الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242112 / ڈاؤنلوڈ: 6990
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جملہء شرطیہ میں ”فائے تفریع“

ایک اورنکتہ جو”اولوالامر“کے معنی کو ثابت کرنے کے لئے بہت مؤثرہے وہ جملہئ شرطیہ میں اطیعو اللّٰہ واطیعوالرّسول واولی الامر کے بعد”فائے تفریع“کا پایا جا نا ہے۔

یہ جملہء شرطیہ یوں ایاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه و رسول ) اختلافی مسائل کوخدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف پلٹانے کاوجوب،خدا،رسولاوراولی الامرکی اطاعت کے وجوب پرمتفرع ہواہے،اوراس بیان سے بخوبی سمجھ میں آتاہے کہ اختلافی مسائل کوخدااوررسول (ص)ی طرف پلٹانے میں اولوالامرکی اطاعت دخالت رکھتی ہے۔یہ تفریع دوبنیادی مطلب کی حامل ہے:

۱ ۔اولوالامرکی عصمت :اس لحاظ سے کہ اگراولوالامرخطااورگناہ کامرتکب ہو گااور اختلافی مسائل میں غلط فیصلہ دے گا تواس کے اس فیصلہ کاکتاب وسنت سے کوئی ربط نہیں ہوگاجبکہ تفریع دلالت کرتی ہے کہ چونکہ اولی الامرکی اطاعت ضروری ہے لہذا چاہیئے کہ،اختلافی مسائل کوخدااوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا یا جائے۔

۲ ۔کتاب وسنت کے بارے میں کامل ووسیع معلو مات:اس لحاظ سے اگراولی الامر کتاب وسنت کے ایک حکم سے بھی جاہل ہواوراس سلسلہ میں غلط حکم جاری کرے تواس حکم میں اس کی طرف رجوع کرناگویاکتاب وسنت کی طرف رجوع نہ کرنے کے مترادف ہے۔جبکہ”فائے تفریع“سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اولی الامرکی اطاعت مسلسل اختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف پلٹانے کاسبب ہے۔اس لئے آیہء شریفہ میں فائے تفریع، کاوجوداولی الامر کے تعین کے لئے کہ جس سے مرادائمہ معصومین (ع)واضح قرینہ ہے۔

۱۰۱

مذکورہ نکات سے استفادہ کی صورت میں اب تک درج ذیل چندمطالب واضح ہوگئے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں ”اولی الامر“سے مرادجوبھی ہیں ان کاامرونہی کر نے میں گناہ اورخطاسے معصوم ہونا ضروری ہے۔

۲ ۔اولی الامرکا انطباق اہل حل وعقدپر صحیح ودرست نہیں ہے۔)جیساکہ فخررازی کا نظریہ ہے)

۳ ۔اب تک جوکچھ ثابت ہوچکا ہے اس کے پیش نظراگر”اولی الامر“کے بارے میں ہمارے بیان کئے گئے گیارہ اقوال پرنظرڈالیں،توآیہء کریمہ کی روشنی میں ”اولی الامر“سے مراد تنہاشیعہ امامیہ کا نظریہ قابل قبول ہے اوریہ امران کے علاوہ دوسروں کے عدم عصمت پراجماع ہونے کی بھی تاکیدکرتاہے۔

ظالم حکام اولوالامرنہیں ہیں

اولوالامرکے مفہوم میں اشارہ کیاگیاکہ اولوالامرمیں صرف وہ لوگ شامل ہیں،جوامت کی سرپرستی ان کے امور کے مالک ہوں،اوریہ عنوان ان پر بھی صادق ہے کہ جنھیں ظلم اورناحق طریقہ سے امت کی سرپرستی سے علیحدہ کیاگیاہے۔اس کی مثال اس مالک مکان کی جیسی ہے،جس کے مکان پرغاصبانہ قبضہ کرکے اسے نکال باہرکر دیاگیاہو۔

دوسرانکتہ جو”اولوالامر“کے مقام کی عظمت اور اس کے بلند مر تبہ ہونے پر دلالت کرتا ہے وہ”اولوالامر“کاخداورسول (ص)کے او پرعطف ہوناہے۔مطلقاً وجوب اطاعت میں خدا ورسول کے ساتھ یہ اشتراک و مقا رنت ایک ایسا رتبہ ہے جوان کے قدرومنزلت کے لائق افراد کے علاوہ دوسروں کے لئے میسرنہیں ہے۔

۱۰۲

یہ دواہم نکتے)مفہوم”اولوالامر“اوروجوب اطاعت کے سلسلہ میں الوالامرکا خداورسولپرعطف ہونا) خود”اولوالامر“کے دائرے سے ظالم حکام کے خارج ہونے کوواضح کرتا ہے۔

زمخشری کاتفسیرالکشاف(۱) میں اس آیہء شریفہ کے ذیل میں کہناہے:

”خدااوررسول (ص)ظالم حکام سے بیزارہیں اوروہ خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونے پرعطف کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ان کے لئے شائستہ ترین نام”اللصوص المتغلبہ“ہے۔یعنی ایسے راہزن کہ جو لو گوں کی سر نوشت پرزبردستی مسلط ہوگئے ہیں۔“

اس بیان سے معروف مفسرقرآن،طبری کے نظریہ کاقابل اعتراض ہوناواضح ہوجاتاہے،جس نے ظالم کام کو بھی اولوالامر کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

اولوالامرکے بارے میں طبری کا قول

مناسب ہے کہ ہم اس سلسلہ میں طبری کے بیان اورا ستدلال کی طرف اشارہ کریں:

اٴولی الاٴقوال فی ذلک بالصواب قول من قال:”هم الاٴمراؤالو لاةلصحة الاٴخبارعن رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالاٴمربطاعته الاٴئمّة والولاةفیماکان طاعة وللمسلمین مصلحة“

____________________

۱۔الکشاف،ج۱،ص۲۷۷۔۲۷۶،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۳

کالذی حدثنی علی بن مسلم الطوسی قال:ثنا ابن اٴبی فدیک قال:ثنی عبداللّٰه ابن محمدبن عروة،عن هشام بن عروة،عن اٴبی صالح السمان،عن اٴبی هریرة:اٴن النبیّ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسلم-قال:سیلیکم بعدی ولاة،فیلیکم البرّببرّه،والفاجر بفجوره

فاسمعوالهم واٴطیعوافی کل ماوافق الحق وصلوّاوراء هم!فإن اٴ حسنوا فلکم ولهم،وإن اٴساؤوافلکم وعلیهم!

وحدثنا ابن المثنی قال:ثنا یحیی بن عبیداللّٰه قال:اٴخبرنی نافع،عن عبداللّٰه،عن النبیّ-( ص) -قال:علی المرء المسلم الطا عة فیما اٴحبّ وکره إلاّاٴن یؤمر بمعصیةٍ،فمن اٴمربمعصیة فلا طاعة حدثناابن المثنی قال:ثنی خالدبن عبیداللّٰه،عن نافع،عن اٴبی عمر،عن النبیّ-( ص) -نحوه(۱)

طبری نے تمام اقوال میں سے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ جس میں ”اولوالامر“سے مرادمطلق حکام)نیک وبد)لیا گیاہے۔اوراس سلسلہ میں ان دواحادیث سے استدلال کیا ہے،جن میں حکمران اور فرمانرواؤں کی اطاعت کو مطلق طور پر ضروری جا ناکیا گیا ہے۔

نہ صرف”اولی الامر“کا مفہوم اوراس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونااس نظریہ کو مسترد کرتا ہے،بلکہ ایسی صورت میں طبری کے نظریہ پر چند اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں:

پہلا اعتراض:یہ احادیث قابل اعتبار اورحجت نہیں ہیں،کیونکہ حدیث کی سند میں پہلے ابن ابی فدیک کا نام ہے کہ اہل سنّت کے رجال وحدیث کے ایک امام،ابن سعدکا اس کے بارے میں کہنا ہے:

__________________

۱۔تفسیرطبری،ج۵،ص۹۵،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۴

کان کثیرالحدیث ولیس بحجة(۱)

”اس سے کافی احادیث رو ایت ہوئی ہیں اور)اس کی بات) حجت نہیں ہے“

ابن حبان نے اسے خطا اوراشتباہ کرنے والا جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عروة ہے کہ جس کا علم رجال کی معروف کتابوں میں موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں بھی بعض ضعیف اور مجہول افراد پائے جاتے ہیں،جیسے یحییٰ بن عبیداللہ،کے متعلق اہل سنت کے ائمہء رجال جیسے ابوحاتم،ابن عیینہ، یحییٰ القطان،ابن معین ،ابن شیبہ،نسائی اوردار قطبنی نے اسے ضعیف اور قابل مذمت قراردیا ہے۔(۳)

دوسرااعتراض:ان احادیث کا آیہء ”اولی الامر“ سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ احادیث اس آیت کی تفسیر نہیں کرتی ہیں۔

تیسرااعترض:طبری کی یہ تفسیرقرآن مجید کی دوسری آیات سے تناقص رکھتی ہے،من جملہ یہ آیہء شریفہ:

( لاتطیعوااٴمرالمسرفین الذین یفسدون فی الاٴرض ولا یصلحون ) (شعراء/ ۱ ۵۲۔۱۵۱)

”اورزیادتی کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو،جوزمین میں فساد برپاکرتے ہیں اوراصلاح کے در پی نہیں ہیں“

علماء بھی اولوالامرنہیں ہیں

”اولوالامر“کا مفہوم سرپرستی اورولایت کو بیان کرتا ہے اورعلماء کا کردار لوگوں کووضاحت اور آگاہی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ :

___________________

۱۔الطبقات الکبری،ج۵،ص۴۳۷،داربیروت للطباعةوالنشر

۲۔کتاب الثقات،ج۹،ص۴۲،مؤسسةالکتب الثقافیة

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۰۵

ایک تو،”اولوالامر“کے عنوان سے صاحبان علم وفقہ ذہن میں نہیں آتے ہیں مگریہ کہ خارج سے اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود ہو جس کے روسے علماء اوردانشوروں کو سر پرستی حاصل ہو جائے اوریہ دلالت آیت کے علاوہ ہے جنہوں نے اس قول کو پیش کیاہے،وہ اس لحاظ سے ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں علماء کی اطاعت کرکے ان کی راہنمائی سے استفادہ کریں۔

دوسرے یہ کہ:اس آیہء شریفہ سے قبل والی آیت میں خداوند متعال نے حکام کے فرائض بیان کئے ہیں:

( وإذا حکمتم بین الناس اٴن تحکموا بالعدل )

”جب کوئی فیصلہ کرو توانصاف کے ساتھ کرو“

زیر بحث آیت میں ”اولوالامر“ کی نسبت لوگوں کی ذمہ داریوں کوبیان کیا گیا ہے اوراس سے واضح ہوتا ہے کہ ”اولوالامر“سے مراد مذکورہ صفات کے حامل وہی حکام ہیں،نہ علمائ

تیسرے یہ کہ:اگراس سے مراد علماء ہیں توکیا یہ علماء بہ طور عام اور بہ حیثیت مجموعی مراد ہیں یا یہ کہ بہ حیثیت استغراقی،ان میں ہرفرد ولی امر ہے اوراس کی اطاعت واجب ہے؟

اگر پہلا فرض مراد ہے ،تواس پر اعتراض اہل حل وعقد والے قول اورفخررازی کے نظریہ کے سلسلہ میں بیان ہوچکا ہے،اوراگردوسری صورت مراد ہے توآیہء شریفہ میں مطلقا طور پر کس طرح ان کی اطاعت واجب ہو ئی ہے،جبکہ اگرایسا ہے تواس کے ضوابط اورشرائط قرآن وحدیث میں بیان ہونے چاہئے تھے۔

