الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242162 / ڈاؤنلوڈ: 6992
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا توقوی ہے اور ميں کمزور ہوں اور کمزور پر طاقتور کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توغنی ہے اور ميں فقير ہوں اور فقير پر غنی کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا تومعطی ہے اور ميں سائل ہوں اور سائل پر معطی کے علاوہ کون رحم کرے گا۔اے ميرے مو لا ميرے مو لا تو زندہ ہے اور ميں مرنے والا ہوں اور مر نے والے پر زندہ کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا ميرے مو لا تو باقی ہے اور ميں فانی ہوں اور فانی پر باقی کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ اے ميرے مو لا ميرے مو لا توہميشہ رہنے والا ہے اور ميں مڻنے والا ہوں اور مڻنے والے پر رہنے والے کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا ميرے مو لا تورازق ہے اور ميں محتاج رزق ہوں اور محتاج پر رازق کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توجواد ہے اور ميں بخيل ہوں اور بخيل پر جواد کے علاوہ کون رحم کرے گا ؟ميرے مو لااے ميرے مو لا توعافيت دینے والا ہے اور ميں مبتلا ہوں اور درد بتلاپر عافيت دینے والے کے علاوہ کون رحم کرسکتاہے۔

ميرے مو لا اے ميرے مو لا توکبير ہے اور ميں صغيرہوں اور صغير پر کبيرکے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توہادی ہے اور ميں گمرا ہ ہوں اور گمراہ پر ہادی کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا تورحمن ہے اور ميں قابل رحم ہوں اور قابل رحم پر رحمان کے علاوہ کون رحم کرے گا۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا توبادشاہ ہے اور ميں منزل امتحان ميں ہوں اور ایسے بندئہ امتحان پر بادشاہ کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توراہنما ہے اور ميں سر گرداں ہوں اور کيا سر گرداں پر راہنما کے علاوہ اور کو ن رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توبخشنے والا ہے اور ميں گناہگار ہوں اور گنا ہگار پر بخشنے والے کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توغالب ہے اور ميں مغلوب ہوں اور مغلوب پر غالب کے علاوہ اور کو ن رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا تورب ہے اور ميں مربوب ہوں اور پرورش پانے والے رب

۱۴۱

کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توصاحب کبریا ئی ہے اور ميںبندئہ ذليل ہوں اوربندئہ ذليل پرخدائے کبير کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لاتو اپنی رحمت سے مجه پر رحم فرما اور اپنے جود و کرم و فضل سے مجه سے راضی ہو جا اے صاحب جود و احسان اور اے صاحب کرم و امتنان ” حضرت اميرالمو منين عليہ السلام اس بہترین مناجات کے ان جملوں ميں اللهتبارک وتعالیٰ سے اپنی حاجت اور فقرکےلئے متوسل ہوتے ہيں اور بندہ کی حاجت اور اس کے فقرکو الله کی رحمت نازل ہونے کا موردقرار دیتے ہيں ۔

بيشک مخلوق الله کی رحمت نازل کرانا چاہتی ہے حقير عظيم کی رحمت نازل کرانا چاہتا ہے ضعيف قوی کی فقير غنی کی مرزوق رازق کی،مبتلامعافی کی، گمراہ ہادی کی ،گنا ہگار غفورکی ،حيران وسرگردان، دليل اور مغلوب غالب کی رحمت کی رحمت نازل ہونے کے خواستگارہيں۔

یہ الله کی تکوینی سنتيں ہيں اور الله کی سنتوں ميں ہرگز تبدیلی نہيں آسکتی جب حاجت اور فقر ہو گا تو ان موقفوں کےلئے الله کی رحمت اور فضل ہوگا جس طرح پا نی نيچی جگہ پر گرتا ہے الله کی رحمت حاجت وضرورت کے مقام پر نازل ہوتی ہے الله کریم وجوادہے اور کریم حاجت وضرورت کے مقامات کی رعایت کرتاہے اور اپنی رحمت اس سے مخصوص کردیتا ہے ۔

حضرت امام زین العابدین عليہ السلام دعائے سحرميں جس کو آپ نے ابو حمزہ ثمالی کو تعليم فرمایا تھا ميں فرما تے ہيں :اعطني فقري،وارحمني لضعفي یعنی آپ نے فقر اور ضعف کو وسيلہ قرار دیا ہے اور انهيں کے ذریعہ آپ الله کی رحمت سے متوسّل ہو تے ہيں ۔

یہ فطری بات ہے کہ اس کلا م کو مطلق قرار دینا ممکن نہيں ہے اور ایک ہی طریقہ ميں منحصر نہيں کيا جا سکتا ہے بيشک الله کی رحمت نازل ہونے کے دوسرے اسباب بهی ہيں اور دوسرے موانع و رکاوڻيں بهی ہيں جن سے الله کی رحمت نازل نہيں ہوتی اور الله کی سنتوں ميں مبتلاہونے کا سبب بهی ہيں ۔ ہمارا یہ کہنا ہے :بيشک حاجت اور فقر کی وجہ سے الله کی رحمت نازل ہوتی ہے تو ہمارے لئے اس گفتار کو اس الٰہی نظام کے مطابق اور اس کے دائرہ ميںرہنا چاہئے اور یہ معرفت کا وسيع باب ہے جس کو ہم اس وقت چهيڑنا نہيں چاہتے ہيںعنقریب ہم توفيق پروردگار کے ذریعہ اس حقيقت کی مناسب یا ضروری تشریح کریں گے ۔

۱۴۲

ہم قرآن کریم ميں بہت سے ایسے نمونے دیکهتے ہيں جن ميں حاجت اور فقر کو پيش کيا گيا ہے اور ان کے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہوئی ہے اور اللهنے ان کو قبوليت کے درجہ تک پہنچایا ہے حاجت بهی اُسی طرح قبول ہوتی ہے جس طرح سے دعا اور سوال قبول ہوتے ہيں بيشک خداوندعالم کی بارگاہ ميں اپنی حاجت پيش کرنا بهی دعا کی ایک قسم ہے ان نمو نوں کو قرآن کریم نے الله کے صالحين بندوں کی زبانی نقل کيا ہے ۔

ا۔ عبد صالح حضرت ایوب عليہ السلام کا خداوندعالم کی بارگاہ ميں سختيوں اور مشکلات کے وقت اپنی حاجت پيش کرنا ۔

( وَاَیُّوبَ اِذنَْاد یٰ رَبَّهُ اَنِّی مَسَنِّیَ الضُُّرُّوَاَنتَْ اَرحَْمُ الرَّاحِمِينَْ فَاستَْجَبنَْا لَهُ فَکَشَفنَْامَابِهِ مِن ضُرٍّوَآتَينَْاهُ اَهلَْهُ وَمِثلَْهُم مَعَهُم رَحمَْةًمِن عِندِْنَاوَذِکرْ یٰ لِلعَْابدِینَْ ) (ا)

“اور ایوب کو یاد کرو جب انهوں نے اپنے پروردگار کو پکاراکہ مجھے بيماری نے چهوليا ہے اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليا اور ان کی بيماری کو دور کردیا اور انهيں ان کے اہل وعيال دیدئے اور ویسے ہی اور بهی دیدئے کہ یہ ہماری طرف سے خاص مہربانی تهی اور یہ

____________________

١)سورئہ انبياء آیت / ٨٣ ۔ ٨۴ ۔ )

۱۴۳

عبادت گذار بندوں کے لئے ایک یاد دہانی ہے ” قرآن کریم اس فقرہ ميں کوئی بهی دعا نہيں کی گئی ہے جس کی قرآن کریم نے اس امتحان دینے والے صالح بندہ کی زبانی نقل کيا ہے ليکن خداوندعالم نے فرمایا ہے :

( فاستجبناله فکشفنامابه ضُرّ ) ( ١)

“ تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليا اور ان کی بيماری کو دور کردیا ” گویا حاجت اور فقر کا خدا کی بارگاہ ميں پيش کرنا دعا کی ایک قسم ہے ۔ ٢۔عبد صالح ذوالنون نے اپنے فقر وحاجت اور اپنے نفس پر ظلم کرنے کو خدا کی بارگاہ ميں پيش کيا جب آپ سمندرميں شکم ماہی کے گهپ اندهيرے ميں تھے :

( وَذَاالنُّونِْ اِذذَْهَبَ مُغَاضِباًفَظَنَّ اَن لَن نَّقدِْرَعَلَيهِْ فَنَا دٰی فِی الظُّلُ مٰاتِ اَن لَااِ هٰلَ اِلَّااَنتَْ سُبحَْانَکَ اِنِّی کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِينَْ فَاستَْجَبنَْالَهُ وَنَجَّينَْاهُ مِنَ الغَْمِّ وَ کَ لٰ ذِکَ نُنجِْی المُْومِْنِينَْ ) ( ٢)

“ اور یونس کو یاد کرو کہ جب وہ غصہ ميں آکرچلے اور یہ خيال کيا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے اور پھر تاریکيوں ميں جاکر آوازدی کہ پروردگار تيرے علاوہ کوئی خدا نہيں ہے تو پاک وبے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں سے تهاتو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليااور انهيں غم سے نجات دلادی کہ ہم اسی طرح صاحبان ایمان کو نجات دلاتے رہتے ہيں ”

اس طرح کی استجابت طلب کےلئے نہيں ہے یہ حاجت اور فقر کےلئے ہے (عبد صالح ذوالنون نے اس کلمہ :( سُبحَْانَکَ اِنِّی کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِينَْ ) (٣)

____________________

١)سورئہ انبياء آیت ٨۴ ۔ )

٢)سورئہ انبياء آیت / ٨٧ ۔ ٨٨ ۔ )

٣)سورئہ انبياء آیت ٨٨ ۔ )

۱۴۴

“ اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں سے تها”کے علاوہ اور کچه نہيں کہا خدوندعالم نے اس کو قبول کيا اور ان کو غم سے نجات دی :( فَاستَْجَبنَْالَهُ ( وَنَجَّينَْاهُ مِنَ الغَْمِّ ) ( ١)

“تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليااور انهيں غم سے نجات دلادی ” ٣۔ ہم کوقرآن کریم ميں الله،موسیٰ بن عمران اور ان کے بهائی ہارون کا یہ کلمہ بهی ملتا ہے جب انهوں نے فرعون تک اپنی رسالت کا پيغام پہنچا نے کےلئے الله سے دعاکی :

اِذهَْبَااِل یٰ فِرعَْونَْ اِنَّهُ طَغ یٰ فَقُولَْالَهُ قَولًْالَيِّناًلَعَلَّهُ یَتَذَکَّرُاَویَْخ شْٰی قَالَارَبَّنَااِنَّنَانَخَافُ اَن یَّفرُْطَ عَلَينَْااَواَْن یَّط غْٰی ( ٢)

“تم دونوں فر عون کی طرف جا ؤ کہ وہ سر کش ہو گيا ہے ،اس سے نر می سے بات کر نا شاید وہ نصيحت قبول کر لے یا خو فزدہ ہو جا ئے ،ان دونوں نے کہا کہ پر ور دگار ہميں یہ خوف ہے کہ کہيں وہہم پر زیا دتی نہ کرے یا اور سر کش نہ ہو جا ئے ”

ان دونوں نے الله سے فرعون اور اس کی بادشاہت کے مقابلہ ميں خداسے اپنی حمایت اور مدد کی درخواست نہيں کی اور نہ ہی اپنی ضرورت کےلئے امن وامان کی درخواست کی ہے بلکہ انهوں نے اپنی کمزوری، فرعون کی عوام الناس پر گرفت ،فرعون کی طاقت اور اس کی سرکشی کا تذکرہ کيا:

( اِنَّنَانَخَافُ اَن یَّفرُْطَ عَلَينَْااَواَْن یَّط غْٰیٰ )

“ان دونوں نے کہا کہ پر ور دگار ہميں یہ خوف ہے کہ کہيں وہ ہم پر زیا دتی نہ کرے یاوہ سر کش نہ ہو جا ئے ”

اللهنے ان کی اس درخواست کو مستجاب کرتے ہوئے ان کی حمایت اور تائيد ميں فرمایا :

____________________

١)سورئہ انبياء آیت ٨٧ ۔ )

٢)سورئہ طہ آیت ۴٣ ۔ ۴۵ ۔ )

۱۴۵

( قَالَ لَاتَخَافَااِنَّنِی مَعَکُمَااَسمَْعُ وَاَر یٰ ) ( ١)

“ارشاد ہوا تم ڈرو نہيں ميں تمہارے ساته ہوں سب کچه سن بهی رہا ہوں اور دیکه بهی رہا ہوں”

۴ ۔چوتها نمونہ عبد صالح حضرت نوح عليہ السلام کا وہ کلمہ ہے جو آپ نے اپنے بيڻے کوطوفان ميں غرق ہونے سے بچانے کی خاطر الله کی بارگاہ ميں پيش کياتها :

وَنَادَ یٰ نُوحُْ رَبَّہُ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابنِْی مِن اَهلِْی وَ اِنَّ وَعَدَ کَ الحَْقُّ وَاَنتَْ اَحکَْمُ (الحَْاکِمِينَْ( ٢)

