الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 202798
ڈاؤنلوڈ: 4177

تبصرے:

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202798 / ڈاؤنلوڈ: 4177
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اور عمر نے بنی ہاشم کو کچھ حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اپنے پورے حصے کا مطالبہ کیا اور کچھ حصہ لینے سے انکار کردیا _ تو اس نے بھی انہیں پورا حصہ دینے سے انکار کرتے ہوئے انہیں اپنے حصے سے ہی محروم کردیا _ یہ بات ابن عباس کی ایک روایت میں بھی آئی ہے _ جب نجدہ حروری نے ابن عباس سے پوچھا کہ ذوی القربی کا حصہ کس کا ہے تو اس نے جواب دیا : ''وہ ہم اہل بیتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حصہ ہے ، عمر نے بھی اس حصہ سے ہمارے غیر شادی شدہ افراد کی شادی کرانے ، ہمارے شادی شدہ افراد کی خدمت کرنے اور ہمارے قرضے چکانے کی پیشکش بھی کی لیکن ہم نے اس سے اپنے پورے حصہ کا مطالبہ کیا اور اسی پر اکتفا نہیں کیا تو اس نے بھی ہمیں پورا حصہ دینے سے انکار کردیا اور ہمیں اپنے حال پر چھوڑدیا اس وجہ سے ہم نے بھی اسے اپنے حال پر چھوڑدیا '' _ اس طرح کی ایک روایت حضرت علی علیہ السلام سے بھی مروی ہے کہ عمر نے انہیں بھی کچھ حصہ دینے کی کوشش کی تھی اور یہ کہا تھا کہ اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اگر حصہ زیادہ ہوجائے تب بھی انہیں پورا حصہ ملے گا لیکن انہوں نے پورا حصہ لینے کے بغیر کچھ بھی لینے سے انکار کردیا(۱)

خلیفہ سوم کے دور میں

عثمان نے افریقہ کی پہلی فتوحات سے حاصل ہونے والے مال غنیمت کا خمس عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو دیا(۲) حالانکہ یہ شخص مرتد تھا_اور دوسری مرتبہ کی فتوحات کا خمس مروان بن حکم کو عطا کیا _ اس بارے میں اسلم

____________________

۱)حدیث ملاحظہ ہو در : الخرا ج ابو یوسف ص ۲۱، ص ۲۲، ص ۲۳، ص ۲۴ ، المغازی واقدی ص ۶۹۷، الاموال ابوعبید ص ۴۶۵ ، ص ۴۶۶، ص ۴۶۷، سنن نسائی ج ۲ ص ۱۷۸، ص ۱۷۷، ج ۷ ص ۱۲۹، ص ۱۲۸ ، شرح معانی الآثار ج ۳ ص ۳۳۵و ص ۲۲۰، مسند حمیدی حدیث نمبر ۵۳۲، الجامع الصحیح ( السیر) حدیث نمبر ۱۵۵۶، احکام القرآن جصاص ج ۳ ص ۶۳، لسان المیزان ج ۶ص ۱۴۸، صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۹۸باب ''النساء الغازیات یر ضخ لہن '' ، مسند احمد ج ۱۰ ص ۲۲۵و ج ۱ ص ۳۲۰،ص ۳۰۸، ص۲۴۸، ص ۲۴۹، ص ۲۲۴، مشکل الآثار ج ۲ ص ۱۳۶، ص ۱۷۹و مسند شافعی ص ۱۸۳، ص ۱۸۷، حلیة ابونعیم ج ۳ ص ۲۰۵و تفسیر طبری ج ۱۰ ص ۵ ، سنن ابوداؤد ج ۳ ص ۱۴۶کتاب الخراج ، سنن بیہقی ج ۶ص ۳۴۴، ص ۳۴۵، ص ۳۳۲،کنز العمال ج ۲ ص۳۰۵، المصنف ج ۵ ص ۲۲۸ نیز ملاحظہ ہو ص ۲۳۸، المحاسن و المساوی ج ۱ ص ۲۶۴، وفاء الوفاء ص ۹۹۵ ، الروض الانف ج ۳ ص ۸۰ ، مسند ابویعلی ج ۴ ص ۴۲۴و ج ۵ ص ۴۱ ، ص ۴۲_

۲) ملاحظہ ہو : تاریخ الاسلام ذہبی ج ۲ ص ۷۹، ص ۸۰، تاریخ ابن اثیر مطبوعہ یورپ ج ۳ ص ۷۱ و شرح نہج البلاغہ ج ۱ ص ۶۷_

۴۴۱

بن اوس ساعدی نے ( جس نے عثمان کی بقیع میں تدفین سے ممانعت کی تھی ) یہ شعر کہا :

