الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 202734
ڈاؤنلوڈ: 4170

تبصرے:

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202734 / ڈاؤنلوڈ: 4170
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کی تھی جس کا مطلب ہے کہ اسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی دامادی کے شرف سے محروم ہونے کا کوئی دکھ نہیں تھا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھی اسے جناب رقیہ کی قبر میں اترنے اور اسے دفنانے سے منع کردیا تھا _ ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ بعض دیگر لوگوں کی طرح اسے بھی جنگ بدر پر جانا گوارا نہیں تھا اس لئے وہ مدینہ میں رکارہا_(۱)

دوسروں کے فضائل پرڈاکہ

بعض روایتیں کہتی ہیں کہ ابو امامہ بن ثعلبہ نے ماں کے سخت بیمار ہونے کے با وجود بھی جنگ بدر پر جانے کی مکمل تیاری کرلی تھی لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اسے اپنی ما ں کی خدمت اور تیمار داری کے لئے اسے وہیں رہنے کا حکم دیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر کے مال غنیمت سے اس کا حصہ بھی علیحدہ کرلیا البتہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر سے واپس تشریف لائے تو اس کی ماں اس سے پہلے وفات پاچکی تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی قبر پر جاکر نماز پڑھی تھی(۲)

یہاں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس روایت اور عثمان والی روایت میں کوئی فرق نہیں ہے (صرف شخصیات کا فرق ہے ) _ پس آپ ہی بتائیں کہ کس روایت کی دوسری روایت کے حق میں تحریف کی گئی اور کن شخصیات کو دوسری شخصیات کے حق میں بدل دیا گیا ہے ؟

اور چونکہ ہم عثمان والی روایت پر اپنے اعتراضات بیان کر چکے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بنی امیہ کے اس بزرگ کے لئے پوری مشینری فضیلتیں گھڑنے میں مصروف تھی حتی کہ معاویہ نے اسلامی مملکت کے کونے کونے میں فضائل گھڑنے کا حکم نامہ بھجوا دیا تھا اس لئے ہماری نگاہ میں جعلسازوں نے ابو امامہ والی روایت کو نشانہ بنا کر اس پر تحریف اور جعلسازی کا ڈاکہ ڈالا تا کہ عثمان کی جنگ بدر میں شرکت والی فضیلت سے محرومی کا

____________________

۱)جناب عثمان کے ناز نخرے ،تعمیر مسجد کے وقت اس کے انداز نیز عادات و اطوار اور وقت سلطنت کردار سے یہ بات قرین قیاس لگتی ہے _

۲)سیرہ حلبیہ ج۲ص ۱۴۷،الا صابہ ج ۴ص ۹از ابو احمد الحاکم ، الا ستیعاب بر حاشیہ الا صابہ ج ۴ ص ۴ و اسد الغابہ ج۵ص ۱۳۹_

۳۲۱

جبران کرکے اس کے بدلے میں اس کے لئے ایک اورفضیلت ثابت کرسکیں _نیز جناب رقیہ والے واقعہ میں اس کی بدنامی کا داغ بھی مٹا سکیںکیونکہ وہ عثمان کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی شدت سے چل بسی تھیں لیکن اسی رات اس نے رنگ رلیاں منائیں اور نہ اس مرحومہ کا اور نہ اس کے پالنے اور پرورش کرنے والے ( حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا)کے احترام کا کوئی لحاظ کیا _یوں انہوں نے ایک تیر سے دو بلکہ تین شکار کھیلے _

لیکن یہاں حضرت علی علیہ السلام کے اس دعوے والا اعتراض باقی رہتا ہے جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوی کیا تھا کہ اس فضیلت میں آپعليه‌السلام ہی یکتا ئے روزگار ہیں _البتہ اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ شاید آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس طرح دوسروں کو اپنے خمس سے نوازاتھا ، اسی طرح اپنے حصہ سے اس کا حصہ بھی رکھا ہو_ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے حاضرین کو (جن میں عثمان بھی موجود تھا) قسم دے کر ان سے مذکور ہ بات اگلوائی ہویوں حاضرین کی بہ نسبت توآپعليه‌السلام کی بات بالکل درست تھی لیکن حضرت جعفرعليه‌السلام جیسے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت آپعليه‌السلام کے کلام میں کوئی مثبت یا منفی بات نہیں پائی جاتی(۱)

دوقیدیوں کا قتل :

پہلے بھی بتاچکے ہیں کہ مشرکین کے ستر آدمی گرفتار کرلئے گئے تھے البتہ اکہتر آدمی بھی کہا گیا ہے(۲) انہیں قید کرکے مدینہ کی طرف واپسی شروع ہوگئی _ جب صفرا کے مقام پر پہنچے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام کو دو قیدیوں کا سر قلم کرنے کا حکم دیا _ان میں سے ایک عقبہ بن ابی معیط تھا جس کا مکہ میں مسلمانوں اور خود نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے ساتھ برا سلوک معروف ہے اور دوسرا نضربن حارث تھا(۳) جو مکہ میں مسلمانوں پر حد سے زیادہ ظلم کرتا تھا اور انہیں شکنجہ کیا کرتا تھا _ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

____________________

۱)حدیث منا شدہ میں حضرت علیعليه‌السلام کے الفاظ بھی اسی بات پر دلالت کرتے ہیں اس لئے دیگر احتمالات صرف تکلفات ہیں _

۲)العلل و معرفة الحدیث ج ۱ص ۴_ (۳)سیرہ ابن ھشام ج۲ص ۲۹۸میں زہری و غیرہ کی روایتوں میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام نے ہی نضربن حارث کی گردن اڑائی تھی _ نیز ملاحظہ ہو الا غانی مطبوعہ ساسی ج۱ص ۱۰_

۳۲۲

آپعليه‌السلام کو تین قیدیوں ،عقبہ، نضر اور مطعم بن عدی کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا(۱) اس پر عقبہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :''یا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تجھے خدا اور رشتہ داری کا واسطہ مجھے قتل مت کرو''_ اس پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عقبہ سے فرمایا:''تم تو صفوریہ کے علاقے کے عجمی کافر ہو( تمہارے ساتھ میرا کیسا رشتہ اور واسطہ؟)''البتہ ایک اور دستاویز میں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا:''کیا تو قریشی ہے ؟ تم تو صفوریہ کے علاقے کے عجمی (یا یہودی ) کافر ہو_ عمر کے لحاظ سے تو تم اپنے اس باپ سے بڑے ہو جس کے تم بیٹے ہونے کا دعوی کرتے ہو_ جس کے نہیں ہو اس سے منسوب ہو_ علیعليه‌السلام جاؤ اس کی گردن اڑادو ''_اور حضرت علیعليه‌السلام نے جا کر اس کا سر قلم کردیا(۲) ایک اور روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ عقبہ نے پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :''محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے پسماندگان کی کفالت کون کرے گا ؟''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''آگ ان کی کفالت کرے گی ''(۳)

البتہ سہیلی کہتاہے کہ ''جس کے نہیں ہواس سے منسوب ہو''والا جملہ عمربن خطاب نے کہا تھا(۴)

یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہجرت سے قبل اسی عقبہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت اذیتیں دی تھیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف نہایت سخت موقف اپنا یا تھا _ جس کے نتیجے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے دھمکی دی تھی کہ اگر تو مجھے مکہ کی حدود سے باہر ملا تو تجھے قید کرکے تیری گردن ہی اڑادوں گا(۵) اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا ہی کیا _

البتہ یہاں چند نکات قابل ذکر ہیں :

____________________

۱)العلل و معرفة الحدیث ج۱ ص ۳_

۲)ملاحظہ ہو : الروض الانف ج ۳ ص ۶۵،سیرہ حلبیہ ج ۲ص ۱۸۷و ص ۱۸۶ ، بحار الانوار ج ۱۹ص ۲۶۰وص۳۴۷،المصنف عبد الرزاق ج ۵ص ۲۰۵،تفسیر قمی ج ۱ص ۲۶۹،و واقدی البتہ سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۹۸میں حضرت علیعليه‌السلام کے اس کو قتل کرنے کی بات لفظ ''قیل''کے ساتھ ذکر گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس نے اسے کمزور اور ضعیف قول مانا ہے_

۳)المصنف عبد الرزاق ج۵ص۲۰۵وص۳۵۲وص ۳۵۶،ربیع الا برار ج ۱ ص ۱۸۷،الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۳۱،سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۹۸و الا غانی مطبوعہ ساسی ج ۱ ص ۱۰و ص ۱۱_ (۴)الروض الا نف ج ۳ ص ۶۵_ (۵)ملاحظہ ہو: الغدیر ج ۸ ص ۲۷۳و ص ۲۷۴از ابن مردویہ و ابو نعیم در الدلائل ان اسناد کے ساتھ جسے سیوطی نے صحیح جانا ہے _

۳۲۳

الف: عقبہ کا نسب:

مؤرخین کے مطابق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عقبہ کو ''صفوریہ کے علاقے کے عجمی کافر '' کہنے کا سبب یہ ہے کہ اس کا پردادا ''امیہ'' جب صفوریہ میں تھاتو وہاں اس نے ایک شوہر دار یہودی لونڈی سے زنا کیا جس کے بعد ابو عمرو (یعنی ذکوان) اس یہودی کے گھر پیدا ہوا لیکن امیہ نے زمانہ جاہلیت کی رسومات کے مطابق اسے اپنا بیٹا مان لیا_یہ قول بھی ملتا ہے کہ ذکوان ،امیہ کا غلام تھا جسے اس نے اپنا بیٹا بنا یا ہوا تھا لیکن امیہ کے مرنے کے بعد ذکوان اس کی بیوی کا شوہربن گیا_جبکہ سہیلی کہتا ہے کہ امیہ نے کسی لونڈی کے ساتھ زبردستی یا اس کی مرضی سے زنا کیا تو وہ ابو عمرو سے حاملہ ہوئی جسے امیہ نے جاہلیت کی رسومات کے تحت اپنا بیٹا بنا لیا(۱) اسی طرح فضل بن عباس نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے اشعار کے جواب میں یہ اشعار کہے :

اتطلب ثاراً لست منه ولاله

و این ابن ذکوان الصفوری من عمرو

کما اتصلت بنت الحمار بامها

و تنسی اباها اذ تسامی اولی الفخر(۲)

کیا تو اس شخص کا بدلہ لے گا جس کا تجھ سے اور تیر ا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے _اور ابن ذکوان صفوری کا عمرو سے کیا واسطہ؟ یہ تو ایسے ہو گیا ہے جیسے کوئی کھوتی اپنے باپ کو بھول کر اپنی ماں سے منسوب ہو جاتی ہے تب جاکر کہیں وہ با عزت سوسا ئٹی میں اترا سکتی ہے_

اور معاویہ نے بوڑھے نسب شناس دغفل سے اپنے دادا امیہ کے نسب کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا :''ہاں میں نے اسے دیکھا ہے وہ کمزور ،ناتوان ،بھینگا،بد صورت اور پستہ قد تھا جسے اس کا غلام ذکوان

____________________

۱) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۷نیز ملاحظہ ہو: الروض الا نف ج ۳ص ۶۵_

۲)الغدیر ج ۹ ص ۱۵۵از طبری ج ۵ص ۱۵۱_

۳۲۴

پکڑ کر کہیں لے جاتا تھا ''_معاویہ نے کہا :''نامراد بس کرو _ تم غلط کہہ رہے ہو وہ تو اس کا بیٹا تھا ''اس پراس نے کہا :''یہ بات تو تمہاری مشہور کی ہوئی ہے ''(۱)

لیکن تفسیر قمی میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عقبہ سے کہے جانے والے اس قول ''عمر کے لحاظ سے توتم اپنے اس باپ سے بڑے لگتے ہو جس کے بیٹے ہونے کا تم دعوی کرتے ہو''کے ذیل میں ذکر ہونے والی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عقبہ ،صفوریہ کے علاقے کے رہنے والے کسی اور شخص کا بیج اور نطفہ تھا ،لیکن زبر دستی ابو معیط سے منسوب ہو گیا تھا _

حضرت امام حسن علیہ السلام نے بھی ولید بن عقبہ سے وہی الفاظ کہے تھے جیسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے باپ عقبہ بن ابو معیط سے کہے تھے(۲)

زمخشری کہتا ہے کہ خود ابو معیط اردن کے علاقے صفوریہ کارہا ئشےی تھا _جسے ابو عمر بن امیہ بن عبد شمس نے آکر بیٹا بنانے کا دعوی کیا تھا(۳)

عثمان کے دور حکومت میں جب حضرت علی علیہ السلام نے ولید کو شراب کی حد میںکوڑے مارنے چاہے تو ولید نے آپعليه‌السلام کو گالیاں دینی شروع کردیں ،جس پرآپعليه‌السلام کے بھائی جناب عقیلعليه‌السلام نے اس سے کہا: ''اوفاسق تو خود جانتا بھی ہے کہ تو کون ہے ؟ کیا تو اردن میں عکااور لجون کے درمیان والی بستی صفوریہ کا عجمی کافر نہیں ہے؟ تیرا باپ وہاں کا ایک یہودی تھا ''(۴)

ب: پسماندگان کے لئے دوزخ کی بشارت

گذشتہ واقعہ میں ہم نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے پسماندگان کو دوزخ کی پیشین گوئی کی تھی جن میں سے ایک فاسق ولید بن عقبہ بھی تھا جو عثمان کی طرف سے کوفہ کا گور نر تھا _ اس نے شراب پی کر

____________________

۱) الروض الا نف ج ۳ ص ۶۵و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۸۷_

۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۶ص ۲۹۳از زبیر بن بکار در کتاب المفاخرات و مقتل الحسین خوازمی ج ۱ ص ۱۱۹_

