الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)8%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242079 / ڈاؤنلوڈ: 6987
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۱_ ہجری تاریخ کی ابتداء کے متعلق تحقیق

کسی بھی ایسے تمدن کی حیات اور دوسرے گروہوں ، قبیلوں اور قوموں پر اس کے غلبے اور مطلوبہ اہداف تک پہنچنے کے لئے حالات، واقعات اور معاملات کو ضبط تحریر میں لانا ایک لازمی اور ناگزیر امر ہے جو مذکورہ کاموں کا ارادہ رکھتی ہو_ اور یہ مسئلہ اس مسلم امت کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہوجاتاہے جو الطاف خداوندی اور رضائے الہی کے سائے میں پھل پھول رہی ہو اور زمانوں بلکہ طویل دورانیے تک کے لئے تمام انسانوں کے تمام امور اور حالات کو دگرگوں کرنے کا ارادہ رکھتی ہو_ یہیں سے یہ بات بالکل واضح اور بدیہی ہوجاتی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فوری طور پر پہلا کام ہی تاریخ وضع کرنے کا کیا ہوگا _ بلکہ تعمیر مسجد کی طرح یہ بات بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اولین ترجیحات میں ہونی چاہئے تھی_ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ در پردہ ہاتھوں نے اس اہم ترین واقعہ کی بھی پردہ پوشی کرنی چاہی_ اس لئے اس واقعہ پرتاریخی لحاظ سے بحث کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہوگیا ہے_ جس کے نتیجے میں علمی دلائل کے ساتھ ہمارے لئے یہ قطعی طور پر ثابت ہوجائے گا کہ اس ہجری تاریخ کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے ہی وضع کی ہے _ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی کئی بار اور کئی موقعوں پر تاریخ گذاری کی ہے _ اس لئے ہم یہ سب سمجھنے کے لئے اس بحث کی ابتداء ہی اس سوال سے کرتے ہیں کہ :

کس شخص نے سب سے پہلے ہجرت نبویہ کے ساتھ تاریخ لکھی ؟

تمہید:

مؤرخین کہتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے ہجرت نبویہ کے ساتھ تاریخ لکھی وہ خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب ہے _اور اکثر مؤرخین کہتے ہیں کہ تاریخ کے لئے ہجرت کو مبدء اور بنیاد قرار دینا حضرت علی ابن ابی طالبعليه‌السلام کی رہنمائی سے تھا(۱) اور بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ مشورہ دینے والے فقط حضرت علیعليه‌السلام نہیں تھے

____________________

۱) تاریخ عمر بن الخطاب لابن الجوزی ص ۷۶ ، الکامل لابن الاثیر مطبوعہ صادر ج/۲ ص ۵۲۶، تاریخ الیعقوبی ط صادر ج/۲ ص ۱۴۵ ، التنبیہ والاشراف ص ۲۵۲ ، محاضرة الاوائل ص ۲۸ ، تہذیب تاریخ ابن عساکر ج/۱، ص ۲۳ ،فتح الباری ج / ۷ ، ص ۲۰۹ ، تاریخ الخلفاء ص ۱۳۲ ، ۱۳۶ ، ص ۲۳ و۱۳۸ از تاریخ بخاری ،بحارالانوار ج /۵۸ ص ۳۵۰ ، ۳۵۱ ، سفینةالبحار ج/۲ ص ۶۴۱ المناقب لابن شہر آشوب ج/۲ ص ۱۴۴، البحارج/۴۰ ص۲۱۸،ا حقاق الحق ج/۸ ص ۲۲۰ علی و الخلفاء ص ۱۳۹،۱۴۱ ، اعلان بالتوبیخ ص ۸۰ و ۸۱ والوسائل سیوطی ص ۱۲۹_

۴۱

بلکہ ان کے ہمراہ کچھ اور صحابہ بھی تھے(۱) اور تیسرے گروہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ کچھ صحابہ نے مشورہ دیا تھا لیکن مشورہ دینے والوں کا نام ذکر نہیں کیا(۲) _

اور چوتھا گروہ مشورہ کے ذکر سے خاموش ہے اور فقط اسی پر اکتفا کرتاہے کہ حضرت عمر سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہجری تاریخ لکھی(۳) _

تاریخ گذاری کی حکایت مؤرخین کی زبانی:

مؤرخین نے وضع تاریخ کے سبب کے متعلق مختلف حکایتیں نقل کی ہیں لیکن ہم نے ابن کثیر سے منقول واقعہ کا انتخاب کیا ہے البتہ در میان میں بعض وضاحتوں کو بریکٹ میں لکھاہے، اور ان کے منابع کی طرف اشارہ بھی کردیا ہے _

ابن کثیر کہتاہے کہ واقدی کا قول ہے کہ اسی سال (یعنی ۱۶ ویں ،۱۷ ویں یا ۱۸ ویں(۴) )سال کے ربیع الاول میں حضرت عمر بن الخطاب نے تاریخ لکھی اور یہ پہلی شخصیت ہے کہ جس نے تاریخ لکھی_ البتہ اس کی وجوہات کے متعلق میں کہتاہوں کہ ہم نے سیرت عمر میں اس کے سبب کو ذکر کیا ہے اور وہ یہ کہ حضرت عمر کے پاس ایک سند لائی گئی جس میں ایک شخص کے لئے دوسرے شخص کے ذمہ قرض لکھا ہوا تھا کہ جسے شعبان میں ادا کیا جانا تھا تو اس نے کہا کہ کون سا شعبان ؟ اس سال کا ، گذشتہ سال کایا آئندہ سال کا؟

پھر ( اصحاب النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کو جمع کیا اور کہا کہ لوگوں کے لئے کوئی ایسی تاریخ معین کریں کہ جس سے ان کو

____________________

۱) البدایة والنھایة ج/۷ ص ۷۴ ، الوراء والکتاب ص ۲۰ و مآثر الانافہ ج۳ ص ۳۳۶_

۲) صبح الاعشی ج/۶، ص ۲۴۱، مآثر الانافة ج۳ص۳۶ ، فتح الباری ج۷ص۲۰۹، کامل ابن ج ۱،ص۱۰_

۳) الاستیعاب (حواشی الاصابة) ج۲ ، ص ۴۶۰، المحاسن والمساوی ج۲ ص ۶۸ ، تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۳۸ ، اور ج/۲ ص ۲۴۱،تہذیب التھذیب ج/۷ ص ۴۴۰ ، ماثر الانافة ج۱،ص ۹۲ ، تحفة الناظرین شر قاوی ( حواشی فتوح الشام) ج/ ۲ ص ۶۲، صفة الصفوة ج/۱ ص ۲۷۶ ، طبقات ابن سعد ج ۳ ، حصہ اول ص ۲۰۲ تاریخ ابن الوردی ج/۱ ص ۱۴۵ الاوائل للعسکری ج/۱ ص ۲۲۳ تاریخ طبری ج/۳ ص ۲۷۷ ، محاضرات الراغب ج۱ ص ۱۰۵ ، الانس الجلیل ج ۱ص۱۸۸ الاعلاق النفیسہ ص ۱۹۹ بحارالانوار ج۵۸ ص ۳۴۹ و ۳۵۰ ، نیز ملاحظہ ہو: الاعلان بالتوبیخ ص ۷۹ و نفس الرحمان ص ۴۴_

۴)الوزراء والکتاب ص ۲۰ نیز البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۲۰۶ و ۲۰۷_

۴۲

اپنے قرض کی ادائیگی کا وقت معلوم ہو _ کہا جاتاہے کہ کچھ حضرات (یا ہرمزان)(۱) نے کہا کہ ایرانیوں کی طرح تاریخ لکھی جائے جیساکہ وہ اپنے بادشاہوں سے تایخ لکھتے ہیں ، جب ایک بادشاہ ہلاک ہوجاتاہے تو بعد میں آنے والے بادشاہ کی تاریخ حکومت سے تاریخ لکھتے ہیں لیکن اسے اصحاب نے ناپسند کیا ، کچھ لوگوں نے ( جو یہود یت سے مسلمان ہوئے تھے)(۲) کہا:''اسکندر کے زمانہ سے روم کی تاریخ لکھی جائے''_ اسے بھی طولانی ہونے کی وجہ سے ناپسند کیا گیا اور کچھ لوگوں نے کہا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت سے تاریخ لکھی جائے اور کچھ کہتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے لیکن حضرت علیعليه‌السلام ابن ابی طالب اور کچھ صحابہ نے مشورہ دیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے تاریخ لکھی جائے کیونکہ یہ واقعہ ہر شخص کے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت اور بعثت کی نسبت زیادہ واضح ہے _پس حضرت عمر اوردیگر صحابہ نے اس کو پسند کیا اور حضرت عمر نے حکم دیا کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی ہجرت سے تاریخ لکھی جائے(۳) _ اور حاکم نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے ( اس روایت کو حاکم اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے) کہ اس نے کہا ہے کہ '' حضرت عمر نے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے پوچھاکہ کس دن سے تاریخ لکھی جائے تو حضرت علیعليه‌السلام بن ابی طالب نے فرمایا کہ جس روز نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت فرمائی تھی اور شرک کی زمین کو چھوڑ ا تھا

____________________

۱) صبح الاعشی ج/۶ ص ۲۴۱ ، اس میں لکھاہے کہ حضرت عمرنے اسے خط لکھا اور مشورہ چاہاالبحار ج/۵۸ ص ۳۴۹ ، ۳۵۰ ، سفینة البحار ج/۲ ص ۶۴۱، تاریخ ابن الوردی ج /۱ ص ۱۴۵ ، الانس الجلیل فی اخبار القدس و الخلیل ج/۱، ص ۱۸۷ ، الخطط للمقریزی ج/۱ ص ۲۸۴ ، اور اس میں ہے کہ حضرت عمر نے اس سے استدعا ء کی تھی _ (۲) الاعلان با لتوبیخ ص ۸۱ ، البحار ج / ۵۸ ، ص ۳۵۰ ، اور نزھة الجلیلس ج/۱ ص ۲۲ میں تاریخ ابن عساکر سے نقل کیا گیا ہے کہ نصاری اسکندر کی تاریخ سے لکھتے تھے یہاں مؤلف کہتے ہیں کہ پھر تاریخ عیسوی کہاں تھی ، اور کب ظاہر ہوئی ؟ جواب: جیسا کہ کہتے ہیں کہ تقریباً چوتھی صدی ہجری میں ظاہر ہوئی ہے بلکہ ان آخری صدیوں میں ظاہر ہوئی ہے_

۳) البدایة و النہایة ج / ۷ ص ۷۳ ، ۷۴ نیز ج۳ ص ۳۰۶، تاریخ عمر بن الخطاب ابن جوزی ص ۷۵، ۷۶ تہذیب تاریخ ابن عساکر ج/۱ ص ۲۲ ، ۲۳ ، شرح نہج البلاغہ للمعتزلی ج/۱۲ ، ص ۷۴ ، علی و الخلفاء ص ۲۴۰ ، الاعلان بالتوبیخ ص۸۰ ، ۸۱، منتخب کنز العمال ، حواشی مسند احمد ج / ۴ ص ۶۷ ، الکامل لابن الاثیر ج/۱ ص ۱۰ البحار ۵۸ ص۳۴۹ نزھة الجلیس ج۱ص ۲۱ طبری ج۲ص ۳۸۸ ، الوزراء والکتاب ص ۲۰ ، فتح الباری ج۷ص۲۰۹ ، صبح الاعشی ج۶ص۲۴۱ ابن حاجب نعمان سے ذخیرہ الکتاب میں روایت ہے کہ ابوموسی نے حضرت عمر کو لکھا کہ آپ کی ہمارے پاس کچھ تحریری اسناد آئی ہیں جو شعبان کی ہیں ہم نہیں جانتے یہ کونسا شعبان ہے گذشتہ یا آنیوالا تو حضرت عمر نے اصحاب کو جمع لیا الاوائل ابوہلال عسکری ج۱ص۲۴۳ کنز العمال ج۱۰ ص ۱۹۵ از مستدرک و حصہ ادب صحیح بخاری و ص ۱۹۳ از ابن ابی خیثمہ ، نیز الاعلان بالتوبیخ ۷۹_

۴۳

اس روز سے _پس حضرت عمر نے ایسا ہی کیا_ یہ حدیث صحیح السند ہے لیکن شیخین نے اس کو درج نہیں کیا''(۱) _

اور یعقوبی نے ۶ ۱ ھ کے واقعات میں لکھا ہے : '' اور اسی سال خطوط پر تاریخ لکھی گئی _ جبکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ مولد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تاریخ لکھیں _اور پھر بعثت سے لکھنے کا ارادہ کیا لیکن حضرت علیعليه‌السلام بن ابی طالب نے مشورہ دیا کہ ہجرت سے تاریخ لکھی جائے ''(۲) _ ان کے علاوہ اور بھی نصوص پائی جاتی ہیں جو اس بات کی تاکید کرتی ہیں کہ حضرت عمر ہی وہ پہلی شخصیت ہے جس نے تاریخ ہجری اسلامی کو وضع کیا _

بہترین نظریہ

لیکن اس قول کے صحیح ہونے میں ہمیں شدید شک ہے ہماری رائے یہ ہے کہ ہجری تاریخ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ہی وضع کی گئی ہے اور خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے متعددبار مختلف مناسبتوں سے یہ تاریخ لکھی ہے اور جو کچھ حضرت عمر کے زمانے میں ہوا ہے وہ فقط یہی ہے کہ ربیع الاول کے بجائے محرم کو سال کی ابتداء قرار دیا ہے جیسا کہ صاحب بن عباد نے بھی اس بات کی طرف اشار ہ کیا ہے(۳) _ اور اس سلسلے میں بھی مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے ، کچھ مؤرخین قائل ہیں کہ انہوں نے پہلے سال کے محرم کو ہجری سال کی ابتداء قرار دیا تھا اور یہ جمہور کا نظریہ ہے، اور کچھ مؤرخین کہتے ہیں کہ انہوں نے دوسرے سال کے محرم کو ہجری سال کی ابتداء قرار دیا تھا اور اس سے پہلے کے مہینوں کو شمار نہیں کیا اور ا س کی بیہقی نے حکایت کی ہے اور یعقوب بن سفیان الفسوی اسی کا قائل ہے(۴) _

____________________

۱) مستدرک الحاکم ج/۳ ص۱۴ ، تلخیض المستدرک للذھبی ( اس صفحہ کے حواشی میں ) الاعلان بالتوبیخ ص ۸۰ فتح الباری ج۷ ص ۲۰۹ ; تاریخ الطبری ط ا لمعارف ج/۲ ، ص ۳۹۱ اور ج/ ۳ ص ۱۴۴ ، تاریخ عمر بن الخطاب ص ۷۶ ، تہذیب تاریخ ابن عساکر ج/۱ ص ۲۳ ، منتخب کنزالعمال (حاشیہ مسند)ج/۴ ص ۶۷ ، علی و الخلفاء ص ۲۳۹ ، و ۲۴۰ ، احقاق الحق ج /۸ ص ۲۱۹ ، الخطط و الآثار ج/۱ ص ۲۸۴ ، الشماریخ للسیوطی ص ۴ مطبوعہ لیڈ ن و التاریخ الکبیر للبخاری ج/۱ ص ۹ اور الکامل ج/۱ ص ۱۰ ، ط صادر کنز العمال ج۱۰ ص ۱۹۳ و ۱۹۲_

