رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر12%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202723 / ڈاؤنلوڈ: 5564
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

ساتواں سبق:

(صبرو استقامت)

صبر و استقامت کامیابی کا سرچشمہ اور مشکلات پر غلبہ کاراز ہیں _یہ خدا کے بے شمارو بے حساب اجر کے آب زلال کے چشمہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور ایسی طاقت ہے جس سے تنگ راستوں کو عبور کرنا سہل اور مصیبتوں کا مقابلہ کرنا آسان ہوجاتاہے_

لغت میں صبر کے معنی شکیبائی ، بردباری اور بلا و مصیبت پر شکایات کو ترک کرنے کے ہیں اسی طرح ٹھہرجانے اور ثابت قدم رہنے کا نام استقامت ہے(۱)

صبر کے اصطلاحی معنی :

''ضد الجذع الصبر''و هوثبات النفس و عدم اضطرابها فی الشداءد والمصاءب ،بان تقاوم معهابحیث لاتخرجها عن سعة الصدروماکانت

___________________

۱) (فرہنگ معین مادہ صبر واستقامت)_

۱۰۱

علیه قبل ذلک عن السرور و الطمانینة '' (۱)

صبرگبھراہت کی ضد ہے در اصل صبریعنی مصاءب و شداءد میں نفس کے مطمئن رہنے اور ان کے مقابلہ میں اسطرح ڈٹے رہناہے کہ پیشانی پرشکن تک نہ آنے پائے_

استقامت کے اصطلاحی معنی اس طرح بیان کئے گئے ہیں''و هی الوفاء بالعهود کلها و ملازمه الصراط المستقیم برعایة حدالتوسط فی کل الامور من الطعام والشراب واللباس و فی کل امر دینی و دنیوی'' (۲) تمام معاہدوں سے وفاداری اور ہمیشہ صراط مستقیم کو اس طرح سے اپنائے رہنا کہ کھانے، پینے لباس اور تمام دینی و دنیوی امور میں میانہ روی ہو اس کا نام صبر و استقامت ہے_

خداوند عالم نے صبر کے نتاءج اور اس کی قدر و قیمت بتادینے کے بعد اپنےپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس بات کی خواہش کی ہے کہ وہ بھی دوسرے نبیوں کی طرح صبر اختیار کریں_ ارشاد ہے :

( فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ) (۳)

آپ بھی اس طرح صبر کریں جس طرح اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا _

( فاصبر ان وعد الله حق ولا یستخفنک الذین لا یوقنون ) (۴)

آپ صبر کریں، بے شک خدا کا وعدہ حق ہے اور وہ لوگ جو یقین کرنے والے نہیں

___________________

۱) (جامع السعادت ج۳ص۲۸۰)_

۲) (تعریفات جرجانی منقول از لغت نامہ دہخدا مادہ صبر)_

۳) (احقاف ۳۵)_

۴) روم ۶۰_

۱۰۲

ہیں وہ آپ کو کمزور متزلزل نہیں کرسکتے_

( واصبر لحکم ربک فانک باعیننا ) (۱)

آپ خدا کے حکم کے مطابق صبر کریں، بے شک آپ ہمارے منظور نظر ہیں_

( فاصبر صبراجمیلاً ) (۲)

آپ صبر جمیل کریں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوسرے اولوالعزم پیغمبروں ہی کی طرح صبر کا حکم ہے اس لئے کہ نبوت کا دشوار گذار راستہ بغیر صبر کے طے کرنا ممکن نہیں ہے _ جیسا کہ دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ صبر نصرت خدا ہے اور دشمنوں کی طرف سے جو رسول خدا کو کمزور اور متزلزل قرار دیا جارہے ہے اسکا کوئی اثر نہیں لینا چاہیئے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی تمام مصیبتوں، رسالت کی مشکلوں اور حادثات زندگی میں صبر سے کام لیا اور صراطمستقیم پر ثابت قدمی کے ساتھ آپ نے پیغام الہی کی تبلیغ کے راستہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ہٹاکر اپنے لئے عبادت اور اطاعت کے پر مشقت راستوں کو ہموار کرکے بشریت کی ہدایت کا راستہ کھول دیا_

___________________

۱) طور ۴۸_

۲) معارج ۵_

۱۰۳

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صابر اور کامیاب

حادثات روزگار کی تیز ہوا ، جانکاہ مصاءب کے گرداب اور سیاہ دل مخالفوں کی تکذیب کے مقابل تمام پیغمبروں کا جو طریقہ تھا اسی کا نام صبر ہے _

( و لقد کذبت رسل من قبلک فصبروا علی ماکذبوا و اوذوا حتی آتاهم نصرنا ) (۱)

بیشک آپ سے پہلے(پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ) جو رسول بھیجے گئے ان کو جھٹلایا گیا ان لوگوں نے جھٹلائے جانے اور اذیت پہونچائے جانے کے بعد صبر کیا یہاں تک کہ ہماری نصرت ان تک پہونچی_

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی تمام پیغمبروںکی طرح اپنی رسالت کی تبلیغ کے لئے پروردگار کی طرف سے صبر پر مامور تھے_

( فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ) (۲)

صبر کیجئے جیسا کہ اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا _

اس راستہ میں دوسرے تمام پیغمبروں سے زیادہ تکلیفیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اٹھانی پڑیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود فرماتے ہیں:

( ما اوذی نبی مثل ما اوذیت فی الله ) (۳)

