الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 202464
ڈاؤنلوڈ: 4154

تبصرے:

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202464 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اور ابن قتیبہ نے بھی اس کے ایک ہی شخصیت ہونے کی تصریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض اوقات یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اس کا نام خرباق تھا _ اور قاموس میں بھی '' ذوالیدین خرباق '' آیا ہے(۱) _

۳_ ہمارے پاس موجود رواتیں بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے ایسے افعال اور اعمال کا تذکرہ کرتی ہیں جن کی وجہ سے نماز کی شکل و صورت ہی محو ہوجاتی ہے _ اور یہ یقینی بات ہے کہ نماز کی صورت کا ختم ہونا اس کے باطل ہونے کا باعث ہے _ خاص کر جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( بعض روایتوں کے مطابق) قبلہ سے رخ پھیر کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوں _ کیونکہ قبلہ کی طرف پیٹھ کرنا چاہے بھول کرہی کیا جائے نماز کو باطل کرنے کا باعث ہے _ لیکن کلینی کی روایت میں یہ وضاحت موجود ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی جگہ پر بیٹھے رہے تھے _(۲) یہ سب تو اس صورت میں ہے جب ہم کہیں کہ نماز کی خاطر کی ہوئی کوئی بات نماز کو باطل نہیں کرتی_

۴_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ کیسے کہہ دیا کہ ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے ؟ کیونکہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے لئے کسی بھول چوک کو ممکن قرار دیتے تھے تو بہتر تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یوں فرماتے :'' میرے خیال میں یہ بات نہیں ہے '' _ مگر یہ کہا جائے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا نظریہ بیان کیا ہوگا _ کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یقین تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی بھول چوک نہیں ہوئی _ اور ذوالیدین کی بات بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں کسی قسم کا شک و شبہہ پیدا نہ کرسکی بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے مؤقف پرڈٹے رہے لیکن جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ذوالیدین کا اصرار دیکھا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل میں شک پیدا ہوا _

۵_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غضبناک ہوکر اپنی عبا گھسیٹ گھسیٹ کر کیوں چل دیئےکیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ذوالیدین کی باتوں پر غصہ آگیا تھا؟ اگر یہ غصہ اس بات پر تھا کہ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حقیقت سے آگاہ کیا تھا؟ تو یہ بات کسی بھی لحاظ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شایان شان نہیں ہے _ اور اگر یہ غصہ اس وجہ سے تھا کہ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر الزام لگایا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جھٹلانے پر ایکا کرلیا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایسی بات منسوب کی تھی جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شایان شان نہیں تھی _ تو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پلٹ کر ان کے ساتھ نماز مکمل کیوں کی تھی ؟ اور سہو کے دو سجدے کیوں کئے تھے؟

____________________

۱)ملاحظہ ہو: التراتیب الاداریہ ج ۲ ص ۳۸۵_

۲) الکافی ج ۳ ص ۳۵۶_

۴۰۱

۶_ یہ نہیں معلوم کہ وہ نماز کیسے صحیح ہوسکتی ہے جس کے درمیان میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٹھ کر حجرے میں چلے گئے تھے پھر واپس آکر نماز مکمل کی تھی _ اور بھی اسی طرح کی دیگر باتیں ہیں جو قابل ملاحظہ ہیں_

شیعوں کے نزدیک سہو کی روایات

بہر حال اہل بیتعليه‌السلام سے بھی اس بارے میں روایتیں ذکر ہوئی ہیں جن میں سے پانچ سند کے لحاظ سے معتبر احادیث بھی ہیں لیکن کسی میں بھی کوئی ایسی بات نظر نہیںآتی جس کی رو سے ان پر مذکورہ اعتراضات ہوسکیں_ تستری نے اس موضوع پر ایک الگ مقالہ لکھا ہے جو قاموس الرجال کی گیا رہویں جلد کے آخر میں چھپا ہے _ شائقین وہاں مراجعہ فرمائیں _ لیکن شیخ نے التہذیب میں زرارہ کی ایک روایت بیان کی ہے _وہ کہتا ہے :'' میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھی کبھی سجدہ سہو کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں انہیں کوئی فقیہ بھی ادا نہیں کرتا '' _ پھر چند ایک ایسی حدیثیں بھی بیان کی ہیں جن میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سہو کی باتیں بیان ہوئی تھیں پھر کہا :'' لیکن میں اس روایت کے مطابق فتوی دیتا ہوں کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سہو کو بیان کرنے والی حدیثیں عامہ اہل سنت کے نظریہ کے مطابق ہیں ''(۱)

اس نے روایتوں پر یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ یہ روایتیں خبر واحد ہیں جنہیں ناصبیوں اور سادہ لوح شیعوں نے روایت کیا ہے _ اس لئے نظریاتی لحاظ سے ان پر اعتبار کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں یہ گمان کی پیروی کے مترادف ہوجائے گا(۲) _

یہ ماجرا کس لئے ؟

ممکن ہے بعض ا فراد سہو النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ توجیہ کریں کہ خدا نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی عظمت اور شان کے باوجود مندرجہ ذیل مصلحتوں کے پیش نظر سہو اور نسیان میں مبتلا کردیا تھا کہ :

____________________

۱)الدار المنثور عاملی ج ۱ ص ۱۰۷ _

۲)الدار المنثور عاملی ج ۱ ص ۱۱۳_

۴۰۲

۱_ لوگ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متعلق غلّو کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا نہ سمجھ بیٹھیں یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بعض ایسی صفات ثابت نہ کر بیٹھیں جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ہیں ہی نہیں_

۲_ خدا مسلمانوں کو علم فقہ سمجھانا چاہتا تھا _ جس طرح یہ بات حسن بن صدقہ کی اس روایت میں موجود ہے جسے کلینی نے ذکر کیا ہے _(۱)

اور خدا انہیں یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان ہی کی طرح کے ایک انسان ہیں _ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایسی کوئی بھی توصیف جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو انسانیت سے خارج کردے وہ بے جا اور ناقابل قبول ہے _

۳_ خدا نے ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو امّت پر رحمت کے نزول کے لئے نسیان اور سہو میں مبتلا کردیا _ کیونکہ پہلے جو شخص بھول جاتا تھا تو کیا آپ لوگوں نے مشاہدہ کیا کہ اسے لعنت ملامت کی جاتی او رکہا جاتا کہ تمہاری نماز قبول نہیں ہوئی؟ لیکن اگر آج کوئی شخص نماز میں کوئی چیز بھول جاتا ہے تو کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بھی بھول گئے تھے _اوریوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ عمل سب کے لئے اسوہ بن گیا(۲) _