۳)ربیع الابرار ج ۱ ص ۱۴۸_ (۴)تذکرہ الخواص ص ۲۰۶_

۳۲۵

لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی تو نشے میں ٹن وہ زیادہ پڑھ گیا ،حالانکہ اس کا شمار صحابیوں میں ہوتا ہےاب تو بعض لوگوں کو تمام صحابیوں کے عادل ہونے والے اپنے نظریئےیںنظر ثانی کرنا چاہئے _البتہ اس موضوع پر ہم نے اپنی کتاب'' دراسات و بحوث فی التایخ و الا سلام ج ۲ ''میں مختصر گفتگو کی ہے وہاں ملاحظہ فرمائیں_

اور اس کے پسماندگان کے متعلق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مذکورہ بات غیب کی خبر اور پیشین گوئی شمار ہوتی ہے جس پر خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مطلع کردیا تھا کیونکہ خدا جانتا تھا کہ اس کے پسماندگان میں کوئی بھی اس لائق ہے ہی نہیں جو رحمت اور نعمت کا مستحق ہو لیکن سیاست،نسلی تعصب اور رشتہ داری کے بل بوتے پراس دوزخی اولاد کو لوگوں کی جان ،مال اور عزت و آبرو پر مسلط کردیا گیا اور خلافت کے اصلی اور شرعی حق داروں سے چھینی جانے والی خلافت کا ایک حاکم اور سیاسی راہنما بنادیا گیا_ پھر تو ان لوگوںنے لوگوں کے عقائد میں اتنی جگہ بنالی کہ لوگوں پر ان جیسے نا پاکوں کو( چاہے وہ جتنے اور جس قسم کی بھی برائیوں کے مرتکب ہوں) عادل سمجھنا ضروری ہوگیا _

ج: عقبہ کو نسب کا طعنہ :

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عقبہ کو کہا کہ تو صفوریہ کا ایک عجمی کا فرہے یا اس جیسے دیگر جملے کہے _حالانکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ عادت تھی نہیں ،کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ تو (نعوذ باللہ )گالیاں بکنے والے تھے اور نہ ہی بد خلق اور بد کلام تھے _ لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے یہ طعنے اس لئے دیئےہ لوگ جان لیں کہ ان کے بعد والے اسلام کے دعوے صحیح نہیں ہیں اور حکومتی مشینری کا اس کے بیٹوں کو اپنے ساتھ ملانا صرف ان کی ادعائی قرابت داری کی وجہ سے ہے و گرنہ ان لوگوں کا حکومت میں آنا کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہے اور یہ حکومت کے اہل ہی نہیں ہیں کیونکہ یہ لوگ خدا کے مال کو اپنا ذاتی اور وراثتی مال اور خدا کے بندوں کو اپنا غلام سمجھ لیں گے اور یہ لوگ بدبختیوں اور سازشوں کی آماجگاہ بن جائیں گے _جس طرح فاسق ولید اور حکومت کے دیگر قریبیوں اور گورنروں کی

۳۲۶

حالت زار تھی جو دین اور اسلام کے نام پر حکومتی عہدوں پر فائز ہوئے تھے اور ان کے احکام کو اسلامی احکام سمجھا جاتا تھا حالانکہ ان کے احکام صرف قبائلی اور خاندانی تعصبات پر مبنی تھے بلکہ دقیق اور صحیح الفاظ میںیہ کہنا بہتر ہے کہ ان کے احکام زمانہ جاہلیت کے احکام تھے_

د:واقعہ بدر میںنضربن حارث کے قتل کا انکار :

ابن سلام کہتا ہے کہ ابن جعد بہ (جس نے ابو عزت جمحی کے حالت اسیری میںقتل کا انکار کیا ہے وہ بدر کے واقعہ میں حالت اسیری میں نضربن حارث کے قتل کا بھی منکر ہے )_وہ کہتا ہے :''وہ اس جنگ میںشدید زخمی ہو گیا تھا جس سے وہ لنگڑاکر چلتا تھا_ اور اسے علاج کی اشد ضرورت تھی لیکن اس نے کہا کہ جب تک میں ان لوگوںکے ہاتھ میں ہوں نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ کچھ پئوں گا _اور وہ اپنی اس ضدر پر قائم رہا یہانتک کہ مرگیا''جب ابو سلام کو ابو عزت کے بارے میں ابن جعد بہ کا نظریہ بتایا گیا تو اس نے کہا:''یہ نظریہ بھی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عقبہ بن ابو معیط کو جنگ بدر کے واقعہ میں قید کی حالت میں قتل کرنے کے علاوہ اور کسی کو حالت اسیری میں قتل نہیں کیا''(۱) لیکن یہ نظریہ مؤرخین کے متفقہ قول کے مخالف ہے اور اس میں ہمیں جعلسازی کی کوئی وجوہات بھی نظر نہیں آتیں اس لئے ہم پختہ تاریخی دستاویزات کی بلاوجہ کوئی مخالفت نہیں کر سکتے البتہ نضر بن حارث کی بہن کا اپنے بھائی کے قتل کی مناسبت سے ایک مرثیہ بھی نقل ہوا ہے جس میں اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب ہو کر کہا:

ما کان ضرک لو مننت و ربما

منّ الفتی و هوالمغیظ المحنق

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منت لگاکر اسے چھوڑ دیتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی بھی نقصان نہ ہوتا کیونکہ بسا اوقات شریف آدمی غصہ اور ناراضگی کی حالت میں بھی دوسروں پر احسان کیا کرتے ہیں_

____________________

۱)طبقات الشعراء ابن سلام ص ۶۴وص۶۵_

۳۲۷

اس کی یہ باتیں سن کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس پر ترس آگیا ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھیں بھر آئیںاور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوبکر سے فرمایا:''اگر تو اس کے اشعار سن لیتا تو اسے کبھی قتل نہ کرتا''_لیکن اس کے بارے میں زبیر بن بکا رکہتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ بعض علماء اس روایت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ روایت جعلی ہے(۱) یہ بھی کہتے چلیں کہ اس روایت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک نا معقول بات منسوب کی گئی ہے _ کیونکہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ چند ایک اشعار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فیصلے کو بدل دیں اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر حال میں فقط احکام خداوندی پر عمل درآمد کیا کرتے اور صرف اپنے فریضے پر عمل کیا کرتے تھے_ البتہ اس بات کا مقصد شایدعقبہ کے قریبیوں کے ما حول میں کشیدگی اور تناؤ کو کم کرنا اور اس طریقے سے ان کی دلجوئی ہو سکتی ہے _

باقی قیدیوں کی صورتحال :

