الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242117 / ڈاؤنلوڈ: 6990
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

اہل بیتعليه‌السلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قربت حاصل کر سکوں اور ان تمام منافقوں سے بھی بیزاری کا اظہار کرسکوں جو بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہن کر ( کم از کم طہارت کرتے وقت ) اپنی شرمگاہوں سے اسے مس (ٹچ) کرتے ہیں جن پر خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نامی نامی لکھا ہوتا تھا_

۲۸_ وہ خود ہی کہتے ہیں کہ سنت اصل میں قبروں کو برابر کرنا ہے لیکن چونکہ یہ عمل رافضیوں کی پہچان بن چکا ہے اس لئے اب سنت یہ ہے کہ قبروں کو کوہان نمابنایاجائے(۱) _

۲۹_ زرقانی کہتاہے کہ بعض علما عمامے کا شملہ ( تحت الحنک) آگے سے بائیں جانب سے لٹکاتے تھے_ اور میں نے دائیں جانب سے شملہ لٹکانے کی کوئی حدیث نہیں دیکھی _ صرف ایک ضعیف حدیث ہے اور وہ بھی طبرانی سے _ لیکن چونکہ یہ شیعہ امامیہ کی پہچان بن چکاہے اس لئے ان سے مشابہت سے بچنے کے لئے بائیں جانب سے تحت الحنک لٹکانے کو ترک کردینا چاہئے(۲) _

۳۰_ زمخشری نے اہل بیتعليه‌السلام پر علیحدہ سے درود اور سلام بھیجنے کو مکروہ جانا ہے _ کیونکہ اس سے رافضی ہونے کی تہمت لگ سکتی ہے(۳) _

۳۱ _ عسقلانی کہتاہے: '' تمام علماء کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ زندہ لوگوں کو سلام کرنا صحیح ہے لیکن انبیاء کے علاوہ دیگر وفات پاجانے والے افراد کے متعلق علماء کا آپس میں اختلاف ہے _ بعض کہتے ہیں کہ ہر صورت میں جائز ہے جبکہ بعض کہتے ہیں کہ انبیاء پر درود اور سلام کے ذیل میں صحیح ہے علیحدہ نہیں _ لیکن ہر مردہ پر علیحدہ علیحدہ درود نہیں بھیجا جائے گا _ کیونکہ یہ رافضیوں کی علامت بن چکی ہے(۴)

۳۲_ اور حسن ختام کے طور پر ہم یہ کہتے چلیں کہ راغب کہتاہے: '' اگر کہیں صرف لفظ ''امیرالمؤمنین ''

____________________

۱)رحمة الامة باختلاف الائمة ( مطبوعہ بر حاشیہ المیزان شعرانی) ج۱ص ۸۸ ، المغنی ابن قدامہ ج ۲ ص ۵۰۵ ، مقتل الحسین مقرم حاشیہ ص ۴۶۴ از مذکورہ دونوں کتب و از المہذب ابواسحاق شیرازی ج۱ ص۱۳۷ ، الو جیزغزالی ج ۱ ص ۴۷ ، المنہاج نووی ص ۲۵ ، شرح تحفہ المحتاج ابن حجر ج ۱ ص ۵۶۰ ، عمدة القاری ج ۴ ص ۲۴۸ والفروع ابن مفلح ج۱ ص ۴۸۱_

۲)مقتل الحسین مقرم حاشیہ ص ۲۶۵ ۴ز شرح مواہب ج ۵ ص ۱۳_ (۳)الکشاف ج ۳ ص ۵۵۸_ (۴)فتح الباری ج۱۱ ص ۱۴۶_

۳۸۱

اکیلا بولا جائے تو اس سے مراد امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام ہیں ''(۱)

اس موضوع سے متعلق ہمارے ذہن میں ابھی صرف یہی چند باتیں موجود تھیں _ البتہ ہم محترم قارئین سے اس توفیق کے خواہاں ہیں کہ وہ مزید صفات حسنہ کو خود تلاش کریں گے اور اپنائیں گے_

____________________

۱)محاضرات الادباء ج ۳ ص ۳۴۱_

۳۸۲

۴۰۱

دوسرا عنوان

جناب ابوبکر کی شجاعت اور سائبان میں ان کی موجودگی_

مورخین اہل سنت کہتے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام نے سب سے بہادر ترین شخص کے بارے میںلوگوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا : '' آپعليه‌السلام ہیں '' لیکن آپعليه‌السلام نے اس کی نفی کی _ اور خود ہی اقرار کرتے ہوئے فرمایا: ''جنگ بدر کے موقع پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ایک سائبان بنانے کے بعد یہ پوچھا گیا کہ اس سائبان میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کون رہے گا تا کہ مشرکین آپ پر حملہ نہ کرسکیں اور حملہ کی صورت میں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بچاؤ کرسکے؟_ خدا کی قسم اس خطیر ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہم میں سے صرف ابوبکر ہی آگے بڑھا_ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سر پر تلوار لہرا رہا تھا تا کہ اگر کوئی مشرک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ کرنے کی کوشش کر ے بھی تو وہ اس پر حملہ میںپہل کردے _ اس لئے وہی سب سے زیادہ بہادر شخص ہے ''(۱)

حلبی شافعی کہتا ہے :'' اس روایت سے شیعوں اور رافضیوں کی یہ بات بھی رد ہوجاتی ہے کہ خلافت کے مستحق صرف حضرت علی علیہ السلام ہی ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ بہادر شخصیت ہیں '' پھر حلبی اور دحلان نے ابوبکر کے سب سے زیادہ شجاع ہونے پر یہ دلیل پیش کی ہے کہ '' نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ پیشین گوئی کردی تھی کہ وہ ابن ملجم ملعون کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمائیں گے پس وہ جب بھی جنگ

____________________

۱)تاریخ الخلفاء سیوطی ص ۳۶و ص ۳۷، مجمع الزوائد ج ۹ص ۴۷البتہ اس نے کہا ہے کہ اس کی سند میں چند ایسے راوی ہیں جنہیں میں نہیں جانتا ، البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۷۱، ص ۲۷۲از بزار ، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۲۶۱از گذشتہ دونوں منابع، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۶، الفتح المبین دحلان ( بر حاشیہ سیرہ نبویہ) ج ۱ ص ۱۲۲ ، از الریاض النضرہ ج ۱ ص ۹۲_

۳۸۳

میں شرکت کرتے اور کسی دشمن کا سامنا ہوتا تو انہیں یہ پتا ہوتا تھا کہ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا _ اس کے سامنے وہ اس طرح تھے جیسے اس کے ساتھ ایک بستر پر لیٹے ہوں _ لیکن ابوبکر کو اس کے قاتل کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کی گئی تھی _ اس لئے جنگ میں حصہ لیتے ہوئے وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ پہلے مارے گا یا ماراجائے گا _ اس حالت میں جتنی تکلیفیں وہ برداشت کرسکتے تھے کوئی اور نہیںکر سکتا تھا _