۲) تاریخ الیعقوبی طبع صادر ج/ ۲ ص ۱۴۵_

۳) عنوان المعارف و ذکر الخلائف ص ۱۱_

۴) البدایة والنھایة ج/۳ ص ۹۴_

۴۴

محرم کا مشورہ کس نے دیا ؟

لیکن ربیع الاول کی بجائے محرم کو ابتدائے سال ہجری قرار دینے کا مشورہ کس شخص نے دیا؟ تو اس سلسلہ میںبھی روایات میں اختلاف پایا جاتاہے ، کہا گیا ہے کہ یہ حضرت عثمان بن عفان کے مشورہ سے تھا(۱) یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلکہ یہ خود حضرت عمر کی رائے تھی(۲) اور کچھ کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف نے رجب کا مشورہ دیا تو حضرت علیعليه‌السلام نے اس کے مقابلہ میں محرم کا مشورہ دیا تو اسے قبول کرلیا گیا(۳) _ اوردیار بکری و غیرہ قائل ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت علیعليه‌السلام اور حضرت عثمان کے مشورہ دینے کے بعد محرم سے ابتداء کی(۴) _ سخاوی اور کچھ دوسرے حضرات قائل ہیں کہ '' تمام روایات و آثار سے استفادہ ہوتاہے کہ عمر حضرت عثمان اور حضرت علیعليه‌السلام نے محرم کا مشورہ دیا تھا(۵) اور کتاب اوائل ج/۱ ص ۲۲۳ میں کلام عسکری سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عمر ہی ہیں جنہوں نے سال کی ابتداء محرم قرار دینے کا مشورہ دیا تھا کہ امن والے مہینے ایک ہی سال میں جمع ہوجائیں_

لیکن ہمیں بہت بعید معلوم ہوتاہے کہ حضرت علیعليه‌السلام نے ربیع الاوّل کو چھوڑ دینے اور محرم کو ابتداء قرار دینے کا مشورہ اس لئے دیا ہو کہ محرم عربوں کے نزدیک سال کا پہلا مہینہ شمار ہوتاہے(۶) بلکہ ہم اس کے خلاف یقین رکھتے ہیں_ حضرت علیعليه‌السلام تو اپنی پوری زندگی میں ربیع الاول کو ابتداء سال قرار دینے پر مصرّ تھے اور یہ فقط آپ کی رائے نہیں تھی بلکہ بہت سے نیک و صالح مسلمانوں اور صحابہ کرام کی بھی یہی رائے تھی اور اس سلسلہ میں ہم مندرجہ ذیل امور کو دلیل سمجھتے ہیں کہ جن کو مجموعاً ملاحظہ کیا جانا چاہیے_

____________________

۱) نزھة الجلیس ج/۱ ص ۲۱ ، فتح الباری ج / ۷ ص ۲۰۹ ، الاعلان بالتوبیخ ص ۸۰ ، منتخب کنز العمال (حاشیہ مسند احمد) ج / ۴ ص ۶۷ ، الشماریخ ص ۱۰ ، ط ۱۹۷۱، کنز العمال ج۱۷ ص ۱۴۵ از ابن عساکر و ج۱۰ ص ۱۹۳ از ابوخیثمہ_

۲) الاعلان بالتوبیخ ص ۷۹ ، الوزراء والکتاب ص ۲۰ ، فتح الباری ج/۷ ص ۲۰۹ نیز مآثر الانافہ ج۳ ص ۳۳۷

۳) الاعلان بالتوبیخ ص ۸۱ ، ط القاھرہ اور ص ۸۲ ، میں لکھا ہے کہ الفردوس میں دیلمی اور اس کے بیٹے دونوں نے اس واقعہ کو علیعليه‌السلام سے روایت کی ہے، احقاق الحق ج/۸ ص ۲۲۰_ ( ۴) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۳۸ ، وفاء الوفاء ج/۱ ص ۲۴۸_( ۵) الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۸۰ ، ارشاد الساری ج/۶ ص ۲۳۴ ، فتح الباری ج/۷ ص ۲۰۹ و ص ۲۱۰_ ( ۶)البدایة والنہایة ج۳ ص ۲۰۷ ، بحارالانوار ج۵۸_

۴۵

۱_ پہلے گزر چکاہے کہ آپ نے مشورہ دیا تھا کہ یوم ہجرت یا جس دن نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شرک کی زمین کو چھوڑا اس دن سے تاریخ لکھی جائے جیسا کہ ابن مسیب کی روایت میں یہ صراحت موجود ہے اور یہ ہجرت سب کو معلوم ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی_

۲_ اہل نجران کے ساتھ معاہدہ میں یہ عبارت امیر المؤمنینعليه‌السلام نے لکھی تھی _

عبداللہ(۱) بن ابی رافع نے ۱۰ جمادی الثانی ۳۷ ھ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ میں داخل ہونے کے دن سے سینتیس سال بعد تحریر کیا ہے(۲) _اور واضح ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ربیع الاول کے مہینے میں مدینہ میں داخل ہوئے_ دوسرے صحابہ کی بہ نسبت ہم کہتے ہیں کہ:

۱_ سھیلی و غیرہ کی روایت کے مطابق مالک بن انس قائل ہے کہ ''اسلامی سال کی ابتداء ربیع الاول سے ہے چونکہ یہی وہ مہینہ ہے کہ جس میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت فرمائی تھی''(۳) _

۲_ سنحاوی نے اصمعی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ربیع الاول یعنی ''ماہ ہجرت'' سے تاریخ لگائی(۴) اور اس طرح زھری سے بھی نقل کیا گیا ہے_

۳ _ جہشیاری کہتاہے کہ ایک شاذ روایت میں آیاہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نبوت کے چودہویں سال پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو تاریخ گذاری کا حکم دیا(۵) _

۵_ ہجرت کے پانچویں سال کے وسط تک صحابہ ربیع الاول سے ہجری سال کے مہینوں کو شمار کرتے تھے (اور بعد میں آئے گا کہ مؤرخین نے بھی صحابہ کی پیروی کی ہے)_

ان تمام باتوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہم جان سکتے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام نے کبھی بھی حضرت عمر کو مشورہ نہیں دیا کہ محرم کو ابتدائے سال ہجری قرار دیا جائے بلکہ آپ ان لوگوں میں سے تھے جو اصرار کرتے تھے کہ

____________________

۱)ظاہراً عبیداللہ ہے_ (۲)الخراج لابی یوسف ص ۸۱ ، جمھرة رسائل العرب ج/۱ ص ۸۲ ،شمارہ نمبر ۵۳_

۳) البدایة والنھایة ج/۳ ص ۲۰۷ ، اور اسی طرح اس کی طرف ج/۴ص۹۴ میں بھی اشارہ کیا ہے_ (۴) الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۷۸_

۵)الوزراء والکتاب ص ۲۰_

۴۶

ابتدائے سال ربیع الاول ہی کو رہنے دیا جائے کہ جس میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے خارج ہوئے یا غار سے نکلے یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ میںداخل ہونے کے پہلے دن کو ابتدائے تاریخ رہنے دیا جائے جیسا کہ بہت سے مسلمان و صحابہ بھی اس تبدیلی پر راضی نہیں تھے لیکن دوسرے گروہ نے غلبہ حاصل کرلیا_

اس بات کی طرف بھی متوجہ کر تے چلیںکہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے مدینہ میں داخل ہونے کے دن کو تاریخ کی ابتداء قرار دینے پر حضرت علیعليه‌السلام کے اصرار والی روایت اس شخص کے قول کی تائید کرتی ہے جو قائل ہے کہ نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو مدینہ میں داخل ہوئے اوراس کے متعلق کچھ گفتگو آئندہ بھی آئے گی_ اگر چہ اس بحث میں ہمارا اصلی مقصد یہ نہیں بلکہ یہاں پر ہمارا اصل مقصد یہ بحث کر نا ہے کہ کس شخص نے سب سے پہلے ہجری سال کے ساتھ تاریخ لکھی اور ہم کہہ چکے ہیں کہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے ہجرت کے ساتھ تاریخ لکھی_

اس نظریہ کے حامی حضرات :

اگر چہ بہت سے حضرات اس نظریہ میں ہمارے ساتھ موافقت نہیں رکھتے اور بعض اس بارے میں کوئی قطعی حکم لگانے میں تردد کا شکار ہیں_ اور بعض کی باتوں سے پتہ چلتاہے کہ قول مشہور کی طرف رجحان رکھتے ہیں لیکن ان سب چیزوں کی بازگشت ایک ہی امر کی طرف ہے اور وہ یہ کہ اس سلسلہ میں قطعی نظریہ پیش کرنے کیلئے وہ حضرات ضروری مقدار میں نصوص کے وجود سے بے خبر ہیں اور مؤرخین اور راویوں کے زبانوں پر جو مشہور ہے اسی پر قناعت کے عادی ہوگئے ہیں بہر حال پھر بھی یہ حضرات ہمارے نظریہ کے موافق ہیں :سید عباس مکی نزھة الجلیس میں _( جیسا کہ بعد میں اس کی عبارت کا ذکر آئیگا)_ اور اسکوسیوطی نے ابن القماح سے ( اس نے) ابن الصلاح سے اور اس نے ابن مجمش الریادی سے نقل کیا ہے (اسکا ذکر بھی آئے گا) البتہ صاحب المواھب نے کہا ہے کہ '' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تاریخ لکھنے کا حکم دیا اور ہجرت کے وقت سے تاریخ لکھی'' _زرقانی کہتاہے کہ '' اسی کو حاکم نے الاکلیل میں زھری سے مفصلاً روایت کیاہے جبکہ قول

۴۷

مشہوراس کے برخلاف ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں ایسا ہوا ہے جیسا کہ حافظ نے کہا ہے(۱) '' اس کو اصمعی و غیرہ سے بھی نقل کیا گیا ہے جیسا کہ بعد میں آئے گا_

صاحب بن عباد کہتاہے کہ '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بروز سو مواربارہ ربیع الاوّل کو مدینہ میں داخل ہوئے اور تاریخ ہجری اسی دن سے شروع ہوئی لیکن پھر اسے محرم سے شمار کیا گیا(۲) _

ابن عساکر کہتاہے کہ ''یہی قول نہایت ہی مناسب ہے'' سیوطی نے بھی ان بعض امور کےساتھ اس کی بات تائید کی ہے جو بعد میں ذکر ہوں گے(۳) _

قسطلانی نے المواہب اللدنیہ ج۱ ص ۶۷ میں اورمغلطائی نے اپنی کتاب سیرت ص ۳۵ ، ۳۶ ، میں لکھا ہے '' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تاریخ لکھنے کا حکم دیا اور یہ تاریخ ہجرت سے لکھی گئی_ اورابن الجزّار کہتاہے کہ یہ سال عام الاذن کے نام سے مشہور ہے جبکہ ایک قول یہ ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر نے تاریخ لکھی اور سال ہجری کو محرم سے شمارکیا '' علاوہ ازیں ان دس سالوں میں سے ہر ایک کو ایک خاص نام کے ساتھ موسوم کیا گیا ہے اور پہلے سال کو مسعودی کی التنبیہ والاشراف میں بھی عام الاذن کہا گیا ہے_(۴) علامہ مجلسی کا کہنا ہے کہ ہجرت کو مبدا تاریخ قرار دینا در اصل حدیث نبوی سے منسوب اور وحی الہی سے حاصل شدہ، کلام جبرائیل سے ماخوذ ہے(۵) _

سہیلی کی بات:

سہُیلی اس بات پر مصر ہے کہ قرآن مجید میں ہجری تاریخ کا حکم نازل ہوا ہے_ اس کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تاریخ کے لئے ہجرت کو مبدا قرار دینے پر صحابہ کا اتفاق اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس چیز کو

____________________

۱) التراتیب الاداریة ج/۱ ص ۱۸۱ ، المواھب اللدنیہ ج/۱ ص ۶۷_ (۲) عنوان المعارف و ذکر الخلائف ص۱۱_

۳) الشماریخ فی علم التاریخ للسیوطی ج۱۰ ط ۱۹۷۱_ (۴)نفس الرحمان ص ۴۴ نیز ملاحظہ ہو: الاعلان بالتوبیخ ص ۸۲_

۵)ملاحظہ ہو بحارالانوار مطبوعہ مؤسسہ الوفاء ج۵۵ ص ۳۵۱ نیز ملاحظہ ہو : المناقب ابن شہر آشوب ج ۲ ص ۱۴۴ ، بحارالانوار ج۴۰ ص ۲۱۸و علی الخلفاء ص ۲۴۱_

۴۸

قرآن سے اخذ کیا ہے تو یہ اچھا استفادہ ہے اور ان کے متعلق ہمارا گمان خیر بھی یہی ہے اور اگر ان کی اپنی ذاتی رائے اور اپنا اجتہاد تھا تو پھر بھی اچھی رائے اور اجتہاد ہے اور قرآن کریم نے ان کے ایسا کرنے سے پہلے اس کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے:

آیت مجیدہ ہے:

( لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ ) (توبہ /۱۰۸)

وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے وہ اس کی زیادہ حقدار ہے کہ تم اس میں (نماز کے لیے) قیام کرو _

اس آیت میں '' اول یوم ''سے مراد تمام دنوں میں سے پہلا دن قطعاً نہیں اور اس طرح اس آیت میں ظاہراً کوئی ایسا لفظ بھی موجود نہیں کہ جس کی طرف یوم مضاف ہو بس لفظ یوم کی اضافت ضمیر کی طرف متعین ہوجائے گی اور یہ معقول نہیں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے پہلے دن انجام دیا مگر یہ کہ سال یا مہینہ یا کسی معلوم تاریخ و دن کی طرف اضافت دے_ (یعنی اسے یہ کہنا ہوگا کہ میں نے فلاں سال کے یا مہینے کے پہلے دن یہ کام انجام دیا ہے_مترجم)

اور یہاں پر کوئی حالیہ یا لفظی قرینہ بھی نہیں مگر یہ کہ اصل عبارت اس طرح ہو_''من اول یوم حلول النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم المدینة '' (نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہنچنے کے پہلے دن سے ہی ...) اور وہی تاریخ ہجری کا پہلا دن ہے _بعض نحویوں کا یہ کہنا کہ اصل عبارت ''من تاسیس اول یوم'' ہے ، کیونکہ ''من '' زمان پر داخل نہیں ہوتا، یہ صحیح نہیں اس لئے کہ اس تقدیر کی بناء پر بھی زمان کو مقدر ماننا ضروری ہے پس اس طرح کہا جائے گا '' من وقت تاسیس'' پس لفظ تاسیس کو مقدر ماننا کوئی فائدہ نہیں دیتا علاوہ ازیں لفظ ''من'' زمان و غیر زمان دونوں پر داخل ہوتاہے _ بطور مثال اللہ تعالی ہی کا ارشاد ہے ''من قبل و من بعد''(۱) یہاں تک سہیلی کی

____________________

۱) الروض الانف ج/۲ ص ۲۴۶ ط۱۹۷۲ء ، ارشادالساری ج/۶ ص ۲۳۴ ، فتح الباری ج/۷ ص۲۰۸ و ص ۲۰۹ ، وفاء الوفاء ج/۱ ص ۲۴۸_ نیز اس بات کا اشارہ البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۲۰۷ میں بھی ہے_