مؤرخین کے بقول جب انصار نے نضر اور عقبہ کا حال دیکھا تو انہیں تمام قیدیوں کے قتل ہونے کا خوف لا حق ہو گیا اور انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے قبیلہ اور خاندان والوں کے ستر آدمی تہہ تیغ کئے ہیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی جڑیں ہی کاٹناچاہتے ہیں کیا ؟ یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں ہمیں بخش دیں اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیں '' _ ابوبکر بھی فدیہ لینے پر زور دے کر کہہ رہا تھا : '' یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان اور قبیلہ ہے _ انہیں ایک مہلت اور دیں اور فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیں _ جس سے کفار کے مقابلے میں ہماری طاقت زیادہ ہو جائے گی '' _ یا یہ کہا : ''یہ لوگ ہمارے چچا زاد ، قبیلہ ، خاندان والے اور بھائی ہیں ''_ لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدیہ والی بات کو اتنا سخت نا پسند کیا کہ سعد بن معاذ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے جس پر اس نے کہا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مشرکین سے ابھی ہماری پہلی جنگ ہے اور مشرکین کی خونریزی ہمیں ان کے چھوڑ دینے سے زیادہ پسند ہے '' _ اور عمر نے کہا : '' یا رسول اللہ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جھٹلایا اور در بدر کیا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حکم فرمائیں تو ان کا سر قلم کردیں _ حضرت علیعليه‌السلام کو عقیل کا ، مجھے فلاں کا اور حمزہ کو عباس

____________________

۱)زہرالآداب ج ۱ص ۶۶_

۳۲۸

کا سرقلم کرنے کا حکم دیں کیونکہ یہ کافروں کے راہنما ہیں ''_ اسی مناسبت سے یہ آیت اتری :

( ما کان لنبی ان یکون له اسری حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا و الله یرید الآخرة و الله عزیز حکیم لو لا کتاب من الله سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم )

نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے مشرکوں کا اچھی طرح قلع قمع کئے بغیر انہیں قیدی رکھنا مناسب نہیں ہے_ تم لوگ تو عارضی دنیا چاہتے ہو لیکن خدا تمہاری آخرت اور عاقبت چاہتا ہے _ اورخدا با عزت اور دانا ہے _ اور اگر خدا پہلے تمہیں عذاب نہ کرنے کا وعدہ نہ کر چکا ہوتا تو تمہارے فدیہ لینے پر ضرور تمہیں بہت بڑے عذاب کا مزہ چکھا تا _

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدیہ لینے پر ان کا اصرار دیکھا تو انہیں یہ پیشین گوئی کی کہ فدیہ لینے کا انجام یہ ہوگا کہ جلد ہی ان قیدیوں کی مقدار میں مسلمان مار دیئےجائیں گے _ انہوں نے اس بات کو منظور کرلیا اور جنگ احد میں یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی جس کا ہم بھی بعد میں جائزہ لیں گے _

ان دستاویزات کے متعلق مندرجہ ذیل مآخذ ملاحظہ فرمائیں _ اگر چہ کہ ان میں سے اکثر منابع یہ دعوی کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوبکر والی بات کی طرف مائل ہوگئے تھے لیکن بعض منابع کہتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے قتل پر مصر رہے(۱) _

بہر حال معاملہ فدیہ لینے پر ٹھہرا اور ہر قیدی کے بدلے میں ایک سے چار ہزار دینار کا مطالبہ ہوا جسے قریش نے فورا یکے بعد دیگرے ادا کر کے اپنے قیدی چھڑا لئے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہر قیدی کو اس کو قید کرنے والے کے سپرد کردیا تھا_ اور وہ بذات خود فدیہ لے لیتا تھا(۲) البتہ بعض دستاویزات میں آیا ہے کہ سہیل بن عمرو

____________________

۱)ملاحظہ ہو : تاریخ طبری ج۱ ص ۱۶۹ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۹۰ صحیح مسلم ج۵ ص ۱۵۷ ، بحارالانوار ج ۱۹ ، اسباب النزول واحدی ص ۱۳۷ ، حیاة الصحابہ ج۲ ص ۴۲ ، کنز العمال ج ۵ص ۲۶۵ از احمد ، مسلم ، ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ابی شیبہ ، ابو عوانہ ، ابن جریر ، ابن منذر، ابن ابی حاتم ، ابن حبان ، ابو شیخ ، ابن مردویہ، ابو نعیم و بیہقی ، در منثور ج ۳ ص ۲۰۱ تا ص ۲۰۳ ، مشکل الآثار ج ۴ ص ۲۹۱ و ص ۲۹۲ ، المغازی واقدی ج۱ ص ۱۰۷ و ص ۱۰۸ و الکامل ابن اثیر ج۲ ص ۱۳۶ _

۲) المصنف ج ۵ ص ۲۱۱ _

۳۲۹

بدر کے قیدیوں کا فدیہ لے آیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا کہ قریش کاہم سے جنگ کا پھر کیا ارادہ ہے؟(۱)

ہمارے نزدیک صرف یہی قابل اطمینان تاریخی دستاویزات تھیں_

عذاب کے نزول کی صورت میں صرف عمر کی ہی جان بچتی ؟

لیکن ہمیں بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں جو مذکورہ بات کے بالکل ہی برعکس ہیں _ ان روایات میں آیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوبکر کے ہم خیال ہو گئے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر کے مشورے کو سخت نا پسند کیا _ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت اور عمر کی موافقت میں قرآن کی آیت نازل ہوئی_ دوسرے دن عمر جب صبح سویرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پاس آیا تو دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابوبکر دونوں رورہے ہیں _ اس نے رونے کا سبب پوچھا تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمایا: ''خطاب کے بیٹے کی مخالفت میں ہم پر بہت بڑا عذاب نازل ہونے والا تھا _ اگر عذاب نازل ہو بھی جاتا تو عمر کے سوا کوئی بھی نہ بچ پا تا''_نیز عبداللہ بن عمر کے ذریعہ ابن عباس سے مروی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں اس لئے رورہا ہوں کہ تمہارے ساتھیوں نے فدیہ لے کر مجھے بہت بڑی مصیبت میں مبتلا کردیا ہے _ ان کے عذاب کا مجھ پر نزول اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا _ کیونکہ خدا نے( ما کا لنبی ان یکون له اسری حتی یثخن فی الارض ) والی آیت نازل کی ہے ''(۲) _

لیکن ہم مذکورہ باتوں کو صحیح نہیں سمجھتے اور ہمارے پاس اس کے بطلان کے لئے کافی سے زیادہ دلائل موجود ہیں _ اور یہ ہو سکتا ہے کہ اسلام کا اظہار کرنے والے بعض جا ہلوں ، الزام تراشوں، دھوکہ بازوں اور جھوٹوں نے یہ روایتیں اس لئے گھڑی ہوں کہ وہ یہ بتا سکیں کہ اس بارے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنے مؤقف میں غلطی کی ہے اور مذکورہ آیت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی غلطی کی نشاندہی اور اس کی درستگی کے لئے نازل ہوئی ہے(۳)

____________________

۱) ایضا_

۲)ملاحظہ ہو: گذشتہ تمام منابع نیز فواتح الرحموت بر حاشیہ المستصفی غزالی ج۲ ص ۲۶۷ ، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۹۳ ، المستصفی غزالی ج ۲ ص ۳۵۶ و تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۱۶۹ )_

۳)قضایا فی التاریخ الاسلامی محمود اسماعیل ص ۲۰_

۳۳۰

بہر حال مذکورہ نظریئےے جھوٹے ہونے پر ہمارے پاس مندرجہ ذیل دلائل ہیں :

