الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242101 / ڈاؤنلوڈ: 6989
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

ہمیں آخری سانس اور آ خری لحظہ تک اپنے وظیفہ کو انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اپنی زندگی کے لحظات کو ایسے امور میں ضائع نہ کریں  کہ جن میں خدا کی رضایت شامل نہ ہو ۔

حضرت امیر المو منین  (ع) فرما تے ہیں :

'' انّ انفا سک اجزاء عمرک ، فلا تفنها الاَّ فی طاعةٍ تزلفک ''(1)

تمہاری سانسیں تمہاری زندگی کے اجزا ء ہیں لہذا انہیں ضائع نہ کریں مگر ایسی عبادت میں کہ جوتمہارے لئے بیشتر تقرب کا باعث بنے۔

ہمارے بزرگان نے زندگی کے آخری لمحات اور آخری سانسوں تک فرصت اور وقت سے  بہترین استفادہ کیا ۔

شیعہ تاریخ  کے علماء و بزرگ شخصیات میں سے بر جستہ شخصیت آیت اللہ العظمیٰ حاج سید محمد حجت ایسے افراد میں سے تہے ۔

مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ مرتضی حائری اس بزرگوار کے بارے میں یوں لکہتے ہیں کہ وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی  کے زمان میں تقریباً مرجع مطلق یا اکثر آذر بائیجان کے مرجع تہے تہران میں مقیم آذر بائیجانی اور بعض غیر آذر بائیجانی ان کی طرف مراجعہ کرتے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ غرر الحکم :ج2  ص9 9 4

۱۰۱

جس سال سردیوں کے اوائل میں وہ مرحوم ہوئے ، اس وقت موسم ابہی تک مکمل طور پر سرد نہیں ہوا تہا ، وہ گہر کی تعمیر میں مشغول تہے گہر کے ایک حصے کو توڑ چکے تہے تا کہ جدید گہر تعمیر کر سکیں اور گہر کے دوسرے حصے میں کاریگر دوسرے کاموں میں مصروف تہے جیسے کنویں کی کہودائی یا اس میں پتہر لگانا ، ان تعمیرات کے بانی ان کے ایک ارادتمند تہے ۔ ایک دن صبح کے وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوا وہ تخت پر تشریف فرما تہے اور ان کی حالت عادی تہی وہ اکثر دمہ کی وجہ سے سر دیوں میں نفس تنگی کا شکار ہوتے تہے لیکن اس وقت سرد موسم کے باوجود ان کی حالت عادی و معمول کے مطابق تہی ۔ مجہے اطلاع ملی کہ انہوں نے ٹہیکے دار اور دیگر کاریگر وں کو کام سے فارغ کر دیا ہے ۔ میں نے کہا کہ آغا آپ نے انہیں کیوں جواب دے دیا ؟ انہوں نے بڑے وثوق و صراحت سے کہا کہ ! مجہے لگتا ہے کہ میں مرجاؤں گا تو پہر یہ گہر کی تعمیر کس لئے ؟

پہر میں نے بہی کچہ نہ کہا دوسرے دن شاید بروز چہار شنبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا سید احمد زنجانی ان کے پاس بیٹہے تہے انہوں نے جائیداد کے کاغذات و اسناد آغا زنجانی کو دیئے اور ایک  چہوٹے صندوق میں پڑہی نقد رقم مجہے دی کہ اسے معین مصارف میں صرف کرو ں اور اس میں سے کچہ حصہ مجہے عطا فرمایا ۔

اس سے پہلے انہو ں نے وصیت کو چند نسخوں میں لکہا تہا کہ جن میں سے ایک انہوں نے مجہے بہیجوا یا تہا جواب بہی موجود ہے ۔ انہوں نے وصیت کی تہی کہ ان کے اور ان کے وکلا کے پاس تمام موجود رقم سہم امام ہے ۔

انہوں نے  جو زمین مدرسہ کے نام پر خریدی تہی ، وہ ان کے نام پر تہی کہ جس کا یک بڑا حصہ بعد میں آغا بروجردی کی مسجد میں شامل ہو گیا انہوں نے وصیت نامہ لکہا تہا کہ وہ زمین بہی سہم مبارک امام سے جو ارث میں نہیں دی جاسکتی اور اگر آغا بروجردی نے چا ہا تو انہیں مسجد کے لئے دے دیں ۔

۱۰۲

ان کی رقم وہ ہی صندوق میں موجود رقم میں ہی منحصر تہی اور چند دن سے وجوہات شرعیہ نہیں لیتے تہے انہوں نے جب وہ رقم مجہے دی کہ میں وہ ان کے موارد میں صرف کروں تو انہوں نے آسمان کی طرف ہاتہ بلند کئے اور کہا کہ خدا یا میں نے اپنی تکلیف  پر عمل کیا اب تو میری موت کو پہنچا دے ۔

میں نے ان کی طرف دیکہا  اور کہا کہ آغا آپ ویسے ہی اس قدر ڈر رہے ہیں آپ ہر سال سردیوں میں اسی بیماری میں مبتلا ہو تے ہیں اور پہر ٹہیک ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ نہیں میں ظہر کے وقت فوت ہو جاؤں گا میں خاموش رہا اور ان کے فرمان کے مطابق کاموں کو انجام دینے کے لئے نکل پڑا میرے دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ اسی دن ظہر کے وقت وفات نہ پاجائیں اور ان پیسوں کے بارے میں تکلیف معلوم نہ ہو کہ کیا ورثہ کو دیں یا ان موارد میں خرچ کریں ۔ اسی شک میں میں سوار ہوا اور ظہر تک ان کو انجام دیا وہ اس دن ظہر کے وقت فوت نہ ہوئے بلکہ اس چہار شنبہ کے بعد آنے والے ہفتہ کو ظہر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملے میں گہر سے باہر آیا تو اسی وقت مدرسہ حجتیہ سے اذان کی صدا بلند تہی  ۔

انہیں راتوں میں سے ایک رات انہوں نے مجہے کہا کہ مجہے قرآن دو انہوں نے قرآن کہو لا تو  پہلے  صفحہ پر یہ آیت شریفہ تہی ، '' لہ دعوة الحق '' ظاہراً انہوں نے گریہ کیا اور انہوں نے اسی رات یا دوسری رات اپنی مہر توڑدی ۔

وفات کے نزدیک ایک دن وہ اپنی آنکہیں دروازے پر لگائے بیٹہے تہے اور ایسے لگتا تہا کہ وہ کسی چیز کا مشاہدہ فر ما رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ! آغا علی تشریف لائیں لیکن کچہ دیر بعد وہ عادی حالت  پہ واپس آگئے ۔ آخری دوتین دن وہ ذکر اور خدا  سے راز ونیاز میں زیادہ مشغول ہوتے تہے ۔

۱۰۳

ان کی وفات کے دن میں نے بڑے اطمینان سے گہر میں مکاسب کا درس دیا اور پہر ان کے چہوٹے کمرے میں گیا کہ جہاں وہ لیٹے تہے ۔ اس وقت فقط ان کی بیٹی وہاں موجود تہی کہ جومیری زوجہ بہی تہیں لیکن آغا کا چہرہ دیوار کی طرف تہا اور وہ ذکر  و دعا میں مشغول تہے ۔ انہوں نے کہا کہ آغا آج کچہ مضطرب ہیں ظاہراً ان کے اضطراب کی دلیل وہ ہی زیادہ ذکر و دعا تہا میں نے سلام کیا انہوں نے میرے سلام کاجواب دیا ور کہا آج کیا دن ہے میں نے کہا ، ہفتہ ، انہوں نے فر مایا کہ آج آغابروجردی درس پہ گئے تہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے صمیم قلب سے چند بار کہا ۔ الحمد للہ ۔

غرض یہ کہ ان کی بیٹی نے کہا کہ انہیں تہوڑی سی تربت امام حسین (ع)  دیں ۔ میں نے کہا ٹہیک ہے وہ تربت لائیں میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ نوش فرمائیں وہ بیٹہ گئے میں ان کے سامنے گلاس لے گیا انہوں نے سو چا غذا یا دوا ہے انہوں  نے کچہ تلخ لہجے میں کہا یہ کیا ہے ؟ میں  نے کہا ، تربت امام حسین  ۔ ان کا چہرہ کہل گیا اور تربت اور پانی نوش فرمایا اس کے بعد میں نے ان سے یہ کلمہ سنا کہ  انہوں نے کہا'' آخر زادی من الدنیا تربة الحسین '' دنیا سے میرا آخری توشہ تربت امام حسین (ع)  ہے۔ وہ دوبارہ لیٹ گئے میں نے دوسری مرتبہ ان کی فرمائش پر دعاء عدیلہ قرائت کی ۔ ان کے دوسرے بیٹے آغا سید حسن رو بہ قبلہ بیٹہے تہے اور آغا تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹہے ہوئے پڑہ رہے تہے اور وہ خدا وند متعال کے سامنے بڑی شدت اور صمیمیت سے اپنے عقائد کا اظہار کر رہے تہے ۔

مجہے یاد ہے کہ وہ امیر المو منین علی(ع)  کی خدمت کے اقرار کے بعد ترکی زبان میں یہ کہہ رہے تہے :بلافصل ، ہیچ فصلی یخدی ، لاپ بلا فصل لاپ بلا فصل ، کیمین بلا فصل وار؟

۱۰۴

آئمہ معصو مین علیہم السلام کے بارے میں انہوں نے اس آیت کی تلاوت فرمائی '' الم تر کیف ضرب اللّٰه مثلاً کلمةً طیّبةً کشجرةٍ طیّبةٍ اصلها ثابت و فرعها فی السماء ''(1)

کیا تم نے نہیں دیکہا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے ۔

میں وہاں کہڑا اس معنو ی منظر کا مشاہدہ کر رہا تہا میرے ذہن میں آیا کہ ا ن سے کہوں کہ آغا میرے لئے بہی دعا فرمائیں لیکن شرم مانع ہوئی کیو نکہ وہ اپنے حال میں مشغول تہے اور کسی دوسری جانب متوجہ نہیں تہے کیو نکہ وہ موت سے پہلے اپنے خدا کے  ساتہ راز ونیاز کر رہے تہے اور معنوی وظائف انجام دے رہے تہے اور ثانیاً یہ تقا ضا کرنا اس چیز کی طرف اشارہ تہا کہ ہم بہی آغا کی موت کی طرف متوجہ ہیں اور ان کی موت کے سامنے تسلیم ہو چکے ہیں ۔

میں خاموشی سے کہڑا اس ماجرا کو دیکہ رہا تہا وہاں آغا سید حسن ، ان کی بیٹی اور خاندان کے دوسرے افراد موجود تہے۔ میں نے یہ بہی سنا کہ آغا کہہ رہے تہے ! خدا یا میرے تمام عقائد حاضر ہیں وہ تمام تجہے سپرد کر دیئے اب مجہے لوٹا دو ۔

میں وہیں کہڑا ہوا تہا اور وہ بہی اسی حالت میں تکیہ پر ٹیک لگائے رو بہ قبلہ

بیٹہ تہے  ۔ اچانک انکی سانس رک گئی ہم نے سوچا کہ شاید ان کا دل بند ہوا ہے ہم نے ان کے منہ میں کرامین کے چند قطرے ڈالے لیکن دوا ان کی لبوں کی اطراف سے باہر نکل آئی ۔ وہ اسی وقت وفات پاگئے تہے اس پانی اور تربت امام حسین  کے بعد کرامین کے چند قطرے بہی ان کے حلق تک نہیں پہنچے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ ابراہیم آیت: 4 2

۱۰۵

مجہے یقین ہوگیا کہ آغا فوت ہوگئے ہیں میں گہر سے باہر آیا تو مدرسہ حجتیہ سے اذان کی آواز سنی   ان کی وفات اول ظہر کے قریب تہی جس کے بارے میں انہوں نے چہار شنبہ کو کہاتہا کہ میری موت ظہر کے وقت واقع ہو گی ۔

