الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)8%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242171 / ڈاؤنلوڈ: 6994
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

نکتہ:

حضرت علیعليه‌السلام سے منقول گذشتہ روایت کو اگر صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی اس کی یہ توجیہ کرنی ہوگی کہ آپعليه‌السلام اپنے بارے میں نہیں بلکہ دوسروں کے متعلق مذکورہ جملہ ارشاد فرما رہے ہیں(۱) کیونکہ حضرت علی علیہ السلام نہ مشرکوں سے ڈرنے والے تھے اور نہ ہی انہیں اپنی حفاظت کے لئے کسی پناہ گاہ کی ضرورت تھی _ انہیں جائے پناہ کی ضرورت کیونکر ہو سکتی تھی جبکہ بدر کے آدھے سے زیادہ مقتولین کو انہوں نے اکیلے ہی قتل کیا تھا اور باقی نصف کے قتل میں بھی شریک تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مذکورہ بات کی مثال ایسے سے جیسے کوئی یہ کہے کہ ہمارے شہر میں یہ چیز کھائی جاتی ہے ، یہ پہنی جاتی ہے یا ہم اس شہر میں فلاں چیز بناتے ہیں_ حالانکہ ہو سکتا ہے اس شخص نے کبھی بھی وہ چیز نہ کھائی ہو ، و ہ لباس نہ پہنا ہو یا وہ چیز نہ بنائی ہو_

جنگ کی ابتدائ:

جنگ کی ابتداء عتبہ ، شیبہ اور ولید نے دوبدو لڑائی کے لئے حریف طلب کرنے کے ساتھ کی ، جن کے جواب میں ادھر سے تین انصاری نکلے، لیکن انہوں نے ان سے کہا کہ تم لوگ واپس چلے جاؤ، ہم تم سے لڑنے نہیں آئے ہم تو قریش سے اپنا ہم پلہ حریف طلب کر رہے ہیں_ ان کی اس بات پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے انہیں واپس بلا لیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کی ابتداء اپنے رشتہ داروں سے کی کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار سے اس جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتے تھے(۲) _اور یہ کہہ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ بن حارث کو پکارا:'' عبیدہ چچا جان علیعليه‌السلام اٹھو اور ان سے اپنے اس حق کا مطالبہ کرو جسے خدا نے تمہارے لئے قرار دیا ہے ...''_

جب وہ رن میں گئے تو عتبہ نے ان سے حسب و نسب کے متعلق پوچھا تو سب نے اپنا تعارف کرایا اور شیبہ نے جناب حمزہ سے اس کا حسب نسب پوچھا تو اس نے کہا :'' میں عبدالمطلب کا سپوت اور خدا اور اس

____________________

۱) البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور بے جگری سے لڑائی کے بیان میں مبالغہ آرائی کی ہو کہ علیعليه‌السلام جیسا نڈر شیر بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پناہ ڈھونڈھ رہا تھا_ اس کی اردو میں مثال میرا نیس کا یہ مصرع ہے انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں (بلکہ پوری نظم)_

۲) تفسیر قمی ج ۱ ص ۶۶۴، بحار الانور ج ۱۹ ص ۳۱۳ و ص ۳۵۳ و سعد السعود ص ۱۰۲ _

۲۶۱

کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیر حمزہ ہوں'' _ اس پر شیبہ نے کہا: '' اے خدا کے شیر اب تمہارا سامنا حلفاء(۱) کے شیر سے ہے اب دیکھتے ہیں تم میں کتنا دم خم ہے''_

بہرحال ،حضرت علی علیہ السلام جب ولید کو قتل کرکے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ جناب حمزہ اور شیبہ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہیں اور دونوں کے ہاتھوں میں اپنی اپنی ٹوٹی ہوئی تلوار ہے _ یہ منظر دیکھ کر حضرت علیعليه‌السلام نے جناب حمزہ سے فرمایا:'' چچا جان اپنا سر نیچے کیجئے '' _ اور چونکہ جناب حمزہ طویل القامت تھے اس لئے انہیں اپنا سر شیبہ کے سینے میں گھسانا پڑا ، تو حضرت علیعليه‌السلام نے شیبہ کے سر پر تلوار کا ایسا زور دار وار کیا کہ اس کا آدھا حصہ ( بھیجا) اڑکر دور جاگرا _ ادھر عتبہ نے عبیدہ کی ٹانگ کاٹ دی تھی اور عبیدہ نے بھی اس کا سر پھوڑا ہوا تھا پھر حضرت علیعليه‌السلام نے آکر اس کا کام بھی تمام کردیا _ یوں حضرت علیعليه‌السلام تینوں کے قتل میں شریک ہوئے تھے_(۲) اور کتاب '' المقنع '' میں ہندہ جگر خوارہ کے مندرجہ ذیل اشعار بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام تینوں کے قتل میں حصہ دار تھے:_

ما کان لی عن عتبة من صبر

ابی ، و عمی و شقیق صدری

اخی الذی کان کضوء البدر

بهم کسرت یا علیعليه‌السلام ظهری(۳)

عتبہ کی جدائی پر مجھ سے صبر نہیں ہوسکتا _ اے علیعليه‌السلام تونے میرے باپ، چچا اور میرے جگر کے ٹکڑے اور چاند سے بھائی کو مار کرمیری کمر توڑ دی ہے_

____________________

۱) یہ زمانہ جاہلیت کے اس عہد کی طرف اشارہ ہے جس میں قریش کے چند خاندانوں اور قبیلوں نے خون میں ہاتھ رنگ کر ایک دوسرے کی مدد اور حمایت کا اعلان اور عہد کیا تھا_ اسے حلف لعقة دم کہا جاتا تھا ، معاہدے کے فریقوں کو حلیف اور سب کو حلفاء یا احلاف کہا جاتا تھا _ حضرت علیعليه‌السلام نے بھی نہج البلاغہ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے _مترجم_ (۲) ملاحظہ ہو : المناقب ج ۳ ص ۱۱۹ از الاغانی و غیرہ ..._

۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۳ ص ۲۸۳ ب، العثمانیہ ، قسم نقوض الاسکا فی ص ۴۳۲ ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۹۲ و المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۱_

۲۶۲

اسی طرح سید حمیری مرحوم نے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ثنامیں مندرجہ ذیل شعر کہے ہیں:_

و له ببدر وقعة مشهوره

کانت علی اهل الشقاء دماراً

فا ذاق شیبة و الولید منیة

اذ صبحاه جحفلاً جراراً

و اذاق عتبة مثلها اهوی لها

عضباً صقیلاً مرهفاً تیاراً(۱)

حضرت علی علیہ السلام نے بدر میں مشہور و معروف کارنامہ سرانجام دیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دن ان بدبختوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا _ جب دن کو بہت بڑے لشکر سے آپعليه‌السلام کا سامنا ہوا تو آپعليه‌السلام نے شیبہ اور ولید اور اسی طرح عتبہ کو بھی اپنی تیز ، آبدار اور کاٹ دار تلوار سے موت کا جام پلایا_ نیز حسان بن ثابت کے اشعار کے جواب میں قبیلہ بنی عامرکے کسی شخص نے مندرجہ ذیل اشعار کہے جو ہمارے مدعا کی تائید کرتے ہیں:_

ببدر خرجتم للبراز فردکم

شیوخ قریش جهرة و تاخروا

فلما اتاهم حمزة و عبیدة

و جاء علی بالمهند یخطر

فقالوا نعم اکفاء صدق فاقبلوا

الیها سراعاً اذ بغوا و تجبروا

فجال علی جولة ها شمیة

فدمرهم لما بغو ا و تکبروا(۲)

بدر میں تم لوگ لڑنے نکلے تو قریش کے سرداروں نے کھلم کھلاتمہیں واپس پلٹا دیا اور تم سے جنگ گوارا نہیں کیا اور دوسرے جنگجوؤں کے منتظر ہوئے_ پھر جب حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ

____________________

۱) دیوان سید حمیری ص ۲۱۵ و الماقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۲_ (۲) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۹ و بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۹۱_

۲۶۳

کاٹ کار تلواریں لہراتے ہوئے نکلے تو انہوں نے مطمئن ہو کر کہا کہ ہاں یہ بالکل ہمارے ہم پلّہ ہیں_ اور جب انہوں نے تکبّر کےساتھ انہیں للکارا تو وہ جلدی سے جنگ میں کود پڑے اور جب انہوں نے تکبر اور سرکشی دکھانی شروع کردی تو حضرت علیعليه‌السلام کا ہاشمی خون جوش میں آیا اور انہوں نے اُن سب کونیست و نابود کر کے رکھ دیا_

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ کو ایک خط میں لکھا:''بالکل میں ہی ابوالحسن تمہارے دادا عتبہ ، چچا شیبہ ، ماموں ولید اور بھائی حنظلہ کا قاتل ہوں _ ان کا خون خدا نے ہی میرے ہاتھوں بہا یا تھا _ اب بھی میرے پاس وہی تلوار ہے اور میں نے اسی رعب و دبدبے اور جوش سے اپنے دشمنوں کو پچھاڑ اتھا''(۱) _

تینوں جنگجوؤں کے قتل کے بعد

اس کے بعد حضرت علیعليه‌السلام اور حضرت حمزہ جناب عبیدہ بن حارث کو اٹھا کر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں لے آئے تو اس نے آنسو بہاتے ہوئے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیا میں شہید نہیں ہوں؟'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''بالکل تم تو میرے اہل بیت کے سب سے پہلے شہید ہو''_ ( یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عنقریب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت سے شہیدوں کا تانتا بندھ جائے گا _ اور ہوا بھی یہی) _ پھر اس نے کہا : '' اگر اس وقت آپعليه‌السلام کے چچا بزرگوار زندہ ہوتے اور اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا دیکھتے تو یہ جان لیتے کہ ہم ان کی باتوں سے بہر حال بہترہیں''_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا :'' تم کس چچا کی بات کر رہے ہو ؟ ''_ اس نے کہا :'' ابوطالب کی ، کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ :

کذبتم و بیت الله یبزی محمد

و لما نطا عن دونه و نناظل

و نسلمه حتی نصرع دونه

و نذهل عن ابنائنا و الحلائل

____________________

۱) الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۴۳۵ ، شرح نہج البلاغہ محمد عبدہ ج ۳ ص ۱۳ و الغدیر ج ۱۰ ص ۱۵۱_

۲۶۴

(قریشیو) خدا کی قسم تم یہ جھوٹ کہتے ہو کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک تر لقمہ ہے _ کیونکہ ہم اس کی حمایت میں تیروں تلواروں اور نیزوں سے تم سے سخت جنگ کریں گے اور اپنے بیوی ، بچوں کو بھی اس پر قربان کردیں گے اور تم ہماری لاشوں سے گذر کر ہی اس تک پہنچ سکوگے ( یعنی وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت ابوطالب نے صرف باتیں کی تھیں لیکن ہم عمل کرکے دکھا رہے ہیں _ از مترجم )''_ اس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا :'' کیاتم یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس کا ایک بیٹا خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں کے سامنے بپھرے ہوئے شیر کی طرح چوکس کھڑا ہے اور دوسرا بیٹا حبشہ کی سرزمین میں خدا کی راہ میں جہاد میں مصروف ہے؟ '' _ اس نے عرض کیا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حالت میں بھی مجھے ڈانٹ رہے ہیں؟ '' _ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' میں تم پر ناراض نہیں ہو الیکن تم نے میرے پیارے چچا کا نام لیا تو مجھے اس کی یاد ستانے لگی ''(۱) _

اس روایت کے آخری حصے کو چھوڑ کر بہت سے مؤرخین نے اس روایت کو نقل کیا ہے _ مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ آیت ان چھ مذکورہ افراد کے بارے میں نازل ہوئی( هذان خصمان اختصموا فی ربهم فالذین کفروا قطعت لهم ثیاب من نار ) ترجمہ : '' یہ دونوں متحارب (گروہ ) اپنے اپنے رب کی خاطر لڑ رہے تھے اور کافروں کے لئے جہنم کی آگ کے کپڑے تیار ہو چکے ہیں''_ اور بخاری میں مذکور ہے کہ ابوذر قسم اٹھا کر کہتا تھا کہ یہ آیت انہی مذکورہ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۲) _نیز حضرت علیعليه‌السلام ،جناب حمزہ اور عبیدہ کے بارے میں یہ آیت بھی نازل ہوئی( من المومنین رجال صدقوا

____________________

۱) تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۶۵، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۵۵ البتہ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۸۰ میں ہے کہ اس دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے عبیدہ اور ابوطالبعليه‌السلام دونوں کے لئے مغفرت طلب فرمائی _ نیز الغدیر ج ۷ ص ۳۱۶ _ لیکن نسب قریش مصعب زبیری ص ۹۴ میں یوں آیا ہے کہ عبیدہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا : '' یا رسول اللہ کاش ابوطالب آج زندہ ہوتے تو اپنے ان اشعار کا مصداق اور تعبیر دیکھ لیتے ...''_ بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ عبیدہ کے ادب اور اخلاص سے یہی بات زیادہ سازگار ہے _ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ گذشتہ بات بھی اس کے ادب اور خلوص کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دین کی راہ میں جان قربان کئے ہوئے دیکھ رہا تھا، اس بنا پر اس کی مذکورہ بات میں کوئی حرج نہیں تھا _(۲) بخاری مطبوعہ میمینہ ج ۳ ص ۴ ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۸ از مسلم البتہ ابوذر کی قسم کے بغیر ، مستدرک حاکم ج ۲ ص ۳۸۶ اور اسی نے اور ذہبی نے اس کی تخلیص میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ، الغدیر ج ۷ ص ۲۰۲از تفسیر ابن کثیر ج۳ ص ۲۱۲ ، تفسیر ابن جزی ج ۳ ص ۳۸ ، تفسیر خازن ج ۳ ص ۶۹۸ ، تفسیر قرطبی ج ۲ ص ۲۵_ ۲۶ ، صحیح مسلم ج ۲ ص ۵۵۰ و طبقات ابن سعد ص ۵۱۸ اور ابن عباس ، ابن خیثم ، قیس بن عباد ، ثوری ، اعمش ، سعید بن جبیر اور عطاء سے بھی یہی منقول ہے_