۱_یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ عذاب سے صرف عمر ہی کیوں نجات پائے گا ؟ پھر عمر کی موافقت کرنے والے سعد بن معاذکا کیا قصور تھا کہ اس پر بھی عذا ب نازل ہوتا؟ کیا اکثر لوگوں کے بقول وہ عمر کے موافقین میں سے نہیں تھا؟ بلکہ معتزلی کے مطابق تو سب سے پہلے ایسا مشورہ دینے والا یہی شخص تھا(۱) نیز ابن رواحہ کا کیا قصور تھا ؟ آخر وہ بھی تو عمر کے نظر یہ کا موافق تھا ؟(۲) نیز یہ بھی معقول نہیں ہے کہ آیت میں( تریدون عرض الدنیا ) نیز( لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم ) جیسے الفاظ کے مخاطب بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں_ کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ تو دنیا طلب تھے اور نہ ہی اس عذاب عظیم کے مستحق تھے_ اس لئے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم کوئی دیا اور اس کی وضاحت بھی کردی لیکن اس کے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (نعوذ باللہ) احکام خداوندی کی مخالفت کی _ اور ایسا عقیدہ رکھنا بہت بڑا گناہ اور اس کی سزا بھی بہت سخت سزا ہوگی(۳) _ اور اس بات پر دلیل کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قیدیوں کے قتل کا واضح حکم دیا تھا یہ ہے کہ فدیہ کے حلال ہونے کے حکم کا علم عبداللہ بن جحش والے واقعہ میں ہو چکا تھا جس میں ابن حضرمی ما را گیا _ کیونکہ اس میں عثمان بن مغیرہ اور حکم بن کیسان بھی قید کر لئے گئے تھے اور فدیہ لے کر انہیں آزاد کردیا گیا تھا اور خدا نے اس کی نفی اور تردید نہیں کی تھی _ اور یہ واقعہ جنگ بدر سے بھی ایک سال بلکہ اس سے بھی پہلے کا ہے(۴) جس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ بدر کے قیدیوں کا کوئی خاص معاملہ اور ان کے لئے کچھ خصوصی احکام تھے جنہیں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے اپنے اصحاب کو وضاحت کے ساتھ سمجھا بھی دیا تھا لیکن اصحاب اس حکم کی خلاف ورزی پر اصرار کرتے رہے جس کی وجہ سے وہ عذاب عظیم کے مستحق ٹھہرے لیکن پھر خدا نے لطف و کرم کرتے ہوئے انہیں معاف کردیا تھا_

____________________

۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۱۷۵ و ص ۱۷۶ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۶ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۹۲ ، سیرہ ابن ہشام ج۲ ص ۲۸۱ ، تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۸۱ و المغازی واقدی ج۱ ص ۱۱۰ و ص ۱۰۶ _ (۲)البدایہ و النہایہ ج ۲ ص ۲۹۷ ، تاریخ الطبری ج۲ ص ۱۷۰ ، الروض الانف ج ۳ ص ۸۳ ، اسباب النزول واحدی ص ۱۳۷ ، تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۹۳ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۹۲ و حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۵۳ از حاکم جس نے اسے صحیح قرار دیا ہے ، ابن مردویہ ، ترمذی و احمد_ (۳)ملاحظہ ہو : دلائل الصدق ج ۳ حصہ ۱ ص ۵۹_ (۴)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۹۲_

۳۳۱

ہماری مذکورہ بات پر ایک اور دلیل بعض روایتوں میں مذکور یہ بات بھی ہے کہ واقعہ بدر میں حضرت جبرائیلعليه‌السلام نازل ہوئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کے قیدیوں کا فدیہ لینے کے اس کام کو خدا نے سخت ناپسند کیا ہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں یہ اختیار دے دیں کہ یا وہ سب قیدیوں کو تہہ تیغ کردیں یا پھر اس شرط پر ان سے فدیہ لیں کہ ان قیدیوں کی تعداد میں یہ لوگ بعد میں مارے جائیں گے'' _ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ یہ ہمارا قوم و قبیلہ ہیں(۱) _ بلکہ ہم توان سے فدیہ لیں گے تا کہ اس طریقے سے ہمیں اپنے دشمنوں پر برتری حاصل ہو _ اور اس کے بدلے میں ہم اتنی تعداد میں اپنے آدمیوں کا شہید ہونا گوارا کرلیں گے''(۲)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ خود ہی فدیہ لینے پر مائل تھے اور اس پر بہت تاکید اور اصرار بھی کیا جس کے بعد جا کر انہیں فدیہ لینے کی اجازت ملی _ ان معروضات کے ساتھ ہم یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ خود رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انہیں قتل کرنا چاہتے تھے(۳)

نیز واقدی کہتا ہے کہ اس دن قیدیوں نے کہا : '' ہمیں ابوبکر کے حوالے کیا جائے کیونکہ قریش میں وہ ہمارا سب سے قریبی رشتہ دار اور صلہ رحمی کرنے والاہے اور (حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک بھی سب سے زیادہ اثر ور سوخ والا ہے '' _ ( یعنی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی بات ٹال نہیں سکیں گے)_مسلمانوں نے ابوبکر کو ان کے پاس بھیجا ، وہ ان کے پاس آیا اور کچھ گفتگو ہوئی جس کے بعد اس نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی بہتری اور مناسب راہ حل کے لئے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گا بلکہ ہر ممکن کوشش کرے گا _ اس کے بعد وہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاجوش اور غصہ ٹھنڈا کرنے لگا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نرم ہونے کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ قیدیوں کو فدیہ لےکر چھوڑ دینے کا کہتا رہا _ اس نے تین بار یہ عمل دہرا یا لیکن ہر مرتبہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

____________________

۱)یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مذکورہ بات کرنے والے مہاجرین تھے_

۲)تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۹۳ از فتح الباری از ترمذی ، نسائی ، ابن حبان و حاکم با روایت صحیح الاسناد ، المصنف عبدالرزاق ج ۵ ص ۲۱۰ ، البدایہ و النہایہ ابن کثیر ج ۳ ص ۲۹۸ و طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۴ حصہ ۱_ (۳)بطول مثال ملاحضہ ہو : الکامل ابن اثیر ج۲ ص ۱۳۶_

۳۳۲

اس کو کوئی مثبت جواب نہیں دیا(۱)

گذشتہ معروضات کی روشنی میں کیا ان کا یہ کہنا پھر بھی صحیح مان لیا جائے گا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوبکر کے ساتھ بیٹھ کر ( نعوذ باللہ ) اپنے آپ پرور رہے تھے اور اگر عذاب نازل ہو جاتا تو عمر کے سوا سب ہلاک ہو جاتے (حتی کہ نعوذ باللہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بھی)؟

۲_ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شروع سے ہی ابوبکر کے نظریئےے موافق تھے اور خود ان کے بقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوبکر کے ساتھ بیٹھے اپنے اوپر رورہے تھے ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر سے یہ کیوں کہا کہ '' ان لوگوں کے عذاب کا مجھ پر نزول اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا''؟ کیونکہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نظریہ وہی ابوبکر والا تھا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (نعوذ باللہ) مستحقین عذا ب سے اپنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو علیحدہ کیوں کیا؟ پھر (اس صورت میں)یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (نعوذ باللہ) ان لوگوں کی طرح مستحق عذاب نہ ہوں ؟ حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی تو ان کے ہم نوا تھے اور ان کے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خیالات ایک ہی تھے؟؟_

