الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)17%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242000 / ڈاؤنلوڈ: 6982
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

تیسری جلد

مؤلف: جناب حجة الاسلام والمسلمین سید جعفر مرتضی عاملی (ادام اللہ توفیقاتہ)

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

۳

نام کتاب: الصحیح من سیرة النبی الاعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

مؤلف: علامہ محقق جناب حجة الاسلام والمسلمین سید جعفر مرتضی عاملی (ادام اللہ توفیقاتہ)

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر: نور مطاف

جلد: تیسری

اشاعت: اول

تاریخ اشاعت: ربیع الاول۱۴۲۷ھ _ق

۴

بسم الله الرحمن الرحیم

و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین

و لکم فی رسول الله اسوة حسنة

مقدمہ:

بہترین اور کامل ترین طرز زندگی، باعث تخلیق کائنات ہستیوں کی پیروی میں مضمر ہے_ اور ان ہستیوں میں بھی رسول اکرم حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ سب سے درخشان اور نمایاں ہے کہ پیروی کے لئے ان سے بہتر کوئی اور شخصیت ملی ہی نہیں سکتی_

یہ کتاب '' الصحیح من سیرة النبی الاعظم'' عظیم محقق ،حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید جعفر مرتضی عاملی (ادام اللہ توفیقاتہ ) کی قیمتی ، گراں بہا، نہایت سودمند اور بے مثال کاوش ہے جس میں انہوں نے سیرت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تقریباً تمام پہلوؤں پر گہری اور منصفانہ تحقیق کرکے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی قابل فخر حیات طیبہ کے بہت سے پہلوؤں کو متعصبانہ، مغرضانہ اور ناپختہ سیرت نگاری کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر منصفانہ تحقیق کے روشن افق پر لاکھڑا کیا اور حقیقت پسند علماء و محققین کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کرکے ان سے داد تحسین وصول کی ہے اور دنیائے اسلام کی علمی محافل کی بھی بھر پور توجہ حاصل کی ہے_

۵

معارف اسلام پبلشرز خداوند متعال کا نہایت شکرگزار ہے کہ وہ اپنے اصلی فریضے _ یعنی اردو زبان جاننے والوں کی ضروریات کے مطابق اخلاق، عقائد، فقہ، تفسیر، تاریخ اور سیرت جیسے اہم اور ضروری موضوعات پر مختلف کتابوں کے ترجمہ اور نشر و اشاعت کے فرائض_ کو انجام دیتے ہوئے اللہ تعالی کی توفیق سے '' الصحیح من سیرة النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الاعظم'' کی تیسری جلد کو اس سال میں کہ جسے راہبرمعظم انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای (مدظلہ) نے رسول اعظم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سال قرار دیا ہے، اہل مطالعہ و تحقیق اور حق کے متلاشی حضرات کی خدمت میں پیش کررہاہے_ امید ہے کہ یہ کوشش خداوند متعال کی بارگاہ میں اور ولی خدا امام زمانہ حضرت مہدی حجت ابن الحسن العسکری (عج) کے نزدیک مقبول قرار پائے گی_

آخر میں اس نکتہ کا ذکر بھی فائدے سے خالی نہیں ہے کہ یہ ترجمہ عربی متن کے جدید ترین ایڈیشن سے بالکل مطابقت رکھتاہے_ اور اس کے مطالب و موضوعات کی ترتیب میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں اور منابع کی تکمیل کی گئی ہے، ان سب کا اس ترجمہ میں مکمل خیال رکھا گیا ہے _ لہذا معارف اسلام پبلشرز اس کتاب کا ترجمہ، تصحیح، نظر ثانی اورخاص کر جدید ایڈیشن سے مطابقت والے طاقت فرسا کام انجام دینے والی محترم فاضل شخصیات کا بھی نہایت شکرگزا رہے اور خداوند عالم سے ان کے لئے مزید توفیقات کا طالب ہے _

و آخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین

معارف اسلام پبلشرز

۶

پانچواں باب

ہجرت سے بدر تک

۷

پہلی فصل : رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں

دوسری فصل : غیر جنگی حوادث و واقعات

تیسری فصل : ابتدائے ہجرت میں بعض اساسی کام

چوتھی فصل: شرعی احکام

پانچویں فصل :اسلام میں جہاد کی اہمیت

چھٹی فصل : جنگ بدرسے پہلے کی لڑائیاں

۸

پہلی فصل :

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں

۹

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری :

قباء کے مقام پر پندرہ(۱) دن قیام کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ، مکہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روانگی اور قبانیز مدینہ پہنچنے کی تواریخ کے بارے میں مؤرخین کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتاہے، البتہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ربیع الاول کے ابتدائی ایام میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں داخل ہوئے(۲) _

علامہ مجلسی کی تحقیق کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یکم ربیع الاول بروز پیرہجرت کے لئے مکہ سے روانہ ہوئے اور بارہ ربیع الاول بروز جمعہ مدینہ پہنچے_ شیخ مفید کا بھی یہی نظریہ ہے اور بعض نے اس پر اجماع کا دعوی بھی کیا ہے_(۳)

ایک روایت میں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سورج نکلنے سے پہلے مدینہ پہنچے، اس وقت حضرت ابوبکر اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک جیسے سفید لباس میں ملبوس تھے جس کی وجہ سے لوگ غلطی سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گمان کرتے ہوئے حضرت ابوبکر کو سلام کرتے رہے ، جب سورج نکل آیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر دھوپ پڑنے لگی تو حضرت ابوبکر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سایہ بنایا تو اس وقت لوگوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہچانا_(۴)

____________________

۱) البحارج ۱۹ ص ۱۰۶ از اعلام الوری ، السیرة الحلبیة ج۲ص۵۵ ، صحیح مسلم کی روایت کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبا ء میں چودہ دن قیام فرمایا ، ان کے علاوہ اور بھی کچھ اقوال موجود ھیں_

۲ )ملاحظہ ہو: بحار الانوار ج ۵۸ ص ۳۶۶ ، المواہب اللدنیہ ج ۱ ص ۶۷ اور تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۳۷_

۳)اس دعوی کے دلائل ملاحظہ ہوں : بحار الانوار ج۸ ص ۳۶۶ و ۳۶۷_

۴)تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۳۷ _ نیز مندرجہ ذیل منابع میں بھی اس واقعہ کا اشارہ ملتاہے; سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۵۲ ، دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۴۹۸ و ۴۹۹ ، البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۱۸۶ نیز ملاحظہ ہو السیرة النبویہ ابن ہشام ج۲ ص ۱۳۷_

۱۰

البتہ مذکورہ بالا روایت قطعاً صحیح نہیں ، اس لئے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت سے مؤرخین کی تصریح کے مطابق تپتی دوپہر میں مدینہ پہنچے تھے _(۱) اگر کہا جائے کہ ان روایات سے مراد شاید یہ ہو کہ مکہ سے آتے ہوئے جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سیدھے مدینہ پہنچے تو اس وقت دوپہر کا وقت تھا جس کے (فوراً) بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبا کی طرف روانہ ہوئے تو اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے کہ اہل مدینہ ہر روز گروہ در گروہ قبا آتے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ والوں کے نزدیک ایک جانی پہچانی شخصیت تھے _ پس یہ دعوی کیسے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ابوبکر کو نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھ لیا ؟ یہانتک کہ ابوبکر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سایہ کیا تب انہیں پتہ چلا_ اس سے صرف نظر ، خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پہچان کیلئے کافی تھی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت حضرت ابوبکر سے بہت زیادہ مختلف تھی_ چنانچہ جب ام معبد نے اپنے شوہر کے سامنے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صفات ذکر کیں تو اس نے فوراً آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہچان لیا(۲) جبکہ حضرت ابوبکر کی صفات ان کی بی-ٹی حضرت عائشہ کی زبانی پہلے گزرچکی ہیں، علاوہ ازایں گزشتہ روایات میں گزرچکاہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ جاتے ہوئے راستے میں نماز جمعہ ادا کی تھی(۳) اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ظہر کے کچھ دیر بعد مدینہ میں داخل ہوئے کیونکہ مدینہ اور قبا کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہے _ اس پر مزید یہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوبکر سے دو سال بڑے بھی تھے _ پس ابوبکر سے ان لوگوں کا یہ پوچھنا کہ یہ لڑکا آپ کے ساتھ کون ہے ؟(۴) یہ کیا معنی رکھتاہے اور کیا ترپن سالہ بزرگ کو بچہ کہا جاتاہے؟ مگر یہ کہا جائے کہ ''غلام'' کا لفظ لڑکے اور بزرگ دونوں کے لئے یکساں طور پر استعمال ہوتاہے_ لیکن یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ پر باقی رہتاہے کہ جب انہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کا علم تھا تو ابوبکر سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متعلق پوچھنے کی کیا تک بنتی ہے ؟ جبکہ سینکڑوں لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے استقبال کے لئے شہر سے باہر بھی