۲۶۵

ما عاهدوا الله علیه ) ترجمہ : '' مومنوں میں کئی ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے خدا سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کر دکھایا(۱) _البتہ یہ بھی منقول ہے کہ یہ آیت فقط حضرت علی علیہ السلام کے حق میں اتری(۲) _ اس کے علاوہ جنگ بدر میں حضرت علی علیہ السلام کی تعریف میں کئی اور آیات بھی نازل ہوئیںجنہیں آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں(۳) _

اس واقعہ کی روشنی میں ہم مندرجہ ذیل چند عرائض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف: حضرت ابوطالبعليه‌السلام کے حق میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ:

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتنے مہذب اور محدود پیمانے پر اپنے چچا کے ناروا ذکر پر غصہ ہوسکتے ہیں تو خود ہی سوچئے کہ جناب ابوطالب پر کفر اور شرک کا ناروا الزام لگانے اور انہیں خدا کی بھڑکتی ہوئی آگ میں دردناک عذاب کے مستحق ٹھہرانے پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا موقف اور ردّ عمل ہوگا؟ کیا آپ لوگوں کے خیال میں اس بات سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خوش ہوں گے؟ ہرگز نہیں_ حالانکہ یہ بے بنیاد باتیں سیاست کی ابجد سے بھی ناواقف افراد کی طرف سے صرف سیاسی مقاصد کے لئے گھڑی گئیں_

ب: اپنے رشتہ داروں سے آنحضرتعليه‌السلام کی جنگ کی ابتدائ:

یہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی انصار کے تین جنگجوؤں کو واپس بلا کر حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ بن حارث کو رن میں جاکر سب سے پہلے دشمن کا سامنا کرنے کا حکم دیا(۴) _ اور یہ تینوں شخصیات

____________________

۱) الصواعق المحرقہ ص ۸۰_ (۲) المناقب خوارزمی ص ۱۸۸ و الکفایة خطیب ص ۱۲۲_

۳) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۸ و دیگر کتب_

۴) البتہ امالی سید مرتضی ج ۱ ص ۲۷۵ ، اعلام الوری ص ۳۰۸، بحار الانوارج ۴۸ ص ۱۴۴ اور المناقب ابن شہر آشوب ج ۴ ص ۳۱۶ میں ایک روایت مذکور ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے نفیع انصار ی سے فرمایا :'' اور اگر تم عزت اور فخر میں مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو یہ سن لو کہ خدا کی قسم ہمارے قبیلے کے مشرکوں نے تمہاری قوم کے مسلمانوں کو اپنا ہم پلّہ نہ سمجھتے ہوئے ان سے جنگ نہیں کیا بلکہ انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ اے محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش سے ہمارے ہم پلّہ جنگجوؤں کو ہمارے مقابلے میں بھیج'' _ لیکن میرے خیال میں دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مشرکین بھی ان سے جنگ کے لئے راضی نہ ہوں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھی انہیں رن میں بھیجنے کا دل نہ ہو_

۲۶۶

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ دار ہیں _ اور حضرت علی علیہ السلام نے بھی حضرت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے متعلق فرمایا: '' جب جنگ چھڑ جاتی تھی اور دوبدو لڑائی کے لئے حریف طلب کئے جاتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے رشتہ داروں کو آگے کر کے اپنے صحابہ کو بچالیتے تھے _ جس کی وجہ سے عبیدہ جنگ بدر میں ، حمزہ جنگ اُحد میں اور جعفر جنگ مؤتہ میں ماراگیا ...''(۱) _

یہاں ہم یہ کہنے ہیں حق بجانب ہیں کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگوں کی ابتداء اپنے رشتہ داروں سے کرتے ہیں تو اس بات سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مہاجرین و انصار کونہ صرف زبانی کلامی بلکہ عملی طور پر یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اپنے مقاصد تک پہنچنے اور اپنی ذات اور اپنے رشتہ داروں سے خطرات کوٹا لنے کا ذریعہ ( یعنی صرف قربانی کا بکرا) نہیں بناناچاہتے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیش نظر ایسے اعلی مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے سب کو شریک ہونا پڑے گا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی خوشی ، غمی ، سختی ، آسانی ، دکھ اور سکھ تمام حالات میں ان کے ساتھ برابر کے شریک تھے_ اور دوسروں سے جان کی قربانی طلب کرنے سے پہلے خود قربانی پیش کرتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جتنا بھی ہوسکتا تھا دوسروں کو خطرات سے نکالنے کی کوشش کرتے تھے، چاہے اس کے بدلے میں اپنے ہی رشتہ داروں کو خطرات میں جھونک دینا پڑتا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جھونک دیتے_

اور یہ ایسی بات ہے جسے ہر اعلی مقصد رکھنے والے شخص ، سیاست دان اور ہر لیڈر کے لئے بہترین نمونہ عمل ہونا چاہئے_ اسے چاہئے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے خود قربانی پیش کرے ، پھر اگر اسے دوسروں کی قربانیوں کی ضرورت پڑی تو اس کے پاس قربانی طلب کرنے کا جواز ہوگا اور ہر کوئی یہ کہے گا کہ وہ اپنے مطالبے میں سچا اور حق بجانب ہے_ اور اسے عملی طور پر اپنے اغراض و مقاصد کی طرف بڑھنے کی بجائے مضبوط قلعوں میں بیٹھ کر صرف دوسروں کو زبانی کلامی احکام صادر کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو اس ہدف کی طرف پیش قدمی کرنے والوں سے مستثنی سمجھ کر دوسروں پر صرف حکم

____________________

۱) انساب الاشراف ج ۲ ص ۸۱ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۵ ص ۷۷ ، کتاب صفین مزاحم ص ۹۰ ، نہج البلاغہ حصہ خطوط خط نمبر ۹ ، العقد الفرید ج ۴ ص ۳۳۶، المناقب خوارزمی ص ۱۷۶ و نہج البلاغہ ج ۳ ص ۱۰ و ص ۱۱_

۲۶۷

چلانے پر اسے اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے بھی دوسروں کے شانہ بشانہ اپنے مقصد کی طرف بڑھنا چاہئے بلکہ اسے دوسروں سے آگے آگے ہونا چاہئے کیونکہ ہدف چاہے کتنا ہی بلند ، اعلی اور مقدس ہولیکن پھر بھی اس کی جانب پیش قدمی پر اکسا نے اور ابھارنے کے لئے صرف باتوں کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی خاطر خواہ نتیجہ نکلتا ہے بلکہ اس کے ساتھ عمل کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے_

ج : شیبہ کا توہین آمیز رویہ:

ہم نے وہاں یہ بھی مشاہدہ کیا کہ حضرت حمزہ کے اپنے آپ کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے شیر کہنے پر شیبہ نے ان کا کس طرح مذاق اڑایا اور اپنے '' حلفائ''کے شیر ہونے پروہ کس طرح اکڑ رہا تھا _ حالانکہ انصاف کا تقاضا اور حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے_ ان حلفاء کے خاص مفاد اور قبائلی طرز تفکر پر مبنی حلف کے بعض پست اور بے وقعت اہداف و مقاصد پر ہم پہلے روشنی ڈال چکے ہیں_ انہی مقاصد کے حصول کے لئے وہ بدر جیسی جنگیں لڑ رہے تھے_ اور ہم سب کو معلوم ہے بلکہ ان مشرکوں کو بھی معلوم تھا کہ خدا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور شیر خدا کے روئے زمین پر قربانی دینے کا مقصد صرف اور صرف دنیا اور آخرت میں انسانیت کی نجات ، بھلائی اور کامیابی ہے_

د: خدا کی طرف سے مسلمانوں کو ملنے والا حق:

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ کو نسا حق تھا جس کی طرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام ، حضرت حمزہ اور جناب عبیدہ کو جنگ کا حکم دیتے ہوئے یوں اشارہ فرمایا تھا :'' ان سے اپنے اس حق کا مطالبہ کرو جسے خدا نے تمہارے لئے قرار دیا ہے''_ کیا یہ وہی عقیدے اور فکر کی آزادی کا حق نہیں تھا؟ اور کیا یہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والے، انہیں اپنے ہی گھروں سے نکال باہر کرنے والے اور ان کا مال لوٹنے والے بلکہ کئی مسلمانوں کو قتل کرنے والے اور ان سب پربد ترین زیادتیوں کے مرتکب ہونے والے قریشیوں اور ان کے حملے کے مقابلے میں دین الہی اور اپنی ذات کے دفاع کا حق نہیں تھا؟

۲۶۸

خلاصہ کلام : یہ کہ مسلمان آزاد زندگی گذارنا چاہتے تھے اور منحرفوں اور ظالموں کے مقابلے میںدین الہی کا دفاع کرنا چاہتے تھے _ اور مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر ظلم اور زیادتی کرنے والے سے انصاف کا مطالبہ کرے_ خاص کر جب حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبی کریم نے ان مشرکین کے سامنے وہ مذکورہ پیشکش رکھی تھی لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھول کر بھی باز نہیں آئے بلکہ وہ پھونکوں سے چراغ الہی کو بجھانے ، مسلمانوں سے جنگ کرنے اور انہیں نیچاد کھانے پر بضدر ہے ، اسی لئے خداوند عالم کو یہ کہنا پڑا( اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا و ا ن الله علی نصرهم لقدیر الذین اخرجوا من دیارهم بغیر حق الّا ان یقولوا ربنا الله ) (۱)

جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے

جب ابوجہل نے عتبہ ، شیبہ اور ولید کو قتل ہوتے دیکھا تو حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگا : '' ربیعہ کے بیٹوں کی طرح جلد بازی اور تکبر نہ کرو _ ایسا کرو کہ یثرب والوں ( یعنی انصاریوں ) پر حملہ کر کے ان سب کو گا جرمولی کی طرح کاٹ کر رکھ دو اور قریشیوں کو اچھی طرح کس کر قید کر لو تا کہ انہیں مکہ لے جا کر ان سے اچھی طرح پوچھ گچھ کریں کہ وہ کس گمراہی پر تھے ''_

اور ابن عباس اس آیت( و ما رمیت اذ رمیت و لکن الله رمی ) کے متعلق کہتا ہے کہ حضرت جبرائیلعليه‌السلام کے کہنے پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو حکم دیا:'' مجھے مٹھی بھر کنکریاں اٹھا کردو '' _ حضرت علیعليه‌السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مٹھی بھر چھوٹے سنگریزے اٹھا کردیئے ایک روایت کے مطابق وہ مٹی سے بھی اٹے ہوئے تھے ) _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ کنکریاں لے کر مشرکوں کے چہروںکی طرف (شاہت الوجوہ کہہ کر) پھینک دیں تو تمام مشرکوں کی آنکھیں کنکریوں سے بھرگئیں _ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ کنکریاں ان کی آنکھوں کے علاوہ ان کے منہ اور ناک کے نتھنوں میں بھی جا پڑیں _ پھر تو مسلمانوں نے انہیں یکے بعد دیگرے قتل یا قید کرنا شروع کردیا(۲) البتہ یہاں ابن عباس کا کام فقط مذکورہ آیت کو اس معجزاتی عمل سے مطابقت دینا تھا_

____________________

۱) حج / ۳۹و ۴۰_ (۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۲۹ از تفسیر ثعلبی ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۹ نیز ملاحظہ ہو سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۷_

۲۶۹

جنگ بدر میں فرشتوں کا کردار

علماء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ خدا نے جب فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجا توکیا وہ صرف مسلمانوں کی ڈھارس بندھانے اور بزدلی دور کرنے کے لئے آئے تھے یا انہوں نے خود بھی جنگ میں حصہ لیا تھا؟_ البتہ قرآن مجید کی یہ آیت اس دوسرے نظریئےو رد کرتی ہے( وما جعله الّا بشری و لتطمئن به قلوبکم ) (۱) ترجمہ : '' اور خدا نے فرشتوں کو صرف کامیابی کی خوشخبری دے کر بھیجا تا کہ اس طریقے سے تمہارے دل مطمئن ہوں '' _ لیکن چند ایک دیگر آیتیں ان کے جنگ میں شریک ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں _ سورہ انفال کی یہ بار ہویں آیت بھی ان میں سے ہے _( اذ یوحی ربک الی الملائکه انی معکم فثبتو االذین آمنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب ، فاضربوا فوق الاعناق و اضربوا منهم کل بنان ) ترجمہ : ( یاد کرو اس وقت کو ) جب تمہارے ربّ نے فرشتوں کو یہ وحی کی کہ (مسلمانوں کو جا کر خوشخبری دوکہ گھبراؤ نہیں) میں تمہارے ساتھ ہی ہوں اور مؤمنوں کو ثابت قدم رکھو _ میں عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوںگا _ تو جا کر ان کے پس گردن بلکہ ہر طرف سے وار کرو '' _ البتہ یہ اشارہ اس صورت میں قابل قبول ہوگا جب آیت میں (فاضربوا ...) کے مخاطب فرشتے ہوں ، جس طرح کہ آیت سے بھی بظاہر یہی لگتا ہے _ لیکن اگر اس آیت میں مخاطب مسلمان جنگجو ہوں تو پھر اس آیت میں بھی فرشتوں کے جنگ کرنے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ہوگا _