“اور نوح نے اپنے پروردگارکو پکاراکہ پروردگارميرا فرزندميرے اہل ميں سے ہے اور تيرا وعدہ اہل کو بچانے کا برحق ہے اور تو بہترین فيصلہ کرنے والا ہے ” بہر حال حاجت اور فقرکے وقت بهی الله کی رحمت نازل ہوتی ہے یہاں تک کہ حيوانات اورنباتات کی ضرورتوں اور فقر کےلئے بهی الله کی رحمت نازل ہوتی ہے ۔ جب پياس لگتی ہے توالله ان کو سيراب کرتا ہے اور جب بهوک لگتی ہے تو اللهان کو سيرکرتا ہے اور کهانا کهلاتا ہے یہ معرفت کا بہت وسيع وعریض باب ہے اور ہم اس کے ایک پہلو کو رحاب القرآن کے سلسلہ کی کتاب شرح الصدر ميں بيان کر چکے ہيں ۔

دوسرا وسيلہ :دعا

یہ الله کی رحمت کی کنجيوں ميں سے ایک کنجی ہے خداوندعالم فرماتا ہے :

ادعونی استجب لکم (٣)

____________________

١)سورئہ طہ آیت / ۴۶ ۔ )

٢)سورئہ ہودآیت/ ۴۵ ۔ )

٣)سورئہ غافر آیت ۶٠ ۔ )

۱۴۶

“مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا” (اور خدا کا فرمان ہے:( قُل مَایَعبَْوابِکُم رَبِّي لَولَْادُعَاوکُم ) ( ١)

“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعا ئيں نہ ہو تيں تو پرور دگار تمہاری پروا ہ بهی نہ کرتا ”

تيسرا وسيلہ :محبت

بيشک بندہ محبت کے ذریعہ الله کی رحمت نازل کراتاہے جو کسی دوسرے امرکے ذریعہ نازل نہيں ہوتی ہے

اب ہم ان تينوں وسيلوں کے سلسلہ ميں تفکر کرتے ہيں جن کو امام نے خداوندعالم تک رسائی کےلئے اپنا وسيلہ قراردیا ہے ۔رِضَاکَ بُغيَْتِي وَرُو یَتِکَ حَاجَتي وَعِندَْکَ دَوَاءُ عِلَّتِي وَشِفَاءُ غُلَّتِي وَبَردُْلَوعَْتِي وَکَشفُْ کُربَْتِي ( ٢)

“تيری ہی رضا ميرا آرزو ہے اور تيراہی دیدار ميری حا جت ہے اور تےرا ہی ہمسایہ ميرا مظلوب ہے تيرے پاس ميرے مرض کی دواہے اور ميری تشنگی کا علاج ہے غم کی بے قراری کی ڻھنڈک، رنج و غم کی دوری تيرے ہی ذمہ ہے ”یہ وسيلہ حاجت وفقر ہے ۔

جوارک طلبي وقربک غایة سو لي فکن انيسي في وحشتي ومقيل عثرتي وغافرزلّتي وقابل توبتي،ومجيب دعوتي ،وولي عصمتي ومغني فاقتي

“ اور تےرا ہی ہمسایہ ميرا مظلوب ہے اور تيرا قرب ميرے سوالات کی انتہا ہے ۔۔۔پس تو ميری وحشت ميں ميرا انيس، ہوجا لغزشوں ميں سنبهالنے والا خطاؤںکو معاف کرنے والا اور ميری

____________________

١)سورئہ فرقان آیت ٧٧ ۔ )

٢)مناجات مریدین )

۱۴۷

توبہ کوقبول کرنے والا ،ميری دعا کاقبول کرنے والا ،ميری حفاظت کا ذمہ داراور فاقہ ميں غنی بنانے والاہے ”یہ وسيلہ دعا ہے ۔فانت لاغيرک مرادي،ولک لالسواک سهري وسهادي،ولقاء ک قرّة عيني ووصلک منیٰ نفسي واليک شوقي ،وفی محبّتک ولهي والی هواک صبابتي “فقط تو ميری مراد ہے اور تيرے ہی لئے ميں راتوں کو جاگتاہوں کسی اور کے لئے نہيں ۔ اور تيری ملاقات ميری آنکهوں کی ڻھنڈک ہے اور تيرا وصال ميرے نفس کی اميد ہے اورتيری جانب ميرا شوق ہے اور تيری ہی محبت ميں ميری بيقراری ہے تيری ہی خواہش کی طرف ميری توجہ ہے ”یہ وسيلہ محبت ہے۔ اب ہم امام کے کلام کے اس فقرہ کے بارے ميں غوروفکر کرتے ہيں اور یہ دعا کا عمدہ جملہ ہے بيشک فن اور ادب کے مانند دعا کے عمد ہ وبہترین درجہ ہيں امام عليہ السلام فرماتے ہيں:

فقدانقطعت اليک همتي وانصرفت نحوک رغبتي،فانت لاغيرک مرادی،ولک لاسواک سهری وسها دی ولقا ء ک قره عينی

“اس لئے کہ ميری ہمت تيری ہی طرف ہے اور ميری رغبت تيری ہی بارگاہ کی طرف ہے فقط تو ميری مراد ہے اور تيرے ہی لئے ميں راتوں کو جاگتا ہوںکسی اور کے لئے نہيں تيری ملاقات ميری آنکهوں کی ڻنهڈک ہے ” جو چيز“انقطاع ”ميں ہے وہ “تعلق”ميں نہيں ہے امام عليہ السلام نے فرمایا ہے:

فقدتعلقت بک همتي نہيں فرمایا ہے بيشک الله سے لولگانا دوسروں سے لولگانے کو منع نہيں کرتا ہے ۔جب بندہ خدا سے لولگانے ميں صادق ہے اور یہ کہتا ہے :

فقدانقطعت اليک همتي بيشک “انقطاع”ایجابی اور سلبی دونوں معنی کا متضمن ہے ۔ پس انقطاع“من الخلق الی الله”،انقطاع“الی الله”اس جملہ کے ایجابی معنی ہيں جن کاامام نے قصد فرمایا ہے۔

بيشک محبت ميں اخلاص فصل اور وصل ہے فصل یعنی الله کے علاوہ دوسروں سے فاصلہ و دوری اختيار کرنا ،الله اورا لله نے جن کی محبت کا حکم دیا ہے ان سے وصل (ملنا)ہے اور یہ دونوں ایک قضيہ کے دو رخ ہيں۔

۱۴۸

جب محبت خالص اور پاک وصاف ہوتی ہے تو وہ دو باتوں کی متضمن ہوتی ہے:محبت و برائت ،اور وصل وفصل وانقطاع من الخلق “الی الله”ہے۔ یہی معنی دوسرے جملے “وانصرفت اليک رغبتی”کے بهی ہيں۔

انصراف الی الله سے “اعراض ”اور “اقبال”دونوں مراد ہيں ۔اعراض یعنی الله کے علاوہ دوسروں سے روگردانی کرنا اور “اقبال ”سے مراد الله ا ور الله نے جس سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے ان کی بارگاہ ميں حاضر ہونا ہے ۔

پهراس حقيقت کےلئے تيسری تاکيد جو ان سب ميں بليغ ہے ،اس ميں محبت اور انصراف الی الله کے معنی کو شامل ہے اور خدا کے علاوہ دوسروں سے منقطع ہونا ہے:

فانت لاغيرک مرادي ولک لالسواک سهوي وسهادي “سهو”اور“ سهاد ”نيند کے برعکس ہيں سہر یعنی محبت کی وجہ سے رات ميں نماز یںپڑهنا ۔ سهاد:بيداری کی ایک قسم ہے اور یہ حالت انسان کو اپنے کسی اہم کام ميں مشغول ہونے کے وقت پيش آتی ہے جس سے اس کی نيند اڑجاتی ہے اور انسان الله سے لولگانے کا مشتاق ہوتا ہے۔

یہ دونوں محبت کی حالتےں ایک دوسرے کے مثل ہيں :انس اور شوق ۔بندہ کا الله کے ذکر سے مانوس ہونا ،اور الله کا بندہ کے پاس اس طرح حاضر ہونا کہ بندہ اپنی دعا،ذکر، مناجات اور نماز ميں خدا کے حاضر ہونے کا احساس کرتا ہے اور الله سے ملاقات کا مشتاق ہوتا ہے۔

محب الله کی بارگاہ ميں ان دونوں باتوں کو سمجه کر حاضر ہوتا ہے تو یہ دونوں حالتےں اسکی نيند اڑا دیتی ہيں اس کوبيدار کر دیتی ہيں جب لوگ گہری نيند ميں سوجاتے ہيں اور نيند کی وجہ سے اپنے احساس بيداری اور شعور کو کهو بيڻهتے ہيں ۔

بيشک نيند ایک ضرورت ہے تمام لوگ اس سے اپنا حصہ اخذ کرتے ہيں جس طرح وہ کهانے پينے سے اپنی ضرورتےں پوری کرتے ہيں چاہے وہ لوگ صالح و نيک ہوں یا برے ہوں ۔یہاں تک کہ انبياء اور صدیقين بهی سوتے تھے ۔ ليکن ایک شخص جوضرورت بهر سوتا ہے جس طرح وہ کهانے پينے سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے اور جو شخص نيند کے سامنے سر تسليم خم کردیتا ہے اور نيند اس پر غالب آجاتی ہے ان دونوں آدميوں کے درميان فرق ہے۔ اولياء الله نيند کے سامنے سر تسليم خم نہيں کرتے ہيںبيشک نيند ان کی ضرورت ہے اور وہ اپنی ضرورت کے مطابق اس سے اپنا حصہ اخذ کرتے ہيں ۔رسول الله (ص)بهی خداوند عالم کی بارگاہ ميں حاضر ہونے کے بعد ہی سوتے تھے اور آپ کا فرمان تھا کہ ميرے سر کے پاس وضو کاپانی رکه دیناتاکہ ميں خدا کی بارگاہ ميں حاضری دے سکوں۔

۱۴۹

جب آپ کےلئے نرم اور آرام وہ بستر بچهایا جاتا تھا تو آپ اسکو اڻهانے کا حکم دیدتے تھے اس لئے کہ کہيں ان پر نيندغالب نہ آجائے ۔

آپ سخت چڻائی پر آرام فرماتے تھے یہاں تا کہ چڻائی ان کے پہلوپر اثر انداز ہو اور آپ پر نيند غالب نہ آجائے۔

خداوند عالم نے رات ميں مناجات ،ذکر اور اپنے تقرب کے وہ خزانے قرار دئے ہيں جو دن ميں نہيں قرار دئے ہيں۔ان کی طرح رات کے لئے بهی افراد ہيں جو رات ميں نماز ےں پڑهتے ہيں جب لوگ سوجاتے ہيں ،جب لوگ سستی ميں پڑے رہتے ہيں تو یہ ہشاش بشاش ہو تے ہيں۔ جب لوگ اپنے بستروں پر گہری نيند ميں سوئے رہتے ہيں۔تو یہ الله سے ملاقات کرکے عروج پر پہنچتے ہيں ۔

رات کےلئے بهی دولت ہے جس طرح دن کےلئے دولت ہے ،رات ميں بهی دن کی طرح خزانے ہيں۔عوام الناس دن کی دولت ،اسکے خزانے کو پہچانتے ہيں ليکن بہت کم لوگ ہيں جو رات کی دولت اور اسکے خزانے کی قيمت سے واقف ہيں اور جب انسان رات اور دن کی دولت سے ایک ساته بہرہ مند ہوتا ہے تو اسے انصاف پسند،متوازن اور راشد کہاجاتا ہے ۔

رسول الله ایک ساته دونوں سے بہرہ مندہوتے تھے اور بالکل متوازن طورپر دونوں کو اخذ کئے ہوئے تھے ۔آپ نے رات سے محبت،اخلاص اور ذکر اخذ کيااور دن سے طاقت، حکومت اور مال اخذ کيا تاکہ دین کی دعوت اور اسکے محکم ومضبوط ہونے پر متمکن ہوجائيں اور رات ميں آپ معين وقت پر عبادت کيلئے اڻهتے تھے اور رسالت جيسے ثقيل وسنگين عہدے کو اڻهانے پر متمکن تھے :

یَااَیُّهَاالمُْزِّ مِّل قُمِ اللَّيلَْ اِلَّاقَلِيلْاً نِصفَْهُ اَوِنقُْص مِنهُْ قَلِيلْاً اَوزِْد عَلَيهِْ وَرَتِّلِ القُْرآْنَ تَرتِْيلْاً اِنَّاسَنُلقِْی عَلَيکَْ قَولْاًثَقِيلْاً اِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيلِْ هِیَ اَشَدُّوَطاًْوَّاَقوَْمُ قِيلْاً اِنَّ لَکَ فِی النَّهَارِ سَبحْاً طَوِیلْاً ( ١)

“اے ميرے چادر لپيڻنے والے رات کو اڻهو مگر ذرا کم آدهی رات یا اس سے بهی کچه کم کردو یا کچه زیادہ کرو اور قرآن کو ڻهہر ڻهہر کر با قا عدہ پڑهو ہم عنقریب تمہارے اوپر ایک سنگين حکم نا زل کرنے والے ہيں بيشک رات کا اڻھنا نفس کی پامالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے یقيناً آپ کے لئے دن ميں بہت سے مشغوليات ہيں ”

____________________

١)سورئہ مزمل آیت / ١۔ ٧۔ )