____________________

۱) تاریخ الخمیس ج۱/ص۳۳۷ ، ۳۳۶ و السیرة النبویہ ابن ہشام ج۲ ص ۱۳۷ ، صحیح بخاری مطبوعہ سنہ ۱۳۰۹ ج۲ ص ۲۱۳ و سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۵۲_

۲)تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۳۴ و ص ۳۳۵ ، سیرہ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۹۴ و ۵۰ ، دلائل النبوة ج۱ ص ۲۷۹_

۳) المواہب اللدنیہ ج ۱ ص ۶۷ ، سیرہ ابن ہشام ج۲ ص ۱۳۹ ، تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۳۹ ، بحارالانوار ج۸ ص ۳۶۷ نیز دلائل النبوة ج۲ ص ۵۰۰_

۴)الغدیر ج۷ ص ۲۵۸ کثیر منابع سے ، نیز سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۴۱ و مسند احمد ج۳ ص ۲۸۷_

۱۱

نکل آئے تھے_

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مدینہ میں قیام :

آپ ، بروز جمعہ اپنی سواری پر بیٹھ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے _ علی علیہ السلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سواری کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار کے قبائل میں سے جس قبیلے کے پاس سے بھی گزر تے تھے وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہوجاتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اپنے ہاں ٹھہرنے کی درخواست کرتے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے جواب میں فرماتے تھے: ''اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو ، یہ خود ہی اس کام پر مامور ہے''_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اونٹنی کی مہار ڈھیلی چھوڑ رکھی تھی ، یہاں تک کہ وہ چلتے چلتے مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جگہ پر پہنچی اور وہیں رک کر بیٹھ گئی ، یہ جگہ ابو ایوب انصاری کے گھر کے قریب تھی جو مدینہ کے فقیرترین شخص تھے(۱) پس ابوایوب یا انکی والدہ وہاں آئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سامان اٹھاکر اپنے گھر لے گئے ، یوں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاں قیام پذیر ہوئے جبکہ علیعليه‌السلام بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھے اور مسجد اور اپنے گھروں کی تعمیر تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہیں مقیم رہے(۲) کہا گیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تقریباً ایک سال تک ابو ایوب کے ہاں قیام فرمایا ، جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق سات ماہ اور تیسرے کے بقول صرف ایک ماہ وہاں قیام پذیر رہے(۳) ہمارے نزدیک یہ آخری قول حقیقت کے زیادہ قریب ہے ، کیونکہ بعید ہے کہ تعمیر کا کام اتنی طویل مدت تک جاری رہا ہو حالانکہ مہاجرین و انصار اپنی پوری کوشش اور توانائی سے اس کام میں مصروف تھے جبکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بھی ان کے ساتھ اس کام میں شریک رہے(۴) _

____________________

۱) البحار ج۱۹ص ۱۲۱ ، مناقب ابن شھر آشوب ج۱ص ۱۸۵ _

۲) روضة الکافی ص ۳۴۰ _ ۳۳۹ ، البحارج ۱۹ص ۱۱۶ _

۳) البدء و التاریخ ج۴ ص ۱۷۸ ، وفاء الوفاء ج ۱ص ۲۶۵ ، السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۴_

۴) السیرة الحلبیة ج۲ص۶۴ _

۱۲

ابن سلام کا قبول اسلام :

مکتب اہل بیتعليه‌السلام سے ناواقف تاریخ اور سیرت نگارکہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن سلام نامی یہودی نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ میں داخل ہوتے وقت لوگوں کے شور و غل کو سنا تو تیزی سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتیں سننے کے بعد اسے یقین ہوگیا کہ یہ(نورانی ) چہرہ جھوٹ بولنے والا نہیں ہوسکتا(۱) _

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تین ایسے سوال پوچھے جنہیں نبی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کا صحیح جواب دیا تو وہ اسلام لے آیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی : '' اس سے پہلے کہ یہودیوں کو میرے اسلام کا علم ہو، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے میرے متعلق پوچھیں'' رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہودیوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا : '' ہم سب سے اچھا شخص ہے اور سب سے اچھے شخص کا بیٹا ہے ، وہ خود بھی ہم سے افضل ہے اور ہم میں سے افضل ترین شخص کا بیٹا ہے'' _اسکے بعدجب یہودیوں کو اس کے اسلام کا علم ہوا تو کہنے لگے _ '' شرنا و ابن شرنا '' وہ خود بھی ہم میں سے بدترین شخص ہے اور بدترین شخص کا بیٹا ہے(۲) _

کہاگیا ہے کہ عبداللہ بن سلام ہی وہ شخص ہے جسکے بارے میںیہ آیت نازل ہوئی:

( شهد شاهد من بنی اسرائیل علی مثله فآمن واستکبرتم ) (احقاف۱۰)

بنی اسرائیل کا ایک گواہ ایسی ہی بات کی گواہی دے چکاہے جبکہ وہ ایمان لایا اور تم نے پھر بھی تکبر کیا_(۳)

____________________

۱) الاصابةج۲ص۳۲۰، الاستیعاب ج۲ ص ۳۸۲ ، مستدرک الحاکم ج۳ص۱۳ ، تلخیص مستدرک ذہبی ج ۳ص ۱۳_

۲) البخاری حاشیہ فتح الباری ج۷ص۲۱۳،۲۱۲( خود ابن سلام سے روایت) الاصابہ ج۲ ص۳۲۱ ، الاستیعاب (حاشیہ الاصابة )ج ۲ ص ۳۸۲ _

۳) اسد الغابة فی معرفة الصحابة ص۳ ج ۱۷۶، صحیح بخاری حاشیہ فتح الباری ج۷ ص ۹۷، الاستیعاب حاشیہ الاصابہ ج ۲ص۳۸۳ ، الدرالمنثورج ۴ص۶۹ ، روایت ابویعلی،ابن جریر، حاکم، مسلم ، نسائی ، ابن المنذر ، ابن مردویة ، ترمذی ، ابی حاتم ، ابن عساکر وعبد بن حمید_

۱۳

نیز درج ذیل آیت بھی اس کے بارے میں ہی نازل ہوئی _

( قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم ومن عنده علم الکتاب ) (نبی اسرائیل ۹۶)

کہہ دیجئے میرے اور تمہارے درمیان اللہ اور وہ گواہ کافی ہے جسکے پاس کتاب کا علم ہے(۱) _

اس کے علاوہ اور بھی کئی آیات اس کے بارے میں ذکر کی جاتی ہیں، جنہیں یہاں ذکر کرنے کی گنجائشے نہیں، مذکورہ بالا روایات کے بارے میں درج ذیل امور توجہ طلب ہیں_

اول: اہل تحقیق حضرات جانتے ہیں کہ ابن سلام کے اسلام لانے کے بارے میں روایات کے درمیان واضح تناقض اور تضاد پایا جاتا ہے کیونکہ بعض مؤرخین کے مطابق اس نے ہجرت کے آٹھویں سال اسلام قبول کیا ، قیس بن ربیع نے عاصم اور اس نے شعبی سے نقل کیاہے کہ عبداللہ بن سلام نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات سے دو سال پہلے اسلام قبول کیا(۲) عسقلانی نے اس روایت کی سند میں قیس بن ربیع نامی راوی کی وجہ سے اسے ضعیف اور غلط قرار دیتے ہوئے ردکردیا ہے(۳) _

لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس روایت کو رد کرنے کی اس کی دلیل وہ گذشتہ روایات ہیں جن کے مطابق عبداللہ بن سلام ابتدائے ہجرت میں اسلام لے آیا تھا جبکہ ہم اس کی یہ بات قبول نہیں کرسکتے اس لئے کہ شعبی کا زمانہ عسقلانی کی نسبت نزدیک تر ہے اور اس نے عبداللہ بن سلام کے اسلام قبول کرنے کے سال کو اسطرح دقت کے ساتھ مشخص و معین کیا ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ اس نے بے پرکی نہیں اڑائی ہے_

اسی طرح اگر ابن سلام اتنی ہی باعظمت شخصیت کا حامل تھا تو کیا وجہ ہے کہ ہجرت کے بعد آٹھ سال کے طویل عرصے میں اس کی کوئی بات یا کوئی مشورہ ہمارے لئے نقل نہیں ہوا جبکہ تاریخ نے ایسے کم عمر صحابہ کی

____________________

۱) الاصابة ج۲ص۳۲۱ ، الاستیعاب ج۲ ص۳۸۳ ، الدرالمنثور ج۴ ص ۶۹ ، روایت از ابن مردویہ ، ابن جریر ، ابن ابی شیبہ ، ابن سعد ابن منذر_

۲) الاصابة ج۲ ص ۳۲۰_

۳) الاصابة ج۲ ص ۳۲۰ ، فتح الباری ج۷ص۹۷_

۱۴

باتیں اور ان کے کردار کو ہمارے لئے محفوظ رکھاہے کہ جنہیں ایام طفولیت میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ، پس کیا وجہ ہے کہ تاریخ نے (بقول ان کے ) ایسے عظیم شخص کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے_

اسی طرح عسقلانی کا قیس بن ربیع کو ضعیف قرار دینا بھی نامناسب ہے اس لئے کہ خود عسقلانی نے عفان بن قیس ، الثوری ، شعبہ ، ابوالولید اور ابن عدی سے قیس کی وثاقت کو نقل کیا ہے نیز یعقوب بن ابی شیبہ ، عثمان بن ابی شیبہ، ابو حاتم، شریک، ابن حبان ،العجلی، ابوحصین ، یحیی بن سعید، معاذ بن معاذ، ابن عینیہ اور ابونعیم و غیرہ نے قیس کی تعریف کی ہے(۱) _

عسقلانی و غیرہ کے قیس پر الزامات کا رازوہی ہے جس کی طرف احمدنے اشارہ کیا ہے، کیونکہ وہ ایک جگہ لکھتاہے: '' وہ (قیس) شیعہ تھا اورحدیث میںغلطی کیاکرتا تھا''(۲) _ جی ہاں اس سے منقول احادیث میں جرح کا یہی راز ہے اگر چہ اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ اس کی اکثر روایات درست ہیں(۳) قیس پر اس طرح کی الزام تراشی کرنے والی شخصیت احمد بن حنبل ہے ، اوراس سے یہ بات کوئی عجیب نہیں اس لئے کہ یہ وہی ہے جو متوکل ناصبی کے زمانے میںتھا اور اس ناصبی متوکل نے ابن سکیت کے ساتھ وہ سلوک کیا جو سب کو معلوم ہے کہ اس نے حکم دیا تھا کہ اس کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے اور اسی فعل کے نتیجہ میں اس کا انتقال ہوگیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابن سکیت نے متوکل کے دو بیٹوں کو امام حسن اور امام حسین علیھما السلام سے افضل و برتر قرار دینے سے انکار کیا تھا(۴) ،متوکل وہی تو ہے جس نے اپنے ہی بیٹے منتصر ( جواپنے باپ سے امیر المؤمنین علیعليه‌السلام کی کسر شان کرنے پر ناراض رہتا تھا) کو کچو کے لگانے کے لئے اپنی لونڈی کو یہ گانے کا حکم دیتا تھا _

غار الفتی لابن عمّه راس الفتی فی حرّامّه (۵)

____________________

۱) تہذیب التھذیب ج ۸ص۳۹۵ ، ۳۹۲ _

۲) تہذیب التھذیب ج۲ص۳۹۴_

۳) تھذیب التھذیب ، ترجمة قیس ج ۸_

۴)الکنی و الالقاب ج۱ ص ۳۱۴ تا ۳۱۵ ، نیز ملاحظہ ہو: وفیات الاعیان ج۶ ص ۳۹۵ ، ۳۹۶ ، ۴۰۰ و ۴۰۱ و تاریخ الخلفاء ص ۳۴۸_

۵)الکامل ابن اثیر ج۷ ص ۵۵_

۱۵

متوکل وہی شخص ہے جو علی علیہ السلام کی فضیلت میں ایک روایت نقل کرنے والے کو ایک ہزار تازیانے لگایا کرتا تھا،اور اسی نے حضرت امام حسینعليه‌السلام کے روضہ اطہر پر ہل چلوا دیا تھا اور وہ لوگوں کو آپعليه‌السلام کے روضہ اطہر کی زیارت سے روکتا تھا(۱) _ اسی متوکل کے دربار میں احمد بن حنبل کو وہ عظیم مقام حاصل تھا کہ اسے متوکل نے اپنے بیٹے معتز، دیگر بیٹوں ، شہزادوں اور ولی عہدوں کا اتالیق مقرر کیا ہوا تھا(۲) اور ابن کثیر کے بقول متوکل اس کے مشورے کے بغیر نہ تو کسی کو عزل کرتا اور نہ ہی کسی عہدہ پر کسی کو منصوب کرتا تھا_(۳) ہم سؤال کرتے ہیں کہ اے اہل بصیرت کس وجہ سے متوکل کے دربار میں احمد بن حنبل اس قدر عظیم منزلت و عظمت کا مستحق قرار پایا، اس بارے میں آپ کتاب ''بحوث مع اہل السنة والسلفیة ''کی طرف رجوع کریں تا کہ اہل حدیث اور حنابلہ کی ناصبیت کے کچھ شواہد آپ پر واضح ہوجائیں _

دوم: رہا آیت مجیدہ( و شهد شاهد من بنی اسرائیل ) کا مسئلہ تو اس سلسلے میں ہم درج ذیل امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں_

ا لف: عکرمہ کہتاہے : یہ آیت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ، اور اس آیت کا نزول مکہ میں ہوا ، آیت سے مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے جو شخص (قرآن پر)ایمان لایاوہ اس شخص کی مانند ہے جو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لے آئے اور اسی طرح کی بات مسروق بھی قسم کھاکر بیان کرتاہے_ شعبی بھی یہی کہتاہے اور عکرمہ ہی کی دلیل کو مدنظر رکھتے ہوئے ابوعمر نے بھی اس آیت کا (عبداللہ بن سلام کے متعلق ہونے کا ) انکار کیا ہے(۳) _ ابن سلام والی روایت پراعتماد کرتے ہوئے اس آیت کو مدنی قرار دینا کسی طرح بھی قابل توجیہ نہیں کیونکہ ایسے ایسے مذکورہ اشخاص اس کا انکارکررہے ہیں جو زمانہ نبوت کے قریب تھے جبکہ شعبی و غیرہ نے بھی اس کے خلاف تصریح کی ہے(جسے ہم بعد میں ذکر کریں گے)_

____________________

۱)الکامل ابن اثیر ج۷ ص ۵۵_

۲)مناقب امام احمد بن حنبل ابن جوزی ص ۳۸۵ و ۳۶۴ ، احمد بن حنبل والمحنہ ص ۱۹۰ و حلیة الاولیاء ج۹ ص۲۰۹ _

۳)البدایة والنہایہ ج۱۰ ص ۳۱۶ _

۴) الاستیعاب حاشیہ الاصابةج۲ص۳۸۳ ، فتح الباری ج۷ص۹۸،درالمنثورج۶ص۳۹ ،ابن جریر، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم، ابن المنذر روایا ت سے منقول ہیں _

۱۶

ب: بعض روایات کے مطابق یہ آیت میمون بن بنیامین کی شان میں نازل ہوئی ، اس کا قصہ بھی ابن سلام کے قصے کی مانند نقل کیا گیا ہے(۱) اورزہری ، مجاہد، ابن عمر ، سعید بن جبیر ، عمر اور قتادہ سے اس سے مختلف واقعات منقول ہیں(۲) _

