الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)8%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242100 / ڈاؤنلوڈ: 6989
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

ہمیں آخری سانس اور آ خری لحظہ تک اپنے وظیفہ کو انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اپنی زندگی کے لحظات کو ایسے امور میں ضائع نہ کریں  کہ جن میں خدا کی رضایت شامل نہ ہو ۔

حضرت امیر المو منین  (ع) فرما تے ہیں :

'' انّ انفا سک اجزاء عمرک ، فلا تفنها الاَّ فی طاعةٍ تزلفک ''(1)

تمہاری سانسیں تمہاری زندگی کے اجزا ء ہیں لہذا انہیں ضائع نہ کریں مگر ایسی عبادت میں کہ جوتمہارے لئے بیشتر تقرب کا باعث بنے۔

ہمارے بزرگان نے زندگی کے آخری لمحات اور آخری سانسوں تک فرصت اور وقت سے  بہترین استفادہ کیا ۔

شیعہ تاریخ  کے علماء و بزرگ شخصیات میں سے بر جستہ شخصیت آیت اللہ العظمیٰ حاج سید محمد حجت ایسے افراد میں سے تہے ۔

مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ مرتضی حائری اس بزرگوار کے بارے میں یوں لکہتے ہیں کہ وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی  کے زمان میں تقریباً مرجع مطلق یا اکثر آذر بائیجان کے مرجع تہے تہران میں مقیم آذر بائیجانی اور بعض غیر آذر بائیجانی ان کی طرف مراجعہ کرتے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ غرر الحکم :ج2  ص9 9 4

۱۰۱

جس سال سردیوں کے اوائل میں وہ مرحوم ہوئے ، اس وقت موسم ابہی تک مکمل طور پر سرد نہیں ہوا تہا ، وہ گہر کی تعمیر میں مشغول تہے گہر کے ایک حصے کو توڑ چکے تہے تا کہ جدید گہر تعمیر کر سکیں اور گہر کے دوسرے حصے میں کاریگر دوسرے کاموں میں مصروف تہے جیسے کنویں کی کہودائی یا اس میں پتہر لگانا ، ان تعمیرات کے بانی ان کے ایک ارادتمند تہے ۔ ایک دن صبح کے وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوا وہ تخت پر تشریف فرما تہے اور ان کی حالت عادی تہی وہ اکثر دمہ کی وجہ سے سر دیوں میں نفس تنگی کا شکار ہوتے تہے لیکن اس وقت سرد موسم کے باوجود ان کی حالت عادی و معمول کے مطابق تہی ۔ مجہے اطلاع ملی کہ انہوں نے ٹہیکے دار اور دیگر کاریگر وں کو کام سے فارغ کر دیا ہے ۔ میں نے کہا کہ آغا آپ نے انہیں کیوں جواب دے دیا ؟ انہوں نے بڑے وثوق و صراحت سے کہا کہ ! مجہے لگتا ہے کہ میں مرجاؤں گا تو پہر یہ گہر کی تعمیر کس لئے ؟

پہر میں نے بہی کچہ نہ کہا دوسرے دن شاید بروز چہار شنبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا سید احمد زنجانی ان کے پاس بیٹہے تہے انہوں نے جائیداد کے کاغذات و اسناد آغا زنجانی کو دیئے اور ایک  چہوٹے صندوق میں پڑہی نقد رقم مجہے دی کہ اسے معین مصارف میں صرف کرو ں اور اس میں سے کچہ حصہ مجہے عطا فرمایا ۔

اس سے پہلے انہو ں نے وصیت کو چند نسخوں میں لکہا تہا کہ جن میں سے ایک انہوں نے مجہے بہیجوا یا تہا جواب بہی موجود ہے ۔ انہوں نے وصیت کی تہی کہ ان کے اور ان کے وکلا کے پاس تمام موجود رقم سہم امام ہے ۔

انہوں نے  جو زمین مدرسہ کے نام پر خریدی تہی ، وہ ان کے نام پر تہی کہ جس کا یک بڑا حصہ بعد میں آغا بروجردی کی مسجد میں شامل ہو گیا انہوں نے وصیت نامہ لکہا تہا کہ وہ زمین بہی سہم مبارک امام سے جو ارث میں نہیں دی جاسکتی اور اگر آغا بروجردی نے چا ہا تو انہیں مسجد کے لئے دے دیں ۔

۱۰۲

ان کی رقم وہ ہی صندوق میں موجود رقم میں ہی منحصر تہی اور چند دن سے وجوہات شرعیہ نہیں لیتے تہے انہوں نے جب وہ رقم مجہے دی کہ میں وہ ان کے موارد میں صرف کروں تو انہوں نے آسمان کی طرف ہاتہ بلند کئے اور کہا کہ خدا یا میں نے اپنی تکلیف  پر عمل کیا اب تو میری موت کو پہنچا دے ۔

میں نے ان کی طرف دیکہا  اور کہا کہ آغا آپ ویسے ہی اس قدر ڈر رہے ہیں آپ ہر سال سردیوں میں اسی بیماری میں مبتلا ہو تے ہیں اور پہر ٹہیک ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ نہیں میں ظہر کے وقت فوت ہو جاؤں گا میں خاموش رہا اور ان کے فرمان کے مطابق کاموں کو انجام دینے کے لئے نکل پڑا میرے دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ اسی دن ظہر کے وقت وفات نہ پاجائیں اور ان پیسوں کے بارے میں تکلیف معلوم نہ ہو کہ کیا ورثہ کو دیں یا ان موارد میں خرچ کریں ۔ اسی شک میں میں سوار ہوا اور ظہر تک ان کو انجام دیا وہ اس دن ظہر کے وقت فوت نہ ہوئے بلکہ اس چہار شنبہ کے بعد آنے والے ہفتہ کو ظہر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملے میں گہر سے باہر آیا تو اسی وقت مدرسہ حجتیہ سے اذان کی صدا بلند تہی  ۔

انہیں راتوں میں سے ایک رات انہوں نے مجہے کہا کہ مجہے قرآن دو انہوں نے قرآن کہو لا تو  پہلے  صفحہ پر یہ آیت شریفہ تہی ، '' لہ دعوة الحق '' ظاہراً انہوں نے گریہ کیا اور انہوں نے اسی رات یا دوسری رات اپنی مہر توڑدی ۔

وفات کے نزدیک ایک دن وہ اپنی آنکہیں دروازے پر لگائے بیٹہے تہے اور ایسے لگتا تہا کہ وہ کسی چیز کا مشاہدہ فر ما رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ! آغا علی تشریف لائیں لیکن کچہ دیر بعد وہ عادی حالت  پہ واپس آگئے ۔ آخری دوتین دن وہ ذکر اور خدا  سے راز ونیاز میں زیادہ مشغول ہوتے تہے ۔

۱۰۳

ان کی وفات کے دن میں نے بڑے اطمینان سے گہر میں مکاسب کا درس دیا اور پہر ان کے چہوٹے کمرے میں گیا کہ جہاں وہ لیٹے تہے ۔ اس وقت فقط ان کی بیٹی وہاں موجود تہی کہ جومیری زوجہ بہی تہیں لیکن آغا کا چہرہ دیوار کی طرف تہا اور وہ ذکر  و دعا میں مشغول تہے ۔ انہوں نے کہا کہ آغا آج کچہ مضطرب ہیں ظاہراً ان کے اضطراب کی دلیل وہ ہی زیادہ ذکر و دعا تہا میں نے سلام کیا انہوں نے میرے سلام کاجواب دیا ور کہا آج کیا دن ہے میں نے کہا ، ہفتہ ، انہوں نے فر مایا کہ آج آغابروجردی درس پہ گئے تہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے صمیم قلب سے چند بار کہا ۔ الحمد للہ ۔

غرض یہ کہ ان کی بیٹی نے کہا کہ انہیں تہوڑی سی تربت امام حسین (ع)  دیں ۔ میں نے کہا ٹہیک ہے وہ تربت لائیں میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ نوش فرمائیں وہ بیٹہ گئے میں ان کے سامنے گلاس لے گیا انہوں نے سو چا غذا یا دوا ہے انہوں  نے کچہ تلخ لہجے میں کہا یہ کیا ہے ؟ میں  نے کہا ، تربت امام حسین  ۔ ان کا چہرہ کہل گیا اور تربت اور پانی نوش فرمایا اس کے بعد میں نے ان سے یہ کلمہ سنا کہ  انہوں نے کہا'' آخر زادی من الدنیا تربة الحسین '' دنیا سے میرا آخری توشہ تربت امام حسین (ع)  ہے۔ وہ دوبارہ لیٹ گئے میں نے دوسری مرتبہ ان کی فرمائش پر دعاء عدیلہ قرائت کی ۔ ان کے دوسرے بیٹے آغا سید حسن رو بہ قبلہ بیٹہے تہے اور آغا تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹہے ہوئے پڑہ رہے تہے اور وہ خدا وند متعال کے سامنے بڑی شدت اور صمیمیت سے اپنے عقائد کا اظہار کر رہے تہے ۔

مجہے یاد ہے کہ وہ امیر المو منین علی(ع)  کی خدمت کے اقرار کے بعد ترکی زبان میں یہ کہہ رہے تہے :بلافصل ، ہیچ فصلی یخدی ، لاپ بلا فصل لاپ بلا فصل ، کیمین بلا فصل وار؟

۱۰۴

آئمہ معصو مین علیہم السلام کے بارے میں انہوں نے اس آیت کی تلاوت فرمائی '' الم تر کیف ضرب اللّٰه مثلاً کلمةً طیّبةً کشجرةٍ طیّبةٍ اصلها ثابت و فرعها فی السماء ''(1)

