الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)8%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242054 / ڈاؤنلوڈ: 6986
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

قدر چستى و دليرى تھى اور ايسا جوش و خروش پايا جاتا تھا كہ اس سے جوانوں كو تقويت ہوتى تھي_

عمار جس وقت ميدان كارزار كى جانب روانہ ہوئے تھے اس وقت وہ دست بدعا تھے اور خداوند تعالى سے فرياد كر رہے تھے اے پروردگار اے خدايا تو ناظر و شاہد ہے اگر ميں يہ جان لوں كہ تيرى رضا اسى ميں تھے كہ ميں خود كو سمندر ميں گرادوں تو ميں ايسا ہى كرونگا اگر مجھے يہ معلوم ہوجائے كہ تيرى خوشنودى اس ميں ہے كہ ميں اپنے سينہ و دل كو نوك شمشير پر اس طرح ركھ دوں كہ وہ ميرى كمر سے نكل آئے تو يقينا ميں ايسا ہى كروں گا ليكن اس علم كے مطابق جو تو نے مجھے ديا ہے كہ ميں يہ جانتا ہوں كہ تجھے آج كوئي عمل اس سے زيادہ راضى و خوشنود نہيں كر سكتا كہ تباہ كاروں كے خلاف جہاد كروں _(۱۹)

عمار وہ مخلص دلاور اور ايسے جنگجو سپاہى تھے جو ميدان كارزار ميں تھكنا نہيں جانتے وہ عاشق جانبازى كى مانند جنگ كرتے حق كے دشمنوں كے لئے انكى تلوار موت كا پيغام تھى اور جس كے سرپر پڑجاتى اسے واصل جہنم كرتى مگر حاميان حق كے دلوں كو اس سے تقويت ملتى در حقيقت وہ ميزان حق تھے چنانچہ نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہى كى شان ميں تو فرمايا تھا كہ : عمار حق كے ساتھ زندہ ہے اور حق عمار كے ساتھ ہے(۲۰) جو شخص بھى ان كے محاذ پر جنگ كرتا اسے يہ يقين ہوتا كہ وہ حق كى مدافعت كريں گے اور اسى راہ ميں اگر انھيں قتل بھى كرديا گيا تو انھيں بہشت بريں ميں جگہ ملے گي_

مسلمانوں كے درميان يہ بات مشہور تھى كہ عمار ميزان حق ہيں چنانچہ جب كبھى حق و باطل كے درميان تشخيص كرنا مقصود ہوتا تو عمار كے عمل اور موجودگى كو بطور سند پيش كيا جاتا اس كى ايك مثال يہ ہے كہ : ان كے چچازاد بھائي'' ذى الكلاع حميرى '' شامى سپاہ عراق ميں شامل تھا عمار نے اسے بلايااور كہا ميں نے اس لئے بلايا ہے كہ تمہيں وہ حديث سناؤں جو عمروعاص نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل كى ہے اس كى بعد انہوں نے وہ حديث بيان كى جس ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : شام اور عراق كے لشكر ايك دوسرے كے مقابل ہوں گے ان ميں سے ايك حق و ہدايت كا پيشوا ہوگا اور عمار اسى كے ساتھ ہوں گے(۲۱) اس پر ابونوح نے كہا تھا كہ : خدا كى قسم عمار ہمارے ساتھ ہيں

۲۲۱

اور ہم سب سے زيادہ انھيں تم سے جنگ كرنے پر اصرار ہے كتنا اچھا ہوتا كہ تم سب ايك تن ہوتے اور ميں اسے ذبح كرتا اور سب سے پہلے تجھ چچازاد بھائي كو ہى قتل كرتا كيونكہ ہم حق پر ہيں اور تم باطل پر ہو_

اس كے بعد ذوالكلاع كى درخواست پر وہ عمروعاص كے پاس گئے تا كہ اس تك بھى يہ اطلاع پہنچائي جاسكے كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں عمار بھى موجود ہيں اور شاميوں سے جہاد كرنے كيلئے واقعى وہ سنجيدہ ہيں تا كہ ان كے ضمير كو بيدار كيا جاسكے_

عمروعاص نے بھى گفتگو كے درميان اس حقيقت كا اعتراف كيا كہ : اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن ركھا ہے كہ عمار كو جفاكار اور باغى قتل كريں گے اس كے بعد عمروعاص كى تجويز پر اس كے اور عمار كے درميان ملاقات كا پروگرام مرتب كيا گيا گفتگو عمروعاص كى جانب سے شروع ہوئي اس نے عمار كو پند و نصيحت كرتے ہوئے كہا كہ : وہ جنگ و خونريزى سے باز رہيں اس ضمن ميں يہ بھى كہا كہ : ہمارے اور تمہارے درميان خدا كا فيصلہ قرآن اور رسول مشترك ہيں عمار نے كہا كہ : خدا كا شكر جس نے يہ توفيق دى كہ تم نے وہ سب باتيں اپنى زبان سے كہيں جو مجھے اور ميرے دوستوں كو كہنى چاہيے تھيں نہ كہ تمہيں _ اب ميں تمہيں بتاتا ہوں كہ ميں تم سے كيوں جنگ كر رہاہوں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : ميں ''ناكثين'' سے جنگ كروں چنانچہ ميں نے ايساہى كيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہى يہ حكم ديا تھا كہ ميں '' قاسطين'' سے جنگ كروں اور تم وہى ہو اسى لئے تم سے بر سر پيكار ہوں(۲۲)

بالاخر گفتگو كسى فيصلہ كن نتيجے تك نہيں پہنچى اور اب عمار دشمن كى اس فوج كے مقابلے ميں گئے جس كى فرماندارى عمروعاص كے ہاتھ ميں تھى جس وقت ان كى نگاہ عمروعاص كے پرچم پر گئي تو انہوں نے كہا كہ : خدا كى قسم اس پرچم كے خلاف تو ميں تين مرتبہ جنگ كرچكا ہوں اس راہ پر چل كر آدمى كہيں نہيں پہنچے گا اور دوسرے راستوں سے يہ كسى طرح بھى بہتر نہيں _(۲۳)

عمار نے اپنے ساتھيوں كے درميان بآواز بلند كہا كہ : كہاں ہيں وہ لوگ جو رضا خدا كے متمنى ہيں اور جنہيں مال و اولاد سے علاقہ نہيں(۲۴) اس كے بعد انہوں نے ان لوگوں سے خطاب

۲۲۲

كرتے ہوئے جنہوں نے راہ خدا ميں پيشقدمى كى تھى كہا كہ اے لوگو ہمارے ہمراہ ان لوگوں سے جنگ وجدل كيلئے جلد جلد آگئے آؤ جو اپنى دانست ميں عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتے ہيں _(۲۵)

عمار جس لشكر ميں شامل تھے اس كے پرچمدار ہاشم مرقال تھے وہ اپنے پرچمدار كى حوصلہ افزائي كرتے رہتے كہ دشمن پر حملہ آور ہوں ہاشم مرقال بھى اپنى بے مثال دلاورى كے باعث جنگجو سپاہى كيلئے راستہ ہموار كرتے رہتے جب كبھى ان كا نيزہ ٹوٹ جاتا تو حضرت عمار انھيں دوسرا نيزہ دے ديتے ان دو جانبازوں كى بے پناہ و دليرانہ نبرد آزمائي نے عمروعاص كو ايسا مرعوب كيا اور اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس نے بآواز بلند كہا كہ جس شخص نے يہ سياہ پرچم اپنے ہاتھ ميں سنبھال ركھا ہے اگر اسى طرح آگے بڑھتا رہا تو آج يہ تمام عربوں ك ہلاك كر ڈالے گا_(۲۶)

جب يہ پيشوائے حريت يعنى عمار بہت سے شاميوں كو ہلاك كرچكے تو ان پر معاويہ كى فوج كے دو دلاور حملہ آور ہوئے اور ان ميں سے ايك نے اپنے نيزے سے ايسى كارى ضرب لگائي كہ وہ زمين پر آرہے اور دوسرے نے ان كے سرمبارك كو تن سے جدا كرديا(۲۷) اور اس طرح اس جرى و دلير سپاہى نے اپنے اس سركو جس سے وہ اپنے معبود حقيقى كے سامنے جبين سائي كيا كرتا تھا ميدان جہاد ميں اسى كى خاطر قربان كرديا_

اس جنگ كے دوسرے دلير و جانباز ہاشم بن عتبہ تھے جو دو زرہ پہنے ہوئے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جس وقت پرچم ان كے سپرد كيا تو بطور مزاح ان سے كہا كہ : اس كا لے بزدل كا تو ڈر كہيں تمہارے دل ميں نہيں ؟(۲۸) اس پر انہوں نے عرض كيا كہ : يہ تو اميرالمومنينعليه‌السلام كو جلد ہى معلوم ہوجائے گا قسم خدا كى ميں ان كے سروں كو اس طرح اڑاوں گا كہ جس طرح كوئي اس دنيا سے دوسرى دنيا ميں جانے كا قصد ركھتا ہو_ اس كے بعد انہوں نے نيزہ اپنے ہاتھ ميں لے ليا اور اس زور سے اسے جھٹكا ديا كہ وہ ٹوٹ گيا دوسرا نيزہ لايا گيا وہ چونكہ سوكھ چكا تھا اسى لئے انہوں

۲۲۳

نے اسے دور پھينك ديا بآلاخر انھيں ايك نرم نيزہ ديا گيا جس پر انہوں نے پرچم كا پھريرا باندھا اور اپنے حملے كو اس خيمے پر مركوز كرديا جس ميں عمروعاص ، معاويہ اور ان كے دوست و احباب جمع تھے اس روز كشت كشتار كا ايسا بازار گرم ہوا كہ كسى نے اس سے پہلے ايسى قتل و غارتگرى نہ ديكھى تھى اور نہ ہى كسى كو موت كى ايسى گرم بازارى ياد تھي_ (۲۹)

آخرى مرتبہ جب سياہ پرچم امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم كو ديا تو چاہا كہ اب يہ جنگ ايك طرف ہو چنانچہ آپ نے فرمايا كہ : ہاشم معلوم نہيں اب تمہارا آب و دانہ كب تك كا باقى ہے؟ اس پر انہوں نے عرض كيا كہ اس مرتبہ راہ جہاد ميں ايسا نكلوں گا كہ پھر كبھى واپس نہ آؤں گا آپ نے فرمايا كہ '' تمہارے مقابل ذى الكلاع ہے اور اس كے گرد موت منڈھلا رہى ، سرخ موت''

ہاشم ميدان كارزار كى طرف روانہ ہوئے جب وہ معاويہ كے نزديك پہنچے تو اس نے پوچھا كہ كون شخص ہے جو آگے بڑھا چلا آرہا ہے اسے بتايا گيا كہ ہاشم مرقال ہيں(۳۰) يہ سن كر اس نے كہا كہ وہى بنى زہرہ كا كانا، خدا اسے غارت كرے(۳۱) ہاشم نے اپنے ان ساتھيوں كے ہمراہ جو قارى قرآن اور خدا كے عاشق تھا كتنى مرتبہ دشمن كى صف كو درہم برہم كيا چنانچہ جس وقت وہ طائفہ '' تنوح'' كے پرچم تك پہنچے تقريبا دشمن كے دس دلاوروں(۳۲) كو ہلاك كرچكے تھے انہوں نے معاويہ كے پرچمدار كو جو طائفہ '' عذرہ'' كا فرد تھا قتل كرديا اس كے بعد ذوالكلاع ان سے جنگ كرنے كيلئے ميدان ميں آيا ان كے درميان ايسى زبردست جنگ ہوئي اور ايسى كارى ضربيں ايك دوسرے كو لگائي كہ دونوں ہى قتل ہوگئے(۳۳) اس كے بعد ان كے فرزند عبداللہ نے فورا ہى اپنے والد كا پرچم اٹھاليا اور جہاد كيلئے آمادہ ہوگئے_(۳۴)

حضرت عمار كى شہادت كارد عمل

عمار ياسر اور ہاشم مرقال كى شہادت نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے اصحاب كو بہت زيادہ غمگين و رنجيدہ خاطر كيا چنانچہ ان كى جدائي كا ايسا قلق و صدمہ ہوا كہ آپ نے ان كے سوگ

۲۲۴

ميں گريہ و زارى كرتے ہوئے چند اشعار بھى كہے جن كا مفہوم يہ ہے كہ : اے موت مجھے تجھ سے رہائي تو نصيب نہ ہوگى اور مجھے بھى اس زندگى سے نجات دے كيونكہ تونے تمام دوستوں كو مجھ سے چھين ليا ہے مجھے ايسا محسوس ہوتا ہے كہ تو ميرے دوستوں كو خوب پہچانتى ہے اور ايسا معلوم ہوتا ہے كہ تو كسى راہنما كى مدد سے ان كى تلاش ميں نكلتى ہے_ (۳۵) ليكن اس كے ساتھ ہى اس شہادت نے باطل كے چہرے كو بے نقاب كرديا اور لشكر شام كے بہت سے سپاہيوں كا رادہ متزلزل ہوگيا چنانچہ ان ميں سے بعض افراد كو جن ميں عبداللہ بن سويد بھى شامل تھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں فرمائي تھى اور ان پر يہ ظاہر ہوگيا كہ معاويہ ناحق اور باطل پر ہے اور اس كى يہ جنگ در اصل بغاوت تھى چنانچہ انہوں نے معاويہ كا ساتھ چھوڑ كر امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى ہمراہى اختيار كرلي_

عمار كى شہادت نے سپاہ دشمن كو بھى اتنا متاثر كيا كہ اس كا حوصلہ بھى متزلزل ہوگيا چنانچہ عمروعاص نے اس كے اثر كو زائل كرنے كے خيا ل سے ايك بہانہ نكل ہى ليا اور يہ اعلان كرديا كہ '' عمار كے قاتل ہم نہيں بلكہ علىعليه‌السلام ہيں كيونك انہوںعليه‌السلام نے انھيں محاذ جنگ پر بھيجا تھا_(۳۶)