۴۹

بات کا خلاصہ ختم ہوا_ الکتانی کہتاہے کہ حافظ نے فتح الباری میں سہیلی کے کلام کے بعد کہا ہے اور ''من اول یوم''سے مرادیہ ذہن میں آتاہے کہ جس دن نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اصحاب مدینہ میں داخل ہوئے(۱)

لیکن ابن منیر کی رائے یہ ہے کہ سھیلی کا کلام تو تکلف اور انحراف ہے اور متقدمین کی تقدیر سے خارج ہے چونکہ انہوں نے ''من تاسیس اول یوم'' کی تقدیر کو ذکر کیا ہے یعنی اس پہلے دن سے ہی جس دن مسجد کی تاسیس ہوئی ہے اور عربیت اسی کا اقتضاء کرتی ہے اور قواعد اس کی شہادت دیتے ہیں_

الکتانی کہتاہے کہ سہیلی کا کلام ظاہر ہے اور اگر اس پر انصاف سے غور کریں تو دیکھیں گے کہ حق بھی یہی ہے_ اسی لئے شہاب الدین الخفاجی نے اپنی کتب عنایت القاضی اور کفایة القاضی میں اسے پسندکرتے ہوئے اسی پر اکتفا کیا ہے(۲) _

اور یاقوت الحموی کہتاہے کہ '' من اول یوم ''سے مسجد قبا کی تعمیر والادن مراد ہے چونکہ دارالہجرة (مدینہ) میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داخل ہونے کے پہلے دن ہی اس کی بنیاد رکھی گئی تھی اور وہی دن تاریخ ہجری کا پہلا دن ہے اور چونکہ خداوند متعال علم رکھتاتھا کہ یہی دن تاریخ (ہجری) کا پہلا دن قرار پائے گااس لئے اس دن کو '' اول یوم ارخ فیہ'' (یعنی جس میں تاریخ لکھی گئی ) کے نام سے موسوم کیا گیا یہ بعض فضلاء کا قول ہے_ اور بعض قائل ہیں کہ یہاں پر مضاف مقدر ہے اور اصل عبارت یوں ہے''تاسیس اول یوم''لیکن پہلی بات بہتر ہے''(۳) علاوہ ازیں مذکورہ آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے وہی کچھ نقل کیا گیا ہے جو پہلے سہیلی سے نقل کیا جاچکاہے(۴) _

اگر ان کی بات صحیح ہے تو مناسب یہی لگتا ہے کہ خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے آیت کے مقصود پر عمل کرتے ہوئے سبقت فرمائی ہوگی _یہ اب تک کی بحث کا نتیجہ ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ جو کچھ سھیلی و غیرہ

____________________

۱) فتح الباری ج/۷ ص ۲۰۹_ (۲) التراتیب الاداریة المسمی ، بانظام الحکومة النبویة ج/۱ ص ۱۸۱ ، ۱۸۲ _

۳) معجم البلدان ج/۵ ص ۱۲۴_ (۴) تنویر المقباس ( حاشیہ در المنثور) ج۲ ص۲۲۴_

۵۰

نے ذکر کیا ہے و ہ بادی النظر میں بعید ہے تو ہم جواب دیں گے کہ کم سے کم آیت شریفہ کے معنی میں دیئے جانے والے احتمالات میں سے ایک احتمال یہ بھی ہے اگر چہ متعین نہ ہو اور ہم نے اسے بطور تائید ذکر کیا ہے نہ بطور استدلال _

ہمارا نظریہ یہ ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے ہجرت کے ساتھ تاریخ لکھی اسکے دلائل مندرجہ ذیل ہیں_

۱_ زہری سے روایت ہے کہ جب ہجرت کرکے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو تاریخ لکھنے کا حکم دیا پس ربیع الاول میں تاریخ لکھی گئی(۱) _

اور زہری سے ایک اور روایت میں ہے کہ تاریخ (ہجری) کی ابتداء نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہجرت کرکے آنے کے دن سے ہے(۲) _

قلقشندی کہتاہے کہ'' اس بناء پرتاریخ کی ابتداء عام الھجرة(ہجرت کے سال) سے ہوئی ہے''(۳) _ اور اس کے علاوہ دوسرے حضرات کا کلام پہلے گزر چکا ہے اور کچھ کے کلام کو بعد میں ذکر کریںگے_

لیکن الفتح و غیرہ میں عسقلانی و غیرہ نے اس حدیث کو خبرمعضل (پیچیدہ اور مشکل) قرار دیاہے اور کہا ہے کہ قول مشہور اس کے برخلاف ہے(۴) _

اورجہشیاری نے شاید اسی بناپر اسے خبر شاذ قرار دیا ہے(۵) _

____________________

۱) فتح الباری ج/۷ ص ۲۰۸،ارشادالساری ج/۶ص۲۳۳،التنبیہ والاشراف ص۲۵۲، تاریخ الطبری مطبوعہ دارالمعارف ج/۲ ص ۳۸۸ ، نزھة الجلیس ج/۱ ، ص ۲۱ ، مناقب آل ابی طالب ج/۲ ص ۱۴۲، البحار ج/۴۰ ص ۲۱۸ عنہ، علی والخلفاء ص ۲۴۱ ، عن البحار،صبح ا لاعشی ج/۶ص ۲۴۰، التراتیب الاداریة ج/۱ ص ۱۸۰ ، آخری دونوں نے اس کو نحاس سے صناعت الکتاب میں سے نقل کیا ہے تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۳۸ ، الشماریخ فی علم التاریخ ص ۱۰، ط ۱۹۷۱، عن ابن عساکر عن یعقوب بن سفیان وفاء الوفاء للسمھودی ج/۱ ، ص ۲۴۸ ، المواھب اور زرقانی وغیرہ نے حاکم کی کتاب (الاکلیل سے) مفصلاً نقل کیا ہے،الکامل ابن الاثیر ج/۱ ، ص ۱۰مطبوعہ صادر ،المواھب اللدنیہ ج/۱ ص ۶۷ میںاس کو ذکر کیا ہے لیکن زہری کی طرف نسبت نہیں دی نیز ملاحظہ ہو الاعلان بالتوبیخ ص ۷۸_

۲) الشماریخ فی علم التاریخ ص ۱۰_

۳) صبح الاعشی ج/ ۶ ص ۲۴۰_

۴) فتح الباری ج/۷ ، ۲۰۸، ارشادالساری ج/۶ص ۲۳۳ از فتح الباری،وفاء الوفاء ج/۱ص ۲۴۸_

۵) الوزراء والکتاب ص ۲۰_

۵۱

اور سخاوی اور الدیار بکری و غیرہ کا کلام بھی تقریباً ان جیساہے(۱) _ مسعودی نے اس روایت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس پر عمل نہیں کیا گیا چونکہ خبر واحد ہے اور جو شخص مراسیل پراعتماد نہیں کرتا وہ اس پر عمل نہیں کرسکتا چونکہ یہ مرسل ہے او ریہ جو پہلے بیان ہوا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کے مشورہ سے حضرت عمرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے ساتھ تاریخ لکھی یہ متفق علیہ ہے چونکہ اس خبر میں کوئی معّین وقت ذکر نہیں کیا گیا کہ جس میں تاریخ لکھی گئی ہوا ور اس کی کیفیت کو بھی نقل نہیں کیا گیا(۲) _ لیکن مسعودی اور ووسرے حضرات کا اعتراض زہری کی روایت پر وارد نہیں چونکہ اس کا ارسال (اگر اسے مرسل مان بھی لیا جائے ) اور خبر واحد ہونا اس سے اجتناب کرنے کا جواز نہیں بن سکتے بلکہ اس کو اخذ کرنا ضروری ہے حتی کہ اس شخص کے لئے بھی جومرا سیل کو قبول نہیں کرتا چونکہ یہاں پر اور ادلہ و روایات بھی پائی جاتیں ہیں جو اس پر دلالت اور اس کی تائید کرتی ہیں ذیل میں ان تمام کو ذکر کرتے ہیں(۳) _

۲_ حاکم نے عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے (اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے )کہ اس نے کہا ہے کہ تاریخ اس سال میں تھی کہ جس میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں وارد ہوئے اور اسی سال عبداللہ بن زبیر پیدا ہوا(۴)

____________________

۱) الاعلان با لتوبیخ ص ۷۸ ، تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۳۸_ (۲) التنبیہ والاشراف ص ۲۵۲_ (۳)زھری سے ایک اور روایت ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تاریخ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ سے تھی، تہذیب تاریخ ابن عساکر ج/۱ ص ۲۱ میں ہے کہ زھری نے کہا ہے '' قریش ، فیل اور فجار کے درمیان چالیس سال کی مدّت شمار کرتے تھے اور فجار اور ھشام بن مغیرہ کی وفات کے درمیان چھ سال کی مدّت شمار کرتے تھے اور اس کی وفات اور کعبہ کی تعمیر کے در میان نو سال اور بناء کعبہ اور مدینہ کیطرف رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خارج ہونے کی درمیانی مدّت کو پندرہ برس گنتے تھے کہ جن میں سے پانچ سال آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف وحی نازل ہونے سے پہلے کے تھے پھر عدد تھا یعنی تاریخ کو گننا'' اس آخری عبارت سے ظاہر ہوتاہے کہ عربوں نے گذشتہ روش سے اعراض کرلیا تھا اور ہجرت کے ساتھ تاریخ معّین کرنا شروع کردی تھی لیکن اس روایت میں ایک یہ اعتراض باقی رہ جاتاہے کہ مشہور یہ ہے کہ فیل اور فجار کے درمیان بیس برس کا فاصلہ تھا نہ چالیس برس کا جیسا کہ طبری ج/۲ اور البدایة والنھایة ج/۲ ص ۲۶۱ اورتاریخ الخمیس ج/۱ ص ۱۹۶ اور ابن الاثیر اور مسعودی نے اس کی تصریح کی ہے لیکن زھری کا یہ قول کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عام الفیل کے تیس سال بعد میں پیدا ہوئے ہیں ( جیسا کہ البدایة والنھایة ج/۲ ص ۲۶۴ میں اس سے نقل کیا گیا ہے ) دلالت کرتاہے کہ زھری کا یہ قول منفرد ہے کہ فجار اور فیل کے در میان چالیس برس کا فاصلہ ہے جبکہ یہ بات مشہور قول کے مخالف ہے لیکن یہ تمام اعتراضات اور نقائص ہمارے مدعا پر اس کے کلام کی دلالت میں مضر نہیں ہیں_ (۴) مستدرک الحاکم ج/۳ ، ص ۱۳ ، ۱۴ اور اس روایت کو مسلم کے معیار پر صحیح قرار دیا ہے، تلخیص المستدرک للذھبی(اس صفحہ کے حاشیہ پر) مجمع الزوائد ج/۱ ص ۱۹۶، عن الطبرانی فی الکبیر، الاعلان بالتوبیخ ص ۸۰ ،۸۱، الطبری ج/۲ ص ۳۸۹ ، ۳۹۰ ، اور ج/۳ ص۱۴۴ ، التاریخ الکبیر للبخاری ج/۱ ص۹ ، الشماریخ ص ۱۰ ، عن البخاری فی التاریخ الصغیر والخطط للمقریزی ج/۱ ص ۲۸۴_

۵۲

۳_ سخاوی کہتاہے کہ '' کس نے سب سے پہلے تاریخ لکھی اس میں اختلاف ہے، ابن عسا کرنے تاریخ دمشق میں انس سے روایت کی ہے کہ تاریخ کی ابتداء رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ میں داخل ہونے سے ہوئی تھی'' _

اور اسی طرح اسمعی نے کہا ہے کہ انہوں نے ہجرت کے مہینہ ربیع الاول سے تاریخ لکھی(۱) پھر اس کے بعد زھری کی سابقہ روایت کو ذکر کیاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ تاریخ کو وضع کرنے والے جناب عمر نہیں تھے، کیونکہ عمر نے محرم سے تاریخ گذاری کی تھی_

پھر اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ صحیح اور مشہور کے خلاف ہے (چونکہ مشہور یہ ہے) کہ یہ کام عہد عمر میں ہواتھا اور سال کی ابتداء ربیع الاّول سے نہیں بلکہ ماہ محرم سے ہوئی لیکن یہ اعتراض بھی مسعودی کے اعتراض کی طرح وارد نہیں ہے چونکہ صرف اس کا مشہور کے خلاف ہونا اس کے باطل و فاسدہونے کا موجب نہیں بنتا بلکہ جب قطعی دلیل مشہور کے خلاف قائم ہوجائے تو اس کو اخذ کرنا اور مشہور سے عدول کرنا ضروری ہے _

اور جلد ہی واضح ہوجائیگا کہ پہلے ذکر شدہ ادلہ کے علاوہ ہمارے پاس اور بھی ادلہ موجود ہیں جو ہر قسم کے شک و شبہہ کو زائل کردیتے ہیں_

۴_ مورخین کہتے ہیں کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ربیع الاول میں مدینہ کی طرف ہجرت کی _زھری و غیرہ کی رائے یہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو مدینہ میں پہنچے ابن اسحاق اور کلبی کو یقین ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربیع الاوّل کی پہلی تاریخ کو مکہ سے خارج ہوئے اور بعض کہتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربیع الاوّل کی پہلی تاریخ کو غار سے خارج ہوئے(۲) _

ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ میں وارد ہونے والے قول کی تائید حضرت علیعليه‌السلام کی اس تحریر''منذ و لج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله المدینة'' سے بھی ہوسکتی ہے مگر اس کے مقابلہ میں دوسرے قول کی تائیدبھی موجود ہے وہ یہ کہ آپعليه‌السلام نے مشورہ دیا تھا کہ تاریخ ہجری کی ابتداء رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شرک کی زمین کو چھوڑنے سے

____________________

۱) الاعلان با لتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۷۸_

۲) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۲۴ اور ۳۲۵ الاستیعاب (حاشیہ الاصابة پر)ج/۱ ص۲۹ الروض الانف ج / ۲ ص ۲۴۵ ، اسی طرح دلائل النبوة ج/۲، ص ۲۲۶، المواہب ج/۱ ص ۶۷ _

۵۳

قرار دی جائے یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو قرار دیا جائے _مگر یہاں یہ دعوی کیا جائے کہ چونکہ وہ کلی طور پر اس سال کو معین کرنے کے درپے تھے کہ جس سے ابتداء کی جائے ، اس لئے اس فقرہ میں اجمال پایا جاتاہے (جس کی تفصیل گذشتہ تحریر میں ہے) تو اس صورت میں پہلا فقرہ ہماری بات کے مخالف نہیں رہے گا _یہاں پر اہم بات یہ ہے کہ ہجرت ربیع الاول کی ابتداء میں تھی اور جب ہم اس پر ان اقوال کا اضافہ کریں جوپہلے مالک اور اصمعی سے بیان ہوچکے ہیں ساتھ ہی زھری کی روایت اور حضرت علیعليه‌السلام کی تحریر سے ظاہر ہونے والی اس بات کوکہ اسلامی سال کی ابتداء ربیع الاول تھی ملاکر دیکھیں تو ہمیں یہ اطمینان حاصل ہوجائے گا کہ عہد عمر سے پہلے ہی تاریخ مقرر کی جاچکی تھی _حضرت عمر نے صرف ربیع الاول کی بجائے ماہ محرم کو سال کی ابتداء قرار دیا اور یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عمر ہجری تاریخ کو وضع کرنے والا پہلا شخص نہیں تھا _ اور یہ بات بھی اس مدعا کی تائید کرتی ہے کہ بعض صحابہ پانچویں سال کے وسط تک ہجرت والے مہینہ ( ربیع الاول) سے مہینوں کو شمار کرتے تھے_