ج: شعبی سے منقول ہے کہ اس نے کہا :'' عبداللہ کے متعلق قرآن مجید میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی''(۳) _

د: ظاہری طور پر مذکورہ آیت میں ان مشرکین کو خطاب کیاگیا ہے جنہوں نے اس سمے تکبر کیا جب ان کی باتوں پر اندھا اعتماد کرنے والے بعض بنی اسرائیل بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ پر ایمان لے آئے اور یہ ممکن نہیں کہ اس آیت میں یہودیوں کو مخاطب کیا گیا ہو، کیونکہ خود یہود بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں ، اور اس بات سے عکرمہ ، شعبی اور مسروق و غیرہ کے گزشتہ قول کی بھی تائید ہوتی ہے_

ھ : طحاوی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ابن سلام کی شان میں اس آیت کے نزول کے بارے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی تصریح نہیں فرمائی اور اس بات کو مالک نے ( اپنی طرف سے) استنباط کیا ہے(۴) _

سوم: آیت مجیدہ :( و من عنده علم الکتاب ) کے بارے میں ہم درج ذیل امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں_

۱_ مذکورہ آیت کے ضمن جو قول بیان کیا گیا ہے اس کی مخالفت میں زہری ، مجاہد، سعید بن جبیر، ابن عمر، قتادہ اور عمر و غیرہ سے منقول روایات موجود ہیں، اور مذکورہ قول جندب،ابن عباس اورمجاہدسے منقول دو روایتوں میں سے صرف ایک میں ذکر ہوا ہے_

____________________

۱) الدرالمنثورج ۶ص۴۰ ، (عبد بن حمید مکی ) ، فتح الباری ج ۷ص۹۸ نیز الاصابہ ج۳ ص ۴۷۱_

۲) الدرالمنثور ج ۴ص۶۹ ، مشکل الآثارج۱ص ۱۳۷_

۳) مشکل الآثار ج۱ص۱۳۷ اس روایت کے مطابق ابن سلام کی شان میں کوئی آیت نازل نہ ہونے کے بارے میں سعید بن جبیر نے بھی شعبی کی تائید کی ہے، الدرالمنثورج ۴ص۶۹ ، و ج۶ص۳۹ ، ۴۰ ، ابن منذر سے روایت ، دلائل الصدق ج۲ص۱۳۵ ، المیزان ج۱۱ص۳۸۹_

۴) مشکل الآثار ج۱ص ۱۳۹_

۱۷

۲ :شعبی کا بھی قول پہلے گزرچکاہے کہ ابن سلام کی شان میں قرآن مجید کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی_

۳: اسی طرح عکرمہ، حسن ،شعبی ، محمد بن سیرین اور سعید بن جبیر میں سے ہر ایک نے ابن سلام کی شان میں اس آیت کے نازل ہونے سے متعلق قول کو رد کیا ہے اور یہ دلیل پیش کی ہے کہ یہ سورت مکی ہے اور ابن سلام اس کے بعد اسلام لایا تھا(۱) _

۴: مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے اس آیت کے نزول کے بعد اسلام قبول کیا _ انہوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حالت نماز میں اس آیت کو دوسری آیات کے ساتھ تلاوت کرتے ہوئے سنا تو وہیں رک کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز ختم ہونے کا انتظارکرنے لگے، جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلام پھیرا تو وہ تیزی سے آگے بڑھے اور اسلام لے آئے(۲) اور واضح ہے کہ عمر مکہ میں اسلام لایا تھا_

۵: ایسی بہت سی متواتر روایات موجود ہیں جن میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ( و من عنده علم الکتاب ) سے مراد امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ذات بابرکت ہے جو قرآن مجید کی تفسیر، تاویل ، ناسخ و منسوخ اور حرام و حلال و غیرہ کا علم رکھتے ہیں، یہ روایت ابوسعید خدری ، ابن عباس ، محمد بن حنفیہ ، امام محمد باقرعليه‌السلام ، سدی ، زید بن علیعليه‌السلام ،امام موسیعليه‌السلام بن جعفرعليه‌السلام اور ابوصالح سے منقول ہے(۳) _ اس آیت کے بارے میں ابوصالح کاقول مضحکہ خیزہے _وہ کہتاہے: ''ومن عندہ علم الکتاب'' سے مراد قریش کا ایک شخص ہے جو ہے تو حضرت علیعليه‌السلام لیکن ہم کبھی اسکا نام نہیں لیں گے(۴) _

____________________

۱) مشکل الآثارج ۱ص ۱۳۷ ، ۱۳۸، الاستیعاب ( حاشیہ الاصابة) ج۲ص ۳۸۳ ، الدرالمنثورج ۴ص۶۹ ، روایات از نحاس، سعید بن منصور ، ابن جریر ، ا بن المنذروا بن ابی حاتم، دلائل الصدق ج۲ص ۱۳۵ ، غرائب القرآن نیشاپوری ج۱۳ ص ۱۰۰ (جامع البیان کے حاشیہ پر مطبوع) الاتقان ج۱ ص۱۲، احقاق الحق ج۳ ص ۲۸۰ تا ۲۸۴ ، الجامع الاحکام القرآن ج۹ ص ۳۳۶ نیز ینابیع المودة ص ۱۰۴ و ۱۰۳_ ۲) الدرالمنثور ج۴ص۶۹ ، عبدالرزاق اور ابن المنذر نے زھری سے روایت کی ہے_

۳) شواھد التنزیل حسکانی ج۱ص۳۰۷ ، ۳۰۸ ، ۳۱۰ ،مناقب ابن المغاز لی حدیث نمبر ۳۶۱ ، الخصائص ص ۲۶ ، غایة المرام ص ۳۵۷ ،۳۶۰، ازتفسیر ثعلبی والحبری ( خطی نسخہ) عمدة ابن بطریق ص ۱۲۴ ، دلائل الصدق ج ۲ص۱۳۵ ، (ینابیع المودة اور ابی نعیم سے منقول )_ ینابیع المودة ص ۱۰۲و ۱۰۵ نیز ملاحظہ ہو ملحقات احقاق الحق ج۴ ص ۳۶۲ و ۳۶۵ و ج۳ ص ۴۵۱ و ص ۴۵۲ و ج۳ ص ۲۸۰ تا ص ۲۸۵ حاشیہ اور متن دونوں ج۲۰ ص ۷۵ تا ۷۷ کثیر منابع سے ، اور الجامع لاحکام القرآن ج۹ ص ۳۳۶_ ۴) شواھد التنزیل ج ۱ص۳۱۰ نیز ملحقات احقاق الحق ج۱۴ ص ۳۶۴_

۱۸

ہم پوچھتے ہیں : اے شخص تم ان کا نام کیوں نہیں لینا چاہتے ؟ جبکہ تمہیں اس بارے میں اچھی طرح علم ہے؟ پس کیوں حق کو چھپارہے ہو؟ کیا تم اس بات سے ڈرتے ہو کہ تم پر شیعہ ہونے کی تہمت لگ جائے گی جو کفرو الحاد کے برابر سمجھی جاتی ہے؟ اور پھر کیا تمہیں علیعليه‌السلام اور اہل بیتعليه‌السلام کے دشمنوں کی طرف سے مصائب و مشکلات کا خوف ہے کہ جو حکومت و سلطنت پر قابض تھے؟یہانتک کہ کسی شاعر نے یہ بھی کہا ہے;

و متی تولی آل احمد مسلم

قتلوه او وصموه بالالحاد(۱)

(اور جب کوئی مسلمان آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اظہار مؤدت کرتاہے تو وہ اسے قتل کردیتے ہیں یا اس پر کفر و الحاد کا الزام لگادیتے ہیں)_

دو اہم نکات:

پہلا اہم نکتہ:

بعید نہیں ہے کہ عبد اللہ بن سلام کو یہ تمغے معاویہ اور اس کے چیلوںنے ہی عطا کئے ہوں_ اس کی دلیل قیس بن سعد بن عبادہ کی وہ روایت ہے جس میں وہ کہتاہے کہ( و من عنده علم الکتاب ) سے مراد علیعليه‌السلام ہیں لیکن معاویہ بن ابوسفیان کہتاہے کہ وہ عبد اللہ بن سلام ہے _ جس پر سعد کہتاہے کہ خدا نے( انما انت منذر و لکل قوم هاد ) اور( افمن کان علی بینة من ربه و یتلوه شاهد منه ) والی آیتیں نازل کیں اور پہلی آیت میں ہادی اور دوسری آیت میں شاہد(گواہ) سے مراد حضرت علیعليه‌السلام ہیں کیونکہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے انہیں غدیر کے دن منصوب فرمایا اور''من کنت مولاه فعلی مولاه'' کا فرمان ارشاد فرمایا اور یہ فرمایا :

____________________

۱) حیاة الامام الرضا السیاسیة از مؤلف و مجموعة الرسائل الخوارزی ا ہل نیشابور کے لیے_

۱۹

( انت منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی ) جس پر معاویہ خاموش ہوگیا اور اس کا جواب نہ دے سکا(۱) _

دوسرا اہم نکتہ :

یہاں ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ جس شخص سے مذکورہ آیت کو منسوب کیا جارہاہے اور امیر المؤمنین علیعليه‌السلام کے فضائل کو جھوٹے دعوؤں کے ذریعہ زبردستی اس کی طرف نسبت دی جارہی ہے وہ ہمیشہ علیعليه‌السلام کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا اور جب خلافت کے سلسلے میں لوگ آپعليه‌السلام کی بیعت کررہے تھے تو اس نے آپعليه‌السلام کی بیعت سے اجتناب کیا تھا(۲) _

یہ جو ابن سلام کو اتنی اہمیت دی گئی ہے، اس کی شخصیت کیلئے مقام و منزلت کوثابت کیاگیا ہے نیز رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور وحی الہی کی تصدیق میں اس کی پہل کو ذکر کیا گیاہے اس سب اہتمام میںشاید یہی راز پوشیدہ ہے ( کہ وہ دشمن علیعليه‌السلام تھا)_

شیخ ابوریہ کہتے ہیں کہ یہ ابن سلام( اپنے یہودی مذہب کی) اسرائیلی روایات، اسلامی احادیث میں داخل کیا کرتا تھا(۳) اور یہودی حضرت جبرائیلعليه‌السلام کے سخت دشمن تھے_ اور شاید یہی سبب تھا کہ( و اذ را او تجارة او لهوا انفضوا الیها ) والی آیت میں ''لہو'' کی تشریح عبد اللہ بن سلام یوں کرتاہے کہ ''لہو'' سے مراد لوگوں کا دحیہ کلبی کے حسن کی وجہ سے اس کے چہرے کی طرف دیکھنا ہے _ جبکہ روایتوں میں آیاہے کہ حضرت جبرائیلعليه‌السلام اسی دحیہ کی شکل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوتے تھے(۴) اور واضح رہے کہ بعض خلفاء بالخصوص حضرت عثمان ، اہم امور میں اس سے مشورہ کیا کرتے تھے اور وہ انہیں اپنے نظریات کے مطابق

____________________

۱)ینابیع المودة ص ۱۰۴ نیز کتاب سلیم بن قیس_

۲)حضرت علیعليه‌السلام کی بیعت نہ کرنے کے سلسلے میں ملاحظہ ہو: شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۴ ص ۹_

۳)ملاحظہ ہو: ابوریہ کی کتب شیخ المضیرہ و اضواء علی السنة المحمدیہ_

۴)ملاحظہ ہو: التراتیب الاداریہ ج۱ ص ۱۹۰_

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عزت خدا کے لیے ہے پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا (کہ جب تمام عزت اللہ کے لیے ہے) پھر عزت کی خاطر ادھر ادھر کیوں جاتے ہو۔ یا پھر فرمایا:انّ القَوة للّٰه جمیعًا (1) تمام قدرت خدا کے لیے ہے۔ پھر نتیجہ کے طور پر فرمایا: کہ تو پھر ہر وقت کسی اور کے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو؟ اس آیت میں بھی یہی فرمایا: سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں پھر فرمایا: تو اب جب کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو تو پھر یہ لڑائی جھگڑا کس لیے؟ پس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت سے رہو۔ اس لیے کہ فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے پہلے فکری اور اعتقادی اصلاح ضروری ہے اُس کے بعد انسان کے کردار اور اس کی رفتار کی بات آتی ہے۔

٭ اخوت و برادری جیسے کلمات کا استعمال اسلام نے ہی کیا ہے۔ صدر اسلام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سات سو چالیس افراد کے ہمراہ ''نخلیہ'' نامی علاقے میں موجود تھے کہ جبرائیل امین ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے درمیان اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کیا ہے۔ لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنی اصحاب کے درمیان اخوت کے رشتہ کو قائم کیا اور ہر ایک کو اس کے ہم فکر کا بھائی بنادیا۔ مثلاً: ابوبکر کو عمر کا، عثمان کو عبدالرحمن کا، حمزہ کو زید بن حارث کا، ابو درداء کو بلال کا، جعفرطیار کو معاذ بن جبل کا، مقداد کو عمار کا، عائشہ کو حفصہ ، ام سلمہ کو صفیہ، اور خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا بھائی بنایا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارک بقرہ، آیت 165

(2)۔ بحارا لانوار، ج38، ص 335

۱۰۱

جنگ اُحد میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو شہداء (عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموع) جنکے درمیان اخوت و برادری کا عقد برقرار تھا کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔(1)

٭ نسبی برادری بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔فَلَا أَنسَابَ بَیْنَهُمْ (2) لیکن دینی برادری قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی۔اِخوانًا علی سُرُررٍ مُّتَقَابِلِیْنَ (3)

٭اخوت و برادری با ایمان عورتوں کے درمیان بھی قائم ہے چنانچہ ایک مقام پر عورتوں کے درمیان بھی اخوت و برادری کی تعبیر موجود ہے۔وَاِن کَانُوا اِخوَةً رِجَالاً و نِسآئً (4)

٭اخوت و برادری صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ دنیا کی خاطر اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کرے تو جو اس کی نظر میں ہے وہ اس سے محروم رہے گا۔ اس طرح کے برادر قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے۔(5)

الَْخِلاَّئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ ِلاَّ الْمُتَّقِینَ - (6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ شرح ابن الحدید، ج15، ص 215؛ بحار الانوار، ج20، ص 121 (2)۔ سورئہ مبارکہ مومنون، آیت 101

(3)۔ سورئہ مبارکہ حجر، آیت 57 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 176

(5)۔ بحار، ج75، ص 167 (6)۔ سورئہ مبارکہ زخرف، آیت 67

۱۰۲

٭برادری اور اخوت کی برقراری سے زیادہ اہم چیز برادر کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ روایات میں ایسے شخص کی سرزنش کی گئی ہے جو اپنے برادر دینی کا خیال نہ رکھے اور اُسے بھلا دے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ اگر تمہارے برادران دینی نے تم سے قطع تعلق کرلیا ہے تو تم ان سے تعلق برقرار رکھوصِلْ مَنْ قَطَعَک (1)

روایات میں ہے کہ جن افراد سے قدیمی اور پرانا رشتہ اخوت و برادری قائم ہو ان پر زیادہ توجہ دو اگر کوئی لغزش نظر آئے تو اُسے برداشت کرو۔ اگر تم بے عیب دوستوں (برادران) کی تلاش میں رہو گے تو دوستوں کے بغیر رہ جاؤ گے۔(2)

٭روایات میں ہے کہ جو اپنے برادر کی مشکل حل کرے گا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ جو اپنے دینی برادر کی ایک مشکل دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ایک لاکھ حاجات پوری کرے گا۔(3)

٭حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: مومن ، مومن کا بھائی ہے ۔ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں۔کہ اگر ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا حصہ بھی اُسے محسوس کرتا ہے۔

(4) سعدی نے اس حدیث کو شعر کی صورت میں یوں بیان کیا ہے۔

بنی آدم اعضای یکدیگرند کہ در آفرینش زیک گوھرند

چو معنوی بہ درد آورد روزگار دگر عضوھا را نماند قرار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار ، ج78، ص 71 (2)۔ میزان الحکمہ