معاويہ نے بھى اس جرم كى پاداش ميں كہ عمروعاص نے وہ حديث نقل كى تھى جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں بيان كى تھى اس كى بہت زيادہ سرزنش كى اور كہا كہ تم نے شام كے لوگوں كو ميرے خلاف شورش پر آمادہ كيا ہے كيا ضرورى تھا كہ تم نے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا تھا اسے يہاں بيان كرتے انہوں نے جواب ديا كہ مجھے كيا معلوم تھا كہ وہ وقت بھى آئے گا جب جنگ صفين بپا ہوگى جس روز ميں نے يہ حديث بيان كى تھى اس وقت عمار ہمارے اور تمہارے ہم خيال تھے اس كے علاوہ جو كچھ ميں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن كر بيان كيا تھا تم نے بھى اسے نقل كيا ہے اور اگر اس بات سے تمہيں انكار ہے تو خود ہى شام كے لوگوں سے دريافت كرلو معاويہ كو پہلے سے بھى زيادہ طيش آيا اور اس نے عمروعاص كو بہت زيادہ سخت و سست كہا_(۳۷)

۲۲۵

سوالات

۱_ جب بعض سپاہى محاذ جنگ سے فرار كر گئے تو حضرت علىعليه‌السلام نے كيا اقدام كيا اور انہيںعليه‌السلام كس حد تك اپنے مقصد ميں كاميابى ہوئي؟

۲_ مالك اشتر كا جنگ صفين ميں كيا كردار رہا مختصر طور پر بيان كيجئے؟

۳_ معاويہ كا غلام حريث كس طرح فريفتہ ہوا اور وہ كس كے ہاتھوں ماراگيا؟

۴_ جنگ ختم كرنے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ كے سامنے كونسى تجويز ركھي؟

۵_ معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں تزلزل پيدا كرنے كيلئے محاذ جنگ پر حضرت امام حسنعليه‌السلام كے سامنے كيا تجويز پيش كى اس پر حضرت حسنعليه‌السلام كا كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۶_ سپاہ اسلام كے فرمانداروں پر عمار كو كيا خصوصيت و برترى حاصل تھي؟

۷_ شام كى سپاہ پر عمار كى شہادت كا كيا اثر ہوا اس كے بارے ميں ايك تاريخى مثال پيش كيجئے؟

۸_ عمار كى شہادت كا اثر زائل كرنے كے لئے عمروعاص نے كيا تركيب نكالي؟

۲۲۶

حوالہ جات

۱_ وقعہ صفين ص ۲۵۳و ۲۵۰

۲_ شايد اس آيت كى جانب اشارہ ہے) يا ايها الذى آمنوا اذا لقيتم الذين كفرو ازحفا فلا تولوا هم الادبار و من يولهم يومئذ دبره الا متحرفا لقتال او منحيزا الى فئة فَقَد باء بغضب من الله و ماواه جهنم و بئس المصير ( (الے لوگو جو ايمان لائے ہو، جب تم ايك لشكر كى صورت ميں كفار سے دوچار ہو تو ان كے مقابلے ميں پيٹھ نہ پھيرو جس نے ايسے موقعے پر پيٹھ پھيرى مگر يہ كہ جنگى چال كے طور پر ايسا كرے يا كسى دوسرے فوجى دستہ سے جا ملنے كے لئے تو وہ اللہ كے غضب ميں گھر جائے گا اور اس كا ٹھكانہ جہنم ہوگا اور وہ بہت برا ٹھكانہ ہے سورہ انفال آيہ ۱۴_ ۱۵

۳_ وقعہ صفين ص ۲۵۶، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۴ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۵ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۰۴

۴ و ۵_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۶_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۷_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۲ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۴

۸_ وقعہ صفين ص ۲۵۴ _ ۲۵۳ '' الا ليستحيى الرجل ان ينصرف لم يقتل و لم يقتل؟

۹_ وقعہ صفين ۲۴۳ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۵(۱۰) وقعہ صفين ص ۲۷۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۵

۱۱_و الله ما بارز ابن ابى طالب رجلا قط الا سقى الارض من دمه

۱۲_ وقعہ صفين ص ۲۷۴_ ۲۷۵_۳۱۶ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۸_ ۲۱۷ ، يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ تاريخ كے اس حصے ميں حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كا اپنى سپاہ كے ساتھ جو رويہ رہا اسے مورخين نے مختلف طوار سے بيان كيا ہے انہوں نے لكھا ہے حضرت علىعليه‌السلام كتنى ہى مرتبہ محاذ جنگ پر تشريف لے گئے اور آپعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں كى مدد بھى كى مگر اس كے برعكس معاويہ كى يہ پورى توجہ اپنى جان كى حفاظت كى جانب رہى اس واقعے كے ضمن ميں جو اوپر گذرا ہے معاويہ نے عمروعاص سے كہا تھا كہ : كيسى نادانى كى باتيں كرتے ہو قبائل عَكّ اشعريان اور جذام كے ہوتے ہوئے ميں علىعليه‌السلام سے نبرد آزمائي كروں ، وقعہ صفين ۲۷۵

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۶ ص ۳۱۴_۳۱۳ ، وقعہ صفين ۴۲۴_۴۲۳ ، وقعہ صفين ميں نقل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے

۲۲۷

جب عمروعاص پر ضرب كارى لگائي اور وہ اس كى تاب نہ لاسكا تو اس نے يہ بدترين راہ اختيار كي_

۱۴_ وقعہ صفين ۴۱۸_ ۴۱۷

۱۵_ وقعہ صفين ص ۲۹۷

۱۶_ وقعہ صفين ۴۷۸_۴۷۷

۱۷_ وقعہ صفين ص ۴۷۵ ، ليكن اسى كتاب كے صفحہ ۳۹۲ پر اور شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۴۹ ميں درج ہے كہ اس وقت اكثر سپاہ نے نماز اشاروں سے پڑھي_

۱۸_ نہج البلاغہ خ ۱۹۸ ، (فيض)

۱۹_ لغت ميں ہرير كے معنى اس آواز كے ہيں جو سردى پڑنے كى وجہ سے كتے سے نكلتى ہے چونكہ اس شب شديد جنگ جارى تھى اور فريقين كے گھڑ سوار ايك دوسرے كے سرپر چيختے تھے اس لئے اس رات كو ليلة الہرير كہتے ہيں (معجم البلدان ج ۵ ص ۴۰۳ ، مجمع البحرين ج ۳ ص ۵۱۸ مادہ ہرر

۲۰_ نصر بن مزاحم نے وقعہ صفين ص ۴۷۵ ميں اس دن اور رات كے دوران قتل ہونے والوں كى تعداد ستر ہزار افراد بيان كى ہے_

۲۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۰ ، شرح ابن ابى الحديدج ۵ ص ۲۵۳

۲۲_ حضرت عمار سے متعلق احاديث نبوى كے بارے ميں مزيد معلومات كے لئے ملاحظہ ہوں معجم رجال الحديث ج ۱۲ ص ۲۶۷ ، طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۸۷، استيعاب ج ۲ ص ۴۳۶ ،اور وقعہ صفين ص ۳۴۳_۳۴۲

۲۳_ ''يلتقى اهل الشام و اهل العراق و فى احد الكتيبيتين الحق و امام لهدى و معه عمار بن ياسر

۲۴_ وقعہ صفين ص ۳۴۰_۳۳۳

۲۵_و الله ان هذه الراية قاتلها ثلاث عركات و ما هذه بار شدهَّن (وقعہ صفين ص ۳۴۰)

۲۶_ اين من يبتغى رضوان ربہ و لا يؤب الى مال و لا ولد

۲۷_ وقعہ صفين ص ۳۲۶

۲۸_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۲۲۸

۲۹_ وقعہ صفين ص ۳۴۱_۳۴۰

۳۰_ يہاں حضرت اميرالمومنينعليه‌السلام كا اشارہ حضرت مرقال كى جانب تھا كيونكہ وہ ايك آنكھ سے محروم تھے_

۳۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۳۲_ انھيں مرقال اس بنا پر كہا جاتا تھا كہ وہ بہت چست و چالاك اور تيز رفتار تھے چونكہ ان كى آنكھ جاتى رہى تھى اسے لئے انھيں اعور بھى كہا جاتا تھا_

۳۳_ وقعہ صفين ۳۴۷_ ۳۴۶

۳۴_ وقعہ صفين ۳۵۵

۳۵_الا ايها الموت الذى لست تاركى ارحنى فقد افنيت كل خليل

اراك بصيرا بالذين احبهمكانك تنحو محوه بدليل

۳۶_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۱

۳۷_ وقعہ صفين ۳۴۵

۲۲۹

بارھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۴

نجات كيلئے كوشش

آخرى فريب

سپاہ عراق كا رد عمل

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

مالك كا واپس آنا

سركشوں كى سرزنش

نفاق و حماقت كے خلاف جد و جہد

حكميت و ثالثى كى دعوت

معاويہ كى جانب

حكمين كا انتخاب

سوالات

حوالہ جات

۲۳۰

نجات كے لئے كوشش

سپاہ اسلام كى جانب سے معاويہ اور عمروعاص كو جب پے در پے شكستيں ہوئيں تو وہ اس نتيجے پر پہنچے كہ اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام كے لشكر كى تاب نہيں لاسكتے اور ان كى شكست فاش ہونے ميں زيادہ دير نہيں _ اسى لئے انہوں نے جنگ سے نجات پانے اور اپنے مقام و حيثيت كے تحفظ كى خاطر كوشش شروع كردي_ سب سے پہلے انہوں نے عراق كے لشكر كے بعض سرداروں كو پيغامات بھيجے اور ان سے جنگ ترك كرنے كى درخواست كى معاويہ نے اپنے بھائي عتبہ كو جو نہايت ہى فصيح بيان اور چرب زبان آدمى تھا حكم ديا كہ وہ علىعليه‌السلام كے سردار لشكر اشعث بن قيس سے ملاقات كرے اور جنگ و جدل ختم كرنے كيلئے اسے آمادہ كرے_

عتبہ نے اشعث سے ملاقات كى اور خوب مدح سرائي كرنے كے بعد كہا كہ : آپ عراق اور يمن كے لوگوں كے سردار ہيں _ آپ كى عثمان سے نہ صرف قرابت دارى تھى بلكہ آپ ان كى فوج كے فرماندار بھى تھے حضرت علىعليه‌السلام كے ديگر اصحاب كے برخلاف آپ طائفہ شام كے لوگوں كى حميت و غيرت اور ان كے جذبہ ناموس كى خاطر جنگ و جدل ميں حصہ لے رہے ہيں _

آخر ميں اس نے اپنى آمد كا مدعا بيان كيا اور كہا: جنگ انتہائي پر خطر صورت اختيار كرچكى ہے ہم آپ سے يہ تونہ كہيں گے كہ آپ حضرت علىعليه‌السلام سے كنارہ كشى اختيار كر ليجئے البتہ اس بات كے متمنى ہيں كہ اس جنگ كا اب كسى طرح خاتمہ ہوجائے تا كہ سپاہ مزيد ہلاك نہ ہو_

اشعث نے عتبہ كى تعريف و ستائشے كا جواب ديتے ہوئے اس كے اس بيان كى تائيد كى كہ اس كى جنگ شام كے لوگوں سے ايمان و عقيدے كى بنياد پر نہيں بلكہ ميں اہل عراق كى حمايت اس بنا

۲۳۱

پر كر رہا ہوں كہ ہر شخص كو چاہيئے كہ وہ اپنے گھر كى خود حفاظت كرے اس نے جنگ ختم كرنے كے سلسلے ميں بھى انھيں منفى جواب نہ ديا اور كہا كہ : ميرے نظريئے كا اعلان جلد ہى كرديا جائے گا_ (۱)

اس ملاقات كے ذريعے عتبہ كو اتنى كاميابى تو ہوگئي كہ اس نے اشعث كے ذہن ميں صلح كا ميلان پيدا كرديا اور جو تجاويز و پيشنہادات بعد ميں وقوع پذير ہوں گى ان كے اجراء نيز سپاہ عراق ميں س كى تشہير و ترويج كيلئے ايك موثر عامل كے طور پر اسے آمادہ كرليا گيا ہے_

معاويہ نے يہ بھى حكم ديا كہ عتبہ اور اشعث كے درميان جو ملاقات ہوئي ہے نہ صرف اسے بلكہ جو گفتگو ان دونوں نے كى ہے اسے حرف بحرف سپاہ عراق كے درميان منتشر كرديا جائے_ عمرو سے كہا كہ وہ ابن عباس كو بھى خط لكھے عمروعاص نے خط اس طرح لكھا علي(ع)كے بعد چونكہ آپ ہى اس جماعت كے سرور و سردار ہيں اسى لئے جو گذر گيا اسے فراموش اور آيندہ كے بارے ميں غور و فكر كيجئے_ خدا كى قسم اس جنگ نے ہم پر اور تم پر زندگى حرام اور صبر و تحمل كى تاب تمام كردى ہے يہ جان ليجئے كہ عراق اور شام كو بيك وقت جب ہى قابو ميں لايا جاسكتا ہے جب كہ ان ميں سے ايك نيست و نابود ہوجائے طرفين كيلئے صلاح اس امر ميں ہرگز نہيں كہ حريف مقابل ہلاك ہوجائے ہمارے اور تمہارے درميان ايسے لوگ بھى موجود ہيں جنہيں جنگ و جدل پسند نہيں _ آپ مشير و امين ہيں ليكن اشتر سنگدل انسان ہيں اور يہ مناسب نہيں كہ انھيں مشورے ميں شريك كيا جائے_

ابن عباس نے يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں پيش كرديا جسے ديكھ كر آپعليه‌السلام كو ہنسى آگئي اور فرمايا كہ : اس ''عمر و عاص'' كو خدا غارت كرے معلوم نہيں كہ اسے كس چيز نے اس بات كيلئے مجبور كيا كہ وہ تم سے اس قسم كى توقع ركھے؟ اور اس كا جواب دينے كيلئے حكم ديا ابن عباس نے عمروعاص كو واضح و مدلل جواب ديا اور اس كى اميدوں پر قطعى پانى پھيرديا_(۲)

