الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)17%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242080 / ڈاؤنلوڈ: 6987
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اسلام کی طرف مائل ہوگئے اور بعضوں نے اسلام قبول بھی کرلیا_

تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ یثرب کے مشہور افراد میں سے بارہ آدمی مكّہ آئے تا کہ اپنے اسلام کو پیغمبر(ص) کے سامنے پیش کریں اور اسلام کیلئے اپنی خدمات وقف کردیں_

ان افراد کی پیغمبر(ص) سے ملاقات اتنی آسان نہ تھی کیونکہ مكّہ کی حکنومت بت پرستوں اور طاقتوروں کے زور پر چل رہی تھی اور شہر مكّہ کے رعب و دبدہ اور ظلمت و تاریکی کا شہر تھا آخر ان لوگوں سے ملاقات کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جو شہر سے باہر، پہاڑ کے دامن میں اور مشرکوں کی نظروں سے دور تھی یہ ملاقات آدھی رات کو عقبہ نامی جگہ پر رکھی گئی_

عقبہ کا معاہدہ

آدھی رات کے وقت چاند کی معمولی روشنی میں نہایت خفیہ طور پر سعد ابن زرہ، عبادہ ابن صامت اور دوسرے دس آدمی پہاڑ کے پیچھے پر پیچ راستے سے گزرتے ہوئے پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھوڑے سے مسلمان بھی مكّہ سے پیغمبر(ص) کے ساتھ آئے _

تمام گفتگو بہت رازداری کے ساتھ اور خفیہ طور پر ہوئی اور سپیدی صبح سے پہلے جلسہ برخاست ہوگیا اور ان تمام کے تمام حضرات نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنی اپنی راہ لی_ اور خوش بختی سے مكّہ کے مشرکوں میں سے کسی کو بھی اس جلسہ کی خبر نہ ہوئی_

۱۸۱

مدینہ میں مسلمانوں نے ان بارہ افراد سے پوچھا کہ رسول خدا(ص) سے ملاقات کیسی رہی___؟ ان سے کیا کہا اور کیا معاہدہ ہوا___؟

انہوں نے جواب میں کہا کہ:

ہم نے خدا کے رسول (ص) سے معاہدہ کیا ہے کہ خدا کا کوئی شریک قرار نہ دیں گے، چوری نہ کریں گے نہ زنا اورفحشاء کا ارتکاب کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے ایک دوسرے پر تہمت نہیں لگائیں گے نیک کاموں میں رسول خدا(ص) کی مدد کریں گے اور آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے''

مدینہ میں تبلیغ اسلام

ایک مدّت کے بعد انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کو خط لکھا کہ ایک ایسا آدمی ہماری طرف روانہ کیجئے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور قرآن مجید کے معارف سے آگاہ و آشنا کرے_

پیغمبر(ص) نے ایک جوان مصعب نامی ان کی طرف روانہ کیا مصعب قرآن مجید کو عمدہ طریقہ سے اور خوش الحانی کے ساتھ قرات کیا کرتا تھا اور بہت عمدہ اور دل نشین گفتگو کرتا تھا دن میں مدینہ کے ایک کنویں کے نزدیک درخت کے سائے میں کھڑا ہوجاتا اور بہت اچھی آواز کے ساتھ قرآن پڑھتا،

لوگ اس کے اردگرد حلقہ بنالیتے اور وہ ٹھہرٹھہر کر قرآن

۱۸۲

کی تلاوت کرتا جب کوئی دل قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا تو اس سے گفتگو کرتا اور دین اسلام کی اعلی تعلمیات کو اس کے لئے بیان کرتا:

جن حق پرست اور حق کو قبول کرنے والے لوگوں کے دل نرم ہوجاتے تو وہ اس کی باتوں کو توجّہ سے سنتے اور اسلام کے گرویدہ ہو کر ایمان لے آتے تھے''

اسلام کی طرف اس طرح مائل ہونے کی خبر سن کر مدینہ کے بعض قبائل کے سردار سخت ناراض ہوئے اور ان میں سے ایک مصعب کو مدینہ سے باہر نکالنے کے لئے بڑی تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھا اور اس کے نزدیک پہنچ کر غصہ کے عالم میں اپنی تلوار کو نیام سے باہر کھینچ کر چلایا کہ: اسلام کی تبلیغ کرنے سے رک جا اور ہمارے شہر سے باہر چلا جا ورنہ ...؟

مصعب نے اس کے اس سخت لہجہ کے باوجود نہایت نرمی اور محبت سے کہا:

کیا ممکن ہے کہ ہم تھوڑی دیر کے لئے یہیں بیٹھ جائیں اور آپس میں گفتگو کریں؟ میری باتوں کو سنو اگر وہ غیر معقول اور غلط نظر آئیں تو میں ان کی تبلیغ سے دستبردار ہوجاؤں گا اور اس راستے سے کہ جس سے آیا ہوں واپس چلاجاؤں گا ...''

تم سچ کہہ رہے ہو، مجھے پہلے تمہاری بات کو سننا چاہئے،تمہاری دعوت کو سننا چاہیئے اس کے بعد کوئی

۱۸۳

فیصلہ کرنا چاہئے''

اس سردار نے اپنی شمشیر کو نیام میں رکھا اور مصعب کے قریب بیٹھ گیا_ مصعب نے قرآن مجید کی چند منتخب آیا ت اس کے سامنے تلاوت کیں''

اے کاش کہ تاریخ نے ہمارے لئے ان آیات کو تحریر کیا ہوتا جو اس حساس لمحہ میں مصعب نے تلاوت کیں_ لیکن خدا کا شکر ہے کہ قرآن ہمارے سامنے ہے ہم ان آیات کے مانند دوسری آیات کو سمجھنے کی کوشش کریں جو تقریباً وہی معنی رکھتی ہیں جن میں خدا نے مشرکین کو خبردار کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی ہے''___ دیکھیں اور سوچیں''

آیا جو خلق کرنے والا ہے خلق نہ کرنے والے کے برابر ہے بس تم کیوں نہیں سوچتے؟

اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہا ہو تو نہ کرسگو گے البتہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے اور خدا ان چیزوں کو جنہیں تم چھپاتے ہو اور انہیں جنہیں ظاہر کرتے ہو تمام کا علم رکھتا ہے،

یہ بت کہ جنہیں خدا کے مقابل پرستش کرتے ہو اور ان سے مانگتے ہو یہ کوئی چیز بھی خلق نہیں کرسکتے بلکہ خود کسی کے بنائے ہوئے ہیں''

تمہارا خدا ایک ہے وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل برے اور سرکش و متکبّر ہیں''

خدا اس سے جو تم چھپ کر انجام دیتے ہو آگاہ ہے اور اس سے کہ جسے علانیہ بجالاتے ہو آگاہ ہے اور خدا متکبّرین کو کبھی بھی دوست نہیں رکھتا

۱۸۴

قرآن کے نورانی حقائق اور آیات کی جاذبیت و زیبائی اور مصعب کے حوصلے اور اخلاق و استقامت نے اس شخص میں تغیر اور تبدیلی پیدا کردی، اس کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کردیا اور اس کی سرکش اور متکبّر عداوت سرنگوں ہوگئیں اور اسے ایسا سکون و اطمینان حاصل ہوا کہ وہ جاننے اور ماننے کے لئے آمادہ ہوگیا تب اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے کچھ سوالات ادب سے کئے پھر پوچھا:

اسلام کس طرح قبول کیا جاتا ہے؟ اس دین کے قبول کرنے کے آداب و رسوم کیا ہیں؟

مصعب نے جواب دیا:

کوئی مشکل کام نہیں، صرف اللہ کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی جائے، کپڑوں اور جسم کو پانی سے دھوکر پاک کیا جائے اور خدا کے بندوں سے انس و محبت کی راہ کھول دی جائے اور نماز پڑھی جائے_

عقبہ میں دوسرا معاہدہ

مدینہ کے لوگ دین اسلام کی حقانیت دریافت کر رہے تھے اور ایک کے بعد دوسرا امر الہی کو تسلیم کر رہا تھا وہ لوگ بہت ذوق و شوق سے دین اسلام کو قبول کر رہے تھے_ انتظار کر رہے تھے کہ حج کے دن آپہنچیں اور وہ سفر کریں اور پیغمبر(ص) کے دیدار کے لئے جائیں اور اپنی مدد اور خدمت

۱۸۵

کرنے کا اعلان کریں''

آخر کار پانچ سو آدمیوں کا قافلہ مدینہ سے مكّہ کی طرف روانہ ہوا اس قافلہ میں ستّر کے قریب مسلمان بھی موجود تھے_ ان سب کا پروگرام پیغمبر اکرم(ص) سے ملاقات کرنے کا بھی تھا وہ چاہتے تھے کہ اس ملاقات میں پیغمبر(ص) سے رسمی طور سے بیعت کریں اور آپ(ص) کی مدد کا اعلان کریں''

۱۳/ ذی الحجہ کی آدھی رات کو منی میں ایک پہاڑی کے دامن میں ملاقات کرنے کا وقت معین کیا گیا،

وہ وقت آپہنچا اور مسلمان چھپ چھپ کر ایک، ایک، دو، دو، کر کے اس عقبہ کی طرف چل دئے اور وہاں مشرکوں کی سوئی ہوئی آنکھوں سے دور جمع ہوکر پیغمبر(ص) کے گرد حلقہ ڈال دیا،

انہوں نے پیغمبر(ص) سے خواہش کی کہ آپ(ص) کچھ خطاب فرمائیں، پیغمبر(ص) نے قرآن مجید کی کچھ آیات کا انتخاب کر کے ان کے سامنے تلاوت کی اور اسکی تشریح بیان کی اور فرمایا، اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر و استقامت کو اپنا شیوہ بناؤ اور یہ جان لو کہ نیک انجام متقیوں کے لئے ہوا کرتا ہے اس کے بعد پیغمبر(ص) نے اپنی خواہش کاا ظہار کیا اور فرمایا:

کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں مدینہ کی طرف ہجرت کروں اور تمہارے ساتھ زندگی بسر کروں؟''

سبھی نے پیغمبر(ص) کی اس خواہش پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور نہایت اشتیاق سے ایک بولا

خدا کی قسم میں پوری صداقت کے ساتھ آپ(ص) سے عہد

۱۸۶

کرتا ہوں کہ آپ(ص) کے دفاع میں اپنی جان کی بازی لگادوں گا اور جو کچھ زبان سے کہہ رہا ہوں وہی میرے دل میں بھی ہے''

دوسرے نے کہا:

میں آپ(ص) کی بیعت کرتا ہوں کہ جس طرح اپنے اہل و عیال اور اولاد کی حفاظت کرتا ہوں، آپ(ص) کی بھی کروں گا:

تیسرے نے کہا:

ہم جنگ اور لڑائی کے فرزند ہیں اور جنگ کے سخت میدان کے لئے تربیت حاصل کی ہے اور جان کی حد تک پیغمبر خدا(ص) کی خدمت اور دفاع کے لئے حاضر ہیں''

یہ پورا اجتماع، شوق اور محبت سے لبریز تھا اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے دل کی بات کہی لیکن وہ یہ بھول چکے تھے وہ مكّہ میں اور مشرکوں کی ایک خطرناک حکومت کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں،

پیغمبر اکرم(ص) کے چچا نے جو آپ(ص) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے بہت دہیمی آواز میں جو کہ مشکل سے سنی جا رہی تھیں کہا:

مطمئن رہو، آہستہ بولو، کہیں مشرکوں نے ہمارے اوپر کوئی آدمی تعینات نہ کیا ہو ...''

