الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)13%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 242097 / ڈاؤنلوڈ: 6989
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

دنيوى امور كى سرپرستى كےلئے اپنے بعد ان كى جانشينى كا اعلام فرماديں _

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس الہى پيغام كا اعلان مختلف مواقع پر فرمايا يہاں ہم اختصار كے پيش نظر ان تين احاديث كا ہى ذكر كريں گے جو آپ نے مختلف اوقات ميں بيان فرمائي ہيں :

۱_ حديث يوم الدار

۲_ حديث منزلت

۳_ حديث غدير

حديث يوم الدار

بعثت كى تين سال كے بعد جب يہ آيت نازل ہوئي ''وانذر عشيرتك الاقربين''(۳۲) يعنى رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كام پر مامور كئے گئے كہ وہ سب سے پہلے اپنے عزيز واقرباء كو دعوت اسلام ديں _ اس مقصد كے تحت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر حضرت علىعليه‌السلام نے بنى ہاشم كے چاليس سرداروں كو جن ميں ابوطالب، ابولہب ، حمزہ ، وغيرہ شامل تھے مدعو كيا جب سب لوگ كھانے سے فارغ ہوئے تو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا اے فرزندان عبدالمطلب عرب كے جوانوں ميں مجھے كوئي بھى ايسا نظر نہيں آتا جو تمہارے لئے مجھ سے بہتر پيغام لايا ہو _ ميں تمہارے لئے ايسا پيغام لے كر آياہوں جس ميں دونوں جہان كى خير وسعادت ہے_ خداوند تعالى نے مجھے حكم ديا ہے كہ ميں تمہيں اس كى طرف دعوت دوں _ تم ميں سے ايسا كون ہے جو اس راہ ميں ميرى مدد كرے تاكہ وہ ميرا بھائي ، وصى اور جانشين قرار پائے _ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس سوال كو تين مرتبہ دہرايا اور ہر مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام ہى اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے اپنى آمادگى كا اعلان كيا_

اس وقت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا : تو گويا علىعليه‌السلام ہى ميرے بھائي ، وصى اور جانشين ہيں لہذا تم ان كى بات سنو اور ان كى اطاعت كرو _(۳۳)

۲۱

حديث منزلت

صرف وہ غزوہ جس ميں حضرت علىعليه‌السلام نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حكم كے پيروى كرتے ہوئے شركت نہيں كى غزوہ تبوك تھا _ چنانچہ اس مرتبہ آپ جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حيثيت سے اور ان واقعات كا سد باب كرنے كى غرض سے جن كے رونما ہونے كا احتمال تھا مدينہ ميں ہى قيام پذير رہے_

جس وقت منافقوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ارادے كى خبر ہوئي تو انہوں نے ايسى افواہيں پھيلائيں جن سے حضرت علىعليه‌السلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تعلقات ميں كشيدگى پيدا ہوجائے اور حضرت علىعليه‌السلام كو يہ بات باور كراديں كہ اب آپ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پہلى سى محبت نہيں _ چنانچہ جب آپ كو منافقين كى ان شرپسندانہ سازشوں كا علم ہوا تو ان كى باتوں كو غلط ثابت كرنے كى غرض سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں تشريف لے گئے اور صحيح واقعات كى اطلاع دي_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علىعليه‌السلام كو مدينہ واپس جانے كا حكم ديتے ہوئے اس تاريخى جملے سے حضرت علىعليه‌السلام كے اس مقام و مرتبہ كو جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نزديك تھا اس طرح بيان فرمايا : ''كيا تم اس بات سے خوش نہيں ہو كہ ميرے اور تمہارے درميان وہى نسبت ہے جو كہ موسىعليه‌السلام اور ہارونعليه‌السلام كے درميان تھي_ مگر يہ كہ ميرے بعد كوئي نبى نہيں ہوگا_(۳۴)

قرآن مجيد ميں حضرت ہارون كے مقامات ومناصب:

اب ديكھنا يہ ہے كہ قرآن پاك كى نظر ميں حضرت ہارون كے وہ كون سے مناصب و مقامات تھے جو حضرت علىعليه‌السلام ميں بھى نبوت كے علاوہ (چنانچہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود ہى مذكورہ حديث ميں آپ كو اس سے مستثنى قرار ديا ہے) بدرجہ اتم موجود تھے_

چنانچہ جب ہم قرآن كى جانب رجوع كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے حضرت ہارونعليه‌السلام كے لئے مندرجہ ذيل مناصب چاہے تھے_ مقام وزارت :( واجعل لى وزيرا من اهلى هارون اخي' ) _(۳۵) _ ''ميرے كنبے سے ہارون كو وزير مقرر كردے جوكہ ميرے بھائي ہيں ''_

۲۲

تقويت و تائيد''واشد به ازري'' _ اس كے ذريعے ميرا ہاتھ مضبوط كر

مقام نبوت:''واشركه فى امري''اور اس كو ميرے كام ميں شريك كردے''_

حضرت موسىعليه‌السلام نے جو چيزيں خداوند تعالے سے مانگيں اس نے ان كا مثبت جواب ديا اور مذكورہ تمام مقامات حضرت ہارون كو عطا كرديئے_ چنانچہ اس سلسلے ميں قرآن مجيد فرماتاہے:''قد اوتيت سوالك يا موسي_ ''اے موسى جو تم نے مانگا ہم نے عطا كيا''_

اس كے علاوہ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى غير موجودگى ميں حضرت ہارونعليه‌السلام كو اپنا جانشين مقرر كيا _ (وقال موسى لاخيہ ہارون اخلفنى فى قومي)موسى نے حضرت ہارون سے كہا تم ميرى قوم ميں ميرے خليفہ اور جانشين ہو ''_

حديث منزلت كے مطابق وہ تمام مناصب و مقامات جو ہارون كےلئے بيان كئے گئے ہيں ، صرف ايك منصب كے علاوہ كہ جسے آيت سے مستثنى قرار ديا ہے، حضرت علىعليه‌السلام كےلئے ثابت ہيں _

اس لحاظ سے حضرت عليعليه‌السلام ہى امت مسلمہ ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ياور و مددگار اور خليفہ ہيں _(۴۰)

حديث غدير

ہجرت كے دسويں سال پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس وقت ''حجة الوداع''(۴۱) سے واپس تشريف لا رہے تھے تو ماہ ذى الحجہ كى اٹھارہ تاريخ كو آپ نے ''غدير خم '' كے مقام پر فرمان خداوندى كے مطابق حكم ديا كہ سارے مسلمان يہاں توقف كريں اس كے بعد ايك لاكھ سے زيادہ افراد كى موجودگى ميں حمد وستائشے بارى تعالى كے بعد جو خطبہ ديا اسے جارى ركھتے ہوئے آپ نے دريافت فرمايا : اے لوگو تم ميں ايسا كون ہے جسے تمام مومنين پر برترى حاصل ہو ؟

سب نے كہا يہ تو خدااور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى بہتر جانتاہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خداوند تعالى نے مجھے ولايت سے سرفراز فرمايا ہے اور مجھے تمام مومنين پر ان كے نفسوں سے زيادہ تصرف كا حق حاصل ہے_

۲۳

اس كے بعد آپ نے حضرت على عليه‌السلام كا ہاتھ اونچا كيا چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس وقت وہاں جمع تھے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش بدوش ديكھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : جس كا مولا و سرپرست ميں ہوں علىعليه‌السلام اس كا مولا و سرپرست ہے _(۴۲) چنانچہ يہ جملہ آپ نے تين مرتبہ دہرايا_

اس كے بعد مزيد فرمايا : ''اے پروردگار تو اسے دوست ركھ جو علىعليه‌السلام كو دوست ركھے اور اسے دشمن ركھ جو علىعليه‌السلام كو دشمن ركھے _ خداوندا ياران علىعليه‌السلام كى مدد فرما اور اس كے دشمنوں كو ذليل و خواركر_(۴۳)

يہ تھيں وہ سرافرازياں جو حضرت علىعليه‌السلام نے زندگى كے اس اولين مرحلے ميں حاصل كيں كہ جس كى مدت دس سال سے زيادہ نہ تھى _ اگرچہ ديگر كتب ميں آپ كى سوانح حيات مفصل طور پر بيان كى گئي ہے مگر يہاں اختصار سے كام ليتے ہوئے انہى پر اكتفا كرتے ہيں _

۲۴

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے مختلف ادوار كے بارے ميں لكھيئے؟

۲_ بعثت سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى ميں كون سا اہم ترين واقعہ پيش آيا؟آپ كے اقوال كے روشنى ميں اس كى مختصر اً وضاحت كيجئے؟

۳_ حضرت علىعليه‌السلام كے امتيازات وافتخارات ميں سے ان دو كى كيفيت بيان كيجئے جو بعثت كے بعد اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت سے قبل رونما ہوئے_

۴_ جنگ بدر ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا كردار رہا اختصار سے لكھ يے_

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوہ احزاب كے موقع پر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں كيا فرمايا تھا؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے مختلف جنگوں (بالخصوص جنگ بدر)ميں دلاورى كے جو جوہر دكھائے اورمشركين كو قتل كيا وہ آپ كى سياسى زندگى پر كس طرح اثر انداز ہوئے اور كب منظر عام پر آئے ان كى كوئي مثال لكھيئے

۷_ حديث ''يوم الدار'' كى مختصر وضاحت كيجئے اور بتايئے مذكورہ حديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد امامعليه‌السلام كى جانشينى پر كس طرح دلالت كرتى ہے؟

۲۵

حوالہ جات

۱_ عام الفيل وہ سال كہلاتا ہے جس ميں ابرہہ ہاتھيوں پر سوار لشكر كے ساتھ كعبہ كو نيست و نابود كرنے كى غرض سے آيا تھا_

۲_ حضرت عمران كے چار فرزند تھے جن كے نام طالب ، عقيل ، جعفر اور على تھے وہ ابوطالب كى كنيت سے مشہور تھے_ بعض مورخين نے حضرت علىعليه‌السلام كے والد كا نام عبدمناف بھى بيان كيا ہے (تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج۱ ص ۱۱)

۳_حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت كو اہل سنت كے محدثين و مورخين نے بھى اپنى كتابوں ميں خانہ كعبہ ميں تحرير كيا ہے منجملہ ان كے مسعودى نے مروج الذہب (ج ۲ ص ۳۴۹)حاكم نے مستدرك (ج ۳ ص ۴۸۳) اور آلوسى نے شرح قصيدہ _ عبدالباقى افندى ص ۱۵ مزيد تفصيل كيلئے اہل سنت كے دانشوروں كے نظريات كو جاننے كيلئے ملاحظہ ہو كتاب ''الغدير'' ج ۴ ص ۲۳_ ۲۱

۴_ سيرت ابن ہشام ج ۱ /۲۶۲ ، كامل ابن اثير ج ۲/ ۵۸ كشف الغمہ ج ۱ / ۷۹ ، تاريخ طبرى ج ۲ / ۳۱۲ البتہ مورخين كى رائے ميں حضرت علىعليه‌السلام كے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر منتقل ہونے كا سبب وہ قحط سالى تھى جس سے شہر مكہ دوچار ہواتھا اور ابوطالب كى زندگى چونكہ تنگ دستى ميں گزر رہى تھى اس لئے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تجويز پر آپ كے قبيلے كے لوگ ان كے ہر فرزند كو اپنے ساتھ لے گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ساتھ لے آئے ليكن شہيد مطہرى نے نقل مكانى كى اس وجہ كو مسترد كيا ہے اور اسے مورخين كے ذہن كى اختراع قرار ديا ہے_ جس كا سبب رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اس اقدام كى اہميت اور قدر وقيمت كو كم كرنا مقصود ہے اس سلسلے ميں موصوف كا مطمع نظر متن كتاب ميں ملاحظہ ہو _

۵_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۳ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۳/۱۹۹ _ كشف الغمہ ج ۱ / ۱۱۷ كامل ابن اثير ج ۲ /۵۸ وسيرة ابن ہشام ج ۱ / ۲۶۳

۶_ نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲)ولقد كنت اتبعه اتباع الفصيل اثر امه يرفع لى كل يوم من اخلاقه علماً يا مرنى بالاقتداء به

۷_ سورہ واقعہ آيہ( السابقون السابقون اولئك المقربون ) _ جنہوں نے اسلام قبول كرنے ميں سبقت

۲۶

كى وہى افراد خدا كى رضا ورحمت كے حصول ميں سبقت ركھتے ہيں _

۸_ سورہ حديد آيہ ۱۰( لاَيَستَوى منكُم مَن أَنفَقَ من قَبل الفَتح وَقَاتَلَ أُولَئكَ أَعظَمُ دَرَجَةً من الَّذينَ أَنفَقُوا من بَعدُ وَقَاتَلُوا ) ''تم ميں سے جو لوگ خرچ اور جہاد كريں گے وہ كبھى ان لوگوں كے برابر نہيں ہوسكتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد كيا ان كا درجہ بعد ميں خرچ اور جہاد كرنے والوں سے بڑھ كر ہے''_

