الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 200022
ڈاؤنلوڈ: 4015

تبصرے:

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200022 / ڈاؤنلوڈ: 4015
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے عمار کی نصرت و تائید کا راز:

اس قصے سے ظاہر ہوتاہے کہ اس وقت مسلمان شعور و ادراک کے اس درجہ پر فائز تھے کہ وہ اپنے اس عمل کو اپنی دنیا کیلئے نہیں بلکہ ذخیرہ آخرت سمجھتے ہوئے انجام دیتے تھے اور ان کے اعمال اور افکار و نظریات میں آخرت ہی کو اولین و آخرین مقام حاصل ہونا چاہئے تھا، اس لئے کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور اس کے علاوہ اصلاً زندگی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، اور وہاں کی ناکامی ہی حقیقی ناکامی اور خسارہ ہے ...''

اللّهم لا عیش الا عیش الآخرة

فارحم الانصار و المهاجرة

(حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اے اللہ مہاجرین و انصار پر اپنی رحمتیں نازل فرما)_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک حدیث(۱) کے مطابق حضرت عمار کا پورا وجود نور ایمان سے منور تھا، راہ خدا میں انہوں نے بہت سی مشکلات اور تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اپنے دین و عقیدے کی خاطر خلوص دل سے مصروف عمل رہے ، چنانچہ جب بعض افراد کی طرف سے حضرت عمار کو دھمکیاں دی گئیں تو ایسے میں آنحضرت کی طرف سے ان کی حمایت و نصرت ،ان کے اعمال و افکار کی تائید تھی اور دھمکیاں دینے والے نیز تعمیر مسجد کے وقت اپنے آپ کو مٹی اور گرد و غبار سے بچانے والے کا عمل بتارہا تھا کہ وہ ایمان کے لحاظ سے مطلوبہ سطح فکر کا حامل نہیں تھا اور دنیا ہی اس کیلئے سب کچھ تھی جیسا کہ اس شخصیت کے بعد کے اعمال و کردار نے اس بات کو روز روشن کی طرح عیاں کردیا_

ان حالات میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے حضرت عمار کی نصرت و حمایت اس بات پر دلالت کررہی تھی کہ حضرت عمار اپنے دین اور عقیدے کی راہ میں خلوص دل سے جہاد و کوشش میں مصروف تھے_

یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ حضرت عثمان نے حضرت عمار کی تحقیر و توہین کے ارادے سے انہیں ان کی ماں کی نسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : '' اے سمیہ کے بیٹے یہ کس کی عیب جوئی کررہے ہو'' حالانکہ حضرت عمار کی والدہ محترمہ وہ پہلی مسلمان خاتون ہیں جو شہادت کے عظیم

____________________

۱)البدایہ والنہایہ ج۷ ص ۳۱۲ ، سنن نسائی ج۸ ص۱۱۱ ، الاصابہ ج۲ ص ۵۱۲ ، تہذیب التہذیب ج۷ ص ۴۰۹ ، حلیة الاولیاء ج۱ ص ۱۳۹ ، سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۵۲ والاستیعاب ( بر حاشیہ الاصابہ) ج۲ ص ۴۷۸_

۸۱

منصب پر فائز ہوئیں اور جنہیں ان کے دین و عقیدے کی بناپر ظلم و تشدد کے ذریعہ شہید کردیا گیا _

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمار کے حامی و ناصر حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کی صابرہ اور مجاہدہ ماں کی عظیم شان و منزلت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں والدہ سے نسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :''یابن سمیة لا یقتلک اصحابی الخ'' _

پہلے مسجد کی تعمیر کیوں؟

غور طلب بات یہ ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں سب سے پہلے جس کام کو شروع کیا وہ مسجد کی تعمیر تھی اور اس کام کی بڑی اہمیت اور خاص وجہ تھی اوراس کی وجہ یہ تھی کہ :

اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ تھے ، مہاجرین اور انصار_ یہ دو گروہ فکری ، روحانی، اقتصادی، اور عادات و اطوار کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف تھے، خود مہاجرین بھی مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے جو آپس میں فکری، معاشرتی ، مادی اور روحانی لحاظ سے الگ الگ صفات و خصوصیات کے حامل تھے،نیز انہوں نے اپنا گھر با ر چھوڑ کر وہاں سے ہجرت کرلی تھی اور اب وہ بے وطن اور بے گھر ہوچکے تھے_ اسی طرح انصار بھی ایک دوسرے پر غلبہ و تسلط کے متمنی دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے اور ماضی قریب میں کئی دفعہ ان کے درمیان تباہ کن جنگیں بھی ہوچکی تھیں_

اس بات کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ منزل و مقصود کے حصول میں اہداف، رسومات اور محسوسات و غیرہ کا اثر بہت ہی بنیادی ہے لہذا ان امور میں نظم و انسجام بہت ضروری ہے_

اور اسلام تمام لوگوں کے عقائد و نظریات کو اسلامی قالب میں ڈھالنا چاہتا ہے تا کہ وہ سب ایک ہی جسم کی مانند ہوجائیں اور ہر قسم کی مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کے کام آئیں_ نیز ان کی کوششیں ، اہداف ، اغراض و مقاصد ، موقف اور حرکات و سکنات سب یک سو ہوجائیں_ اور یہ چیز ایک دوسرے کے ساتھ رہن سہن کو ممکن بنانے کے لئے ان لوگوں کی نفسیاتی ، اخلاقی اور فکری تربیت کی ضرورت کو مزید واضح کردیتی

۸۲

ہے_ تا کہ وہ لوگ ایک پروردگار ، ایک ہدف اور ایک مقصد رکھنے والی امت کے بنیادی عنصر یعنی معاشرے کو خود کفیل اور ہم نوا بنانے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرسکیں_ اور یہ معاشرہ مدینہ کے یہودیوں ، عربوں اور مشرکوں بلکہ پوری دنیا سے در پیش خطرات کے مقابلے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور رسالت کی حمایت ،حفاظت اور دفاع کر سکے_ اس لئے اس معاشرے کے فکری اور مادی وسائل اور طاقتوں کو ایک ہی ہدف یعنی رسالت کی خدمت کے لئے ڈھالنا ضروری تھا_

اور مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں یہ سب اہداف حاصل ہوسکتے ہیں کیونکہ مسجد صرف عبادت ہی کی جگہ نہیں ہے ، بلکہ وہ فکری اور ذہنی تربیت اور تہذیب کا ایک بہترین اور اعلی مقام ہے_ بلکہ ہمارا مدّعا تو یہ ہے کہ وہ آج بھی ثقافتی ، فکری اور نظریاتی اتحاد اور انسجام کا بہترین ذریعہ ہے_ کیونکہ جب فرض یہ ہے کہ یہ تعلیمات ایک ہی سرچشمہ سے بیان ہوئی ہیں اور زندگی کے تمام مراحل میں ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے ساتھ ہی ذہنوں میں اللہ تعالی کا تقدس اور اس سے رابطہ کا تصور ہو، تو اس سے مسلم معاشرہ اس فکری تصادم سے بچ سکتا ہے جو ہر کسی کی اپنی ثقافت کی وجہ سے پیش آنے والی ثقافتی عدم ہم آہنگی سے پیدا ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے پھر مفاہیم، افکار اور ذہنی اور دیگر سطح کی جنگ چھڑ جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ خلا اور دوریاں بڑھتی رہتی ہیں پھر تو واضح طور پر ان اہداف اور ان علامات و غیرہ میں عدم ہم آہنگی نظر آتی ہے جن کا ہدف تک پہنچنے میں بہت بڑا کردار ہوتا ہے_