و اعطیت مروان خمس العباد

ظلمالهم و حمیت الحمی(۱)

اور تم نے حق داروں سے ظلم کے ساتھ ان کا حق چھین کر رشتہ داری کی بناپر مروان کوخمس دیا اور اچھی طرح لوٹ مارکی _

اور لوگوں نے اس بات پر دو وجوہات کی بناپر عثمان پر ناراضگی کا اظہار کیا _

۱_ گذشتہ دونوں خلیفوں نے اگر چہ مستحقوں سے ان کا حق چھین لیا تھا لیکن انہوں نے خمس کو رفاہ عامہ میں خرچ کیا لیکن عثمان نے اسے اپنے گمراہ اور ذلیل رشتہ داروں کے ساتھ خاص کردیا _

۲_ عثمان نے جن لوگوں کو ناحق اتنا کثیر مال بخش دیا تھا ان کا کردار بھی صحیح نہیں تھا بلکہ بہت ہی برا کردار تھا اور وہ ہر لحاظ سے انحراف اور کجروی میں مشہور و معروف تھے _

خمس کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کی سیرت

جب حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ جب حضرت علی علیہ السلام مسند اقتدار پر فائز ہوئے تو ذوی القربی کے حصہ کا کیا کیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا : '' انہوں نے ابوبکر اور عمر کا طریقہ اپنا یا '' پوچھا گیا : '' وہ کیسے؟ جبکہ آپ حضرات کا اس بارے میں اپنا الگ نظریہ ہے ؟ '' انہوں نے فرمایا : '' ان کا نظریہ ذاتی نہیں ہوتا بلکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور خدا کا نظریہ ہوتا ہے ''' پوچھا گیا : '' تو پھر رکاوٹ کیا تھی؟ '' فرمایا : ''خدا کی قسم انہیں یہ بات ناپسند تھی کہ ان پر ابوبکر اور عمر کی مخالفت کا الزام لگایا جائے( اور اس الزام کے بہانے ان پر خواہ مخواہ چڑھائی کردی جائے) ''(۲)

____________________

۱) ملاحظہ ہو : الکامل ج ۳ ص ۷۱، طبری مطبوعہ یورپ حصہ ۱ ص ۲۸۱۸، ابن کثیر ج ۷ ص ۱۵۲، فتوح افریقیاابن عبدالحکم ص ۵۸و ص ۶۰ ، بلاذری ج ۵ ص ۲۵، ص ۲۷، ص ۲۸، تاریخ الخلفاء سیوطی ص ۱۵۶، الاغانی ج ۶ص ۵۷_

۲) الاموال ابوعبید ص ۴۶۳، الخراج ص ۲۳، احکام القرآن جصاص ج ۳ ص ۶۳، سنن بیہقی ج ۶ ص ۳۲۳، انساب الاشراف ج ۱ ص ۵۱۷ ، تاریخ المدینہ ابن شبہ ج ۱ ص ۲۱۷ ، کنز العمال ج ۴ ص ۳۳۰از ابوعبید و از ابن انباری در المصاحف_

۴۴۲

سنن بیہقی میں آیا ہے کہ حضرت امام حسنعليه‌السلام ، حضرت امام حسینعليه‌السلام ، ابن عباس اور عبداللہ بن جعفر نے حضرت علیعليه‌السلام سے خمس میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے ان سے فرمایا : '' وہ تو آپ لوگوں کا حق ہے لیکن میں آجکل معاویہ سے جنگ میں مصروف ہوں اس لئے اگر تم چاہو تو فی الحال اپنے حق سے چشم پوشی کرسکتے ہو ''(۱) پس ان احادیث اور روایات کی روسے حضرت علیعليه‌السلام نے خمس میں لائی ہوئی ابوبکر اور عمر کی تبدیلیوں کو بالکل بھی نہیں چھیڑا کیونکہ یہ کام لوگوں کو آپعليه‌السلام کے خلاف ابھارتا اور لوگ آپعليه‌السلام پر ابوبکر اور عمر کی مخالفت کا الزام لگاتے_ اورچونکہ معاویہ سے بر سر پیکار تھے تو اس لازمی کام کو دیگر تمام کاموں پر فوقیت اور ترجیح دینا اور اس مہم کو کسی ایسے مناسب وقت کے لئے چھوڑ رکھنا ضروری تھا جس وقت اتنی زیادہ اور خطرناک مشکلات در پیش نہ ہوں_

معاویہ کے دور میں

بنی ہاشم کو گذشتہ خلفاء کے دور میں تمام مسلمانوں کے حصے سے ہی سہی کچھ نہ کچھ ملتا رہتا تھا _ لیکن معاویہ کے دور میں تو وہ سرے سے خمس سے محروم ہی ہوگئے ، اس نے سب مال اپنے لئے خاص کردیا _ اور مسلمانوں میں خمس کا ایک پیسہ بھی نہیں بانٹا تھا _ علی بن عبداللہ بن عباس اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : ''معاویہ کے دور سے لے کر اب تک ہمیں خمس کا کوئی حصہ نہیں ملا ''(۲)