۹_ سيرت ابن ہشام ج ۱ / ۲۴۶ ، كشف الغمہ ج ۱/۱۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۰ _ سنن ابن ماجہ ج ۱/ ۵۷

۱۰ _''اولكم ورداً على الحوض اولكم اسلاماً على بن ابى طالب _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۳۶ ، كشف الغمہ ج ۱ / ۱۰۵ _ تاريخ بغداد ج ۲/ ۸۱ شرح ابن ابى الحديد ج ۳ / ۳۸۵ وغيرہ مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو الغدير ج ۳/ ۲۲۰

۱۱_ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲ _''ولم يجمع بيت واحد يومئذ فى الاسلام غير رسول اللہ وخديجة انا ثالثہما ا رى نورالوحى والرسالة واشم ريح النبوة''_

۱۲_ نہج البلاغہ خ ۱۳۱ _اللهم انى اول من اناب وسمع واجاب

۱۳_ روايات سے مزيد آگہى كے لئے ملاحظہ ہو تفسير برہان ج ۱ / ۲۰۶ ، تفسير الميزان ج ۲/ ۹۹، مطبوعہ جامعہ مدرسين بحار ج ۱۹ صفحات (۵۶_ ۷۸_ ۸۷)

۱۴_ بقرہ آيہ ۲۰۷

۱۵_ قبا مدينہ سے دو فرسخ كے فاصلے پر واقع ہے يہاں قبيلہ بنى عمروبن عوف آباد تھا(معجم البلدان) ج ۴ / ۳۰۱

۱۶_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۷۷ (دس جلدي) منقول از سيرت حلبى واسد الغابہ

۱۷_والذى بعثنى بالحق الخ انت اخى فى الدنيا و الاخرة _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۴

۱۸_ ''غزوہ'' اصطلاح ميں اس جنگ كو كہتے ہيں جس ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بذات خود موجود رہتے تھے _ ايسى جنگوں كى تعداد چھبيس يا ستائيس ہيں اورجن جنگوں ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موجود نہ تھے انہيں اصطلاحاً ''سريہ'' كہاجاتا ہے جن كى تعداد پينتيس سے چھياسٹھ تك كے درميان بتائي گئي ہے_

۱۹_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳/۱۹۲ ، بحار ج ۱۹/ ۲۲۵ _ ۲۵۴ _۲۹۰

۲۷

۲۱_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳ / ۲۰۳ _۲۰۲_ مناقب ج ۲/ ۶۸ نيز ملاحظہ ہو بحار ج ۱۹/ ۲۷۹_ ۲۷۶_ ۲۹۱

۲۲_ بحار ج ۲۰/۵۰ _ ۵۱ ،الصحيح من سيرة النبىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ج ۴ / ۲۱۸_ ۲۱۳_

۲۳_ ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج ۲/ ۵۱۴ كامل ابن اثير ج ۲/ ۱۵۴ وشرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۲۵۰ اس واقعے كا ذكر تمام مذكورہ كتب ميں مختصر سے فرق كے ساتھ موجود ہے _

۲۴_ بحار ج ۲۰ / ۷۰ خصال صدوق (مترجم) ج ۲ / ۱۲۷_

۲۵_ بحار ج ۲۰/ ۵۴ تفسير على ابن ابراہيم سے منقول_

۲۶_ ۱۲۷ _ بحارج ۲۰ / ۲۱۶_ ۲۱۵ _

۲۷_ بحار ج ۲۰ / ۲۰۵_

۲۸_''ا رونيه ترونى رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله (ارشاد مفيد / ۶۶)_

۲۹_ ارشاد مفيد / ۶۷ / ۶۵ بحار ج ۲۱ / ۱۶_ ۱۴_

۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۲۳_ الصحيح ج ۳/ ۲۲۰_

۳۱_ مقتل خوارزمى ۲ /۵۹ _

لستُ من خندف ان لم انتقم من بنى احمد ما كان فعل

لعبت هاشم بالملك فلا خبر جاء و لا وحى نزل

قد اخذنا من على ثارناوقتلنا الفارس الليث البطل

۳۲_ سورہ شعرا ء ۲۱۴ _

۳۳_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۲۱ و ۳۲۰ كامل ابن اثير ج ۲/ ۶۳ _ ۶۲ مجمع البيان ج ۸/ ۷ الغدير ج ۲ / ۲۷۸ ''فا يكم يؤازرنى على هذاالامر على ان يكون اخى ووصى وخليفتى فيكم ...؟ ان هذا اخى و وصيى وخليفتى فيكم فاسمعوا له واطيعوه'' _

۳۴_اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبى بعدى _ غاية المرام كے صفحہ ۱۵۲ سے ۱۰۷پر ايك سو ستر (۱۷۰)محدثين كے طريق سے ''حديث منزلت'' كو نقل كيا گيا ہے ان ميں سے سو طريق اہل سنت والجماعت كے ہيں _ صاحب المراجعات نے بھى (۱۳۹_ ۱۴۱) پر مذكورہ حديث كو صحيح

۲۸

مسلم ، بخارى ، سنن ابن ماجہ ومستدرك حاكم اور اہل سنت كے ديگر مصادر سے نقل كيا ہے_

۳۵_ سورہ طہ ۲۹_ ۳۰_

۳۶_ _۳۷_ ۳۸ _ سورہ طہ آيات ۳۱_۳۲_ ۳۶_

۳۹_سورہ احزاب آيت ۱۴۲_

۴۰_ رہبرى امت مصنفہ جعفر سبحانى سے ماخوذ صفحات ۱۶۸ _ ۱۶۷_

۴۱_ فرمان خداوندى سورہ مائدہ آيت ۶۷ ''( ياأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس ) '_

۴۲_من كنت مولاه فهذا على مولاه _اللهم وال من والاه و عاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله _ ملاحظہ ہو الغدير ج ۱/ ۱۱_۹

۲۹

دوسر ا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

غير متوقع حادثہ

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

لاتعلقي

امت كى پريشانى كا خطرہ

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

منافقين كا خطرہ

شورى

وصى اور جانشين كا تقرر

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

اس خطبے كے اہم نكات

انصار كا رد عمل

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا رد عمل

علىعليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟

سوالات

حوالہ جات

۳۰

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك(۱)

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے تعميرى اور كردار ساز بعض حادثات وواقعات كا جائزہ ترتيب وار گذشتہ فصل ميں ليا جاچكا ہے _ چونكہ ہمارا مطمع نظر تاريخ اسلام كا تجزيہ وتحليل ہے نہ كہ ان بزرگوار شخصيات كے احوال زندگى كو بيان كرنا اسيلئے بہت سے ايسے واقعات جن كا امامعليه‌السلام نے ان مراحل ميں سامنا كيا ، ان كا ذكر نہيں كياجاسكا_اب ہم يہاں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد تاريخ اسلام كے واقعات كا جائزہ ليں گے_

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد سب سے پہلا واقعہ جو مسلمانوں كے سامنے آيا وہ عمر كى جانب سے رونما ہوا چنانچہ انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر كے سامنے بآواز بلند كہا كہ جو شخص يہ كہے گا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ہوگئي ميں اسى تلوار سے اس كا سر قلم كردوں گا اگر چہ حضرت ابن عباس و ديگر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ آيت بھى سنائي جس كا مفہوم يہ ہے كہ موت سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بھى مفر نہيں(۲) مگر اس كا ان پر اثر نہ ہوا بوقت رحلت ابوبكر مدينہ سے باہر تھے _ چند لحظے گذرنے كے بعد وہ بھى آن پہنچے اور عمر كى داد و فرياد كى جانب توجہ كي ے بغير وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں داخل ہوگئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چہرہ مبارك سے چادر ايك طرف كركے بوسہ ديا اور مسجد ميں واپس آگئے اور يہ اعلان كيا كہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحلت فرماگئے ہيں _ اس كے بعد انہوں نے بھى اسى آيت كى تلاوت كى اس پر عمر نے كہا ايسا لگتا ہے كہ ميں نے آج تك گويا يہ آيت سنى ہى نہيں تھى(۳)

۳۱

غير متوقع حادثہ

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل دينے ميں مشغول اور مسلمان تكميل غسل و كفن كا انتظار كر رہے تھے تاكہ نماز جنازہ ميں شركت كرسكيں خبر آئي كہ كچھ لوگ ''سقفيہ بنى ساعدہ'' ميں جمع ہيں او رخليفہ منتخب كئے جانے كے بارے ميں بحث كر رہے ہيں اور قبيلہ خزرج كے سردار سعد بن عبادہ كا نام خلافت كےلئے پيش كيا گيا ہے_

عمر اور ابوبكر نے جيسے ہى يہ خبر سنى فوراً سقيفہ كى طرف روانہ ہوئے_ راستے ميں ابوعبيدہ بن جراح كو بھى مطلع كيا اور تينوں افراد نے سقيفہ(۴) كى جانب رخ كيا _

اس وقت تك معاملہ انصار كے ہاتھ ميں تھا ليكن جيسے ہى يہ تينوں مہاجر وہاں پہنچے تو تنازع شروع ہوگيا اور ہر شخص اپنى اہليت وشايستگى كى تعريف كرنے لگا _ بالآخر ابوبكر كو پانچ رائے كے ذريعے سقيفہ ميں خليفہ چن ليا گيا _

برادران اہل سنت نے اس واقعہ كو حقيقت سمجھ ليا اور خليفہ كے انتخاب كو مشاورت اور اجماع مسلمين كا نام دے كر اسے تسليم كرليا_

اس حقيقت كو آشكار كرنے كے لئے ضرورى ہے كہ مندرجہ ذيل عنوانات كا تجزيہ كياجائے تاكہ اصل واقعے كى وضاحت ہوسكے_

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

شيعوں كا عقيدہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں ہى فرمان خدا كے ذريعے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طے اور واضح كرديا تھا اور جو كچھ سقيفہ بنى ساعدہ ميں پيش آيا وہ فرمان خدا اور حكم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف محض ايك تحريك تھي_

گذشتہ فصل ميں ہم نے چند ايسى دليليں اور حديثيں بيان كى تھےں جو مذكورہ دعوے كو ثابت كرتى ہيں _ يہاں اس مسئلے كا تاريخى واقعات كى روشنى ميں جائزہ لياجائے گا_

۳۲

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش مبارك پر ايك عالمى تحريك كى قيادت تھى يہ بات بھى واضح و روشن ہے كہ اس تحريك كے پروان چڑھنے اور سياسى ، ثقافتى نيز اجتماعى سطح پر گہرى تبديلى لانے كيلئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا زمانہ رسالت (بعثت سے رحلت تك) كافى نہ تھا اگرچہ اسلام كے اس عظےم رہبر و پيشوا نے اس مختصر و محدود عرصے ميں ہى انسان كى تكميل اور اسلامى معاشرے كى تشكيل كے لئے بہت عظيم واساسى اقدامات كئے ليكن اس عالمى تحريك كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد بھى جارى و سارى رہناتھا_

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت اچانك واقع نہيں ہوئي بلكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كے وقوع پذير ہونے سے كچھ عرصہ قبل محسوس كرليا تھا كہ جلد ہى اس دنيا سے كوچ كر جائيں گے _ چنانچہ آپ نے ''حجةالوداع'' كے موقع پر كھلے لفظوں ميں اس كا اعلان بھى كرديا تھا اس كے بعد آپ كے پاس اسلام كے مستقبل سے متعلق سوچنے كے لئے وقت كافى تھا اور آپ كوئي اصولى روش وتدبير اختيار كركے ان عوامل كى پيش بندى كرسكتے تھے جن سے انقلاب خداوندى كى راہ ميں آئندہ كسى خطرے كے آنے كا امكان ہوسكتا تھا_ان حالات و واقعات كے بارے ميں غيبى عوامل كى مدداور سرچشمہ وحى سے ارتباط كو عليحدہ كركے بھى غور كياجاسكتا ہے ايسى صورت اور ان واقعات كى روشنى ميں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے اسلام كے مستقبل سے متعلق تين ہى ممكن راہيں ہوسكتى تھيں :

لا تعلقي

شوري

اپنے وصى اور جانشين كے بارے ميں وصيت

اب ہم تاريخى حقائق اور ان سياسى واجتماعى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے جو اس وقت اسلامى معاشرہ پر حكم فرما تھے مذكورہ بالا تينوں راہوں كا اجمالى جائزہ ليں گے_

