الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242018 / ڈاؤنلوڈ: 6985
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان

تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِيْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' ) (١) و(٢)

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔

عبداللہ بن جعفر کاخط

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام) کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد(٤) کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:

____________________

١۔ سورہ ٔیونس ٤١

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔(طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے (طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونو ں امامو ں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونو ں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :''واللّه لو شهدته ،لأ حببت الّا أفارقه حتی أقتل معه'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہو ں یہا ں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤ ں ۔ (طبری ج٥ ، ص ٤٦٦)

٤۔یہ دونو ں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیں جام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ما ں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں (مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میں شمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ما ں خو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔

۲۲۱

'' امابعد ، فانّی أسألک باللّه لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجه الذی تتوجه له أن یکون فیه هلاکک واستئصال اهل بیتک ، أن هلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المهتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''

اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوں کہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں ؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں ۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں ۔ والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین (علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰی بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام

۲۲۲

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰی امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰی بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّہ الرحمن الرحیم

امابعد، فانه لم یشاقق الله ورسوله من دعاالی اللّٰه عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان الله ولن یؤمّن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا، فنسأل اللّٰه مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانه یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة ۔ والسلام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوں جو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میں اس کی جزا ملے گی۔

۲۲۳

وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیهارسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم وأُمرتُ فیها بأ مرٍأنا ما ضٍ له، علیّ کان أولٰ''

میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میں آپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔

جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بها أحداً وما أنا محدّ ث بها حتی ألقی ربِّی'' (١) اور(٢) میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)

٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہو ں اور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائی ں ، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ''لم یشا قق الله ورسوله من دعا الی اللّٰه وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰه و لن یؤمن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا فنسأل اللّٰه مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نه یوم القیامه ''

اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھی ں ؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : ''وما أنا محدث لها حتی ألقی ربی ''

شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میں کسی سے بھی بیان نہیں کرو ں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔

۲۲۴

راستہ کی منزلیں

* پہلی منزل: تنعیم

* دوسری منزل : صفاح

*تیسری منزل : حاجر

* چوتھی منزل:چشمۂ آب

* پانچویں منزل : خزیمیہ

* زہیر بن قین کا امام علیہ السلام سے ملحق ہونا

* ایک اور نامہ

* چھٹی منزل :زرود

* ساتویں منزل :ثعلبیہ

* آٹھویں منزل:زبالہ

* نویں منزل : درّہ عقبہ

* دسویں منزل : شراف

* گیارہویں منزل : ذو حسم

* بارہویں منزل : البیضہ

* تیرہویں منزل : عذیب الھجانات

* چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل

* قربان گاہ عشق نینوا

۲۲۵

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں

پہلی منزل :تنعیم(١)

امام حسین علیہ السلام نے اپنے سفرکو جاری رکھااورراستہ میں آپ کا گذرایک ایسی جگہ سے ہوا جسے تنعیم کہتے ہیں ۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک قافلہ سے ہوئی جسے بحیر بن ریسان حمیر ی(٢) نے یزید بن معاویہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ شخص یمن میں یزید کاکار گزار تھا۔ اس قافلہ کے ہمراہ الورس(٣) اور بہت سارے شاہانہ لباس تھے جسے عامل یمن نے یزید کے پاس روانہ کیا تھا۔امام علیہ السلام نے اس کا روان کے سارے بار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور قافلہ والوں سے فرمایا :''لا أکر هکم من أحب أن یمضی معنا الی العراق أوفینا کراء ه وأحسنا صحبته، ومن أحب أن یفارقنا من مکاننا هذا أعطیناه من الکراء علیٰ قدر ماقطع من الارض''

____________________

١۔یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ ہے جیساکی معجم البلدان ج٢،ص٤١٦پر مرقوم ہے ۔ مکہ کے داہنی جانب ایک پہاڑہے جسے تنعیم کہتے ہیں اور شمالی حصہ میں ایک دوسراپہاڑہے جسے ''ناعم ''کہتے ہیں او راس وادی کو ''نعیمان''کہتے ہیں ۔وہا ں پر ایک مسجد موجود ہے جو قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باہر آنے کی جگہ ہے آج کل یہ جگہ مکہ کے مرکزی علاقہ سے ٦ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ایک فرسخ ہے نہ کہ دو فرسخ ۔ اس وقت شہر سے لے کر یہا ں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ ہے جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاہتا ہے اسے ادھر ہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔

٢۔گویایہ وہی شخص ہے جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس نے عبداللہ بن مطیع کو بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔(طبری ،ج٦، ص ٩) طاوؤ س یمانی جو بہت معروف ہیں اس شخص کے آقا تھے۔طاوؤ س یمانی نے مکہ میں ١٠٥ھ میں وفات پائی۔(طبری، ج٦، ص٢٩)

٣۔ الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ہے جو تل کی طرح ہوتی ہے اور رنگ ریزی کے کام آتی ہے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔

ممکن ہے کہ بادی النظر فکر میں کسی کو امام علیہ السلام کا یہ فعل العیاذباللہ نا مناسب لگے کہ آپ نے درمیان سے قافلہ کے بار کو اپنی گرفت میں کیو ں لیا؟ یہ تو غصب ہے لیکن وہ افراد جو تاریخ کی ابجد خوانی سے بھی واقف ہو ں گے وہ بالکل اس کے برعکس فیصلہ کری ں گے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق تو امام علیہ السلام کا کام غلط ہوہی نہیں سکتا، انھو ں نے جو کیا وہی حق ہے لیکن ایک غیر کے لئے تا ریخ کی ورق گردانی کافی ہوگی اور جب وہ تاریخ کے اوراق میں امام حسن علیہ ا لسلام کی صلح کے شرائط پر نگاہ ڈالے گا تو ظاہری اعتبار سے بھی یزید کا تخت حکومت پر براجمان ہونا غلط ثابت ہوگا اور وہ ایک باغی شمار کیا جائے گا جس نے مسلمانو ں کے بیت المال کو غصب کیاہے اور امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے خلیفہ قرار پائی ں گے جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرکے اس غاصب و باغی تک اموال مسلمین پہنچنے سے مانع ہو ں پس یمن کے اس قافلہ کو روک کر اموال کو اپنی گرفت میں لینا امام علیہ السلام کا اولین فریضہ تھا لہٰذا ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے قافلہ والو ں سے بڑی دلنشین گفتگو کی جب کہ ظالم وجابر حکومت کی نگاہ میں ایسے افراد لائق گردن زدنی یا قابل قید و بندہوتے ہیں ۔(مترجم)

۲۲۶

میں تم لوگوں پر کوئی زبر دستی نہیں کرتا لیکن تم میں جو یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ عراق چلے تو ہم اس کو کرایہ سفر بھی دیں گے اور اس کی ہمراہی کو خوش آمدید بھی کہیں گے اور جو ہم سے یہیں سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے بھی ہم اتنا کرایہ سفر دے دیں گے کہ وہ اپنے وطن تک پہنچ جائے ۔

امام علیہ السلام کی اس دلنشین گفتار کے بعد جو بھی اس قافلہ نور سے جدا ہوا اسے امام علیہ السلام نے اس کا حق دے دیا اور جس نے رکنا چاہا اسے کرایہ دینے کے علاوہ اما م علیہ السلام نے لباس بھی عطا کیا۔(١)

دوسری منزل : الصفاح(٢)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ پہلی منزل سے چلنے کے بعدہم لوگ امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے ہمراہ دوسری منزل پر پہنچے جسے '' الصفاح '' کہتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات فرزدق بن غالب(٣) شاعر سے ہوئی۔ وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: خدا وند متعال آپ کی حاجت کو پورا کرے اور آ پ کی تمنا و آرزو کو منزل مراد تک پہنچائے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری،ج٥، ص ٣٨٥)

٢۔یہ جگہ حنین اور انصاب الحرم کے درمیان ہے جو بہت آ سانی سے مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔

٣۔ اس شخص کا نام ھمام بن غالب بن صعصہ ہے۔ ان کے دونو ں چچا'' ذھیل'' اور ''زحاف ''بصرہ میں زیاد بن سمیہ کے دیوان میں دو دو ہزار بخشش لیا کرتے تھے ۔انھو ں نے بنی نہشل اور فقیم کی ہجو میں اشعار کہے تو ان دونو ں نے زیاد سے جا کر ان کی

۲۲۷

شکایت کی ۔جب اس نے فرزدق کو طلب کیا تویہ وہا ں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد نوبت یہ آ گئی جب زیاد بصرہ آتا تھا تو فرزدق کوفہ آجاتے تھے اور جب وہ کوفہ آتا تھا تو فرزدق بصرہ روانہ ہوجاتے تھے۔ واضح رہے کہ زیاد ٦ مہینہ بصرہ رہتا تھااور ٦ مہینہ کوفہ کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کے بعد یہ حجاز چلے گئے اور وہیں مکہ ومدینہ میں رہنے لگے۔اس طرح زیاد کی شرارتو ں سے بچ کر سعید بن عاص کی پناہ میں رہنے لگے یہا ں تک کہ زیاد ہلاک ہوگیا(طبری، ج٥، ص ٢٤٢، ٢٥٠)تو انھو ں نے اس کی ہجو میں مرثیہ کہا :

بکیت امرئً امن آ ل سفیان کافراً ککسری علی عدوانہ أو کقیصراً (طبری، ج٥،ص ٢٩٠)میں نے آل سفیان کے ایک مرد پر گریہ کیا جو کافر تھا جیسے قیصر و کسری اپنے دشمن پر روتے ہیں ۔

ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پلٹ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ ٦٠ھمیں یہ اپنی ما ں کے ہمراہ حج پر آ رہے تھے جب ان کی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی شاید اسی لئے حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا میں حاضری نہ دے سکے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٨٦) انھو ں نے حجاج کے لئے بھی شعر کہے ہیں ۔(طبری ،ج٦،ص ٣٨٠و ٩٣٩٤) سلیمان بن عبدالملک کے محل میں بھی ان کی آمد ورفت تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٤٨)١٠٢ھ تک یہ شاعر زندہ رہے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٤٢ ، ٢٥٠) بنی نہشل کی ہجو میں جب انھو ں نے اشعار کہے تھے تو یہ جوان تھے بلکہ ایک نوجوان اعرابی تھے جو دیہات سے آئے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٤٢) ایسی صورت میں امام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت ان کی عمر ٣٠سال سے کم تھی۔