اس طرح کی باتیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفر میں نماز صبح کے وقت سوتے رہنے کے متعلق ( روایت کے صحیح ہونے کی صورت میں ) بھی ہوئی ہیں _لیکن ہماری نظر میں یہ سب نادرست ہیں _ اسے آئندہ ثابت کریں گے _ انشاء اللہ

ان توجیہات کے نقائص

لیکن یہ توجیہات ناکافی اور نادرست ہیں _ کیونکہ بھولنے پر کسی کی لعنت ملامت اس وقت صحیح ہے جب اس کی بھولنے کی عادت ہی نہ ہو _ جبکہ انسانوں کی عادت ہی بھولنا ہے _ اور جو شخص دوسروں کی طرح بھولتا ہو وہ دوسروں کو لعنت ملامت کیسے کرسکتا ہے ؟

____________________

۱) الکافی ج ۳ ص ۳۵۶_

۲) الکافی ج ۳ ص ۳۵۷_

۴۰۳

اور رہی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے بارے میں غلّو کی بات تو غلّو کا شائبہ دور کرنے کے اور بھی طریقے ہوسکتے تھے جن سے کوئی اور مشکل بھی پیش نہ آتی _ اسی طرح سہو اور نسیان کے احکام بھی دوسرے بہت سے احکام کی مانند بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کو اس میں مبتلا کئے بغیر بتائے جاسکتے تھے _

اس کے علاوہ اس سہو میں ایک بہت بڑا مفسدہ ( عیب) بھی پایا جاتا ہے اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام تعلیمات اور ارشادات پر عدم اطمینان ہے _

ایک اعتراض اور اس کا جواب

اس آخری اعتراض کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کا ہر قول ، فعل اور تقریر(۱) حجت اور قابل عمل ہے _ اور سہو کا واقعہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے افعال و اقوال کی حجیت کے مسلمانوں کے متفقہ فیصلے کے منافی ہے _ اور یہ چیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتماد اور اطمینان کے اٹھ جانے کا باعث بنتی ہے نیز لوگوں کا عدم اطمینان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت اور رسالت کی حکمت کے بھی منافی ہے(۲) _

البتہ اس اعتراض کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ یہ سہو اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول و فعل کی حجیت کے منافی ہوتا جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی اس بھول پر باقی رہتے اور لوگ اس سے ایک غلط حکم اخذ کرلیتے لیکن جب خدا نے فوراً ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یاد دلایا بلکہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کا حکم بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور لوگوں کے لئے واضح کردیا تو اس میں عقلی اور شرعی لحاظ سے کوئی مانع نہیں ہے(۳) _

خلاصہ یہ کہ خدا کا کسی مصلحت کے پیش نظر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سہو میں مبتلا کرنا ان کے اس مقولے سے متصادم ہے کہ اس نسیان کا مطلب کسی نامعلوم چیز کے حوالے ہونا ہے _ (یعنی نسیان کا مطلب نامعلوم چیز کا ارتکاب

____________________

۱)تقریر کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے کوئی بات کرے یا کوئی کام کرے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے سے روکنے ٹوکنے میںبھی کوئی مانع نہ ہو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس شخص کی تائید کریں یا کم از کم نہ ٹوکیںتووہ بات یا فعل بھی قابل عمل اور جائز ہوجائے گا _

۲)ملاحظہ ہو : دلائل الصدق ج ۱ ص ۳۸۴ تا ص ۳۸۶_

۳)ملاحظہ ہو : فتح الباری ج ۳ ص ۸۱_

۴۰۴

ہے دوسرے لفظوں میں بھولنا ہے _ جبکہ اگر مصلحت مقصود تھی تو اس کا مطلب ہے بھول چوک نہیں تھی) _

اور بھول پر باقی نہ رہنے کا جو دعوی کیا گیا ہے وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان اور کرامت کی حفاظت اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرامین پر اطمینان کیلئے نا کافی ہے ( کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھولے تو پھر بھی ہیں _ خدا نے اس مسئلے کو جلدی یاد دلادیا _ اور وہ بھی کسی اور شخص کے ذریعہ دیگر معاملات میں کیا ضمانت ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں بھولیں گے ؟ اور اگر نعوذ باللہ بھول بھی گئے تو خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فوراً یاد دلادے گا ؟ اگر جلدی بھی یاد دلادی ، اس سے کوئی نیا حکم اخذ نہیں ہوگا ؟ اور پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حافظے پر کتنا اعتبار رہ جائے گا؟ اور ...) اسی طرح یہ سہو اور بھول لوگوں کی نظر میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قداست پر بھی برا اثر ڈالتی ہے اور یہ بات نہایت ہی واضح ہے _

اسی مناسبت سے یہاں سہو ، نسیان اور خطا سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت اور پھر گناہوں سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت اور ان کے جبری یا اختیاری ہونے پر بحث میں کوئی مضائقہ نہیں ہے _پس گفتگو دو حصوں میںہوگی_ پہلا حصہ سہو ، نسیان اور خطا سے عصمت سے بحث سے متعلق ہے اوردوسرا حصہ گناہوں سے عصمت سے متعلق ہے _

سہو ، خطا اور نسیان سے بچنا اپنے اختیارمیں ہے

بظاہر بھول چوک اور خطاؤں سے بچنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے _ اور نماز میں پیش آنے والے واقعہ کو اگر صحیح تسلیم کرلیاجائے تو یہی کہا جائے گا کہ یہ خدا کی طرف سے کسی مصلحت کے پیش نظر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سہو میں مبتلا کرنا تھاوگرنہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود نہیں بھولے تھے_ اس بات کا اثبات مندرجہ ذیل نکات کے بیان میں پوشیدہ ہے _

۱_ کوئی شخص اگر اپنے آپ کو نہ بھولنے ، حفظ کرنے اور دقت کرنے کی مشق کرائے تو وہ یاد رکھنے اور نہ بھولنے پر زیادہ قادر ہوجائے گا _اور اس شخص کی خطا کی نسبت اس دوسرے شخص سے بالکل کم ہوگی جسے کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی کہ اسے کوئی چیز بھول جائے یا یاد رہ جائے ، کسی چیز کا اضافہ ہو یا پھر حافظہ میں کمی ہو _ پس اگر وہ اس کام پر خصوصی توجہ دے گا تو اس میں نسیان اور خطا کا احتمال بھی کم ہوجائے گا _ اور جتنا جتنا اس