۳۳

لاتعلقي

لاتعلقى سے مراد يہ ہے كہ ہم اس بات كے قائل ہوجائيں كہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اسلام كے مستقبل سے كوئي سرو كار نہ تھا بلكہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے نوشتہ تقدير اور آئندہ حالات كے رحم وكرم پر چھوڑ ديا تھا_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جيسى شخصيت كے بارے ميں ايسى بے سرو پا باتوں كا فرض كرلينا كسى طرح بھى حقائق وواقعات كے موافق نہيں ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اسلامى رسالت كا مقصد يہ تھا كہ دور جاہليت كے جتنے بھى رگ وريشے اس دور كے انسان ميں ہوسكتے تھے انہيں اس كے دل وجان كے اندر ہى خشك كردياجائے اور اس كے بجائے ايك جديد اسلامى انسان كى تعمير كى جائے _ جب بھى كوئي ہادى و راہنما نہ ہو تو معاشرہ بے سرپرست رہ جائے اور انقلاب ميں ايك ايسا خلاء پيدا ہوجائے گا جس كى وجہ سے اس كو مختلف قسم كے خطرات لاحق ہوجائيں گے _ مثال كے طور پر :

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ روح رسالت اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تحريك كے مقاصد كو وہى شخص پايہ تكميل تك پہنچاسكتا تھا كہ جس كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہچنواياتھا اور امت كے كسى فرد ميں اسكى صلاحيت نہ تھى كہ وہ رسول كے بعد زمام دارى اور رسالت كے مقصد كے درميان كوئي متين تناسب قائم كرسكے اور اسلامى معاشرہ سے ان جاہلى تعصبات كو دور كرسكے جو ابھى تك معاشرہ كى رگ و پے ميں موجود تھے كہ جس نے انہيں مہاجر، انصار ، قريش و غير قريش اور مكى و مدنى وغيرہ ميں تقسيم كر ركھا تھا_

۳۴

تھے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ كاغذ و دوات لے آؤ تاكہ ميں تمہارے لئے ايسا نوشتہ لكھ دوں كہ جس سے تم (ميرے بعد)ہرگز گمراہ نہ ہو(۵)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا يہ فرمانا ہى اس بات كى واضح و روشن دليل ہے كہ آيندہ رونما ہونے والے خطرات كے بارے ميں آپ كو تشويش تھى اور ان كا سد باب كرنے كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوشاں تھے _

شورى

شورى سے مراد يہ ہے كہ گويا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد مسلمانوں كى رہبرى كو انہى كے وست اختيار ميں دے ديا تھا كہ جسكو چاہيں منتخب كر ليں _

اگرچہ اسلام نے قانون اور اصول شورى (مشاورت)كا احترام كيا ہے اور قرآن ميں اس كا شمار اوصاف مومنين ميں ہوتا ہے(۶) ليكن اس كا تعلق ان واقعات سے ہے جو مسلم معاشرے كے درميان رونما ہوتے ہيں اور ان كى بارے ميں كوئي نص صريح موجود نہ ہو كيونكہ اسلام كے قوانين و احكام مشوروں سے طے نہيں ہوتے يہى وجہ تھى كہ وہ ذمہ دارياں (تكاليف) جو وحى كى ذريعے معين كى گئيں تھيں ان كے بارے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى سے مشورہ نہ كيا چنانچہ مسئلہ ولايت و امامت كا شمار بھى ايسے ہى مسائل ميں ہوتاہے جو امور مشاورت كى حدود سے خارج ہيں يہى نہيں بلكہ اس كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى اپنى رائے كا اظہار نہيں فرما سكتے تھے _

يہى وجہ ہے كہ جس وقت قبيلہ بنى عامر كى ايك جماعت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات كرنے كے لئے آئي اور اس نے يہ تجويز پيش كى كہ ہم اس شرط پر ايمان لانے كو تيار ہيں كہ آپ اپنے بعد خلافت ہمارى تحويل ميں دے ديں اگرچہ اس وقت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائي پر آشوب حالات سے دو چار تھے نيز قريش(۷) كى جانب سے آپ پر سخت دباؤ بھى تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوخوفزدہ كرنے كى كوشش بھى كى جا رہى تھى مگر اس كے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا يہ كام خداند تعالى كا ہے (اور اس ميں مجھے كوئي اختيار نہيں )وہ جسے بھى مناسب سمجھے گا اسے ہى ميرے بعد ميرا جانشين مقرر كرے گا(۸) _

۳۵

اس كى علاوہ اسلام كى فلاح و بہبود كى خاطر پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كو سودمند اقدام خيال فرماتے تو آپ يقينا اپنے زمانہ حيات كے دوران ايسے دستورات عمل كا سلسلہ مرتب فرماتے جس كے ذريعے امت مسلمہ خود كو اس اقدام كے لئے تيار كر ليتى كہ شورى كے ذريعے نظام حكومت جارى ركھ سكے كيونكہ دور جاہليت كے نظام حكومت ميں كوئي ايسا ادارہ كار فرمانہ تھا جو شورى كى ذريعے نظام حكومت چلاسكے اگرچہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى وقت بھى نظام شورى اور راس كے دائرہ عمل نيز مشخصات كو منفى قرار نہيں ديا اور نہ ہى مسلمانوں كو يہ ہدايت فرمائي كہ وہ اس سے گريز كريں _

اس سے قطع نظر ابو بكر نے جب عمر كو اپنا جانشين مقرر كيا تو يہ اس امر كى واضح دليل تھى كہ اس اقدام كے ذريعے نظام شورى كى نفى كى گئي اور يہ ثابت ہو گيا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كے حامى نہ تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے اپنا حق سمجھتے تھے كہ زمانہ حيات ميں كسى ايسے شخص كو مقرر فرما ديں جو رحلت كے بعد آپ كا جانشين ہو سكے يہى نہيں بلكہ عمر بھى خليفہ مقرر كرنا اپنا حق سمجھتے تھے اور اسے انہوں نے چھ افراد كے درميان محدود كر ديا تھا تاكہ وہ اپنے درميان ميں سے كسى ايك شخص كو خليفہ مقرر كر ليں اور ان افراد كے علاوہ انہوں نے تمام امت مسلمہ كو اس حق سے محروم كر ديا تھا_

وصى اور جانشين كا تقرر

وصايت (عملى جانشينى)سے ہمارى مراد يہ ہے كہ تنہا ايك يہى ايسى راہ ہے جو حقائق اور فطرت اور خلافت كى واقعيت سے عين سازگار ہے اور ہم كہہ سكتے ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلام كى آيندہ فلاح و بہبود كى خاطر يہ مثبت اقدام فرمايا تھا اور خدا عالم كے حكم سے ايك شخص كو جانشين كى حيثيت سے مقرر كر ديا تھا چنانچہ صرف يہى ايك ايسا مثبت اقدام تھا جو مستقبل ميں اسلام كى خير و صلاح اور رسالت كو خطرات سے محفوظ ركھنے كا ضامن ہو سكتا تھا _ اسلام ميں سبقت ، اور دوسرے مسلمانوں كى نسبت عليعليه‌السلام كى واضح و امتيازى خصوصيات كى بناء پر كسى دوسرے شخص كو ان كے علاوہ

۳۶

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا حق حاصل نہ تھا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علىعليه‌السلام كى باہمى زندگى كے ايسے بہت سے شواہد موجود ہيں جو اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حيثيت سے حضرت علىعليه‌السلام كى تربيت فرمارہے تھے كہ آيندہ اسلامى معاشرے كے آپعليه‌السلام ہى قائد و رہبر ہيں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپعليه‌السلام كو حقائق رسالت كى بہت سے خصوصيات سے نوازا تھا حضرت علىعليه‌السلام جب كبھى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كوئي بات دريافت فرماتے تو آپكا سوال ختم ہونے كے بعد رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كلام كى ابتدا فرماتے اور تہذيب و افكار كے ہدايا و تحائف كى دولت سے آپعليه‌السلام كو معزز و مفتخر فرماتے چنانچہ روز و شب كا زيادہ وقت باہمى گفتگو اور خلوت مےں گذرتا _

اس كے علاوہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانشينى كا مختلف مواقع پر اعلان بھى فرما ديا تھا چنانچہ اس ضمن ميں بكثرت احاديث نبوى موجود ہيں جس ميں سے حديث يوم الدرار ' حديث الثقلين ' حديث منزلت اور سب سے اہم غدير (حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر مسلمانوں كا بيعت كرنا)قابل ذكر اور اس دعوے كى شاہد و گواہ ہيں(۹) _

مزيد بر آں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد بہت سے حوادث رونما ہوئے اور آپ نے پورى زندگى جہاد و ذمہ دارى ميں گذارى جس سے يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ آپعليه‌السلام ہى رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين ہيں آپ كى لياقت كا ايك نمونہ يہ ہے كہ جن مسائل كو حل كرنا خلفاء كے لئے ناممكن تھا انھيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى سے حل كرتے تھے ليكن اس كے برعكس ہميں خلفاء كے زمانہ ميں ايك موقعہ بھى ايسا نظر نہيں آتا كہ جس ميں امامعليه‌السلام نے كسى مشكل كے حل كيلئے يا اسلام كے نظريہ سے مزيد آگہى كے لئے كسى سے رجوع كيا ہو(۱۰)

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

معن بن عدى اور عويم بن ساعدہ نامى دو افراد كے دلوں ميں '' سعد بن عبادہ خزرجى '' كے

۳۷

خلاف كدورت تھى ان كے ذريعے عمر اور ابوبكر كو خبر ملى كہ انصار سقيفہ بنى ساعدہ ميں جمع ہو رہے ہيں چنانچہ يہ دونوں حضرات نہايت عجلت كے ساتھ اضطراب و پريشانى كے عالم ميں ابو عبيدہ كے ہمراہ سقيفہ ميں داخل ہوئے عمر گفتگو كا آغاز كر كے ابوبكر كى خلافت كيلئے ميدان ہموار كرنا چاہتے تھے ليكن ابو بكر نے منع كر ديا اور كہا كہ اگر مجھ سے كوئي فرو گذاشت ہو جائے تو تم اس كى تلافى كرو چنانچہ اس كے بعد انھوں نے تقرير شروع كى اور خداوند عالم كى وحدنيت اور رسالت رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شہادت كے بعد كہا كہ مہاجرين ميں ہم وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے دين اسلام قبول كيا اور اس لحاظ سے تمام لوگ ہمارے پيروكار ہيں ہم طائفہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مركز قبائل عرب ميں سے ہيں نيز ان كے درميان نقطئہ ربط و تعلق ہيں آپ انصار بھى خدا و رسول كے ياور و مددگار ہيں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پشتيبان اور ہمارے سردار ہيں دين اور اس كے فائدے ميں آپ ہمارے شريك ہيں _ خداوند تعالى كى رضا ميں راضى رہے اور اس پاك پروردگار نے تم سے مہاجر بھائيوں كے لئے جو كچھ چاہا اسے قبول كرنے ميں لائق و شائستہ ترين افراد ثابت ہوئے ليكن تمہيں اس پر حسد نہيں كرنا چاہيے اسلام كى ترقى كى خاطر تم نے مشكلات ميں اپنى طاقت كے جوہر دكھائے اس بنا پر تمہارے لئے يہ زيبا نہيں كہ اپنے ہى ہاتھوں سے اس دين كى بيخ كُنى كرو_ ميں تمہيں ابو عبيدہ اور عمر كى بيعت كى دعوت ديتا ہوں ميں دونوں ہى كو قابل و اہل سمجھتا ہوں(۱۱) اس موقعے پر ان دونوں نے كہا : لوگوں ميں سے كسى كو تم پر برترى حاصل نہيں ہے _ تم پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے يار غار ہو

اس خطبے كے اہم نكات

ابو بكر نے جو تقرير كى اس كے بعض نكات كا ذكر كرنا يہاں ضرورى ہے _(۱۲)

ابوبكر نے پہلے مہاجرين كى تعريف كى تاكہ ان كى عظمت انصار كے ذہنوں پر نقش ہو جائے اس كے بعد جس حد تك ممكن تھا اُس نے انصار كى بھى تعريف و توصيف بيان كى اور خود كو منصف كى حيثيت سے ظاہر كيا جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ انصار كو اپنى طرف متوجہ كر ليا اس تردو كے بر خلاف جو