یہ مرد بزرگوار وہ تہے کہ جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں ، سفر کی تمام قید و شرط کی رعایت کی اور وجوہات شرعیہ کے مصرف کو بہی کاملاً واضح کرد یا کہ اس میں ورثہ کو کچہ بہی نہ ملا ۔

ایک ایمان محکم شخص کی یہ گزشتہ داستان چند چیزوں پر مشتمل ہے :

1 ۔ ان کا ظہر کے وقت اپنی  موت کے بارے میں خبر دینا اور پہر حقیقتاً ان کی موت ظہر کے وقت واقع ہوئی ۔

2 ۔ وہ مکاشفہ کہ جس میں انہوں نے حضرت امیر المو منین(ع)  کو دیکہا تہا ۔

3 ۔ ان کا یہ خبر دینا کہ ان کا آخری توشہ تربت امام حسین  (ع)ہو گا اور پہر ایسا ہی ہوا  ۔

مرحوم آیة اللہ العظمیٰ آغا حجت مو لا امیر المومنین (ع) کے فرمان کے واضح مصداق ہیں کہ :

'' انّ انفاسک اجزاء عمرک فلا تفنها الاَّ فی طاعة تزلفک ''

انہوں نے زندگی کے آخری لمحے اور آخری سانس کو راہ عبادت اور اطاعت خداوند میں بسر کیا ۔

جولوگ شیعہ  بزرگوںکی زندگی سے درس لیتے ہیں وہ آخری لحظہ تک مقام عبودیت اور اپنی  ذمہ  داری  کو انجام دیتے ہیں آخرت میں خداوند کریم کا خاص لطف ان کے شامل حال ہو گا ور اہل بیت  علیہم  السلام  کے جوار رحمت میں قرار پائیں گے ۔

۱۰۶

نتیجہ ٔ بحث

وقت اہم ترین نعمت ہے کہ جو خداوند تعالیٰ نے آپ کو عنایت کی ہے یہ آپ کی زندگی اور وجود کا بہترین اور بزرگترین سرمایہ ہے اسے بہترین راہ اور عالی ترین ہدف میں مصرف کریں ۔

آپ کی موجودہ وضعیت ، آپ کے گزشتہ اعمال و کردار کا نتیجہ و محصول ہے اور آپ کا مستقبل ، آپ کے حال کی رفتار و کردار کا ثمرہ ہوگا ۔

اگر آپ ارزشمند اور اعلیٰ اہداف کے خواہاں ہیں اگر آپ روشن مستقبل کے امید وار ہیں تو اپنے وقت کو فضول ضائع نہ کریں ۔

آپ متوجہ رہیں کہ اگر آپ نے اپنے ماضی سے استفادہ نہ کیا ہو اور آپ کو گزرے ہوئے کل پر افسوس ہو تو آپ اب اس طرح سے زندگی بسر کریں کہ آپ کو آئندہ اپنے آج پر شرمندگی و افسوس نہ ہو ۔

جستجو اور کوشش کے ذریعہ اپنے ماضی کا جبران اور باقی ماندہ فرصت سے بہترین طریقے سے استفادہ کریں اورجو لوگ اپنے گزرے ہوئے وقت سے درس عبرت  لیتے ہیں اپنے لئے درخشاں اور روشن مستقبل کا انتخاب کرتے ہیں ۔

قدر وقت از نشناشی تو و کاری نکنی

پس خجالت کہ از این حاصل اوقات بری

اگر آپ وقت کی قدر و اہمیت کو نہیںپہچانیں گے اور کوئی کام انجام نہیں دیں گے تو وقت ضائع کرنے کے بعد صرف شرمندگی حاصل ہو گی ۔

۱۰۷

ساتواں باب

اہل تقویٰ کی صحبت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''  اکثر  الصّلاح و الصّواب فی صحبة اولی النهیٰ والا لباب ''

اکثر و بیشتر اصلاح اور درستی صاحبان عقل و خرد کی صحبت میں ہے ۔ ۔

    صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

    جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

   1 ۔ علماء ربانی کی صحبت

   2 ۔ صالحین کی صحبت

    اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

    جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

   1 ۔ چہوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

   2 ۔ گمراہوں کی صحبت

   3 ۔ خواہش پرستوں کی صحبت

    ۴ ۔ شکّی لوگوں کی صحبت

    نتیجۂ بحث

۱۰۸

صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

معنوی مقاصد تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن ان میں سے کون سا راستہ اہم ترین ہے کہ جو انسان کو جلد منزل و مقصد تک پہنچا دے ۔

اس بارے میں مختلف عقائد و نظریات ہیں ہر گروہ کسی راہ کو اقرب الطرق کے عنوان سے قبول کرتاہے اور اسے نزدیک ترین ، بہتر اور سریع ترین راہ سمجہتے ہیں ان میں سے بعض نیک اور صالح افراد کے ساتہ ہمنشینی کو اقرب الطرق سمجہتے ہیں ۔

ان میںسے جو نظریہ صحیح لگتاہے وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے ہمنشینی کہ جو خدا کو خدا کے لئے چاہیں نہ کہ اپنے لئے ، اور ان کی صحبت کہ جو اپنے اندر حقیقت ایمان کو واقعیت کے مرحلہ تک پہنچا ئیں ۔ یہ فوق العادہ اثر رکہتا ہے ۔

اسی وجہ سے کائنات کے پہلے مظلوم حضرت امیر المو منین(ع)  اپنے دل نشین کلام میں فرماتے ہیں :

'' لیس شیء اوعیٰ لخیر و انجیٰ من شرّ من صحبة الاخیار '' (1)

اچہے افراد کی صحبت سے بڑہ کر کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو انسان کو بیشتر خوبیوں کی دعوت دے اور برائیوں  سے نجات دے  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غر ر الحکم :ج5ص  87

۱۰۹

کیو نکہ معاشرے کے شریف اور صالح افراد کے ساتہ بیٹہنا انسان کے لئے شرف و ہدایت کا باعث ہوتا ہے جو زنگ آلود دلوں کو صاف اور منور کر تا ہے اور انسان کو معنویت کی طرف مائل کرتاہے ۔

حضرت امام زین العابدین (ع) فر ماتے ہیں :

'' مجالسة الصالحین داعیة الی الصلاح '' (1)

صالح افراد کی صحبت انسان کو صلاح کی دعوت دیتی ہے  ۔

ایسے افراد میں معنوی قوت و طاقت ، ان کے ہمنشین حضرات میں بہی نفوذ کرتی ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتہ ان کے اعمال و کردار و رفتار ان ہی کی مانند ہو جاتے ہیں ۔

کبہی ایسے افراد کا دوسروں میں معنوی نفوذ جلد ہو تا ہے جس میں طولانی مدت کی صحبت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ بلکہ ایک نشست یا ایک نگاہ یا ایک دلنشین جملہ دوسروں کی فکر ی و اعتقادی وضعیت کو بدل کر ان میں حیات جاویداں ایجاد کر تا ہے ۔

جی ہاں ، نیک افراد کے مجمع میں دوسرے بہی ان سے معطر ہو کر نیک اور اچہے لوگوں کی صف میں آجاتے ہیں نیک لوگوں کی نورانیت و پاکیزگی دوسروں پر بہی اثر انداز ہوتی ہے اور ان کے قلب کی آلودگی و ظلمت کو دور کر کے اپنی طرف جذب کر تی ہے۔

نیک اور پاکیزہ افراد کی صحبت سے قلب کی پاکیزگی میں اضافہ ہو تا ہے ۔ اچہے لوگوں کے ساتہ رہنا اچہائی سکہا تا ہے اور نیک اور خود ساختہ افراد کے ہمراہ رہنا ، انسان بناتا ہے اور ان پر ہونے والی توجہات ان کے ہمراہ رہنے والوں کو بہی شامل ہو تی ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ اصول کافی:ج 1ص  20

۱۱۰

یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی طرف دعاؤں میں بہی اشارہ ہواہے ۔ مرحوم شیخ مفید   کتاب مزار میں ایک دعانقل فرماتے ہیں کہ آئمہ معصومین  کی زیارت کے بعد اس دعا کو پڑہنا مستحب ہےاوراس دعا کے ایک حصے میں یوں بیان ہو اہے :

'' یا ولیّ اللّٰه عزّ و جلّ حظّی من زیارتک تخلیطی بخالصی زوّارک الّذین تسأل اللّٰه عزّ و جلّ فی عتق رقابهم و ترغب الیه فی حسن ثوابهم ''

اے ولی خدا ! اپنی زیارت سے مجہے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے   کہ جن افراد کی خداوند کریم سے آزادی چاہتے ہو اور جن کے لئے خدا سے نیک ثواب اور جن کے لئے خدا کی رغبت چاہتے ہو ۔ ۔

جس طرح خشک و تر ایک ساتہ جل جاتے ہیں جس طرح پہول اور کانٹے ایک ہی چشمہ سے سیراب ہو تے ہیں جس طرح باغبان کی گلستان پر پڑنے والی محبت آمیز نگاہ میں باغ میں موجود کانٹوں کو بہی شامل کر تی ہے اور پہول کی خوشبو سے کانٹے بہی معطر ہو جاتے ہیں جس طرح پہول فروخت کرنے والے پہول کو کانٹوںکے ساتہ فروخت کر تے ہیں اسی طرح خریدار بہی پہول کو کانٹوں سمیت خرید تا ہے اسی طرح جو نیک افراد کی خدمت میں حاضر ہو وہ ان پر پڑنے والے تابناک انوار سے بہی بہرہ مند ہو تا ہے ۔

اسی لئے زیارت کے بعد پڑہی جانے والی دعامیں امام  کی خدمت میں عرض کر تے ہیں کہ اے ولی خدا ! مجہے اپنی زیارت سے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے ۔

نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹہنا ایک ایسے نسخہ کیمیا کی مانند ہے کہ جو اولیاء خدا کے اطراف بدن میں موجود ہو تا ہے کہ جو ان کے ہمراہ اور ان کی صحبت میں بیٹہنے والے شخص میں موجود ضعف کو ختم کرکے اسے شہامت و ا چہائی عطا کر تے ہیں اسے بال و پر عطا کر تے ہیں تاکہ وہ معنویت کی بیکراں فضا میں پرواز کر سکے اور عالم معنی کی لذّتوں سے مستفید ہو ۔

۱۱۱

انسان ایک دوسرے کی صحبت اور ہمنشینی سے ایک دوسرے پر مثبت و منفی اثرات مرتب کر تا ہے  انسان کی نفسیات اور اعتقا دات مختلف ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ان میں کیفیت کے لحاظ  سے بہت  تفاوت ہو تا ہے ۔ اسی طرح ان افراد میں ایک دوسرے پر اثر گزاری کی مقدار و کمیت کے لحاظ سے بہی درجات کا اختلاف ہو تا ہے ۔

افراد کی ایک دوسرے سے مصاحبت ، ہمنشینی اور رفاقت سے افراد کی فکری اور اعتقادی خصوصیات ایک دوسرے کی طرف منتقل ہو تی ہیں ۔