بہر حال صورتحال جو بھی ہو ، ایک بات مسلم ہے کہ تمام فرشتے حضرت علی علیہ السلام کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے(۲) اور ہوسکتا ہے کہ وہ کافروں کی نظر میں مسلمانوں کی تعدا د زیادہ دکھانے کا سبب بنے ہوں

____________________

۱) انفال / ۱۵ _

۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۸۵ از المناقب ، لیکن دیگر مؤرخین سے مروی ہے کہ وہ فرشتے زبیر کی شکل و صورت میں نازل ہوئے _ کیونکہ زبیر کے سر پر زرد عمامہ (پگڑی ) تھا اور ملائکہ بھی سر پر زرد عمامے باندھے ان پر نازل ہوئے _ اس بارے میں ملاحظہ ہو: مستدرک حاکم ج ۳ ص ۳۶۱ ، حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۸۶ از مستدرک و کنز العمال ص ۲۶۸ از طبرانی و ابن عساکر و مجمع الزوائد ج ۶ ص ۸۴ لیکن مذکورہ بات کی نفی دلائل النبوہ ابو نعیم ص ۱۷۰ و حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۸۶ میں مذکور وہ روایتیں کرتی ہیں جن میں آیا ہے کہ جنگ بدر کے دن ملائکہ سر پر سفید عمامہ باندھے نازل ہوئے تھے _

۲۷۰

کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے( و یکثر کم فی اعینهم ) '' اور خدا نے ان کی آنکھوں میں تمہیں کثیر جلوہ گر کیا ''_

جنگ جمل میں بی بی عائشہ کا کردار

اسی مناسبت سے ہم یہاں یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ ( آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نقل کرتے ہوئے ) جنگ جمل میں بی بی عائشہ نے بھی کہا تھا کہ مجھے مٹھی بھر مٹی چاہئے _ جب اسے مٹی فراہم کی گئی تو بدروالوں کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سلوک کی طرح اس نے بھی حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرف رخ کر کے اس پر پھونک مارتے ہوئے کہا : '' شاہت الوجوہ '' (چہرے بگڑ جائیں ) _ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :( و ما رمیت از رمیت و لکن الشیطان رمی و لیعودن و بالک علیک ان شاء الله ) ( شیطان نے تمہارے ذریعہ یہ مٹی پھینکی ہے _ اس کا برا انجام بھی انشاء اللہ تمہاری ہی گردن پکڑے گا)(۱) _

اسی طرح جب بی بی عائشہ نے حضرت علی علیہ السلام کو جنگ جمل میں اپنی فوج کی صفوں میں ایسے چکر لگاتے ہوئے دیکھا جیسے جنگ بدر میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنی فوج کی صفوں کی نگرانی کر رہے تھے ، تواس نے کہا : ''اسے دیکھو تو سہی مجھے تو لگتا ہے کہ وہ تم پر کامیابی کے لئے دوپہر کے وقت سورج کے زوال کا انتظار کر رہا ہے ''(۲) اور ہوا بھی ایسے ہی ، نیز اس موقع پر بھی امیرالمؤمنین حضرت علیعليه‌السلام نے بالکل سچ فرمایا تھا_

شکست اور ذلت

بہر حال خدا نے مشرکین کو بہت بری طرح شکست سے دوچار کیا _ اس جنگ میں ابوجہل بھی ماراگیا _

____________________

۱) کتاب الجمل شیخ مفید ص ۱۸۶ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱ ص ۲۵۷ نیز ملاحظہ ہو الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۳۲۵_

۲) الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۲۱۴ _ یہاں بدر اور جمل کے واقعات اور شخصیتوں کے کردار و گفتار کی عینی یا عکسی مشابہت بھی نہایت حیرت انگیر ہے البتہ یہاں تفصیل کی گنجائشے بالکل نہیں ہے لیکن ذہین قارئین سے بھی پوشیدہ نہیں ہے _ مترجم

۲۷۱

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اسے پہلے ہی پیشین گوئی کردی تھی کہ خدا اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے کمزور صحابی کے ہاتھوں مارے گا _ بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وقوعہ سے پہلے ہی اسے جنگ بدر کا سارا واقعہ بتا دیا تھا(۱) _ تو اسے ایک انصاری نے قتل کردیا تھا پھر ابن مسعود نے آکر اس کا سر کاٹ دیا تھا_ یہ بھی منقول ہے کہ ابن مسعودنے اسے آخری سانسوں میں پایا تو اس نے آکر اس کا کام تمام کردیا _ لیکن پہلی بات حقیقت سے قریب ترہے اس لئے کہ اس کا سامان ابن مسعود کے علاوہ کسی اور نے غنیمت کے طور پر لوٹا تھا _

جنگ بدر کا سب سے پہلا بھگوڑا ابلیس ملعون تھا _ کیونکہ روایات کے مطابق وہ مشرکین کو قبیلہ بنی کنانہ کے ایک بزرگ سراقہ بن مالک مدلجی کی شکل میں دکھائی دیتا تھا _ اور وہ اس لئے کہ قریش قبیلہ بنی بکر بن عبد مناف کو کسی خونی معاملے کی وجہ سے اپنے ساتھ ملانے سے ڈرتے تھے جس کی وجہ سے ابلیس قریشیوں کو سراقہ کی شکل میں نظر آیا اور انہیں مطلوبہ ضمانت فراہم کی اور وہ سب ساتھ ہولئے _ لیکن جب اس نے مشرکین کی حالت زار دیکھی اور مسلمانوں کی مدد کو آئے ہوئے ملائکہ کو بھی مشاہدہ کیا تو وہ اس کام سے پیچھے ہٹ گیا جس کی وجہ سے مشرکین شکست کھا گئے تو مکہ والے یہ کہنے لگے کہ سراقہ بھاگ گیا _ لیکن ( اصلی ) سراقہ نے کہا : '' مجھے تو تمہارے جانے کا بھی اس وقت پتہ چلا جب تمہاری شکست کی خبر مجھے ملی '' _ پھر انہیں مسلمان ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ تو شیطان تھا _

یہ بھی مروی ہے کہ جب ابوسفیان نے قافلہ کو مکہ پہنچادیا تو خود واپس پلٹ آیا اور قریش کی فوج کے ساتھ مل کر بدر کے میدان تک آیا _ اور اس جنگ میں اسے بھی کئی زخم لگے اور وہ واپس بھاگتے ہوئے گھوڑے سے گرپڑا اور پھر پیدل ہی مکہ جاپہنچا(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۶۷ از الاحتجاج و حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے منسوب تفسیر ص ۱۱۸ و ص۱۱۹

۲) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵_

۲۷۲

دوسری فصل:

جنگ کے نتائج

۲۷۳

جنگ کے نتائج :

جنگ بدر میں مشرکین کے ستر آدمی مارے گئے اور اتنے ہی قید کرلئے گئے _ البتہ یہ بھی منقول ہے کہ پینتالیس آدمی قتل اور اتنے ہی قیدی ہوئے _ لیکن ہوسکتا ہے اس دوسرے نظریئےی بنیاد بعض مؤرخین کی یہ بات ہو کہ مذکورہ مقدار میں یا اس سے زیادہ مشرکین قتل ہوگئے _ جس سے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ان کے مقتولین اور قیدیوں کی آخری تعداد ہے _ لیکن مذکورہ بات اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ مقتول مشرکین کی کل تعداد اتنی تھی بلکہ صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ راوی کو اتنی تعداد کا علم ہوسکا ہے _

لیکن مسلمانوں کے شہدا کے متعلق مختلف نظریات ذکر ہوئے ہیں _ نو بھی مذکور ہے ، گیارہ بھی اور چودہ شہیدوں کا نظریہ بھی ہے کہ جس میں سے چھ مہاجر تھے اور آٹھ انصاری _ البتہ قید کوئی نہیں ہوا تھا _ جبکہ مال غنیمت میں مشرکین کے اڑھائی سو اونٹ ، دس گھوڑے ( البتہ ابن اثیر کے مطابق تیس گھوڑے ) اور بہت زیادہ ساز و سامان ، اسلحے ، چمڑے کے بچھونے ، کپڑے اور چمڑے مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے(۱) _

حضرت علی علیہ السلام کے کارنامے:

مشرکین کے اکثر مقتولین ، مہاجرین بالخصوص آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ داروں اور خاص کر خود حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے تھے_ اور اس دن کافروں کو بہت بڑی مصیبت ، اور شکست دینے کی وجہ سے کافروں نے آپعليه‌السلام کو '' الموت الاحمر'' ( سرخ موت ) کا نام دیا(۲) _

____________________

۱) المغازی واقدی ج ۱ ص ۱۰۲ و ۱۰۳ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۱۸ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۸۳_

۲) المناقب ابن شہر آشوب ج ۲ ص ۶۸_

۲۷۴

اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ شبعی ہمیں یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ '' پورے عرب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ علیعليه‌السلام سب سے زیادہ بہادر شخصیت تھے''(۱) _ اور گذشتہ فصل میں '' جنگ کی ابتدا'' کے تحت عنوان حسان بن ثابت کے اشعار کے جواب میں قبیلہ بنی عامر کے ایک آدمی کے اشعار اور اپنے مقتولین کے مرثیہ میں ہندہ کے اشعار بھی اس بارے میں ذکر ہوچکے ہیں _

نیز مشرکین قریش کو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف بھڑکاتے ہوئے اسید بن ابی ایاس نے مندرجہ ذیل اشعار کہے:

فی کل مجمع غایة اخزاکم

جذع ابرعلی المذاکی القرح

لله درکم المّا تنکروا

قد ینکر الحر الکریم و یستحی

هذا ابن فاطمة الذی افناکم

ذبحاً و قتلاً قعصة لم یذبح

اعطوه خرجاً و اتقوا تضریبه

فعل الذلیل وبیعة لم تربح

این الکهول و این کل دعامة

فی المعضلات و این زین الابطح

افناهم قعصاً و ضرباً یفتری

بالسیف یعمل حده لم یصفح(۲)

____________________

۱) نور القبس ص ۲۴۹_

۲) اسد الغابہ ج ۴ ص ۲۰ و ۲۱ ، زندگی امام علیعليه‌السلام در تاریخ دمشق باتحقیق محمودی ج ۱ ص ۱۵ ، ارشادمفید ص ۴۷ ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۱ ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۸۲ ، انساب الاشراف با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۱۸۸ و تیسیر المطالب ص ۵۰ _

۲۷۵

ہر ٹکراؤ پر آخر کار اس نے تمہیں خوار کیا _ سوئی کی طرح کا ایک لاغر آدمی اچھے بھلے شہ زوروں پر غالب آرہا ہے _ تمہیں خدا کا واسطہ بتاؤ کیا اب بھی تمہیں شرمندگی محسوس نہیں ہوئی؟ حالانکہ ان باتوں سے تو کسی بھی شریف آزاد خیال آدمی کو بھی شرمندگی اور پچھتا وا ہوسکتا ہے _ یہ فاطمہ ( بنت اسد ) کا چھوکرا تمہیں گا جرمولی کی طرح کاٹ کاٹ کر نیست و نابود کرتا جارہا ہے _ اس کے تند و تیز مہلک وار سے بچ بچا کر اسے اپنے اس پست کام اور بے فائدہ بیعت کا مزاچکھاؤ _ کہاں ہیں وہ بزرگ ، کہاں ہیں مشکلات میں وہ پناہ گا ہیں اور کہاں ہیں مکہ اور بطحاء کے سپوت _ علیعليه‌السلام نے ہی انہیں فوری موت کا مزہ چکھایا ہے _ اس نے تلوار کے ایک ہی وار سے ان کا کام تمام کردیا ہے _ وہ اکیلے ہی یہ کام کررہا ہے اور کسی کو معاف بھی نہیں کر رہا _

وہ علیعليه‌السلام کو سرخ موت کیوں نہ کہتے ؟ جبکہ بعض روایات کے مطابق جنگ بدر میں ہی جبرائیلعليه‌السلام نے آسمان اور زمین کے درمیان آکر ندادی :

(لافتی الّا علی لا سیف الّا ذوالفقار )

( جوان ہے تو صرف علیعليه‌السلام ہے اور تلوار بھی ہے تو صرف ذوالفقار ہی ہے )

البتہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جبرائیل نے یہ صدا جنگ احد میں لگائی تھی _ انشاء اللہ اس بارے میں مزید بات بعد میں ہوگی _ بہر حال مشرکین کے ستر مقتولین میں سے آدھے کو حضرت علیعليه‌السلام نے بذات خود اکیلے ہی واصل جہنم کیا تھا اور باقی نصف کے قتل میں بھی شریک رہے تھے(۱) _ اور شیخ مفید نے تو حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والے چھتیس مشرکین کا نام بھی ذکر کیا ہے(۲) _ ابن اسحاق کہتا ہے کہ جنگ بدر میںاکثرمشرکین کو حضرت علی علیہ السلام نے ہی قتل کیا تھا(۳) _ طبرسی اور قمی کہتے ہیں کہ آپعليه‌السلام نے ستائیس