۳۸

خلافت كے سلسلہ مےں انصار كے ذہنوں ميں تھا ابوبكر نے يقين كے ساتھ كہا مہاجرين كى خلافت جو خدا كى مرضى كے مطابق ہے اور يہى خدا كا حتمى فيصلہ ہے چنانچہ ہر قسم كا تذبذب ختم ہو گيا ابوبكر نے خلافت كو مہاجرين كا مسلم حق ثابت كرنے كے بعد اس سلسلہ ميں انصار كى كسى بھى فعاليت كو خدا سے عہد شكنى اور دين كو برباد كرنے كے مترادف قرار دے ديا اپنى تقرير كے آخر ميں ابوبكر نے حاضرين كو عُمر و ابوعبيدہ كى بيعت كى دعوت دى وہ طبيعى طور پر ابوبكر كو مقدم سمجھتے تھے گويا وہ پہلے ہى خليفہ كى تعيين كے سلسلہ ميں منصوبہ بنا چكے تھے _(۱۳)

انصار كا ردّعمل

پروگرام كے تحت ابوبكر كى ہونے والى تقرير سن كر انصار اپنے گذشتہ موقف سے ہٹ گئے اور انہوں نے مہاجرين كے سامنے اپنے سرخم كر ديئے ان ميں '' حباب بن منذر '' ہى ايك ايسے انصار تھے جنہوں نے كھڑے ہو كر يہ دھمكى دى كہ اگر مہاجرين انصار سے مصالحت نہيں كرتے تو ہم عليحدہ مستقل حكومت قائم كر ليں گے ليكن عمر نے فورا ہى اس كى گفتگو كى كمزورى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے كہا كہ افسوس دو تلواريں ايك ميان ميں نہےں سماسكتيں خدا كى قسم عرب اس بات پر ہرگز راضى نہےں ہوں گے كہ حكومت تمہارے حوالے كر دى جائے اس كى وجہ يہ تھے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم ميں سے نہےں تھے _(۱۴) مہاجرين اور انصار كے درميان حصول اقتدار كى خاطر بہت سخت كشمكش ہونے لگى چنانچہ انصار كے دو قبيلوں اوس اور خزرج كے درميان شديد اختلاف پيدا ہو گيا قبيلہ اوس كے سردار ''اسيد بن حضير'' كا ميلان مہاجرين كى طرف تھا ، اس نے اظہار رغبت كيا انكى پيروى كرتے ہوئے '' بشير بن سعد خزرجى '' نے لوگوں كو مہاجرين كى بيعت كى جانب رغبت دلانا شروع كى بالاخر اس كشمكش كا نتيجہ يہ ہوا كہ خلافت كا فيصلہ ابوبكر كے حق ميں ہوگيا اور انھيں پانچ رائے كے ذريعے خليفہ منتخب كر ليا گيا _(۱۵)

اس واقعے كا اگر اجمالى طور پر جايزہ ليں تو اس نتيجے پر پہنچيں گے كہ سقيفہ ميں جو كچھ پيش آيا

۳۹

اور اس ميں ابوبكر كو خليفہ منتخب كيا گيا وہ انتخاب كے اصول و ضوابط كے منافى تھا _

اس معاملے مےں فيصلہ اتنى عجلت و جلدى سے كيا گيا كہ كسى صاحب فكر شخص كو اتنا موقعہ ہى نہےں ديا گيا كہ وہ اس مسئلے كے بارے ميں غور و فكر كر سكے اور كسى مخالف كوبھى اتنى مہلت نہ ملى كہ وہ اپنے دعوے كے حق ميں دليل پيش كر سكے اس عجلت و تندى كے باعث روح انتخابات كى اچھى طرح پائمالى كى گئي كہ حتى كہ ان لوگوں سے بھى جو سقيفہ ميں موجود تھے حق رائے دہى سلب كر ليا گيا شروع سے آخر تك ذاتى ميلانات و احساسات كار فرما رہے اس كے علاوہ انتخاب اس طرح كيا گياكہ بيشتر مسلمان قطعى لاعلم و بے خبر رہے اور جنہيں اطلاع بھى ہوئي تو وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مراسم تجہيز و تكفين ميں منہمك و مشغول تھے وہ سقيفہ والے انتخابات ميں شريك نہيں ہو سكتے تھے _

جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے انتخاب كے لئے جس مجلس كى تشكيل كى گئي تھى اس ميں كم از كم كوئي ايسا شخص تو اپنے افراد خاندان كے ہمراہ وہاں پيش پيش رہتا جس كى قدر و منزلت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظروں ميں وہى تھى جو حضرت ہارون كى حضرت موسيعليه‌السلام كے نزديك تھى اس واقعے پر جب ہم شروع سے آخر تك نظر ڈالتے ہيں تو ديكھتے ہيں يہ سب اس طرح پيش آيا كہ قبيلہ بنى ہاشم بالخصوص اس كے سردار يعنى اميرالمومنين علىعليه‌السلام ان واقعات سے قطعى بے خبر اور لاعلم ركھا گيا _

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كى تجہيز و تدفين ميں منہمك و مشغول تھے كہ ابو سفيان ' جس مےں حس تدبر و سياست فہمى بہت تيز تھى ' پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر پہنچا تاكہ مسلمانوں كے درميان اختلاف پيدا كرے اور حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے يہ تجويز پيش كى كہ آپعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرے ليكن حضرت علىعليه‌السلام اسكى نيت كو جانتے تھے لہذا اسكى باتوں كو قطعى اہميت نہ دى اور فرمايا تمہارا مقصد مسلمانوں كے درميان فتنہ پھيلانا ہے_(۱۶)

جس وقت ابوسفيان نے يہ تجويز پيش كى توعين اس وقت حضرت عباس نے بھى چاہا كہ اپنے

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے عمار کی نصرت و تائید کا راز:

اس قصے سے ظاہر ہوتاہے کہ اس وقت مسلمان شعور و ادراک کے اس درجہ پر فائز تھے کہ وہ اپنے اس عمل کو اپنی دنیا کیلئے نہیں بلکہ ذخیرہ آخرت سمجھتے ہوئے انجام دیتے تھے اور ان کے اعمال اور افکار و نظریات میں آخرت ہی کو اولین و آخرین مقام حاصل ہونا چاہئے تھا، اس لئے کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور اس کے علاوہ اصلاً زندگی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، اور وہاں کی ناکامی ہی حقیقی ناکامی اور خسارہ ہے ...''

اللّهم لا عیش الا عیش الآخرة

فارحم الانصار و المهاجرة

(حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اے اللہ مہاجرین و انصار پر اپنی رحمتیں نازل فرما)_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک حدیث(۱) کے مطابق حضرت عمار کا پورا وجود نور ایمان سے منور تھا، راہ خدا میں انہوں نے بہت سی مشکلات اور تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اپنے دین و عقیدے کی خاطر خلوص دل سے مصروف عمل رہے ، چنانچہ جب بعض افراد کی طرف سے حضرت عمار کو دھمکیاں دی گئیں تو ایسے میں آنحضرت کی طرف سے ان کی حمایت و نصرت ،ان کے اعمال و افکار کی تائید تھی اور دھمکیاں دینے والے نیز تعمیر مسجد کے وقت اپنے آپ کو مٹی اور گرد و غبار سے بچانے والے کا عمل بتارہا تھا کہ وہ ایمان کے لحاظ سے مطلوبہ سطح فکر کا حامل نہیں تھا اور دنیا ہی اس کیلئے سب کچھ تھی جیسا کہ اس شخصیت کے بعد کے اعمال و کردار نے اس بات کو روز روشن کی طرح عیاں کردیا_

ان حالات میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے حضرت عمار کی نصرت و حمایت اس بات پر دلالت کررہی تھی کہ حضرت عمار اپنے دین اور عقیدے کی راہ میں خلوص دل سے جہاد و کوشش میں مصروف تھے_

یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ حضرت عثمان نے حضرت عمار کی تحقیر و توہین کے ارادے سے انہیں ان کی ماں کی نسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : '' اے سمیہ کے بیٹے یہ کس کی عیب جوئی کررہے ہو'' حالانکہ حضرت عمار کی والدہ محترمہ وہ پہلی مسلمان خاتون ہیں جو شہادت کے عظیم

____________________

۱)البدایہ والنہایہ ج۷ ص ۳۱۲ ، سنن نسائی ج۸ ص۱۱۱ ، الاصابہ ج۲ ص ۵۱۲ ، تہذیب التہذیب ج۷ ص ۴۰۹ ، حلیة الاولیاء ج۱ ص ۱۳۹ ، سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۵۲ والاستیعاب ( بر حاشیہ الاصابہ) ج۲ ص ۴۷۸_

۸۱

منصب پر فائز ہوئیں اور جنہیں ان کے دین و عقیدے کی بناپر ظلم و تشدد کے ذریعہ شہید کردیا گیا _

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمار کے حامی و ناصر حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کی صابرہ اور مجاہدہ ماں کی عظیم شان و منزلت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں والدہ سے نسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :''یابن سمیة لا یقتلک اصحابی الخ'' _

پہلے مسجد کی تعمیر کیوں؟

غور طلب بات یہ ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں سب سے پہلے جس کام کو شروع کیا وہ مسجد کی تعمیر تھی اور اس کام کی بڑی اہمیت اور خاص وجہ تھی اوراس کی وجہ یہ تھی کہ :

اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ تھے ، مہاجرین اور انصار_ یہ دو گروہ فکری ، روحانی، اقتصادی، اور عادات و اطوار کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف تھے، خود مہاجرین بھی مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے جو آپس میں فکری، معاشرتی ، مادی اور روحانی لحاظ سے الگ الگ صفات و خصوصیات کے حامل تھے،نیز انہوں نے اپنا گھر با ر چھوڑ کر وہاں سے ہجرت کرلی تھی اور اب وہ بے وطن اور بے گھر ہوچکے تھے_ اسی طرح انصار بھی ایک دوسرے پر غلبہ و تسلط کے متمنی دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے اور ماضی قریب میں کئی دفعہ ان کے درمیان تباہ کن جنگیں بھی ہوچکی تھیں_

اس بات کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ منزل و مقصود کے حصول میں اہداف، رسومات اور محسوسات و غیرہ کا اثر بہت ہی بنیادی ہے لہذا ان امور میں نظم و انسجام بہت ضروری ہے_

اور اسلام تمام لوگوں کے عقائد و نظریات کو اسلامی قالب میں ڈھالنا چاہتا ہے تا کہ وہ سب ایک ہی جسم کی مانند ہوجائیں اور ہر قسم کی مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کے کام آئیں_ نیز ان کی کوششیں ، اہداف ، اغراض و مقاصد ، موقف اور حرکات و سکنات سب یک سو ہوجائیں_ اور یہ چیز ایک دوسرے کے ساتھ رہن سہن کو ممکن بنانے کے لئے ان لوگوں کی نفسیاتی ، اخلاقی اور فکری تربیت کی ضرورت کو مزید واضح کردیتی

۸۲

ہے_ تا کہ وہ لوگ ایک پروردگار ، ایک ہدف اور ایک مقصد رکھنے والی امت کے بنیادی عنصر یعنی معاشرے کو خود کفیل اور ہم نوا بنانے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرسکیں_ اور یہ معاشرہ مدینہ کے یہودیوں ، عربوں اور مشرکوں بلکہ پوری دنیا سے در پیش خطرات کے مقابلے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور رسالت کی حمایت ،حفاظت اور دفاع کر سکے_ اس لئے اس معاشرے کے فکری اور مادی وسائل اور طاقتوں کو ایک ہی ہدف یعنی رسالت کی خدمت کے لئے ڈھالنا ضروری تھا_

اور مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں یہ سب اہداف حاصل ہوسکتے ہیں کیونکہ مسجد صرف عبادت ہی کی جگہ نہیں ہے ، بلکہ وہ فکری اور ذہنی تربیت اور تہذیب کا ایک بہترین اور اعلی مقام ہے_ بلکہ ہمارا مدّعا تو یہ ہے کہ وہ آج بھی ثقافتی ، فکری اور نظریاتی اتحاد اور انسجام کا بہترین ذریعہ ہے_ کیونکہ جب فرض یہ ہے کہ یہ تعلیمات ایک ہی سرچشمہ سے بیان ہوئی ہیں اور زندگی کے تمام مراحل میں ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے ساتھ ہی ذہنوں میں اللہ تعالی کا تقدس اور اس سے رابطہ کا تصور ہو، تو اس سے مسلم معاشرہ اس فکری تصادم سے بچ سکتا ہے جو ہر کسی کی اپنی ثقافت کی وجہ سے پیش آنے والی ثقافتی عدم ہم آہنگی سے پیدا ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے پھر مفاہیم، افکار اور ذہنی اور دیگر سطح کی جنگ چھڑ جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ خلا اور دوریاں بڑھتی رہتی ہیں پھر تو واضح طور پر ان اہداف اور ان علامات و غیرہ میں عدم ہم آہنگی نظر آتی ہے جن کا ہدف تک پہنچنے میں بہت بڑا کردار ہوتا ہے_