___________________

۱) انعام ۳۴_

۲) احقاف ۳۵_

۳) میزان الحکم ج۱ ص۸۸_

۱۰۴

راہ خدا میں کسی پیغمبر کو اتنی اذیت نہیں پہونچی جتنی اذیت مجھے پہونچنی _

آخر کار آیہ کریمہ( ان مع العسر یسرا ) (۱) (ہر سختی کے بعد آسانی ) کے مطابق رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے دن اپنے صبر کے نتاءج و آثار دیکھ لئے وہ دن جس کو قرآن اپنے لفظوں میں اس طرح یاد کرتاہے( اذا جاء نصر الله والفتح و رایت الناس یدخلون فی دین الله افواجا فسبح بحمد ربک و استغفره انه کان توابا ) (۲)

جس دن خدا کی مدد پہونچی اور کامیابی حاصل ہوئی اور آپ نے دیکھا کہ لوگ گروہ در گروہ دین خدامیںداخل ہوئے چلے جارہے ہیں پس آپ حمدکے ساتھ اپنے پروردگار کی تسبیح کیجئے اور اسکی درگاہ میں استغفار کیجئے، بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے _

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صبر کے سایہ میں کامیابی کی منزل تک پہنچے' کعبہ بتوں کی نجاست سے پاک ہوگیا، بت پرستی ختم ہوئی اور پرچم توحید لہرایا، یہ کامیابیاں اس صبر کا نتیجہ تھیں جو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے راہ خدا میں اختیار کیا تھا_

___________________

۱) انشراح ۶_

۲) سورہ النصر_

۱۰۵

مختلف قسم کی بہت سی مخالفتیں اور اذیتیں

کفار و مشرکین نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آزار پہنچانے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے، کبھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ساحرکاذب اور کاہن کہا گیا_زبان کے ذریعہ زخم پہونچاکر آپ کے دل کو تکلیف پہونچائی گئی، کبھی جنگ برپا کرنے، دہشت گردی کے ذریعہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ختم کردینے کیلئے میدان میں لوگ اتر آئے لیکن صابر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی بنائی ہوئی سازش کو نقش بر آپ کردیا اور کامیابی کے ساتھ اپنے الہی فریضہ کو پورا کرتے رہے_

زبانوں کے زخم

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیمات کی روشنی مدہم کرنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہچا نے کے لئے مشرکین نے جو شیطانی حربے اختیار کئے ان میں سے ایک حربہ زبان کے ذریعہ زخم لگانا بھی تھا_

قرآن کریم نے مخالفین رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آزار پہچانے والی بعض باتوں کو نقل کیا ہے ارشاد ہے:

( و قال الذین کفروا هل ندلکم علی رجل ینبءکم اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید افتری علی الله کذبا ام به جنة ) (۱)

اور کافروں نے (مزاق اڑاتے ہوئے) کہا : کیا تم کو ہم ایسے شخص کا پتہ بنائیں جو یہ

___________________

۱) (سورہ صبا ۸،۷)

۱۰۶

کہتاہے کہ تمہارے مرنے اور جسم کے ذرات کے بکھرجانے کے بعد تم کو زندہ کیا جائیگا کیا یہ شخص جان بوجھ کر خدا پر جھوٹا الزام لگاتاہے یا جنون اسکو اس بات پر مجبور کرتاہے_

( و یقولون اءنا لتارکوا آلهتنا لشاعر مجنون ) (۱)

وہ لوگ کہتے ہیں کہ کیا ہم اپنے خداؤں کو ایک دیوانہ شاعر کے کہنے کی بنا پر چھوڑ دیں_

( فذکر فما انت بنعمت ربک بکاهن و لا مجنون ام یقولون شاعر نتربص به ریب المنون ) (۲)

بس تم یاد کرو کہ تم خدا کے فضل و نعمت سے نہ کاہن ہو اور نہ دیوانہ ہو _یا جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ شاعر ہے تو ہم ان کی موت کے انتظار میں ہیں_

رسول اکرم کے پاس آکر چند مشرکین کے زبان سے ایذاء پہچا نے کے واقعہ کو امیرالمومنینعليه‌السلام نہج البلاغہ میں بیان فرماتے ہیں :

'' اس دن جس دن قریش کا ایک وفد حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا تو میں آپ کے پاس موجود تھا میں نے ان کی گفتگو سنی انہوں نے کہا : اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ ایسی چیز کا دعوی کرتے ہیں جس کا دعوی نہ آپ کے آباء و اجداد نے کیا تھا اور نہ آپ کے خاندان نے اب جو ہم

___________________

۱) (صافات ۳۶)

۲) (طور ۲۹_۳۱)

۱۰۷

کہتے ہیں وہ آپ کر دکھایئےاگر آپ نے وہ کردیا اور ہم نے دیکھ لیا تو ہم سمجھ جائیں گے کہ آپ سچ مچ پیغمبر اور خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور اگر آپ اس کو نہ کرسکے تو ہم یہ سمجھ لیں گے کہ آپ جادوگر اور جھوٹے ہیں _

رسول خدا نے فرمایا : کہو کیا کرنا ہے ؟ انہوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس درخت کو آپ اپنے پاس بلالیں اور یہ درخت جڑ سے اگھڑ کر آپ کے پاس آجائے حضرت نے فرمایا : خدا ہر کام کی قدرت رکھتا ہے لیکن اگر میں تمہاری یہ خواہش پوری کردوں تو کیا تم ایمان لے آؤگے اور حق کی گواہی دوگے ؟ سب نے کہا ''ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اب تم نے جو کہاہے وہ میں کردکھاتاہوں لیکن مجھ کو اس بات کا اطمینان ہے کہ تم اس کے باوجود اسلام اور سچے قانون کو نہیں قبول کروگے_

