کریں کہ وہ کس گمراہی پر تھے ''_

اور ابن عباس اس آیت( و ما رمیت اذ رمیت و لکن الله رمی ) کے متعلق کہتا ہے کہ حضرت جبرائیلعليه‌السلام کے کہنے پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو حکم دیا:'' مجھے مٹھی بھر کنکریاں اٹھا کردو '' _ حضرت علیعليه‌السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مٹھی بھر چھوٹے سنگریزے اٹھا کردیئے ایک روایت کے مطابق وہ مٹی سے بھی اٹے ہوئے تھے ) _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ کنکریاں لے کر مشرکوں کے چہروںکی طرف (شاہت الوجوہ کہہ کر) پھینک دیں تو تمام مشرکوں کی آنکھیں کنکریوں سے بھرگئیں _ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ کنکریاں ان کی آنکھوں کے علاوہ ان کے منہ اور ناک کے نتھنوں میں بھی جا پڑیں _ پھر تو مسلمانوں نے انہیں یکے بعد دیگرے قتل یا قید کرنا شروع کردیا(۲) البتہ یہاں ابن عباس کا کام فقط مذکورہ آیت کو اس معجزاتی عمل سے مطابقت دینا تھا_

____________________

۱) حج / ۳۹و ۴۰_ (۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۲۹ از تفسیر ثعلبی ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۹ نیز ملاحظہ ہو سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۷_

۲۶۹

جنگ بدر میں فرشتوں کا کردار

علماء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ خدا نے جب فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجا توکیا وہ صرف مسلمانوں کی ڈھارس بندھانے اور بزدلی دور کرنے کے لئے آئے تھے یا انہوں نے خود بھی جنگ میں حصہ لیا تھا؟_ البتہ قرآن مجید کی یہ آیت اس دوسرے نظریئےو رد کرتی ہے( وما جعله الّا بشری و لتطمئن به قلوبکم ) (۱) ترجمہ : '' اور خدا نے فرشتوں کو صرف کامیابی کی خوشخبری دے کر بھیجا تا کہ اس طریقے سے تمہارے دل مطمئن ہوں '' _ لیکن چند ایک دیگر آیتیں ان کے جنگ میں شریک ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں _ سورہ انفال کی یہ بار ہویں آیت بھی ان میں سے ہے _( اذ یوحی ربک الی الملائکه انی معکم فثبتو االذین آمنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب ، فاضربوا فوق الاعناق و اضربوا منهم کل بنان ) ترجمہ : ( یاد کرو اس وقت کو ) جب تمہارے ربّ نے فرشتوں کو یہ وحی کی کہ (مسلمانوں کو جا کر خوشخبری دوکہ گھبراؤ نہیں) میں تمہارے ساتھ ہی ہوں اور مؤمنوں کو ثابت قدم رکھو _ میں عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوںگا _ تو جا کر ان کے پس گردن بلکہ ہر طرف سے وار کرو '' _ البتہ یہ اشارہ اس صورت میں قابل قبول ہوگا جب آیت میں (فاضربوا ...) کے مخاطب فرشتے ہوں ، جس طرح کہ آیت سے بھی بظاہر یہی لگتا ہے _ لیکن اگر اس آیت میں مخاطب مسلمان جنگجو ہوں تو پھر اس آیت میں بھی فرشتوں کے جنگ کرنے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ہوگا _

بہر حال صورتحال جو بھی ہو ، ایک بات مسلم ہے کہ تمام فرشتے حضرت علی علیہ السلام کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے(۲) اور ہوسکتا ہے کہ وہ کافروں کی نظر میں مسلمانوں کی تعدا د زیادہ دکھانے کا سبب بنے ہوں