پس مسجد انسانوں کی ذہنی ، فکری اور نظریاتی تربیت اور معاشرے کے ثقافتی ، نظریاتی اور فکری اتحاد و انسجام کا بہترین مقام ہے_

لیکن اس زمانے میں معروف ا سکول فقط بے جان مفاہیم اور انسانی حقیقت سے دور افکار عنایت کر تے ہیں جنکا انسان کی بنیادی ضرورتوں اور روحانی و فکری تربیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، علاوہ برایں ان افکار میں اللہ سبحانہ تعالی اور اسکی ذات کے سامنے خشوع و خضوع کا شعور تو بالکل بھی شامل نہیں ہے_

اسی طرح ان اسکولوں میں عقیدہ و فکر کی تو کوئی گنجائشے ہی نہیں ، صرف تکبر و ہوائے نفس ہی رہ جاتاہے

۸۳

جسے ہماری خدمت میں پیش کیا جاتاہے، ہمیں دنیا کے ان تاجروں کے ہاتھوں میں پہنچا دیتے ہیں جو قوموں کو جدید میڈیا کی قوت سے نابود کررہے ہیں جبکہ آمادگی یا انسانی تربیت کے لئے جن و سائل کا استعمال کر رہے ہیں ان کے ذریعے انسان کو بھوک اور افلاس کی طرف دھکیلا جارہاہے جسکا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی ذاتی معاش ہی کی فکر میں رہتاہے اور اس میں دوسروں کی ضرورتوں کا احساس ختم ہوکے رہ جاتاہے، ان کے اندر باہمی رابطہ اور محبت و مودت نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے اور تنگ نظری پیدا ہوجاتی ہے_

پس اس صورت حال میں ان تمام گروہوں کی فکری ، اخلاقی اور روحانی تربیت کا اہتمام بہت ضروری تھا تا کہ وہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو اور ایک دوسرے کی نسبت اسی احساس ذمہ داری کے ساتھ ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دیں جو ایک جسم واحد کی مانند ہو کہ جب اس کے اعضاء میں سے کوئی عضو درد و الم میں مبتلا ہو تو جسم کے باقی اعضاء بیدار رہ کر اس مصیبت میں اس کے ساتھ شریک ہوں_

اور اس طرح یہ معاشرہ رسالت کے دفاع اور اس کی حمایت جیسی عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآہونے کے قابل ہوجائے تا کہ جب مدینہ کے یہودی، دوسرے عرب مشرکین بلکہ پوری دنیا ان کی مخالفت پر اتر آئے تو وہ اس کا مقابلہ کرسکیں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے کہ جس کی تمام فکری، مادی اور دیگر قوتیں ایک مشترکہ ہدف یعنی رسالت و نبوت کی راہ میں صرف ہوں_

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر

خلاصہ یہ کہ سوشل معاشرتی اور اجتماعی کام بھی عبادت ہیں ، جہاد بھی عبادت ہے ، سیاسی کام بھی عبادت ہے یہانتک کہ مندوبین کا استقبال بھی عبادت ہے ، مسلمانوں کے امور کی تدبیر بھی عبادت ہے ( البتہ اس صورت میں یہ تمام امور عبادت میں شمار ہوں گے جب یہ اسلام کے اعلی مقاصد کی ترجمانی، تبلیغ اور اجراء کے لئے کئے جائیں) اسی طرح مؤمنوں کا باہمی رابطہ، آپس کی میل ملاقات اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی محفل میں

۸۴

ان کی حاضری اور احکام دین سیکھنا یہ سب بھی عبادت ہی ہیں_

اور مسجد ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ان افکار و اہداف کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے ، اس لئے کہ مسجد صرف عبادت کی جگہ نہیں بلکہ فکری تہذیب و تربیت کا بہترین مقام اور وسیلہ ہے ، اگر ہم یہ کہیں کہ مسجد ایک مشترکہ تمدن اور وحدت آراء کی تشکیل کا ایسا بہترین مقام ہے جہاں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کے لئے ایک ایسا ہدف میسر آتاہے جس میں اللہ تعالی کی قدوسیت اور ارتباط کا شعور شامل ہوتاہے تو بے جانہ ہوگا_ اس کے علاوہ مسجد معاشرے کو ایسے فکری جھگڑوں سے دور رکھتی ہے جو تہذیب و ثقافت کے اختلاف سے جنم لیتے ہیں _ خلاصہ کلام یہ کہ عقائد ، اخلاق اور روحانی تربیت اور بلند مرتبہ تہذیب و ثقافت کے لیے مسجد ایک بہترین وسیلہ ہے، اس کے علاوہ مسلمانوں کے درمیان محبت و مودت اور دوستی کو عام کرنے کا ذریعہ بھی ہے ، کیونکہ جب ہر روز چند مرتبہ مسلمان ایک دوسرے سے ملیں، ایک ہی صف میں خدا کے حضور کھڑے ہوں، عملاً عدل و مساوات شعور پر حاکم ہو، جاہ و مال کی تفریق اور فاصلے آڑے نہ آئیں، انسان کی ذات سے غرور و تکبر اور انانیت کے بت پاش پاش ہوچکے ہوں تو ایسی فضاؤں میں حتمی طورپر محبت و الفت اور برادری کے عہد و پیمان مضبوط ہوجاتے ہیں ایسے میں ہرشخص اپنے آپ کو ایسے معاشرے میں پاتاہے کہ جو محبت و غمخواری رکھتاہے، وہ سمجھتاہے کہ اس کے دوسرے مسلمان بھائی اس کو اہمیت دیتے ہیں، اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کی مشکلات و مصائب میں برابر کے شریک ہیں،یہ بات اسے اپنے دین ،ذات ، معاشرے ، اور امت پر اور زیادہ اعتماد کرنے کا شعور بخشتی ہے اس طرح ایک سچا، معتمد مؤمن وجود میں آتاہے اور ایسے مومنین سے مل کر اسلامی معاشرہ اور بہترین امت وجود میں آتی ہے جن کے بارے میں قرآن فرماتاہے ''کنتم خیر امة اخرجت للناس''تم بہترین امت ہو جسے انسانوں کےلئے بھیجا گیاہے_

مسجد معاشرے کے افراد کے درمیان روابط کو عمومیت اور تقویت دیتی ہے اور ایسے رسمی میل جول اور تکلفات کی مشکلات کو کم کرتی ہے جو اختلافات اور طبقہ بندی کی غماز ہوتی ہیں، اسلام کا مسجد کو اس حد تک اہمیت دینا کہ پیامبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبا اور مدینہ میں سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی ،اس بات کی واضح دلیل ہے کہ

۸۵

اسلام چاہتاہے کہ دنیا اور اس کے اسباب کو دینی شعور اور تصور کے زیر سایہ استفادہ کیا جائے اور دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھا جائے_

اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد اس لئے بنائی کہ یہ قیادت و امارت کا مرکز بھی ہو مسجد میں پیامبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مختلف وفود سے ملاقاتیں کرتے تھے، صلح و جنگ کے احکامات مسجد سے صادر ہوتے تھے، جھگڑوں کے فیصلے مسجد میں ہوتے، انسانی معاملات و روابط پر غور و خوض کیا جاتا، ان تمامتر امور پر بحث ہوتی جنکا اسلامی حکومت اور اسکے مختلف شعبوں سے کوئی تعلق ہے _یہ مسجد ہی ہے جہاں خدا سے بھی رابطہ ہوتاہے اور خدا کے بندوں سے بھی رابطہ رہتاہے ، مسجد میں ہی کمزور کو اپنی قوت اور غمزدہ کو صبر و تسلی ملتی ہے اور جو قبیلہ و خاندان نہ رکھتا ہو وہ اس چیز کو بھول کر مسجد میں اپنا خاندان اور قبیلہ پالیتاہے، محبت و غمخواری سے محروم شخص مسجد میں اپنی مراد پاتاہے_

اسی طرح مسجد عبادت او رتعلیم فقہ کی بھی جگہ ہے جہاں سے دین و دنیا کے امور میں رہنمائی ملتی ہے_مسجد اخلاقی و روحانی تربیت گاہ اور اجتماعی و فردی مشکلات کو حل کرنے کی جگہ بھی ہے_

مسجد کو بنانے میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت:

یقیناً خودمسلمان مسجد بنانے اور اس کے تعمیراتی کام کرنے کی قدرت رکھتے تھے اور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بنفس نفیس اس کام میں شرکت فرمانا ضروری نہیں تھا_ لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان تعمیراتی کاموں میں شرکت فرمائی ، اس چیز نے مسلمانوں کے دلوں میں ولولہ اور جوش پیداکیا اور وہ پوری کوشش اور توانائی کے ساتھ کام میں مصروف رہے اور کہتے تھے_

لئن قعدنا والنبی یعمل

لذاک منا العمل المضلل

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مسجد کے تعمیری کام میں شرکت کرنا جہاں مسجد کی تعمیر کی اہمیت کو اجاگر کرتا وہاں ایک اسلامی قائد اور حکمران کی شخصیت کو بھی اجاگر کرتاہے اور یہ عمل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بتاتاہے کہ کام کی اہمیت کے پیش نظر

۸۶

اس (قائد و حکمران کی )ذمہ داری ، حکم صادر کرنے کی حدود سے آگے خود عملی تک ہے ، خصوصاً جب کام ایسا ہو جس میں مسلمانوں کی مصلحت ، ہدف اصلی اور اسلام کی سربلندی پوشیدہ ہو_

مسجد کی تعمیر میں خواتین کا کردار:

بعض روایتوں میں آیاہے کہ عورتوں نے بھی مسجد کی تعمیر میں بھر پور حصہ لیا_ عورتیں مسجد کی تعمیر کے لئے رات کے وقت پتھروں کو اٹھاکر لاتیں اورمرد دن کے وقت یہ کام کرتے(۱) اس بارے میں ہم صرف دو نکات بیان کرتے ہیں:

ایک: جب ہم یہ تصور کرلیں کہ اس دور میں عورتوں کا زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی مقام بھی نہیں تھا اور عرب اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کے ساتھ نہایت ہی ظالمانہ اور گھٹیا سلوک روا رکھتے تھے جن کا نمونہ اس کتاب کی دوسری جلد میں ذکر ہوچکا ہے _ تو اس سمے ایسے کاموں میں عورتوں کا حصہ لینا سیاسی معاشرتی اور عبادتی لحاظ سے بہت ضروری اور نہایت ہی اہم کام شمار کیا جاتا تھا_

دو: عورتوں کے معاملہ میں خاص فضا کے حاکم ہونے کے پیش نظر عورتوں کی اس شرکت میں بھی حفاظتی تدابیر اختیار کی گئیں تا کہ وہ دن کے وقت مردوں کی موجودگی میں کام کرنے کی وجہ سے ان کے ساتھ گھلنے ملنے اور محفوظ نہ رہنے کی صورت میں معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرنے والی فضا سے بھی دور اور محفوظ رہیں_

صرف عورتوں کیلئے نماز جماعت:

کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے علیحدہ نماز جماعت قائم کی جاتی تھی مرد مسجد کے اندر نماز پڑھتے تھے اور خواتین سلیمان بن ابی حثمة کی امامت میں مسجد کے صحن میں نماز ادا کرتی تھیں ، جب حضرت عثمان خلیفہ بنے

____________________

۱)ملاحظہ ہو کشف الاستار عن زوائد البزار ج۱ ص ۲۰۶ و ص ۲۲۲ و ۲۴۹ و مجمع الزوائد_

۸۷

تو انہوں نے مردوں اور عورتوں کو اکٹھے نماز پڑھنے کا حکم دیا(۱) _

ظاہراً جماعت میں عورتوں اور مردوں کی جدا ئی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے بعد عمل میں آئی اور در اصل یہ جدائی جناب عمر بن خطاب کے دور میں اس کی ایجاد کردہ بدعت نماز تراویح کی جماعت میں ہوئی(۲) پھر عثمان نے آکر مردوں اور عورتوںکو ایک ہی جماعت میں کھڑا کیا _

اور جب حضرت علیعليه‌السلام خلیفہ بنے تو حسب سابق مردوں اور عورتوں کی نماز جماعت جدا ہونے لگی اور خواتین '' عرفجہ'' نامی شخص کی امامت میں نماز پڑھنے لگیں(۳) _-

لیکن ان روایات میں ایک اشکال ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ روایات کہتی ہیںکہ حضرت علیعليه‌السلام نے ماہ رمضان کی نماز میں ایسا کیا تھا یعنی نماز تراویح میں_

اور واضح ہے کہ علیعليه‌السلام اس کو بدعت سمجھتے تھے اور اس سے منع فرماتے تھے(۴) پس کسی طرح خود اس کو انجام دیتے تھے، پس صحیح یہ ہے کہ یہ چیز یومیہ نمازوں میں واقع ہوئی ہے نہ نماز تراویح میں _

یہ وہ بعض امور تھے کہ جن کو ہم نے مسجد کی تعمیر کے حوالے سے بیان کیا ہے اور اس سلسلہ میں مزید گفتگو کسی اور موقع پر کریں گے _

انشاء اللہ تعالی

____________________

۱) حیاة الصحابہ ج/۲ ص ۱۷۱ از طبقات ابن سعد ج/۵ ص ۲۶_

۲) ملاحظہ ہو: التراتیب الاداریہ ج۱ ص ۷۳ از طبقات_

۳) حیاة الصحابہ ج/۳ ص ۱۷۱ ، از کنز العمال ج/۴ ص ۲۸۲_

۴) دلائل الصدق ج/۳ جزء ۲ ص ۷۹ لیکن لوگوں نے آپعليه‌السلام کی نہی کی کوئی پروا نہیں کی_

۸۸

۳ _ مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ:

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینہ میں ورودکے کم و بیش پانچ یا آٹھ ماہ(۱) کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب یعنی مہاجرین اور انصارکے درمیان رشتہ اخوت برقرار کیا _ابن سعد نے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ آپ نے اسی وقت خود مہاجرین کے درمیان بھی مؤاخات برقرار کی(۲) _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حقوق اور مساوات پر ان کے درمیان مؤاخات برقرار فرمائی _(ایک قول کے مطابق وراثت پر مؤاخات قائم کی)لیکن مؤاخات رکھنے والوں میں سے کسی کے مرنے سے پہلے ہی سورة انفال نازل ہوئی جس نے وراثت کو رشتہ داروں کے لئے مخصوص کردیا(۳) کیونکہ کہتے ہیں کہ مہاجرین میں سے سب سے پہلے وفات پانے والے شخص عثمان بن مظعون ہیں اور وہ جنگ بدر کے بعد فوت ہوئے(۴) _ البتہ ہمیں وراثت کے لئے مواخات قائم کرنے میں شک ہے کیونکہ :