کیا تم نے نہیں دیکہا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے ۔

میں وہاں کہڑا اس معنو ی منظر کا مشاہدہ کر رہا تہا میرے ذہن میں آیا کہ ا ن سے کہوں کہ آغا میرے لئے بہی دعا فرمائیں لیکن شرم مانع ہوئی کیو نکہ وہ اپنے حال میں مشغول تہے اور کسی دوسری جانب متوجہ نہیں تہے کیو نکہ وہ موت سے پہلے اپنے خدا کے  ساتہ راز ونیاز کر رہے تہے اور معنوی وظائف انجام دے رہے تہے اور ثانیاً یہ تقا ضا کرنا اس چیز کی طرف اشارہ تہا کہ ہم بہی آغا کی موت کی طرف متوجہ ہیں اور ان کی موت کے سامنے تسلیم ہو چکے ہیں ۔

میں خاموشی سے کہڑا اس ماجرا کو دیکہ رہا تہا وہاں آغا سید حسن ، ان کی بیٹی اور خاندان کے دوسرے افراد موجود تہے۔ میں نے یہ بہی سنا کہ آغا کہہ رہے تہے ! خدا یا میرے تمام عقائد حاضر ہیں وہ تمام تجہے سپرد کر دیئے اب مجہے لوٹا دو ۔

میں وہیں کہڑا ہوا تہا اور وہ بہی اسی حالت میں تکیہ پر ٹیک لگائے رو بہ قبلہ

بیٹہ تہے  ۔ اچانک انکی سانس رک گئی ہم نے سوچا کہ شاید ان کا دل بند ہوا ہے ہم نے ان کے منہ میں کرامین کے چند قطرے ڈالے لیکن دوا ان کی لبوں کی اطراف سے باہر نکل آئی ۔ وہ اسی وقت وفات پاگئے تہے اس پانی اور تربت امام حسین  کے بعد کرامین کے چند قطرے بہی ان کے حلق تک نہیں پہنچے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ ابراہیم آیت: 4 2

۱۰۵

مجہے یقین ہوگیا کہ آغا فوت ہوگئے ہیں میں گہر سے باہر آیا تو مدرسہ حجتیہ سے اذان کی آواز سنی   ان کی وفات اول ظہر کے قریب تہی جس کے بارے میں انہوں نے چہار شنبہ کو کہاتہا کہ میری موت ظہر کے وقت واقع ہو گی ۔

یہ مرد بزرگوار وہ تہے کہ جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں ، سفر کی تمام قید و شرط کی رعایت کی اور وجوہات شرعیہ کے مصرف کو بہی کاملاً واضح کرد یا کہ اس میں ورثہ کو کچہ بہی نہ ملا ۔

ایک ایمان محکم شخص کی یہ گزشتہ داستان چند چیزوں پر مشتمل ہے :

1 ۔ ان کا ظہر کے وقت اپنی  موت کے بارے میں خبر دینا اور پہر حقیقتاً ان کی موت ظہر کے وقت واقع ہوئی ۔

2 ۔ وہ مکاشفہ کہ جس میں انہوں نے حضرت امیر المو منین(ع)  کو دیکہا تہا ۔

3 ۔ ان کا یہ خبر دینا کہ ان کا آخری توشہ تربت امام حسین  (ع)ہو گا اور پہر ایسا ہی ہوا  ۔

مرحوم آیة اللہ العظمیٰ آغا حجت مو لا امیر المومنین (ع) کے فرمان کے واضح مصداق ہیں کہ :

'' انّ انفاسک اجزاء عمرک فلا تفنها الاَّ فی طاعة تزلفک ''

انہوں نے زندگی کے آخری لمحے اور آخری سانس کو راہ عبادت اور اطاعت خداوند میں بسر کیا ۔

جولوگ شیعہ  بزرگوںکی زندگی سے درس لیتے ہیں وہ آخری لحظہ تک مقام عبودیت اور اپنی  ذمہ  داری  کو انجام دیتے ہیں آخرت میں خداوند کریم کا خاص لطف ان کے شامل حال ہو گا ور اہل بیت  علیہم  السلام  کے جوار رحمت میں قرار پائیں گے ۔

۱۰۶

نتیجہ ٔ بحث

وقت اہم ترین نعمت ہے کہ جو خداوند تعالیٰ نے آپ کو عنایت کی ہے یہ آپ کی زندگی اور وجود کا بہترین اور بزرگترین سرمایہ ہے اسے بہترین راہ اور عالی ترین ہدف میں مصرف کریں ۔

آپ کی موجودہ وضعیت ، آپ کے گزشتہ اعمال و کردار کا نتیجہ و محصول ہے اور آپ کا مستقبل ، آپ کے حال کی رفتار و کردار کا ثمرہ ہوگا ۔

اگر آپ ارزشمند اور اعلیٰ اہداف کے خواہاں ہیں اگر آپ روشن مستقبل کے امید وار ہیں تو اپنے وقت کو فضول ضائع نہ کریں ۔

آپ متوجہ رہیں کہ اگر آپ نے اپنے ماضی سے استفادہ نہ کیا ہو اور آپ کو گزرے ہوئے کل پر افسوس ہو تو آپ اب اس طرح سے زندگی بسر کریں کہ آپ کو آئندہ اپنے آج پر شرمندگی و افسوس نہ ہو ۔

جستجو اور کوشش کے ذریعہ اپنے ماضی کا جبران اور باقی ماندہ فرصت سے بہترین طریقے سے استفادہ کریں اورجو لوگ اپنے گزرے ہوئے وقت سے درس عبرت  لیتے ہیں اپنے لئے درخشاں اور روشن مستقبل کا انتخاب کرتے ہیں ۔

قدر وقت از نشناشی تو و کاری نکنی

پس خجالت کہ از این حاصل اوقات بری

اگر آپ وقت کی قدر و اہمیت کو نہیںپہچانیں گے اور کوئی کام انجام نہیں دیں گے تو وقت ضائع کرنے کے بعد صرف شرمندگی حاصل ہو گی ۔

۱۰۷

ساتواں باب

اہل تقویٰ کی صحبت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''  اکثر  الصّلاح و الصّواب فی صحبة اولی النهیٰ والا لباب ''

اکثر و بیشتر اصلاح اور درستی صاحبان عقل و خرد کی صحبت میں ہے ۔ ۔

    صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

    جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

   1 ۔ علماء ربانی کی صحبت

   2 ۔ صالحین کی صحبت

    اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

    جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

   1 ۔ چہوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

   2 ۔ گمراہوں کی صحبت

   3 ۔ خواہش پرستوں کی صحبت

    ۴ ۔ شکّی لوگوں کی صحبت

    نتیجۂ بحث

۱۰۸

صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

معنوی مقاصد تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن ان میں سے کون سا راستہ اہم ترین ہے کہ جو انسان کو جلد منزل و مقصد تک پہنچا دے ۔

اس بارے میں مختلف عقائد و نظریات ہیں ہر گروہ کسی راہ کو اقرب الطرق کے عنوان سے قبول کرتاہے اور اسے نزدیک ترین ، بہتر اور سریع ترین راہ سمجہتے ہیں ان میں سے بعض نیک اور صالح افراد کے ساتہ ہمنشینی کو اقرب الطرق سمجہتے ہیں ۔

ان میںسے جو نظریہ صحیح لگتاہے وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے ہمنشینی کہ جو خدا کو خدا کے لئے چاہیں نہ کہ اپنے لئے ، اور ان کی صحبت کہ جو اپنے اندر حقیقت ایمان کو واقعیت کے مرحلہ تک پہنچا ئیں ۔ یہ فوق العادہ اثر رکہتا ہے ۔

اسی وجہ سے کائنات کے پہلے مظلوم حضرت امیر المو منین(ع)  اپنے دل نشین کلام میں فرماتے ہیں :

'' لیس شیء اوعیٰ لخیر و انجیٰ من شرّ من صحبة الاخیار '' (1)

اچہے افراد کی صحبت سے بڑہ کر کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو انسان کو بیشتر خوبیوں کی دعوت دے اور برائیوں  سے نجات دے  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غر ر الحکم :ج5ص  87

۱۰۹

کیو نکہ معاشرے کے شریف اور صالح افراد کے ساتہ بیٹہنا انسان کے لئے شرف و ہدایت کا باعث ہوتا ہے جو زنگ آلود دلوں کو صاف اور منور کر تا ہے اور انسان کو معنویت کی طرف مائل کرتاہے ۔

حضرت امام زین العابدین (ع) فر ماتے ہیں :

'' مجالسة الصالحین داعیة الی الصلاح '' (1)

صالح افراد کی صحبت انسان کو صلاح کی دعوت دیتی ہے  ۔

ایسے افراد میں معنوی قوت و طاقت ، ان کے ہمنشین حضرات میں بہی نفوذ کرتی ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتہ ان کے اعمال و کردار و رفتار ان ہی کی مانند ہو جاتے ہیں ۔

کبہی ایسے افراد کا دوسروں میں معنوی نفوذ جلد ہو تا ہے جس میں طولانی مدت کی صحبت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ بلکہ ایک نشست یا ایک نگاہ یا ایک دلنشین جملہ دوسروں کی فکر ی و اعتقادی وضعیت کو بدل کر ان میں حیات جاویداں ایجاد کر تا ہے ۔

جی ہاں ، نیک افراد کے مجمع میں دوسرے بہی ان سے معطر ہو کر نیک اور اچہے لوگوں کی صف میں آجاتے ہیں نیک لوگوں کی نورانیت و پاکیزگی دوسروں پر بہی اثر انداز ہوتی ہے اور ان کے قلب کی آلودگی و ظلمت کو دور کر کے اپنی طرف جذب کر تی ہے۔