ان لوگوں نے جس چیز کی فرمائشے کی تھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ کردکھائی لیکن انہوں نے اپنے کئے ہوئے وعدہ کے خلاف کہا نہیں یہ جادوگر اور چھوٹا ہے ، جادوگری میں یہ کتنا ہوشیار اور تیز ہے (معاذ اللہ)_

ان تکلیف دہ باتوں سے اگر چہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قبلی طور پر رنج ہوا مگر حکم خدا پر عمل کرتے ہوئے صبر کیا اور مخالفین کی غلط باتوں کے جواب میں سوائے حق کے زبان پر کچھ نہ لائے_

___________________

۱) (نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۴)_

۱۰۸

خلاصہ درس

۱) صبر اور استقامت کامیابی کا سرمایہ اور مشکلات پر غلبہ کا راز ہے _

۲) لغت میں صبر کے معنی شکیبائی ، بردباری ، بلا اور شداءد پر شکایت نہ کرنے کے ہیں_ ا ور استقامت کے معنی ثبات قدم کے ہیں _

۳ ) صبر کے اصطلاحی معنی ہیں ، مصیبتوں اور نامناسب حالات میں ثبات نفس، شجاعت اور انکے مقابل یوں ڈٹ جانا کہ سعہ صدر ختم نہ ہو اور سابقہ وقار و خوش حالی زاءل نہ ہو_

۴)پیغمبر اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دوسرے اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر پر مامور ہونا اس بات کا ظاہر کرتاہے کہ نبوت کا دشوار گذار راستہ بغیر صبر کے ناممکن ہے _

۵ ) دوسرے پیغمبروں کی طرح پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی تبلیغ رسالت میں خدا کی طرف سے صبر پر مامور تھے_ اور اس راستہ میں دوسرے تمام پیغمبروں سے زیادہحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی بھی پیغمبر کو خدا کے راستہ میں میرے جتنی تکلیف نہیں دی گئی _

۶) مشکرین نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہونچانے اور ان کی تعلیمات کی اساس کو متزلزل کرنے کیلئے جو حربے استعمال کئے ان میں سے زبان کا زخم بھی تھا_ناروا گفتگواگر چہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل کو تکلیف پہونچاتی تھی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حکم سے صبر کرتے اور مخالفین کی بدزبانی کے جواب میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتے تھے_

۱۰۹

سوالات

۱_ صبر کے لغوی اور اصطلاحی معنی تحریر کیجئے؟

۲_ صبر اور استقامت کا رابط بیان کیجئے؟

۳_ استقامت کے لغوی اور اصطلاحی معنی تحریر کیجئے؟

۴_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو صبر کا حکم کیوں دیا گیا تھا؟

۵_ مشرکین کی بدزبانی کے سلسلہ کی ایک آیت کو بیان کرتے ہوئے ان کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برتاؤ کو بیان کیجئے_

۱۱۰

آٹھواں سبق:

(جسمانی اذیت)

زبان کا زخم لگانے کے علاوہ کفار و مشرکین آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو بہت سی جسمانی اذیتیں پہنچا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راہ حق سے ہٹا دینا چاہتے تھے ، منقول ہے کہ مشرکین قریش نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت ستایا ان میں سب سے بڑا ظالم آپکا چچا ابولہب تھا ایک دن جب پیغمبر حجرے میں تشریف فرماتھے اسوقت مشرکین نے ایک گوسفند کے رحم کو ، جس سے بچہ نکالا جاچکا تھا، چند اوباشوں کے ذریعہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سرپر ڈلو دیا_(۱)

ابولہب نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اتنی اذیت پہنچا کہ خدا کی لعنت اور نفرین کا مستحق قرار دیا سورہ تبت اسکے اور اسکی بیوی (حمالة الحطب _ ام جمیلہ) کے بارے میں نازل ہوا :

( تبت یدا ابی لهب و تب ما اغنی عنه ماله و ما کسب سیصلی نارا ذات لهب و امراءته حمالة الحطب فی جیدها حبل من

___________________

۱) (زندگانی چہاردہ معصوم ترجمہ اعلام الوری ص ۶۴)_

۱۱۱

مسد ) (۱)

ابولہب ( جو ہمیشہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہونچا تا تھا ) اسکا ستیاناس ہوا اس کے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے اس نے جو مال و اسباب ( اسلام کو مٹانے کیلئے) جمع کیا تھا اس نے ابولہب کو ہلاکت سے نہیں بچایا، وہ جلد ہی جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں پہنچ جائیگا اور اسکی بیوی (ام جمیلہ) دوزخ کا ایندھن بنے گی اس حالت میں کہ (نہایت ذلت کے ساتھ) لیف خرما کی بٹی ہوئے رسیاں اس کی گردن میں ہوں گے _

ابولہب کی بیوی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت اذیت پہنچا تی تھی قرآن نے اس کو'' حمالة الحطب'' کے نام سے یاد کیا ہے _

ابن عباس نے قرآن مجید کے بیان کئے ہوئے اس نام کی دلیل میں فرمایا '' وہ لوگوں کے درمیان چغلی کیا کرتی تھی اور دشمنی پیدا کردیتی تھی اس طرح آتش جنگ بھڑک اٹھتی تھی جیسے کہ ایندھن کی آگ بھڑکائی اور جلائی جاتی ہے لہذا اس نمامی ( چغلی) کی صفت کو ایندھن کا نام دے دیا گیا(۲) _

منقول ہے کہ وہ ملعونہ خس و خاشاک اور خاردار جھاڑیاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے راستہ میں ڈال دیتی تھی تا کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز کیلئے نکلیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیروں سے وہ الجھ جائیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیر زخمی ہوجائیں(۳)