____________________

۱) انفال / ۱۵ _

۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۸۵ از المناقب ، لیکن دیگر مؤرخین سے مروی ہے کہ وہ فرشتے زبیر کی شکل و صورت میں نازل ہوئے _ کیونکہ زبیر کے سر پر زرد عمامہ (پگڑی ) تھا اور ملائکہ بھی سر پر زرد عمامے باندھے ان پر نازل ہوئے _ اس بارے میں ملاحظہ ہو: مستدرک حاکم ج ۳ ص ۳۶۱ ، حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۸۶ از مستدرک و کنز العمال ص ۲۶۸ از طبرانی و ابن عساکر و مجمع الزوائد ج ۶ ص ۸۴ لیکن مذکورہ بات کی نفی دلائل النبوہ ابو نعیم ص ۱۷۰ و حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۸۶ میں مذکور وہ روایتیں کرتی ہیں جن میں آیا ہے کہ جنگ بدر کے دن ملائکہ سر پر سفید عمامہ باندھے نازل ہوئے تھے _

۲۷۰

کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے( و یکثر کم فی اعینهم ) '' اور خدا نے ان کی آنکھوں میں تمہیں کثیر جلوہ گر کیا ''_

جنگ جمل میں بی بی عائشہ کا کردار

اسی مناسبت سے ہم یہاں یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ ( آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نقل کرتے ہوئے ) جنگ جمل میں بی بی عائشہ نے بھی کہا تھا کہ مجھے مٹھی بھر مٹی چاہئے _ جب اسے مٹی فراہم کی گئی تو بدروالوں کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سلوک کی طرح اس نے بھی حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرف رخ کر کے اس پر پھونک مارتے ہوئے کہا : '' شاہت الوجوہ '' (چہرے بگڑ جائیں ) _ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :( و ما رمیت از رمیت و لکن الشیطان رمی و لیعودن و بالک علیک ان شاء الله ) ( شیطان نے تمہارے ذریعہ یہ مٹی پھینکی ہے _ اس کا برا انجام بھی انشاء اللہ تمہاری ہی گردن پکڑے گا)(۱) _

اسی طرح جب بی بی عائشہ نے حضرت علی علیہ السلام کو جنگ جمل میں اپنی فوج کی صفوں میں ایسے چکر لگاتے ہوئے دیکھا جیسے جنگ بدر میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنی فوج کی صفوں کی نگرانی کر رہے تھے ، تواس نے کہا : ''اسے دیکھو تو سہی مجھے تو لگتا ہے کہ وہ تم پر کامیابی کے لئے دوپہر کے وقت سورج کے زوال کا انتظار کر رہا ہے ''(۲) اور ہوا بھی ایسے ہی ، نیز اس موقع پر بھی امیرالمؤمنین حضرت علیعليه‌السلام نے بالکل سچ فرمایا تھا_

شکست اور ذلت

بہر حال خدا نے مشرکین کو بہت بری طرح شکست سے دوچار کیا _ اس جنگ میں ابوجہل بھی ماراگیا _

____________________

۱) کتاب الجمل شیخ مفید ص ۱۸۶ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱ ص ۲۵۷ نیز ملاحظہ ہو الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۳۲۵_

۲) الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۲۱۴ _ یہاں بدر اور جمل کے واقعات اور شخصیتوں کے کردار و گفتار کی عینی یا عکسی مشابہت بھی نہایت حیرت انگیر ہے البتہ یہاں تفصیل کی گنجائشے بالکل نہیں ہے لیکن ذہین قارئین سے بھی پوشیدہ نہیں ہے _ مترجم

۲۷۱

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اسے پہلے ہی پیشین گوئی کردی تھی کہ خدا اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے کمزور صحابی کے ہاتھوں مارے گا _ بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وقوعہ سے پہلے ہی اسے جنگ بدر کا سارا واقعہ بتا دیا تھا(۱) _ تو اسے ایک انصاری نے قتل کردیا تھا پھر ابن مسعود نے آکر اس کا سر کاٹ دیا تھا_ یہ بھی منقول ہے کہ ابن مسعودنے اسے آخری سانسوں میں پایا تو اس نے آکر اس کا کام تمام کردیا _ لیکن پہلی بات حقیقت سے قریب ترہے اس لئے کہ اس کا سامان ابن مسعود کے علاوہ کسی اور نے غنیمت کے طور پر لوٹا تھا _