اور عمر کے منع کرنے کے باوجود بھی زکات نہ دینے والوں سے اس کی جنگ بھی ابوبکر کی شجاعت اور بہادری پر دلالت کرتی ہے _ اور جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات حسرت آیت ہوئی تو تمام لوگوں کی عقلیں زائل ہوگئیں اور حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی شدت غم سے بیٹھ سے گئے ، عثمان کی زبان بھی بندہوگئی اور وہ بولنے سے رہے لیکن اس سخت موقع پر بھی ابوبکر ثابت قدم رہا _ لیکن جنگوں میں وہ حضرت علیعليه‌السلام کی طرح اس لئے مشہور نہیں ہوا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے بہادروں سے لڑنے سے منع کردیا تھا''(۱) _

دحلان کہتا ہے :'' امامت اور رہبری سنبھالنے کے لئے شجاعت اور ثابت قدمی دو لازمی عنصر ہیں _ خاص کر جب مرتدوں و غیرہ سے جنگ کے لئے ان چیزوں کی اشد ضرورت ہو ''(۲) _

وہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں :'' جنگ بدر کے موقع پر ابوبکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہوا تھا _ اس لئے اس کا مرتبہ رئیسوں اور سرداروں والا تھا _ اور سردار کی شکست سے لشکر بھی شکست کھا جاتا ہے جبکہ حضرت علی علیہ السلام کا مرتبہ ایک سپاہی کا ساتھا اور سپاہی کے قتل سے کوئی لشکر کبھی شکست نہیں کھاتا''(۳) ان لوگوں کے پاس یہی وہ سارے دلائل ہیں جن کو انہوں نے جناب ابوبکر کے دیگر تمام صحابہ حتی کہ حضرت علیعليه‌السلام سے بھی زیادہ بہادر اور شجاع ہونے پر پیش کیا ہے_

____________________

۱)گذشتہ تما م باتوں کے لئے ملاحظہ ہو الفتح المبین دحلان ( بر حاشیہ سیرہ نبویہ) ج ۱ ص ۱۲۳تا ص ۱۲۵، سیرہ حلبی ج ۲ ص ۱۵۶و از تفسیر قرطبی ج ۴ ص ۲۲۲_

۲)الفتح المبین دحلان ( بر حاشیہ سیرہ نبویہ )ج ۱ ص ۱۲۴تا ص ۱۲۶_

۳)تاریخ بغداد خطیب ج ۸ ص ۲۱، المنتظم ابن جوزی ج ۶ ص ۳۲۷ و العثمانیہ جا حظ ص ۱۰_

۳۸۴

مذکورہ باتیں نادرست ہیں

ہمیں یقین سے کہ مذکورہ باتیں یا تو نادرست ہیں یا پھر بلا دلیل ہیں _ سائبان کی بات ہی سرے سے غلط ہونے کے دلائل تو پہلے ذکر ہوچکے ہیں _ بقیہ باتوں کے غلط ہونے کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :

الف : کئی مقامات پر ابوبکر کا فرار

دحلان نے یہ تو اقرار کرلیا کہ امر امامت کے لئے شجاعت اور ثابت قدمی نہایت لازمی عناصر ہیں _ لیکن ہمیں ابوبکر کئی مقامات پر بھاگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں _ جنگ خیبر ، حنین اور احد میں اس کا فرار بہت مشہور و معروف ہے _ ان جنگوں کی گفتگو کے دوران اس کے منابع بھی بیان ہوں گے _ اور ابوبکر کی خلافت کے معترف ابن ابی الحدید نے جنگ خیبر(۱) _ میں ابوبکر اور عمر کے فرار کے متعلق کہا ہے:

و ما انس لا انس الذین تقدما

و فرهما و الفر قد علما حوب

و للرایة العظمی و قد ذهبا بها

ملابس ذل فوقها و جلابیب

میں ان دونوں آگے بڑھ جانے والوں کے جنگ سے فرار کو کبھی نہیں بھلا سکتا _ حالانکہ وہ یہ جانتے بھی تھے کہ جنگ سے فرار ایک بہت بڑا گناہ ہے_ وہ دشمن کے پاس لشکر اسلام کا عظیم جھنڈا لے کر گئے لیکن اسے وہیں گر ا کر اپنے ساتھ ذلت اور خواری کی چادریں لے آلئے_

____________________

۱) غزوہ احد میں ان کے فرار کی بات کثیر منابع کے ساتھ اس کتاب کی چوتھی جلد میں آئے گی ، غزوہ حنین میں ان کے فرار کی بات بھی اس غزوہ کی بحث میں آئے گی اور غزوہ خیبر میں ان کے فرار کی بات کثیر منابع کے ساتھ عنقریب آئے گی _ اس روایت کو بزار نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے اسی طرح اس روایت کو طبرانی ، ایجی ، بیضاوی اور ابن عساکر نے بھی بیان کیا ہے _ اس لئے ملاحظہ ہو : مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۲۴، المواقف (جیسا کہ اس کی شرح میں آیا ہے ) ج ۳ ص ۲۷۶ اور اس کے شارحین نے بھی اس کے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے ، المطالع ص ۴۸۳ از بیضاوی در طوالع الانوار ، زندگانی حضرت علیعليه‌السلام بن ابی طالب از تاریخ ابن عساکر با تحقیق محمودی ج ۱ ص ۸۲ و الغدیر ج ۷ ص ۲۰۴، مزید منابع کا ذکر آگے نے گا انشاء اللہ _

۳۸۵

پھر یہ بھی کہا:

احضرهما ام حضر اخرج خاضب

وذان هما ام ناعم الخذ مخضوب

عذرتکما ان الحمام لمبغض

و ان بقاء النفس للنفس مطلوب

لیکره طعم الموت و الموت طالب

فکیف یلذ الموت و الموت مطلوب

بھاگتے وقت وہ ایسے دوڑے جیسے باغ میں چرنے والا شتر مرغ ڈر کے مارے لمبے لمبے ڈگ بھر تا ہوا بھاگتا ہے_ اور اپنے پیچھے بھی نہیں دیکھتا_ کیا یہ دونوں جنگجو ہیں یا آرام و آسائشے میں پلنے والے اور نرم گالوں والے ہیں جنہوں نے ہاتھوں پر مہندی لگائی ہوئی ہو (دوسرے لفظوں میں ہاتھوں میں چوڑیاں پہنی ہوئی ہوں) _ جس صورت میں موت ہمارے پیچھے لگی ہوتی ہے وہ کتنی ناپسندیدہ لگتی ہے تو اس وقت ان کی کیا صورتحال ہوگی جب وہ مرنے چلے ہوں؟ نیز یہ شعر بھی کہا:

و لیس بنکر فی حنین فراره

ففی احد قد فرقدما و خیبراً

حنین میں ان کا فرار بھی ناقابل انکار ہے اور احد اور خیبر میں تو وہ پہلے فرار کر ہی چکے تھے_