اور جب عمر بن عبدالعزیز نے بنی ہاشم کو خمس کا کچھ حصہ دینے کا حکم دیا تو کچھ ہاشمیوں نے اکٹھے ہو کر اسے شکریہ نامہ لکھا جس میں اس کی صلہ رحمی پر اس کا شکریہ ادا کیا گیا اور اس خط میں آیا ہے کہ '' ان پر معاویہ کے دور سے ہمیشہ ظلم اور جفا ہوتا آیا ہے ''(۳) اسی طرح زیاد نے خراسان کے اپنے گور نر حکم بن عمرو غفاری کو بہت زیادہ مال غنیمت ملنے پر اسے اسی

____________________

۱) سنن بیہقی ج۶ ص ۳۶۳_

۲) طبقات ابن سعد مطبوعہ یورپ ج ۵ ص ۲۸۸_

۳)ایضاً_

۴۴۳

طرح خط لکھا :'' امّا بعد ، امیرالمؤمنین ( یعنی معاویہ) نے حکم دیا ہے کہ سب سونا چاندی اسی کے لئے علیحدہ کیا جائے اور مسلمانوں میں ایک پیسہ بھی تقسیم نہ کیا جائے '' _ اور طبری نے سونے چاندی پر چوپاؤں کا بھی اضافہ کیا ہے(۱) _ لیکن حکم نے اس کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے مال غنیمت کو مسلمانوں میں بانٹ دیا _ جس پر معاویہ نے اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا_ اور وہ وہیں قید میں ہی مرگیا اور وہیں دفن ہوا اور معاویہ نے کہا:'' میں بہت انتقامی ہوں''(۲) _

عمر بن عبدالعزیز کے دور تک

عمر بن عبدالعزیز کے دور تک خمس امویوں کے ہاتھ میں رہا اور انہوں نے اسے اپنے باپ کا مال سمجھ کر استعمال کیا ،لیکن اس نے بعض مصلحتوں کے پیش نظر بنی ہاشم کو ان کے کچھ حقوق دینے کی کوشش کی اور اس نے کچھ حقوق ادا بھی کئے اور ان سے یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر ان کا کوئی حق رہ گیا ہو تو وہ سب ادا کردے گا(۳)

لیکن خود عمر بن عبدالعزیز کے دور کی طرح اس کی یہ کوششیں بھی جلد ہی دم توڑ گئیں ، کام دھرے رہ گئے اور وعدے ناتمام رہ گئے _ اور تما م امور پھر اسی ڈگر پر چلنے لگے جس پر دشمنان اہل بیتعليه‌السلام نے چلایا تھا _ اور یہ بات تاریخ اور سیرت کی کتابوں کے قلیل سے مطالعے سے بھی معلوم ہوسکتی ہے _

خمس کے متعلق علمائے اہل سنت کے نظریات

خلفاء اور حکام کے کرتوتوں کے نتیجے میں اور ان کرتو توںپر پردہ پوشی کے لئے علمائے اہل سنت کے خمس کے متعلق نظریات بھی ایک دوسرے سے متضاد ہیں _ اس بارے میں ابن رشد کہتا ہے : '' خمس کے متعلق بھی

____________________

۱)مستدرک حاکم و تلخیص مستدرک ذہبی بر حاشیہ مستدرک ج ۳ ص ۴۴۲، طبقات ابن سعد مطبوعہ یورپ ج ۷ ص ۱۸، الاستیعاب ج ۱ ص ۱۱۸، اسد الغابہ ج ۲ ص ۳۶، طبری مطبوعہ یورپ ج ۲ ص ۱۱۱، ابن اثیر مطبوعہ یورپ ج ۳ ص ۳۹۱، ذہبی ج ۲ ص ۲۲۰، ابن کثیر ج ۸ ص ۴۷_

۲)تہذیب التہذیب ج ۲ ص ۴۳۷و مستدرک حاکم ج ۳ ص ۴۴۲_

۳)ملاحظہ ہو : طبقات ابن سعد ج ۵ ص ۲۸۱، ص ۲۸۵، ص ۲۸۷،ص ۲۸۹ ، الخراج ص ۲۵، و سنن نسائی باب قسم الفیء ج ۲ ص ۱۷۸_