___________________

۱) (سورہ تبت)_

۲) ( مجمع البیان ج ۲۷)_

۳) (مجمع البیان ۲۷)_

۱۱۲

مشرکین کے ستانے اور اذیت پہچانے کے واقعات میں سے ایک واقعہ طاءف میں قبیلہ '' بنی ثقیف'' کا بھی ہے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سے منقول ہے کہ میں نے عبدیالنیل ، حبیب اور مسعود بن عمران تینوں بھائیوں سے مقالات کی کہ جو قبیلہ بنی ثقیف کے بزرگان میں سے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دی ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں تو میں نے گویا کعبہ کو چرایا ، دوسرے نے کہا کہ کیا خدا عاجز تھا کہ اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھیج دیا ، اس کو ایسے کو بھیجنا چاہئے تھا جس کے پاس طاقت اور قدرت ہو تیسرے نے کہاخدا کی قسم میں اس کے بعد اب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بات نہیں کروں گا اور پھر اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑایا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو اسلام کی دعوت دی تھی اسے لوگوں میں پھیلا دیا_

۱۱۳

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم طاءف سے نکلنے لگے تو وہاں کے ذلیل اور اوباش افراد ان تینوں کے بھڑکانے سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے راستے کے دونوں طرف کھڑے ہوگئے اور انہوںنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پتھر برسائے جسکی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پائے مبارک مجروح ہوگئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حال میں وہاں سے نکلے کر آپ کے پاؤں سے خون جاری تھا_(۱)

مندرجہ ذیل واقعہ بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کمال صبر کا بہترین نمونہ ہے '' منیب ابن مدرک'' نے اپنے جد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا '' جاہلیت کے زمانے میں '' میں نے رسول خدا کو دیکھا کہ آپ'' یا ایها الناس قولوا لا اله الا الله تفلحوا'' (اے لوگو تم یہ کہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تا کہ تم نجات پاجاؤ) کی تبلیغ کررہے تھے کہ ایک ملعون کافر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ اقدس پر ایک طمانچہ مارا، کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سر اور چہرہ پر خاک ڈالی، کسی نے آپ کو دشنام دیا میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی بچی ایک پانی کا ظرف لیکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بڑھی آپ نے اپنا ہاتھ اور چہرہ دھویا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : صبر کرو اور اگر کوئی تمہارے باپ رسول خدا کو رسوا کرے یاستائے تو تم غمگین نہ ہونا _(۲)

میدان جنگ میں صبر کا مظاہرہ

جن جگہوں پر صبر کا بڑا گہرا اثر پڑتاہے ان میں سے ایک میدان جنگ و کارزار بھی ہے _ صدر اسلام کی بہت سی جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لشکر اور اسلحہ کفار سے کم تھا لیکن خدا کی مدد اور رسول خدا کی فکر سلیم کی بناپر صبر و شکیبائی کے سایہ میں اکثر جنگیں فتح و کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئیں _ مسلسل پیش آنے والی جنگو ں میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شرکت کی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوصلوں میں کبھی بھی شکست کے آثار نظر نہیں آئے_

جنگ احد ابتدائے اسلام کی صبر آزما اور سخت جنگ تھی جب یہ جنگ اپنے عروج پر تھی اسوقت اصحاب نے فرار کیا کچھ درجہ شہادت پر فائز ہوگئے_چنانچہ چند افراد کے علاوہ اور

___________________

۱) ( حلیة الابرار ج۱ ص ۱۷۷)_

۲) ( میزان الحکمہ ج۹ ص ۶۷۱)_

۱۱۴

کوئی دفاع کرنیوالا نہیں تھا لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صبر و استقامت اور علیعليه‌السلام کی شجاعت نے دشمن کو جنگ سے روک دیا اس جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ اور دہن مبارک سے خون جاری تھا، ابن قمیءہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک تیر مارا جو آپکے ہاتھ پر آکر لگا اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی ، عتبہ ابن ابی وقاص نے ایک ایسی ضربت لگائی جس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دہن اقدس سے خون بہنے لگا عبداللہ ابن ابی شہاب نے زمین سے ایک پتھراٹھاکر آپ کے فرق اطہر پر مارا(۱) حضرت امیر المؤمنینعليه‌السلام پیغمبر کی شجاعت اور صبر کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

جب جنگ اپنے شباب پر ہوتی تھی اوردونوں طرف سے گھمسان کارن پڑتا تھا تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پناہ ڈھونڈھتے ہوئے پہنچتے تھے دشمنوں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جتنا قریب ہوتے تھے اتنا قریب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا _(۱)

میدان جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صبر کی بناپر نصرت الہی سایہ فگن رہتی تھی_قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:

'' ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا ماتین'' (۱)

اگر تم میں سے بیس افراد ایسے ہوں جو صبر کے زیور سے آراستہ ہوں تو دو سو افراد پر غالب آسکتے ہیں _

___________________

۱) ( زندگانی چہاردہ معصوم ص ۱۱۹)_

۲) ( میزان الحکم ج ۹ ص ۶۶۲)_

۳) (انفال۶۵) _

۱۱۵

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی استقامت

استقامت اور پائیداری پسندیدہ صفات ہیں پیغمبر ختمی مرتبت، میں یہ صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں اپنی سخت ذمہ داریوں کو پورا کرنے (شرک او ر کفر کا خاتمہ) اور معاشرہ میں آئین توحید کو راءج کرنے کے سلسلہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا کی طرف سے ثابت قدم رہنے کا حکم دیا گیا تھا_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ثابت قدم اور اس حکم کی پابندی کا یہ حال تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر بڑھاپے کے آثار بہت جلد نظر آنے لگے جب کسی نے آپ سے سوال کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتنی جلدی کیسے بوڑھے ہوگئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''شیبتنی هود والواقعه ...''

