الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242094 / ڈاؤنلوڈ: 6988
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

كہہ رہى تھيں كہ : عثمان بے گناہ مارا گيا ميں اس كے خون كا بدلہ لينے كے لئے سركشى كروں گى _ عبيد نے ان سے كہا كہ ان كے خون كا مطالبہ تم كيسے كرسكتى ہو كيونكہ وہ تم ہى تو ہو جس نے سب سے پہلے عثمان كے قتل كيئے جانے كى تجويز پيش كى اور تم ہى تو كہا كرتى تھيں كہ ''نعثل'' كو قتل كردو كيونكہ وہ كافر ہوگيا ہے اور آج تم ہى انہيں مظلوم و بے گناہ كہہ رہى ہو_

عائشہ نے كہا كہ ہاں عثمان ايسا ہى تھا ليكن اس نے توبہ كرلى تھى اور لوگوں نے ان كى توبہ كى طرف سے بے اعتنائي كى اور انہيں قتل كرديا اس كے علاوہ ميں نے كل جو كچھ كہا تھا تمہيں اس سے كيا سروكار؟ ميں آج جو كہہ رہى ہوں تم اسے مانو كيونكہ ميرى آج كى بات كل سے بہتر ہے_(۱۱)

مكہ پہنچنے كے بعد عائشہ مسجد الحرام كے سامنے محمل سے اتريں اور پورى سترپوشى كے ساتھ وہ حجر الاسود كے جانب روانہ ہوئيں ، لوگ ان كے چاروں طرف جمع ہوگئے ، عائشہ نے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ عثمان كا خون ناحق ہوا ہے ، انہوں نے اہل مدينہ اور دوسرے لوگوں كے جذبات كو ان كے خلاف جنہوں نے عثمان كے قتل ميں حصہ ليا تھا برافروختہ كيا اور حاضرين سے كہا كہ وہ عثمان كے خون كا بدلہ ليں اور قاتلوں كے خلاف شورش كرنے كى دعوت دى _(۱۲)

مكہ ميں مخالفين كا جمع ہونا

مكہ ميں عائشہ نے جيسے ہى حضرت عليعليه‌السلام كے خلاف پرچم لہرا ديا آپ كے مخالفين ہر طرف سے ان سے گرد جمع ہوگئے _

طلحہ و زبير بھى حضرت عليعليه‌السلام سے عہد شكنى كركے ان كے ہمنوا ہوگئے دوسرى طرف بنى اميہ حضرت علىعليه‌السلام كے ايك زمانے سے دشمن چلے آرہے تھے اور كسى مناسب موقع كى تلاش ميں تھے اور عثمان كے قتل كے بعد وہ مدينہ سے فرار كرے چونكہ مكہ پہنچ گئے تھے اس لئے وہ بھى عائشہ كے زير پرچم آگئے _ اس طرح عثمان كے زمانے كے وہ تمام والى و صوبہ دارجنہيں حضرت علىعليه‌السلام نے معزول

۱۲۱

كرديا تھا وہ سب عائشہ كے ساتھ ہوگئے مختصر يہ كہ وہ تمام مخالف گروہ جنہيں حضرت علىعليه‌السلام سے پرخاش تھى مكہ ميں جمع ہوگئے اور اس طرح ناكثين كى تحريك كا اصل بيج يہاں بويا گيا ، مخالف گروہوں كے سردار عائشہ كے گھر ميں جلسات كى تشكيل كركے شورش و سركشى كى طرح اندازى پر بحث وگفتگو كرتے_

عائشہ نے كہا كہ : اے لوگو يہ عظےم حادثہ ہے جو رونما ہوا ہے اور جو واقعہ رونما ہوا ہے وہ قطعى ناپسنديدہ ہے ، اٹھو اور اپنے مصرى بھائيو سے مدد طلب كرو شام كے لوگ بھى تمہارا ساتھ ديں گے ، شايد اس طرح خداوند تعالى عثمان اور ديگر مسلمانوں كا بدلہ دشمنوں سے لے_

طلحہ وزبير نے بھى اپنى تقارير كے دوران عائشہ كى حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف جنگ كرنے ميں حوصلہ افزائي كى اور كہا كہ وہ مدينہ سے رخصت ہو كر ان كے ساتھ چليں _

جب انہوں نے عائشہ كے جنگ ميں شريك ہونے كى رضامندى حاصل كرلى اور عائشہ نے بھى اس تحريك كى قيادت سنبھال لى تو يہ گروہ عمر كى دختر اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زوجہ حفصہ كى جانب گئے ، انہوں نے كہا كہ مجھے عائشہ سے اتفاق رائے ہے اور ميں ان كى تابع ہوں اگر چہ انہوں نے يہ فيصلہ كرليا تھا كہ عائشہ كے ہمراہ چليں مگر ان كے بھائي عبداللہ اس روانگى ميں مانع ہوئے_(۱۳)

سپاہ كے اخراجات

عثمان نے جو رقم اپنے رشتہ داروں ميں تقسيم كردى تھى اور وہ كثير دولت جو ان كے پردازوں كے ہاتھ آئي تھى وہ سب اسى مقصد كے لئے استعمال كى گئي چنانچہ بصرہ كے معزول گورنر عبداللہ بن عامر اور عثمان كے ماموں زاد بھائي نے سب سے پہلے عائشہ كى دعوت كو قبول كيا اور اپنا بہت سا مال انہيں دے ديا _ عثمان كا معزول كردہ يمن كا گورنر يعلى بن اميہ نے بھى اپنى كثير دولت جس ميں چھ ہزار درہم اور چھ سو اونٹ شامل تھے اس فتنہ پرور لشكر كے حوالے كرديئے _(۱۴) اور اس لشكر ناكثين كے اخراجات فراہم كئے_

۱۲۲

عراق كى جانب روانگي

''ناكثين'' كى سعى و كوشش سے مسلح لشكر فراہم ہوگيا، سرداران سپاہ نے اس بات پر غور كرنے كے لئے كہ جنگى كاروائي كہاں سے شروع كى جائے آپس ميں مشورہ كيا اور انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عراق كى جانب روانہ ہوں اور كوفہ وبصرہ جيسے دو عظےم شہروں كے باشندوں سے مدد ليں كيونكہ طلحہ اور زبير كے بہت سے خير خواہ وہاں موجود تھے اور اس كے بعد وہاں سے اسلامى حكومت كے مركز پر حملہ كريں _

اس فيصلہ كے بعد عائشہ كے منادى نے مكہ ميں جگہ جگہ اعلان كيا كہ ام المومنين اور طلحہ اور زبير كا ارادہ بصرہ جانے كا ہے جس كسى كو اسلامى حريت كا پاس ہے اور عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتا ہے وہ ان كے ساتھ شريك ہوجائے_

جب ہزار آدمى ضرورى سامان جنگ كے ساتھ جمع ہوگئے تو انہوں نے مكہ سے عراق كى جانب كوچ كيا راستے ميں ان كے ساتھ بہت سے لوگ شامل ہونے لگے يہاں تك كہ ان كى تعداد تين ہزار تك پہنچ گئي _(۱۵)

عائشہ اپنے مخصوص ''عسكر'' نامى شتر پرلشكر كے سپاہ كے پيش پيش تھى اور اُميہ ان كے اطراف ميں چل رہے تھے اور سب كا ارادہ بصرہ پہنچنا تھا_

راہ ميں جو حادثات رونما ہوئے ان ميں سے ہم يہاں ايك كے بيان پر ہى اكتفا كرتے ہيں _

راستے ميں انہيں جہاں پہلى جگہ پانى نظر آيا وہاں ان پر كتوں نے بھونكنا اوريھبكنا شروع كرديا ، عائشہ نے دريافت كيا كہ يہ كونسى جگہ ہے انہيں بتايا گيا كہ يہ ''حَوا ب''ہے _ يہ سن كر عائشہ كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جس ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ پيشن گوئي كى تھى كہ حواب كے كتے ازواج مطہرات ميں سے ايك پر غرائيں گے اور انہيں اس سفر سے باز رہنے كے لئے فرمايا تھا(۱۶) _ عائشہ اس حادثے سے پريشان ہوگئيں اور فرمايا :''انالله و انا اليه راجعون''

۱۲۳

ميں وہى زوجہ ہوں جنہيں پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے مستقبل كے بارے ميں آگاہ كرديا تھااور فوراً ہى واپس چلے جانے كا فيصلہ كيا _ ليكن طلحہ وزبير نے جب يہ ديكھا كہ عائشہ جنگ كے خيال كو ترك كيا چاہتى ہيں تو انہيں اپنى آرزوئيں خاك ميں ملتى ہوئي نظر آئيں چنانچہ انہوں نے يہ كوشش شروع كردى كہ عائشہ اپنے فيصلے سے باز رہيں بالآخر جب پچاس آدميوں نے يہ جعلى گواہى دى كہ يہ جگہ ''حَوا ب'' نہيں تو وہ مطمئن ہوگئيں _(۱۷)

ناكثين كى سپاہ بصرہ كے قريب آكر رك گئي ، عائشہ نے عبداللہ بن عامر كو بصرہ روانہ كيا اور بصرہ كے كچھ بڑے افراد كے نام خط لكھا اور ان كے جواب كا انتظار كرنے لگي_

سپاہ كى جانب عثمان بن حنيف كے نمايندوں كى روانگي

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى جانب سے بصرہ ميں مقرر صوبہ دار عثمان بن حنيف كو جب يہ اطلاع ہوئي كہ عائشہ كا لشكرشہر ''ابوالاسود دوئلي'' كے گرد نواح ميں پہنچ گيا ہے تو انہوں نے ''عمران بن حصين'' كو سردار لشكر كے پاس بھيجاتاكہ وہ يہ جان سكيں كہ بصرہ كى جانب آنے كا كيا سبب و محرك ہے _ انہوں نے سب سے پہلے عائشہ سے ملاقات كى اور ان سے دريافت كيا كہ بصرہ كى جانب آپ كے آنے كا كيا مقصد ہے؟ انہوں نے فرمايا كہ عثمان كے خون كا بدلہ اور ان كے قاتلوں سے انتقام لينا_

طلحہ اور زبير سے بھى انہوں نے يہى سوال كيا انہوں نے بھى عائشہ كى بات دہرادى ، عثمان بن حنيف نے طلحہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ كيا تم نے حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت نہيں كي؟ انہوں نے كہاں ہاں مگر ميرى بيعت دباؤ كى وجہ سے تھى _(۱۸)

عثمان بن حنيف كے نمايندگان نے تمام واقعات كى انہيں اطلاع دى عائشہ بھى اپنے لشكر كے ہمراہ ''حفر ابوموسي'' نامى جگہ سے روانہ ہوكر بصرہ ميں داخل ہوگئيں اور ''مربد'' كو جو كبھى بہت وسيع و كشادہ ميدان تھا ''لشكر گاہ'' قرار ديا _

۱۲۴

عثمان بن حنيف نے اپنے نمايندگان سے گفتگو كرنے كے بعد فيصلہ كيا كہ جب تك اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كى جانب سے كوئي حكم نامہ نہيں ملتا وہ سپاہ كو قلب شہر ميں آنے سے روكيں _چنانچہ انہوں نے حكم ديا كہ لوگ مسلح ہوجائيں اور جامع مسجد ميں جمع ہوں _

جب لوگ مسجد ميں جمع ہوگئے تو قيس نامى شخص نے صوبہ دار بصرہ كى جانب سے ان كے سامنے تقرير كى اور كہا كہ وہ عائشہ كے لشكر كا استقامت و پائيدارى سے مقابلہ كريں _(۲۰)

ابن قتيبہ كے قبول كے مطابق خود عثمان بن حنيف اور ان كے ساتھيوں نے بھى اس موقع پر تقريريں كى اور اسى دوران كہا ان دو اشخاص (طلحہ اور زبير) نے بھى حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى تھى مگر يہ بيعت رضائے خداوندى كى خاطر نہ تھى اسى لئے انہوں نے عجلت كى اور چاہا كہ اس سے پہلے كہ بچہ اپنى ماں كا دودھ چھوڑ دے وہ بڑا اور جوان ہوجائے ان كا خيال ہے كہ انہوں نے دباؤ كى وجہ سے بيعت كى ہے درحاليكہ ان كا شمار قريش كے زورمند لوگوں ميں ہوتا ہے اگر چاہتے تو بيعت كرتے صحيح طريق وہى ہے جو عام لوگوں نے طے كيا ہے اور حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كى اب آپ لوگ بتائيں كيا رائے ہے ؟