۱_ اگر اس حکم کو نسخ ہونا ہی تھا تو عمل کا وقت آنے سے پہلے نسخ معنی نہیں رکھتا کیونکہ اس سے لازم آتاہے کہ مؤاخات کرنے والے اشخاص کے درمیان وراثت کا قانون عبث و بے فائدہ ہو مگر یہ کہا جائے کہ اس مشکل دور میں اتنے عرصہ کے لئے بذات خود اس حکم کا جاری ہونا، مسلمانوں کا بھائی چارے کی فضا میں رہنا اور اتنی گہری رشتہ داری نہایت ضروری تھی_ لیکن ہم اطمینان سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ( یہ حکم نازل نہیں ہوا تھا بلکہ ) خود مسلمانوں یا کچھ مسلمانوں نے یہ گمان کرلیا کہ یہ بھائی چارہ ایک دوسرے سے وراثت لینے کی حد تک بھی پہنچ سکتاہے_

۲_ خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مہاجرین اور انصار میں سے جنگ بدر میں شہید ہونے والوں کو ایک دوسرے کا وارث کیوں نہیں ہونے دیا جبکہ یہ واقعہ آیت( اولوا الارحام بعضهم اولی ببعض ) کے نزول سے پہلے رونما ہوا_

____________________

۱) البحار ج/۱۹ ص ۱۲۲ ، اور ص ۱۳۰ کے حواشی از مناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص ۱۵۲، المواھب اللدنیة ج/۲ ص ۷۱ ، تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵ از اسد الغابہ، وفاء الوفاء ج/۱ ص ۲۶۷ ، فتح الباری ج/۷ ص ۲۱۰ ، السیرة الحلبیة ج/۲ ص ۹۲ _

۲) طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج/۱ جز ء ۲ ص ۱_ (۳)بحارالانوار ج۱۹ حاشیہ ص ۱۳۰ نیز سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۹۲ و ص ۹۳_

۴)الاصابہ ج۲ ص ۴۶۴ ، الکامل ابن اثیر مطبوعہ صادر ج۲ ص ۱۴۱_

۸۹

جبکہ ان کا یہ کہنا کہ''واقعہ بدر کے بعد وفات پانے والے عثمان بن مظعون سے پہلے کوئی مؤمن فوت نہیں ہوا'' بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ خود جنگ بدر میں کئی مسلمانوں نے شہادت پائی _ ہاں یہ ہوسکتاہے کہ عثمان بن مظعون طبیعی طور پر وفات پانے والے پہلے شخص ہوں یا مہاجرین میں سے وفات پانے والے پہلے مسلمان ہوں_

۳ _ یہ بات بھی یقینی نہیں ہے کہ عثمان بن مظعون کی وفات سابقہ حکم کو نسخ کرنے والی آیت کے نزول کے بعد ہوئی ہو_ کیونکہ یہ بات صرف مؤرخین اور مؤلفین کا اپنا اجتہاد اور ان کی ذاتی رائے ہے_

مؤاخات کرنے والوں کی تعداد:

کہتے ہیں کہ مؤاخات کے وقت مسلمانوں کی تعداد نوّے افراد تھی _پینتالیس آدمی انصار میں سے اور اتنے ہی مہاجرین میں سے تھے_ ابن الجوزی کا دعوی ہے کہ اس نے انہیں شمار کیا ہے وہ کل چھیاسی آدمی تھے_ ایک قول کے مطابق سو آدمی تھے(۱) _ البتہ ہوسکتاہے کہ یہ مواخات کل مسلمانوں کی تعداد کے برابر نہیں بلکہ اس واقعہ میں موجود مہاجرین کی تعداد کے برابر افراد کے درمیان ہوئی ہو کیونکہ یہ ایک نادر اتفاق ہی ہوسکتاہے کہ مسلمان مہاجرین کی تعداد بغیر کسی کمی بیشی کے اتنی ہی ہوجتنی انصار مسلمانوں کی تھی _ بہر حال پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ کام جاری رکھا یعنی جو بھی اسلام قبول کرتا یا کوئی مسلمان مدینہ میں آتا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کے ساتھ اس کی مؤاخات قائم فرماتے(۲) _اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مورخین نے ذکر کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوذر اور منذر بن عمرو کے درمیان مؤاخات قائم فرمایا حالانکہ ابوذر جنگ احد کے بعد مدینہ میں آئے اور اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زبیر اور ابن مسعود کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے(۳) _لیکن اس پر یہ اعتراض کیا جاسکتاہے کہ مسلمانوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی

____________________

۱) طبقات ابن سعدج/۱جزئ۲ص۱، المواھب اللدنیة ج/۱ ص ۷۱، فتح الباری ج/۷ ص۲۱۰،سیرة الحلبیة ج/ ۲ص ۹۰، البحارج /۱۹، ص۱۳۰ ،از المنتقی و المقریزی_

۲) فتح الباری ج/۷ ص ۲۱۱_

۳) فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵_

۹۰

کیونکہ عقبہ ثانیہ میں اہل مدینہ میں سے اسی(۸۰) سے زیادہ افراد نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی تھی _اسی طرح مدینہ میں تشریف فرمائی کے صرف دس یا تیرہ مہینے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو سپاہ جنگ بدرکے لیے تشکیل دی اس کی تعداد تین سو تیرہ افراد پر مشتمل تھی _

اس کا جواب یہ دیا جاسکتاہے کہ :

اولاً: بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مہاجرین کے ڈیڑھ سو افراد کی انصار کے ڈیڑھ سو افراد کے ساتھ مؤاخات برقرار کی تھی(۱) _

ثانیاً :اگر ہم قائل بھی ہوں کہ یہ قول درست نہیں کیونکہ جنگ بدر کے لئے جانے والے مہاجرین کی تعداد ساٹھ یا اسّی کے درمیان تھی ( بناء پر اختلاف اقوال) ، تو ہم یہ جواب دیں گے کہ روایت میں مؤاخات کرنے والوں کی تعداد ان مہاجرین کی ہے جنہوں نے اپنے انصار بھائیوں کے ساتھ بھائی چارہ کیا تھا_ کیونکہ انصار مہاجرین سے بہت زیادہ تھے جبکہ مہاجرین کی تعداد پینتالیس تھی پس مؤاخات ان کے اور اسی تعداد میں انصار کے درمیان تھی پھر جوں جوں مہاجرین کی تعدادبڑھتی گئی مؤاخات کا یہ عمل بھی جاری رہا یہاں تک کہ ان کی تعداد ایک سو پچاس تک پہنچ گئی جیسا کہ گذشتہ روایت میں وارد ہوا ہے_ پس مذکورہ تعداد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی انصار بھائی چارہ کئے بغیر رہ گئے تھے_

ہر ایک کا اس جیسے کے ساتھ بھائی چارہ

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر شخص اور اس جیسے کے درمیان مؤاخات برقرار فرماتے جیسا کہ ہجرت سے پہلے اور بعد والی مؤاخات سے ظاہر ہے کیونکہ بظاہر آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت سے پہلے حضرت ابوبکر اورحضرت عمر،طلحہ اور زبیر ، عثمان اور عبدالرحمان بن عوف اور اپنےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علیعليه‌السلام کے درمیان مؤاخات برقرار فرمائی(۲) لیکن ابن حبان