۴۰۵

کام کو وہ اہمیت دے گا اتنا اتنا اس کے خطا اور نسیان کا احتمال بھی کم ہوتا جائے گا _ اور یہ چیز محسوس اور تجربے سے معلوم کی جاسکتی ہے _ اور عام انسان کی بہ نسبت یہ بات صادق ہے _ اور کسی کے ادراکات ، ذہنی اور فکری قوتیں جتنی زیادہ اور طاقتور ہوں گی اسے اپنے حافظے اور دماغ پر زیادہ قابو ہوگا اور خطا، نسیان اور سہو کا احتمال اتنا ہی کم ہوگا _ جس طرح دودھ پلانے والی ماں کے لئے اپنے دودھ پیتے بچے سے غفلت عام طور پر ناممکن ہوتا ہے _ اور ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو ہر کمال اور فضیلت کی چوٹی پر فائز ہیں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ اولین انسان ہیں جو روئے زمین پر خلافت الہی کا حقیقی نمونہ ہیں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ انسان ہیں جو خدا کی ذات میں فنا ہیں یعنی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہدف اور مقصد خدا کی خوشنودی کا حصول اور اہداف خداوندی کا تحقق تھا _ پس طبیعی بات تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گرد پاتک بھی کوئی نہ پہنچ پاتا اور کوئی بھی بشر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حافظے کا مقابلہ نہ کرپاتا _ خاص کر ان امور میں جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعلی مقاصد ، اپنے رب کی عبادت اور اطاعت سے متعلق تھے _ اور خصوصاً جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو حقیقتاً ہر موقع پر حاضر اور ناظر جانتے تھے _ اور یہ بات اتنی واضح ہے کہ مزید کسی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیںہے _

مزید یہ کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دین اور احکام دین کی حفاظت کے لئے جتنی کوشش اور جد و جہد فرمائی وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر خدا کے الطاف و احسانات کا باعث بنی اور ( والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا) اور (ولینصرن اللہ من ینصرہ ) نیز ( ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا) کے مصداق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بھلائیوں اور تائیدات ایزدی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب راستے صاف ہوتے چلے گئے _

۲_بعض چیزیں ایسی ہیں جونسیان کا باعث بنتی ہیں _اور ہر شخص ان چیزوں سے پرہیز کرسکتا ہے _ اس بناپر وہ ان چیزوں سے پرہیز کر کے ان کے اثرات یعنی سہو اور نسیان سے بھی بچ سکتا ہے _ روایات میں بھی ان میں سے بعض چیزوں کا ذکر آیا ہے _ بطور مثال جو چیزیں نسیان کا باعث بنتی ہیں ان میں سے ایک پنیر ( cheese ) کھانا، قبروں کے کتبے پڑھنا ، ہرادھنیا کھانا ، بہت زیادہ پانی پینا ، جسم کے بعض حصوں کے ساتھ بے فائدہ چھیڑ چھاڑ کرنا ، زیادہ پریشان ہونا جو اکثر وبیشتر گناہوں کی کثرت کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے_ اور ان جیسے اور کام کرنا ہیں _

۴۰۶

جبکہ بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو حافظے کو زیادہ کرتی ہیں _ بطور مثال کثرت سے یاد دہانی ، کشمش کھانا ، قرآن مجید کی تلاوت کرنا ، خدا کا ذکر کرنا اورنیکی کے کا م کرنا ہیں اور بھی کئی چیزیں ہیں جن کے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں ہے _ واضح ہے اسباب اور وسائل پر قدرت رکھنے کا مطلب اس امر یعنی مسبب پر قدرت رکھنے کی طرح ہے ( یعنی اگر آپ اپنے آپ کو خود ہپنا ٹائز کرسکتے ہیں ، کشمش و غیرہ کھا سکتے ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت کرسکتے ہیں اور اس طرح کے حافظے بڑھانے والے دیگر کام کرسکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنا حافظہ بڑھا سکتے ہیں ) _ پس انسان اپنے آپ کو فلاں چیز کے نہ بھلانے پر مکلف اور مامور کرسکتا ہے یا اپنے حافظے بڑھانے والے کام کرسکتا ہے کیونکہ اسے اس کے اسباب فراہم کرنے کی قدرت حاصل ہے _ اور ایسے مسبب( امور) کا فریضہ شریعت میں بھی زیادہ ہے جسے انسان صرف اس کے اسباب ( مقدمات و غیرہ) کے اوپر قدرت رکھنے اور انہیں فراہم کرنے سے ہی انجام دے سکتا ہے_

۳_ بہت سی آیتیں ایسی ہیں جو نسیان کی مذمت کرتی ہیں _ بلکہ بعض آیتوں میں تو نسیان پر فوری سزا دینے یا دنیا میں ہونے والے نسیان کی وجہ سے آخرت میں عذاب دینے کی دھمکی بھی دی گئی ہے _ نمونے کے لئے ہم مندرجہ ذیل آیات پیش کرتے ہیں :

( و من اظلم ممن ذكّر بآیات ربه فاعرض عنها و نسی ما قدمت یداه ) (۱)

اور اس شخص سے زیادہ ظالم اور کون ہوسکتا ہے جسے اپنے پروردگار کی نشانیاں یاد دلائی جائیں لیکن وہ ان سے روگردان ہوجائے اور اپنے کرتوتوں کو بھی بھول جائے_

یہاں پر آیت کے سیاق اور لفظ ''ذكّر '' کی موجود گی کی وجہ سے لفظ '' نسی '' سے تجاہل عارفانہ مراد نہیں لیا جاسکتا _ حالانکہ بعض مفسرین نے یہی کہنا چا ہا ہے _ یہی صورتحال مندرجہ ذیل آیتوں کی بھی ہے _

پس ان آیتوں میں لفظ نسیان کا مطلب تجاہل عارفانہ نہیں بلکہ حافظے سے ہٹ جانا یعنی سستی ، روگردانی

____________________

۱)کہف /۵۷_

۴۰۷

اور اہمیت نہ دینے کی وجہ سے بھول جانا ہے _

( یحرفون الکلم عن مواضعه و نسو ا حظاً مما ذكّروا به )

'' الفاظ کو اپنی جگہ سے بدل کر تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس ( عذاب ) سے اپنا حصہ بھول جاتے ہیں جس کی انہیں یاد دہانی کرائی گئی تھی ''(۱)

( فالیوم ننساهم کما نسوا لقاء یومهم هذا )

'' پس قیامت کے دن ہم بھی انہیں اس طرح خود سے بے خبر کردیں گے جس طرح انہوں نے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا ''(۲)

( و لا تکونوا کالذین نسوا الله فانساهم انفسهم )

'' اور ان لوگوں جیسے مت بنو جنہوں نے خدا کو بھلادیا تھا جس کے نتیجے میں خدا نے بھی انہیں خود سے بے خبر کردیا تھا ''(۳)

( نسوالله فنسیهم )

''' انہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے بھی انہیں اپنے حال پر چھوڑدیا ''(۴)

( اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم )

'' کیا تم لوگ دوسروں کو تو نیکیوں کا حکم دیتے ہو لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟''(۵)

( فذوقوا بما نسیتم لقاء یومکم هذا )

'' پس اس دن کی ملاقات کو فراموش کرنے پر عذاب کا مزہ چکھو''(۶)

____________________

۱)مائدہ /۱۳_ (۲)اعراف /۱۰_

۳)حشر /۹_

۴)توبہ /۶۷_

۵)بقرہ/۴_

۶) حم سجدہ/۱۴_

۴۰۸

( ربّنا لا تؤاخذنا ان نسینا او اخطانا ) (۱)

'' پروردگار گر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا سر زد ہوجائے تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا ''

اور خدا سے ایسی خواہش تب صحیح اور جائز ہوسکتی سے جب نسیان پر مؤاخذہ اورگرفت بھی صحیح اور جائز ہو_ اور اس بارے میں آیات بہت زیادہ ہیں جن کے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں ہے _

اسی طرح بعض آیتیں ایسی بھی ہیں جو نسیان سے منع کرتی ہیں _ اور لازمی بات ہے کہ نہی اور ممانعت کسی اختیاری اور مقدور کام سے ہوسکتی ہے _ جو چیز بس میں نہ ہو اس سے ممانعت عبث ہے اور خدا سے یہ کام محال ہے _ ارشاد ربانی ہے :

( و لا تنس نصیبک من الدنیا ) (۲)

'' اور دنیا سے اپنے حصے کو فراموش مت کر''

( و لاتنسوا الفضل بینکم ) (۳)

'' اور ایک دوسرے سے بھلائی کو فراموش مت کرو ''

اور مذکورہ آیتوں میں نسیان سے مراد'' ترک ''لینا بھی ہمارے مدعا کی نفی نہیں کرتا کیونکہ اس ترک سے مراد سستی اور اہمیت نہ دینے سے پیدا ہونے والے نسیان کی وجہ سے ترک کرنا ہے _ اس علم کے ساتھ کہ مکلف ( انسان ) کے امکان اور بس میں ان چیزوں کا نہ بھولنا اور یاد رکھنا بھی ہے _ کیونکہ سبب پر قدرت رکھنا مسبب پر قدرت رکھنے کے مترادف ہے _ پس اس صورت میں نسیان اور فراموشی پر عذاب عقلی لحاظ سے قبیح نہیں ہوگا(۴)

____________________

۱)بقرہ /۲۸۶_

۲)قصص/۷۷_

۳)بقرہ /۲۳۷_

۴)ملاحظہ ہو : اوثق الوسائل ص ۲۶۲_

۴۰۹

پختہ ارادہ

ہم مندرجہ ذیل آیت میں مشاہدہ کرتے ہےں کہ خدا نے نسیان کے اختیاری ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے_ ارشاد الہی ہے:

( ولقد عهدنا الی آدم من قبل فنسی و لم نجد له عزماً )

'' اور ہم نے اس سے پہلے آدمعليه‌السلام سے عہد لے لیا تھا لیکن وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں ارادے کی پختگی نہیں دیکھی '' _

پس یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر آدمعليه‌السلام میں طاقت ، تحمل اور پختہ ارادہ ہوتا تو وہ ایسا کام کبھی نہ کرتا_ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا نسیان، صبر و تحمل پر قدرت نہ رکھنے کی وجہ سے تھا ( یعنی بے صبری کی وجہ سے وہ عہد خداوندی کو بھول گیا ) _ اور نسیان بھی بے صبری کی پیدا وار ہے _ پس انسان کی قدرت ، ارادے کی پختگی ، تحمل اور طاقت جتنی بڑھتی جائے گی اس آیت کی روسے اس کا نسیان اتنا ہی کم ہوتا جائے گا _ اور نسیان کے اختیاری ہونے کی ایک اور دلیل آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے کہ '' رفع عن امتی النسیان '' (میری امت سے نسیان پر مؤاخذہ اٹھا لیا گیا ہے ) اور یہ مؤاخذہ خدا کے لطف و کرم سے مسلمانوں کی آسانی کے لئے اٹھایا گیا ہے(۱) _

اور اٹھائی وہ چیز جاتی ہے جسے رکھا اور وضع کیا جائے اور وہ یہاں مؤاخذہ ہے _ اور مؤاخذہ صرف اختیاری امور پر ہوتا ہے چاہے اس پر اختیار اس کے سبب پر اختیار کے ذریعہ سے ہی ہو _ کیونکہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ سبب پر قدرت مسبب پر قدرت کے برابر ہے _

تبلیغ و غیرہ میں عصمت

گذشتہ باتوں کے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے سہو ، نسیان اور خطا سے عصمت ثابت

____________________

۱)اس کا مطلب ہے کہ گذشتہ امتوں کا نسیان کی وجہ سے مؤاخذہ ہوتا تھا _

۴۱۰

ہوگئی ہے تو یہ عصمت بلا قید و شرط ہوگی _ یہ نہیں ہوگا کہ ایک مقام کے لئے تو ثابت ہولیکن دوسرے کے لئے نہیں _ کیونکہ ملکہ ہمیشہ ناقابل تبعیض اور ناقابل تجزیہ ہوتا ہے پس اس بنا پر بعض افراد کا یہ نظریہ صحیح نہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف تبلیغ دین میں معصوم ہیں _ بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر وقت اور ہرجگہ معصوم ہیں اور یہ بات بھی بالکل واضح ہے _

گناہوں سے عصمت بھی اختیاری ہے :

ایک جواب طلب سوال

تمام مسلمانوں کا عام اعتقاد یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام ہر لحاظ سے معصوم ہیں(۱) اور شیعیان اہل بیتعليه‌السلام عصمت و طہارت تمام انبیاء کے علاوہ بارہ اماموں کو بھی معصوم جانتے ہیں _ اور وہ اس لئے کہ ان کی اطاعت اور پیروی سب پر واجب ہے _ اور اگر (نعوذ باللہ ) ان سے گناہ سرزد ہوتے ہوںتو پھر ان کی اطاعت کا جواز ہی معقول نہیں ہے چہ جائیکہ ان کی اطاعت واجب ہو _ اس لئے کہ اس کا مطلب خود گناہوں کے ارتکاب کو جائز قرار دینا ہے اور یہ بات نامعقول ہے _ کیونکہ ایک تو اس صورت میں گناہ اپنے گناہ ہونے سے خارج ہو کر ایک جائز فعل کی صورت اختیارکرلیں گے اور دوسرا یہ کہ یہ بات انبیاء کی بعثت اور نبوت کی حکمت اور فلسفے کے بھی خلاف ہوگا _ البتہ ہم یہاں ان باتوں کی مکمل تفصیلات اور مختلف اقوال پر تفصیلی بحث کے در پے نہیں ہیں _ یہاں ہم فقط اس سوال کا جواب دینا چاہتے ہیں کہ کیا انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی عصمت کا مطلب یہ ہے کہ ان میں گناہ کرنے کی سکت اور استطاعت ہی نہیں ہے اور وہ اطاعت کے علاوہ کسی اور کام کی قدرت ہی نہیں رکھتے؟ دوسرے لفظوں میں کیا وہ اطاعت کرنے اور گناہوں سے