۲۳۲

آخرى فريب

معاويہ كو اتنى كاميابى تو ہو ہى گئي تھى كہ وہ ايسا ميدان ہموار كرلے جس كے ذريعے وہ سپاہ عراق كے درميان اپنے آخرى جنگى حربے كو بروئے كار لاسكے_ اس نے چونكہ سن ليا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے تمام اہل لشكر كے درميان يہ فرمايا ہے كہ: كل جنگ كو يك طرفہ كرديا جائے گا اسى لے اس نے عمروعاص سے كہا كہ بس يہى ايك رات ہے جس ميں ہم كچھ كر سكتے ہيں كل جنگ يك طرفہ ہوجائے گى اس بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے؟ اس نے جواب ديا كہ: آپ كے جوانوں ميں نہ تو ان جوانوں كا مقابلہ كرنے كى تاب و طاقت ہے اور نہ ہى آپ علىعليه‌السلام كے مثل و مانند ہيں وہ دين كى خاطر جنگ كر رہے ہيں اور آپ دنيا كے لئے_ آپ زندگى و بقاء كے متمنى ہيں اور وہ شہادت كے خواہشمند_ عراق كے لوگوں كو آپ كے غالب آنے كا خوف و ہراس ہے مگر شام كے عوام حضرت علىعليه‌السلام كى فتح و كامرانى سے خوش و خرم ہيں ليكن ميں ايك مشورہ ديتا ہوں اور وہ يہ كہ ان كے سامنے ايسى تجويز پيش كردى جائے كہ جس كو وہ قبول كرليں يا اسے رد كرديں ان كے درميان اختلاف راہ پاسكے_ انہيں يہ دعوت ديجئے كہ قرآن ہمارے درميان ثالث و حكم ہے_ اور يہى ايسى راہ ہے جس كے ذريعے آپ كامياب ہوسكتے ہيں ميں نے اس حربے كو ہميشہ اس خيال كے پيش نظر التواء ميں ركھا تا كہ اسے بوقت ضرورت بروئے كار لايا جاسكے معاويہ نے اس كے اس نظريے كو پسند كيا_(۳)

اشعث بن قيس نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے اس بيان كى پيروى كرتے ہوئے كہ دشمن آخرى چند سانس لے رہا ہے كہا ميں كل ان پر حملہ كروں گا تا كہ بارگاہ خداوندى ميں ان كا محاكمہ كيا جائے(۴) اس نے اپنے طائفہ ''كندا'' كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے مسلمانو: تم ديكھ رہے ہو كہ تم پر كيا گزر گئي ہے كتنے عرب ہلاك ہوچكے ہيں خدا كى قسم ميں نے اپنى پورى زندگى ميں ايسا منحوس دن نہيں ديكھا جو حاضر ہيں وہ غائب لوگوں كو يہ پيغام پہنچا ديں كہ اگر كل كا دن بھى اسے طرح گذرا تو عربوں كى نسل نيست و نابود ہوجائے گى عورتوں اور بچوں كے

۲۳۳

سرپر كوئي وارث نہ رہے گا_

معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كے اس بيان كو اس تك پہنچا ديا معاويہ نے اس كے اس بيان كو اپنى جنگى سازش كى بنياد اور نيرنگى فكر كا محور بنا ليا اس نے اشعث كے بيان كى تائيد كرتے ہوئے حكم ديا كہ آدھى رات كے وقت عراقيوں كے درميان بلند آواز سے كہيں كہ '' اے عراقيو اگر ہم ميں سے ہر ايك دوسرے كو قتل كرے گا تو ہمارى عورتوں اور اولاد كا كون ولى و وارث ہوگا اب جو كچھ باقى رہ گيا ہے كم از كم اس كى حفاظت كى جائے_(۵)

بروز جمعہ (يوم الہرير) مالك اشتر كے حملے دشمس پر مسلسل جارى تھے يہاں تك كہ ان كے سپاہى تھك گئے چنانچہ انہوں نے اپنى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : ميں تمہارے لئے خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس لئے كہ (اگر زندہ بچ گئے) تو باقى دنوں ميں اپنے گلے كا دودھ دوہيا كروگے(۶) اس كے بعد انہوں نے اپنا گھوڑا طلب كيا اور پرچم كو ''حيان بن ہوذہ'' سے لے كر زمين ميں گاڑديا_ اور بآواز بلند يہ كہتے ہوئے سپاہ كے درميان پہنچ گئے كہ : تم ميں سے كون حاضر ہے كہ اپنى جان كا خدا سے معاملہ كرے اور اشتر كے شانہ بشانہ جنگ كرے تا كہ اسے يا تو فتح و نصرت نصيب ہو يا شہادت اس تقرير كے بعد بہت سے سپاہى ان كے گرد جمع ہوگئے اور ان كے ہمراہ دشمن پر حملہ آور ہوئے يہاں تك كہ انہوں نے سپاہ شام كو دھكيل كر ان كى قرار گاہ لشكر تك پہنچا ديا ليكن يہاں پہنچ كر انھيں دشمن كا سخت مقابلہ كنا پڑا چنانچہ اس مقابلے ميں مالك كے پرچمدار شہيدبھى ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ ديكھا كہ فتح و كاميابى مالك كے قدم چومنا چاھتى ہے تو آپعليه‌السلام نے ان كى مدد كيلئے سپاہ كى ايك جماعت روانہ كي_(۷)

مالك كى سرشكن ضربات اور دشمن كے ٹھكانہ پر مسلسل يورش سے يہ خوشخبرى مل رہى تھى كہ فتح و نصرت جلد ہى نصيب ہونے والى ہے شام كے ضعيف و عمر رسيدہ لوگوں كے لبوں پر يہ صدا بلند تى اللہ اللہ فى الحرمات من النساء و البنات(۸) (خدا كيلئے اپنے عورتوں اور بيٹيوں كا

۲۳۴

توكچھ تو خيال و پاس كرو)

معاويہ نے اپنے لشكر كى جب يہ زبوں حالى ديكھى اور يہ يقين ہوگيا كہ شكست ميں قطعا شك نہيں تو اس نے عمروعاص سے كہا كہ : ہم تو اب فنا ہوا چاھتے ہيں كہاں ہے وہ تمہارا آخرى حربہ(۱۹) يہ سن كر عمروعاص نے بآواز بلند كہا كہ : اے لوگو تم ميں سے جس كے پاس بھى قرآن مجيد ہے اسے نيزے كى نوك پر حمائل كردو_ تقريبا پانچ سو قرآن نيزوں پر آگئے اس كے ساتھ لوگوں كو چيخ و پكار بھى شروع ہوگئي كہ: ہمارے اور تمہارے درميان قرآن حاكم و ثالث ہے اگر ہميں قتل كردو گے تو شام كى سرحدوں كى كون نگرانى و حفاظت كرے گا(۱۰)

سپاہ عراق كا رد عمل

عراق كے بعض سپاہيوں پر دشمن كے حيلہ و نيرنگ اور اس كے پر فريب ،ہيجان انگيز نعروں كا جادو چل گيا (بالخصوص اشعث جيسے سرداروں پر چونكہ ان كے دل معاويہ كى جانب مايل تھے اسى لئے ان كا شمار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے منافقين ميں ہوتا تھا) چنانچہ انہوں نے لوگوں كو مشتعل كرنا شروع كرديا تا كہ وہ دشمن كے دام فريب ميں آجائيں اور اسى لئے انہوں نے بآواز بلند يہ كہنا شروع كرديا كہ ''تمہارى دعوت كتاب خدا ہم نے قبول كر ليا ہے آؤ ہم اسى طرف چليں ''(۱۱)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ كيفيت ديكھى تو اپنى سپاہ كے افكار روشن كرنے اور دشمن كے حيلہ و نيرنگ سے باخبر كرنے كى خاطر فرمايا كہ '' اے بندگان خدا اسى طرف چلتے رہو دشمن سے جہاد كرتے ہوئے حقيقت و حقانيت كو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دو معاويہ، عمروعاص اور ابن ابى معيط كو دين و قرآن سے كوئي سروكار نہيں ميں ان لوگوں كو تم سے بہتر جانتا ہوں ان كے بچپن سے سن رسيدہ ہونے تك ميرا سابقہ رہا ہے يہ اپنے وقت كے بدترين بچے اور بدترين مرد رہے ہيں اگر يہ لوگ قرآن كى عظمت سے واقف ہوتے اور اس كے احكام پر عمل كرتے تو ان كو نيزوں

۲۳۵

پر نہ چڑھاتے_ وہ جو كچھ كر رہے ہيں سب نيرنگ و نفاق ہے_(۱۲)

اس سے قبل يہ واقعہ رونما ہوا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اس خط ميں جو معاويہ كو لكھا تھا يہ پيشين گوئي كردى تھى گويا ميں ديكھ رہا ہوں كہ حوصلہ شكن ضربات، بے حد و اندازہ كشت و خون اور يقينى شكست و ريخت كے بعد تم اپنے ساتھيوں كے ہمراہ كتاب اللہ كى جانب آنے كى دعوت دوگے چنانچہ جو لوگ اس دعوت كى دہائي ديں گے وہ كافر ہوں گے يا منافق يا حق سے روگرداں(۱۳) دشمن كى اس سازش كو ناكام كرنے اور سپاہ فريقين كے افكار بيدار كرنے كى خاطر حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت سعيد كو قرآن كے ساتھ شاميوں كى جانب روانہ كيا اور انھيں حكومت قرآن كى دعوت دي_

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

حضرت علىعليه‌السلام كى تقارير و تنبيہات كا اثر چند ہى لوگوں پر ہوا ان ميں اكثريت ايسے لوگوں كى تھى جنہوں نے ضد اختيار كر لى تھى اور ان كا اس بات پر اصرار تھا كہ جنگ ترك كردى جائے چنانچہ انہوں نے پكارپكار كر كہنا شروع كيا: اس جنگ نے ہميں نگل ليا اس ميں ہمارے تمام مرد مارے گئے ان كى دعوت كو قبول كر لو ورنہ سب مارے جاؤ گے_

جو لوگ اس حق ميں تھے كہ جنگ جارى رہے ان ميں مالك اشتر پيش پيش تھے_

ان كى دليل يہ تھى كہ معاويہ كے پاس اب اپنى فوجى طاقت كا دم خم نہيں جب كہ ہمارى فوجى طاقت بہت زيادہ ہے اور ہم ميں حوصلہ مندى ہے اگر اس كے پاس تمہارى جيسى فوجى طاقت ہوتى تو وہ ہرگز جنگ سے روگرداں نہ ہوتا(۱۴)

جنگ كو جارى ركھنے كے حاميوں ميں دوسرے شخص'' عدى بن حاتم'' تھے انہوں نے كہا كہ ہرچند ہمارى سپاہ كا كشت و خون ہوا ہے اور ان ميں سے بہت سے مجروح بھى ہوئے ہيں مگر حق كى پاسدارى كر رہے ہيں اس لئے ہم اہل شام زيادہ ثابت قدم وپائيدار ہيں اب وہ لوگ زبوں و ناتواں ہوچكے ہيں ضرورى ہے كہ اس موقع سے فائدہ اٹھايا جائے اور ہم ان سے جنگ

۲۳۶

كريں _ (۱۵)

انہى افراد ميں سے ''عمرو بن حمق'' اپنى جگہ سے اٹھے اور كہنے لگے: اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم نے آپ كا ساتھ باطل كى خاطر نہيں ديا ہے بلكہ ہم راہ خدا ميں اور حق قائم كرنے كى غرض سے آپ كے دوش بدوش رہے ہيں اب كام اپنے انجام كو پہنچ چكا ہے اور ہم بھى آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں(۱۶)

اس جماعت كے مقابل اشعث كھڑا تھا اور كہنے لگا اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم آپ كے آج بھى وہى جاں نثار دوست ہيں جو كل تھے ليكن كام كا انجام آغاز سے مختلف ہے مجھ سے بڑھ كر كوئي اہل عراق كا دوست او مجھ سے بدتر كوئي شاميوں كا دشمن نہيں انہوں نے جب كلام اللہ كى دعوت دى ہے تو قبول كر ليجئے كيونكہ اس كيلئے آپ ان سے كہيں زيادہ اہل و لائق ہيں لوگ اپنى زندگى و بقاء كے متمنى ہيں ہلاكت و تباہى انھيں پسند نہيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس خيال كے پيش نظر كہ لشكر كے درميان ہم آہنگى برقرار رہے اور ان كے درميان كوئي اختلاف و اشتعال پيدا نہ ہو پہلے تو خود سے ہى كہا كہ اس مسئلہ كے بارے ميں غور كيا جانا چاہيئے(۱۷) ليكن جيسے ہى ہر گوشہ و كنار سے صلح كے بارے ميں دبى دبى آوازيں آنے لگيں تو آپ نے فرمايا كہ : اے بندگان خدا اس ميں كوئي شك نہيں كہ كلام اللہ كى دعوت قبول كرنے كيلئے ميں آپ سے زيادہ لائق و اہل ہوں مگر دين و قرآن كے معاملے ميں معاويہ اور عمروعاص كى بات الگ ہے ان كا قول اگرچہ كلمہ حق ہے مگر اس كے پس پردہ جو ارادہ كار فرما نظر آتا ہے وہ باطل ہے قرآن كو نيزے پر چڑھانا معرفت اور ايفائے عہد كى بنياد پر نہيں بلكہ يہ بھى حيلہ و نيرنگ اور ايك بہانہ ہے تم صرف ايك گھنٹے كے لئے اپنے دست و بازو اور سر ميرے حوالے كردو تو جلد ہى يہ ديكھو گے كہ حق اپنے آشكارہ نتيجے پر پہنچ چكا ہے اور ستمگروں كى بيخ كنى ہونے ميں ذرا بھى دير نہيں _

ليكن اشعث نے جب يہ ديكھا كہ اس كى بات كو نظر انداز كيا جا رہا ہے اور يا اس پر عمل ہونا

۲۳۷

مشكل و محال نظر آتا ہے تو يہ بات اس كيلئے ناقابل برداشت ہوگئي چنانچہ و ہ سپاہ كى جانب روانہ ہوا تا كہ اپنے اس نظريے كا ان كے درميان پر چار كر سكے چنانچہ اس نے اس بات پر سب سے زيادہ زور ديا كہ جنگ بند كردى جائے اور يہ بات اس نے ان حساس لمحات ميں كہى جب كہ جنگ كى چكى مالك اشتر كے ہاتھ ميں گھوم رہى تھى اور دشمن گيہوں كے دانوں كى مانند ان كى سرشكن ضربات كے باعث پس رہے تھے وہ ميدان كارزار ميں حق كو روشن اور فتح و نصرت كو آشكار كرنا چاہتے تھے دشمن كے آخرى محاذ كو زير و زبر كرنے ميں بھى اب چند قدم كا ہى فاصلہ رہ گيا تھا_