مجھے سورہ ہود اور واقعہ نے بوڑھا کردیا _

ابن عباس بیان فرماتے ہیں( فاستقم کما امرت ) (۱) سے زیادہ سخت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کسی آیت کا نزول نہیں تھا _

جو سختیاں تبلیغ کی راہ میں انبیاء کرام برداشت کرتے رہے ہیں سورہ ہود کے کچھ مضامین میں ان سختیوں کو بیان کیا گیا ہے اور سورہ واقعہ میں مرنے کے بعد کی دشواریوں کا ذکر ہے اسی لیے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان دونوں سوروں کے مضامین پر بہت زیادہ غور فرمایا کرتے تھے_

___________________

۱) (المیزان ج ۱۱ ص ۶۶)_

۱۱۶

کفار و مشرکین کی سازش، دھمکی اور لالچ کے سامنے جس ثبات قدم کا آپ نے مظاہرہ فرمایا، مندرہ ذیل سطروں میں اس کو بیان کیا جارہاہے_

کفار و مشرکین سے عدم موافقت

مکہ کے کفار و مشرکین نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے موافقت کی بہت کوشش کی لیکن ان کی انتھک کوشش کے باوجود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی ایسا عمل نہیں انجام دیا جس سے آپ کی کمزوری ثابت ہو، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عقاءد کا برملا اظہار کیا اور بتوں یا بت پرستوں کے خلاف جنگ سے کبھی بھی منہ نہیں موڑا_قرآن کریم نے کفار و مشرکین کے نظریہ کو پیش کرتے ہوئے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :

( فلا تطع المکذبین و ذوالوتدهن فیدهنون ) (۱)

آپ جھٹلانے والوں کا کہنا نہ مانیں وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر آپ نرم پڑجائیں تو یہ بھی نرم ہوجائیں_

مشرکین کی ساز باز اور موافقت کی کوشش کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے لگایا جاسکتاہے_

___________________

۱) (القلم ۸ _ ۹)_

۱۱۷

قبیلہ '' ثقیف'' کا ایک گروہ معاہدہ کرنے کیلئے مدینہ سے مکہ آیا ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے کی جو شراءط رکھیں تو اس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ان سے نماز معاف کردی جائے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی اس خواہش کو رد کردیا اور فرمایا'' جس دین میں نماز نہ ہو وہ بیکار ہے'' نیز انہوں نے یہ کہا کہ ان کا بتخانہ تین سال تک برقرار رکھا جائے اور انکے اس بڑے بت کی پرستش کی چھوٹ دی جائے جسکا نام (لات) ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ درخواست رد کردی ،آخر میںانہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم کو خود ہمارے ہی ہاتھوں سے بتوں کے توڑنے کا حکم نہ دیا جائےپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ شرط منظور کرلی اور کچھ لوگوں کو حکم دیا کہ تم ان بتوں کو توڑ دو _(۱)

دھمکی اور لالچ

دھمکی اور لالچ یہ ایسے خوفناک اور ہوس انگیزہتھیار تھے جسے کفار نے انبیاء کرام خصوصاً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو روکنے کیلئے استعمال کئے_مشرکین مکہ نے جب یہ دیکھ لیا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے عقاءد پر ثابت قدم رہیں گے اور اس کے برملا اظہار سے باز نہیں آئیں گے تو ان لوگوں نے آپ کو ڈرانے اور لالچ دینے کی پلاننگ تیار کی اس غرض سے وہ ایک وفد کی صورت میں جناب ابوطالبعليه‌السلام کی خدمت میں پہنچے اور کہا '' آپ کا بھتیجا،ہمارے

___________________

۱) ( فروغ ابدیت ج۲ ص ۷۹۷ ،۷۹۹)_

۱۱۸

خداؤں کو برا کہتاہے ہمارے قانون کی برائی کرتاہے ہمارے افکار و عقاءد کا مذاق اڑاتا اور ہمارے آباء اور اجداد کو گمراہ سمجھتاہے لہذا تو آپ ان کو اس کام سے روک دیجئے یا انھیں ہمارے سپرد کردیجئے اور ان کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیجئے_(۱)

بعض تاریخوں میں یہ بھی لکھاہے کہ اگر ان کو مال چاہیئے تو ہم مال دینگے اگر کوئی خوبصورت عورت چاہئے تو ہم اس کے لئے حاضر ہیں_ جب ابوطالب نے یہ پیغام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

'' والله لو وضعوا الشمس فی یمینی والقمر فی یساری علی ان اترک هذاالامر حتی یظهره الله او اهلک فیه ، ما ترکته'' (۲)

اگر وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھدیں اور کہیں کہ اس کام سے باز آجاوں تو خدا کی قسم میں اس سے باز نہیں آؤنگا، یہاں تک کہ خدا اس دین کو غالب کردے یا میں اس راہ میں قتل کردیا جاؤں_

ابوجہل کی دھمکی

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شدیدترین دشمنوں میں سے ایک ابوجہل بھی تھا اس نے ایک خط کے ذریعہ دھمکی دیتے ہوئے کہا '' تمہارے خیالات نے تمہارے لیے سرزمین مکہ کو تنگ