____________________

۱)گرچہ بعض افراد کو تمام انبیاءعليه‌السلام کے عمومی عصمت پراعتراض ہے لیکن شیعیان اہل بیتعليه‌السلام اس بات کے قائل ہیں کہ تمام انبیائعليه‌السلام اپنی ولادت سے رحلت تک معصوم اور خدا کی حمایت اور رہنمائی کے زیر سایہ ہوتے ہیں _ اور ان کی عصمت صرف ان کے دور نبوت کے ساتھ خاص نہیںہے _

۴۱۱

دوری اختیار کرنے پر مجبور ہیں؟ اگر وہ ان باتوں پر مجبور ہیں تو پھر وہ کس بات پر افضل ہیں ؟ ان پر یہ فضل و کرم کیوں کیا گیا ؟ ہم ان کی طرح اس بات پر مجبور کیوں نہیں ہوئے ؟ خدا کس لئے ہمیں ناپسندیدہ کاموں کے انجام کے لئے کھلا چھوڑ دیتا ہے پھر ہمیں جہنم میں عذاب اور جنت سے محروم کر کے ہمیں سزا کیوں دے گا ؟ پھر مجبور ہو کر اطاعت کرنے او رگناہوں سے دوری اختیار کرنے والے شخص کو جنت دینا اور جہنم سے دور رکھنا کیا صحیح اور مناسب ہے ؟

جواب :

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ گناہوں کے ارتکاب سے بچاؤ اختیار ی ہے _ اس بات کی تفصیل کے لئے قدرے تفصیل کی ضرورت ہے _ پس ہم مندرجہ ذیل نکات میں اس کی وضاحت کرتے ہیں :

اسلام اور فطرت

جو شخص بھی اسلام کی آسمانی تعلیمات کا مطالعہ اور ان میں غور و فکر کرے گا تو اسے اس قطعی حقیقت کا ادراک ہوگا کہ یہ تعلیمات انسانی فطرت اور طبیعت کے ساتھ بالکل سازگار ہیں البتہ اگر اس خالص فطرت پر غیر متعلقہ بیرونی عوامل یکبار گی دباؤ ڈال کرا سے دبا نہ دیں(۱) _

حتی کہ آپ زمانہ جاہلیت کے بعض افراد کو مشاہدہ کریں گے کہ انہوں نے جھوٹ بولنے ، شراب پینے ، زنا کرنے اور بتوں کی پوجا کرنے کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا او رکتاب '' امالی '' کے مطابق جناب جعفر بن ابی طالب اور چند دوسرے لوگ بھی انہی افراد میں سے تھے(۲) _

اسی طرح قیس بن اسلت نے بتوں سے دوری اختیار کر لی تھی، وہ جنابت کا غسل کیا کرتا تھا ، حیض

____________________

۱)اس بارے میں ماہنامہ المنتظر فروری۱۹۹۹ کے صفحہ ۲۸ پر مترجم کا چھپنے والا مضمون '' انسان میں دینی فطرت کا وجود'' بھی قابل ملاحظہ ہے_

۲)''شخصیات اور واقعات '' کی فصل میں تحریم خمر کی گفتگو کے دوران ان افراد کا ذکر بھی آئے گا جنہوں نے اپنے او پر شراب حرام کر رکھی تھی _

۴۱۲

والی عورتوں کو صاف ستھری ہونے نیز سب کو صلہ رحمی کا بھی حکم دیتا تھا(۱) _

جناب عبدالمطلب بھی اپنی اولاد کو ظلم اور زیادتی نہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور انہیں اخلاق حسنہ پر اکساتے تھے ، پست کاموں سے روکتے تھے ، آخرت پر یقین رکھتے تھے، بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے اور خدا کی وحدانیت کے قائل تھے _ اور اس نے ایسے رسوم کی بنیاد رکھی جن کی اکثریت کی قرآن نے تائید کی ہے اور وہ سنت قرار پائے ہیں _ جن میں سے ایک نذر کی ادائیگی ، دوسری ،محرموں سے نکاح کی حرمت ، تیسری چور کے ہاتھ کاٹنا ، چوتھی ،لڑکیوں کو زندہ در گور کرنے کی ممانعت ، پانچویں ،شراب کی حرمت ، چھٹی ، زنا کی حرمت اور ساتویں ،ننگے بدن بیت اللہ کے طواف سے ممانعت ہے(۲) _

اور قرآن نے نہ صرف یہ تصریح کی ہے بلکہ وعدہ بھی کیا ہے اور اپنے اوپر لازم بھی قرار دیا ہے کہ یہ نیادین ، دین فطرت ہوگا _ اس لحاظ سے کہ اگر اس کی تعلیمات میں سے کوئی حکم بھی خلاف فطرت ثابت ہوجائے تو اسے ٹھکرایا جاسکتا ہے اور اسے جعلی ، عجیب و غریب اور غیر آسمانی قرار دیا جاسکتا ہے _ ارشاد خداوندی ہے:

( فاقم وجهک للدین حنیفاً فطرة الله التی فطرالناس علیها لا تبدیل لخلق الله ذالک الدین القیم و لکن اکثر الناس لا یعلمون ) (۳) _

'' پس اپنا رخ اس پائندہ اور سیدھے دین کے مطابق کرلو کہ یہ ایسی خدائی فطرت کے مطابق ہے جس پر اس نے لوگوں کو خلق کیا _ اور خلق خدا کے لئے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی _ یہ ایک سیدھا دین ہے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ اس سے بے خبر ہیں ''

اور علّامہ طباطبائی کے بقول '' یہ اس وجہ سے ہے کہ انسان ایسی فطرت پر پیدا ہوا ہے جو اسے اپنے

____________________

۱)سیرہ نبویہ ابن کثیر ج۲ ص ۱۹۰و ص ۱۹۱_

۲)سیرہ حلبیہ ج ۱ ص ۴ و سیرہ نبویہ دحلان ( مطبوعہ بر حاشیہ سیرہ حلبیہ ) ج ۱ ص ۲۱_

۳)روم /۳۰_

۴۱۳

نقائص دور کرنے اور ضروریات پوری کرنے کی طرف راہنمائی کرتی ہے او راس کو زندگی میں فائدہ مند اور نقصان وہ چیزوں سے مطلع کرتی ہے _ ارشاد پروردگار ہے :