نیک اور پاکیزہ افراد کی صحبت سے قلب کی پاکیزگی میں اضافہ ہو تا ہے ۔ اچہے لوگوں کے ساتہ رہنا اچہائی سکہا تا ہے اور نیک اور خود ساختہ افراد کے ہمراہ رہنا ، انسان بناتا ہے اور ان پر ہونے والی توجہات ان کے ہمراہ رہنے والوں کو بہی شامل ہو تی ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ اصول کافی:ج 1ص  20

۱۱۰

یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی طرف دعاؤں میں بہی اشارہ ہواہے ۔ مرحوم شیخ مفید   کتاب مزار میں ایک دعانقل فرماتے ہیں کہ آئمہ معصومین  کی زیارت کے بعد اس دعا کو پڑہنا مستحب ہےاوراس دعا کے ایک حصے میں یوں بیان ہو اہے :

'' یا ولیّ اللّٰه عزّ و جلّ حظّی من زیارتک تخلیطی بخالصی زوّارک الّذین تسأل اللّٰه عزّ و جلّ فی عتق رقابهم و ترغب الیه فی حسن ثوابهم ''

اے ولی خدا ! اپنی زیارت سے مجہے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے   کہ جن افراد کی خداوند کریم سے آزادی چاہتے ہو اور جن کے لئے خدا سے نیک ثواب اور جن کے لئے خدا کی رغبت چاہتے ہو ۔ ۔

جس طرح خشک و تر ایک ساتہ جل جاتے ہیں جس طرح پہول اور کانٹے ایک ہی چشمہ سے سیراب ہو تے ہیں جس طرح باغبان کی گلستان پر پڑنے والی محبت آمیز نگاہ میں باغ میں موجود کانٹوں کو بہی شامل کر تی ہے اور پہول کی خوشبو سے کانٹے بہی معطر ہو جاتے ہیں جس طرح پہول فروخت کرنے والے پہول کو کانٹوںکے ساتہ فروخت کر تے ہیں اسی طرح خریدار بہی پہول کو کانٹوں سمیت خرید تا ہے اسی طرح جو نیک افراد کی خدمت میں حاضر ہو وہ ان پر پڑنے والے تابناک انوار سے بہی بہرہ مند ہو تا ہے ۔

اسی لئے زیارت کے بعد پڑہی جانے والی دعامیں امام  کی خدمت میں عرض کر تے ہیں کہ اے ولی خدا ! مجہے اپنی زیارت سے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے ۔

نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹہنا ایک ایسے نسخہ کیمیا کی مانند ہے کہ جو اولیاء خدا کے اطراف بدن میں موجود ہو تا ہے کہ جو ان کے ہمراہ اور ان کی صحبت میں بیٹہنے والے شخص میں موجود ضعف کو ختم کرکے اسے شہامت و ا چہائی عطا کر تے ہیں اسے بال و پر عطا کر تے ہیں تاکہ وہ معنویت کی بیکراں فضا میں پرواز کر سکے اور عالم معنی کی لذّتوں سے مستفید ہو ۔

۱۱۱

انسان ایک دوسرے کی صحبت اور ہمنشینی سے ایک دوسرے پر مثبت و منفی اثرات مرتب کر تا ہے  انسان کی نفسیات اور اعتقا دات مختلف ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ان میں کیفیت کے لحاظ  سے بہت  تفاوت ہو تا ہے ۔ اسی طرح ان افراد میں ایک دوسرے پر اثر گزاری کی مقدار و کمیت کے لحاظ سے بہی درجات کا اختلاف ہو تا ہے ۔

افراد کی ایک دوسرے سے مصاحبت ، ہمنشینی اور رفاقت سے افراد کی فکری اور اعتقادی خصوصیات ایک دوسرے کی طرف منتقل ہو تی ہیں ۔

عام طور پر صاحب یقین افراد دوسروں پر زیادہ اثر چہوڑ تے ہیں کیو نکہ یہ ارادہ و نفوذ رکہتے ہیں لہذا یہ اپنی فکری اور اعتقادی خصوصیات دوسروں میں ایجاد کر تے ہیں یا انہیں تقویت دیتے ہیں ۔ معنوی افراد کی صحبت ، صرف مقابل کی فکری خصو صیات میں تحول ایجاد کر تا ہے اور غیر سالم اور غلط افکار کو صحیح اعتقادات میں تبدیل کر تا ہے لیکن یہ ایک قانون کلی ہے کیو نکہ جس طرح دین ایک آگاہ و عالم شخصیت کو دستور دیتا ہے کہ جاہل اور نا آگاہ افراد میں جا کر انہیں دین و مذہب کی طرف لائیں اور انہیں تشیع کے حیات بخش دستورات سے آشنا کروا ئیں ۔ اسی طرح وہ دستور و حکم دیتا ہے کہ پست اور منحرف افراد سے ہمنشینی سے دور رہو کہ جب ان کے ساتہ آمد و رفت تم پر اثر انداز ہو ۔

یہ تشخیص دینا عالم اور با خبر شخص کی  ذمہ  داری ہے کہ جاہل افراد کی ہمنشینی کس حد تک منفی یا مثبت اثرات رکہتی ہے ؟ کیا وہ دوسروں میں نفوذ کر تا ہے اور ان افکار و عقائد کو کمال کی طر ف لے جارہا ہے یا ان کی نفسیات اس پر مسلط ہو چکی ہے اور ان کی صحبت اس پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہے؟ کیا وہ دوسروں پر اثر انداز ہو رہا ہے یا دوسرے اس پر اثر انداز ہو رہے ہیں ؟

لہذا اہل علم کا یہ وظیفہ و ذمہ داری ہے کہ وہ لو گوں کو تبلیغ کریں اور اپنے روحانی و نفسانی حالات کی جانب بہی متوجہ رہیں تاکہ دوسروں کے تحت تاثیر قرار نہ پائیں ۔

۱۱۲

جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

ہم جلد ایسے افراد کے بارے میں بحث کریں گے کہ جن کی صحبت انسان کی علمی و عملی ترقی کے لئے نقصان دہ ہے اب ہم نمونہ کے طور پر چند ایسے افراد کا ذکر کر تے ہیں کہ جن کی صحبت اور ہمنشینی معنوی سیر اور پرواز کا باعث ہے :

1 ۔ علماء ربانی کی صحبت

ان افراد کی صحبت اور ہمنشینی کے بہت زیادہ آثار اور فوائد ہیں مخصوصا اگر انسان ان کے لئے خاص احترام و محبت کا قائل ہو ۔

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں :

'' لا تجلسوا عند کلّ عالمٍ الاَّ عالم یدعوکم الی الاخلاص '' (1)

ہر عالم کے پاس نہ بیٹہو مگر اس عالم کے پاس کہ جو تمہیں ریا سے روکے اور اخلاص کی طرف لے کر جائے ۔

جو آپ کوصحیح راستہ کی طرف لے جا کر اللہ کی طرف دعوت دے اس کی رہنمائی اور گفتار کا ہدف اپنی طرف دعوت دینا نہیں ہے ۔ ایسے ربانی علماء کی صحبت آپ پر اثر انداز ہو گی اور آپ کو اہل بیت  کے نورانی معارف سے آشنا کر ے گی وہ تمہارے دل کو خاندان وحی کی محبت سے پیوند لگا دیں گے اور تمہیں منافقین تاریخ کی کالی کر توتوں سے آگاہ کر کے تمہارے دلوں میں ان کے لئے نفرت کو زیادہ کریں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]بحار الانوار:ج 1  ص5 20۔

۱۱۳

2 ۔ صالحین کی صحبت

پیغمبر اکرم(ص) اپنے ارشادات میں مجالست و مصاحبت کے مورد میں اپنے محبوں اور دوستوں کی رہنمائی فرماتے ہیں اور انہیں تاکید فرماتے ہیں کہ پر ہیز گار اورمو من افراد میں سے اپنے ہمنشینی منتخب کریں اور بے ہدف اور دنیا پرست افراد کی صحبت سے پر ہیز کریں ۔ آپ  نے اپنے ایک مفصل ارشاد میں عبد اللہ بن مسعود  سے  یوں فرمایا :

'' یابن مسعود فلیکن جلساؤک الا برار واخوانک الا تقیاء والزّهاد ، لانّ اللّٰ هتعالیٰ قال فی کتاب ه: الاخلاَّئ یو مئذٍ بعضهم لبعضٍ عدوّ والاَّ المتّقین ''(1)

اے ابن مسعود ، تمہارے ہمنشین نیک افراد ہوں او ر تمہارے بہائی متقی اور زاہد ہوں کیو نکہ خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے : آج کے دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجا ئیں گے  ۔

رسول اکرم(ص) نے  جناب ابوذر کو کی گئی وصیت میں ارشاد فرمایا :

'' یا اباذر لا تصاحب الاَّ مومناً '' (2)

اے ابوذر ! اپنے لئے کسی مصاحب کو منتخب نہ کرو ، مگر یہ کہ وہ مومن ہو  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ زخرف ، آ یت 67 ، بحار الا نوار:ج 77ص  2 10

[2]۔ بحار الانوار:ج 77ص  86

۱۱۴

کیو نکہ زندگی کا لطف ، اولیاء خدا اور نیک لو گوں کی صحبت میں ہے حضرت امیر المومنین  اپنے ایک حیات بخش فرمان میں رسول(ص) سے فرماتے ہیں :

'' هل احبّ الحیاة الاَّ بخدمتک والتّصرّف بین امرک و نهیک ولمحبّة اولیائک ''(1)

کیا زندگی کو دوست رکہتا ہوں مگر آپ کی خدمت ، آپ کے امر و نہی کی اطاعت اور آپ نے اولیا ء  و محبین سے محبت کے لئے ؟ 