پس مسجد انسانوں کی ذہنی ، فکری اور نظریاتی تربیت اور معاشرے کے ثقافتی ، نظریاتی اور فکری اتحاد و انسجام کا بہترین مقام ہے_

لیکن اس زمانے میں معروف ا سکول فقط بے جان مفاہیم اور انسانی حقیقت سے دور افکار عنایت کر تے ہیں جنکا انسان کی بنیادی ضرورتوں اور روحانی و فکری تربیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، علاوہ برایں ان افکار میں اللہ سبحانہ تعالی اور اسکی ذات کے سامنے خشوع و خضوع کا شعور تو بالکل بھی شامل نہیں ہے_

اسی طرح ان اسکولوں میں عقیدہ و فکر کی تو کوئی گنجائشے ہی نہیں ، صرف تکبر و ہوائے نفس ہی رہ جاتاہے

۸۳

جسے ہماری خدمت میں پیش کیا جاتاہے، ہمیں دنیا کے ان تاجروں کے ہاتھوں میں پہنچا دیتے ہیں جو قوموں کو جدید میڈیا کی قوت سے نابود کررہے ہیں جبکہ آمادگی یا انسانی تربیت کے لئے جن و سائل کا استعمال کر رہے ہیں ان کے ذریعے انسان کو بھوک اور افلاس کی طرف دھکیلا جارہاہے جسکا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی ذاتی معاش ہی کی فکر میں رہتاہے اور اس میں دوسروں کی ضرورتوں کا احساس ختم ہوکے رہ جاتاہے، ان کے اندر باہمی رابطہ اور محبت و مودت نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے اور تنگ نظری پیدا ہوجاتی ہے_

پس اس صورت حال میں ان تمام گروہوں کی فکری ، اخلاقی اور روحانی تربیت کا اہتمام بہت ضروری تھا تا کہ وہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو اور ایک دوسرے کی نسبت اسی احساس ذمہ داری کے ساتھ ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دیں جو ایک جسم واحد کی مانند ہو کہ جب اس کے اعضاء میں سے کوئی عضو درد و الم میں مبتلا ہو تو جسم کے باقی اعضاء بیدار رہ کر اس مصیبت میں اس کے ساتھ شریک ہوں_

اور اس طرح یہ معاشرہ رسالت کے دفاع اور اس کی حمایت جیسی عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآہونے کے قابل ہوجائے تا کہ جب مدینہ کے یہودی، دوسرے عرب مشرکین بلکہ پوری دنیا ان کی مخالفت پر اتر آئے تو وہ اس کا مقابلہ کرسکیں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے کہ جس کی تمام فکری، مادی اور دیگر قوتیں ایک مشترکہ ہدف یعنی رسالت و نبوت کی راہ میں صرف ہوں_

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر

خلاصہ یہ کہ سوشل معاشرتی اور اجتماعی کام بھی عبادت ہیں ، جہاد بھی عبادت ہے ، سیاسی کام بھی عبادت ہے یہانتک کہ مندوبین کا استقبال بھی عبادت ہے ، مسلمانوں کے امور کی تدبیر بھی عبادت ہے ( البتہ اس صورت میں یہ تمام امور عبادت میں شمار ہوں گے جب یہ اسلام کے اعلی مقاصد کی ترجمانی، تبلیغ اور اجراء کے لئے کئے جائیں) اسی طرح مؤمنوں کا باہمی رابطہ، آپس کی میل ملاقات اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی محفل میں

۸۴

ان کی حاضری اور احکام دین سیکھنا یہ سب بھی عبادت ہی ہیں_

اور مسجد ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ان افکار و اہداف کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے ، اس لئے کہ مسجد صرف عبادت کی جگہ نہیں بلکہ فکری تہذیب و تربیت کا بہترین مقام اور وسیلہ ہے ، اگر ہم یہ کہیں کہ مسجد ایک مشترکہ تمدن اور وحدت آراء کی تشکیل کا ایسا بہترین مقام ہے جہاں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کے لئے ایک ایسا ہدف میسر آتاہے جس میں اللہ تعالی کی قدوسیت اور ارتباط کا شعور شامل ہوتاہے تو بے جانہ ہوگا_ اس کے علاوہ مسجد معاشرے کو ایسے فکری جھگڑوں سے دور رکھتی ہے جو تہذیب و ثقافت کے اختلاف سے جنم لیتے ہیں _ خلاصہ کلام یہ کہ عقائد ، اخلاق اور روحانی تربیت اور بلند مرتبہ تہذیب و ثقافت کے لیے مسجد ایک بہترین وسیلہ ہے، اس کے علاوہ مسلمانوں کے درمیان محبت و مودت اور دوستی کو عام کرنے کا ذریعہ بھی ہے ، کیونکہ جب ہر روز چند مرتبہ مسلمان ایک دوسرے سے ملیں، ایک ہی صف میں خدا کے حضور کھڑے ہوں، عملاً عدل و مساوات شعور پر حاکم ہو، جاہ و مال کی تفریق اور فاصلے آڑے نہ آئیں، انسان کی ذات سے غرور و تکبر اور انانیت کے بت پاش پاش ہوچکے ہوں تو ایسی فضاؤں میں حتمی طورپر محبت و الفت اور برادری کے عہد و پیمان مضبوط ہوجاتے ہیں ایسے میں ہرشخص اپنے آپ کو ایسے معاشرے میں پاتاہے کہ جو محبت و غمخواری رکھتاہے، وہ سمجھتاہے کہ اس کے دوسرے مسلمان بھائی اس کو اہمیت دیتے ہیں، اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کی مشکلات و مصائب میں برابر کے شریک ہیں،یہ بات اسے اپنے دین ،ذات ، معاشرے ، اور امت پر اور زیادہ اعتماد کرنے کا شعور بخشتی ہے اس طرح ایک سچا، معتمد مؤمن وجود میں آتاہے اور ایسے مومنین سے مل کر اسلامی معاشرہ اور بہترین امت وجود میں آتی ہے جن کے بارے میں قرآن فرماتاہے ''کنتم خیر امة اخرجت للناس''تم بہترین امت ہو جسے انسانوں کےلئے بھیجا گیاہے_

مسجد معاشرے کے افراد کے درمیان روابط کو عمومیت اور تقویت دیتی ہے اور ایسے رسمی میل جول اور تکلفات کی مشکلات کو کم کرتی ہے جو اختلافات اور طبقہ بندی کی غماز ہوتی ہیں، اسلام کا مسجد کو اس حد تک اہمیت دینا کہ پیامبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبا اور مدینہ میں سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی ،اس بات کی واضح دلیل ہے کہ

۸۵

اسلام چاہتاہے کہ دنیا اور اس کے اسباب کو دینی شعور اور تصور کے زیر سایہ استفادہ کیا جائے اور دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھا جائے_

اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد اس لئے بنائی کہ یہ قیادت و امارت کا مرکز بھی ہو مسجد میں پیامبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مختلف وفود سے ملاقاتیں کرتے تھے، صلح و جنگ کے احکامات مسجد سے صادر ہوتے تھے، جھگڑوں کے فیصلے مسجد میں ہوتے، انسانی معاملات و روابط پر غور و خوض کیا جاتا، ان تمامتر امور پر بحث ہوتی جنکا اسلامی حکومت اور اسکے مختلف شعبوں سے کوئی تعلق ہے _یہ مسجد ہی ہے جہاں خدا سے بھی رابطہ ہوتاہے اور خدا کے بندوں سے بھی رابطہ رہتاہے ، مسجد میں ہی کمزور کو اپنی قوت اور غمزدہ کو صبر و تسلی ملتی ہے اور جو قبیلہ و خاندان نہ رکھتا ہو وہ اس چیز کو بھول کر مسجد میں اپنا خاندان اور قبیلہ پالیتاہے، محبت و غمخواری سے محروم شخص مسجد میں اپنی مراد پاتاہے_

اسی طرح مسجد عبادت او رتعلیم فقہ کی بھی جگہ ہے جہاں سے دین و دنیا کے امور میں رہنمائی ملتی ہے_مسجد اخلاقی و روحانی تربیت گاہ اور اجتماعی و فردی مشکلات کو حل کرنے کی جگہ بھی ہے_

مسجد کو بنانے میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت:

یقیناً خودمسلمان مسجد بنانے اور اس کے تعمیراتی کام کرنے کی قدرت رکھتے تھے اور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بنفس نفیس اس کام میں شرکت فرمانا ضروری نہیں تھا_ لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان تعمیراتی کاموں میں شرکت فرمائی ، اس چیز نے مسلمانوں کے دلوں میں ولولہ اور جوش پیداکیا اور وہ پوری کوشش اور توانائی کے ساتھ کام میں مصروف رہے اور کہتے تھے_

لئن قعدنا والنبی یعمل

لذاک منا العمل المضلل

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مسجد کے تعمیری کام میں شرکت کرنا جہاں مسجد کی تعمیر کی اہمیت کو اجاگر کرتا وہاں ایک اسلامی قائد اور حکمران کی شخصیت کو بھی اجاگر کرتاہے اور یہ عمل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بتاتاہے کہ کام کی اہمیت کے پیش نظر

۸۶

اس (قائد و حکمران کی )ذمہ داری ، حکم صادر کرنے کی حدود سے آگے خود عملی تک ہے ، خصوصاً جب کام ایسا ہو جس میں مسلمانوں کی مصلحت ، ہدف اصلی اور اسلام کی سربلندی پوشیدہ ہو_

مسجد کی تعمیر میں خواتین کا کردار:

بعض روایتوں میں آیاہے کہ عورتوں نے بھی مسجد کی تعمیر میں بھر پور حصہ لیا_ عورتیں مسجد کی تعمیر کے لئے رات کے وقت پتھروں کو اٹھاکر لاتیں اورمرد دن کے وقت یہ کام کرتے(۱) اس بارے میں ہم صرف دو نکات بیان کرتے ہیں:

ایک: جب ہم یہ تصور کرلیں کہ اس دور میں عورتوں کا زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی مقام بھی نہیں تھا اور عرب اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کے ساتھ نہایت ہی ظالمانہ اور گھٹیا سلوک روا رکھتے تھے جن کا نمونہ اس کتاب کی دوسری جلد میں ذکر ہوچکا ہے _ تو اس سمے ایسے کاموں میں عورتوں کا حصہ لینا سیاسی معاشرتی اور عبادتی لحاظ سے بہت ضروری اور نہایت ہی اہم کام شمار کیا جاتا تھا_

دو: عورتوں کے معاملہ میں خاص فضا کے حاکم ہونے کے پیش نظر عورتوں کی اس شرکت میں بھی حفاظتی تدابیر اختیار کی گئیں تا کہ وہ دن کے وقت مردوں کی موجودگی میں کام کرنے کی وجہ سے ان کے ساتھ گھلنے ملنے اور محفوظ نہ رہنے کی صورت میں معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرنے والی فضا سے بھی دور اور محفوظ رہیں_

صرف عورتوں کیلئے نماز جماعت:

کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے علیحدہ نماز جماعت قائم کی جاتی تھی مرد مسجد کے اندر نماز پڑھتے تھے اور خواتین سلیمان بن ابی حثمة کی امامت میں مسجد کے صحن میں نماز ادا کرتی تھیں ، جب حضرت عثمان خلیفہ بنے

____________________

۱)ملاحظہ ہو کشف الاستار عن زوائد البزار ج۱ ص ۲۰۶ و ص ۲۲۲ و ۲۴۹ و مجمع الزوائد_

۸۷

تو انہوں نے مردوں اور عورتوں کو اکٹھے نماز پڑھنے کا حکم دیا(۱) _

ظاہراً جماعت میں عورتوں اور مردوں کی جدا ئی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے بعد عمل میں آئی اور در اصل یہ جدائی جناب عمر بن خطاب کے دور میں اس کی ایجاد کردہ بدعت نماز تراویح کی جماعت میں ہوئی(۲) پھر عثمان نے آکر مردوں اور عورتوںکو ایک ہی جماعت میں کھڑا کیا _

اور جب حضرت علیعليه‌السلام خلیفہ بنے تو حسب سابق مردوں اور عورتوں کی نماز جماعت جدا ہونے لگی اور خواتین '' عرفجہ'' نامی شخص کی امامت میں نماز پڑھنے لگیں(۳) _-

لیکن ان روایات میں ایک اشکال ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ روایات کہتی ہیںکہ حضرت علیعليه‌السلام نے ماہ رمضان کی نماز میں ایسا کیا تھا یعنی نماز تراویح میں_

اور واضح ہے کہ علیعليه‌السلام اس کو بدعت سمجھتے تھے اور اس سے منع فرماتے تھے(۴) پس کسی طرح خود اس کو انجام دیتے تھے، پس صحیح یہ ہے کہ یہ چیز یومیہ نمازوں میں واقع ہوئی ہے نہ نماز تراویح میں _