چوتھے یہ کہ: پچھلی آیت میں ”فائے تفریع “کی وضاحت میں آیہء شریفہ کے بعد والے جملہ میں آیاہے:( فإنّ تنازعتم فی شیئٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) یہ جملہ فائے تفریع کے ذریعہ پہلے والے جملہ سے مر بوط ہے کہ اس کے معنی اختلافی صورت میں خدا اوررسول کی طرف رجوع کر ناخدا ورسول نیز اولی الامر کی مطلقاً اطاعت کے وجوب پر متفرع ہے۔ اس جملہ سے واضح ہو جا تاہے کہ اختلافی مسائل میں خدااوررسول کی طرف رجوع کر نا ضروری ہے،یہ رجوع کر نا’اولوالامر“ کی اطاعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔اوربعد والے جملہ میں لفظ ”اولوالامر“کو نہ لانے کا مقصد بھی اسی مطلب کو واضح کرتا ہے یعنی تنہا”اولوالامر“ ہے جوکتاب وسنت کے معانی و مفاہیم نیز تمام پہلوؤں سے آگاہ ہے لہذا اختلافی مسائل میں اس کی طرف رجوع کر نا درحقیقت خدااوررسولکی طرف رجوع کر نا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مطلقاً یعنی بہ طور کلی علماء ایسے نہیں ہیں سواء ان لو گوں کے کہ جو منجانب اللہ گناہ وخطاء سے محفوظ ہیں۔

۱۰۶

آیہء کریمہ کے بارے میں چند دیگر نکات

اس قول کے بارے میں کہ”اولوالامر“سے مراد علماء ہیں ،مفسرین کے بیانات میں بعض قابل غور باتیں دیکھنے میں آتی ہیں ،شائستہ نکات کو ملحوظ رکھتے ہو ئے آیت میں غور وخوص ان اعتراضات کو واضح کر دیتا ہے پہلا نکتہ: فإنّ تنازعتم میں مخاطبین وہی ہیں جو( یاایّها الذین آمنوا ) میں مخاطبین ہیں۔”آیت میں مخاطب مو منین “کا اولوالامر کے درمیان تقابل کا قرینہ متقاضی ہے کہ”الذین آمنوا“”اولوالامر“ کے علاوہ ہوں کہ جس میں حاکم و فر مانروااولوالامر اور مطیع وفرمانبردارمومنین قرار دیئے جائیں ۔

دوسرانکتہ:اس نکتہ کے پیش نظر،مو منین کے اختلا فات ان کے آپسی ا ختلا فات ہیں نہ ان کے اور اولوالامر کے درمیان کے اختلافات۔

تیسرانکتہ: یہ کہ مو منین سے خطاب مورد توجہ واقع ہو اور اس کو اولی الامر کی طرف موڑ دیا جائے ،یہ سیاق آیت کے خلاف ہے اوراس تو جہ کے بارے میں آیہء شریفہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

۱۰۷

چند نظریات پرتنقید

قرطبی اورجصّاص نے جملہ( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) کواس پر دلیل قراردیا کہ”اولوالامر“ سے مرادعلماء ہیں،اورچونکہ جو علماء نہیں ہیں وہ خدا ورسولکی طرف پلٹانے کی کیفیت کو نہیں جانتے ہیں،اس لحاظ سے خدائے تعالیٰ نے علماء کوخطاب کیا ہے اورانھیں جھگڑے اوراختلاف کی صورت میں حکم دیاہے کہ اختلافی مسئلہ کو خدا اور رسول کی طرف پلٹادیں۔ ۱

ابوالسعود نے اپنی تفسیر میں اس قول کو پیش کیا ہے اورمذکورہ دومفسروں نے جو کچھ کہا ہے،اس کے خلاف ہے:جملہء”فإن تنازعتم“اس کی دلیل ہے کہ اولوالامر سے مراد علماء نہیں ہو سکتے ہیں،کیونکہ مقلد مجتہد کے حکم کے بارے میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا ہے!مگر یہ کہ ہم کہیں کہ جملہ”فإن تنازعتم“کا مقلدین سے کوئی ربط نہیں ہے اوریہ خطاب صرف علماء سے ہے اوراس سلسلہ میں کسی حد تک التفات ملا حظہ کیا گیا ہے لیکن ےہ بھی بعید ہے۔ ۲

قرطبی اورجصّاص کے لئے یہ اعتراض ہے کہ وہ التفات)توجہ) کے قائل ہوئے ہیں اور جملہ ”تنازعتم“ کو علماء سے خطاب جاناہے جبکہ بظاہر یہ ہے کہ’ ’تنازعتم“ کا خطاب تمام مومنین سے ہے اوراس التفات کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ابوالسعودکا اشکال یہ ہے کہ اس نے آیہء شریفہ میں اختلاف کو ”اولوالامر“سے مراد علماء ہو نے کی صورت میں اختلاف بین علماء اور مقلدین سمجھا ہے ،جبکہ مؤ منین سے خطاب ہے،چونکہ مؤ منین آیہء شریفہ میں اولوالامر کے مقابلہ میں قراردئے گئے ہیں ،لہذاان کے اختلافات ان کے آپسی اختلافات ہوں گے،نہ کہ علماء کے فرض کر نے کی صورت میں اولوالامر

____________________

۱۔جامع احکام القرآن،ج۵،ص۲۶۰،دارالفکر۔احکام القرآن جصاص،ج۲،ص۲۱۰،دارالکناف العربی۔

۲۔ارشاد العقل السلیم ،تفسیر ابوالسعود،ج۲،ص۱۹۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۱۰۸

کے ساتھ یہاں تک واضح ہوا کہ مذکورہ نکات کے پیش نظر”اولوالامر“سے مرادعلمائنہیں ہوسکتے ہیں۔قرطبی اورجصاص کا نظریہ بھی صحیح نہیں ہے،جنھوں نے التفات کا سہارالے کر اس قول کوصحیح قراردینے کی کوشش کی ہے اورابوالسعود کا نظریہ بھی درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کامستردہونا واضح ہے۔

اصحاب اور تابعین بھی اولوالامر نہیں ہیں۔

آیہء شریفہ میں چند دوسرے ایسے نکات بھی موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں اصحاب یا اصحاب وتابعین یا مہا جرین وانصار کا اولوالامر نہ ہوناثابت کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں عموماً مؤ منین سے خطاب کیا گیا ہے اور ایسے افراد کہ جن کی اطاعت کرنا مؤمنین کے لئے بطور مطلق واجب ہے،ان کا ذکر ہے لہذا مؤمنین وہ لوگ ہیں کہ جن کی شان اطاعت وفرمانبرداری ہے اورخدا ورسول نیز اولوالامر کی شان مو منین کے اوپر مطلقاًاختیار اور فرمانروائی ہے ،ان دونوں کا)مفہوم)ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہو نا واضح قرینہ ہے کہ مؤ منین ”اولوالامر“کے علاوہ ہیں۔مؤمنین کی حیثیت صرف فرمانبرداری ہے،اوران کے مقابل یعنی خداورسول نیزاولوالامر کی حیثیت فرماں روائی ہے۔

یہ مغایرت جس چیزکی تاکید کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اولوالامرکا تذکرہ خداورسول کے ساتھ ایک سیاق میں واقع ہے اورآیت میں خدا اورسولکی حیثیت سواء مطاع )جس کی اطاعت کی جائے )کے کچھ نہیں ہے،لہذا اولوالامرکی بھی و ہی حیثیت ہو نی چا ہئے۔

اس مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر،اصحاب ،تابعین یا مہاجرین وانصارکے زمرے سے نہیں ہوں گے کیوں کہ ایسی صورت میں مذکورہ مغایرت موجود نہیںر ہے گی،حالانکہ جو مؤ منین آیہء شریفہ کے نزول کے وقت اس کے مخاطب واقع ہوئے ہیں وہ،وہی اصحاب ،مہاجرین اور انصا رہیں۔

۲ ۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ اگر اولوالامر کے مصداق اصحاب ہوگے، تو کےا یہ تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی ہیں ےا بنحواستغراقی ؟

مزید واضح لفظوں مےں کیا اصحاب مےں سے ہر ایک فرد بہ طورمستقل اولوالامر ہے او ر قوم کی سرپرستی کا اختیاررکھتاہے، یا تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی اس عہدے کے مالک ہیں؟ فطری بات ہے کہ دوسری صورت کے اعتبار پر سب کا اجماع اور اتفاق ہوگا؟

۱۰۹

دوسرا فرض )یعنی عام بہ حیثیت مجموع) ظاہر کے خلاف ہے، جیسا کہ فخررازی کے بیان میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے ، او ر پہلا فرض یعنی اصحاب میں سے ہر ایک بہ طور مستقل صاحب ولایت ہوگا، یہ بھی ظاہر اور اصحاب کی سیرت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اصحاب کے زمانہ میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہر ایک دوسرے کے لئے )وہ بھی مطلقاً) وجوب اطاعت کا مالک ہوا۔

اس کے علاوہ اصحاب علمی اور عملی لحاظ سے ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے۔ان میں کافی تعداد میں ایسے افراد بھی تھے جن میں علمی اور اخلاقی صلاحیتوں کا فقدان تھا۔مثال کے طور پر ولیدبن عقبہ(۱) کے فاسق ہو نے کے بارے میں آیت نازلی ہوئی ہے کہ جس کی خبر کی تحقیق واجب وضروری ہے ان حالات کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ” اولوالامر“کے مصداق بہ طور مطلق اصحاب یا مہاجرین و انصار ہوں؟

سریہ کے سردار بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

اسی طرح”اولوالامر“ کے مصداق سریہ(۲) کے کمانڈو بھی نہیں ہیں کیونکہ جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس کے علاوہ ”اولوالامر“ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونا، ”اولوالامر“کی مطلق اطاعت کے و اجب ہونے پر دلالت کر تا ہے اور جملہ ”فإن تنازعتم“ کامتفرع ہو نا، خدا و

____________________

۱۔ اصحاب کے بارے میں مصنف کی کتاب ” عدالت صحابہ در میزان کتاب و سنت “ ملاحظہ ہو

۲۔جن جنگوں میں پیغمبراکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی طورپر شرکت نہیں کی ہے،انھیں سریہ کہتے ہیں۔

۱۱۰

پیغمبر اور اولوالامرکی مطلق اطاعت نیز”اولوالامر“ کی عصمت پر دلیل ہیں ۔سریہ کے کمانڈ معصوم نہیں ہیں،اس سلسلہ میں اصحاب اورتابعین کی طرف سے کچھ آثار نقل ہوئے ہیں جواس مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ہم یہاں پر ان آثار میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ابن عباس سے ایک حدیث میں روایت کی گئی ہے:آیہء”اولی الامر“ایک ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے،کہ جسے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک سریہ میں )سرپرست و سر براہ کے عنوان سے) بھیجا تھا۔(۱) اس حدیث کی سند میں حجاج بن محمد کا نام آیا ہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیّرفی آخر عمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔

اورابن حجر نے کہا ہے کہ اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے(۲) فطری بات ہے کہ اس کیفیت و حالت کے پیش نظر اس کی روایت معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔

۲ ۔ایک دوسری حدیث میں میمون بن مہران سے روایت ہوئی ہے کہ”اولوالامر“ وہ لوگ ہیں جوسریہ)جنگوں) میں شرکت کرتے تھے۔(۳) اس حدیث کی سند میں عنبسة بن سعیدضریس کا نام ہے کہ ابن حبان نے اس کے بارے میں کہا ہے:

”کان یخطی(۴)

”یعنی :وہ مسلسل خطا کا مرتکب ہوتاتھا۔“

____________________

۱۔تفسیر طبری،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تفسیر طبری ،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۴۔تہذیب التہذیب،ج۸،ص۱۳۸

۱۱۱

طبری نے ایک حدیث میں سدی سے نقل کیا ہے(۱) کہ اس نے آیہء ”اولوالامر“ کو اس قضیہ سے مرتبط جانا ہے کہ ایک سریہ)جنگ) میں خالد بن ولیدکوکمانڈر مقرر کیا گیا تھااورس سریہ میں عماریاسر بھی موجود تھے اور انہوں نے ایک مسلمان کو دئے گئے امان کے سلسلہ میں خالد سے اختلاف رای کا اظہارکیا تھا۔(۲)

یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ ایک تو یہ مرسل ہے اوردوسرے سدی کے بارے میں یحییٰ بن معین ا ورعقیلی سے نقل ہو ا ہے کہ وہ ضعیف ہے اورجوزجانے اسے کافی جھوٹا بتا یا ہے ۔(۳)