يہ سن كر حكيم بن جبلہ عبدى اپنى جگہ سے اٹھے اور كہا كہ ہمارى رائے يہ ہے كہ اگر انہوں نے ہم پر حملہ كيا تو ہم بھى جنگ كريں گے اور اگر وہ حملہ كرنے سے باز رہے تو ہم اس كا استقبال كريں گے ، اگرچہ مجھے اپنى زندگى بہت عزيز ہے مگرراہ حق ميں جان دينے كا مجھے ذرا خوف نہيں _ دوسرے لوگوں نے بھى اس رائے كو پسند كيا _(۲۱)

پہلا تصادم

جب عائشہ كا لشكر ''مربد'' ميں داخل ہوگيا تو بصرہ كے بعض وہ لوگ جو ان كے طرفدار تھے ان كى سپاہ مےں شامل ہوگئے ان كے علاوہ بصرہ كے باشندے اور عثمان كے حامى بھى كثير تعداد ميں ان كے گرد جمع ہوگئے_

۱۲۵

سرداران لشكر كى تقارير اور عثمان كى تحريك ''بدلہ خون'' كے باعث عثمان كے حامى و طرفدار دو گروہوں ميں تقسيم ہوگئے ايك گروہ نے عائشہ ،طلحہ اور زبير كے بيانات كى تائيد كى اور انہوں نے كہا كہ آپ يہاں عمدہ مقصد كے لئے تشريف لائے ہيں _

ليكن دوسرے گروہ نے ان پر دروغگوئي كا الزام لگايا اور كہا كہ خدا كى قسم تم جو كچھ كہہ رہے ہو وہ سراسر فريب ہے اور جو كچھ تم اپنى زبان سے بيان كررہے ہو وہ ہمارے فہم سے باہر ہے_

اس باہمى اختلاف كا نتيجہ يہ ہوا كہ انہوں نے ايك دوسرے پر خاك اچھالنى شروع كردى اور حالات كشيدہ ہوگئے_(۲۲)

سرداران لشكر مروان ، عبداللہ بن زبير اور چند ديگر افراد كے ساتھ صوبہ دار بصرہ كى جانب روانہ ہوئے اور انہوں نے عثمان بن حنيف سے درخواست كى كہ وہ اس جگہ سے چلے جائيں _ ليكن انہوں نے ان كى اس درخواست كى پروا نہ كى _

عثمان بن حنيف كے لشكر اور جارحين كے درميان شديد تصادم ہوا جو غروب آفتاب تك جارى رہا _ مدافعين كے قتل اور جانبين ميں سے بہت سے لوگوں كے زخمى ہوجانے كے بعد بعض لوگوں كى مداخلت كے باعث يہ جنگ بند ہوئي اور طرفين كے درميان عارضى صلح كا عہد نامہ لكھا گيا اس عہد نامہ صلح كى شرايط يہ تھيں كہ :

۱_ بصرہ كى صوبہ دارى و مسجد اور بيت المال حسب سابق عثمان بن حنيف كے اختيار ميں رہے گا_

۲_ طلحہ اور زبير نيز ان كے آدميوں كو يہ آزادى ہے كہ وہ بصرہ ميں جہاں بھى چاہيں آجاسكتے ہيں _

۳_ طرفين ميں سے كس كو بھى يہ حق حاصل نہيں كہ وہ دوسرے كے لئے كوئي پريشانى پيدا كرے_

۴_ يہ عہد نامہ اس وقت تك معتبر ہے جب تك حضرت علىعليه‌السلام يہاں تشريف لے آئيں اس

۱۲۶

كے بعد لوگوں كو صلح يا جنگ كا اختيار ہوگا_

جب عہدنامے پر دستخط ہوگئے اور طرفين كے درميان صلح ہوگئي تو عثمان بن حنيف نے اپنے طرفداروں كو حكم ديا كہ وہ اپنا اسلحہ ايك طرف ركھ ديں اور اپنے گھروں كو واپس جائيں _( ۲۳)

دھوكہ وعہد شكني

لشكروں كے سرداروں نے بصرہ ميں قدم جمانے كے بعد يہاں كے قبائل كے سربرآوردہ اشخاص سے ملاقاتيں كرنا شروع كيں اور سبز باغ دكھا كر انہيں بہت سى چيزوں كا لالچ ديا جس كے باعث بہت سے دنيا اور جاہ طلب لوگوں نے ان كى دعوت كو قبول كرليا _

طلحہ اور زبير نے جب اپنا كام مستحكم كرليا تو وہ اپنے عہد كى پاسدارى سے رو گرداں ہوگئے_ چنانچہ صوبہ دار كے گھر پر شبخون ماركر عثمان بن حنيف كو گرفتار كرليا اور انہےں سخت ايذا پہنچائي ، پہلے تو انہيں سخت زدو كوب كيا اور پھر سر، داڑھى اور دونوں ابروں كے بال نوچے اس كے بعد بيت المال پر حملہ كيا وہاں كے چاليس پاسبانوں كو قتل كركے باقى كو منتشر كرديا اور خزانے ميں جو كچھ مال ومتاع موجود تھا اسے لوٹ ليا_

اس طرح شہر پر جارحين سپاہ كا قبضہ ہوگيا اور جو اہم و حساس مراكز تھے وہ ان كے تحت تصرف گئے _ جارحين نے مزيد رعب جمانے كے لئے ان لوگوں ميں سے پچاس افراد كو جنہيں انہوں نے گرفتار كيا تھا عوام كے سامنے انتہائي بے رحمى كے ساتھ وحشيانہ طور پر قتل كرديا_(۲۴)

عائشہ نے حكم ديا كہ عثمان بن حنيف كا بھى خاتمہ كردياجائے مگر ايك نيك دل خاتوں مانع ہوئيں اور انہوں نے كہا كہ عثمان بن حنيف اصحاب پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں سے ہيں _ رسول خدا كے احترام كا پاس كيجئے اس پر عائشہ نے حكم ديا كہ انہيں قيد كرليا جائے_(۲۵)

جمل اصغر

حكيم بن جبلہ كا شمار بصرہ كے سر برآوردہ اشخاص ميں ہوتا تھا انہيں جس وقت عثمان بن حنيف

۱۲۷

كى گرفتارى كے واقعے كا علم ہوا تو انہوں نے اپنے طائفہ ''عبدالقيس '' كے جنگجو جوانوں كو مسجد ميں بلايا اور پر ہيجان تقرير كے بعد تين آور بعض اقوال كے مطابق سات سو افراد كو لے كر حملہ كا اعلان كرديا اور جارحين سپاہ كے مقابل آگئے_

اس جنگ ميں جسے جنگ جمل اصغر سے تعبير كيا گيا ہے حكيم بن جبلہ اور انكے ساتھيوں نے سخت پائمردى سے دشمن كا مقابلہ كيا يہاں تك جس وقت بازار كارزار پورے طور پر گرم تھاجارحين لشكر كے ايك سپاہى نے حكيم بن جبلہ پر حملہ كركے ان كا ايك پير قطع كرديا انہوں نے اسى حالت ميں اس سپاہى پر وار كيا اور اسے مار گرايا وہ اسى طرح ايك پير سے دشمن سے نبرد آزما ہوتے رہے حملہ كرتے وقت يہ رزميہ اشعار ان كى زبان پر جارى تھے_

يا ساق لن تراعى

ان معى ذراعى

احمى بها كر اعي

اے پير تو غم مت كر كيونكہ ابھى ميرے ہاتھ ميرے ساتھ ہيں اور ان سے ہى ميں اپنا دفاع كروں گا_

وہ اسى حالت ميں مسلسل جنگ كرتے رہے يہاں تك كہ نقاہت وكمزورى ان پر غالب آگئي اور شہيد ہوگئے _ ان كے فرزند ، بھائي اور دوسرے ساتھى بھى اس جنگ ميں قتل ہوگئے_(۲۶)

حكيم بن جبلہ پر غلبہ پانے كے بعد جارحين لشكر كے سرداروں نے دوبارہ فيصلہ كيا كہ عثمان بن حنيف كو قتل كردياجائے مگر انہوں نے كہا كہ تمہيں معلوم ہے كہ ميرا بھائي ''سہل'' مدينہ كا صوبہ دار ہے اگر تم مجھے قتل كرو گے تو وہ تمہارے عزيز واقارب كو مدينہ ميں نيست ونابود كردے گا چنانچہ اس بنا پروہ ان كے قتل سے باز رہے اور انہيں آزاد كرديا_(۲۷)

سردارى پر اختلاف

''ناكثين'' كے لشكر سرداران كو جب ابتدائي جنگوں ميں فتح و كامرانى حاصل ہوئي اور انہوں نے شہر پر بھى قبضہ كرليا تو ان ميں يہ اختلاف پيدا ہوا كہ سربراہ كسے مقرر كياجائے ان ميں سے ہر

۱۲۸

شخص كى يہى كوشش تھى كہ فتح كے بعد اولين نماز جو مسجد ميں ادا كى جائے اس ميں وہى امام جماعت كے فرائض انجام دے يہ باہمى كشمكش اس قدر طولانى ہوئي كہ نزديك تھا كہ آفتاب طلوع ہوجائے چنانچہ لوگوں نے بلند آواز سے كہنا شروع كيا اے صحابہ پيغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''الصلوة الصلوة ''ليكن طلحہ و زبير نے اس كى جانب توجہ نہ كى ، عائشہ نے مداخلت كى اور حكم ديا كہ ايك روز طلحہ كے فرزند محمدا ور دوسرے روز زبير كے بيٹے عبداللہ امامت كريں گے _(۲۸)

خبر رساني

طلحہ اور زبير نے جب بصرہ پر قبضہ كرليا تو وہ كارنامے جو انہوں نے انجام ديئے تھے انكى خبر شام كے لوگوں كو بھيجى گئي _ عائشہ نے بھى ان خبروں كى تفاصيل اہل كوفہ كو لكھى اور ان سے كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بيعت سے دستكش ہوجائيں اور عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے ئے اٹھ كھڑے ہوں _ يمامہ اور مدينہ كے لوگوں كو بھى خط لكھے گئے اور انہيں فتح بصرہ كى اطلاع كے ساتھ يورش و شورش كا مشورہ ديا گيا _(۲۹)

۱۲۹

سوالات

۱_ جس وقت اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو وہ كون سے گروہ تھے جو آپ كى مخالفت پر اتر آئے؟

۲_ وہ كون سے عوامل تھے جن كے باعث طلحہ اور زبير نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے كے بعد عہد شكنى كى اور مخالفين كى صف ميں شامل ہوگئے_

۳_ ناكثين كى تحريك كا اصل مركز كہاں واقع تھا اور اس كى كس طرح تشكيل ہوئي ؟

۴_ عثمان كے قتل سے قبل عائشہ كا كيا موقف تھاا ور انہوں نے اسے كيوں اختيار كيا تھا ؟

۵_ جب عثمان قتل ہوئے اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام بر سر اقتدار آگئے تو عائشہ نے اپنا موقف كيوں تبديل كرديا تھا؟

۶_ جب عثمان بن حنيف كو يہ علم ہوا كہ ''ناكثين'' كا لشكر بصرہ كے نزديك پہنچ گيا ہے تو انہوں نے كيا اقدام كيا ؟

۷_ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے بصرہ پہنچنے سے قبل وہاں كيا كيفيت طارى تھى اس كا مختصر حال بيان كيجئے ؟

۱۳۰

حوالہ جات

۱_ نہج البلاغہ خطبہ سوم ملاحظہ ہو جس ميں آپعليه‌السلام فرماتے ہيں :''فلما نهضت بالامر نكثت طائفة ومرقت اخرى وقسط آخرون ''_ حضرت علىعليه‌السلام سے قبل پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى دشمنان اسلام كے بارے ميں پيشين گوئي كردى تھى _ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطاب كرتے ہوئے ان كے يہ نام بيان كئے تھے : ''يا على ستقاتل بعدى الناكثون والقاسطين والمارقين'' (شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۰۱)

۲_ ''طلقاء '' وہ لوگ تھے جو فتح مكہ كے دوران مسلمانوں كے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب كو آزاد كرديا تھا اور فرمايا تھا كہ''اذهبوا انتم الطلقائ''