ابوسعید خدری کہتاہے کہ '' رمضان ( کے روزوں ) کافریضہ ماہ شعبان میں قبلہ تبدیل ہونے کے بعد تھا کہ ابھی اٹھارہ (۱۸) مہینے مکمل ہونے سے ایک مہینہ باقی تھا''(۱) _

عبداللہ بن انیس سفیان بن خالد کی طرف اپنا فوجی دستہ لے جانے کے متعلق کہتاہے کہ میں پانچ محرم کوبروز سوموار مدینہ سے خارج ہوا جب کہ ٹھیک چوّن (۵۴) ماہ مکمل ہوچکے تھے(۲) _

اسی طرح محمد بن سلمہ جنگ قرطاء کے متعلق کہتاہے کہ '' میں محرم کی دس تاریخ کو خارج ہوا اور انیس دن غائب رہا اور محرم کی باقی ماندہ رات میں واپس آیا کہ پچپن (۵۵) مہینے پورے ہوچکے تھے_''(۳) _

اور اسی کے بعد سالوں کا حساب کتاب شروع ہوتاہے جیسا کہ سلمة بن الاکوع اور خالد بن ولید و غیرہ کے قول سے ظاہر ہوتاہے(۴) _

یہی صحابہ کا طریقہ تھامورخین نے بھی صحابہ کی پیروی کی ہے پس انہوں نے پانچویں سال کے وسط بلکہ

____________________

۱) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۶۸ _ _ (۲) مغازی الواقدی ج/۲ ص ۵۳۱ ، ۵۳۴ علی الترتیب_

۴) مغازی الواقدی ج/۲ ص ۵۳۷ ، صفة الصفوة ج/۱ ص ۶۵۲_

۵۴

آخر تک مہینوں کے ساتھ تاریخ لکھی اور پانچویں سال سے سالوں کا ذکر کرنا شروع کیا(۱) اور یہ چیز اگر کسی چیز پر دلالت کرتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ہجرت کے ابتدائی برسوں سے یہی تاریخ مقرر کی جا چکی تھی وگرنہ یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ کسی صحابی سے پانچویں سال میں پیش آنے والے واقعہ کے متعلق سوال کیا جائے لیکن وہ سال کا ذکرنہ کرے اور گننے کے عمل میں مصروف ہوجائے جو فکر و تامل کا باعث ہے اور کچھ دیر سوچنے کے بعد جو اب دے مگر اس صورت میںکہ یہ چیز مرسوم اور ذہنوں میں راسخ ہو _اس سے و اضح ہوجاتاہے کہ صحابہ کس قدر اس بات کی اہمیت کے قائل تھے کہ ربیع الاول ہی کو تاریخ ہجری کی ابتداء قراردیا جائے اگر چہ بعد میںبھی غالباً یہی سلسلہ رہا _

۵_ سلمان فارسی کے لئے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تحریر ہمار ے پاس ہے جس پر ہجرت کے نویں سال کی تاریخ لکھی ہوئی تھی_

ابونعیم کہتاہے کہ حسن بن ابراھیم بن اسحاق البرجی المستملی نے روایت کی ہے کہ مجھے محمد بن عبدالرحمن نے بتایاہے کہ میں نے ابوعلی حسین بن محمدبن عمرو و ثابی کوکہتے ہوئے سنا کہ میں نے یہ تحریر شیراز میں جناب سلمان کے بھائی ماہ بنداذ کی اولاد غسان بن زاذان بن شاذویہ کے نو اسے کے ہاتھ میں دیکھی _ یہ وصیت علیعليه‌السلام بن ابی طالب کی تحریر تھی اورنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہر اس پر لگی ہوئی تھی ہم یہاں پر اس تحریر کے متن کو درج کرتے ہیں_

بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ خط محمدرسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے سلمان کے بھائی ماہ بنداذ اور اس کے اہل و عیال اور نسل کے متعلق وصیت لکھنے کی سلمان کی درخواست پر لکھا جارہا ہے_( ابونعیم اس کو لکھنے کے بعد آخر میں کہتاہے): علیعليه‌السلام بن ابی طالب نے بحکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہجرت کے نویں سال ماہ رجب میں یہ خط تحریر کیا اور ابوبکر، عمر، عثمان ، طلحہ، زبیر،عبدالرحمن ، سعد، سعید، سلمان، ابوذر، عمار،عیینہ ، صہیب، بلال، مقداد، اور مؤمنین کی ایک جماعت وہاں پر حاضر تھی _ اسی طرح ابومحمدبن حیان نے بعض مورد اعتماد اشخاص سے ذکر کیا ہے کہ

____________________

۱) طبقات ابن سعد ج /۲ حصہ اول فی غزواتہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خصوصاً غزوہ بواط میں اس کا صفحہ ۵۶ ، مغازی الواقدی ج۲ ص ۹،۱۱،۳۶۳ ، الوفاء باخبار المصطفی ج/۲ ص ۶۷۳،۶۷۴،۶۷۵،البدایة و النھایة ج/۴ ص۶۱ اور تاریخ الخمیس و غیرہ_

۵۵

شیراز میں سلمان کے بھائی کی نسل سے ایک قبیلہ ہے جن کے رئیس و سردار کو غسان بن زاذان کہتے ہیں اور ان کے پاس یہ خط موجود ہے یہ علیعليه‌السلام ابن ابی طالب کی تحریر ہے اور سفید رنگ کے چمڑے پر لکھا گیا ہے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہر ابوبکر کی مہر اور علیعليه‌السلام کی مہر اس پر درج ہے یہ حرف بحر ف ابونعیم کی تحریر ہے لیکن اس نے جماعت میں عیینہ کا ذکر نہیں کیا(۱) _

۶_ بلاذری نے اس معاہدہ کے متن کو ذکر کیا ہے کہ جس کونبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقنا کے یہودیوں اوربنی حبیبہ کے لئے لکھا تھا اس میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ مچھلی شکار کرنے کی چھڑیوں، ان کی کاتی ہوئی روئی اور ان کی بھیڑ بکریوں ،مویشیوں اور پھلوں کے ایک چوتھائی حصہ پر مصالحت کی تھی_

بلاذری کہتاہے کہ مصر کے رہنے والے ایک شخص نے مجھے بتایاہے کہ اس نے خود اس تحریر کو ایک سرخ رنگ کے چمڑے میں دیکھا البتہ اس کے خطوط مٹے ہوئے تھے لہذا اس نے مجھے لکھوایا تو میں نے نسخہ برداری کی _

بسم الله الرحمن الرحیم: من محمد رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، الی بنی حبیبةواهل مقنا: سلم انتم فانه انزل علی، انکم راجعون الی قریتکم، فاذا جاء کم کتابی هذا، فانکم آمنون و لکم ذمة الله و ذمة رسوله ...( بلاذری نے پوری تحریر کو درج کیا ہے حتی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آخر میں فرمایا) '' کہ تم پر امیر و حکمران صرف تم میں سے ہوگایا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت میں سے_ علیعليه‌السلام بن ابو طالب نے اس تحریر کو ۹ ہجری میں لکھا ''(۲) _

فتوح البلدان پر حاشیہ لکھنے والے محمدبن احمد بن عساکر نے اس عہد نامہ پر دو اعتراض کئے ہیں _

____________________

۱) ذکر اخبار اصفہان لابی نعیم ج/۱ص۵۲ ، ۵۳، الدرجات الرفیعہ ص ۲۰۶ و ۲۰۷ ، طبقات المحدثین باصبہان ج۱ ص ۲۳۱ و ۲۳۴ نیز نفس الرحمان از تاریخ گزیدہ_

۲) فتوح البلدان للبلاذری ص ۶۷ ، ط ۱۳۱۸ ہجری نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ولایت و حکمرانی کو اپنے اہل بیتعليه‌السلام کے ساتھ مخصوص کرنے میں غور فرمائیں یہ ایک واضح دلیل ہے کہ اس شہرکاخراج (کہ جس کو بغیر لشکرکشی کے صرف مصالحت کےساتھ حاصل کیاگیا ہے اور اصطلاحاً فے کہا جاتاہے اور فَے ،اللہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ہے اور )نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے اہل بیتعليه‌السلام کو عطا کیا ہے اور یہ دلالت کرتاہے کہ آل رسولعليه‌السلام جس طرح مسلمانوں کے لئے اولوا الامر ہیں اس طرح اہل ذمہ کے لئے بھی اولوا الامر ہیں_

۵۶

اول : کہ علیعليه‌السلام وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے علم نحو کو اختراع کیا تا کہ عجمیوں کے کلام کے ساتھ مخلوط نہ ہو ایسے شخص سے اعرابی غلطی کا صادر ہونا ممکن نہیں اور یہاں پرعلیعليه‌السلام ابن ابوطالب درج ہے یعنی ابو کو رفع کے ساتھ لکھاگیا ہے( جبکہ نحوی قواعد کی بناء پر ابی لکھا جانا چاہیے) _

دوم: اہل مقنا کے ساتھ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صلح غزوہ تبوک میں ہوئی (جیسا کہ بلاذری کی کتاب میں مذکور ہے ) اور واضح ہے کہ علیعليه‌السلام اس غزوہ میں شریک نہیں تھے پس یہ کیسے ہوسکتاہے کہ اس صلح نامہ کو لکھنے والے علیعليه‌السلام ہوں(۱) _

اور ہم یہاں پر ان اعتراضات کے جواب میں صرف علامہ محقق الشیخ علی احمدی کے کلام کو(البتہ موقع محل کی مناسبت اپنی طرف سے کچھ کمی بیشی کے ساتھ) ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ :

پہلے اعتراض کا جواب : یہ ہے کہ ملاعلی قاری ، قاضی عیاض کی کتاب '' شفائ'' کی شرح میں ابوزید اصمعی کی نوادر سے نقل کرتے ہیں کہ یحیی بن عمر سے روایت ہے کہ قریش کنیت میں لفظ'' ابّ'' میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے تھے بلکہ اسے ہمیشہ مرفوع پڑھتے تھے ، چاہے رفعی حالت میں ہوتا یا نصبی یا جرّی حالت میں_

نہایة ابن الاثیر میں لفظ ''ابی''کے ذیل میں اور قاضی عیاض کی کتاب '' شفائ'' پر لکھی جانے والی ملا علی قاری کی شرح میں ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مہاجر بن امیہ (مہاجربن ابوامیہ) کو خط میں (المہاجر ابوامیة ) لکھا اس کے بعد دونوں نے کہا ہے کہ چونکہ ابوامیہ کنیت کے ساتھ مشہور تھا اور وہ صرف اسی نام سے ہی معروف تھااس لئے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے ا یسے ہی رہنے دیا اور ملاعلی قاری اس کے لئے مثال ذکر کرتے ہوئے کہتاہے :'' جیسا کہ کہا جاتاہے علیعليه‌السلام بن ابوطالب '' _ ہم یہاں زمخشری کے اس قول کا بھی اضافہ کرتے چلیں کہ ''وائل بن حجر نے لکھا ہے : اللہ کے رسول محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مہاجربن ابوامیہ کے نام _بے شک وائل ...'' یہاں تک کہ زمخشری کہتاہے لفظ ابوامیہ کو جر والی حالت میں بھی رفعی حالت کے مطابق لکھا گیا ہے ، کیونکہ وہ اسی نام سے مشہور ہوگیا تھا اور ضرب المثل کی طرح ناقابل تبدیلی ہوگیا تھا یہ عربوں کے اس قول :

____________________

۱)حاشیہ فتوح البلدان بلاذری ص ۶۷_

۵۷

''علی بن ابوطالب اور معاویة بن ابوسفیان'' کی مانند ہے(۱) اسی طرح شیخ علی احمدی کا بیان ہے کہ مجموعة الوثائق السیاسیہ میں صفدی سے منقول ہے کہ بعض عرب لکھتے تو ''علیعليه‌السلام بن ابوطالب ''واو کے ساتھ ہیں لیکن پڑھتے یاء کے ساتھ ( ابی طالب) ہیں _ اورمجموعہ میں التراتیب الاداریة سے منقول گذشتہ کلام کونقل کرنے کے بعد کہتاہے کہ اس سے بڑھ کر یہ کہ میں جب ماہ محرم ۱۳۵۸ ھ میں مدینہ میں تھا توسلع کے جنوب میں ایک قدیمی تحریر میں ( انا علیعليه‌السلام بن ابوطالب ) لکھا ہوا دیکھا اور متوقع ہے کہ یہ تحریر خود علیعليه‌السلام کی ہو_ اسی طرح مجموعةالوثائق میں ہے کہ شیو خ (اپنے اساتذہ) سے پڑھی گئی کتابوں میں چار مقامات پر ( علیعليه‌السلام بن ابوطالب) واو کے ساتھ لکھا ہوا دیکھا ہے_ اور ہم اضافہ کرتے ہیں کہ عسقلانی کا کہناہے کہ حاکم کہتاہے : '' اکثر بزرگان اس بات کے قائل ہیں کہ ان (یعنی ابوطالب) کی کنیت ہی ان کا نام تھا''(۲) _ نیز مغلطائی نے کہاہے '' ایک قول (جسے حاکم نے ذکر کیا )ہے کہ اس کی کنیت ہی اس کا اسم ہے لیکن ہمیں اس پر اعتراض ہے ''(۳) مروج الذھب ج/۲ص ۱۰۹ طبع بیروت میں مذکور ہے کہ '' ابوطالب کے اسم میں اختلاف ہے کچھ لوگ قائل ہیں کہ ان کی کنیت ہی ان کااسم ہے اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی املاء سے علیعليه‌السلام نے خیبر کے یہود کے لئے لکھا تھا ( و کتب علیعليه‌السلام بن ابی طالب) لفظ ابن سے الف کو گرا دینا اس بات پردلالت کرتاہے کہ یہ لفظ دونا موں کے درمیان میں واقع ہواہے نہ کہ نام او رکنیت کے درمیان '' _ بلاذری لکھتاہے کہ یحیی بن آدم نے کہا ہے کہ میں نے نجرانیوں کے پاس ایک تحریر دیکھی کہ جس کا نسخہ اس نسخہ کی طرح تھا اور اس کے آخر میں یہ عبارت درج تھی (-و کتب علیعليه‌السلام بن ابوطالب) لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کے متعلق کیا کہوں(۴) _ اور یہ مشہور روایت بھی ہے کہ ربیعہ اور یمن کے درمیان آپعليه‌السلام اپنی تحریر کے آخر میں لکھتے ہیں (کتب علیعليه‌السلام بن ابوطالب )(۵) _عمدة الطالب ص۲۰ ، ۲۱ طبع نجف میں محمدبن ابراہیم نسابہ سے منقول ہے کہ