شاميوں كى زندگى اب معاويہ اور عمروعاص كے باريك تار اميد سے وابستہ تھى وہ سراسيمہ و پريشان معاويہ كے سرپر كھڑے چلا رہے تھے اور كہہ رہے تھے معاويہ ايسا لگتا ہے كہ اہل عراق ہمارى دعوت قبول كرنے كو تيار نہيں اپنى اس تجويز كو ان كے سامنے دوبارہ ركھيے تم نے يہ دعوت دے كر دشمن كو جرات مند و گستاخ كرديا ہے اور لالچ و حرص نے تم كو گھير ليا ہے(۱۸) _

دوسرى طرف اشعث كى كوشش كے باعث تقريبا دو ہزار آہن پوش افراد سلاح بدست اور شمشير بدوش ان قاريان قرآن كى جماعت كے ہمراہ جن كو بعد ميں جزو خوارج كہا گيا'' مسطر بن فدكي'' اور '' زيد بن حصين'' كى قيادت ميں حضرت علىعليه‌السلام پر حملہ آور ہوئے وہ آپ كو بار بار ضدى و خود سر كہے جا رہے تھے_

انہوں نے پہلى مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كو اميرالمومنينعليه‌السلام خطاب كرنے كے بجائے يہ كہ كہا اے على انہوں نے كلام اللہ كى دعوت دى ہے تم اسے قبول كر لو ورنہ ہم تمہيں بھى عثمان كى طرح قتل كروائيں گے اور ہم خدا كو شاہد بنا كر كہتے ہيں كہ ہم يہ كام كر گزريں گے_

حضرت علىعليه‌السلام نے فرماياكہ : افسوس تمہارى حالت پر ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے قرآن كى دعوت دى اور ميں ہى پہلا فرد ہوں جس نے اس كى دعوت كو قبول كيا ميرے لئے يہ كسى طرح بھى شائستہ و سزاوار نہيں كہ حكميت قرآن كى دعوت دى جائے اور ميں اسے قبول نہ كروں ميں ان سے اس لئے جنگ كر رہا ہوں كہ وہ حكم قرآن كے آگے اپنى گرد نيں خم كرديں كيونكہ انہوں نے حكم

۲۳۸

خداوندى سے روگردانى كى اور اس كے احكام سے عہد شكنى كر كے اس كى كتاب سے منحرف ہوگئے ہيں ميں بار بار تمہارے سامنے يہ اعلان كر چكا ہوں كہ ان كا ہرگز يہ ارادہ نہيں كہ احكام الہى پر عمل پيرا ہوں بلكہ اپنے اس اقدام سے وہ تمہيں فريب دے رہے ہيں ميں نے جو كچھ كہا اور وہ بات جو تم كہہ رہے ہو اس پر غور كرو اگر ميرى اطاعت مقصود ہے تو جنگ كرو اور اگر ميرے حكم كى خلاف ورزى منظور ہے تو تمہيں اختيار ہے جو چاھو كرو_ (۱۹)

انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے بيان كى جانب توجہ كئے بغير كہا كہ اشتر كو حكم د يجئے كہ وہ جنگ سے دست بردار ہوكر واپس آجائيں _(۲۰)

مالك كا واپس آنا

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ناگزير يزيد بن ہانى كے ذريعے مالك كو پيغام بھجوايا كہ واپس آجائيں _ مالك اس وقت دشمن كى استقامت و پايدارى كو كارى ضرب لگا چكے تھے اور فتح و نصرت ان كے قدم چوم لينا چاہتى تھى انہوں نے جواب ديا كہ : يہ وقت مجھے اپنے موقف سے دوركرنے كيلئے مناسب نہيں مجھے خداوند تعالى كى ذات سے اميد ہے كہ فتح و كاميابى حاصل ہوگى ميرے بارے ميں آپ جلدى نہ كيجئے انہوں نے مالك كا پيغام حضرت علىعليه‌السلام كو پہنچا ديا انہى لمحات كے دوران ميدان كار زار ميں گرد و غبار بلند ہوا اور نبرد آزما سپاہ كى پر جوش و خروش صدائيں سنائي ديں اب مالك اشتر كى فتح و نصرت اور شاميوں كى شكست فاش نماياں ہوچكى تھي_

ليكن فتح و نصرت كى ان علامتوں سے كوئي بھى علامت ان سركشوں كو جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو اپنے حصار ميں لے ركھا تھا ضد پر سے نہ روك سكى وہ غضبناك ہو كر چيخے اور كہنے لگے كہ يقينا آپ نے مالك كو يہ حكم ديا ہے كہ آتش جنگ كو مزيد بر افروختہ كريں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : افسوس تمہارى حالت پر كيا ميں نے تمہارے سامنے قاصد مالك كى جانب روانہ نہيں كيا جو بات روشن و آشكارا ميں نے كہى تھى كيا وہ تمہارے كانوں تك نہيں پہنچي؟ انہوں نے كہا : دوبارہ يہ

۲۳۹

پيغام بھجوائے كہ وہ واپس آجائيں اور اگر آپ نے ايسا نہ كيا تو ہم آپ سے قطع تعلق كرليں گے حضرت على عليه‌السلام نے دوبارہ يہ پيغام بھيجا كہ يہاں فتنہ بپا ہے تم واپس آجاؤ اشتر نے قاصد سے پوچھا كيا يہ شور و غوغا قرآن كو نيزوں پر بلند كرنے كے باعث بپا ہوا ہے؟ قاصد نے جواب ديا ہاں اس كى وجہ يہى ہے اس پر مالك نے كہا كہ خدا كى قسم جس وقت قرآن كو نيزوں پر لايا گيا تھا مجھے اسى وقت يہ گمان گذرا تھا كہ اختلاف و تفرقہ پيدا ہوگا يہ طرح ريزى و نقشہ كشى اس غير معمولى ذہنى كى پيدا وار ہے جس كا نام عمروعاص ہے_

اس كے بعد انہوں نے يزيد بن ہانى سے كہا كہ:كيا تم ديكھ نہيں رہے ہو كہ خداوند تعالى نے ہميں فتح و كاميابى عطا فرمائي ہے كيا اس وقت يہ مناسب ہے كہ اس موقع كو ہاتھ سے جانے دوں اور واپس چلا آجاؤں ؟ يزيد بن ہانى نے كہا كہ : كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ اس محاذ جنگ پر تو آپ كامياب ہوجائيں اور ادھر آپ اميرالمومنينعليه‌السلام كو دشمن كے حوالے كرديں ؟ انہوں نے جواب ديا كہ '' سبحان اللہ آپ نے يہ كيا بات كہى خدا كى قسم ميں ايسا ہرگز چاھوں گيا يہ كہہ كر وہ ميدان كارزار سے واپس آگئے_(۲۱)

سركشوں كى سرزنش

مالك جب ميدان كارزار سے واپس آگئے تو وہ ان لوگوں پر غضبناك ہوے جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو گھير ركھا تھا اور كہا: اے مذلت پذير سست عنصر لوگو تمہيں غالب و فاتح ديكھ كر دشمن نے حكميت قرآن كى دعوت دى ہے كيا دعوت دينے كيلے يہى وقت رہ گيا تھا خدا كى قسم انہوں نے احكام الہى و قرآن اور سنت كو پامال كيا ہے اس لئے تم ان كى دعوت قبول نہ كرو مجھے اتنى مہلت دے دو كہ ميں يہاں سے جاؤں اور واپس چلا آؤں ميں فتح و كاميابى كو اپنے سامنے ديكھ رہا ہوں انہوں نے كہا كہ : ايسا نہيں ہوسكتا مالك نے كہا كہ '' كم از كم مجھے اتنا ہى وقت دے ديا جائے جتنى دير گھوڑے كو دوڑنے ميں لگتى ہے انہوں نے جواب ديا كہ ايسے وقت ميں ہم تمہارے ساتھ

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

پس گذشتہ باتوں کے علاوہ ، عقل کا نقصان دہ اور فائدہ مند نیز اچھی اور بری چیزوں کا صحیح معنوں میں ادراک ، نیز خدا اور خدا کی عظمت ، جلالت ، احاطہ ، قدرت ، حکمت اور تدبیر کی کمال معرفت اور امر و نہی کے مقام صدور کی پہچان اور قیامت ، ثواب اور سزا پر اس کا پختہ ایمان ، یہ سب چیزیں مل کر اس شخص کے لئے برائیوں اور گناہوں کے ارتکاب کے تصور کو بھی ناممکن اور نا قابل قبول بنا دیتی ہیں کیونکہ عقل اور گناہ ایک دوسرے کے متضاد اور مخالف ہیں _ یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی شخص سے ملتے ہیں اور اس کے تمام حالات ، عادات ، خصوصیات ، ترجیحات اور افکار سے واقف ہوتے ہیں تو اس سے منسوب ایسی ساری باتیں جھٹلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو اس کی شخصیت کے مناسب نہیں ہوتیں _ اور جتنا جتنا ہمارے لئے ثابت ہوتا جائے گا کہ اس کی مذکورہ صلاحیتیں پختہ اور راسخ ہیں اتنا ہی ہمارے لئے اس سے منسوب باتوں کا قبول سخت اور دشوار ہوتا جائے گا _ اور گذشتہ باتوں کی روسے جو شخص برائیوں سے دور اور اچھائیوں پر پابند رہنے کی کوشش کرے گا تو توفیقات الہی بھی اس کے شامل حال ہوتی جائیں گی کیونکہ( ولینصرن الله من ینصره ) ،( و من یتق الله یجعل له فرقاناً ) اور( والذین اهتدوا زاد هم هدی و آتا هم تقوا هم )

پھر خدا نیک لوگوں کی اس جماعت میں سے اس شخص کو چن لیتا ہے جس کی عقل ان لوگوں میں سب سے کامل اور شخصیت سب سے افضل اور خیر اور کمال کی صفات کی جامع ہوتی ہے _ لیکن یہ واضح ہے کہ ان لوگوں کے متعلق خدا کے علم اور چناؤ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کسی قول یا فعل پر مجبور ہیں _ اسی بناپر عصمت سے کوئی جبر اور زبردستی لازم نہیں آتی کہ یہ کہا جائے کہ معصوم تکوینی ( پیدائشےی ) طور پر سرے سے گناہوں کے ارتکاب کی طاقت نہیں رکھتا _ بلکہ عصمت ان معنوں میں ہوتی ہے کہ ان سے یہ افعال سرزد نہیں ہوتے _ اور علمی الفاظ میں یوں کہا جائے گا کہ معصوم میں گناہوں کا مقتضی ہی موجود نہیں ہوتا (اس کے دل میں گناہ کی طرف رغبت ہی نہیں ہوتی) اور نہ ہی اس میں گناہوں کے ارتکاب کے لئے علّت مؤثرہ پائی جاتی ہے (اسے گناہوں کے ارتکاب پر کوئی چیز نہیں ابھار سکتی ) _ بلکہ اس کے دل میں ارتکاب گناہ کا تصور بھی نہیں ابھرتا _ پس ان معنوں میں کہاجاسکتا ہے کہ ان سے گناہوں کا سرزد ہونا محال ہے _ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح

۴۲۱

ہم یہ کہیں کہ بچے کا اپنے آپ کوآگ میں گرانا محال ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کام اس کے لئے مقدورہی نہیں ہے _ بدیہی اور واضح سی بات ہے کہ یہ کام اس کے لئے مقدور تو ہے لیکن ہمارے اس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ کام کرے گا ہی نہیں _ اس طرح جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کا ظلم کرنا محال ہے اور خدا کبھی ظلم نہیں کرسکتا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ خدا ظلم کرنے پر قادر نہیں ہے _ کیونکہ بلاشک وہ اپنے سب سے زیادہ فرمانبردار بندے کو بھی عذاب میں مبتلا کرسکتا ہے _ لیکن ہمارے کہنے کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ خدا ایسا کام نہیں کرے گا کیونکہ یہ کام حکمت خداوندی کے منافی ہے اور خدا کی شان اور عظمت کے بھی خلاف ہے_

پس گذشتہ تمام باتوں کی روسے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ خدا کا اپنے بعض بندوں کو چن کر ان کے ہاتھ سے معجزہ دکھلانا اس بندے کے کامل اور معصوم ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ جس طرح پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں یہ معقول ہی نہیں ہے کہ خدا لوگوں کی ہدایت اور قیادت کے لئے اس شخص کا انتخاب کرے جو خود گناہگار اور نافرمان ہو _

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم افضل ترین مخلوق

گذشتہ باتوں کی رو سے اب ہمارے لئے سمجھنا آسان ہوگیا ہے کہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کیوں تمام مخلوقات حتی کہ دیگر تمام انبیاء ومرسلین سے بھی افضل ہیں _ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گرچہ تمام انبیاء معصوم ہیں اور سب کو گناہوں کے ا ثرات اور نتائج کابخوبی علم تھا اور وہ سب خدا کی عظمت اور جلالت اور ملکوت کی معرفت بھی رکھتے تھے بلکہ دوسرے لوگوں سے زیادہ معرفت رکھتے تھے، لیکن ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان اثرات اور ان کے پہلوؤں اور ہر نسل کے مختلف جوانب پر اس کے انعکاس کا اور اسی طرح خدا کے لامتناہی جلال اور بے اندازہ عظمت کا زیادہ گہرا اور حقیقی ادراک اور علم تھا _ کیونکہ عقل ، حکمت ، دانائی ، گہرے ادراک ، شجاعت ، کرم اور حلم میں بلکہ ، مثالی اور نمونہ عمل انسان کی تمام صفات حمیدہ اور اخلاق حسنہ

۴۲۲

میں بلکہ تمام چیزوں میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے کامل ، افضل اور اولین شخصیت ہیں _ پس اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے افضل ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت سب سے زیادہ عمیق ، پائیدار ، زیادہ پر اثر اور وسیع تھی _ اسی بناپر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی عبادتوں میں خدا سے سب سے زیادہ راز و نیاز کرنے والے اور سب سے زیادہ ڈرنے والے تھے _