۳_ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۰ _۱۷۹ _''انتما شريكاى فى القوة والاستقامة عوناى اى على العجز الا ود ''

۴_ شرح ابن ابى الحديد ج ۷/ ۴۲ _ ۴۰

۵_مالنا من هذالامر الاكحسة انف الكلب (تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۲۹)

۶_والله ما اراد العمرة ولكنهما اراد الغدرة (تاريخ يعقوبى ج ۲/۱۸۰)

۷_ عثمان كے خلاف عائشہ كے اقوال واقدامات كے لئے ملاحظہ ہو (الغدير ج ۹/۸۶ _۷۷)

۸_اَبعده الله بما قدمت يداه وما الله بظلام للعبيد'' _ الغدير ج ۹/ ۸۳

۹_ الغدير ج ۹/ ۸۲ ابومخنف ' لوط بن ےحيى الازدى سے منقول

۱۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۶ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ الغدير ج ۹ / ۸۲ / ۸۰ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۱۷_

۱۱_ عبيد نے عائشہ كے جواب ميں يہ اشعار پڑھے:

فمنك البدء ومنك الضير

ومنك الرياح ومنك المطر

و انت امرت بقتل الامام

و قلت لنا انه قد كفر

فهبنا اطعناك فى قتله

و قاتله عندنا من امر

الامامة والسياسة ج ۱/ ۵۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۹_۴۵۸ يعنى ان اختلاف كا سرچشمہ اور تغيرات كا باعث تم ہى تو ہو تمہارى وجہ سے سخت طوفان اور فتنے بپا ہوئے تم نے ہى عثمان كے قتل كا حكم ديا اور كہا كہ وہ كافر ہوگيا

۱۳۱

ہے اب بالفرض ہم نے تمہارى اطاعت كى خاطر اس قتل ميں حصہ ليا اصل قاتل وہ ہے جس نے اس قتل كا حكم ديا _

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۸ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۰۷ _ انساب الاشراف بلاذرى ج ۲/ ۲۱۸

۱۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۲

۱۴_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۵۱ _ ابن اثير ج ۳/ ۲۰۸ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱ ليكن طبرى كى تاريخ ج ۴/ ۴۵۰ و ۴۵۱ پر يعلى بن اميہ كے اونٹوں كى تعداد چھ ہزار چھ سو لكھى ہے _

كامل ابن اثير ۳/ ۲۰۸ تاريخ يعقوبى ۲/۱۸۱

۱۵_ تاريخ طبرى ۴/ ۴۵۲ _۴۵۱

۱۶_ اس حديث كے متن كو مختلف مورخےن نے بيان كيا ہے _ يعقوبى نے ج ۲/۱۸۱ پر نقل كيا ہے :''لا تكونى التى تنجحك كلاب الحواب'' (عائشہ تم ان ميں سے نہ ہونا جن پر حواب كے كتے بھونكيں ) ليكن ابن اثير تاريخ ج ۲/۲۱۰)كامل اور بلاذرى نے انساب الاشراف (ج ۲ / ۲۲۴)ميں اس طرح درج كيا ہے ''ليت شعرى ايتكن تبنہا كلاب الحواب '' اور ابن ابى الحديد نے ج ۱۰/ ۳۱۰ پر يہى حديث دوسرے الفاظ كے ساتھ پيش كى ہے_

۱۷_ مروج الذہب ج ۳/ ۳۵۷ _ انساب الاشراف ج ۲/ ۲۲۴ الامامة والسياسات ج ۱/۶۰ ليكن يعقوبى نے (ج ۲ /۱۸۱)شہادت دينے والوں كى تعداد چاليس لكھى ہے_

۱۸_ تاريخ طبرى ج ۴ ص ۴۶۱ كامل ابن ايثرج ۳/ ۲۱۱_

۱۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲ ، ۴۶۱ _ كامل ابن اثير ج ۳/۲۱۱ _الامامة والسياسة ج ۱/۶۱ يہ گفتگو اگرچہ بہت مفصل ہے مگر يہاں اس كا خلاصہ ديا گيا ہے_

۲۰ _ مربد شہر كے كنارہ پر ايك ميدان تھا جہاں منڈى لگتى تھي_

۲۱_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۲

۲۲_ الامامة والسياسةج ۱ / ۶۱_ ۶۰

۲۳_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۶۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۳ _ ۲۱۲

۱۳۲

۲۴_ الجمل للمفيد / ۱۵۱_ ۱۵۰ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۴۶ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۴ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹ /۳۲۰ الامامة والسياسة ۱/۶۵

۲۵_ مروج الذہب ج ۲ / ۳۵۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۲۱

۲۶_ تاريخ طبرى ج ۴ / ۲۶۸ كامل ابن اثير ۲۱۶ _ ۲۱۵

۲۷ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۶ _۲۱۷ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۱ _ ۴۷۰ الجمل للمفيد / ۲۵۲ _ ۱۵۱

۲۸_ الجمل للمفيد ۱۵۳ _ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۴ _ يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ عثمان حنيف كے اس قول كے علامہ مفيد نے بصرہ كى ايك خاتون سے نقل كيا ہے_

۲۹_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۸ _ الجمل للمفيد / ۱۵۲ _ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۱

۳۰_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۲۰ _۲۱۹ _ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۲_ عائشہ نے جو خط مدينہ اور يمامہ كے لوگوں كو لكھا تھا اس كا متن علامہ مفيد نے اپنى تاليف ''الجمل'' كے صفحہ ۱۶۰ پر درج كيا ہے_

۱۳۳

ساتواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۳

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

ربذہ ميں قيام

لشكر كا جاہ وجلال

صلح كى كوشش

لشكر كے لئے دستورالعمل

دشمن كو متفرق كرنے كى آخرى كوشش

فيصلہ كن جنگ

عام معافي

سوالات

حوالہ جات

۱۳۴

حضرت علىعليه‌السلام كى بصرہ كى جانب روانگي

اميرالمومنينعليه‌السلام كى حكومت كے مخالفوں كا وجود ميں آنا ان كے درميان اتحاد و الفت اور ان كے لشكر كا بصرہ كى جانب روانہ ہونا اور پھر اس پر قابض ہوجانے كوہم بيان كرچكے ہيں اب مدينہ چلتے ہيں تاكہ وہاں سے اميرالمومنينعليه‌السلام كے ساتھ بصرہ كى طرف روانہ ہوجائيں _

معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف سركارى سطح پر سركشى كى تھى اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرنے سے قطى انكار كرديا تھا اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام بھى ان سے نبرد آزما ہونے كے لئے ابتدائي تيارى ميں مشغول تھے ، اس ضمن ميں انہوں نے حضرت بن حنيف، قيس بعد سعد اور ابو موسى جيسے اپنے كارپردازوں كو خطوط كے ذريعہ مطلع كيا كہ معاويہ كے خلاف جنگ كرنے كى غرض سے لوگوں كو آمادہ كريں _

اس اثناء ميں حضرت علىعليه‌السلام كو عائشہ ، طلحہ اور زبير كى سركشى نيز ان كے لشكر كى عراق كى جانب روانگى كى اطلاع ملى _ حضرت علىعليه‌السلام جانتے تھے كہ موجودہ حالات ميں ان تينوں حضرات كى يورش معاويہ كى سركشى سے كہيں زيادہ سنگين ہے كيونكہ معاويہ اسلامى حكومت كے دو دراز علاقے ميں سرگرم عمل تھا ليكن يہ لوگ مركز خلافت ميں بھى يكجا جمع اور اس كے گرد و نواح ميں شورش كيئے ہوئے تھے اس كے علاوہ بصرہ اور كوفہ سياسى اور عسكرى اعتبار سے خاص اہميت كے حامل ہيں چنانچہ اس بناء پر اس سے پہلے كہ يورش وبغاوت كے شعلے ديگر مقامات تك پہنچيں آپعليه‌السلام نے

۱۳۵

مصلحت امر اس ميں سمجھى كہ انكے آتش فتنہ كو خاموش كرنے كے لئے خود ہى پيشقدمى كريں اگر چہ كچھ لوگوں نے يہ تجويز بھى پيش كى آپ طلحہ اور زبير كے تعاقب كو نظر انداز كرديں مگر آپ نے اس تجويز كو قبول كرنے سے قطعى انكار كرديا اور فرمايا كہ خدا كى قسم ميں بجو نہيں ہوں جس كو پكڑنے كے لئے لوگ اس كے بھٹ پر دھيمے سروں ميں گاتے بجاتے ہيں اور اچانك اس كو پكڑ ليتے ہيں _ اپنے مخالفين سے پورى طرح باخبر ہوں ميں حق پسند وں كى شمشير براں سے ان لوگوں كا كام تمام كردوں گا جنہوں نے حق كے نام پر سر كشى ويورش كا سہارا ليا ہے ميں اپنے مطيع و فرمانبردار ہمكاروں كى مدد سے ان تمام سركشوں كو جو راہ حق ميں رخنہ اندازى پر تلے ہوئے ہيں ، ہميشہ كے لئے راستے سے ہٹادوں گا اور اپنے اس عمل كو تا دم واپسين جارى ركھوں گا_

حضرت علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كو مسجد ميں جمع ہونے كا حكم ديا جب لوگ جمع ہوگئے تو آپعليه‌السلام نے عام لوگوں پر يہ واضح كرنے كے لئے مخالفين كے اغراض و مقاصد كيا ہے اس موضوع سے متعلق درج ذيل تقرير فرمائي_

''لوگوں عائشہ بصرہ كى جانب چلى گئي ہيں _ طلحہ و زبير ان كے ہمراہ ہيں ان دونوں كا يہ خيال ہے كہ خلافت پر صرف انھى كا حق ہے كسى اور كا نہيں _ طلحہ ، عائشہ كا چچا زاد بھائي ہے اور زبير ان كے داماد ہيں (اور عائشہ كى سعى و كوشش انہى كے لئے ہے)خدا كى قسم اگر يہ دونوں اپنے مقاصد ميں بالفرض كامياب ہوبھى گئے تو پھر ان دونوں ميں وہ سخت تنازع ہوگا كہ ان ميں ايك دوسرے كى گردن ماردے گا _ خدا شاہد ہے كہ جو شخص سرخ اونٹ پر سوار ہوكر روانہ ہوتا ہے وہ زيادہ دور تك راستے طے نہيں كرتا اور اس سے كوئي عقدہ وا بھى نہيں ہوتا مگر يہ كہ وہ گناہ كے راستے پر چلے اور خدا كا غضب اس پر نازل ہوتا كہ وہ اور اس كے ساتھى ہلاكت كو پہنچيں _

خدا كى قسم انجام كار يہ ہوگا كہ ان ميں سے ايك تہائي افراد مارے جائيں گے ، ايك تہائي فرار كرجائيں گے اور ايك تہائي توبہ كرليں گے_

عائشہ وہى خاتون ہيں ''جسٌ پَر حَوْا َبْ ''كے كتے غرارہے ہيں ، طلحہ اور زبير بھى جانتے

۱۳۶

ہيں كہ وہ ٹھيك راستے پر نہيں چل رہے ہيں _ افسوس اس عالم كے حال پر جو اپنے جہل كے باعث ماراگيا اور وہ اپنے علم سے بہرہ مند نہ ہوسكا_

مجھے قريش سے كيا سرو كار خدا گواہ ہے جب وہ حالت كفر ميں تھے ميں نے انہيں قتل كيا اس وقت بھى وہ ہوا وہوس اور شيطانى وسواس كے دام فريب ميں ہيں (اسى لئے شورش بپا كئے ہوئے ہيں )يہ سب ميرے ہاتھوں مارے جائيں گے _(۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے افكار عامہ كو بيدار كرنے كى غرض سے دوسرے اور تيسرے روز پر ہيجان تقارير كيں اور بالآخر آپعليه‌السلام نے اعلان جنگ كرديا _ سہل بن حنيف كو مدينے ميں اپنا جانشين مقرر كيا(۲) اور خود مسلح و مجہز لشكر كے ساتھ جو سات سو سے زيادہ افراد پر مشتمل تھا مدينہ سے عراق كى جانب روانہ ہوئے_

''ناكثين'' پر قابو پانے كے لئے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا لشكر پہلے مكہ كى جانب روانہ ہوا ليكن جب آپ ''ربذہ(۳) '' نامى مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا كہ مخالفين وہاں سے كوچ كرچكے ہيں _ چنانچہ وہاں سے آپعليه‌السلام نے عراق كى جانب رخ كيا _