۳ ۔بخاری نے آیہء ”اولوالامر“ کی تفسیر میں جو حدیث ذکر کی ہے وہ یوں ہے:

حدثناصدقة بن الفضل،اٴخبرناحج ابن محمّد،عن ابن جریح،عن یعلی بن مسلم،عن سعید بن جبیرعن ابن عباس رضی اللّٰه عنهما:”اٴطیعوااللّٰه واٴطیعوالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی عبداللّٰه بن حذافة ابن قیس بن عدی اذبعثه النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی سریة ۔(۴)

اس حدیث میں سعیدبن جبیران نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیہء( اٴطیعوااللّٰه واٴطیعواالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم ) عبداللہ بن حذافہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے،جب رسول خدا (ص)نے اس سے ایک سریہ کے لئے روانہ کیا۔

چونکہ یہ حدیث فتح الباری میں ابن حجر کے کلام سے اخذ کی گئی ہے اس لئے احتمال ہے کہ یہ روایت سنید بن داؤد مصیصی سے روایت ہوئی ہو جیسا کہ ابن سکن سے منقول ہے نہ کہ صدقہ بن

____________________

۱۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفة

۲۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفہ

۳۔تہذیب التہذیب،ج۱،ص۲۷۳

۴۔صحیح بخاری،ج۳،ص۳۷۶،کتاب التفسیر،باب قولہ اطیعواللّٰہ۔۔۔ ح۱۰۱۰،دارالقلم ،بیروت

۱۱۲

فضل سے جیسا کہ اکثر نے نقل کیا ہے اور موجودہ صحیح بخاری میں بھی اسی کے حوآلے سے آیا ہے اورسنید بن داؤد کو ابی حاتم ونسائی نے ضعیف جانا ہے۔(۱)

اس بناپر ایک تو یہ بات مسلّم ویقینی نہیں ہے کہ بخاری میں موجود روایت صدقہ بن فضل سے ہوگی،بلکہ ممکن ہے سنید سے ہو جبکہ وہ ضعیف شمار ہو تا ہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کی سند میں حجاج بن محمدہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیرفی آخرعمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔“

اور ابن حجر نے کہاہے:اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے۔(۲)

ابوبکراورعمربھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں

مذکورہ وجوہ کے پیش نظر واضح ہوگیا کہ ابوبکر اور عمربھی ”اولوالامر“کے مصداق نہیں ہیں نیزان وجوہ کے علاوہ دین وشریعت سے متعلق سوالات کے جوابات میں ان کی لا علمی ناتوانی اوراحکام الٰہی کے خلاف ان کا اظہار نظر بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ جو تاریخ وحدیث کی کتابوں میں کثرت سے درج ہے۔اس سلسلہ میں کتاب الغدیر کی جلد ۶ اور ۷ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔

اہل سنت کی بعض کتابوں میں درج یہ حدیث کہ جس میں ان کی اقتداء کرنے کااشارہ ہواہے:”إقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر “کئی جہات سے باعث نزاع ہے۔من جملہ یہ کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عمیر ہے کہ تہذیب الکمال(۳) میں احمد بن حنبل

____________________

۱۔فتح الباری،ج۸،ص۲۵۳

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تہذیب الکمال،ج۱۸،ص۳۷۳،موسسہ الرسالة

۱۱۳

سے اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے:عبد الملک بن عمیر بہت زیادہ مضطرب البیان ہے اس سے منقول میں نے ۵۰۰ سو روایتیں دیکھی ہیں کہ جن میں اکثر غلط ہیںعبدالملک بن عمیر مضطرب الحدیث جداًمااٴری له خمساًئة حدیث، وقد غلط فی کثیرمنها “ اور احمد بن خلیل نے بھی اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کیا ہے۔اور ابو حاتم سے نقل کیا ہے:)عبدالملک)لیس بحافظ۔۔۔تغیرحفظہ قبل موتہ“عبدالملک کا حافظ درست نہیں ہے اور موت سے پہلے اس کا حا فظ کھو گیا تھا۔

اورترمذی(۱) کی سند میں سالم بن علاء مرادی ہے کہ ابن معین اور نسائی نے اسے ضعیف جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ ترمذی کی سند میں سعید بن یحییٰ بن سعید الاموی ہے کہ ابن حجر نے صالح بن محمد سے نقل کیا ہے:”إنّه کان یغلط “یعنی:”وہ مسلسل غلطی کرتا تھا۔(۳)

اس کے علاوہ اگر اس قسم کی احادیث ثابت ہوتیں توابو بکر اورعمر سقیفہ میں ان سے استدلال کرتے اورخلافت کے لئے اپنی صلاحیت ثابت کرتے جبکہ اس قسم کی کوئی چیز قطعی طورپر نقل نہیں ہوئی ہے اور یہ قطعی طورپرثابت ہے کہ مذکورہ حدیث صاد ر نہیں ہوئی ہے اور جعلی ہے۔

او لیاء شرعی(باپ)بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

باپ،دادا و غیرہ کہ جو ولایت شرعی رکھتے ہیں وہ بھی بہ طور مطلق ”اولوالامر“ نہیں ہیں۔گزشتہ موارد میں ذکر شدہ مطالب سے بھی یہ مسئلہ واضح ہو جاتاہے۔

____________________

۱۔سنن ترمذی ،ج۵،ص۵۷۰،ح۳۶۶۳

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۱۲،دارالفکر

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۸۶

۱۱۴

”اولوالامر“اورحدیث منزلت،حدیث اطاعت اورحدیث ثقلین

حدیث منزلت:

حا کم حسکانی(۱) نے”شواہد التنزیل(۲) “ میں آیہء اولوالامر کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے اوراپنی سند سے مجاہد سے روایت کی ہے:

”واٴُلی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی اٴمیرالمؤمنین حین خلّفه رسول اللّٰه بالمدینة، فقال:اٴتخلفنی علی النساء والصبیان؟ فقال: اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی،حین قال له ”اٴخلفنی فی قومی واٴصلح“فقال اللّٰه: ”واٴُولی الاٴمر منکم“ فقال: هوعلی بن ابی طالب، ولاّه اللّٰه الامر بعد محمد فی حیاته حین خلّفه رسول اللّٰه بالمد ینة،فاٴمراللّٰه العباد بطاعته وترک خلافه

”(آیہء شریفہ کے بارے میں ) ۔۔۔( واٴولی الاٴمرمنکم ) ۔۔۔ مجاہد نے یوں کہا ہے:آیہء شریفہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔اس وقت علی(علیہ السلام)نے کہا :کیامجھے عورتوں اور بچوں پر جانشین قرا ر د ے ر ہے ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ تمھاری نسبت میرے

____________________

۱۔حاکم حسکانی اہل سنّت کے بڑے محدثین میں سے ہے۔ذہبی اس کے بارے میں کہتاہے:

الحسکانی القاضی المحدث ابوالقاسم عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ ۔۔۔ محمد بن حساکان القرشی العامری اللنیسا بوری الحنفی الحاکم، و یعرف با بن الحذاء ، شیخ متقن ذو عنایة تامة بعلم الحدیث، حسکانی،قاضی محدث ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ محمد بن حسکانی قر شی عامری نیشابوری حنفی مذہب وحاکم ،ابن خداء کے نام سے معروف ہے۔ وہ علم حدیث کے بارے میں قوی اور متقن استاد)شیخ) ہے۔

۲۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۰،مؤسسہ الطبع والنشر

۱۱۵

ساتھ وہی ہے جو ہارون کی نسبت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی جب موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا( اٴخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں میرے جانشین ہو اوراصلاح کرو“)اس آیہء شریفہ میں )خدا وند متعال نے فرمایا ہے:( واٴولی الاٴمر منکم ) ”اولوالامر“)کامصداق)علی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں کہ خداوند متعال نے انھیں پیغمبر (ص)کی حیات میں اپ کے بعدامت کے لئے سرپرست قرار دیاہے،جب انھیں مدینہ میں اپناجانشین مقرر فرمایا۔لہذا خداوند متعال نے اپنے بندوں کوان کی اطاعت کرنے اوران کی مخالفت ترک کرنے کاحکم دیا ہے۔

اس حدیث میں ،اس مجاہد نامی تابعی دانشور اورمفسرنے آیہء شریفہ”اولی الامر“کی شان نزول کے لئے وہ وقت جانا ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قراردیا تھا۔

اس حدیث میں ہارون کی وہ تمام منزلتین جو وہ موسیٰ کے حوالے سے رکھتے تھے،علی علیہ السلام کے لئے رسول خدا (ص)کے حوالے سے قراردی گئی ہیں۔من جملہ ان میں سے ایک موسیٰ(علیہ السلام)کی نسبت سے ہارون کی جانشینی ہے۔یہ جانشینی،جس کا لازمہ پوری امت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کا واجب ہونا ہے،علی علیہ السلام کے لئے معین کی گئی ہے۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس ان نزول سے قطع نظر،حدیث منزلت فریقین )شیعہ وسنی) کے درمیان ثابت اورمسلّم احادیث میں سے ہے،اس طرح کہ حدیث منزلت کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ شان نزول کے سلسلہ میں حاکم حسکانی کا کہنا ہے:

وهذاهوحدیث المنزلة الّذی کان شیخاًابوحازم الحافظ یقول: خرجته بخمسةآلاف إسناد

یہ وہی حدیث منزلت ہے کہ ہمارے شیخ)ہمارے استاد)ابوحازم حافظ)اس کے بارے میں )کہتے ہیں:میں نے اس)حدیث)کو پانچ ہزار اسنادسے استخراج کیا ہے۔“

۱۱۶

لہذا،اس حدیث کے معتبر ہونے کے سلسلے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔ ابن عسا کر جیسے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں اسے اصحاب کی ایک بڑی تعدادسے نقل کیا ہے۔(۱)

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی علیہ السلام ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل اور سب سے اعلم نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اورآپ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین ہیں۔

حدیث اطاعت:

دوسری دلیل جو”اولوالامر“کو علی علیہ السلام پر منتطبق کرنے کی تاکید کرتی ہے،وہ”حدیث اطاعت“ ہے۔یہ حدیث گوناگوں طریقوں سے مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین(۲) میں اسے نقل کیا ہے اورذہبی نے ذیل صفحہ تلخیص کرتے ہوئے اس کے صحیح ہو نے کی تائیدکی ہے۔

حدیث کا متن یوں ہے:

قال رسول اللّٰه- ( ص ) من اٴطاعنی فقداطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه ومن اٴطاع علیّاً فقد اٴطاعنی ومن عصی علیاًفقدعصانی

”پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرنی)معصیت)کی گویا اس نے خدا کی نافرمانی کی

____________________

۱۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۵،مؤسسة الطبع والنشر

۲۔المستدرک ،ج۳،ص۱۲۱،دارالمعرفة،بیروت

۱۱۷

ہے۔اور جس نے علی (علیہ السلام) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جو نے علی(علیہ السلام) سے نافرمانی کرے گا اس نے مجھ سے نافرمانی کی ہے۔

اس حدیث میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ نے علی علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے متلازم قراردیا ہے اوراپنی اطاعت کوخدا کی اطاعت سے متلازم جا ناہے۔اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی سے تعبیر کیا ہے اوراپنی نافرمانی کو خدا کی نافرمانی قراردیا ہے۔

یہ حدیث واضح طور پر علی علیہ السلام کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہونے کی دلیل ہے۔اس کا مضمون آیہء شریفہ” اولوالامر“ کے مضمون کی طرح ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اولوالامر کی اطاعت گویا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت ہے۔حقیقت میں یہ حدیث آیہء شریفہء اولی الامر کے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر انطباق کے لئے مفسر ہے۔

اسی طرح یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی عصمت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اطاعت حکم اورامرپر متفرع ہے کیونکہ جب تک کوئی حکم و امر نہیں ہوگااطاعت موضوع ومعنی نہیں رکھتی ہے اور حکم وامر ارادہ پر مو قو ف ہے،اورارادہ شوق نیزدرک مصلحت در فعل کا معلول ہے۔جب حدیث کے تقاضے کے مطابق علی علیہ السلام کی اطاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے ملازم ،بلکہ اس کا ایک حصہ ہے،تواس کا امر بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امر اور اس کا ارادہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ اوراس کا درک مصلحت بھی عین درک مصلحت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا اوریہ حضرت علی علیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔

۱۱۸

حدیث ثقلین:

ایک اور دلیل جو آیہ شریفہ”اولوالامر“کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام (ائمہء معصوم)پرانطباق کی تاکید کرتی ہے،وہ حدیث ثقلین ہے۔یہ حدیث شیعہ وسنی کے نزدیک مسلّم اور قطعی ہے اور بہت سے طریقوں اور اسناد سے احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اگر چہ یہ حدیث متعدد مواقع پر مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے ،لیکن اس میں دوجملے مر کزی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ دوجملے حسب ذیل ہیں:

إنی تارک فیکم الثقلین :کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی ماإن تمسکتم بهما لن تضلّواابداًوإنّهمالن یفترقا حتی یرداعلی الحوض (۱)

”میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں:ایک کتاب خدااور دوسرے میری عترت کہ جواہل بیت (علیہم السلام)ہیں اگر تم انھیں اختیار کئے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس وارد ہوں گے ۔“

ابن حجر نے اپنی کتاب”الصواق المحر قة(۲) میں اس حدیث کے بارے میں کہاہے:

”ثقلین سے تمسک کرنے کی حدیث کے بارے میں بہت سے طریقے ہیں۔یہ حدیث بیس سے زیادہ اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔

ان طریقوں میں سے بعض میں آیاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے اس وقت مدینہ میں ارشاد فرمایا کہ جب آپبسترعلالت پرتھے اوراصحاب آپ کے حجرئہ مبارک میں اپ کے گرد جمع تھے۔بعض دوسرے طریقوں سے نقل ہواہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے غدیر خم میں بیان فرمایا ہے۔بعض دوسرے منابع میں ایاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے طائف سے واپسی

___________________

۱۔صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۲۱۔۶۲۲دارالفکر۔ مسنداحمد، ج۳، ص۱۷و۵۹وج۵، ص۱۸۱و۸۹ ۱دارصادر، بیروت۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۰۹۔۱۱۰،دارالمعرفة،بیروت۔حضائص النسائی ، ص۹۳، مکتبةنینویٰ۔ اس کے علاوہ اس اسلسلہ میں دوسرے بہت سے منا بع کے لئے کتاب اللہ واھل البیت فی حدیث ثقلین“کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۲۔الصواعق المحرقة،ص۱۵۰،مکتبة القاہرة

۱۱۹

کے موقع پر فرمایاہے۔ان سب روایتوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔کیونکہ ممکن ہے قرآن وعترت کی اہمیت کے پیش نظران تمام مواقع اور ان کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہوگا۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے عالم،علامہ بحرانی نے اپنی کتاب ”غایةالمرام(۱) میں حدیث ثقلین کو اہل سنت کے ۳۹ طریقوں سے اور شیعوں کے ۸۲ طریقوں سے نقل کیا ہے۔

اس حدیث شریف میں پہلے،امت کوگمراہی سے بچنے کے لئے دوچیزوں)قرآن مجید اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علہیم السلام )سے تمسک اور پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جو اس بات پردلالت ہے کہ اگر ان دونوں کی یاان میں سے کسی ایک کی پیروی نہیں کی گئی تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو نا یقینی ہے اور یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت) علیہم السلام) اور قرآن مجید ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اورہرگزایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے۔یہ دو جملے واضح طورپر دلالت کرتے ہیں کہ،اہل بیت علیہم السلام ،جن میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام ہیں ،لوگوں کوچاہیئے وہ قرآن مجید کے مانندان سے متمسک رہیں اوران کے اوامر کی اطاعت کر یں ۔اور یہ کہ وہ قرآن مجید سے کبھی جدا نہیں ہوں گے ،واضح طورپر ان کی عصمت کی دلیل ہے،کیونکہ اگروہ گناہ وخطا کے مرتکب ہو تے ہیں تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوجائیں گے،جبکہ حدیث ثقلین کے مطابق وہ کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے۔

شیعہ وسنی منابع میں اولوالامر سے متعلق حدیثیں

آیہء شریفہ”اولوالامر“کے علی علیہ السلام اورآپ (ع)کے گیارہ معصوم فرزندوں )شیعوں کے بارہ اماموں)پرانطباق کی دلائل میں سے ایک اوردلیل،وہ حدیثیں ہیں،جو شیعہ و سنی کی حدیث کی کتابوں میں درج ہوئی ہیں اور اولوالامرکی تفسیر علی)علیہ السلام)،اورآپ(ع)کے بعدآپ(ع)کے گیارہ معصوم اماموں کی صورت میں

____________________

۱۔غا یةالمرام،ج۲،ص۳۶۷۔۳۰۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

کی تھی جس کا مطلب ہے کہ اسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی دامادی کے شرف سے محروم ہونے کا کوئی دکھ نہیں تھا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھی اسے جناب رقیہ کی قبر میں اترنے اور اسے دفنانے سے منع کردیا تھا _ ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ بعض دیگر لوگوں کی طرح اسے بھی جنگ بدر پر جانا گوارا نہیں تھا اس لئے وہ مدینہ میں رکارہا_(۱)

دوسروں کے فضائل پرڈاکہ

بعض روایتیں کہتی ہیں کہ ابو امامہ بن ثعلبہ نے ماں کے سخت بیمار ہونے کے با وجود بھی جنگ بدر پر جانے کی مکمل تیاری کرلی تھی لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اسے اپنی ما ں کی خدمت اور تیمار داری کے لئے اسے وہیں رہنے کا حکم دیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر کے مال غنیمت سے اس کا حصہ بھی علیحدہ کرلیا البتہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر سے واپس تشریف لائے تو اس کی ماں اس سے پہلے وفات پاچکی تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی قبر پر جاکر نماز پڑھی تھی(۲)

یہاں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس روایت اور عثمان والی روایت میں کوئی فرق نہیں ہے (صرف شخصیات کا فرق ہے ) _ پس آپ ہی بتائیں کہ کس روایت کی دوسری روایت کے حق میں تحریف کی گئی اور کن شخصیات کو دوسری شخصیات کے حق میں بدل دیا گیا ہے ؟

اور چونکہ ہم عثمان والی روایت پر اپنے اعتراضات بیان کر چکے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بنی امیہ کے اس بزرگ کے لئے پوری مشینری فضیلتیں گھڑنے میں مصروف تھی حتی کہ معاویہ نے اسلامی مملکت کے کونے کونے میں فضائل گھڑنے کا حکم نامہ بھجوا دیا تھا اس لئے ہماری نگاہ میں جعلسازوں نے ابو امامہ والی روایت کو نشانہ بنا کر اس پر تحریف اور جعلسازی کا ڈاکہ ڈالا تا کہ عثمان کی جنگ بدر میں شرکت والی فضیلت سے محرومی کا

____________________

۱)جناب عثمان کے ناز نخرے ،تعمیر مسجد کے وقت اس کے انداز نیز عادات و اطوار اور وقت سلطنت کردار سے یہ بات قرین قیاس لگتی ہے _

۲)سیرہ حلبیہ ج۲ص ۱۴۷،الا صابہ ج ۴ص ۹از ابو احمد الحاکم ، الا ستیعاب بر حاشیہ الا صابہ ج ۴ ص ۴ و اسد الغابہ ج۵ص ۱۳۹_

۳۲۱

جبران کرکے اس کے بدلے میں اس کے لئے ایک اورفضیلت ثابت کرسکیں _نیز جناب رقیہ والے واقعہ میں اس کی بدنامی کا داغ بھی مٹا سکیںکیونکہ وہ عثمان کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی شدت سے چل بسی تھیں لیکن اسی رات اس نے رنگ رلیاں منائیں اور نہ اس مرحومہ کا اور نہ اس کے پالنے اور پرورش کرنے والے ( حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا)کے احترام کا کوئی لحاظ کیا _یوں انہوں نے ایک تیر سے دو بلکہ تین شکار کھیلے _

لیکن یہاں حضرت علی علیہ السلام کے اس دعوے والا اعتراض باقی رہتا ہے جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوی کیا تھا کہ اس فضیلت میں آپعليه‌السلام ہی یکتا ئے روزگار ہیں _البتہ اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ شاید آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس طرح دوسروں کو اپنے خمس سے نوازاتھا ، اسی طرح اپنے حصہ سے اس کا حصہ بھی رکھا ہو_ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے حاضرین کو (جن میں عثمان بھی موجود تھا) قسم دے کر ان سے مذکور ہ بات اگلوائی ہویوں حاضرین کی بہ نسبت توآپعليه‌السلام کی بات بالکل درست تھی لیکن حضرت جعفرعليه‌السلام جیسے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت آپعليه‌السلام کے کلام میں کوئی مثبت یا منفی بات نہیں پائی جاتی(۱)

دوقیدیوں کا قتل :

پہلے بھی بتاچکے ہیں کہ مشرکین کے ستر آدمی گرفتار کرلئے گئے تھے البتہ اکہتر آدمی بھی کہا گیا ہے(۲) انہیں قید کرکے مدینہ کی طرف واپسی شروع ہوگئی _ جب صفرا کے مقام پر پہنچے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام کو دو قیدیوں کا سر قلم کرنے کا حکم دیا _ان میں سے ایک عقبہ بن ابی معیط تھا جس کا مکہ میں مسلمانوں اور خود نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے ساتھ برا سلوک معروف ہے اور دوسرا نضربن حارث تھا(۳) جو مکہ میں مسلمانوں پر حد سے زیادہ ظلم کرتا تھا اور انہیں شکنجہ کیا کرتا تھا _ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

____________________

۱)حدیث منا شدہ میں حضرت علیعليه‌السلام کے الفاظ بھی اسی بات پر دلالت کرتے ہیں اس لئے دیگر احتمالات صرف تکلفات ہیں _

۲)العلل و معرفة الحدیث ج ۱ص ۴_ (۳)سیرہ ابن ھشام ج۲ص ۲۹۸میں زہری و غیرہ کی روایتوں میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام نے ہی نضربن حارث کی گردن اڑائی تھی _ نیز ملاحظہ ہو الا غانی مطبوعہ ساسی ج۱ص ۱۰_

۳۲۲

آپعليه‌السلام کو تین قیدیوں ،عقبہ، نضر اور مطعم بن عدی کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا(۱) اس پر عقبہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :''یا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تجھے خدا اور رشتہ داری کا واسطہ مجھے قتل مت کرو''_ اس پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عقبہ سے فرمایا:''تم تو صفوریہ کے علاقے کے عجمی کافر ہو( تمہارے ساتھ میرا کیسا رشتہ اور واسطہ؟)''البتہ ایک اور دستاویز میں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا:''کیا تو قریشی ہے ؟ تم تو صفوریہ کے علاقے کے عجمی (یا یہودی ) کافر ہو_ عمر کے لحاظ سے تو تم اپنے اس باپ سے بڑے ہو جس کے تم بیٹے ہونے کا دعوی کرتے ہو_ جس کے نہیں ہو اس سے منسوب ہو_ علیعليه‌السلام جاؤ اس کی گردن اڑادو ''_اور حضرت علیعليه‌السلام نے جا کر اس کا سر قلم کردیا(۲) ایک اور روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ عقبہ نے پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :''محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے پسماندگان کی کفالت کون کرے گا ؟''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''آگ ان کی کفالت کرے گی ''(۳)

البتہ سہیلی کہتاہے کہ ''جس کے نہیں ہواس سے منسوب ہو''والا جملہ عمربن خطاب نے کہا تھا(۴)

یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہجرت سے قبل اسی عقبہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت اذیتیں دی تھیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف نہایت سخت موقف اپنا یا تھا _ جس کے نتیجے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے دھمکی دی تھی کہ اگر تو مجھے مکہ کی حدود سے باہر ملا تو تجھے قید کرکے تیری گردن ہی اڑادوں گا(۵) اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا ہی کیا _