____________________

۱) ملاحظہ ہو : دلائل الصدق ج ۲ ص ۳۵۳ کے ضمن میں نہج الحق _ اور اس بات پر فضل ابن روز بہان جیسے متعصب نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا _

۲) الارشاد ص ۴۳ و ۴۴ ، بحارالانوار ج ۱۹ ص ۲۷۷ و ۳۱۶از الارشاد و اعلام الوری ص ۷۷_

۳) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۰ و بحارالانوار ج ۱۹ص ۲۹۱

۲۷۶

مشرکوں کو قتل کیا(۱) _ جبکہ اسامہ بن منقذ کہتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ مشرکوں کے قتل میں شریک ہونے کے علاوہ چوبیس کو آپعليه‌السلام نے بذات خود قتل کیا(۲) _ شبلنجی کہتا ہے کہ '' بعض مؤرخین کے بقول غزوہ نویسوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنگ بدر میں کل ستر آدمی قتل ہوئے تھے اور راویوں کے متفقہ فیصلے کے مطابق ان میں سے اکیس آدمیوں کو صرف حضرت علیعليه‌السلام نے قتل کیا اور چار کے قتل میں دوسروں کا ساتھ دیا البتہ آٹھ مقتولین کے قاتل کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ''(۳) _ واقدی نے کل بائیس مقتولین کا نام لیا ہے جن میں سے اٹھارہ حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے جبکہ چار کے متعلق اختلاف ہے(۴) اور معتزلی اور ابن ہشام نے ( بالترتیب) کہا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام نے انتیس مشرکوں کو فی النار کیا یا کل باون مقتولین میں سے اتنے کے قتل میں دوسروں کا ساتھ دیا(۵) لیکن تعدا دمیں یہ اختلاف زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے کیونکہ ان مقتولین کا نام ذکر کرنے والے مؤرخین نے تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ پچاس کے لگ بھگ مقتولین کا نام ذکر کیا ہے(۶) _ ان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے ان میں سے نصف یا اس سے بھی زیادہ تعداد کو قتل کیا اور اگر یہ لوگ باقی افراد کا نام بھی جان لیں تو یقینا ( دوسروں کے ساتھ مشرکین کے قتل میں شراکت کے علاوہ ) خود حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد ستر کے نصف بلکہ اس سے بھی زیادہ تک پہنچ جائے گی _ حقیقت تو بالکل یہی ہے لیکن ان مذکورہ مؤرخین کے بعد آنے والے مؤرخین نے ان پچاس افراد کو (جنہیں مذکورہ افراد نے پچاس کے ضمن میںنام کے ساتھ ذکر کیا ہے ) کل تعداد سمجھ لیا ہے حالانکہ یہ تعداد کل تعداد کا ایک حصہ ہے _ یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ بعض مؤرخین جن افراد کا نام ذکر کرتے ہیں ان

____________________

۱) ملاحظہ ہو ، تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۷۱ و بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۴۰ از مجمع البیان

۲) لباب الآداب ص ۱۷۳ (۳) نور الابصار ص ۸۶ (۴) المغازی واقدی ج ۱ ص ۱۴۷ تا ص ۱۵۲

۵) ملاحظہ ہو : سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۶۵ تا ص ۳۷۲ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۰۸ تا ۲۱۲

۶) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۱۲ و ابن ہشام و واقدی و غیرہ

۲۷۷

سے دیگر مؤرخین بالکل ناواقف ہیں اور اسی طرح معاملہ برعکس بھی ہے _ اور یہ چیزہماری اور شیخ مفید و غیرہ کی باتوں کی تائید اور تاکید کرتی ہے _

بہرحال ، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والے لوگوں میں مندرجہ ذیل افراد بھی تھے _ طعیمہ بن عدی ، ابوحذیفہ بن ابوسفیان ، عاص بن سعید بن عاص( جس سے سب لوگ ڈرتے تھے) ، نوفل بن خویلد ( یہ قریش کا شریر ترین آدمی تھا ) اور عاص بن ہشام بن مغیرہ(۱) _

ایک اور جھوٹی روایت

بعض لوگوں کے گمان میں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو جناب عمر بن خطاب نے ہی ہلاک کیا تھا(۲) وہ روایت کرتے ہیں کہ عمر نے سعید بن عاص سے کہا : '' میں نے تمہارے باپ کو نہیں بلکہ اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا تھا ''(۳) _

لیکن یہ مشکوک بات ہے کیونکہ :

مذکورہ عاص ، عمر کا ماموں نہیں تھا _ اس لئے کہ عمرکی ماں حنتمہ ہشام بن مغیرہ کی نہیں بلکہ ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھی _ اور جن علماء نے اسے ہشام کی بیٹی کہا ہے(۴) انہوں نے غلط کہا ہے _ ابن حزم کہتا ہے : '' ہاشم کا حنتمہ کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں تھا ''(۵) اور ابن قتیہ نے کہا ہے : '' اور عمر بن خطاب کی ماں ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی حنتمہ تھی جو عمر کے باپ کی چچا زاد تھی ''(۶) _

بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حنتمہ سعید بن مغیرہ کی بیٹی تھی(۷) _

____________________

۱) المنمق ص ۴۵۶ وا لاغانی مطبوعہ ساسی ج ۳ ص ۱۰۰_ (۲) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۶۸ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۵ و نسب قریش مصعب زبیری ص ۳۰۱_ (۳) المغازی واقدی ج ۱ ص ۹۲ ، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۸۹ ، نسب قریش مصعب زبیری ص ۱۷۶ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۹۰ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۱ ، حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۳ و الاصابہ و الاستیعاب _ (۴) تاریخ عمر بن خطاب ابن جوزی ص ۱۹_ (۵) جمہرة انساب العرب ص ۱۴۴_

۶) الشعر و الشعراء ص ۳۴۸_ (۷) تاریخ عمر بن الخطاب ابن جوزی ص ۲۰_

۲۷۸

البتہ بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ اس نے اسے اپنا ماموں کہہ کر اس سے اپنا مادری قبلیہ مراد لیا ہے کیونکہ عرب لوگ اپنے مادری قبیلہ کے ہر فرد کو اپنا ماموں کہتے تھے جیسا کہ شاعر کا کہنا ہے :

ولو انی بلیت بهاشمی

خؤولته بنی عبدالمدان

اور چاہے میں اس ہاشمی کے چنگل میں پھنس جاؤں جن کے ماموں بنی عبدالمدان کا قبیلہ ہے_

لیکن یہ احتمال اس کی باتوں سے ناسازگار ہے کیونکہ '' خالی '' ( میر اماموں ) کے لفظ سے ذہن میں فوراً حقیقی اور سگے ماموں کا تصور بھر تا ہے _ اور لفظ'' اخوال'' ( میرے ماموں ) کے مادری قبیلے پر اطلاق کا یہ لازمہ نہیں ہے کہ یہ بات بھی صحیح سمجھی جائے کہ کوئی شخص '' خالی '' ( میرا ماموں ) کہہ کر مادری قبیلے کا ایک فرد مراد لے جبکہ وہ اس کا سگا ماموں ہو ہی نہ _ پس یہ کہنا تو صحیح ہے کہ '' بنو مخزوم اخوالنا '' (قبیلہ بنی مخزوم ہمارا مادری قبیلہ ہے ) لیکن '' فلان المخزوی خالی '' (قبیلہ بنی مخزوم کا فلاں شخص میرا ماموں ہے _ جبکہ وہ سگا نہ ہو یہ ) کہنا صحیح نہیں ہے _ اس لئے کہ دوسرے جملے سے حقیقی اور سگا ماموں مراد لیا جاتا ہے _

بلکہ بعض مؤرخین نے تو حنتمہ کو مخزومی ( قبیلہ بنی مخزوم کی عورت ) بھی ماننے سے سرے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہاشم نے اسے راستے میں پڑا ہوا دیکھا تو اسے اٹھا کر ساتھ لے آیا اور اسے پال پوس کر اس کی شادی خطاب سے کردی _ اس کی پرورش کرنے اور پالنے پوسنے کی وجہ سے عرب اپنی عادت کی بناپر حنتمہ کو ہاشم کی بیٹی کہا کرتے تھے(۱) _

تو پھر صحیح کیا ہے ؟

ہو سکتا ہے کہ ابن ابی الحدید معتزلی اور شیخ مفید کی بیان کی ہوئی مندرجہ ذیل روایت زیادہ معتبر ، حقیقت

____________________

۱) د لائل الصدق ج ۳ حصہ ۱ ص ۵۶_

۲۷۹

سے قریب تر اور اس وقت کے سیاسی حالات اور سیاسی فضا کے مناسب تر ہو _اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ عثمان بن عفان اور سعید بن عاص حضرت عمر کی خلافت کے ایام میں اس کے پاس آئے _ عثمان تو اس محفل میں اپنی پسندیدہ جگہ پر آکر بیٹھ گیا لیکن سعید آکر ایک کونے میں بیٹھ گیا تو عمر نے اسے دیکھ کر کہا:'' تم مجھ سے کترا کیوں رہے ہو ؟ ایسے لگتا ہے جیسے میں نے ہی تمہارے باپ کو قتل کرڈالا ہو اسے میں نے نہیں ابوالحسن ( حضرت علیعليه‌السلام ) نے قتل کیا ہے '' ( البتہ شیخ مفید کی روایت میں یوں آیا ہے کہ پھر عمر نے کہا : ''جب میں نے تمہارے باپ کو لڑائی کے لئے تیار دیکھا تو اس سے ڈرگیا اور اس سے ادھر ادھر ہونے لگا تو اس نے مجھ سے کہا کہ خطاب کے بیٹے کہاں بھاگے جا رہے ہو ؟ لیکن علیعليه‌السلام اس کی طرف آیا اور اسے جالیا _ ابھی خدا کی قسم میںا پنی جگہ سے ہلا بھی نہیں تھا کہ اس نے اسے وہیں مارڈالا ) _ وہاں حضرت علی علیہ السلام بھی موجود تھے، انہوں نے کہا : '' خدایا معاف کرنا _ شرک اپنی تمام برائیوں سمیت مٹ گیا اور اسلام نے گذشتہ تمام نقوش مٹادیئےیں _ لیکن تم کیوں لوگوں کو میرے خلاف بھڑکا رہے ہو؟'' عمر اس بات کا جواب نہ دے پایا_ لیکن سعید نے جواب میں کہا : '' لیکن اگر میرے باپ کا قاتل اس کے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو پھر مجھے اس کا افسوس ہوتا ''(۲) _

پس اس روایت میں یہ بات تو ملتی ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے عمر کی جان بچائی لیکن یہ بات نہیں ملتی کہ عمر نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا ہو _ البتہ ( جس طرح پہلے بتا چکے ہیں) عاص ، عمر کا ماموں بھی نہیں تھا یا کم از کم اس کا عمر کا ماموں ہونا نہایت مشکوک ہے _ نیز اس روایت میں خاص کر سعید اور حضرت علی علیہ السلام کی باتوں میں کئی اور اشارے بھی ملتے ہیں _صاحبان فہم کو غور و فکر کی دعوت ہے_

نکتہ

جنگ بدر اور جنگ احد و غیرہ نے مشرکین کے دلوں پر حضرت علی علیہ السلام کی بہت زیادہ دھاک

____________________

۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۴ ۱ ص ۱۴۴ و ص ۱۴۵ و الارشاد ص ۴۶_

۲۸۰

بٹھادی تھی _ حتی کہ یہ بھی منقول ہے کہ قریشی جب بھی حضرت علی علیہ السلام کو کسی لشکر یا گروہ میں دیکھ لیتے تو ایک دوسرے کو وصیتیں کرنے لگ جاتے تھے_

ایک مرتبہ جب آپعليه‌السلام نے دشمن کی فوج کو تتر بتر کردیا تو ایک شخص نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھ کر کہا:''مجھے ایسے لگا کہ ملک الموت(موت کا فرشتہ) بھی اسی طرف جاتا ہے جس طرف علیعليه‌السلام جاتا ہے''(۱) _

مشرکین کے مقتولین ، کنوئیں میں:

جنگ ختم ہونے پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں موجود ایک کنوئیں کو مٹی سے بند کراکے مشرکین کی لاشوں کو اس میں ڈالنے کا حکم دیا تو سب لاشیں اس میں ڈال دی گئیں، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ایک مقتول کا نام لے کر پکارتے ہوئے پوچھا _''کیا تم لوگوں نے اپنے خداؤں کے وعدہ کی حقیقت دیکھ لی ہے ؟ میں نے تو اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا ہے _ تم اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بدترین قوم تھے _ تم نے مجھے جھٹلایا لیکن دوسرے لوگوں نے میری تصدیق کی ، تم نے مجھے در بدر کیا لیکن دوسرے لوگوں نے مجھے ٹھکانہ دیا اور تم نے مجھ سے جنگ کی جبکہ دوسروں نے میری مدد کی '' یہاں عمر نے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرنے والوں سے باتیں کر رہے ہیں؟''_ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' وہ میری باتیں تم لوگوں سے زیادہ سن اور اچھی طرح سمجھ رہے ہیں لیکن وہ میری باتوں کا جواب نہیں دے سکتے''(۲) _ لیکن بی بی عائشہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس بات ''انہوں نے میری باتیں سن لی ہیں''کاانکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''وہ میری باتیں پہلے سے ہی جان چکے تھے''_ اور اپنی مذکورہ بات کی دلیل کے طور پر یہ آیتیں پیش کی ہیں (انک لا تسمع الموتی)ترجمہ : '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مردوں کو کوئی بات نہیں سنا سکتے'' _ اور (و ما انت بمسمع من فی القبور )(۳) ترجمہ : '' اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبر میں لیٹے مردوں کو کوئی بات نہیں