یہ وہ بعض امور تھے کہ جن کو ہم نے مسجد کی تعمیر کے حوالے سے بیان کیا ہے اور اس سلسلہ میں مزید گفتگو کسی اور موقع پر کریں گے _

انشاء اللہ تعالی

____________________

۱) حیاة الصحابہ ج/۲ ص ۱۷۱ از طبقات ابن سعد ج/۵ ص ۲۶_

۲) ملاحظہ ہو: التراتیب الاداریہ ج۱ ص ۷۳ از طبقات_

۳) حیاة الصحابہ ج/۳ ص ۱۷۱ ، از کنز العمال ج/۴ ص ۲۸۲_

۴) دلائل الصدق ج/۳ جزء ۲ ص ۷۹ لیکن لوگوں نے آپعليه‌السلام کی نہی کی کوئی پروا نہیں کی_

۸۸

۳ _ مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ:

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینہ میں ورودکے کم و بیش پانچ یا آٹھ ماہ(۱) کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب یعنی مہاجرین اور انصارکے درمیان رشتہ اخوت برقرار کیا _ابن سعد نے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ آپ نے اسی وقت خود مہاجرین کے درمیان بھی مؤاخات برقرار کی(۲) _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حقوق اور مساوات پر ان کے درمیان مؤاخات برقرار فرمائی _(ایک قول کے مطابق وراثت پر مؤاخات قائم کی)لیکن مؤاخات رکھنے والوں میں سے کسی کے مرنے سے پہلے ہی سورة انفال نازل ہوئی جس نے وراثت کو رشتہ داروں کے لئے مخصوص کردیا(۳) کیونکہ کہتے ہیں کہ مہاجرین میں سے سب سے پہلے وفات پانے والے شخص عثمان بن مظعون ہیں اور وہ جنگ بدر کے بعد فوت ہوئے(۴) _ البتہ ہمیں وراثت کے لئے مواخات قائم کرنے میں شک ہے کیونکہ :

۱_ اگر اس حکم کو نسخ ہونا ہی تھا تو عمل کا وقت آنے سے پہلے نسخ معنی نہیں رکھتا کیونکہ اس سے لازم آتاہے کہ مؤاخات کرنے والے اشخاص کے درمیان وراثت کا قانون عبث و بے فائدہ ہو مگر یہ کہا جائے کہ اس مشکل دور میں اتنے عرصہ کے لئے بذات خود اس حکم کا جاری ہونا، مسلمانوں کا بھائی چارے کی فضا میں رہنا اور اتنی گہری رشتہ داری نہایت ضروری تھی_ لیکن ہم اطمینان سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ( یہ حکم نازل نہیں ہوا تھا بلکہ ) خود مسلمانوں یا کچھ مسلمانوں نے یہ گمان کرلیا کہ یہ بھائی چارہ ایک دوسرے سے وراثت لینے کی حد تک بھی پہنچ سکتاہے_

۲_ خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مہاجرین اور انصار میں سے جنگ بدر میں شہید ہونے والوں کو ایک دوسرے کا وارث کیوں نہیں ہونے دیا جبکہ یہ واقعہ آیت( اولوا الارحام بعضهم اولی ببعض ) کے نزول سے پہلے رونما ہوا_

____________________

۱) البحار ج/۱۹ ص ۱۲۲ ، اور ص ۱۳۰ کے حواشی از مناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص ۱۵۲، المواھب اللدنیة ج/۲ ص ۷۱ ، تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵ از اسد الغابہ، وفاء الوفاء ج/۱ ص ۲۶۷ ، فتح الباری ج/۷ ص ۲۱۰ ، السیرة الحلبیة ج/۲ ص ۹۲ _

۲) طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج/۱ جز ء ۲ ص ۱_ (۳)بحارالانوار ج۱۹ حاشیہ ص ۱۳۰ نیز سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۹۲ و ص ۹۳_

۴)الاصابہ ج۲ ص ۴۶۴ ، الکامل ابن اثیر مطبوعہ صادر ج۲ ص ۱۴۱_

۸۹

جبکہ ان کا یہ کہنا کہ''واقعہ بدر کے بعد وفات پانے والے عثمان بن مظعون سے پہلے کوئی مؤمن فوت نہیں ہوا'' بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ خود جنگ بدر میں کئی مسلمانوں نے شہادت پائی _ ہاں یہ ہوسکتاہے کہ عثمان بن مظعون طبیعی طور پر وفات پانے والے پہلے شخص ہوں یا مہاجرین میں سے وفات پانے والے پہلے مسلمان ہوں_

۳ _ یہ بات بھی یقینی نہیں ہے کہ عثمان بن مظعون کی وفات سابقہ حکم کو نسخ کرنے والی آیت کے نزول کے بعد ہوئی ہو_ کیونکہ یہ بات صرف مؤرخین اور مؤلفین کا اپنا اجتہاد اور ان کی ذاتی رائے ہے_

مؤاخات کرنے والوں کی تعداد:

کہتے ہیں کہ مؤاخات کے وقت مسلمانوں کی تعداد نوّے افراد تھی _پینتالیس آدمی انصار میں سے اور اتنے ہی مہاجرین میں سے تھے_ ابن الجوزی کا دعوی ہے کہ اس نے انہیں شمار کیا ہے وہ کل چھیاسی آدمی تھے_ ایک قول کے مطابق سو آدمی تھے(۱) _ البتہ ہوسکتاہے کہ یہ مواخات کل مسلمانوں کی تعداد کے برابر نہیں بلکہ اس واقعہ میں موجود مہاجرین کی تعداد کے برابر افراد کے درمیان ہوئی ہو کیونکہ یہ ایک نادر اتفاق ہی ہوسکتاہے کہ مسلمان مہاجرین کی تعداد بغیر کسی کمی بیشی کے اتنی ہی ہوجتنی انصار مسلمانوں کی تھی _ بہر حال پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ کام جاری رکھا یعنی جو بھی اسلام قبول کرتا یا کوئی مسلمان مدینہ میں آتا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کے ساتھ اس کی مؤاخات قائم فرماتے(۲) _اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مورخین نے ذکر کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوذر اور منذر بن عمرو کے درمیان مؤاخات قائم فرمایا حالانکہ ابوذر جنگ احد کے بعد مدینہ میں آئے اور اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زبیر اور ابن مسعود کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے(۳) _لیکن اس پر یہ اعتراض کیا جاسکتاہے کہ مسلمانوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی

____________________

۱) طبقات ابن سعدج/۱جزئ۲ص۱، المواھب اللدنیة ج/۱ ص ۷۱، فتح الباری ج/۷ ص۲۱۰،سیرة الحلبیة ج/ ۲ص ۹۰، البحارج /۱۹، ص۱۳۰ ،از المنتقی و المقریزی_

۲) فتح الباری ج/۷ ص ۲۱۱_

۳) فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵_

۹۰

کیونکہ عقبہ ثانیہ میں اہل مدینہ میں سے اسی(۸۰) سے زیادہ افراد نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی تھی _اسی طرح مدینہ میں تشریف فرمائی کے صرف دس یا تیرہ مہینے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو سپاہ جنگ بدرکے لیے تشکیل دی اس کی تعداد تین سو تیرہ افراد پر مشتمل تھی _

اس کا جواب یہ دیا جاسکتاہے کہ :

اولاً: بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مہاجرین کے ڈیڑھ سو افراد کی انصار کے ڈیڑھ سو افراد کے ساتھ مؤاخات برقرار کی تھی(۱) _

ثانیاً :اگر ہم قائل بھی ہوں کہ یہ قول درست نہیں کیونکہ جنگ بدر کے لئے جانے والے مہاجرین کی تعداد ساٹھ یا اسّی کے درمیان تھی ( بناء پر اختلاف اقوال) ، تو ہم یہ جواب دیں گے کہ روایت میں مؤاخات کرنے والوں کی تعداد ان مہاجرین کی ہے جنہوں نے اپنے انصار بھائیوں کے ساتھ بھائی چارہ کیا تھا_ کیونکہ انصار مہاجرین سے بہت زیادہ تھے جبکہ مہاجرین کی تعداد پینتالیس تھی پس مؤاخات ان کے اور اسی تعداد میں انصار کے درمیان تھی پھر جوں جوں مہاجرین کی تعدادبڑھتی گئی مؤاخات کا یہ عمل بھی جاری رہا یہاں تک کہ ان کی تعداد ایک سو پچاس تک پہنچ گئی جیسا کہ گذشتہ روایت میں وارد ہوا ہے_ پس مذکورہ تعداد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی انصار بھائی چارہ کئے بغیر رہ گئے تھے_

ہر ایک کا اس جیسے کے ساتھ بھائی چارہ

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر شخص اور اس جیسے کے درمیان مؤاخات برقرار فرماتے جیسا کہ ہجرت سے پہلے اور بعد والی مؤاخات سے ظاہر ہے کیونکہ بظاہر آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت سے پہلے حضرت ابوبکر اورحضرت عمر،طلحہ اور زبیر ، عثمان اور عبدالرحمان بن عوف اور اپنےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علیعليه‌السلام کے درمیان مؤاخات برقرار فرمائی(۲) لیکن ابن حبان

____________________

۱) البحار ج/۱۹ ص ۱۳۰_

۲)مستدرک الحاکم ج/۳ص۱۴، وفاء الوفاء ج/۱ ص ۲۶۷ و ص۲۶۸، السیرةالحلبیةج/۲ص۲۰، السیرة النبویہ دحلان ج/۱ ص ۱۵۵ ، فتح الباری ج/۷ ص ۲۱۱ نیز الاستیعاب_

۹۱

کہتاہے کہ یہ مدینہ میں دوسری مؤاخات تھی اور اس نے سعد بن ابی وقاص اور عمار بن یاسر کا اضافہ کیا ہے(۱) اور یہ سب کے سب مہاجرین میں سے تھے_

اور مدینہ میں ابوبکر اور خارجہ بن زھیر نیز عمر اور عتبان بن مالک کے درمیان رشتہ اخوّت برقرار فرمایا _ پھر علیعليه‌السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ'' میرا بھائی ہے ''_ اسی طرح حمزہ اور زید بن حارثہ کے درمیان نیز جعفر بن ابی طالب اور معاذ بن جبل کے درمیان بھی مؤاخات برقرار فرمائی اور اسی آخری مؤاخات پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ جعفر تو اس وقت حبشہ میں تھے(۲) اور اس کا جواب وہی ہے جو پہلے گزر چکاہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کے درمیان مؤاخات قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا یعنی جب بھی کوئی مدینہ میں آتا تو اسے کسی کا بھائی بنادیتے بعض نے یہ جواب بھی دیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جعفرعليه‌السلام کی آمد پر معاذ کوجعفر کے ساتھ مؤاخات کے لئے تیار کررکھا تھا(۳) _

البتہیہاں پر ایک سوال سامنے آتاہے کہ جعفر کو اس امر کے ساتھ خاص کرنے کی کیا وجہ تھی ؟ یہاںیہ کہا جاسکتاہے کہ شاید جعفر کی شان اور اہمیت کا اظہار اور اس کی بیان فضیلت مقصود تھی_

علیعليه‌السلام کے ساتھ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مؤاخات :

احمد بن حنبل و غیرہ نے روایت کی ہے کہ: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کے درمیان مؤاخات برقرار فرمائی اور علیعليه‌السلام کو آخر تک چھوڑے رکھا یہاں تک کہ ان کے لئے کوئی بھائی نہ بچا تو علیعليه‌السلام نے عرض کیا :''یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب کے درمیان تورشتہ اخوت قائم کردیا لیکن مجھے چھوڑ دیا ''؟ تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''میں نے تجھے صرف اپنے لئے رکھاہے _تو میرا بھائی ہے اور میں تیرا بھائی ہوں_پس اگر کوئی تجھ سے پوچھے تو کہنا ''انا عبداللہ و اخو رسول اللہ '' میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہوں _ تیرے بعد

____________________

۱) الثقات ج/۱ص ۱۳۸ ، ۱۴۲_ (۲) سیرة ابن ھشام ج/۲ ص ۱۵۱ نیز السیرة الحلبیة و غیرہ_

۳) البدایة النہایةج/۳ ص ۲۲۷ ، السیرة الحلبیة ج/۲ ص ۹۱_

۹۲

صرف بہت بڑا جھوٹا شخص ہی اس چیز کا دعوی کرے گا مجھے حق کے ساتھ مبعوث کرنے والی ذات کی قسم میں نے تجھے مؤخر نہیں کیا مگر اپنے لئے اور میرے ساتھ تیری وہی نسبت ہے جو ہارونعليه‌السلام کی موسیعليه‌السلام سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور تو میرا بھائی اورمیرا وارث ہے''(۱) _