____________________

۱) الفائق ج۱ ص ۱۴_ (۲) الاصابہ ج۴ ص ۱۱۵_ (۳)سیرہ مغلطائی ص۱۰_

۴)فتوح البلدان ص ۷۲_

۵)شرح نہج البلاغہ ابن میثم بحرانی ج۵ ص ۲۳۱_

۵۸

اس نے امیر المؤمنینعليه‌السلام کی تحریر کے آخر میں یہ عبارت( و کتب علیعليه‌السلام بن ابوطالب) لکھی ہوئی دیکھی اور کہتاہے کہ میرے دادا اور دیگر افراد کے بقول حرم امیر المؤمنینعليه‌السلام میں حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں کا لکھا ہوا قرآن کریم کا ایک نسخہ موجود تھا جو ۷۵۵ میں حرم میں آگ لگنے کی وجہ سے جل گیا کہا جاتاہے کہ اس کے آخر میں یہ عبارت درج تھی ( و کتب علیعليه‌السلام بن ابوطالب) پھر کہتاہے کہ واو یاء کے مشابہ ہے چونکہ خط کوفی میں یہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اگر چہ صحیح (علیعليه‌السلام ابن ابی طالب) ہے علاوہ ازیں دیگر شواھد بھی ہیں جنہیں یہاں پر ذکر کرنے کی گنجائشے نہیں_

پس ہم گذشتہ امور سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ لفظ ( ابو) کا ہونا ضرر رساں نہیں اور روایت پر اعتراض کا موجب نہیں بنتا خصوصاً اگر قریش کے لغت کو مدّ نظر رکھا جائے _ اس بناپر ہمیں عمدة الطالب و غیرہ کی تاویل کی بھی کوئی ضرورت نہیں_

دوسرے اعتراض کا جواب: علامہ احمدی میانجی کہتے ہیں کہ بلاذری کے کلام میں ایسی کوئی صراحت و دلالت نہیں پائی جاتی جس سے یہ معلوم ہوکہ یہ تحریر تبوک میںلکھی گئی ہے جیسا کہ خود تحریر میں بھی اس قسم کا کوئی اشارہ تک بھی موجود نہیں بلکہ تحریر کی عبارت سے معلوم ہوتاہے کہ اہل تبوک میں سے ایک گروہ بطور وفد نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور جلد ہی اپنے شہر واپس جانا چاہتا تھا شاید ان کا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مدینہ آنا تجارتی غرض کی وجہ سے تھا یا صلح نامہ لینے کی غرض سے آئے تھے، یا اس کے علاوہ کسی اور غرض سے آئے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے یہ صلح نامہ تحریر فرمادیا یہاں پر قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ کچھ منابع میں فقط اسی بات پر اکتفاء کیا گیا ہے کہ آپ نے ۹ ھ میں اہل مقنا کےلئے صلح نامہ لکھا(۱) _

____________________

۱) ملاحظہ فرمائیں،مکاتیب الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ج/۱ص ۲۸۸ ، ۲۸۹ ، ۲۹۰ اہل مقنا کے ساتھ معاہدہ کے سلسلہ میں ایک اور روایت بھی پائی جاتی ہے_ کہ یہ معاہدہ ہجرت کے پانچویں برس علیعليه‌السلام کے ہاتھوںسے لکھاگیا لیکن کچھ تاریخی اعتراضات سے خالی نہیں اگر چہ ان میں بعض یا تمام کاجواب دینا ممکن ہے، ملاحظہ فرمائیں، مکاتیب الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ج/۱ ص ۲۹۳ ، ۲۹۴_نیز نصرانیوں کے ساتھ ایک اور معاہدہ بھی موجود ہے جو علیعليه‌السلام کے خط مبارک سے ہجرت کے دوسرے سال میں لکھا گیا اور نصرانیوں کے ساتھ ایک اور معاہدہ بھی موجود ہے جس پرہجرت کے چوتھے سال کی تاریخ ہے جس پر معاویہ کی تحریر ہے_ لیکن یہ دونوں معاہدے قابل اعتراض ہیں خاص کر دوسرا معاہدہ کیونکہ معاویہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوا تھا ( جو ہجرت کے کئی سال بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آخری دور میں فتح ہوا تھا) چنانچہ ملاحظہ فرمائیں: مکاتیب الرسول ج۲ ص ۶۳۷ و ۶۳۴ و غیرہ_

۵۹

ان تمام مذکورہ کلمات کو علامہ احمدی نے ذکر فرمایا ہے البتہ ہم نے بھی کچھ کمی، بیشی اور تلخیص کی ہے اور مذکورہ خط پر کئے گئے اعتراضات کے جواب کے لئے یہی بات ہی کافی ہے پس اس روایت پر اعتراض کرنے اور اس کے صحیح ہونے میں شک کرنے کی گنجائشے نہیں رہتی _

۷_اہل دمشق سے خالدبن ولید کا صلح نامہ_ ابن سلام کہتاہے کہ '' محمد بن کثیر نے ہمارے لئے اوزاعی سے اور اس نے ابن سراقة سے روایت کی ہے کہ خالدبن ولید نے اہل دمشق کو لکھا '' یہ خالد بن ولید کی طرف سے اہل دمشق کے لئے (صلح) نامہ ہے میں نے ان کے خون اور اموال اور عبادت گاہوںکے متعلق انہیں امان دی ''_''ابوعبید کہتاہے کہ اس میںاس نے کوئی ایسی بات ذکر کی تھی جو مجھے یاد نہیں رہی ہے اور اس کے آخر میں یہ عبارت ہے '' ابوعبیدہ جراح، شرحبیل بن حسنة اور قضاعی بن عامر گواہ ہیں اور یہ تحریر ۱۳ ھ میں لکھی گئی ...''(۱) _

جبکہ یہ بات واضح ہے کہ مورخین کے بقول حضرت عمرنے ۱۶ ھ یا ۱۷ ھ میں تاریخ وضع کی اور کوئی بھی شخص یہ دعوی نہیں کرتاکہ اس تاریخ سے پہلے عمر نے تاریخ وضع کی خصوصاً اس حقیقت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کہ دمشق کی فتح حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں تھی بلکہ حضرت ابوبکر کی وفات اور عمر کی خلافت کی خبر شام میں مسلمانوں کے لشکر تک پہنچنے سے پہلے ہی دمشق فتح ہوچکا تھا_

صاحبان مغازی (کیفیت غزوات کو حیطہ تحریر میں لانے والے حضرات) کے اس اختلاف کے باوجود کہ فتح دمشق ۱۳ ھ کو ہوئی تھی یا ۴ ۱ ھ کو، مصالحت کرنے والے ابوعبیدہ جراح تھے یا خالد بن ولید اور ان میں سے کون اس لشکر کا امیر تھا؟ ہم مذکورہ بات کے قائل ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایسی تقریبا یقینی

____________________

۱) الاموال ص ۲۹۷ اور بلاذری نے اس کو فتوح البلدان ص ۱۲۸ میں تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ بغیر تاریخ کے ذکر کیا ہے اور اسی طرح فتوح البلدان ص ۱۳۰ میں واقدی سے منقول ہے کہ خالد نے اس پر تاریخ نہیں لکھی تھی لیکن جب مسلمانوں نے یرموک پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو خالد نے نصرانیوں کے لیے صلح نامہ کی تجدید کی اور اس میں ابو عبیدہ ، شرحبیل اور یزید بن سفیان کی گواہی ثبت کی اور اس پر ربیع الثانی ۱۵ ھ کی تاریخ درج کی اور ابن کثیر نے گواہوں میںعمرو بن عاص کا اضافہ کیا ہے_البتہ اس میں بھی کوئی مانع نہیں ہے کہ یہ تحریر ایک اور خط ہوجسے اس نے یرموک پر چڑھائی کے وقت نصرانیوں کو ان کے کلیساؤں کے تحفظ کے لئے لکھا ہو_ جیسا کہ ابن کثیر کی البدایہ والنہایہ ج ۷ ص ۲۱ کے الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتاہے_

۶۰

دستاویزات موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ۳ ۱ ھ کو جناب ابوبکر کی وفات کی خبر لشکر تک پہنچنے سے پہلے یا کم از کم ابوعبیدہ جراح کے اس خبر کو ظاہر کرنے سے پہلے دمشق فتح ہوگیا تھا_ اور اہل دمشق کے ساتھ مصالحت کرنے والے بھی اس وقت کے سردار لشکر خالد بن ولید ہی تھے_

حتی کہ اگر اس تحریر کی تاریخ ۱۵ ہجری بھی مان لی جائے تب بھی ہماری مدعا کے لئے نقصان دہ نہیں ہے_ تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت عمر کی حکومت کا واقعہ اس کے بعد یعنی ۱۶ ھ یا ۱۷ ھ میں تھا_

ابوعبیدہ، ابن قتیبہ ، واقدی ، بلاذری(۱) اور دوسرے بہت سے حضرات نے تصریح کی ہے کہ صلح خالد کے ہاتھ پر ہوئی اور اس سے واضح ہے کہ صلح کے وقت لشکر کا امیر وہی تھا_

بلکہ واقدی کا کہناہے کہ ان کے ساتھ خالد کے صلح کرنے کی وجہ سے ابو عبیدہ اور خالد کے درمیان سخت تکرار اور مقابلہ بازی پیش آئی _اس سے ہمارے لئے واضح ہوجاتاہے کہ خالد اپنے موقف میں کس قدر سرسخت تھا اور ابوعبیدہ اس کے مقابلہ میں کس قدر کمزور(۲) _یہی چیز ہمارے اس نظریئےے ساتھ بہت زیادہ ہماہنگی رکھتی ہے کہ لشکر کی قیادت اس وقت خالد کے پاس تھی_

بلکہ بلاذری و غیرہ نے ذکر کیا ہے کہ ابوعبیدہ مشرقی دروازے پر تھا اور قہر و غلبہ سے شہر میں داخل ہوا تو شہر والے خالدکے پاس آئے اور اس سے صلح کرلی_ اس نے ان کے لئے تحریر لکھی اور انھوں نے اس کے لئے دروازہ کھول دیا پھر بلاذری نے ابی مخنف کے قول کو بھی نقل کیا ہے جو مذکورہ واقعہ کے بالکل برعکس ہے_ پھر اس کے بعد کہتاہے کہ پہلا قول نہایت مناسب ہے(۳) _

ہم بھی کہتے ہیں : کہ ہاں یہی قول درست ہے کیونکہ اکثر مورخین بھی اسی کے قائل ہیں، اس بحث کی ابتداء میں مذکور صلح نامہ کی عبارت اور دیگر دستاویزات بھی اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہیں کہ اہل دمشق سے صلح کرنے والا خالد ہی تھا اور وہی امیر لشکر تھا_

____________________

۱) المعارف لابن قتیبة ص ۷۹ ط ۱۳۹۰ بیروت ، فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ۵۹ ، فتوح البلدان ازص ۱۲۸ تا ص ۱۳۱ و دیگر کتب_

۲) فتوح الشام ج۱ ص ۵۸ ، ۶۰_ (۳) فتوح البلدان ص ۱۲۹ ، البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۱_

۶۱

البتہ خالد کی معزولی کا حکم مسلمانوں کو اس وقت پہنچا تھاجب وہ دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے تو ابوعبیدہ نے تقریباً بیس دن تک اسے مخفی رکھا یہاں تک کہ دمشق کو فتح کرلیا گیا تا کہ دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہنے والے مسلمانوں کو خالد کا مسئلہ کمزور نہ کردے(۱)

البتہ واقدی کہتاہے کہ دمشق کی فتح حضرت ابوبکر کی وفات والی رات ہوئی(۲) _

اور زینی دحلان کہتاہے : '' کہا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر کی وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد ۱۳ ھ میں آئی اورحضرت ابوبکر کی وفات اسی رات ہوئی جس رات مسلمان دمشق میں داخل ہوئے اور یہ ۲۲جمادی الثانی ۱۳ ھ کا واقعہ ہے _ اور جو قائل ہیں کہ وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد آئی وہی افراد اس بات کے قائل ہیں کہ یرموک کا واقعہ فتح دمشق کے بعد پیش آیا(۳) _

اور ابن کثیر کہتاہے کہ '' سیف بن عمر کی عبارت کے سیاق سے ظاہر ہوتاہے کہ ۱۳ ھ میں دمشق فتح ہوا لیکن خود سیف عمومی نظریئے کے مطابق تصریح کرتے ہیں کہ ۱۵ رجب ۱۴ ھ کو دمشق فتح ہوا ''(۴) _

اورعبدالرحمن بن جبیر سے منقول ہے کہ ابوعبیدہ خود حضرت ابوبکر کو فتح دمشق کی خوشخبری دینے کے لئے گیا تھا لیکن حضرت ابوبکر پہلے ہی وفات پاچکے تھا او ر حضرت عمر نے اسے لشکر کا امیر بنادیا پھر جب وہ دمشق واپس آیا تو مسلمانوں نے یہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا : '' ایسے شخص کو خوش آمدید جسے ہم نے قاصد بنا کر بھیجا تھا اور وہ ہم پر امیر بن کر واپس آیا ہے''(۵) _

بہرحال یہ صلح نامہ اور تمام گذشتہ دستاویزات گواہ ہیں کہ اکثر مؤرخین کے مطابق خالد نے ہی اہل شام سے صلح کی تھی اور ہم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر فرض کریں کہ یہ تحریر ۱۵ ھ میں بھی لکھی گئی ہو یا یہ دوسری تحریر ہو تب بھی واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے پہلے مقرّر کی جاچکی تھی_

____________________

۱)البدایہ والنہایہ ج۷ ص ۲۳ و فتوح البلدان ص ۱۲۷ و ۱۲۹_

۲) فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ص ۵۹_ (۳) الفتوحات الاسلامیة ج/۱ ص ۴۷_

۴) البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۲_ (۵) البدایة والنھایة ج/۱ ص ۲۴_

۶۲

رہی یہ بات کہ مؤرخین اور راویوں نے اس حقیقت سے روگردانی کیوں کی ؟شاید واقعات و حوادث کاپے درپے واقع ہونا اور ایک دوسرے کے نزدیک ہونا ان کے اشتباہ کا موجب بناہواور ان پر اچھا گما ن کرتے ہوئے (کیونکہ ان کے متعلق اچھا گمان ہی کیا جاسکتاہے) یہی کہہ سکتے ہیں کہ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ حضرت عمر کا دور حکومت عظیم فتوحات ا ور کشور کشائی کادور تھا اور فتح شام بھی چونکہ نہایت اہم معرکہ تھا اس لئے اسے بھی عمر کے دور حکومت میں ہونا چاہئے ، حضرت ابوبکر کے عہد میں نہیں_اور اسی طرح خالد کی شجاعت اور مختلف مواقع میں اس کی قوت و بہادری ثابت اور ظاہر کرناچاہتے تھے اور یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ بلا شرکت غیرے تلوار کا دھنی ہے _ پس اس کا شام پر غلبہ حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ شامیوں سے مصالحت کرنے والا کوئی اور ہو چاہے یہ معاملہ جھوٹ اور مکرو فریب سے ہی حل ہوا ہو _ لیکن کیا یہ مذکورہ باتیں ہی ان لوگوں کی حقیقت سے روگردانی کا حقیقی سبب ہیں _ مجھے تو نہیں معلوم لیکن شاید ذہین و فطین قارئین کو اس کا علم ہوگا_

۸_ سیوطی نے ابن القماح کے ہاتھ سے تحریر شدہ مجموعہ سے ایک بات نقل کی ہے جس میں مذکور ہے کہ ابن الصلاح نے کہا ہے : ''ابوطاہر محمد بن محمش الزیادی نے تاریخ الشروط میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نجران کے نصاری کے لئے تحریر لکھی اس میں ہجرت کی تاریخ قلمبند فرمائی اور علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ یہ عبارت لکھیں '' انہ کتب لخمس من الھجرة'' کہ ہجرت کے پانچویں سال میں لکھی گئی ہے''_ (پھر ) کہتاہے ''ہجرت کے ساتھ تاریخ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت سے لکھی گئی اور تاریخ لکھنے میں حضرت عمر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کی ہے''(۱)