____________________

۱) البحار ج/۱۹ ص ۱۳۰_

۲)مستدرک الحاکم ج/۳ص۱۴، وفاء الوفاء ج/۱ ص ۲۶۷ و ص۲۶۸، السیرةالحلبیةج/۲ص۲۰، السیرة النبویہ دحلان ج/۱ ص ۱۵۵ ، فتح الباری ج/۷ ص ۲۱۱ نیز الاستیعاب_

۹۱

کہتاہے کہ یہ مدینہ میں دوسری مؤاخات تھی اور اس نے سعد بن ابی وقاص اور عمار بن یاسر کا اضافہ کیا ہے(۱) اور یہ سب کے سب مہاجرین میں سے تھے_

اور مدینہ میں ابوبکر اور خارجہ بن زھیر نیز عمر اور عتبان بن مالک کے درمیان رشتہ اخوّت برقرار فرمایا _ پھر علیعليه‌السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ'' میرا بھائی ہے ''_ اسی طرح حمزہ اور زید بن حارثہ کے درمیان نیز جعفر بن ابی طالب اور معاذ بن جبل کے درمیان بھی مؤاخات برقرار فرمائی اور اسی آخری مؤاخات پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ جعفر تو اس وقت حبشہ میں تھے(۲) اور اس کا جواب وہی ہے جو پہلے گزر چکاہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کے درمیان مؤاخات قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا یعنی جب بھی کوئی مدینہ میں آتا تو اسے کسی کا بھائی بنادیتے بعض نے یہ جواب بھی دیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جعفرعليه‌السلام کی آمد پر معاذ کوجعفر کے ساتھ مؤاخات کے لئے تیار کررکھا تھا(۳) _

البتہیہاں پر ایک سوال سامنے آتاہے کہ جعفر کو اس امر کے ساتھ خاص کرنے کی کیا وجہ تھی ؟ یہاںیہ کہا جاسکتاہے کہ شاید جعفر کی شان اور اہمیت کا اظہار اور اس کی بیان فضیلت مقصود تھی_

علیعليه‌السلام کے ساتھ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مؤاخات :

احمد بن حنبل و غیرہ نے روایت کی ہے کہ: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کے درمیان مؤاخات برقرار فرمائی اور علیعليه‌السلام کو آخر تک چھوڑے رکھا یہاں تک کہ ان کے لئے کوئی بھائی نہ بچا تو علیعليه‌السلام نے عرض کیا :''یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب کے درمیان تورشتہ اخوت قائم کردیا لیکن مجھے چھوڑ دیا ''؟ تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''میں نے تجھے صرف اپنے لئے رکھاہے _تو میرا بھائی ہے اور میں تیرا بھائی ہوں_پس اگر کوئی تجھ سے پوچھے تو کہنا ''انا عبداللہ و اخو رسول اللہ '' میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہوں _ تیرے بعد

____________________

۱) الثقات ج/۱ص ۱۳۸ ، ۱۴۲_ (۲) سیرة ابن ھشام ج/۲ ص ۱۵۱ نیز السیرة الحلبیة و غیرہ_

۳) البدایة النہایةج/۳ ص ۲۲۷ ، السیرة الحلبیة ج/۲ ص ۹۱_

۹۲

صرف بہت بڑا جھوٹا شخص ہی اس چیز کا دعوی کرے گا مجھے حق کے ساتھ مبعوث کرنے والی ذات کی قسم میں نے تجھے مؤخر نہیں کیا مگر اپنے لئے اور میرے ساتھ تیری وہی نسبت ہے جو ہارونعليه‌السلام کی موسیعليه‌السلام سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور تو میرا بھائی اورمیرا وارث ہے''(۱) _

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی جملہ''انا عبدالله و اخو رسوله'' (میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہوں) حضرت علیعليه‌السلام نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد اس وقت فرمایا جب حادثات زمانہ کے سبب پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جانشین سے خلافت غصب کرلی گئی_ لیکن صحابہ نے آپ کو جھٹلایا اور جواب میں کہنے لگے : ''خدا کے بندے ہونے والی بات تو ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہونے والی بات نہیں ''(۲)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان '' تو میرا بھائی اور میرا وارث ہے '' سے یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد یہ تھی ''کہ علیعليه‌السلام نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علم کے وارث ہیں نہ کوئی اور'' تو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقام و منصب کا علیعليه‌السلام کے علاوہ اور کون حقدار ہوسکتاہے؟ اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد یہ تھی کہ (علیعليه‌السلام ہر لحاظ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وارث ہیں حتی کہ مال و جائیداد کے بھی) تو یقیناً مال و جائیداد حضرت فاطمہ علیہا السلام کا ہی حق تھا(۳) جبکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خلافت کے غاصب ، حضرت فاطمہعليه‌السلام کے اموال پربھی مسلّط ہوگئے اورفدک و غیرہ بھی انہی اموال میں سے تھا جس کا ذکر انشاء اللہ اسی کتاب میں غزوہ بنی نضیر پر گفتگو کے دوران ہوگا_ بہر حال بات جو بھی ہو، بھائی چارے والے واقعہ میں غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اس کا م میں لوگوں کی سنخیت ، مشابہت اور دلی رجحان کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا اور اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مرحوم ازری نے حضرت علیعليه‌السلام کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا :

____________________

۱) نہج الحق (دلائل الصدق کے متن کے ضمن میں) ج/۲ ص ۲۶۷ ، ینابیع المودة ص ۵۶ تذکرة الخواص ص ۲۳ ، احمد سے ( اس کی کتاب الفضائل سے ) اور اس نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور ابن جوزی نے بھی نیزکنز العمال ج/۶ ص ۳۹۰ ، الریاض النضرة ج/ ۲ ص ۲۰۹ ، تاریخ ابن عساکر ج/۶ ص ۲۱ ، کفایة الشنقیطی ص ۳۵ ، ۴۴، الثقات ج ۱ ص ۱۴۱ تا ص ۱۴۲ _ (۲)الامامة والسیاسة ج۱ ص ۱۳ ، اعلام النساء ج۴ ص ۱۱۵ نیز تفسیر البرہان ج۲ ص ۹۳_

۳)ملاحظہ ہو: الکافی ج۱ ص ۴۵۸ با تحقیق غفاری ، بحار طبع تختی ج۸ ص ۲۳۱ نیز طبع جدید ج ۱۰۰ ص ۱۹۷ ، کشف الغمہ ج۲ ص ۱۳۲ امالی شیخ طوسی ج۱ ص ۱۰۸ ، العوالم ج۱۱ ص ۵۱۸ ، امالی شیخ مفید ص ۲۸۳ مطبوعہ جامعہ مدرسین نیز ملاحظہ ہو: مرآة العقول ج۵ ص ۳۳۱و غیرہ_

۹۳

لک ذات کذاته حیث لو لا

انها مثلها لما آخاها

(یا علیعليه‌السلام ؟) آپعليه‌السلام کی ذات اور شخصیت بھی آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت کی مانند تھی _ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی بھی آپعليه‌السلام کو اپنا بھائی نہ بناتے_

حدیث مؤاخات کا تواتر:

بہر حال حدیث مؤاخات متواتر ہے اور اس کا انکار ممکن نہیںبلکہ اس میں شک و شبہہ کی بھی کوئی گنجائشے نہیں ہے _ خصوصا ً نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علیعليه‌السلام کے درمیان مؤاخات چاہے مکہ میں ہونے والی پہلی مؤاخات ہو یا مدینہ میں ہونے والی دوسری مؤاخات اور یہ حدیث دسیوں صحابہ اور تابعین سے مروی ہے جیسا کہ حاشیہ میں درج منابع(۱) سے معلوم ہوتاہے_

اور مروی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام سے فرمایا: '' جب قیامت کا دن ہوگا تو عرش کے درمیان سے مجھے یہ کہا جائے گا کہ بہترین باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بابا ابراہیمعليه‌السلام اور بہترین بھائی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی علیعليه‌السلام بن ابی طالب ہیں ''(۲)

____________________

۱) تاریخ الخمیس ج/۱ص۳۵۳،وفاء الوفاء ج/۱ص ۲۶۷،و ص۲۶۸، ینابیع المودة ص ۵۶ ، ۵۷ (مسند احمد سے ) تذکرة الخواص ص ۲۲ ، ۲۴ میں ترمذی سے نقل ہواہے کہ اس نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے، السیرہ الحلبیةج/۲ص ۲۰وص ۹۰ ، مستدرک الحاکم ج/۳ ص ۱۴ ، الثقات لابن حبان ج/۱ ص ۱۳۸ ، فرائد السمطین ج / ۱، باب ۲۰ ، الفصول المہمة ابن الصباغ ص۲۲، ۲۹، البدایة والنھایة ج/۳ ص ۲۲۶، اور ج/۷ ص ۳۵ ، تاریخ الخلفاء ص ۱۷۰، دلائل الصدق ج/۲ص ۲۶۸ ، ۲۷۰ ، صاحب دلائل الصدق نے یہ حدیث کنز العمال، سنن بیہقی اور ضیاء کی کتاب المختارة سے، عبداللہ بن احمد بن حنبل کے زیادات المسند سے آٹھ احادیث اور اس کے و الد کی المسند اور الفضائل ،سے ابویعلی ، الطبرانی ، ابن عدی اور الجمع بین الصحاح الستة سے نقل کیا ہے ، خوارزمی نے بارہ احادیث اور ابن مفازلی نے آٹھ حدیثیں درج کی ہیں سیرة ابن ھشام ج/۲ ص ۱۵۰ ، الغدیر ج/۳ ص ۱۱۲ تا ص ۱۲۵ میں بعض مذکورہ کتب اور مندرجہ ذیل کتب سے نقل ہے : جامع الترمذی ج/۲ ص ۱۳، مصابیح البغوی ج/۲ ص ۱۹۹ ، الاستیعاب ج/۲ ص ۴۶۰ ، زندگانی امیر المؤمنین ، اس نے حدیث مؤاخات کو مسلم احادیث میں سے شمارکیاہے تیسیر الوصول ج/۳ ص ۲۷۱،مشکاةالمصابیح (حاشیہ مرقاة) ج/۵ ص ۵۶۹ ، المرقاة ص ۷۳ تا ص ۷۵ ، الاصابة ج/۲ ص ۵۰۷ ، المواقف ج/۳ ص ۲۷۶ ، شرح المواہب ج/۱ ص ۳۷۳ ، طبقات الشعرانی ج/۲ ص ۵۵ ، تاریخ القرمانی( حاشیہ الکامل ) ج/۱ ص ۲۱۶ ، سیرة دحلان (حاشیہ حلبیہ پر) ج/۱ ص ۳۲۵ ،کفایة الشنقیطی ص ۳۴، الامام علی( تالیف محمدرضا) ص۲۱ ، الامام علی( تالیف عبدالفتاح عبدالمقصود) ص ۷۳، الفتاوی الحدیثیتہ ص۴۲ ، شرح النہج ج / ۲ ، ۶۲ ، اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور اسے روایات مستفیضہ میں سے شمار کیا ہے ، کنز العمال ج/۶ ص ۲۹۴ ص ۲۹۹ ، ۳۹۰،۳۹۹، ۴۰۰ ، ۵۴ _

۲)ربیع الابرار ج۱ ص ۸۰۷ و ص ۸۰۸_

۹۴

اس بناء پریہ دعوی قابل سماعت ہی نہیں کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علیعليه‌السلام اور عثمان کے درمیان مؤاخات برقرار فرمائی(۱) یا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عثمان کے درمیان مؤاخات ہوئی ، کیونکہ یہ بات بلاشک و شبہہ درست نہیں ہے(۲) _ اس لئے کہ اس بات سے ان کامقصد عثمان کی شان کو بڑھانا اور علیعليه‌السلام کی فضیلت کو جھٹلانا ہے بلکہ عثمان اور علیعليه‌السلام کو ایک ہی مقام پر لاکھڑا کرناہے _یہ کیسے ہوسکتاہے ؟ اور کب ایسا ہوا ہے ؟

حضرت علی علیہ السلام کو ابوتراب کی کنیت ملنا :

یہاں پر کچھ حضرات نے ذکر کیا ہے کہ جب علیعليه‌السلام نے دیکھا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے اور کسی اور شخص کے درمیان مؤاخات برقرار نہیں فرمائی تو غمگین اور دل برداشتہ ہوکر مسجد کی طرف گئے اور مٹی پر سوگئے پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپعليه‌السلام کے پاس آئے اور آپعليه‌السلام کی پشت سے مٹی جھاڑنا شروع کی اور فرمانے لگے ( قم یا اباتراب) یعنی اے ابوتراب کھڑے ہو جاؤ اور پھر انعليه‌السلام کے اور اپنےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم درمیان مؤاخات برقرار فرمائی(۳) _

اور ہم انشاء اللہ عنقریب سرایا کی بحث میں اس پر گفتگو کریں گے_

علیعليه‌السلام کے ساتھ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مؤاخات کے منکرین:

اتنے گذشتہ منابع کے باوجود ( جن کی تعداد توبہت زیادہ ہے لیکن ہم نے ان میں سے بہت کم کا ذکر کیا ہے) ابن حزم اور ابن کثیر حدیث مواخات کی سند کے صحیح ہونے کا انکار کرتے ہیں(۴) اور اسی طرح ابن تیمیہنے بھی اس کا انکار کیا ہے اور اس حدیث کو اس دلیل کے ساتھ باطل اور جعلی قرار دیاہے کہ مہاجرین

____________________

۱)تاریخ ابن خلدون ج/۲ص ۳۹۷ اور الغدیر ج/۹ ص۹۴ ، ۹۵ اور ۳۱۸ میں الریاض النضرة ج/۱ ص ۱۷، طبری ج/۶ ص ۱۵۴ ، کامل ابن اثیر ج/۳ ص ۷۰ اور معتزلی ج/ ۱ ص ۱۶۵ سے نقل کی ہے لیکن خود اس نے ج/۲ ص ۵۰۶ میں اس حدیث کونقل کیا ہے اور مؤاخات میں اس کا ذکر نہیں کیا _

۲) طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج/۳ ص ۴۷ ، الغدیر ج/۹ ص ۱۶ طبقات سے_ (۳) الفصول المہمة لا بن الصباغ ص ۲۲، مجمع الزوائد ج/۹ ص ۱۱۱طبرانی کی الکبیر اور الاوسط سے، مناقب الخوارزمی ص ۷، کفایة الطالب ص ۱۹۳ ،از ابن عساکر _