۱۵۰

اور ہمارے لئے اس مقام پر رات اور اسکے رجال کے سلسلہ ميں حدیث قدسی سے ایک روایت کا نقل کرنا بہتر ہے۔

روایت ميں آیا ہے کہ خداوند عالم نے بعض صدیقين پر وحی نازل کی ہے:

انلي عبادمن عبادي یحبّونی فاحبّهم ویشتاقون الی واشتاق اليهم و یذکروني واذکرهم وینظرون اليَّ وانظراليهم وان حذوت طریقهم احببتُک وان عدلت منهم مقتّک قال:یاربّ وماعلا متهم ؟قال:یراعون الظلال بالنهارکمایراعي الراعي الشفيق غنمه،ویحنّون الیٰ غروب الشمس کمایحنّ الطيرالیٰ وکره عند الغروب،فاذاجنّهم الليل واختلط الظلام ،وفرشت الفرش،ونصبت الا سرة وخلا کلّ حبيب بحبيبه نصبوااليّ اقدامهم وافترشواليّ وجوههم،وناجونی بکلامي،وعلقوااليّ بانغامي فمن صارخ وباک ،وَمتاوَّهٍ شاکٍ،ومن قائم وقاعد وراکع وساجد بعيني مایتحملون من اجلي،وبسمعي مایشکون من حبّي اول مااعطيهم ثلاث:

١ اقذف من نوري في قلوبهم فيخبرون عنّي کمااخبرعنهم

٢ والثانية:لوکانت السماوات والارض فی موازینهم لاستقللتهالهم

٣ والثالثة:اُقبل بوجهي اليهم،افتریٰ من اقبلت بوجهی عليه یعلم احد (مااریداعطيه ؟( ١)

“ميرے کچه بندے مجه سے محبت کرتے ہيں اور ميں ان سے محبت کرتا ہوں ،وہ ميرے مشتاق ہيں اور ميں ان کا مشتاق ہوں وہ ميرا ذکر کرتے ہيں ميں ان ذکر کرتا ہوں وہ مجھے دیکهتے

____________________

١)لقاء الله ص ٠۴ ا۔ )

۱۵۱

ہيں اور ميں ان کو دیکهتا ہوں اگر تم بهی انهيں کا طریقہ اپناؤ گے تو ميں تم سے بهی محبت کرونگا اور اگر اس سے رو گردانی کروگے تو تم سے ناراض ہو جاؤنگا ۔سوال کيا گيا پروردگار عالم ان کی پہچان کيا ہے؟ آواز آئی کہ وہ دن ميں اپنے سایہ تک کی اس طرح مراعات کرتے ہيں کہ جيسے کو ئی مہربان چوپان اپنے گلّہ کی ،اور وہ غروب شمس کے اسی طرح مشتاق رہتے ہيں جيسے پرندہ غروب کے وقت اپنے آشيانہ ميں پہنچنے کے مشتاق رہتے ہيں پس جب رات ہو تی ہے اور ہر طرف اندهيرا چها جاتا ہے بستر بچه جاتے ہيں پلنگ بچهادئے جا تے ہيں ہر حبيب اپنے محبوب کے پاس خلوت ميں چلا جاتا ہے تو وہ اپنے قدم ميری طرف بڑها دیتے ہيں ميری طرف اپنے رخ کر ليتے ہيں ميرے کلام کے ذریعہ مجه سے مناجات کرتے ہيں نيز منظوم کلام کے ذریعہ ميری طرف متوجہ ہو جاتے ہيں تو کتنے ہيں جو چيخ چيخ کر روتے ہيں ،کتنے ہيں جو آہ اور شکوہ کرتے ہيں ،کتنے ہيں جو کهڑے رہتے ہيں ،کتنے ہيں جو بيڻهے رہتے ہيں ،رکوع کرتے رہتے ہيں سجدہ کرتے رہتے ہيں ميں دیکهنا چا ہتا ہوں کہ وہ ميری خاطر کيا کيا برداشت کرتے رہتے ہيں ميں سنتا رہتا ہوں جو وہ ميری ميری محبت کی خاطر پيش آنے والی مشکلات کا شکوہ کرتے ہيں ميں سب سے پہلے ان کو تين چيزیں عطا کرونگا :

١۔ميں ان کے دلوں ميں اپنا نور ڈال دونگا تو وہ ميرے بارے ميں اسی طرح بتائيں گے جيسے ميں ان کے با رے ميں بتا ؤنگا ۔

٢۔اگر آسمان و زمين ان کی ترازؤوں ميں ہو تو ميں ان کے لئے آسمان و زمين کا وزن بهی کم کر دونگا۔

٣۔ميں ان کی طرف توجہ کرونگا اور جس کی طرف ميں اپنا رخ کرلوں تو کسی کو کيا معلوم ميں اسے کيا دیدونگا ”

حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مروی ہے:

۱۵۲

کان ممااوحیٰ الله تعالی الی موسی بن عمران:کذّب مَن زعم انه یحبّني فاذاجنّه الليل نام عنّي،یابن عمران،لورایت الذین یقومون لي في الدجیٰ وقد مثلت نفسيبين اعينهم،یخاطبوني وقدجللت عن المشاهدة،ویکلموني وقد عززت عن الحضور یابن عمران،هب لي من عينک الدموع،ومن قلبک الخشوع،ثم ادعني في ظلمة اللَّيالي تجدني قریبامجيبا ( ١)

“خداوند عالم نے حضرت مو سیٰ بن عمران سے کہا کہ :جو شخص رات ميں مجه سے راز و نياز نہيں کرتا وہ ميرا محب نہيں ،فرزند عمران اگر تم ان افراد کو دیکهوگے کہ جو تاریکی شب ميں ميری بارگاہ ميں آتے ہيں اور ميں ان کی آنکهوں کے سامنے ہوتا ہوں تووہ مجه سے مخاطب ہوتے ہيں جبکہ ميں نظر نہيں آتا ہوں تو وہ مجه سے کلام کرتے ہيں حالانکہ ميں ان کے سامنے حاضر نہيں ہوتا ،اے فرزند عمران اپنی آنکهوں سے اشک گریاں اور دل سے خشوع مجھے ہدیہ کرو پھر مجھے تا ریکی شب ميں پکارو تو مجھے اپنے قریب اور اپنی دعا کا قبول کرنے والا پاؤگے ” نہج البلاغہ کے خطبہ متقين ميں امير المومنين علی بن ابی طالب رات کی تاریکی ميں مناجات کرنے والے اولياء الله کی پر وردگار عالم کی بارگاہ ميں حاضری کے حالات کی اس طرح عکاسی فرماتے ہيں:

امااللَّيلُْ فَصَافُّونَْ اَقدَْامَهُم،ْتَالِينَْ لاجزَْاءِ القُْرآْنِ یُرَتِّلُونَهَاتَرتِْيلْاً، یُحَزِّنُونُْ بِهِ اَنفُْسَهُم وَیَستَْثِيرُْونَْ بِهِ دَوَاءَ دَائِهِم فَاِذَامَرُّواْبِآیَةٍ فِيهَْاتَشوِْیقٌْ رَکَنُواْاِلَيهَْا طَمَعاًوَتَظَلَّعَت نُفُوسُْهُم اِلَيهَْاشَوقْاًوَظَنُّواْاَنَّهَانُصُبُ اَعيُْنِهِم وَاِذَامَرُّوابِآیَةٍ فِيهَْا تَخوِْیفٌْ اَصغَْواْاِلَيهَْامَسَامِعَ قُلُوبِْهِم وَظَنُّواْاَنَّ زَفِيرَْجَهَنَّمَ وَشَهِيقَْهَافِي اُصُولِْ ذَٰاانِهِم فَهُم

____________________

١)لقاء الله صفحہ/ ٠ا۔ )

۱۵۳

حَانُونَْ عَل یٰ اَوسَْاطِهِم مُفتَْرِشُونَْ لِجِبَاهِهِم وَاَکُفِّهِم وَرُکَبِهِم وَاَطرَْافِ اَقدَْامِهِم یَطَلِّبُونَْ ال یٰ الله ٰ تَعَال یٰ فِي فِکَاکِ رِقَابِهِم وَاَمَّاالنَّهَارُفَحُلَمَاءُ عُلَمَاءُ قَد بَرَاهُمُ الخَْوفُْ بَریَْ القِْدَاحِ ۔۔۔( ١)

“رات ہو تی ہے تو اپنے پيروں پر کهڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ڻهہر ڻهہر کر تلا وت کرتے ہيں جس سے اپنے دلوں ميں غم و اندوہ تا زہ کرتے ہيں اور اپنے مر ض کا چارہ ڈهونڈهتے ہيں جب کسی ایسی آیت پر ان کی نگاہ پڑتی ہے جس ميں جنت کی تر غيب دلا ئی گئی ہو ،تو اس کی طمع ميں ادهر جهک پڑتے ہيں اور اس کے اشتياق ميں ان کے دل بے تابانہ کهينچتے ہيں اور یہ خيال کر تے ہيں کہ وہ (پر کيف )منظر ان کی نظروں کے سامنے ہے اور جب کسی ایسی آیت پر ان کی نظر پڑتی ہے جس ميں (جہنم سے )ڈرایا گيا ہو تو اس کی جا نب دل کے کا نوں کو جهکا دیتے ہيں اور یہ گمان کرتے ہيں کہ دوزخ کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چيخ پکار اُن کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے ،وہ (رکوع )اپنی کمریںجهکا ئے اور (سجدہ ميں )اپنی پيشانياں ہتهيلياں گهڻنے اور پيروں کے کنا رے (انگوڻهے) زمين پر بچها ئے ہو ئے الله سے گلو خلا صی کے لئے التجائيں کرتے ہيں ۔

دن ہوتا ہے تو وہ دانشمند عالم ،نيکوکار اور پرہيز گار نظر آتے ہيں ۔۔۔”

____________________

١)نہج البلاغہ خطبہ ٣٠٣ ۔ )

۱۵۴

الله سے ملاقات کے شوق کی ایک اور حالت

الله سے ملاقات کرنے کے شوق کی ایک اور صورت کا حضرت امام زین العابدین عليہ السلام کی مناجات ميں مشاہدہ کيا جاسکتا ہے جس ميں آپ فرماتے ہيں:

اِ هٰلي فَاجعَْلنَْامِنَ الَّذِینَْ تَرَسَّخَت اَشجَْا رُالشَّوقِْ اِلَيکَْ فِي حَدَائِقِ صُدُورِْهِم وَاَخَذَت لَوعَْتُ مُحَبّّتِکَ بِمَجَامِعِ قُلُوبِْهِم فَهُم اِل یٰ اَوکَْارِالاَْفکَْارِیَاوُونَْ وَفِي رِیَاضِ القُْربِْ وَالمُْکَاشَفَةِ یَرتَْعُونَْ وَمِن حَيَاضِ المَْحَبَّةِ بِکَاسِ المُْلَاطَفَةِ یَکرَْعُونَْ وَشَرَایِعَ المُْ صٰا اٰفتِ یَرِدُونَْ قَدکُْشِفَ الغِْطَاءُ عَن اَبصَْارِهِم وَانجَْلَت ظُلمَْتُ الرَّیبِْ عَن عَقَائِدِهِم وَضَمَائِرِهِم وَانتَْفَجَت مُخَالَجَةُ الشَّکِّ عَن قُلُوبِْهِم وَسَرَائِرِهِم وَانشَْرَحَت بِتَحقِْيقِْ المَْعرِْفَةِ صُدُورُْهُم وَعَلَت لبِسَبقِْ السَّعَادَةِ فِی الزّهادة وَهِمَمُهُم وَعَذُبَ فِی مَعِينِْ المُْعَامَلَةِ شِربُْهُم وَطَابَ فِي مَجلِْسِ الاُْنسِْ سِرُّهُم وَاَمِنَ فِي مَوَاطِنِ المَْخَافَةِ سِربُْهُم وَاطمَْانَّت بِالرُّجُوعِْ اِل یٰ رَبِّ الاَْربَْابِ اَنفُْسُهُم وَتَيَقَّنَت بِالفَْوزِْوَالفَْلَاَحِ اَروَْاحُهُم وَقَرَّت بِالنَّظَرِاِل یٰ مَحبُْوبِْهِم اَعيُْنُهُم وَاستَْقَرَّبِاِدرَْاکِ السَّولِ وَنَيلِْ المَْامُولِْ قَرَارُهُم وَرَبِحَت فِي بَيعِْ الدُّنيَْابِالآْخِرَةِ تِجَارَتُهُم اِ هٰلِي مَااَلَذَّ خَوَاطِرَالاِْلهَْامِ بِذکرِْکَ عَل یٰ القُْلُوبِْ وَمَااَحلْ یٰ المَْسِيرَْ اِلَيکَْ بِالاَْوهَْامِ فِي مَسَالِکِ الغُْيُوبِْ وَمَااَطيَْبَ طَعمُْ حُبِّکَ وَمَااَعذَْبَ شِربَْ قُربِْکَ فَاَعِذنَْامِن طَردِْکَ وَاِبعَْادِکَ وَاجعَْلنَْامِن اَخصِّ عَارِفِيکَْ وَاَصلِْح عِبَادَکَ وَاَصدَْقِ طَائِعِيکَْ وَاَخلَْصِ (عُبَّادِک ( ١)