اس کے بعد یہ جلسہ ختم ہوا اور لوگوں نے فرداً فرداً پیغمبر(ص) کے ہاتھ پر بیعت کی، عہد کیا اور خداحافظ کہا:

ابھی دن کی سفیدی بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ تمام لوگ وہاں سے علیحدہ علیحدہ روانہ ہوگئے''

۱۸۷

لیکن افسوس، دوسرے دن معلوم ہوا کر مكّہ کے مشرکوں کو اس جلسے کی خبر مل چکی ہے اور اہل مدینہ کی پیغمبری(ص) سے بیعت اور بہت کی گفتگو کا کافی حد تک انہیں علم ہوچکا ہے مشرکین میں اضطراب اور خوف پھیل گیا اور انہوں نے سوچا کہ اگر محمد(ص) اور دوسرے مسلمان مكّہ سے مدینہ چلے گئے اور وہاں مضبوط مرکز بنالیا تو کیا ہوگا؟

لہذا وہ سب دالندوہ میں اکٹھے ہوئے اور بہت زیادہ سختی کرنے کا فیصلہ کیا اور اسلام کی جڑیں کاٹنے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے کسی عمدہ طریقہ کو سوچنے لگے_

آیت قرآن

( انّ الّذین قالوا ربّنا الله ثمّ استقاموا فلا خوف علیهم و لا هم یحزنون ) ''

سورہ احقاف آیت ۱۳/''

البتہ جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب خدا ہے اور پھر اس پر محکم رہے تو نہ ان پر خوف ہوگا ورنہ ہی وہ محزون ہوں گے''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱۸۸

۱)___ سورہ نحل کی جن آیات کا ترجمہ اس سبق میں بیان ہوا ہے، ان میں خداوند عالم نے کن چیزوں کو اپنی قدرت کی_

واضح نشانیاں بتایا ہے؟ اور ان نشانیوں کے ذکر کرنے سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟ یہ نشانیاں دین اسلام کے اصولوں میں سے کس اصل کو بیان کرتی ہیں _

۲)___ قبیلہ خرزج کے ان چھ آدمیوں نے کہ جنہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے سامنے اسلام قبول کیا تھا یہودیوں سے کیا سن رکھا تھا؟ اور یہودیوں کی وہ خبر کس اصول کو بیان کرتی ہے؟

۳) ___ جب یہ لوگ پیغمبر اسلام(ص) سے جدا ہو رہے تھے تو کس مسئلہ کے بارے میں امید کا اظہار کر رہے تھے؟

۴)___ پیغمبر(ص) نے کس آدمی کو مدینہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجا؟ اور اس میں کیا خصوصیات موجود تھیں؟ اس کی تبلیغ کا کیا طریقہ تھا؟ اور دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے وہ کون سی چیزیں بیان کرتا تھا؟

۵)___ دوسرے معاہدہ کا وقت کیا تھا؟ اس میں کتنے افراد نے پیغمبر(ص) کا دیدار کیا؟ اور کیا کہا اور کیا سنا ؟

۱۸۹

مشرکوں کا مکر و فریب

جب مشرکوں کو اس خفیہ اجلاس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں پر آزار و تکلیف پہنچانے میں اضافہ کردیا مسلمان جو مصائب و مشکلات کی بناپر بہت زیادہ دباؤ میں تھے انہوں نے پیغمبر(ص) سے سوال کیا کہ کیا ان مصائب پر صبر کریں؟ یا کوئی اور راستہ اس کے لئے سوچیں؟

رسول خدا(ص) نے انہیں حکم دیا کہ بالکل خفیہ طور پر مشرکوں کی آنکھوں سے چھپ کر مدینہ کی طرف کہ جسے اس زمانے میں یثرب کہا جاتا تھا اور بعد میں اس کا نام پیغمبر(ص) اسلام کے احترام میں ''مدینة الرسول'' رکھا گیا ہجرت کر جائیں اور آپ(ص) نے انہیں خوشخبری دی کہ:

جو لوگ اس رنج و غم اور ظلم پر جوان پر روا رکھا گیا ہے صبر کر کے ہجرت کرجائیں گے تو خداوند

۱۹۰

بزرگ ان کے لئے دنیا میں ایک عمدہ اور قیمتی جگہ عطا کرے گا البتہ ان کا آخرت میں اجر بہت بہتر اور بالاتر ہوگا یہ عظیم اجر اس شخص کو نصیب ہوگا کہ جو مشکلات میں صابر اور پائیدار اور استقامت رکھتا ہو اور خداوند عالم پر توکل کرے البتہ خدا تم پر جو مشکلات میں صبر وہ حوصلہ رکھتے ہو او راللہ تعالی کی راہ میں ہجرت اور جہات کرتے ہو بہت ہی مہربان اور بخشنے والا ہے''

لیکن ہجرت کس طرح ممکن ہے؟

اس شہر سے کہ جس میں بہت طویل مدت گزاری ہو اور اس سے مانوس ہوں کس طرح چلے جائیں؟

کیسے ہوسکتا ہے کہ گھر بار کو چھوڑ کر یک و تنہا ایک ایسے شہر کی طرف چلے جائیں جو ہمارے لئے بالکل اجنبی ہے؟

کس طرح چھوٹے بچّوں کو اتنے طویل اور سخت سفر میں ہمراہ لے جایا جائے_

اور کس طرح اس شہر میں کہ جس سے واقف نہیں زندگی گزاری جائے؟ نہ کسب اور نہ کوئی کام نہ کوئی آمدنی اور نہ ہی گھر یہ

یہ تمام مشکلات ان کی آنکھوں میں پھر گئیں_ لیکن اللہ کا وعدہ اور خدا پر توکل اور خدا کے راستے میں صبر ان تمام مشکلات اور سختیوں کو آسان کردیتا تھا_

لہذا خدا کے وعدے پر اعتماد اور خدا کی مدد سے ان فداکار مسلمانوں

۱۹۱

نے مدینہ کی طرف ہجرت کا آغاز کیا''

مشرکوں کو جب اس کی اطلاع ملی تو اس وقت تک کافی زیادہ مسلمانوں مدینہ ہجرت کرچکے تھے_ لہذا دوسرے مسلمانوں کی ہجرت کرتے تھے بالخصوص رات کے وقت اور وہ بھی آدھی رات کے وقت جب نگرانی کرنے والے غفلت اور نیند میں ہوتے تھے تو وہ عام راستوں سے ہٹ کر سخت اور دشوار گزار راستہ کے ذریعہ پہاڑوں کے نشیب و فراز عبور کر کے زخمی پیروں اور جھلسے ہوئے چہروں کے ساتھ مدینہ پہنچتے تھے''

اس قسم کی ہجرت اور استقامت و ایثار نے کفّار کی وحشت میں اور اضافہ کردیا وہ ڈرتے تھے کہ مسلمان مدینہ میں ایک مضبوط مرکز بنا کر ان پر حملہ نہ کردیں_ لہذا فوراً انہوں نے مٹینگ طلب کی تا کہ صلاح و مشورے اور سوچ بچار سے اس خطرے کے تدارک کے لئے کہ جس کا ان کو خیال تک نہ تھا خوب غور و خوض کریں_

اس اجلاس میں ایک مشرک نے گفتگو کی ابتداء ان الفاظ سے کی:

'' ہم سوچتے تھے کہ محمد(ص) کی آواز کو اپنے شہر میں خاموش کردیں گے لیکن اب خطرہ بہت سخت ہوگیا ہے مدینہ کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور محمد(ص) سے عہد و پیمان باندھ لیا ہے جانتے ہوکیا

۱۹۲

ہوا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ چند روز قبل عقبہ میں ایک اجلاس ہوا ہے؟ کیا جانتے ہو کہ اکثر مسلمان مدینہ کی طرف چلے گئے ہیں اور وہاں کے مسلمانوں سے مل گئے ہیں؟ جانتے ہو کہ اگر محمد(ص) مدینہ کو اپنا مرکز بنانے میں کامیاب ہوگئے تو کتنا بڑا خطرہ ہمارے لئے پیدا ہوجائے گا؟ اس سے پہلے کہ حالات ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں اس کا علاج سوچا جائے_ اگر اس خطرے کے تدارک کے لئے جلدہی کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا اور کوئی قطعی فیصلہ نہ کیا گیا تو باقی ماندہ فرصت بھی ہاتھ سے نکل جائے گی اور بہت جلد محمد(ص) بھی مدینہ میں اپنے ساتھیوں سے جاملیں گے_

جانتے ہو اس کا علاج کیا ہے؟ صرف اور صرف محمد(ص) کا قتل_ اب ہمارے پاس صرف یہی ایک راستہ باقی ہے_ ایک بہادر آدمی کو اس کام پر مامور کیا جائے کہ وہ چھپ کر محمد(ص) کو قتل کردے اور اگر بنی ہاشم محمد(ص) کے خون کا مطالبہ کریں تو خون بہا ادا کردیا جائے یہی ایک راہ ہے اطمینان و سکون سے زندگی بسر کرنے کی''

ایک بوڑھا آدمی جو ابھی ابھی اجلاس میں شامل ہوا تھا اس نے کہا:

۱۹۳

نہیں یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کیونکہ بنی ہاشم یقینا خونبہا لینے پر راضی نہیں ہوں کے جس طرح بھی ہوگا وہ قاتل کو پتہ لگا کر اسے قتل کردیں گے کس طرح ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اس کام کو رضاکارانہ طور پر انجام دے کیا کوئی تیار ہے؟

کسی نے جواب نہ دیا،

دوسرے نے کہا:

کیسا رہے گا کہ اگر محمد (ص) کو پکڑ کر قید کردیں؟ کسی کو ان سے ملنے نہ دیں اس طرح لوگوں سے ان کا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور لوگ ان کو اور ان کی دعوت کو بھول جائیں گے''

اس بوڑھے نے کہا:

نہیں: یہ اسکیم بھی قابل عمل نہیں ہے، کیا بنی ہاشم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے اور تم آسانی کے ساتھ محمد(ص) کو گرفتار کرلوگے؟ اور اگر بالفرض ان کو پکڑ بھی لو تو بنی ہاشم تم سے جنگ کریں گے اور انہیں آزاد کرالیں گے''

ایک اور آدمی بولا:

محمد(ص) کو اغوا کر کے ایک دور دراز مقام پر چھوڑ آئیں انہیں خفیہ طریقے سے گرفتار کر کے ایک سرکش اونٹ پر بٹھا کر ان کے پاؤں اونٹ کی پیٹھ کے نیچے مضبوطی سے باندھ دیں اور اس اونٹ کو کسی دور دراز مقام پر چھوڑ آئیں تا کہ بیابان کی بھوک و پیاس سے محمد(ص) ہلاک ہوجائیں_ اور اس صورت میں قبائل میں سے انہیں کوئی بچا بھی لے تو وہ مجبوراً اپنی دعوت

۱۹۴

سے دستبردار ہوجائیں گے کیونکہ اس حالت میں انہیں کون پہنچانے گا اور کون ان کی باتوں اور ان کی دعوت پر کان دھرے گا یہ ایک بہترین طریقہ ہے اے ضعیف مرد''

وہ بوڑھا تھوڑی دیر خاموش رہا جلسہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اسے دیکھ رہے تھے کہ دیکھیں اب وہ کیا کہتا ہے_ کچھ توقف کے بعد اس نے سکوت کو توڑا اور گفتگو شروع کی:

نہیں ... یہ کام بھی قابل عمل نہیں ہے_ اول تو یہ کہ تم اتنی آسانی سے محمد کو گرفتار نہ کرسکوں گے، دوسرے یہ کہ تم نہیں جانتے کہ اگر انہیں بیابان میں چھوڑ آؤ اور وہ کسی قبیلے میں چلے جائیں تو پھر کیا ہوگا؟ اپنی عمدہ اور دلنشین گفتگو سے کہ جسے وہ قرآن کہتے ہیں اس قبیلے کے لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے اور یوں تمہارے ساتھ جنگ کرنے اور تم سے اور تمہارے بتوں اور رسم و رواج سے لڑنے اور تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مضبوط مرکز پالیں گے''

عجیب بوڑھا ہے؟ جو کچھ کہتے ہیں ان کی مخالفت کرتا ہے؟

اے ضعیف مرد تم بتاؤ تمہاری تجویز کیا ہے؟

وہ بوڑھا کچھ دیر تک اور خاموش رہا، سب اس کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ کیا کہتا ہے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد دھیمی آواز میں بولا، جانتے ہو کہ اس کا قابل عمل علاج کیا ہے؟

علاج یہ ہے کہ ہر ایک قبیلے سے ایک آدمی منتخب کرو اور انہیں اس بات پر مامور کرو ہ وہ سب

۱۹۵

مل کر رات کی تاریکی میں محمد(ص) پر حملہ کردیں اور محمد(ص) کو ان کے بستر پر ٹکڑے ٹکڑے کردیں اس طرح سے بنی ہاشم بھی قاتل کو نہ پہچان سکیں گے اور نہ ہی ایک ساتھ سب سے جنگ کرسکیں کے لہذا وہ خونبہا لے کر خاموش اور راضی ہوجائیں گے اجلاس میں شامل لوگوں نے بحث و گفتگو کے بعد اسی طریقہ کار کی تائید کی اور اس کو انجام دینے کا ارادہ کرلیا لیکن خداوند عالم کی ذات ان کی باتوں اور ان کے برے ارادوں سے غافل نہ تھی_

خداوند عالم فرماتا ہے:

ہرگز گمان مت کرو کہ خدا ظالموں کے کردار سے غافل ہے نہیں: ان کے اعمال کی تمات تر سزا کو اس دن تک کہ جس دن سخت عذاب سے آنکھیں بند اور خیرہ ہوں گی اور گردش کرنے سے رک جائیں گی ٹال دیا ہے اس دن یہ جلدی (دوڑتے ہوئے) اور سرجھکائے حاضر ہوں گے لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ کہ جسکا عذاب ان کو گھیرے گا اور ظالم کہیں گے کہ پروردگار ہماری موت کو کچھ دن کے لئے ٹال دے تا کہ ہم تیری دعوت کو قبول کرلیں اور تیرے پیغمبروں کی پیروی کریں کیا تم ہی نہیں تھے کہ قسم کھاتے تھے کہ ہم پر موت اور زوال نہیں آئے گا؟''

۱۹۶

آیت قرآن

''( و مکروا و مکر الله و الله خیر الماکرین ) ''

سورہ آل عمران آیت ۵۴

انہوں نے مکر و فریب کیا اور اللہ نے ان کا جواب دیا اور اللہ بہترین نقشہ کشی کرنے والا ہے_

سوچئے او رجواب دیجئے

۱) ___ جب مسلمانوں نے پیغمبر(ص) سے مصائب اور سختیوں کی روک تھام کا تقاضہ کیا تو انہوں نے کیا جواب دیا؟ اور خداوند عالم کی جانب سے کون سی خوشخبری دی؟

۲)___ ہجرت کی مشکلات کیا تھیں؟ اور مسلمان کس طرح ان مشکلات پر غالب آتے تھے؟

۳)___ مسلمان کس طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچا کرتے تھے؟

۴)___ مسلمانوں کی ہجرت اور استقامت و ایثار نے کفار پر کی اثر ڈالا؟

۵)___ کفّار نے کس مسئلہ کے بارے میں اجلاس منعقد کی اور کس بات پر ان کا اتفاق ہوا تھا؟

۱۹۷

۶)___ خداوند عالم ظالموں کی سزا کے متعلق قرآن مجید میں کیا فرماتا ہے؟ اور ظالم اپنے پروردگار سے کیا کہیں گے اور کیا خواہش کریں گے اور خدا انہیں کی جواب دے گا؟

۱۹۸

پیغمبر(ص) خدا کی ہجرت (۱)

اللہ تعالی کفّار کے منحوس ارادوں سے آگاہ تھا اس نے کفّار کے حیلے سے پیغمبر(ص) کو آگہ کردیا اور ان کے برے ارادے کو پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر کردیا_

خداوند عالم نے پیغمبر(ص) کو خبر دی کہ مشرکوں نے تمہارے قتل پر کمر باندھ رکھی ہے لہذا نہایت خاموشی کے ساتھ چھپ کر اس شہر سے مدینہ کی جانب ہجرت کر جاؤ کہ یہ ہجرت، دین اسلام کی بنیاد کو مضبوط بنانے اور محروم لوگوں کو ان ظالموں سے نجات دلانے کا موجب ہوگی_

تم اللہ کی رضا اور مخلوق خدا کی ہدایت کے لئے اپنے اپنے گھر بار کی محبت کو پس پشت ڈال کر ہجرت کرجاؤ کیونکہ اللہ تعالی اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں او رمہاجرین کی مدد کرتا ہے، ان کی حمایت کرتا ہے اور انھیں سعادت و کامیابی کا راستہ بتاتا ہے_ اللہ کا دین ہمیشہ ہجرت و جہاد اور ایثار وقربانی سے وابستہ رہا

۱۹۹

ہے اور ہمیشہ رہے گا_

پیغمبر خدا(ص) نے اللہ کے حکم سے ہجرت کا پكّا ارادہ کرلیا_

لیکن ہجرت اور یہ ارادہ نہایت پر خطر تھا_ پیغمبر(ص) اور ان کا گھر مکمّل طور پر دشمنوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا_ آمد و رفت کی معمولی سی علامت اور گھر میں ہونے والی غیر معمولی حرکات و سکنات پیغمبر(ص) کے ارادے کو ظاہر کردیتیں اور آپ(ص) کی ہجرت کے پروگرام کو خطرے میں ڈال سکتی تھیں_

کفّار نے آپ(ص) کے گھر اور سونے اور بیٹھنے کی جگہ تک کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرلی تھیں تا کہ اس حملہ کی کامیابی کی تکمیل میں کہ جس کو انجام دیتے کے طریقے اور وقت کا تعین ہوچکا تھا کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہوسکے_

رات کے وقت پیغمبر(ص) کی آمد و رفت کے معمولات سے یہ لوگ آگاہ تھے، یہاں تک کہ دروازے کے سوراخ اور دیوار کے اوپر سے پیغمبر کے سونے کی جگہ تک ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ تھی_

یہاں تک کہ شب ہجرت آپہنچی_

پیغمبر نے ہجرت کے موضوع پر حضرت علی (ع) سے کہ جنہوں نے ابتداء بعثت سے ہی آپ(ص) کی مدد و نصرت کا پیمان باندھ رکھا تھا مشورہ کیا اور پوچھا:

اے علی (ع) کیا تم خدا کے اس حکم کی تعمیل میں میری مدد کرو گے؟

یا رسول اللہ(ص) میں کس طرح سے آپ(ص) کی مدد کروں؟''

حضرت علی (ع) نے کہا:

کام بہت مشکل ہے_ چالیس کے قریب مشرک چاہتے ہیں کہ

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

اہل بیتعليه‌السلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قربت حاصل کر سکوں اور ان تمام منافقوں سے بھی بیزاری کا اظہار کرسکوں جو بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہن کر ( کم از کم طہارت کرتے وقت ) اپنی شرمگاہوں سے اسے مس (ٹچ) کرتے ہیں جن پر خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نامی نامی لکھا ہوتا تھا_

۲۸_ وہ خود ہی کہتے ہیں کہ سنت اصل میں قبروں کو برابر کرنا ہے لیکن چونکہ یہ عمل رافضیوں کی پہچان بن چکا ہے اس لئے اب سنت یہ ہے کہ قبروں کو کوہان نمابنایاجائے(۱) _

۲۹_ زرقانی کہتاہے کہ بعض علما عمامے کا شملہ ( تحت الحنک) آگے سے بائیں جانب سے لٹکاتے تھے_ اور میں نے دائیں جانب سے شملہ لٹکانے کی کوئی حدیث نہیں دیکھی _ صرف ایک ضعیف حدیث ہے اور وہ بھی طبرانی سے _ لیکن چونکہ یہ شیعہ امامیہ کی پہچان بن چکاہے اس لئے ان سے مشابہت سے بچنے کے لئے بائیں جانب سے تحت الحنک لٹکانے کو ترک کردینا چاہئے(۲) _

۳۰_ زمخشری نے اہل بیتعليه‌السلام پر علیحدہ سے درود اور سلام بھیجنے کو مکروہ جانا ہے _ کیونکہ اس سے رافضی ہونے کی تہمت لگ سکتی ہے(۳) _