عام طور پر صاحب یقین افراد دوسروں پر زیادہ اثر چہوڑ تے ہیں کیو نکہ یہ ارادہ و نفوذ رکہتے ہیں لہذا یہ اپنی فکری اور اعتقادی خصوصیات دوسروں میں ایجاد کر تے ہیں یا انہیں تقویت دیتے ہیں ۔ معنوی افراد کی صحبت ، صرف مقابل کی فکری خصو صیات میں تحول ایجاد کر تا ہے اور غیر سالم اور غلط افکار کو صحیح اعتقادات میں تبدیل کر تا ہے لیکن یہ ایک قانون کلی ہے کیو نکہ جس طرح دین ایک آگاہ و عالم شخصیت کو دستور دیتا ہے کہ جاہل اور نا آگاہ افراد میں جا کر انہیں دین و مذہب کی طرف لائیں اور انہیں تشیع کے حیات بخش دستورات سے آشنا کروا ئیں ۔ اسی طرح وہ دستور و حکم دیتا ہے کہ پست اور منحرف افراد سے ہمنشینی سے دور رہو کہ جب ان کے ساتہ آمد و رفت تم پر اثر انداز ہو ۔

یہ تشخیص دینا عالم اور با خبر شخص کی  ذمہ  داری ہے کہ جاہل افراد کی ہمنشینی کس حد تک منفی یا مثبت اثرات رکہتی ہے ؟ کیا وہ دوسروں میں نفوذ کر تا ہے اور ان افکار و عقائد کو کمال کی طر ف لے جارہا ہے یا ان کی نفسیات اس پر مسلط ہو چکی ہے اور ان کی صحبت اس پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہے؟ کیا وہ دوسروں پر اثر انداز ہو رہا ہے یا دوسرے اس پر اثر انداز ہو رہے ہیں ؟

لہذا اہل علم کا یہ وظیفہ و ذمہ داری ہے کہ وہ لو گوں کو تبلیغ کریں اور اپنے روحانی و نفسانی حالات کی جانب بہی متوجہ رہیں تاکہ دوسروں کے تحت تاثیر قرار نہ پائیں ۔

۱۱۲

جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

ہم جلد ایسے افراد کے بارے میں بحث کریں گے کہ جن کی صحبت انسان کی علمی و عملی ترقی کے لئے نقصان دہ ہے اب ہم نمونہ کے طور پر چند ایسے افراد کا ذکر کر تے ہیں کہ جن کی صحبت اور ہمنشینی معنوی سیر اور پرواز کا باعث ہے :

1 ۔ علماء ربانی کی صحبت

ان افراد کی صحبت اور ہمنشینی کے بہت زیادہ آثار اور فوائد ہیں مخصوصا اگر انسان ان کے لئے خاص احترام و محبت کا قائل ہو ۔

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں :

'' لا تجلسوا عند کلّ عالمٍ الاَّ عالم یدعوکم الی الاخلاص '' (1)

ہر عالم کے پاس نہ بیٹہو مگر اس عالم کے پاس کہ جو تمہیں ریا سے روکے اور اخلاص کی طرف لے کر جائے ۔

جو آپ کوصحیح راستہ کی طرف لے جا کر اللہ کی طرف دعوت دے اس کی رہنمائی اور گفتار کا ہدف اپنی طرف دعوت دینا نہیں ہے ۔ ایسے ربانی علماء کی صحبت آپ پر اثر انداز ہو گی اور آپ کو اہل بیت  کے نورانی معارف سے آشنا کر ے گی وہ تمہارے دل کو خاندان وحی کی محبت سے پیوند لگا دیں گے اور تمہیں منافقین تاریخ کی کالی کر توتوں سے آگاہ کر کے تمہارے دلوں میں ان کے لئے نفرت کو زیادہ کریں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]بحار الانوار:ج 1  ص5 20۔

۱۱۳

2 ۔ صالحین کی صحبت

پیغمبر اکرم(ص) اپنے ارشادات میں مجالست و مصاحبت کے مورد میں اپنے محبوں اور دوستوں کی رہنمائی فرماتے ہیں اور انہیں تاکید فرماتے ہیں کہ پر ہیز گار اورمو من افراد میں سے اپنے ہمنشینی منتخب کریں اور بے ہدف اور دنیا پرست افراد کی صحبت سے پر ہیز کریں ۔ آپ  نے اپنے ایک مفصل ارشاد میں عبد اللہ بن مسعود  سے  یوں فرمایا :

'' یابن مسعود فلیکن جلساؤک الا برار واخوانک الا تقیاء والزّهاد ، لانّ اللّٰ هتعالیٰ قال فی کتاب ه: الاخلاَّئ یو مئذٍ بعضهم لبعضٍ عدوّ والاَّ المتّقین ''(1)

اے ابن مسعود ، تمہارے ہمنشین نیک افراد ہوں او ر تمہارے بہائی متقی اور زاہد ہوں کیو نکہ خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے : آج کے دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجا ئیں گے  ۔

رسول اکرم(ص) نے  جناب ابوذر کو کی گئی وصیت میں ارشاد فرمایا :

'' یا اباذر لا تصاحب الاَّ مومناً '' (2)

اے ابوذر ! اپنے لئے کسی مصاحب کو منتخب نہ کرو ، مگر یہ کہ وہ مومن ہو  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ زخرف ، آ یت 67 ، بحار الا نوار:ج 77ص  2 10

[2]۔ بحار الانوار:ج 77ص  86

۱۱۴

کیو نکہ زندگی کا لطف ، اولیاء خدا اور نیک لو گوں کی صحبت میں ہے حضرت امیر المومنین  اپنے ایک حیات بخش فرمان میں رسول(ص) سے فرماتے ہیں :

'' هل احبّ الحیاة الاَّ بخدمتک والتّصرّف بین امرک و نهیک ولمحبّة اولیائک ''(1)

کیا زندگی کو دوست رکہتا ہوں مگر آپ کی خدمت ، آپ کے امر و نہی کی اطاعت اور آپ نے اولیا ء  و محبین سے محبت کے لئے ؟ 

دنیا کی ارزش و اہمیت صرف اولیاء  خدا ور نیک و خود ساختہ افراد کی وجہ سے ہے ورنہ زندگی صرف رنج و غم کا نام ہے جیسا کہ حضرت امیر المومنین کی نظر میں دنیا کی کوئی ارزش و واقعیت نہیں ہے زندگی میں کچہ بے ارزش ، رنج آور اور نا راحت کرنے والے و اقعات ہو تے ہیں لہذا صرف اولیاء خدا کا وجود ہی خدا کے بندوں کے لئے دنیا میں زندگی گزار نے کا سبب ہے نہ کہ دنیا کی زرق برق رونقیں اس بناء پر خدا کے بندوں کے لئے جو چیز دنیا میں زندگی بسر کرنے کو شیریں بنا تی ہے وہ اولیاء خدا اور نیک لوگوں کا وجود ہے کہ جن کی صحبت انسان کے دل میں یاد خدا اور اہل بیت  کو زندہ کرتی ہے یہ چیز ان شخصیات کے لئے دنیا میں زند گی گزار نے کے لئے شیرینی ، مسرت و فرحت کا باعث ہے کہ جنہوں نے دنیا کو فروخت کر دیا ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[3]۔ بحا ر الانوار:ج 19ص  81

۱۱۵

اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

ان دو قسم کے افراد کے درمیاں فرق کو مد نظر رکہیں کہ جن میں سے بعض کا ہدف اپنے نام  چمکانا  ہوتا  ہےاور  کچہ   کا ہدف اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے نام کی نشر و اشاعت کے علاوہ کچہ نہ ہو ، انہیں ایک دوسرے سے تشخیص دیں ۔ افراد کی پہچان اور ان کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان ہلا کت وگمراہی یا توقف کا باعث بن سکتا ہے ۔ حضرت جواد الائمہ امام تقی (ع)   فرما تے ہیں :

'' من انقاد الیٰ الطّمانینة قبل الحبرة ، فقد عرض نفسه للهلکة و لعاقبة المتعبة ''(1)

جو کسی کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان کرے وہ اپنے نفس کو ہلا کت میں ڈالتا ہے جس کا انجام بہت سخت ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار الا نوار :ج71 ص 40 3

۱۱۶

اکثر دہو کا کہانے والے یا پہر آسمان سے گرنے  اور کہجور پر اٹہکنے کے مصداق وہ افراد ہیںجوحسن ظن ، جلدی فریفتہ ہو نے والے اور تحقیق کے بغیر اطمینان کر نے کی وجہ سے دہو کا دینے والوں کے چکر میں پہنس جاتے ہیں ۔ اگر وہ مکتب اہل بیت  کی پیروی کرتے ہوئے کسی سے دل لگی اور محبت سےپہلے ان کو آزمالیں تو وہ کبہی بہی  ہلاکت اور گمراہی میں مبتلا نہ ہوں  ۔

اسی وجہ سے ہمیں اپنے دوستوں اور ہمنشین افراد کو پہچا ننا چاہیئے ۔ ان کی کامل پہچان کے بعد ان پر اطمینان و اعتماد کریں اور یہ صحیح و کامل شناخت انہیں آزمانے کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے ۔

           حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

          '' یعرف النّاس بالا ختیار '' (1)

           لوگوں کو امتحان اور آزمائش کے ذریعہ پہچانو  ۔

پس  کیوں  سب  پر  بہروسہ  کریں؟  کیوں کسی  بہی قسم کے افراد کے ساتہ ہمنشینی و رفاقت کے لئے تیار ہو جائیں ؟ ہمیں اپنی زند گی کا برنامہ اہل بیت  کے ہدایت کر نے والے ارشا دات کے مطابق قراردیں  اور ان کے فرامین پر عمل پیرا ہو کر  اپنے مستقبل کو درخشاں بنا ئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ اصول کافی :ج۱  ص30

۱۱۷

جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

 خاندان وحی علیہم  السلام  نے ہمیں اپنے فرامین میں لوگوں کے چند گروہوں کی صحبت و دوستی سے پر ہیز کرنے کا حکم دیا ہے

1 ۔ چھوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

           جو معا شرے میں اپنا مقام و مرتبہ اور شخصیت بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے اطرافی اور دوستوں کی شناخت کی سعی و کوشش کریں کہ ان کا ماضی اور اس پر لوگوں کے اعتبار کو مد نظر رکہیں ۔ انجان دوست ، یاجو لوگوں میں اچہی صفات سے نہ پہچا نا جا تا ہو ، وہ نہ صرف مشکل میں انسان کی پشت پنا ہی نہیں کرے گا بلکہ اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا ۔

           حضرت امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں :

           '' واحذر صحابة من یفیل رایه و ینکر عمله فانّ الصّاحب معتبر بصاحبه ''(1)

           کمزور و ضعیف الرأی شخص کی ہمنشینی اور صحبت اختیار نہ کرنا کہ جس کے اعمال نا پسند یدہ ہوں کیو نکہ ساتہی کا قیاس اس کے ساتہی پر کیا جا تاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ نہج البلاغہ مکتوب: 69

۱۱۸

           کیو نکہ لوگ ظاہر کو دیکہ کر قضاوت کر تے ہیں ۔ ہمیشہ انسان کی اہمیت اس کے دوستوں کی اہمیت کے مانند ہو تی ہے ۔لہذا معاشرے میں بے ارزش اور ضعیف الرأی افراد کی دوستی سے دور رہیں تا کہ ان کے منفی روحانی حالات سے محفوظ رہیں ۔ نیز اجتماعی و معاشرتی لحا ظ سے بہی ا ن کے ہم ردیف شمار نہ ہوں ۔

           یہ کائنات کے ہادی و رہنما حضرت امیر المو منین علی  کی را ہنمائی ہے جس سے درس لے کر اور زندگی کے برنامہ میں اس پر عمل پیرا ہو کر آپ اپنے آئندہ کو درخشاں بنا  سکتے ہیں ۔ اپنے روزانہ کے برنامہ و اعمال اور رفتار کو تشیع کے غنی ترین مکتب کی بنیاد پر قرار دیں تا کہ ابدی سعادت حاصل کر سکیں۔