حدیث ''علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل '' کا صحیح مطلب

اسی طرح جب ہم اس حدیث کو مشاہدہ کرتے ہیں جس میں آیا ہے کہ '' علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل ''(۱) _(میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں ) تو اپنے آس پاس موجود ان علماء کو دیکھتے ہوئے اس حدیث کا صحیح مطلب نہیں سمجھ سکتے جن سے بعض لا یعنی باتوں اور صغیرہ گناہوں کے سرزد ہونے کا احتمال رہتا ہے _کیونکہ یہ معقول نہیں ہے کہ یہ شخص جس سے گناہوں کے ارتکاب کا اندیشہ رہتا ہے اس معصوم کی طرح ہوجائے جس کے متعلق نہ یہ اندیشہ رہا ہو ، نہ اس سے سرزد ہوا ہو اور نہ اس کے دل میں گناہ کا خیال تک آیا ہو _ اس لئے اس کی یہ توجیہ کی جاتی ہے کہ یہ علماء معرفت ، علم اور بصیرت کے لحاظ سے ان انبیاء کی مانند ہیں کیونکہ یہ علماء دینی ، تاریخی اور دیگر معارف میں ان حقائق سے مطلع ہوئے جن کا علم گذشتہ انبیاء کو نہیں تھا _ لیکن یہ توجیہ قرآنی منطق سے میل نہیں کھاتی_ کیونکہ قرآن مجید ، تقابل اور افضیلت کا معیار تقوی اور اعمال صالحہ کو قرار دیتا ہے _ ارشاد خداوندی ہے( ان اکرمکم عند الله اتقاکم ) ترجمہ: '' خدا کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت سب سے زیادہ متقی شخص ہے ''(۲)

اور حدیث قدسی میں بھی آیا ہے : '' میں جنت میں اس شخص کولے جاؤں گا جو میری اطاعت کرے گا چاہے وہ حبشی غلام ہی ہو اور دوزخ میں اسے لے جاؤں گا جو میری نافرمانی کرے گا چاہے وہ قریشی سردار ہی ہو '' _

____________________

۱)بحار الانوار ج ۲ ص ۲۲ از غوالی اللئالی _

۲)حجرات /۱۳_

۴۲۳

پس لازمی ہے کہ بنی اسرائیل کے انبیاء سے افضل علماء سے مراد نہ صرف ان انبیاء کی طرح معصوم شخصیات ہوں بلکہ انہیں ان انبیاء سے یہ امتیاز بھی حاصل ہو کہ ان کا ادراک ان سے زیادہ بھی ہو اور اس امت بلکہ نسلوں پر ہر فعل کے اثرات کاانہیںعین الیقین بھی ہو _ بلکہ گذشتہ عہد کے لوگوں کی تاریخ ، عقائد اور تبدیلیوں کا بھی مشاہدہ کرچکے ہوں اور ان سے مطلع ہوں اور خود بھی ان سے زیادہ زمانے اور صعوبتیں دیکھ چکے ہوں اور بنی اسرائیل کے انبیاء بھی انہیں پہچانتے ہوں _ مزید یہ کہ ان کے پاس ان تمام معلومات اور واقعات اور ان کے تمام جوانب اور مستقبل قریب یا بعید میں ان کے تمام پوشیدہ اور ظاہر اثرات کے ادراکات کے تحمل اور ان سے نتیجہ گیری کرنے کے لئے بہت زیادہ طاقت اور قدرت بھی ہونی چاہئے تا کہ جس طرح ہم نے پہلے بھی تفصیل سے بتایا ہے ان کی عصمت ان سے زیادہ دقیق ، عمیق ، پائیدار ، پر اثر اور وسیع ہو_ اور ہمیں تاریخ میں بارہ اماموں کے علاوہ ایسی خصوصیات کامالک کوئی اور شخص نہیں ملتا _ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھی انہیں ثقلین کا ایک حصہ اور کتاب خدا کا ہم پلّہ قرار دیا تھا اور امت پر ان سے تمسک ، ان سے ہدایت کے حصول اور ان کے اوامر اورنواہی کی پیروی کو واجب قرار دیا تھا جن میں سے پہلی شخصیت حضرت علیعليه‌السلام اور آخری حضرت مہدیعليه‌السلام ہیں _

۴۲۴

۴۴۵

چوتھا عنوان

خمس کا شرعی حکم اورسیاست

محترم قارئین سے ہم نے وعدہ کیا تھا کہ عہد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں لاگو ہونے والے خمس کے حکم کی مختصر وضاحت کریں گے _ اور چونکہ علّامہ علی احمدی نے اس موضوع پر نہایت مفید گفتگو کی ہے اس لئے ہم بھی کچھ اضافات کے ساتھ حتی الامکان انہی کی باتوں سے استفادہ کریں گے _

ارشاد خداوندی ہے :

( و اعلموا انّما غنمتم من شی فان لله خمسه و للرسول و لذی القربی و الیتامی و المساکین و ابن السبیل )

''او رجان لو کہ تمہیں جس چیز سے غنیمت ( نفع) حاصل ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ خدا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں (ذوالقربی) ، یتیموں ، مسکینوںاور ( بے پناہ ) مسافروں کا ہے''(۱)

غنیمت کا معنی

بعض مسلمان فرقوں کے علماء کا نظریہ ہے کہ '' غنیمت وہ مال ہے جو میدان جنگ میں کفار سے حاصل

____________________

۱)انفال /۴۱_

۴۲۵

ہو''_ جبکہ شیعوں کا اپنے ائمہ کی پیروی میں ( لغویوں کی تشریح کے مطابق) یہ نظریہ ہے کہ '' غنیمت ہر وہ مال ہے جو کسی بدلے اور معاوضہ کے بغیر ( یعنی مفت ) حاصل ہو '' _ لغوی کہتے ہیں : '' غُنم : مشقت کے بغیر کسی چیز کو پانا ، مفت حاصل کرنا '' ، '' اغتنام : فرصت کو ( یا کسی چیز کو)غنیمت سمجھنا '' اور '' غنم الشیی غنما : کسی چیز کا بلا مشقت حصول اور بدلے کے بغیر ہاتھ لگنا '' _ راغب کہتا ہے : '' غنم کا اصل مطلب کسی چیز کو اچانک پانا اور اسے حاصل کرنا ہے لیکن پھر ہر اس چیز کو ''غنم '' کہا جانے لگا جسے غلبہ پاکر حاصل کیاجائے ''(۱) یہ تو ہوئی لغویوں کی بات _ پھر جب ہم احادیث اور خطبوں میں کلمہ '' غنم '' کے استعمال کو دیکھتے ہیں تووہاں بھی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ لفظ کا استعمال ہر چیز کے ہمہ قسم حصول پر ہوتا ہے یعنی ہر قسم کے نفع پر اس کا اطلاق ہوتا ہے _ ہمارے اس مدعا پر دلیل کے لئے حضرت علیعليه‌السلام کے یہ فرامین بھی کافی ہیں :

(من اخذ بها لحق و غنم )(۲)

'' جو دین کی شاخوں کو پکڑ لے گا وہ اس کی حقیقت تک پہنچ جائے گا اور فائدہ مند ر ہے گا ''

( ویری الغنم مغرماً و الغرم مغنماً )(۳)

'' وہ نفع کو نقصان سمجھتا ہے اور گھاٹے کو فائدہ ''

(و اغتنم من استقرضک )(۴)

'' ا ور تم اس شخص کو غنیمت سمجھو جو تم سے کوئی چیز ادھا رمانگے ''

(الطاعة غنیمة الاکیاس )(۵)

'' اطاعت عقلمندوں کے لئے فائدہ مند اور غنیمت ہے ''

____________________

۱)ملاحظہ ہو: لسان العرب ، اقرب الموارد ، مفردات راغب ، قاموس النہایہ ابن اثیر ، معجم مقایس اللغہ ، تفسیر رازی ، مصاحبہ اللغات و لغت کی دیگر کتب _

۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۸ ( بعض میں ۱۲۰ ہے ) _ ( ۳)نہج البلاغہ کلمات قصار حکمت ۱۵۰_ ( ۴) نہج البلاغہ خط نمبر ۳۱_

۵)نہج البلاغہ کلمات قصار حکمت نمبر ۳۳۱_

۴۲۶

اس کے علاوہ حدیث میں بھی ہے کہ :

(الرهن لمن رهنه له غنمه و علیه غرمه )(۱)

'' رہن کا مال گروی رکھنے والے شخص کی ملکیت ہے اس کا نفع بھی اسی کا ہوگا اور نقصان بھی ''

(الصوم فی الشتاء الغنیمة الباردة )(۲)

'' سردیوں کا روزہ بلا مشقت ( مفت ) کی کمائی ہے ''

اسی طرح ارشاد خداوندی ہے :

(عندالله مغانم کثیره )(۳)

'' خدا کے پاس تو بہت سارے خزانے ( اور فائدے ) ہیں ''

اسی طرح جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی زکات دی جاتی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ دعا فرماتے:

(اللّهم اجعلها مغنماً ولا تجعلها مغرماً )(۴)

'' خدایا اسے فائدہ مند ( اور با برکت ) بنا گھاٹا ( اور تاوان ) مت بنا ''

نیز فرمایا:

(غنمیة مجالس الذکر الجنة )(۵)

'' وعظ و نصیحت کی محفلوں کا فائدہ جنت ہے ''

نیز روزے کی تعریف میں فرمایا :

(هو غنم المؤمن )(۶)

'' یہ مومن کے لئے غنیمت اور مفت کی کمائی ہے ''

____________________

۱)النہایة ابن اثیر مادہ '' غنم''_ (۲)النہایة ابن اثیر مادہ ' ' غنم '' _ (۳)نساء /۹۴_ (۴)سنن ابن ماجہ (کتاب الزکات ) حدیث نمبر ۱۷۹۷_

۵)مسند احمد ج ۲ ص ۱۷۷_ (۶) ملاحظہ ہو : مقدمہ مرآة العقول ج ۱ ص ۸۴و ص ۸۵_

۴۲۷

اس کے علاوہ بھی کثیر احادیث اور روایات ہیں _

پس اس بنا پر لغت میں '' غنم '' کا معنی ہے ''ہر وہ چیز جو کسی بھی طرح سے حاصل ہو '' _ لیکن بعض لوگوں کی طرف سے '' بلا مشقت '' کا اضافہ اس کے گذشتہ استعمال کے برخلاف ہے _ اور اس سے مجازی معنی مراد لینے کا مطلب یہ ہوگا کہ اکثر مقامات پر اس لفظ کا مجازی معنی میں استعمال ہونے کا عقیدہ رکھا جائے _ جبکہ قرآن مجید میں ہی خود آیت خمس کا اطلاق ہر اس مال پر ہوتا ہے جس سے فائدہ حاصل ہو _ اور ان میں وہ مال غنیمت بھی ہے جو جنگ میں بڑی مشقت کے بعد حاصل ہوتا ہے _ اور بعض شخصیات(۱) کا یہ کہنا بھی کہ '' اس لفظ کا اصل معنی پہلے ہر قسم کا نفع اور فائدہ تھا لیکن بعد میں صرف مال غنیمت کے ساتھ خاص ہوگیا '' صحیح نہیں ہے کیونکہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ حدیث شریف میں یہ الفاظ صرف ان معنوں میں ہی استعمال نہیں ہوئے بلکہ اصل معنوں میں اس سے زیادہ استعمال ہوئے ہیں _ پھر اگر یہ شک بھی پیدا ہوجائے کہ یہ لفظ اپنے اصلی معنی میں استعمال ہوا ہے یا نہیں تو اس صورت میں اس لفظ کا اصلی لغوی معنی مراد لیا جائے گا _ پس آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر اس چیز پر خمس واجب ہے جو انسان کو حاصل ہو چاہے وہ کافروں سے جنگ کے میدان سے بھی نہ ہو _ اور اس چیز کا اعتراف قرطبی نے بھی کرتے ہوئے کہا ہے : '' لغت کے لحاظ سے تو آیت میں منافع کو جنگ کے مال غنیمت سے مخصوص نہیں کیا جاسکتا '' لیکن اس بارے میں وہ کہتا ہے : '' لیکن علماء نے اس تخصیص پر اتفاق کرلیاہے '' ( ۲)اور اس کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ علمائے اہل سنت نے آیت کے ظاہری مفہوم اورمتبا در معنی کے خلاف اتفاق کرلیا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطوط میں خمس کا تذکرہ

اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطوط بھی اس بات کی تاکید اور تائید کرتے ہیں کہ خمس جس طرح جنگ کے مال غنیمت پر واجب ہے اسی طرح جنگ کے علاوہ دیگر منافع میں بھی واجب ہے _ اور غنیمت سے اس کا

____________________

۱)اس سے مراد علّامہ بزرگوار جناب سید مرتضی عسکر ی صاحب ہیں جنہوں نے یہ بات مرآة العقول کے مقدمہ میں لکھی ہے _