( و نفس و ماسوّاها فالهمها فجورها و تقواها ) (۱)

'' نفس (روح) کی اور اس کوہموار کر کے اسے اچھائیوں اور برائیوں کے الہام کرنے والے کی قسم ''

پس دین اسلام ایک ایسا نظام اور دستور ہے جو انسان کی ہدایت کرتا ہے ، اچھائیوں اور بھلائیوں کی طرف اس کی راہنمائی کرتا ہے اور اسے برائیوں اور بدبختیوں سے روکتا ہے_ اور یہ نظام ،نفس انسانی کو کئے جانے والے ان خدائی الہامات کے بالکل مطابق ہے جن کی خدا نے اسے پہچان کرادی تھی _ اسی طرح عقل بھی اس کی پرورش اور حفاظت کرتی ہے اور اسے راستہ دکھا کر اسے ڈگمگانے یا اپنے خواہشات کی سرکشی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اپنے من پسند ادراکات اور احکام کی طرف جھکاؤ سے روکتی ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ عقل اندرونی شریعت ہے اور شریعت بیرونی عقل ہے _ اس بناپر ہم دیکھتے ہیں کہ ہدایت کی پیروی نہ کرنے والے اور سیدھے راستے پر نہ چلنے والے کو قرآن مجید ان الفاظ سے یاد کرتا ہے:

( ارایت من اتخذ الهه هواه افانت تکون علیه وکیلاً ام تحسب ان اکثرهم یسعمون او یعقلون ان هم الّا کالانعام بل هم اضل سبیلا ) (۲)

'' کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس شخص کی حالت دیکھی ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنایا ہوا ہے ا ور اس کی پیروی میں لگا ہوا ہے ؟ کیا پھر بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر اعتبار کرتے ہیں؟ یا یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اکثریت سنتی اور سمجھتی ہے ؟ ( ایسا نہیں ) بلکہ وہ تو جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی بدتر لوگ ہیں ''

____________________

۱)فرقان /۴۴_

۲)شمس/۸_

۴۱۴

نیز یہ بھی کہتا ہے :

( و لقد ذرانا لجنهم کثیراً من الجن و الانس لهم قلوب لا یفقهون بها و لم اعین لا یبصرون بها و لهم اذان لا یسمعون بها اولئک کالانعام بل هم اضل و اولئک هم الغافلون ) (۱)

'' اور ہم نے تو بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم کے لئے تیار کیا ہوا ہے کیونکہ ( قصور ان کا اپنا ہے) ان کے دل و دماغ توہیں لیکن وہ ان سے سوچتے سمجھتے نہیں ، آنکھیں تو ہیںلیکن وہ ان سے حقیقت کو دیکھتے نہیں اور دماغ توہیں لیکن وہ ان سے ہدایت کی باتیں سنتے نہیں_ یہ لوگ تو جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں اور یہی لوگ غافل ہیں ''

پس قرآن مجید ایسے لوگوں کو جانور کی طرح سمجھتا ہے جو اپنی خواہشات نفسانی کی اطاعت و پیروی کرتے ہیں، عقل کی ہدایت اور کہنے پر عمل نہیں کرے اور اسی عقل سے سازگار امر و نہی الہی پر کان نہیں دھرتے _ یہ لوگ ان جانوروں کی طرح ہیں جو اپنی مرضی اور خواہش پر کسی بھی طرف کو نکل پڑتے ہیں اور ان کے پاس عقل نام کی کوئی ایسی چیز نہیںہوتی جس سے وہ روشنی اور ہدایت حاصل کرتے اورنہ ہی وہ ایسے راستے ( شریعت ) پر چلتے ہیں جو انہیں عقل کے احکام کی طرف راہنمائی کرتا _ بلکہ قرآن تو ان لوگوں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھتا ہے _ کیونکہ اگر جانور اقتضائے عقل بشری کے خلاف کوئی کام کریں _ بطور مثال درندگی کریں ، خرابی مچائیں یا کوئی چیز تلف کردیں تو نہ تو انہیں کوئی ملامت کی جائے گی اور نہ ہی ان سے کوئی حساب کتاب ہوگا _ کیونکہ انہوں نے اپنی عادت اور غریزے کے مطابق کام کیا ہے _ اس لئے کہ یہ غریزے اور خواہشات ہی ہیں جو انہیں چلاتے ہیں اور ان کے رفتار اور سلوک پر حاکم ہوتے ہیں اور ان کے پاس تو عقل ہی نہیں ہوتی کہ جس سے وہ ہدایت حاصل کرتے _ لیکن اگر یہی جانور عقل مندی کا کوئی کام کرنے لگیں ، بطور مثال

____________________

۱) اعراف / ۱۷۹_

۴۱۵

اگر ہم یہ دیکھ لیں کہ کوئی بھیڑیا کسی بھیڑ پر حملہ نہیں کر رہا یا کوئی بلی کسی چو ہے کا پیچھا نہیں کر رہی تو ان کے اس فعل سے ہم تعجب کرنے لگیں گے اور وہ ہماری محفلوں کا موضوع گفتگو بن جائیں گے _ کیونکہ یہ چیز ان کے متوقعہ فطرت اور جبلت کے برخلاف ہے چاہے ان کا یہ کام سوجھ بوجھ کے ساتھ نہ بھی ہو ، کیونکہ ان کی عقل ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ یہ کام سدھائے جانے ، عادت بنانے اور مانوس ہونے کے نتیجے میں کرتے ہیں ( جس طرح سرکسوں میں جانوروں کے کئی کر تب دکھائے جاتے ہیں) _

لیکن انسان اگر ظلم کرنے لگے ، جھوٹ بولنے لگے ، غیبت کرنے لگے، بر باد ی کرنے لگے یا اپنی بہتری ، دین یا عقل کے خلاف کوئی اور کام کرنے لگے تو وہ اپنی فطرت اور جبلّت کے تقاضوں کے خلاف کام کرے گا ، اپنے راستے سے منحرف ہوجائے گا اور انسانیت سے خارج ہوجائے گا اور اس صورت میں وہ جانوروں سے بھی بدتر ہوگا _ ( کیونکہ وہ اپنی بے عقلی اور بے شعوری کے باوجود محیر العقول کام کرجاتے ہیں جبکہ مذکورہ افراد عقل و شعور رکھنے کے با وجود نامعقول کام کرتے ہیں ) مزید یہ کہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جانور اپنے لئے مضر کسی کام کا ارتکاب نہیں کرتے لیکن انسان اپنی نفسانی خواہشات اور شہوات اور غریزوں کے پیچھے لگ کر اپنے لئے مضر کاموں کا ارتکاب کر جاتے ہیں اور اپنی سعادت اور خوشبختی کو تباہ کر ڈالتے تو ہمیں یہ کہنا ہی پڑے گا کہ بے شک جانور اس انسان سے زیادہ ہدایت یافتہ اور عقلمند ہیں _