۴) البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۲۳ ، ۳۳۶_

۹۵

اور انصار کے درمیان مؤاخات برقرار کرنے کی غرض یہ تھی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے الفت و محبت پیدا ہو پس نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اور مہاجرین کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ مؤاخات قائم کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا(۱) _

ہم کہتے ہیں کہ :

علیعليه‌السلام کے ساتھ نبی اکرم کی مؤاخات والی حدیث کی سند کا انکار بے معنی ہے جب کہ محققین اور بزرگان میں سے بہت سی شخصیات نے اسے صحیح قرار دیاہے اوردسیوں صحابہ ،تابعین اور علماء و غیرہ سے مسلمانوں کی کتابوں میں اور تواتر کے ساتھ یہ حدیث نقل کی گئی ہے خصوصاً جب یہ انکار ان تین اشخاص ( ابن حزم ، ابن کثیر اور ابن تیمیہ) سے ہو جو علیعليه‌السلام اور اہل بیت طاہرین علیھم السلام کے فضائل کے سلسلہ میں متعصب اور ان سے دشمنی میں معروفہیں_ جس چیز کو ابن تیمیہ نے اپنے انکار کرنے کی علت کے طور پر ذکر کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے :

۱_ بہت سے حضرات نے بھی یہ جواب دیا ہے کہ یہ قیاس کے ذریعہنص کی تردید اور اس مسئلہ میں حقیقی حکمت سے غفلت ہے _ کیونکہ کچھ مہاجرین دوسروں کی نسبت مال اور قبیلہ کے لحاظ سے مضبوط حیثیت کے مالک تھے _ اس وجہ سے ایکدوسرے کی مدد بھی ممکن تھی پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان مہاجرین کے درمیان مؤاخات قائم کی تا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں _ پھر انہوں نے اسی احتمال کو علیعليه‌السلام اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی منطبق کیا ہے کیونکہ بعثت سے پہلے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیعليه‌السلام کی کفالت کیا کرتےتھے(۲) یعنی مہاجرین کے درمیان بھی باہمی محبت اور الفت مطلوب تھی کیونکہ یہ لوگ مختلف گروہوں سے تعلّق رکھتے تھے اور مختلف عقید وں ، ذہنیت اور معاشروں کے مالک تھے_

____________________

۱) ملاحظہ ہو: منھاج السنةج/۲ص۱۱۹،البدایةوالنھایة ج/۳ص۲۲۷،فتح الباری ج/۷ص۲۱۱،السیرةالنبویة لدحلان ج/۱ص۵ ۱۵ ، السیرة الحلبیةج/۲ص۲۰،دلائل الصدق ج/۲ ص ۲۷۲_

۲)وفا الوفاء ج/۱ ص ۲۶۸، فتح الباری ج/۷ ص ۲۱۱،والسیرة الحلبیة ج/۲ص ۲۰، السیرة النبویة لدحلان ج/۱ص ۱۵۵، الغدیر ج/۳ ص ۱۷۴تا ۱۷۵ ، عن الفتح عن الزرقانی فی شرح المواھب ج/۱ ص ۳۷۳_

۹۶

بلکہ مواخات کی نصّ میں یہ تصریح وارد ہوئی ہے کہ یہ مؤاخات حق اور ایک دوسرے کی حمایت پر مبنی تھی اور مہاجرین کو ایک دوسرے کی حمایت کی ضرورت تھی کیونکہ خود ان کے بقول اگر کسی ایک قبیلہ سے ایک آدمی نے ہجرت کی تھی تو دوسرے قبیلہ سے دس آدمیوں نے ہجرت کی تھی پس اس ایک کو ان دس افراد کی جانی اور مالی امداد کی ضرورت ہوتی تھی_ اسی طرح بعض حضرات نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ کچھ مہاجرین اپنا مال اپنے ہمراہ لائے تھے پس اگر ان کا یہ دعوی صحیح ہو تو ان کے لئے ایک دوسرے کی مالی امداد ممکن تھی_

لیکن حضرت علیعليه‌السلام اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہ نسبت ہمیں ان کے اس قول سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ حضرت علیعليه‌السلام تو اس حد تک پہنچ چکے تھے کہ کام کر کے اپنی کفالت خود کرسکیں اور زراعت یا تجارت بلکہ غنائم سے اپنی ضروریات کو پورا کرسکیں _نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آپ سے مواخات برقرار کر نے کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپعليه‌السلام کی شان اورمنزلت کی پہچان کروائی جائے اور ووسرے لوگوں پر آپ کی فضیلت کا اظہار کیا جائے کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک جیسے اشخاص کے درمیان رشتہ اخوّت برقرار فرمایاتھا_ جیسا کہ مؤرخین نے اس بات کی تصریح کی ہے اور خود مؤاخات کے عمل پر غور کرنے سے بھی یہ واضح ہوجاتا ہے ،کیونکہ یہی چیز باہمی تعاون میں زیادہ ممّد و معاون اور باہمی محبت و الفت کے لئے زیادہ ضروری ہے_(۱)

۲_ حاکم اور ابن عبدالبر نے سند حسن کے ساتھ یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زبیر اور ابن مسعود کے درمیان رشتہ اخوت قائم کیا حالانکہ وہ دونوں مہاجرین میں سے تھے اور ضیاء نے اس روایت کو اپنی کتاب ( المختارة من المعجم الکبیرللطبرانی) میں درج کیا ہے اور خود ابن تیمیہ نے تصریح کی ہے کہ المختارة کی احادیث المستدرک سے زیادہ صحیح اور با وثوق ہیں_(۲)

لیکن ضروری ہے کہ یہ مواخات ابن مسعود کے مدینہ میں آنے کے بعد واقع ہوئی ہو کیونکہ ابن مسعود حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے تھے اور عمومی مواخات کے واقعہ کے بعد اس وقت مدینہ میں آئے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بدر کے لئے جنگی تیاریوں میں مصروف تھے_(۳)

____________________

۱) دلائل الصدق ج/۲ ص ۲۷۲ / ۲۷۳_

۲) فتح الباری و فاء الوفا ء ج / ۱ ، ص ۲۶۸ _ الغدیر ج/۳ ص ۱۷۴ ، ۱۷۵ ازالفتح و از شرح المواہب للزرقانی ج/۱ ص ۳۷۳ _

۲) فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵_

۹۷

اسی طرح ہجرت کے بعد (بعض کے بقول ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوبکر او ر حضرت عمر ، حضرت عثمان اور عبدالرحمان بن عوف ، طلحہ اور زبیر ، سعد بن ابی وقاص اور عمار بن یاسر اور اپنے اور حضرت علیعليه‌السلام کے درمیان مؤاخات قائم کی _(۱)

اور اسی طرح زید بن حارثہ کی حضرت حمزہ کے ساتھ مؤاخات بھی ثابت ہے جب کہ وہ دونوں مہاجر تھے_ اس لئے تو کہا جاتاہے کہ حمزہ کی بیٹی کی کفالت کے سلسلہ میں زید ، علیعليه‌السلام اور جعفر کے درمیان کشمکش ہوئی تو زید کی دلیل یہ تھی کہ وہ اس کے بھائی کی بیٹی ہے_(۲)