ربذہ ميں قيام

حضرت علىعليه‌السلام نے ربذہ ميں چند روز قيام فرمايا اس عرصے ميں مدينہ سے كچھ انصار جن ميں خزيمہ بن ثابت اور تقريباً چھ سو طائفہ طى كے منظم سوار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر سے متصل ہوگئے _(۴)

عثمان بن حنيف بھى دشمنوں كے چنگل سے نجات پانے كے بعد ربذہ ميں حضرت علىعليه‌السلام سے آن ملے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے ملاقات كرنے كے بعد كہا يا اميرالمومنينعليه‌السلام جس روز آپ نے مجھے روانہ كيا تھا اس وقت ميرى داڑھى بہت گھنى تھى ليكن آج ميں آپ كى خدمت ميں ايك بے ريش نوجوان كى صورت ميں حاضر ہوا ہو حضرت علىعليه‌السلام نے انہيں صبر كى تلقين كى اور ان كے لئے

۱۳۷

دعا فرمائي _ (۵)

اسى طرح اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم مرتال كو خط دے كر حاكم كوفہ كى جانب روانہ كيا تاكہ اس سے پہلے كہ طلحہ اور زبير وہاں پہنچيں وہاں كے گورنر كى عسكرى مدد حاصل كرلى جائے _ ليكن موسى اشعرى حاكم كوفہ نے صرف حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے سے سيدھے منہ بات نہ كى بلكہ حضرت علىعليه‌السلام كے خط كو بھى انہوں نے غايب كرديا اورہاشم مرتال كو يہ دھمكى دى كہ وہ انہيں قيدى بناليں گے انہوں نے كوفہ كے لوگوں كو بھى سختى سے منع كرديا اور كہا كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مدد نہ كريں _ گورنر كى حيثيت سے اعلان كيا كہ اگر جنگ كى نوبت آئي تو پہلے وہ عثمان كے قاتلوں كے خلاف جنگ كريں گے اور اس كے بعد وہ دوسروں كى طرف متوجہ ہوں گے _(۶) حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے نے ان تمام واقعات كى اميرالمومنينعليه‌السلام كو خبر كى _

يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كو ''ذى قار'' نامى مقام پر موصول ہوا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے فرزند عزيز حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمار ياسر كو اپنے پاس بلايا اور ان دونوں حضرات كو اس كام پر مقرر كيا كہ اہل كوفہ كے لئے وہ خط لے كر روانہ ہوں اور وہاں پہنچ كر وہاں كے لوگوں كو مدد كيلئے آمادہ كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے خط ابوموسى كو بھى لكھا اور انہيں ان كے منصب سے معزول كرديا _ اميرالمومنينعليه‌السلام نے اس خط ميں لكھا تھا كہ انہوں نے اپنے موقف كا صحيح استعمال نہيں كيا اور اسى بنا پر انہيں سخت تنبيہہ بھى كى اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام نے مالك اشتر كو ان كے پيچھے روانہ كيا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام نے كوفہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا خط وہاں كے لوگوں كو سنايا اور اس سلسلے ميں تقارير بھى كيں _ حضرت علىعليه‌السلام كى تحرير اور حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت عمارعليه‌السلام كى تقرير كا اثر يہ ہوا كہ اہل كوفہ ان كے گرويدہ ہوگئے اور انہوں نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خلوص نيت اور اظہار محبت كيا اور ان كے فرمان كے آگے سر تسليم خم كرديا_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے ابوموسى كى معزولى كا بھى اعلان كيا اور ان كى جگہ قرظة بن كعب'' كو گورنر

۱۳۸

مقرر كيا _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے نمايندے كى سعى و كوشش اور بصيرت افروز تقارير كے باعث كچھ لوگوں نے اپنى رضامندى كا اعلان كرديا چنانچہ چند روز بعد تقريباً سات ہزار افراد ''ذى قار'' ميں حضرت علىعليه‌السلام سے جاملے _ حضرت امام حسنعليه‌السلام كى كاميابى پر حضرت علىعليه‌السلام بہت مسرور ہوئے اور انہوں نے اپنے فرزند دلبند سے اظہار تشكر كيا_(۷)

لشكر كا جاہ وجلال

اميرالمومنينعليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام كا وہ مسلح وعظےم لشكر جو مدينہ اور كوفہ ميں جمع ہوا تھا اور بصرہ كے نواح ميں قيام پذير تھا اس لشكر كے بارے ميں منذر بن جارود نے لكھا ہے كہ ميں شہر بصرہ سے باہر نكل كر آيا تاكہ حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كا نظارہ كرسكوں _

اس وقت وہاں ہزار مسلح سوار موجود تھے اور ابو ايوب انصارى تنو مند گھوڑے پر سوا ران كے پيش پيش چل رہے تھے_ ان كے علاوہ بھى وہاں دوسرے عسكرى دستے تھے جن ميں ہر دستہ ہزار مسلح افراد پر مشتمل تھا اور دستوں كى كمانڈرى خزيمہ بن ثابت ، ابو قتادہ عمار ياسر، قيس بن سعد اور عبداللہ بن عباس جيسے جليل القدر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كرتے تھے اور يہ تمام دستے ابو ايوب كى فوج كے پيچھے چل رہے تھے_

انہى جنگجو دستوں ميں ايك دستہ حضرت علىعليه‌السلام كى زير قيادت ديگر تمام دستوں سے آگے چل رہا تھا _ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے دائيں بائيں حضرت امام حسنعليه‌السلام اور حضرت امام حسينعليه‌السلام چل رہے تھے اور ان كے آگے حضرت علىعليه‌السلام تا ديگر فرزند محمد بن حنفيہ پرچم ہاتھ ميں لئے چل رہے تھے_ عبداللہ ابن جعفر ،حضرت علىعليه‌السلام كے پيچھے تھے ان كے علاوہ عقيل كے فرزند اور بنى ہاشم كے نوجوانوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو انگشترى كے نگينہ كى طرح اپنے درميان لے ركھا تھا _ كچھ معمر بدرى بزرگ (مہاجر و انصار)بھى ان ہى دستوں ميں نظر آرہے تھے_(۸)

۱۳۹

بصرہ پہنچنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے ''زاويہ'' نامى جگہ پر قيام فرمايا اور يہاں چار ركعت نماز ادا كى نماز سے فارغ ہونے كے بعد آپ نے دوبارہ سجدہ كيا اور اس قدر گريہ و زارى كى كہ آنكھوں سے آنسو جارى ہوگئے پھر دعا كے لئے ہاتھ آسمان كى طرف اٹھائے اور عرض كى خداوند تعالى اس جماعت نے ميرے حكم كى نافرمانى كركے مجھ پر ظلم كيا ہے يہ لوگ بيعت سے منحرف ہوگئے ہيں _ اے خدا اب تو ہى مسلمانوں كى حفاظت فرما _(۹)

صلح كى كوشش

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كا مقصد جنگ كرنا نہ تھا بلكہ آپ چاہتے تھے كہ ''ناكثين'' نے جو فتنہ كى آگ بھڑكائي ہے اسے خاموش كرديں اس مقصد كى برآورى كيلئے اور كشت وخون كو روكنے كى خاطر ، حضرت علىعليه‌السلام نے ہر ممكن كوشش كى اور جو بھى ممكن طريقہ ہوسكتا تھا آپعليه‌السلام اسے بروئے كار لائے اميرالمومنينعليه‌السلام نے جو صلح طلبانہ اقدامات كئے ان كے چند نمونے يہاں پيش كئے جاتے ہيں :

۱_ بصرہ پہنچنے سے قبل آپعليه‌السلام نے صعصعہ بن صوحان اور عبداللہ بن عباس كو جداگانہ طور پر خط دے كر عائشہ ، طلحہ اور زبير كے پاس بھيجا كہ شايد ان كو مذاكرہ اور پند ونصيحت كے ذريعے جنگ كرنے سے باز ركھاجاسكے _ ليكن ان لوگوں نے حصرت علىعليه‌السلام كے نمايندگان اور آپعليه‌السلام كے پند ونصايح كے آگے سر تسليم خم نہ كيا اور جنگ كے علاوہ كوئي دوسرا راستہ اختيار كرنے سے انكار كرديا_(۱۰)

۲_ حضرت علىعليه‌السلام نے جنگ كے دن فيصلہ كيا كہ كلام اللہ كو درميان لاكر اسے حكم قرار ديں _ چنانچہ آپعليه‌السلام نے حضرت مسلم نامى شخص كو قرآن پاك ديا اور فرمايا كہ ان لوگوں سے كہو كہ ہمارے اور تمہارے درميان قرآن ہى حاكم ومنصف ہے ، خدا سے ڈرو اور مسلمانوں كا خون بہانے سے گريز كرو _

اس جوان نے حضرت علىعليه‌السلام كے حكم پر عمل كيا ليكن انہوں نے مسلم كا وہ ہاتھ قلم كرديا جس ميں

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

خبر جاء و لا وحی تزل

لست من خندف ان لم انتقم

من نبی احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ما کان فعل(۱)

کاش بدر میں مارے جانے والے میرے بزرگ آج زندہ ہوتے اور تلوار کی زد میں آنے والے خزرجیوں (انصاریوں )کی گھبرا ہٹ اور چیخ و پکار کا نظارہ کرتے تو فرط مسرت سے ان کے چہرے دمک اٹھتے اور وہ ہلّڑ بازی کرنے لگتے پھر مجھے مبارک باد دیتے ہوئے کہتے کہ یزید تمہارا بہت بہت شکریہ_ ہم نے ان لوگوں کے بڑے بڑوں کو آج قتل کرکے بدر کا بدلہ چکا دیا ہے _اب ہمارا حساب برابر ہوگیا ہے _بنی ہاشم نے حکومت کا کھیل کھیلاتھا و گرنہ نہ نبوت کی کوئی خبر آئی ہے اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی ہے_ اگر میں نے ( نعوذ باللہ ، حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھرانے سے ان کے کئے کا بدلہ نہ لیا تو میں خندف کا بیٹا ہی نہیں ہوں _

اسی طرح بدر کے متعلق خالد قسری کے ساتھ قتادہ کی گفتگو بھی ملاحظہ ہو(۲) حالانکہ قتادہ ایک مشہور و معروف شخصیت اور اہل بصرہ کا بزرگ محدث تھا_

شہدائے انصار

اگر چہ جنگ بدر میں مسلمانوں مہاجرین کی تعداد لشکر اسلام کا چو تھا یا پا نچواں حصہ تھی ، لیکن ان کے شہید مختلف اقوال کی بنا پر شہدائے انصار کے تیسرے بلکہ نصف حصہ سے بھی زیادہ تھے _ حالانکہ اگر تعداد اور کمیت کو مد نظر رکھا جائے تو اس تناسب کو اس سے کم بلکہ بالکل ہی کم ہونا چاہئے تھا _ یعنی مہاجرین کی تعداد کل کا چوتھا یا پانچواں حصہ تھی_جبکہ شہدائے مہاجرین کی تعداد کل شہیدوں کا تیسرا بلکہ آدھا حصہ تھی_بطور مثال

____________________

۱)مقتل امام حسینعليه‌السلام مقرم ص ۴۴۹و ص ۴۵۰و اللہوف ص ۷۵و ۷۶_

۲)بحار الانوار ج ۱۹ص ۲۹۸و ص ۳۰۰و روضہ کافی ص ۱۱۱تا ص ۱۱۳_

۳۰۱

اگر کل تعداد ۱۰۰فرض کرلیں تو مہاجرین کی تعداد بیس۲۰سے پچیس ۲۵ تک ہو گی _جبکہ ہر تین بلکہ دو انصاری کے شہید ہونے کے ساتھ ایک مہاجر بھی شہید ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بیس انصاری کے ساتھ ساتھ سات سے دس تک مہاجر بھی شہید ہوئے حالانکہ اس حساب سے ہر بیس انصاری کے مقابلے میں صرف چارسے پانچ مہاجرین کو جام شہادت نوش کرنا چاہئے تھا جبکہ لشکر اسلام ۳۱۳ مجاہدین پر مشتمل تھا، ان میںمہاجرین کی تعداد ۷۸ سے ۶۳ افراد بلکہ اس سے بھی کم تھی _ اور شہدائے اسلام کی کل تعداد زیادہ سے زیادہ چودہ بتائی گئی ہے _ جن میں کم از کم چھ مہاجر اور آٹھ انصاری تھے_ حالانکہ اپنی تعداد کے تناسب سے ان کے شہیدوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ تین سے چارتک ہونی چاہئے تھی بلکہ اگر انصار اور مہاجرین کے حالات کا موازنہ کیا جائے تو اس تعداد کو اس سے بھی کم ہونا چاہئے تھا_اس سے اس جنگ میں مہاجرین کے بھر پور کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مترجم_