پس گذشتہ تمام باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انسان اپنے لئے فائدہ مند چیزوں کے حصول اور مضر چیزوں سے دوری کی کوششوں پر پیدا کیا گیا ہے _ اور اسلامی احکام انسانی فطرت اور طبیعت کے مطابق ہیں_ اور انسان کی اپنے لئے مضر چیزوں سے دوری اور باعث سعادت اور راحت چیزوں کے حصول کی کوششیں اس میں ایسی فطری خصوصیات ہیں جن سے دوری ، اختلاف اور چھٹکارا ممکن نہیں ہے _ اسی بناپر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عقل مند انسان ( چا ہے وہ مؤمن نہ بھی ہو ) فطری طور پر ایسے کام نہیں کرتا جن کے مضر اور برے ہونے پر اسے پختہ یقین ہو _ بطور مثال وہ اپنے ارادے اور اختیار سے زہر نہیں کھائے گا _بلکہ وہ کسی ایسی جگہ پر بھٹکے گا بھی نہیں جہاں کے متعلق اسے یہ یقین ہو کہ اس کی وہاں موجود گی سے اسے

۴۱۶

کسی بھی قسم کا نقصان پہنچ سکتا ہے _ اسی طرح وہ اپنی اولاد و غیرہ کو کبھی قتل نہیں کرے گا ، مگر یہ کہ اس پر خواہشات یا نیند یا غصہ و غیرہ جیسے عقل کو زائل کرنے والی ان چیزوں کا غلبہ ہوجائے جو اس موقع پر عقل کے تسلط اور مناسب کار کردگی سے مانع ہوتی ہیں _ بلکہ ہم ایک بچے کو بھی دیکھتے ہیں کہ وہ پہلے آگ کو ہاتھ لگانے کی جرات تو کر بیٹھتا ہے لیکن جب آگ اسے تکلیف پہنچاتی ہے اور اسے بھی اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ آگ تکلیف دیتی ہے تو پھر وہ اپنے ارادے اور اختیار سے آگ کے قریب بھی نہیں بھٹکتا مگر اس پر نیند جیسی کوئی زبردست قوت غالب آجائے جو اس کے اس شعور پر غلبہ پالے_

پس عقل مند لوگ( چاہے وہ مومن نہ بھی ہوں بلکہ بچے تک بھی ) زہر کھانے ، اپنے آپ کو آگ میں جلانے اورہر اس چیز کے ارتکاب سے معصوم ہیں جن کے مضر اور برے ہونے کا انہیں یقین ہو _

مگر یہ کہ یہاں کوئی ایسی زبردست طاقت ان کے ارادوں اور ان کے عقل پر غلبہ پا کر ا نہیںذہن پر تسلط سے منع کردے اور کام کرنے سے روک دے اور ان کے سامنے مضر خواہشات کو صحیح اور فائدہ مند جلوہ نما کر کے انہیں دھوکے میں مبتلا کردے _

عصمت کے لئے ضروری عناصر

گذشتہ معروضات میں دقت کرنے سے یہ واضح ہوجائے گا کہ بچے کا آگ سے بچنا اور عقل مندوں کا زہر کھانے سے پرہیز کرنا مندرجہ ذیل امور سے متعلق اور انہی کے نتیجے میں ہے :

۱_ انسان اپنی آسودگی ، سعادت اور تکامل میں مدد کرنے والی چیزوں کے حصول اور اپنے لئے مضر ، بری اور باعث بدبختی چیزوں سے دوری اختیار کرنے کی کوششوں کی فطرت پر پیدا ہوا ہے _ یعنی انسان کی ارتقاء پسند فطرت _

۲_ کسی خاص حقیقت کا ادارک پھر مذکورہ کسوٹی پر اس حقیقت کی پر کھ اور جانچ پڑتال_

۳_ عقل کی قوت اور ایسے موقعوں پر اس کا تسلط اور تمام نفسانی اور شہوانی طاقتوں پر اس کا غلبہ اور ان

۴۱۷

خواہشات اور طاقتوں کو ان رستوں پر ڈالنا جن میں انسان کی بھلائی ، آسودگی اور سعادت ہو _

۴_انسان کا اختیار اور ارادہ اور اس کا ان نفسانی خواہشات سے بچاؤ جو اس سے ارادے اور اختیار کو سلب کرلیتی ہیں _

پس جب یہ چار چیزیں مکمل ہوں تو انسان ان چیزوں کے ارتکاب سے معصوم ہوجائے گا جنہیں وہ یقینی طور پر اپنے لئے مضر سمجھے گا _ او راپنے آپ کو ان کاموں کی انجام دہی کا پابند سمجھے گا جنہیں وہ اپنی ترقی ، ارتقاء اور انسانیت کی بھلائی کے لئے مفید سمجھے گا _ اور مذکورہ عناصر کی تکمیل کے بعد ہم انسان کو صرف سیدھے رستے پر چلتا ہوا ہی دیکھیں گے جو اپنی بھلائی اور بہتری کے کام انجام دے گا اور اپنے لئے مضر اور نقصان دہ کاموں سے پرہیز کرے گا _ اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ شخص کون ہے اور کس وقت کیا کررہا ہے _

اور جب وسعت اور گہرائی کے لحاظ سے لوگ اپنے ادراک کے درجات ، ذہنی اور فکر ی سطح ، نفسانی اور شہوانی خواہشات جیسے دوسرسے باطنی طاقتوں پر عقل کے تسلط کے قوت اور ضعف اور ادراکات کی نوعیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو طبیعی بات ہے کہ ان کی عصمت کے درجات اور مقامات بھی مختلف ہوں گے _ یہ اختلاف ان کے ادراکات ، بصیرتوں ، اعتدال اور باطنی قوتوں کے اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے _ اسی لئے اکثر اوقات علماء کو دیگر لوگوں سے زیادہ مذکورہ امور کا پابند دیکھا جائے گا بلکہ بسا اوقات ان سے کسی بھی غلطی کا ارتکاب مشاہدہ نہیں ہوگا _ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کا ادراک وسیع اور زیادہ ہے نیز دوسروں کی بہ نسبت ان کے ادراک کی نوعیت ، کیفیت اور گہرائی بہت فرق کرتی ہے _ بلکہ اس صورت میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خدا نے تمام انسانوں کے لئے یہ واجب قرار دیا ہے کہ سب معصوم ہوں_ اور وہ اس طرح کہ خدا نے تمام انسانوں پر اپنی اطاعت والے تمام کاموں ( واجبات) پر عمل در آمد اور تمام برائیوں اور نافرمانی والے کاموں ( گناہوں) سے اجتناب کو ضروری قرار دیا ہے _ اور یہ فریضے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ہر مکلّف (انسان) میں یہ طاقت پائی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی گناہ کا مرتکب نہ ہو کیونکہ