البتہ یہاں چند نکات قابل ذکر ہیں :

____________________

۱)العلل و معرفة الحدیث ج۱ ص ۳_

۲)ملاحظہ ہو : الروض الانف ج ۳ ص ۶۵،سیرہ حلبیہ ج ۲ص ۱۸۷و ص ۱۸۶ ، بحار الانوار ج ۱۹ص ۲۶۰وص۳۴۷،المصنف عبد الرزاق ج ۵ص ۲۰۵،تفسیر قمی ج ۱ص ۲۶۹،و واقدی البتہ سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۹۸میں حضرت علیعليه‌السلام کے اس کو قتل کرنے کی بات لفظ ''قیل''کے ساتھ ذکر گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس نے اسے کمزور اور ضعیف قول مانا ہے_

۳)المصنف عبد الرزاق ج۵ص۲۰۵وص۳۵۲وص ۳۵۶،ربیع الا برار ج ۱ ص ۱۸۷،الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۳۱،سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۹۸و الا غانی مطبوعہ ساسی ج ۱ ص ۱۰و ص ۱۱_ (۴)الروض الا نف ج ۳ ص ۶۵_ (۵)ملاحظہ ہو: الغدیر ج ۸ ص ۲۷۳و ص ۲۷۴از ابن مردویہ و ابو نعیم در الدلائل ان اسناد کے ساتھ جسے سیوطی نے صحیح جانا ہے _

۳۲۳

الف: عقبہ کا نسب:

مؤرخین کے مطابق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عقبہ کو ''صفوریہ کے علاقے کے عجمی کافر '' کہنے کا سبب یہ ہے کہ اس کا پردادا ''امیہ'' جب صفوریہ میں تھاتو وہاں اس نے ایک شوہر دار یہودی لونڈی سے زنا کیا جس کے بعد ابو عمرو (یعنی ذکوان) اس یہودی کے گھر پیدا ہوا لیکن امیہ نے زمانہ جاہلیت کی رسومات کے مطابق اسے اپنا بیٹا مان لیا_یہ قول بھی ملتا ہے کہ ذکوان ،امیہ کا غلام تھا جسے اس نے اپنا بیٹا بنا یا ہوا تھا لیکن امیہ کے مرنے کے بعد ذکوان اس کی بیوی کا شوہربن گیا_جبکہ سہیلی کہتا ہے کہ امیہ نے کسی لونڈی کے ساتھ زبردستی یا اس کی مرضی سے زنا کیا تو وہ ابو عمرو سے حاملہ ہوئی جسے امیہ نے جاہلیت کی رسومات کے تحت اپنا بیٹا بنا لیا(۱) اسی طرح فضل بن عباس نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے اشعار کے جواب میں یہ اشعار کہے :

اتطلب ثاراً لست منه ولاله

و این ابن ذکوان الصفوری من عمرو

کما اتصلت بنت الحمار بامها

و تنسی اباها اذ تسامی اولی الفخر(۲)

کیا تو اس شخص کا بدلہ لے گا جس کا تجھ سے اور تیر ا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے _اور ابن ذکوان صفوری کا عمرو سے کیا واسطہ؟ یہ تو ایسے ہو گیا ہے جیسے کوئی کھوتی اپنے باپ کو بھول کر اپنی ماں سے منسوب ہو جاتی ہے تب جاکر کہیں وہ با عزت سوسا ئٹی میں اترا سکتی ہے_

اور معاویہ نے بوڑھے نسب شناس دغفل سے اپنے دادا امیہ کے نسب کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا :''ہاں میں نے اسے دیکھا ہے وہ کمزور ،ناتوان ،بھینگا،بد صورت اور پستہ قد تھا جسے اس کا غلام ذکوان

____________________

۱) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۷نیز ملاحظہ ہو: الروض الا نف ج ۳ص ۶۵_

۲)الغدیر ج ۹ ص ۱۵۵از طبری ج ۵ص ۱۵۱_

۳۲۴

پکڑ کر کہیں لے جاتا تھا ''_معاویہ نے کہا :''نامراد بس کرو _ تم غلط کہہ رہے ہو وہ تو اس کا بیٹا تھا ''اس پراس نے کہا :''یہ بات تو تمہاری مشہور کی ہوئی ہے ''(۱)

لیکن تفسیر قمی میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عقبہ سے کہے جانے والے اس قول ''عمر کے لحاظ سے توتم اپنے اس باپ سے بڑے لگتے ہو جس کے بیٹے ہونے کا تم دعوی کرتے ہو''کے ذیل میں ذکر ہونے والی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عقبہ ،صفوریہ کے علاقے کے رہنے والے کسی اور شخص کا بیج اور نطفہ تھا ،لیکن زبر دستی ابو معیط سے منسوب ہو گیا تھا _

حضرت امام حسن علیہ السلام نے بھی ولید بن عقبہ سے وہی الفاظ کہے تھے جیسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے باپ عقبہ بن ابو معیط سے کہے تھے(۲)

زمخشری کہتا ہے کہ خود ابو معیط اردن کے علاقے صفوریہ کارہا ئشےی تھا _جسے ابو عمر بن امیہ بن عبد شمس نے آکر بیٹا بنانے کا دعوی کیا تھا(۳)

عثمان کے دور حکومت میں جب حضرت علی علیہ السلام نے ولید کو شراب کی حد میںکوڑے مارنے چاہے تو ولید نے آپعليه‌السلام کو گالیاں دینی شروع کردیں ،جس پرآپعليه‌السلام کے بھائی جناب عقیلعليه‌السلام نے اس سے کہا: ''اوفاسق تو خود جانتا بھی ہے کہ تو کون ہے ؟ کیا تو اردن میں عکااور لجون کے درمیان والی بستی صفوریہ کا عجمی کافر نہیں ہے؟ تیرا باپ وہاں کا ایک یہودی تھا ''(۴)

ب: پسماندگان کے لئے دوزخ کی بشارت

گذشتہ واقعہ میں ہم نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے پسماندگان کو دوزخ کی پیشین گوئی کی تھی جن میں سے ایک فاسق ولید بن عقبہ بھی تھا جو عثمان کی طرف سے کوفہ کا گور نر تھا _ اس نے شراب پی کر

____________________

۱) الروض الا نف ج ۳ ص ۶۵و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۸۷_

۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۶ص ۲۹۳از زبیر بن بکار در کتاب المفاخرات و مقتل الحسین خوازمی ج ۱ ص ۱۱۹_

۳)ربیع الابرار ج ۱ ص ۱۴۸_ (۴)تذکرہ الخواص ص ۲۰۶_

۳۲۵

لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی تو نشے میں ٹن وہ زیادہ پڑھ گیا ،حالانکہ اس کا شمار صحابیوں میں ہوتا ہےاب تو بعض لوگوں کو تمام صحابیوں کے عادل ہونے والے اپنے نظریئےیںنظر ثانی کرنا چاہئے _البتہ اس موضوع پر ہم نے اپنی کتاب'' دراسات و بحوث فی التایخ و الا سلام ج ۲ ''میں مختصر گفتگو کی ہے وہاں ملاحظہ فرمائیں_

اور اس کے پسماندگان کے متعلق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مذکورہ بات غیب کی خبر اور پیشین گوئی شمار ہوتی ہے جس پر خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مطلع کردیا تھا کیونکہ خدا جانتا تھا کہ اس کے پسماندگان میں کوئی بھی اس لائق ہے ہی نہیں جو رحمت اور نعمت کا مستحق ہو لیکن سیاست،نسلی تعصب اور رشتہ داری کے بل بوتے پراس دوزخی اولاد کو لوگوں کی جان ،مال اور عزت و آبرو پر مسلط کردیا گیا اور خلافت کے اصلی اور شرعی حق داروں سے چھینی جانے والی خلافت کا ایک حاکم اور سیاسی راہنما بنادیا گیا_ پھر تو ان لوگوںنے لوگوں کے عقائد میں اتنی جگہ بنالی کہ لوگوں پر ان جیسے نا پاکوں کو( چاہے وہ جتنے اور جس قسم کی بھی برائیوں کے مرتکب ہوں) عادل سمجھنا ضروری ہوگیا _

ج: عقبہ کو نسب کا طعنہ :

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عقبہ کو کہا کہ تو صفوریہ کا ایک عجمی کا فرہے یا اس جیسے دیگر جملے کہے _حالانکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ عادت تھی نہیں ،کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ تو (نعوذ باللہ )گالیاں بکنے والے تھے اور نہ ہی بد خلق اور بد کلام تھے _ لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے یہ طعنے اس لئے دیئےہ لوگ جان لیں کہ ان کے بعد والے اسلام کے دعوے صحیح نہیں ہیں اور حکومتی مشینری کا اس کے بیٹوں کو اپنے ساتھ ملانا صرف ان کی ادعائی قرابت داری کی وجہ سے ہے و گرنہ ان لوگوں کا حکومت میں آنا کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہے اور یہ حکومت کے اہل ہی نہیں ہیں کیونکہ یہ لوگ خدا کے مال کو اپنا ذاتی اور وراثتی مال اور خدا کے بندوں کو اپنا غلام سمجھ لیں گے اور یہ لوگ بدبختیوں اور سازشوں کی آماجگاہ بن جائیں گے _جس طرح فاسق ولید اور حکومت کے دیگر قریبیوں اور گورنروں کی

۳۲۶

حالت زار تھی جو دین اور اسلام کے نام پر حکومتی عہدوں پر فائز ہوئے تھے اور ان کے احکام کو اسلامی احکام سمجھا جاتا تھا حالانکہ ان کے احکام صرف قبائلی اور خاندانی تعصبات پر مبنی تھے بلکہ دقیق اور صحیح الفاظ میںیہ کہنا بہتر ہے کہ ان کے احکام زمانہ جاہلیت کے احکام تھے_

د:واقعہ بدر میںنضربن حارث کے قتل کا انکار :

ابن سلام کہتا ہے کہ ابن جعد بہ (جس نے ابو عزت جمحی کے حالت اسیری میںقتل کا انکار کیا ہے وہ بدر کے واقعہ میں حالت اسیری میں نضربن حارث کے قتل کا بھی منکر ہے )_وہ کہتا ہے :''وہ اس جنگ میںشدید زخمی ہو گیا تھا جس سے وہ لنگڑاکر چلتا تھا_ اور اسے علاج کی اشد ضرورت تھی لیکن اس نے کہا کہ جب تک میں ان لوگوںکے ہاتھ میں ہوں نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ کچھ پئوں گا _اور وہ اپنی اس ضدر پر قائم رہا یہانتک کہ مرگیا''جب ابو سلام کو ابو عزت کے بارے میں ابن جعد بہ کا نظریہ بتایا گیا تو اس نے کہا:''یہ نظریہ بھی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عقبہ بن ابو معیط کو جنگ بدر کے واقعہ میں قید کی حالت میں قتل کرنے کے علاوہ اور کسی کو حالت اسیری میں قتل نہیں کیا''(۱) لیکن یہ نظریہ مؤرخین کے متفقہ قول کے مخالف ہے اور اس میں ہمیں جعلسازی کی کوئی وجوہات بھی نظر نہیں آتیں اس لئے ہم پختہ تاریخی دستاویزات کی بلاوجہ کوئی مخالفت نہیں کر سکتے البتہ نضر بن حارث کی بہن کا اپنے بھائی کے قتل کی مناسبت سے ایک مرثیہ بھی نقل ہوا ہے جس میں اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب ہو کر کہا:

ما کان ضرک لو مننت و ربما

منّ الفتی و هوالمغیظ المحنق

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منت لگاکر اسے چھوڑ دیتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی بھی نقصان نہ ہوتا کیونکہ بسا اوقات شریف آدمی غصہ اور ناراضگی کی حالت میں بھی دوسروں پر احسان کیا کرتے ہیں_