دنیا کی ارزش و اہمیت صرف اولیاء  خدا ور نیک و خود ساختہ افراد کی وجہ سے ہے ورنہ زندگی صرف رنج و غم کا نام ہے جیسا کہ حضرت امیر المومنین کی نظر میں دنیا کی کوئی ارزش و واقعیت نہیں ہے زندگی میں کچہ بے ارزش ، رنج آور اور نا راحت کرنے والے و اقعات ہو تے ہیں لہذا صرف اولیاء خدا کا وجود ہی خدا کے بندوں کے لئے دنیا میں زندگی گزار نے کا سبب ہے نہ کہ دنیا کی زرق برق رونقیں اس بناء پر خدا کے بندوں کے لئے جو چیز دنیا میں زندگی بسر کرنے کو شیریں بنا تی ہے وہ اولیاء خدا اور نیک لوگوں کا وجود ہے کہ جن کی صحبت انسان کے دل میں یاد خدا اور اہل بیت  کو زندہ کرتی ہے یہ چیز ان شخصیات کے لئے دنیا میں زند گی گزار نے کے لئے شیرینی ، مسرت و فرحت کا باعث ہے کہ جنہوں نے دنیا کو فروخت کر دیا ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[3]۔ بحا ر الانوار:ج 19ص  81

۱۱۵

اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

ان دو قسم کے افراد کے درمیاں فرق کو مد نظر رکہیں کہ جن میں سے بعض کا ہدف اپنے نام  چمکانا  ہوتا  ہےاور  کچہ   کا ہدف اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے نام کی نشر و اشاعت کے علاوہ کچہ نہ ہو ، انہیں ایک دوسرے سے تشخیص دیں ۔ افراد کی پہچان اور ان کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان ہلا کت وگمراہی یا توقف کا باعث بن سکتا ہے ۔ حضرت جواد الائمہ امام تقی (ع)   فرما تے ہیں :

'' من انقاد الیٰ الطّمانینة قبل الحبرة ، فقد عرض نفسه للهلکة و لعاقبة المتعبة ''(1)

جو کسی کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان کرے وہ اپنے نفس کو ہلا کت میں ڈالتا ہے جس کا انجام بہت سخت ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار الا نوار :ج71 ص 40 3

۱۱۶

اکثر دہو کا کہانے والے یا پہر آسمان سے گرنے  اور کہجور پر اٹہکنے کے مصداق وہ افراد ہیںجوحسن ظن ، جلدی فریفتہ ہو نے والے اور تحقیق کے بغیر اطمینان کر نے کی وجہ سے دہو کا دینے والوں کے چکر میں پہنس جاتے ہیں ۔ اگر وہ مکتب اہل بیت  کی پیروی کرتے ہوئے کسی سے دل لگی اور محبت سےپہلے ان کو آزمالیں تو وہ کبہی بہی  ہلاکت اور گمراہی میں مبتلا نہ ہوں  ۔

اسی وجہ سے ہمیں اپنے دوستوں اور ہمنشین افراد کو پہچا ننا چاہیئے ۔ ان کی کامل پہچان کے بعد ان پر اطمینان و اعتماد کریں اور یہ صحیح و کامل شناخت انہیں آزمانے کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے ۔

           حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

          '' یعرف النّاس بالا ختیار '' (1)

           لوگوں کو امتحان اور آزمائش کے ذریعہ پہچانو  ۔

پس  کیوں  سب  پر  بہروسہ  کریں؟  کیوں کسی  بہی قسم کے افراد کے ساتہ ہمنشینی و رفاقت کے لئے تیار ہو جائیں ؟ ہمیں اپنی زند گی کا برنامہ اہل بیت  کے ہدایت کر نے والے ارشا دات کے مطابق قراردیں  اور ان کے فرامین پر عمل پیرا ہو کر  اپنے مستقبل کو درخشاں بنا ئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ اصول کافی :ج۱  ص30

۱۱۷

جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

 خاندان وحی علیہم  السلام  نے ہمیں اپنے فرامین میں لوگوں کے چند گروہوں کی صحبت و دوستی سے پر ہیز کرنے کا حکم دیا ہے

1 ۔ چھوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

           جو معا شرے میں اپنا مقام و مرتبہ اور شخصیت بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے اطرافی اور دوستوں کی شناخت کی سعی و کوشش کریں کہ ان کا ماضی اور اس پر لوگوں کے اعتبار کو مد نظر رکہیں ۔ انجان دوست ، یاجو لوگوں میں اچہی صفات سے نہ پہچا نا جا تا ہو ، وہ نہ صرف مشکل میں انسان کی پشت پنا ہی نہیں کرے گا بلکہ اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا ۔

           حضرت امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں :

           '' واحذر صحابة من یفیل رایه و ینکر عمله فانّ الصّاحب معتبر بصاحبه ''(1)

           کمزور و ضعیف الرأی شخص کی ہمنشینی اور صحبت اختیار نہ کرنا کہ جس کے اعمال نا پسند یدہ ہوں کیو نکہ ساتہی کا قیاس اس کے ساتہی پر کیا جا تاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ نہج البلاغہ مکتوب: 69

۱۱۸

           کیو نکہ لوگ ظاہر کو دیکہ کر قضاوت کر تے ہیں ۔ ہمیشہ انسان کی اہمیت اس کے دوستوں کی اہمیت کے مانند ہو تی ہے ۔لہذا معاشرے میں بے ارزش اور ضعیف الرأی افراد کی دوستی سے دور رہیں تا کہ ان کے منفی روحانی حالات سے محفوظ رہیں ۔ نیز اجتماعی و معاشرتی لحا ظ سے بہی ا ن کے ہم ردیف شمار نہ ہوں ۔

           یہ کائنات کے ہادی و رہنما حضرت امیر المو منین علی  کی را ہنمائی ہے جس سے درس لے کر اور زندگی کے برنامہ میں اس پر عمل پیرا ہو کر آپ اپنے آئندہ کو درخشاں بنا  سکتے ہیں ۔ اپنے روزانہ کے برنامہ و اعمال اور رفتار کو تشیع کے غنی ترین مکتب کی بنیاد پر قرار دیں تا کہ ابدی سعادت حاصل کر سکیں۔

           ملاحظہ فرمائیں کہ سید عزیز اللہ تہرانی کس طرح چہوٹی فکر والے افراد سے کنارہ کش ہو کر عظیم معنوی فیض تک پہنچ گئے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نجف اشرف میں شرعی ریاضتوں مثلا نماز ، روزہ اور دعاؤں میں مشغول رہتا اور ایک لمحہ کے لئے بہی اس سے غافل نہ ہوتا ۔ جب عید الفطر کی مخصوص زیارت کے لئے کربلا مشرف ہوا تو میں مدرسہ صدر میں ایک دوست کا مہمان تہا ۔ بیشتر اوقات حرم مطہر حضرت سید الشہداء امام حسین  (ع)میں مشرف ہو تا اور کبہی آرام و استراحت کی غرض سے مدرسہ چلاجاتا ۔

           ایک دن کمرے میں داخل ہوا تو وہاں چند دوست جمع تہے اور واپس نجف جانے کی باتیں ہو رہی تہیں ، انہوں نے مجہ سے پوچہا کہ آپ کب واپس جائیں گے ؟ میں نے کہا کہ آپ چلے جائیں میں اس سال خانہ خدا کی زیارت کا قصد رکہتا ہوں اور محبوب کی زیارت کے لئے پیدل جاؤں گا ۔ میں نے حضرت سید الشہداء  (ع)کے قبہ کے نیچے دعا کی ہے اور مجہے امید ہے کہ میری دعا مستجاب ہو گی ۔

۱۱۹

           میرے دوست مجہے مذاق کر رہے تہے اور کہہ رہے تہے کہ سید ایسا لگتا ہے کہ عبادت و ریاضت کی کثرت سے تمہارا دماغ خشک ہو گیاہے ۔ تم کس طرح توشہ راہ کے بغیر بیابانوں میں ضعف مزاج کے ساتہ پیدل سفر کر سکتے ہو ۔ تم پہلی منزل پر ہی رہ جاؤ گے اور بادیہ نشین عربوں کے چنگل میں گرفتار ہو جاؤگے ۔

           جب ان کی سر زنش حد  سے بڑہ گئی تو میں غصہ کے عالم میں کمرے سے باہر چلا آیا اور شکستہ دل اور پر نم آنکہوں کے ساتہ حرم کی طرف روانہ ہو گیا کسی چیز کی طرف توجہ نہیں کر رہا تہا ۔ حرم میں مختصر زیارت کی اور بالا سر حرم مطہر کی جانب متوجہ ہوا جس جگہ ہمیشہ نماز اور دعا پڑہتا وہاں بیٹہ کر گریہ و توسل کو جاری  رکہا ۔

           اچانک ایک دست ید اللّٰہی میرے کندہے پر آیا ، میں نے دست مبارک کی طرف دیکہا وہ عربی لباس میں ملبّس تہے ۔ لیکن مجہ سے فارسی زبان میں فرمایا کہ کیا تم پیا د ہ خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہونا چاہتے ہو ؟ میں  نے عرض کیا ! جی ہاں ۔ انہوں نے فرمایا ! کچہ نان جو تمہارے ایک ہفتہ کے لئے کافی ہوں ؟ ایک آفتابہ اور احرام اپنے ساتہ لے کر فلاں دن فلاں وقت اسی جگہ حاضر ہو جاؤ اور زیارت و داع انجام دو تا کہ ایک ساتہ اس مقدس جگہ سے منزل مقصود کی طرف حرکت کریں ۔