۴۱۸

تکلیف اور فریضہ کے صحیح ہونے کی ایک شرط اس کی انجام دہی پر قدرت اور طاقت رکھنا بھی ہے ( یعنی جب کسی میں کسی کام کی قدرت ہی نہیں ہے تو اس کو اس کام کا پابند کرنا معقول نہیں ہے اور خدا کبھی کوئی نامعقول کام نہیں کرتا ) _ وگرنہ خدا کو یہ استثناء بیان کرتے ہوئے بطور مثال یہ کہنا چاہئے تھا کہ ایک دو گناہوں کے علاوہ باقی سب گناہوں سے بچوکیونکہ تم سب سے پرہیز نہیں کرسکتے _ بلکہ یہ استثناء تو اس فعل کو سرے سے گناہ ہونے سے ہی خارج کردیتی ہے ( یعنی وہ فعل جائز ہوجاتا ہے جبکہ گناہ کا مطلب اس کا عدم جواز ہے _ اس صورت میں گناہوں اور ناقابل ارتکاب افعال کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے _ بہرحال چونکہ لوگ ان گناہوں سے بچ سکتے ہیں اس لئے خدا نے ان سے بچنے کا حکم دیا ہے وگرنہ خدا ایسا نہ کرتا ) _ اس لحاظ سے سلمان فارسی ، ابوذر ، مقداد ، عمار اور شیخ مفید و غیرہ جیسے لوگوں کو بھی بطور مثال کسی بھی گناہ اور نافرمانی کے عمدی ارتکاب سے معصوم کہا جاسکتا ہے _ البتہ ان لوگوں میں اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امامعليه‌السلام میں یہ فرق ہے کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گناہوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے اور نہ ہی انہیں گناہوں کے ارتکاب کی کوئی رغبت ہوتی ہے کیونکہ انہیں حقیقت حال کا علم ہوتا ہے اور ان کاموں کی برائیوں اور بھلائیوں کا عین الیقین ہوتا ہے _ اس کے علاوہ انہیں خدا کی جلال اور عظمت کی وسیع اور گہری معرفت ہوتی ہے اور خدا کے حاضر ہونے کا شدت سے احساس ہوتا ہے _ جبکہ دوسرے لوگوں کو انبیاء اور ائمہ کی معرفت کی طرح اکثر احکام کی صحیح علّت اور خدا کی عظمت ،جلال اورملکوت کا صحیح علم اور ادراک نہیں ہوتا _ اس لئے وہ بعض گناہوں میں رغبت تو رکھتے ہیں لیکن وہ صرف خدا کی اطاعت میں اور خدا کا حکم مانتے ہوئے ان گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں _

خلاصہ یہ کہ لوگوں کی ( ذہنی ، عملی اور ہر قسم کی ) سطح مختلف ہوتی ہے جس کی وجہ سے فرائض پر پابندی کے لحاظ سے ان کے درجات بھی مختلف ہوتے ہیں اور عام طور پر علماء فرائض کے زیادہ پابند ہوتے ہیں _ اگر چہ کہ ان میں بھی بعض ایسے افراد مل جاتے ہیں جن کی نفسانی خواہشات کے مقابلے میں ان کی عقل کمزور پڑجاتی ہے _ جس کی وجہ سے فرائض پر ان کی پابندی میں بھی ضعف اور فرق آجاتا ہے جس کی وجہ سے دوسرے علماء کی بہ نسبت ان کی معصومیت کا مرتبہ کم ہوجاتا ہے _ البتہ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں بلکہ حقیقی علماء میں ایسے لوگ ہوتے ہی نہیں ہیں _ اسی لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ خدا حقیقی علماء کی تعریف کرتے

۴۱۹

ہوئے کہتا ہے :

( انما یخشی الله من عباده العلمائ )

'' خدا سے توصرف علماء ہی ڈرتے ہیں ''(۱)

توضیح اور تطبیق:

انبیاء اور ائمہ کو توفیقات اور عنایات الہی اور ان سے بڑھ کر وحی اور خدا سے رابطے نیز شریف اور عظیم پشتوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل ہونے کی وجہ سے صرف صفات حسنہ اور انحصاری کمالات ہی حاصل ہوئے ہیں _ انہی وجوہات کی بناپر وہ وسعت ادراک اور مثالی انسانی سلوک کی چوٹی ہیں _ نیز حقائق اور مستقبل قریب اور بعید میں ان کے مثبت اور منفی اثرات اور نتائج سے بھی وہ بلا شک صحیح معنوں میں واقف تھے اور ان کی واقفیت اور ادراک میں کسی شک وشبہ کی بھی گنجائشے نہیں تھی _ وہ خوبیوں ، ذہنی اور صحیح نفسانی اور نفسیاتی طاقتوں کے بھی درجہ کمال پر فائز تھے _ وہ سب لوگوں سے زیادہ دانا ، تمام عقلمندوں سے بھی زیادہ عاقل ، ہر بہادر سے بھی زیادہ بہادر اور تمام نیک اور اچھی صفات کے حامل ہونے کے لحاظ سے وہ سب مخلوقات سے زیادہ کامل اور افضل تھے _ کیونکہ وہ انسانی طبعی اور فطری تقاضوں سے ذرہ برابر بھی ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے _ اور ان کی عقل اتنی پختہ اور طاقتور تھی کہ نفسانی اور شہوانی خواہشات جیسی دیگر باطنی طاقتیں انہیں نہ تو دھوکہ دے سکتی تھیں اور نہ ان پر غلبہ پاسکتی تھیں_ بلکہ ان کی عقل ہی ہمیشہ ان پر غالب رہتی ، ان پر حکومت کرتی ، انہیں منظم کرتی ، انہیں چلاتی اور ان پر نگرانی کرتی تھی _

بلاشک وہ انہی صفات اور خصوصیات کی وجہ سے فطری طور پر کسی گناہ اور ناپسندیدہ عمل کے ارتکاب سے اس طرح معصوم تھے جس طرح کوئی بچہ آگ کو چھیڑنے سے بچتا ہے اور عقلاء زہر کھانے سے کتراتے ہیں اورہر اس چیز کے ارتکاب سے بچتے ہیں جوان کے وجود ، شخصیت ، مستقبل اور موقف کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے _

____________________

۱)فاطر /۲۸_

۴۲۰