۴۴۴

چاروں مشہور مذاہب کا آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے _ ان میں سے ایک نظریہ یہ ہے کہ خمس کو آیت کی تصریح کے مطابق پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا _ اور یہ شافعیوں کا نظریہ ہے _ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اسے چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا _ تیسرا نظریہ یہ ہے کہ آجکل صرف تین قسموں میں تقسیم کیا جائے گا کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اور ذوی القربی کا حصہ ساقط ہوگیا ہے _اور چوتھا قول یہ ہے کہ خمس فی ء (یعنی مال غنیمت ) کی طرح ہے جو ہر امیر اور غریب میں برابر تقسیم کیا جائے گا _ جو لوگ خمس کی چار یا پانچ حصوں میں تقسیم کے قائل ہوئے ہیں ان کا آپس میں اس بات پر اختلاف ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں کے حصہ کاکیا کیا جائے گا _ ایک گروہ کہتا ہے کہ ان کے حصے کوخمس کے دیگر تمام حصہ داروں میں برابر تقسیم کردیا جائے گا _ جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ اسے باقی سپاہیوں میں بانٹ دیا جائے گا _ حالانکہ ایک اورگروہ کا کہنا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا حصہ امام ( حاکم ) کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں کا حصہ امام کے رشتہ داروں کو دیا جائے گا _ لیکن چوتھے گروہ کا کہنا ہے کہ اسے اسلحہ وغیرہ اور لشکر کی تیاری کے لئے مخصوص کیا جائے گا _ نیز ان لوگوں کا اس بات پر بھی اختلاف ہے کہ قرابت داروں سے مراد کون لوگ ہیں؟(۱) _

جبکہ ابن قدامہ کہتا ہے : '' ابوبکر نے خمس کوتین حصوں میں تقسیم کیا اور یہ نظریہ اصحاب قیاس یعنی ابوحنیفہ اور اس کی جماعت کا بھی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ خمس کو ''یتامی '' ، '' مساکین ''اور '' ابن السبیل '' کے تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا _ اور انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں کا حصہ ختم کردیا _ اور مالک کہتا ہے کہ خمس اور فی دونوں ایک ہی چیز ہیں انہیں بیت المال میں جمع کردیا جائے گا'' ابن قدامہ اس کے آگے کہتا ہے :'' اور ابوحنیفہ کا نظریہ آیت کے مفہوم کے مخالف ہے کیونکہ خدا نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کے قریبیوں کے لئے ایک حصہ رکھا ہے اور خمس میں ان دونوں کا حق بھی اسی طرح دائمی رکھا ہے جس طرح باقی تین قسم کے افراد کا حصہ رکھا ہے ، پس جس نے اس کی مخالفت کی اس نے آیت کی

____________________

۱) بدایة المجتہد حکم الخمس ج ۱ ص ۴۰۱_

۴۴۵

تصریح کی مخالفت کی لیکن ابوبکر اور عمر کا '' ذوی القربی'' کے حصہ کو '' فی سبیل اللہ '' میں قرار دینے کے متعلق جب احمد کو بتایاگیا تو اس نے خاموشی اختیار کر لی اور اپنا سر ہلادیا لیکن اس نظریئےوقبول نہیں کیا _ اور اس نے ابن عباس اور اس کے ہم خیالوں کے نظریئےو کتاب اللہ اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ موافقت اور مطاقبت کی وجہ سے بہتر جانا ہے ''(۱)

اور ابویعلی اور ماوردی کا نظریہ ہے کہ خمس کے استعمال کی تعیین خلفاء (حکام) کی مرضی پر منحصر ہے(۲)

خمس کے متعلق اہل بیتعليه‌السلام اور ان کے پیروکاروں کا نظریہ

اہل بیتعليه‌السلام اور شیعیان اہل بیتعليه‌السلام کے نزدیک خمس کے چھ حصے ہوں گے _ ان میں سے تین حصے خدا ، اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آنحضرت کے قریبیوں کے ہےں جنہیں اپنی حیات طیبہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود لیں گے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد یہ معاملہ بارہ اماموں کے سپرد ہوگا _ اور باقی تین حصے بنی ہاشم کے یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کا ہے البتہ اگر وہ سب غریب اور محتاج ہوں _

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر اس مال کا خمس نکالنا واجب ہے جو کسی مسلمان کو حاصل ہوچاہے وہ دشمنوں سے حاصل ہو یا کہیں اور سے وہ صرف اپنے دعوے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنے مدعا پر ائمہ اہل بیتعليه‌السلام سے مروی ان بہت سی حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں جو خمس کے متعلق ہیں _ کیونکہ ائمہ اہل بیتعليه‌السلام ثقلین کا ایک حصہ ہیں جن سے تمسک کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور وہ نوحعليه‌السلام کی کشتی اور مغفرت کا دروازہ ہیں _ خدا ہم سب کو ان سے زیادہ سے زیادہ محبت ، ان سے تمسک اور ان کے رفتار اور گفتار کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے _

آمین ثم آمین

____________________

۱)المغنی ابن قدامہ ج ۷ ص ۳۵۱باب قسمة الفی والغنیمہ_

۲)احکام السلطانیہ ماوردی باب قسم الفی ص ۱۲۶، احکا السلطانیہ ابویعلی ص ۱۲۵_

۴۴۶

فہرست

مقدمہ: ۵

پانچواں باب ۷

ہجرت سے بدر تک ۷

پہلی فصل : ۹

رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں ۹

رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری : ۱۰

رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مدینہ میں قیام : ۱۲

ابن سلام کا قبول اسلام : ۱۳

دو اہم نکات: ۱۹

پہلا اہم نکتہ: ۱۹

دوسرا اہم نکتہ : ۲۰

دوسری فصل : ۲۲

غیر جنگی حوادث و واقعات ۲۲

حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے بعض مہاجرین کی واپسی : ۲۳

حضرت عائشہ نبی اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌ کے گھر میں : ۲۴

رخصتی کی رسم ۲۴

انوکھا استدلال : ۲۵

ایک نئے دور کی ابتداء ۲۶

مومنین کے درمیان صلح والی آیت: ۲۶

سلمان محمدی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاقبول اسلام : ۲۹

۴۴۷

ایک اہم بات : ۳۰

رومہ کا کنواں حضرت عثمان کے صدقات میں : ۳۱

'' اریس'' کا کنواں ۳۵

مسئلے کی حقیقت ۳۵

کھجور کی پیوندکاری ۳۶

تیسری فصل : ۳۹

ابتدائے ہجرت میں بعض اساسی کام ۳۹

تمہید: ۴۰

۱_ ہجری تاریخ کی ابتداء کے متعلق تحقیق ۴۱

کس شخص نے سب سے پہلے ہجرت نبویہ کے ساتھ تاریخ لکھی ؟ ۴۱

تمہید: ۴۱

تاریخ گذاری کی حکایت مؤرخین کی زبانی: ۴۲

بہترین نظریہ ۴۴

محرم کا مشورہ کس نے دیا ؟ ۴۵

اس نظریہ کے حامی حضرات : ۴۷

سہیلی کی بات: ۴۸

خلاصہ بحث: ۶۶

پھر عیسوی تاریخ کیوں؟ ۶۸

نکتہ: ۶۹

مخلصانہ اپیل ۷۰

۲_ مدینہ میں مسجد کی تعمیر : ۷۱

۴۴۸

الف: حضرت ابوبکر اوردس دینار: ۷۳

ب: پتھراور خلافت ۷۴

ج: حضرت عثمان اور حضرت عمار: ۷۶

کیا حضرت عثمان حبشہ میں نہ تھے؟ ۷۸

پہلے مسجد کی تعمیر کیوں؟ ۸۲

مسجد کو بنانے میں نبی اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت: ۸۶

مسجد کی تعمیر میں خواتین کا کردار: ۸۷

صرف عورتوں کیلئے نماز جماعت: ۸۷

مؤاخات کرنے والوں کی تعداد: ۹۰

ہر ایک کا اس جیسے کے ساتھ بھائی چارہ ۹۱

علی عليه‌السلام کے ساتھ نبی اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مؤاخات : ۹۲

حدیث مؤاخات کا تواتر: ۹۴

حضرت علی علیہ السلام کو ابوتراب کی کنیت ملنا : ۹۵

علی عليه‌السلام کے ساتھ نبی اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مؤاخات کے منکرین: ۹۵