۳_ ان مذکورہ باتوں کو ما ن لینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم عملی طور پر :

( و ما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی ) (۲)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں بولتے اور جو کچھ بھی بولتے ہیں وہ وحی ہی ہوتی ہے _

جیسی آیات کو جھٹلانے کے مرتکب ہوں _ اس صورتحال میں پھر تو اللہ تعالی کا( اطیعوالله و اطیعو الرسول ) (۳) کہہ کر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا حکم دینے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا کہ مسلمان تو خدا کا حکم بجا لاتے ہوئے اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کریں لیکن خدا اس کے بدلے میں انہیں جھڑک دے اور انہیں عذاب کی دھمکی دے _ اس صورت میں تو(نعوذ باللہ )خدا کو اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جھڑک کر دھمکی دینی چاہئے تھی لیکن مسلمانوں کی تعریف و تمجید کرنی چاہئے تھی کیونکہ مسلمانوں نے تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی اطاعت کرکے اپنے فریضے پر عمل کیا تھا _

____________________

۱) المغازی واقدی ج۱ ص ۱۰۷ و ص۱۰۸ _ (۲)نجم /۳و۴_ (۳)نساء /۵۹_

۳۳۳

۴_رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو فدیہ لینے کا صرف مشورہ دینے پر وہ لوگ عذاب اور سزاکے مستحق نہیںہو سکتے تھے کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں نے اپنے لئے ایک نامناسب چیز کا انتخاب کیا تھا (اور ابھی فدیہ لیا تونہیں تھانہ ہی فی الحال کوئی بات پکی ہوئی تھی اور اظہار رائے کی تو ہر کسی کو آزادی ہونی چاہئے)یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاںضرور کوئی اور بات تھی کہ جس کی مخالفت پروہ مستحق عذاب ٹھہرے تھے _اور وہ بات یقیناًیہ تھی کہ انہوں نے فدیہ لینے پر اصرار کرکے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی تمام تر تصریحات اور واضح بیانات کے باوجود وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مخالفت اور ارادہ الہی کے برخلاف دنیاوی چیزوں کے حصول پر اصرار کے مرتکب ہوئے تھے_ کیونکہ ارشاد خداوند ی ہے:( تریدون عرض الدنیا و الله یرید الآخرة ) نیز کسی چیز کو اچھے طریقے سے بیان کرنے سے پہلے اس کی مخالفت بھی موجب عذاب اور سزا نہیں ہوتی _

بہرحال خدانے ان پر لطف و کرم کرتے ہوئے ان کی اس مخالفت کو معاف فرما دیا اور ان کی دلجوئی کے لئے ان کے لئے فدیہ لینا جائز قرار دے دیا _حالانکہ اس کے نتائج بھی نہایت بھیانک رکھے لیکن وہ دنیا کی محبت میںاندھے ہوگئے اور اس کے بھیانک نتائج کو بھی ساتھ ہی قبول کرلیا_البتہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ بعض مہاجرین کا فدیہ لینے پر اصرار صرف دنیا پرستی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہو کہ ان پر ''صنادید قریش''(قریش کے سرداروں)کا قتل نہایت شاق تھا _ کیونکہ قریش کے ساتھ ان کے دوستانہ ،مفاد پرستانہ اور رشتہ دار انہ تعلقات تھے اور ان کے اس موقف کو وہاںموجود مسلمانوں کی ایک سادہ لوح جماعت نے بھی بلاسوچے سمجھے اپنا لیا تھا _پس بعض لوگوں کی مشرکوںکے ساتھ مہربانی اور مال کمانے کے شوق نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مخالفت پرا کسانے کے ساتھ ساتھ انہیں عذاب خداوندی کا مستحق بھی ٹھہرایا_ اور یہ لوگ اپنی نیت میں فتور ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مخالفت پر اصرار اور نظریات ،اقوال اور افعال میں منافقت کی وجہ سے عذاب خداوندی کے مستحق ٹھہرے_خاص کرجب یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ کچھ منافقین بنی ہاشم کے افراد کو قتل کرنے کا مشورہ دے رہے تھے جنہیں مشرکین زبر دستی اپنے ساتھ جنگ میں گھسیٹ لائے تھے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا پہلے

۳۳۴

ہی انہیں قتل نہ کرنے کا حکم دے چکے تھے _نیز یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایسا مشورہ دینے والے شخص کے قبیلے کا کوئی بھی فرد جنگ بدر میں شریک نہیں ہواتھا جس سے ہمیں ان کے دلی حالات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے ،لیکن اگر اظہار رائے میں صرف غلطی پائی جائے اور اس میں یہ مذکورہ خامیاں نہ ہوں تو یہ چیز انہیں عذاب کا مستحق نہیںٹھہراتی _یہاںاس بات کی تشریح میں کچھ اور باتیںبھی ذکر ہوئی ہیں(۱) جن کے پختہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے ان کو ذکر نہیں کیا_

۵_روایات میں ملتا ہے کہ جنگ بدر کے ختم ہونے کے بعد مسلمان جلدی جلدی مال غنیمت لوٹنے میں لگ گئے _جس پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''تم سے پہلے جس امت نے بھی سرداروں کو قتل کیا ہے اس کے لئے مال غنیمت لینا حرام تھا _ماضی میں ہرنبی اور اس کے ساتھیوںکو جو بھی مال غنیمت ملتا وہ اس کو اکٹھا کرکے ایک جگہ رکھ دیتے جس کے بعد آسمان سے اس پر آگ نازل ہوتی تھی اور سارے مال غنیمت کو جلا کر راکھ کردیتی تھی''_ جس پر خدا نے یہ آیت نازل کی :

( لولا کتاب من الله سبق لمسکم فیما اخذتکم عذاب عظیم فکلوا مما غنمتم حلالاً طیبا ) (۲)

اگر خدا پہلے (عذاب نہ کرنے کا ) وعدہ نہ کر چکا ہوتا تو تمہیں بہت بڑا عذاب جکڑ لیتا _ لیکن اب تم مال غنیمت کھا سکتے ہو تمہارے لئے حلال اور پاکیزہ ہے ''اور طحاوی نے اسی آیت کے شان نزول میں مذکورہ روایت کو زیادہ مناسب جانا ہے_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتے ہیں ؟

رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منسوب گذشتہ باتوں نیز اس دعوے کے بطلان کے بعد کہ گذشتہ آیت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سرزنش