___________________

۱) (فروغ ابدیت ص ۷۹۷، ۷۹۹)_

۲) (سیرہ ابن ہشام ج۱ از ص ۲۸۳ تا ۲۸۵)_

۱۱۹

کردیا اور تم دربدر ہو کر مدینہ پہنچے جب تک تمہارے ذہن و دماغ میں ایسے خیالات پرورش پاتے رہیں گے اس وقت تک تم اسی طرح دربدر رہوگے اور یہ خیالات تمہیں غلط کاموں پر آمادہ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ تم مدینہ والوں کو بھی فاسد کرڈالوگے اور اس آگ میں مدینہ والے بھی جل جائیں گے جس کے شعلے تم نے بھڑکارکھے ہیں ، میری آنکھوں کے سامنے تمہارا بس یہ نتیجہ ہے کہ قریش تمہارے برپا کئے ہوئے فتنوں کو دبانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے اس کے علاوہ یہ بھی ہوگا کہ کفار مدینہ اور وہ لوگ ان کی مدد کریں گے جن کے دل تمہاری دشمنی سے لبریز ہونگے اگر چہ آج وہ تم سے ڈرکر تمہاری مدد اور پشت پناہی کررہے ہیں لیکن جب وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیںگے کہ تمہارے ہلاک ہونے سے وہ بھی ہلا ک ہوجائیں گے اورا نکے بال بچے تمہارے فقر اور مجبوری سے لاچار اور فقیر ہوجائیں گے تو وہ تمہاری مدد سے ہاتھ اٹھالیں گے_ وہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ دشمن تم پر فتحیاب ہونے کے بعد زبردستی ان کی سرزمین میں گھس آئیں گے اور پھر وہ دشمن ، تمہارے دوست اور دشمن میں کوئی امتیاز نہیں کریں گے اور ان سب کو تباہ و برباد کرڈالیں گے ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالیںگے _ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس نے تم کو یہ دھمکی دی ہے وہ حملہ بھی کرسکتاہے اور جس نے بات بڑے واضح انداز میں کہی ہے اس نے پیغام پہچا نے میں کوتاہی نہیں کی (معاذاللہ)

یہ خط آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب پاس اس وقت پہونچا جب بنی اسرائیل کے یہودی مدینہ کے باہر جمع تھے، اس لئے کہ ابوجہل نے اپنے قاصد کو یہ حکم دیا تھا کہ یہ خط

۱۲۰

ایسے ہی موقع پر پڑھ کر سنایا جائے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والوں پر خوف طاہری ہوجائے اور کافروں کی جراءت میں اضافہ ہو_

ابوجہل کے قاصد سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' کیا تیری بات ختم ہوگئی ؟ کیا تو نے پیغام پہنچا دیا اس نے کہا ہاں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تو جواب بھی سنتا جا جس طرح ابوجہل مجھے دھمکیاں دیتاہے اسی طرح خدا میری مدد اور کامیابی کاوعدہ کرتاہے، خدا کی دی ہوئی خبر میرے لئے زیادہ مناسب اور اچھی ہے جب خدا، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کیلئے تیار ہے تو پھر کسی کے غصہ اور بے وفائی سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا_

تم ابوجہل سے جاکر کہہ دینا کہ شیطان نے جو تعلیم تمہیں دی تھی ، وہی باتیں تم نے مجھے کہی اور میں جواب میں وہ کہہ رہاہوں جو خدا نے مجھ سے کہاہے انیس دن بعد ہمارے اور تمہارے درمیان جنگ ہوگی اور تم میرے ایک کمزور مددگار کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے ، تم کو عتبہ و شیبہ اور ولید کو قتل کیا جائیگا، نیز قریش کے فلاں فلاں افراد بھی بہت بری طرح قتل کرکے بدر کے کنویں میں پھینک دئے جائیں گے تمہارے لشکر کے ستر (۷۰) آدمیوں کو ہم قتل کریں گے اور ۱۷۰ افراد کو اسیر بنائیں گے_(۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استقامت اور پائیداری کے ساتھ اس طرح زندگی گذاری جس طرح خدا چاہتا تھا اور کسی بھی طاقتور سے دین کے معاملہ میں سازش نہیں کی _

___________________

۱)بحارالانوار ج ۱۷ ص ۳۴۳_

۱۲۱

خلاصہ درس

۱)زبان سے زخم لگانے کے علاوہ کفار و مشرکین ، رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کو بہت زیادہ جسمانی اذیتیں بھی پہنچا تے تھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان تمام مصیبتوں اور تکلیفوں پرصبر فرماتے تھے_

۲) جن مقامات پر صبر کی بڑی اہمیت ہے ان میں سے ایک میدان جنگ بھی ہے صدر اسلام کی بہت سی جنگوں میں مسلمانوں کا لشکر اور جنگی ساز و سامان کفار قریش کے لشکر اور اسلحوں سے بہت ہی کم تھا لیکن پھر بھی خدا کی تائید اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہترین فکر کے ساتھ صبر و شکیبائی کے سایہ میں اکثر جنگیں مسلمانوں کی کامیابی پر اختتام پذیر ہوئی_

۳ ) استقامت اور پاییداری اچھی صفتیں ہیں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں یہ صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں_

۴ ) کفار و مشرکین نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دین کے معاملہ میں موافقت کرنے کی بڑی کوششیں کی لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی طرح کی نرمی یا اپنے موقف میں لچک کا اظہار نہیں فرمایا _ نیز بتوں اور بت پرستوں سے ہمیشہ جنگ کرتے رہے_

۵) دھمکی اور لالچ دو ایسے حربہ تھے جو کفار نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوصلہ کو پست کرنے کیلئے استعمال کئے لیکن رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ثابت قدمی میں کوئی چیز جنبش نہ لاسکی_

۱۲۲

سوالات :

۱_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی جانے والی جسمانی اذیت کا ایک نمونہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رد عمل کے ساتھ بیان فرمایئے