____________________

۱)طبقات الشعراء ابن سلام ص ۶۴وص۶۵_

۳۲۷

اس کی یہ باتیں سن کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس پر ترس آگیا ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھیں بھر آئیںاور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوبکر سے فرمایا:''اگر تو اس کے اشعار سن لیتا تو اسے کبھی قتل نہ کرتا''_لیکن اس کے بارے میں زبیر بن بکا رکہتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ بعض علماء اس روایت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ روایت جعلی ہے(۱) یہ بھی کہتے چلیں کہ اس روایت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک نا معقول بات منسوب کی گئی ہے _ کیونکہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ چند ایک اشعار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فیصلے کو بدل دیں اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر حال میں فقط احکام خداوندی پر عمل درآمد کیا کرتے اور صرف اپنے فریضے پر عمل کیا کرتے تھے_ البتہ اس بات کا مقصد شایدعقبہ کے قریبیوں کے ما حول میں کشیدگی اور تناؤ کو کم کرنا اور اس طریقے سے ان کی دلجوئی ہو سکتی ہے _

باقی قیدیوں کی صورتحال :

مؤرخین کے بقول جب انصار نے نضر اور عقبہ کا حال دیکھا تو انہیں تمام قیدیوں کے قتل ہونے کا خوف لا حق ہو گیا اور انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے قبیلہ اور خاندان والوں کے ستر آدمی تہہ تیغ کئے ہیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی جڑیں ہی کاٹناچاہتے ہیں کیا ؟ یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں ہمیں بخش دیں اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیں '' _ ابوبکر بھی فدیہ لینے پر زور دے کر کہہ رہا تھا : '' یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان اور قبیلہ ہے _ انہیں ایک مہلت اور دیں اور فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیں _ جس سے کفار کے مقابلے میں ہماری طاقت زیادہ ہو جائے گی '' _ یا یہ کہا : ''یہ لوگ ہمارے چچا زاد ، قبیلہ ، خاندان والے اور بھائی ہیں ''_ لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدیہ والی بات کو اتنا سخت نا پسند کیا کہ سعد بن معاذ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے جس پر اس نے کہا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مشرکین سے ابھی ہماری پہلی جنگ ہے اور مشرکین کی خونریزی ہمیں ان کے چھوڑ دینے سے زیادہ پسند ہے '' _ اور عمر نے کہا : '' یا رسول اللہ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جھٹلایا اور در بدر کیا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حکم فرمائیں تو ان کا سر قلم کردیں _ حضرت علیعليه‌السلام کو عقیل کا ، مجھے فلاں کا اور حمزہ کو عباس

____________________

۱)زہرالآداب ج ۱ص ۶۶_

۳۲۸

کا سرقلم کرنے کا حکم دیں کیونکہ یہ کافروں کے راہنما ہیں ''_ اسی مناسبت سے یہ آیت اتری :

( ما کان لنبی ان یکون له اسری حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا و الله یرید الآخرة و الله عزیز حکیم لو لا کتاب من الله سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم )

نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے مشرکوں کا اچھی طرح قلع قمع کئے بغیر انہیں قیدی رکھنا مناسب نہیں ہے_ تم لوگ تو عارضی دنیا چاہتے ہو لیکن خدا تمہاری آخرت اور عاقبت چاہتا ہے _ اورخدا با عزت اور دانا ہے _ اور اگر خدا پہلے تمہیں عذاب نہ کرنے کا وعدہ نہ کر چکا ہوتا تو تمہارے فدیہ لینے پر ضرور تمہیں بہت بڑے عذاب کا مزہ چکھا تا _

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدیہ لینے پر ان کا اصرار دیکھا تو انہیں یہ پیشین گوئی کی کہ فدیہ لینے کا انجام یہ ہوگا کہ جلد ہی ان قیدیوں کی مقدار میں مسلمان مار دیئےجائیں گے _ انہوں نے اس بات کو منظور کرلیا اور جنگ احد میں یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی جس کا ہم بھی بعد میں جائزہ لیں گے _

ان دستاویزات کے متعلق مندرجہ ذیل مآخذ ملاحظہ فرمائیں _ اگر چہ کہ ان میں سے اکثر منابع یہ دعوی کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوبکر والی بات کی طرف مائل ہوگئے تھے لیکن بعض منابع کہتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے قتل پر مصر رہے(۱) _

بہر حال معاملہ فدیہ لینے پر ٹھہرا اور ہر قیدی کے بدلے میں ایک سے چار ہزار دینار کا مطالبہ ہوا جسے قریش نے فورا یکے بعد دیگرے ادا کر کے اپنے قیدی چھڑا لئے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہر قیدی کو اس کو قید کرنے والے کے سپرد کردیا تھا_ اور وہ بذات خود فدیہ لے لیتا تھا(۲) البتہ بعض دستاویزات میں آیا ہے کہ سہیل بن عمرو

____________________

۱)ملاحظہ ہو : تاریخ طبری ج۱ ص ۱۶۹ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۹۰ صحیح مسلم ج۵ ص ۱۵۷ ، بحارالانوار ج ۱۹ ، اسباب النزول واحدی ص ۱۳۷ ، حیاة الصحابہ ج۲ ص ۴۲ ، کنز العمال ج ۵ص ۲۶۵ از احمد ، مسلم ، ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ابی شیبہ ، ابو عوانہ ، ابن جریر ، ابن منذر، ابن ابی حاتم ، ابن حبان ، ابو شیخ ، ابن مردویہ، ابو نعیم و بیہقی ، در منثور ج ۳ ص ۲۰۱ تا ص ۲۰۳ ، مشکل الآثار ج ۴ ص ۲۹۱ و ص ۲۹۲ ، المغازی واقدی ج۱ ص ۱۰۷ و ص ۱۰۸ و الکامل ابن اثیر ج۲ ص ۱۳۶ _

۲) المصنف ج ۵ ص ۲۱۱ _

۳۲۹

بدر کے قیدیوں کا فدیہ لے آیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا کہ قریش کاہم سے جنگ کا پھر کیا ارادہ ہے؟(۱)

ہمارے نزدیک صرف یہی قابل اطمینان تاریخی دستاویزات تھیں_

عذاب کے نزول کی صورت میں صرف عمر کی ہی جان بچتی ؟

لیکن ہمیں بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں جو مذکورہ بات کے بالکل ہی برعکس ہیں _ ان روایات میں آیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوبکر کے ہم خیال ہو گئے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر کے مشورے کو سخت نا پسند کیا _ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت اور عمر کی موافقت میں قرآن کی آیت نازل ہوئی_ دوسرے دن عمر جب صبح سویرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پاس آیا تو دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابوبکر دونوں رورہے ہیں _ اس نے رونے کا سبب پوچھا تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمایا: ''خطاب کے بیٹے کی مخالفت میں ہم پر بہت بڑا عذاب نازل ہونے والا تھا _ اگر عذاب نازل ہو بھی جاتا تو عمر کے سوا کوئی بھی نہ بچ پا تا''_نیز عبداللہ بن عمر کے ذریعہ ابن عباس سے مروی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں اس لئے رورہا ہوں کہ تمہارے ساتھیوں نے فدیہ لے کر مجھے بہت بڑی مصیبت میں مبتلا کردیا ہے _ ان کے عذاب کا مجھ پر نزول اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا _ کیونکہ خدا نے( ما کا لنبی ان یکون له اسری حتی یثخن فی الارض ) والی آیت نازل کی ہے ''(۲) _

لیکن ہم مذکورہ باتوں کو صحیح نہیں سمجھتے اور ہمارے پاس اس کے بطلان کے لئے کافی سے زیادہ دلائل موجود ہیں _ اور یہ ہو سکتا ہے کہ اسلام کا اظہار کرنے والے بعض جا ہلوں ، الزام تراشوں، دھوکہ بازوں اور جھوٹوں نے یہ روایتیں اس لئے گھڑی ہوں کہ وہ یہ بتا سکیں کہ اس بارے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنے مؤقف میں غلطی کی ہے اور مذکورہ آیت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی غلطی کی نشاندہی اور اس کی درستگی کے لئے نازل ہوئی ہے(۳)

____________________

۱) ایضا_

۲)ملاحظہ ہو: گذشتہ تمام منابع نیز فواتح الرحموت بر حاشیہ المستصفی غزالی ج۲ ص ۲۶۷ ، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۹۳ ، المستصفی غزالی ج ۲ ص ۳۵۶ و تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۱۶۹ )_

۳)قضایا فی التاریخ الاسلامی محمود اسماعیل ص ۲۰_

۳۳۰

بہر حال مذکورہ نظریئےے جھوٹے ہونے پر ہمارے پاس مندرجہ ذیل دلائل ہیں :

۱_یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ عذاب سے صرف عمر ہی کیوں نجات پائے گا ؟ پھر عمر کی موافقت کرنے والے سعد بن معاذکا کیا قصور تھا کہ اس پر بھی عذا ب نازل ہوتا؟ کیا اکثر لوگوں کے بقول وہ عمر کے موافقین میں سے نہیں تھا؟ بلکہ معتزلی کے مطابق تو سب سے پہلے ایسا مشورہ دینے والا یہی شخص تھا(۱) نیز ابن رواحہ کا کیا قصور تھا ؟ آخر وہ بھی تو عمر کے نظر یہ کا موافق تھا ؟(۲) نیز یہ بھی معقول نہیں ہے کہ آیت میں( تریدون عرض الدنیا ) نیز( لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم ) جیسے الفاظ کے مخاطب بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں_ کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ تو دنیا طلب تھے اور نہ ہی اس عذاب عظیم کے مستحق تھے_ اس لئے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم کوئی دیا اور اس کی وضاحت بھی کردی لیکن اس کے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (نعوذ باللہ) احکام خداوندی کی مخالفت کی _ اور ایسا عقیدہ رکھنا بہت بڑا گناہ اور اس کی سزا بھی بہت سخت سزا ہوگی(۳) _ اور اس بات پر دلیل کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قیدیوں کے قتل کا واضح حکم دیا تھا یہ ہے کہ فدیہ کے حلال ہونے کے حکم کا علم عبداللہ بن جحش والے واقعہ میں ہو چکا تھا جس میں ابن حضرمی ما را گیا _ کیونکہ اس میں عثمان بن مغیرہ اور حکم بن کیسان بھی قید کر لئے گئے تھے اور فدیہ لے کر انہیں آزاد کردیا گیا تھا اور خدا نے اس کی نفی اور تردید نہیں کی تھی _ اور یہ واقعہ جنگ بدر سے بھی ایک سال بلکہ اس سے بھی پہلے کا ہے(۴) جس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ بدر کے قیدیوں کا کوئی خاص معاملہ اور ان کے لئے کچھ خصوصی احکام تھے جنہیں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے اپنے اصحاب کو وضاحت کے ساتھ سمجھا بھی دیا تھا لیکن اصحاب اس حکم کی خلاف ورزی پر اصرار کرتے رہے جس کی وجہ سے وہ عذاب عظیم کے مستحق ٹھہرے لیکن پھر خدا نے لطف و کرم کرتے ہوئے انہیں معاف کردیا تھا_

____________________

۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۱۷۵ و ص ۱۷۶ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۶ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۹۲ ، سیرہ ابن ہشام ج۲ ص ۲۸۱ ، تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۸۱ و المغازی واقدی ج۱ ص ۱۱۰ و ص ۱۰۶ _ (۲)البدایہ و النہایہ ج ۲ ص ۲۹۷ ، تاریخ الطبری ج۲ ص ۱۷۰ ، الروض الانف ج ۳ ص ۸۳ ، اسباب النزول واحدی ص ۱۳۷ ، تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۹۳ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۹۲ و حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۵۳ از حاکم جس نے اسے صحیح قرار دیا ہے ، ابن مردویہ ، ترمذی و احمد_ (۳)ملاحظہ ہو : دلائل الصدق ج ۳ حصہ ۱ ص ۵۹_ (۴)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۹۲_