____________________

۱) محاضرات الادبا راغب اصفہانی ج ۲ ص ۱۳۸_ (۲) ملاحظہ ہو : فتح الباری ج ۷ ص ۲۳۴ و ص ۲۳۴ نیز اسی مقام پر حاشیے میں صحیح بخاری ، الکامل ابن اثیر ، ج ۲ ص ۲۹ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۶ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲ و حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۳ و ص ۳۳۴_

۳) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲ ، نیز ملاحظہ ہو : مسند احمد ج ۲ ص ۳۱ و ص ۳۸ و دیگر کتب _

۲۸۱

سنا سکتے''_ لیکن بخاری میں قتادہ سے مروی ہے کہ خدا نے ان کی روحوں کو ان کے جسم میں واپس لوٹا دیا جس کی وجہ سے انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتیں سن لیں_ اور بیہقی نے بھی یہی جواب دیا(۱) _

لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر قتادہ کی بات صحیح ثابت ہوجائے تو یہ سردار انبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک معجزہ ہوگا_

البتہ حلبی نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ مردوں کا حقیقت میں سننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیونکہ جب ان کی روحوں کا ان کے جسموں سے مضبوط تعلق پیدا ہوجائے تو ان کے کانوں سے سننے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے _ اس لئے کہ سننے کی یہ حس ان کے اندر باقی رہتی ہے _ اور مذکورہ دو آیتوں میں جس سماع کی نفی کی گئی ہے وہ مشرکوں کو نفع پہنچانے والا سماع ہے _ اس کی طرف سیوطی نے بھی اپنے اشعار میں یوں اشارہ کیا ہے:

سماع موتی کلام الله قاطبة

جاء ت به عندنا الاثار فی الکتب

و آیة النفی معناها سماع هدی

لا یقبلون و لا یصغون للادب

تمام مردوں کے خدا کے کلام کو سننے کے متعلق ہماری کتابوں میں کئی روایتیں منقول ہیں _ اس لئے وہ قابل قبول ہے البتہ آیت میں جس سماع کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد ہدایت قبول کرنے والا سماع ہے کیونکہ وہ اپنی بے ادبی کی وجہ سے ہدایت کی ان باتوں پر کان نہیں دھرتے_

اس لئے کہ خدا نے زندہ کافروں کو قبر میں پڑے مردوں سے اس وجہ سے تشبیہ دی ہے کہ وہ نفع بخش اسلام سے کوئی نفع حاصل ہی نہیں کرنا چاہتے(۲) _

____________________

۱) ملاحظہ ہو : بخاری باب غزوہ بدر نیز ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۷۹ میں معتزلی کا بیان _

۲) ملاحظہ ہو : سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲_

۲۸۲

کیا '' مہجع'' سید الشہداء ہے؟

مؤرخین کہتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں دونوں فوجوں کی صفیں منظم ہوگئیں تو سب سے پہلے ''مھجع'' ( عمر کا غلام ) جنگ کرنے نکلا اور مارا گیا _ بعض مشائخ کے بقول '' امت محمدیہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اسے سب سے پہلا شہید کہا گیا'' _ اور اس کے متعلق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمایا کہ مھجع تمام شہیدوں کا سردار ہے(۱) _ لیکن یہ تمام باتیں مشکوک ہیں ، کیونکہ :

۱_ یہاں یہ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اس امت کا سب سے پہلا شہید مھجع کیوں کہلائے گا اور عمار کے والد جناب یا سریا ان کی والدہ جناب سمیہ اسلام کے پہلے شہید کیوں نہیں کہلائے جاسکتے ؟ حالانکہ یہ دونوں شخصیات جنگ بدر سے کئی برس پہلے شہید ہوئے_ نیز اسی جنگ بدر میں مھجع سے پہلے شہید ہونے والے عبیدہ بن حارث کو ہی اسلام کا سب سے پہلا شہید کیوں نہیں کہا جائے گا؟

۲_ ان کا یہ کہنا کہ صفوں کے منظم ہونے کے بعد وہ سب سے پہلے جنگ کرنے نکلا، ناقابل قبول ہے _ کیونکہ مسلمانوں سے سب سے پہلے حضرت علیعليه‌السلام ، جناب حمزہ اور جناب عبیدہ بن حارث جنگ کے لئے نکلے تھے_

۳_ ''مھجع'' کے سید الشہداء ہونے والی بات کے ساتھ یہ روایت کیسے جڑے گی کہ '' حضرت حمزہ '' سیدالشہداء ہیں ؟(۲) _ اس بات کا ذکر انشاء اللہ غزوہ احد کی گفتگو میں ہوگا_ وہ حضرت علیعليه‌السلام کا یہ شعر بھی خو دہی نقل کرتے ہیں کہ :

محمّد النبی اخی و صهری

و حمزة سیدالشهداء عمی(۳)

____________________

۱) سیرہ حلبیہ ۲ ص ۶۱ نیز ملاحظہ ہو : المصنف ج ۵ ص ۳۵۱_

۲) سیر اعلام النبلاء ج ۱ ص ۱۷۲ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۹۵و ص ۱۹۹ ، تلخیص ذہبی ( مطبوعہ بر حاشیہ مستدرک ) ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۲۶۸ ، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۵۷۱ و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۱۶۴ و ص ۱۶۵_

۳) روضة الواعظین ص ۸۷ ، الصراط المستقیم بیاضی ج ۱ ص ۲۷۷ ، کنز الفوائد کراجکی مطبوعہ دار الاضواء ج ۱ ص ۲۶۶ و الغدیر ج ۶ ص ۲۵ تا ۳۳ از نہایت کثیر منابع _

۲۸۳

نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ( چچا زاد ) بھائی اور میرے سسر ہیں اور سیدالشہدا جناب حمزہ میرے چچا ہیں _

اسی طرح خود حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اور سیدالشہداء حمزہ بھی ہم میں سے ہی ہیں''(۱) _

۴_ ان کی یہ بات کہ'' مھجع مسلمانوں کاپہلا شہید ہے'' اس بات کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں ''کے سب سے پہلے شہید عمیر بن حمام ہیں''(۲) ؟_

حلبی نے اس کی یہ راہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ عمیر انصاری مقتول تھا جبکہ اول الذکر مہاجر تھا _ لیکن پھر اس کا جواب یہ دیا ہے کہ سب سے پہلا انصاری شہید تو حارثہ بن قیس تھا _ لیکن اس جواب کو پھر خود اس نے ہی یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ حارثہ کسی نا معلوم تیر سے مارا گیا تھا اور اس کا قاتل نا معلوم تھا(۳) _

لیکن یہ واضح سی بات ہے کہ یہ صرف لفظوں کا کھیل ہے _ کیونکہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں اسلام کا سب سے پہلا شہید ہے یا بدر میں مسلمانوں کی طرف سے سب سے پہلا شہید ہے تو نہ ہی اس کے آلہ قتل کی کوئی بات ہوتی ہے نہ اس کے شہر یا علاقے کی اور نہ ہی اس کے قوم و قبیلہ کی _ و گرنہ بطور مثال یہ کہا جانا چاہئے تھا کہ فلاں مہاجرین کا سب سے پہلا شہید ہے اور فلاں انصار کا اولین شہید ہے_ یا فلاں سب سے پہلے تیر سے شہید ہوا یا نیزے سے شہید ہو ا یا اس طرح کی دیگر باتیں ہوتیں تو یہ اس کے مطلوب اور مقصود سے زیادہ سازگار ہوتا_ پھر بھی اگر حلبی کی بات صحیح مان لی جائے تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیدالشہداء کا لقب عمیر بن حمام ، عبیدہ یا حارثہ بن قیس کو چھوڑ کر صرف مھجع کو کیوں دیا گیا ؟ اور اسے ایسا لقب کس وجہ سے دیا گیا ؟ کیا اس وجہ سے کہ اس نے اسلام کی ایسی مدد اور حمایت کی تھی کہ دوسرے نہیں کر سکے تھے؟ یا یہ باقی دوسروں سے ذاتی اور اخلاقی فضائل کے لحاظ سے ممتاز حیثیت رکھتا تھا؟ یا صرف اس وجہ سے اسے سید الشہداء کا لقب ملا

____________________

۱) الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۱ ص ۲۷۳ و الاصابہ ج ۱ ص ۳۵۴ ، نیز ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج ۴۴ ص ۱۴۰ و المسترشد ص ۵۷_

۲) الاصابہ ج ۳ ص ۳۱ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۱_

۳) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۱_

۲۸۴

کہ وہ عمر بن خطاب کا غلام تھا؟ پس اس وجہ سے اس کے پاس ایسی فضیلت ہونی چاہئے جو سیدا لشہداء حضرت حمزہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ؟ ہمیں تو نہیں معلوم شاید سمجھدار قاریوں کو اس کا علم ہو_

ذوالشمالین:

بدر میں ذوالشمالین بھی رتبہ شہادت پر فائز ہوا ( اسے ذوالشمالین اس لئے کہتے تھے کہ وہ ہر کام اپنے دونوں ہاتھوں سے کیا کرتا تھا ) _ اس کا اصل نام عمیر بن عبد عمر و بن نضلہ بن عمر و بن غبشان تھا(۱) _ البتہ یہاں ( نعوذ باللہ ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھول چو ک اور ذوالشمالین کے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتراض کا ایک لمبا واقعہ مذکور ہے، لیکن چونکہ اسے '' سیرت سے متعلق چند ابحاث '' میں ذکر کریں گے اس لئے یہاں اس کے ذکر سے چشم پوشی کرتے ہیں _پس وہاں مراجعہ فرمائیں_

البتہ جنگ بدرسے متعلق دیگر حالات و واقعات کے بیان سے قبل درج ذیل نکات بیان کرتے چلیں:

الف : جنگ بدر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی خطیر مہم

امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام فرماتے ہیں:'' جنگ بدر کے موقع پر میں کچھ دیر جنگ کرتا اور کچھ دیر جنگ کرنے کے بعد میں یہ دیکھنے کے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا حال ہے اور کیا کر رہے ہیں_ میں ایک مرتبہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سجدے کی حالت میں '' یا حی یا قیوم ''کا ورد کر رہے ہیں اور اس سے آگے کچھ نہیں فرما رہے ،میں پھر واپس لڑنے کے لئے چلا گیا _ پھر کچھ دیر لڑنے کے بعد واپس آیا تو دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھی تک اسی ورد میں مصروف ہیں اسی لئے میں پھر واپس جنگ کرنے چلاگیا اور اسی طرح بار بار وقفے وقفے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خبرگیری کرتا رہا ، یہاں تک کہ خدا نے ہمیں فتح سے ہمکنار کیا''(۲)

____________________

۱) ملاحظہ ہو : سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۳۷ ، طبری اس کی تاریخ کے ذیل میں ص ۱۵۷، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۱ ص ۴۹۱، نسب قریش مصعب زبیری ص ۳۹۴ ، الاصابہ ج ۱ ص ۴۸۶ و طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۱۹_

۲) البدایة و النہایہ ج ۳ ص ۲۷۵ و ص ۲۷۶ از بیہقی و نسائی در الیوم واللیلة ، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۵۰۲ از مذکورہ و از کنز العمال ج ۵ ص ۲۶۷ از حاکم، بزار ، ابو یعلی و فریابی_

۲۸۵

البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سرے سے جنگ بدر میں شریک ہی نہیں ہوئے _ ہوسکتا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کے شروع میں مسلمانوں کا دل بڑھانے کے لئے شریک ہوئے ہوں اور جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ مقصد حاصل ہوگیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میدان جنگ سے علیحدہ ہوکر دعاؤں اور راز و نیاز میں مصروف ہوگئے ہوں(۱) _

چند نکات:

۱_ حضرت علی علیہ السلام ان سخت حالات میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسلسل خبرگیری کرتے رہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان جان لیوا گھڑیوں میں بھی ایک لحظہ اور ایک پل کے لئے بھی غافل نہیں ہوئے _ اسی طرح یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام دیگر مقامات اور حالات میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خبرگیری کرتے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور حمایت کو حضرتعليه‌السلام نے اپنے ذمہ لے لیا تھا _ کیونکہ یحیی سے مروی ہے کہ ہمیں موسی بن سلمہ نے یہ بتایا ہے کہ میں نے جعفر بن عبداللہ بن حسین سے حضرت علیعليه‌السلام ابن ابی طالب علیہما السلام کے (مسجد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں) ستون کی بابت پوچھا تو اس نے کہا :'' باب رسول اللہ کی طرف یہاں ایک حفاظتی چوکی تھی اور حضرت علی علیہ السلام اس میں تربت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رخ کرکے بیٹھتے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کیا کرتے تھے''(۲) _ سمہودی نے بھی اپنی کتاب میں اس ستون کا ذکر '' اسطوان المحرس '' ( حفاظتی چوکی والا ستون) کے نام سے کیا ہے(۳) _

۲_ ان سخت اور کٹھن گھڑیوں میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعا اور مبداء اعلی یعنی پروردگا ریکتا سے رابطے کا اہتمام قابل ملاحظہ ہے _ کیونکہ وہی اصل طاقت اور کامیابی کا سرچشمہ ہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کو یقین اور صبر