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی جملہ''انا عبدالله و اخو رسوله'' (میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہوں) حضرت علیعليه‌السلام نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد اس وقت فرمایا جب حادثات زمانہ کے سبب پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جانشین سے خلافت غصب کرلی گئی_ لیکن صحابہ نے آپ کو جھٹلایا اور جواب میں کہنے لگے : ''خدا کے بندے ہونے والی بات تو ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہونے والی بات نہیں ''(۲)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان '' تو میرا بھائی اور میرا وارث ہے '' سے یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد یہ تھی ''کہ علیعليه‌السلام نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علم کے وارث ہیں نہ کوئی اور'' تو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقام و منصب کا علیعليه‌السلام کے علاوہ اور کون حقدار ہوسکتاہے؟ اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد یہ تھی کہ (علیعليه‌السلام ہر لحاظ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وارث ہیں حتی کہ مال و جائیداد کے بھی) تو یقیناً مال و جائیداد حضرت فاطمہ علیہا السلام کا ہی حق تھا(۳) جبکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خلافت کے غاصب ، حضرت فاطمہعليه‌السلام کے اموال پربھی مسلّط ہوگئے اورفدک و غیرہ بھی انہی اموال میں سے تھا جس کا ذکر انشاء اللہ اسی کتاب میں غزوہ بنی نضیر پر گفتگو کے دوران ہوگا_ بہر حال بات جو بھی ہو، بھائی چارے والے واقعہ میں غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اس کا م میں لوگوں کی سنخیت ، مشابہت اور دلی رجحان کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا اور اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مرحوم ازری نے حضرت علیعليه‌السلام کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا :

____________________

۱) نہج الحق (دلائل الصدق کے متن کے ضمن میں) ج/۲ ص ۲۶۷ ، ینابیع المودة ص ۵۶ تذکرة الخواص ص ۲۳ ، احمد سے ( اس کی کتاب الفضائل سے ) اور اس نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور ابن جوزی نے بھی نیزکنز العمال ج/۶ ص ۳۹۰ ، الریاض النضرة ج/ ۲ ص ۲۰۹ ، تاریخ ابن عساکر ج/۶ ص ۲۱ ، کفایة الشنقیطی ص ۳۵ ، ۴۴، الثقات ج ۱ ص ۱۴۱ تا ص ۱۴۲ _ (۲)الامامة والسیاسة ج۱ ص ۱۳ ، اعلام النساء ج۴ ص ۱۱۵ نیز تفسیر البرہان ج۲ ص ۹۳_

۳)ملاحظہ ہو: الکافی ج۱ ص ۴۵۸ با تحقیق غفاری ، بحار طبع تختی ج۸ ص ۲۳۱ نیز طبع جدید ج ۱۰۰ ص ۱۹۷ ، کشف الغمہ ج۲ ص ۱۳۲ امالی شیخ طوسی ج۱ ص ۱۰۸ ، العوالم ج۱۱ ص ۵۱۸ ، امالی شیخ مفید ص ۲۸۳ مطبوعہ جامعہ مدرسین نیز ملاحظہ ہو: مرآة العقول ج۵ ص ۳۳۱و غیرہ_

۹۳

لک ذات کذاته حیث لو لا

انها مثلها لما آخاها

(یا علیعليه‌السلام ؟) آپعليه‌السلام کی ذات اور شخصیت بھی آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت کی مانند تھی _ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی بھی آپعليه‌السلام کو اپنا بھائی نہ بناتے_

حدیث مؤاخات کا تواتر:

بہر حال حدیث مؤاخات متواتر ہے اور اس کا انکار ممکن نہیںبلکہ اس میں شک و شبہہ کی بھی کوئی گنجائشے نہیں ہے _ خصوصا ً نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علیعليه‌السلام کے درمیان مؤاخات چاہے مکہ میں ہونے والی پہلی مؤاخات ہو یا مدینہ میں ہونے والی دوسری مؤاخات اور یہ حدیث دسیوں صحابہ اور تابعین سے مروی ہے جیسا کہ حاشیہ میں درج منابع(۱) سے معلوم ہوتاہے_

اور مروی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام سے فرمایا: '' جب قیامت کا دن ہوگا تو عرش کے درمیان سے مجھے یہ کہا جائے گا کہ بہترین باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بابا ابراہیمعليه‌السلام اور بہترین بھائی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی علیعليه‌السلام بن ابی طالب ہیں ''(۲)

____________________

۱) تاریخ الخمیس ج/۱ص۳۵۳،وفاء الوفاء ج/۱ص ۲۶۷،و ص۲۶۸، ینابیع المودة ص ۵۶ ، ۵۷ (مسند احمد سے ) تذکرة الخواص ص ۲۲ ، ۲۴ میں ترمذی سے نقل ہواہے کہ اس نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے، السیرہ الحلبیةج/۲ص ۲۰وص ۹۰ ، مستدرک الحاکم ج/۳ ص ۱۴ ، الثقات لابن حبان ج/۱ ص ۱۳۸ ، فرائد السمطین ج / ۱، باب ۲۰ ، الفصول المہمة ابن الصباغ ص۲۲، ۲۹، البدایة والنھایة ج/۳ ص ۲۲۶، اور ج/۷ ص ۳۵ ، تاریخ الخلفاء ص ۱۷۰، دلائل الصدق ج/۲ص ۲۶۸ ، ۲۷۰ ، صاحب دلائل الصدق نے یہ حدیث کنز العمال، سنن بیہقی اور ضیاء کی کتاب المختارة سے، عبداللہ بن احمد بن حنبل کے زیادات المسند سے آٹھ احادیث اور اس کے و الد کی المسند اور الفضائل ،سے ابویعلی ، الطبرانی ، ابن عدی اور الجمع بین الصحاح الستة سے نقل کیا ہے ، خوارزمی نے بارہ احادیث اور ابن مفازلی نے آٹھ حدیثیں درج کی ہیں سیرة ابن ھشام ج/۲ ص ۱۵۰ ، الغدیر ج/۳ ص ۱۱۲ تا ص ۱۲۵ میں بعض مذکورہ کتب اور مندرجہ ذیل کتب سے نقل ہے : جامع الترمذی ج/۲ ص ۱۳، مصابیح البغوی ج/۲ ص ۱۹۹ ، الاستیعاب ج/۲ ص ۴۶۰ ، زندگانی امیر المؤمنین ، اس نے حدیث مؤاخات کو مسلم احادیث میں سے شمارکیاہے تیسیر الوصول ج/۳ ص ۲۷۱،مشکاةالمصابیح (حاشیہ مرقاة) ج/۵ ص ۵۶۹ ، المرقاة ص ۷۳ تا ص ۷۵ ، الاصابة ج/۲ ص ۵۰۷ ، المواقف ج/۳ ص ۲۷۶ ، شرح المواہب ج/۱ ص ۳۷۳ ، طبقات الشعرانی ج/۲ ص ۵۵ ، تاریخ القرمانی( حاشیہ الکامل ) ج/۱ ص ۲۱۶ ، سیرة دحلان (حاشیہ حلبیہ پر) ج/۱ ص ۳۲۵ ،کفایة الشنقیطی ص ۳۴، الامام علی( تالیف محمدرضا) ص۲۱ ، الامام علی( تالیف عبدالفتاح عبدالمقصود) ص ۷۳، الفتاوی الحدیثیتہ ص۴۲ ، شرح النہج ج / ۲ ، ۶۲ ، اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور اسے روایات مستفیضہ میں سے شمار کیا ہے ، کنز العمال ج/۶ ص ۲۹۴ ص ۲۹۹ ، ۳۹۰،۳۹۹، ۴۰۰ ، ۵۴ _

۲)ربیع الابرار ج۱ ص ۸۰۷ و ص ۸۰۸_

۹۴

اس بناء پریہ دعوی قابل سماعت ہی نہیں کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علیعليه‌السلام اور عثمان کے درمیان مؤاخات برقرار فرمائی(۱) یا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عثمان کے درمیان مؤاخات ہوئی ، کیونکہ یہ بات بلاشک و شبہہ درست نہیں ہے(۲) _ اس لئے کہ اس بات سے ان کامقصد عثمان کی شان کو بڑھانا اور علیعليه‌السلام کی فضیلت کو جھٹلانا ہے بلکہ عثمان اور علیعليه‌السلام کو ایک ہی مقام پر لاکھڑا کرناہے _یہ کیسے ہوسکتاہے ؟ اور کب ایسا ہوا ہے ؟

حضرت علی علیہ السلام کو ابوتراب کی کنیت ملنا :

یہاں پر کچھ حضرات نے ذکر کیا ہے کہ جب علیعليه‌السلام نے دیکھا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے اور کسی اور شخص کے درمیان مؤاخات برقرار نہیں فرمائی تو غمگین اور دل برداشتہ ہوکر مسجد کی طرف گئے اور مٹی پر سوگئے پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپعليه‌السلام کے پاس آئے اور آپعليه‌السلام کی پشت سے مٹی جھاڑنا شروع کی اور فرمانے لگے ( قم یا اباتراب) یعنی اے ابوتراب کھڑے ہو جاؤ اور پھر انعليه‌السلام کے اور اپنےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم درمیان مؤاخات برقرار فرمائی(۳) _

اور ہم انشاء اللہ عنقریب سرایا کی بحث میں اس پر گفتگو کریں گے_

علیعليه‌السلام کے ساتھ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مؤاخات کے منکرین:

اتنے گذشتہ منابع کے باوجود ( جن کی تعداد توبہت زیادہ ہے لیکن ہم نے ان میں سے بہت کم کا ذکر کیا ہے) ابن حزم اور ابن کثیر حدیث مواخات کی سند کے صحیح ہونے کا انکار کرتے ہیں(۴) اور اسی طرح ابن تیمیہنے بھی اس کا انکار کیا ہے اور اس حدیث کو اس دلیل کے ساتھ باطل اور جعلی قرار دیاہے کہ مہاجرین

____________________

۱)تاریخ ابن خلدون ج/۲ص ۳۹۷ اور الغدیر ج/۹ ص۹۴ ، ۹۵ اور ۳۱۸ میں الریاض النضرة ج/۱ ص ۱۷، طبری ج/۶ ص ۱۵۴ ، کامل ابن اثیر ج/۳ ص ۷۰ اور معتزلی ج/ ۱ ص ۱۶۵ سے نقل کی ہے لیکن خود اس نے ج/۲ ص ۵۰۶ میں اس حدیث کونقل کیا ہے اور مؤاخات میں اس کا ذکر نہیں کیا _

۲) طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج/۳ ص ۴۷ ، الغدیر ج/۹ ص ۱۶ طبقات سے_ (۳) الفصول المہمة لا بن الصباغ ص ۲۲، مجمع الزوائد ج/۹ ص ۱۱۱طبرانی کی الکبیر اور الاوسط سے، مناقب الخوارزمی ص ۷، کفایة الطالب ص ۱۹۳ ،از ابن عساکر _

۴) البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۲۳ ، ۳۳۶_

۹۵

اور انصار کے درمیان مؤاخات برقرار کرنے کی غرض یہ تھی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے الفت و محبت پیدا ہو پس نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اور مہاجرین کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ مؤاخات قائم کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا(۱) _

ہم کہتے ہیں کہ :

علیعليه‌السلام کے ساتھ نبی اکرم کی مؤاخات والی حدیث کی سند کا انکار بے معنی ہے جب کہ محققین اور بزرگان میں سے بہت سی شخصیات نے اسے صحیح قرار دیاہے اوردسیوں صحابہ ،تابعین اور علماء و غیرہ سے مسلمانوں کی کتابوں میں اور تواتر کے ساتھ یہ حدیث نقل کی گئی ہے خصوصاً جب یہ انکار ان تین اشخاص ( ابن حزم ، ابن کثیر اور ابن تیمیہ) سے ہو جو علیعليه‌السلام اور اہل بیت طاہرین علیھم السلام کے فضائل کے سلسلہ میں متعصب اور ان سے دشمنی میں معروفہیں_ جس چیز کو ابن تیمیہ نے اپنے انکار کرنے کی علت کے طور پر ذکر کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے :

۱_ بہت سے حضرات نے بھی یہ جواب دیا ہے کہ یہ قیاس کے ذریعہنص کی تردید اور اس مسئلہ میں حقیقی حکمت سے غفلت ہے _ کیونکہ کچھ مہاجرین دوسروں کی نسبت مال اور قبیلہ کے لحاظ سے مضبوط حیثیت کے مالک تھے _ اس وجہ سے ایکدوسرے کی مدد بھی ممکن تھی پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان مہاجرین کے درمیان مؤاخات قائم کی تا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں _ پھر انہوں نے اسی احتمال کو علیعليه‌السلام اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی منطبق کیا ہے کیونکہ بعثت سے پہلے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیعليه‌السلام کی کفالت کیا کرتےتھے(۲) یعنی مہاجرین کے درمیان بھی باہمی محبت اور الفت مطلوب تھی کیونکہ یہ لوگ مختلف گروہوں سے تعلّق رکھتے تھے اور مختلف عقید وں ، ذہنیت اور معاشروں کے مالک تھے_