۳۱ _ عسقلانی کہتاہے: '' تمام علماء کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ زندہ لوگوں کو سلام کرنا صحیح ہے لیکن انبیاء کے علاوہ دیگر وفات پاجانے والے افراد کے متعلق علماء کا آپس میں اختلاف ہے _ بعض کہتے ہیں کہ ہر صورت میں جائز ہے جبکہ بعض کہتے ہیں کہ انبیاء پر درود اور سلام کے ذیل میں صحیح ہے علیحدہ نہیں _ لیکن ہر مردہ پر علیحدہ علیحدہ درود نہیں بھیجا جائے گا _ کیونکہ یہ رافضیوں کی علامت بن چکی ہے(۴)

۳۲_ اور حسن ختام کے طور پر ہم یہ کہتے چلیں کہ راغب کہتاہے: '' اگر کہیں صرف لفظ ''امیرالمؤمنین ''

____________________

۱)رحمة الامة باختلاف الائمة ( مطبوعہ بر حاشیہ المیزان شعرانی) ج۱ص ۸۸ ، المغنی ابن قدامہ ج ۲ ص ۵۰۵ ، مقتل الحسین مقرم حاشیہ ص ۴۶۴ از مذکورہ دونوں کتب و از المہذب ابواسحاق شیرازی ج۱ ص۱۳۷ ، الو جیزغزالی ج ۱ ص ۴۷ ، المنہاج نووی ص ۲۵ ، شرح تحفہ المحتاج ابن حجر ج ۱ ص ۵۶۰ ، عمدة القاری ج ۴ ص ۲۴۸ والفروع ابن مفلح ج۱ ص ۴۸۱_

۲)مقتل الحسین مقرم حاشیہ ص ۲۶۵ ۴ز شرح مواہب ج ۵ ص ۱۳_ (۳)الکشاف ج ۳ ص ۵۵۸_ (۴)فتح الباری ج۱۱ ص ۱۴۶_

۳۸۱

اکیلا بولا جائے تو اس سے مراد امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام ہیں ''(۱)

اس موضوع سے متعلق ہمارے ذہن میں ابھی صرف یہی چند باتیں موجود تھیں _ البتہ ہم محترم قارئین سے اس توفیق کے خواہاں ہیں کہ وہ مزید صفات حسنہ کو خود تلاش کریں گے اور اپنائیں گے_

____________________

۱)محاضرات الادباء ج ۳ ص ۳۴۱_

۳۸۲

۴۰۱

دوسرا عنوان

جناب ابوبکر کی شجاعت اور سائبان میں ان کی موجودگی_

مورخین اہل سنت کہتے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام نے سب سے بہادر ترین شخص کے بارے میںلوگوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا : '' آپعليه‌السلام ہیں '' لیکن آپعليه‌السلام نے اس کی نفی کی _ اور خود ہی اقرار کرتے ہوئے فرمایا: ''جنگ بدر کے موقع پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ایک سائبان بنانے کے بعد یہ پوچھا گیا کہ اس سائبان میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کون رہے گا تا کہ مشرکین آپ پر حملہ نہ کرسکیں اور حملہ کی صورت میں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بچاؤ کرسکے؟_ خدا کی قسم اس خطیر ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہم میں سے صرف ابوبکر ہی آگے بڑھا_ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سر پر تلوار لہرا رہا تھا تا کہ اگر کوئی مشرک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ کرنے کی کوشش کر ے بھی تو وہ اس پر حملہ میںپہل کردے _ اس لئے وہی سب سے زیادہ بہادر شخص ہے ''(۱)

حلبی شافعی کہتا ہے :'' اس روایت سے شیعوں اور رافضیوں کی یہ بات بھی رد ہوجاتی ہے کہ خلافت کے مستحق صرف حضرت علی علیہ السلام ہی ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ بہادر شخصیت ہیں '' پھر حلبی اور دحلان نے ابوبکر کے سب سے زیادہ شجاع ہونے پر یہ دلیل پیش کی ہے کہ '' نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ پیشین گوئی کردی تھی کہ وہ ابن ملجم ملعون کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمائیں گے پس وہ جب بھی جنگ

____________________

۱)تاریخ الخلفاء سیوطی ص ۳۶و ص ۳۷، مجمع الزوائد ج ۹ص ۴۷البتہ اس نے کہا ہے کہ اس کی سند میں چند ایسے راوی ہیں جنہیں میں نہیں جانتا ، البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۷۱، ص ۲۷۲از بزار ، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۲۶۱از گذشتہ دونوں منابع، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۶، الفتح المبین دحلان ( بر حاشیہ سیرہ نبویہ) ج ۱ ص ۱۲۲ ، از الریاض النضرہ ج ۱ ص ۹۲_

۳۸۳

میں شرکت کرتے اور کسی دشمن کا سامنا ہوتا تو انہیں یہ پتا ہوتا تھا کہ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا _ اس کے سامنے وہ اس طرح تھے جیسے اس کے ساتھ ایک بستر پر لیٹے ہوں _ لیکن ابوبکر کو اس کے قاتل کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کی گئی تھی _ اس لئے جنگ میں حصہ لیتے ہوئے وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ پہلے مارے گا یا ماراجائے گا _ اس حالت میں جتنی تکلیفیں وہ برداشت کرسکتے تھے کوئی اور نہیںکر سکتا تھا _

اور عمر کے منع کرنے کے باوجود بھی زکات نہ دینے والوں سے اس کی جنگ بھی ابوبکر کی شجاعت اور بہادری پر دلالت کرتی ہے _ اور جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات حسرت آیت ہوئی تو تمام لوگوں کی عقلیں زائل ہوگئیں اور حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی شدت غم سے بیٹھ سے گئے ، عثمان کی زبان بھی بندہوگئی اور وہ بولنے سے رہے لیکن اس سخت موقع پر بھی ابوبکر ثابت قدم رہا _ لیکن جنگوں میں وہ حضرت علیعليه‌السلام کی طرح اس لئے مشہور نہیں ہوا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے بہادروں سے لڑنے سے منع کردیا تھا''(۱) _

دحلان کہتا ہے :'' امامت اور رہبری سنبھالنے کے لئے شجاعت اور ثابت قدمی دو لازمی عنصر ہیں _ خاص کر جب مرتدوں و غیرہ سے جنگ کے لئے ان چیزوں کی اشد ضرورت ہو ''(۲) _

وہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں :'' جنگ بدر کے موقع پر ابوبکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہوا تھا _ اس لئے اس کا مرتبہ رئیسوں اور سرداروں والا تھا _ اور سردار کی شکست سے لشکر بھی شکست کھا جاتا ہے جبکہ حضرت علی علیہ السلام کا مرتبہ ایک سپاہی کا ساتھا اور سپاہی کے قتل سے کوئی لشکر کبھی شکست نہیں کھاتا''(۳) ان لوگوں کے پاس یہی وہ سارے دلائل ہیں جن کو انہوں نے جناب ابوبکر کے دیگر تمام صحابہ حتی کہ حضرت علیعليه‌السلام سے بھی زیادہ بہادر اور شجاع ہونے پر پیش کیا ہے_

____________________

۱)گذشتہ تما م باتوں کے لئے ملاحظہ ہو الفتح المبین دحلان ( بر حاشیہ سیرہ نبویہ) ج ۱ ص ۱۲۳تا ص ۱۲۵، سیرہ حلبی ج ۲ ص ۱۵۶و از تفسیر قرطبی ج ۴ ص ۲۲۲_

۲)الفتح المبین دحلان ( بر حاشیہ سیرہ نبویہ )ج ۱ ص ۱۲۴تا ص ۱۲۶_

۳)تاریخ بغداد خطیب ج ۸ ص ۲۱، المنتظم ابن جوزی ج ۶ ص ۳۲۷ و العثمانیہ جا حظ ص ۱۰_

۳۸۴

مذکورہ باتیں نادرست ہیں

ہمیں یقین سے کہ مذکورہ باتیں یا تو نادرست ہیں یا پھر بلا دلیل ہیں _ سائبان کی بات ہی سرے سے غلط ہونے کے دلائل تو پہلے ذکر ہوچکے ہیں _ بقیہ باتوں کے غلط ہونے کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :

الف : کئی مقامات پر ابوبکر کا فرار

دحلان نے یہ تو اقرار کرلیا کہ امر امامت کے لئے شجاعت اور ثابت قدمی نہایت لازمی عناصر ہیں _ لیکن ہمیں ابوبکر کئی مقامات پر بھاگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں _ جنگ خیبر ، حنین اور احد میں اس کا فرار بہت مشہور و معروف ہے _ ان جنگوں کی گفتگو کے دوران اس کے منابع بھی بیان ہوں گے _ اور ابوبکر کی خلافت کے معترف ابن ابی الحدید نے جنگ خیبر(۱) _ میں ابوبکر اور عمر کے فرار کے متعلق کہا ہے:

و ما انس لا انس الذین تقدما

و فرهما و الفر قد علما حوب

و للرایة العظمی و قد ذهبا بها

ملابس ذل فوقها و جلابیب

میں ان دونوں آگے بڑھ جانے والوں کے جنگ سے فرار کو کبھی نہیں بھلا سکتا _ حالانکہ وہ یہ جانتے بھی تھے کہ جنگ سے فرار ایک بہت بڑا گناہ ہے_ وہ دشمن کے پاس لشکر اسلام کا عظیم جھنڈا لے کر گئے لیکن اسے وہیں گر ا کر اپنے ساتھ ذلت اور خواری کی چادریں لے آلئے_

____________________

۱) غزوہ احد میں ان کے فرار کی بات کثیر منابع کے ساتھ اس کتاب کی چوتھی جلد میں آئے گی ، غزوہ حنین میں ان کے فرار کی بات بھی اس غزوہ کی بحث میں آئے گی اور غزوہ خیبر میں ان کے فرار کی بات کثیر منابع کے ساتھ عنقریب آئے گی _ اس روایت کو بزار نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے اسی طرح اس روایت کو طبرانی ، ایجی ، بیضاوی اور ابن عساکر نے بھی بیان کیا ہے _ اس لئے ملاحظہ ہو : مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۲۴، المواقف (جیسا کہ اس کی شرح میں آیا ہے ) ج ۳ ص ۲۷۶ اور اس کے شارحین نے بھی اس کے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے ، المطالع ص ۴۸۳ از بیضاوی در طوالع الانوار ، زندگانی حضرت علیعليه‌السلام بن ابی طالب از تاریخ ابن عساکر با تحقیق محمودی ج ۱ ص ۸۲ و الغدیر ج ۷ ص ۲۰۴، مزید منابع کا ذکر آگے نے گا انشاء اللہ _

۳۸۵

پھر یہ بھی کہا:

احضرهما ام حضر اخرج خاضب

وذان هما ام ناعم الخذ مخضوب

عذرتکما ان الحمام لمبغض

و ان بقاء النفس للنفس مطلوب

لیکره طعم الموت و الموت طالب

فکیف یلذ الموت و الموت مطلوب

بھاگتے وقت وہ ایسے دوڑے جیسے باغ میں چرنے والا شتر مرغ ڈر کے مارے لمبے لمبے ڈگ بھر تا ہوا بھاگتا ہے_ اور اپنے پیچھے بھی نہیں دیکھتا_ کیا یہ دونوں جنگجو ہیں یا آرام و آسائشے میں پلنے والے اور نرم گالوں والے ہیں جنہوں نے ہاتھوں پر مہندی لگائی ہوئی ہو (دوسرے لفظوں میں ہاتھوں میں چوڑیاں پہنی ہوئی ہوں) _ جس صورت میں موت ہمارے پیچھے لگی ہوتی ہے وہ کتنی ناپسندیدہ لگتی ہے تو اس وقت ان کی کیا صورتحال ہوگی جب وہ مرنے چلے ہوں؟ نیز یہ شعر بھی کہا:

و لیس بنکر فی حنین فراره

ففی احد قد فرقدما و خیبراً

حنین میں ان کا فرار بھی ناقابل انکار ہے اور احد اور خیبر میں تو وہ پہلے فرار کر ہی چکے تھے_

لیکن ہم ان ابی الحدید سے کہتے ہیں کہ جس شخص کو خدا کی عظمت اور قدرت نیز خدا کے( اپنے نیک بندوں ، مجاہدوں اور دین کی حمایت کرنے والوں کو دیئےوئے) وعدوں پر گہرا یقین اور ان تمام چیزوں کی معرفت ہو اسے موت بہت پیاری ہوتی ہے _ جنگ و جہاد کے موقع پر موت کے بارے میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ارشادات اس بات کی بہترین دلیل ہیں _

ابوبکر تو احد میں بھی جنگ سے پیٹھ دکھا کر بھاگ گیا تھا _ اسکافی کہتا ہے : '' اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ موت پر بیعت کرنے والے صرف چار افراد کے علاوہ کوئی اور نہ رہا تھا _ حالانکہ ان میں ابوبکر کا کوئی ذکر نہیں ہے '''(۱)

____________________

۱)الغدیر ج ۷ ص ۲۰۶از سیرہ حلبیہ ج ۳ ص ۱۲۳_

۳۸۶

بہرحال اس بات کا ذکر غزوہ احد کی گفتگو میں کثیر منابع کے ساتھ آئے گا ، انشاء اللہ _ وہ غزوہ خندق میں بھی عمرو بن عبدود کے مقابلے میں جانے سے بھی بزدلی دکھاتے ہوئے کنی کترا گیا _ جنگ حنین میں بھی وہ بھاگ گیا تھا ، کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اس مشکل گھڑی میں حضرت علیعليه‌السلام ، عباس ، ابوسفیان بن حارث اور ابن مسعود کے سوا اور کوئی بھی نہ رہا(۱)

خلاصہ یہ کہ ابوبکر نے شرکت تو تمام جنگوں میں کی لیکن ان تمام جنگوں میں نہ صرف اس سے غلطی سے بھی ایسا کوئی فعل سرزد نہیںہواجو اس کی بہادری اور شجاعت پر دلالت کرتا( اس نے نہ تو جنگوں میں عملی حصہ لیا نہ کسی کو قتل کیا حتی کہ کسی کو زخمی تک بھی نہیں کیا )بلکہ اس سے تو ان تمام چیزوں کے بالکل برعکس افعال سرزد ہوئے اور وہ اکثر جنگوں میں اس کا فرار کرجانا ہے _ بلکہ وہ تو ہمیشہ لوگوں کو بھی بزدلی دکھانے پر اکساتا اور انہیں رن چھوڑ کر بھاگ جانے کا مشورہ دیتا رہتا تھا _ پھر اس جیسی صفات کے حامل شخص کو بہادر کیسے کہا جائے گا ؟ اگر جنگ بدر میں حصہ نہ لینے کا اس کے پاس ایک بہانہ تھا کہ مؤرخین نے اسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس جھوٹے تخت پر بٹھایا ہوا تھا جنہیں چھوڑ کر وہ کہیں نہیں جاسکتا تھا تو جنگ احد ، حنین اور خیبر و غیرہ میں تو یہ چیزیں نہیں تھیں ؟ اس وقت وہ کہاں تھا؟ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو مشرکین نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا اور وہ نور الہی کو ہمیشہ کے لئے بجھاناچاہتے تھے_ کیا اس وقت بھی ا بوبکر تخت سرداری پر بر اجمان تھے ؟ اور حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی حیثیت ( نعوذ باللہ) ایک لڑنے والے عام سپاہی کی سی تھی جو اپنے سردار ابوبکر کی جان کی حفاظت کے لئے بے جگری سے لڑرہے تھے ؟ کیونکہ ابوبکر کے قتل یا شکست سے لشکر ہی شکست کھاجاتا ؟ پھر وہ خیبر میں علم پھینک کر کہاں بھاگ گیا تھا جب ایک یہودی ''یا سر'' مسلمانوں کی صفوں کو چیرتا ہوا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک آپہنچا تھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بنفس نفیس اس سے جنگ لڑنی پڑی تھی اور اس وقت آشوب چشم کی بیماری میں مبتلا مدینہ رہ جانے والے حضرت علیعليه‌السلام (۲) کو بلوانا پڑاتھا اور انہوں نے ہی آکر مرحب کو پچھاڑ کر

____________________

۱)شرح نہج البلاغہ ابی ابن الحدید ج ۱۳ ص ۲۹۳_

۲) البتہ بعض روایتوں میں ملتا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام لشکر کے ساتھ ہی تھے لیکن آشوب چشم کی وجہ سے اپنے خیمے میں آرام کر رہے تھے اور اگر یہاں کوئی معجزہ در کار نہ ہو تو یہی روایت قرین قیاس لگتی ہے _

۳۸۷

قتل کیا تھا اور خدا نے حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قلعہ خیبر فتح کرایا تھا اور یہ واقعہ اتنا مشہور و معروف ہے کہ بچے بچے کو بھی اس کا علم ہے _ اور جنگ احد میں بھی اسی نے بھاگ کر دشمنوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا تھا _ جن میں سے کسی نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رخ انور پر پر پتھر دے مارا تھا جس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چہرہ زخمی ہوگیا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت تکلیف ہوئی تھی _ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی باتیں قابل ذکر ہیں_

بہرحال ان کے یہ کہنے کاکیا مطلب ہوسکتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے لڑنے سے منع فرمایا کرتے تھے ؟ تو کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے جنگ احد ، حنین ، خیبر اور دیگر جنگوں میں بھی لڑنے سے منع فرمایا تھا ؟ اور کیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے لڑنے سے منع کر کے خود جنگ میں کود پڑتے تھے ؟ حتی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جسم شریف زخمی بھی ہوجایا کرتا تھا؟ کیا یہ سب کچھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے سردار ابوبکر بن قحافہ کے دفاع کے لئے کیا کرتے تھے؟ بہرحال اسکافی تو کہتا ہے کہ ابوبکر نے نہ کبھی کوئی تیز پھینکا ہے نہ تلوار چلائی ہے اور نہ جنگوں میں کوئی خون بہایا ہے وہ توصرف لشکر کی سیاہی ہوا کرتا تھا _ نہ مشہور تھا نہ معروف ، نہ اس سے کسی کو کوئی کام ہوتا تھا اور نہ اسے کسی سے کوئی کام ہوتا تھا _

اسکافی کے طویل کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ ابوبکر کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تقابل ممکن ہی نہیں ہے اور نہ اسے ایسا سردار قرار دیا جاسکتا ہے جس کی ہلاکت سے لشکر کے تباہ و برباد ہونے کا خدشہ ہو کیونکہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم ہی سردار لشکر اور اس نئے دین کے بانی تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی اپنے دوست اور دشمن کی خوب پہچان رکھتے تھے اور سب دوست و دشمن صرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہی سید اور سردار جانتے اور مانتے تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی قریش اور پورے عرب کو اپنے نئے دین سے سخت غضبناک کیا ہوا تھا _ اور پھر ان کے بڑے بڑوں کو قتل کر کے انہیں گھبرا ہٹ اور پریشانی میں مبتلا کیا ہوا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی وہ شخصیت تھے جس پر اس امت بلکہ جنگجوؤں کا دار و مدار تھا _ لیکن ابوبکر کسی بھی چیز پر کسی بھی لحاظ سے اثر انداز نہیں تھا _ ابوبکر بھی عبدالرحمن بن عوف اور عثمان و غیرہ جیسے دیگر مہاجرین کی طرح تھا _ بلکہ عثمان تو اس سے زیادہ مشہور اور مالدار تھا _ پس مذکورہ جنگوں میں سے کسی بھی معرکہ میں اس کے قتل سے اسلام کبھی کمزور نہیں ہوسکتا تھا ، نہ ہی کبھی مٹ سکتا تھا _ پس اسے کیسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرح قرار دیا جاسکتا ہے ؟ جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کہیں ٹھہرنا بھی کسی مصلحت اور تدبیر اور حمایت کے تحت ہوتا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کی نگرانی کیا

۳۸۸

کرتے تھے ،حکمت عملی مرتب فرماتے تھے ، ان کا موقف اور کردار معین کرتے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحت و سلامتی صحابہ کے لئے باعث اطمینان ہوتی تھی _ اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشکر کے ہر اول دستے میںہوتے تو تما م صحابہ کا ذہن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی چال اور رستے میں مصروف ہوجاتا اور وہ یکسوئی کے ساتھ دشمن کے ساتھ نہ لڑپاتے _ اور صحابہ کے پاس ایسی کوئی اور شخصیت بھی نہیں تھی جو ان کا ملجاء و ما وی ہوتی ، ان کی قوت اور طاقت بنتی ، انہیں ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتی اور مناسب موقع پر بذات خود کسی مہم میں حصہ لیتی _

ہاں اگر ابوبکر ( نعوذ باللہ ) نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت میں شریک ہوتا اور عرب کو بھی وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح مطلوب ہوتا تو ان لوگوں کی بات صحیح ہوتی _ لیکن وہ تو اعتقاد کے لحاظ سے سب مسلمانوں سے کمزور اور عربوں کا سب سے بے ضرر شخص تھا _ اس نے کبھی لڑائی نہیں کی تھی بلکہ وہ توصرف لشکر کی سیاہی تھا_ پھر اسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خد اکے مقام و مرتبے کے برابر کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اس کے بعد اسکافی نے جنگ احد میں اس کے اپنے بیٹے عبدالرحمن کے ساتھ لڑائی کا ماجرا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا ابوبکر کو یہ کہنا کہ جنگ سے رک جاؤ اور ہمیں اپنے وجود سے نفع اٹھانے دو _ اس وجہ سے تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے کہ یہ شخص لڑنے اور بہادروں کا سامنا کرنے والانہیںہے اور اگر یہ لڑنے چلا بھی گیا تو مارا جائے گا _ پھر اسکافی نے آیت (فضل اللہ المجاہدین علی القاعدین اجرا عظیماً) اور دیگر آیتیں ذکرکیں اور مزید یہ بھی کہا کہ اگر بزدل اور کمزور لوگ جنگ میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے سرداری کے لائق بن سکتے ہیں تو حسان بن ثابت میں یہ قابلیت سب سے زیادہ پائی جاتی تھی_