           میں ان کے حکم کی بجا آوری و اطاعت کا کہہ کر حرم سے باہر آیا ۔ کچہ گندم لی اور بعض رشتہ دار خواتین کو دی کہ میرے لئے نان تیار کر دیں ۔ میرے تمام دوست نجف واپس چلے گئے اور پہر وہ دن بہی آگیا ۔ اپنا سامان لے کر معین جگہ پہنچ گیا ، میں زیارت وداع میں مشغول تہا کہ میں نے ان  بزرگوار سے ملاقات کی ، ہم حرم سے باہر آئے ، پہر صحن اور پہر شہر سے بہی خارج ہوگئے ۔ کچہ دیر چلتے رہے نہ تو انہوں نے مجہے اپنے شیرین سخن سے سر فراز فرمایا اور نہ ہی میں نے ہی ان سے بولنے کی جسارت کی کچہ دیر کے بعد پانی تک پہنچے ۔ انہوں نے فرمایا : یہاں آرام کرو۔ اپنا کہانا کہاؤ اور انہوں نے زمین پر ایک خط کہینچا اور فرمایا یہ خط قبلہ ہے نماز بجا لاؤ عصر کے وقت تمہارے پاس آؤں گا ۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے میں وہیں ٹہہرا رہا ، کہا نا کہایا  ، وضو کیا اور پہر نماز پڑہی ۔ عصر کے وقت وہ بزرگوار تشریف لائے اور فرمایا : اٹہو چلیں ، چند گہنٹے چلنے کے بعد پہر اک جگہ اور پانی تک پہنچے، انہوں نے پہر زمین پر خط کہینچا اور فرمایا

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

اور عمر نے بنی ہاشم کو کچھ حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اپنے پورے حصے کا مطالبہ کیا اور کچھ حصہ لینے سے انکار کردیا _ تو اس نے بھی انہیں پورا حصہ دینے سے انکار کرتے ہوئے انہیں اپنے حصے سے ہی محروم کردیا _ یہ بات ابن عباس کی ایک روایت میں بھی آئی ہے _ جب نجدہ حروری نے ابن عباس سے پوچھا کہ ذوی القربی کا حصہ کس کا ہے تو اس نے جواب دیا : ''وہ ہم اہل بیتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حصہ ہے ، عمر نے بھی اس حصہ سے ہمارے غیر شادی شدہ افراد کی شادی کرانے ، ہمارے شادی شدہ افراد کی خدمت کرنے اور ہمارے قرضے چکانے کی پیشکش بھی کی لیکن ہم نے اس سے اپنے پورے حصہ کا مطالبہ کیا اور اسی پر اکتفا نہیں کیا تو اس نے بھی ہمیں پورا حصہ دینے سے انکار کردیا اور ہمیں اپنے حال پر چھوڑدیا اس وجہ سے ہم نے بھی اسے اپنے حال پر چھوڑدیا '' _ اس طرح کی ایک روایت حضرت علی علیہ السلام سے بھی مروی ہے کہ عمر نے انہیں بھی کچھ حصہ دینے کی کوشش کی تھی اور یہ کہا تھا کہ اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اگر حصہ زیادہ ہوجائے تب بھی انہیں پورا حصہ ملے گا لیکن انہوں نے پورا حصہ لینے کے بغیر کچھ بھی لینے سے انکار کردیا(۱)

خلیفہ سوم کے دور میں

عثمان نے افریقہ کی پہلی فتوحات سے حاصل ہونے والے مال غنیمت کا خمس عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو دیا(۲) حالانکہ یہ شخص مرتد تھا_اور دوسری مرتبہ کی فتوحات کا خمس مروان بن حکم کو عطا کیا _ اس بارے میں اسلم

____________________

۱)حدیث ملاحظہ ہو در : الخرا ج ابو یوسف ص ۲۱، ص ۲۲، ص ۲۳، ص ۲۴ ، المغازی واقدی ص ۶۹۷، الاموال ابوعبید ص ۴۶۵ ، ص ۴۶۶، ص ۴۶۷، سنن نسائی ج ۲ ص ۱۷۸، ص ۱۷۷، ج ۷ ص ۱۲۹، ص ۱۲۸ ، شرح معانی الآثار ج ۳ ص ۳۳۵و ص ۲۲۰، مسند حمیدی حدیث نمبر ۵۳۲، الجامع الصحیح ( السیر) حدیث نمبر ۱۵۵۶، احکام القرآن جصاص ج ۳ ص ۶۳، لسان المیزان ج ۶ص ۱۴۸، صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۹۸باب ''النساء الغازیات یر ضخ لہن '' ، مسند احمد ج ۱۰ ص ۲۲۵و ج ۱ ص ۳۲۰،ص ۳۰۸، ص۲۴۸، ص ۲۴۹، ص ۲۲۴، مشکل الآثار ج ۲ ص ۱۳۶، ص ۱۷۹و مسند شافعی ص ۱۸۳، ص ۱۸۷، حلیة ابونعیم ج ۳ ص ۲۰۵و تفسیر طبری ج ۱۰ ص ۵ ، سنن ابوداؤد ج ۳ ص ۱۴۶کتاب الخراج ، سنن بیہقی ج ۶ص ۳۴۴، ص ۳۴۵، ص ۳۳۲،کنز العمال ج ۲ ص۳۰۵، المصنف ج ۵ ص ۲۲۸ نیز ملاحظہ ہو ص ۲۳۸، المحاسن و المساوی ج ۱ ص ۲۶۴، وفاء الوفاء ص ۹۹۵ ، الروض الانف ج ۳ ص ۸۰ ، مسند ابویعلی ج ۴ ص ۴۲۴و ج ۵ ص ۴۱ ، ص ۴۲_

۲) ملاحظہ ہو : تاریخ الاسلام ذہبی ج ۲ ص ۷۹، ص ۸۰، تاریخ ابن اثیر مطبوعہ یورپ ج ۳ ص ۷۱ و شرح نہج البلاغہ ج ۱ ص ۶۷_

۴۴۱

بن اوس ساعدی نے ( جس نے عثمان کی بقیع میں تدفین سے ممانعت کی تھی ) یہ شعر کہا :

و اعطیت مروان خمس العباد

ظلمالهم و حمیت الحمی(۱)

اور تم نے حق داروں سے ظلم کے ساتھ ان کا حق چھین کر رشتہ داری کی بناپر مروان کوخمس دیا اور اچھی طرح لوٹ مارکی _

اور لوگوں نے اس بات پر دو وجوہات کی بناپر عثمان پر ناراضگی کا اظہار کیا _

۱_ گذشتہ دونوں خلیفوں نے اگر چہ مستحقوں سے ان کا حق چھین لیا تھا لیکن انہوں نے خمس کو رفاہ عامہ میں خرچ کیا لیکن عثمان نے اسے اپنے گمراہ اور ذلیل رشتہ داروں کے ساتھ خاص کردیا _

۲_ عثمان نے جن لوگوں کو ناحق اتنا کثیر مال بخش دیا تھا ان کا کردار بھی صحیح نہیں تھا بلکہ بہت ہی برا کردار تھا اور وہ ہر لحاظ سے انحراف اور کجروی میں مشہور و معروف تھے _

خمس کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کی سیرت

جب حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ جب حضرت علی علیہ السلام مسند اقتدار پر فائز ہوئے تو ذوی القربی کے حصہ کا کیا کیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا : '' انہوں نے ابوبکر اور عمر کا طریقہ اپنا یا '' پوچھا گیا : '' وہ کیسے؟ جبکہ آپ حضرات کا اس بارے میں اپنا الگ نظریہ ہے ؟ '' انہوں نے فرمایا : '' ان کا نظریہ ذاتی نہیں ہوتا بلکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور خدا کا نظریہ ہوتا ہے ''' پوچھا گیا : '' تو پھر رکاوٹ کیا تھی؟ '' فرمایا : ''خدا کی قسم انہیں یہ بات ناپسند تھی کہ ان پر ابوبکر اور عمر کی مخالفت کا الزام لگایا جائے( اور اس الزام کے بہانے ان پر خواہ مخواہ چڑھائی کردی جائے) ''(۲)

____________________

۱) ملاحظہ ہو : الکامل ج ۳ ص ۷۱، طبری مطبوعہ یورپ حصہ ۱ ص ۲۸۱۸، ابن کثیر ج ۷ ص ۱۵۲، فتوح افریقیاابن عبدالحکم ص ۵۸و ص ۶۰ ، بلاذری ج ۵ ص ۲۵، ص ۲۷، ص ۲۸، تاریخ الخلفاء سیوطی ص ۱۵۶، الاغانی ج ۶ص ۵۷_

۲) الاموال ابوعبید ص ۴۶۳، الخراج ص ۲۳، احکام القرآن جصاص ج ۳ ص ۶۳، سنن بیہقی ج ۶ ص ۳۲۳، انساب الاشراف ج ۱ ص ۵۱۷ ، تاریخ المدینہ ابن شبہ ج ۱ ص ۲۱۷ ، کنز العمال ج ۴ ص ۳۳۰از ابوعبید و از ابن انباری در المصاحف_