____________________

۱) ملاحظہ ہو: منھاج السنةج/۲ص۱۱۹،البدایةوالنھایة ج/۳ص۲۲۷،فتح الباری ج/۷ص۲۱۱،السیرةالنبویة لدحلان ج/۱ص۵ ۱۵ ، السیرة الحلبیةج/۲ص۲۰،دلائل الصدق ج/۲ ص ۲۷۲_

۲)وفا الوفاء ج/۱ ص ۲۶۸، فتح الباری ج/۷ ص ۲۱۱،والسیرة الحلبیة ج/۲ص ۲۰، السیرة النبویة لدحلان ج/۱ص ۱۵۵، الغدیر ج/۳ ص ۱۷۴تا ۱۷۵ ، عن الفتح عن الزرقانی فی شرح المواھب ج/۱ ص ۳۷۳_

۹۶

بلکہ مواخات کی نصّ میں یہ تصریح وارد ہوئی ہے کہ یہ مؤاخات حق اور ایک دوسرے کی حمایت پر مبنی تھی اور مہاجرین کو ایک دوسرے کی حمایت کی ضرورت تھی کیونکہ خود ان کے بقول اگر کسی ایک قبیلہ سے ایک آدمی نے ہجرت کی تھی تو دوسرے قبیلہ سے دس آدمیوں نے ہجرت کی تھی پس اس ایک کو ان دس افراد کی جانی اور مالی امداد کی ضرورت ہوتی تھی_ اسی طرح بعض حضرات نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ کچھ مہاجرین اپنا مال اپنے ہمراہ لائے تھے پس اگر ان کا یہ دعوی صحیح ہو تو ان کے لئے ایک دوسرے کی مالی امداد ممکن تھی_

لیکن حضرت علیعليه‌السلام اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہ نسبت ہمیں ان کے اس قول سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ حضرت علیعليه‌السلام تو اس حد تک پہنچ چکے تھے کہ کام کر کے اپنی کفالت خود کرسکیں اور زراعت یا تجارت بلکہ غنائم سے اپنی ضروریات کو پورا کرسکیں _نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آپ سے مواخات برقرار کر نے کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپعليه‌السلام کی شان اورمنزلت کی پہچان کروائی جائے اور ووسرے لوگوں پر آپ کی فضیلت کا اظہار کیا جائے کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک جیسے اشخاص کے درمیان رشتہ اخوّت برقرار فرمایاتھا_ جیسا کہ مؤرخین نے اس بات کی تصریح کی ہے اور خود مؤاخات کے عمل پر غور کرنے سے بھی یہ واضح ہوجاتا ہے ،کیونکہ یہی چیز باہمی تعاون میں زیادہ ممّد و معاون اور باہمی محبت و الفت کے لئے زیادہ ضروری ہے_(۱)

۲_ حاکم اور ابن عبدالبر نے سند حسن کے ساتھ یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زبیر اور ابن مسعود کے درمیان رشتہ اخوت قائم کیا حالانکہ وہ دونوں مہاجرین میں سے تھے اور ضیاء نے اس روایت کو اپنی کتاب ( المختارة من المعجم الکبیرللطبرانی) میں درج کیا ہے اور خود ابن تیمیہ نے تصریح کی ہے کہ المختارة کی احادیث المستدرک سے زیادہ صحیح اور با وثوق ہیں_(۲)

لیکن ضروری ہے کہ یہ مواخات ابن مسعود کے مدینہ میں آنے کے بعد واقع ہوئی ہو کیونکہ ابن مسعود حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے تھے اور عمومی مواخات کے واقعہ کے بعد اس وقت مدینہ میں آئے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بدر کے لئے جنگی تیاریوں میں مصروف تھے_(۳)

____________________

۱) دلائل الصدق ج/۲ ص ۲۷۲ / ۲۷۳_

۲) فتح الباری و فاء الوفا ء ج / ۱ ، ص ۲۶۸ _ الغدیر ج/۳ ص ۱۷۴ ، ۱۷۵ ازالفتح و از شرح المواہب للزرقانی ج/۱ ص ۳۷۳ _

۲) فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵_

۹۷

اسی طرح ہجرت کے بعد (بعض کے بقول ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوبکر او ر حضرت عمر ، حضرت عثمان اور عبدالرحمان بن عوف ، طلحہ اور زبیر ، سعد بن ابی وقاص اور عمار بن یاسر اور اپنے اور حضرت علیعليه‌السلام کے درمیان مؤاخات قائم کی _(۱)

اور اسی طرح زید بن حارثہ کی حضرت حمزہ کے ساتھ مؤاخات بھی ثابت ہے جب کہ وہ دونوں مہاجر تھے_ اس لئے تو کہا جاتاہے کہ حمزہ کی بیٹی کی کفالت کے سلسلہ میں زید ، علیعليه‌السلام اور جعفر کے درمیان کشمکش ہوئی تو زید کی دلیل یہ تھی کہ وہ اس کے بھائی کی بیٹی ہے_(۲)

البتہ حمزہ کی بیٹی کی کفالت کے سلسلہ میں واقع ہونے والے اختلاف کے متعلق ہمیں شک ہے کیونکہ حضرت حمزہ کی شہادت کے وقت جناب جعفر موجود ہی نہیں تھے جبکہ اس صورت میں برسوں تک جناب حمزہ کی بیٹی کا کسی سرپرست کے بغیر رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے _ کیونکہ اگر اتنے عرصے میں وہ جناب علیعليه‌السلام کے پاس رہی تو اتنے عرصے تک زید نے کیوں خاموشی اختیار کئے رکھی اور حضرت علیعليه‌السلام سے تنازعہ کیوں نہیں کیا_ اور اسی طرح بر عکس ، اگر وہ حضرت علیعليه‌السلام کے پاس نہیں بلکہ زید کے پاس تھی تو حضرت علیعليه‌السلام نے اتنے عرصے تک اس سے بحث کیوں نہیں کیا؟ _ بہر حال جناب حمزہ کی بیٹی کی کفالت کے سلسلے میں مذکورہ تنازعہ مزید تحقیق کا محتاج ہے_ بارگاہ رب العزة میں دعا ہے کہ ہمیں کسی مناسب فرصت میں اس کی تحقیق کرنے کی توفیق عنایت فرمائے_

ان شاء اللہ تعالی

____________________

۱) الثقات لابن حبان ج/۱ص ۱۳۸ تا۱۴۲، اور ملاحظہ فرمائیں الغدیر ج/۱۰ص ۱۰۳تا ۱۰۷،مستدرک الحاکم ج/۳ ص ۱۴ وفاء الوفاء ج/۱ ص ۲۶۸ السیرة الحلبیة ج/۲ ص۲۰، السیرةالنبویةلدحلان ج /۱ص ۱۵۵،فتح الباری ج/۷ص۲۱۱،نیز الاستیعاب میں حضرت عثمان کا ذکر ہے جب کہ وہ حبشہ میں تھے اور اسی طرح عبدالرحمن بن عوف کا ذکر کرنا اس بات کی تائید ہے کہ یہ مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد دوسری مواخات تھی_

۲) صحیح البخاری ج/۳ص ۳۷ط المیمنیة ،مستدرک الحاکم ج/۲ص۱۲۰ تلخیص المستدرک لذھبی صفحہ مذکور کے حاشیہ پر و دیگر منابع _

۹۸

کچھ مواخات کے متعلق :

الف : بہترین متبادل

واضح سی بات ہے کہ یہ نو مسلم اپنے قوم ، قبیلے اور برادری سے در حقیقت بالکل کٹ کر رہ گئے تھے_حتی کہ ان کے عزیز ترین افراد بھی دھمکیوں اور ایذاء رسانیوں کے ساتھ ان کے مقابلے پر اتر آئے تھے_ ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ اپنے رشتہ داروں نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا اور وہ بے کس اور لا وارثوں کی طرح ہوگئے تھے_ اور بعض افراد کو یہ احساس بھی تھا کہ اب وہ بالکل اکیلے اور بے یار و مدد گار ہوگئے ہیں_ یہاں پر اسلامی برادری اور اخوت ان کے اس خلاء کو پر کرنے، اکیلے پن کے احساس کو ختم کرنے اور ان کے اندر مستقبل کی ا مید اور اس پر یقین جگانے کے لئے آئی _ اور اس مواخات نے ان کے اندر اتنا گہرا اثر چھوڑا کہ وہ اتنا تک سمجھنے لگے کہ یہ بھائی چارہ تمام امور میں ہے حتی کہ وراثت میں بھی برابری اور ساجھا ہے_ جس کی طرف ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے_

ب: انسانی روابط کا ارتقائ

عمل مواخات سے غرض یہ تھی کہ اس سے انسانی روابط کو مصلحت اندیشی کے دائرہ سے بلند تر کر دیا جائے اور انہیں اتنے حد تک خالص الہی روابط میں تبدیل کردیا جائے کہ وہ حقیقی اخوت و برادری تک پہنچ جائیں اور مسلمانوں کے باہمی لین دین میں یہ تعلق داری ہماہنگی و ہمنوائی کی صورت میں ظاہر ہو اور ایسی ذاتی رنجشوں سے بہت دور ہو جو بسا اوقات آپس میں تعاون کرنے والے دو بھائیوں کے درمیان چاہے نجی اور ذاتی طور پر ہی سہی ، کسی نہ کسی معاملے میں قطع تعلق کا باعث بنتی ہیں_

اگر چہ اسلام نے نظریاتی طور پر مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے اور یہ تاکید کی ہے کہ ہر مؤمن دوسرے مؤمن کابھائی ہے چاہے وہ اسے اچھا لگے یا بُرا _ اور ہر مؤمن کے لئے یہ ضروری قراردیا ہے کہ وہ

۹۹

اس اخوت اور برادری کے تقاضوں کو پورا کرے _ لیکن اس کے با وجود اس محبت ، صداقت اور عشق کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے اس برادری کا عملی مظاہرہ بھی ضروری تھا_ کیونکہ ایک اعلی مقصد کے لئے بے مثال نمونہ کا ہونا ضروری ہے_

ج: نئے معاشرے کی تشکیل میں مؤاخات کا کردار:

حضرت رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک ایسے جدید معاشرے کی تشکیل کے در پے تھے جو فلاح و بہبود کی بہترین مثال ہو اور ہر قسم کے حالات و شرائط میں دعوت الی اللہ اور دین خدا کی نصرت کی راہ میں پیش آنے والی ہر قسم کی مشکلات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو_

مسجد نبوی کی تعمیر کی بحث میں گزر چکاہے کہ خود مہاجرین ،خود انصار اور ان دونوںکے درمیان بہت زیادہ معاشرتی ، قبائلی ،خاندانی ، ذاتی ، جذباتی حتی کہ گہرے عقائدی اور نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے_ علاوہ ازیں کچھ ایسے اقتصادی اور نفسیاتی حالات بھی تھے جو خاص کر مہاجرین کے لئے پریشان کن تھے _اس کے ساتھ ساتھ مزید کچھ خطرات بھی اس نو خیز معاشرے کو در پیش تھے یہ خطرات چاہے داخلی ہوں جیسے اوس اور خزرج کے باہمی اختلافات کے خطرات تھے جن میں سے اکثر ابھی تک بھی مشرک تھے، پھر ان میں سے بعض منافق بھی تھے ، ساتھ ہی مدینہ کی یہودیوں سے بھی خطرات در پیش تھے_ اور چاہے وہ خارجی ہوں جیسے جزیرة العرب کے یہودیوں اور مشرکوں کے خطرات بلکہ پوری دنیا سے خطرات در پیش تھے_

اس نئے دین کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے اور اسکے دفاع کیلئے عملی طور پر ایک عظیم ذمّہ دار ی اس معاشرے کے کندھوں پر تھی، ان حالات میں قبیلوں ، گروہوں اور افراد میں بٹے اور بکھرے اس معاشرے میںمضبوط روابط کو وجود میں لانا ضروری تھا تا کہ معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ ایک محکم رشتہ میں منسلک ہوجائیں_ اور مضبوط احساسات اور جذبات کی ایسی عمارت کھڑی کرنے کی ضرورت تھی جو عقیدے کی بنیاد پر استوار ہو _اس طرح اس نئے معاشرے میں کسی بھی فرد پر ظلم و زیادتی نہ ہو اور معاشرے

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460