لیکن ہم ان ابی الحدید سے کہتے ہیں کہ جس شخص کو خدا کی عظمت اور قدرت نیز خدا کے( اپنے نیک بندوں ، مجاہدوں اور دین کی حمایت کرنے والوں کو دیئےوئے) وعدوں پر گہرا یقین اور ان تمام چیزوں کی معرفت ہو اسے موت بہت پیاری ہوتی ہے _ جنگ و جہاد کے موقع پر موت کے بارے میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ارشادات اس بات کی بہترین دلیل ہیں _

ابوبکر تو احد میں بھی جنگ سے پیٹھ دکھا کر بھاگ گیا تھا _ اسکافی کہتا ہے : '' اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ موت پر بیعت کرنے والے صرف چار افراد کے علاوہ کوئی اور نہ رہا تھا _ حالانکہ ان میں ابوبکر کا کوئی ذکر نہیں ہے '''(۱)

____________________

۱)الغدیر ج ۷ ص ۲۰۶از سیرہ حلبیہ ج ۳ ص ۱۲۳_

۳۸۶

بہرحال اس بات کا ذکر غزوہ احد کی گفتگو میں کثیر منابع کے ساتھ آئے گا ، انشاء اللہ _ وہ غزوہ خندق میں بھی عمرو بن عبدود کے مقابلے میں جانے سے بھی بزدلی دکھاتے ہوئے کنی کترا گیا _ جنگ حنین میں بھی وہ بھاگ گیا تھا ، کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اس مشکل گھڑی میں حضرت علیعليه‌السلام ، عباس ، ابوسفیان بن حارث اور ابن مسعود کے سوا اور کوئی بھی نہ رہا(۱)

خلاصہ یہ کہ ابوبکر نے شرکت تو تمام جنگوں میں کی لیکن ان تمام جنگوں میں نہ صرف اس سے غلطی سے بھی ایسا کوئی فعل سرزد نہیںہواجو اس کی بہادری اور شجاعت پر دلالت کرتا( اس نے نہ تو جنگوں میں عملی حصہ لیا نہ کسی کو قتل کیا حتی کہ کسی کو زخمی تک بھی نہیں کیا )بلکہ اس سے تو ان تمام چیزوں کے بالکل برعکس افعال سرزد ہوئے اور وہ اکثر جنگوں میں اس کا فرار کرجانا ہے _ بلکہ وہ تو ہمیشہ لوگوں کو بھی بزدلی دکھانے پر اکساتا اور انہیں رن چھوڑ کر بھاگ جانے کا مشورہ دیتا رہتا تھا _ پھر اس جیسی صفات کے حامل شخص کو بہادر کیسے کہا جائے گا ؟ اگر جنگ بدر میں حصہ نہ لینے کا اس کے پاس ایک بہانہ تھا کہ مؤرخین نے اسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس جھوٹے تخت پر بٹھایا ہوا تھا جنہیں چھوڑ کر وہ کہیں نہیں جاسکتا تھا تو جنگ احد ، حنین اور خیبر و غیرہ میں تو یہ چیزیں نہیں تھیں ؟ اس وقت وہ کہاں تھا؟ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو مشرکین نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا اور وہ نور الہی کو ہمیشہ کے لئے بجھاناچاہتے تھے_ کیا اس وقت بھی ا بوبکر تخت سرداری پر بر اجمان تھے ؟ اور حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی حیثیت ( نعوذ باللہ) ایک لڑنے والے عام سپاہی کی سی تھی جو اپنے سردار ابوبکر کی جان کی حفاظت کے لئے بے جگری سے لڑرہے تھے ؟ کیونکہ ابوبکر کے قتل یا شکست سے لشکر ہی شکست کھاجاتا ؟ پھر وہ خیبر میں علم پھینک کر کہاں بھاگ گیا تھا جب ایک یہودی ''یا سر'' مسلمانوں کی صفوں کو چیرتا ہوا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک آپہنچا تھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بنفس نفیس اس سے جنگ لڑنی پڑی تھی اور اس وقت آشوب چشم کی بیماری میں مبتلا مدینہ رہ جانے والے حضرت علیعليه‌السلام (۲) کو بلوانا پڑاتھا اور انہوں نے ہی آکر مرحب کو پچھاڑ کر

____________________

۱)شرح نہج البلاغہ ابی ابن الحدید ج ۱۳ ص ۲۹۳_

۲) البتہ بعض روایتوں میں ملتا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام لشکر کے ساتھ ہی تھے لیکن آشوب چشم کی وجہ سے اپنے خیمے میں آرام کر رہے تھے اور اگر یہاں کوئی معجزہ در کار نہ ہو تو یہی روایت قرین قیاس لگتی ہے _

۳۸۷

قتل کیا تھا اور خدا نے حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قلعہ خیبر فتح کرایا تھا اور یہ واقعہ اتنا مشہور و معروف ہے کہ بچے بچے کو بھی اس کا علم ہے _ اور جنگ احد میں بھی اسی نے بھاگ کر دشمنوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا تھا _ جن میں سے کسی نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رخ انور پر پر پتھر دے مارا تھا جس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چہرہ زخمی ہوگیا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت تکلیف ہوئی تھی _ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی باتیں قابل ذکر ہیں_

بہرحال ان کے یہ کہنے کاکیا مطلب ہوسکتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے لڑنے سے منع فرمایا کرتے تھے ؟ تو کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے جنگ احد ، حنین ، خیبر اور دیگر جنگوں میں بھی لڑنے سے منع فرمایا تھا ؟ اور کیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے لڑنے سے منع کر کے خود جنگ میں کود پڑتے تھے ؟ حتی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جسم شریف زخمی بھی ہوجایا کرتا تھا؟ کیا یہ سب کچھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے سردار ابوبکر بن قحافہ کے دفاع کے لئے کیا کرتے تھے؟ بہرحال اسکافی تو کہتا ہے کہ ابوبکر نے نہ کبھی کوئی تیز پھینکا ہے نہ تلوار چلائی ہے اور نہ جنگوں میں کوئی خون بہایا ہے وہ توصرف لشکر کی سیاہی ہوا کرتا تھا _ نہ مشہور تھا نہ معروف ، نہ اس سے کسی کو کوئی کام ہوتا تھا اور نہ اسے کسی سے کوئی کام ہوتا تھا _

اسکافی کے طویل کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ ابوبکر کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تقابل ممکن ہی نہیں ہے اور نہ اسے ایسا سردار قرار دیا جاسکتا ہے جس کی ہلاکت سے لشکر کے تباہ و برباد ہونے کا خدشہ ہو کیونکہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم ہی سردار لشکر اور اس نئے دین کے بانی تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی اپنے دوست اور دشمن کی خوب پہچان رکھتے تھے اور سب دوست و دشمن صرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہی سید اور سردار جانتے اور مانتے تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی قریش اور پورے عرب کو اپنے نئے دین سے سخت غضبناک کیا ہوا تھا _ اور پھر ان کے بڑے بڑوں کو قتل کر کے انہیں گھبرا ہٹ اور پریشانی میں مبتلا کیا ہوا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی وہ شخصیت تھے جس پر اس امت بلکہ جنگجوؤں کا دار و مدار تھا _ لیکن ابوبکر کسی بھی چیز پر کسی بھی لحاظ سے اثر انداز نہیں تھا _ ابوبکر بھی عبدالرحمن بن عوف اور عثمان و غیرہ جیسے دیگر مہاجرین کی طرح تھا _ بلکہ عثمان تو اس سے زیادہ مشہور اور مالدار تھا _ پس مذکورہ جنگوں میں سے کسی بھی معرکہ میں اس کے قتل سے اسلام کبھی کمزور نہیں ہوسکتا تھا ، نہ ہی کبھی مٹ سکتا تھا _ پس اسے کیسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرح قرار دیا جاسکتا ہے ؟ جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کہیں ٹھہرنا بھی کسی مصلحت اور تدبیر اور حمایت کے تحت ہوتا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کی نگرانی کیا