اسی طرح سیوطی کہتاہے '' کہا جاتاہے یہ بات صداقت رکھتی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے پانچویں برس تاریخ لکھی اور پہلی حدیث ( زھری کی گذشتہ روایت) میں تھا کہ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ پہنچنے کے دن تاریخ لکھی '' اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں کوئی منافات نہیں چونکہ ظرف (یوم قدم المدینة ) فعل (امر)

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ، سیوطی ص ۱۰ نیز التراتیب الاداریہ ج ۱ ص ۱۸۱_

۶۳

سے متعلق نہیں بلکہ مصدر ( التاریخ) سے متعلق ہے تو اصل عبارت اس طرح ہوگی _امربان یورخ بذلک الیوم لا ان الامر کان فی ذلک الیوم یعنی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ اس دن سے تاریخ لکھی جائے نہ یہ کہ یہ فرمان اس دن جاری ہوا'' (یعنی ہوسکتاہے کہ پانچ ہجری کو حکم دیا ہو کہ مدینہ تشریف آوری سے تاریخ شمار کی جائے _از مترجم)(۱) یہ سیوطی کا کلام ہے_

لیکن اس سے واضح تر جواب یہ ہے کہ آپ نے مدینہ پہنچتے ہی تاریخ لکھنے کا حکم دیا اور ربیع الاول کو مبداء قرار دیا اور خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب ۵ میں نجران کے نصرانیوں کے لئے تحریر لکھی تو اس وقت اسی تاریخ سے استفادہ کیا_

بہر حال سخاوی کہتاہے کہ '' اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو عمر پیروی کرنے والا ہوگا پہل کرنے والا نہیں''(۲) _

اور عباس مکی کہتاہے کہ '' تاریخ ایک گذشتہ سنت اور پسندیدہ طریقہ ہے کہ جس کا حکم رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نجران کے نصاری کی طرف نامہ لکھتے ہوئے دیا تھا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ اس میں لکھیں (کتب لخمس من الہجرة)(۳) _پھر ابن شہاب کی گذشتہ روایت نقل کی ہے_

۹_ صحیفہ سجادیہ کی خبر سے ظاہر ہوتاہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبدا قرار دینااللہ جلّ شانہ کی منشاء کے مطابق تھاکیونکہ حدیث میں آیاہے کہ جبرائیلعليه‌السلام نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے اسلام کی چکی چلے گی اور دس سال تک چلتی رہے گی اور ہجرت سے پینتیس (۳۵) برس بعد پھراسلام کی چکی چلے گی اور پانچ سال تک چلتی رہے گی''(۴) _

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ ص ۱۰ ، التراتیب الاداریة ج۱ ، ص ۱۸۱_

۲) التراتیب الاداریة ج/۱ ص ۱۸۱_

۳) نرھة الجلیس ج/۱ص ۲۱_

۴) البحار ج/۵۸ ص ۳۵۱ (البتہ صفحات کی تصحیح کرنے کے بعد) سفینة البحار ج/۲ ص ۶۴۱ ، الصحیفة السجادیة ص ۱۰ ، البتہ یہ روایت کئی اور اسناد سے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے بھی وارد ہوئی ہے جنہیں البدایة والنھایة ج۶ ص۲۰۶ ، ۲۰۷ ، ج/۷ ص ۲۱۹ ، ۲۷۵ ، ص ۲۷۶ ، میں ذکر کیا گیا ہے نیز ملاحظہ ہو سنن ابی داؤد مطبوعہ دار الکتاب العربی ج۴ ص ۱۵۹ ، ص ۱۶۰_ و دیگر کتب

۶۴

۱۰ _ ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''میری ہجرت کے ساٹھ (سال) پورے ہونے پر حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کو شہید کیا جائے گا''(۱) _

۱۱ _ انس سے ایک روایت منقول ہے کہ اس نے کہا :' ' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے ہمارے لئے روایت بیان کی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کے (۱۰۰) سال پورے ہونے تک تم میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا''_(۲)

۱۲_ ڈاکٹر سعاد ماہر محمد نے اپنے رسالے (مشہدالامام علیعليه‌السلام فی النجف الاشرف) ص ۱۰۴، ص ۱۰۵ میں اہل حیرہ کے لئے خالد بن ولید کی لکھی ہوئی تحریر کا متن درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یہ عبارت ہے ( اور اگر انہوں نے فعل یا قول کے ساتھ بدعہدی اور خیانت کی تو ہم ان سے بری الذمہ ہوں گے اور ( یہ تحریر) ۱۲ ھ ماہ ربیع الاول میں لکھی گئی) _

اور یہ بات واضح ہے حیرہ کی فتح خالد کے ہاتھوں حضرت ابوبکر کے دور میں ہوئی تھی اس کا معنی یہ ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے بھی پہلے وضع کی جاچکی تھی اور اس سے پہلے سے ہی استعمال بھی ہورہی تھی پس کس طرح حضرت عمر نے ۱۶ ھ میں تاریخ معین کی ؟اور سھیلی و ابن عباس و غیرہ کے کلام سے مذکورہ بات کی تائید ممکن ہے_

۱۳_ حافظ عبدالرزاق نے ابوھریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا: ''ہلاکت ہے عربوں کے لئے اس بدبختی سے جو ساٹھ سال پورے ہونے پر آئے گی _جب امانت کو غنیمت سمجھا جائے گا ...''(۳) _

۱۴_ اسی طرح عبدالرزاق نے ہی ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا :''جب پینتیس برس

____________________

۱) مجمع الزوائد ج۹ ص۱۹۰عن الطبری اوراس کی سند میں کوئی اعتراض نہیں مگر سعد بن طریف میں اور وہ بھی خود ان کی تصریح کے مطابق اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ہے تاریخ بغدادج/۱ص۱۴۲، الالمام ج/۵ص ۲۹۹، کنزالعمال ج/۱۳ص۱۱۳ط حیدرآباد،میزان الاعتدال ج/۱ص۲۱۲عن الطبرانی وا لخطیب و ابن عساکر ،منتخب کنز العمال (حاشیہ مسنداحمد)ج/۵ ص۱۱۱، مقتل الحسین خوارزمی ج/۱ ص ۱۶۱ ، احقاق الحق ج/۱۱ ص ۳۵۴ از گذشتہ بعض و از مفتاح النجا ص ۱۳۶ قلمی نیز از امعجم الکبیر طبرانی، زندگینامہ امام حسینعليه‌السلام از تاریخ دمشق با تحقیق محمودی ص ۱۸۵_

۲) مجمع الزوائدج/۱ص ۱۹۷ ، عن ابی یعلی ، یہ روایت مختلف الفاظ اور مختلف اسناد سے نقل کی گئی ہے ، لیکن ان میں لفظ ( من الہجرة) نہیں ہے_

۳)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_

۶۵

پورے ہوں گے تو ایک امر عظیم حادث ہوگا پس اگر تم ہلاک ہوگئے تو اس کے لائق ہو گے اور اگر نجات پاگئے تو اس کی امید ہے اور جب ستر برس پورے ہوں گے تو تم انوکھی چیزیں دیکھوگے(۱) _

ابن مسعوداور ابوہریرہ نے اس کا علم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا ہے کیونکہ یہ غیب گوئی ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجری تاریخ مقر ر فرمائی _

۱۵_ ایک حدیث جس کے راوی موثق ہیں یہ ہے کہ : ہم ساٹھ ہجری سال کے پورے ہونے سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ ۶۰ ھ اور بچوں کی فرمانروائی سے(۲) _

ابوہریرہ سے مروی ہے : '' خدایا مجھے ۶۰ ھ اور بچوں کی حکومت دیکھنا نصیب نہ کر''(۳) _

۱۶_ مالک نے نافع سے اور اس نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ جب ایک سوستر سال پورے ہوجائیں تو جدّہ میں رہائشے پذیر ہونا بہترین اقامت اختیار کرنے میں سے ہوگا(۴) _

خلاصہ بحث:

گذشتہ امور سے واضح ہوجاتاہے کہ لوگوں کے درمیان مشہور یہ بات کہ حضرت عمر نے اسلامی ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی، ناقابل قبول ، بلا دلیل اور بے بنیاد ہے_ البتہ حضرت عمر کے دور میں صرف یہ ہوا کہ ربیع الاّول کی بجائے محرم کو ہجری سال کا مبدا قرار دیا گیا اورایسا انہوں نے یا توخود کیا تھا یا حضرت عثمان کے مشورہ سے _ جبکہ محرم ( جیسا کہ سب کو معلوم ہے) زمانہ جاہلیت میں سال کا مبداء شمار ہوتا تھا(۵) _ بعید نہیں کہ ہجری تاریخ جسے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمائی تھی اور کئی بار لکھی بھی تھی،اس زمانہ میں تاریخ کی ضرورت کم ہونے کی وجہ سے لوگوں میں مشہور نہ ہوسکی ہو اور پھر حضرت عمر نے صحابہ کو اکٹھا کیا ہو تا کہ تاریخ

____________________

۱)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_ (۲) تطہیر الجنان واللسان ص ۶۶ ۱۳۷۰ نیز کنز العمال ج۱۱ ص ۱۱۳_

۳)الاتحاف بحبّ الاشراف ص ۶۵ از ابن ابی شیبہ و غیرہ _ (۴) لسان المیزان ج/۲ ص ۷۹_

۵)البدایة والنہایہ ج۳ ص ۲۰۶ و ص ۲۰۷ نیز السیرة النبویة ابن کثیر ج۲ ص ۲۸۸ و ۲۸۹_

۶۶

پر اتفاق حاصل ہوجائے(۱) لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کی غرض یہ تھی کہ جس تاریخ کا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا اور جس تاریخ کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمایا تھا اس کو طاق نسیان میں رکھ دیا جائے _ اس لئے کہ فلاں آدمی رومی تاریخ کا مشورہ دے رہا تھا، یہود یت سے اسلام لانے والے کچھ مسلمان ایسی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں جو سکندر اورہر مزان کے دورکی طرف لوٹتی ہے اور ان لوگوںسے حضرت عمر یہ مشورے لے رہے تھے حالانکہ حضرت عمر ایرانیوں سے شدید نفرت کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ لوگ اسے ایرانی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ ہلاک ہوجاتا تو وہ نئے بادشاہ کی تاج پوشی کے دن سے تاریخ کی ابتدا کرتے تھے_ (یعنی ...؟) کوئی مولد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعنی عام الفیل کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کا مشورہ دیتاہے واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت کے آخری سالوں میں عرب عام الفیل سے تاریخ لکھتے تھے_ اور مسعودی کے الفاظ کے مطابق:

(و کثر منهم القول و طال الخطب فی تواریخ الاعاجم و غیرها) (۲)

عجمیوں و غیرہ کی تاریخوں میں ان کے درمیان اقوال زیادہ ہوگئے اور بحث لمبی ہوگئی_

یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں تو محافظ دین اورحق کے علمبردار حضرت علیعليه‌السلام نے مناسب وقت میں اس ہجری تاریخ کا اعلان کیا جسے خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرّر فرمایا تھا اور خود انہوں نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی حیات طیبہ میں متعدد خطوط اور معاہدوں میں لکھا تھا_

آپعليه‌السلام کی رائے اور نظریہ کو قبول کرنے اور آپعليه‌السلام کے مشورہ کو دل و جان سے مان لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ حق ہے''والحق یعلو ولا یعلی علیه '' _نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یوم ولادت و رحلت کی بجائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کی وجہ ارض شرک سے (جہاں ذلت، گمراہی اور پستی تھی) ارض

____________________

۱) علامہ محقق سید مہدی روحانی نے اپنے مقالہ میں یہ احتمال دیا ہے اور یہ مقالہ ما ہنامہ '' الھادی'' سال اول شمارہ نمبر ۴ ص ۴۸ میں شائع ہوا ہے_

۲) التنبیہ الاشراف ص ۲۵۲_

۶۷

اسلام کی طرف (جہاں عزت ، شرافت اور سربلندی تھی) ہجرت کی اہمیت تھی اور انسانیت اور تاریخ کی تشکیل کے اعتبار سے یہ چیز نہایت اہمیت کی حامل ہے_ اسی طرح آپعليه‌السلام نے اس عمل سے ہرذلت آمیز رائے اور ظالم و جابر اور طاغوتی حکمرانوں سے وابستہ واقعات کو تاریخ کا مبداء قرار دینے سے اجتناب کیا _ اور بہتی گنگا کی لہروں کا دھارا بننے سے بھی پرہیز کیا جبکہ عام لوگوں میں یہ چیز عام ہوتی ہے اور ان کی رگ و پے میں خون اور زندگی کی طرح گردش کررہی ہوتی ہے_

پھر عیسوی تاریخ کیوں؟

اس کے بعد ہم یہاں نہایت افسوس اور گہرے ملال سے یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ اہل مغرب اور غیر مسلم تواپنی تاریخ، تمدن اور واقعات کی حفاظت کرتے ہیں _ اور خواہ وہ کتنے ہی حقیر اور بے اہمیت ہوں کسی طر ح بھی ان سے دستبردار نہیں ہوتے بلکہ انہیں پھیلانے اور دوسری قوموں میں انہیں ترویج دینے اور راسخ کرنے کے درپے ہوتے ہیں _ حتی کہ اسلامی واقعات اور تاریخ کو لکھنا چاہتے ہیں تو ہجری تاریخ کو عیسوی تاریخ سے بدل کر لکھنے پر اصرار کرتے ہیں خواہ ایسا کرنے سے کتنے ہی حقائق مسخ ہوجائیں اور ان میں اشتباہ و غلطی ہوجائے_

لیکن دوسری طرف ہم ترقی ، ترقی یافتہ اور تہذیب و ثقافت و غیرہ جیسے بے وزن اور خوشنما الفاظ اور نعروں کا فریب کھاکے اپنی بہت سی بنیادی اور اساسی چیزوں سے بآسانی دستبردار ہوجاتے ہیں حالانکہ ان نعروں کے پس پردہ ہزاروں خطرات اور بربادیاں چھپی ہوئی ہوتی ہیں _ حتی کہ بعض اسلامی ممالک نے تو عربی رسم الخط کو چھوڑ کر لاطینی اور انگریزی رسم الخط کو اپنا لیا ہے _ بلکہ اپنے رنگ ڈھنگ اور لباس جیسے حیاتی اور ضروری امور کو چھوڑ کر غیروں کے اقدار اپنالئے ہیں_ بالکل یہی صورتحال ہجری تاریخ کے متعلق بھی ہے_

ہم نے کس سہولت سے ہجری تاریخ کو چھوڑ دیا ہے جب کہ یہ ہماری عزت و سربلندی کا سرچشمہ تھی