امام علیہ السلام نے اس سے کہا :''بيّن لنا نبأ الناس خلفک'' تم جس شہر اور جہا ں کے لوگو ں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبری ں ہمارے لئے بیان کرو ۔فرزدق نے کہا : آ پ نے واقف کار شخص سے سوال کیا ہے تو سنئے :'' قلوب الناس معک ''لوگو ں کے دل آپ کے ساتھ ہیں ''و سیوفهم مع بنی امیه'' اور ان کی تلواری ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' والقضاء ینزل من السمائ'' لیکن فیصلہ و قضا تو خدا وند عالم کی طرف سے ہے ''واللّہ یفعل ما یشائ'' اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۲۸

امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : تم نے سچ کہا، اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے ؛ہمارے رب کی روزانہ اپنی ایک خاص شان ہے لہٰذا اگر اس کا فیصلہ ایسا ہوا جو ہمیں محبوب ہے تو اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں گے اور شکر کی ادائیگی میں وہ ہمارا مدد گا ر ہے اور اگرفیصلہ الہٰی ہماری امیدوں کے درمیان حائل ہوگیا تب بھی اس شخص کے لئے کچھ نہیں ہے جس کی نیت حق اور جس کی سرشت تقویٰ ہے۔ یہ کہہ کر امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو حرکت دی تو انھوں نے امام کو سلام کیا اور دونوں جدا ہوگئے۔(١) و(٢) جب عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے عراق کی طرف آرہے ہیں تو اس نے اپنی پولس کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو روانہ کیا۔ اس نے مقام قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈالا اور قادسیہ(٣) و خفا ن(٤) کے درمیان اپنی فوج کو منظم کیا اسی طرح قادسیہ اور قطقطانہ(٥) اورلعلع کے درمیان اپنی فوج کو منظم کرکے کمین میں لگادیا۔(٦)

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ ابی جناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨٦) یہ بیان اس بیان سے میل نہیں کھاتا جو ان دونو ں سے عنقریب بیان ہو گا کہ یہ دو نو ں کہتے ہیں کہ ہم لوگ مقام '' زرود میں امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور یہ منزل صفاح کے بعد کوفہ کے راستہ میں چندمنازل کے بعد ہے مگر یہ کہا جائے کہ ان کے قول''اقبلنا حتی انتھینا ''کا مطلب یہ ہوکہ ہم لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر صفاح تک پہنچے جو مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے پھر مناسک حج انجام دینے کے بعد منزل زرود میں امام علیہ السلام سے دوبارہ ملحق ہوگئے ۔

٢۔طبری نے کہا : ہشام نے عوانہ بن حکم کے حوالے سے، اس نے لبطہ بن فرزدق بن غالب سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس کے باپ نے کہا : میں نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا اور ایام حج میں حرم میں داخل ہو ا تو دیکھا حسین بن علی مکہ سے نکل رہے ہیں میں ان کے پاس آیا اورعرض کی: بأبی أنت و أمی یا بن رسول اللّٰہ! ما اعجلک عن الحج؟ فرزند رسول خدا میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوجائی ں !آپ کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ آپ حج چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : لو لم أعجل لأْ خذت اگر میں جلدی نہ کرتا تو پکڑ لیا جاتا ۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ممن أنت ؟تم کہا ں کے رہنے والے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا : میں عراق کا رہنے والا ایک شخص ہو ں ؛ خدا کی قسم !اس سے زیادہ انھو ں نے میرے بارے میں تفتیش نہیں کی ؛ بس اتنا فرمایا : جن لوگو ں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو مجھے ان کی خبر بتاؤ تو میں نے کہا: انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواری ں بنی امیہ کے ہمراہ ہیں اور قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے مجھ سے فرمایا : تم نے سچ کہا! پھر میں نے نذر اور مناسک حج کے سلسلہ میں کچھ سوالات کئے تو آپ نے اس کے جواب سے مجھے بہرہ مند فرمایا۔(طبری، ج٥، ص ٣٨٦)

٣۔قادسیہ او ر کوفہ کے درمیان ١٥ فرسخ کی مسافت ہے اور اس کے وعذیب کے درمیان ٤میل کا فاصلہ ہے اور اسے دیوانیہ کہتے ہیں ۔ حجاز کے دیہات کی طرف یہ(قادسیہ) عراق کا سب سے پہلا بڑاشہر ہے۔ اسی جگہ پر عراق کی سب سے پہلی جنگ بنام جنگ قادسیہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں ہوئی ہے ۔

٤۔ یہ ایک قریہ ہے جو کوفہ سے نزدیک ہے جہا ں بنی عباس کا ایک پانی کاچشمہ ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٣ ، ص٤٥١ پر موجود ہے ۔

٥۔ قطقطانہ ، رہیمہ سے کوفہ کی طرف تقریباً ٢٠میل کے فاصلہ پرہے۔ (طبری، ج٧ ، ص ١٢٥) یعقوبی کا بیان ہے : جب امام علیہ السلام کومسلم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ قطقطانہ میں تھے۔ (طبری، ج٢، ص ٢٣٠)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٤)

۲۲۹

تیسری منزل : حاجر(١)

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حاجر بطن رمہ(٢) تک پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہمراہ اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :

''بسم اللّه الرحمن الرحیم ! من الحسین بن علی الی اخوانه من المومنین و المسلمین، سلام علیکم : فانّی أحمد الیکم اللّٰه الذی لا اله الا هو ، أما بعد ، فان کتاب مسلم بن عقیل جاء ن یخبرن فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا فسألت اللّٰه أن یحسن لنا الصنع وأن یثیبکم علی ذالک أعظم الاجر ، وقدشخصت من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجه یوم التروية فاذا قدم علیکم رسول فا کمشوا أمرکم و جدّ وا، فان قادم علیکم فأیام هٰذه، ان شاء اللّٰه؛ والسلام علیکم ورحمة اللّه وبرکا ته ''

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ! یہ خط حسین بن علی کی جانب سے اپنے مومنین و مسلمین بھائیوں کے نام، سلام علیکم ، میں اس خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔امابعد ، حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک آچکا ہے، اس خط میں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ تم لوگوں کی رائے اچھی ہے اور تمہارے بزرگوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے حق کو ہمارے دشمنوں سے واپس لے لیں گے تو میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے اچھی راہ قرار دے اور اس کے ثواب میں تم لوگوں کو اجرعظیم سے نوازے ۔

____________________

١ ۔حاجرنجد کی بلند وادی کو کہتے ہیں ۔

٢۔ بطن رمہ وہ جگہ ہے جہا ں اہل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ہوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٤،ص ٢٩٠،اور تاج العروس، ج ٣،ص١٣٩پر مرقوم ہے۔

۲۳۰

اس سے تم لوگ آگاہ رہوکہ میں بروز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ یوم الترویہ مکہ سے نکل چکا ہوں لہذا جب میرا نامہ بر تم لوگوں تک پہنچے تو جو کام تم کو کرنا چاہئیے اس کی تدبیر میں لگ جاؤ اور اس مسئلہ میں بھر پور کوشش کرو کیونکہ میں انشا ء اللہ انہی چند دنوں میں تم تک پہنچنے والا ہوں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امام حسین علیہ السلام کا یہ خط لے کر قیس بن مسہر صیداوی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن تمیم نے آپ کو گرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔

ابن زیاد نے آپ سے کہا محل کی چھت پر جاؤ اور کذاب بن کذاب کو گالیاں دو !

قیس بن مسہر شجاعت وشہا مت کے ساتھ محل کی چھت پر آئے اور کہا :'' أیھا الناس ! ان الحسین علیہ السلام بن علی خیر خلق اللّٰہ ابن فاطمہ بنت رسول اللہ وأنا رسولہ الیکم وقد فارقتہ بالحاجر فأجیبوہ ثم لعن عبید اللہ بن زیاد وأباہ واستغفر لعلیِّ بن أبی طالب '' اے لوگو ! حسین بن علی خلق خدا میں بہتر ین مخلوق ہیں ، آپ فرزند فاطمہ بنت رسول خدا ہیں اور میں ان کا نامہ بر ہوں ، میں ان کو مقام حاجر میں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ تم لوگ ان کی عدالت خواہ آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ پھر آپ نے عبید اللہ اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے لئے طلب مغفرت کی۔عبید اللہ نے حکم دیا کہ انھیں محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔اس طرح آپ شہید ہو گئے ۔] اللہ آپ پر نزول رحمت فر مائے[(١)

چو تھی منزل : چشمۂ آب

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں دواں تھا؛ راستے میں آپ کا قافلہ عرب کے ایک پا نی کے چشمہ کے پاس جا کر ٹھہرا۔ وہاں عبد اللہ بن مطیع عدوی بھی موجود تھے جو پا نی لینے کی غرض سے وہاں اترے تھے۔جیسے ہی عبد اللہ بن مطیع نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا ویسے ہی آپ کی خدمت میں

____________________

١۔ کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ہے۔

۲۳۱

آکر کھڑے ہو گئے اور عرض کی: فرزند رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !کون سا سبب آپ کو یہاں تک لے آیا ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اہل عراق نے خط لکھ کر مجھے اپنی طرف بلا یا ہے۔عبد اللہ بن مطیع نے آپ سے عرض کیا: فرزند رسول اللہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ اس راہ میں آپ اسلام کی ہتک حرمت نہ ہو نے دیں ، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کی حرمت خطرے میں نہ پڑے ،خدا کے لئے عرب کی حرمت خطرے میں نہ ڈالئے۔خدا کی قسم! اگر حق کو بنی امیہ سے واپس لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کردیا تو آپ کے بعد کسی کو نگا ہ میں نہیں لا ئیں گے ۔(١) خدا کی قسم! اسلام کی حرمت، قریش کی حرمت ہے اورعربوں کی حرمت خاک میں مل جائے گی ،پس آپ ایسا نہ کریں اور کوفہ نہ جائیں اور بنی امیہ سے نہ الجھیں !عبد اللہ بن مطیع نے اپنے نظر یہ کو پیش کیا اور امام علیہ السلام اسے بغور سنتے رہے لیکن اپنے راستے پر چلتے رہے۔

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢)