۴۴۲

سنن بیہقی میں آیا ہے کہ حضرت امام حسنعليه‌السلام ، حضرت امام حسینعليه‌السلام ، ابن عباس اور عبداللہ بن جعفر نے حضرت علیعليه‌السلام سے خمس میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے ان سے فرمایا : '' وہ تو آپ لوگوں کا حق ہے لیکن میں آجکل معاویہ سے جنگ میں مصروف ہوں اس لئے اگر تم چاہو تو فی الحال اپنے حق سے چشم پوشی کرسکتے ہو ''(۱) پس ان احادیث اور روایات کی روسے حضرت علیعليه‌السلام نے خمس میں لائی ہوئی ابوبکر اور عمر کی تبدیلیوں کو بالکل بھی نہیں چھیڑا کیونکہ یہ کام لوگوں کو آپعليه‌السلام کے خلاف ابھارتا اور لوگ آپعليه‌السلام پر ابوبکر اور عمر کی مخالفت کا الزام لگاتے_ اورچونکہ معاویہ سے بر سر پیکار تھے تو اس لازمی کام کو دیگر تمام کاموں پر فوقیت اور ترجیح دینا اور اس مہم کو کسی ایسے مناسب وقت کے لئے چھوڑ رکھنا ضروری تھا جس وقت اتنی زیادہ اور خطرناک مشکلات در پیش نہ ہوں_

معاویہ کے دور میں

بنی ہاشم کو گذشتہ خلفاء کے دور میں تمام مسلمانوں کے حصے سے ہی سہی کچھ نہ کچھ ملتا رہتا تھا _ لیکن معاویہ کے دور میں تو وہ سرے سے خمس سے محروم ہی ہوگئے ، اس نے سب مال اپنے لئے خاص کردیا _ اور مسلمانوں میں خمس کا ایک پیسہ بھی نہیں بانٹا تھا _ علی بن عبداللہ بن عباس اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : ''معاویہ کے دور سے لے کر اب تک ہمیں خمس کا کوئی حصہ نہیں ملا ''(۲)

اور جب عمر بن عبدالعزیز نے بنی ہاشم کو خمس کا کچھ حصہ دینے کا حکم دیا تو کچھ ہاشمیوں نے اکٹھے ہو کر اسے شکریہ نامہ لکھا جس میں اس کی صلہ رحمی پر اس کا شکریہ ادا کیا گیا اور اس خط میں آیا ہے کہ '' ان پر معاویہ کے دور سے ہمیشہ ظلم اور جفا ہوتا آیا ہے ''(۳) اسی طرح زیاد نے خراسان کے اپنے گور نر حکم بن عمرو غفاری کو بہت زیادہ مال غنیمت ملنے پر اسے اسی

____________________

۱) سنن بیہقی ج۶ ص ۳۶۳_

۲) طبقات ابن سعد مطبوعہ یورپ ج ۵ ص ۲۸۸_

۳)ایضاً_

۴۴۳

طرح خط لکھا :'' امّا بعد ، امیرالمؤمنین ( یعنی معاویہ) نے حکم دیا ہے کہ سب سونا چاندی اسی کے لئے علیحدہ کیا جائے اور مسلمانوں میں ایک پیسہ بھی تقسیم نہ کیا جائے '' _ اور طبری نے سونے چاندی پر چوپاؤں کا بھی اضافہ کیا ہے(۱) _ لیکن حکم نے اس کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے مال غنیمت کو مسلمانوں میں بانٹ دیا _ جس پر معاویہ نے اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا_ اور وہ وہیں قید میں ہی مرگیا اور وہیں دفن ہوا اور معاویہ نے کہا:'' میں بہت انتقامی ہوں''(۲) _

عمر بن عبدالعزیز کے دور تک

عمر بن عبدالعزیز کے دور تک خمس امویوں کے ہاتھ میں رہا اور انہوں نے اسے اپنے باپ کا مال سمجھ کر استعمال کیا ،لیکن اس نے بعض مصلحتوں کے پیش نظر بنی ہاشم کو ان کے کچھ حقوق دینے کی کوشش کی اور اس نے کچھ حقوق ادا بھی کئے اور ان سے یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر ان کا کوئی حق رہ گیا ہو تو وہ سب ادا کردے گا(۳)

لیکن خود عمر بن عبدالعزیز کے دور کی طرح اس کی یہ کوششیں بھی جلد ہی دم توڑ گئیں ، کام دھرے رہ گئے اور وعدے ناتمام رہ گئے _ اور تما م امور پھر اسی ڈگر پر چلنے لگے جس پر دشمنان اہل بیتعليه‌السلام نے چلایا تھا _ اور یہ بات تاریخ اور سیرت کی کتابوں کے قلیل سے مطالعے سے بھی معلوم ہوسکتی ہے _

خمس کے متعلق علمائے اہل سنت کے نظریات

خلفاء اور حکام کے کرتوتوں کے نتیجے میں اور ان کرتو توںپر پردہ پوشی کے لئے علمائے اہل سنت کے خمس کے متعلق نظریات بھی ایک دوسرے سے متضاد ہیں _ اس بارے میں ابن رشد کہتا ہے : '' خمس کے متعلق بھی

____________________

۱)مستدرک حاکم و تلخیص مستدرک ذہبی بر حاشیہ مستدرک ج ۳ ص ۴۴۲، طبقات ابن سعد مطبوعہ یورپ ج ۷ ص ۱۸، الاستیعاب ج ۱ ص ۱۱۸، اسد الغابہ ج ۲ ص ۳۶، طبری مطبوعہ یورپ ج ۲ ص ۱۱۱، ابن اثیر مطبوعہ یورپ ج ۳ ص ۳۹۱، ذہبی ج ۲ ص ۲۲۰، ابن کثیر ج ۸ ص ۴۷_

۲)تہذیب التہذیب ج ۲ ص ۴۳۷و مستدرک حاکم ج ۳ ص ۴۴۲_

۳)ملاحظہ ہو : طبقات ابن سعد ج ۵ ص ۲۸۱، ص ۲۸۵، ص ۲۸۷،ص ۲۸۹ ، الخراج ص ۲۵، و سنن نسائی باب قسم الفیء ج ۲ ص ۱۷۸_

۴۴۴

چاروں مشہور مذاہب کا آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے _ ان میں سے ایک نظریہ یہ ہے کہ خمس کو آیت کی تصریح کے مطابق پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا _ اور یہ شافعیوں کا نظریہ ہے _ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اسے چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا _ تیسرا نظریہ یہ ہے کہ آجکل صرف تین قسموں میں تقسیم کیا جائے گا کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اور ذوی القربی کا حصہ ساقط ہوگیا ہے _اور چوتھا قول یہ ہے کہ خمس فی ء (یعنی مال غنیمت ) کی طرح ہے جو ہر امیر اور غریب میں برابر تقسیم کیا جائے گا _ جو لوگ خمس کی چار یا پانچ حصوں میں تقسیم کے قائل ہوئے ہیں ان کا آپس میں اس بات پر اختلاف ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں کے حصہ کاکیا کیا جائے گا _ ایک گروہ کہتا ہے کہ ان کے حصے کوخمس کے دیگر تمام حصہ داروں میں برابر تقسیم کردیا جائے گا _ جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ اسے باقی سپاہیوں میں بانٹ دیا جائے گا _ حالانکہ ایک اورگروہ کا کہنا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا حصہ امام ( حاکم ) کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں کا حصہ امام کے رشتہ داروں کو دیا جائے گا _ لیکن چوتھے گروہ کا کہنا ہے کہ اسے اسلحہ وغیرہ اور لشکر کی تیاری کے لئے مخصوص کیا جائے گا _ نیز ان لوگوں کا اس بات پر بھی اختلاف ہے کہ قرابت داروں سے مراد کون لوگ ہیں؟(۱) _

جبکہ ابن قدامہ کہتا ہے : '' ابوبکر نے خمس کوتین حصوں میں تقسیم کیا اور یہ نظریہ اصحاب قیاس یعنی ابوحنیفہ اور اس کی جماعت کا بھی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ خمس کو ''یتامی '' ، '' مساکین ''اور '' ابن السبیل '' کے تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا _ اور انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں کا حصہ ختم کردیا _ اور مالک کہتا ہے کہ خمس اور فی دونوں ایک ہی چیز ہیں انہیں بیت المال میں جمع کردیا جائے گا'' ابن قدامہ اس کے آگے کہتا ہے :'' اور ابوحنیفہ کا نظریہ آیت کے مفہوم کے مخالف ہے کیونکہ خدا نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کے قریبیوں کے لئے ایک حصہ رکھا ہے اور خمس میں ان دونوں کا حق بھی اسی طرح دائمی رکھا ہے جس طرح باقی تین قسم کے افراد کا حصہ رکھا ہے ، پس جس نے اس کی مخالفت کی اس نے آیت کی

____________________

۱) بدایة المجتہد حکم الخمس ج ۱ ص ۴۰۱_

۴۴۵

تصریح کی مخالفت کی لیکن ابوبکر اور عمر کا '' ذوی القربی'' کے حصہ کو '' فی سبیل اللہ '' میں قرار دینے کے متعلق جب احمد کو بتایاگیا تو اس نے خاموشی اختیار کر لی اور اپنا سر ہلادیا لیکن اس نظریئےوقبول نہیں کیا _ اور اس نے ابن عباس اور اس کے ہم خیالوں کے نظریئےو کتاب اللہ اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ موافقت اور مطاقبت کی وجہ سے بہتر جانا ہے ''(۱)

اور ابویعلی اور ماوردی کا نظریہ ہے کہ خمس کے استعمال کی تعیین خلفاء (حکام) کی مرضی پر منحصر ہے(۲)

خمس کے متعلق اہل بیتعليه‌السلام اور ان کے پیروکاروں کا نظریہ

اہل بیتعليه‌السلام اور شیعیان اہل بیتعليه‌السلام کے نزدیک خمس کے چھ حصے ہوں گے _ ان میں سے تین حصے خدا ، اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آنحضرت کے قریبیوں کے ہےں جنہیں اپنی حیات طیبہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود لیں گے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد یہ معاملہ بارہ اماموں کے سپرد ہوگا _ اور باقی تین حصے بنی ہاشم کے یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کا ہے البتہ اگر وہ سب غریب اور محتاج ہوں _