جنگ بدر کا سب سے پہلا بھگوڑا ابلیس ملعون تھا _ کیونکہ روایات کے مطابق وہ مشرکین کو قبیلہ بنی کنانہ کے ایک بزرگ سراقہ بن مالک مدلجی کی شکل میں دکھائی دیتا تھا _ اور وہ اس لئے کہ قریش قبیلہ بنی بکر بن عبد مناف کو کسی خونی معاملے کی وجہ سے اپنے ساتھ ملانے سے ڈرتے تھے جس کی وجہ سے ابلیس قریشیوں کو سراقہ کی شکل میں نظر آیا اور انہیں مطلوبہ ضمانت فراہم کی اور وہ سب ساتھ ہولئے _ لیکن جب اس نے مشرکین کی حالت زار دیکھی اور مسلمانوں کی مدد کو آئے ہوئے ملائکہ کو بھی مشاہدہ کیا تو وہ اس کام سے پیچھے ہٹ گیا جس کی وجہ سے مشرکین شکست کھا گئے تو مکہ والے یہ کہنے لگے کہ سراقہ بھاگ گیا _ لیکن ( اصلی ) سراقہ نے کہا : '' مجھے تو تمہارے جانے کا بھی اس وقت پتہ چلا جب تمہاری شکست کی خبر مجھے ملی '' _ پھر انہیں مسلمان ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ تو شیطان تھا _

یہ بھی مروی ہے کہ جب ابوسفیان نے قافلہ کو مکہ پہنچادیا تو خود واپس پلٹ آیا اور قریش کی فوج کے ساتھ مل کر بدر کے میدان تک آیا _ اور اس جنگ میں اسے بھی کئی زخم لگے اور وہ واپس بھاگتے ہوئے گھوڑے سے گرپڑا اور پھر پیدل ہی مکہ جاپہنچا(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۶۷ از الاحتجاج و حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے منسوب تفسیر ص ۱۱۸ و ص۱۱۹

۲) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵_

۲۷۲

دوسری فصل:

جنگ کے نتائج

۲۷۳

جنگ کے نتائج :

جنگ بدر میں مشرکین کے ستر آدمی مارے گئے اور اتنے ہی قید کرلئے گئے _ البتہ یہ بھی منقول ہے کہ پینتالیس آدمی قتل اور اتنے ہی قیدی ہوئے _ لیکن ہوسکتا ہے اس دوسرے نظریئےی بنیاد بعض مؤرخین کی یہ بات ہو کہ مذکورہ مقدار میں یا اس سے زیادہ مشرکین قتل ہوگئے _ جس سے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ان کے مقتولین اور قیدیوں کی آخری تعداد ہے _ لیکن مذکورہ بات اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ مقتول مشرکین کی کل تعداد اتنی تھی بلکہ صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ راوی کو اتنی تعداد کا علم ہوسکا ہے _

لیکن مسلمانوں کے شہدا کے متعلق مختلف نظریات ذکر ہوئے ہیں _ نو بھی مذکور ہے ، گیارہ بھی اور چودہ شہیدوں کا نظریہ بھی ہے کہ جس میں سے چھ مہاجر تھے اور آٹھ انصاری _ البتہ قید کوئی نہیں ہوا تھا _ جبکہ مال غنیمت میں مشرکین کے اڑھائی سو اونٹ ، دس گھوڑے ( البتہ ابن اثیر کے مطابق تیس گھوڑے ) اور بہت زیادہ ساز و سامان ، اسلحے ، چمڑے کے بچھونے ، کپڑے اور چمڑے مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے(۱) _

حضرت علی علیہ السلام کے کارنامے:

مشرکین کے اکثر مقتولین ، مہاجرین بالخصوص آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ داروں اور خاص کر خود حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے تھے_ اور اس دن کافروں کو بہت بڑی مصیبت ، اور شکست دینے کی وجہ سے کافروں نے آپعليه‌السلام کو '' الموت الاحمر'' ( سرخ موت ) کا نام دیا(۲) _

____________________

۱) المغازی واقدی ج ۱ ص ۱۰۲ و ۱۰۳ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۱۸ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۸۳_