“خدا یا !ہم کو ان لوگوں ميں قرار دے جن کے دلوں کے باغات ميںتيرے شوق کے درخت راسخ ہو گئے ہيں اور تيری محبت کے سوز و گداز نے جن کے دلوں پر قبضہ کر ليا ہے وہ فی الحال آشيانہ افکار ميں پناہ لئے ہو ئے ہيں اور ریاض قرب اور مکاشفات ميں گردش کر رہے ہيںتيری محبت کے حوض سے سيراب ہو رہے ہيں اور تيرے اخلاص کے گهاٹ پر وارد ہو رہے ہيں ان کی نگاہو ں سے پردے اڻهادئے گئے ہيں اور ان کے دل و ضمير سے شکوک کی تاریکياںزائل ہو گئی ہيں ان کے عقائد سے شک و شبہ کی تاریکی محو ہو گئی ہے اورتحقيقی معرفت سے ان کے سينے کشادہ ہو گئے ہيں اور سعادت

____________________

١)مفاتيح الجنان مناجات عارفين۔ )

۱۵۵

حاصل کرنے کے لئے زہد کی راہ ميں ان کی ہمتيں بلند ہو گئی ہيں اورا طاعت کے ذریعہ سے ان کا چشمہ شيریں ہو گياہے مجلس انس ميں ان کاباطن پاکيزہ ہو گيا ہے اورمحل خوف ميں ان کا راستہ محفوظ ہوگيا ہے وہ مطمئن ہيںکہ ان کے دل رب العالمين کی طرف راجع ہيں اور ان کی روحوںکو کاميابی اور فلاح کایقين ہے اور ان کی آنکهوں کومحبوب کے دیدار سے خنکی حاصل ہو گئی ہے اور ان کے دلوں کو اورمدعاکے حصول سے سکون مل گيا ہے دنيا کو آخرت کے عوض بيچنے ميں ان کی تجارت کامياب ہو گئی ہے خدایا !دلوں کےلئے تيرے ذکر کا الہام کس قدر لذیذ ہے اور تيری بارگاہ کی طرف آنے ميں ہر خيال کس قدر حلاوت کا احساس کرتا ہے۔ تيری محبت کا ذائقہ کتنا پاکيزہ ہے اور تيرے قُر ب کاچشمہ کس قدرشيریں ہے ہميں اپنی دوری سے بچالے اور اپنے مخصوص عارفوں اوراپنے صالح بندوں ميں سے سچے اطاعت گذار اور خالص عبادت گذاروں ميں قرار دےنا ” ہم اس مقام پراہل بيت عليہم السلام کی دعا اور مناجات توقف نہيں

کرناچاہتے ليکن ہم امام علی بن الحسين عليہ السلام کی مناجات کے اس جملہ کے بارے ميں کچه غوروفکر کرنا چاہتے ہيں جس جملہ سے آپ نے مناجات کا آغاز فرمایا ہے:

اِ هٰلِي فَاجعَْلنَْامِنَ الَّذِینَْ تَرَسَّخَت اَشجَْارُالشَّوقِْ اِلَيکَْ فِی حَدَائِقِ صُدُورِْهِم وَاَخَذَت لَوعَْتُ مُحَبّّتِکَ بِمَجَامِعِ قُلُوبِْهِم

“خدا یا! ہم کو ان لوگوں ميں قرار دے جن کے دلوں کے باغات ميںتيرے شوق کے درخت راسخ ہو گئے ہيں اور تيری محبت کے سوز و گداز نے جن کے دلوں پر قبضہ کر ليا ہے ”

بيشک اولياء الله کےلئے جيساکہ امام عليہ السلام کے کلام سے ظاہر ہوتاہے خوبصورت باغ،طيب وطاہر ہيں اور عوام الناس سے مختلف طرح کی چيزیں صادر ہوتی ہيں:

۱۵۶

کچه لوگوںکے دلوں سے مکاتب اور علمی مدرسے وجود ميں آتے ہيں اور علم خير اور نور ہے بشرطيکہ الله سے ملاقات کا شوق باقی رہے بعض لوگوں کے سينہ تجارت گاہ ،بينک اور مال و دولت کے مخزن ہوتے ہيں جن کی تعداد بہت زیادہ ہو تی ہے اور شمارش کے نقشے ہو تے ہيں اور فائدہ و نقصان کے مقام ہو تے ہيں مال اور تجارت اچهے ہيں ليکن اس شرط کے ساته کہ یہ کام اسکے دل کو مشغول نہ کردے اور ایسا رنج وغم نہ ہو جو اس سے جدا نہ ہوسکتا ہوکچه لوگوں کے دل ایسی زمين ہوتے ہيںجس ميںببول کے درخت،جنگل(اندرائن جوکڑواہونے ميںضرب المثل ہے ) زہریلے ، کينہ مال پر لڑائی جهگڑا ، بادشاہت اور دوسروں کےلئے کيد ومکر ہوا کرتے ہيں،اور کچه افراد کے صدور (قلوب)کهيلنے کودنے والے افعال پر ہوتے ہيں دنيا وسيع پيمانہ پر ایک گروہ کےلئے لہو ولعب ہے ۔

لوگوں ميں سے کچه لوگوں کا دل دو ڻکڑوں ميں تقسيم کيا گيا ہے:ایک حصہ زہر،کينہ ،مکروکيد سے پر ہے اور دوسرا حصہ لہو ولعب سے لبریز ہے۔جب پہلے حصہ کا راحت وآرام چهن جاتا ہے تو وہ دوسرے حصہ سے پناہ مانگتا ہے اور لہو ولعب سے مدد چاہتا ہے تاکہ وہ نفس کو پہلے حصہ کے عذاب سے نجات دلا سکے۔

ليکن اولياء الله کے سينے اس شوق کے باغ(جيسا کہ امام زین العابدین عليہ السلام نے فرمایا ہے)کے سلسلہ ميںبارونق اور طيب وطاہر ميوے ہوتے ہيں کبهی ان ميں شوق کے درخت جڑ پکڑ جاتے ہيں اور اس ميں اپنی شاخيں پهيلادیتے ہيں ۔الله سے ملاقات کا شوق ایسا امر نہيں ہے کہ اگر اس پر خواہشات نفسانی غالب آجائے یا دنيااپنے کو زیب وزینت کے ساته اسکے سامنے پيش کردے تو وہ شوق ملاقات ختم ہوجائے ،اور جب صاحب دنيا کےلئے دنيا تنگ ہوجاتی ہے اور وہ مشکلوں ميں گهرجاتا ہے نہ تو اس شوق ميں کوئی کمی آتی ہے اور نہ ہی اس کے اوراق (پتّے)مرجهاتے ہيں۔

بيشک جب الله سے شوق ملاقات کے اشجار ان دلوں ميں اپنی جڑ محکم و مضبوط کر ليتے ہيں تو تمام مشکلوں کے باوجود ہميشہ ہرے بهرے اور پهل دیتے رہتے ہيں۔

۱۵۷

الله سے ملاقات کرنے کے شوق کی حالت روح کے ہلکے ہونے کی حالت ہے اور یہ حالت سنگينی اور دنيا پر اعتما د کرنے کی حالت کے برعکس ہے جس کے سلسلہ ميں قرآن کریم ميں گفتگو کی گئی ہے:

مَالَکُم اِذَاقِيلَْ لَکُم انفِْرُواْفِی سَبِيلِْ الله اَثَّاقَلتُْم اِلَی الاَْرضِْ اَرَضِيتُْم بِالحَْيَاةِالدُّنيَْامِنَ الآخِرَةِ ( ١)

“جب تم سے کہا گياکہ راہ خدا ميں جہاد کےلئے نکلو تو تم زمين سے چپک کر رہ گئے کيا تم آخرت کے بدلے زندگا نی دنيا سے راضی ہو گئے ہو” بيشک جب انسان دنيا سے لولگاتا ہے ،اسی سے راضی ہوتاہے اور اس پر اعتماد وبهروسہ کرليتا

ہے تو اسکا نفس بهاری اور ڈهيلا ہوجاتا ہے اور جب اسکا نفس(٢) دنيا سے آزاد ہوجاتا ہے تو ہلکا ہوجاتا ہے اور الله کی محبت اور اس سے شوق ملاقات کو جذب کرتا ہے۔

ہم اہل بيت سے ماثورہ دعاؤں کے بارے ميں روایات کی روشنی ميں محبت، شوق اور انس کی بحث کا اختتام کرتے ہيں اور اب “محبت خدا ”کی بحث کا آغاز کرتے ہيں ۔

الله کےلئے خالص محبت

یہ مقولہ توحيد حب کے مقولہ سے بلند ہے بيشک توحيد حب الله کی محبت کے علاوہ دوسری محبتوں کی نفی نہيں کرتی ہے ليکن الله کی محبت کو دوسری محبتوں پر غلبہ دیتی ہے پس الله کی محبت حاکم اور غالب ہے :

( وَالَّذِینَْ آمَنُواْاَشَدُّحُبالله ) ( ٣)

“ایمان والوں کی تمام تر محبت خدا سے ہو تی ہے ”

____________________

١)سورئہ توبہ آیت ٣٨ ۔ ) ٢)دنيا سے آزاد ہونے کا مطلب اس کو ترک کردینا نہيں ہے رسول خدا (ص) بهی دنيا سے ) آزاد تھے ليکن پھر بهی اپنی دعوت کے سلسلہ ميں دنيا کا سہاراليتے تھے ”

٣)سورئہ بقرہ آیت ۶۵ ا۔ )

۱۵۸

یہ ایمان کی شرطوں ميں سے ایک شرط اور توحيد کی شقوں ميں سے ایک شق ہے۔

ليکن الله سے خالص محبت،الله کے علاوہ دوسروں سے کی جانے والی محبت کی نفی کرتی ہے ليکن اگر محبت خدا(الحب لله،البغض لله)کے ساته باقی رہے ۔یہ ایمان اور توحيد کی شان ميں سے نہيں ہے ،ليکن صدیقين اور ان کے مقامات کی شان ہے۔

بيشک خداوند عالم اپنے اولياء اور نيک بندوں کے دلوں کو اپنی محبت کے علاوہ دوسروں کی محبت سے خالی کرنے پر متمکن کردیتا ہے ۔

حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :

القلب حرم اللّٰه فلا تسکن حرم اللّٰه غيراللّٰه (١) “دل الله کا حرم ہے اور الله کے حرم ميں الله کے علاوہ کوئی اور نہيں رہ سکتا ہے”

یہ دل کی مخصوص صفت ہے چونکہ اعضاء وجوارح انسان کی زندگی ميں مختلف قسم کے کام انجام دیتے ہيں جن کو خداوند عالم نے اس کےلئے مباح قرار دیا ہے اور ان کو بجالانے کی اجازت دی ہے ليکن دل الله کا حرم ہے اور اس ميں الله کے علاوہ دوسرے کی محبت کا حلول کرنا سزاوار نہيں ہے۔

روایت ميں دل کی حرم سے تعبير کرنے کے متعلق نہایت ہی دقيق نکتہ ہے بيشک حرم کا علاقہ امن وامان کاعلاقہ ہے اور اسکا دروازہ ہراجنبی آدمی کےلئے بند رہتا ہے اور اس ميں رہنے والوں کو کوئی ڈروخوف نہيں ہوتا اور نہ ہی اس ميںکوئی اجنبی داخل ہوسکتا ہے اسی طرح دل الله کا امن وامان والا علاقہ ہے اس ميں الله کی محبت کے علاوہ کسی اورکی محبت داخل نہيں ہوسکتی اور اس ميں الله کی محبت کو کوئی برائی یا خوف پيش نہيں آسکتا ہے۔

صدیقين اور اولياء الله سے خالص محبت کرنے والے بندے ہيں الله کی محبت اور دوسروں

____________________

١) بحار الانوار جلد ٧٠ صفحہ/ ٢۵ ۔ )

۱۵۹

کی محبت کو ایک ساته جمع نہيں کيا جاسکتا ہاں الله کی محبت کے زیر سایہ تو دوسروں کی محبت ہوسکتی ہے ۔

ہم مندرجہ ذیل حضرت امام زین العابدین عليہ السلام کی مناجات ميں محبت کی سوزش اور محبت ميں صدق اخلاص دیکهتے ہيں :

سَيَّدِي اِلَيکَْ رَغبَْتِی،ْوَاِلَيکَْ رَهبَْتِی،ْوَاِليَْکَ تَامِيلِْي وَقَد سَاقَنِي اِلَيکْ اَمَلِي وَعَلَيکَْ یَاوَاحِدِي عَکَفَت هِمَّتِي وَفِيمَْاعِندَْکَ انبَْسَطَت رَغبَْتِي وَلَکَ خَالِص رَجَائِي وَخَوفِْي وَبِکَ اَنِسَت مَحَبَّتي وَاِلَيکَْ اَلقَْيتُْ بِيَدي وَبِحَبلِْ طَاعَتِکَ مَدَدتُْ رَهبَْتِي یَامَولَْايَ بِذِکرِْکَ عَاشَ قَلبِْي وَبِمُنَاجَاتِکَ بَرَّدتُْ اَمَلَ الخَْوفِْ عَنِّي ْ ( ١)