           ملاحظہ فرمائیں کہ سید عزیز اللہ تہرانی کس طرح چہوٹی فکر والے افراد سے کنارہ کش ہو کر عظیم معنوی فیض تک پہنچ گئے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نجف اشرف میں شرعی ریاضتوں مثلا نماز ، روزہ اور دعاؤں میں مشغول رہتا اور ایک لمحہ کے لئے بہی اس سے غافل نہ ہوتا ۔ جب عید الفطر کی مخصوص زیارت کے لئے کربلا مشرف ہوا تو میں مدرسہ صدر میں ایک دوست کا مہمان تہا ۔ بیشتر اوقات حرم مطہر حضرت سید الشہداء امام حسین  (ع)میں مشرف ہو تا اور کبہی آرام و استراحت کی غرض سے مدرسہ چلاجاتا ۔

           ایک دن کمرے میں داخل ہوا تو وہاں چند دوست جمع تہے اور واپس نجف جانے کی باتیں ہو رہی تہیں ، انہوں نے مجہ سے پوچہا کہ آپ کب واپس جائیں گے ؟ میں نے کہا کہ آپ چلے جائیں میں اس سال خانہ خدا کی زیارت کا قصد رکہتا ہوں اور محبوب کی زیارت کے لئے پیدل جاؤں گا ۔ میں نے حضرت سید الشہداء  (ع)کے قبہ کے نیچے دعا کی ہے اور مجہے امید ہے کہ میری دعا مستجاب ہو گی ۔

۱۱۹

           میرے دوست مجہے مذاق کر رہے تہے اور کہہ رہے تہے کہ سید ایسا لگتا ہے کہ عبادت و ریاضت کی کثرت سے تمہارا دماغ خشک ہو گیاہے ۔ تم کس طرح توشہ راہ کے بغیر بیابانوں میں ضعف مزاج کے ساتہ پیدل سفر کر سکتے ہو ۔ تم پہلی منزل پر ہی رہ جاؤ گے اور بادیہ نشین عربوں کے چنگل میں گرفتار ہو جاؤگے ۔

           جب ان کی سر زنش حد  سے بڑہ گئی تو میں غصہ کے عالم میں کمرے سے باہر چلا آیا اور شکستہ دل اور پر نم آنکہوں کے ساتہ حرم کی طرف روانہ ہو گیا کسی چیز کی طرف توجہ نہیں کر رہا تہا ۔ حرم میں مختصر زیارت کی اور بالا سر حرم مطہر کی جانب متوجہ ہوا جس جگہ ہمیشہ نماز اور دعا پڑہتا وہاں بیٹہ کر گریہ و توسل کو جاری  رکہا ۔

           اچانک ایک دست ید اللّٰہی میرے کندہے پر آیا ، میں نے دست مبارک کی طرف دیکہا وہ عربی لباس میں ملبّس تہے ۔ لیکن مجہ سے فارسی زبان میں فرمایا کہ کیا تم پیا د ہ خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہونا چاہتے ہو ؟ میں  نے عرض کیا ! جی ہاں ۔ انہوں نے فرمایا ! کچہ نان جو تمہارے ایک ہفتہ کے لئے کافی ہوں ؟ ایک آفتابہ اور احرام اپنے ساتہ لے کر فلاں دن فلاں وقت اسی جگہ حاضر ہو جاؤ اور زیارت و داع انجام دو تا کہ ایک ساتہ اس مقدس جگہ سے منزل مقصود کی طرف حرکت کریں ۔

           میں ان کے حکم کی بجا آوری و اطاعت کا کہہ کر حرم سے باہر آیا ۔ کچہ گندم لی اور بعض رشتہ دار خواتین کو دی کہ میرے لئے نان تیار کر دیں ۔ میرے تمام دوست نجف واپس چلے گئے اور پہر وہ دن بہی آگیا ۔ اپنا سامان لے کر معین جگہ پہنچ گیا ، میں زیارت وداع میں مشغول تہا کہ میں نے ان  بزرگوار سے ملاقات کی ، ہم حرم سے باہر آئے ، پہر صحن اور پہر شہر سے بہی خارج ہوگئے ۔ کچہ دیر چلتے رہے نہ تو انہوں نے مجہے اپنے شیرین سخن سے سر فراز فرمایا اور نہ ہی میں نے ہی ان سے بولنے کی جسارت کی کچہ دیر کے بعد پانی تک پہنچے ۔ انہوں نے فرمایا : یہاں آرام کرو۔ اپنا کہانا کہاؤ اور انہوں نے زمین پر ایک خط کہینچا اور فرمایا یہ خط قبلہ ہے نماز بجا لاؤ عصر کے وقت تمہارے پاس آؤں گا ۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے میں وہیں ٹہہرا رہا ، کہا نا کہایا  ، وضو کیا اور پہر نماز پڑہی ۔ عصر کے وقت وہ بزرگوار تشریف لائے اور فرمایا : اٹہو چلیں ، چند گہنٹے چلنے کے بعد پہر اک جگہ اور پانی تک پہنچے، انہوں نے پہر زمین پر خط کہینچا اور فرمایا

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

یہ تو ان کے نزدیک جنگ بدر کی شان اور وقعت ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے بدریوں کے علاوہ کسی اور کے لئے جنت واجب نہیں کی ہے _ کیونکہ دوسرے لوگوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے بخشوانے اور جنت پہنچانے کی وہ کوشش کرتے یا اس دور کی سیاست اس کے اسلام ، قرآن اور انسانیت مخالف اعمال اور کردار کی توجیہ اور پردہ پوشی کرنے کی کوشش کرتی_ حالانکہ سعد بن ابی وقاص کی مذکورہ روایت کے مطابق اہل بدر میں سے بعض ایسے بھی تھے جن سے ایسے ایسے ناقابل بیان برے کرتوت سرزد ہوئے جن کی وجہ سے ان کی شان اور قدر گھٹ گئی تھی اور اعمال کا پلڑا ہلکا ہوگیاتھا_ اور سعد بن ابی وقاص اس بات میں سچا بھی ہے کیونکہ اکثر بدریوں سے ایسے ایسے عجیب و غریب کرتوت سرزد ہوئے جو ناقابل بیان بھی ہیں اور یہاں ان کے بیان کی گنجائشے بھی نہیں ہے_

ابن جوزی اور بدریوں کے مغفرت والی حدیث

بدریوں کے مغفرت والی حدیث پر ابن جوزی نے جو حاشیہ لکھا ہے وہ بھی نہایت تعجب خیز ہے _ وہ لکھتاہے : '' اس غلط فہمی سے اور وہ بھی علم کا دعوی کرنے والے افراد کی طرف سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں _ احمد نے اپنی کتاب مسند میں روایت کی ہے کہ ابوعبدالرحمن سلمی اور حیان بن عبداللہ کا آپس میں جھگڑا ہوگیا تو ابوعبدالرحمن نے حیان سے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ کس بات نے تمہارے بزرگ ( یعنی حضرت علیعليه‌السلام ) کو اس جنگ پر تیار کیا ہے _حیان نے پوچھا کہ وہ کونسی بات ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا یہ فرمان ہے کہ '' شاید خدا اہل بدر ( کے دلوں کے حال ) سے واقف ہے _ جو جی میں آئے کرو کہ تمہیں بخش دیا گیا ہے'' _ اور یہ غلط فہمی ابوعبدالرحمن کی تھی کیونکہ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ حضرت علیعليه‌السلام صرف اس لئے لڑرہے تھے اور لوگوں کو قتل کررہے تھے کہ اس مذکورہ حدیث کی وجہ سے انہیں اپنے بخشے جانے کا یقین تھا_ سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ حدیث کا اصل معنی یہ ہے کہ '' تمہارے گذشتہ اعمال جو بھی تھے ، اب انہیں بخش دیا گیا ہے '' لیکن آئندہ کے اعمال کی بخشش کا اس حدیث میں کوئی تذکرہ نہیں ہے_ بہر حال بدری اصحاب معصوم تو پھر

۳۶۱

بھی نہیں ہیں _ بالفرض نعوذ باللہ اگر کوئی بدری مشرک ہوجائے تو کیا اس کا مؤاخذہ (پکڑ) نہیں ہوگا؟ دوسرے گناہ بھی اسی طرح ہیں ، ان کی بھی پکڑ ہوگی _ پھر اگر یہ کہیں کہ اس حدیث میں آئندہ کے گناہوں کی بخشش بھی شامل ہے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ آخر کار ان کا انجام بخشش کے ساتھ ہوگا ( یعنی انہیں توبہ کی توفیق نصیب ہوگی)_

پھر اگر حدیث کے معنی کو چھوڑ کر اس واقعہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ کوئی مسلمان حضرت علیعليه‌السلام کے حق میں یہ کیسے سوچ سکتاہے کہ وہ اس یقین کے ساتھ کوئی ناجائز کام کریں گے کہ وہ بخش دیئے جائیں گے ؟ معاذاللہ_ بلکہ حضرت علیعليه‌السلام نے دلائل کے ساتھ مجبورا جنگ کی تھی_ پس حضرت علیعليه‌السلام حق پر تھے _ اور سب علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام نے جس شخص کے ساتھ بھی جنگ کی ہے حق کی بنیاد پر کی ہے اور حق حضرت علیعليه‌السلام کے ساتھ تھا_ مذکورہ بات حضرت علیعليه‌السلام سے کیسے منسوب کی جاسکتی ہے جبکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ان کے متعلق فرمایا تھا: '' خدایا حق کو بھی ادھر ہی لے جا جہاں جہاں علیعليه‌السلام جائے''_

ابوعبدالرحمن نے نہایت غلط او ربری بات کہی ہے _ اور اس نے یہ بات حضرت علیعليه‌السلام کے دشمن اور عثمانی مذہب ہونے کی وجہ سے بھڑک کرکہی ہے''(۱)

ناکام واپسی

بہر حال ، مشرکوں کا لشکر لٹاپٹا اور نہایت بری حالت میں مکہ واپس پہنچا _ وہ غیظ و غضب کی وجہ سے سخت بپھرے ہوئے تھے لیکن ابوسفیان نے انہیں اپنے مقتولین پر گریہ و زاری کرنے اور شاعروں کو بھی مرثیہ کہنے سے روک دیا تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا غصہ ٹھنڈا ہوکر جھاگ کی طرح بیٹھ جائے،مسلمانوں کے خلاف ان کا کینہ کم ہوجائے اور ان کے غم و اندوہ کی خبر مسلمانوں تک پہنچ جائے جس کی وجہ سے وہ انہیں برا بھلا کہہ سکیں اور ان پر ہنس سکیں_ اور ابوسفیان نے اپنے اوپر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوبارہ بھرپور جنگ کرنے

____________________

۱)صید الخاطر ص ۳۸۵_

۳۶۲

تک خوشبو اور عورتوں کے ساتھ قربت حرام کررکھی تھی_ اور اس کی بیوی ہندہ نے بھی یہی کام کیا _ اس نے بھی اپنا بستر علیحدہ کرلیا تھا اور خوشبوؤں سے دوری اختیار کرلی تھی_ اور جب مشرکین اس جنگ سے بے نیل و مرام لوٹے تو انہوں نے قافلہ والوں سے یہ مطالبہ کیا کہ انہیں بھی اس مال میں حصہ دار کیا جائے اور اس سے ان کی مدد کی جائے _ جس پر یہ آیت نازل ہوئی:

( ان الذین کفروا ینفقون اموالهم لیصدوا عن سبیل الله فسینفقونها ثم تکون علیهم حسرة )

کافر لوگ خدا کے راستے (دین) سے لوگوں کو روکنے کے لئے مال خر چ کرتے ہیں _ وہ عنقریب پھر بھی مال خرچ کریں گے لیکن انہیں پھر بھی حسرت کا سامنا کرنا پڑے گا _

البتہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت جنگ بدر میں لشکریوں کو کھانا کھلانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اونٹ نحر کیا کرتے تھے جن کاتذکرہ پہلے گذر چکاہے _ اور شاید یہ بات آیت کے مفہوم کے زیادہ مناسب ہو_