____________________

۱) گذشتہ بات معقول اور مسلم نظر آتی ہے البتہ لگتا یہی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے منہ میں خاک ڈال کر تھوڑی دیر جنگ میں مصروف رہے ہوں گے تا کہ مسلمانوں کی جنگ کے لئے حوصلہ افزائی ہو اور جب وہ جنگ میں مصروف ہوگئے ہوں گے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رن سے نکل کر مصلی میں مصروف دعا ہوگئے ہوں گے_ و اللہ العالم _ از مترجم _

۲) وفاء الوفاء ج ۲ ص ۴۴۸_

۳) ایضاً_

۲۸۶

عطا کرنے اور انہیں خدا کے لطف و عنایات کے شامل حال کرنے کے لئے خدا سے براہ راست رابطہ کئے ہوئے تھے کیونکہ خدا کے لطف و کرم کے بغیر نہ ہی فتح اور کامیابی امکان ہے اور نہ ہی کامیابی ملنے کی صورت میں اس کی کوئی قدر و قیمت ہے_

۳_ اسی طرح اس جنگ میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھانے والے حضرت علیعليه‌السلام کا خضوع و خشوع بھی لائق دید ہے_ انہوں نے پینتیس ۳۵ سے زیادہ آدمیوں کو بذات خود فی النار کیا تھا اور باقی پینتیس ۳۵ کے قتل میں بھی شریک ہوئے تھے ، لیکن ہم انہیں یہ کہتا ہوا دیکھتے ہیں کہ '' خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ سے ہمیں فتح عنایت کی '' یعنی حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کامیابی کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مرہون منت جانتے ہیں اور اس کامیابی میںاپنے سمیت کسی کا بھی کوئی قابل ذکر کردار نہیں سمجھتے تھے_

ب : جنگ فیصلہ کن تھی

یہ بات واضح ہے کہ اس جنگ کو فریقین اپنے لئے فیصلہ کن سمجھتے تھے _ مسلمان خاص کر حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم یہ سوچ رہے تھے کہ اگر وہ خدا نخواستہ شکست کھا گئے تو پھر روئے زمین پر کبھی بھی خدا کی عبادت نہیں ہوگی _ جبکہ مشرکین بھی یہ چاہتے تھے کہ مہاجرین کو اچھی طرح کس کر انہیں اپنی گمراہی کا مزاچکھائیں اور انصاریوں کو بھی نیست و نابود کرکے رکھ دیں تا کہ بعد میں کوئی بھی ان کے دشمن کے ساتھ کبھی اتحاد نہ کر سکے اور نہ ہی کوئی کبھی ان کے تجارتی راستے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ ڈال سکے اور اس کے نتیجے میں پورے خطہ عرب پر ان کی دھاک بیٹھ جائے_ ہاں مال ، دنیا اور جاہ و حشم پر مرمٹنے والے لوگوں کے نزدیک یہ چیزیں نہایت اہم تھیں اور بالکل اسی لئے انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کو بہت تنگ کیا ، گھروں سے نکال باہر کیا اور ان سے جنگ کیا حالانکہ وہ ان کے اپنے فرزند ، بھائی ، بزرگ اور رشتہ دار تھے_ ان کے لئے سب کچھ دنیا ہی تھی اور نہ اس سے پہلے کوئی چیز تھی اور نہ بعد میں کچھ ہے_ اسی چیز نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی اور انہیں اپنے رشتہ داروں پر جرم و جنایت کے مرتکب ہونے پر اکسا یا جس کی وجہ سے انہوں

۲۸۷

نے اپنوں کو مختلف قسم کے شکنجوں کا نشانہ بنایا، ان کا مذاق اڑایا ، پھر ان کا مال و اسباب لوٹا، انہیں اپنے گھروں سے نکال باہر کیا اور آخر کار انہیں جڑ سے اکھاڑنے اور نیست و نابود کرنے کے لئے ان کے خلاف سخت ترین جنگ لڑی_

ج: شکت ، طاقت کا عدم توازن اور فرشتوں کی امداد

کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ کوئی چھوٹا لشکر کسی بڑی فوج کو شکست دے دیتا ہے _ لیکن یہ اس صورت میں ہوتا ہے کہ اس چھوٹی فوج میں ایسے امتیازات اور ایڈ و انٹیج پائے جاتے ہیں جو بڑے لشکر میں نہیں ہوتے_ مثال کے طور پر اسلحہ با رود کی کثرت ، زیادہ نظم و ضبط ، زیادہ معلومات اور منصوبہ بندی اور کسی خاص معین جنگی علاقے یعنی جغرافیائی لحاظ سے اسٹرٹیجک جگہ پر قبضہ بھی انہی امتیازات میں سے ہیں_

لیکن مسلمانوں اور مشرکوں کا اس جنگ میں معاملہ بالکل ہی الٹ تھا _ کیونکہ جنگی تجربہ ، کثرت تعداد ، اسلحہ کی بھر مار اور جنگی تیاری اورسازو سامان و غیرہ سب کچھ مشرکین کے پاس تھا جبکہ مسلمانوں کے پاس کسی خاص حدود اربعہ میں معین کوئی خاص جنگی علاقہ بھی نہیں تھا_ بلکہ انہیں تو اس جنگ کا سامنا تھا جسے مشرکین نے اپنی مرضی کی جگہ اور وقت پر ان پر مسلط کر دیاتھا_ بلکہ اکثر مشرکین کو اس علاقے میں بھی امتیاز اور برتری حاصل تھی _ جنگی تکنیک اور اسلوب بھی و ہی پرانا تھا، یعنی فریقین کو وہی معروف اور رائج طریقہء کار اپنانا تھا_ اور اس میں بھی قریش کو برتری اس لحاظ سے حاصل تھی کہ اس کے پاس عرب کے ایسے مشہور شہسوار موجود تھے جو اپنے تجربے اور بڑی شہرت کے باعث ان تقلیدی جنگوں میں برتری کے حامل تھے _ پس جنگ کے متوقع نتائج مشرکین کے حق میں تھے_

لیکن جنگ کے حقیقی نتائج ان متوقع نتائج کے الٹ نکلے اور وہ اتنی بڑی تیاری اور کثیر تعداد والے ہر لحاظ سے برتری کے حامل فریق کے بالکل برخلاف تھے_ کیونکہ مشرکوں کو مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ خسارہ اٹھانا پڑا _ اس لئے کہ مسلمانوں کے آٹھ سے چودہ شہیدوں اور مشرکین کے ستر مقتولوں اور ستر قیدیوں کے

۲۸۸

درمیان کونسی نسبت ہے؟ حالانکہ ہر لحاظ سے مشرکوں کاپلڑا مسلمانوں سے بہت بھاری تھا_ کیا آپ لوگ بتاسکتے ہیں کہ اس غیر متوقع نتیجہ کا کیا راز اور سبب ہے؟

اس کا جواب خود خدا نے قرآن مجید میں یوں دیا ہے

( اذ یریکهم الله فی منامک قلیلاً و لو اراکهم کثیراً لفشلتم و لتنازعتم فی الامر ، ولکن الله سلم انه علیم بذات الصدور و اذ یریکموهم اذ التقیتم فی اعینکم قلیلاً و یقللکم فی اعینهم لیقضی الله امراً کان مفعولاً )

'' ( اس وقت کو ) یاد کر و جب خدا نے خواب میں تمہیں ان کی کثیر تعداد کو کم جلوہ گر کیا اور اگر خدا ان کی تعداد زیادہ دکھاتا تو تم تو دل ہار بیٹھتے اور خود جنگ کے معاملے میں ہی آپس میں جھگڑنے لگتے لیکن خدا نے تمہیں اس سے محفوظ رکھا کیونکہ وہ دلوں کے راز بخوبی جانتا ہے_ اور جنگ کے وقت بھی خدا نے تمہاری آنکھوں میں ان کی تعداد گھٹا کر دکھائی نیز انہیں بھی تمہاری تعداد گھٹا کر دکھائی تا کہ خدا کا ہونے والا کام ہو کر رہے''(۱)

نیز ارشاد خداوندی ہے :

( و اذ زین لهم الشیطان اعمالهم لا غالب لکم الیوم من الناس و انی جار لکم ) (۲)

'' اور یاد کرو جب شیطان نے کافروں کے اس برے کام کو اچھا کردکھایا ...لیکن آج وہ لوگ تم پر غلبہ نہیں پا سکتے کیونکہ آج تم میری پناہ میں ہو''

____________________

۱) انفال /۴۳، ۴۴_

۲) انفال /۴۸_

۲۸۹

اسی طرح یہ بھی فرماتا ہے :

( کما اخرجک ربک من بیتک بالحق و ان فریقاً من المؤمنین لکارهون ) (۱)

'' جس طرح خدا نے تمہیں اپنے گھر سے بر حق نکالا ہے لیکن مؤمنوں کے ایک گروہ کو یہ بات ناپسند تھی''

اسی طرح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھی فرمایا ہے :'' رعب اور دبدبے سے میری مدد اور حمایت کی گئی ہے اور زمین کو بھی میرے لئے سجدہ گاہ اور باعث طہارت بنا یا گیا ہے''(۲)

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں اور مشرکوں کو آپس میں لڑانے کے لئے خدا ئی عنایت ، لطف بلکہ طاقت کار فرماتھی تا کہ بہت سے مسلمانوں کے دل سے مشرکوں کی ہیبت اور دہشت نکل جائے _ کیونکہ جب مسلمان قریش سے لڑلیں گے تو دوسروں سے لڑنے کیلئے وہ اور زیادہ جری اور طاقتور ہوں گے_ اور یہ خدائی مشن درجہ ذیل چیزوں میں خلاصہ ہوتا ہے:

۱_ آیتوں میں مذکور گھٹا نے بڑھا نے والے طریقے سے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی_

۲_ ملائکہ کے ساتھ مسلمانوں کی مدد_

۳_ اسلام دشمنوں کے دل میں رعب اور دہشت بٹھانا_

تشریح : فریقین کے جنگی اہداف ہی مادی اور انسانی خسارے بلکہ تاریخ کے دھارے کو کسی بھی طرف موڑنے کے لحاظ سے جنگ کے نتائج کی تعیین اور اس کا فیصلہ کرتے ہیں اور ہم پہلے بھی کئی بار یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ اس جنگ سے مشرکین کا مقصد مطلوبہ زندگی اور ان امتیازات اور خصوصیات کا حصول تھا جن

____________________

۱) انفال /۵_

۲) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۳۳ ، بخاری ج ۱ ص ۴۶و ص ۵۷، ج ۲ ص ۱۰۷ و ج ۴ ص ۱۳۵ و ص ۱۶۳، سنن دارمی ج ۲ ص ۲۲۴ ، صحیح مسلم ج ۲ ص ۶۳ تا ص ۶۵ ، الجامع الصحیح ج ۴ ص ۱۲۳ ، کشف الاستار ج ۱ ص ۴۴ و ج ۳ ،ص ۱۴۷ ، سنن نسائی ج ۱ ص ۲۰۹و ص ۲۱۰و ج ۶ ص ۳ ، مسند احمد ج ۱ ص ۹۸ و ص ۳۰۱ و ج ۲ ص ۲۲۲ و ص ۲۶۴ ، ص ۲۶۸ ، ص ۳۱۴، ص ۳۶۶ ، ص ۴۱۲ ، ص ۴۵۵ و ص ۵۰۱ ، ج ۳ ص ۳۰۴ ، ج ۴ ص ۴۱۶و ج ۵ ص ۱۴۵ و ص ۱۴۸ و ص ۱۶۲ و ص ۲۴۸ و ص ۲۵۶ ، مجمع الزوائد ج ۶ ص ۶۵ و امالی طوسی ص ۵۶_

۲۹۰

سے وہ اپنی آسودگی ، فرمانروائی اور سرداری کی لمبی لمبی آرزوؤں کی تکمیل کی توقع کر رہے تھے_ پس جب وہ لڑہی اس دنیاوی زندگی کے لئے رہے تھے تو اس مقصد کے لئے ان کا قربانی دنیا کیسے ممکن ہے؟ اس کا مطلب تو پھر ہدف کو کھونا اور مقصد کی مخالفت کرنا ہے_ مؤرخین کی مندرجہ ذیل روایت بھی ہمارے بیانات کی تصدیق کرتی ہے _ وہ کہتے ہیں کہ جب طلیحہ بن خویلد نے اپنے بہت سے ساتھیوں کو رن سے فرار کرتے ہوئے دیکھا تو پکارا'' منحوسو کیوں بھاگ رہے ہو؟''_ تو ان میں سے کسی نے کہا :'' میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم کیوں بھاگ رہے ہیں ہم اس لئے بھاگ رہے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص کی یہی خواہش ہے کہ اس سے پہلے اس کا ساتھی مرے ( یعنی وہ سب سے آخرمیں مرے) حالانکہ ایسے ایسے افراد سے ہمارا سامنا ہے جو اپنے ساتھیوں سے پہلے مرنا چاہتے ہیں''(۱) _ اسی طرح جب جنگ جمل میں زبیر کے پیٹھ دکھا کر بھاگنے کی خبر حضرت علی علیہ السلام تک پہنچی تو آپعليه‌السلام نے فرمایا : '' اگر صفیہ کے بیٹے کو معلوم ہوتا کہ وہ حق پر ہے تو وہ جنگ سے کبھی پیٹھ دکھا کر نہ بھاگتا ...''(۲) _ اور مامون کی فوج کا ایک بہت بڑا جرنیل حمید طوسی کہتا ہے : '' ہم آخرت سے تو مایوس ہوچکے ہیں اب صرف یہی ایک دنیاہی رہتی ہے ، اس لئے خدا کی قسم ہم کسی کو اپنی زندگی مکدّر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے''(۳) _