(3)۔ میزان الحکمہ (اخوة) (5)۔ اصول کافی، ج2، ص 133

۱۰۳

تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی

ترجمہ: اولاد آدم ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں کیونکہ سب خاک سے پیدا ہوئے ہیں اگر کسی پر مشکل وقت آجائے تو دوسروںکو بھی بے قرار رہنا چاہیے۔

اگر تم دوسروں کی پریشانی اور محنت سے بے اعتنائی کرو تو شاید تمہیں کوئی انسان بھی نہ کہے۔

برادری کے حقوق:

٭ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کی گردن پر تیس حق ہیں اور اسے ان تمام حقوق کو ادا کرنا ہوگا۔(جن میں سے پچیس حقوق درج ذیل ہیں)

1۔ عفو و درگزر 2۔ راز داری

3۔ خطاؤں کو نظر انداز کردینا 5۔ عذر قبول کرنا

5۔ بد اندیشوں سے اس کا دفاع کرنا 5۔ خیر خواہی کرنا

7۔ وعدہ کے مطابق عمل کرنا 8۔ عیادت کرنا

9۔ تشییع جنازہ میں شرکت کرنا 10۔ دعوت اور تحفہ قبول کرنا

11۔ اسکے تحفے کی جزا دینا 12۔ اسکی عطا کردہ چیزوں پر شکریہ ادا کرنا

13۔ اسکی مدد کے لیے کوشش کرنا 15۔ اسکی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا

15۔ اسکی حاجت روائی کرنا 16۔ اسکی مشکلات کو دور کرنے کے لیے سعی کرنا

17۔ اسکی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا 18۔ اسے چھینک آئے تو اسکے لیے طلب رحمت

۱۰۴

کرنا

19۔ اسکے سلام کا جواب دینا 20۔ اسکی بات کا احترام کرنا

21۔ اسکے لیے بہترین تحفہ کو پسند کرنا 22۔ اس کی قسم کو قبول کرنا

23۔ اسکے دوست کو دوست رکھنا اور اس سے دشمنی نہ رکھنا

25۔ مشکلات میں اُسے تنہا نہ چھوڑنا

25۔ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اس کے لیے پسند کرے(1)

ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت(اِنّما المومنون اخوة) کی تلاوت کے بعد فرمایا مسلمانوں کا خون ایک ہے اگر عام لوگ بھی کوئی عہد و پیمان کریں تو سب کو اس کا پابند ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر ایک عام مسلمان کسی کو پناہ یا امان

دے تو دوسرے کو بھی اس کا پابند ہونا چاہیے۔ سب مشترکہ دشمن کے مقابل اکھٹے ہوجائیں۔وَهُمْ یَد علی مَن سَواهم- (2)

٭ حضرت علی ـ سے منقول ہے کہ آپ نے کمیل سے فرمایا: اے کمیل اگر تم اپنے بھائی کو دوست نہیں رکھتے تو پھر وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔(3)

انسان اپنے ایمان کامل کے ساتھ اولیاء خدا کے مدار تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

سلْمٰان مِنا اهل البیت (4) سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ جس طرح کفر کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار، ج75، ص 236 (1)۔ تفسیر قمی، ج1، ص 73

(3)۔ تحف العقول ص 171 (5)۔ بحارالانور، ج10، ص 23ا

۱۰۵

ہمراہ ہوکر اس مدار سے خارج ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرزند نوح ـکے بارے میں حضرت نوح ـ سے فرمایا:اِنّه لَیسَ مِنْ أهلَکَ- وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔(1)

بہترین بھائی:

٭روایات میں بہترین بھائی کی یہ نشانیاں بیان کی ہیں۔

1۔ تمہارا بہترین بھائی وہ ہے جو تمہارا غمخوار اور ہمدرد ہو یہاں تک کہ سختی سے تمہیں خدا کی اطاعت کی طرف دعوت دے۔ تمہاری مشکلوں کو حل کرے۔ خدا کی خاطر تیرا دوست بنا ہو۔ اسکا عمل تیرے لیے سرمشق ہو۔ اسکی گفتگو تیرے عمل میں اضافہ کا باعث ہو۔ تیری کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔ اور تجھے خواہشات نفس میں گرفتار ہونے سے بچائے۔ اور اگر تجھ میں کوئی

عیب دیکھے تو تجھے خبردار کرے۔ نماز کو اہمیت دے ۔ حیادار، امانت دار اور سچا ہو۔خوشحالی اور تنگ دستی میں تجھے نہ بھلائے۔(2)

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں:

ہم نے اس آیت میں پڑھا ہے کہ مومنین آپس میں بھائی ہیں لہٰذا اُن میں صلح و

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ ہود، آیہ 56

(2)۔ میزان الحکمہ

۱۰۶

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں اسی سلسلہ میں مختلف تعابیر آئی ہیں:

صلح ''والصُّلح خَیر'' (1) ''وأصلِحوا ذات بینکم'' (2)

2۔تالیف قلوب''فَألف بین قلوبکم'' (3)

3۔توفیق''اِن یُریدا اصلاحًا یُوَفِّق اللّٰه بینهُمٰا'' (4)

5۔ سِلم''أدخُلوا فِی السِّلم کافَّة'' (5)

مندرجہ بالا تعبیر اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام صلح و آشتی ، پیار ومحبت اور خوشگوار زندگی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

صلح آشتی کی اہمیت:

٭مسلمانوں کی درمیان الفت اور محبت کو خداوند عالم کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔''کنتم أعدا فَاَلَّفَ بین قلوبکم'' (6) یاد کرو اس وقت کوکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر خدا نے تمہارے درمیان پیار و محبت کو قائم کردیا۔ جیسا کہ قبیلہ اوس و خزرج کے درمیان ایک سو بیس سال سے جنگ و خونریزی چل رہی تھی اسلام نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (2)۔سورئہ مبارکہ انفال، آیت 1

(3)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 35

(5)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (6)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103

۱۰۷

کے درمیان صلح کرادی۔

صلح وآشتی کرانا عزت و آبرو کی زکات اور خدا کی طرف سے رحمت اور بخش کا سبب ہے۔''ان تُصلحوا و تتّقوا فانَّ اللّٰه کان غفوراً رحیمًا'' (1) جو بھی مسلمانوں کے درمیان صلح و دوستی کا سبب بنے تو اُسے جزائے خیر ملے گی۔

''وَمَن یَشفَع شَفَاعةً حَسنةً یکن لَه نصیب منها'' (2)

٭ لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے لیے اسلام کے خاص احکامات ہیں من جملہ۔

1۔جھوٹ جو گناہان کبیرہ میں سے ہے اگر صلح و آشتی کرانے کے لیے بولا جائے تو اسکا کوئی گناہ نہیں ہے۔'' لَا کِذْبَ علی المُصْلح'' (3)

2۔ سرگوشی ایک شیطانی عمل ہے جو دیکھنے والوں میں شک و شبہ پیدا کرتا ہے جسکی نہی کی گئی ہے لیکن اگر یہ سرگوشی صلح و آشتی کرانے کے لیے ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔''لَا خَیرَ فی کثیر من نجواهم اِلّا مَنْ أمَرَ بِصدقةٍ أو معروفٍ او اصلاح بین الناس'' (4)

3۔ اگرچہ قسم کو پورا کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھائے گا تو اس قسم کو توڑا جاسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 129 (2)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 85

(3)۔بحارا الانوار،ج69، ص 252 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 115

۱۰۸

ہے۔''وَلا تجعلو اللّٰه عرضَة لایمانکم ان --- تصلحوا بین الناس'' (1)

ہم تفاسیر کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی بیٹی اور ان کے داماد میں اختلاف ہوگیا۔ لڑکی کے والد نے یہ قسم کھائی کہ وہ ان کے معاملے میں دخالت نہ کریگا۔ یہ آیت نازل ہوئی کہ قسم کو نیکی و پرہیز گاری اور اصلاح کے ترک کا وسیلہ قرار مت دو۔