۳۸۸

کرتے تھے ،حکمت عملی مرتب فرماتے تھے ، ان کا موقف اور کردار معین کرتے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحت و سلامتی صحابہ کے لئے باعث اطمینان ہوتی تھی _ اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشکر کے ہر اول دستے میںہوتے تو تما م صحابہ کا ذہن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی چال اور رستے میں مصروف ہوجاتا اور وہ یکسوئی کے ساتھ دشمن کے ساتھ نہ لڑپاتے _ اور صحابہ کے پاس ایسی کوئی اور شخصیت بھی نہیں تھی جو ان کا ملجاء و ما وی ہوتی ، ان کی قوت اور طاقت بنتی ، انہیں ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتی اور مناسب موقع پر بذات خود کسی مہم میں حصہ لیتی _

ہاں اگر ابوبکر ( نعوذ باللہ ) نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت میں شریک ہوتا اور عرب کو بھی وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح مطلوب ہوتا تو ان لوگوں کی بات صحیح ہوتی _ لیکن وہ تو اعتقاد کے لحاظ سے سب مسلمانوں سے کمزور اور عربوں کا سب سے بے ضرر شخص تھا _ اس نے کبھی لڑائی نہیں کی تھی بلکہ وہ توصرف لشکر کی سیاہی تھا_ پھر اسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خد اکے مقام و مرتبے کے برابر کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اس کے بعد اسکافی نے جنگ احد میں اس کے اپنے بیٹے عبدالرحمن کے ساتھ لڑائی کا ماجرا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا ابوبکر کو یہ کہنا کہ جنگ سے رک جاؤ اور ہمیں اپنے وجود سے نفع اٹھانے دو _ اس وجہ سے تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے کہ یہ شخص لڑنے اور بہادروں کا سامنا کرنے والانہیںہے اور اگر یہ لڑنے چلا بھی گیا تو مارا جائے گا _ پھر اسکافی نے آیت (فضل اللہ المجاہدین علی القاعدین اجرا عظیماً) اور دیگر آیتیں ذکرکیں اور مزید یہ بھی کہا کہ اگر بزدل اور کمزور لوگ جنگ میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے سرداری کے لائق بن سکتے ہیں تو حسان بن ثابت میں یہ قابلیت سب سے زیادہ پائی جاتی تھی_

حالانکہ قریشی سب سے پہلے تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو قتل کرنا چاہتے تھے اور اس کے بعد وہ حضرت علی علیہ السلام کی جان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے _ کیونکہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے زیادہ قریب، مشابہ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے سرسخت حامی اور مدافع تھے ، اور حضرت علیعليه‌السلام کا قتل آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت کمزور کر سکتا تھا اور (نعوذ باللہ ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کمر توڑکر رکھ سکتا تھا _ جبکہ جبیر بن مطعم نے اپنے غلام وحشی کو حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علیعليه‌السلام یا حمزہ کو قتل کرنے کی صورت میں آزادی کا وعدہ دیا تھا_اور اس میں بھی ابوبکر کا کوئی ذکر نہیں _ اور حضرت علی علیہ السلام کے حالات کی

۳۸۹

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حالات سے وابستگی کی وجہ سے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہر وقت حضرت علیعليه‌السلام کی جان کا خطرہ لاحق رہتا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی سلامتی اور حفاظت کی دعائیں مانگا کرتے تھے _ اسکافی کی باتوں کا خلاصہ اختتام کو پہنچا(۱) _

لیکن اسکافی نے ابوبکر کی وہ حالت ذکر نہیں کی جب اس نے سراقہ کو نیزہ سنبھالے ہوئے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تھا _ جبکہ سراقہ ایک ایسا آدمی ہے جس کی بہادری کاکوئی قصہ بھی نہیں ملتا(۲) _

ب: ابوبکر کے ذریعہ بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی حفاظت

اور یہ روایت کہ ابوبکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تلوار سونتے کھڑا تھا تا کہ اگر کوئی مشرک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ کرنا چاہے تو وہ آگے بڑھ کر پہلے اس کا کام تمام کردے _ یہ بھی مندرجہ ذیل دلائل کی روسے صحیح نہیں ہے _

۱_ ایک تو اس روایت کی اسناد ضعیف ہیں(۳) _

اس کے علاوہ ان کا یہ مشہور قول بھی اس کی نفی کرتا ہے کہ سعد بن معاذ ، انصار کے ایک گروہ کے ساتھ سائبان میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری نبھا رہا تھا اور بعض نے اس تعداد میں حضرت علیعليه‌السلام کا بھی اضافہ کیا ہے(۴) _

شاید انہوں نے حضرت علیعليه‌السلام کا اضافہ اس مذکورہ عمل کے سبب کیا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام تھوڑی تھوڑی دیر لڑکر پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خیریت دریافت کرنے آجاتے تھے _ پس جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابوبکر سائبان کے اندر تھے اور وہ انصاری سعد بن معاذ کے ساتھ اس سائبان کے باہر کھڑے پہرہ دے رہے تھے تو پھر مشرکین آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک کیسے پہنچ سکتے تھے؟ کہ اگر حملہ ہوتا تو ابوبکر پہل کر کے اس حملہ آور کا کام تمام کردیتا ؟ پھر کیا ان پہرے

____________________

۱)ملاحظہ ہو : شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۳ ص ۲۷۸ تا ص ۲۸۴_

۲)تقویہ الایمان ص ۴۲_ (۳)اس کی اسناد کو ہیثمی نے مجمع الزوائد ج۹ ص ۴۶۱ میں ضعیف قرا ر دیا ہے _

۴) البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۷۱ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۶و ص ۱۶۱_

۳۹۰

داروں کے حالات ابوبکر کے حالات سے زیادہ سخت نہیں تھے؟ کیونکہ اس کا دفاع اور اس کی حفاظت کرنے والے لوگ باہر موجود تھے اور وہ اندر اطمینان اور آرام سے بیٹھا ہوا تھا _ لیکن ان لوگوںکی حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا ؟