کچھ مواخات کے متعلق : ۹۹

الف : بہترین متبادل ۹۹

ب: انسانی روابط کا ارتقائ ۹۹

ج: نئے معاشرے کی تشکیل میں مؤاخات کا کردار: ۱۰۰

یہ مواخات دو بنیادوں پر قائم تھی:_ ۱۰۱

اوّل : حق : _ ۱۰۱

دوم : باہمی تعاون:_ ۱۰۲

۴۴۹

حضرت ابوبکر کے خلیل: ۱۰۲

سلمان کی دوستی ، کس کے ساتھ؟ ۱۰۳

حدیث مواخات کاانکار اور اس کا جواب : ۱۰۳

ابوذر ،سلمان کی مخالفت نہ کرے ۱۰۷

۴_ جدید معاشرے میں تعلقات کی بنیاد: ۱۰۹

سند کا متن ۱۱۰

معاہدہ یا معاہدے؟ ۱۱۴

معاہدے پر سرسری نگاہ : ۱۱۶

۵_ یہودیوں سے صلح : ۱۲۴

چوتھی فصل: شرعی احکام ۱۲۵

اذان کی تشریع : ۱۲۶

اذان کی روایات پر بحث: ۱۲۷

آخری بات ۱۳۵

اذان میں حی علی خیر العمل: ۱۳۷

عبداللہ بن عمر سے روایات: ۱۳۹

امام زین العابدین عليه‌السلام سے روایات ۱۴۰

سہل بن حنیف سے روایات: ۱۴۱

حضرت بلال سے روایات: ۱۴۱

بے جا اعتراضات : ۱۴۷

'' حی علی خیر العمل '' ، نعرہ بھی اور موقف بھی ۱۴۸

اس عبارت کے حذف ہونے کا سبب : ۱۵۱

۴۵۰

اس رائے پہ تبصرہ: ۱۵۲

نماز میں اضافہ: ۱۵۲

نماز کے فرض ہونے میں ایک اور نظریہ: ۱۵۳

زکوة کا فریضہ: ۱۵۴

ماسبق سے متعارض روایت ۱۵۷

زکات فطرہ کا فرض ہونا ۱۵۸

روزے کا فرض ہونا: ۱۵۸

ایک اعتراض اور اس کا جواب ۱۵۹

روز عاشور کا روزہ : ۱۶۰

ان روایات کا جھوٹ: ۱۶۱

روز عاشورا کے دیگر فضائل: ۱۶۴

یوم عزاء یا عیدکا دن ؟ ۱۶۵

جعلی احادیث: ۱۶۶

عاشوراکی یادمٹا نے کے مختلف طریقے: ۱۶۷

پانچویں فصل: ۱۷۰

اسلام میں جہاد کی اہمیت ۱۷۰

اسلام اور تلوار ۱۷۱

۱: اسلام اور دیگر ادیان میں جنگ کے خد و خال ۱۷۲

ایک اشارہ ۱۷۳

۲ : جب جنگ ناگزیرہو ۱۷۴

کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟ ۱۸۲

۴۵۱

چھٹی فصل: ۱۸۴

جنگ بدر سے پہلے کی لڑائیاں ۱۸۴

رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوات اور سرایا: ۱۸۵

ایک : معرکہ سے فرار ۱۸۵

دو: سرایا کے لئے نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت : ۱۸۶

اس کتاب میں ہمارا مطمح نظر: ۱۸۷

ابتدائی جنگیں : ۱۸۸

۱ _ حضرت علی عليه‌السلام کی کنیت ابوتراب قرار دینا: ۱۹۱

دغابازی اور جھوٹ: ۱۹۳

یہ جعل سازیاں کیوں؟ ۱۹۸

اس کنیت کی اہمیت : ۱۹۹

۲_ سرایا کا مقصد؟ ۲۰۰

اول : صلح اور باہمی عہدو پیمان : ۲۰۰

دوم: قریش کی پریشانی ۲۰۱

۳_سپاہیوں کو آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصیحتیں ۲۰۳

۴_ صرف مہاجرین ہی کیوں ؟ ۲۰۴

الف: انصار کا گمان ۲۰۴

باء : جنگ اور امن کا مسئلہ ۲۰۵

ج :انصار کے مخصوص حالات ۲۰۵

د: مہاجرین کی نفسیاتی کیفیت ۲۰۷

عربوں میں خون کا معاملہ ۲۰۸

۴۵۲

قریش اور انصار ۲۱۰

تاریخی دغابازی ۲۱۴

ھ: انصار کے متعلق پیامبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید: ۲۱۸

جنگ انصار پر معاف نہ تھی: ۲۲۰

چھٹا باب: ۲۲۱

غزوہ بدر کا عظیم معرکہ ۲۲۱

پہلی فصل : ۲۲۳

جنگ کی فضاؤں میں ۲۲۳

قریش کی ناکام سازش ۲۲۴

بدر کی جانب روانگی: ۲۲۵

لوگوں سے ڈرنے والے ۲۲۶

عاتکہ کا خواب ۲۲۹

قریش کی تیاری : ۲۳۰

امیہ بن خلف کا موقف ۲۳۰

مذکورہ واقعہ پرچند نکات ۲۳۱

طالب بن ابی طالب کی جنگ سے واپسی ۲۳۲

ہمارا نظریہ ۲۳۳

مجبور اور واپس پلٹ جانے والے ۲۳۵

مذکورہ افراد کے متعلق نبی کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا موقف ۲۳۶

آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مؤقف پر ایک سر سری نظر ۲۳۷

جنگ کے لئے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مشورہ لینا ۲۳۸

۴۵۳

۱_ آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے صحابہ سے مشورہ ۲۴۱

۲_ بہترین رائے ، قریش سے جنگ ۲۴۲

۳_ نفسیاتی تربیت: ۲۴۳

۴_ جنگ سے متعلق مشوروں پر ایک سرسری نگاہ ۲۴۳

۵_ مقداد اور سعد کی باتوں پر آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سرور کی وجوہات ۲۴۵