۳۳۱

ہماری مذکورہ بات پر ایک اور دلیل بعض روایتوں میں مذکور یہ بات بھی ہے کہ واقعہ بدر میں حضرت جبرائیلعليه‌السلام نازل ہوئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کے قیدیوں کا فدیہ لینے کے اس کام کو خدا نے سخت ناپسند کیا ہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں یہ اختیار دے دیں کہ یا وہ سب قیدیوں کو تہہ تیغ کردیں یا پھر اس شرط پر ان سے فدیہ لیں کہ ان قیدیوں کی تعداد میں یہ لوگ بعد میں مارے جائیں گے'' _ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ یہ ہمارا قوم و قبیلہ ہیں(۱) _ بلکہ ہم توان سے فدیہ لیں گے تا کہ اس طریقے سے ہمیں اپنے دشمنوں پر برتری حاصل ہو _ اور اس کے بدلے میں ہم اتنی تعداد میں اپنے آدمیوں کا شہید ہونا گوارا کرلیں گے''(۲)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ خود ہی فدیہ لینے پر مائل تھے اور اس پر بہت تاکید اور اصرار بھی کیا جس کے بعد جا کر انہیں فدیہ لینے کی اجازت ملی _ ان معروضات کے ساتھ ہم یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ خود رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انہیں قتل کرنا چاہتے تھے(۳)

نیز واقدی کہتا ہے کہ اس دن قیدیوں نے کہا : '' ہمیں ابوبکر کے حوالے کیا جائے کیونکہ قریش میں وہ ہمارا سب سے قریبی رشتہ دار اور صلہ رحمی کرنے والاہے اور (حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک بھی سب سے زیادہ اثر ور سوخ والا ہے '' _ ( یعنی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی بات ٹال نہیں سکیں گے)_مسلمانوں نے ابوبکر کو ان کے پاس بھیجا ، وہ ان کے پاس آیا اور کچھ گفتگو ہوئی جس کے بعد اس نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی بہتری اور مناسب راہ حل کے لئے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گا بلکہ ہر ممکن کوشش کرے گا _ اس کے بعد وہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاجوش اور غصہ ٹھنڈا کرنے لگا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نرم ہونے کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ قیدیوں کو فدیہ لےکر چھوڑ دینے کا کہتا رہا _ اس نے تین بار یہ عمل دہرا یا لیکن ہر مرتبہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

____________________

۱)یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مذکورہ بات کرنے والے مہاجرین تھے_

۲)تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۹۳ از فتح الباری از ترمذی ، نسائی ، ابن حبان و حاکم با روایت صحیح الاسناد ، المصنف عبدالرزاق ج ۵ ص ۲۱۰ ، البدایہ و النہایہ ابن کثیر ج ۳ ص ۲۹۸ و طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۱۴ حصہ ۱_ (۳)بطول مثال ملاحضہ ہو : الکامل ابن اثیر ج۲ ص ۱۳۶_

۳۳۲

اس کو کوئی مثبت جواب نہیں دیا(۱)

گذشتہ معروضات کی روشنی میں کیا ان کا یہ کہنا پھر بھی صحیح مان لیا جائے گا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوبکر کے ساتھ بیٹھ کر ( نعوذ باللہ ) اپنے آپ پرور رہے تھے اور اگر عذاب نازل ہو جاتا تو عمر کے سوا سب ہلاک ہو جاتے (حتی کہ نعوذ باللہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بھی)؟

۲_ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شروع سے ہی ابوبکر کے نظریئےے موافق تھے اور خود ان کے بقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوبکر کے ساتھ بیٹھے اپنے اوپر رورہے تھے ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر سے یہ کیوں کہا کہ '' ان لوگوں کے عذاب کا مجھ پر نزول اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا''؟ کیونکہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نظریہ وہی ابوبکر والا تھا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (نعوذ باللہ) مستحقین عذا ب سے اپنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو علیحدہ کیوں کیا؟ پھر (اس صورت میں)یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (نعوذ باللہ) ان لوگوں کی طرح مستحق عذاب نہ ہوں ؟ حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی تو ان کے ہم نوا تھے اور ان کے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خیالات ایک ہی تھے؟؟_

۳_ ان مذکورہ باتوں کو ما ن لینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم عملی طور پر :

( و ما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی ) (۲)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں بولتے اور جو کچھ بھی بولتے ہیں وہ وحی ہی ہوتی ہے _

جیسی آیات کو جھٹلانے کے مرتکب ہوں _ اس صورتحال میں پھر تو اللہ تعالی کا( اطیعوالله و اطیعو الرسول ) (۳) کہہ کر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا حکم دینے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا کہ مسلمان تو خدا کا حکم بجا لاتے ہوئے اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کریں لیکن خدا اس کے بدلے میں انہیں جھڑک دے اور انہیں عذاب کی دھمکی دے _ اس صورت میں تو(نعوذ باللہ )خدا کو اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جھڑک کر دھمکی دینی چاہئے تھی لیکن مسلمانوں کی تعریف و تمجید کرنی چاہئے تھی کیونکہ مسلمانوں نے تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی اطاعت کرکے اپنے فریضے پر عمل کیا تھا _

____________________

۱) المغازی واقدی ج۱ ص ۱۰۷ و ص۱۰۸ _ (۲)نجم /۳و۴_ (۳)نساء /۵۹_

۳۳۳

۴_رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو فدیہ لینے کا صرف مشورہ دینے پر وہ لوگ عذاب اور سزاکے مستحق نہیںہو سکتے تھے کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں نے اپنے لئے ایک نامناسب چیز کا انتخاب کیا تھا (اور ابھی فدیہ لیا تونہیں تھانہ ہی فی الحال کوئی بات پکی ہوئی تھی اور اظہار رائے کی تو ہر کسی کو آزادی ہونی چاہئے)یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاںضرور کوئی اور بات تھی کہ جس کی مخالفت پروہ مستحق عذاب ٹھہرے تھے _اور وہ بات یقیناًیہ تھی کہ انہوں نے فدیہ لینے پر اصرار کرکے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی تمام تر تصریحات اور واضح بیانات کے باوجود وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مخالفت اور ارادہ الہی کے برخلاف دنیاوی چیزوں کے حصول پر اصرار کے مرتکب ہوئے تھے_ کیونکہ ارشاد خداوند ی ہے:( تریدون عرض الدنیا و الله یرید الآخرة ) نیز کسی چیز کو اچھے طریقے سے بیان کرنے سے پہلے اس کی مخالفت بھی موجب عذاب اور سزا نہیں ہوتی _

بہرحال خدانے ان پر لطف و کرم کرتے ہوئے ان کی اس مخالفت کو معاف فرما دیا اور ان کی دلجوئی کے لئے ان کے لئے فدیہ لینا جائز قرار دے دیا _حالانکہ اس کے نتائج بھی نہایت بھیانک رکھے لیکن وہ دنیا کی محبت میںاندھے ہوگئے اور اس کے بھیانک نتائج کو بھی ساتھ ہی قبول کرلیا_البتہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ بعض مہاجرین کا فدیہ لینے پر اصرار صرف دنیا پرستی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہو کہ ان پر ''صنادید قریش''(قریش کے سرداروں)کا قتل نہایت شاق تھا _ کیونکہ قریش کے ساتھ ان کے دوستانہ ،مفاد پرستانہ اور رشتہ دار انہ تعلقات تھے اور ان کے اس موقف کو وہاںموجود مسلمانوں کی ایک سادہ لوح جماعت نے بھی بلاسوچے سمجھے اپنا لیا تھا _پس بعض لوگوں کی مشرکوںکے ساتھ مہربانی اور مال کمانے کے شوق نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مخالفت پرا کسانے کے ساتھ ساتھ انہیں عذاب خداوندی کا مستحق بھی ٹھہرایا_ اور یہ لوگ اپنی نیت میں فتور ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مخالفت پر اصرار اور نظریات ،اقوال اور افعال میں منافقت کی وجہ سے عذاب خداوندی کے مستحق ٹھہرے_خاص کرجب یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ کچھ منافقین بنی ہاشم کے افراد کو قتل کرنے کا مشورہ دے رہے تھے جنہیں مشرکین زبر دستی اپنے ساتھ جنگ میں گھسیٹ لائے تھے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا پہلے

۳۳۴

ہی انہیں قتل نہ کرنے کا حکم دے چکے تھے _نیز یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایسا مشورہ دینے والے شخص کے قبیلے کا کوئی بھی فرد جنگ بدر میں شریک نہیں ہواتھا جس سے ہمیں ان کے دلی حالات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے ،لیکن اگر اظہار رائے میں صرف غلطی پائی جائے اور اس میں یہ مذکورہ خامیاں نہ ہوں تو یہ چیز انہیں عذاب کا مستحق نہیںٹھہراتی _یہاںاس بات کی تشریح میں کچھ اور باتیںبھی ذکر ہوئی ہیں(۱) جن کے پختہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے ان کو ذکر نہیں کیا_

۵_روایات میں ملتا ہے کہ جنگ بدر کے ختم ہونے کے بعد مسلمان جلدی جلدی مال غنیمت لوٹنے میں لگ گئے _جس پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''تم سے پہلے جس امت نے بھی سرداروں کو قتل کیا ہے اس کے لئے مال غنیمت لینا حرام تھا _ماضی میں ہرنبی اور اس کے ساتھیوںکو جو بھی مال غنیمت ملتا وہ اس کو اکٹھا کرکے ایک جگہ رکھ دیتے جس کے بعد آسمان سے اس پر آگ نازل ہوتی تھی اور سارے مال غنیمت کو جلا کر راکھ کردیتی تھی''_ جس پر خدا نے یہ آیت نازل کی :

( لولا کتاب من الله سبق لمسکم فیما اخذتکم عذاب عظیم فکلوا مما غنمتم حلالاً طیبا ) (۲)

اگر خدا پہلے (عذاب نہ کرنے کا ) وعدہ نہ کر چکا ہوتا تو تمہیں بہت بڑا عذاب جکڑ لیتا _ لیکن اب تم مال غنیمت کھا سکتے ہو تمہارے لئے حلال اور پاکیزہ ہے ''اور طحاوی نے اسی آیت کے شان نزول میں مذکورہ روایت کو زیادہ مناسب جانا ہے_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتے ہیں ؟

رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منسوب گذشتہ باتوں نیز اس دعوے کے بطلان کے بعد کہ گذشتہ آیت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سرزنش

____________________

۱)ملاحظہ ہو: دلائل الصدق ج۳حصہ ۱ص ۵۵و۶۰_

۲)مشکل الآثار ج۴ص۲۹۲وص۲۹۳_

۳۳۵

کرنے کے لئے اتری ہے ،یہ بھی معلوم ہو جاتاہے کی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم پر اجتہاد اور اس میں غلطی کے جواز کا بعض لوگوں کا دعوی اور اس دعوے پر مذکورہ آیت سے استدلال بھی صحیح نہیں ہے _کیونکہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے اور وحی کے نازل ہونے پر ہی بولتے ہیں_اس لئے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے منسوب گذشتہ باتیں بے بنیاد اور باطل ہیں_اس کے علاوہ ایسے قطعی دلائل بھی پائے جاتے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہر قول و فعل حق ہوتا ہے اور حقیقت ،شریعت اور خدا کے قطعی احکام کے عین مطابق ہوتا ہے _

سعد بن معاذ یا عمربن خطاب ؟

طبری نے محمد بن اسحاق کے ذریعہ روایت کی ہے کہ جب آیت (ما کان لنبی ان یکون لہ اسری) اتری تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمایا:''اگر آسمان سے کوئی عذاب نازل ہو جاتا تو (اصحاب سے)صرف سعد بن معاذ ہی بچ سکتا تھا کیونکہ اس نے کہا تھا کہ یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان لوگوں کو زندہ رکھنے سے مجھے ان کی خونریزی زیادہ پسند ہے'' _(۱) شاید یہی روایت ہی صحیح ہے لیکن کئی ایسے وجوہات کی بنا پر اسے خلیفہ ثانی کے حق میں بدل دیا گیا ہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اور اسے بھی ہم نے صحیح اس لئے کہا ہے کہ یہ بہترین اور پختہ مشورہ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مرضی کے بھی مطابق تھا _لیکن عمر اور دوسروں کے مشوروںپر گہری دقت اور بحث کی ضرورت ہے جس کے متعلق ہم بعد میں گفتگو کریں گے _کیونکہ یہ مشورے اچھی نیت سے نہیں دیئےئے تھے اور ہو سکتا ہے سب یا کچھ مشورے خود مشرکوں کے ایماء پر دیئےئے ہوں_جس طرح و اقدی نے اس بات کا تذکرہ کیا بھی ہے _اور ابوبکر اور دوسرے انصاریوںکے بارے میں بھی گذر چکا ہے کہ وہ حصول مال اور قریش کی دشمنی کی شدت کم کرنے کی خواہش میں فدیہ لینے پر اصرار کررہے تھے _نیز ان کا مدعا یہ بھی تھا کہ ان میں ہمارے بھائی ،رشتہ داراور خاندان والے بھی ہیں _ نیز ابو بکر نے مشرک قیدیوں سے یہ وعدہ کر رکھاتھا کہ وہ ان کے لئے اپنی سی کوشش ضرور کرے گا_ یہ بات بھی واقدی نے ہی بتائی ہے_