کامیاب واپسی

ادھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - خدا نے اپنی واپسی سے پہلے آگے آگے ایک شخص کو مدینہ بھیجا تا کہ وہ مدینہ والوں کو مسلمانوں کی واضح کامیابی کی خوشخبری سنائے _ پہلے پہل تو کچھ لوگوں نے اس پر یقین نہ کیا لیکن جب ان کے لئے بھی ثابت ہوگیا کہ یہ بات بالکل سچی ہے تو مؤمنین بہت خوش ہوئے اور خوش دلی اور خوشحالی سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا استقبال کیا _ مورخین کہتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والا زید بن حارثہ تھا_ لیکن لوگوں نے اس کی باتوں پریقین نہیں کیا بلکہ اس کے بیٹے اسامہ سے علیحدگی میں پوچھا تو تب انہیں اس بات کا یقین ہوا_لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ اس وقت اسامہ ایک بچہ تھا جس کی عمر اس وقت دس برس سے زیادہ نہیں تھی_

مدینہ کے رستے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کہیں مسلمانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تو مسلمان وہیں رک گئے ، تھوڑی دیر بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علیعليه‌السلام کے ساتھ وہیں تشریف لائے _ مسلمانوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا: '' یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہیں تشریف لے گئے تھے؟'' تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' راستے میں علیعليه‌السلام کے پیٹ میں درد ہوگیا تھا، اس

۳۶۳

کی وجہ سے میں پیچھے رہ گیا تھا''(۱) _ یہ بھی کہا جاتاہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ اس وقت پہنچنے جب لوگ جناب عثمان کی زوجہ کی تدفین میں مصروف تھے البتہ اس بارے میں گفتگو انشاء اللہ بعد میں '' بدر اور احد کے درمیانی زمانے میں واقعات '' کی فصل میں ہو گی_

اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہنچنے کے ایک دن بعد قیدی بھی مدینہ پہنچے جنہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا اور انہیں یہ سفارش کی کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو یہانتک کہ مکہ والے ان کا فدیہ دے کر انہیں اپنے ساتھ لے جائیں _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نجد کی طرف والے مدینہ کے بالائی حصے کی طرف عبداللہ بن رواحہ کو اور تہامہ کی طرف والے زیریں حصے والوں کی طرف زید بن حارثہ کو بھیجا جو انہیں جاکر واضح کامیابی کی خوشخبری سنائیں _ مدینہ کے بالائی حصے میں بنی عمرو بن عوف ، خطمہ اور وائل و غیرہ کے قبیلے بستے تھے(۱) _

جنگ بدر کے بعض نتائج

اتنی ڈھیر ساری باتوں میں جنگ کے کچھ نتائج بیان ہوچکے ہیں _ اس لئے ہم یہاں کسی طویل گفتگو کے خواہاں نہیں ہیں_ صرف مندرجہ ذیل چندنکات کی صورت میں ایک سرسری نگاہ پر اکتفا کرتے ہیں :

۱ _ زندگی سے پیار کرنے والے مشرکوں پر جنگ بدر میں روحانی لحاظ سے حقیقتا کاری ضرب لگی _ اور وہ حد سے زیادہ ڈرپوک ہوگئے _ اب مشرکین یہ دیکھ رہے تھے کہ ان مسلمانوں کے ساتھ ان کی زندگی بالکل خطرے میں پڑچکی ہے_ اور مسلمانوں کے ساتھ ان کی بعد والی جنگوں پر اس خوف اور ڈر کا ایک ناقابل انکار اثر پڑا_ کیونکہ طبیعتاً ہٹ دھرم بزدل آدمی اپنی جان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے حد سے زیادہ احتیاط کا قائل ہوتاہے_ اسی بناپر قریش اپنی بعد والی جنگوں میں بہت زیادہ احتیاط، دقت ، تمرکز، تعداد اور تیاری کے ساتھ میدان میں اترتے تھے تا کہ وہ اس تحریک کو ہی نیست و نابود کرکے

____________________

۱) سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۸۸_

۲)ملاحظہ ہو: التراتیب الاداریہ ج۱ ص ۳۸۲_

۳۶۴

رکھ دیں جو ان کے مفادات اور علاقے میں ان کے معاشرتی ، اجتماعی، سیاسی، اقتصادی اور دیگر امتیازات کے لئے خطرہ بنی ہوئی تھی_

۲_ دوسری طرف اس جنگ سے مسلمان ذہنی لحاظ سے طاقتور ہوگئے _ اور ان کی ظاہری خود اعتمادی دوبارہ لوٹ آئی اور اس غیر متوقع کامیابی نے اس چیز (یعنی جنگ ) کا سامنا کرنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی جس کے خیال اور تصور سے بھی کل تک وہ لوگ کانپتے تھے یہ کامیابی تو اتنی بڑی تھی کہ بعض انصاریوں کے لئے اس کی تصدیق تک بھی بہت مشکل تھی _ ہاں اس کامیابی نے مسلمانوں کے ایمان ، یقین اپنے دین اور نبی پر اعتماد میں اضافہ کیا ، خاص طور پر جب مسلمانوں نے مشرکوں کو پہنچنے والے خسارے کا مشاہدہ کیا تو ان کا یقین اور اعتماد مزید بڑھ گیا _

۳ _ اس جنگ سے ملنے والے مال غنیمت نے ان کے بہت سے گہرے مالی مشکلات حل کردیئے اس کے ساتھ ساتھ بہت سے لالچیوںکو بھی جنگوں میں حصہ لینے پر اکسایا بلکہ اب تو وہ اس طرح کے دوسرے موقع کے انتظار میں رہنے لگے تھے تا کہ زیادہ سے زیادہ مال غنیمت ہتھیاسکیں_

۴_ اس جنگ نے دوسروں کی نگاہ میں مسلمانوں کی ایسی دھاک بٹھادی کہ ان کے ذہنوں میں یہ بات نقش ہوگئی کہ مسلمان ایک پر اثر اور فعال کردار ادا کرنے والی طاقت ہیں جن کا لحاظ کرنا ضروری تھا_ دوسرے قبیلے مسلمانوں سے ڈرنے لگے تھے اور ان کی دوستی کے خواہشمند نظر آنے لگے تھے_ اب ان کے لئے مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کا توڑنا نہایت مشکل نظر آرہا تھا_ بلکہ یہ کامیابی تو ان کے لئے دوسری کامیابیوں کی توقعات بھی ساتھ لائی تھی _ حتی کہ یعقوبی جنگ بدر کے صرف چار ماہ بعد پیش آنے والے جنگ ذی قار کے بارے میں لکھتاہے:

'' اور خدا نے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو عزت بخشی اور قریش کے کئی آدمی مارے گئے اور عربوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف اپنے وفود بھیجے اور کسری کی فوج کے ساتھ بھی ان کی ٹکر ہوگئی اور یہ واقعہ ذی قارمیں پیش آیا تو انہوں نے کہا کہ تمہیں تہامی (انصاریوں) کا نعرہ لگانا چاہئے جس پر انہوں نے '' یا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، یا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' پکارنا شروع کردیا اور

۳۶۵

کسری کی فوج کو شکست دے دی''(۱) جس کے بعد طبیعی تھا کہ یہ بات قریش کی مسلمانوں کے خلاف دوسرے قبیلوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں پر اپنا اثر دکھاتی _ اور اس سے بہت سے قبیلوں کو مسلمانوں کے خلا ف اپنا ہم نوا بنانا اب تقریبا ناممکن ہوگیا تھا_

جنگ بدر کے نتائج سے نجاشی کی خوشی

جب جنگ بدر میں خدا نے مشرکوں کو شکست دی اور ان کے بڑوں اور سرداروں کو موت کے گھاٹ اتارا تو نجاشی کو بھی اپنے جاسوس کے ذریعے اس کا علم ہوگیا اور یہ خبر سننے کے بعد نجاشی بہت زیادہ خوش ہوگیا اور خدا کے اس شکرانے کی ادائیگی کے لئے وہ نیچے خاک پر بیٹھا اور بوسیدہ کپڑے پہنے اور مسلمانوں کو بھی اس کا میابی پر مبارک باد دی(۲)

آخری بات:

یہاں ہم یہ اشارہ بھی کرتے چلیں کہ یہ بھی اسلام کا ایک معجزہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ملے جلے اور ناتجربہ کار لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ سب سے بڑی اور سرکش طاقت سے ٹکرلے کر اس پر کامیابی حاصل کی تھی_ اور ان لوگوں کو دینی رابطے کے علاوہ اور کوئی رابطہ اور تعلق یکجا نہیں کرسکتا تھا جبکہ ان کے سامنے ایک ایسی منسجم طاقت تھی جسے رشتہ داری، تعلق داری، مختلف معاہدوں اور مشترکہ مفادات نے اکٹھا کیا ہوا تھا_ اور یہ بات غیر طبیعی ہوتی ہے کہ چند مختلف اناڑی لوگوں کی ایک جماعت اس طاقت پر غلبہ پالے اور کامیاب ہوجائے جس کی حالت ان لوگوں کے بالکل برعکس ہو_ اسی لئے صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا : '' اگر دوسری صورت ( یعنی جنگ) کی خواہش کرتے تو میں ایسے چہرے اور چند اناڑی اور ناتجربہ کار لوگ دیکھ رہا ہوں کہ جو تمہیں چھوڑ کر بھا گ نکلتے(۳) ا ور ان جیسے لوگوں کے

____________________

۱)تاریخ یعقوبی مطبوعہ صادر ج۲ ص ۴۶_

۱)سیرہ نبویہ ابن کثیر ج۲ ص ۴۷۶ و ۴۷۷_

۲)المصنف ج۵ ص ۳۳۵_

۳۶۶

متعلق ہی حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا تھا کہ یہ لوگ شور شرابا کرنے والے اور فسادی ہوتے ہیں ، یہ لوگ جب اکٹھے ہوتے ہیں تو نقصان پہنچاتے ہیں اور جب الگ ہوجائیں تب نفع پہنچاتے ہیں(۱)

اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان چند اناڑی اور عام لوگوں کے ساتھ بہت بڑی طاقت سے جنگ صرف ایک دفعہ نہیں ہوئی تھی کہ یہ کہا جاتا کہ یہ محض اتفاقیہ کامیابی تھی جو بعض استثنائی حالات اور عوامل کے تحت حاصل ہوئی تھی بلکہ یہ صورت حال تو کئی سال تک رہی تھی اور شاید مندرجہ ذیل آیت بھی اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے_

( و الف بین قلوبهم لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبهم و لکن الله الف بینهم ) (۲)

اور خدا نے ان کے دلوں میںا لفت ڈال دی اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیا کا سارا مال بھی خرچ کردیتے تب بھی ان کے دلوں کو نہیں جوڑ سکتے تھے لیکن خدا نے ان میں محبت پیدا کردی _

اہل بدر کے بارے میں معاویہ کا موقف

آخر میں یہ بھی کہتے چلیں کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اہل بدر کے بارے میں معاویہ نے سیاسی موقف اپنایا تھا_ اور یہ جنگ صفین میں واقعہ تحکیم کے وقت ہوا تھا_ جب اس نے ایک بدری صحابی کو حکم ( تام الاختیار نمائندہ) ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا: '' میں اہل بدر کے کسی شخص کو حکم نہیں مانتا''(۳) اور شاید یہ انکار اس وجہ سے ہوکہ وہ یہ جانتا تھا کہ اہل بدر کی اکثریت شرعی احکام کی پابند ہے ، وہ خدا کی راہ میں پختہ ہیں اور دین میں کسی معاملے اور دھوکہ بازی کو قبول نہیں کریں گے _