“ميرے مالک ميری تيری ہی طرف رغبت ہے اور تجهی سے خوف تجهی سے اميد رکهتا ہے،اور تيری ہی طرف اميد کهينچ کر لے جاتی ہے ، ميری ہمت تيری ہی جناب ميںڻهہرگئی ہے اور تيری نعمتوں کی طرف ميری رغبت پهيل گئی ہے خالص اميداورخوف تيری ہی ذات سے وابستہ ہے محبت تجهی سے مانوس ہے اور ہاته تيری ہی طرف بڑهایا ہے اور اپنے خوف کوتيری ہی ریسمان ہدایت سے ملا دیا ہے خدایاميرادل تيری ذات سے زندہ ہے اور ميرادرد خوف تيری مناجات سے ڻهہراہے ” امام عليہ السلام مناجات کے اس ڻکڑے ميں اپنی رغبت ،رهبت ،اور آرزو تمام چيزوں کو الله سے مربوط کرتے ہيں اور خدا کی عطا کردہ ہمت کے ذریعہ ان سب کے پابند تھے آپ خالص طورپر خدا سے اميد رکهتے تھے اور اسی سے خوف کهاتے تھے ۔

رسول خدا (ص)سے مروی ہے :

احبّواالله من کلّ قلوبکم (٢)

____________________

١) دعائے ابو حمزہ ثمالی ۔ )

٢)کنز العمال جلد ٧۴ صفحہ/ ۴۴ ۔ )

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

نکتہ:

حضرت علیعليه‌السلام سے منقول گذشتہ روایت کو اگر صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی اس کی یہ توجیہ کرنی ہوگی کہ آپعليه‌السلام اپنے بارے میں نہیں بلکہ دوسروں کے متعلق مذکورہ جملہ ارشاد فرما رہے ہیں(۱) کیونکہ حضرت علی علیہ السلام نہ مشرکوں سے ڈرنے والے تھے اور نہ ہی انہیں اپنی حفاظت کے لئے کسی پناہ گاہ کی ضرورت تھی _ انہیں جائے پناہ کی ضرورت کیونکر ہو سکتی تھی جبکہ بدر کے آدھے سے زیادہ مقتولین کو انہوں نے اکیلے ہی قتل کیا تھا اور باقی نصف کے قتل میں بھی شریک تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مذکورہ بات کی مثال ایسے سے جیسے کوئی یہ کہے کہ ہمارے شہر میں یہ چیز کھائی جاتی ہے ، یہ پہنی جاتی ہے یا ہم اس شہر میں فلاں چیز بناتے ہیں_ حالانکہ ہو سکتا ہے اس شخص نے کبھی بھی وہ چیز نہ کھائی ہو ، و ہ لباس نہ پہنا ہو یا وہ چیز نہ بنائی ہو_

جنگ کی ابتدائ:

جنگ کی ابتداء عتبہ ، شیبہ اور ولید نے دوبدو لڑائی کے لئے حریف طلب کرنے کے ساتھ کی ، جن کے جواب میں ادھر سے تین انصاری نکلے، لیکن انہوں نے ان سے کہا کہ تم لوگ واپس چلے جاؤ، ہم تم سے لڑنے نہیں آئے ہم تو قریش سے اپنا ہم پلہ حریف طلب کر رہے ہیں_ ان کی اس بات پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے انہیں واپس بلا لیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کی ابتداء اپنے رشتہ داروں سے کی کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار سے اس جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتے تھے(۲) _اور یہ کہہ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ بن حارث کو پکارا:'' عبیدہ چچا جان علیعليه‌السلام اٹھو اور ان سے اپنے اس حق کا مطالبہ کرو جسے خدا نے تمہارے لئے قرار دیا ہے ...''_

جب وہ رن میں گئے تو عتبہ نے ان سے حسب و نسب کے متعلق پوچھا تو سب نے اپنا تعارف کرایا اور شیبہ نے جناب حمزہ سے اس کا حسب نسب پوچھا تو اس نے کہا :'' میں عبدالمطلب کا سپوت اور خدا اور اس

____________________

۱) البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور بے جگری سے لڑائی کے بیان میں مبالغہ آرائی کی ہو کہ علیعليه‌السلام جیسا نڈر شیر بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پناہ ڈھونڈھ رہا تھا_ اس کی اردو میں مثال میرا نیس کا یہ مصرع ہے انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں (بلکہ پوری نظم)_

۲) تفسیر قمی ج ۱ ص ۶۶۴، بحار الانور ج ۱۹ ص ۳۱۳ و ص ۳۵۳ و سعد السعود ص ۱۰۲ _

۲۶۱

کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیر حمزہ ہوں'' _ اس پر شیبہ نے کہا: '' اے خدا کے شیر اب تمہارا سامنا حلفاء(۱) کے شیر سے ہے اب دیکھتے ہیں تم میں کتنا دم خم ہے''_

بہرحال ،حضرت علی علیہ السلام جب ولید کو قتل کرکے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ جناب حمزہ اور شیبہ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہیں اور دونوں کے ہاتھوں میں اپنی اپنی ٹوٹی ہوئی تلوار ہے _ یہ منظر دیکھ کر حضرت علیعليه‌السلام نے جناب حمزہ سے فرمایا:'' چچا جان اپنا سر نیچے کیجئے '' _ اور چونکہ جناب حمزہ طویل القامت تھے اس لئے انہیں اپنا سر شیبہ کے سینے میں گھسانا پڑا ، تو حضرت علیعليه‌السلام نے شیبہ کے سر پر تلوار کا ایسا زور دار وار کیا کہ اس کا آدھا حصہ ( بھیجا) اڑکر دور جاگرا _ ادھر عتبہ نے عبیدہ کی ٹانگ کاٹ دی تھی اور عبیدہ نے بھی اس کا سر پھوڑا ہوا تھا پھر حضرت علیعليه‌السلام نے آکر اس کا کام بھی تمام کردیا _ یوں حضرت علیعليه‌السلام تینوں کے قتل میں شریک ہوئے تھے_(۲) اور کتاب '' المقنع '' میں ہندہ جگر خوارہ کے مندرجہ ذیل اشعار بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام تینوں کے قتل میں حصہ دار تھے:_

ما کان لی عن عتبة من صبر

ابی ، و عمی و شقیق صدری

اخی الذی کان کضوء البدر

بهم کسرت یا علیعليه‌السلام ظهری(۳)

عتبہ کی جدائی پر مجھ سے صبر نہیں ہوسکتا _ اے علیعليه‌السلام تونے میرے باپ، چچا اور میرے جگر کے ٹکڑے اور چاند سے بھائی کو مار کرمیری کمر توڑ دی ہے_

____________________

۱) یہ زمانہ جاہلیت کے اس عہد کی طرف اشارہ ہے جس میں قریش کے چند خاندانوں اور قبیلوں نے خون میں ہاتھ رنگ کر ایک دوسرے کی مدد اور حمایت کا اعلان اور عہد کیا تھا_ اسے حلف لعقة دم کہا جاتا تھا ، معاہدے کے فریقوں کو حلیف اور سب کو حلفاء یا احلاف کہا جاتا تھا _ حضرت علیعليه‌السلام نے بھی نہج البلاغہ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے _مترجم_ (۲) ملاحظہ ہو : المناقب ج ۳ ص ۱۱۹ از الاغانی و غیرہ ..._

۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۳ ص ۲۸۳ ب، العثمانیہ ، قسم نقوض الاسکا فی ص ۴۳۲ ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۹۲ و المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۱_

۲۶۲

اسی طرح سید حمیری مرحوم نے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ثنامیں مندرجہ ذیل شعر کہے ہیں:_

و له ببدر وقعة مشهوره

کانت علی اهل الشقاء دماراً

فا ذاق شیبة و الولید منیة

اذ صبحاه جحفلاً جراراً

و اذاق عتبة مثلها اهوی لها

عضباً صقیلاً مرهفاً تیاراً(۱)

حضرت علی علیہ السلام نے بدر میں مشہور و معروف کارنامہ سرانجام دیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دن ان بدبختوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا _ جب دن کو بہت بڑے لشکر سے آپعليه‌السلام کا سامنا ہوا تو آپعليه‌السلام نے شیبہ اور ولید اور اسی طرح عتبہ کو بھی اپنی تیز ، آبدار اور کاٹ دار تلوار سے موت کا جام پلایا_ نیز حسان بن ثابت کے اشعار کے جواب میں قبیلہ بنی عامرکے کسی شخص نے مندرجہ ذیل اشعار کہے جو ہمارے مدعا کی تائید کرتے ہیں:_

ببدر خرجتم للبراز فردکم

شیوخ قریش جهرة و تاخروا

فلما اتاهم حمزة و عبیدة

و جاء علی بالمهند یخطر

فقالوا نعم اکفاء صدق فاقبلوا

الیها سراعاً اذ بغوا و تجبروا

فجال علی جولة ها شمیة

فدمرهم لما بغو ا و تکبروا(۲)

بدر میں تم لوگ لڑنے نکلے تو قریش کے سرداروں نے کھلم کھلاتمہیں واپس پلٹا دیا اور تم سے جنگ گوارا نہیں کیا اور دوسرے جنگجوؤں کے منتظر ہوئے_ پھر جب حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ

____________________

۱) دیوان سید حمیری ص ۲۱۵ و الماقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۲_ (۲) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۹ و بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۹۱_

۲۶۳

کاٹ کار تلواریں لہراتے ہوئے نکلے تو انہوں نے مطمئن ہو کر کہا کہ ہاں یہ بالکل ہمارے ہم پلّہ ہیں_ اور جب انہوں نے تکبّر کےساتھ انہیں للکارا تو وہ جلدی سے جنگ میں کود پڑے اور جب انہوں نے تکبر اور سرکشی دکھانی شروع کردی تو حضرت علیعليه‌السلام کا ہاشمی خون جوش میں آیا اور انہوں نے اُن سب کونیست و نابود کر کے رکھ دیا_

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ کو ایک خط میں لکھا:''بالکل میں ہی ابوالحسن تمہارے دادا عتبہ ، چچا شیبہ ، ماموں ولید اور بھائی حنظلہ کا قاتل ہوں _ ان کا خون خدا نے ہی میرے ہاتھوں بہا یا تھا _ اب بھی میرے پاس وہی تلوار ہے اور میں نے اسی رعب و دبدبے اور جوش سے اپنے دشمنوں کو پچھاڑ اتھا''(۱) _

تینوں جنگجوؤں کے قتل کے بعد

اس کے بعد حضرت علیعليه‌السلام اور حضرت حمزہ جناب عبیدہ بن حارث کو اٹھا کر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں لے آئے تو اس نے آنسو بہاتے ہوئے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیا میں شہید نہیں ہوں؟'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''بالکل تم تو میرے اہل بیت کے سب سے پہلے شہید ہو''_ ( یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عنقریب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت سے شہیدوں کا تانتا بندھ جائے گا _ اور ہوا بھی یہی) _ پھر اس نے کہا : '' اگر اس وقت آپعليه‌السلام کے چچا بزرگوار زندہ ہوتے اور اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا دیکھتے تو یہ جان لیتے کہ ہم ان کی باتوں سے بہر حال بہترہیں''_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا :'' تم کس چچا کی بات کر رہے ہو ؟ ''_ اس نے کہا :'' ابوطالب کی ، کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ :

کذبتم و بیت الله یبزی محمد

و لما نطا عن دونه و نناظل

و نسلمه حتی نصرع دونه

و نذهل عن ابنائنا و الحلائل

____________________

۱) الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۴۳۵ ، شرح نہج البلاغہ محمد عبدہ ج ۳ ص ۱۳ و الغدیر ج ۱۰ ص ۱۵۱_

۲۶۴

(قریشیو) خدا کی قسم تم یہ جھوٹ کہتے ہو کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک تر لقمہ ہے _ کیونکہ ہم اس کی حمایت میں تیروں تلواروں اور نیزوں سے تم سے سخت جنگ کریں گے اور اپنے بیوی ، بچوں کو بھی اس پر قربان کردیں گے اور تم ہماری لاشوں سے گذر کر ہی اس تک پہنچ سکوگے ( یعنی وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت ابوطالب نے صرف باتیں کی تھیں لیکن ہم عمل کرکے دکھا رہے ہیں _ از مترجم )''_ اس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا :'' کیاتم یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس کا ایک بیٹا خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں کے سامنے بپھرے ہوئے شیر کی طرح چوکس کھڑا ہے اور دوسرا بیٹا حبشہ کی سرزمین میں خدا کی راہ میں جہاد میں مصروف ہے؟ '' _ اس نے عرض کیا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حالت میں بھی مجھے ڈانٹ رہے ہیں؟ '' _ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' میں تم پر ناراض نہیں ہو الیکن تم نے میرے پیارے چچا کا نام لیا تو مجھے اس کی یاد ستانے لگی ''(۱) _

اس روایت کے آخری حصے کو چھوڑ کر بہت سے مؤرخین نے اس روایت کو نقل کیا ہے _ مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ آیت ان چھ مذکورہ افراد کے بارے میں نازل ہوئی( هذان خصمان اختصموا فی ربهم فالذین کفروا قطعت لهم ثیاب من نار ) ترجمہ : '' یہ دونوں متحارب (گروہ ) اپنے اپنے رب کی خاطر لڑ رہے تھے اور کافروں کے لئے جہنم کی آگ کے کپڑے تیار ہو چکے ہیں''_ اور بخاری میں مذکور ہے کہ ابوذر قسم اٹھا کر کہتا تھا کہ یہ آیت انہی مذکورہ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۲) _نیز حضرت علیعليه‌السلام ،جناب حمزہ اور عبیدہ کے بارے میں یہ آیت بھی نازل ہوئی( من المومنین رجال صدقوا