5۔ اگرچہ وصیت پر عمل کرنا واجب اور اس کا ترک کرنا حرام ہے لیکن اگر وصیت پر عمل کرنا لوگوں کے درمیان کینہ اور کدورت کی زیادتی کا سبب ہو تو اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وصیت پر عمل نہ کیا جائے تاکہ لوگوں کے درمیان پیار ومحبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم رہے۔''فَمن خَافَ مِن مُوصٍ و جُنفًا أو اِثمًا فاصلح بینهم فلا اثم علیه'' (2)

5۔ اگرچہ مسلمان کا خون محترم ہے لیکن اگر بعض افراد فتنہ، فساد کا باعث بنیں تو اسلام نے صلح و آشتی کے لیے انکے قتل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔'' فقاتلو الّتی تبغی'' (3)

صلح و آشتی کے موانع:

قرآن و احادیث میں صلح و آشتی کے بہت سے موانع ذکر کیے گئے ہیں من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 225

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 182 (3)۔سورئہ مبارکہ حجرات، آیت 9

۱۰۹

1۔ شیطان: قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ادخلوا فی السّلم کافّة ولا تتّبعوا خطوات الشیطان'' (1) سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔انّما یُرید الشیطان أنْ یوقع بینکم العداوة والبغضائ'' (2) شیطان تمہارے درمیان کینہ و کدورت پیدا کرنا چاہتا ہے۔

2۔ مال کی چاہت اور بخل۔'' والصلح خیر و اُحضِرتِ الاَنفس الشُح'' (3) اور صلح و دوستی بہتر ہے اگرچہ لوگ حرص و لالچ اور بخل کرتے ہیں۔

3۔ غرور و تکبر بھی کبھی کبھی صلح و آشتی کے لیے مانع ہے۔

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل:

٭ اگر قرآن مجید کے''لعلکم ترحمون'' کے جملوں پر نظر کریں تو نزول رحمت کے چند عوامل تک رسائی ممکن ہے۔

1۔ خدا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسمانی کتب کی پیروی''واطیعو اللّٰه والرسول--- '' (4) ''وهذا کتاب --- فاتبعوه--- لعلکم ترحمون'' (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (2)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت 91

(3)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (5)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 132

(5)۔سورئہ مبارکہ انعام، آیت 155

۱۱۰

2۔ نماز کا قائم کرنا اور زکات کا ادا کرنا۔''اقیموا الصلوٰة واتو الزکاة--- لعلکم ترحمون'' (1)

3۔ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانا۔''فاصلحوا--- لعلکم ترحمون''

5۔ استغفار اور توبہ۔''لولا تستغفرون اللّٰه لعلکم ترحمون'' (2)

5۔ غور سے قرآن کی تلاوت سننا''واذ اقرأ القرآن فاستمعوا له --- لعلکم ترحمون'' (3)

روایات میں نزول رحمت کے عوامل:

٭ معصومین کی روایات میں بھی نزول رحمت کے عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔ بیمار مومن کی عیادت کرنا:''مَن عَادَ مومِنًا خاض- الرَّحمة خوضًا'' (4)

جو شخص بیمار مومن کی عیادت کے لیے جائے تو وہ شخص خدا کی مکمل رحمت کے زیر سایہ ہے۔

2۔ کمزور اور ناتوان افراد کی مدد کرنا۔''اِرحموا ضُعفائکم واطلبوا الرحمة- ---،، (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نور، آیت 56 (2)۔ سورئہ مبارکہ نمل، آیت 56

(3)۔ سورئہ مبارکہ اعراف، آیت 205 (5)۔ وسائل الشیعہ، ج2، ص 515 (5)۔ مستدرک، ج9، ص 55

۱۱۱

معاشی حوالے سے کمزور افراد پر رحم کرکے خدا کی رحمت کو طلب کرو۔

3۔ روایات میں کثیر العیال افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہا گیا ہے خاص طور پر جن کی بیٹیاں زیادہ ہوں۔

5۔ دعاو نماز، نرمی سے پیش آنا اور اپنے برادر دینی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی نزول رحمت کے اسباب ہیں۔(1)

5۔ لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنا۔ وہ افراد جو اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے تمہارے پاس آئیں خدا کی رحمت میں انکی حاجت روائی کیے بغیر واپس نہ پلٹانا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وسائل الشیعہ، ج7، ص 31

(2)۔کافی، ج2، ص 206

۱۱۲

آیت نمبر 11

یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یّکُوْنوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآئ مِّنْ نِسَآئٍ عَسٰی أنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزوا بِالْأَلْقٰابِط بِئسَ الاِسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الاِیْمٰانِج وَمَنْ لَّم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظّٰلِمُونَ-

ترجمہ:

اے ایمان والو! خبر دار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے کہ شاید کہ وہ اس سے بہتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے کہ شاید وہی عورتیں ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور برے برے الفاظ سے بھی یاد نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاری کا نام ہی بہت برا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں۔

نکات:

O کلمہ''لَمْز'' یعنی لوگوںکے سامنے ان کی عیب جوئی کرنا ، کلمہ''همز'' کے معنی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنا ہے(1) اور کلمہ''تَنَابز'' کے معنی دوسروں کو برے القاب سے پکارنا ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کتاب العین (2)۔ لسان العرب

۱۱۳

O گزشتہ آیت میں اخوت و بردری کے بارے میں بحث ہوئی اور اس آیت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو اخوت و برادری کے راستہ میں رکاوٹ ہیں اور اسی طرح ماقبل کی آیات میں لڑائی جھگڑے اور صلح و صفا کی بات تھی تو اس آیت میں بعض ایسے عوامل کا ذکر ہے جو لڑائی جھگڑے کاسبب بنتے ہیں جیسے مذاق اڑانا ، تحقیر کرنا اور برے القاب سے پکارناہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی برکات میں سے ایک معاشرہ کے ماحول کو پاک و پاکیزہ بنانا اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے نیز ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے سے روکنا ہے۔

پیغامات:

1۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بندگان خدا کا مذاق اڑائے ۔''یٰاایُّهٰا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ''

2۔ جو شخص کسی کو لوگوں کی توہین کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اس کے روکنے میں توہین آمیز پہلو نہ ہو۔''یٰا ایُّهٰا الذّین امَنُولَا یَسْخَرُ قَوْم مِنْ قَوْمٍ '' یہی نہیں فرمایا:لَا تَسْخَروا کہ جس کے معنی یہ ہیں کہ تم مذاق اڑانے والے ہو۔

3۔ مذاق اڑانا، فتنہ و فساد، کینہ پروری اور دشمنی کی کنجی ہے''لا یَسْخَر قَوْم---'' برادری اور صلح و آشتی بیان کرنے کے بعد مذاق اڑانے سے منع کیا ہے۔

5۔ تبلیغ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جہاں اہم مسئلہ بیان کرنا ہو یا مخاطبین میں ہر نوع کے افراد موجود ہوں تو وہاں مطالب کو ہر گروہ کے لیے تکرار کے ساتھ بیان کرنا

۱۱۴

چاہیے۔قومٍ من قومٍ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَآئٍ-

5۔ تربیت اور وعظ و نصیحت کے دوران لوگوں میں سے فتنہ و فساد کی جڑ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے- (عسیٰ اَنْ یکونوا خیرا ) مذاق اڑانے کی اصل وجہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھناہے۔ قرآن مجید اس معاملے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے فرماتا ہے: تمہیں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھنا چاہیئے شاید کہ وہ تم سے برتر ہوں۔

6۔ ہم لوگوں کے باطن سے بے خبر ہیں اس لیے ہمیں ظاہر بین، سطحی نظر اور فقط موجودہ حالات پر نگا نہیں کرنی چاہیے۔(عسیٰ أَنْ یَکُونوا خَیْرًا---)

7۔ سب لوگ ایک جوہر سے ہیں اس لیے لوگوں کی برائی کرنا دراصل اپنی برائی کرنا ہے ۔''وَلَا تَلْمِزُو أَنْفُسکُم''

8۔ دوسروں کی عیب جوئی کرکے انہیں انتقام جوئی پر ابھارنا ہے تاکہ وہ بھی تمہارے عیب بیان کریںپس دوسروں کے عیب نقل کرنا در حقیقت اپنے عیوب کا انکشاف کرنا ہے( لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُم)