لیکن تمام مسلمانوں کابلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ قریش کی جڑیں کاٹنے والے حضرت علیعليه‌السلام اور حمزہ جیسے ان بعض مسلمانوں کا مقصد اخروی کامیابی تھا جنہوں نے دشمنوں کو تہہ تیغ کرکے مسلمانوں کی کامیابی میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا_ وہ یہ جانتے تھے کہ انہیں دوبھلائیوں میں سے کوئی ایک ضرور ملے گی_ یا تو وہ جیت جائیں گے اور اس صورت میں انہیں دنیاوی اور اخروی کامیابی نصیب ہوگی یا پھر شہید ہوجائیں گے اور اس صورت میں بھی انہیں حتی کہ دنیاوی کامیابی بھی نصیب ہوگی اور آخرت تو ہے ہی _ اور ایسے لوگ جب موت

____________________

۱) سنن بیہقی ج ۸ ص ۱۷۶و حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۷۷۰ از سنن بیہقی_

۲) المصنف عبدالرزاق ج ۱۱ ص ۲۴۱ اور اس روایت سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ وہ پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہوئے قتل ہوا _ جیسا کہ بعض نے صراحتاً کہا بھی ہے_

۳) نشوار المحاضرات ج ۳ ص ۱۰۰_

۲۹۱

کو فوجی اور ظاہری کامیابی کی طرح ایک کامیابی سمجھتے ہیں اور اپنی جان بچا کر فرار ہونے کو ( چاہے اس فرار سے ان کی جانیں بچ بھی جائیں اور وہ بڑی پرآسائشےں اور پر سکون زندگی اور دنیاوی نعمتوں سے بہرہ مند ہو بھی جائیں پھر بھی اسے) اپنے لئے ذلت ، رسوائی ، تباہی اور مرجانے کا باعث بلکہ مرجانے سے بھی بدتر سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد انہیں اخروی تباہی اور دردناک عذاب کا سامنا کرنا ہوگا_ (جب صورتحال یہ ہو ) تو یہ زندگی ان لوگوں کے لئے ناقابل قبول اور ناپسندیدہ بلکہ مکروہ ہوگی اور اس زندگی سے وہ ایسے بھاگیں گے جیسے مشرکین موت کے ڈر سے بھاگ رہے تھے_ اور طلیحہ بن خویلد کا جواب دینے والے شخص نے بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا جسے ہم بیان کرچکے ہیں_

جب عمیر بن حمام کو پتہ چلا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا شہید ہونے والوں کو جنت کی خوشخبری دے رہے ہیں ( اس وقت عمیر کے ہاتھ میں چند کھجور تھے جنہیں وہ آہستہ آہستہ کھا رہا تھا) تو اس نے کہا :'' واہ بھئی واہ میرے اور جنت میں داخلے میں صرف ان کے قتل کرنے کا ہی فاصلہ ہے''_ یا یہ کہا :'' اگر زندہ رہا تو یہ کھجور آکر کھاؤں گا _ واہ وہ تو ایک لمبی زندگی ہے'' _ پھر وہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی کھجوریں پھینک کر لڑنے چلا گیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگیا(۱) _

(یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے جانثاروں کے لئے موت کیوں شہد سے بھی زیادہ میٹھی تھی )_بلکہ جب ماؤں کو پتہ چل جاتا کہ ان کے فرزند جنت میں ہیں تو انہیں اپنے فرزند کے بچھڑنے کا کوئی بھی دکھ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ بسا اوقات خوش بھی ہوتی تھیں_ جب حارثہ بن سراقہ کسی نامعلوم تیر سے ماراگیا تو اس کی ماں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مجھے حارثہ کے متعلق بتائیں ، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرلوں گی وگرنہ اتنی آہ و زاری کروں گی کہ ساری خدائی دیکھے گی ''_ ( جبکہ ایک اور روایت کے مطابق اس نے یوں کہا:'' وگرنہ میں حد سے زیادہ گریہ کروں گی'' نیز دیگر روایت میں آیا

____________________

۱) ملاحظہ ہو : الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۶ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۰ ، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۹ ، البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۷۷ از مسلم و احمد ، سنن بیہقی ج ۹ ص ۹۹ ، مستدرک حاکم ( با اختصار ) ج ۳ ص ۴۲۶ و حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۲۴ از گذشتہ بعض منابع_

۲۹۲

ہے'' تو روؤں گی پیٹوں گی نہیں لیکن اگر وہ دوزخ میں گیا ہے تو میں مرتے دم تک روتی رہوں گی '')_ اور ایک روایت میں ہے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے بتایا کہ اس کا بیٹا جنت میں ہے تو وہ ہنستے ہوئے واپس پلٹی اور کہنے لگی :'' مبارک ہو حارث مبارک ہو''(۱) _اسی طرح جنگ بدر میں شہید ہونے والے عمیر بن ابی وقاص کو جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے مدینہ میں ٹھہرانا چاہا تو وہ ( فرط جذبات اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد سے محرومی کے احساس سے ) روپڑا(۲) جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ساتھ چلنے کی اجازت دے دی _ اور اس طرح کی مثالیں بہت زیادہ ہیں_جنہیں یہاں بیان کرنے گی گنجائشے نہیں ہے_

گذشتہ تمام باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کو کتنی شدت سے مرجانے یا پھر کامیاب ہونے کا شوق تھا _ اور کافروں کو صحت و سلامتی کے ساتھ زندہ رہنے کی تمنا تھی _ کیونکہ مسلمان تو موت کو ایک پل اور شہادت کو عطیہ اور سعادت سمجھتے تھے لیکن وہ لوگ موت کو خسارہ ، فنا اور تباہی سمجھتے تھے_ ان کی مثال بھی بنی اسرائیل کی طرح تھی_

اور بنی اسرائیل دنیا اور دنیا داری کے لئے بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے اور ان کی سوچوں بلکہ عقیدے میں بھی آخرت کی کوئی جگہ نہیں تھی_ ان کی متعلق خدایوں فرماتا ہے:

( قل ان کانت لکم الدار الاخرة عند الله خالصة من دون الناس فتمنو الموت ان کنتم صادقین و لن یتمنوه ابداً بما قدمت ایدیهم و الله علیم بالظالمین و لتجدنهم احرص الناس علی حیاة و من الذین اشرکوا یود احدهم لو یعمر الف سنة و ما هو بمزحزحه من العذاب ان یعمر و الله بصیر بما یعملون ) (۳)

____________________

۱) ملاحظہ ہو : مستدرک حاکم ج ۳ ص ۲۰۸ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۷۴ از شیخین ، سنن بیہقی ج ۹ ص ۱۶۷ ، حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۶۵۲ تا ص ۶۵۳ از مذکورہ منابع و از کنز العمال ج ۵ ص ۲۷۳ و ۲۷۵ و ج ۷ ص ۷۶ و از ابن سعد ج ۳ ص ۶۸ _

۲) نسب قریش مصعب زبیری ص ۲۶۳ ، الاصابہ ج ۳ ص ۵ ۳،از حاکم ، بغوی ، ابن سعد و واقدی_

۳) بقرہ / ۹۴ تا ۹۶_

۲۹۳

''( اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) ان سے کہہ دیجئے کہ اگر آخرت کا مقام بھی خدا کے نزدیک صرف تمہارا ہی ہے تو ذرا مرنے کی خواہش تو کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو _ لیکن وہ اپنے کر تو توں کی وجہ سے ہرگزموت کی تمنا نہیں کرسکتے اور خدا ہی ظالموں کو سب سے بہتر جانتا ہے _ انہیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ رہنے کا سب سے زیادہ خواہشمند پائیں گے حتی کہ مشرکوں سے بھی _ان کا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ کاش اسے ہزار سالہ زندگی مل جائے _ وہ جتنی بھی زندگی کرلیں وہ اسے عذاب سے چھٹکار انہیں دلا سکتی _ اور خدا ان کے کردار کو بخوبی جانتا ہے''_

اسی بنا پر جنگ بدر میں ضرورت اس بات کی تھی کہ ابتداء میں خدا مسلمانوں کو ان کی نظر میں گھٹا کر دکھاتا تا کہ وہ اپنی سلامتی اور بقاء کے زیادہ احتمال کی وجہ سے آسانی اور آسودہ خیالی سے اس جنگ میں کود پڑتے _ کم از کم وہ جنگ میں جم کر لڑتے اور فرار کا تصور بھی نہ کرسکتے تا کہ حضرت علی علیہ السلام قریش اور شرک کے بڑے بڑے فرعونوں ، سرپھروں، گروگنڈالوں اور سپاہیوں کو قتل اور قیدی کرلیں_ حضرت بی بی فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی ایک روایت بھی اسی کے مطابق ہے کہ '' جب جنگ کا شعلہ بھڑکا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی اسے بجھایا ، گمراہی بڑھنے لگی یا مشرکوں کا جمگھٹا ہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بھائی کو اس میں جھونک دیا اور وہ اسے اچھی طرح روند کر اور تلوار سے اس کے شعلے بجھا کر ہی وہاں سے واپس لوٹا _ وہ خدا کی ذات میں جذب ( فنا فی اللہ ) ہوچکا تھا ...''(۱) _

لیکن پھر جنگ چھڑنے کے بعد ضروری تھا کہ مشرکین مسلمانوں کی تعداد کی کثرت دیکھیں تا کہ وہ رعب اور دہشت کے مارے نہ لڑسکیں_یہاں خدا نے مسلمانوں کی فرشتوں کے ذریعہ مدد کی _اور ان کے ذریعہ سے ان کی تعداد بڑھائی اور فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ لڑیں اور مشرکین کا سر قلم کریں نیز ان کے دلوں میں رعب ، دہشت اور دھاک بٹھادیں _خدا نے بھی جنگ کے شروع ہونے کے بعد پیش آنے والے اس آخری مرحلہ کا ذکر اس آیت میں یوں کیا ہے:

( اذ یوحی ربک الی الملا ئکة انی معکم فثبتواالذین

____________________

۱) بلاغات النساء ص ۲۵ مطبوعہ النہضة الحدیثہ و اعلام النساء ج ۴ ص ۱۱۷_

۲۹۴

آمنو سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فاضربوا فوق الا عناق و اضربوا منهم کل بنان ) (۱)

''(وہ وقت یادکرو )جب تمہارے پروردگارنے فرشتوں سے کہا کہ میں تمہارا پشت پناہ ہوں (تم جاکر ) مؤمنوں کا دل بڑھا ؤ،میں بھی کافروں کے دل میں دہشت پیدا کردوں گا پھر تم انہیں ہر طرف سے مارکر ان کی گردن ہی ماردو''_

اور یہ بات واضح ہے کہ ڈرپوک اور بزدل دشمن پر چڑھائی چاہے وہ کتنا ہی طاقتور ہو اس کمزور دشمن پر حملہ سے زیادہ آسان ہے جو موت سے بے پروا ہو کر خود ہی حملہ آور ہو_پس یہ معرکہ جنگجوؤںکا سامنا کرنے سے کترانے والے مشرکوں کے حق میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے حق میں تھا_ اس بنا پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ خود مشرکین بھی مشرکین کے خلاف لٹررہے تھے اور یہ بات حضرت علیعليه‌السلام کے اس فرمان کی تشریح اور تفسیر ہے کہ ''میرا سامنا جس سے بھی ہوا اس نے اپنے خلاف میری مددکی (اپنے آپ کو میرے حوالہ کردیا)''(۲) اور فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا ایک اور پہلو بھی تھا جس کا ملاحظہ بھی نہایت ضروری ہے _اور وہ یہ ہے کہ چونکہ یہ ممکن تھا کہ بعض مسلمانوں کے ایمان اور یقین کا درجہ بلند نہ ہوتا اور اس جنگ میں ان کا یقین اورمان ٹوٹ جاتا یا کم از کم ان کا ایمان کمزورہو جاتا اس لئے خدا نے مسلمانوں پر لطف و کرم کرتے ہوئے ان کی فرشتوں سے مدد کی تا کہ وہ انہیں جیت کی خوشخبری دیں ،ان کا دل بڑھائیں اور جنگ کے آغاز میں ان کی آنکھوں میں مشرکوںکو گھٹا کرد کھائیںجس سے وہ جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں _اس کے علاوہ خدا کے فضل سے فرشتوں کی مدد کے اور طریقے بھی تھے _ان باتوں سے اس بات کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ کیوں مشرکین کے مقتولین کی تعداد شہداء اسلام سے کئی گنا زیادہ تھی اور ان کے ستر افراد بھی قید کر لئے گئے حالانکہ مسلمانوں کا کوئی بھی فردگرفتار نہیں ہوا_اور اس مدد کے نتائج صرف جنگ بدرتک ہی محدودنہیں تھے بلکہ ایمان اور کفر کے درمیان ہر جنگ میں ایسے نتائج ظاہر ہوئے اور واقعہ کربلا بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے _

____________________

۱)انفال/۱۲_

۲)نہج البلا غہ حکمت ۳۱۸_

۲۹۵

د: انصار کے خلاف قریش کا کینہ

۱_ ابوجہل کی گذشتہ باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ قریش انصار کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے تھے حتی کہ ابو جہل نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تھا کہ انصار کو گا جر مولی کی طرح کاٹ کررکھ دو لیکن قریشیوں کی بہ نسبت ان کا موقف مختلف تھا _کیونکہ ابو جہل نے ان کے متعلق کہا تھاکہ ان کی مشکیں اچھی طرح کس کر انہیں مکہ لے جاؤتا کہ وہاںانہیں ان کی گمراہی کا مزہ چکھا یا جائے _شاید مشرکوں نے قریشیوں سے اپنے پرانے تعلقات بحال رکھنے کے لئے ان کے خلاف یہ موقف اپنا یا ہو کیونکہ ہر قریشی مسلمان کا مکہ میں کوئی نہ کوئی رشتہ دار موجود تھا _اور وہ اپنے رشتہ دار کے قتل پر راضی نہیں ہو سکتے تھے چاہے وہ ان کے عقیدے اور مذہب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو _اور یہی قبائلی طرز فکرہی تو تھا جواتنے سخت اور مشکل حالات میں بھی مشرکین کی سوچوں پر حاوی اور ان کے تعلقات اور موقف پر حاکم تھا _

۲_ہم یہ تو جان چکے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور مسلمانوں کو پناہ اور مدد دینے والے انصار کے خلاف قریش کا کینہ نہایت عروج پر تھا اور ان کے کینے کی دیگ بری طرح ابل رہی تھی _اس بات کا تذکرہ ابو جہل نے سعد بن معاذ سے کسی زمانے میں (شاید بیعت عقبہ یا سعد کے حج کرنے کے موقع پر_مترجم)کیا بھی تھا اور اب وہ یثرب والوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے آیاتھا _لیکن ہم یہ بھی ملاحظہ کرتے ہیں کہ ان کے دل میں یہ کینہ کئی دہائیوں تک رہا بلکہ سقیفہ کے غم ناک حادثے میں انصار کی خلافت کے معاملے میں قریش کی مخالفت اوردوسروں کی بہ نسبت حضرت علی علیہ السلام کی طرف انصار کے رجحان نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا _اور یہ کینہ مزیدجڑپکڑگیا کیونکہ انہوں نے ہراس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ دیا جس میں قریشی آپ کے مد مقابل تھے(۱) حتی کہ جنگ صفین میں معاویہ کو نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلدسے کہنا پڑا:''اوس اور خزرج کی طرف سے پہنچنے والی زک سے مجھے بہت دکھ اور نقصان اٹھانا پڑاہے _وہ اپنی تلواریں گردن میں حمائل کرکے جنگ کا مطالبہ کرنے آکھڑے ہوتے ہیں _حتی کہ انہوں نے میرے شیر

____________________

۱)ملاحظہ ہو :المصنف ج۵ص۴۵۶وص۴۵۸ودیگر کتب_

۲۹۶

کی طرح بہادر ساتھیوں کو بھی چو ہے کی طرح ڈرپوک بنا کرر کھ دیا ہے _حتی کہ خدا کی قسم میں اپنے جس شامی جنگجو کے متعلق بھی پوچھتا ہوں تو مجھے یہ کہا جاتا ہے اسے انصار نے قتل کردیا ہے_اب خدا کی قسم میں ان سے بھر پور جنگ کروں گا ''(۱) اسی طرح نعمان بن بشیر نے انصار کے ساتھ اپنی ایک گفتگو میں کہا ،''جب بھی (حضرت علیعليه‌السلام پر)کوئی مشکل آن پڑی تم لوگوں نے ہی ان کی یہ مشکل آسان کی ہے''(۲) اسی طرح بنی امیہ کے بزرگ عثمان بن عفان کے خلاف انصار کے موقف اور اس کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں ان کے فعال اور مؤثر کردار نے قریش کے ان کے خلاف کینے کو مزید ہوادی _حتی کہ معاویہ نے اس کے غم میں مندرجہ ذیل شعر کہا :(گرچہ یہ واضح ہے کہ عثمان پراس کا رونا دھونا اس کے سیاسی مقاصد کے تحت تھا و گرنہ عثمان سے اسے کوئی بھی ہمدردی نہیں تھی ) _

لاتحسبوا اننی انسی مصیبته

و فی البلاد من الا نصار من احد(۳)

یہ کبھی مت سوچنا کہ روئے زمین پر کسی ایک انصار ی کے ہوتے ہوئے میں عثمان کا غم بھول جاؤ ں گا_

بہر حال معاویہ سے جتنا بھی ہو سکتا تھا اس نے انصار کے خلاف اپنے د ل کی بھڑ اس نکالی لیکن پھر اس کے بعداس نا بکار کے ناخلف یزید نے کربلا میں اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شہید کرنے کے بعد ''واقعہ حرہ'' میںانصار سے نہایت برا اور شرمناک انتقام لیا تھا(۴)

احمد بن حنبل نے بھی ابن عمر کی ایک بات نقل کی ہے جس کے مطابق وہ اہل بدر کے مہاجرین کو ہر موقع پر اہل بدر کے انصار پر ترجیح دیا کرتاتھا البتہ اس بارے میں ''جنگ بدر سے پہلے کی لڑائیاں ''کی فصل میں

____________________

۱) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج۸ ص ۸۴و ص۸۵نیز ملاحظہ ہو ص ۴۴و ص۸۷)_

۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی ا لحدیدج ۸ص۸۸_

۳)شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج ۸ ص ۴۴_

۴)ملاحظہ ہو تاریخ الامم و الملوک ، الکامل فی التاریخ اور دیگر کتابوں میں واقعہ حرہ _

۲۹۷

''جنگ میں مہاجرین کو پہلے بھیجنے کی وجوہات ''میں یہ بحث ہو چکی ہے _اس موضوع کے سیر حاصل مطالعہ کے لئے وہاں مراجعہ فرمائیں_

۳_ایک اور پہلو سے اگر دیکھا جائے تو قریش اس جنگ میں انصار کو ایسا یادگار سابق سکھا نا چاہتے تھے کہ وہ پھر کبھی ان کے دشمنوں سے گٹھ جوڑکرنے کا ارادہ بھی نہ کر سکیںقریش کی نظر میں انصار کا یہی جرم ہی کافی تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کو اتنی طاقت اور قوت فراہم کردی تھی کہ وہ ان کے مقابلہ میں آنے کی جرات کربیٹھے_اسی لئے ابو جہل (جسے پہلے اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا )نے اپنے سپاہیوں کو انتہائی سخت حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ مکیوں کے ہا تھ سے کوئی بھی (یثربی )انصاری نہ چھوٹنے پائے (اور سب کا قلع قمع کردیا جائے )_آخر میں یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ مدینہ والے قحطانی نسل کے تھے جبکہ مکہ والے عدنانی نسل کے تھے (اور دیگر تعصبات کے علاوہ اس میں نسلی تعصب بھی شامل تھا )_

پہلے اہل بیتعليه‌السلام کیوں ؟

اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ دیگر تمام لوگوں سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے اہل بیتعليه‌السلام کو جنگ میں بھیجنے کا راز ہماری گذشتہ تمام معروضات ہوسکتی ہیںتا کہ سب سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی اور اپنے اہل بیتعليه‌السلام کی قربانی پیش کریں _ اسی لئے تاریخ ،حضرت علیعليه‌السلام ،حضرت حمزہعليه‌السلام ،حضرت جعفرعليه‌السلام اور اس دین سے نہایت مخلص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر بہترین صحابیوںکے کرداراور بہادر یوںکو ہرگز فراموش نہیں کر سکتی بلکہ یہ تا ابد یادگار رہیں گی_پس حضرت علیعليه‌السلام اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گھرانہ اسلام کی مضبوط ڈھال تھے اور خدا نے ان کے ذریعہ دین کو بھی بچایا اورانصار کے خلاف قریش (جن کی اکثریت اسلام دشمن تھی )کے کینے کی شدت کو بھی کم کیا _یہ سب کچھ انصار کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے تھا ،کیونکہ انصار اور اسلام کے خلاف قریش کے کینے نے مستقبل میں ان دونوں پر سخت ، گہرے اور برے اثرات مرتب کئے _

۲۹۸

ھ:حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے گھرانے پر جنگ بدر کے اثرات :

ہم پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ اکثر مشرکین ،مہاجرین خاص کر امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے چچا حمزہ کے ہا تھوں واصل جہنم ہوئے _اور یہ بھی بتاچکے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام نے بذات خود پینتیس سے زیادہ مشرکوں کوفی النار کیا تھا اور باقیوںکو قتل کرنے میں بھی دوسروں کا ہا تھ بٹا یا تھا_

اس بات سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ قریش چاہے جتنا بھی اسلام کا مظاہرہ کرتے رہیں ،اسلام کے ذریعہ جتنا بھی مال و مقام حاصل کرتے رہیں اور چاہے حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے گھرانے سے محبت اور مودت کی جتنی بھی آیات اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے مروی روایات دیکھتے رہیںپھر بھی وہ حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے گھرانے سے کبھی بھی محبت نہیں کر سکتے تھے _

حاکم نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ عباس غضبناک چہرے کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میںآیا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :''کیا بات ہے ؟''اس سوال پر اس نے کہا :''ہمارا قریش سے کوئی جھگڑاہے کیا؟''_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''تمہارا قریش سے جھگڑا؟''اس نے کہا :''ہاں جب وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑے تپاک سے ملتے ہیں لیکن ہمیں بے دلی سے ملتے ہیں ''_یہ سن کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتنے سخت غضبناک ہوئے کہ غصہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں کے در میان والی رگ ابھر آئی _پھر جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ ٹھنڈاہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں (حضرت)محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان ہے، جب تک کوئی شخص خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خاطر تم لوگوں سے محبت نہیں کرے گا تب تک اس کے دل میں ایمان داخل ہوہی نہیں سکتا''(۱) اسی طرح حضرت علیعليه‌السلام نے بھی قریش کا شکوہ کرتے ہوئے فرمایا تھا :''انہوں نے ہم سے قطع تعلق اور ہمارے دشمنوں سے گٹھ جوڑ کر لیا ہے ''(۲) انشاء اللہ جنگ احد کی گفتگو میں اس کی طرف بھی اشارہ کریں گے _

____________________

۱)مستدرک حاکم ج ۳ ص ۳۳۳ نیز تلخیص مستدرک ذہبی اسی صفحہ کے حاشیہ پر،مجمع الزوائد ج ۹ص ۲۶۹و حیاة الصحابہ ج ۲ص ۴۸۷و ص ۴۸۸ ازگذشتہ منابع _

۲)البتہ اگر یہ صدمے کسی معصوم رہنما کو سہنے پڑیں تو وہ اپنی تدبیر ،فراست اور خداداد علم ،عقل اور صبرسے انہیں برداشت کر لیتا ہے اور پائیداری دکھاتا ہے _دوسرے لوگ یہ تکلیفیں نہیں جھیل سکتے اور ان کے لئے انہیں جھیلنے اور ان سے سرخرو ہو کر باہر آنے کے لئے کوئی مناسب راہ حل نہیں ہوتا _اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر موقع پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا صرف حضرت علیعليه‌السلام کوہی آگے کرتے اور انہیں قریش کا سامنا کرنے کی پر زور تاکید کرتے تھے_

۲۹۹

ابن عباس سے مروی ہے کہ عثمان نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا :''اگر قریشی تمہیں نا پسند کرتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟تمہی نے تو ان کے ستر جنگجو افراد کو تہہ تیغ کیا ہے جس کی وجہ سے اب ان کے چہرے (غصہ کی وجہ سے )دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح ہو گئے ہیں ''(۱) اس کے علاوہ ،صاحبان احلاف (ابو سفیان پارٹی )بدر اور احد و غیرہ کے اپنے مقتولین کا بدلہ لینے کے لئے ہر وقت موقع اور فرصت کی تلاش میں رہتے تھے _وہ جنگ جمل اور صفین میں تو ناکام ہو گئے لیکن انہیں اپنے زعم باطل میں واقعہ کربلا میں اس کا اچھا موقع مل گیا تھا _پھر تو انہوں نے اہل بیتعليه‌السلام اور ان کے شیعوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہی کردی _وہاں ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس موقع پر یزید نابکار اپنے کفر اور مذکورہ جذبات کو نہ چھپا سکا _کیونکہ اس نے یہ جنگ ،بدر کے اپنے بزرگ مقتولین کا بدلہ لینے کے لئے لڑی تھی اور اس میں وہ اپنی خام خیالی میں کامیاب ہوگیا تھا_ وہ اس کے بعد ابن زبعری کے کفریہ اشعار بھی پڑھتا تھا اور اس میں وحی و نبوت کے انکار پر مشتمل اپنے اشعار کا اضافہ بھی کرتا تھا _ وہ نا بکار ،جوانان جنت کے سردار اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نوا سے حضرت امام حسین علیہ السلام کے دندان مبارک پر چھڑی سے وار کرتے ہوئے یہ اشعار کہتا تھا :

لیت اشیاخی ببدر شهدوا

جزع الخزرج من وقع الا سل

لا هلو و استهلوا فرحاً

ثم قالوا یا یزید لا تشل

قد قتلنا القرم من اشیاخهم

و عدلنا ه ببدر فاعتدل

لعبت هاشم بالملک فلا

____________________

۱)معرفة الصحابہ ابو نعیم ورقہ ،۲۲مخطوط در کتابخانہ طوپ قپو سرای کتاب نمبر ۱/۴۹۷و شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج ۹ ص ۲۲_

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460