____________________

۱) تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۶۵، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۵۵ البتہ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۸۰ میں ہے کہ اس دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے عبیدہ اور ابوطالبعليه‌السلام دونوں کے لئے مغفرت طلب فرمائی _ نیز الغدیر ج ۷ ص ۳۱۶ _ لیکن نسب قریش مصعب زبیری ص ۹۴ میں یوں آیا ہے کہ عبیدہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا : '' یا رسول اللہ کاش ابوطالب آج زندہ ہوتے تو اپنے ان اشعار کا مصداق اور تعبیر دیکھ لیتے ...''_ بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ عبیدہ کے ادب اور اخلاص سے یہی بات زیادہ سازگار ہے _ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ گذشتہ بات بھی اس کے ادب اور خلوص کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دین کی راہ میں جان قربان کئے ہوئے دیکھ رہا تھا، اس بنا پر اس کی مذکورہ بات میں کوئی حرج نہیں تھا _(۲) بخاری مطبوعہ میمینہ ج ۳ ص ۴ ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۸ از مسلم البتہ ابوذر کی قسم کے بغیر ، مستدرک حاکم ج ۲ ص ۳۸۶ اور اسی نے اور ذہبی نے اس کی تخلیص میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ، الغدیر ج ۷ ص ۲۰۲از تفسیر ابن کثیر ج۳ ص ۲۱۲ ، تفسیر ابن جزی ج ۳ ص ۳۸ ، تفسیر خازن ج ۳ ص ۶۹۸ ، تفسیر قرطبی ج ۲ ص ۲۵_ ۲۶ ، صحیح مسلم ج ۲ ص ۵۵۰ و طبقات ابن سعد ص ۵۱۸ اور ابن عباس ، ابن خیثم ، قیس بن عباد ، ثوری ، اعمش ، سعید بن جبیر اور عطاء سے بھی یہی منقول ہے_

۲۶۵

ما عاهدوا الله علیه ) ترجمہ : '' مومنوں میں کئی ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے خدا سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کر دکھایا(۱) _البتہ یہ بھی منقول ہے کہ یہ آیت فقط حضرت علی علیہ السلام کے حق میں اتری(۲) _ اس کے علاوہ جنگ بدر میں حضرت علی علیہ السلام کی تعریف میں کئی اور آیات بھی نازل ہوئیںجنہیں آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں(۳) _

اس واقعہ کی روشنی میں ہم مندرجہ ذیل چند عرائض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف: حضرت ابوطالبعليه‌السلام کے حق میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ:

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتنے مہذب اور محدود پیمانے پر اپنے چچا کے ناروا ذکر پر غصہ ہوسکتے ہیں تو خود ہی سوچئے کہ جناب ابوطالب پر کفر اور شرک کا ناروا الزام لگانے اور انہیں خدا کی بھڑکتی ہوئی آگ میں دردناک عذاب کے مستحق ٹھہرانے پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا موقف اور ردّ عمل ہوگا؟ کیا آپ لوگوں کے خیال میں اس بات سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خوش ہوں گے؟ ہرگز نہیں_ حالانکہ یہ بے بنیاد باتیں سیاست کی ابجد سے بھی ناواقف افراد کی طرف سے صرف سیاسی مقاصد کے لئے گھڑی گئیں_

ب: اپنے رشتہ داروں سے آنحضرتعليه‌السلام کی جنگ کی ابتدائ:

یہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی انصار کے تین جنگجوؤں کو واپس بلا کر حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ بن حارث کو رن میں جاکر سب سے پہلے دشمن کا سامنا کرنے کا حکم دیا(۴) _ اور یہ تینوں شخصیات

____________________

۱) الصواعق المحرقہ ص ۸۰_ (۲) المناقب خوارزمی ص ۱۸۸ و الکفایة خطیب ص ۱۲۲_

۳) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۸ و دیگر کتب_

۴) البتہ امالی سید مرتضی ج ۱ ص ۲۷۵ ، اعلام الوری ص ۳۰۸، بحار الانوارج ۴۸ ص ۱۴۴ اور المناقب ابن شہر آشوب ج ۴ ص ۳۱۶ میں ایک روایت مذکور ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے نفیع انصار ی سے فرمایا :'' اور اگر تم عزت اور فخر میں مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو یہ سن لو کہ خدا کی قسم ہمارے قبیلے کے مشرکوں نے تمہاری قوم کے مسلمانوں کو اپنا ہم پلّہ نہ سمجھتے ہوئے ان سے جنگ نہیں کیا بلکہ انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ اے محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش سے ہمارے ہم پلّہ جنگجوؤں کو ہمارے مقابلے میں بھیج'' _ لیکن میرے خیال میں دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مشرکین بھی ان سے جنگ کے لئے راضی نہ ہوں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھی انہیں رن میں بھیجنے کا دل نہ ہو_

۲۶۶

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ دار ہیں _ اور حضرت علی علیہ السلام نے بھی حضرت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے متعلق فرمایا: '' جب جنگ چھڑ جاتی تھی اور دوبدو لڑائی کے لئے حریف طلب کئے جاتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے رشتہ داروں کو آگے کر کے اپنے صحابہ کو بچالیتے تھے _ جس کی وجہ سے عبیدہ جنگ بدر میں ، حمزہ جنگ اُحد میں اور جعفر جنگ مؤتہ میں ماراگیا ...''(۱) _

یہاں ہم یہ کہنے ہیں حق بجانب ہیں کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگوں کی ابتداء اپنے رشتہ داروں سے کرتے ہیں تو اس بات سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مہاجرین و انصار کونہ صرف زبانی کلامی بلکہ عملی طور پر یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اپنے مقاصد تک پہنچنے اور اپنی ذات اور اپنے رشتہ داروں سے خطرات کوٹا لنے کا ذریعہ ( یعنی صرف قربانی کا بکرا) نہیں بناناچاہتے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیش نظر ایسے اعلی مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے سب کو شریک ہونا پڑے گا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی خوشی ، غمی ، سختی ، آسانی ، دکھ اور سکھ تمام حالات میں ان کے ساتھ برابر کے شریک تھے_ اور دوسروں سے جان کی قربانی طلب کرنے سے پہلے خود قربانی پیش کرتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جتنا بھی ہوسکتا تھا دوسروں کو خطرات سے نکالنے کی کوشش کرتے تھے، چاہے اس کے بدلے میں اپنے ہی رشتہ داروں کو خطرات میں جھونک دینا پڑتا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جھونک دیتے_

اور یہ ایسی بات ہے جسے ہر اعلی مقصد رکھنے والے شخص ، سیاست دان اور ہر لیڈر کے لئے بہترین نمونہ عمل ہونا چاہئے_ اسے چاہئے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے خود قربانی پیش کرے ، پھر اگر اسے دوسروں کی قربانیوں کی ضرورت پڑی تو اس کے پاس قربانی طلب کرنے کا جواز ہوگا اور ہر کوئی یہ کہے گا کہ وہ اپنے مطالبے میں سچا اور حق بجانب ہے_ اور اسے عملی طور پر اپنے اغراض و مقاصد کی طرف بڑھنے کی بجائے مضبوط قلعوں میں بیٹھ کر صرف دوسروں کو زبانی کلامی احکام صادر کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو اس ہدف کی طرف پیش قدمی کرنے والوں سے مستثنی سمجھ کر دوسروں پر صرف حکم

____________________

۱) انساب الاشراف ج ۲ ص ۸۱ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۵ ص ۷۷ ، کتاب صفین مزاحم ص ۹۰ ، نہج البلاغہ حصہ خطوط خط نمبر ۹ ، العقد الفرید ج ۴ ص ۳۳۶، المناقب خوارزمی ص ۱۷۶ و نہج البلاغہ ج ۳ ص ۱۰ و ص ۱۱_

۲۶۷

چلانے پر اسے اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے بھی دوسروں کے شانہ بشانہ اپنے مقصد کی طرف بڑھنا چاہئے بلکہ اسے دوسروں سے آگے آگے ہونا چاہئے کیونکہ ہدف چاہے کتنا ہی بلند ، اعلی اور مقدس ہولیکن پھر بھی اس کی جانب پیش قدمی پر اکسا نے اور ابھارنے کے لئے صرف باتوں کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی خاطر خواہ نتیجہ نکلتا ہے بلکہ اس کے ساتھ عمل کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے_

ج : شیبہ کا توہین آمیز رویہ:

ہم نے وہاں یہ بھی مشاہدہ کیا کہ حضرت حمزہ کے اپنے آپ کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے شیر کہنے پر شیبہ نے ان کا کس طرح مذاق اڑایا اور اپنے '' حلفائ''کے شیر ہونے پروہ کس طرح اکڑ رہا تھا _ حالانکہ انصاف کا تقاضا اور حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے_ ان حلفاء کے خاص مفاد اور قبائلی طرز تفکر پر مبنی حلف کے بعض پست اور بے وقعت اہداف و مقاصد پر ہم پہلے روشنی ڈال چکے ہیں_ انہی مقاصد کے حصول کے لئے وہ بدر جیسی جنگیں لڑ رہے تھے_ اور ہم سب کو معلوم ہے بلکہ ان مشرکوں کو بھی معلوم تھا کہ خدا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور شیر خدا کے روئے زمین پر قربانی دینے کا مقصد صرف اور صرف دنیا اور آخرت میں انسانیت کی نجات ، بھلائی اور کامیابی ہے_

د: خدا کی طرف سے مسلمانوں کو ملنے والا حق:

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ کو نسا حق تھا جس کی طرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام ، حضرت حمزہ اور جناب عبیدہ کو جنگ کا حکم دیتے ہوئے یوں اشارہ فرمایا تھا :'' ان سے اپنے اس حق کا مطالبہ کرو جسے خدا نے تمہارے لئے قرار دیا ہے''_ کیا یہ وہی عقیدے اور فکر کی آزادی کا حق نہیں تھا؟ اور کیا یہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والے، انہیں اپنے ہی گھروں سے نکال باہر کرنے والے اور ان کا مال لوٹنے والے بلکہ کئی مسلمانوں کو قتل کرنے والے اور ان سب پربد ترین زیادتیوں کے مرتکب ہونے والے قریشیوں اور ان کے حملے کے مقابلے میں دین الہی اور اپنی ذات کے دفاع کا حق نہیں تھا؟

۲۶۸

خلاصہ کلام : یہ کہ مسلمان آزاد زندگی گذارنا چاہتے تھے اور منحرفوں اور ظالموں کے مقابلے میںدین الہی کا دفاع کرنا چاہتے تھے _ اور مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر ظلم اور زیادتی کرنے والے سے انصاف کا مطالبہ کرے_ خاص کر جب حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبی کریم نے ان مشرکین کے سامنے وہ مذکورہ پیشکش رکھی تھی لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھول کر بھی باز نہیں آئے بلکہ وہ پھونکوں سے چراغ الہی کو بجھانے ، مسلمانوں سے جنگ کرنے اور انہیں نیچاد کھانے پر بضدر ہے ، اسی لئے خداوند عالم کو یہ کہنا پڑا( اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا و ا ن الله علی نصرهم لقدیر الذین اخرجوا من دیارهم بغیر حق الّا ان یقولوا ربنا الله ) (۱)

جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے

جب ابوجہل نے عتبہ ، شیبہ اور ولید کو قتل ہوتے دیکھا تو حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگا : '' ربیعہ کے بیٹوں کی طرح جلد بازی اور تکبر نہ کرو _ ایسا کرو کہ یثرب والوں ( یعنی انصاریوں ) پر حملہ کر کے ان سب کو گا جرمولی کی طرح کاٹ کر رکھ دو اور قریشیوں کو اچھی طرح کس کر قید کر لو تا کہ انہیں مکہ لے جا کر ان سے اچھی طرح پوچھ گچھ کریں کہ وہ کس گمراہی پر تھے ''_

اور ابن عباس اس آیت( و ما رمیت اذ رمیت و لکن الله رمی ) کے متعلق کہتا ہے کہ حضرت جبرائیلعليه‌السلام کے کہنے پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو حکم دیا:'' مجھے مٹھی بھر کنکریاں اٹھا کردو '' _ حضرت علیعليه‌السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مٹھی بھر چھوٹے سنگریزے اٹھا کردیئے ایک روایت کے مطابق وہ مٹی سے بھی اٹے ہوئے تھے ) _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ کنکریاں لے کر مشرکوں کے چہروںکی طرف (شاہت الوجوہ کہہ کر) پھینک دیں تو تمام مشرکوں کی آنکھیں کنکریوں سے بھرگئیں _ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ کنکریاں ان کی آنکھوں کے علاوہ ان کے منہ اور ناک کے نتھنوں میں بھی جا پڑیں _ پھر تو مسلمانوں نے انہیں یکے بعد دیگرے قتل یا قید کرنا شروع کردیا(۲) البتہ یہاں ابن عباس کا کام فقط مذکورہ آیت کو اس معجزاتی عمل سے مطابقت دینا تھا_