البتہ حمزہ کی بیٹی کی کفالت کے سلسلہ میں واقع ہونے والے اختلاف کے متعلق ہمیں شک ہے کیونکہ حضرت حمزہ کی شہادت کے وقت جناب جعفر موجود ہی نہیں تھے جبکہ اس صورت میں برسوں تک جناب حمزہ کی بیٹی کا کسی سرپرست کے بغیر رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے _ کیونکہ اگر اتنے عرصے میں وہ جناب علیعليه‌السلام کے پاس رہی تو اتنے عرصے تک زید نے کیوں خاموشی اختیار کئے رکھی اور حضرت علیعليه‌السلام سے تنازعہ کیوں نہیں کیا_ اور اسی طرح بر عکس ، اگر وہ حضرت علیعليه‌السلام کے پاس نہیں بلکہ زید کے پاس تھی تو حضرت علیعليه‌السلام نے اتنے عرصے تک اس سے بحث کیوں نہیں کیا؟ _ بہر حال جناب حمزہ کی بیٹی کی کفالت کے سلسلے میں مذکورہ تنازعہ مزید تحقیق کا محتاج ہے_ بارگاہ رب العزة میں دعا ہے کہ ہمیں کسی مناسب فرصت میں اس کی تحقیق کرنے کی توفیق عنایت فرمائے_

ان شاء اللہ تعالی

____________________

۱) الثقات لابن حبان ج/۱ص ۱۳۸ تا۱۴۲، اور ملاحظہ فرمائیں الغدیر ج/۱۰ص ۱۰۳تا ۱۰۷،مستدرک الحاکم ج/۳ ص ۱۴ وفاء الوفاء ج/۱ ص ۲۶۸ السیرة الحلبیة ج/۲ ص۲۰، السیرةالنبویةلدحلان ج /۱ص ۱۵۵،فتح الباری ج/۷ص۲۱۱،نیز الاستیعاب میں حضرت عثمان کا ذکر ہے جب کہ وہ حبشہ میں تھے اور اسی طرح عبدالرحمن بن عوف کا ذکر کرنا اس بات کی تائید ہے کہ یہ مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد دوسری مواخات تھی_

۲) صحیح البخاری ج/۳ص ۳۷ط المیمنیة ،مستدرک الحاکم ج/۲ص۱۲۰ تلخیص المستدرک لذھبی صفحہ مذکور کے حاشیہ پر و دیگر منابع _

۹۸

کچھ مواخات کے متعلق :

الف : بہترین متبادل

واضح سی بات ہے کہ یہ نو مسلم اپنے قوم ، قبیلے اور برادری سے در حقیقت بالکل کٹ کر رہ گئے تھے_حتی کہ ان کے عزیز ترین افراد بھی دھمکیوں اور ایذاء رسانیوں کے ساتھ ان کے مقابلے پر اتر آئے تھے_ ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ اپنے رشتہ داروں نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا اور وہ بے کس اور لا وارثوں کی طرح ہوگئے تھے_ اور بعض افراد کو یہ احساس بھی تھا کہ اب وہ بالکل اکیلے اور بے یار و مدد گار ہوگئے ہیں_ یہاں پر اسلامی برادری اور اخوت ان کے اس خلاء کو پر کرنے، اکیلے پن کے احساس کو ختم کرنے اور ان کے اندر مستقبل کی ا مید اور اس پر یقین جگانے کے لئے آئی _ اور اس مواخات نے ان کے اندر اتنا گہرا اثر چھوڑا کہ وہ اتنا تک سمجھنے لگے کہ یہ بھائی چارہ تمام امور میں ہے حتی کہ وراثت میں بھی برابری اور ساجھا ہے_ جس کی طرف ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے_

ب: انسانی روابط کا ارتقائ

عمل مواخات سے غرض یہ تھی کہ اس سے انسانی روابط کو مصلحت اندیشی کے دائرہ سے بلند تر کر دیا جائے اور انہیں اتنے حد تک خالص الہی روابط میں تبدیل کردیا جائے کہ وہ حقیقی اخوت و برادری تک پہنچ جائیں اور مسلمانوں کے باہمی لین دین میں یہ تعلق داری ہماہنگی و ہمنوائی کی صورت میں ظاہر ہو اور ایسی ذاتی رنجشوں سے بہت دور ہو جو بسا اوقات آپس میں تعاون کرنے والے دو بھائیوں کے درمیان چاہے نجی اور ذاتی طور پر ہی سہی ، کسی نہ کسی معاملے میں قطع تعلق کا باعث بنتی ہیں_

اگر چہ اسلام نے نظریاتی طور پر مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے اور یہ تاکید کی ہے کہ ہر مؤمن دوسرے مؤمن کابھائی ہے چاہے وہ اسے اچھا لگے یا بُرا _ اور ہر مؤمن کے لئے یہ ضروری قراردیا ہے کہ وہ

۹۹

اس اخوت اور برادری کے تقاضوں کو پورا کرے _ لیکن اس کے با وجود اس محبت ، صداقت اور عشق کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے اس برادری کا عملی مظاہرہ بھی ضروری تھا_ کیونکہ ایک اعلی مقصد کے لئے بے مثال نمونہ کا ہونا ضروری ہے_

ج: نئے معاشرے کی تشکیل میں مؤاخات کا کردار:

حضرت رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک ایسے جدید معاشرے کی تشکیل کے در پے تھے جو فلاح و بہبود کی بہترین مثال ہو اور ہر قسم کے حالات و شرائط میں دعوت الی اللہ اور دین خدا کی نصرت کی راہ میں پیش آنے والی ہر قسم کی مشکلات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو_

مسجد نبوی کی تعمیر کی بحث میں گزر چکاہے کہ خود مہاجرین ،خود انصار اور ان دونوںکے درمیان بہت زیادہ معاشرتی ، قبائلی ،خاندانی ، ذاتی ، جذباتی حتی کہ گہرے عقائدی اور نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے_ علاوہ ازیں کچھ ایسے اقتصادی اور نفسیاتی حالات بھی تھے جو خاص کر مہاجرین کے لئے پریشان کن تھے _اس کے ساتھ ساتھ مزید کچھ خطرات بھی اس نو خیز معاشرے کو در پیش تھے یہ خطرات چاہے داخلی ہوں جیسے اوس اور خزرج کے باہمی اختلافات کے خطرات تھے جن میں سے اکثر ابھی تک بھی مشرک تھے، پھر ان میں سے بعض منافق بھی تھے ، ساتھ ہی مدینہ کی یہودیوں سے بھی خطرات در پیش تھے_ اور چاہے وہ خارجی ہوں جیسے جزیرة العرب کے یہودیوں اور مشرکوں کے خطرات بلکہ پوری دنیا سے خطرات در پیش تھے_

اس نئے دین کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے اور اسکے دفاع کیلئے عملی طور پر ایک عظیم ذمّہ دار ی اس معاشرے کے کندھوں پر تھی، ان حالات میں قبیلوں ، گروہوں اور افراد میں بٹے اور بکھرے اس معاشرے میںمضبوط روابط کو وجود میں لانا ضروری تھا تا کہ معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ ایک محکم رشتہ میں منسلک ہوجائیں_ اور مضبوط احساسات اور جذبات کی ایسی عمارت کھڑی کرنے کی ضرورت تھی جو عقیدے کی بنیاد پر استوار ہو _اس طرح اس نئے معاشرے میں کسی بھی فرد پر ظلم و زیادتی نہ ہو اور معاشرے

۱۰۰