____________________

۱)ملاحظہ ہو: دلائل الصدق ج۳حصہ ۱ص ۵۵و۶۰_

۲)مشکل الآثار ج۴ص۲۹۲وص۲۹۳_

۳۳۵

کرنے کے لئے اتری ہے ،یہ بھی معلوم ہو جاتاہے کی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم پر اجتہاد اور اس میں غلطی کے جواز کا بعض لوگوں کا دعوی اور اس دعوے پر مذکورہ آیت سے استدلال بھی صحیح نہیں ہے _کیونکہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے اور وحی کے نازل ہونے پر ہی بولتے ہیں_اس لئے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے منسوب گذشتہ باتیں بے بنیاد اور باطل ہیں_اس کے علاوہ ایسے قطعی دلائل بھی پائے جاتے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہر قول و فعل حق ہوتا ہے اور حقیقت ،شریعت اور خدا کے قطعی احکام کے عین مطابق ہوتا ہے _

سعد بن معاذ یا عمربن خطاب ؟

طبری نے محمد بن اسحاق کے ذریعہ روایت کی ہے کہ جب آیت (ما کان لنبی ان یکون لہ اسری) اتری تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمایا:''اگر آسمان سے کوئی عذاب نازل ہو جاتا تو (اصحاب سے)صرف سعد بن معاذ ہی بچ سکتا تھا کیونکہ اس نے کہا تھا کہ یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان لوگوں کو زندہ رکھنے سے مجھے ان کی خونریزی زیادہ پسند ہے'' _(۱) شاید یہی روایت ہی صحیح ہے لیکن کئی ایسے وجوہات کی بنا پر اسے خلیفہ ثانی کے حق میں بدل دیا گیا ہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اور اسے بھی ہم نے صحیح اس لئے کہا ہے کہ یہ بہترین اور پختہ مشورہ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مرضی کے بھی مطابق تھا _لیکن عمر اور دوسروں کے مشوروںپر گہری دقت اور بحث کی ضرورت ہے جس کے متعلق ہم بعد میں گفتگو کریں گے _کیونکہ یہ مشورے اچھی نیت سے نہیں دیئےئے تھے اور ہو سکتا ہے سب یا کچھ مشورے خود مشرکوں کے ایماء پر دیئےئے ہوں_جس طرح و اقدی نے اس بات کا تذکرہ کیا بھی ہے _اور ابوبکر اور دوسرے انصاریوںکے بارے میں بھی گذر چکا ہے کہ وہ حصول مال اور قریش کی دشمنی کی شدت کم کرنے کی خواہش میں فدیہ لینے پر اصرار کررہے تھے _نیز ان کا مدعا یہ بھی تھا کہ ان میں ہمارے بھائی ،رشتہ داراور خاندان والے بھی ہیں _ نیز ابو بکر نے مشرک قیدیوں سے یہ وعدہ کر رکھاتھا کہ وہ ان کے لئے اپنی سی کوشش ضرور کرے گا_ یہ بات بھی واقدی نے ہی بتائی ہے_

____________________

۱) تاریخ طبری ج۲ ص ۱۷۱و الثقات ج۱ص ۱۶۹_

۳۳۶

یہ سب لوگ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہر ممکن طریقے سے اپنی بات کا قائل کرنے لگے اور اس کے لئے وہ جذباتی ہتھکنڈے استعمال کرنے پر بھی تل گئے اور یہ کہنا شروع کردیا کہ ''یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان ،رشتہ دار قوم اور قبیلہ ہیں کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی جڑیں کاٹنا چاہتے ہیں ؟''_اورابو بکر نے تو اس بات کے لئے مصلحت پسندانہ دلیل قائم کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان فدیہ لیں گے تو مشرکوں کے مقابلے میںطاقتور ہو جائیں گے _لیکن نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم ان کی باتیں ماننے سے انکار کرتے رہے کیونکہ ان کی باتیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قانع نہ کر سکیں _اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سعد بن معاذ کی رائے کو مناسب جانتے تھے البتہ اس بات کے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مد نظر اور بھی باتیں تھیں جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بالکل عیاں تھیں_اس لئے مذکورہ آیت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے موقف کی تائید میں نازل ہوئی لیکن انہیں بھی اس بھیانک نتیجے کے ساتھ فدیہ لینے کی اجازت دی گئی کہ ان قیدیوں کے بدلے میںاتنی تعداد میں مسلمان قتل ہوں گے _

قیدیوں کا قتل ہی زیادہ مناسب تھا:

اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ مشرک قیدیوں کا قتل ہی زیادہ مناسب اور صحیح تھا _ اور اس دعوی کے ہمارے پاس مندرجہ ذیل دلائل ہیں:

۱_ قیدیوں میں قریش کے کئی بڑے بڑے سردار بھی تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو بالکل ہی خبیث افراد تھے انہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے شعلے بھڑکائے تھے ،انہیں دربدر اور جلا وطن کیا تھا ، ان کی ہر طرح سے توہین کی تھی اور انہیں مختلف قسم کی اذیتیں اور تکلیفیں دی تھیں_ یہ ایسے متکبر لوگ تھے جو نہ تو اپنی زیادتیوں سے باز آنے والے تھے اور نہ اس دین کو قبول کرنے والے تھے _بلکہ وہ تو اسلام کی جڑیںکاٹنے کے درپے تھے اور کسی منطقی اور معقول پیشکش کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے _اور شکست اور قید کی ذلت اٹھانے کے بعد تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کے دلوں میں کینہ مزید بڑھ گیا تھا_اور مسلمان (اگر زندہ رہتے تو) صرف دو طریقوں سے ہی ان سے چھٹکارا پا سکتے تھے جس کی طرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اشارہ فرما

۳۳۷

دیا تھا _جہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو یہ بتا دیا تھا کا اگر وہ فدیہ لیں گے تو انہیں ان کی تعداد کے برابر قتل ہونا پڑے گا _

۲_ اور گذستہ بات سچی بھی ثابت ہو گئی کیونکہ بعد میں جنگ احد و غیرہ میں نیز مختلف مراحل میں مسلمانوں کو مسلسل اذیتوں میں مبتلا کرنے میں انہی افراد کا زیادہ ہاتھ اور موثر کردار تھا_ اسی لئے تو سعد بن معاذ کی یہ بات نہایت ہی مناسب اور بہترین تھی کہ ''مشرکوں سے ہماری یہ پہلی جنگ ہے اور ان آدمیوں کو زندہ رکھنے سے زیادہ مجھے ان کی خونریزی پسند ہے '' _اور بعض کا نظریہ تو یہ ہے کہ خدانے تا کید کے ساتھ مشرکوں کو قتل کرنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ مسلمانوں کو یہ باور ہوجائے کہ حالات جیسے بھی ہوں ،مال کی طرف دیکھنا اور اس کی خواہش کرنا نہایت ناپسندہ عمل ہے _مگر یہ کہ وہ بہت بڑے ہدف یعنی دین کی خدمت کے لئے ہو_