۲_ علامہ امینی فرماتے ہیں :'' اس پر مزید یہ کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی خطیر ذمہ داری صرف ابوبکر یا سعد بن معاذ کے ساتھ خاص نہیں تھی _ کیونکہ دوسرے لوگوں نے بھی دیگر مقامات پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا تھا _ بطور مثال : بلال ، ذکوان اور سعد بن ابی وقاص نے وادی القری میں ، ابن ابی مرثدنے جنگ حنین کی رات ، زبیر نے جنگ خندق کے دن، محمد بن مسلمہ نے جنگ احد میں ، مغیرہ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اور ابوایوب انصاری نے خیبر کے رستے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا تھا _ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ حفاظت حجة الوداع کے موقع پر اس آیت ( و اللہ یعصمک من الناس ) ترجمہ : '' اور خدا تمہیں لوگوں کے شر سے بچائے گا ''_کے نزول تک جاری رہی _ پھر اس آیت کے نزول کے بعد حفاظتی مہم ختم کردی گئی _ یہ تمام باتیں تو اس صورت میں ہیں جب ابوبکر کی حفاظت والی جعلی بات کو صحیح تسلیم کرلیا جائے''(۱) _

گذشتہ باتوں میں اگر چہ اعتراض کی گنجائشے بھی موجود ہے لیکن سمہودی '' اسطوان المحرس '' (حفاظتی ستون ) کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یحیی کہتا ہے کہ مجھے موسی بن سلمہ نے خود بتایا کہ میں نے جعفر بن عبداللہ بن حسین سے حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بن ابی طالب کے ستون کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا : '' یہ حفاظتی چوکی تھی ، جس کے روضہ اطہر کی طرف والے حصے کے سامنے حضرت علیعليه‌السلام بیٹھ کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاطت کیا کرتے تھے ''(۲) _

۳_ علامہ امینی ہی فرماتے ہیں : '' اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کے لئے ابوبکر کے تلوار سونتنے والی حدیث صحیح ہوتی تو وہ حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ و غیرہ سے زیادہ ان آیتوں کے اپنی شان میں نزول کا حق دارتھا (ہذان

____________________

۱) الغدیر ج ۷ ص ۲۰۲ نیز مذکورہ باتیں منقول از عیون الاثر ج ۲ ص ۳۱۶، المواہب اللدنیہ ج ۱ ص ۳۸۳ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۳۳۴، شرح المواہب زرقانی ج ۳ ص ۲۰۴_

۲) وفاء الوفاء ج ۱ ص ۴۴۷_

۳۹۱

خصمان اختصموا فی ربہم )اور ( من المومنین رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ ) لیکن یہ آیتیں اس کے باے میں نہیں بلکہ مذکورہ شخصیتوں کے بارے میں نازل ہوئیں _ اسی طرح وہ حضرت علیعليه‌السلام سے بھی زیادہ اس آیت کے نزول کا حق دار ہوتا( هوالذی ايّدک بنصره و بالمؤمنین ) اس کے علاوہ دیگر آیتوں کا بھی مصداق ٹھہرتا لیکن ایسا نہیں ہوا _ اسی طرح''لا سیف الا ذوالفقار و لافتی الّا علی '' کی ندا دینے والے رضوان پر ضروری ہوتا کہ وہ اپنی اس ندا میں حضرت علیعليه‌السلام کے نام کی جگہ ابوبکر کا نام لیتا اور ذوالفقار کی جگہ اس کی تلوار کا ذکر کرتا _ کیونکہ مذکورہ جعلی روایت کی روسے اس خطیر ذمہ داری کابیڑہ اس کے علاوہ کوئی اور اٹھانے کی بھی جرات نہیں کرسکا تھا اور اس شخص کے ذریعہ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور دین کی حفاظت ہوئی تھی''(۱) _

ج : ابوبکر میدان جنگ میں

ابوبکر کے سائبان میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کرنے والی بات کی مندرجہ ذیل باتیں نفی کرتی ہیں:

۱_ وہ خود کہتے ہیں کہ جنگ بدر کے موقع پر ابوبکر میمنہ ( لشکر کے دائیں حصہ ) کا سردار یا اس حصہ میں شامل تھا(۲) _

۲_ وہ خود ہی کہتے ہیں کہ اس کے بیٹے عبدالرحمن نے اپنے باپ سے کہا : '' بابا آپ نے جنگ بدر میں مجھے کئی مرتبہ نشانہ بنانا چاہا لیکن میں آپ سے چوک گیا ''(۳) _

۳_ یہ بھی وہ خود ہی کہتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں عبدالرحمن نے اپنا حریف طلب کیا تواس کا باپ اس کے مقابلے کے لئے نکلا جس پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اسے روکتے ہوئے فرمایا : '' اپنے وجود سے ہمیں فائدہ اٹھانے دو''(۴) _

____________________

۱)ملاحظہ ہو: الغدیر ج ۲ ص ۴۶ تا ص ۵۱، ج ۷ ص ۲۰۲، ص ۲۰۳تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ_

۲) المغازی واقدی ج ۱ ص ۵۸ و البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۷۵_

۳) الروض الانف ج ۳ ص ۶۴اور مستدرک حاکم ج ۳ ص ۴۷۵ اور حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۲، ص ۳۳۳از کنز ج ۵ ص ۳۷۴میں آیا ہے کہ یہ واقعہ جنگ بدر میں پیش آیا_

۴) سنن بیہقی ج ۸ ص ۱۸۶، حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۲و ص ۳۳۳از حاکم ازواقدی _

۳۹۲

البتہ اس واقعہ پر اسکافی کا حاشیہ بھی گذر چکا ہے اور مزید باتیں جنگ احد کے موقع پر بھی ہوں گی _ انشاء اللہ _

د: حضرت علیعليه‌السلام کی ناکثین اور قاسطین سے جنگ

رہا ان لوگوں کا حضرت علیعليه‌السلام کے متعلق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس پیشین گوئی کا ذکر کہ حضرت علی علیہ السلام ناکثین اور قاسطین سے جنگ کریں گے اور ابن ملجم کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمائیں گے اور اس طرح ان کے دعوے کے مطابق وہ دشمن کا سامنا کرتے وقت ایسے ہوتے تھے جیسے اپنے بستر پر سوئے ہوئے ہوں تو ان باتوں سے ابوبکر کی شجاعت اور افضلیت بھی ثابت نہیں ہوتی _ اس بارے میں ہم مندرجہ ذیل نکات کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں :

۱_ اسکافی کہتا ہے : '' آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو قاسطین اور ناکثین سے جنگ کرنے کی پیشین گوئی اس وقت کی تھی جب جنگوں کا موسم گذر چکا تھا ، لوگ دین الہی میں جوق در جوق داخل ہو رہے تھے ، جزیہ ادا کیا جارہا تھا اور سارا عرب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے جھک گیا تھا''(۱)

۲_ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو ابن ملجم کے ہاتھوں شہید ہونے کی پیشین گوئی غزوہ العشیرہ میں کی تھی _ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ابوترابعليه‌السلام کی کنیت سے نوازاتے ہوئے فرمایا تھا : '' کائنات کا بدبخت ترین شخص تمہاری ڈاڑھی کو تمہارے سر کے خون سے رنگے گا '' _ لیکن اس میں بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کی شہادت کا وقت معین نہیں فرمایا تھا _ ہوسکتا تھا ایک ما ہ بعدیہ سانحہ ہوجائے اور ہوسکتا تھا کئی سال تک بھی نہ ہو _