۲) تفسیر قرطبی ج ۸ ص ۱ _

۴۲۸

عام معنی مراد ہے(۱) پس مندرجہ ذیل باتیں ملاحظہ ہوں _

۱_ قبیلہ بنی عبدالقیس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا ، '' ہم پورے سال میں صرف حرام مہینوں میں ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آسکتے ہیں کیونکہ ہمارے رستے میں قبیلہ مضر کے کافروں کی ایک شاخ پڑتی ہے _ اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیں ایسے قطعی احکام بیان فرمادیں جنہیں ہم واپس جا کر قبیلہ والوں کو بھی بتائیں اور جن پر عملدار آمد سے ہم جنت بھی جاسکیں '' اور انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کھانے پینے کے مسائل بھی پوچھے _ اس پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے روکا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں خدائے واحد پر ایمان لانے کا حکم دیا _ پھر پوچھا : '' جانتے ہو خدائے واحد پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے ؟ '' انہوں نے کہا '' خدا اور اس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہتر جانتے ہیں '' _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' اس کا مطلب یہ گواہی دینا ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ، ( حضرت ) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ، نماز قائم کرنا ہے ، زکات ادا کرنا ہے ، ماہ رمضان کے روزے رکھنا ہے اور ہر بچت اور نفع سے خمس ادا کرنا ہے ...''(۲) _ یہاں یہ بات واضح ہے کہ بنی عبدالقیس کا قبیلہ بہت کمزور قبیلہ تھا جو صرف حرام مہینوں میں ( جن میں جنگ حرام تھی اور کسی کو کسی سے کوئی سر و کار نہیں ہوتا تھا ) ہی اپنے گھروں سے باہر نکل سکتے تھے اور ان میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی سکت ہی نہیں تھی ( لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر بھی انہیں خمس ادا کرنے کا حکم دیا) نیز ہمارے مدعا کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جنگ کے مال غنیمت کا اختیار قائد اور سردار لشکر کے پاس ہوتا ہے اور وہی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے ، وہ اس سے خمس نکال کر باقی واپس کردیتا ہے جسے سپاہیوں میں آپس میں بانٹ دیا جاتا ہے اور اس میں قائد کو خود افراد سے کوئی غرض نہیں ہوتی جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوامر سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں ایسے احکام کے بجالانے کا حکم دیا جن کا تعلق صرف افراد کے ساتھ تھا یعنی وہ انفرادی احکام تھے اور وہ ہر فرد کا فریضہ تھے جن کو اسے کیفیت یا کمیت میں اضافے کے ساتھے بجالاتے رہنا چاہئے

____________________

۱)مولانا محمد حسین نجفی صاحب کے لئے خاص طور پر قابل ملاحظہ ہے _ (۲)بخاری طبع مشکول ج ۱ ص ۲۲ و ص ۳۲ و ص ۱۳۹ ، ج ۲ ص ۱۳۱ و ج ۵ ص ۲۱۳، ج ۹ ص ۱۱۲ ، صحیح مسلم ج ۱ ص ۳۶، سنن نسائی ج ۲ ص ۳۳۳ و مسند احمد ج ۱ ص ۲۲۸ و ص ۳۶۱، ج ۳ ص ۳۱۸ و ج ۵ص ۳۶ ، الاموال ابو عبید ص ۲۰ ، ترمذی باب الایمان ، سنن ابو داؤد ج ۳ ص ۳۳۰ و،ج ۴ ص ۲۱۹ ، فتح الباری ج ۱ ص ۱۲۰ و کنز العمال ج ۱ ص ۲۰ و ص ۱۹ حدیث نمبر ۴_

۴۲۹

تھا جس طرح ایمان ، نماز اور زکات ہے _ اسی طرح خمس بھی زکات و غیرہ کی طرح ہے اور یہ ان سے کوئی مختلف نہیں ہے ۲_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرو بن حزم کو یمن بھیجتے ہوئے اسے ایک لمبا دستور نامہ بھی ساتھ لکھ کردیا تھا جس میں آیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اضافی اور بچت کے مال سے خدا کا حصہ خمس وصول کرنے کا حکم دیا تھا(۱) اور اس جملے کا معاملہ بھی گذشتہ جملے کی طرح ہے _

۳_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمینوں کے قبیلہ بنی عبد کلال کو شکریے کا ایک خط لکھا جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمروبن حزم کے ذریعہ بیان ہونے والے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گذشتہ احکام کی تعمیل کرنے پر خود عمروبن حزم اور قبیلہ بنی عبدکلال کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا : '' تمہارا نمائندہ ملا اور میں تصدیق کرتا ہوں کہ تم نے اپنے اضافی مال سے خدا کا خمس ادا کردیا ہے ''(۲) _

یہاں یہ بھی وضاحت کردیں کہ ہم تاریخ میں بعد از اسلام اس قبیلے کی کسی سے کسی جنگ کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ انہوں نے اس جنگ سے مال غنیمت لوٹا ہو اور اسے عمروبن حزم کے ہمراہ بھیجا ہو _

۴_ آنحضرت نے قبیلہ قضاعہ کی شاخ قبیلہ سعد ہذیم اور جذام کو ایک خط لکھا جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ خمس اور صدقات کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو نمائندے ابّی اور عنبسہ کے یا جس کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھیجیں، اس کے حوالے کریں(۳) حالانکہ یہ قبیلے تازہ اسلام لائے تھے اور ان کی کسی سے جنگ بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس سے مراد مال غنیمت کا خمس لیا جاتا_

____________________

۱)تاریخ ابن خلدون ج ۲ ، تنویر الحوالک ج ۱ ص ۱۵۷ ، البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۷۶ ، سیرہ ابن ہشام ج ۴ ص ۲۴۲ ، کنز العمال ج ۳ ص ۱۸۶ ، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۲ ص ۵۱۷، الخراج ابو یوسف ص ۷۷، مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۴ و ص ۱۵ ، سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۵۷۳ص ۵۷۵و ص ۵۷۷ سنن دارمی ج ۱ ص ۲۸۱ و ص ۳۸۵ و ج ۲ ۱ص۱۶تا ص ۱۹۵ ، الاصابہ ج۲ ص ۵۳۲، سنن ابو داؤد ج ۲ ص ۹۸وص ۹۹ ، الدر المنثور ج ۲ ص ۲۵۳ ، التراتیب الاداریہ ج ۱ ص ۲۴۸ و ص ۲۴۹ و سنن ترمذی ج ۳ ص ۱۷ ، نیز از رسالات نبویہ ۲۰۴ ، طبری ج ۲ ص ۳۸۸ ، فتوح البلدان بلاذری ص ۸۰ ، اعلام السائلین ص ۴۵ ، مجموعة الوثائق السیاسیة ص ۱۷۵ ، فریدون ج ۱ص ۳۴ ، اھدلی ص ۶۸ و الامتاع مقریزی ص ۱۳۹_

۲)الاموال ابوعبید ص ۲۱ ، سنن بیہقی ج ۴ ص ۸۹ ، کنز العمال ج ۳ ص ۱۸۶ و ص ۲۵۲و ص ۲۵۳ از طبرانی و غیرہ ، مستدرک حاکم ج ۱ ص ۳۹۵ ، الدر المنثور ج ۱ص ۳۴۳، مجمع الزوائد ج ۳ نیز ازتہذیب ابن عساکر ج ۶ ص ۲۷۳ و ص ۲۷۴ ، جمہرة رسائل العرب ج ۱ ص ۸۹ ، مجموعة الوثائق السیاسیہ ص ۱۸۵ از اھدلی ص ۶۷ و ۶۸ از ابن حبان و المبعث ص ۱۴۱ _

۳)طبقات ابن سعد ج ۱ حصہ ۲ ص ۲۳ و ص ۲۴ ، مجموعة الوثائق السیاسیہ ص ۲۲۴ و مقدمہ مرآہ العقول ج ۱ ص ۱۰۲و ص ۱۰۳_

۴۳۰

۵_ اسی طرح مختلف قبیلوں اور ان کے سرداروں کو بھیجے گئے سولہ سے بھی زیادہ دیگر خطوط میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان پر خمس واجب قرار دیا تھا _ اور وہ قبائل اور شخصیات درج ذیل ہیں : قبیلہ بکائ، بنی زہیر ، حدس، لخم ، بنی جدیس،لاسبذیین ، بنی معاویہ ، بنی حرقہ، بنی قیل ، بنی قیس ، بنی جرمز، اجنادہ اور اس کا قوم و قبیلہ ، قیس اور اس کا قبیلہ ، مالک بن احمر، بنی ثعلبہ کے بزرگ صیفی بن عامر ، فجیع اور اس کے ساتھی ، قبیلہ بنی عامر کے سردار نہشل بن مالک اور جہینہ بن زید ، نیز یمنیوں ، بادشاہان حمیر اور بادشاہان عمان کو خطوط میں بھی اس بات کی تاکید کی تھی ان خطوط اور دستاویزات کو مندرجہ ذیل منابع میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے(۱)

ان خطوط پر ایک نظر

یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان خطوط میں ذکر ہونے والے الفاظ '' مغنم ،غنائم اور مغانم '' سے مراد صرف جنگ سے حاصل ہونے والا مال غنیمت ہے _ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہوگی ، کیونکہ : ۱_ اس موقع پر جنگوں کا اعلان ، ان کی قیادت اور ان کا نظم و انتظام خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے قیادت کے لئے منصوب کسی شخص کے ذمہ ہوتا تھا _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آنے والے خلفاء یا ان کی طرف سے منصوب افراد کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی _ اور کسی قبیلے کو بھی اپنی طرف سے جنگ چھیڑنے یا جنگ کی ٹھاننے کا کوئی اختیار اور حق نہیں ہوتا تھا _ اور تاریخ میں بھی ہمیں کسی ایسی جنگ کا تذکرہ نہیں ملتا جس میں

____________________

۱)اسعد الغابہ ج ۴ ص ۱۷۵ و ص ۲۷۱ و ص ۳۲۸ و ج ۵ ص ۴۰ و ص ۳۸۹ و ج ۱ ص ۳۰۰ و الاصابہ ج ۳ ص ۳۳۸ و ص ۱۹۹ و ص ۵۷۳ ، ج ۱ ص ۵۳و ص ۲۴۷ و ص ۲۷۸ و ج ۲ ص ۱۹۷ ، طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۷۴ ، ص ۲۷۹ ، ص ۶۶ ، ص ۲۶۹ ص ۲۷۱، ص ۲۶۸ ، ص ۲۷۰ ، ص ۲۸۴، ج ۷ حصہ ۱ ص ۲۶ و ج ۵ ص ۳۸۵، رسالات نبویہ ص ۲۳۷ ، ص ۱۰۲، ص ۱۰۳، ص ۱۳۱، ص ۲۵۳، ص ۱۳۸، ص ۱۸۸ ، ص ۱۳۴ ، مجموعہ الوثائق السیاسیہ ص ۱۲۱ ، ص ۲۶۴ و ص ۲۷۳از اعلام السائلین ، ص ۹۸، ص ۹۹ و ص ۲۵۲، ص ۲۵۰، ص ۲۱۶، ص ۱۹۶، ص ۱۳۸، ص ۲۳۲، ص ۲۴۵، ص ۱۸۰ ، کنز العمال ج ۲ ص ۲۷۱ج ۵ ص ۳۲۰، ج ۷ ص ۶۴از رویانی ، ابن عساکر ، ابوداؤد ، کتاب الخراج و طبقات الشعراء جحمی ص ۳۸، سنن بیہقی ج ۶ ص ۳۰۳ ، ج ۷ ، ص ۵۸ و ج ۹ ص ۱۳، مسند احمد ج ۴ ص ۷۷، ص ۷۸ و ص ۳۶۳ ، سنن نسائی ج ۷ ص ۱۳۴، الاموال ابوعبید ص ۱۲، ص ۱۹، ص ۲۰ ، ص ۳۰ ، الاستیعاب تعارف عمر بن تولب و ج ۳ ص ۳۸۱،جمہرة رسائل العرب ج ۱ ص ۵۵ و ص ۶۸از شرح المواہب زرقانی ج ۳ ص ۳۸۲ ، صبح الاعشی ج ۱۳ ص ۳۲۹ نیز مجموعة الوثائق السیاسیہ از اعلام السائلین ، نصب الرایہ ، المغازی ابن اسحاق ، المصنف ابن ابی شیبہ ، معجم الصحابہ المنتقی ، میزان الاعتدال ، لسان المیزان ، تاریخ یعقوبی ، صبح الاعشی و الاموال ابن زنجویہ ، تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۶۴، البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۴۶ و ص ۷۵و ج ۲ ص ۳۵۱از ابونعیم ، تاریخ طبری ج ۲ ص ۳۸۴، فتوح البدان بلاذری ص ۸۲ ، سیرہ حلبیہ ج ۳ ص ۲۵۸ ، سیرہ ابن ہشام ج ۴ ص ۲۴۸ و ص ۲۶۰ ، سیرہ زینی دحلان ج ۳ ص ۳۰ ، المصنف ج ۴ ص ۳۰۰ ، طبقات الشعراء ابن سلام ص ۳۸ و مجمع الزوائد ج ۸ ص ۲۴۴_

۴۳۱

انہوں نے مستقل طور پر کوئی جنگ کی ہو _ اور اگر ایسا ہوتا بھی تو اس صورت میں مناسب یہ تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے قائدین اور جرنیلوں کو خط لکھتے کیونکہ مال غنیمت کا خمس نکال کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھیجنے اور باقی کو جنگجوؤں میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی تھی _

۲_ یہ مذکورہ قبیلے حجاز، شام ، بحرین اور عمان میں بستے تھے اور اکثر قبیلے اتنے چھوٹے اور کمزور تھے کہ ان میں جنگ کرنے کی طاقت ہی نہیں تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے جنگ کے مال غنیمت کا مطالبہ کرتے _

۳_ اگر ان الفاظ سے مراد صرف جنگ کا مال غنیمت ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ ہر کسی کو ہر جگہ اور ہر وقت دشمن پر چڑھائی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جاتی جس سے انار کی پھیل جاتی اور اسلامی حکومت کے لئے بہت زیادہ اور مہلک ، خطرات کا باعث بنتی اور کسی عاقل ، سمجھدار اور با تدبیر شخصیت سے کوئی ایسا حکم جاری نہیں ہوسکتا _ نیز ہم نے تاریخ میں بھی کوئی ایسا حکم اور اس حکم پر عمل در آمد سے پھیلنے والی انار کی کی کوئی مثال نہیں دیکھی _

۴_پہلے بھی بتاچکے ہیں کہ ان خطوط میں خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان اور خمس اور زکات کی ادائیگی جیسے کچھ انفرادی احکام کا بیان تھا _ جو ہمیں اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ ماہیت کے لحاظ سے خمس بھی ان احکام سے کوئی مختلف نہیں ہے _ اور یہ کوئی نادر حکم نہیں تھا کہ ان کی عملی زندگی سے غیر متعلق ہوتا اور کئی دہائیوں بلکہ صدیوں تک انہیں اس پر عمل کرنے کا موقع نہ ملتا بلکہ یہ تو ان کی روزمرہ زندگی کا ایک عمومی حکم تھا _

وافر مال پر خمس واجب ہے

آنحضرت نے وائل بن حجر کو بھی ایک خط لکھا جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' سُیوب پر بھی خمس واجب ہے''(۱)