____________________

۱) حج / ۳۹و ۴۰_ (۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۲۹ از تفسیر ثعلبی ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۹ نیز ملاحظہ ہو سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۷_

۲۶۹

جنگ بدر میں فرشتوں کا کردار

علماء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ خدا نے جب فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجا توکیا وہ صرف مسلمانوں کی ڈھارس بندھانے اور بزدلی دور کرنے کے لئے آئے تھے یا انہوں نے خود بھی جنگ میں حصہ لیا تھا؟_ البتہ قرآن مجید کی یہ آیت اس دوسرے نظریئےو رد کرتی ہے( وما جعله الّا بشری و لتطمئن به قلوبکم ) (۱) ترجمہ : '' اور خدا نے فرشتوں کو صرف کامیابی کی خوشخبری دے کر بھیجا تا کہ اس طریقے سے تمہارے دل مطمئن ہوں '' _ لیکن چند ایک دیگر آیتیں ان کے جنگ میں شریک ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں _ سورہ انفال کی یہ بار ہویں آیت بھی ان میں سے ہے _( اذ یوحی ربک الی الملائکه انی معکم فثبتو االذین آمنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب ، فاضربوا فوق الاعناق و اضربوا منهم کل بنان ) ترجمہ : ( یاد کرو اس وقت کو ) جب تمہارے ربّ نے فرشتوں کو یہ وحی کی کہ (مسلمانوں کو جا کر خوشخبری دوکہ گھبراؤ نہیں) میں تمہارے ساتھ ہی ہوں اور مؤمنوں کو ثابت قدم رکھو _ میں عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوںگا _ تو جا کر ان کے پس گردن بلکہ ہر طرف سے وار کرو '' _ البتہ یہ اشارہ اس صورت میں قابل قبول ہوگا جب آیت میں (فاضربوا ...) کے مخاطب فرشتے ہوں ، جس طرح کہ آیت سے بھی بظاہر یہی لگتا ہے _ لیکن اگر اس آیت میں مخاطب مسلمان جنگجو ہوں تو پھر اس آیت میں بھی فرشتوں کے جنگ کرنے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ہوگا _

بہر حال صورتحال جو بھی ہو ، ایک بات مسلم ہے کہ تمام فرشتے حضرت علی علیہ السلام کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے(۲) اور ہوسکتا ہے کہ وہ کافروں کی نظر میں مسلمانوں کی تعدا د زیادہ دکھانے کا سبب بنے ہوں

____________________

۱) انفال / ۱۵ _

۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۸۵ از المناقب ، لیکن دیگر مؤرخین سے مروی ہے کہ وہ فرشتے زبیر کی شکل و صورت میں نازل ہوئے _ کیونکہ زبیر کے سر پر زرد عمامہ (پگڑی ) تھا اور ملائکہ بھی سر پر زرد عمامے باندھے ان پر نازل ہوئے _ اس بارے میں ملاحظہ ہو: مستدرک حاکم ج ۳ ص ۳۶۱ ، حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۸۶ از مستدرک و کنز العمال ص ۲۶۸ از طبرانی و ابن عساکر و مجمع الزوائد ج ۶ ص ۸۴ لیکن مذکورہ بات کی نفی دلائل النبوہ ابو نعیم ص ۱۷۰ و حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۸۶ میں مذکور وہ روایتیں کرتی ہیں جن میں آیا ہے کہ جنگ بدر کے دن ملائکہ سر پر سفید عمامہ باندھے نازل ہوئے تھے _

۲۷۰

کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے( و یکثر کم فی اعینهم ) '' اور خدا نے ان کی آنکھوں میں تمہیں کثیر جلوہ گر کیا ''_

جنگ جمل میں بی بی عائشہ کا کردار

اسی مناسبت سے ہم یہاں یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ ( آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نقل کرتے ہوئے ) جنگ جمل میں بی بی عائشہ نے بھی کہا تھا کہ مجھے مٹھی بھر مٹی چاہئے _ جب اسے مٹی فراہم کی گئی تو بدروالوں کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سلوک کی طرح اس نے بھی حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرف رخ کر کے اس پر پھونک مارتے ہوئے کہا : '' شاہت الوجوہ '' (چہرے بگڑ جائیں ) _ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :( و ما رمیت از رمیت و لکن الشیطان رمی و لیعودن و بالک علیک ان شاء الله ) ( شیطان نے تمہارے ذریعہ یہ مٹی پھینکی ہے _ اس کا برا انجام بھی انشاء اللہ تمہاری ہی گردن پکڑے گا)(۱) _

اسی طرح جب بی بی عائشہ نے حضرت علی علیہ السلام کو جنگ جمل میں اپنی فوج کی صفوں میں ایسے چکر لگاتے ہوئے دیکھا جیسے جنگ بدر میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنی فوج کی صفوں کی نگرانی کر رہے تھے ، تواس نے کہا : ''اسے دیکھو تو سہی مجھے تو لگتا ہے کہ وہ تم پر کامیابی کے لئے دوپہر کے وقت سورج کے زوال کا انتظار کر رہا ہے ''(۲) اور ہوا بھی ایسے ہی ، نیز اس موقع پر بھی امیرالمؤمنین حضرت علیعليه‌السلام نے بالکل سچ فرمایا تھا_

شکست اور ذلت

بہر حال خدا نے مشرکین کو بہت بری طرح شکست سے دوچار کیا _ اس جنگ میں ابوجہل بھی ماراگیا _

____________________

۱) کتاب الجمل شیخ مفید ص ۱۸۶ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱ ص ۲۵۷ نیز ملاحظہ ہو الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۳۲۵_

۲) الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۲۱۴ _ یہاں بدر اور جمل کے واقعات اور شخصیتوں کے کردار و گفتار کی عینی یا عکسی مشابہت بھی نہایت حیرت انگیر ہے البتہ یہاں تفصیل کی گنجائشے بالکل نہیں ہے لیکن ذہین قارئین سے بھی پوشیدہ نہیں ہے _ مترجم

۲۷۱

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اسے پہلے ہی پیشین گوئی کردی تھی کہ خدا اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے کمزور صحابی کے ہاتھوں مارے گا _ بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وقوعہ سے پہلے ہی اسے جنگ بدر کا سارا واقعہ بتا دیا تھا(۱) _ تو اسے ایک انصاری نے قتل کردیا تھا پھر ابن مسعود نے آکر اس کا سر کاٹ دیا تھا_ یہ بھی منقول ہے کہ ابن مسعودنے اسے آخری سانسوں میں پایا تو اس نے آکر اس کا کام تمام کردیا _ لیکن پہلی بات حقیقت سے قریب ترہے اس لئے کہ اس کا سامان ابن مسعود کے علاوہ کسی اور نے غنیمت کے طور پر لوٹا تھا _

جنگ بدر کا سب سے پہلا بھگوڑا ابلیس ملعون تھا _ کیونکہ روایات کے مطابق وہ مشرکین کو قبیلہ بنی کنانہ کے ایک بزرگ سراقہ بن مالک مدلجی کی شکل میں دکھائی دیتا تھا _ اور وہ اس لئے کہ قریش قبیلہ بنی بکر بن عبد مناف کو کسی خونی معاملے کی وجہ سے اپنے ساتھ ملانے سے ڈرتے تھے جس کی وجہ سے ابلیس قریشیوں کو سراقہ کی شکل میں نظر آیا اور انہیں مطلوبہ ضمانت فراہم کی اور وہ سب ساتھ ہولئے _ لیکن جب اس نے مشرکین کی حالت زار دیکھی اور مسلمانوں کی مدد کو آئے ہوئے ملائکہ کو بھی مشاہدہ کیا تو وہ اس کام سے پیچھے ہٹ گیا جس کی وجہ سے مشرکین شکست کھا گئے تو مکہ والے یہ کہنے لگے کہ سراقہ بھاگ گیا _ لیکن ( اصلی ) سراقہ نے کہا : '' مجھے تو تمہارے جانے کا بھی اس وقت پتہ چلا جب تمہاری شکست کی خبر مجھے ملی '' _ پھر انہیں مسلمان ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ تو شیطان تھا _

یہ بھی مروی ہے کہ جب ابوسفیان نے قافلہ کو مکہ پہنچادیا تو خود واپس پلٹ آیا اور قریش کی فوج کے ساتھ مل کر بدر کے میدان تک آیا _ اور اس جنگ میں اسے بھی کئی زخم لگے اور وہ واپس بھاگتے ہوئے گھوڑے سے گرپڑا اور پھر پیدل ہی مکہ جاپہنچا(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۶۷ از الاحتجاج و حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے منسوب تفسیر ص ۱۱۸ و ص۱۱۹

۲) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵_

۲۷۲

دوسری فصل:

جنگ کے نتائج

۲۷۳

جنگ کے نتائج :

جنگ بدر میں مشرکین کے ستر آدمی مارے گئے اور اتنے ہی قید کرلئے گئے _ البتہ یہ بھی منقول ہے کہ پینتالیس آدمی قتل اور اتنے ہی قیدی ہوئے _ لیکن ہوسکتا ہے اس دوسرے نظریئےی بنیاد بعض مؤرخین کی یہ بات ہو کہ مذکورہ مقدار میں یا اس سے زیادہ مشرکین قتل ہوگئے _ جس سے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ان کے مقتولین اور قیدیوں کی آخری تعداد ہے _ لیکن مذکورہ بات اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ مقتول مشرکین کی کل تعداد اتنی تھی بلکہ صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ راوی کو اتنی تعداد کا علم ہوسکا ہے _

لیکن مسلمانوں کے شہدا کے متعلق مختلف نظریات ذکر ہوئے ہیں _ نو بھی مذکور ہے ، گیارہ بھی اور چودہ شہیدوں کا نظریہ بھی ہے کہ جس میں سے چھ مہاجر تھے اور آٹھ انصاری _ البتہ قید کوئی نہیں ہوا تھا _ جبکہ مال غنیمت میں مشرکین کے اڑھائی سو اونٹ ، دس گھوڑے ( البتہ ابن اثیر کے مطابق تیس گھوڑے ) اور بہت زیادہ ساز و سامان ، اسلحے ، چمڑے کے بچھونے ، کپڑے اور چمڑے مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے(۱) _

حضرت علی علیہ السلام کے کارنامے:

مشرکین کے اکثر مقتولین ، مہاجرین بالخصوص آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ داروں اور خاص کر خود حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے تھے_ اور اس دن کافروں کو بہت بڑی مصیبت ، اور شکست دینے کی وجہ سے کافروں نے آپعليه‌السلام کو '' الموت الاحمر'' ( سرخ موت ) کا نام دیا(۲) _

____________________

۱) المغازی واقدی ج ۱ ص ۱۰۲ و ۱۰۳ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۱۸ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۸۳_

۲) المناقب ابن شہر آشوب ج ۲ ص ۶۸_

۲۷۴

اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ شبعی ہمیں یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ '' پورے عرب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ علیعليه‌السلام سب سے زیادہ بہادر شخصیت تھے''(۱) _ اور گذشتہ فصل میں '' جنگ کی ابتدا'' کے تحت عنوان حسان بن ثابت کے اشعار کے جواب میں قبیلہ بنی عامر کے ایک آدمی کے اشعار اور اپنے مقتولین کے مرثیہ میں ہندہ کے اشعار بھی اس بارے میں ذکر ہوچکے ہیں _

نیز مشرکین قریش کو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف بھڑکاتے ہوئے اسید بن ابی ایاس نے مندرجہ ذیل اشعار کہے:

فی کل مجمع غایة اخزاکم

جذع ابرعلی المذاکی القرح

لله درکم المّا تنکروا

قد ینکر الحر الکریم و یستحی

هذا ابن فاطمة الذی افناکم

ذبحاً و قتلاً قعصة لم یذبح

اعطوه خرجاً و اتقوا تضریبه

فعل الذلیل وبیعة لم تربح

این الکهول و این کل دعامة

فی المعضلات و این زین الابطح

افناهم قعصاً و ضرباً یفتری

بالسیف یعمل حده لم یصفح(۲)

____________________

۱) نور القبس ص ۲۴۹_

۲) اسد الغابہ ج ۴ ص ۲۰ و ۲۱ ، زندگی امام علیعليه‌السلام در تاریخ دمشق باتحقیق محمودی ج ۱ ص ۱۵ ، ارشادمفید ص ۴۷ ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۱ ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۸۲ ، انساب الاشراف با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۱۸۸ و تیسیر المطالب ص ۵۰ _

۲۷۵

ہر ٹکراؤ پر آخر کار اس نے تمہیں خوار کیا _ سوئی کی طرح کا ایک لاغر آدمی اچھے بھلے شہ زوروں پر غالب آرہا ہے _ تمہیں خدا کا واسطہ بتاؤ کیا اب بھی تمہیں شرمندگی محسوس نہیں ہوئی؟ حالانکہ ان باتوں سے تو کسی بھی شریف آزاد خیال آدمی کو بھی شرمندگی اور پچھتا وا ہوسکتا ہے _ یہ فاطمہ ( بنت اسد ) کا چھوکرا تمہیں گا جرمولی کی طرح کاٹ کاٹ کر نیست و نابود کرتا جارہا ہے _ اس کے تند و تیز مہلک وار سے بچ بچا کر اسے اپنے اس پست کام اور بے فائدہ بیعت کا مزاچکھاؤ _ کہاں ہیں وہ بزرگ ، کہاں ہیں مشکلات میں وہ پناہ گا ہیں اور کہاں ہیں مکہ اور بطحاء کے سپوت _ علیعليه‌السلام نے ہی انہیں فوری موت کا مزہ چکھایا ہے _ اس نے تلوار کے ایک ہی وار سے ان کا کام تمام کردیا ہے _ وہ اکیلے ہی یہ کام کررہا ہے اور کسی کو معاف بھی نہیں کر رہا _