آیت تخفیف کے متعلق علامہ طباطبائی کا نظریہ :

یہاں علامہ طبا طبا ئی کی ایک بات ہماری گفتگو سے متعلق بھی ہے اس لئے اس کے خلاصے کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے _وہ کہتے ہیں کہ:

ارشاد ربّانی ہے:

( یا ایها النبی حرض المؤمنین علی القتال ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مئتین و ا ن یکن منکم مئة یغلبوا الفاً من الذین کفروا بانهم قوم لا یفقهون _الآن خفف الله عنکم و علم ان فیکم ضعفاًفان یکن منکم مئة صابرة یغلبوا مئتین و ان یکن منکم الفاً یغلبوا الفین باذن الله و الله مع الصابرین _ ما کان لنبی

۳۰۲

ان یکون له اسری حتی یثخن فی الا رض تریدون عرض الدنیا و الله یرید الا خرة و الله عزیز حکیم )

'' اے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مؤمنوں کو جنگ کے لئے تیار کرو کہ تمہارے بیس بہادر افراد ان کے دوسو جنگجوؤں پر غلبہ پالیں گے ،اسی طرح تمہارے سو آدمی ان کے ایک ہزار جنگجوؤںپر بھی کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ نا سمجھ لوگ ہیں لیکن اب خدا نے یہ جان کر کہ تم کمزور ہو گئے ہو تمہیں چھوٹ دے دی ہے _ پس اب تمہارے سو بہادر جنگجوان کے دوسو آدمیوں پر غلبہ پالیں گے اور خدا کے حکم سے تمہارے ایک ہزار آدمی ان کے دو ہزار سپاہیوں پر غالب آجائیں گے _ اور خدا پائیداری دکھانے والے بہادروں کے ساتھ ہے _اور مشرکوں کا اچھی طرح قلع و قمع کئے بغیر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہاتھ روک لینا مناسب نہیں ہے _ تم لوگ تو دنیا داری اور اس کے حصول کے لئے جنگ لڑنا چا ہتے ہو لیکن خدا تمہاری اخروی بھلائی چاہتا ہے اور خدا با عزت اور دانا ہے،،(۱)

پس خدانے یہاں بیس آدمیوں کے دو سو سپاہیوں پر غلبہ کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ دو سو نا سمجھ ہیں لیکن یہ بیس آدمی سمجھ دار اور چالاک ہیں _ اور یہ اس لئے ہے کہ اس وقت مومنین خدا پر ایمان کے بل بوتے پر جنگ لڑتے تھے اور یہ ایمان ایسی بھر پور طاقت ہے جس کا مقابلہ کوئی بھی طاقت نہیں کر سکتی ، اس لئے کہ وہ اس صحیح سو چ اور عقیدے پر مبنی ہے جو شجاعت ، جرات ، ذکاوت ، استقامت ، وقار ، اطمینان اور خدا پر بھروسہ جیسے صفات حسنہ کے زیور سے انہیں آراستہ کرتا ہے _ نیز ان میں یہ یقین بھی پیدا کرتا ہے کہ وہ یقینا دومیں سے کوئی ایک اچھائی حاصل کر ہی لیں گے یعنی یا تو وہ کامیاب ہو جائیں گے یا پھر رتبہ شہادت پر فائز ہو جائیں گے _ اور یہ کہ موت کا مطلب فنا نہیں ہے جس طرح کافروں کی غلط سوچ ہے بلکہ موت تو سعادت اور دار بقاء (جنت) کی طرف منتقلی کا نام ہے_پس کفار ،شیطان کی گمراہیوں اور نفسانی خواہشات کے بھروسے پر آئے تھے اور بہت کم ہی ایسا ہو تا ہے کہ نفسانی خواہشات موت تک بھی ثابت رہیں_ اور نہ بدلیں ، کیونکہ جب

____________________

۱)انفال /۶۵تا ۶۷_

۳۰۳

سب کچھ جان بچانے اور آسودہ رہنے کے لئے ہی ہے تو پھر جان کا نذرانہ کس لئے دیں؟

پس علم اور ایمان کے ساتھ ساتھ مومنوں کی سمجھ داری جنگ بدر میں ان کی کامیابی کی وجہ بنی جبکہ کافروں کے کفر اور نفسانی خواہشات کے علاوہ ان کی بے وقوفی اور جہالت ان کی شکست کا باعث بنی _لیکن اس کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو ان کی روحانی اور معنوی طاقت آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی اور وہ کمزور ہوتے گئے کیونکہ گذشتہ پہلی آیت یعنی( ذلک بانهم قوم لا یفقهون ) میں مذکور ان کی سمجھ داری اور دوسری آیت یعنی( والله مع الصابرین ) میں مذکور ان کی پائیداری ، صبر اور دلیری کم ہوگئی _ اور اس کمزوری کی ایک عام وجہ یہ ہے کہ ہر گروہ ،قوم یا جماعت اپنی بقاء اور اہداف زندگی کے حصول کی جد و جہد کرتی ہے _ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اہداف دنیاوی ہیں یا دینی ہیں _ بہر حال یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ وہ لوگ چونکہ پہلے پہل اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کی راہ میں کچھ رکاوٹیں پاتے ہیں اور بنیاد ہلا دینے والے خطرات کو محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنے اہداف کے حصول ، رکاوٹوں کے خاتمے اور خطرات سے نبٹنے کے لئے سخت جد و جہد کرتے ہیں اور ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں _ نیز اس راہ میں اپنی جان کا نذرانہ تک دینے سے نہیں ہچکچا تے _ اورہنسی خوشی سب کچھ لٹا دیتے ہیں لیکن جب وہ اپنے اغراض و مقاصد کی راہ میں کچھ قربانی دے دیتے ہیں ، ان کے لئے راستہ تھوڑا سا ہموار ہوجاتا ہے اور فضا کچھ سازگار ہوجاتی_

نیز تعدا د بھی زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ اپنی قربانیوں کے نتائج سے بہرہ مند ہونا شروع کردیتے ہیں اور نعمتوں اور آسائشےوں میں رہنا شروع کردیتے ہیں _

جس کے نتیجے میں ان کا جوش و جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے _ اور یہ واضح سی بات ہے کہ کسی جماعت یا معاشرے کے افراد اگر کم ہیں تو بلا تردید وہ عام طور پر اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لحاظ سے یقین

۳۰۴

اپنی ذہنی اور فکری سطح ، صفات اور اخلاقیات کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں اور جیسے جیسے ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے ان میں ضعیف الاعتقاد ، منافق اور بیمار ذہن افراد کی تعد اد میں بھی اضافہ ہو تا رہتا ہے_ جس کے نتیجے میں اگر عام افراد کو بھی ساتھ مد نظر رکھیں تو مجموعی طور پر ان کی روحانی ، معنوی اور جذباتی طاقت کی سطح نیچے آ جاتی ہے _ اور تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ کسی گروہ کے افراد جتنا کم ہوں گے ، ان کے دشمن جتنا زیادہ طاقتور ہوں گے اور مختلف تکلیفوں ، مصیبتوں اور پریشانیوں نے انہیں جتنا زیادہ گھیرا ہو گا وہ اتنا ہی مصمم ، تیز ، چالاک ، بہادر ، جنگجو اور چست ہوں گے _ اور جوں جوں ان کی تعداد بڑھتی جائے گی ان کے جذبات اتنے ہی ٹھنڈے پڑتے جائیں گے ، ذہنی بیداری کم ہوتی جائے گی اور دماغ خراب ہو تا جائے گا(۱) _

ہماری مذکورہ باتوں کی بہترین دلیل آنحضرتعليه‌السلام کے غزوات ہیں_ قارئین جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد، تیاری ، حالات و واقعات اور نتائج کا احد، خندق ، خیبر اور حنین جیسی دیگر جنگوں میں مسلمانوں کی تعداد ، تیاری ، حالات و واقعات اور نتائج کا موازنہ اور تقابل کرکے دیکھ سکتے ہیں_ اور جنگ حنین کے نتائح تو اتنے ہولناک اور بھیانک تھے کہ خدا کو یہ فرمانا پڑا :

( و یوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلن تغن عنکم شیئاً وضاقت علکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین ) (توبہ۲۵)

''اور جنگ حنین میں جب تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں غرور میں مبتلا کردیا تو تمہیں کسی چیز نے فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ دکھا کر الٹے پاؤں بھاگے''

____________________

۱) اس ساری بات کو دسیوں برس پہلے علامہ اقبال نے دو لفظوں میں یوں بیان کیا ہے:

میں تم کو بتا تا ہوں تقدیر امم کیا ہے

شمشیر و سناں اول طاؤوس و رباب آخر

۳۰۵

ہماری ان باتوں سے اب مذکورہ آیتوں کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے_ نیز ان باتوں پر وہ مذکورہ تیسری آیت بھی دلالت کرتی ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ لوگ دنیاوی مفاد کی خاطر جنگ سے ہاتھ روکنا چاہتے تھے_ اور چونکہ پہلی دو مذکورہ آیتیں دو مختلف زمانوں میں روحانی اور جذباتی طاقت کی طبیعت اور کیفیت بیان کر رہی ہیں اس لئے دو آیتوں کے بیک وقت نزول میں کوئی مانع نہیں ہے_ کیونکہ دو زمانوں میں دو مختلف احکام کی موجودگی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک حکم کو بیان کرنے والی ایک آیت ایک زمانے میں جبکہ دوسرے حکم کو بیان کرنے والی آیت دوسری موقع پر نازل ہو ، کیونکہ یہ آیتیں ایک طبیعی حکم کو بیان کررہی ہیں کسی شرعی حکم کو نہیں _علامہ طباطبائی پھر فرماتے ہیں کہ پہلی آیت میں فقہ (سمجھداری) اور دوسری آیت میں صبر کی تعلیل بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صبر (پائیداری) ایک شخص کا پلڑا روحانی طاقت کے لحاظ سے اپنے جیسے دو آدمیوں پر بھاری کرتی ہے جبکہ فقہ ایک شخص کا پلڑا اس جیسے پانچ آدمیوں پر بھاری کردیتی ہے_ پس اگر یہ دونوں چیزیں کسی ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو اس کی روحانی طاقت کا پلڑا دس آدمیوں پر بھی بھاری ہو جاتاہے(۱) البتہ فقہ سے صبر جدا نہیں ہے گرچہ صبر سے فقہ جدا ہوسکتی ہے(۲) _

____________________

۱)بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ اگر یہ دو صفات کسی شخص میں جمع ہو جائیں تو اس شخص کو اپنے جیسے سات آدمیوں جتنا طاقتور بنا دیتی ہیں _ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے ، کہ فقہ سے پیدا ہونے والی پانچ گنا طاقت کو صبر آکر دوگنا کردیتا ہے اور یہی بات ہی دونوں آیتوں کے مفہو م کے زیادہ مناسب ہے _ کیونکہ فقہ سے صبر اور دوسری صفات حمیدہ بھی حاصل ہوجاتی ہیں پھر صبر آکر اس کی موجودہ طاقت کو دوگنا کردیتا ہے _

۲) ملاحظہ ہو: المیزان علامہ طباطبائی ج ۹ ص ۱۲۲ تا ص ۱۲۵_

۳۰۶

۳۱۹

تیسری فصل:

مال غنیمت اور جنگی قیدی

۳۰۷

مال غنیمت کی تقسیم :