۶_ حضرت علی علیہ السلام نے مشورہ کیوں نہیں دیا؟ ۲۴۶

'' حباب'' اچھی رائے والا ۲۴۶

مسلمانوں اور مشرکوں کی تعداد اور ساز و سامان ۲۴۸

مشرکوں کی ہٹ دھر می اور کینہ توزی ۲۵۰

دونوں فوجوں کا پڑاؤ ۲۵۱

مسلمانوں کی معنویات اور پروردگار کی عنایات ۲۵۱

اس جنگ کے مقاصد ۲۵۳

صف آرائی ۲۵۴

طوفان سے قبل آرام ۲۵۵

الف: مشرکین کے خوف کی وجوہات: ۲۵۷

ب : مشرکین کو نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی پیشکش پر ایک نگاہ : ۲۵۷

ج: رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جنگ کی ابتداء نہیں کرنا چاہتے_ ۲۵۸

نبی کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سائبان تلے؟ ۲۵۹

نکتہ: ۲۶۲

جنگ کی ابتدائ: ۲۶۲

تینوں جنگجوؤں کے قتل کے بعد ۲۶۵

۴۵۴

الف: حضرت ابوطالب عليه‌السلام کے حق میں آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ: ۲۶۷

ب: اپنے رشتہ داروں سے آنحضرت عليه‌السلام کی جنگ کی ابتدائ: ۲۶۷

ج : شیبہ کا توہین آمیز رویہ: ۲۶۹

د: خدا کی طرف سے مسلمانوں کو ملنے والا حق: ۲۶۹

جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے ۲۷۰

جنگ بدر میں فرشتوں کا کردار ۲۷۱

جنگ جمل میں بی بی عائشہ کا کردار ۲۷۲

شکست اور ذلت ۲۷۲

دوسری فصل: ۲۷۴

جنگ کے نتائج ۲۷۴

جنگ کے نتائج : ۲۷۵

حضرت علی علیہ السلام کے کارنامے: ۲۷۵

ایک اور جھوٹی روایت ۲۷۹

تو پھر صحیح کیا ہے ؟ ۲۸۰

نکتہ ۲۸۱

مشرکین کے مقتولین ، کنوئیں میں: ۲۸۲

ذوالشمالین: ۲۸۶

الف : جنگ بدر میں آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی خطیر مہم ۲۸۶

چند نکات: ۲۸۷

ب : جنگ فیصلہ کن تھی ۲۸۸

ج: شکت ، طاقت کا عدم توازن اور فرشتوں کی امداد ۲۸۹

۴۵۵

د: انصار کے خلاف قریش کا کینہ ۲۹۷

پہلے اہل بیت عليه‌السلام کیوں ؟ ۲۹۹

ھ:حضرت علی عليه‌السلام اور ان کے گھرانے پر جنگ بدر کے اثرات : ۳۰۰

شہدائے انصار ۳۰۲

آیت تخفیف کے متعلق علامہ طباطبائی کا نظریہ : ۳۰۳

تیسری فصل: ۳۰۸

مال غنیمت اور جنگی قیدی ۳۰۸

مال غنیمت کی تقسیم : ۳۰۹

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس کیوں نہیں لیا ؟ ۳۱۰

رسول خدا ایک بار پھر خمس اپنے اصحاب میں بانٹ دیتے ہیں ۳۱۲

حضرت علی عليه‌السلام کے دور حک۳مت میں غربت کا خاتمہ : ۳۱۲

اہم نوٹ : خمس اور اقربا پروری؟ ۳۱۳

الف : طلحہ اور سعید بن زید: ۳۱۷

ب:عثمان بن عفان ۳۱۹

دوسروں کے فضائل پرڈاکہ ۳۲۲

دوقیدیوں کا قتل : ۳۲۳

ب: پسماندگان کے لئے دوزخ کی بشارت ۳۲۶

ج: عقبہ کو نسب کا طعنہ : ۳۲۷

د:واقعہ بدر میںنضربن حارث کے قتل کا انکار : ۳۲۸

باقی قیدیوں کی صورتحال : ۳۲۹

عذاب کے نزول کی صورت میں صرف عمر کی ہی جان بچتی ؟ ۳۳۱

۴۵۶

رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتے ہیں ؟ ۳۳۶

سعد بن معاذ یا عمربن خطاب ؟ ۳۳۷

قیدیوں کا قتل ہی زیادہ مناسب تھا: ۳۳۸

قیدیوں کے بارے میں عمر کا موقف: ۳۴۰

نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم بھا گ جانے والے قیدی کو قتل نہیں کرتے ۳۴۱