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام '' زرود'' سے پہلے تھی یہاں پر پانی موجود تھا،(٣) اس جگہ کا نام خزیمیہ ہے ۔

____________________

١۔ امام کے عمل سے نہ تو اسلام کی بے حرمتی ہوئی نہ ہی رسول خدا ، عرب اور قریش کی ہتک حرمت ہوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر کی کا رستا نیو ں سے یہ سب کچھ ہوا ۔ابن مطیع نے اپنے اس جملہ میں خطا کی ہے جو یہ کہہ دیا کہولئن قتلوک لا یها بون بعد ک احداابدا کیونکہ امام علیہ السلام کے بعد ان لوگو ں کو جرأ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے پہلے اپنے ہاتھو ں میں چوڑیا ں پہنے بیٹھے تھے انھی ں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی ہے جو ابن زبیر کے زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے قیام نہ کیا ہوتا تو بنی امیہ کے خلا ف کسی میں جرأ ت پیدا نہ ہوتی اور اسلام کو مٹا نے میں وہ جو چاہتے وہی کرتے ۔

٢۔یہ جگہ مقام زرود سے پہلے ہے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والو ں کے لئے ہے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ٣٢کیلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پہلی منزل ہے۔

٣۔ طبری ،ج٥،ص ٣٩٤، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ہے ۔شاید یہ قیس بن مسہر کے فرزند ہیں ۔

۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا

قبیلہء بنی فنرارہ کے ایک مرد کا بیان ہے : ہم زہیر بن قین بجلی کے ہمراہ تھے اور ہم اسی راستے پر چل رہے تھے جس راستہ پر حسین (علیہ السلام) محو سفر تھے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ ہم ان کے ہمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھہریں لہٰذ ا زہیر کے حکم کے مطا بق حسین جہاں ٹھہر تے تھے ہم وہاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جہاں پر آگے بڑھتے ہم وہاں پڑاؤ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں ہم ایک ایسی منزل پر پہنچے کہ چارو نا چار ہم کو بھی وہیں پر رکنا پڑا جہاں پر امام حسین نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ امام حسین نے ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور ہم نے اس کے دوسری طرف ؛ ہم لوگ ابھی بیٹھے اپنے خیمے میں کھا نا ہی کھا رہے تھے کہ یکایک حسین کا پیغام رساں حاضر ہوا اور اس نے سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ہوا اور کہا : اے زہیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے تا کہ تم ان کے پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان کے ہاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ہم سب کے سروں پر طائر بیٹھے ہیں ۔(١) زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر کہتی ہے کہ میں نے زہیر سے کہا : فرزند رسول اللہ تمہارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان کے پاس نہ جائو !سبحان اللہ! اگر انھوں نے مجھے بلایا ہوتاتو میں ضرور جاتی اور ان کے گہر بار کلام کو ضرور سنتی، پھر میں نے کچھ نہ کہا لیکن زہیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں روانہ ہوگئے ۔ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات ہی کچھ اور تھی؛ چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور چہرہ گلاب کی طرح کھلا جارہاتھا۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہم لوگ زہیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جہا ں اہل شام داخل نہیں ہو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ہمراہ، سفر میں تھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج٥، ص ٣٩٦، ارشاد، ص ٢٢١، خوارزمی، ص٣٢٥)

۲۳۳

اسی عالم میں زہیر نے اپنے ہمراہیوں سے کہا : تم میں سے جو ہمارے ساتھ آناچاہتا ہے آ جائے اور اگر نہیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ہے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے زہیر نے کہا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں ، اسے غور سے سنو !ہم لوگ جب مقام '' بلنجر ''(١) پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ہم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس وقت سلمان باہلی(٢) نے ہم لوگوں سے کہا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاہے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمہارے ہاتھوں لگاہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں !تواس نے ہم لوگوں سے کہا : جب تم لوگ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جوانی دیکھو گے تو تمہاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ہو گی اورجہاں تک میری بات ہے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ہوں ۔

پھر زہیر بن قین نے اپنی زوجہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا : اب میں تم کو طلا ق دے رہا ہوں تاکہ تم آزاد ہو جاؤ اورگھروالوں کے پاس جا کر وہیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔میں تمہارے لئے بہتری چاہتاہوں ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ یہ تاتا ریو ں (یا خزریو ں) کا شہر ہے جو انہیں کے دروازو ں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ہے ٣٣ھ عہد عثمان میں سلمان بن ربیعہ باہلی کے ہاتھو ں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یہی موجود ہے ۔

٢۔ طبری ،ج٤، ص ٣٠٥ پر ہے کہ سلمان فارسی اور ابو ہریرہ اس جنگ میں لشکر کے ہمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر کی الکامل میں ہے (ج ٤،ص ١٧)پھریہ بیان ہے کہ جس شخصیت نے ان لوگو ں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ہیں نہ کہ باہلی۔ ابن اثیر نے ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ تاریخ طبری کو کامل کری ں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ مفید نے ارشاد میں اور فتال نے روضة الواعظین میں ص ١٥٣پر ، ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ٢٣پر ، خوارزمی نے اپنے مقتل میں ج١، ص ٢٢٥پر اور البکری نے معجم ج١ ،ص٣٧٦ پر واضح طور سے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی ہی تھے جنہو ں نے یہ جملہ کہا تھا۔ اس بات کی تائید طبری نے بھی کی ہے کیونکہ طبری کے بیان کے مطابق جناب سلمان وہا ں موجود تھے ؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ مدائن فتح ہونے کے بعد جناب سلمان فارسی وہیں کے گورنر رہے اور وہیں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے اور کسی بھی جنگ کے لئے وہا ں سے نہیں نکلے؛ بلکہ اس جنگ سے قبل عمر کے عہد حکومت میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبر زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر و نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٦، الارشاد، ص ٢٢١)

٤۔ عنقریب یہ بات کربلامیں زہیر بن قین کے خطبے سے معلوم ہوجائے گی کہ اس سے قبل زہیراس بات پر معاویہ کی مذمت کیا کرتے تھے کہ اس نے زیاد کو کس طرح اپنے سے ملحق کرلیا؛اسی طرح حجر بن عدی کے قتل پر بھی معاویہ سے ناراض تھے ۔

۲۳۴

ایک اور نامہ بر

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری(١) کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل(٢) کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراہی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میں چھاؤنی ڈالے راہوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ہوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کہا : محل کے اوپر جاؤ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آؤ تاکہ میں تمہارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ہیں تو آپ نے فرمایا :

'' أیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! ''

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ہوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نہیں ہے، کے خلاف ان کی پشت پناہی کرو ،یہ سنتے ہی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوں نے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی(٣) آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شہید کر ڈالا۔

____________________

١۔ آپ کی ما ں امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیاکرتی تھی ں اسی لئے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آ پ حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی تھے۔طبری نے بقطر ہی لکھا ہے اسی طرح جزری نے الکامل میں بھی بقطر ہی ذکر کیا ہے؛ لیکن ہمارے بزرگو ں نے(ی) کے ساتھ یعنی یقطر لکھاہے جیسا کہ سماوی نے ابصارالعین، ص٥٢پر یہی لکھا ہے ۔

٢۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبرابو علی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٩٨؛ارشاد، ص ٢٢٠) اس خبر کو انھو ں نے قیس بن مسہر صیداوی کی خبرسے خلط ملط کردیا ہے ۔

٣۔ شعبی کے بعد اس نے کوفہ میں قضاوت کا عہدہ سنبھالا۔ ١٣٦ ھ میں وہ ہلاک ہوا ؛اس وقت اس کی عمر ١٠٣ سال تھی جیسا کہ میزان الاعتدال، ج ١، ص ١٥١ ، اور تہذیب الاسمائ، ص٣٠٩ پر تحریرہے۔ عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ پر صیداوی کی شہادت کی خبر سے پہلے امام علیہ السلام کو ابن بقطر کی شہادت کی خبر ملی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیس بن مسہر صیداوی سے پہلے یقطر کو روانہ کیا تھا ۔

۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود(٢) پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔

پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔

ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟

____________________

١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔

٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میں ہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں ۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیں تو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونو ں خبرو ں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونو ں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔

اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگو ں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگو ں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟

اس نے جواب دیا:ہا ں ! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر انھی ں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہا ں تک کہ(حسین علیہ السلام) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔

۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)

شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں ۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :

____________________

١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔

۲۳۷

'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی(١) پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی(٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔(٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین (علیہ السلام) نے ہم لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔

رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں ؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا :''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہا ں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہا ں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادو ں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ (طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔(ارشاد ، طبع نجف)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے (لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)

۲۳۸

آٹھویں منزل : زبالہ(١)

یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ(٢) کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣) کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و هانی بن عروةو عبدالله بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا (٤) فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیه منا ذمام ''

بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ

____________________

١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہا ں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میں یہی ہے ۔

(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٨)

٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔

٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعو ں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہا ں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہا ں '' زبالہ'' میں تمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔

۲۳۹

باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوں کی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں ۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١) رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)

یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔(٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔

____________________

١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزو ں پر کافی ہے

٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

خبر جاء و لا وحی تزل

لست من خندف ان لم انتقم

من نبی احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ما کان فعل(۱)

کاش بدر میں مارے جانے والے میرے بزرگ آج زندہ ہوتے اور تلوار کی زد میں آنے والے خزرجیوں (انصاریوں )کی گھبرا ہٹ اور چیخ و پکار کا نظارہ کرتے تو فرط مسرت سے ان کے چہرے دمک اٹھتے اور وہ ہلّڑ بازی کرنے لگتے پھر مجھے مبارک باد دیتے ہوئے کہتے کہ یزید تمہارا بہت بہت شکریہ_ ہم نے ان لوگوں کے بڑے بڑوں کو آج قتل کرکے بدر کا بدلہ چکا دیا ہے _اب ہمارا حساب برابر ہوگیا ہے _بنی ہاشم نے حکومت کا کھیل کھیلاتھا و گرنہ نہ نبوت کی کوئی خبر آئی ہے اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی ہے_ اگر میں نے ( نعوذ باللہ ، حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھرانے سے ان کے کئے کا بدلہ نہ لیا تو میں خندف کا بیٹا ہی نہیں ہوں _