وہ علیعليه‌السلام کو سرخ موت کیوں نہ کہتے ؟ جبکہ بعض روایات کے مطابق جنگ بدر میں ہی جبرائیلعليه‌السلام نے آسمان اور زمین کے درمیان آکر ندادی :

(لافتی الّا علی لا سیف الّا ذوالفقار )

( جوان ہے تو صرف علیعليه‌السلام ہے اور تلوار بھی ہے تو صرف ذوالفقار ہی ہے )

البتہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جبرائیل نے یہ صدا جنگ احد میں لگائی تھی _ انشاء اللہ اس بارے میں مزید بات بعد میں ہوگی _ بہر حال مشرکین کے ستر مقتولین میں سے آدھے کو حضرت علیعليه‌السلام نے بذات خود اکیلے ہی واصل جہنم کیا تھا اور باقی نصف کے قتل میں بھی شریک رہے تھے(۱) _ اور شیخ مفید نے تو حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والے چھتیس مشرکین کا نام بھی ذکر کیا ہے(۲) _ ابن اسحاق کہتا ہے کہ جنگ بدر میںاکثرمشرکین کو حضرت علی علیہ السلام نے ہی قتل کیا تھا(۳) _ طبرسی اور قمی کہتے ہیں کہ آپعليه‌السلام نے ستائیس

____________________

۱) ملاحظہ ہو : دلائل الصدق ج ۲ ص ۳۵۳ کے ضمن میں نہج الحق _ اور اس بات پر فضل ابن روز بہان جیسے متعصب نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا _

۲) الارشاد ص ۴۳ و ۴۴ ، بحارالانوار ج ۱۹ ص ۲۷۷ و ۳۱۶از الارشاد و اعلام الوری ص ۷۷_

۳) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۰ و بحارالانوار ج ۱۹ص ۲۹۱

۲۷۶

مشرکوں کو قتل کیا(۱) _ جبکہ اسامہ بن منقذ کہتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ مشرکوں کے قتل میں شریک ہونے کے علاوہ چوبیس کو آپعليه‌السلام نے بذات خود قتل کیا(۲) _ شبلنجی کہتا ہے کہ '' بعض مؤرخین کے بقول غزوہ نویسوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنگ بدر میں کل ستر آدمی قتل ہوئے تھے اور راویوں کے متفقہ فیصلے کے مطابق ان میں سے اکیس آدمیوں کو صرف حضرت علیعليه‌السلام نے قتل کیا اور چار کے قتل میں دوسروں کا ساتھ دیا البتہ آٹھ مقتولین کے قاتل کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ''(۳) _ واقدی نے کل بائیس مقتولین کا نام لیا ہے جن میں سے اٹھارہ حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے جبکہ چار کے متعلق اختلاف ہے(۴) اور معتزلی اور ابن ہشام نے ( بالترتیب) کہا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام نے انتیس مشرکوں کو فی النار کیا یا کل باون مقتولین میں سے اتنے کے قتل میں دوسروں کا ساتھ دیا(۵) لیکن تعدا دمیں یہ اختلاف زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے کیونکہ ان مقتولین کا نام ذکر کرنے والے مؤرخین نے تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ پچاس کے لگ بھگ مقتولین کا نام ذکر کیا ہے(۶) _ ان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے ان میں سے نصف یا اس سے بھی زیادہ تعداد کو قتل کیا اور اگر یہ لوگ باقی افراد کا نام بھی جان لیں تو یقینا ( دوسروں کے ساتھ مشرکین کے قتل میں شراکت کے علاوہ ) خود حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد ستر کے نصف بلکہ اس سے بھی زیادہ تک پہنچ جائے گی _ حقیقت تو بالکل یہی ہے لیکن ان مذکورہ مؤرخین کے بعد آنے والے مؤرخین نے ان پچاس افراد کو (جنہیں مذکورہ افراد نے پچاس کے ضمن میںنام کے ساتھ ذکر کیا ہے ) کل تعداد سمجھ لیا ہے حالانکہ یہ تعداد کل تعداد کا ایک حصہ ہے _ یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ بعض مؤرخین جن افراد کا نام ذکر کرتے ہیں ان

____________________

۱) ملاحظہ ہو ، تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۷۱ و بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۴۰ از مجمع البیان

۲) لباب الآداب ص ۱۷۳ (۳) نور الابصار ص ۸۶ (۴) المغازی واقدی ج ۱ ص ۱۴۷ تا ص ۱۵۲

۵) ملاحظہ ہو : سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۶۵ تا ص ۳۷۲ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۰۸ تا ۲۱۲

۶) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۱۲ و ابن ہشام و واقدی و غیرہ

۲۷۷

سے دیگر مؤرخین بالکل ناواقف ہیں اور اسی طرح معاملہ برعکس بھی ہے _ اور یہ چیزہماری اور شیخ مفید و غیرہ کی باتوں کی تائید اور تاکید کرتی ہے _

بہرحال ، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والے لوگوں میں مندرجہ ذیل افراد بھی تھے _ طعیمہ بن عدی ، ابوحذیفہ بن ابوسفیان ، عاص بن سعید بن عاص( جس سے سب لوگ ڈرتے تھے) ، نوفل بن خویلد ( یہ قریش کا شریر ترین آدمی تھا ) اور عاص بن ہشام بن مغیرہ(۱) _

ایک اور جھوٹی روایت

بعض لوگوں کے گمان میں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو جناب عمر بن خطاب نے ہی ہلاک کیا تھا(۲) وہ روایت کرتے ہیں کہ عمر نے سعید بن عاص سے کہا : '' میں نے تمہارے باپ کو نہیں بلکہ اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا تھا ''(۳) _

لیکن یہ مشکوک بات ہے کیونکہ :

مذکورہ عاص ، عمر کا ماموں نہیں تھا _ اس لئے کہ عمرکی ماں حنتمہ ہشام بن مغیرہ کی نہیں بلکہ ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھی _ اور جن علماء نے اسے ہشام کی بیٹی کہا ہے(۴) انہوں نے غلط کہا ہے _ ابن حزم کہتا ہے : '' ہاشم کا حنتمہ کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں تھا ''(۵) اور ابن قتیہ نے کہا ہے : '' اور عمر بن خطاب کی ماں ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی حنتمہ تھی جو عمر کے باپ کی چچا زاد تھی ''(۶) _

بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حنتمہ سعید بن مغیرہ کی بیٹی تھی(۷) _

____________________

۱) المنمق ص ۴۵۶ وا لاغانی مطبوعہ ساسی ج ۳ ص ۱۰۰_ (۲) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۶۸ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۵ و نسب قریش مصعب زبیری ص ۳۰۱_ (۳) المغازی واقدی ج ۱ ص ۹۲ ، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۸۹ ، نسب قریش مصعب زبیری ص ۱۷۶ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۹۰ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۱ ، حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۳ و الاصابہ و الاستیعاب _ (۴) تاریخ عمر بن خطاب ابن جوزی ص ۱۹_ (۵) جمہرة انساب العرب ص ۱۴۴_

۶) الشعر و الشعراء ص ۳۴۸_ (۷) تاریخ عمر بن الخطاب ابن جوزی ص ۲۰_

۲۷۸

البتہ بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ اس نے اسے اپنا ماموں کہہ کر اس سے اپنا مادری قبلیہ مراد لیا ہے کیونکہ عرب لوگ اپنے مادری قبیلہ کے ہر فرد کو اپنا ماموں کہتے تھے جیسا کہ شاعر کا کہنا ہے :

ولو انی بلیت بهاشمی

خؤولته بنی عبدالمدان

اور چاہے میں اس ہاشمی کے چنگل میں پھنس جاؤں جن کے ماموں بنی عبدالمدان کا قبیلہ ہے_

لیکن یہ احتمال اس کی باتوں سے ناسازگار ہے کیونکہ '' خالی '' ( میر اماموں ) کے لفظ سے ذہن میں فوراً حقیقی اور سگے ماموں کا تصور بھر تا ہے _ اور لفظ'' اخوال'' ( میرے ماموں ) کے مادری قبیلے پر اطلاق کا یہ لازمہ نہیں ہے کہ یہ بات بھی صحیح سمجھی جائے کہ کوئی شخص '' خالی '' ( میرا ماموں ) کہہ کر مادری قبیلے کا ایک فرد مراد لے جبکہ وہ اس کا سگا ماموں ہو ہی نہ _ پس یہ کہنا تو صحیح ہے کہ '' بنو مخزوم اخوالنا '' (قبیلہ بنی مخزوم ہمارا مادری قبیلہ ہے ) لیکن '' فلان المخزوی خالی '' (قبیلہ بنی مخزوم کا فلاں شخص میرا ماموں ہے _ جبکہ وہ سگا نہ ہو یہ ) کہنا صحیح نہیں ہے _ اس لئے کہ دوسرے جملے سے حقیقی اور سگا ماموں مراد لیا جاتا ہے _

بلکہ بعض مؤرخین نے تو حنتمہ کو مخزومی ( قبیلہ بنی مخزوم کی عورت ) بھی ماننے سے سرے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہاشم نے اسے راستے میں پڑا ہوا دیکھا تو اسے اٹھا کر ساتھ لے آیا اور اسے پال پوس کر اس کی شادی خطاب سے کردی _ اس کی پرورش کرنے اور پالنے پوسنے کی وجہ سے عرب اپنی عادت کی بناپر حنتمہ کو ہاشم کی بیٹی کہا کرتے تھے(۱) _

تو پھر صحیح کیا ہے ؟

ہو سکتا ہے کہ ابن ابی الحدید معتزلی اور شیخ مفید کی بیان کی ہوئی مندرجہ ذیل روایت زیادہ معتبر ، حقیقت

____________________

۱) د لائل الصدق ج ۳ حصہ ۱ ص ۵۶_

۲۷۹

سے قریب تر اور اس وقت کے سیاسی حالات اور سیاسی فضا کے مناسب تر ہو _اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ عثمان بن عفان اور سعید بن عاص حضرت عمر کی خلافت کے ایام میں اس کے پاس آئے _ عثمان تو اس محفل میں اپنی پسندیدہ جگہ پر آکر بیٹھ گیا لیکن سعید آکر ایک کونے میں بیٹھ گیا تو عمر نے اسے دیکھ کر کہا:'' تم مجھ سے کترا کیوں رہے ہو ؟ ایسے لگتا ہے جیسے میں نے ہی تمہارے باپ کو قتل کرڈالا ہو اسے میں نے نہیں ابوالحسن ( حضرت علیعليه‌السلام ) نے قتل کیا ہے '' ( البتہ شیخ مفید کی روایت میں یوں آیا ہے کہ پھر عمر نے کہا : ''جب میں نے تمہارے باپ کو لڑائی کے لئے تیار دیکھا تو اس سے ڈرگیا اور اس سے ادھر ادھر ہونے لگا تو اس نے مجھ سے کہا کہ خطاب کے بیٹے کہاں بھاگے جا رہے ہو ؟ لیکن علیعليه‌السلام اس کی طرف آیا اور اسے جالیا _ ابھی خدا کی قسم میںا پنی جگہ سے ہلا بھی نہیں تھا کہ اس نے اسے وہیں مارڈالا ) _ وہاں حضرت علی علیہ السلام بھی موجود تھے، انہوں نے کہا : '' خدایا معاف کرنا _ شرک اپنی تمام برائیوں سمیت مٹ گیا اور اسلام نے گذشتہ تمام نقوش مٹادیئےیں _ لیکن تم کیوں لوگوں کو میرے خلاف بھڑکا رہے ہو؟'' عمر اس بات کا جواب نہ دے پایا_ لیکن سعید نے جواب میں کہا : '' لیکن اگر میرے باپ کا قاتل اس کے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو پھر مجھے اس کا افسوس ہوتا ''(۲) _

پس اس روایت میں یہ بات تو ملتی ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے عمر کی جان بچائی لیکن یہ بات نہیں ملتی کہ عمر نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا ہو _ البتہ ( جس طرح پہلے بتا چکے ہیں) عاص ، عمر کا ماموں بھی نہیں تھا یا کم از کم اس کا عمر کا ماموں ہونا نہایت مشکوک ہے _ نیز اس روایت میں خاص کر سعید اور حضرت علی علیہ السلام کی باتوں میں کئی اور اشارے بھی ملتے ہیں _صاحبان فہم کو غور و فکر کی دعوت ہے_

نکتہ

جنگ بدر اور جنگ احد و غیرہ نے مشرکین کے دلوں پر حضرت علی علیہ السلام کی بہت زیادہ دھاک

____________________

۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۴ ۱ ص ۱۴۴ و ص ۱۴۵ و الارشاد ص ۴۶_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460