۲) المناقب ابن شہر آشوب ج ۲ ص ۶۸_

۲۷۴

اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ شبعی ہمیں یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ '' پورے عرب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ علیعليه‌السلام سب سے زیادہ بہادر شخصیت تھے''(۱) _ اور گذشتہ فصل میں '' جنگ کی ابتدا'' کے تحت عنوان حسان بن ثابت کے اشعار کے جواب میں قبیلہ بنی عامر کے ایک آدمی کے اشعار اور اپنے مقتولین کے مرثیہ میں ہندہ کے اشعار بھی اس بارے میں ذکر ہوچکے ہیں _

نیز مشرکین قریش کو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف بھڑکاتے ہوئے اسید بن ابی ایاس نے مندرجہ ذیل اشعار کہے:

فی کل مجمع غایة اخزاکم

جذع ابرعلی المذاکی القرح

لله درکم المّا تنکروا

قد ینکر الحر الکریم و یستحی

هذا ابن فاطمة الذی افناکم

ذبحاً و قتلاً قعصة لم یذبح

اعطوه خرجاً و اتقوا تضریبه

فعل الذلیل وبیعة لم تربح

این الکهول و این کل دعامة

فی المعضلات و این زین الابطح

افناهم قعصاً و ضرباً یفتری

بالسیف یعمل حده لم یصفح(۲)

____________________

۱) نور القبس ص ۲۴۹_

۲) اسد الغابہ ج ۴ ص ۲۰ و ۲۱ ، زندگی امام علیعليه‌السلام در تاریخ دمشق باتحقیق محمودی ج ۱ ص ۱۵ ، ارشادمفید ص ۴۷ ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۱ ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۸۲ ، انساب الاشراف با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۱۸۸ و تیسیر المطالب ص ۵۰ _

۲۷۵

ہر ٹکراؤ پر آخر کار اس نے تمہیں خوار کیا _ سوئی کی طرح کا ایک لاغر آدمی اچھے بھلے شہ زوروں پر غالب آرہا ہے _ تمہیں خدا کا واسطہ بتاؤ کیا اب بھی تمہیں شرمندگی محسوس نہیں ہوئی؟ حالانکہ ان باتوں سے تو کسی بھی شریف آزاد خیال آدمی کو بھی شرمندگی اور پچھتا وا ہوسکتا ہے _ یہ فاطمہ ( بنت اسد ) کا چھوکرا تمہیں گا جرمولی کی طرح کاٹ کاٹ کر نیست و نابود کرتا جارہا ہے _ اس کے تند و تیز مہلک وار سے بچ بچا کر اسے اپنے اس پست کام اور بے فائدہ بیعت کا مزاچکھاؤ _ کہاں ہیں وہ بزرگ ، کہاں ہیں مشکلات میں وہ پناہ گا ہیں اور کہاں ہیں مکہ اور بطحاء کے سپوت _ علیعليه‌السلام نے ہی انہیں فوری موت کا مزہ چکھایا ہے _ اس نے تلوار کے ایک ہی وار سے ان کا کام تمام کردیا ہے _ وہ اکیلے ہی یہ کام کررہا ہے اور کسی کو معاف بھی نہیں کر رہا _

وہ علیعليه‌السلام کو سرخ موت کیوں نہ کہتے ؟ جبکہ بعض روایات کے مطابق جنگ بدر میں ہی جبرائیلعليه‌السلام نے آسمان اور زمین کے درمیان آکر ندادی :

(لافتی الّا علی لا سیف الّا ذوالفقار )

( جوان ہے تو صرف علیعليه‌السلام ہے اور تلوار بھی ہے تو صرف ذوالفقار ہی ہے )

البتہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جبرائیل نے یہ صدا جنگ احد میں لگائی تھی _ انشاء اللہ اس بارے میں مزید بات بعد میں ہوگی _ بہر حال مشرکین کے ستر مقتولین میں سے آدھے کو حضرت علیعليه‌السلام نے بذات خود اکیلے ہی واصل جہنم کیا تھا اور باقی نصف کے قتل میں بھی شریک رہے تھے(۱) _ اور شیخ مفید نے تو حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والے چھتیس مشرکین کا نام بھی ذکر کیا ہے(۲) _ ابن اسحاق کہتا ہے کہ جنگ بدر میںاکثرمشرکین کو حضرت علی علیہ السلام نے ہی قتل کیا تھا(۳) _ طبرسی اور قمی کہتے ہیں کہ آپعليه‌السلام نے ستائیس

____________________

۱) ملاحظہ ہو : دلائل الصدق ج ۲ ص ۳۵۳ کے ضمن میں نہج الحق _ اور اس بات پر فضل ابن روز بہان جیسے متعصب نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا _

۲) الارشاد ص ۴۳ و ۴۴ ، بحارالانوار ج ۱۹ ص ۲۷۷ و ۳۱۶از الارشاد و اعلام الوری ص ۷۷_

۳) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۰ و بحارالانوار ج ۱۹ص ۲۹۱

۲۷۶

مشرکوں کو قتل کیا(۱) _ جبکہ اسامہ بن منقذ کہتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ مشرکوں کے قتل میں شریک ہونے کے علاوہ چوبیس کو آپعليه‌السلام نے بذات خود قتل کیا(۲) _ شبلنجی کہتا ہے کہ '' بعض مؤرخین کے بقول غزوہ نویسوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنگ بدر میں کل ستر آدمی قتل ہوئے تھے اور راویوں کے متفقہ فیصلے کے مطابق ان میں سے اکیس آدمیوں کو صرف حضرت علیعليه‌السلام نے قتل کیا اور چار کے قتل میں دوسروں کا ساتھ دیا البتہ آٹھ مقتولین کے قاتل کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ''(۳) _ واقدی نے کل بائیس مقتولین کا نام لیا ہے جن میں سے اٹھارہ حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے جبکہ چار کے متعلق اختلاف ہے(۴) اور معتزلی اور ابن ہشام نے ( بالترتیب) کہا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام نے انتیس مشرکوں کو فی النار کیا یا کل باون مقتولین میں سے اتنے کے قتل میں دوسروں کا ساتھ دیا(۵) لیکن تعدا دمیں یہ اختلاف زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے کیونکہ ان مقتولین کا نام ذکر کرنے والے مؤرخین نے تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ پچاس کے لگ بھگ مقتولین کا نام ذکر کیا ہے(۶) _ ان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے ان میں سے نصف یا اس سے بھی زیادہ تعداد کو قتل کیا اور اگر یہ لوگ باقی افراد کا نام بھی جان لیں تو یقینا ( دوسروں کے ساتھ مشرکین کے قتل میں شراکت کے علاوہ ) خود حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد ستر کے نصف بلکہ اس سے بھی زیادہ تک پہنچ جائے گی _ حقیقت تو بالکل یہی ہے لیکن ان مذکورہ مؤرخین کے بعد آنے والے مؤرخین نے ان پچاس افراد کو (جنہیں مذکورہ افراد نے پچاس کے ضمن میںنام کے ساتھ ذکر کیا ہے ) کل تعداد سمجھ لیا ہے حالانکہ یہ تعداد کل تعداد کا ایک حصہ ہے _ یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ بعض مؤرخین جن افراد کا نام ذکر کرتے ہیں ان

____________________

۱) ملاحظہ ہو ، تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۷۱ و بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۴۰ از مجمع البیان

۲) لباب الآداب ص ۱۷۳ (۳) نور الابصار ص ۸۶ (۴) المغازی واقدی ج ۱ ص ۱۴۷ تا ص ۱۵۲

۵) ملاحظہ ہو : سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۶۵ تا ص ۳۷۲ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۰۸ تا ۲۱۲

۶) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۱۲ و ابن ہشام و واقدی و غیرہ

۲۷۷

سے دیگر مؤرخین بالکل ناواقف ہیں اور اسی طرح معاملہ برعکس بھی ہے _ اور یہ چیزہماری اور شیخ مفید و غیرہ کی باتوں کی تائید اور تاکید کرتی ہے _