اسی طرح بدر کے متعلق خالد قسری کے ساتھ قتادہ کی گفتگو بھی ملاحظہ ہو(۲) حالانکہ قتادہ ایک مشہور و معروف شخصیت اور اہل بصرہ کا بزرگ محدث تھا_

شہدائے انصار

اگر چہ جنگ بدر میں مسلمانوں مہاجرین کی تعداد لشکر اسلام کا چو تھا یا پا نچواں حصہ تھی ، لیکن ان کے شہید مختلف اقوال کی بنا پر شہدائے انصار کے تیسرے بلکہ نصف حصہ سے بھی زیادہ تھے _ حالانکہ اگر تعداد اور کمیت کو مد نظر رکھا جائے تو اس تناسب کو اس سے کم بلکہ بالکل ہی کم ہونا چاہئے تھا _ یعنی مہاجرین کی تعداد کل کا چوتھا یا پانچواں حصہ تھی_جبکہ شہدائے مہاجرین کی تعداد کل شہیدوں کا تیسرا بلکہ آدھا حصہ تھی_بطور مثال

____________________

۱)مقتل امام حسینعليه‌السلام مقرم ص ۴۴۹و ص ۴۵۰و اللہوف ص ۷۵و ۷۶_

۲)بحار الانوار ج ۱۹ص ۲۹۸و ص ۳۰۰و روضہ کافی ص ۱۱۱تا ص ۱۱۳_

۳۰۱

اگر کل تعداد ۱۰۰فرض کرلیں تو مہاجرین کی تعداد بیس۲۰سے پچیس ۲۵ تک ہو گی _جبکہ ہر تین بلکہ دو انصاری کے شہید ہونے کے ساتھ ایک مہاجر بھی شہید ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بیس انصاری کے ساتھ ساتھ سات سے دس تک مہاجر بھی شہید ہوئے حالانکہ اس حساب سے ہر بیس انصاری کے مقابلے میں صرف چارسے پانچ مہاجرین کو جام شہادت نوش کرنا چاہئے تھا جبکہ لشکر اسلام ۳۱۳ مجاہدین پر مشتمل تھا، ان میںمہاجرین کی تعداد ۷۸ سے ۶۳ افراد بلکہ اس سے بھی کم تھی _ اور شہدائے اسلام کی کل تعداد زیادہ سے زیادہ چودہ بتائی گئی ہے _ جن میں کم از کم چھ مہاجر اور آٹھ انصاری تھے_ حالانکہ اپنی تعداد کے تناسب سے ان کے شہیدوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ تین سے چارتک ہونی چاہئے تھی بلکہ اگر انصار اور مہاجرین کے حالات کا موازنہ کیا جائے تو اس تعداد کو اس سے بھی کم ہونا چاہئے تھا_اس سے اس جنگ میں مہاجرین کے بھر پور کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مترجم_

آیت تخفیف کے متعلق علامہ طباطبائی کا نظریہ :

یہاں علامہ طبا طبا ئی کی ایک بات ہماری گفتگو سے متعلق بھی ہے اس لئے اس کے خلاصے کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے _وہ کہتے ہیں کہ:

ارشاد ربّانی ہے:

( یا ایها النبی حرض المؤمنین علی القتال ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مئتین و ا ن یکن منکم مئة یغلبوا الفاً من الذین کفروا بانهم قوم لا یفقهون _الآن خفف الله عنکم و علم ان فیکم ضعفاًفان یکن منکم مئة صابرة یغلبوا مئتین و ان یکن منکم الفاً یغلبوا الفین باذن الله و الله مع الصابرین _ ما کان لنبی

۳۰۲

ان یکون له اسری حتی یثخن فی الا رض تریدون عرض الدنیا و الله یرید الا خرة و الله عزیز حکیم )

'' اے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مؤمنوں کو جنگ کے لئے تیار کرو کہ تمہارے بیس بہادر افراد ان کے دوسو جنگجوؤں پر غلبہ پالیں گے ،اسی طرح تمہارے سو آدمی ان کے ایک ہزار جنگجوؤںپر بھی کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ نا سمجھ لوگ ہیں لیکن اب خدا نے یہ جان کر کہ تم کمزور ہو گئے ہو تمہیں چھوٹ دے دی ہے _ پس اب تمہارے سو بہادر جنگجوان کے دوسو آدمیوں پر غلبہ پالیں گے اور خدا کے حکم سے تمہارے ایک ہزار آدمی ان کے دو ہزار سپاہیوں پر غالب آجائیں گے _ اور خدا پائیداری دکھانے والے بہادروں کے ساتھ ہے _اور مشرکوں کا اچھی طرح قلع و قمع کئے بغیر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہاتھ روک لینا مناسب نہیں ہے _ تم لوگ تو دنیا داری اور اس کے حصول کے لئے جنگ لڑنا چا ہتے ہو لیکن خدا تمہاری اخروی بھلائی چاہتا ہے اور خدا با عزت اور دانا ہے،،(۱)

پس خدانے یہاں بیس آدمیوں کے دو سو سپاہیوں پر غلبہ کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ دو سو نا سمجھ ہیں لیکن یہ بیس آدمی سمجھ دار اور چالاک ہیں _ اور یہ اس لئے ہے کہ اس وقت مومنین خدا پر ایمان کے بل بوتے پر جنگ لڑتے تھے اور یہ ایمان ایسی بھر پور طاقت ہے جس کا مقابلہ کوئی بھی طاقت نہیں کر سکتی ، اس لئے کہ وہ اس صحیح سو چ اور عقیدے پر مبنی ہے جو شجاعت ، جرات ، ذکاوت ، استقامت ، وقار ، اطمینان اور خدا پر بھروسہ جیسے صفات حسنہ کے زیور سے انہیں آراستہ کرتا ہے _ نیز ان میں یہ یقین بھی پیدا کرتا ہے کہ وہ یقینا دومیں سے کوئی ایک اچھائی حاصل کر ہی لیں گے یعنی یا تو وہ کامیاب ہو جائیں گے یا پھر رتبہ شہادت پر فائز ہو جائیں گے _ اور یہ کہ موت کا مطلب فنا نہیں ہے جس طرح کافروں کی غلط سوچ ہے بلکہ موت تو سعادت اور دار بقاء (جنت) کی طرف منتقلی کا نام ہے_پس کفار ،شیطان کی گمراہیوں اور نفسانی خواہشات کے بھروسے پر آئے تھے اور بہت کم ہی ایسا ہو تا ہے کہ نفسانی خواہشات موت تک بھی ثابت رہیں_ اور نہ بدلیں ، کیونکہ جب

____________________

۱)انفال /۶۵تا ۶۷_

۳۰۳

سب کچھ جان بچانے اور آسودہ رہنے کے لئے ہی ہے تو پھر جان کا نذرانہ کس لئے دیں؟

پس علم اور ایمان کے ساتھ ساتھ مومنوں کی سمجھ داری جنگ بدر میں ان کی کامیابی کی وجہ بنی جبکہ کافروں کے کفر اور نفسانی خواہشات کے علاوہ ان کی بے وقوفی اور جہالت ان کی شکست کا باعث بنی _لیکن اس کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو ان کی روحانی اور معنوی طاقت آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی اور وہ کمزور ہوتے گئے کیونکہ گذشتہ پہلی آیت یعنی( ذلک بانهم قوم لا یفقهون ) میں مذکور ان کی سمجھ داری اور دوسری آیت یعنی( والله مع الصابرین ) میں مذکور ان کی پائیداری ، صبر اور دلیری کم ہوگئی _ اور اس کمزوری کی ایک عام وجہ یہ ہے کہ ہر گروہ ،قوم یا جماعت اپنی بقاء اور اہداف زندگی کے حصول کی جد و جہد کرتی ہے _ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اہداف دنیاوی ہیں یا دینی ہیں _ بہر حال یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ وہ لوگ چونکہ پہلے پہل اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کی راہ میں کچھ رکاوٹیں پاتے ہیں اور بنیاد ہلا دینے والے خطرات کو محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنے اہداف کے حصول ، رکاوٹوں کے خاتمے اور خطرات سے نبٹنے کے لئے سخت جد و جہد کرتے ہیں اور ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں _ نیز اس راہ میں اپنی جان کا نذرانہ تک دینے سے نہیں ہچکچا تے _ اورہنسی خوشی سب کچھ لٹا دیتے ہیں لیکن جب وہ اپنے اغراض و مقاصد کی راہ میں کچھ قربانی دے دیتے ہیں ، ان کے لئے راستہ تھوڑا سا ہموار ہوجاتا ہے اور فضا کچھ سازگار ہوجاتی_

نیز تعدا د بھی زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ اپنی قربانیوں کے نتائج سے بہرہ مند ہونا شروع کردیتے ہیں اور نعمتوں اور آسائشےوں میں رہنا شروع کردیتے ہیں _

جس کے نتیجے میں ان کا جوش و جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے _ اور یہ واضح سی بات ہے کہ کسی جماعت یا معاشرے کے افراد اگر کم ہیں تو بلا تردید وہ عام طور پر اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لحاظ سے یقین

۳۰۴

اپنی ذہنی اور فکری سطح ، صفات اور اخلاقیات کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں اور جیسے جیسے ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے ان میں ضعیف الاعتقاد ، منافق اور بیمار ذہن افراد کی تعد اد میں بھی اضافہ ہو تا رہتا ہے_ جس کے نتیجے میں اگر عام افراد کو بھی ساتھ مد نظر رکھیں تو مجموعی طور پر ان کی روحانی ، معنوی اور جذباتی طاقت کی سطح نیچے آ جاتی ہے _ اور تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ کسی گروہ کے افراد جتنا کم ہوں گے ، ان کے دشمن جتنا زیادہ طاقتور ہوں گے اور مختلف تکلیفوں ، مصیبتوں اور پریشانیوں نے انہیں جتنا زیادہ گھیرا ہو گا وہ اتنا ہی مصمم ، تیز ، چالاک ، بہادر ، جنگجو اور چست ہوں گے _ اور جوں جوں ان کی تعداد بڑھتی جائے گی ان کے جذبات اتنے ہی ٹھنڈے پڑتے جائیں گے ، ذہنی بیداری کم ہوتی جائے گی اور دماغ خراب ہو تا جائے گا(۱) _