____________________

۱) تاریخ طبری ج۲ ص ۱۷۱و الثقات ج۱ص ۱۶۹_

۳۳۶

یہ سب لوگ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہر ممکن طریقے سے اپنی بات کا قائل کرنے لگے اور اس کے لئے وہ جذباتی ہتھکنڈے استعمال کرنے پر بھی تل گئے اور یہ کہنا شروع کردیا کہ ''یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان ،رشتہ دار قوم اور قبیلہ ہیں کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی جڑیں کاٹنا چاہتے ہیں ؟''_اورابو بکر نے تو اس بات کے لئے مصلحت پسندانہ دلیل قائم کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان فدیہ لیں گے تو مشرکوں کے مقابلے میںطاقتور ہو جائیں گے _لیکن نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم ان کی باتیں ماننے سے انکار کرتے رہے کیونکہ ان کی باتیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قانع نہ کر سکیں _اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سعد بن معاذ کی رائے کو مناسب جانتے تھے البتہ اس بات کے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مد نظر اور بھی باتیں تھیں جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بالکل عیاں تھیں_اس لئے مذکورہ آیت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے موقف کی تائید میں نازل ہوئی لیکن انہیں بھی اس بھیانک نتیجے کے ساتھ فدیہ لینے کی اجازت دی گئی کہ ان قیدیوں کے بدلے میںاتنی تعداد میں مسلمان قتل ہوں گے _

قیدیوں کا قتل ہی زیادہ مناسب تھا:

اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ مشرک قیدیوں کا قتل ہی زیادہ مناسب اور صحیح تھا _ اور اس دعوی کے ہمارے پاس مندرجہ ذیل دلائل ہیں:

۱_ قیدیوں میں قریش کے کئی بڑے بڑے سردار بھی تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو بالکل ہی خبیث افراد تھے انہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے شعلے بھڑکائے تھے ،انہیں دربدر اور جلا وطن کیا تھا ، ان کی ہر طرح سے توہین کی تھی اور انہیں مختلف قسم کی اذیتیں اور تکلیفیں دی تھیں_ یہ ایسے متکبر لوگ تھے جو نہ تو اپنی زیادتیوں سے باز آنے والے تھے اور نہ اس دین کو قبول کرنے والے تھے _بلکہ وہ تو اسلام کی جڑیںکاٹنے کے درپے تھے اور کسی منطقی اور معقول پیشکش کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے _اور شکست اور قید کی ذلت اٹھانے کے بعد تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کے دلوں میں کینہ مزید بڑھ گیا تھا_اور مسلمان (اگر زندہ رہتے تو) صرف دو طریقوں سے ہی ان سے چھٹکارا پا سکتے تھے جس کی طرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اشارہ فرما

۳۳۷

دیا تھا _جہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو یہ بتا دیا تھا کا اگر وہ فدیہ لیں گے تو انہیں ان کی تعداد کے برابر قتل ہونا پڑے گا _

۲_ اور گذستہ بات سچی بھی ثابت ہو گئی کیونکہ بعد میں جنگ احد و غیرہ میں نیز مختلف مراحل میں مسلمانوں کو مسلسل اذیتوں میں مبتلا کرنے میں انہی افراد کا زیادہ ہاتھ اور موثر کردار تھا_ اسی لئے تو سعد بن معاذ کی یہ بات نہایت ہی مناسب اور بہترین تھی کہ ''مشرکوں سے ہماری یہ پہلی جنگ ہے اور ان آدمیوں کو زندہ رکھنے سے زیادہ مجھے ان کی خونریزی پسند ہے '' _اور بعض کا نظریہ تو یہ ہے کہ خدانے تا کید کے ساتھ مشرکوں کو قتل کرنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ مسلمانوں کو یہ باور ہوجائے کہ حالات جیسے بھی ہوں ،مال کی طرف دیکھنا اور اس کی خواہش کرنا نہایت ناپسندہ عمل ہے _مگر یہ کہ وہ بہت بڑے ہدف یعنی دین کی خدمت کے لئے ہو_

۳_ اگر وہ اسلام قبول نہ کرتے تو ان کے کر توتوں کی سزامیں ان کا قتل بھی قریش پر ایک کامیابی اور ایک کاری فوجی اور روحی وار ہوتا اور اس سے عمومی لحاظ سے مشرکوں کا دبدبہ اور شان و شوکت بھی کم ہو جاتی اور ان کے حمایت کرنے والے یہودیوںاور غطفان ،ہوازن اور ثقیف و غیرہ کے عرب مشرکوں کو ایک دھمکی اور الٹی میٹم ہوتا جس سے وہ انہیں چھوڑ کر بھاگ جاتے _اس صورت میں مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا کہ وہ لوگ یہ سمجھ لیتے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اپنے عقیدے اور دین کی خاطر اپنے قبیلے اور قوم کا لحاظ نہیں کیا اور رسالت کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالنے اور نور الہی کو بجھانے کی کوشش کرنے پر ان سب کوتہہ تیغ کردیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نور خدا کو بجھانے اور اپنے دین اور دین کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے دوسرے لوگوں کا بھی کوئی لحاظ نہیں کریں گے_ اور یہ بات پورے جزیرة العرب کے مشرکوں ،یہودیوں اور قریشیوں کے دلوں میں ناامیدی پیدا کرنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دھاک بٹھانے میں نہایت مؤثر ہوتی اور پھر دوسروں کو یہ کہنے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نہایت آسانی ہوتی کہ ''تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم اسلام سے دشمنی اور مخاصمت ترک کردو کیونکہ اس دین کے مقابلے میں آنے کا نتیجے صرف تمہاری تباہی اور بربادی کی صورت میں ہی نکلے گا ''_

۳۳۸

۴_ ان لوگوں کے قتل سے انصار کو یہ اطمینان ہو جاتا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قبیلے والے جب تک اپنے شرک پر ڈٹے ہوئے ہیںآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی بھی ان سے صلح نہیں کریں گے اور ان کا ساتھ نہیںدیں گے _ظاہر ہے اس کے نتیجے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے دینی تعلیمات کی بنا پر دینی رابطوں کوسب تعلقات سے زیادہ محکم سمجھتے ہیں ، عقیدے کی قرابت داری کو ہی اصل قرابت سمجھتے ہیں اور اسلامی اور دینی رشتہ داری کو ہی اصل رشتہ داری جاننے ہیں اس بنا پر انصار کے دلوں میں کبھی بھی کسی قسم کے خدشے اور وسوسے جنم نہ لیتے _ جبکہ انہوں نے اسی بات کا اظہار بیت عقبہ اور پھر فتح مکہ کے موقع پر بھی کیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شاید اپنی قوم سے مصالحت کرلیں گے یا اپنے رشتہ داروں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں

قیدیوں کے بارے میں عمر کا موقف:

اس واقعہ میں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ :

۱_عمربن خطاب نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے یہ خواہش کی تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حکم فرمائیں کہ علیعليه‌السلام اپنے بھائی عقیل کی گردن اڑادے اورحمزہ اپنے بھائی عباس کاسر قلم کرے اور وہ ان لوگوں کو کافروں کا سردار بتارہا تھا _اور یہ نہایت ہی عجیب و غریب خواہش ہے البتہ قریش کے فرعونوں،متکبروںاور بڑے بڑے سرداروں کے متعلق اس کی خاموشی اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور معنی خیز ہے ؟_خاص کر جب یہ مشاہدہ کیا جائے کہ اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سناتھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے لشکر کو (اور یہ بھی تو اسی فوج میں شامل تھا ) بنی ہاشم خاص کر مذکورہ دونوں شخصیات اور چند دوسرے افراد کو قتل نہ کرنے کا حکم دیا تھا ،کیونکہ انہیں اس جنگ میں زبر دستی گھسیٹا گیا تھا_ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ انہوں نے مکہ میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھر پور دفاع کیا تھا ،شعب ابی طالب میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ داخل ہوئے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاطر بہت تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں _

۲_ جناب عمر کے قبیلے یعنی قبیلہ بنی عدی نے اس جنگ میں حصہ نہیں لیاتھا(۱)

____________________

۱)ملاحظہ ہو : تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۴۳، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۱،المغازی واقدی ج ۱ ص ۴۵ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۱ تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۳۱۴ و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵ اور تاریخ کی کوئی بھی کتاب جہاں جنگ بدر کے چھڑنے سے پہلے کچھ لوگوں کے پلٹنے کا ذکر ہوتا ہے_

۳۳۹

پس اسے اس کی کیا پروا تھی؟ چاہے جس کے جگر پر بھی ضربت لگے _جب تک اس آدمی کے قوم ،قبیلہ اور رشتہ داروں کو کوئی گزند نہیں پہنچتی تب تک چاہے ساری دنیاہی قتل ہو جائے اس کے لئے کوئی اہمیت کی بات ہی نہیں ہے _یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر کی ''فلاںکو میرے حوالے کردیں'' والی بات کو ذکر کرتے وقت بعض لوگوں کا ''وہ عمر کے قریب تھا ''کے الفاظ کا اضافہ مضحکہ خیز اور نادرست ہے حالانکہ عمر کی بات تبانے والی صرف بعض روایتوں میں یہ الفاظ ذکر ہوئے ہیں _اس لئے کہ جنگ بدر میں عمر کا کوئی رشتہ دار تھاہی نہیں البتہ شاید اس کا کوئی سسرالی رشتہ دار موجود ہو لیکن اگر کوئی تھا بھی تو ان کے نزدیک یہ سسر الی رشتہ داری کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی _ بہر حال ان پہلوؤں پرہم سے پہلے جناب عباس بن عبد المطلب نے عمر پر ایسا برا گمان کیا ہے _

اور وہ یوں کہ فتح مکہ کے موقع پر جب جناب عمر ابوسفیان کے خلاف بڑھ چڑھ کر باتیں کررہا تھا اور اس کے قتل پر بار بار اصرار کررہا تھا تو عباس نے اس سے کہا : '' نہیں عمر ٹھہرو اگر وہ بنی عدی بن کعب کا آدمی ہوتا تو تم ایسا کبھی نہ کہتے _ لیکن تمہیں پتاہے کہ یہ بنی عبد مناف کا آدمی ہے''(۱)

۳_ اپنے قریبوں اور رشتہ داروں کا اپنے ہاتھوں سے قتل ایک ایسا قبیح فعل ہے جس سے ذہن متنفر ہوتاہے اور بسا اوقات لوگوں کی اسلام سے دوری کا باعث بھی بن سکتاہے بلکہ انہیں اس دین میں داخل ہونے کے متعلق سوچنے سے بھی منع کردیتاہے جس میں انہیں اپنے بھائیوں کو قتل کرنا پڑے _ بلکہ ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کو مرتد ہونے پر بھی تیار کرسکتاہے، جب وہ یہ دیکھیں گے کہ دوسروں کے ہوتے ہوئے بھی انہیں ہی اپنے دوستوں ، بھائیوں ، پیاروں اور رشتہ داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے _

نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم بھا گ جانے والے قیدی کو قتل نہیں کرتے

واقدی کہتاہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جنگ بدر سے واپس ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مشرکین کے قیدی بھی

____________________

۱)مجمع الزوائد ج۶ ص ۶۷از طبرانی اور اس کی سند کے سب راوی صحیح بخاری کے افراد ہیں و حیاة الصحابہ ج۱ ص ۱۵۴ _

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460