____________________

۱) اسد الغابہ ج ۳ ص ۳۸، الاصابہ ج ۲ ص ۲۰۸ و ج ۳ ص ۴۱۳ ، بحارا لانوار ج ۶ ۹ص ۸۳و ص ۱۹۰ ، الاستیعاب ( برحاشیہ الاصابہ ) ج ۳ ص ۶۴۳ ، جامع احادیث الشیعہ ج ۸ ص ۷۳ ، العقد الفرید ج ۱ باب الوفود ، البیان و التبیین ، وسائل الشیعہ کتاب الزکاة باب تقدیر نصاب الغنم ، معانی الاخبار ص ۲۷۵، شرح ا لشفاء قاری ج ۱ ص ۱۸، تاریخ ابن خلدون ج ۲ ، سیرہ نبویہ دحلان ( بر حاشیہ سیرہ حلبیہ ج ۳ ص ۴۹، الشفاء قاری ج۱ ص ۱۴ نیز از المعجم الصغیر ص ۲۴۳ ، رسالات نبویہ ص ۶۷ و ص ۲۹۷از المواہب اللدنیہ ، زرقانی نیز نہایہ ابن اثیر، لسان العرب ، تاج العروس ، نہایة الارب و غریب الحدیث ابوعبید میں ذیل لفظ ''سیب '' اور''قیل''و طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۸۷_

۴۳۲

زیلعی کہتا ہے : '' سَیب یعنی عطاء کسی اور چیز کا یونہی مل جانا اور سُیوب یعنی زمین میں چھپا ہوا خزانہ ''(۱)

جبکہ لغت کی اکثر کتابوں میں '' سُیوب '' کی وضاحت بھی '' عطا '' یعنی و افر مال سے کی گئی ہے _ اس بناپر ہم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے سُیوب کو صرف چھپے ہوئے خزانے سے کیوں مخصوص کیا ہے جبکہ چھپے ہوئے خزانے تو سُیوب کا ایک حصہ اور فرد ہیں اور سیوب کا لفظ عام اور مطلق ہے ( جس کا اطلاق ہر وافر مال پر ہوتا ہے ) کیا یہ خمس کے حکم کو ہر اضافی مال سے مستثنی کرنے کے لئے لغت میں ان کا اجتہاد اور جھوٹی اور باطل تاویل نہیں ہے؟

بلکہ انہوں نے تو اسے زمانہ جاہلیت میں مدفون خزانوں سے مخصوص کردیا ہے _

اور ہماری سمجھ میں تو اس کی وجہ بالکل بھی نہیں آئی کیونکہ لفظ '' سیوب '' ان شرطوں کے ساتھ بالکل بھی مخصوص نہیں ہے کیونکہ ہر اضافی مال اور ہرچھپے ہوئے خزانے کو سیوب کہا جاتا ہے _ نیز یہ لفظ تو زمانہ جاہلیت میں بھی استعمال ہوا کرتا تھا اور یہ معقول ہی نہیں ہے کہ خود زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی سیوب کے متعلق یہ کہیں کہ اس سے مراد زمانہ جاہلیت میں مدفون خزانہ ہے

لگتا یہی ہے کہ اس بات سے ہمیں انہوں نے یہ سمجھا نے کی کوشش کی ہے کہ اس طرح وہ مال ان کافروں سے لوٹا ہوا مال غنیمت بن جائے گا جن سے جنگ واجب ہے _ تا کہ یہ بات ان کے مذہب کے موافق ہوجائے _ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ لغت کی کتابیں کہتی ہیں کہ سیب کا اصل معنی مہمل ، فاضل اور چھوڑی ہوئی چیز ہے اور '' سائبہ '' سے مراد ہر وہ جانور ہے جس کا کوئی مالک اور نگران نہ ہو اور زمانہ جاہلیت میں بھی جس اونٹنی کو آزاد اور بلا مالک اور نگران چھوڑ دیا جاتا اسے '' سائبہ'' کہا جاتا تھا _ اور حدیث میں بھی ہے کہ '' کل عتیق سائبة '' ( ہر پرانی چیز کسی کی چھوڑی ہوئی ہوتی ہے ) _ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ احادیث میںبھی '' سیوب'' سے مراد ہر متروک اور چھوڑی ہوئی اور ایسی فاضل چیز ہے جس کی انسان کو روزمرہ میں ضرورت نہ ہو اس لئے اس پر خمس واجب ہوجاتا ہے _

____________________

۱)تبیین الحقائق ج ۱ ص ۲۸۸_

۴۳۳

مزید دلائل

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عرب کے بعض قبیلوں کو لکھا کہ زمین کی وادیاں ، میدان ، ٹیلے ، اوپر اور نیچے سب تمہارے لئے ہے تا کہ تم اس کے نباتات اور سبزیوں سے استفادہ کرو اور پانی پئو اور اس کا خمس بھی ادا کرو(۱) اس کلام کا سیاق و سباق ہمیں واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ یہاں مراد جنگ کے مال غنیمت کا خمس نہیں ہے، کیونکہ جنگ کے مال غنیمت کا زمین کی وادیوں ، ٹیلوں ، میدانوں اور ان کے ظاہر اور باطن سے استفادہ کرنے اور اس کے- نباتات اور پانی سے استفادہ کرنے کا آپس میں اور پھر ان کا اور ( ان کے نظریئےے مطابق)خمس کا آپس میں کوئی تعلق ہی نہیں بنتا اور نہ ہی اس جملے کی کوئی تک بنتی ہے _ مگر اس صورت میں کہ زمین سے حاصل ہونے والی ہر چیز پر خمس کے وجوب کا بھی قائل ہوا جائے _ اس بات کی تاکید اور تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس کے ذکر کے بعد بھیڑ بکریوں کی زکات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر وہ کاشتکاری کریں گے تو ان سے بھیڑ بکریوں کی زکات معاف ہوگی _البتہ بظاہر یہ بات انہیں زراعت کی ترغیب دینے کے لئے کی گئی تھی _

معدنیات اور مدفون خزانوں پر بھی خمس ہے

اہل سنت کے نزدیک بھی معدنیات اور مدفون خزانوں پر خمس کا حکم ثابت ہے(۲)

____________________

۱) طبقات ابن سعد ج ۴ حصہ ۲ ص ۱۶۷ نیز از مجموعة الوثائق السیاسیہ ص ۲۱۹ ، رسالات نبویہ ص ۲۲۸ ، کنز العمال ج ۷ ص ۶۵و جمع الجوامع مسند عمروبن مرّہ اور اسے مرآة العقول ج ۱ میں النہایہ ابن اثیر اور لسان العرب لفظ '' صرم '' سے نقل کیا گیا ہے _

۲)الاموال ابوعبید ج ۳۳ ص ۳۳۷، ص ۴۷۳، ص ۴۷۷، ص ۴۷۶، ص ۴۶۸، ص ۴۶۷، نصب الرایہ ج ۲ ص ۳۸۲، ص ۳۸۱ و ص ۳۸۰، مسند احمد ج ۲ ص ۲۲۸ ، ص ۲۳۹، ص ۲۵۴، ص ۲۷۴، ص ۳۱۴، ص ۱۸۶، ص ۲۰۲، ص ۲۸۴، ص ۲۸۵، ص ۳۱۹، ص ۳۸۲ ، ص ۳۸۶، ص ۴۰۶، ص ۴۱۱، ص ۴۱۵، ص ۴۵۴،ص ۴۵۶،ص ۴۶۷، ص ۴۷۵، ص ۴۸۲، ص ۴۹۳، ص ۴۹۵، ص ۴۹۹، ص۱ ۵۰و ص ۵۰۷، ج ۳ ص ۳۵۴، ص ۳۵۳،ص ۳۳۶، ص ۳۵۶، ص۳۳۵، ص ۱۲۸و ج ۵ ص ۳۲۶، کنز العمال ج ۴ ص ۲۲۷و ص ۲۲۸، ج ۱۹ ص ۸و ص ۹و ج ۵ص ۳۱۱ ، مستدرک حاکم ج ۲ ص ۵۶، مجمع الزوائد ج ۳ ص ۷۷ و ص ۷۸و از طبرانی در الکبیر و الاوسط و از احمدو بزار ، المصنف عبدالزراق ج ۱۰ ص ۱۲۸ و ص ۶۶، ج ۴ ص ۱۱۷ ، ص ۶۴ص ۶۵، ص ۱۱۶ و ص ۳۰۰ و ج ۶ ص ۹۸ از خمس العنبر، مقدمہ مرآة العقول ج ۱ ص ۹۷ و ص ۹۶،المغازی واقدی ص ۶۸۲، سنن بیہقی ج ۴ ص ۱۵۷، ص ۱۵۶و ص ۱۵۵ و ج ۸ ص ۱۱۰ ، المعجم الصغیر ج۱ ص ۱۲۰، ص ۱۲۱و ص ۱۵۳ ، الطحاوی ج ۱ ص ۱۸۰، سنن نسائی ج ۵ ص ۴۴و ص ۴۵،بخاری طبع مشکول ج ۲ ص ۱۵۹ ، ص و ۱۶۰ در باب'' فی اکاز الخمس'' نیز درباب ( ...بقیہ اگلے صفحہ پر ...)

۴۳۴

اصطخری کہتا ہے : '' حکام معدنیات کا خمس بھی لیا کرتے تھے ''(۱) _

اور مالک اور مدینہ والوں کے علاوہ اہل سنت کے باقی مکاتب فکر نے زمین میں چھپی ہوئی چیزوں میں سے معدنیات پر خمس کو واجب قرار دیا ہے اور اسے مال غنیمت کی طرح جانا ہے(۲) _ لیکن ابوعبید کہتا ہے کہ یہ مدفون خزانے کے زیادہ مشابہ ہے(۳) _

اسی طرح عمر بن عبدالعزیز نے عروہ کو خط لکھ کر اس سے خمس کے متعلق بزرگان کا نظریہ پوچھا تو عروہ نے جواب میں لکھا کہ عنبر بھی مال غنیمت کی طرح ہے اس کا خمس لینا واجب ہے(۴) _ شیبانی کہتا ہے کہ معدنیات اور مدفون خزانوں پر بھی خمس واجب ہے اوریہ بھی اضافی چیزوں میں سے ہیں(۵) _ نیز حضرت علی علیہ السلام نے بھی یمن میں مدفون خزانے کا خمس نکالاتھا _ البتہ اس بارے میں بعد میں گفتگو کریںگے_ اسی طرح جابر سے بھی مروی ہے کہ '' جو بھی اضافی مال حاصل ہو اس پر خمس واجب ہے'' _ نیز اسی طرح کی ایک اور روایت ابن جریح سے بھی مروی ہے(۶) _ نیز روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جو شخص بھی دشمن سے کوئی زمین لے اور اسے سونے یا چاندی و غیرہ کے بدلے میں بیچے تو اس کا خمس بھی نکالنا ضروری ہے(۷) _

____________________

'' من حفربئراً فی ملکہ '' نیز مطبوعہ ۱۳۰۹ ھ ج ۴ ص ۱۲۴ ، الہدایہ شرح البدایہ ج۱، ص ۱۰۸، خراج ابویوسف ص ۲۶سنن ابن ماجہ ج ۲ ص ۸۳۹ و ص ۸۰۳ ، سنن ابو داؤد ج ۳ ص ۱۸۱و ج ۴ ص ۱۹، شرح الموطا زرقانی ج ۲ ص ۳۲۱، کتاب الاصل شیبانی ج ۲ ص ۱۳۸، سنن دارمی ج ۱ ص۳۹۳ و ج ۲ ص ۱۹۶، نیل الاوطارج ۴ص ۲۱۰، موطا ج ۱ ص ۲۴۴ و ج ۳ ص ۷۱( مطبوعہ با تنویر الحوالک ) ، منحة المعبود ج ۱ص ۱۷۵، ترمذی ج ۱ ص ۲۱۹و ج ۳ ص ۱۳۸ ، صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۲۷، ص ۱۱و ص ۲۲۵، العقد الغرید ، نہایة الارب، الاستیعاب ، تہذیب تاریخ دمشق ج ۶ ص ۲۰۷ ، تاریخ بغداد ج ۵ ص ۵۳ و ص ۵۴، مصابیح السنہ طبع دار المعرفہ ج ۲ ص ۱۷ ، المسند حمیدی ج ۲ ص ۴۶۲ و مسند ابویعلی ج ۱۰ ص ۴۳۷، ص ۴۶۱و ص ۴۵۹و ج ۱۱ص ۲۰۲نیز اس کے حاشیہ میں ملاحظہ ہوں کثیر منابع _

۱)مسالک الممالک ص ۱۵۸_ (۲) ملاحظہ ہو : الاموال ابوعبید ص ۴۷۲_ (۳)الاموال ص ۴۷۴_

۴)المصنف عبدالرزاق ج ۴ ص ۶۴و ص ۶۵_ (۵)کتاب الاصل شیبانی ج ۲ ص ۱۳۸_ (۶) المصنف عبدالرزاق ج ۴ ص ۱۱۶_

۷)المصنف عبدالرزاق ج ۵ ص ۱۷۹و ص ۱۸۰و ص ۱۸۱و ج ۹ ص ۶۷ و تحف العقول ص ۲۶۰_

۴۳۵

بہرحال یہ باتیں تو ہر کسی کے سمجھ میں آنے والی ہیں کہ گذشتہ تمام چیزوں کا شمار جنگ کے مال غنیمت سے نہیں ہوتا لیکن ان پر بھی خمس کا حکم لگایا گیا ہے تو پھر خمس والی آیت کو جنگ کے مال غنیمت سے مخصوص کرنے کا کیا معنی رہ جاتا ہے ؟ بہرحال اتنا ہی کافی ہے کیونکہ ہدایت کے متلاشیوں کے لئے اس میں کافی قانع کنندہ دلائل موجود ہیں _

لطیفہ

یہاں مزے کی ایک یہ بات بھی ذکر کی جاتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے بھی اپنے مال کا خمس نکالنے کی وصیت کرتے ہوئے کہا : '' میں اس چیز کی سفارش کر رہا ہوں جسے خدا نے اپنے لئے پسند فرمایا ہے '' پھر اس آیت کی تلاوت کی :( و اعلموا انما غنمتم من شیی فان للہ خمسہ و للرسول )(۱)