ہماری مذکورہ باتوں کی بہترین دلیل آنحضرتعليه‌السلام کے غزوات ہیں_ قارئین جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد، تیاری ، حالات و واقعات اور نتائج کا احد، خندق ، خیبر اور حنین جیسی دیگر جنگوں میں مسلمانوں کی تعداد ، تیاری ، حالات و واقعات اور نتائج کا موازنہ اور تقابل کرکے دیکھ سکتے ہیں_ اور جنگ حنین کے نتائح تو اتنے ہولناک اور بھیانک تھے کہ خدا کو یہ فرمانا پڑا :

( و یوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلن تغن عنکم شیئاً وضاقت علکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین ) (توبہ۲۵)

''اور جنگ حنین میں جب تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں غرور میں مبتلا کردیا تو تمہیں کسی چیز نے فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ دکھا کر الٹے پاؤں بھاگے''

____________________

۱) اس ساری بات کو دسیوں برس پہلے علامہ اقبال نے دو لفظوں میں یوں بیان کیا ہے:

میں تم کو بتا تا ہوں تقدیر امم کیا ہے

شمشیر و سناں اول طاؤوس و رباب آخر

۳۰۵

ہماری ان باتوں سے اب مذکورہ آیتوں کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے_ نیز ان باتوں پر وہ مذکورہ تیسری آیت بھی دلالت کرتی ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ لوگ دنیاوی مفاد کی خاطر جنگ سے ہاتھ روکنا چاہتے تھے_ اور چونکہ پہلی دو مذکورہ آیتیں دو مختلف زمانوں میں روحانی اور جذباتی طاقت کی طبیعت اور کیفیت بیان کر رہی ہیں اس لئے دو آیتوں کے بیک وقت نزول میں کوئی مانع نہیں ہے_ کیونکہ دو زمانوں میں دو مختلف احکام کی موجودگی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک حکم کو بیان کرنے والی ایک آیت ایک زمانے میں جبکہ دوسرے حکم کو بیان کرنے والی آیت دوسری موقع پر نازل ہو ، کیونکہ یہ آیتیں ایک طبیعی حکم کو بیان کررہی ہیں کسی شرعی حکم کو نہیں _علامہ طباطبائی پھر فرماتے ہیں کہ پہلی آیت میں فقہ (سمجھداری) اور دوسری آیت میں صبر کی تعلیل بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صبر (پائیداری) ایک شخص کا پلڑا روحانی طاقت کے لحاظ سے اپنے جیسے دو آدمیوں پر بھاری کرتی ہے جبکہ فقہ ایک شخص کا پلڑا اس جیسے پانچ آدمیوں پر بھاری کردیتی ہے_ پس اگر یہ دونوں چیزیں کسی ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو اس کی روحانی طاقت کا پلڑا دس آدمیوں پر بھی بھاری ہو جاتاہے(۱) البتہ فقہ سے صبر جدا نہیں ہے گرچہ صبر سے فقہ جدا ہوسکتی ہے(۲) _

____________________

۱)بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ اگر یہ دو صفات کسی شخص میں جمع ہو جائیں تو اس شخص کو اپنے جیسے سات آدمیوں جتنا طاقتور بنا دیتی ہیں _ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے ، کہ فقہ سے پیدا ہونے والی پانچ گنا طاقت کو صبر آکر دوگنا کردیتا ہے اور یہی بات ہی دونوں آیتوں کے مفہو م کے زیادہ مناسب ہے _ کیونکہ فقہ سے صبر اور دوسری صفات حمیدہ بھی حاصل ہوجاتی ہیں پھر صبر آکر اس کی موجودہ طاقت کو دوگنا کردیتا ہے _

۲) ملاحظہ ہو: المیزان علامہ طباطبائی ج ۹ ص ۱۲۲ تا ص ۱۲۵_

۳۰۶

۳۱۹

تیسری فصل:

مال غنیمت اور جنگی قیدی

۳۰۷

مال غنیمت کی تقسیم :

اس جنگ میں ڈیڑ ھ سو ۱۵۰ اونٹ ، دس گھوڑے ( جبکہ ابن اثیر کے مطابق تیس گھوڑے) اور بہت سا سازو سامان ، اسلحہ اور چمڑے و غیرہ کے بچھونے اور چیزیں مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ لگے _ لیکن مسلمانوں میں اس بات پر بحث چھڑ گئی کہ کیا یہ مال غنیمت صرف لڑنے والے جنگجوؤں کو ملنا چاہئے یا پھر ان سب کو بھی ملنا چاہئے جو اس لشکر میں پیچھے رہ کر ان کے دوسرے کاموں میں مصروف ہیں ؟ اس اختلاف اور جھگڑے کی وجہ سے مال غنیمت کی تقسیم کا عمل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سپرد کردیا گیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام مال غنیمت اکٹھا کر اکے اسے عبداللہ بن کعب کے ذمہ لگا دیا اور باقی صحابہ کو بھی اس کے اٹھانے اور حفاظت میں اس کا ساتھ دینے کا حکم دیا _ بقولے مندرجہ ذیل آیت بھی اسی بارے میں نازل ہوئی :

( یسالونک عن الانفال قل الانفال لله و للرسول فاتقوا الله و اصلحوا ذات بینکم و اطیعو الله و رسوله ان کنتم مؤمنین ) (انفال/۱)

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انفال ( مال غنیمت) کے متعلق پوچھتے ہیں تو کہہ دیجی ے کہ انفال خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہے اور اگر تم مؤمن ہو تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح صفائی کرلو او ر خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ مال غنیمت وہاں نہیں بلکہ مدینہ واپس آتے ہوئے راستے میں تقسیم کیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے درمیان اختلاف کی شدت کو ختم کرکے انہیں طبیعی حالت میں واپس لے آنا

۳۰۸

چاہتے تھے تا کہ وہ اپنی دنیاوی خواہشات سے ہٹ کر اس بارے میں کچھ سوچیں_ تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ سارامال ان کے درمیان تقسیم کردیا اور اس سے خمس بھی نہیں نکالا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس کیوں نہیں لیا ؟

بہر حال رہا یہ سوال کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جنگ بدر کے مال غنیمت میں سے خمس کا حصہ کیوں نہیں لیا ؟ تو اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے اذن سے اپنے اور ذوی القربی کے حقوق سے گذر تے ہوئے جنگجوؤں کا حوصلہ بڑ ھانے اور ان کا دل جیتنے کے لئے انہیں زیادہ حصہ دنیا چاہتے ہوں گے خاص کراس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ مشرکین کے خلاف ان لوگوں کی پہلی زبر دست لڑائی ہے اور دوسرا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس موقع پر یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ انہیں حصول مال کی کتنی شدید خواہش اور لالچ ہے _اس کی مزید وضاحت قیدیوں سے متعلق گفتگو میں ہوگی _

اس کی مثال اس روایت میں بھی ملتی ہے کہ حضرات حسنین (حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ) علیہما السلام نے حضرت علی علیہ السلام کے ایام خلافت میں اپنے والد سے خمس سے اپنا حصہ مانگا تو انہوں نے فرمایا: '' وہ تو تمہارا حق ہے مجھ سے طلب کر سکتے ہو لیکن میں ابھی معاویہ سے جنگ میں مصروف ہوں(جس کے لئے مجھے اخراجات کی اشد ضرورت رہتی ہے )اس لئے اگر تم چاہو تو اپنے اس حق سے گذر سکتے ہو ''(۱)

البتہ یہ بات بھی ممکن ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس وجہ سے وہاں خمس نہ لیا ہو کہ اس وقت تک خمس والی آیت نازل نہ ہوئی ہو_ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ خمس کا حکم غزوہ بدر کے بعد آیاہوگا ،حتی کہ بعض اقوال یہ بھی ملتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلا خمس غزوہ بنی قینقاع کے موقع پر نکالاتھا(۲) لیکن ہمیں اس بات کے صحیح ہونے میں شک ہے کیونکہ بعض دستاویزات کے مطابق آپ نے جنگ بدر سے کچھ ما ہ پہلے سریہ عبداللہ بن حجش میں

____________________

۱)السنن الکبری ج۶ص ۳۶۳)_

۲)الثقات ابن حبان ج ۱ص ۲۱۱_

۳۰۹

سب سے پہلا خمس لیاتھا _بلکہ ہم یہاں تک بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام کی حدیث مناشدہ(۱) میں ابن عسا کرنے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے مشاورتی کو نسل کے افراد کو قسم دیتے ہوئے کہا تھا :''تمہیں خدا کی قسم کیا میرے اور حضرت فاطمہعليه‌السلام کے علاوہ تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی قریبی کے ایمان لانے سے بھی پہلے خمس لیا ہو ؟'' سب نے کہا :'' نہیں بخدا ''(۲) _ اس دستاویز کی روسے خمس ،مکہ میں بعثت کے ابتدائی ایام میں حتی کہ آپکے گھرانے کے کسی فرد کے اسلام لانے سے بھی پہلے فرض ہو اتھا _ البتہ اس دستاویز پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت سے بھی پہلے بعثت کے چوتھے یا پانچویں سال تک حضرت جعفر ،حضرت حمزہ اور جناب ابو طالب مسلمان ہو گئے تھے _ (پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ دعوی کیسا کہ کسی قریبی کے مسلمان ہونے سے پہلے میں اور فاطمہعليه‌السلام خمس لیتے تھے ؟) _جبکہ اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ: ( ایک ):_حضرت ابو طالبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدااور حضرت خدیجہعليه‌السلام کو کسی مال کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ یہ شخصیات شعب ابی طالب جیسے کٹھن حالات میں بھی اپنا ہی مال خرچ کرتے تھے _ اور یہ بات پہلے ذکر ہو چکی ہے _ اور حضرت جعفرعليه‌السلام کے متعلق بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ خمس کے مستحق ہوں شاید وہ بھی مالدار آدمی تھے اسی طرح وہ اس وقت ملک حبشہ میں رہ رہے تھے اسی طرح حضرت حمزہ بھی شاید مالدار آدمی تھے _ ( دو):یہ بھی ممکن ہے کہ خمس کا حکم بعثت کے ابتدائی دنوں میں ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر رشتہ داروں کے مسلمان ہونے سے پہلے آیا ہو اور حضرت خدیجہعليه‌السلام نے خمس نکالا ہو اور اس سے حضرت علیعليه‌السلام کو اپنا حصہ ملاہو لیکن حضرت فاطمہ زہراعليه‌السلام ولادت کے بعد حضرت علیعليه‌السلام کی حصہ داربن گئی ہوں _ البتہ اس مذکورہ دستاویز کا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ حضرت زہراعليه‌السلام بعثت کے اوائل میں پیدا ہوئیں _