بہرحال ، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والے لوگوں میں مندرجہ ذیل افراد بھی تھے _ طعیمہ بن عدی ، ابوحذیفہ بن ابوسفیان ، عاص بن سعید بن عاص( جس سے سب لوگ ڈرتے تھے) ، نوفل بن خویلد ( یہ قریش کا شریر ترین آدمی تھا ) اور عاص بن ہشام بن مغیرہ(۱) _

ایک اور جھوٹی روایت

بعض لوگوں کے گمان میں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو جناب عمر بن خطاب نے ہی ہلاک کیا تھا(۲) وہ روایت کرتے ہیں کہ عمر نے سعید بن عاص سے کہا : '' میں نے تمہارے باپ کو نہیں بلکہ اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا تھا ''(۳) _

لیکن یہ مشکوک بات ہے کیونکہ :

مذکورہ عاص ، عمر کا ماموں نہیں تھا _ اس لئے کہ عمرکی ماں حنتمہ ہشام بن مغیرہ کی نہیں بلکہ ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھی _ اور جن علماء نے اسے ہشام کی بیٹی کہا ہے(۴) انہوں نے غلط کہا ہے _ ابن حزم کہتا ہے : '' ہاشم کا حنتمہ کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں تھا ''(۵) اور ابن قتیہ نے کہا ہے : '' اور عمر بن خطاب کی ماں ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی حنتمہ تھی جو عمر کے باپ کی چچا زاد تھی ''(۶) _

بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حنتمہ سعید بن مغیرہ کی بیٹی تھی(۷) _

____________________

۱) المنمق ص ۴۵۶ وا لاغانی مطبوعہ ساسی ج ۳ ص ۱۰۰_ (۲) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۶۸ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۵ و نسب قریش مصعب زبیری ص ۳۰۱_ (۳) المغازی واقدی ج ۱ ص ۹۲ ، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۸۹ ، نسب قریش مصعب زبیری ص ۱۷۶ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۹۰ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۱ ، حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۳ و الاصابہ و الاستیعاب _ (۴) تاریخ عمر بن خطاب ابن جوزی ص ۱۹_ (۵) جمہرة انساب العرب ص ۱۴۴_

۶) الشعر و الشعراء ص ۳۴۸_ (۷) تاریخ عمر بن الخطاب ابن جوزی ص ۲۰_

۲۷۸

البتہ بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ اس نے اسے اپنا ماموں کہہ کر اس سے اپنا مادری قبلیہ مراد لیا ہے کیونکہ عرب لوگ اپنے مادری قبیلہ کے ہر فرد کو اپنا ماموں کہتے تھے جیسا کہ شاعر کا کہنا ہے :

ولو انی بلیت بهاشمی

خؤولته بنی عبدالمدان

اور چاہے میں اس ہاشمی کے چنگل میں پھنس جاؤں جن کے ماموں بنی عبدالمدان کا قبیلہ ہے_

لیکن یہ احتمال اس کی باتوں سے ناسازگار ہے کیونکہ '' خالی '' ( میر اماموں ) کے لفظ سے ذہن میں فوراً حقیقی اور سگے ماموں کا تصور بھر تا ہے _ اور لفظ'' اخوال'' ( میرے ماموں ) کے مادری قبیلے پر اطلاق کا یہ لازمہ نہیں ہے کہ یہ بات بھی صحیح سمجھی جائے کہ کوئی شخص '' خالی '' ( میرا ماموں ) کہہ کر مادری قبیلے کا ایک فرد مراد لے جبکہ وہ اس کا سگا ماموں ہو ہی نہ _ پس یہ کہنا تو صحیح ہے کہ '' بنو مخزوم اخوالنا '' (قبیلہ بنی مخزوم ہمارا مادری قبیلہ ہے ) لیکن '' فلان المخزوی خالی '' (قبیلہ بنی مخزوم کا فلاں شخص میرا ماموں ہے _ جبکہ وہ سگا نہ ہو یہ ) کہنا صحیح نہیں ہے _ اس لئے کہ دوسرے جملے سے حقیقی اور سگا ماموں مراد لیا جاتا ہے _