۶۸

اس سے ہماری تاریخ اور ثقافت قائم تھی ہم نے اس کی جگہ عیسوی تاریخ کو اپنا لیا جو تقریباً چوتھی صدی ہجری میںیعنی اسلامی ہجری تاریخ کے وضع ہونے کے بہت عرصہ بعد ظاہر ہوئی عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کے دن سے نہیں بلکہ ان کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے دن سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں _(۱) بلکہ ایک اور دستاویز کے مطابق جناب سکندر ذوالقرنین کے دور سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں(۲) حتی کہ ابن العبری نے بھی ( جو عیسائیوں کے بہت بڑے پادری شمار ہوتے تھے اور کارڈینال کے درجہ کے برابر ان کا رتبہ تھا اور ۶۸۵ ہجری کو فوت ہوئے انہوں نے بھی) اپنی کتاب میں عیسوی تاریخ کبھی نہیں لکھی بلکہ کئی مقامات پر تاریخ سکندری سے کتاب کو مزین کیا _ پس اگر اس وقت عیسوی تاریخ عام اور معروف ہوتی تو وہ اس سے ہرگز روگردانی نہ کرتے_ اسی طرح ۹۰۲ ہجری کو وفات پانے والے سخاوی کے کلام سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ دسویں صدی ہجری کے اوائل تک بھی میلاد مسیح کی تاریخ رائج نہیں تھی_

لیکن بہت سی ایسی حکومتیں ہمارے سامنے ہیں جو اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نام سے یاد کرتی ہیں اور بہت سی قومیں جو خود کو اسلام سے منسوب کرتی ہیں انہوں نے صرف عیسوی تاریخ کو اپنا رکھاہے فارسی اور رومی تاریخ کو بھی نہیں اپنایا ہاں انہوں نے صرف تمدن و ترقی کے نام پر اور اس قسم کے دلکش اور پرفریب نعروں کی وجہ سے عیسوی تایخ کو محور نظام بنایا جبکہ اپنی عظمت و سربلندی کی اساس ،تاریخ اور ثقافت کو چھوڑ دیا ہے اس طرح بہت سے عظیم اور اہم امور سے دستبردار ہوچکے ہیں جب کہ ان سے پیچھے ہٹنا نہایت دشوار اور خطرناک ہے_

نکتہ:

ایک روایت کے مطابق حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے پوچھا گیا کہ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کانون (رومی مہینہ) کی چوبیس تاریخ کو ہے (آپعليه‌السلام کیا فرماتے ہیں ؟) جس پر آپعليه‌السلام نے فرمایا: '' وہ

____________________

۱)الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۸۳ _

۲)نزہة الجلیس ج۱ ص ۲۲ نیز ملاحظہ ہو کنز العمال ج ۱۰ ص ۱۹۵ از مستدرک و از کتاب الادب صحیح بخاری_

۶۹

جھوٹ کہتے ہیں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت حزیران (رومی مہینہ) کے نصف میں ہوئی جو گردش ایام کے حساب سے آذر (فارسی مہینہ) کا بھی نصف بنتاہے''(۱) ( جس سے معلوم ہوتاہے کہ فارسی اور رومی مہینے، عیسوی مہینوں سے پہلے اور معروف تھے کہ عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی پیدائشے کو ان تاریخوں سے مطابقت دے رہے ہیں _ اور یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ صحیح مطابقت نہیں دے پائے_ از مترجم)

مخلصانہ اپیل

ہم امت مسلمہ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے امور اور تقویم ( کیلنڈروں ) میںہجری تاریخ کو اپنائیں چونکہ اس طرح ان کا ماضی ان کے حال سے متصل ہوجائے گا اور یہی چیز انہیں ان کی عزت و سربلندی کا راز یاد دلائے گی اور یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالی نے ان کے لئے اور تمام انسانیت کے لئے اختیار فرمایا ہے_ علاوہ ازیں اگر فرض کریں کہ تاریخ کا مبداء بڑے اور عظیم واقعات ہونے چاہئیں تو پھر کونسا واقعہ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ظہور سے عظیم تر ہے اور کونسا بڑا واقعہ اس عظیم واقعہ کی برابری کرسکتاہے_

علامہ مجلسی (رہ) کا کہنا ہے : (ہجری تاریخ کو اپنانے کی) اصلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ (ہجرت) اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کا ابتدائیہ، دینی احکام کے ظہور کا افتتاحیہ، مشرکوں کی قید سے مسلمانوں کی رہائی کی شروعات اور ہجرت کے بعد دین مبین کے قواعد کی تاسیس جیسے دوسرے اہم کاموں کا ابتدائیہ تھی''(۲) _

میں امت اسلامی خصوصاً عربوں سے گزارش کرتاہوں اگر ہم دینی لحاظ سے بھی اس سے صرف نظر کرلیں تب بھی عرب ہونے کے ناطے اس کو اہمیت دینی چاہئے اور اس مقام پر انہیں سید الشہداء امام حسینعليه‌السلام

____________________

۱)بحارالانوار ج۷۵ ص ۳۶ ، تحف العقول ، مختصر التاریخ ابن کازروفی ص ۶۷ اور مروج الذہب ج۲ ص۱۷۹ و ص ۱۸۰_

۲)بحارالانوار ج۸۵ ص ۳۵۱_

۷۰

کا بہترین قول یاد دلاتاہوں کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا:

(ان لم یکن لکم دین و کنتم لا تخافون المعاد فکونوا احراراً فی دنیاکم هذه و ارجعوا الی احسابکم ان کنتم عرباً کما تزعمون )(۱)

اگر تم کسی دین کے قائل نہیں اور قیامت کا خوف نہیں رکھتے تو کم از کم اپنی اس دنیا کے معاملے میں تو آزاد رہو اور اپنے آبا ء و اجداد کے محاسن ومفاخر کو مدّنظر رکھو اگر تم اپنے آپ کوعرب سمجھتے ہو_

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ وہ انہیں ان کا بہترین منشور عطا فرمائے او ر اپنی عقول و ضمائرسے راہنمائی حاصل کرنے والوں میںقرار دے_

اگروہ ہر چیز میں دوسروں کی تقلید کرنا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں بھی ان کی تقلید کریں یعنی دوسروں کی تقلید اس طرح کریں کہ ہم اپنے عظیم تمدن اور اعلی روایات سے دستبردار نہ ہونے پائیں تا کہ دوسروں کے دست نگر نہ ہوں اور ایسی چیزیں اخذ نہ کریں جن کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہو_

''قل هذا سبیلی ادعوا الی الله علی بصیرة اناومن اتبعنی''

۲_ مدینہ میں مسجد کی تعمیر :

مسجد والی جگہ یا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خریدی تھی یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہدیہ کی گئی تھی ، اس بارے میں کہا جاتاہے کہ اس جگہ قبیلہ خزرج کے دو یتیم بچوں کے اونٹوں کا باڑہ تھا اور وہ بچے اسعد بن زرارہ یا کسی اور شخص کے زیر کفالت تھے، ایک قول کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ جگہ دس دینار میں خریدی _

وہاں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کی بنیاد رکھی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر(مدینہ کے

____________________

۱)اللہوف ص۵۰ نیز مقتل الحسین مقرم ص ۳۳۵ ازلہوف_

۷۱

مضافات میں) سیاہ پتھروں پر مشتمل ''حرّہ'' نامی زمین سے پتھر اٹھاکر لاتے تھے، اس کام میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت کی وجہ سے اصحاب اور زیادہ کوشش اورتگ و دو سے کام کرتے تھے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے یہ شعر پڑھا_

لئن قعدنا و النبی یعمل

لذاک منا العمل المضلل

(اگر ہم آرام سے بیٹھ جائیں اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کام میں مشغول رہیں ( تو یہ درست نہیں) لہذا ہم اسی وجہ سے سخت طاقت فرسا کام میں مصروف ہیں)_

مسجد کی تعمیر کے وقت مسلمین یہ رجز پڑھ رہے تھے_

لا عیش الا عیش الآخرة

اللّهم ارحم الانصار والمهاجرة

(زندگی تو صرف آخرت اور جنت کی ہی زندگی ہے، خدایا انصار و مہاجرین پر رحم فرما)

اور اسطرح کے دیگر اشعار(۱) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کا طول و عرض تقریباً سوسو ذراع (ہاتھ)قرار دیا(۲) ایک اور قول کے مطابق طول ستر ذراع (ہاتھ)(۳) اور عرض ساٹھ ذراع قرار دیا(۴) ، احتمال ہے کہ یہ دونوں قول صحیح ہوں اور وہ اس طرح کہ پہلی دفعہ تعمیر کرتے وقت آپ نے لمبائی میں ستر اور چوڑائی میں ساٹھ ذراع پر بنیادیں رکھی ہوں جبکہ تعمیر نو کے وقت اس میں توسیع کردی ہو(۵) _

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کے اطراف میں اپنے اور اپنے اصحاب کے گھر بنائے شروع میں ہر گھر کا دروازہ مسجد کے صحن کی طرف کھلتا تھا لیکن بعد میں امیر المؤمنین علیعليه‌السلام کے گھر کے علاوہ باقی تمام دروازے بند کردیئے گئے ، انشاء اللہ بعد میں ہم اس بات کی زیادہ وضاحت کریں گے _ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہاں مؤرخین کے بعض اقوال کا جائزہ لیں_

____________________

۱) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ص ۶۴ و ۶۷ و ۷۱_ (۲)یعنی تقریباً ۹۱ میٹر سے کچھ زیادہ طول اور اتنا ہی عرض (مترجم)

۳)یعنی تقریباً ۶۷ میٹر کے لگ بھگ (مترجم) (۴)یعنی تقریباً ۴۹ میٹر سے کچھ کم (مترجم)

۵)وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۴۰ اور اس کے بعد _ نیز ملاحظہ ہو: تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۶۵ و ۳۶۶ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۷۲

الف: حضرت ابوبکر اوردس دینار:

اہل سنت مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسجد کی جگہ کو خریدنے کیلئے حضرت ابوبکر نے دس دینار ادا کئے(۱) _

لیکن ہماری نظر میں یہ بات مشکوک ہے اس لئے کہ :

اولاً: حضرت ابوبکر کی مالی حالت اس قدر مستحکم نہ تھی کہ وہ یہ رقم ادا کرسکتے، اگر فرض کریں کہ ان کی مالی حالت بہتر تھی تب بھی ہمیں شک ہے کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہو اور اس کی دلیل ہم واقعہ غار میں ذکر کرچکے ہیں_

ثانیاً:اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو بھی اس کے برعکس کچھ اور روایات بھی موجود ہیں _ جن میں سے ایک روایت کے مطابق اسعد بن زرارہ نے اس زمین کے بدلے میںبنی بیاضہ میں اپنا کھجور کا ایک درخت ان یتیموں کو دیا تھا، جبکہ دوسری روایت میں آیاہے کہ ابوایوب نے کسی طرح انہیں راضی کیا تھا اور تیسری روایت کے بقول معاذ بن عفراء نے یہ کام انجام دیا تھا(۲) _

بعض مؤرخین نے احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے حضرت ابوبکر نے زمین کی قیمت ادا کی ہو جبکہ بعض دیگر صحابہ نے محض اجر و ثواب اور نیکی کے طور پر زمین کی اصل قیمت کے علاوہ ان یتیموں کو یہ سب کچھ دیا ہو(۳) _

لیکن یہ احتمال بھی دیا جاسکتاہے کہ دیگر صحابہ نے زمین کی اصل قیمت ادا کی ہو اور حضرت ابوبکر نے صلہ و نیکی کے طور پر کچھ رقم ادا کی ہو، اس طرح پہلے احتمال کو اس دوسرے احتمال پر ترجیح نہیں دی جاسکتی ، علاوہ ازیں یہ احتمال روایت میں موجود کلمہ ''عوضھما'' کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اس لئے کہ اس کلمے سے واضح ہوتاہے کہ ایک تو یہ چیز زمین کی قیمت تھی اور دوسرا وہ رقم اس زمین کے بدلے میں تھی نیکی اور صدقہ کے طور پر نہیں تھی_

ثالثاً : صحیح بخاری و غیرہ میں لکھا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص کو بنی نجار کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۵_

۲) البدایة و النہایةج ۳ص۳۱۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص۳۲۳ و ص ۳۲۴، (روایت ابن حجر) ، السیرة الحلبیة ج ۲ص ۶۵_

۳) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۳ ، ۳۲۴_

۷۳

کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس زمین کے محدودے کی قیمت طے کریں_ تو انہوں نے جواب دیا :'' قسم بخدا ہم خدا کے علاوہ کسی اور سے اس زمین کی قیمت وصول نہیں کریں گے''(۱) _

ب: پتھراور خلافت

حاکم نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ مسجد کیلئے سب سے پہلا پتھر خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٹھاکر لائے تھے پھر دوسرا پتھر حضرت ابوبکر (تیسرا حضرت عمر(۲) )اور چوتھا حضرت عثمان اٹھاکر لائے ، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ دیکھ کر میں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کی : ''کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی طر ف نہیں دیکھتے کہ یہ کس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کررہے ہیں ''؟ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''اے عائشہ ، میرے بعد یہ میرے خلیفہ ہوں گے ''یہ حدیث شیخین کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن خود انہوں نے اسے ذکر نہیں کیا(۳) _

اس روایت کے الفاظ میں موجود تضاد و تناقض کے علاوہ درج ذیل امور کی بنا پر اس حدیث کا صحیح ہونا ہرگز ممکن نہیں_

اولاً : ذہبی اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو یہ تینوں خلفاء کی خلافت پر نصّ ہوتی جبکہ یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں ، اس لئے کہ حضرت عائشہ اس وقت ایک کم سن پردہ نشین بچی تھیں اور ابھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہی نہیں ہوئی تھیں ، پس ان سے اس حدیث کو منسوب کرنا، اس حدیث کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرتاہے(۴) _البتہ ہم ان کے کم سن ہونے والی بات پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں_

ابن کثیر کہتے ہیں : ''اس سیاق و سباق کے ساتھ یہ حدیث بالکل عجیب وغریب ہے''(۵) _

____________________

۱) صحیح البخاری ج۱ص ۵۷ ، تاریخ الطبری ج۲ص ۱۱۶ ، الکامل لابن اثیرج ۲ ص۱۱۰ وفاء الوفاء ج ۱ص ۳۲۳ _ نیز التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۲) حضرت عمر کا ذکر صرف تلخیص المستدرک کی روایت میں ہوا ہے_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ص۹۶ ، ۹۷ ، وفاء الوفاج ۱ص۳۳۲ ، ۳۳۳ ، ۳۵۱ ، البدایة والنہایة ج۳ ص ۲۱۸ ، اورج ۶ص ۲۰۴ ( انہوں نے وضاحت کی ہے کہ یہ واقعہ مسجدمدینہ کی تعمیر کے وقت پیش آیا) السیرة الحلبیةج ۲ص ۵۶ ، ۶۶ ، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۴ ، ۳۴۳ نیز دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۲۷۲_

۴) تلخیص المستدرک ذہبی ج ۳ص ۹۷ ( مستدرک الحاکم ج۳ ص ۹۷کے حاشیے پرمطبوع )_ (۵) البدایة والنہایة ج۳ص ۲۱۸ _

۷۴

ثانیاً:حدیث سفینہ پر اشکال و اعتراض کرتے ہوئے بخاری نے '' خلافت اور پتھر'' کی حدیث(۱) کے بارے اپنی تاریخ میںلکھا ہے :_

ابن حبان نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا کیونکہ حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علیعليه‌السلام ( البتہ یہ انہی لوگوں کے الفاظ ہیں)کہا کرتے تھے : '' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر نہیں کیا ''(۲) _