____________________

۱) خلیفہ ثانی نے بوقت وفات گذشتہ رہنما ؤں کی مخالفت کرتے ہوئے نئے خلیفہ کی تعیین کے لئے ایک چھ رکنی کو نسل یا کمیٹی تشکیل دی تھی _تعیین خلیفہ کے وقت دھاندلی ہونے لگی تو حضرت علی علیہ السلام نے اس کمیٹی کے افراد کو قسمیں دے دے کران سے اپنے فضائل اور صفات منو ائے لیکن دھاند لی ہو کر رہی اور حضرت علیعليه‌السلام کا حق غصب ہو گیا _ اس حدیث کو حدیث منا شدہ کہتے ہیں _مترجم

۲)زندگانی امام علیعليه‌السلام از تاریخ ابن عسا کر با تحقیق محمودی ج ۳ص ۹۰وص ۹۵،المناقب خوازرمی ص۲۲۵،فرائد السمطین ج۱ ص۳۲۲نیز زندگانی امام علیعليه‌السلام ج۳ص ۸۸و ص ۸۹کے حاشیہ میں حدیث منا شدہ کے کثیر منابع و مآخذ بھی مذکور ہیں نیز ملاحظہ ہو: الضعفاء الکبیر ج ۱ ص ۲۱۱_(البتہ اس میں ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر رشتہ داروں کے ایمان لانے سے پہلے ''والا جملہ مذکور نہیں ہے ، ولئالی المصنوعہ ج ۱ص ۳۶۲)_

۳۱۰

رسول خدا ایک بار پھر خمس اپنے اصحاب میں بانٹ دیتے ہیں

جس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر میں خمس نہیں لیا ،اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بعض دیگر مقاما ت پر بھی خمس نہیں لیا_مروی ہے کہ جنگ حنین کے واقعہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے حق یعنی خمس کو اپنے صحابیوں میں تقسیم کر دیاتھا _ حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کچھ زمین اور ایک موٹا تازہ جوان اونٹ یا کوئی اور چیزملی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''مجھے پروردگار کی قسمخدا نے تمہیں جو بھی مال غنیمت یا جو رزق دیا ہے اس میں سے صرف خمس ہی میرا حق بنتا ہے اور وہ بھی میں تمہیں لوٹا ئے دیتا ہوں ''(۱)

یہ تو ان لوگو ں کے ساتھ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کا سلوک تھا لیکن دوسروں کا سلوک کیسا تھا ؟ انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص حق ''فئے''پر بھی قبضہ کر لیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتعليه‌السلام تک کو بھی اس سے محروم رکھا ،بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام وارثوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام ترکہ سے ہی محروم کردیا اور یہ بات کسی بیان کی محتاج نہیں ہے_ البتہ ہم بھی '' سیرت سے متعلق چند باتیں'' کی فصل میں نفع اور تمام مال میں خمس کے فریضے پر گفتگو کریں کے_

حضرت علیعليه‌السلام کے دور حک۳مت میں غربت کا خاتمہ :

ابو عبیدہ و غیرہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سال میں تین مرتبہ لوگوں میں مال تقسیم کیا کرتے تھے ایک مرتبہ تین دفعہ بانٹنے کے بعد اصفہان سے کچھ مال آیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ چو تھی مرتبہ تقسیم کا بھی جلدی جلدی بند و بست کرو ، میں تمہارا کوئی خزانچی نہیں ہوں _ تو آپعليه‌السلام نے وہ طبق لوگوں میں تقسیم کرادیئےسے بعض نے تو لے لیا لیکن بعض نے واپس کردیا لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اپنا حصہ لینے پر مجبور کردیا(۲) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں تمام لوگ اس حد تک خود کفیل اور بے نیاز ہو گئے تھے کہ حکومتی

____________________

۱)الموطاء ج ۲ص ۱۴مطبوعہ با تنویر الحوالک ،الا موال ابو عبید ص ۴۴۴و ۴۴۷،الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۱۲۲،مسند احمد ج۵ ص ۳۱۶ ص ۳۱۹ ، ۳۲۶ و الثقات ج ۲ ص ۴۸)_ ( ۲)الاموال ابو عبید ص ۳۸۴،کنز العمال ج ۴ص ۳۷۸وص۳۱۸،حیاة الصحابہ ج ۲ص ۲۳۶،زندگانی امام علیعليه‌السلام از تاریخ ابن عسا کر با تحقیق محمودی ج ۳ ص ۱۸۱و انساب الاشراف با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۱۳۲_

۳۱۱

تقسیم کو بھی واپس کرنے لگے تھے _ اور ایسا کیوںنہ ہو جبکہ حضرت علیعليه‌السلام یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں دنیا کو ہیچ سمجھتا ہوں(۱) اور بیت المال کے متعلق حضرت علیعليه‌السلام کی سیرت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے_(۲)

جبکہ دوسروں کے دور حکومت میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض افراد کے پاس تن کو ڈھانپنے کے لئے صرف دوہی ٹکڑے ہوتے تھے جس سے وہ صرف اپنا آگا اور پیچھا ہی چھپا سکتے تھے _ اور کچھ بھی نہیں تھا ، اس لئے انہیں '' ذو الرقعتین'' کہتے تھے(۳)

اہم نوٹ : خمس اور اقربا پروری؟

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے خمس کا مخصوص حکم ایک خاندان کو برتری دینے کے مترادف اور باعث ہے ؟ اور کیا یہ ذات پات کے فرق پر مبنی ہے ، جیسا کہ بعض لوگوں کو ایسی باتیں کرنا اچھا بھی لگتا ہے _ اور اس کا جواب یہ ہے کہ:

۱_ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خمس اللہ ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امامعليه‌السلام کی ملکیت ہے _ اور آیت خمس میں مذکور باقی افراد خمس کے استعمال اور خرچ کرنے کے موارد ہیں _ اور در حقیقت خدا نے عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فقیروں کو امامعليه‌السلام کی زیر سرپرستی قرار دیا ہے _ اگر ان کا اپنا حصہ ان کے لئے کفایت نہ کرے اور ان کا فقر دور نہ کر سکے تو امامعليه‌السلام اپنے حصہ سے اس کی کمی پوری کرتا ہے_ اور اگر ان کے حصہ سے کچھ بچ جائے تو وہ باقی حصہ امامعليه‌السلام کا ہوگا_ ہوگا _ اور امامعليه‌السلام اپنے اس حصہ کو ان شرعی امور میں خرچ کرے گا جو دین کی سربلندی ، حفاظت اور مسلمانوں کے حالات سدھرنے کا باعث ہوں _ اور وہ مال جو ان شخصیتوں ( سادات کے فقیروں ، مسکینوں اور مسافروں) کو دیا جائے گا وہ صرف ان کی ضرورتوں کے پورے ہونے کی حد تک ہو گا_ کیونکہ زکات ان پر حرام ہوچکی ہے _ اسی طرح زکات غیر سادات کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے فرض ہوئی ہے _ البتہ غیر

____________________

۱)البدایہ و النہایہ ج ۸ص ۵از بغوی و حیاةالصحابہ ج ۲ ص ۳۱۰_

۲)اور قائم آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دور حکومت کے متعلق بھی ملتا ہے کہ وہ دور ایسا خوشحال ہوگا کہ صدقہ دینے والے صدقہ دینے کے لئے ہر طرف پھر رہے ہوں گے لیکن لینے والا کہیں نہیں ملے گا_

۳)المصنف عبدالرزاق ج ۶ ص ۲۶۷ نیز ص ۲۶۸ و سنن بیہقی ج ۷ ص ۲۰۹ _

۳۱۲

سادات میں سے کسی ایک کو دوسروں پر کوئی برتری اور امتیاز حاصل نہیں ہوگا _ جبکہ سادات کے فقیروں کو خمس دینا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی تعظیم اور لوگوں کے دلوں میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان اور منزلت کے اعتراف کے برابر ہے_ جبکہ اس سے کسی دوسرے کی حق تلفی یا کسرشان بھی نہیں ہوتی _ اور اس بات سے امت اسلامیہ عقیدے کے لحاظ سے بھی اور عملی طور پر بھی مضبوط اور با صلابت ہو جاتی ہے اور امت اسلامیہ کو اسی صلابت ہی کی اشد ضرورت ہے _

خداوند عالم نے قرآن مجید میں مذکورہ صورت کے علاوہ بھی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے احترام اور تکریم کو بہت اہمیت دی ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ اہتمام کیا ہے _ ارشاد خداوندی ہے

( یا ایها الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی و لا تجهروا له بالقول کجهر بعضکم بعضا ) (۱)

اے مؤمنواتم نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز سے اپنی آواز زیادہ اونچی نہ کیا کرو بلکہ تمہاری آواز ان سے نیچی اور دھیمی ہونی چاہئے اور ان کو اونچی آواز سے اس طرح بھی مت پکارو جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو_

اسی طرح خدا نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا بھی حکم دیا ہے اور یہ سب صرف اس لئے ہے کہ خدا ان باتوںسے دین ، انسان اور انسانیت کی بھلائی چاہتا ہے _

اس کے ساتھ یہ بھی بتاتے چلیں کہ خمس کی یہ عطا اتنی بلا قید و شرط بھی نہیں ہے کہ سب مال کسی خاص قوم یا خاندان کے پاس جمع ہو جائے جبکہ دوسروں کو اس کی اشد ضرورت رہے _ بلکہ شرط یہ ہے کہ ہر سید کو اس کے سال بھر کے خرچہ کی مقدار جتنا دیا جائے گا جس سے اس کی ضروریات پوری ہوتی رہیں _ روایات اور مجتہدین کے فتو ے بھی اسی بات کی تائید کرتے ہیں _ اسی طرح سہم امام بلکہ بعض فتاوی کی بنا پر سہم سادات بھی امامعليه‌السلام یا پھر مجتہد کے اختیار میں ہوتا ہے _

____________________

۱)حجرات /۲۲

۳۱۳

لیکن زکات کے متعلق ایسا نہیں ہے بلکہ کوئی بھی کسی فقیر کو اتنی بہت زیادہ زکات بھی دے سکتا ہے کہ اس کی کا یا اچانک پلٹ جائے اور وہ فقیر سے امیر ہو جائے _