اور بدر اور احد کے درمیانی زمانے کے واقعات پر گفتگو سے پہلے ان بعض موضوعات کے تذکرہ میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جو کسی نہ کسی لحاظ سے گذشتہ باتوں سے متعلق ہیں _ اور یہ گفتگو اگلی فصل میں ہوگی_

____________________

۱)نہج البلاغہ حصہ حکمت ص ۱۹۹_

۲)انفال / ۶۳_

۳)-انساب الاشراف ج۳ ص ۲۳_

۳۶۷

پانچویں فصل:

سیرت سے متعلق چند باتیں

۳۶۸

تمہید:

ہم نے قارئین سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ گذشتہ واقعات سے کسی نہ کسی لحاظ سے متعلق بعض ابحاث کا بعد میں ذکر کریں گے _ اور اب ایفائے عہد کا وقت آگیا ہے _ البتہ یہ ابحاث قارئین کی سرگرمی کے لئے پیش خدمت ہیں اور چاہے تھوڑا سا ہی سہی قارئین کو سیرت کی فضا اور سیرت کے بعد والے مختلف قسم کے واقعات سے دور لے جائیں گے تا کہ وہ ان ابحاث کا دقت سے مطالعہ کرے اور بسا اوقات یہ بھی ہوتاہے کہ کوئی قاری ان ابحاث کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہتاہے اس لئے ہم یہاں مندرجہ ذیل چار عناوین کا تفصیلی جائزہ لیںگے _

۱ _ شیعوں کی بعض خصوصیات_

۲ _ جناب ابوبکر کی شجاعت_

۳ _ ذو الشمالین کا قصہ اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے سہو، خطا، نسیان اور گناہ سے اختیاری طور پر معصوم ہونے پر

دلائل_

۴ _ خمس کے شرعی حکم کا سیاست سے تعلق_

۳۶۹

پہلا عنوان

شیعیان علیعليه‌السلام کی بعض خصوصیات

غزوہ بدر میں ہم نے کہا تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے صحابیوں سے فرمایا تھا کہ مشرکین سے جنگ میں پہل نہ کریں _ اور ہم نے وہاں یہ بھی کہا تھا کہ امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام بھی اپنے اصحاب کو کسی جنگ میں پہل نہ کرنے کی تاکید کیا کرتے تھے_ مروی ہے کہ جنگ جمل کے دن حضرت علیعليه‌السلام نے اپنے صحابیوں میں یہ اعلان کیا تھا کہ کوئی شخص ابھی نہ تیر پھینکے گا ، نہ نیزے سے وار کرے گا اور نہ تلوار چلائے گا _ ان لوگوں سے جنگ کی ابتدا نہیں کرو بلکہ ان کے ساتھ نہایت نرمی کے ساتھ بات چیت کرو _ سعید کہتاہے : '' دوپہر تک یہی صورتحال رہی _ یہانتک کہ دشمنوں نے یکبارگی '' یا ثارات عثمان'' کا نعرہ لگاکر یلغار کردی ...'' اور حضرت علیعليه‌السلام نے جنگ صفین میں بھی یہی سفارش کی تھی(۱)

جی ہاں یہ حقیقت ہے کہ :

۱ _ یہ بات شیعوں کی علامت بن گئی _ کیونکہ وہ بھی کبھی دشمنوں سے جنگ کی ابتدا ء نہیں کرتے تھے _ جاحظ بائیں ہتھ کٹے کردو یہ کے متعلق ( جو ایک بہادر اورماہر لوہا ر تھا اور جس پر بھی کوئی وار کرتا تھا اس کا کام ہی تمام کردیتا تھا)کہتاہے: '' کردویہ اپنی معذوری اور دلیری کے باوجود شیعوں والا کام کیا کرتا تھا_ کیونکہ وہ

____________________

۱)سنن بیہقی ج۸ ص ۸۰ ۱ ، حیاة الصحابہ ج۲ ص ۵۰۳ از سنن بیہقی ، تذکرہ الخواص ص ۷۲ و ص ۹۱ ، الفتوح ابن اعثم ج۳ ص ۴۵ و ج ۲ ص ۴۹۰، انساب الاشراف با تحقیق محمودی ج۲ ص ۲۴۰ والمناقب خوارزمی ص ۱۸۳_

۳۷۰

خودکبھی بھی لڑائی شروع نہیں کرتا تھا بلکہ پہلے اس پروار کیا جاتا تھا''(۱)

۲ _ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے جنگ بدر میں ابوعزت جحمی کو قید کیا لیکن پھر اس کی بیٹیوں کی وجہ سے اس پر احسان کرتے ہوئے اسے خمس دیا اور اس سے یہ وعدہ لے کر اسے آزاد کردیا کہ وہ نہ تو دوبارہ مسلمانوں سے جنگ کرے گا اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد اور حمایت کرے گا_ لیکن اس نے وہ عہد توڑ کر جنگ احد کے لئے دوسرے قبیلوں کو بھی اکٹھا کیا اور خود بھی شریک ہوا _ آخر کا رجب وہ گرفتار ہو اور معافی کا خواستگار ہوا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی بات سنی ان سنی کردی اور کوئی توجہ نہیں دی تا کہ کل مکہ میں وہ یہ کہتے ہوئے فخر اور غرور سے اچھل کود نہ کرے کہ اس نے (نعوذ باللہ) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دو مرتبہ دھوکا دیا اور مسخرہ کیا _ اس کی تفصیل غزوہ حمراء الاسد میں بیان ہوگی _ انشاء اللہ

بہر حال اس بات سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیدار اور چالاک مؤمن کے لیے ایک بہترین مثال پیش کی کہ وہ نہ تو دھوکا کھائیں، نہ فریب اور نہ ہی ان کا کبھی مذاق اڑایا جائے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک مشہور و معروف فرمان ہے کہ ''مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا''(۲) اسی طرح معاویہ نے حضرت امام حسینعليه‌السلام اور ان کے محترم والدکے بارے میں بھی یہ گواہی دی ہے کہ یہ دونوں دھوکا نہیں کھاتے _ اس نے اس بات کا اعتراف عبید اللہ بن عمر کے سامنے ان الفاظ میں کیا تھا: ''(حضرت) حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام ہرگز دھوکا نہیں کھاتے اور وہ اپنے باپ کے سپوت ہیں ( یعنی بالکل اپنے باپ پر گئے ہیں )''(۳) اور شیعیان علیعليه‌السلام (۴) نے اس خصوصیت اور صفت کو اپنے آقا و مولا سے وراثت میں پائی ہے اور انہوں نے بھی اپنے سرپرست اور مربی حضرت ختمی مرتبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا حضرت محمد مصطفی سے

____________________

۱)البرصان والعرجان والعمیان والحولان جاحظ ص ۳۳۳_ (۲)مسند احمد ج۲ ص۱۱۵ و ۳۷۳ و فیض الباری ج۴ ص ۳۹۶_

۳)ملاحظہ ہو: الفتوح ابن اعثم ج۳ ص ۵۷_ (۴) اس بات سے معلوم ہوتاہے کہ شیعیان علیعليه‌السلام یا شیعیان حیدرعليه‌السلام کرار کی اصطلاح صدر اسلام سی ہی معروف تھی بلکہ شیعہ علی کے ساتھ ساتھ شیعہ معاویہ اور شیعہ عثمان و غیرہ کی اصطلاحیں بھی مشہور تھیں لیکن رفتہ رفتہ وہ اصطلاحیں معدوم ہوتی گئیں لیکن شیعیان حیدر کرار نے اپنے امام سے دلی لگاؤ کی وجہ سے اس نام کو محفوظ رکھا _ اس بناپر مولانا شرف الدین موسوی جیسے بعض لوگوں کا شیعوں کی حیدرعليه‌السلام کرار اور اثنا عشری یا دوازدہ امامی میں تقسیم اور ان کی اچھی بری صفات سب غلط ہیں اس کی تفصیل کسی اور مقام پر آئے گی_

۳۷۱

وراثت میں پائی تھی _ اس لئے انہیں دوسری نادر اور بلند صفات کے ساتھ ساتھ دور اندیشی اور ذہنی بیداری کے ساتھ بھی پہچانا جاتا تھا_ اپنی اس بات پر دلیل کے لئے ہم تنوخی کی یہ بات ذکر کرتے ہیں کہ کوئی شخص حسن بن لو لو کو دھوکہ دینا چاہتا تھا اور اس کے ساتھ مکاری کرنا چاہتا تھا تو اس نے اس سے کہا : ''کیا مجھ بغدادی ، باب طاقی، پڑھے لکھے، صاحب حدیث ، شیعی، چالاک اور سخت دشمن کو دھوکہ دینا چاہتاہے ؟''(۱)

۳_ شیعہ اپنے دینی امور میں باریک بینی اور پابندی میں بھی بہت مشہور ہیں _ اسد بن عمرو '' واسط'' کا قاضی (جج) تھا _ وہ کہتاہے: '' مجھے واسط کا قبلہ بہت ٹیٹرھا محسوس ہوا اور تحقیقات سے مجھ پر واضح بھی ہوگیا تو میں نے اسے موڑ دیا اور صحیح کردیا _ تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ رافضی ہے _ لیکن ان سے کسی نے کہا کہ نامرادو یہ تو ابوحنیفہ کا پیروکار ہے ، یہ رافضی کیسے ہوگیا ؟ ''(۲) _ اسی کتاب کی پہلی جلد میں بتاچکے ہیں کہ جاحظ نے کہا تھا کہ بنی امیہ نے واسط کا قبلہ تبدیل کردیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ میرے خیال میں قبلہ کی تبدیلی ان کی بہت بڑی غلطی تھی(۳) _

اور ہم نے وہاں یہ بھی کہا تھا کہ بنی امیہ نے بظاہر قبلہ کا رخ بیت المقدس کی طرف موڑدیا تھا_ کیونکہ عبدالملک نے ''صخرہ'' پر ایک قبہ (گنبد) تعمیر کیا تھا اور لوگوں کو اس کے حج کا حکم دیا تھا نیز اس کے گرد طواف ، سعی ، نحر اور حج کے دیگر مناسک کا بھی حکم دیا تھا_ اور ہم نے وہاں یہ بھی کہا تھا کہ صرف عراقیوں کے لئے قبلہ (خانہ کعبہ) سے تھوڑا سا بائیں موڑنے کا استحباب بھی اسی وجہ سے ہونا اور اس حکم کا وقتی ہونا زیادہ قرین قیاس لگتاہے _ تا کہ اس ظالم و جابر اور غاصب حکومت کے مقابلے میں مومنین زیادہ تکلیف میں مبتلا نہ ہوں_

۴ _ شیعہ اپنی عورتوں کے معاملے میں بہت زیادہ غیرت(۴) کے لحاظ سے بھی مشہور تھے_

اسی لئے زکریا قزوینی مدائن والوں کے بارے میں یہ کہتاہوا نظر آتاہے : '' مدائن کے لوگ کاشتکار اور

____________________

۱) نشوار المحاظرات ج ۵ص ۱۳ و ص ۱۴ والمنتظم ابن جوزی ج۷ ص ۱۴۰_ (۲)تاریخ بغداد ج ۷ ص ۱۶ و نشوار المحاضرات ج ۶ ص ۳۶_

۳)رسائل الجاحظ ج ۲ ص ۱۶ نیز ملاحظہ ہو اسی کتاب کی پہلی جلد_

۴)البتہ اس غیرت میں طالبانی تشدد کا عنصر نہیں ہوتا تھا، بلکہ صحیح مذہبی شیعہ عورتوں کی ذہنیت ہی یہی ہوتی ہے_

۳۷۲

شیعہ امامیہ ہیں اور ان لوگوں کی ایک عادت یہ ہے کہ ان کی عورتیں دن میں کبھی باہر نہیں نکلتیں ''(۱)