9۔ مذاق اڑانا یک طرفہ نہیں ہوتا ہے ممکن ہے کہ طرف مقابل بھی دیر یا جلد آپ کا مذاق اڑانا شروع کردے۔(و لَا تَنَابَزُوا کسی کام کے دو طرفہ انجام پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے)

10۔ اگر کسی کا مذاق اڑایا ہو یا اُسے برے نام سے پکارا ہو تو اس کے لیے توجہ کرنا ضروری ہے(من لم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ ) البتہ یہ توبہ فقط زبانی نہ ہو

۱۱۵

بلکہ کسی کو تحقیر کرنے کی توبہ یہ ہے کہ جس کی تحقیر کے ہے اس کی تکریم کرنا ہوگی کسی حق کے چھپانے کی توبہ یہ ہوگی کے اُس حق کو ظاہر کیا جائے(تابو و اصلحوا و بیّنوا) (1) فساد کرنے والے کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے امور میں اصلاح کرے(تَابُوا واصلحوا )

11۔ کسی کا مذاق اڑانا در حقیقت اس کے احترام پر تجاوز کرنا ہے اگر مذاق اڑانے والا توبہ نہ کرے تو وہ ظالم ہے(فَأُولٰئِکَ هُم الظَّالِمُونَ)

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا:

O ظاہری طور پر استہزاء ایک گناہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت وہ چند گناہوں کا مجموعہ ہے مثال کے طور پر مذاق اڑانے میں، تحقیر کرنا، ذلیل و خوار کرنا، کسی کے عیوب ظاہر کرنا، اختلاف ایجاد کرنا، غیبت کرنا، کینہ توزی، فتنہ و فساد پھیلانا، انتقام جوئی کی طرف مائل کرنا، اور طعنہ زنی جیسے گناہ پوشیدہ ہیں۔

مذاق اڑانے کی وجوہات:

1۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ مال و دولت ہے قرآن مجید میں ہے''ویل لِکُلِّ هُمَزَة لُّمَزَةٍ ن الَّذِیْ جَمَعَ مٰالاً وَّعَدَّده '' (2) وائے ہو اس پر جو اُس مال و دولت کی خا طر جو اس نے جمع کر رکھی ہے پیٹھ پیچھے انسان کی برائی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 160

(2)۔ سورئہ مبارکہ ھمزہ 1۔2

۱۱۶

2۔ کبھی استہزاء اور تمسخر کی وجہ علم اور مختلف ڈگریاں ہوتی ہیں قرآن مجید نے اس گروہ کے بارے میں فرمایا:'' فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ هُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُونَ '' (1) اپنے علم کی بناء پر ناز کرنے لگے ہیں اور جس چیز کی وجہ سے وہ مذاق اڑا رہے تھے اُسی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔

3۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جسمانی قوت و توانائی ہوتی ہے ۔ کفار کا کہنا تھا( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةَ) (2) کون ہے جو ہم سے زیادہ قوی ہے۔

5۔ کبھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی وجہ وہ القاب اور عناوین ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ میں اچھا نہیں سمجھتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کفار ان غریب لوگوں کو جو انبیاء کا ساتھ دیتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے:''مَا نَراکَ اتَّبَعکَ اِلّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرذِلْنَا'' (3)

ہم آپ کے پیرو کاروں میں صرف پست اور ذلیل افراد ہی دیکھ رہے ہیں۔

5۔ کبھی مذاق اڑانے کی علت تفریح ہوتی ہے۔

6۔ کبھی مال و مقام کی حرص و لالچ کی وجہ سے تنقید تمسخر کی صورت اختیار کرلیتی ہے مثال کے طور پر ایک گروہ زکوٰة کی تقسیم بندی پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عیب جوئی کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ غافر 83

(2)۔ سورئہ مبارکہ فصلت 15

(3)۔ سورئہ مبارکہ ھود 27

۱۱۷

قرآن مجید میں ارشاد ہوا:''وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَلْمِزْکَ فِی الصَّدَقاتِ فَاِنْ أُعْطُوا مِنْهٰا رَضُوا وَ اِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْهٰا اِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ'' (1) اس تنقید کی وجہ طمع اور لالچ ہے کہ اگر اسی زکوٰة میں سے تم خود ان کو دیدو تو یہ تم سے راضی ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں نہیں دو گے تو وہ آپ سے ناراض ہوکر عیب جوئی کریں گے۔

7۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جہل و نادانی ہے۔ جیسے جناب موسی ـ نے جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بنی اسرائیل کہنے لگے کیا تم مذاق اڑا رہے ہو؟ جناب موسی ـنے فرمایا:''أَعُوذُ بِاللّٰهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الجٰاهِلِیْنَ'' (2) خدا کی پناہ جو میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔یعنی مذاق اڑانے کی وجہ جہالت ہوتی ہے اور میں جاہل نہیں ہوں۔

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے ایک صحابی سے پوچھا اپنے مال کی زکوٰة کیسے دیتے ہو؟ اس نے کہا: فقراء میرے پاس آتے ہیں اور میں انہیں دے دیتا ہوں۔

امام ـ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤتم نے انہیں ذلیل کیا ہے آئندہ ایسانہ کرنا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو بھی میرے دوست کو ذلیل کرے گا گویا وہ مجھ سے جنگ کے لیے آمادہ ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 58

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 67

(3)۔مستدرک الوسائل ج/9، ص 105

۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب:

O جس کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ جس قدر مقدس ہوگا اس سے مذاق بھی اتنا ہی خطرناک ترہوگا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے''أ باللّٰه و آیاتِه وَ رَسُولِهِ کنتم تَسْتَهْزِؤُنَ'' (1)

کیا تم اللہ، قرآن اور رسول کا مذاق اڑا رہے ہو۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر سب مشرکین کو معاف کردیا سوائے ان لوگوں کے جن کا کام عیب جوئی اور مذاق اڑانا تھا۔

O حدیث میں ہے کہ مومن کو ذلیل کرنا خدا کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔(2)

مذاق اڑانے کا انجام:

O آیات و روایات کی روشنی میں بری عاقبت مذاق اڑانے والوں کا انتظار کررہی ہے من جملہ:

الف: سورئہ مطففین میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں مومنین پر ہنستے تھے، انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے روز قیامت اہل جنت انہیں

حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان پر ہنسیں گے۔''فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 65 (2)۔ وسائل الشیعہ ج/ 12،ص270

۱۱۹

الکُفَّارِ یَضْحَکُونَ'' (1)

ب: کبھی کبھی اڑانے والوں کو اسی دنیا میں سزا مل جاتی ہے۔'' اِنْ تسخَرُوا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرو مِنکُمْ کما تَسْخَرُونَ'' (2)

ج: قیامت کا دن مذاق اڑانے والوں کے لیے حیرت کا دن ہوگا''یَا حَسْرَةً عَلٰی العِبٰادَ مَا یَا تِیْهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ اِلَّا کَانُوا بِه یَسْتَهْزَئُ ونَ'' (3)

د: حدیث میں ہے کہ مذاق اڑانے والے کی جان کنی نہایت سخت ہوگی۔''مَاتَ بِشَرّ مَیْتَه'' (4)

ھ: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مومنین پر طعنہ زنی کرتا ہے یا انکی بات کو رد کرتا ہے تو گویا اس نے خدا کو رد کیا ہے۔(5)

یاد داشت:

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاں اور بہت سے کام انجام دیئے وہاں ایک کام یہ کیا کہ لوگوں اور علاقوں کے وہ نام تبدیل کردیئے جو برے مفاہیم رکھتے تھے(6) کیوں کہ برے نام لوگوں کی تحقیر اور تمسخر کا باعث بنتے تھے۔

Oایک روز جناب عقیل ـمعاویہ کے پاس گئے تو معاویہ نے آپ کی تحقیر کی غرض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ مطففین 35 (2)۔ سورئہ مبارکہ ہود 38

(3)۔ سورئہ مبارکہ یس 30 (5)۔ بحار الانوار ج72 ص 155

(5)۔ وسائل الشیعہ ج13، ص 270 (6)۔ اسد الغابہ ج3، ص 76، ج5 ص362

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460