۲_ خمس نے تاریخ کے دورانیے میں دین کی حفاظت میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے _ اسی خمس نے مرجعیت کے ساتھ لوگوں کے تعلقات مضبوط رکھے اور دونوں کے اندر ایک دوسرے پر اعتماد پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا _ ظالم و جابر حکام کے ظلم و زیادتیوں نیز محرومیوں کے اثرات پر غلبہ پانے میں لوگوں کی مدد کی اور ان کی بہت سی ضروریات کو پورا کیا _ معاشر ے کی خدمت کرنے والے علمی اور رفاہی اداروں کی تشکیل میں بھی بہت زیادہ اور عظیم کردار ادا کیا اور معاشرے کی روحی ، مادی اور ذہنی سطح بلند کی _ اسی طرح خمس کے ساتھ ساتھ اس مذہبی موقف نے بھی مذہبی معاشرے کی روحی اور ذہنی سطح کے بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کیا کہ کسی ظالم و جابر حاکم کے ساتھ کسی قسم کے تعلق کے بغیر یا اس کے سامنے جھکے بغیر انسان کو اپنے عقیدے اور عمل میں آزاد ہونا چاہئے_ اور اس ظالم حاکم کو اپنے اوپر ایسے کسی قسم کے دباؤ ڈالنے کا موقع نہ دیں کہ جس سے وہ انہیں غیر دینی راستوں پرلے جائے اور وہ انہیں اپنے اغراض و مقاصد کے حصول اور اہداف تک رسائی کا ذریعہ بنائے _پس ان کی شان ، عظمت ، سر بلندی اور اعتبار اس ظالم حاکم کے مرہون منت نہیںہے کہ جس کی وجہ سے ان پر اس ظالم حاکم کے ساتھ دینی اور عقائدی حدود کے باہر کسی قسم کا تعلق اور واسطہ رکھنا ضرور ی ہو_ اسی بات سے ہمیں آیت اللہ سید روح اللہ موسوی خمینی کی دینی قیادت اور رہبری میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں دیگر عوامل کے علاوہ خمس کے عظیم کردار کا بھی علم ہوتا ہے

۳_ چونکہ بعض لوگوں میں دین سے دفاع اور اس کی حفاظت کا ذاتی احساس اجاگر کرنے کے لئے خمس بھی اپنا حصہ ادا کرتا ہے اس لئے دین کو ہمیشہ خمس کی ضرورت رہتی ہے _ اور یہ طبیعی بات ہے کہ اس خطیر ذمہ داری کا ذاتی احساس اور جذبہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتعليه‌السلام میں یعنی سادات میں سب سے زیادہ ہے _ اور خمس کو ان کے اور ان کے اہل و عیال کے لئے بطور ضمانت اور ضروریات زندگی فراہم کرنے کا ذریعہ قرار دینے

۳۱۴

سے ان میں دین سے دفاع کا مذکورہ جذبہ مزید اجاگر ہوگا اور نکھرے گا نیز دین کی راہ میں جان دینے پر بھی زیادہ آمادہ کرے گا(۱)

یہیں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فاسد عقیدوں اور مشکوک فرقوں حتی کہ وہابیت جیسے باطل اور گمراہ فرقے نے کس طرح اس جیسے تعصب اور اقربا پروری سے کام لے کر اپنے آپ کو زندہ رکھا ہوا ہے _ چونکہ آل سعود جیسے کچھ لوگ اپنا وجود وہابیت کے مرہون منت جانتے ہیں اس لئے وہ اس کی حفاظت ، پابندی اور ترویج کو اپنی ذات ، حکومت اور سلطنت کی بقاء کے لئے ضروری جانتے ہیں _اور ان تمام باتوں سے یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ مذہب حقہ بھلائی اور حق کی حفاظت اور ترویج کے لئے اس عنصر سے استفادہ کرنے کاسب سے زیادہ حق دار ہے _

ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ حکام جس مذہب سے بھی ناراض ہو جاتے اور اس پر اپنا غصہ نکالنا چاہتے تو وہ مذہب تھوڑی سی کوشش کے ساتھ ہی نیست و نابود ہوجاتا تھا _ کیونکہ اس کے بقاء اور اس پر پابند رہنے والے شخص کی حفاظت کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہوتی تھی _ لیکن خالص خدائی تعلیمات پر مشتمل مذہب اہل بیتعليه‌السلام میں چونکہ بڑی بڑی کینہ پرور اور ظالم طاقتوں کے مقابلے میں بھی استمراراور بقاء کی بہت سی شرعی، عقلی اور عملی ضمانتیں موجود ہیں اور ان ضمانتوں کے سائے میں وہ کئی کئی صد یوں تک بھی اپنے اور اپنے پیروکاروں پر دباؤ نہ صرف برداشت کر سکتی ہے بلکہ کر بھی چکی ہے اور کربھی رہی ہے اس لئے وہ پائندہ اور تابندہ ہے _ البتہ یہ بات دین اسلام کی عظمت ، وسعت اور پاکیزگی کی صرف ایک دلیل ہے ، باقی بھی ہیں جو اپنے مقام پر ذکر ہو چکی ہیں اور ہوں گی _

____________________

۱) البتہ اسلام نے ان سادات کے لئے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ وہ خمس و غیرہ کو گناہ کے کاموں میں خرچ نہ کرتا ہو_ بلکہ اس سید کو محتاج ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت نیک اور پرہیزگار ہونا چاہئے _ اور وہ جتنا نیک ہوگا اتنا ہی مستحق خمس ہوگا_

۳۱۵

جنگ بدر میں شرکت نہ کرنے ولے بعض افراد کا مال غنیمت سے حصہ :

الف : طلحہ اور سعید بن زید:

مورخین یہاں کہتے ہیں کہ طلحہ اور سعید بن زید نے جنگ بدر میں شرکت نہیں کی تھی _ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں تجارتی قافلے کی تازہ ترین صورتحال معلوم کرنے کے لئے بھیجا تھا تو وہ بدر کی طرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روانگی کے بعد مدینہ واپس لوٹے تھے _ وہ جنگ میں شرکت کے لئے گھر سے نکلے بھی لیکن راستے میں دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ سے فارغ ہو کر واپس تشریف بھی لارہے ہیں _ یہ صورتحال دیکھ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر کے مال غنیمت سے ان دونوں کو بھی ان کا حصہ دیا(۱) _

لیکن یہ بات مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر صحیح نہیں ہے :

۱_ ہمیں ایک اور دستاویز میں ملتا ہے کہ وہ شام تجارت کے لئے گئے ہوئے تھے اور وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگ بدر سے واپسی کے بعد لوٹے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی آمد پر ان دونوں کا حصہ نکال کر انہیں دیا(۲) _

البتہ اس دستاویز کی آخری شق صحیح نہیں ہے_ کیونکہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیچھے رہ جانے والے دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر صرف ان دونوں کوہی مال غنیمت کا حصہ کیوں دیا ؟ اور کیاجنگ نہ کرنے والوں کا جنگ کرنے والوں کے مال غنیمت سے شرعی طور پر کوئی حق بنتا ہے ؟ پھر کسی مجبوری و غیرہ کے تحت جنگ سے پیچھے رہ جانے والے دیگر لوگوں کی بجائے صرف ان دونوں کو حصہ دینے پر وہ لوگ راضی کیسے ہو گئے؟ اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اگر دیگر مسلمانوں کو مال عطا کرنا بھی چاہتے تھے تو انہیں اپنے حصہ سے عطا کرنا چاہئے تھا دوسروں کے مال سے نہیں ، جس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ میں شریک افراد کے ساتھ یہ کام کیا تھا_

____________________

۱)ملاحظہ ہو: سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۷ و ص ۱۸۵ و غیرہ_ (۲)سیرہ ابن ہشام ج۲ ص ۳۳۹ و ۳۴۰ ، التنبیہ و الاشراف ص ۲۰۵ لیکن اس میں لفظ '' قیل'' ( منقول ہے) کے ساتھ ذکر ہوا ہے ، الاصابہ ج۲ ص ۲۲۹ و الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۲ ص ۲۱۹_

۳۱۶

۲_ دیگر مورخین کی پیروی میں سیوطی نے بھی مذکورہ دونوں افراد کی اس فضیلت سے انکار کیا ہے بلکہ عثمان کے علاوہ اس نے ہر کسی کی اس فضیلت سے انکار کیا ہے _ وہ کہتا ہے : '' جنگ بدر کے موقع پر حضرت عثمان کا حصہ علیحدہ کر لیا گیا جبکہ اس کے علاوہ جنگ بدر سے غیر حاضر رہنے والے کسی شخص کے لئے بھی کوئی حصہ نہیں رکھا گیا_ اس روایت کو ابو داؤد نے ابن عمر سے نقل کیا ہے _ خطابی کہتا ہے کہ یہ فضیلت صرف حضرت عثمان کے ساتھ خاص ہے کیونکہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی ( لے پالک) دختر کی تیمار داری میں مصروف تھا''(۱) البتہ ہم حضرت عثمان کے لئے بھی اس تخصیص کے قائل نہیں ہیں جسے انشاء اللہ آگے جا کر ثابت کریں گے _

۳_ شورا والوں سے ( جن میں طلحہ اور عثمان بھی شامل اور موجود تھے ) حضرت علی علیہ السلام کی حدیث مناشدہ میں آیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا : '' کیا تم لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جسے جنگ میں شرکت کرنے پر بھی حصہ ملاہو اور شرکت نہ کرنے پر بھی حصہ ملا ہو؟'' تو سب نے نفی میں جواب دیا(۲) البتہ ہو سکتا ہے کہ جنگ میں شرکت نہ کرنے پر آپعليه‌السلام کو حصہ اس لئے دیا گیا ہو کہ آپعليه‌السلام بھی اس وقت کسی جنگی مہم میں مصروف ہوں یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے حصہ سے جس طرح دیگر جنگجوؤں کو دیا تھا اسی طرح آپعليه‌السلام کو بھی دیا ہو _ البتہ یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں حضرت علیعليه‌السلام صرف جنگ تبوک سے ہی پیچھے رہے تھے اور شرکت نہ کر سکے تھے باقی تمام جنگوں میں آپعليه‌السلام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانہ بشانہ رہے _ زمخشری نے فضائل العشرہ میں کہا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد نبوی میں بیٹھے جنگ تبوک کا مال غنیمت تقسیم کررہے تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر کسی کو ایک ایک حصہ دیتے جارہے تھے لیکن حضرت علیعليه‌السلام کو دو حصے دیئے _ اس پر زائدہ بن اکوع نے اعتراض کیا تو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے اسے یہ جواب دیا کہ (حضرت) علیعليه‌السلام کی جگہ جبرائیل جنگ تبوک میں جنگ کررہا تھا اور اسی نے (حضرت)علیعليه‌السلام کو دو حصے دینے کا حکم دیا ہے(۳)