یہاں بخاری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس لحاظ سے یہ حدیث خود اہل سنت کے اس عقیدے سے بھی تضاد رکھتی ہے کہ جس کے مطابق رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہ تو کسی شخص کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا اور نہ ہی خلافت کے بارے میں کوئی وضاحت فرمائی تھی ، اور اسی بناپر اہل سنت حضرت ابوبکر کے ہاتھ آنے والی خلافت کو درست قرار دیتے ہیں_ بلکہ حضرت عائشہ سے یہ روایت بھی منقول ہے : '' اگر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے تو (میرے خیال میں) ضرورحضرت ابوبکر و حضرت عمرکوہی خلیفہ مقرر فرماتے'' اس حدیث کو ذہبی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے(۳) _

علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اپنی گراں قدر تصنیف '' الغدیر'' (ج/۵ ص ۳۵۷ تا ۳۷۵) میں علمائے اہل سنت کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خلافت ایک انتخابی امر ہے (یعنی معاملہ لوگوں کے انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے) پس یہ حدیث ان کے مذہب کے مطابق بھی جھوٹی ہے اور حقیقت میں بھی جھوٹی ہے اس لئے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کا واضح اعلان فرمایا اور اس بارے میں بے شمار روایات منقول ہیں انہی روایات کے ذریعے امیرالمؤمنینعليه‌السلام ، آپعليه‌السلام کے اصحاب ، اہل بیت ، آپکی اولاد اور آپعليه‌السلام کے شیعہ ، اس وقت سے آج تک آپعليه‌السلام کی خلافت پر استدلال کرتے چلے آرہے ہیں، شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہوکہ جس میں ان بے شمار متواتر روایات یا خبر واحدمیں سے کوئی روایت نقل نہ کی گئی ہو(۴) _

____________________

۱) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۱۳_ (۲) السیرة الحلبیہ ج ۲ص۶۶_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۷۸_

۴)بطور مثال ملاحظہ ہو: الغدیر ج۱ ص ۱۹۵ ا ص ۲۱۳_

۷۵

ثالثاً : اس روایت کے مطابق مسجد کی تعمیر میں سب سے پہلے پتھر رکھنے والوں میں حضرت عثمان بھی شامل تھے لیکن خود اہل سنت کے مؤرخین کے بقول حضرت عثمان اس وقت حبشہ میںتھے اور مدینہ میں موجود نہ تھے جیسا کہ سمہودی نے اس طرف اشارہ کیا ہے اسی وجہ سے سہیلی نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے حضرت عثمان کو حذف کرتے ہوئے اس کے نام کو ذکر نہیں کیا(۱) _

اور جب حاکم کی کتاب طبع ہوئی تو اس روایت میں سے حضرت عثمان کا نام حذف کردیا گیا اس کے پیچھے بھی شاید یہی راز پوشیدہ تھا ، حالانکہ ذہبی نے اپنی تلخیص میں اس روایت کو ذکر کیا ہے _اور اسے تحریف کہا جاتاہے جو دین، امت اور کسی فرقے کے حقائق کے ساتھ خیانت میں شمار ہوتی ہے_

کیونکہ بطور خلاصہ واقعہ یوں ہے کہ حضرت عثمان اگر چہ اہل مکہ کے اسلام لانے کی خبر سن کر مکہ پلٹ آئے تھے لیکن حقیقت حال کا پتہ چلنے پردوبارہ واپس حبشہ چلے گئے تھے ، جیسا کہ خود اہل سنت مؤرخین کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی(۲) عسقلانی کہتے ہیں :'' جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کا علم ہوا تو ان میں سے تیس آدمی واپس مکہ لوٹ آئے ، ان میں ابن مسعود بھی تھے ، جو اس وقت مکہ پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے(۳) (تو پھر عثمان کہاں سے شریک ہوسکتے ہیں؟)_

ج: حضرت عثمان اور حضرت عمار:

مؤرخین لکھتے ہیں : حضرت عثمان بہت صفائی پسند اور صاف ستھرے رہنے والے آدمی تھے، جب مسجد کی تعمیر کیلئے اینٹیں اٹھاتے تو انہیں اپنے کپڑوں سے دور رکھتے تھے اور جب اینٹوں کو مسجد کے پاس رکھتے تو

____________________

۱) وفاء الوفاء ج۱ ص ۲۵۲ _

۲) طبقات ابن سعد ج ۱حصہ اول ص۱۳۸ ، الکامل لابن اثیرج۳ص۱۸۵،البدء والتاریخ ج۱ص۲۲،اس کتاب کی روایت کے مطابق حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کے وقت کشتی میںحضرت عثمان کی زوجہ حضرت رقیہ کا حمل گر گیا تھا _

۳) فتح الباری ج۷ص۱۴۵_

۷۶

اپنی آستینوں کو جھاڑتے اور اپنے کپڑوں کو دیکھتے کہ کہیں ان پر مٹی تو نہیں لگی ، اگر مٹی لگی دیکھتے تو اسے جھاڑ دیتے تھے، حضرت علیعليه‌السلام ابن ابیطالب نے انہیں دیکھ کر یہ اشعار پڑھے_

لا یستوی من یعمر المساجدا

یدأب فیها قائما ً و قاعداً

و من یری عن التراب حائداً

( وہ شخص جو مساجد کی تعمیر میں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر نہایت کوشش و مشقت سے کام کرتاہے اس شخص کے برابرنہیں ہوسکتا جو مٹی سے دور رہنے کی کوشش کرتاہے)_

جب حضرت عمار یاسر نے یہ اشعار سنے تو انہوں نے ان اشعار کو دہرانا شروع کردیا ، اگر چہ انہیں معلوم نہ تھا کہ ان اشعار سے مراد کون ہے؟ اسی اثناء میں جب وہ حضرت عثمان کے پاس سے گزرے تو حضرت عثمان( جن کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھڑی تھی) نے ان سے کہا : ''اے سمیہ کے بیٹے یہ کس کی عیب جوئی کررہے ہو؟'' پھر کہا :'' چپ ہوجاؤ ورنہ (یہی چھڑی) تیرے چہرے پر ماروںگا''_ یہ بات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سن لی ، اس وقت آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجرہ ام سلمہ کے سائے میں تشریف فرماتھے، یا ایک اور روایت کے مطابق اپنے حجرہ کے سائے میں آرام کررہے تھے، یہ سن کر آنحضرت سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا: ''بے شک عمار بن یاسر میری ناک اور آنکھوں کے درمیان موجود جلد (پیشانی) کی مانند ہیں''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دو آنکھوں کے درمیان اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا: ''جب کوئی شخص اس مقام تک پہنچ جائے تو یہ قربت کی انتہا ہے''_

یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو انہیں آزار و اذیت پہنچانے سے باز رکھا، پھر لوگوں نے حضرت عمار سے کہا : ''رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی وجہ سے ہمارے ساتھ ناراض اور غضبناک ہوئے ہیں، ہمیں ڈر ہے کہیں ہمارے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہوجائے'' حضرت عمار نے کہا : ''جس طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناراض و غضبناک ہوئے ہیں میں ابھی اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راضی کرتاہوں''_

پھر حضرت عمار نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی : ''یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو مجھ سے کیا

۷۷

دشمنی ہے؟ ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' ان کی طرف سے تمہیں کیا تکلیف پہنچی ہے؟ ''عرض کی :'' وہ میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں ، خود تو ایک ایک اینٹ اٹھاتے ہیں جبکہ میرے اوپر دو دو تین تین اینٹیں لاد دیتے ہیں''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے اندر چکر لگایا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بالوں سے خاک جھاڑتے ہوئے فرمایا : ''اے ابن سمیہ تمہیں میرے اصحاب قتل نہیں کریں گے بلکہ تم ایک باغی گروہ کے ہاتھوں قتل ہوگے(۱) ...''_

کیا حضرت عثمان حبشہ میں نہ تھے؟

ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ حضرت عثمان مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں موجود نہ تھے اور اس وقت وہ حبشہ میں تھے_

شاید یہی وجہ ہے کہ عسقلانی اور حلبی نے حضرت عثمان بن عفان کی جگہ اس روایت میں عثمان بن مظعون کا نام ذکر کیا ہے(۲) _

ہم اس سوال اور اعتراض کا جواب دینے سے پہلے گذشتہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیں کہ اس کی یہ توجیہ کرنا بھی نامناسب ہے کہ '' رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک سال یا سات ماہ تک ابوایوب کے ہاں قیام پذیر رہے اور اسی دوران آپ اپنے گھر اور مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے، ممکن ہے کہ اس وقت یہ خبر حبشہ میں مہاجرین تک پہنچی ہو اور اس دوران وہ مدینہ آتے رہے ہوں اور شاید حضرت عثمان بھی ان میں سے ایک ہوں وہاں انہوں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا اور مذکورہ واقعہ پیش آیا ہو، اگر چہ مسجد کی بنیاد رکھتے وقت اور خلافت کے پتھر رکھنے میں وہ شریک نہ ہوسکے ہوں''_

بہر حال ہمارے نزدیک یہ بعید ہے کہ مسلمان اتنے طویل عرصہ تک مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے ہوں

____________________

۱) سیرة ابن ھشام ج۲ص۱۴۲، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۵ ، اعلاق النفیسة ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۹ ، السیرة الحلبیة ج۲ص۷۲ ، علامہ امینی نے '' الغدیر'' کی نویں جلد میں (ص ۲۱ سے ۲۷ تک) اس واقعہ کے بہت زیادہ مصادر و منابع ذکر کئے ہیں، ہم نے صرف چند ایک ذکر کئے ہیں ، مزید تحقیق کیلئے '' الغدیر'' ج۹ کی طرف رجوع فرمائیں_

۲) السیرة الحلبیة ج ۲ص۷۱ ، حاشیہ سیرت النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابن ھشام ج ۲ص۱۴۲_ از مواہب اللدنیہ_

۷۸

اس لئے کہ وہ دسیوں کی تعداد میں تھے اور اہل مدینہ میں سے اسی(۸۰) سے زیادہ افرادتو مقام عقبہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیعت کرچکے تھے_

صحیح بات یہ ہے کہ ظاہراً حضرت عمار اور حضرت عثمان کا مذکورہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے وقت پیش آیا اور یہ جنگ خیبر کے بعد کی بات ہے یعنی ہجرت کے ساتویں سال(۱) اور درج ذیل امور اسی بات کے صحیح ہونے پر دلالت کرتے ہیں:

اولاً: بیہقی نے اپنی کتاب'' الدلائل'' میں روایت کی ہے کہ جب حضرت عمار قتل کردیئے گئے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص نے اپنے والد(عمرو بن العاص) سے کہا: ''اس شخص (حضرت عمار) کو ہم نے قتل کیا ہے جبکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ بھی پتاہے''_ اس کے والد نے پوچھا:'' تم کس شخص کی بات کررہے ہو؟ ''تو اس نے جواب دیا : ''عمار یاسر کی'' پھر کہا : ''کیا تمہیں یاد نہیں جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد تعمیر کررہے تھے تو اس وقت ہم ایک ایک اینٹ اٹھاکر لارہے تھے جبکہ عمار یاسر دو دو ا ینٹیں اٹھالاتا تھا چنانچہ اسی دوران جب وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گزرا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تم دو دو اینٹیں اٹھاکر لارہے ہو حالانکہ تمہارے لئے یہ ضروری نہیں ہے جان لو کہ تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور تم اہل جنت میں سے ہو''_ پھر عمرو معاویہ کے پاس گیا الخ_(۲)

سمہودی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:'' اس بات سے پتہ چلتاہے کہ دوسری بار مسجد کی تعمیرکے وقت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا، اس لئے کہ عمرو نے ہجرت کے پانچویں برس اسلام قبول کیا تھا ''(۳) _

عبدالرزاق و غیرہ سے مروی ہے کہ عمرو بن عاص معاویہ کے پاس گیا اور اس نے معاویہ سے کہا کہ ہم

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۱ص۳۳۸_

۲)تذکرة الخواص ص ۹۳ از طبقات ابن سعد، الفتوح ابن اعثم ج۳ ص ۱۱۹ و ۱۳۰ ، الثقات ابن حبان ج۲ ص ۲۹۱ ، انساب الاشراف ; با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۳۱۳و ص ۳۱۷ ، طبقات ابن سعد ج۳ حصہ اول ص ۱۸۰ و ۱۸۱ المصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۶۴ ، حاشیہ انساب الاشراف ج ۲ ص ۳۱۳ ; تحقیق محمودی،المناقب خوارزمی ص ۱۶۰ ، وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱و ۳۳۲_

۳) وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱ و ۳۳۲_

۷۹

نے سنا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمار کے بارے ہیں فرمارہے تھے: ''اسے (عمار کو) ایک باغی گروہ قتل کرےگا''(۱) _

اور معاویہ کے پاس دو آدمی آئے جو حضرت عمار کے سرکے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے ، عبداللہ بن عمرو بن العاص نے انہیں دیکھ کر کہا :'' عمار کے سر کی بابت تمہیں اپنے ساتھی کے لئے راضی ہو جانا چاہئے ، کیونکہ میں نے عمار کے بارے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : '' عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا _'' اس پر معاویہ نے عمرو سے کہا: ''تو اپنے اس پاگل کو ہم سے دور کیوں نہیں کرلیتا ''(۲) _

اور یہ واضح ہے کہ حضرت عمار کا واقعہ ایک ہی دفعہ اور ایک ہی مناسبت سے پیش آیاہے_

ثانیاً: خود روایت میں قرینہ موجود ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ یہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے دوران پیش آیا تھا، کیونکہ روایت میں ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت حضرت ام سلمہ کے حجرے کے سائے میں تشریف فرماتھے اور یہ بات واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے مسجد تعمیر فرمائی تھی اور اس کے بعد اپنے حجرے تعمیر کئے تھے(۳) نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ گھر اکٹھے تعمیر نہیں کئے تھے بلکہ ضرورت کے ساتھ ساتھ انہیں تدریجی طور پر تعمیر کیا تھا، چنانچہ سب سے پہلے حضرت سودہ اور حضرت عائشہ کا حجرہ تعمیر کیا گیا(۴) اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائشے نہیں کہ مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہونے کے کافی دیر بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ام سلمہ کیلئے حجرہ تعمیر کیا تھا_

____________________

۱) المصنف ج۱۱ص۲۴۰ ، مجمع الزوائدج ۹ص ۲۹۷ ،ج ۷ص۲۴۲ ، ( امام احمد کی مسند اور طبرانی سے روایت نقل ہوئی ہے)_

۲) انساب الاشراف ج۲ص۳۱۳، مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمرو، مصنف ابن ابی شیبہ اور فتح الباری کے علاوہ دیگر بہت سے مصادر و منابع میں یہ روایت نقل ہوئی ہے_

۳) زاد المعاد ج۱ص۲۵ ، السیرة الحلبیة ج۲ ص۸۷ _

۴) تاریخ الخمیس ج۱ص۳۴۶ ، وفاء الوفا ج ۲ص ۴۵۸ وفاء الوفاء کے صفحہ ۴۶۲ پر ذھبی سے نقل ہواہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے حضرت سودہ کا گھرتعمیر کیا ، پھر جب حضرت عائشہ کیلئے گھر کی ضرورت پڑی تو ان کے لئے گھر تعمیر کردایا، اسی طرح مختلف مواقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باقی گھر تعمیر کروائے_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460