۲_ میدان جنگ میں صبر کا کیا اثر ہوتاہے؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ سورہ ہود اور سورہ واقعہ نے مجھے بوڑھا کردیا؟

۴_ دھمکی اور لالچ کے مقابل حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کس رد عمل کا اظہار فرمایا؟

۵_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی طرف سے کسی نرمی یا دین کے معاملہ میں کسی موافقت کو کیوں قبول نہیں کیا ؟ اس سلسلہ کی آیت بیان کرکے توضیح فرمائیں؟

۱۲۳

نواں سبق:

(پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحمت)

انسانیت کے کمال کی جو اعلی ترین مثال ہوسکتی ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے سب سے بڑے مصداق اور انسانی فضاءل و کمالات کا اعلی نمونہ تھے ، اخلاق الہی کا مظہر اور( انک لعلی خلق عظیم ) (۱) کے افتخارسے سرفراز تھے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فضاءل کا بلند پہلو یہ ہے کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو '' رؤف و رحیم'' کے لقب سے یاد فرمایاہے:

( لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین روف رحیم ) (۲)

رسول جو تمہاری صنف سے ہے فرط محبت کی بناپر تمہاری تکلیف ان کے اوپر بہت گراں ہے _ وہ تمہاری نجات پر حریص ہے اور مؤمنین پر رؤف و مہربان ہے_

___________________

۱) ( توبہ ۱۲۸)_

۲) (قلم ۴)_

۱۲۴

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبی رحمت ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فیض رحمت سے نہ صرف مؤمنین اور محبین بلکہ سخت ترین دشمن بھی بہرہ مند ہوتے رہے ، اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سبق اپنے پروردگار سے سیکھا تھا_

( و ما ارسلنک الا رحمة للعالمین ) (۱)

ہم نے آپ کو عالمین کیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے_

( فاعف عنهم واصفحه ) (۲)

ان کو معاف کردیجئے او ردرگذر کیجئے_

آپ کریمانہ اخلاق اور درگذر کی صفت سے مالامال تھے، محض ناواقف دوستوں اور دشمنوں کی اذیتوں او ر برے سلوک کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاف ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی یاد بھی دل سے نکال دیتے تھے ، دل کے اندر بغض اور کینہ نہیں رکھتے تھے _ کہ جس سے اقتدار حاصل ہونے کے بعداس کے ساتھ انتقامی کاروائی کریں ، خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وسعت قلب سے نوازا تھا(الم نشرح لک صدرک )اے رسول کیا ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شرح صدر کی نعمت نہیں عطا کی _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسے کریمانہ اخلاق اور مہربان دل کے مالک تھے کہ ناواقف اور خودغرض دشمنوں کی گستاخیوں اور جسارتوں کا انتقام لینے کی کبھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فکر نہیں کی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بلند اخلاق اور وسعت قلبی نے قرابت داروں ، دوستوں اور سخت ترین دشمنوں کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گرویدہ

___________________

۱)(ماءدہ ۱۳۱)_

۲)(انبیاء ۱۰۷)_

۱۲۵

بنا دیا _

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ذاتی حق کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، اگر کوئی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تکلیف بھی پہنچا تو آپ اسے معاف فرمادیتے ہاں اگر کوئی حکم خدا کی ہتک حرمت کرتا تھا تو اس وقت حد الہی جاری فرماتے تھے_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی کو دشنام نہیں دیا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی خدمت گار کو یا کسی بیوی پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ راہ خدا میں جہاد کے لئے صرف کفار پر اٹھے_(۱)

جنگ احد میں جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے اور چہرہ مبارک پرزخم لگے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو اس کا بہت دکھ ہوا انہوں نے درخواست کی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمنوں اور کافروں کیلئے بد دعا اور نفرین کریں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں لعن اور نفرین کے لئے نہیں مبعوث کیاگیاہوں، مجھے تو رحمت بناکر بھیجا گیاہے ، میں ان کیلئے دعا کرتاہوں کہ خدا انکی ہدایت کرے اس لئے کہ یہ لوگ ناواقف ہیں(۲)

ان مصیبتوں کو برداشت کرنے کے بعد بھی ان کے لئے دست دعا بلند کرنا اور خدا سے عذاب کی بدلے ہدایت مانگنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو و رحمت،حسن اخلاق اور کمال کی دلیل ہے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عمومی اخلاق کا یہ نمونہ تھا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود

___________________

۱) (محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۸)_

۲) (محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۹)_

۱۲۶

ہیں اب یہ کہ سختیوں کے جھیلنے کے بعد عفو اور درگزر کا انسانی اخلاق پر کیا اثر پڑتاہے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کی زندگی کے عفو و درگزر کے حوالے سے چند واقعات کی مدد سے ہم اس کی طرف اشارہ کریں گے البتہ ہمیں اعتراف ہے کہ ان عظیم الہی آیات پر مکمل تجزیہ کرنے سے ہم عاجز ہیں یہ کام ہم فقط اس لیے کررہے ہیںکہ ہمارے نفس پر اس کا اثر پڑے اور وہ واقعات ہماری ہدایت کا چراغ بن جائیں_

عفو، کمال کا پیش خیمہ

عفو کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ وہ انسان کے اندر کمال کا جوہر پیدا کردیتاہے، اس لئے کہ عفو کرنے والا جہاد اکبر کی منزل میں ہوتاہے، وہ اپنے نفس سے جہاد کرتاہے، اس کا نفس انتقام کیلئے آمادہ کرتاہے، اس کے غیظ و غضب کی آگ بھڑکاتاہے، لیکن معاف کرنے والا انسان ایسی خواہشوں سے نبرد آزمائی رکتارہتاہے اور پھر خودسازی اور کمال روح کی زمین ہموار ہوجاتی ہے، اس لئے عقل و نفس کی جنگ میں اگر انسان شرع اور عقل کو حاکم بنالے تو یہ انسان کے اندر کمال پیدا کرنے کے ضامن ہیں_