نوٹ: حضرت علی علیہ السلام کی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی حضرت جعفرعليه‌السلام کو بھی شرکت کرنے پر ایک حصہ اور نہ

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۸۵_ (۲)زندگانی امام علیعليه‌السلام از تاریخ ابن عساکر با تحقیق محمودی ج ۳ ص ۹۳ ، اللئالی المصنوعہ ج۱ ص ۳۶۲ و الضعفاء الکبیر ج۱ ص ۲۱۱ و ص ۲۱۲_ (۳)ملاحظہ ہو:سیرہ حلبیہ ج ۳ ص ۱۴۲_

۳۱۷

کرنے پر بھی ایک حصہ ملاتھا _ کیونکہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مردی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''جنگ بدر کے موقع پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب جعفرعليه‌السلام کا بھی حصہ علیحدہ کیا تھا(۱) لیکن یہ بات حضرت علیعليه‌السلام کے مذکور ہ دعوے کے منافی نہیں ہے کیونکہ حضرت علیعليه‌السلام نے جن لوگوں کو قسمیں دی تھیں ان میں حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور اس خصوصیت کا حامل تھاہی نہیں _ اور یہ بات حضرت جعفرعليه‌السلام کے مذکورہ خصوصیت کے حامل ہونے سے مانع نہیں ہے کیونکہ وہ جنگ مؤتہ میں شہید ہو چکے تھے اور اس موقع پر موجودہی نہیں تھے_

ب:عثمان بن عفان

مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے جنگ بدر کے مال غنیمت سے عثمان بن عفان کا حصہ بھی علیحدہ کر لیا تھا کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی اسے اپنی زوجہ جناب رقیہ کی تیمار داری کے لئے وہیں رہنے کا حکم دیا تھا اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا حصہ علیحدہ کر لیاتھا _ اسی وجہ سے مؤرخین نے جناب عثمان کو بدری صحابیوں سے شمار کیا ہے(۲) لیکن ہم مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر اسے صحیح نہیںسمجھتے :

۱_ حدیث منا شدہ میں شورا والوں کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کا دعوی ذکر ہو چکا ہے اور اس میں خود عثمان بھی موجود تھا اور اس نے بھی اعتراف کیا تھا _

۲_کچھ دیگر روایتیں کہتی ہیں کہ وہ خود چیچک کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جنگ بدر میں شرکت نہ کر سکا تھا(۳)

تو پھر ہم کس روایت کی تصدیق کریں ؟ اس کی یا اُس کی ؟

۳_ کسی مجبوری کی وجہ سے جنگ سے پیچھے رہ جانے والے دوسرے افراد کی بجائے صرف جناب عثمان کا حصہ کیوں علیحدہ کیا گیا؟اور اس بات پر پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں نے اعتراض کرکے اپنے حق کا

____________________

۱)سیر اعلام النبلاء ج۱ ص ۲۱۶_ (۲)ملاحظہ ہو: سیرہ حلبیہ ج ۲ص ۱۴۶،ص۱۴۷و ۱۸۵اور تاریخ کی کوئی بھی دوسری کتاب _

۳)سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۶ و ص ۱۸۵_

۳۱۸

مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ پھراس بات پر جنگجو مسلمانوں نے بھی اعتراض کیوں نہیں کیا ؟ اور کیا کسی بیماری کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے شخص کو یہ حق حاصل ہو جاتاہے کہ وہ جس جنگ میں شریک نہیں ہوا اس جنگ سے حاصل ہونے والے مال غنیمت میں حصہ دار بن جائے ؟

۴_عثمان والی بعض روایات یہ کہتی ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب رقیہ کی تیمار داری کے لئے عثمان کے ساتھ اسامہ بن زید کو بھی ٹھہرایاتھا اور جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کی خبر پہنچے کے بعد اس بارے میں اس کا بھی یک گونہ کرداررہا تھا حالانکہ اس وقت اس کی عمر دس سال سے بھی کم تھی _لیکن اس کے با وجود عثمان کے حصہ کی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا حصہ علیحدہ نہیں کیا ؟؟

۵_ تاریخ میں ملتا ہے کہ عبد الرحمن بن عوف ،عثمان کو جنگ بدر میں شرکت نہ کرنے کے طعنے دیا کرتا تھا ایک مرتبہ اس کی ملاقات ولید بن عقبہ سے ہوئی تو ولید نے اس سے کہا :''تم امیر المؤمنین عثمان کے حق میں جفا کیوں کرتے ہو ؟''_تو عبد الرحمن نے اس سے کہا :''اس سے کہہ دینا کہ میں نہ جنگ عینین (جبکہ بقول عاصم اس کی مراد جنگ احد ہے )سے بھا گاہوں اور نہ جنگ بدر سے پیچھے ہٹاہوں اور ہاں حضرت عمر کی سنت بھی میں نے نہیں چھوڑی ہے ''_ اور ولید نے جاکر عثمان کو عبد الرحمان کا یہ پیغام پہنچایا _یہاں مؤرخین کہتے ہیں کہ اس نے جنگ بدر میں شرکت نہ کرنے کی وجہ جناب رقیہ کی تیمار داری بتائی(۱) نیز بقول مؤرخین ابن عمر نے بھی جناب عثمان پر اعتراض کرنے والے ایک شخص کے جواب میں یہی عذر پیش کیا تھا(۲) _

لیکن ان کا یہ عذر صحیح نہیں ہے بلکہ صرف ایک بہانہ ہے _کیونکہ اس کی یہ مجبوری عبدالرحمن بن عوف جیسے بزرگ صحابی اور اس اعتراض کرنے والے شخص سے کیسے پوشیدہ تھی؟ حالانکہ اس وقت کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی تھی _ اور اگر جناب عثمان کا اس سے کوئی حصہ علیحدہ کیا گیا تھا تو یہ اس کے لئے بہت بڑی فضیلت

____________________

۱)مسنداحمد ج۱ ص ۶۸وص۷۵،الا وائل ج۱ص۳۰۵وص ۳۰۶،محاضرات الادباء راغب اصفہانی ج ۲ ص ۱۸۴،الدر المنثور ج۲ص ۸۹از احمد و ابن منذر ،البدایہ و النہایہ ج ۷ص۲۰۷،شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج ۵ ص ۲۱تا ص۲۲،المغازی واقدی ج۱ص ۲۷۸،الغدیر ج ۹ ص ۳۲۷و ج ۱۰ص ۷۲از احمد و ابن کثیر و از ریاض النضرہ ج ۲ ص ۹۷_ (۲)مستدرک حاکم ج ۳ ص ۹۸،الجامع الصحیح ترمذی ج ۵ ص ۶۲۵،مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۰۱،البدایہ و النہایہ ج ۷ص ۲۰۷از بخاری و الغدیر ج ۱۰ص ۷۱از حاکم و ص۷۰از احمد و از صحیح بخاری ج ۶ص۱۲۲)_

۳۱۹

کی بات تھی اور یہ بات جنگ بدر اور احد میں شرکت کرنے والے ،مؤاخات کے دن عثمان کا بھائی بننے والے ،اس کے لئے خلافت کی سیج تیار کرنے والے اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے بعد کائنات کی سب سے بہتر اور افضل شخصیت امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام پر اسے ترجیح دینے والے عبدالرحمن بن عوف سے ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی تھی _تو پھر عبد الرحمن بن عوف اسے فضیلت کی بات پر کیوں طعنے دیتا تھا ؟ یا پھر ایسی بات نہیں تھی وہ لوگ عثمان پر جھوٹا الزام لگاتے ہوئے اس کی قابل تعریف باتوں پر تعریف کی بجائے اس کی برائی کرتے تھے ؟

۶_ جب بن مسعود کوفہ سے مدینہ آیا تو وہ مدینہ میں ایسے وقت داخل ہواجس وقت عثمان بن عفان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے منبر پر بیٹھ کرتقریر کررہا تھا _ جب اس کی نظر اس نو وارد پر پڑی تو اس نے دوران تقریر ہی کہہ دیا :''لوگوا تمہارے پاس ابھی ایک ایسا حقیر اور برا جانور آیا ہے جس کا کام صرف کھانے ،اگلنے اور نکالنے میں مصروف رہناہے ''_ اس پر ابن مسعود نے کہا : ''میں ایسا نہیں ہوں بلکہ میں تو جنگ بدر اور بیعت رضوان کے موقع پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا ساتھی ہوں ''(۱) اور اس بات سے وہ دونوں مقامات پر عثمان کی عدم موجود گی کی وجہ سے اسے طعنہ دے رہا تھا _

۷_ اسی طرح سالم بن عبداللہ کے پاس بھی ایک آدمی نے آکر گذشتہ دوآمیوں کی طرح عثمان پر اعتراض کیا تھا(۲) پس یہ مزعومہ فضیلت ان سب لوگوں سے کیسے مخفی رہی ؟

۸_ آخر میں ہم جناب رقیہ کی تیمار داری کے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے عثمان کو مدینہ میں رہ جانے کی رخصت دینے کو بھی بعید سمجھتے ہیں _ کیونکہ عثمان کے کردار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے جناب رقیہ کی حالت کی کچھ پروا نہیں تھی اور نہ ہی اسے اس کی بیماری سے کوئی غرض تھی کیونکہ ہم انشاء اللہ جناب رقیہ کی وفات کے متعلق گفتگو میں تفصیل سے بتائیں گے کہ اس نے جناب رقیہ کی وفات کی رات بھی اپنی کسی بیوی سے ہم بستری

____________________

۱)انساب الا شرف ج ۵ ص ۳۶،الغدیر ج۹ص۳از انساب الاشرف و ص ۴ از واقدی _

۲) الغدیر ج۱۰ص ۷۰از ریاض النضرہ ج۲ص ۹۴_

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460