اس جنگ میں ڈیڑ ھ سو ۱۵۰ اونٹ ، دس گھوڑے ( جبکہ ابن اثیر کے مطابق تیس گھوڑے) اور بہت سا سازو سامان ، اسلحہ اور چمڑے و غیرہ کے بچھونے اور چیزیں مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ لگے _ لیکن مسلمانوں میں اس بات پر بحث چھڑ گئی کہ کیا یہ مال غنیمت صرف لڑنے والے جنگجوؤں کو ملنا چاہئے یا پھر ان سب کو بھی ملنا چاہئے جو اس لشکر میں پیچھے رہ کر ان کے دوسرے کاموں میں مصروف ہیں ؟ اس اختلاف اور جھگڑے کی وجہ سے مال غنیمت کی تقسیم کا عمل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سپرد کردیا گیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام مال غنیمت اکٹھا کر اکے اسے عبداللہ بن کعب کے ذمہ لگا دیا اور باقی صحابہ کو بھی اس کے اٹھانے اور حفاظت میں اس کا ساتھ دینے کا حکم دیا _ بقولے مندرجہ ذیل آیت بھی اسی بارے میں نازل ہوئی :

( یسالونک عن الانفال قل الانفال لله و للرسول فاتقوا الله و اصلحوا ذات بینکم و اطیعو الله و رسوله ان کنتم مؤمنین ) (انفال/۱)

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انفال ( مال غنیمت) کے متعلق پوچھتے ہیں تو کہہ دیجی ے کہ انفال خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہے اور اگر تم مؤمن ہو تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح صفائی کرلو او ر خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ مال غنیمت وہاں نہیں بلکہ مدینہ واپس آتے ہوئے راستے میں تقسیم کیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے درمیان اختلاف کی شدت کو ختم کرکے انہیں طبیعی حالت میں واپس لے آنا

۳۰۸

چاہتے تھے تا کہ وہ اپنی دنیاوی خواہشات سے ہٹ کر اس بارے میں کچھ سوچیں_ تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ سارامال ان کے درمیان تقسیم کردیا اور اس سے خمس بھی نہیں نکالا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس کیوں نہیں لیا ؟

بہر حال رہا یہ سوال کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جنگ بدر کے مال غنیمت میں سے خمس کا حصہ کیوں نہیں لیا ؟ تو اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے اذن سے اپنے اور ذوی القربی کے حقوق سے گذر تے ہوئے جنگجوؤں کا حوصلہ بڑ ھانے اور ان کا دل جیتنے کے لئے انہیں زیادہ حصہ دنیا چاہتے ہوں گے خاص کراس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ مشرکین کے خلاف ان لوگوں کی پہلی زبر دست لڑائی ہے اور دوسرا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس موقع پر یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ انہیں حصول مال کی کتنی شدید خواہش اور لالچ ہے _اس کی مزید وضاحت قیدیوں سے متعلق گفتگو میں ہوگی _

اس کی مثال اس روایت میں بھی ملتی ہے کہ حضرات حسنین (حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ) علیہما السلام نے حضرت علی علیہ السلام کے ایام خلافت میں اپنے والد سے خمس سے اپنا حصہ مانگا تو انہوں نے فرمایا: '' وہ تو تمہارا حق ہے مجھ سے طلب کر سکتے ہو لیکن میں ابھی معاویہ سے جنگ میں مصروف ہوں(جس کے لئے مجھے اخراجات کی اشد ضرورت رہتی ہے )اس لئے اگر تم چاہو تو اپنے اس حق سے گذر سکتے ہو ''(۱)

البتہ یہ بات بھی ممکن ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس وجہ سے وہاں خمس نہ لیا ہو کہ اس وقت تک خمس والی آیت نازل نہ ہوئی ہو_ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ خمس کا حکم غزوہ بدر کے بعد آیاہوگا ،حتی کہ بعض اقوال یہ بھی ملتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلا خمس غزوہ بنی قینقاع کے موقع پر نکالاتھا(۲) لیکن ہمیں اس بات کے صحیح ہونے میں شک ہے کیونکہ بعض دستاویزات کے مطابق آپ نے جنگ بدر سے کچھ ما ہ پہلے سریہ عبداللہ بن حجش میں

____________________

۱)السنن الکبری ج۶ص ۳۶۳)_

۲)الثقات ابن حبان ج ۱ص ۲۱۱_

۳۰۹

سب سے پہلا خمس لیاتھا _بلکہ ہم یہاں تک بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام کی حدیث مناشدہ(۱) میں ابن عسا کرنے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے مشاورتی کو نسل کے افراد کو قسم دیتے ہوئے کہا تھا :''تمہیں خدا کی قسم کیا میرے اور حضرت فاطمہعليه‌السلام کے علاوہ تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی قریبی کے ایمان لانے سے بھی پہلے خمس لیا ہو ؟'' سب نے کہا :'' نہیں بخدا ''(۲) _ اس دستاویز کی روسے خمس ،مکہ میں بعثت کے ابتدائی ایام میں حتی کہ آپکے گھرانے کے کسی فرد کے اسلام لانے سے بھی پہلے فرض ہو اتھا _ البتہ اس دستاویز پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت سے بھی پہلے بعثت کے چوتھے یا پانچویں سال تک حضرت جعفر ،حضرت حمزہ اور جناب ابو طالب مسلمان ہو گئے تھے _ (پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ دعوی کیسا کہ کسی قریبی کے مسلمان ہونے سے پہلے میں اور فاطمہعليه‌السلام خمس لیتے تھے ؟) _جبکہ اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ: ( ایک ):_حضرت ابو طالبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدااور حضرت خدیجہعليه‌السلام کو کسی مال کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ یہ شخصیات شعب ابی طالب جیسے کٹھن حالات میں بھی اپنا ہی مال خرچ کرتے تھے _ اور یہ بات پہلے ذکر ہو چکی ہے _ اور حضرت جعفرعليه‌السلام کے متعلق بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ خمس کے مستحق ہوں شاید وہ بھی مالدار آدمی تھے اسی طرح وہ اس وقت ملک حبشہ میں رہ رہے تھے اسی طرح حضرت حمزہ بھی شاید مالدار آدمی تھے _ ( دو):یہ بھی ممکن ہے کہ خمس کا حکم بعثت کے ابتدائی دنوں میں ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر رشتہ داروں کے مسلمان ہونے سے پہلے آیا ہو اور حضرت خدیجہعليه‌السلام نے خمس نکالا ہو اور اس سے حضرت علیعليه‌السلام کو اپنا حصہ ملاہو لیکن حضرت فاطمہ زہراعليه‌السلام ولادت کے بعد حضرت علیعليه‌السلام کی حصہ داربن گئی ہوں _ البتہ اس مذکورہ دستاویز کا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ حضرت زہراعليه‌السلام بعثت کے اوائل میں پیدا ہوئیں _

____________________

۱) خلیفہ ثانی نے بوقت وفات گذشتہ رہنما ؤں کی مخالفت کرتے ہوئے نئے خلیفہ کی تعیین کے لئے ایک چھ رکنی کو نسل یا کمیٹی تشکیل دی تھی _تعیین خلیفہ کے وقت دھاندلی ہونے لگی تو حضرت علی علیہ السلام نے اس کمیٹی کے افراد کو قسمیں دے دے کران سے اپنے فضائل اور صفات منو ائے لیکن دھاند لی ہو کر رہی اور حضرت علیعليه‌السلام کا حق غصب ہو گیا _ اس حدیث کو حدیث منا شدہ کہتے ہیں _مترجم

۲)زندگانی امام علیعليه‌السلام از تاریخ ابن عسا کر با تحقیق محمودی ج ۳ص ۹۰وص ۹۵،المناقب خوازرمی ص۲۲۵،فرائد السمطین ج۱ ص۳۲۲نیز زندگانی امام علیعليه‌السلام ج۳ص ۸۸و ص ۸۹کے حاشیہ میں حدیث منا شدہ کے کثیر منابع و مآخذ بھی مذکور ہیں نیز ملاحظہ ہو: الضعفاء الکبیر ج ۱ ص ۲۱۱_(البتہ اس میں ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر رشتہ داروں کے ایمان لانے سے پہلے ''والا جملہ مذکور نہیں ہے ، ولئالی المصنوعہ ج ۱ص ۳۶۲)_

۳۱۰

رسول خدا ایک بار پھر خمس اپنے اصحاب میں بانٹ دیتے ہیں

جس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر میں خمس نہیں لیا ،اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بعض دیگر مقاما ت پر بھی خمس نہیں لیا_مروی ہے کہ جنگ حنین کے واقعہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے حق یعنی خمس کو اپنے صحابیوں میں تقسیم کر دیاتھا _ حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کچھ زمین اور ایک موٹا تازہ جوان اونٹ یا کوئی اور چیزملی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''مجھے پروردگار کی قسمخدا نے تمہیں جو بھی مال غنیمت یا جو رزق دیا ہے اس میں سے صرف خمس ہی میرا حق بنتا ہے اور وہ بھی میں تمہیں لوٹا ئے دیتا ہوں ''(۱)

یہ تو ان لوگو ں کے ساتھ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کا سلوک تھا لیکن دوسروں کا سلوک کیسا تھا ؟ انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص حق ''فئے''پر بھی قبضہ کر لیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتعليه‌السلام تک کو بھی اس سے محروم رکھا ،بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام وارثوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام ترکہ سے ہی محروم کردیا اور یہ بات کسی بیان کی محتاج نہیں ہے_ البتہ ہم بھی '' سیرت سے متعلق چند باتیں'' کی فصل میں نفع اور تمام مال میں خمس کے فریضے پر گفتگو کریں کے_

حضرت علیعليه‌السلام کے دور حک۳مت میں غربت کا خاتمہ :

ابو عبیدہ و غیرہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سال میں تین مرتبہ لوگوں میں مال تقسیم کیا کرتے تھے ایک مرتبہ تین دفعہ بانٹنے کے بعد اصفہان سے کچھ مال آیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ چو تھی مرتبہ تقسیم کا بھی جلدی جلدی بند و بست کرو ، میں تمہارا کوئی خزانچی نہیں ہوں _ تو آپعليه‌السلام نے وہ طبق لوگوں میں تقسیم کرادیئےسے بعض نے تو لے لیا لیکن بعض نے واپس کردیا لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اپنا حصہ لینے پر مجبور کردیا(۲) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں تمام لوگ اس حد تک خود کفیل اور بے نیاز ہو گئے تھے کہ حکومتی

____________________

۱)الموطاء ج ۲ص ۱۴مطبوعہ با تنویر الحوالک ،الا موال ابو عبید ص ۴۴۴و ۴۴۷،الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۱۲۲،مسند احمد ج۵ ص ۳۱۶ ص ۳۱۹ ، ۳۲۶ و الثقات ج ۲ ص ۴۸)_ ( ۲)الاموال ابو عبید ص ۳۸۴،کنز العمال ج ۴ص ۳۷۸وص۳۱۸،حیاة الصحابہ ج ۲ص ۲۳۶،زندگانی امام علیعليه‌السلام از تاریخ ابن عسا کر با تحقیق محمودی ج ۳ ص ۱۸۱و انساب الاشراف با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۱۳۲_

۳۱۱

تقسیم کو بھی واپس کرنے لگے تھے _ اور ایسا کیوںنہ ہو جبکہ حضرت علیعليه‌السلام یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں دنیا کو ہیچ سمجھتا ہوں(۱) اور بیت المال کے متعلق حضرت علیعليه‌السلام کی سیرت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے_(۲)

جبکہ دوسروں کے دور حکومت میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض افراد کے پاس تن کو ڈھانپنے کے لئے صرف دوہی ٹکڑے ہوتے تھے جس سے وہ صرف اپنا آگا اور پیچھا ہی چھپا سکتے تھے _ اور کچھ بھی نہیں تھا ، اس لئے انہیں '' ذو الرقعتین'' کہتے تھے(۳)

اہم نوٹ : خمس اور اقربا پروری؟

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے خمس کا مخصوص حکم ایک خاندان کو برتری دینے کے مترادف اور باعث ہے ؟ اور کیا یہ ذات پات کے فرق پر مبنی ہے ، جیسا کہ بعض لوگوں کو ایسی باتیں کرنا اچھا بھی لگتا ہے _ اور اس کا جواب یہ ہے کہ:

۱_ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خمس اللہ ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امامعليه‌السلام کی ملکیت ہے _ اور آیت خمس میں مذکور باقی افراد خمس کے استعمال اور خرچ کرنے کے موارد ہیں _ اور در حقیقت خدا نے عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فقیروں کو امامعليه‌السلام کی زیر سرپرستی قرار دیا ہے _ اگر ان کا اپنا حصہ ان کے لئے کفایت نہ کرے اور ان کا فقر دور نہ کر سکے تو امامعليه‌السلام اپنے حصہ سے اس کی کمی پوری کرتا ہے_ اور اگر ان کے حصہ سے کچھ بچ جائے تو وہ باقی حصہ امامعليه‌السلام کا ہوگا_ ہوگا _ اور امامعليه‌السلام اپنے اس حصہ کو ان شرعی امور میں خرچ کرے گا جو دین کی سربلندی ، حفاظت اور مسلمانوں کے حالات سدھرنے کا باعث ہوں _ اور وہ مال جو ان شخصیتوں ( سادات کے فقیروں ، مسکینوں اور مسافروں) کو دیا جائے گا وہ صرف ان کی ضرورتوں کے پورے ہونے کی حد تک ہو گا_ کیونکہ زکات ان پر حرام ہوچکی ہے _ اسی طرح زکات غیر سادات کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے فرض ہوئی ہے _ البتہ غیر

____________________

۱)البدایہ و النہایہ ج ۸ص ۵از بغوی و حیاةالصحابہ ج ۲ ص ۳۱۰_

۲)اور قائم آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دور حکومت کے متعلق بھی ملتا ہے کہ وہ دور ایسا خوشحال ہوگا کہ صدقہ دینے والے صدقہ دینے کے لئے ہر طرف پھر رہے ہوں گے لیکن لینے والا کہیں نہیں ملے گا_

۳)المصنف عبدالرزاق ج ۶ ص ۲۶۷ نیز ص ۲۶۸ و سنن بیہقی ج ۷ ص ۲۰۹ _

۳۱۲

سادات میں سے کسی ایک کو دوسروں پر کوئی برتری اور امتیاز حاصل نہیں ہوگا _ جبکہ سادات کے فقیروں کو خمس دینا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی تعظیم اور لوگوں کے دلوں میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان اور منزلت کے اعتراف کے برابر ہے_ جبکہ اس سے کسی دوسرے کی حق تلفی یا کسرشان بھی نہیں ہوتی _ اور اس بات سے امت اسلامیہ عقیدے کے لحاظ سے بھی اور عملی طور پر بھی مضبوط اور با صلابت ہو جاتی ہے اور امت اسلامیہ کو اسی صلابت ہی کی اشد ضرورت ہے _

خداوند عالم نے قرآن مجید میں مذکورہ صورت کے علاوہ بھی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے احترام اور تکریم کو بہت اہمیت دی ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ اہتمام کیا ہے _ ارشاد خداوندی ہے

( یا ایها الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی و لا تجهروا له بالقول کجهر بعضکم بعضا ) (۱)

اے مؤمنواتم نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز سے اپنی آواز زیادہ اونچی نہ کیا کرو بلکہ تمہاری آواز ان سے نیچی اور دھیمی ہونی چاہئے اور ان کو اونچی آواز سے اس طرح بھی مت پکارو جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو_

اسی طرح خدا نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا بھی حکم دیا ہے اور یہ سب صرف اس لئے ہے کہ خدا ان باتوںسے دین ، انسان اور انسانیت کی بھلائی چاہتا ہے _

اس کے ساتھ یہ بھی بتاتے چلیں کہ خمس کی یہ عطا اتنی بلا قید و شرط بھی نہیں ہے کہ سب مال کسی خاص قوم یا خاندان کے پاس جمع ہو جائے جبکہ دوسروں کو اس کی اشد ضرورت رہے _ بلکہ شرط یہ ہے کہ ہر سید کو اس کے سال بھر کے خرچہ کی مقدار جتنا دیا جائے گا جس سے اس کی ضروریات پوری ہوتی رہیں _ روایات اور مجتہدین کے فتو ے بھی اسی بات کی تائید کرتے ہیں _ اسی طرح سہم امام بلکہ بعض فتاوی کی بنا پر سہم سادات بھی امامعليه‌السلام یا پھر مجتہد کے اختیار میں ہوتا ہے _

____________________

۱)حجرات /۲۲

۳۱۳

لیکن زکات کے متعلق ایسا نہیں ہے بلکہ کوئی بھی کسی فقیر کو اتنی بہت زیادہ زکات بھی دے سکتا ہے کہ اس کی کا یا اچانک پلٹ جائے اور وہ فقیر سے امیر ہو جائے _

۲_ خمس نے تاریخ کے دورانیے میں دین کی حفاظت میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے _ اسی خمس نے مرجعیت کے ساتھ لوگوں کے تعلقات مضبوط رکھے اور دونوں کے اندر ایک دوسرے پر اعتماد پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا _ ظالم و جابر حکام کے ظلم و زیادتیوں نیز محرومیوں کے اثرات پر غلبہ پانے میں لوگوں کی مدد کی اور ان کی بہت سی ضروریات کو پورا کیا _ معاشر ے کی خدمت کرنے والے علمی اور رفاہی اداروں کی تشکیل میں بھی بہت زیادہ اور عظیم کردار ادا کیا اور معاشرے کی روحی ، مادی اور ذہنی سطح بلند کی _ اسی طرح خمس کے ساتھ ساتھ اس مذہبی موقف نے بھی مذہبی معاشرے کی روحی اور ذہنی سطح کے بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کیا کہ کسی ظالم و جابر حاکم کے ساتھ کسی قسم کے تعلق کے بغیر یا اس کے سامنے جھکے بغیر انسان کو اپنے عقیدے اور عمل میں آزاد ہونا چاہئے_ اور اس ظالم حاکم کو اپنے اوپر ایسے کسی قسم کے دباؤ ڈالنے کا موقع نہ دیں کہ جس سے وہ انہیں غیر دینی راستوں پرلے جائے اور وہ انہیں اپنے اغراض و مقاصد کے حصول اور اہداف تک رسائی کا ذریعہ بنائے _پس ان کی شان ، عظمت ، سر بلندی اور اعتبار اس ظالم حاکم کے مرہون منت نہیںہے کہ جس کی وجہ سے ان پر اس ظالم حاکم کے ساتھ دینی اور عقائدی حدود کے باہر کسی قسم کا تعلق اور واسطہ رکھنا ضرور ی ہو_ اسی بات سے ہمیں آیت اللہ سید روح اللہ موسوی خمینی کی دینی قیادت اور رہبری میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں دیگر عوامل کے علاوہ خمس کے عظیم کردار کا بھی علم ہوتا ہے

۳_ چونکہ بعض لوگوں میں دین سے دفاع اور اس کی حفاظت کا ذاتی احساس اجاگر کرنے کے لئے خمس بھی اپنا حصہ ادا کرتا ہے اس لئے دین کو ہمیشہ خمس کی ضرورت رہتی ہے _ اور یہ طبیعی بات ہے کہ اس خطیر ذمہ داری کا ذاتی احساس اور جذبہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتعليه‌السلام میں یعنی سادات میں سب سے زیادہ ہے _ اور خمس کو ان کے اور ان کے اہل و عیال کے لئے بطور ضمانت اور ضروریات زندگی فراہم کرنے کا ذریعہ قرار دینے

۳۱۴

سے ان میں دین سے دفاع کا مذکورہ جذبہ مزید اجاگر ہوگا اور نکھرے گا نیز دین کی راہ میں جان دینے پر بھی زیادہ آمادہ کرے گا(۱)

یہیں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فاسد عقیدوں اور مشکوک فرقوں حتی کہ وہابیت جیسے باطل اور گمراہ فرقے نے کس طرح اس جیسے تعصب اور اقربا پروری سے کام لے کر اپنے آپ کو زندہ رکھا ہوا ہے _ چونکہ آل سعود جیسے کچھ لوگ اپنا وجود وہابیت کے مرہون منت جانتے ہیں اس لئے وہ اس کی حفاظت ، پابندی اور ترویج کو اپنی ذات ، حکومت اور سلطنت کی بقاء کے لئے ضروری جانتے ہیں _اور ان تمام باتوں سے یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ مذہب حقہ بھلائی اور حق کی حفاظت اور ترویج کے لئے اس عنصر سے استفادہ کرنے کاسب سے زیادہ حق دار ہے _

ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ حکام جس مذہب سے بھی ناراض ہو جاتے اور اس پر اپنا غصہ نکالنا چاہتے تو وہ مذہب تھوڑی سی کوشش کے ساتھ ہی نیست و نابود ہوجاتا تھا _ کیونکہ اس کے بقاء اور اس پر پابند رہنے والے شخص کی حفاظت کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہوتی تھی _ لیکن خالص خدائی تعلیمات پر مشتمل مذہب اہل بیتعليه‌السلام میں چونکہ بڑی بڑی کینہ پرور اور ظالم طاقتوں کے مقابلے میں بھی استمراراور بقاء کی بہت سی شرعی، عقلی اور عملی ضمانتیں موجود ہیں اور ان ضمانتوں کے سائے میں وہ کئی کئی صد یوں تک بھی اپنے اور اپنے پیروکاروں پر دباؤ نہ صرف برداشت کر سکتی ہے بلکہ کر بھی چکی ہے اور کربھی رہی ہے اس لئے وہ پائندہ اور تابندہ ہے _ البتہ یہ بات دین اسلام کی عظمت ، وسعت اور پاکیزگی کی صرف ایک دلیل ہے ، باقی بھی ہیں جو اپنے مقام پر ذکر ہو چکی ہیں اور ہوں گی _

____________________

۱) البتہ اسلام نے ان سادات کے لئے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ وہ خمس و غیرہ کو گناہ کے کاموں میں خرچ نہ کرتا ہو_ بلکہ اس سید کو محتاج ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت نیک اور پرہیزگار ہونا چاہئے _ اور وہ جتنا نیک ہوگا اتنا ہی مستحق خمس ہوگا_

۳۱۵

جنگ بدر میں شرکت نہ کرنے ولے بعض افراد کا مال غنیمت سے حصہ :

الف : طلحہ اور سعید بن زید:

مورخین یہاں کہتے ہیں کہ طلحہ اور سعید بن زید نے جنگ بدر میں شرکت نہیں کی تھی _ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں تجارتی قافلے کی تازہ ترین صورتحال معلوم کرنے کے لئے بھیجا تھا تو وہ بدر کی طرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روانگی کے بعد مدینہ واپس لوٹے تھے _ وہ جنگ میں شرکت کے لئے گھر سے نکلے بھی لیکن راستے میں دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ سے فارغ ہو کر واپس تشریف بھی لارہے ہیں _ یہ صورتحال دیکھ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر کے مال غنیمت سے ان دونوں کو بھی ان کا حصہ دیا(۱) _

لیکن یہ بات مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر صحیح نہیں ہے :

۱_ ہمیں ایک اور دستاویز میں ملتا ہے کہ وہ شام تجارت کے لئے گئے ہوئے تھے اور وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگ بدر سے واپسی کے بعد لوٹے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی آمد پر ان دونوں کا حصہ نکال کر انہیں دیا(۲) _

البتہ اس دستاویز کی آخری شق صحیح نہیں ہے_ کیونکہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیچھے رہ جانے والے دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر صرف ان دونوں کوہی مال غنیمت کا حصہ کیوں دیا ؟ اور کیاجنگ نہ کرنے والوں کا جنگ کرنے والوں کے مال غنیمت سے شرعی طور پر کوئی حق بنتا ہے ؟ پھر کسی مجبوری و غیرہ کے تحت جنگ سے پیچھے رہ جانے والے دیگر لوگوں کی بجائے صرف ان دونوں کو حصہ دینے پر وہ لوگ راضی کیسے ہو گئے؟ اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اگر دیگر مسلمانوں کو مال عطا کرنا بھی چاہتے تھے تو انہیں اپنے حصہ سے عطا کرنا چاہئے تھا دوسروں کے مال سے نہیں ، جس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ میں شریک افراد کے ساتھ یہ کام کیا تھا_

____________________

۱)ملاحظہ ہو: سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۷ و ص ۱۸۵ و غیرہ_ (۲)سیرہ ابن ہشام ج۲ ص ۳۳۹ و ۳۴۰ ، التنبیہ و الاشراف ص ۲۰۵ لیکن اس میں لفظ '' قیل'' ( منقول ہے) کے ساتھ ذکر ہوا ہے ، الاصابہ ج۲ ص ۲۲۹ و الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۲ ص ۲۱۹_