اور یہ صفت آج بھی ایران کے بعض شہروں میں موجود ہے _ بعض اہل علم حضرات نے مجھے کہا ہے کہ تبریز شہر کے ذیلی قصبہ خسرو شاہ میں دن میں کبھی کوئی عورت نہیں دکھائی دے گی شاید اکاد کا کوئی نظر آجائے تو آجائے وگرنہ نہیں ہے _ اور یہ کام وہ اپنی آقازادی حضرت بی بی فاطمة الزہرا (س) کی پیروی میں کرتے ہیں _ کیونکہ وہ بھی کسی دینی سیاسی معاملے اور حق کے اثبات جیسے کسی نہایت ضروری کام کے علاوہ دن کو باہر بالکل نکلتی ہی نہیں تھیں_(۲)

۵ _ حضرت حجر بن عدی اور ان کے ساتھی اس بات میں مشہور تھے کہ وہ حاکموں اور دولت مندوں پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے اور ان پر چڑھائی کردیا کرتے تھے اور اس بات کو وہ بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے(۳) _ اور یہی تو شیعہ مذہب کی صفت اور شیعوں کا عقیدہ ہے جبکہ دوسرے اس معاملے میں خاموشی اور اطاعت کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں _

۶ _ حضرت حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ وہ صحیح معنوں میں کٹر مذہبی افراد تھے(۴) یعنی دین کے معاملے میں ہ بہت سخت تھے _ حتی کہ یہی بات ان پر تنقید کا باعث بنتی تھی_

۷ _ شیعوں پر حکام کے ظلم و جبر اور استبداد کے باوجود بھی بغداد میں شیعہ خوشحال تھے(۵) _بظاہر ان کی خوشحالی اس وجہ سے تھی کہ وہ حکام کے استبداد اور غصب کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے_ پس وہ ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کیا کرتے تھے، مشکلات حل کیا کرتے تھے اور معاملات نبٹا دیا کرتے تھے_

____________________

۱)آثار البلادو اخبار العباد ص ۴۵۳_

۲)اور آج کل ایران کی صورتحال تو نہیںمعلوملیکن بر صغیر پاک و ہند کی صحیح معنوں میں مذہبی اور دین دار خواتین آج بھی کسی ضروری کام کے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں رکھتیں_

۳)البدایہ والنہایہ ج۸ ص ۵۴ از ابن جریر و غیرہ _

۴)ایضا_

۵)احسن التقاسیم ص ۴۱_

۳۷۳

۸_ اچھی شہرت بھی شیعوں کی ایک خصوصیت تھی(۱) جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا سلوک نہایت بہترین نیز کردار اور تعلقات و غیرہ بھی اسلامی تقاضوں کے عین مطابق معتدل تھے_

۹_ شیعوں کی ایک خصوصیت نماز کی اول وقت میں پابندی بھی ہے _ اور اس بات پر مامون کا یحیی بن اکثم کے ساتھ ایک واقعہ بھی دلالت کرتاہے جس کے آخر میں مامون نے یحیی بن اکثم سے کہا تھا: '' شیعہ تو مرجئہ سے بھی زیادہ نماز کو اول وقت میں پڑھنے کے پابند ہیں ''(۲) لیکن دوسرے لوگوں کے بارے میں امام مالک ،قاسم بن محمد کا یہ قول روایت کرتاہے کہ میں نے ان لوگوں کو ہمیشہ ظہر کی نماز مغرب کے نزدیک نزدیک پڑھتے ہوئے دیکھا ہے(۳) اور جاحظ کہتاہے: '' او ر بنی ہاشم کو بنی امیہ پر یہ فخر حاصل ہے کہ انہوں نے خانہ کعبہ کو تباہ نہیں کیا قبلہ تبدیل نہیں کیا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خلیفہ سے کم تر نہیں سمجھا، اصحاب کو قتل نہیں کیا اور نماز کے اوقات اور تعداد میں تبدیلی بھی نہیں کی ''(۴)

۱۰_ علم اور فقہ بھی شیعوں کی خصوصیات میں سے ہیں_

۱۱_ مہربانی اور سخاوت بھی شیعوں کی ایک خصوصیت ہے _ اس بارے میں ایک واقعہ ذکر ہوا ہے کہ جن دنوں عبداللہ بن زبیر مکہ میں تھا ان دنوں عبداللہ بن صفوان نے عبداللہ بن زبیر کے پاس آکر کہا: '' میری حالت اس شعر کی طرح ہورہی ہے :

فان تصبک من الایام جائحة

لا ابک منک علی دنیاولا دین

اگر کبھی تم پر زمانے کی مصیبتیں ٹوٹ پڑیں تو دین اور دنیا پر تم سے زیادہ رونے والا کوئی اور نہیں ہوگا_

____________________

۱)ایضا _

۲)الموفقیات زبیر بن بکار ص ۱۳۴ و ملاحظہ ہو : عصر المامون ج۱ ص ۴۴۵_

۳)مؤطا امام مالک (مطبوعہ با تنویر الحوالک) ج۱ ص ۲۷_

۴)آثار الجاحظ ص ۳۰۵ ،اس بات سے یہ بھی معلوم ہوجاتاہے کہ لوگ اپنے اموی بادشاہوں سے کتنے متاثر تھے_

۳۷۴

تو اس نے کہا : '' ہوا کیا ہے لنگڑے بتاؤتو؟ '' اس پر اس نے کہا : '' یہ عبداللہ بن عباس لوگوں کو علم فقہ کی تعلیم دے رہا ہے اور اس کا بھائی عبیداللہ بھوکوں کو کھانا کھلارہا ہے_ دونوں کام تو وہ کررہے ہیں _ تمہارے لئے اب کیا رہ گیا ہے ؟ '' _اس نے یہ بات ذہن نشین کرلی اور اپنی پولیس کے ایک سپاہی عبداللہ بن مطیع کو یہ کہہ دونوں بھائیوں کے پاس بھیجا کہ عباس کے دونوں بیٹوں کے پاس جاکر ان سے کہو : '' جس ترابی (شیعیت کے ) جھنڈے کو خدا نے سرنگوں کردیا تھا اسے پھر تم لوگ دوبارہ لہرانے پر لگے ہو؟ اپنا یہ مجمع متفرق کرو اور بوریا بستر سمیٹو وگرنہ میں تمہارے ساتھ ایسا سلوک کروں گا کہ یادگار رہے گا'' اس نے جب یہ پیغام جاکر پہنچایا تو ابن عباس نے کہا : '' تیری ماں تیرے غم میں روئے بخدا ہمارے پاس صرف دو قسم کے لوگ آتے ہیں یا تو طالب علم و فقہ ہوتے ہیں یا پھر طالب فضل و بخشش _ تو کسے ہمارے یہاں آنے سے روکنا چاہتا ہے ؟'' تو اس موقع پر ابوطفیل نے کہا :

لا درّ درّ اللیالی کیف تضحکنا ---- منها خطوب اعاجیب و تبکینا

و مثل ما تحدث الایام من غیر ---- یا ابن الزبیر عن الدنیا تسلینا

کنا نجی ابن عباس فیقبسنا ---- علماً و یکسبنا اجرا و یهدینا

جفانه مطعما ضیفا و مسکینا ---- فالبر والدین و الدنیا بدارهما

و لا یزال عبید الله مترعه ---- ننال منها الذی نبغی اذا شین

ان النبی هو النور الذی کشفتبه ---- عما یات باقینا و ما ضینا

و رهطه عصمة فی دیننا و لهم ---- فضل علینا و حق واجب فینا

و لست فاعلمه اولی منهم رحماً ---- یا ابن الزبیر و لا اولی به دینا

ففیم تمنعهم عنا و تمنعنا

عنهم و تؤذیهم فینا و تؤذینا

لن یؤتی الله من اخزی ببغضهم

فی الدین عزاوفی الارض تمکینا(۱)

____________________

۱) الاغانی طبع ساسی ج ۱۳ ص ۱۶۸ نیز انساب الاشراف ج ۳ ص ۳۲_

۳۷۵

اے ابن زبیر تمہارا برا ہوا اور کبھی چین سے رات نہ گذرے تمہارے عجیب و غریب مطالبے ہمیں ہنساتے بھی ہیں اور رلاتے بھی ہیں _ کبھی تمہیں بھی یہ دن دیکھنے پڑیں گے جس طرح روزگار نے ہمارے ساتھ ستم کیا ہے اور ہماری تسلی کا سامان بھی فراہم نہیں کیا _ ہم عبداللہ ابن عباس کے پاس کسب علم کے لئے جایا کرتے تھے اور وہ بھی ہمارے لئے علم کی شمع جلاتے تھے، ہمیں ثواب کمانے کا موقع دیتے تھے اور ہماری ہدایت کرتے تھے_ اور مہمانوں اور مسکینوں کو کھلانے پلانے کے لئے عبیداللہ کے برتن ہر وقت بھرے ہوئے اور تیار رہتے تھے _ اس بناپر احسان، دین اور دنیا سب کچھ ان دونوں کے گھروں میں جمع ہوگیاتھا اور ہم جب بھی جتنا بھی اور جو کچھ چاہتے تھے ہمیں یہیں سے مل جایا کرتا تھا _ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم ایسا نور ہیں جن کے ذریعہ ہمارے اگلوں پچھلوں کی آنکھیں منور ہوگئیں_ اور اس کا خاندان ہمارے دین کو بچانے والے ہیں اس لئے وہ ہم پر فضیلت رکھتے ہیں اور ہماری گردن پر ان کا حق ہے _ اے زبیر کے بیٹے تو نہ تو رشتہ داری کے لحاظ سے ان سے بہتر ہے اور نہ دین داری کے لحاظ سے _ پھر تو کس برتے پر ہمیں ان سے اور انہیں ہم سے ملنے سے روک کر انہیں ہماری بارے میں اور ہمیں ان کے متعلق پریشان کررہاہے_ جو لوگ اپنے بغض اور کینے کی وجہ سے رسوا ہوچکے ہیں خدا انہیں دین میں عزت اور زمین میں دلوں پر حکومت اور سکون کبھی نہیں دیتا_ پس عبداللہ بن زبیر علم اور سخاوت کے جھنڈوں کو ترابی ( شیعیت کا ) جھنڈا سمجھتا ہے جس کے علمبردار شیعیان ابوتراب حضرت علیعليه‌السلام ہیں اور انہوں نے یہ فیض آپعليه‌السلام سے ہی حاصل کیا ہے _

۱۲ _ ہر قسم کے تعصبات سے دوری بھی شیعوں کی ایک خصوصیت ہے_ اس لئے کہ جب واقعہ عقر میں ''آل مھلب'' (خاندان مہلب) کو قتل کیا گیا تو کثیرعزت نے کہا : '' کیا بری صورتحال ہوگئی ہے_ خاندان ابوسفیان نے واقعہ کربلا میں دین کو ذبح کردیا اور مروان کی اولاد نے واقعہ عقر میں کرم اور مرد انگی کا خون کردیا''_ پھر یہ کہہ کرو ہ رو پڑا _ جب یہ بات یزید بن عبدالملک تک پہنچی تو اس نے اسے بلوایا _ جب وہ اس کے پاس آیا تو اس نے کہا: '' خدا کی پھٹکار ہو تم پر کیا ترابی ہوکر بھی تعصب برت رہے ہو؟'' ؟(۱) قبائلی اور ہر قسم کے دیگر تعصبات کے بارے میں اہل بیتعليه‌السلام عصمت و طہارتعليه‌السلام کا موقف واضح اور مشہور رہا ہے _

____________________

۱)الاغانی ج۸ ص ۶_

۳۷۶

جبکہ دوسروں کاموقف بھی نہایت واضح ہے _ اور یہ ایک لمبی گفتگو ہے _ اس لئے اس پر مزید گفتگو مجبوراً کسی اور مقام کے لئے چھوڑتے ہیں(۱)