۳_ اگر وہ اسلام قبول نہ کرتے تو ان کے کر توتوں کی سزامیں ان کا قتل بھی قریش پر ایک کامیابی اور ایک کاری فوجی اور روحی وار ہوتا اور اس سے عمومی لحاظ سے مشرکوں کا دبدبہ اور شان و شوکت بھی کم ہو جاتی اور ان کے حمایت کرنے والے یہودیوںاور غطفان ،ہوازن اور ثقیف و غیرہ کے عرب مشرکوں کو ایک دھمکی اور الٹی میٹم ہوتا جس سے وہ انہیں چھوڑ کر بھاگ جاتے _اس صورت میں مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا کہ وہ لوگ یہ سمجھ لیتے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اپنے عقیدے اور دین کی خاطر اپنے قبیلے اور قوم کا لحاظ نہیں کیا اور رسالت کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالنے اور نور الہی کو بجھانے کی کوشش کرنے پر ان سب کوتہہ تیغ کردیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نور خدا کو بجھانے اور اپنے دین اور دین کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے دوسرے لوگوں کا بھی کوئی لحاظ نہیں کریں گے_ اور یہ بات پورے جزیرة العرب کے مشرکوں ،یہودیوں اور قریشیوں کے دلوں میں ناامیدی پیدا کرنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دھاک بٹھانے میں نہایت مؤثر ہوتی اور پھر دوسروں کو یہ کہنے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نہایت آسانی ہوتی کہ ''تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم اسلام سے دشمنی اور مخاصمت ترک کردو کیونکہ اس دین کے مقابلے میں آنے کا نتیجے صرف تمہاری تباہی اور بربادی کی صورت میں ہی نکلے گا ''_

۳۳۸

۴_ ان لوگوں کے قتل سے انصار کو یہ اطمینان ہو جاتا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قبیلے والے جب تک اپنے شرک پر ڈٹے ہوئے ہیںآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی بھی ان سے صلح نہیں کریں گے اور ان کا ساتھ نہیںدیں گے _ظاہر ہے اس کے نتیجے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے دینی تعلیمات کی بنا پر دینی رابطوں کوسب تعلقات سے زیادہ محکم سمجھتے ہیں ، عقیدے کی قرابت داری کو ہی اصل قرابت سمجھتے ہیں اور اسلامی اور دینی رشتہ داری کو ہی اصل رشتہ داری جاننے ہیں اس بنا پر انصار کے دلوں میں کبھی بھی کسی قسم کے خدشے اور وسوسے جنم نہ لیتے _ جبکہ انہوں نے اسی بات کا اظہار بیت عقبہ اور پھر فتح مکہ کے موقع پر بھی کیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شاید اپنی قوم سے مصالحت کرلیں گے یا اپنے رشتہ داروں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں

قیدیوں کے بارے میں عمر کا موقف:

اس واقعہ میں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ :

۱_عمربن خطاب نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے یہ خواہش کی تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حکم فرمائیں کہ علیعليه‌السلام اپنے بھائی عقیل کی گردن اڑادے اورحمزہ اپنے بھائی عباس کاسر قلم کرے اور وہ ان لوگوں کو کافروں کا سردار بتارہا تھا _اور یہ نہایت ہی عجیب و غریب خواہش ہے البتہ قریش کے فرعونوں،متکبروںاور بڑے بڑے سرداروں کے متعلق اس کی خاموشی اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور معنی خیز ہے ؟_خاص کر جب یہ مشاہدہ کیا جائے کہ اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سناتھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے لشکر کو (اور یہ بھی تو اسی فوج میں شامل تھا ) بنی ہاشم خاص کر مذکورہ دونوں شخصیات اور چند دوسرے افراد کو قتل نہ کرنے کا حکم دیا تھا ،کیونکہ انہیں اس جنگ میں زبر دستی گھسیٹا گیا تھا_ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ انہوں نے مکہ میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھر پور دفاع کیا تھا ،شعب ابی طالب میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ داخل ہوئے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاطر بہت تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں _

۲_ جناب عمر کے قبیلے یعنی قبیلہ بنی عدی نے اس جنگ میں حصہ نہیں لیاتھا(۱)

____________________

۱)ملاحظہ ہو : تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۴۳، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۱،المغازی واقدی ج ۱ ص ۴۵ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۱ تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۳۱۴ و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵ اور تاریخ کی کوئی بھی کتاب جہاں جنگ بدر کے چھڑنے سے پہلے کچھ لوگوں کے پلٹنے کا ذکر ہوتا ہے_

۳۳۹

پس اسے اس کی کیا پروا تھی؟ چاہے جس کے جگر پر بھی ضربت لگے _جب تک اس آدمی کے قوم ،قبیلہ اور رشتہ داروں کو کوئی گزند نہیں پہنچتی تب تک چاہے ساری دنیاہی قتل ہو جائے اس کے لئے کوئی اہمیت کی بات ہی نہیں ہے _یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر کی ''فلاںکو میرے حوالے کردیں'' والی بات کو ذکر کرتے وقت بعض لوگوں کا ''وہ عمر کے قریب تھا ''کے الفاظ کا اضافہ مضحکہ خیز اور نادرست ہے حالانکہ عمر کی بات تبانے والی صرف بعض روایتوں میں یہ الفاظ ذکر ہوئے ہیں _اس لئے کہ جنگ بدر میں عمر کا کوئی رشتہ دار تھاہی نہیں البتہ شاید اس کا کوئی سسرالی رشتہ دار موجود ہو لیکن اگر کوئی تھا بھی تو ان کے نزدیک یہ سسر الی رشتہ داری کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی _ بہر حال ان پہلوؤں پرہم سے پہلے جناب عباس بن عبد المطلب نے عمر پر ایسا برا گمان کیا ہے _

اور وہ یوں کہ فتح مکہ کے موقع پر جب جناب عمر ابوسفیان کے خلاف بڑھ چڑھ کر باتیں کررہا تھا اور اس کے قتل پر بار بار اصرار کررہا تھا تو عباس نے اس سے کہا : '' نہیں عمر ٹھہرو اگر وہ بنی عدی بن کعب کا آدمی ہوتا تو تم ایسا کبھی نہ کہتے _ لیکن تمہیں پتاہے کہ یہ بنی عبد مناف کا آدمی ہے''(۱)

۳_ اپنے قریبوں اور رشتہ داروں کا اپنے ہاتھوں سے قتل ایک ایسا قبیح فعل ہے جس سے ذہن متنفر ہوتاہے اور بسا اوقات لوگوں کی اسلام سے دوری کا باعث بھی بن سکتاہے بلکہ انہیں اس دین میں داخل ہونے کے متعلق سوچنے سے بھی منع کردیتاہے جس میں انہیں اپنے بھائیوں کو قتل کرنا پڑے _ بلکہ ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کو مرتد ہونے پر بھی تیار کرسکتاہے، جب وہ یہ دیکھیں گے کہ دوسروں کے ہوتے ہوئے بھی انہیں ہی اپنے دوستوں ، بھائیوں ، پیاروں اور رشتہ داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے _

نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم بھا گ جانے والے قیدی کو قتل نہیں کرتے

واقدی کہتاہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جنگ بدر سے واپس ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مشرکین کے قیدی بھی

____________________

۱)مجمع الزوائد ج۶ ص ۶۷از طبرانی اور اس کی سند کے سب راوی صحیح بخاری کے افراد ہیں و حیاة الصحابہ ج۱ ص ۱۵۴ _

۳۴۰