حالانکہ قریشی سب سے پہلے تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو قتل کرنا چاہتے تھے اور اس کے بعد وہ حضرت علی علیہ السلام کی جان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے _ کیونکہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے زیادہ قریب، مشابہ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے سرسخت حامی اور مدافع تھے ، اور حضرت علیعليه‌السلام کا قتل آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت کمزور کر سکتا تھا اور (نعوذ باللہ ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کمر توڑکر رکھ سکتا تھا _ جبکہ جبیر بن مطعم نے اپنے غلام وحشی کو حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علیعليه‌السلام یا حمزہ کو قتل کرنے کی صورت میں آزادی کا وعدہ دیا تھا_اور اس میں بھی ابوبکر کا کوئی ذکر نہیں _ اور حضرت علی علیہ السلام کے حالات کی

۳۸۹

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حالات سے وابستگی کی وجہ سے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہر وقت حضرت علیعليه‌السلام کی جان کا خطرہ لاحق رہتا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی سلامتی اور حفاظت کی دعائیں مانگا کرتے تھے _ اسکافی کی باتوں کا خلاصہ اختتام کو پہنچا(۱) _

لیکن اسکافی نے ابوبکر کی وہ حالت ذکر نہیں کی جب اس نے سراقہ کو نیزہ سنبھالے ہوئے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تھا _ جبکہ سراقہ ایک ایسا آدمی ہے جس کی بہادری کاکوئی قصہ بھی نہیں ملتا(۲) _

ب: ابوبکر کے ذریعہ بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی حفاظت

اور یہ روایت کہ ابوبکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تلوار سونتے کھڑا تھا تا کہ اگر کوئی مشرک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ کرنا چاہے تو وہ آگے بڑھ کر پہلے اس کا کام تمام کردے _ یہ بھی مندرجہ ذیل دلائل کی روسے صحیح نہیں ہے _

۱_ ایک تو اس روایت کی اسناد ضعیف ہیں(۳) _

اس کے علاوہ ان کا یہ مشہور قول بھی اس کی نفی کرتا ہے کہ سعد بن معاذ ، انصار کے ایک گروہ کے ساتھ سائبان میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری نبھا رہا تھا اور بعض نے اس تعداد میں حضرت علیعليه‌السلام کا بھی اضافہ کیا ہے(۴) _

شاید انہوں نے حضرت علیعليه‌السلام کا اضافہ اس مذکورہ عمل کے سبب کیا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام تھوڑی تھوڑی دیر لڑکر پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خیریت دریافت کرنے آجاتے تھے _ پس جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابوبکر سائبان کے اندر تھے اور وہ انصاری سعد بن معاذ کے ساتھ اس سائبان کے باہر کھڑے پہرہ دے رہے تھے تو پھر مشرکین آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک کیسے پہنچ سکتے تھے؟ کہ اگر حملہ ہوتا تو ابوبکر پہل کر کے اس حملہ آور کا کام تمام کردیتا ؟ پھر کیا ان پہرے

____________________

۱)ملاحظہ ہو : شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۳ ص ۲۷۸ تا ص ۲۸۴_

۲)تقویہ الایمان ص ۴۲_ (۳)اس کی اسناد کو ہیثمی نے مجمع الزوائد ج۹ ص ۴۶۱ میں ضعیف قرا ر دیا ہے _

۴) البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۷۱ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۶و ص ۱۶۱_

۳۹۰

داروں کے حالات ابوبکر کے حالات سے زیادہ سخت نہیں تھے؟ کیونکہ اس کا دفاع اور اس کی حفاظت کرنے والے لوگ باہر موجود تھے اور وہ اندر اطمینان اور آرام سے بیٹھا ہوا تھا _ لیکن ان لوگوںکی حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا ؟

۲_ علامہ امینی فرماتے ہیں :'' اس پر مزید یہ کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی خطیر ذمہ داری صرف ابوبکر یا سعد بن معاذ کے ساتھ خاص نہیں تھی _ کیونکہ دوسرے لوگوں نے بھی دیگر مقامات پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا تھا _ بطور مثال : بلال ، ذکوان اور سعد بن ابی وقاص نے وادی القری میں ، ابن ابی مرثدنے جنگ حنین کی رات ، زبیر نے جنگ خندق کے دن، محمد بن مسلمہ نے جنگ احد میں ، مغیرہ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اور ابوایوب انصاری نے خیبر کے رستے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا تھا _ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ حفاظت حجة الوداع کے موقع پر اس آیت ( و اللہ یعصمک من الناس ) ترجمہ : '' اور خدا تمہیں لوگوں کے شر سے بچائے گا ''_کے نزول تک جاری رہی _ پھر اس آیت کے نزول کے بعد حفاظتی مہم ختم کردی گئی _ یہ تمام باتیں تو اس صورت میں ہیں جب ابوبکر کی حفاظت والی جعلی بات کو صحیح تسلیم کرلیا جائے''(۱) _

گذشتہ باتوں میں اگر چہ اعتراض کی گنجائشے بھی موجود ہے لیکن سمہودی '' اسطوان المحرس '' (حفاظتی ستون ) کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یحیی کہتا ہے کہ مجھے موسی بن سلمہ نے خود بتایا کہ میں نے جعفر بن عبداللہ بن حسین سے حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بن ابی طالب کے ستون کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا : '' یہ حفاظتی چوکی تھی ، جس کے روضہ اطہر کی طرف والے حصے کے سامنے حضرت علیعليه‌السلام بیٹھ کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاطت کیا کرتے تھے ''(۲) _

۳_ علامہ امینی ہی فرماتے ہیں : '' اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کے لئے ابوبکر کے تلوار سونتنے والی حدیث صحیح ہوتی تو وہ حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ و غیرہ سے زیادہ ان آیتوں کے اپنی شان میں نزول کا حق دارتھا (ہذان

____________________

۱) الغدیر ج ۷ ص ۲۰۲ نیز مذکورہ باتیں منقول از عیون الاثر ج ۲ ص ۳۱۶، المواہب اللدنیہ ج ۱ ص ۳۸۳ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۳۳۴، شرح المواہب زرقانی ج ۳ ص ۲۰۴_

۲) وفاء الوفاء ج ۱ ص ۴۴۷_

۳۹۱

خصمان اختصموا فی ربہم )اور ( من المومنین رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ ) لیکن یہ آیتیں اس کے باے میں نہیں بلکہ مذکورہ شخصیتوں کے بارے میں نازل ہوئیں _ اسی طرح وہ حضرت علیعليه‌السلام سے بھی زیادہ اس آیت کے نزول کا حق دار ہوتا( هوالذی ايّدک بنصره و بالمؤمنین ) اس کے علاوہ دیگر آیتوں کا بھی مصداق ٹھہرتا لیکن ایسا نہیں ہوا _ اسی طرح''لا سیف الا ذوالفقار و لافتی الّا علی '' کی ندا دینے والے رضوان پر ضروری ہوتا کہ وہ اپنی اس ندا میں حضرت علیعليه‌السلام کے نام کی جگہ ابوبکر کا نام لیتا اور ذوالفقار کی جگہ اس کی تلوار کا ذکر کرتا _ کیونکہ مذکورہ جعلی روایت کی روسے اس خطیر ذمہ داری کابیڑہ اس کے علاوہ کوئی اور اٹھانے کی بھی جرات نہیں کرسکا تھا اور اس شخص کے ذریعہ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور دین کی حفاظت ہوئی تھی''(۱) _

ج : ابوبکر میدان جنگ میں

ابوبکر کے سائبان میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کرنے والی بات کی مندرجہ ذیل باتیں نفی کرتی ہیں:

۱_ وہ خود کہتے ہیں کہ جنگ بدر کے موقع پر ابوبکر میمنہ ( لشکر کے دائیں حصہ ) کا سردار یا اس حصہ میں شامل تھا(۲) _

۲_ وہ خود ہی کہتے ہیں کہ اس کے بیٹے عبدالرحمن نے اپنے باپ سے کہا : '' بابا آپ نے جنگ بدر میں مجھے کئی مرتبہ نشانہ بنانا چاہا لیکن میں آپ سے چوک گیا ''(۳) _

۳_ یہ بھی وہ خود ہی کہتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں عبدالرحمن نے اپنا حریف طلب کیا تواس کا باپ اس کے مقابلے کے لئے نکلا جس پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اسے روکتے ہوئے فرمایا : '' اپنے وجود سے ہمیں فائدہ اٹھانے دو''(۴) _

____________________

۱)ملاحظہ ہو: الغدیر ج ۲ ص ۴۶ تا ص ۵۱، ج ۷ ص ۲۰۲، ص ۲۰۳تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ_

۲) المغازی واقدی ج ۱ ص ۵۸ و البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۷۵_

۳) الروض الانف ج ۳ ص ۶۴اور مستدرک حاکم ج ۳ ص ۴۷۵ اور حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۲، ص ۳۳۳از کنز ج ۵ ص ۳۷۴میں آیا ہے کہ یہ واقعہ جنگ بدر میں پیش آیا_

۴) سنن بیہقی ج ۸ ص ۱۸۶، حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۲و ص ۳۳۳از حاکم ازواقدی _

۳۹۲

البتہ اس واقعہ پر اسکافی کا حاشیہ بھی گذر چکا ہے اور مزید باتیں جنگ احد کے موقع پر بھی ہوں گی _ انشاء اللہ _

د: حضرت علیعليه‌السلام کی ناکثین اور قاسطین سے جنگ

رہا ان لوگوں کا حضرت علیعليه‌السلام کے متعلق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس پیشین گوئی کا ذکر کہ حضرت علی علیہ السلام ناکثین اور قاسطین سے جنگ کریں گے اور ابن ملجم کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمائیں گے اور اس طرح ان کے دعوے کے مطابق وہ دشمن کا سامنا کرتے وقت ایسے ہوتے تھے جیسے اپنے بستر پر سوئے ہوئے ہوں تو ان باتوں سے ابوبکر کی شجاعت اور افضلیت بھی ثابت نہیں ہوتی _ اس بارے میں ہم مندرجہ ذیل نکات کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں :

۱_ اسکافی کہتا ہے : '' آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو قاسطین اور ناکثین سے جنگ کرنے کی پیشین گوئی اس وقت کی تھی جب جنگوں کا موسم گذر چکا تھا ، لوگ دین الہی میں جوق در جوق داخل ہو رہے تھے ، جزیہ ادا کیا جارہا تھا اور سارا عرب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے جھک گیا تھا''(۱)

۲_ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو ابن ملجم کے ہاتھوں شہید ہونے کی پیشین گوئی غزوہ العشیرہ میں کی تھی _ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ابوترابعليه‌السلام کی کنیت سے نوازاتے ہوئے فرمایا تھا : '' کائنات کا بدبخت ترین شخص تمہاری ڈاڑھی کو تمہارے سر کے خون سے رنگے گا '' _ لیکن اس میں بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کی شہادت کا وقت معین نہیں فرمایا تھا _ ہوسکتا تھا ایک ما ہ بعدیہ سانحہ ہوجائے اور ہوسکتا تھا کئی سال تک بھی نہ ہو _

۳_ اس بارے میں بداء بھی واقع ہوسکتا تھا _ اور وہ اس طرح کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیشین گوئی اس لحاظ سے تھی کہ اگر کوئی رکاوٹ آڑے نہ آئی تو اس فعل کا مقتضی موجود ہے _

____________________

۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۳ص ۲۸۷_

۳۹۳

۴_ اگر ہم اس پیشین گوئی کو اس وقت مان بھی لیں تب بھی وہ اپنے بستر پر آرام سے سوئے ہوئے شخص کی طرح کیسے ہوگئے ؟ حالانکہ یہ بھی ممکن تھا بلکہ ہوا بھی ہے کہ آپعليه‌السلام جنگ احد وغیرہ میں حد سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے _ نیز یہ بھی ممکن تھا کہ آپعليه‌السلام کی کوئی ہڈی و غیر ٹوٹ جاتی یا آپعليه‌السلام کا کوئی عضو کٹ سکتا تھا _ کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مذکورہ پیشین گوئی سے ان کے لئے یہ بھی ثابت ہوگیا تھا کہ حضرت علیعليه‌السلام ان تمام چیزوں سے بھی در امان ہیں؟ کہ ان کے نزدیک آپعليه‌السلام اپنے بستر پر سوئے ہوئے شخص کی طرح قرار پائے ؟ پھر مسلمان حضرت علیعليه‌السلام کی بہادریوں کی تعریف کیوں کرتے تھے؟ نیز خیبر، احد اور بدر و غیرہ جیسے کئی مقامات پر خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے آپعليه‌السلام کی مدح سرائی کیوں کی ؟ پھر وہ اسے آپعليه‌السلام کے امتیاز فضیلت اور عظمت کی وجہ کیوں سمجھتے تھے؟ پس اگر یہ بات صحیح تھی تو پھر تو سب لوگ حتی کہ عورتیں بھی حضرت علیعليه‌السلام سے زیادہ بہادر ہوئیں(۱) _

۵_ وہ لوگ خود ہی روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زبیر کو یہ پیشین گوئی کردی تھی کہ وہ حضرت علیعليه‌السلام سے لڑے گا جبکہ وہ آپعليه‌السلام کے حق میں ظلم کر رہا ہوگا اور طلحہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی :

( ما کان لکم ان تؤذوا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله و لا ان تنکحوا ازواجه من بعده )

تمہارے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو تکلیف پہنچانا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ان کی ازواج سے شادی رچانا مناسب نہیں ہے_ اور وہ '' احجار الخلافة'' ( خلافت کے پتھروں) والی حدیث بھی خود ہی روایت کرتے ہیں جس میں ان کے دعوی کے مطابق ابوبکر آگے آگے تھے ( جبکہ یہ یقینی بات ہے کہ یہ واقعہ تمام جنگوں سے پہلے پیش آیا ہے ) _ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اصحاب کے حق میں نہایت زیادہ احادیث موجود ہیں _ اسی طرح خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بھی یہ جانتے تھے کہ یہ دین عنقریب سب پر غالب آئے گا اور کامیابی اور کامرانی کے ساتھ دوبارہ مکہ

____________________

۱)یہاں اس بات کا ذکر بھی فائدے سے خالی نہیں ہے کہ ابوبکر کو بھی اس نئے دین کی سرداری اور حکومت کی پیشین گوئی کی گئی تھی_ اور یہ پیشین گوئی حضرت علیعليه‌السلام کے متعلق پیشین گوئی سے زیادہ واضح اور حتمی تھی _ وہ اس بناپر کہ ابوبکر جب تک اس امت کا حاکم نہیں بنتا اسے کچھ نہیں ہوگا اور دوسرا یہ کہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد بھی کچھ عرصہ زندہ رہے گا تا کہ اس امت پر حکومت کرے _ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیںکہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے دور کی جنگوں میں ہی مشکل مرحلے میں جان بچا کر بھاگ جاتا ہے _ اس کی مزید تفصیل کسی اور موقع پر آئے گی _ انشاء اللہ _

۳۹۴

میں داخل ہوں گے _ اور مسلمانوں کے ہاتھ قیصر و کسری ( روم اور ایران ) کے خزانے لگیں گے _ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سی پیشین گوئیاں ہیں جن کی جستجو اور ذکر کی یہاں گنجایش نہیںہے تو کیا ان پیشین گوئیوں کی وجہ سے ان کا جہاد اکارت گیا؟ ان کی فضیلتیں ختم ہوگئیں ؟ اور بہادری بزدلی میں تبدیلی ہوگئی؟

ہ: زکات نہ دینے والوں سے جنگ

اور رہی زکات نہ دینے والوں سے ابوبکر کی جنگ، تو اس نے یہ جنگ بذات خود نہیں لڑی تھی _ بلکہ اس کی حکومت اور مقام کے تحفظ کے لئے اس کی فوج نے لڑی تھی _ کیونکہ وہ لوگ اسے خلافت کا اہل نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ یہ جانتے تھے کہ وہ ان سے ناحق زکات لے رہا ہے _ اور بعینہ یہی صورتحال ان لوگوں سے جنگ میں بھی تھی جنہیں وہ '' اہل الردہ '' ( مرتد لوگ) کہتے تھے(۱)

اور یہ بات واضح ہے کہ فیصلہ میں ہٹ دھرمی اور اڑے رہنا جنگ میں شجاعت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص یہ دیکھ رہا ہوکہ میرے فیصلے دوسرے لوگ نافذ کریں گے تو اس موقع پر کوئی بزدل شخص ایک بہادر شخص سے بھی زیادہ اپنے فیصلے پر ڈٹارہتا ہے _

و: وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وقت اس کی ثابت قدمی

اور وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وقت اس کی ثابت قدمی کے متعلق مندرجہ ذیل بیانات کافی ہیں :

۱_ علامہ امینی فرماتے ہیں : '' اگر شجاعت کا معیار کسی کی وفات پر آنسو نہ بہانا ہے تو اس صورت میں تو ابوبکر خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھی زیادہ بہادرہوجائے گا _ کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو عام لوگوں کی وفات پر بھی ان کے

____________________

۱) حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آپعليه‌السلام کے بعد حضرت علیعليه‌السلام کے علاوہ کوئی اور حاکم اور خلیفہ بنے گا _ وہ لوگ حضرت علیعليه‌السلام کو ہی حق دار سمجھتے تھے _ مدینہ والے تو اسی دن یا چند دنوں میں دباؤ یا لالچ میں آگئے تھے لیکن دوسرے شہروں کا معاملہ مختلف تھا _ حتی کہ اسامہ بھی جب تک مدینہ سے باہر رہا اس نے ان لوگوں کی بات قبول نہیں کی تھی _ اوروہ لوگ زکات و غیرہ صرف حق دار کوہی دینا چاہتے تھے اسے لئے انہیںنہیں دی تھی لیکن انہوں نے اپنی حکومت بچانے کے لئے ان پر مرتد و غیرہ کا لیبل لگا کر ان سے جنگ شروع کردی حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا _

۳۹۵

بقول ثابت قدم نہیں رہے _ اس لئے کے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عثمان بن مظعون کو بوسہ دیا ، اس کے لئے بلند آواز سے گریہ کیا اور آنسو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رخسار پر رواں تھے(۱) نیز اس لحاظ سے تو عثمان بن عفان بھی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے زیادہ بہادر ہوجائے گا کیونکہ اس کی بیوی کی موت بھی شب وفات اسے عورتوں سے ہم بستری سے نہ روک سکی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی لے پالک بیٹی کی وفات پر آنسو بہاتے رہے_(۲) _

۲_ عمر کے جنون ، عثمان کے گونگے پن اور حضرت علیعليه‌السلام کی غم و اندوہ سے بے حالی کا جو حال انہوں نے ذکر کیا ہے اگر صحیح ہوتا ا ور دحلان کے دعوے کے مطابق خلافت کے حصول سے مانع ہوتا ( کیونکہ امر امامت اورخلافت کے لئے شجاعت اور ثابت قدمی دو اہم عناصر ہیں اور مذکورہ افراد کے مذکورہ عمل کی وجہ سے ان میں یہ صفات مفقود ہوگئی تھیں)تو ان لوگوں نے بعد میں ان کی خلافت کیسے قبول کرلی ؟ حالانکہ اس وقت بھی تو امر امامت کے لئے ضروری اہم چیزوں سے وہ محروم تھے؟ جبکہ حضرت علیعليه‌السلام کے عاجز ہونے کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ وہ عاجز کیسے ہوگئے ؟ حالانکہ آنحضرت نے آپعليه‌السلام کی گود میں وفات پائی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تغسیل ، تجہیز اور تکفین کی ساری ذمہ داری نبھائی _ یہاں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات نے حضرت علیعليه‌السلام پر گہرا اثر تو چھوڑا لیکن وہ اپنی مصروفیات سے عاجز نہیں آئے لیکن دوسرے لوگو ں کو تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کا ذرا بھی صدمہ نہیں ہوا اور وہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجہیز و تکفین کے اہم کام کو نظر انداز کر کے حاکم بننے یا چننے نکل کھڑے ہوئے _

۳_ انہوں نے ابوبکر کی ثابت قدمی کا جو تذکرہ کیا ہے تو یہ ثابت قدمی (اگر اسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کا صدمہ ہوا تھا تو) صرف اس بات پردلالت کرتی ہے کہ اس نے یہ صدمہ برداشت کرلیا اور بس _ جبکہ ہم حضرت علی علیہ السلام کو دیکھتے ہیں کہ آپعليه‌السلام حقیقت میں اس صدمہ کا سامنا کر رہے ہیں _ جبکہ وہ آپ کی