۱۳ _ شراب سے دوری بھی شیعوں کی ایک خصوصیت ہے _ مذکور ہے کہ بغداد میں شاعروں کا ایک گروہ شراب کی ایک محفل پر اکٹھا ہوا _ ان میں منصور نمری بھی تھا اور اس نے ان کے ساتھ شراب پینے سے انکار کردیا جس پر انہوں نے اس سے کہا : '' تجھے شراب سے اس لئے چڑ ہے کہ تو رافضی ہے ''(۲) اور جاحظ کہتاہے: '' ہر گروہ کی اپنی ایک خاص عادت اور علامت ہوتی ہے خصی کی پہچان روم کی طرف جانا ہے خراسانی کی پہچان حج کو جاناہے اور رافضیوں (شیعوں) کی پہچان شراب نہ پینا اور بارگاہوں (ائمہ علیہم السلام کے روضہ ہائے اقدس) کی زیارت ہے ''(۳)

۱۴_ زمخشری کہتاہے: '' شیعوں کے نزدیک عید غدیر کی شب نہایت باعظمت ہے _ ساری رات وہ جاگتے اور شب بیداری کرتے ہیں _ یہ اس دن کی شب ہے جس دن غدیر خم کے مقام پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے حضرت علیعليه‌السلام کو پالانوں کے منبر پر بلاکر اپنے خطبہ میں ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ جس جس کا میں مولا ہوں علیعليه‌السلام بھی اس کا مولا ہے ''(۴) _

۱۵_ ادب اور شاعری میں مہارت بھی شیعوں کی ایک خصوصیت ہے _

۱۶_ امت میں تبدیلی لانے کا جوش، جذبہ، تحرک اور نشاط بھی شیعوں کی ایک خصوصیت ہے اور ان تمام باتوں پر ابوفرج شیبانی کی تعریف میں کہے گئے ابن ہانی اندلسی کے یہ اشعار بھی دلالت کرتے ہیں :

''شیعی املاک بکران هم انتسبوا ---- و لست تلقی ادیبا غیر شیعی

من انهض المغرب الا قصی بلا ادب ---- سوی التشیع والدین الحنیفی(۵)

____________________

۱)ملاحظہ ہو ہماری کتاب : ''سلمان الفارسی فی مواجھة التحدی''_

۲)الاغانی ج ۱۲ ص ۲۳_ (۳)محاضرات الراغب ج ۴ ص ۴۱۸_ (۴)ربیع الابرار ج ۱ ص ۸۴ و ص ۸۵_

۵)ملاحظہ ہو : دیوان ابن ہانی ایڈیشن اول لیکن ۱۴۰۵ ہجری قمری مطبوعہ دار بیروت کے اڈیشن میں ''سکھائے'' کی جگہ '' اصلاح کرے'' ہے_

۳۷۷

بکر کے قبیلہ والے اگر اپنا نسب بیان کریں تو ابوفرج شیبانی بھی بکر کے پادشاہ اور شیعہ ہیں_ اور آپ لوگوں کو شیعوں کے سوا کوئی ادیب نہیں ملے گا _ اور شیعوں کے علاوہ کون ہے جو بے ادب مغرب بعید ( ہسپانیہ) کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھائے اور یہی تو دین حنیف ہے_

۱۷_ فصاحت و بلاغت ، سالم گفتگو اور صحیح لہجہ بھی شیعوں کی ایک خصوصیت ہے _ حتی کہ اگر وہ عربی ضاد کا تلفظ بھی ادا کریں گے تو وہ واضح، مشہور اور الگ ہوگا(۱)

۱۸_ کثرت عبادت اور نماز بھی شیعوں کی ایک خصوصیت ہے _ یہاں یہ بات ذکر کرتے چلیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد نے معقل کو حضرت مسلمعليه‌السلام بن عقیل کا پتا لگانے کے لئے بھیجا تو وہ چلتے چلتے مسجد اعظم پہنچا لیکن اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح معاملہ آگے بڑھائے _ پھر اس نے دیکھا کہ مسجد کے ایک ستون کے پاس ایک آدمی کثرت سے نماز پڑھنے میں مصروف تھا_ اس نے اپنے دل میں کہا : '' یہ شیعہ لوگ کثرت سے نماز پڑھتے ہیں _ مجھے لگتاہے کہ یہ بھی انہی میں سے ہے '' _پھر اس میں مذکور ہے کہ اس نے کیسے کیسے حیلے بہانے اور کیسی سازشیں کیں یہاں تک کہ اسے حضرت مسلمعليه‌السلام کا پتا چل گیا(۲) _

۱۹_ جمع بین الصلاتین ( یعنی ظہر اور عصر کی نمازوں کو اکٹھا پڑھنا اور پھر مغرب اور عشاء کی نمازوں کو اکٹھا پڑھنا _ خود اہل سنت کی بنیادی کتب میں بھی اس کے دلائل ملتے ہیں) بھی شیعوں کی ایک خصوصیت ہے اور وہ اس طرح کہ عصر کی نماز زوال کے کچھ دیر بعد ( البتہ نماز ظہر کے بعد) ادا ہوجاتی ہے(۳) _

۲۰_ ابراہیم بن ہانی کہتاہے: '' شیعوں کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ فربہ، بہت بالوں والے اور بازیگند پوش ہوتے ہیں ''(۴) _

۲۱_ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : '' میرے محترم والد صاحب نے مجھے بتایا کہ

____________________

۱)روضات الجنات ج۱ ص ۲۴۴_ (۱) اخبار الطوال ص ۲۳۵_ (۲)مقاتل الطالبیین ص ۴۶۷_

۳)بازیکند ایک قسم کا لباس ہوتاہے_

۳۷۸

ہم اہل بیتعليه‌السلام کے پیروکار بہت نیک اور بہترین لوگ ہوتے ہیں _ اگر کوئی عالم اور فقیہ ہوگا تو وہ انہی میں سے ہوگا، اگر کوئی مؤذن ہوگا تو بھی انہی میں سے ہوگا، رہنما اور قائد ہوگا تو بھی انہی میں سے ہوگا، دیانت دار ہوگا تو بھی انہی میں سے ہوگا اور امانت دار ہوگا تو بھی انہیں میں سے ہوگا_ اور انہیں ایسے ہی ہونا چاہئے_ لوگوں میں ہمیں محبوب بناؤ ، انہیں ہم سے متنفر نہیں کراؤ''(۱) _

۲۲_معتزلی امیرالمؤمنین حضرت علیعليه‌السلام کی خندہ پیشانی ، حسن اخلاق، تبسم اور کشادہ روئی جیسی صفات حسنہ بیان کرتے ہوئے کہتاہے: '' اور یہ صفات حسنہ آج تک بھی آپعليه‌السلام کے محبوں اور پیروکاروں میں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آئی ہے _ اسی طرح ان کے دشمنوں میں بھی ظلم و جفا، تنگ نظری، سنگ دلی اور سختی بھی منتقل ہوتی چلی آئی ہے _ جسے لوگوں کے اخلاق و کردار کے متعلق تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ ہے اسے اس چیز کا بالکل علم ہے ''(۲) _

۲۳_ حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا: '' کسی قبیلہ میں اگر ایک آدمی بھی شیعہ ہوتا تھا تو وہ اس قبیلہ کی زینت اور ان کے لئے باعث فخر ہوتا تھا ، کیونکہ وہ ان سب سے زیادہ امانت دار، حقوق و فرائض کا پاسدار، سچا اور لوگوں کی سفارشوں اور امانتوں کا مرکز ہوتا تھا اور جب بھی اس کے خاندان اور رشتہ داروں سے اس کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ جواب دیتے کہ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں لاکھوں میں چراغ لے کر ڈھونڈو تب بھی نہ ملے _کیونکہ وہ ہم سب لوگوں سے زیادہ امانت دار اور سچا شخص ہے ''(۳) _

۲۴ _ حضرت امام صادقعليه‌السلام نے ( جس طرح مردمی ہے کہ ) اپنے شیعوں سے فرمایا: '' نماز میں صرف ایک بار رفع یدین ( ہاتھوں کو کانوں تک اوپر) کیا کرو اور وہ بھی جب تم نماز شروع کرنے لگو اور بس_ کیونکہ لوگوں نے تمہیں اس صفت کے ساتھ پہچاننا شروع کردیا ہے ''(۴) _

____________________

۱)بحارالانوار ج ۷۴ ص ۱۶۲ و ۱۶۳ و صفات الشیعہ شیخ صدوق ص ۲۸_ (۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج۱ ص ۲۶_

۳)الکافی طبع قدیم ج ۸ ص ۶۷۸_

۴)بحارالانوار ج۷۵ ص ۲۱۵ والکافی ج۸ ص۷_

۳۷۹

۲۵_ حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام ہی فرماتے ہیں : '' شیعیان علیعليه‌السلام ہر قبیلہ کے منظور نظر افراد ہوتے تھے_ وہ دیانت دار، ہرد لعزیز ، راتوں کو جاگ جاگ کر عبادت کرنے والے اور دن کے بھی چراغ ہوتے تھے ''(۱)

۲۶_ اندلس ( ہسپانیہ) کے گورنر منصور بن ابی عامر نے ایک مرتبہ ابومروان الجزیری اور اس کے علم و ادب کی تعریف کرتے ہوئے خود اسی سے کہا : '' ہم نے تمہارا تقابل عراقیوں سے بھی کیا تو تم ان سے بھی زیادہ بافضیلت نظر آئے اب تمہیں خدا کا واسطہ تم خود ہی بتادو کہ تمہارا تقابل کس سے کریں ''(۲) _

۲۷_ شیعوں کی ایک پہچان دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا بھی ہے کیونکہ اسماعیل بروسوی نے عقد الدرر میں کہا ہے : '' سنت در اصل دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنناہی ہے لیکن چونکہ یہ ظالم بدعتیوں ( اس لفظ سے اس ملعون کی مراد شیعہ ہیں) کی پہچان بن گئی ہے تواب ہمارے زمانے میں بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا سنت بن گیا ہے(۳) _

اور راغب یہ کہنے کے بعد کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنا کرتے تھے اور سب سے پہلے معاویہ نے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنی ، یہ اشعار کہتاہے:

قالوا : تختم فی الیمین و انما ---- مارست ذاک تشبها بالصادق

و تقرب منی لال محمد ---- و تباعدا منی لکل منافق

الماسحین فروجهم بخواتم ---- اسم النبی بهن واسم الخالق ''(۴)

وہ لوگ کہتے ہیں کہ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنا کرو_ اور میں نے یہ کام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشابہت کے لئے کیا ہے ( کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں ) اور اس لئے بھی کہ میں

____________________

۱)بحارالانوار ج۶۵ ص ۱۸۰ مطبوعہ مؤسسہ الوفاء نیز اس کے حاشیہ میں از مشکاة الانوار ص ۶۲ و ص ۶۳_

۲) بدائع البدائہ ص ۳۵۶ و نفخ الطیب ج۳ ص ۹۵ یہ ذہن نشین بھی رہے کہ ہسپانیہ کو آجکل سپین بھی کہتے ہیں _ اس میں بنی امیہ کی حکومت تھی_ لیکن کیا یہ کسی کو معلوم ہے کہ یہ علاقہ مسلمانوں کے ہاتھ سے کیسے نکلا؟ او ر ان میں غدار کون لوگ تھے اور ان کا مذہب کیا تھا؟_

۳ ) الغدیر ج ۱۰ ص ۲۱۱ از روح البیان ج۴ ص ۱۴۲_ (۴)محاضرات الراغب ج ۴ ص ۴۷۳ و ۴۷۴_

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460