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر اس مال کا خمس نکالنا واجب ہے جو کسی مسلمان کو حاصل ہوچاہے وہ دشمنوں سے حاصل ہو یا کہیں اور سے وہ صرف اپنے دعوے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنے مدعا پر ائمہ اہل بیتعليه‌السلام سے مروی ان بہت سی حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں جو خمس کے متعلق ہیں _ کیونکہ ائمہ اہل بیتعليه‌السلام ثقلین کا ایک حصہ ہیں جن سے تمسک کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور وہ نوحعليه‌السلام کی کشتی اور مغفرت کا دروازہ ہیں _ خدا ہم سب کو ان سے زیادہ سے زیادہ محبت ، ان سے تمسک اور ان کے رفتار اور گفتار کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے _

آمین ثم آمین

____________________

۱)المغنی ابن قدامہ ج ۷ ص ۳۵۱باب قسمة الفی والغنیمہ_

۲)احکام السلطانیہ ماوردی باب قسم الفی ص ۱۲۶، احکا السلطانیہ ابویعلی ص ۱۲۵_

۴۴۶

فہرست

مقدمہ: ۵

پانچواں باب ۷

ہجرت سے بدر تک ۷

پہلی فصل : ۹

رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں ۹

رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری : ۱۰

رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مدینہ میں قیام : ۱۲

ابن سلام کا قبول اسلام : ۱۳

دو اہم نکات: ۱۹

پہلا اہم نکتہ: ۱۹

دوسرا اہم نکتہ : ۲۰

دوسری فصل : ۲۲

غیر جنگی حوادث و واقعات ۲۲

حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے بعض مہاجرین کی واپسی : ۲۳

حضرت عائشہ نبی اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌ کے گھر میں : ۲۴

رخصتی کی رسم ۲۴

انوکھا استدلال : ۲۵

ایک نئے دور کی ابتداء ۲۶

مومنین کے درمیان صلح والی آیت: ۲۶

سلمان محمدی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاقبول اسلام : ۲۹

۴۴۷

ایک اہم بات : ۳۰

رومہ کا کنواں حضرت عثمان کے صدقات میں : ۳۱

'' اریس'' کا کنواں ۳۵

مسئلے کی حقیقت ۳۵

کھجور کی پیوندکاری ۳۶

تیسری فصل : ۳۹

ابتدائے ہجرت میں بعض اساسی کام ۳۹

تمہید: ۴۰

۱_ ہجری تاریخ کی ابتداء کے متعلق تحقیق ۴۱

کس شخص نے سب سے پہلے ہجرت نبویہ کے ساتھ تاریخ لکھی ؟ ۴۱

تمہید: ۴۱

تاریخ گذاری کی حکایت مؤرخین کی زبانی: ۴۲

بہترین نظریہ ۴۴

محرم کا مشورہ کس نے دیا ؟ ۴۵

اس نظریہ کے حامی حضرات : ۴۷

سہیلی کی بات: ۴۸

خلاصہ بحث: ۶۶

پھر عیسوی تاریخ کیوں؟ ۶۸

نکتہ: ۶۹

مخلصانہ اپیل ۷۰

۲_ مدینہ میں مسجد کی تعمیر : ۷۱

۴۴۸

الف: حضرت ابوبکر اوردس دینار: ۷۳

ب: پتھراور خلافت ۷۴

ج: حضرت عثمان اور حضرت عمار: ۷۶

کیا حضرت عثمان حبشہ میں نہ تھے؟ ۷۸

پہلے مسجد کی تعمیر کیوں؟ ۸۲

مسجد کو بنانے میں نبی اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت: ۸۶

مسجد کی تعمیر میں خواتین کا کردار: ۸۷

صرف عورتوں کیلئے نماز جماعت: ۸۷

مؤاخات کرنے والوں کی تعداد: ۹۰

ہر ایک کا اس جیسے کے ساتھ بھائی چارہ ۹۱

علی عليه‌السلام کے ساتھ نبی اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مؤاخات : ۹۲

حدیث مؤاخات کا تواتر: ۹۴

حضرت علی علیہ السلام کو ابوتراب کی کنیت ملنا : ۹۵

علی عليه‌السلام کے ساتھ نبی اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مؤاخات کے منکرین: ۹۵

کچھ مواخات کے متعلق : ۹۹

الف : بہترین متبادل ۹۹

ب: انسانی روابط کا ارتقائ ۹۹

ج: نئے معاشرے کی تشکیل میں مؤاخات کا کردار: ۱۰۰

یہ مواخات دو بنیادوں پر قائم تھی:_ ۱۰۱

اوّل : حق : _ ۱۰۱

دوم : باہمی تعاون:_ ۱۰۲

۴۴۹

حضرت ابوبکر کے خلیل: ۱۰۲

سلمان کی دوستی ، کس کے ساتھ؟ ۱۰۳

حدیث مواخات کاانکار اور اس کا جواب : ۱۰۳

ابوذر ،سلمان کی مخالفت نہ کرے ۱۰۷

۴_ جدید معاشرے میں تعلقات کی بنیاد: ۱۰۹

سند کا متن ۱۱۰

معاہدہ یا معاہدے؟ ۱۱۴

معاہدے پر سرسری نگاہ : ۱۱۶

۵_ یہودیوں سے صلح : ۱۲۴

چوتھی فصل: شرعی احکام ۱۲۵

اذان کی تشریع : ۱۲۶

اذان کی روایات پر بحث: ۱۲۷

آخری بات ۱۳۵

اذان میں حی علی خیر العمل: ۱۳۷

عبداللہ بن عمر سے روایات: ۱۳۹

امام زین العابدین عليه‌السلام سے روایات ۱۴۰

سہل بن حنیف سے روایات: ۱۴۱

حضرت بلال سے روایات: ۱۴۱

بے جا اعتراضات : ۱۴۷

'' حی علی خیر العمل '' ، نعرہ بھی اور موقف بھی ۱۴۸

اس عبارت کے حذف ہونے کا سبب : ۱۵۱

۴۵۰

اس رائے پہ تبصرہ: ۱۵۲

نماز میں اضافہ: ۱۵۲

نماز کے فرض ہونے میں ایک اور نظریہ: ۱۵۳

زکوة کا فریضہ: ۱۵۴

ماسبق سے متعارض روایت ۱۵۷

زکات فطرہ کا فرض ہونا ۱۵۸

روزے کا فرض ہونا: ۱۵۸

ایک اعتراض اور اس کا جواب ۱۵۹

روز عاشور کا روزہ : ۱۶۰

ان روایات کا جھوٹ: ۱۶۱

روز عاشورا کے دیگر فضائل: ۱۶۴

یوم عزاء یا عیدکا دن ؟ ۱۶۵

جعلی احادیث: ۱۶۶

عاشوراکی یادمٹا نے کے مختلف طریقے: ۱۶۷

پانچویں فصل: ۱۷۰

اسلام میں جہاد کی اہمیت ۱۷۰

اسلام اور تلوار ۱۷۱

۱: اسلام اور دیگر ادیان میں جنگ کے خد و خال ۱۷۲

ایک اشارہ ۱۷۳

۲ : جب جنگ ناگزیرہو ۱۷۴

کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟ ۱۸۲

۴۵۱

چھٹی فصل: ۱۸۴

جنگ بدر سے پہلے کی لڑائیاں ۱۸۴

رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوات اور سرایا: ۱۸۵

ایک : معرکہ سے فرار ۱۸۵

دو: سرایا کے لئے نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت : ۱۸۶

اس کتاب میں ہمارا مطمح نظر: ۱۸۷

ابتدائی جنگیں : ۱۸۸

۱ _ حضرت علی عليه‌السلام کی کنیت ابوتراب قرار دینا: ۱۹۱

دغابازی اور جھوٹ: ۱۹۳

یہ جعل سازیاں کیوں؟ ۱۹۸

اس کنیت کی اہمیت : ۱۹۹

۲_ سرایا کا مقصد؟ ۲۰۰

اول : صلح اور باہمی عہدو پیمان : ۲۰۰

دوم: قریش کی پریشانی ۲۰۱

۳_سپاہیوں کو آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصیحتیں ۲۰۳

۴_ صرف مہاجرین ہی کیوں ؟ ۲۰۴

الف: انصار کا گمان ۲۰۴

باء : جنگ اور امن کا مسئلہ ۲۰۵

ج :انصار کے مخصوص حالات ۲۰۵

د: مہاجرین کی نفسیاتی کیفیت ۲۰۷

عربوں میں خون کا معاملہ ۲۰۸

۴۵۲

قریش اور انصار ۲۱۰

تاریخی دغابازی ۲۱۴

ھ: انصار کے متعلق پیامبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید: ۲۱۸

جنگ انصار پر معاف نہ تھی: ۲۲۰

چھٹا باب: ۲۲۱

غزوہ بدر کا عظیم معرکہ ۲۲۱

پہلی فصل : ۲۲۳

جنگ کی فضاؤں میں ۲۲۳

قریش کی ناکام سازش ۲۲۴

بدر کی جانب روانگی: ۲۲۵

لوگوں سے ڈرنے والے ۲۲۶

عاتکہ کا خواب ۲۲۹

قریش کی تیاری : ۲۳۰

امیہ بن خلف کا موقف ۲۳۰

مذکورہ واقعہ پرچند نکات ۲۳۱

طالب بن ابی طالب کی جنگ سے واپسی ۲۳۲

ہمارا نظریہ ۲۳۳

مجبور اور واپس پلٹ جانے والے ۲۳۵

مذکورہ افراد کے متعلق نبی کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا موقف ۲۳۶

آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مؤقف پر ایک سر سری نظر ۲۳۷

جنگ کے لئے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مشورہ لینا ۲۳۸

۴۵۳

۱_ آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے صحابہ سے مشورہ ۲۴۱

۲_ بہترین رائے ، قریش سے جنگ ۲۴۲

۳_ نفسیاتی تربیت: ۲۴۳

۴_ جنگ سے متعلق مشوروں پر ایک سرسری نگاہ ۲۴۳

۵_ مقداد اور سعد کی باتوں پر آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سرور کی وجوہات ۲۴۵

۶_ حضرت علی علیہ السلام نے مشورہ کیوں نہیں دیا؟ ۲۴۶

'' حباب'' اچھی رائے والا ۲۴۶

مسلمانوں اور مشرکوں کی تعداد اور ساز و سامان ۲۴۸

مشرکوں کی ہٹ دھر می اور کینہ توزی ۲۵۰

دونوں فوجوں کا پڑاؤ ۲۵۱

مسلمانوں کی معنویات اور پروردگار کی عنایات ۲۵۱

اس جنگ کے مقاصد ۲۵۳

صف آرائی ۲۵۴

طوفان سے قبل آرام ۲۵۵

الف: مشرکین کے خوف کی وجوہات: ۲۵۷

ب : مشرکین کو نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی پیشکش پر ایک نگاہ : ۲۵۷

ج: رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جنگ کی ابتداء نہیں کرنا چاہتے_ ۲۵۸

نبی کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سائبان تلے؟ ۲۵۹

نکتہ: ۲۶۲

جنگ کی ابتدائ: ۲۶۲

تینوں جنگجوؤں کے قتل کے بعد ۲۶۵

۴۵۴

الف: حضرت ابوطالب عليه‌السلام کے حق میں آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ: ۲۶۷

ب: اپنے رشتہ داروں سے آنحضرت عليه‌السلام کی جنگ کی ابتدائ: ۲۶۷

ج : شیبہ کا توہین آمیز رویہ: ۲۶۹

د: خدا کی طرف سے مسلمانوں کو ملنے والا حق: ۲۶۹

جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے ۲۷۰

جنگ بدر میں فرشتوں کا کردار ۲۷۱

جنگ جمل میں بی بی عائشہ کا کردار ۲۷۲

شکست اور ذلت ۲۷۲

دوسری فصل: ۲۷۴

جنگ کے نتائج ۲۷۴

جنگ کے نتائج : ۲۷۵

حضرت علی علیہ السلام کے کارنامے: ۲۷۵

ایک اور جھوٹی روایت ۲۷۹

تو پھر صحیح کیا ہے ؟ ۲۸۰

نکتہ ۲۸۱

مشرکین کے مقتولین ، کنوئیں میں: ۲۸۲

ذوالشمالین: ۲۸۶

الف : جنگ بدر میں آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی خطیر مہم ۲۸۶

چند نکات: ۲۸۷

ب : جنگ فیصلہ کن تھی ۲۸۸

ج: شکت ، طاقت کا عدم توازن اور فرشتوں کی امداد ۲۸۹

۴۵۵

د: انصار کے خلاف قریش کا کینہ ۲۹۷

پہلے اہل بیت عليه‌السلام کیوں ؟ ۲۹۹

ھ:حضرت علی عليه‌السلام اور ان کے گھرانے پر جنگ بدر کے اثرات : ۳۰۰

شہدائے انصار ۳۰۲

آیت تخفیف کے متعلق علامہ طباطبائی کا نظریہ : ۳۰۳

تیسری فصل: ۳۰۸

مال غنیمت اور جنگی قیدی ۳۰۸

مال غنیمت کی تقسیم : ۳۰۹

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس کیوں نہیں لیا ؟ ۳۱۰

رسول خدا ایک بار پھر خمس اپنے اصحاب میں بانٹ دیتے ہیں ۳۱۲

حضرت علی عليه‌السلام کے دور حک۳مت میں غربت کا خاتمہ : ۳۱۲

اہم نوٹ : خمس اور اقربا پروری؟ ۳۱۳

الف : طلحہ اور سعید بن زید: ۳۱۷

ب:عثمان بن عفان ۳۱۹

دوسروں کے فضائل پرڈاکہ ۳۲۲

دوقیدیوں کا قتل : ۳۲۳

ب: پسماندگان کے لئے دوزخ کی بشارت ۳۲۶

ج: عقبہ کو نسب کا طعنہ : ۳۲۷

د:واقعہ بدر میںنضربن حارث کے قتل کا انکار : ۳۲۸

باقی قیدیوں کی صورتحال : ۳۲۹

عذاب کے نزول کی صورت میں صرف عمر کی ہی جان بچتی ؟ ۳۳۱

۴۵۶

رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتے ہیں ؟ ۳۳۶

سعد بن معاذ یا عمربن خطاب ؟ ۳۳۷

قیدیوں کا قتل ہی زیادہ مناسب تھا: ۳۳۸

قیدیوں کے بارے میں عمر کا موقف: ۳۴۰

نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم بھا گ جانے والے قیدی کو قتل نہیں کرتے ۳۴۱

قید میں عباس کے نالے ۳۴۲

عباس کا فدیہ اور اس کا قبول اسلام ۳۴۴

نکتہ : ۳۴۷

نبی کریم کو قتل کرنے کی سازش ۳۴۹

زینب کے ہار اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا موقف ۳۴۹

چند جواب طلب سوال ۳۵۰

جناب زینب کا واقعہ اور ابن ابی الحدید ۳۵۱

فدیہ اسیر، تعلیم تحریر ۳۵۲

قیدیوں سے سلوک ۳۵۴

سودہ کا آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف قیدیوں کو بھڑکانا ۳۵۴

چوتھی فصل: ۳۵۶

جنگ بدر کا اختتام ۳۵۶

اہل بدر بخشے ہوئے ہیں ۳۵۷

اہل بدر سے بھی افضل لوگ ؟ ۳۶۱

ابن جوزی اور بدریوں کے مغفرت والی حدیث ۳۶۲

ناکام واپسی ۳۶۳

۴۵۷

کامیاب واپسی ۳۶۴

جنگ بدر کے بعض نتائج ۳۶۵

جنگ بدر کے نتائج سے نجاشی کی خوشی ۳۶۷

آخری بات: ۳۶۷

اہل بدر کے بارے میں معاویہ کا موقف ۳۶۸

پانچویں فصل: ۳۶۹

سیرت سے متعلق چند باتیں ۳۶۹

تمہید: ۳۷۰

پہلا عنوان ۳۷۱

شیعیان علی عليه‌السلام کی بعض خصوصیات ۳۷۱

دوسرا عنوان ۳۸۴

جناب ابوبکر کی شجاعت اور سائبان میں ان کی موجودگی_ ۳۸۴

مذکورہ باتیں نادرست ہیں ۳۸۶

الف : کئی مقامات پر ابوبکر کا فرار ۳۸۶

ب: ابوبکر کے ذریعہ بنی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی حفاظت ۳۹۱

ج : ابوبکر میدان جنگ میں ۳۹۳

د: حضرت علی عليه‌السلام کی ناکثین اور قاسطین سے جنگ ۳۹۴

ہ: زکات نہ دینے والوں سے جنگ ۳۹۶

و: وفات رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وقت اس کی ثابت قدمی ۳۹۶

تیسرا عنوان ۳۹۹

ذوالشمالین کا قصہ اور نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سہو ۳۹۹

۴۵۸

شیعوں کے نزدیک سہو کی روایات ۴۰۳

یہ ماجرا کس لئے ؟ ۴۰۳

ان توجیہات کے نقائص ۴۰۴

ایک اعتراض اور اس کا جواب ۴۰۵

سہو ، خطا اور نسیان سے بچنا اپنے اختیارمیں ہے ۴۰۶

پختہ ارادہ ۴۱۱

تبلیغ و غیرہ میں عصمت ۴۱۱

ایک جواب طلب سوال ۴۱۲

اسلام اور فطرت ۴۱۳

عصمت کے لئے ضروری عناصر ۴۱۸

توضیح اور تطبیق: ۴۲۱

حضرت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم افضل ترین مخلوق ۴۲۳

حدیث ''علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل '' کا صحیح مطلب ۴۲۴

چوتھا عنوان ۴۲۶

خمس کا شرعی حکم اورسیاست ۴۲۶

غنیمت کا معنی ۴۲۶

آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطوط میں خمس کا تذکرہ ۴۲۹

ان خطوط پر ایک نظر ۴۳۲

وافر مال پر خمس واجب ہے ۴۳۳

مزید دلائل ۴۳۵

معدنیات اور مدفون خزانوں پر بھی خمس ہے ۴۳۵

۴۵۹

لطیفہ ۴۳۷

خمس لینے والے نمائندے ۴۳۷

کتاب اور سنت میں خمس کے استعمال کے مقامات ۴۳۸

اہل بیت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روایات میں خمس ۴۳۹

اہل سنت کی روایتوں میں خمس ۴۳۹

عہد نبوی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خمس کا استعمال ۴۴۰

خلیفہ ثانی کے دور میں ۴۴۱

خلیفہ سوم کے دور میں ۴۴۲

خمس کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کی سیرت ۴۴۳

معاویہ کے دور میں ۴۴۴

عمر بن عبدالعزیز کے دور تک ۴۴۵

خمس کے متعلق علمائے اہل سنت کے نظریات ۴۴۵

خمس کے متعلق اہل بیت عليه‌السلام اور ان کے پیروکاروں کا نظریہ ۴۴۷

۴۶۰