۳_ اس بارے میں بداء بھی واقع ہوسکتا تھا _ اور وہ اس طرح کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیشین گوئی اس لحاظ سے تھی کہ اگر کوئی رکاوٹ آڑے نہ آئی تو اس فعل کا مقتضی موجود ہے _

____________________

۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۳ص ۲۸۷_

۳۹۳

۴_ اگر ہم اس پیشین گوئی کو اس وقت مان بھی لیں تب بھی وہ اپنے بستر پر آرام سے سوئے ہوئے شخص کی طرح کیسے ہوگئے ؟ حالانکہ یہ بھی ممکن تھا بلکہ ہوا بھی ہے کہ آپعليه‌السلام جنگ احد وغیرہ میں حد سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے _ نیز یہ بھی ممکن تھا کہ آپعليه‌السلام کی کوئی ہڈی و غیر ٹوٹ جاتی یا آپعليه‌السلام کا کوئی عضو کٹ سکتا تھا _ کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مذکورہ پیشین گوئی سے ان کے لئے یہ بھی ثابت ہوگیا تھا کہ حضرت علیعليه‌السلام ان تمام چیزوں سے بھی در امان ہیں؟ کہ ان کے نزدیک آپعليه‌السلام اپنے بستر پر سوئے ہوئے شخص کی طرح قرار پائے ؟ پھر مسلمان حضرت علیعليه‌السلام کی بہادریوں کی تعریف کیوں کرتے تھے؟ نیز خیبر، احد اور بدر و غیرہ جیسے کئی مقامات پر خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے آپعليه‌السلام کی مدح سرائی کیوں کی ؟ پھر وہ اسے آپعليه‌السلام کے امتیاز فضیلت اور عظمت کی وجہ کیوں سمجھتے تھے؟ پس اگر یہ بات صحیح تھی تو پھر تو سب لوگ حتی کہ عورتیں بھی حضرت علیعليه‌السلام سے زیادہ بہادر ہوئیں(۱) _

۵_ وہ لوگ خود ہی روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زبیر کو یہ پیشین گوئی کردی تھی کہ وہ حضرت علیعليه‌السلام سے لڑے گا جبکہ وہ آپعليه‌السلام کے حق میں ظلم کر رہا ہوگا اور طلحہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی :

( ما کان لکم ان تؤذوا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله و لا ان تنکحوا ازواجه من بعده )

تمہارے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو تکلیف پہنچانا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ان کی ازواج سے شادی رچانا مناسب نہیں ہے_ اور وہ '' احجار الخلافة'' ( خلافت کے پتھروں) والی حدیث بھی خود ہی روایت کرتے ہیں جس میں ان کے دعوی کے مطابق ابوبکر آگے آگے تھے ( جبکہ یہ یقینی بات ہے کہ یہ واقعہ تمام جنگوں سے پہلے پیش آیا ہے ) _ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اصحاب کے حق میں نہایت زیادہ احادیث موجود ہیں _ اسی طرح خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بھی یہ جانتے تھے کہ یہ دین عنقریب سب پر غالب آئے گا اور کامیابی اور کامرانی کے ساتھ دوبارہ مکہ

____________________

۱)یہاں اس بات کا ذکر بھی فائدے سے خالی نہیں ہے کہ ابوبکر کو بھی اس نئے دین کی سرداری اور حکومت کی پیشین گوئی کی گئی تھی_ اور یہ پیشین گوئی حضرت علیعليه‌السلام کے متعلق پیشین گوئی سے زیادہ واضح اور حتمی تھی _ وہ اس بناپر کہ ابوبکر جب تک اس امت کا حاکم نہیں بنتا اسے کچھ نہیں ہوگا اور دوسرا یہ کہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد بھی کچھ عرصہ زندہ رہے گا تا کہ اس امت پر حکومت کرے _ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیںکہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے دور کی جنگوں میں ہی مشکل مرحلے میں جان بچا کر بھاگ جاتا ہے _ اس کی مزید تفصیل کسی اور موقع پر آئے گی _ انشاء اللہ _

۳۹۴

میں داخل ہوں گے _ اور مسلمانوں کے ہاتھ قیصر و کسری ( روم اور ایران ) کے خزانے لگیں گے _ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سی پیشین گوئیاں ہیں جن کی جستجو اور ذکر کی یہاں گنجایش نہیںہے تو کیا ان پیشین گوئیوں کی وجہ سے ان کا جہاد اکارت گیا؟ ان کی فضیلتیں ختم ہوگئیں ؟ اور بہادری بزدلی میں تبدیلی ہوگئی؟

ہ: زکات نہ دینے والوں سے جنگ

اور رہی زکات نہ دینے والوں سے ابوبکر کی جنگ، تو اس نے یہ جنگ بذات خود نہیں لڑی تھی _ بلکہ اس کی حکومت اور مقام کے تحفظ کے لئے اس کی فوج نے لڑی تھی _ کیونکہ وہ لوگ اسے خلافت کا اہل نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ یہ جانتے تھے کہ وہ ان سے ناحق زکات لے رہا ہے _ اور بعینہ یہی صورتحال ان لوگوں سے جنگ میں بھی تھی جنہیں وہ '' اہل الردہ '' ( مرتد لوگ) کہتے تھے(۱)

اور یہ بات واضح ہے کہ فیصلہ میں ہٹ دھرمی اور اڑے رہنا جنگ میں شجاعت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص یہ دیکھ رہا ہوکہ میرے فیصلے دوسرے لوگ نافذ کریں گے تو اس موقع پر کوئی بزدل شخص ایک بہادر شخص سے بھی زیادہ اپنے فیصلے پر ڈٹارہتا ہے _

و: وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وقت اس کی ثابت قدمی

اور وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وقت اس کی ثابت قدمی کے متعلق مندرجہ ذیل بیانات کافی ہیں :

۱_ علامہ امینی فرماتے ہیں : '' اگر شجاعت کا معیار کسی کی وفات پر آنسو نہ بہانا ہے تو اس صورت میں تو ابوبکر خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھی زیادہ بہادرہوجائے گا _ کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو عام لوگوں کی وفات پر بھی ان کے

____________________

۱) حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آپعليه‌السلام کے بعد حضرت علیعليه‌السلام کے علاوہ کوئی اور حاکم اور خلیفہ بنے گا _ وہ لوگ حضرت علیعليه‌السلام کو ہی حق دار سمجھتے تھے _ مدینہ والے تو اسی دن یا چند دنوں میں دباؤ یا لالچ میں آگئے تھے لیکن دوسرے شہروں کا معاملہ مختلف تھا _ حتی کہ اسامہ بھی جب تک مدینہ سے باہر رہا اس نے ان لوگوں کی بات قبول نہیں کی تھی _ اوروہ لوگ زکات و غیرہ صرف حق دار کوہی دینا چاہتے تھے اسے لئے انہیںنہیں دی تھی لیکن انہوں نے اپنی حکومت بچانے کے لئے ان پر مرتد و غیرہ کا لیبل لگا کر ان سے جنگ شروع کردی حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا _

۳۹۵

بقول ثابت قدم نہیں رہے _ اس لئے کے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عثمان بن مظعون کو بوسہ دیا ، اس کے لئے بلند آواز سے گریہ کیا اور آنسو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رخسار پر رواں تھے(۱) نیز اس لحاظ سے تو عثمان بن عفان بھی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے زیادہ بہادر ہوجائے گا کیونکہ اس کی بیوی کی موت بھی شب وفات اسے عورتوں سے ہم بستری سے نہ روک سکی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی لے پالک بیٹی کی وفات پر آنسو بہاتے رہے_(۲) _

۲_ عمر کے جنون ، عثمان کے گونگے پن اور حضرت علیعليه‌السلام کی غم و اندوہ سے بے حالی کا جو حال انہوں نے ذکر کیا ہے اگر صحیح ہوتا ا ور دحلان کے دعوے کے مطابق خلافت کے حصول سے مانع ہوتا ( کیونکہ امر امامت اورخلافت کے لئے شجاعت اور ثابت قدمی دو اہم عناصر ہیں اور مذکورہ افراد کے مذکورہ عمل کی وجہ سے ان میں یہ صفات مفقود ہوگئی تھیں)تو ان لوگوں نے بعد میں ان کی خلافت کیسے قبول کرلی ؟ حالانکہ اس وقت بھی تو امر امامت کے لئے ضروری اہم چیزوں سے وہ محروم تھے؟ جبکہ حضرت علیعليه‌السلام کے عاجز ہونے کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ وہ عاجز کیسے ہوگئے ؟ حالانکہ آنحضرت نے آپعليه‌السلام کی گود میں وفات پائی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تغسیل ، تجہیز اور تکفین کی ساری ذمہ داری نبھائی _ یہاں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات نے حضرت علیعليه‌السلام پر گہرا اثر تو چھوڑا لیکن وہ اپنی مصروفیات سے عاجز نہیں آئے لیکن دوسرے لوگو ں کو تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کا ذرا بھی صدمہ نہیں ہوا اور وہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تجہیز و تکفین کے اہم کام کو نظر انداز کر کے حاکم بننے یا چننے نکل کھڑے ہوئے _

۳_ انہوں نے ابوبکر کی ثابت قدمی کا جو تذکرہ کیا ہے تو یہ ثابت قدمی (اگر اسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کا صدمہ ہوا تھا تو) صرف اس بات پردلالت کرتی ہے کہ اس نے یہ صدمہ برداشت کرلیا اور بس _ جبکہ ہم حضرت علی علیہ السلام کو دیکھتے ہیں کہ آپعليه‌السلام حقیقت میں اس صدمہ کا سامنا کر رہے ہیں _ جبکہ وہ آپ کی

____________________

۱)الغدیر ج ۷ ص ۲۱۴، از سنن بیہقی ج ۳ ص ۴۰۶، حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۱۰۵، الاستیعاب ج ۲ ص ۴۹۵، اسد الغایہ ج ۳ ص ۳۸۷، الاصابہ ج ۲ ص ۴۶۴، سنن ابوداؤد ج ۲ ص ۵۸ ، سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۸۱و بعض دیگر منابع جنہیں علامہ احمدی نے اپنی کتاب التبرک ص ۳۵۵ میں ذکر کیا ہے پس وہاں ملاحظہ فرمائیں _ (۲)الغدیر ج ۲ ص۲۱۴، ج ۳ ص ۲۴از الروض الانف ج ۳ ص ۲۴، مستدرک حاکم ج ۴ ص ۴۷، الاستیعاب ج ۲ ص ۷۸ ،اس نے اسے صحیح جانناہے و الاصابہ ج ۴ ص ۳۰۴، ص ۴۸۹_

۳۹۶

وفات سے فکرمند نہیںہوا تھا _ یہانتک کہ لوگوں کے سامنے اسے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اپنے غم کی دلیل پیش کرنا پڑی(۱)

بہرحال ابوبکر کی شجاعت اور بہادری کے اثبات میں ان کے دلائل نادرست ، ناکافی اور بے فائدہ ہیں_

____________________

۱)حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۸۴و کنزالعمال ج ۷ ص ۱۵۹ از ابن سعد _

۳۹۷

تیسرا عنوان

ذوالشمالین کا قصہ اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سہو

ہم پہلے یہ بتاچکے ہیں کہ ذوالشمالین جنگ بدر میں شہید ہوگیا تھا لیکن کچھ روایتیں اس کی نفی کرتی ہیں _ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ابوہریرہ یہ دعوی کرتا ہے میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے ساتھ ظہریا عصر کی نماز پڑھ رہا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دور کعتوں کے بعد سلام پھیر کر نماز تمام کردی جس پر بنی زہرہ کے حلیف ذوالشمالین بن عبد عمرو نے کہا : ''کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز میں تخفیف کردی ہے ( یعنی نماز قصر پڑھی ہے ) یا پھر بھول گئے ہیں ؟ '' جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' یہ دوہاتھوں والا کیا کہتا ہے ؟'' تو صحابیوں نے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ وہ سچ کہتا ہے '' _ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ناقص رہ جانے والی دو رکعتیں پوری کردیں_ اور اس روایت کے متعلق مختلف قسم کی کئی دستاویزات ہیں جن میں سے بعض میں آیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ذوالشمالین کو یہ جواب دیا : '' ایسی کوئی بات نہیں ہے''' جبکہ بعض میں آیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غضبناک حالت میں مسجد کی ایک لکڑی سے ٹیک لگایا اور کچھ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نماز میں کمی کے متعلق بتانے کے لئے جلدی سے صفوں سے باہر نکلے _ اور بعض دستاویزات میں آیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانے لگے تو پیچھے سے ابوبکر ، عمر اور ذوالشمالین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آملے(۱)

____________________

۱)صحیح بخاری باب سوم از ابواب'' ما جاء فی السہو فی الصلاة'' ، صحیح مسلم ابواب سہو ، فتح الباری ج ۳ ص ۷۷تا ص ۸۳ نیز اس کے حاشیہ پر بخاری، المصنف حافظ عبدالرزاق ج ۲ ص ۲۹۶، ص ۲۹۷، ص ۲۹۹ ، مسند احمد ج ۲ ص ۲۷۱، ص ۲۸۴، ص ۲۳۴، مؤطا مالک ج ۱ ص ۱۱۵ منقول از کنز العمال ج ۴ ص ۲۱۵ و ص ۲۱۴از عبدالرزاق و ابن ابی شیبہ ، تہذیب الاسماء و اللغات ج ۱ ص ۱۸۶، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۱ ص ۴۹۱ و ص ۴۹۲ ، الاصابہ ج۱ ص ۴۸۹ ، اسد الغابہ ج ۲ ص ۱۴۶، سنن بیہقی ج ۲ ص ۲۳۱، سنن نسائی باب '' ما یفعل من سلم من الرکعتین ناسیاً و تکلم '' و دیگر ابواب و کتب_