۳۱۶

۲_ دیگر مورخین کی پیروی میں سیوطی نے بھی مذکورہ دونوں افراد کی اس فضیلت سے انکار کیا ہے بلکہ عثمان کے علاوہ اس نے ہر کسی کی اس فضیلت سے انکار کیا ہے _ وہ کہتا ہے : '' جنگ بدر کے موقع پر حضرت عثمان کا حصہ علیحدہ کر لیا گیا جبکہ اس کے علاوہ جنگ بدر سے غیر حاضر رہنے والے کسی شخص کے لئے بھی کوئی حصہ نہیں رکھا گیا_ اس روایت کو ابو داؤد نے ابن عمر سے نقل کیا ہے _ خطابی کہتا ہے کہ یہ فضیلت صرف حضرت عثمان کے ساتھ خاص ہے کیونکہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی ( لے پالک) دختر کی تیمار داری میں مصروف تھا''(۱) البتہ ہم حضرت عثمان کے لئے بھی اس تخصیص کے قائل نہیں ہیں جسے انشاء اللہ آگے جا کر ثابت کریں گے _

۳_ شورا والوں سے ( جن میں طلحہ اور عثمان بھی شامل اور موجود تھے ) حضرت علی علیہ السلام کی حدیث مناشدہ میں آیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا : '' کیا تم لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جسے جنگ میں شرکت کرنے پر بھی حصہ ملاہو اور شرکت نہ کرنے پر بھی حصہ ملا ہو؟'' تو سب نے نفی میں جواب دیا(۲) البتہ ہو سکتا ہے کہ جنگ میں شرکت نہ کرنے پر آپعليه‌السلام کو حصہ اس لئے دیا گیا ہو کہ آپعليه‌السلام بھی اس وقت کسی جنگی مہم میں مصروف ہوں یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے حصہ سے جس طرح دیگر جنگجوؤں کو دیا تھا اسی طرح آپعليه‌السلام کو بھی دیا ہو _ البتہ یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں حضرت علیعليه‌السلام صرف جنگ تبوک سے ہی پیچھے رہے تھے اور شرکت نہ کر سکے تھے باقی تمام جنگوں میں آپعليه‌السلام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانہ بشانہ رہے _ زمخشری نے فضائل العشرہ میں کہا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد نبوی میں بیٹھے جنگ تبوک کا مال غنیمت تقسیم کررہے تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر کسی کو ایک ایک حصہ دیتے جارہے تھے لیکن حضرت علیعليه‌السلام کو دو حصے دیئے _ اس پر زائدہ بن اکوع نے اعتراض کیا تو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے اسے یہ جواب دیا کہ (حضرت) علیعليه‌السلام کی جگہ جبرائیل جنگ تبوک میں جنگ کررہا تھا اور اسی نے (حضرت)علیعليه‌السلام کو دو حصے دینے کا حکم دیا ہے(۳)

نوٹ: حضرت علی علیہ السلام کی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی حضرت جعفرعليه‌السلام کو بھی شرکت کرنے پر ایک حصہ اور نہ

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۸۵_ (۲)زندگانی امام علیعليه‌السلام از تاریخ ابن عساکر با تحقیق محمودی ج ۳ ص ۹۳ ، اللئالی المصنوعہ ج۱ ص ۳۶۲ و الضعفاء الکبیر ج۱ ص ۲۱۱ و ص ۲۱۲_ (۳)ملاحظہ ہو:سیرہ حلبیہ ج ۳ ص ۱۴۲_

۳۱۷

کرنے پر بھی ایک حصہ ملاتھا _ کیونکہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مردی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''جنگ بدر کے موقع پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب جعفرعليه‌السلام کا بھی حصہ علیحدہ کیا تھا(۱) لیکن یہ بات حضرت علیعليه‌السلام کے مذکور ہ دعوے کے منافی نہیں ہے کیونکہ حضرت علیعليه‌السلام نے جن لوگوں کو قسمیں دی تھیں ان میں حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور اس خصوصیت کا حامل تھاہی نہیں _ اور یہ بات حضرت جعفرعليه‌السلام کے مذکورہ خصوصیت کے حامل ہونے سے مانع نہیں ہے کیونکہ وہ جنگ مؤتہ میں شہید ہو چکے تھے اور اس موقع پر موجودہی نہیں تھے_

ب:عثمان بن عفان

مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے جنگ بدر کے مال غنیمت سے عثمان بن عفان کا حصہ بھی علیحدہ کر لیا تھا کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی اسے اپنی زوجہ جناب رقیہ کی تیمار داری کے لئے وہیں رہنے کا حکم دیا تھا اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا حصہ علیحدہ کر لیاتھا _ اسی وجہ سے مؤرخین نے جناب عثمان کو بدری صحابیوں سے شمار کیا ہے(۲) لیکن ہم مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر اسے صحیح نہیںسمجھتے :

۱_ حدیث منا شدہ میں شورا والوں کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کا دعوی ذکر ہو چکا ہے اور اس میں خود عثمان بھی موجود تھا اور اس نے بھی اعتراف کیا تھا _

۲_کچھ دیگر روایتیں کہتی ہیں کہ وہ خود چیچک کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جنگ بدر میں شرکت نہ کر سکا تھا(۳)

تو پھر ہم کس روایت کی تصدیق کریں ؟ اس کی یا اُس کی ؟

۳_ کسی مجبوری کی وجہ سے جنگ سے پیچھے رہ جانے والے دوسرے افراد کی بجائے صرف جناب عثمان کا حصہ کیوں علیحدہ کیا گیا؟اور اس بات پر پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں نے اعتراض کرکے اپنے حق کا

____________________

۱)سیر اعلام النبلاء ج۱ ص ۲۱۶_ (۲)ملاحظہ ہو: سیرہ حلبیہ ج ۲ص ۱۴۶،ص۱۴۷و ۱۸۵اور تاریخ کی کوئی بھی دوسری کتاب _

۳)سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۶ و ص ۱۸۵_

۳۱۸

مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ پھراس بات پر جنگجو مسلمانوں نے بھی اعتراض کیوں نہیں کیا ؟ اور کیا کسی بیماری کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے شخص کو یہ حق حاصل ہو جاتاہے کہ وہ جس جنگ میں شریک نہیں ہوا اس جنگ سے حاصل ہونے والے مال غنیمت میں حصہ دار بن جائے ؟

۴_عثمان والی بعض روایات یہ کہتی ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب رقیہ کی تیمار داری کے لئے عثمان کے ساتھ اسامہ بن زید کو بھی ٹھہرایاتھا اور جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کی خبر پہنچے کے بعد اس بارے میں اس کا بھی یک گونہ کرداررہا تھا حالانکہ اس وقت اس کی عمر دس سال سے بھی کم تھی _لیکن اس کے با وجود عثمان کے حصہ کی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا حصہ علیحدہ نہیں کیا ؟؟

۵_ تاریخ میں ملتا ہے کہ عبد الرحمن بن عوف ،عثمان کو جنگ بدر میں شرکت نہ کرنے کے طعنے دیا کرتا تھا ایک مرتبہ اس کی ملاقات ولید بن عقبہ سے ہوئی تو ولید نے اس سے کہا :''تم امیر المؤمنین عثمان کے حق میں جفا کیوں کرتے ہو ؟''_تو عبد الرحمن نے اس سے کہا :''اس سے کہہ دینا کہ میں نہ جنگ عینین (جبکہ بقول عاصم اس کی مراد جنگ احد ہے )سے بھا گاہوں اور نہ جنگ بدر سے پیچھے ہٹاہوں اور ہاں حضرت عمر کی سنت بھی میں نے نہیں چھوڑی ہے ''_ اور ولید نے جاکر عثمان کو عبد الرحمان کا یہ پیغام پہنچایا _یہاں مؤرخین کہتے ہیں کہ اس نے جنگ بدر میں شرکت نہ کرنے کی وجہ جناب رقیہ کی تیمار داری بتائی(۱) نیز بقول مؤرخین ابن عمر نے بھی جناب عثمان پر اعتراض کرنے والے ایک شخص کے جواب میں یہی عذر پیش کیا تھا(۲) _

لیکن ان کا یہ عذر صحیح نہیں ہے بلکہ صرف ایک بہانہ ہے _کیونکہ اس کی یہ مجبوری عبدالرحمن بن عوف جیسے بزرگ صحابی اور اس اعتراض کرنے والے شخص سے کیسے پوشیدہ تھی؟ حالانکہ اس وقت کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی تھی _ اور اگر جناب عثمان کا اس سے کوئی حصہ علیحدہ کیا گیا تھا تو یہ اس کے لئے بہت بڑی فضیلت

____________________

۱)مسنداحمد ج۱ ص ۶۸وص۷۵،الا وائل ج۱ص۳۰۵وص ۳۰۶،محاضرات الادباء راغب اصفہانی ج ۲ ص ۱۸۴،الدر المنثور ج۲ص ۸۹از احمد و ابن منذر ،البدایہ و النہایہ ج ۷ص۲۰۷،شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج ۵ ص ۲۱تا ص۲۲،المغازی واقدی ج۱ص ۲۷۸،الغدیر ج ۹ ص ۳۲۷و ج ۱۰ص ۷۲از احمد و ابن کثیر و از ریاض النضرہ ج ۲ ص ۹۷_ (۲)مستدرک حاکم ج ۳ ص ۹۸،الجامع الصحیح ترمذی ج ۵ ص ۶۲۵،مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۰۱،البدایہ و النہایہ ج ۷ص ۲۰۷از بخاری و الغدیر ج ۱۰ص ۷۱از حاکم و ص۷۰از احمد و از صحیح بخاری ج ۶ص۱۲۲)_

۳۱۹

کی بات تھی اور یہ بات جنگ بدر اور احد میں شرکت کرنے والے ،مؤاخات کے دن عثمان کا بھائی بننے والے ،اس کے لئے خلافت کی سیج تیار کرنے والے اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے بعد کائنات کی سب سے بہتر اور افضل شخصیت امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام پر اسے ترجیح دینے والے عبدالرحمن بن عوف سے ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی تھی _تو پھر عبد الرحمن بن عوف اسے فضیلت کی بات پر کیوں طعنے دیتا تھا ؟ یا پھر ایسی بات نہیں تھی وہ لوگ عثمان پر جھوٹا الزام لگاتے ہوئے اس کی قابل تعریف باتوں پر تعریف کی بجائے اس کی برائی کرتے تھے ؟

۶_ جب بن مسعود کوفہ سے مدینہ آیا تو وہ مدینہ میں ایسے وقت داخل ہواجس وقت عثمان بن عفان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے منبر پر بیٹھ کرتقریر کررہا تھا _ جب اس کی نظر اس نو وارد پر پڑی تو اس نے دوران تقریر ہی کہہ دیا :''لوگوا تمہارے پاس ابھی ایک ایسا حقیر اور برا جانور آیا ہے جس کا کام صرف کھانے ،اگلنے اور نکالنے میں مصروف رہناہے ''_ اس پر ابن مسعود نے کہا : ''میں ایسا نہیں ہوں بلکہ میں تو جنگ بدر اور بیعت رضوان کے موقع پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا ساتھی ہوں ''(۱) اور اس بات سے وہ دونوں مقامات پر عثمان کی عدم موجود گی کی وجہ سے اسے طعنہ دے رہا تھا _

۷_ اسی طرح سالم بن عبداللہ کے پاس بھی ایک آدمی نے آکر گذشتہ دوآمیوں کی طرح عثمان پر اعتراض کیا تھا(۲) پس یہ مزعومہ فضیلت ان سب لوگوں سے کیسے مخفی رہی ؟

۸_ آخر میں ہم جناب رقیہ کی تیمار داری کے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے عثمان کو مدینہ میں رہ جانے کی رخصت دینے کو بھی بعید سمجھتے ہیں _ کیونکہ عثمان کے کردار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے جناب رقیہ کی حالت کی کچھ پروا نہیں تھی اور نہ ہی اسے اس کی بیماری سے کوئی غرض تھی کیونکہ ہم انشاء اللہ جناب رقیہ کی وفات کے متعلق گفتگو میں تفصیل سے بتائیں گے کہ اس نے جناب رقیہ کی وفات کی رات بھی اپنی کسی بیوی سے ہم بستری

____________________

۱)انساب الا شرف ج ۵ ص ۳۶،الغدیر ج۹ص۳از انساب الاشرف و ص ۴ از واقدی _

۲) الغدیر ج۱۰ص ۷۰از ریاض النضرہ ج۲ص ۹۴_

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460