____________________

۱)الغدیر ج ۷ ص ۲۱۴، از سنن بیہقی ج ۳ ص ۴۰۶، حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۱۰۵، الاستیعاب ج ۲ ص ۴۹۵، اسد الغایہ ج ۳ ص ۳۸۷، الاصابہ ج ۲ ص ۴۶۴، سنن ابوداؤد ج ۲ ص ۵۸ ، سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۸۱و بعض دیگر منابع جنہیں علامہ احمدی نے اپنی کتاب التبرک ص ۳۵۵ میں ذکر کیا ہے پس وہاں ملاحظہ فرمائیں _ (۲)الغدیر ج ۲ ص۲۱۴، ج ۳ ص ۲۴از الروض الانف ج ۳ ص ۲۴، مستدرک حاکم ج ۴ ص ۴۷، الاستیعاب ج ۲ ص ۷۸ ،اس نے اسے صحیح جانناہے و الاصابہ ج ۴ ص ۳۰۴، ص ۴۸۹_

۳۹۶

وفات سے فکرمند نہیںہوا تھا _ یہانتک کہ لوگوں کے سامنے اسے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اپنے غم کی دلیل پیش کرنا پڑی(۱)

بہرحال ابوبکر کی شجاعت اور بہادری کے اثبات میں ان کے دلائل نادرست ، ناکافی اور بے فائدہ ہیں_

____________________

۱)حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۸۴و کنزالعمال ج ۷ ص ۱۵۹ از ابن سعد _

۳۹۷

تیسرا عنوان

ذوالشمالین کا قصہ اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سہو

ہم پہلے یہ بتاچکے ہیں کہ ذوالشمالین جنگ بدر میں شہید ہوگیا تھا لیکن کچھ روایتیں اس کی نفی کرتی ہیں _ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ابوہریرہ یہ دعوی کرتا ہے میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے ساتھ ظہریا عصر کی نماز پڑھ رہا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دور کعتوں کے بعد سلام پھیر کر نماز تمام کردی جس پر بنی زہرہ کے حلیف ذوالشمالین بن عبد عمرو نے کہا : ''کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز میں تخفیف کردی ہے ( یعنی نماز قصر پڑھی ہے ) یا پھر بھول گئے ہیں ؟ '' جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' یہ دوہاتھوں والا کیا کہتا ہے ؟'' تو صحابیوں نے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ وہ سچ کہتا ہے '' _ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ناقص رہ جانے والی دو رکعتیں پوری کردیں_ اور اس روایت کے متعلق مختلف قسم کی کئی دستاویزات ہیں جن میں سے بعض میں آیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ذوالشمالین کو یہ جواب دیا : '' ایسی کوئی بات نہیں ہے''' جبکہ بعض میں آیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غضبناک حالت میں مسجد کی ایک لکڑی سے ٹیک لگایا اور کچھ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نماز میں کمی کے متعلق بتانے کے لئے جلدی سے صفوں سے باہر نکلے _ اور بعض دستاویزات میں آیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانے لگے تو پیچھے سے ابوبکر ، عمر اور ذوالشمالین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آملے(۱)

____________________

۱)صحیح بخاری باب سوم از ابواب'' ما جاء فی السہو فی الصلاة'' ، صحیح مسلم ابواب سہو ، فتح الباری ج ۳ ص ۷۷تا ص ۸۳ نیز اس کے حاشیہ پر بخاری، المصنف حافظ عبدالرزاق ج ۲ ص ۲۹۶، ص ۲۹۷، ص ۲۹۹ ، مسند احمد ج ۲ ص ۲۷۱، ص ۲۸۴، ص ۲۳۴، مؤطا مالک ج ۱ ص ۱۱۵ منقول از کنز العمال ج ۴ ص ۲۱۵ و ص ۲۱۴از عبدالرزاق و ابن ابی شیبہ ، تہذیب الاسماء و اللغات ج ۱ ص ۱۸۶، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۱ ص ۴۹۱ و ص ۴۹۲ ، الاصابہ ج۱ ص ۴۸۹ ، اسد الغابہ ج ۲ ص ۱۴۶، سنن بیہقی ج ۲ ص ۲۳۱، سنن نسائی باب '' ما یفعل من سلم من الرکعتین ناسیاً و تکلم '' و دیگر ابواب و کتب_

۳۹۸

البتہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صبح کی نماز دو رکعت کی بجائے ایک رکعت پڑھی _ جب ذوالشمالین نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کے متعلق بتایا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے صفوں میں پھراتے ہوئے لوگوں سے اس بارے میں پوچھا _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کے ساتھ مزید ایک رکعت پڑھی اور دو سجدہ سہو ادا کیا پھرسلام پھیر کر نماز تمام کی _ صحیحین ( بخاری و مسلم ) میں ہے کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہر یا عصر ادھوری پڑھی اور خرباق نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتراض کیا اور بعض صحابیوں نے بھی اس کے اعتراض کے صحیح ہونے کی گواہی دی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غضبناک حالت میں کھڑے ہوئے اور اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے اپنے حجرے (گھر) میں چلے گئے پھر دوبارہ ان کے پاس باہر آکر باقی دو رکعتیں ادا کیں اور سہو کے دو سجدے بھی ادا کئے _

جبکہ بزار کے مطابق ، جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز پڑھ لی اور اپنی کسی زوجہ کے پاس گئے تو پیچھے سے ذوالشمالین نے آکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا کہ نماز قصر ہوگئی ہے کیا؟ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں میں پھر ایااور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھو ں نے بھی آپ کو گذشتہ کی طرح جواب دیا _

البتہ اس طرح کی روایتیں شیعہ کتابوں میں بھی صحیح اسناد کے ساتھ ذکر ہوئی ہیں_جنہیں سماعہ بن مہران ، حسن بن صدقہ ، سعید اعرج،جمیل بن دراج،ابوبصیر ،زید شحام، ابو سعیدقماط، ابوبکر حضرمی اور حرث بن مغیرہ نے روایت کی ہے_لیکن ہم کہتے ہیں کہ:

۱_ روایات کے الفاظ مختلف، مضطرب اور ایک دوسرے سے ناموافق ہیں_اور روایات کے منابع کی طرف رجوع کر کے ان کے تقابل سے اچھی طرح معلوم ہوجائے گا_جس کا مطلب یہ ہے کہ سب روایتوں کا صحیح ہونا ناممکن ہے_

۲_اس طرح کی بعض حدیثوں کو ذکر کر نے کے بعد نووی کہتا ہے:''ان حدیثوں میں اس طرح کے الفاظ بہت ہیں جن میں بحالت اسلام ابو ہریرہ کی موجود گی کی تصریح کی گئی ہے_حالانکہ مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابو ہریرہ ساتویںہجری کو جنگ خیبر کے سال یعنی جنگ بدر کے سات برس بعد مسلمان ہواتھا_جبکہ زہری کے بقول ذوالشمالین جنگ بدر میں شہید ہو گیا تھا اور نماز کا اس کا مذکورہ واقعہ جنگ بدر

۳۹۹

سے پہلے کا ہے ...''(۱) _یہ بھی اضافہ کرتے چلیں کہ شعیب بن مطیر نے اپنے والد کا واقعہ سناتے ہوئے کہاہے کہ وہ ذوالیدین سے ملا اور اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز کا مذکورہ واقعہ اسے بتایا_حالانکہ مطیر بہت متاخر ہے اور اس نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ نہیں دیکھا تھا(۲) اور حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول روایت میں بتایا گیا ہے کہ ذوالیدین ہی ذوالشمالین ہے(۳) اسی طرح دیگر منابع میں بھی آیا ہے(۴)

اسی طرح بعض دیگر روایتوں میں یہ دونوںالقاب یکجا بیان ہوئے ہیں(۵) پس وہاں مراجعہ فرمائیں_پس صاحب استیعاب و غیرہ کا ابو ہریرہ کی گذشتہ روایت کے بل بوتے پر دونوں(ذوالیدین اور ذوالشمالین) کے ایک شخص ہونے والے قول کو غلط کہنا(۶) نہ صرف بے جا ہے بلکہ صحیح بات اس کے بر عکس ہے یعنی بظاہر ابو ہریرہ نے ان حدیثوں میں گڑبڑکر کے اس واقعہ میںموجود نمازیوں میں اپنی جگہ بنالی ہے_ بہرحال عمران بن حصین کی وہ روایت جس میں ذوالیدین کو خرباق کے نام سے یاد کیا گیا ہے وہ بھی ہماری مذکورہ بات کی نفی نہیں کرتی _ کیونکہ خرباق بھی ذوالشمالین کا لقب ہوسکتا ہے_ اور خرباق کی '' سُلَمی '' کے نام کے ساتھ توصیف بھی ہمارے لئے نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ سُلَیم ، ذوالیدین یا ذوالشمالین کے اجدادی سلسلے میں کسی ایک جد کا نام تھا(۷) اور اسی نسبت سے اسے سلمی کہا جاتا ہوگا_

____________________

۱)تہذیب الاسماء واللغات ج۱ص۱۸۶،نیز ملاحظہ ہو:در منثور عاملی ج۱ص۱۰۹ ،نیز ذوالشمالین کے بدر میں قتل ہونے کے بارے میں ملاحظہ ہو:طبقات ابن سعدج۳ص۱۱۹_ (۲)ملاحظہ ہو:تہذیب الاسماء ج۱حاشیہ ص۱۸۶_ (۳)الکافی کلینی ج۳ص۳۵۷،وسائل الشیعہ ج۵ص۳۱۱،ودر منثور عاملی ج۱ص۱۰۹و۱۱۰_

۴)ملاحظہ ہو:طبقات ابن سعد ج۳حصہ۱ص۱۱۸و التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۳۸۵_

۵)وہ روایتیںمسند احمد،کنز العمال از عبد الرزاق و ابن ابی شیبہ،المصنف عبد الرزاق ج۲ص۲۹۶،ص۲۷۱،ص۲۷۴،ص۲۹۷،ص۲۹۹کی ہیں_نیز ملاحظہ ہو:ارشاد الساری ج۳ص۲۶۷،جوہری نے دونوں ناموں کے ایک شخص کے ہونے کے متعلق استیعاب میں ''ذوالیدین''کی تعریف میں گفتگو کی ہے_اسی طرح طبری،شرح مؤطا مالک سیوطی نیز تہذیب الاسماء و اللغات ج۱ص۱۸۶،وغیرہ میںبھی یہ بات بیان ہوئی ہے_

۶) الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج۱ص۴۹۱،اسدالغابہ ج۲ ص۱۴۲وص۱۴۵وص۱۴۶ ، التراتیب الاداریہ ج۲ص۳۸۵،از شروحات بخاری_

۷) ملاحظہ ہو : طبقات ابن سعد ج ۳ حصہ ۱ ص ۱۱۸ ، الاصابہ ج ۱ ص ۴۸۹ و اسد الغابہ ج ۲ ص ۱۴۱ و ص ۱۴۵_

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460