۳۹۸

البتہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صبح کی نماز دو رکعت کی بجائے ایک رکعت پڑھی _ جب ذوالشمالین نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کے متعلق بتایا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے صفوں میں پھراتے ہوئے لوگوں سے اس بارے میں پوچھا _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کے ساتھ مزید ایک رکعت پڑھی اور دو سجدہ سہو ادا کیا پھرسلام پھیر کر نماز تمام کی _ صحیحین ( بخاری و مسلم ) میں ہے کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہر یا عصر ادھوری پڑھی اور خرباق نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتراض کیا اور بعض صحابیوں نے بھی اس کے اعتراض کے صحیح ہونے کی گواہی دی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غضبناک حالت میں کھڑے ہوئے اور اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے اپنے حجرے (گھر) میں چلے گئے پھر دوبارہ ان کے پاس باہر آکر باقی دو رکعتیں ادا کیں اور سہو کے دو سجدے بھی ادا کئے _

جبکہ بزار کے مطابق ، جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز پڑھ لی اور اپنی کسی زوجہ کے پاس گئے تو پیچھے سے ذوالشمالین نے آکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا کہ نماز قصر ہوگئی ہے کیا؟ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں میں پھر ایااور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھو ں نے بھی آپ کو گذشتہ کی طرح جواب دیا _

البتہ اس طرح کی روایتیں شیعہ کتابوں میں بھی صحیح اسناد کے ساتھ ذکر ہوئی ہیں_جنہیں سماعہ بن مہران ، حسن بن صدقہ ، سعید اعرج،جمیل بن دراج،ابوبصیر ،زید شحام، ابو سعیدقماط، ابوبکر حضرمی اور حرث بن مغیرہ نے روایت کی ہے_لیکن ہم کہتے ہیں کہ:

۱_ روایات کے الفاظ مختلف، مضطرب اور ایک دوسرے سے ناموافق ہیں_اور روایات کے منابع کی طرف رجوع کر کے ان کے تقابل سے اچھی طرح معلوم ہوجائے گا_جس کا مطلب یہ ہے کہ سب روایتوں کا صحیح ہونا ناممکن ہے_

۲_اس طرح کی بعض حدیثوں کو ذکر کر نے کے بعد نووی کہتا ہے:''ان حدیثوں میں اس طرح کے الفاظ بہت ہیں جن میں بحالت اسلام ابو ہریرہ کی موجود گی کی تصریح کی گئی ہے_حالانکہ مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابو ہریرہ ساتویںہجری کو جنگ خیبر کے سال یعنی جنگ بدر کے سات برس بعد مسلمان ہواتھا_جبکہ زہری کے بقول ذوالشمالین جنگ بدر میں شہید ہو گیا تھا اور نماز کا اس کا مذکورہ واقعہ جنگ بدر

۳۹۹

سے پہلے کا ہے ...''(۱) _یہ بھی اضافہ کرتے چلیں کہ شعیب بن مطیر نے اپنے والد کا واقعہ سناتے ہوئے کہاہے کہ وہ ذوالیدین سے ملا اور اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز کا مذکورہ واقعہ اسے بتایا_حالانکہ مطیر بہت متاخر ہے اور اس نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ نہیں دیکھا تھا(۲) اور حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول روایت میں بتایا گیا ہے کہ ذوالیدین ہی ذوالشمالین ہے(۳) اسی طرح دیگر منابع میں بھی آیا ہے(۴)

اسی طرح بعض دیگر روایتوں میں یہ دونوںالقاب یکجا بیان ہوئے ہیں(۵) پس وہاں مراجعہ فرمائیں_پس صاحب استیعاب و غیرہ کا ابو ہریرہ کی گذشتہ روایت کے بل بوتے پر دونوں(ذوالیدین اور ذوالشمالین) کے ایک شخص ہونے والے قول کو غلط کہنا(۶) نہ صرف بے جا ہے بلکہ صحیح بات اس کے بر عکس ہے یعنی بظاہر ابو ہریرہ نے ان حدیثوں میں گڑبڑکر کے اس واقعہ میںموجود نمازیوں میں اپنی جگہ بنالی ہے_ بہرحال عمران بن حصین کی وہ روایت جس میں ذوالیدین کو خرباق کے نام سے یاد کیا گیا ہے وہ بھی ہماری مذکورہ بات کی نفی نہیں کرتی _ کیونکہ خرباق بھی ذوالشمالین کا لقب ہوسکتا ہے_ اور خرباق کی '' سُلَمی '' کے نام کے ساتھ توصیف بھی ہمارے لئے نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ سُلَیم ، ذوالیدین یا ذوالشمالین کے اجدادی سلسلے میں کسی ایک جد کا نام تھا(۷) اور اسی نسبت سے اسے سلمی کہا جاتا ہوگا_

____________________

۱)تہذیب الاسماء واللغات ج۱ص۱۸۶،نیز ملاحظہ ہو:در منثور عاملی ج۱ص۱۰۹ ،نیز ذوالشمالین کے بدر میں قتل ہونے کے بارے میں ملاحظہ ہو:طبقات ابن سعدج۳ص۱۱۹_ (۲)ملاحظہ ہو:تہذیب الاسماء ج۱حاشیہ ص۱۸۶_ (۳)الکافی کلینی ج۳ص۳۵۷،وسائل الشیعہ ج۵ص۳۱۱،ودر منثور عاملی ج۱ص۱۰۹و۱۱۰_

۴)ملاحظہ ہو:طبقات ابن سعد ج۳حصہ۱ص۱۱۸و التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۳۸۵_

۵)وہ روایتیںمسند احمد،کنز العمال از عبد الرزاق و ابن ابی شیبہ،المصنف عبد الرزاق ج۲ص۲۹۶،ص۲۷۱،ص۲۷۴،ص۲۹۷،ص۲۹۹کی ہیں_نیز ملاحظہ ہو:ارشاد الساری ج۳ص۲۶۷،جوہری نے دونوں ناموں کے ایک شخص کے ہونے کے متعلق استیعاب میں ''ذوالیدین''کی تعریف میں گفتگو کی ہے_اسی طرح طبری،شرح مؤطا مالک سیوطی نیز تہذیب الاسماء و اللغات ج۱ص۱۸۶،وغیرہ میںبھی یہ بات بیان ہوئی ہے_

۶) الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج۱ص۴۹۱،اسدالغابہ ج۲ ص۱۴۲وص۱۴۵وص۱۴۶ ، التراتیب الاداریہ ج۲ص۳۸۵،از شروحات بخاری_

۷) ملاحظہ ہو : طبقات ابن سعد ج ۳ حصہ ۱ ص ۱۱۸ ، الاصابہ ج ۱ ص ۴۸۹ و اسد الغابہ ج ۲ ص ۱۴۱ و ص ۱۴۵_

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460