بلکہ بعض مؤرخین نے تو حنتمہ کو مخزومی ( قبیلہ بنی مخزوم کی عورت ) بھی ماننے سے سرے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہاشم نے اسے راستے میں پڑا ہوا دیکھا تو اسے اٹھا کر ساتھ لے آیا اور اسے پال پوس کر اس کی شادی خطاب سے کردی _ اس کی پرورش کرنے اور پالنے پوسنے کی وجہ سے عرب اپنی عادت کی بناپر حنتمہ کو ہاشم کی بیٹی کہا کرتے تھے(۱) _

تو پھر صحیح کیا ہے ؟

ہو سکتا ہے کہ ابن ابی الحدید معتزلی اور شیخ مفید کی بیان کی ہوئی مندرجہ ذیل روایت زیادہ معتبر ، حقیقت

____________________

۱) د لائل الصدق ج ۳ حصہ ۱ ص ۵۶_

۲۷۹

سے قریب تر اور اس وقت کے سیاسی حالات اور سیاسی فضا کے مناسب تر ہو _اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ عثمان بن عفان اور سعید بن عاص حضرت عمر کی خلافت کے ایام میں اس کے پاس آئے _ عثمان تو اس محفل میں اپنی پسندیدہ جگہ پر آکر بیٹھ گیا لیکن سعید آکر ایک کونے میں بیٹھ گیا تو عمر نے اسے دیکھ کر کہا:'' تم مجھ سے کترا کیوں رہے ہو ؟ ایسے لگتا ہے جیسے میں نے ہی تمہارے باپ کو قتل کرڈالا ہو اسے میں نے نہیں ابوالحسن ( حضرت علیعليه‌السلام ) نے قتل کیا ہے '' ( البتہ شیخ مفید کی روایت میں یوں آیا ہے کہ پھر عمر نے کہا : ''جب میں نے تمہارے باپ کو لڑائی کے لئے تیار دیکھا تو اس سے ڈرگیا اور اس سے ادھر ادھر ہونے لگا تو اس نے مجھ سے کہا کہ خطاب کے بیٹے کہاں بھاگے جا رہے ہو ؟ لیکن علیعليه‌السلام اس کی طرف آیا اور اسے جالیا _ ابھی خدا کی قسم میںا پنی جگہ سے ہلا بھی نہیں تھا کہ اس نے اسے وہیں مارڈالا ) _ وہاں حضرت علی علیہ السلام بھی موجود تھے، انہوں نے کہا : '' خدایا معاف کرنا _ شرک اپنی تمام برائیوں سمیت مٹ گیا اور اسلام نے گذشتہ تمام نقوش مٹادیئےیں _ لیکن تم کیوں لوگوں کو میرے خلاف بھڑکا رہے ہو؟'' عمر اس بات کا جواب نہ دے پایا_ لیکن سعید نے جواب میں کہا : '' لیکن اگر میرے باپ کا قاتل اس کے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو پھر مجھے اس کا افسوس ہوتا ''(۲) _

پس اس روایت میں یہ بات تو ملتی ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے عمر کی جان بچائی لیکن یہ بات نہیں ملتی کہ عمر نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا ہو _ البتہ ( جس طرح پہلے بتا چکے ہیں) عاص ، عمر کا ماموں بھی نہیں تھا یا کم از کم اس کا عمر کا ماموں ہونا نہایت مشکوک ہے _ نیز اس روایت میں خاص کر سعید اور حضرت علی علیہ السلام کی باتوں میں کئی اور اشارے بھی ملتے ہیں _صاحبان فہم کو غور و فکر کی دعوت ہے_

نکتہ

جنگ بدر اور جنگ احد و غیرہ نے مشرکین کے دلوں پر حضرت علی علیہ السلام کی بہت زیادہ دھاک

____________________

۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۴ ۱ ص ۱۴۴ و ص ۱۴۵ و الارشاد ص ۴۶_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460