قید میں عباس کے نالے ۳۴۲

عباس کا فدیہ اور اس کا قبول اسلام ۳۴۴

نکتہ : ۳۴۷

نبی کریم کو قتل کرنے کی سازش ۳۴۹

زینب کے ہار اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا موقف ۳۴۹

چند جواب طلب سوال ۳۵۰

جناب زینب کا واقعہ اور ابن ابی الحدید ۳۵۱

فدیہ اسیر، تعلیم تحریر ۳۵۲

قیدیوں سے سلوک ۳۵۴

سودہ کا آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف قیدیوں کو بھڑکانا ۳۵۴

چوتھی فصل: ۳۵۶

جنگ بدر کا اختتام ۳۵۶

اہل بدر بخشے ہوئے ہیں ۳۵۷

اہل بدر سے بھی افضل لوگ ؟ ۳۶۱

ابن جوزی اور بدریوں کے مغفرت والی حدیث ۳۶۲

ناکام واپسی ۳۶۳

۴۵۷

کامیاب واپسی ۳۶۴

جنگ بدر کے بعض نتائج ۳۶۵

جنگ بدر کے نتائج سے نجاشی کی خوشی ۳۶۷

آخری بات: ۳۶۷

اہل بدر کے بارے میں معاویہ کا موقف ۳۶۸

پانچویں فصل: ۳۶۹

سیرت سے متعلق چند باتیں ۳۶۹

تمہید: ۳۷۰

پہلا عنوان ۳۷۱

شیعیان علی عليه‌السلام کی بعض خصوصیات ۳۷۱

دوسرا عنوان ۳۸۴

جناب ابوبکر کی شجاعت اور سائبان میں ان کی موجودگی_ ۳۸۴

مذکورہ باتیں نادرست ہیں ۳۸۶

الف : کئی مقامات پر ابوبکر کا فرار ۳۸۶

ب: ابوبکر کے ذریعہ بنی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی حفاظت ۳۹۱

ج : ابوبکر میدان جنگ میں ۳۹۳

د: حضرت علی عليه‌السلام کی ناکثین اور قاسطین سے جنگ ۳۹۴

ہ: زکات نہ دینے والوں سے جنگ ۳۹۶

و: وفات رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وقت اس کی ثابت قدمی ۳۹۶

تیسرا عنوان ۳۹۹

ذوالشمالین کا قصہ اور نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سہو ۳۹۹

۴۵۸

شیعوں کے نزدیک سہو کی روایات ۴۰۳

یہ ماجرا کس لئے ؟ ۴۰۳

ان توجیہات کے نقائص ۴۰۴

ایک اعتراض اور اس کا جواب ۴۰۵

سہو ، خطا اور نسیان سے بچنا اپنے اختیارمیں ہے ۴۰۶

پختہ ارادہ ۴۱۱

تبلیغ و غیرہ میں عصمت ۴۱۱

ایک جواب طلب سوال ۴۱۲

اسلام اور فطرت ۴۱۳

عصمت کے لئے ضروری عناصر ۴۱۸

توضیح اور تطبیق: ۴۲۱

حضرت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم افضل ترین مخلوق ۴۲۳

حدیث ''علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل '' کا صحیح مطلب ۴۲۴

چوتھا عنوان ۴۲۶

خمس کا شرعی حکم اورسیاست ۴۲۶

غنیمت کا معنی ۴۲۶

آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطوط میں خمس کا تذکرہ ۴۲۹

ان خطوط پر ایک نظر ۴۳۲

وافر مال پر خمس واجب ہے ۴۳۳

مزید دلائل ۴۳۵

معدنیات اور مدفون خزانوں پر بھی خمس ہے ۴۳۵

۴۵۹

لطیفہ ۴۳۷

خمس لینے والے نمائندے ۴۳۷

کتاب اور سنت میں خمس کے استعمال کے مقامات ۴۳۸

اہل بیت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روایات میں خمس ۴۳۹

اہل سنت کی روایتوں میں خمس ۴۳۹

عہد نبوی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خمس کا استعمال ۴۴۰

خلیفہ ثانی کے دور میں ۴۴۱

خلیفہ سوم کے دور میں ۴۴۲

خمس کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کی سیرت ۴۴۳

معاویہ کے دور میں ۴۴۴

عمر بن عبدالعزیز کے دور تک ۴۴۵

خمس کے متعلق علمائے اہل سنت کے نظریات ۴۴۵

خمس کے متعلق اہل بیت عليه‌السلام اور ان کے پیروکاروں کا نظریہ ۴۴۷

۴۶۰