خمس لینے والے نمائندے

ایسا لگتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صدقات لینے والے نمائندوں کی طرح خمس لینے والے نمائندے بھی تھے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرو بن حزم کو یمنی قبیلے بنی عبد کلال سے خمس لینے کا حکم دے کریمن بھیجا تھا اور اس کے خمس بھیجنے پر ان کا شکر یہ بھی ادا کیاتھا _ اور حضرت علی علیہ السلام کو خالدبن ولید سے مال غنیمت کا خمس وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا(۲) _

بلکہ ابن قیم کہتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو خمس لینے اور قضاوت کے لئے یمن بھیجا(۳)

____________________

۱)المصنف عبدلرزاق ج ۹ ص ۶۶_

۲) نصب الرایہ ج ۲ ص ۳۸۲، المصنف عبدالرزاق ج ۴ ص۱۱۶ ، مجمع الزوائد ج ۳ ص ۷۸ نیز ملاحظہ ہو: بحارالانوار ج ۲۱ ص ۳۶۰ از اعلام الوری _

۳)-البدایہ و النہایہ _

۴۳۶

اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ یمنیوں نے بخوشی اسلام قبول کیا تھا اور مسلمانوں اور یمنیوں کے در میان کسی قسم کی کوئی لڑائی نہیں ہوئی تھی _ اور حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمن میں مدفون خزانے پر خمس نکالاتھا(۱)

نیز محمیہ بن جزء قبیلہ بنی زبید کا ایک فرد تھا ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے خمس وصول کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی(۲) _

اور حضرت علیعليه‌السلام کو خمس کی وصولی کیلئے بھیجنے والی بات کی یہ تاویل بھی نادرست ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں صدقات کی وصولی کے لئے بھیجا تھا _ کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی ہاشمی کو صدقات کی وصولی کا کام نہیں سونپتے تھے اور اس بارے میں عبدالمطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس کا واقعہ بھی بہت مشہور ہے(۳)

بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے غلاموں کو بھی ایسا کام نہیں سونپتے تھے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابو رافع کو بھی اس کام سے منع کرتے ہوئے اس سے فرمایا تھا : '' کسی قوم اور گروہ کا غلام بھی انہی کی طرح ہوتا ہے اور ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے ''(۴)

کتاب اور سنت میں خمس کے استعمال کے مقامات

قرآن مجید میں خمس کی آیت اس بات پر تصریح کرتی ہے کہ خمس خدا ، اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں ، یتیموں، مسکینوں اور غریب مسافروں کے لئے ہے _ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی رحلت تک اپنے قریبیوں کو خمس کا حصہ دیا کرتے تھے(۵)

____________________

۱)زاد المعاد ج ۱ ص ۳۲ نیز ملاحظہ ہو : سنن ابوداؤد ج ۳ ص ۱۲۷ باب کیف القضائ_

۲) الاموال ابوعبید ص ۴۶۱_

۳)مجمع الزوائد ج ۳ ص ۹۱ ، اسد الغابہ تعارف عبدالمطلب بن ربیعہ ، نوفل بن حارث و محمیہ ، صحیح مسلم ج ۳ ص ۱۱۸ باب تحریم الزکاة علی آل النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، سنن نسائی ج ۱ ص ۳۶۵، سنن ابو داؤد ، الاموال ابوعبید ص ۳۲۹، المغازی واقدی ص ۶۹۶، ص ۶۹۷، تفسیر عیاشی ج ۲ ص ۹۳_

۴)سنن ابوداؤد کتاب الزکاة ج ۲ ص ۲۱۲، ترمذی کتاب الزکاة ج ۳ ص ۱۵۹، نسائی کتاب الزکاة ج ۱ص ۳۶۶ ، مجمع الزوائد ج ۳ ص ۹۰و ص ۹۱، کنز العمال ج ۶ص ۲۵۲تا ص ۲۵۶، امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۱۷، بحار الانوار ج ۹۶ص ۵۷ ، سنن بیہقی ج ۷ ص ۳۲_

۵)ملاحظہ ہو : تفسیر طبری ج ۱۵ ص ۵۰۴و ص ۵۰۶نیز اس کے حاشیہ پر تفسیر نیشابوری ج ۱۵، احکام القرآن جصاص ج ۳ ص ۶۵و ص ۶۱و الاموال ابوعبید ص ۲۲و ص ۴۴۷، ص ۴۵۳و ص ۴۵۴_

۴۳۷

رہے یتیم اور مسکین ، تو اس بارے میں حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام سے جب مذکورہ آیت میں (والیتامی و المساکین) کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : '' اس سے مراد ہمارے یتیم اور مسکین ہیں''(۱) _

اہل بیتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روایات میں خمس

ائمہ اہل بیت کی روایتوں کے مطابق اللہ ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ذوی القربی کا حصہ امامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ہے جبکہ یتیموں ، مسکینوں اور ابن السبیل ( مسافروں) کا حصہ سادات بنی ہاشم کے لئے ہے(۲) _

اور بنی ہاشم میں بھی خاندان بنی عبدالمطلب کے لئے ہے(۳) _

اور خمس میں مرد اور عورت مشترک ہیں پس خمس کا آدھا حصہ ان تینوں قسم کے افراد میں ان کے مستحق ہونے کی صورت میں(۴) ( ان کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ قرابت داری اور غربت کی وجہ سے ) تقسیم کیا جائے گا _ اور جناب عبدالمطلب کے ساتھ ان کی مادری نسبت کافی نہیں لیکن اگر صرف پدری نسبت بھی ہو تب کفایت کرتی ہے_

اہل سنت کی روایتوں میں خمس

کتب صحاح میں ایک ایسی روایت مذکور ہے جو عہد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں خمس کے استعمال کو بیان کرتی ہے _ جبیر بن مطعم کہتا ہے کہ جنگ خیبر ( ا لبتہ ایک روایت میں جنگ حنین آیا ہے ) کے موقع پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ذوی القربی کے حصہ میں سے بنی ہاشم اور بنی مطلب کا حصہ نکالا جبکہ بنی نوفل اور بنی عبدشمس کا حصہ نہیں نکالا تو میں

____________________

۱)تفسیر نیشابوری بر حاشیہ تفسیر طبری و تفسیر طبری ج ۱۵ ص ۷_

۲)ملاحظہ ہو : وسائل الشیعہ ج ۹ ص ۳۵۶، ص ۳۵۸، ص ۳۵۹، ص ۳۶۱، ص ۳۶۲_

۳)وسائل الشیعہ ج ۹ ص ۳۵۸ ، ص ۳۵۹ و مقدمہ مرآة العقول مرتضی عسکری ج ۱ ص ۱۱۶و ص ۱۱۷_

۴)یعنی اگر سادات مستحق نہ ہوں تو خمس نہیں لے سکتے _ اور بڑی بڑی کوٹھیوں اور بنگلوں والے نیز نئی ماڈل کی گاڑیوں والے تو کسی صورت میں مستحق نہیں ہیں _ اور اگر ثروت مند ہونے کے باوجود خمس لیتے ہیںتو دوسرے مستحقین کا حق غصب کرتے ہیں جو سراسر ناجائز ہے_

۴۳۸

اور عثمان بن عفان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ہم بنی ہاشم کی فضیلت کے منکر نہیںہیں کیونکہ خدا نے ان کی مدد اور حمایت کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ مقام اور مرتبہ دیا ہے _ لیکن بنی مطلب میں ایسی کیا بات ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں حصہ عطا کیا لیکن ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ ہماری رشتہ داری تو یکساں ہے ؟'' تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے فرمایا :'' زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں میں ہم اوربنی مطلب ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے ( البتہ نسائی کی روایت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہ الفاظ آئے ہیں کہ انہوں نے ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا) پس ہماری اور ان کی بات ایک ہی ہے'' اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دونوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائیں(۱) گذشتہ معروضات کے بعد یہاں ہم بعض علماء(۲) کی فرمائشےات کے خلاصے کو کچھ کمی بیشی کے ساتھ نقل کرنا چاہتے ہیں اور وہ مندرجہ ذیل ہے:

عہد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خمس کا استعمال

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد خمس بہت سی تبدیلیوں کا شکار ہوا جس کا ذکر ذیل میں آئے گا _

خلیفہ اوّل کے دور میںاگر ہم جناب ابوبکر کے اور اس دور کے حالات کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس وقت حکومت کی ساری توجہ اس نئی حکومت کے مخالف گروہوں اور ابوبکر کی بیعت نہ کرنے والوں کی

____________________

۱)صحیح بخاری باب غزوة خبیر ج ۳ ص ۳۶مطبوعہ ۱۳۱۱ ، ج ۴ ص ۱۱۱ و ج ۶ ص ۱۷۴، سنن ابو داؤد ج ۳ ص ۱۴۵و ص ۱۴۶، تفسیر طبری ج ۱۵ ص ۵، مسند احمد ج ۴ ص ۸۱، ص ۸۵و ص ۸۳، سنن نسائی ج ۷ص ۱۳۰و ص ۱۳۱، سنن ابن ماجہ ص ۹۶۱، المغازی واقدی ج ۲ ص ۶۹۶، الاموال ابوعبید ص ۴۶۱و ص ۴۶۲، سنن بیہقی ج ۶ ص ۳۴۰تا ص ۳۴۲، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۲۰۹، المحلی ج ۷ ص ۳۲۸، البدایہ و النہایہ ج ۴ ص۰ ۲۰ ، شرح نہج البلاغہ ج ۱۵ص ۲۸۴، مجمع الزوائد ج ۵ص ۳۴۱و نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۲۸از برقانی و بخاری و غیرہ ، الاصابہ ج ۱ ص ۲۲۶و بدایة المجتہد ج ۱ ص ۴۰۲، الخراج ابو یوسف ص ۲۱و تشیید المطاعن ج ۲ ص ۸۱۸و ص ۸۱۹ از زاد المعاد، الدر المنثور ج ۳ ص ۱۸۶از ابن ابی شیبہ ، البحرالرائق ج ۵ ص ۹۸و تبیین الحقائق ج ۳ ص ۲۵۷و نصب الرایہ ج ۳ ص ۴۲۵و ص ۴۲۶ ، مصابیح السنہ ج۲ ص ۷۰، تفسیر القرآن العظیم ج ۲ ص۳۱۲ ، فتح القدیر ج ۲ س ۳۱۰، لباب التاویل ج ۲ ص ۱۸۵، مدارک التنزیل ( مطبوعہ بر حاشیہ خازن ) ج ۲ ص ۱۸۶و الکشاف ج ۲ ص ۲۲۱_نیز مذکورہ بات مندرجہ ذیل منابع سے بھی منقول ہے : الجامع لاحکام القرآن ج ۷ ص ۱۲، فتح الباری ج ۷ ص ۱۷۴ وج ۶ ص ۱۵۰ ، تفسیر المنار ج ۱۰ ص ۷ ، ترتیب مسند الشافعی ج ۲ ص ۱۲۵و ص ۱۲۶و ارشاد الساری ج ۵ ص ۲۰۲_ (۲) اس سے مراد علامہ بزرگوار جناب سید مرتضی عسکری صاحب ہیں_

۴۳۹

سرکوبی کے لئے لشکر کی فراہمی اور ترسیل پر تھی _ اس لئے اس وقت خمس اور خاص کر ذوالقربی کے حصہ کو اسلحہ اور سواریوں کے بندو بست میں خرچ کیا _ اسی بناپر مؤلفین نے ذکر کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد صحابیوں میں خمس کے متعلق اختلاف پیدا ہوگیا _ ایک گروہ نے کہا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حصہ ان کی رحلت کے بعد خلیفہ کے لئے ہے _ دوسرے گروہ نے کہا کہ ذوی القربی کا حصہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں کے لئے ہے ، جبکہ ایک اور گروہ نے کہا کہ ذوی القربی کا حصہ خلیفہ کے قرابت داروں کے لئے ہے _ جس پر آخر میں سب نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ذوی القربی کے حصول کو لشکر کی تجہیز اور تیاری میں خرچ کردیا جائے _

سنن نسائی اور الاموال ابوعبید میں آیا ہے کہ یہ صورتحال ابوبکر اور عمر دونوں کی خلافت کے دور میں رہی _ البتہ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ابوبکر نے قریبیوں کے حصے کو مسلمانوں میں تقسیم کر کے اسے '' فی سبیل اللہ '' کا حصہ قرار دیا _ قریب قریب ایسی ہی ایک اور روایت ذکر ہوئی ہے جس میں ابوبکر کے ساتھ عمر کا ذکر بھی ہے _ اور اس کے علاوہ بھی کئی روایات ہیں(۱) _

ان تمام باتوں کی وضاحت جبیر بن مطعم کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بنی ہاشم اور بنی مطلب کا حصہ تو خمس سے نکالتے تھے لیکن بنی عبد شمس اور بنی نوفل کا حصہ بالکل نہیں نکالتے تھے _ اور ابوبکر بھی جناب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرح خمس کو تقسیم کیا کرتا تھا لیکن جس طرح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنے قریبیوں کو حصہ دیا کرے تھے ابوبکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں کو وہ حصہ نہیں دیتا تھا(۲) _

خلیفہ ثانی کے دور میں

خلیفہ ثانی کے دور میں فتوحات زیادہ ہوگئیں اور مال زیادہ ہوگیا تو خمس کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا گیا _

____________________

۱) ان تمام باتوں اور اس سے متعلق دیگر باتوں کے لئے ملاحظہ ہو : سنن نسائی ج ۲ ص ۱۷۹، کتاب الخراج ص ۲۴و ص ۲۵، الاموال ابوعبید ص ۴۶۳ ، جامع البیان طبری ج ۱۵ ص ۶ ، احکام القرآن جصاص ج ۳ ص ۶۲ و ص ۶۰، سنن بیہقی ج ۶ ص ۳۴۲و ص ۳۴۳، سنن ابو داؤد بیان مواضع الخمس ، مسند احمد ج ۴ ص ۸۳ و مجمع الزوائد ج ۵ ص ۳۴۱_

۲)مسند احمد ج ۴ ص ۸۳_

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460