عفو میںدنیا اور آخرت کی عزت

عفو اور درگذر کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں انسان کی عزت میں اضافہ

۱۲۷

کرتاہے_

عزت دنیا

شیطان ، انسان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا کرتاہے کہ اگر تم انتقام نہیں لوگے تو لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوجاوگے، دوسرے شیر بن جائیں گے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے عفو اور درگذر انسان کی قدر و منزلت کو بڑھانے اور اس کی شخصیت کو بلند کرنے کا سبب ہے ، خاص طور پر اگر توانائی اور طاقت کی موجودگی میں کسی کو معاف کردیا جائے تو یہ اور بھی زیادہ موثر ہے ، اگر عفو کو ترک کردیا جائے تو ہوسکتاہے کہ لڑائی جھگڑا ہوجائے اور پھر بات عدالت تک پہنچے کبھی کبھی تو ایسا ابھی ہوتاہے کہ ترک عفوانسان کی جان، مال عزت اور آبرو کے جانے کا باعث بن جاتاہے اور ان تمام باتوں سے انسان کی قدر و قیمت گھٹ جاتی ہے _

کلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

مندرجہ بالا حقائق کی طرف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام نے اپنے کلام میں اشارہ فرمایاہے_

''عن ابی عبدالله قال:قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیکم بالعفو فان العفو لا یزید العبد الا عزا فتعافوا یعزکم الله'' (۱)

___________________

۱) (مرآة العقول ج۸ ص ۱۹۴)_

۱۲۸

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تم عفو اور درگذر سے کام لیا کرو کیوں کہ عفو فقط انسان کی عزت میں اضافہ کرتاہے لہذا تم عفو کیا کرو کہ خدا تمہیں عزت والا بنادے_

''عن ابی عبدالله قال: قال رسول الله فی خطبته الا اخبرکم بخیر خلایق الدنیا والآخرة ؟ العفو عمن ظلمک و تصل من قطعک والاحسان الی من اساء الیک و اعطاء من حرمک'' (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: کیا میں تم کو اس بہترین اخلاق کی خبردوں جو دنیا و آخرت دونوں میں نفع بخش ہے ؟ تو سنو، جس نے تمہارے اوپر ظلم کیا اس کو معاف کردینا ، ان رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا جنہوں نے تمہارے ساتھ قطع رحمی کی ، اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا جو تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے، اور اسکو عطا کرنا جس نے تم کو محروم کردیا ہو یہ بہترین اخلاق ہیں _

آخرت کی عزت

عفو و درگذر میں انسان کی اخروی عزت بھی پوشیدہ ہے کہ اس سے معرفت پروردگار حاصل ہوتی ہے_

___________________

۱) ( مرآة العقول ج۸ ص۱۹۲)_

۱۲۹

قرآن کہتاہے :

( والیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفر الله لکم والله غفور رحیم ) (۱)

مؤمنین کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر عفو اور درگذر کی صفت پیدا کریں ، کیا تم اس بات کو دوست نہیں رکھتے کہ خدا تم کو بخش دے، خدا بڑ ا بخشنے والا اور مہربان ہے _

( و سارعوا الی مغفرة من ربکم و جنةعرضها السموات والارض اعدت للمتقین الذین ینفقون فی السراء والضراء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس والله یحب المحسنین ) (۲)

تم اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جس کو اللہ نے پرہیز گار بندوں کے لئے مہیا کررکھاہے، ان پرہیزگاروں کیلئے جو اپنے مال کو وسعت اور جنگ کے عالم میں فقراء پر خرچ کرتے اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیک اعمال کرنے والوں کو دوست رکھتاہے_

___________________

۱) (نور۲۲)_

۲) (آل عمران ۱۲۴، ۱۲۳)_

۱۳۰

رسول خدا کی عزت

عفو و رحمت جیسی تمام صفات کمال کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدابارگاہ میں حقیقی عزت حاصل تھی( ان العزة لله و لرسوله ) عزت خدا اور اس کے رسول کیلئے ہے _

رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن عفو میں آنے کے بعد نہ صرف مؤمنین بلکہ دشمن بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وفادار دوست بن جاتے تھے اس لئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے خدا سے یہ عظیم ادب سیکھا تھا، ارشاد ہوتاہے :

( ادفع بالتی هی احسن فاذا الذین بینک و بینه عداوة کانه ولی حمیم ) (۱)

اے میرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ لوگوں کی بدی کا بدلہ نیکی سے دیں تا کہ جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمن ہیں وہ دوست بن جائیں_

معلوم ہوتاہے کہ عفو و درگذر دلوں میں مہربانی پیدا کرنے کا سبب ہوا کرتاہے کہ کینہ پرور دشمن کے دل کو بھی نرم کردیتاہے ، انسان کی شخصیت کو بلند کرتاہے اور لوگوں کی توجہ عفو کرنے والے کی طرف مبذول ہوجاتی ہے ، لیکن اس کے برخلاف کینہ توزی اور انتقامی کاروائی سے لوگ بدظن ہوجاتے ہیں اور ایسے شخص سے فرار کرنے لگتے ہیں ، انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کامیاب ہوجانے کی ایک علت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہی رحم وکرم ہے _

___________________

۱) (فصلت ۳۴)_

۱۳۱

اقتدار کے باوجود درگذر

انتقام کی طاقت ہونے کے باوجودمعاف کردینے کی بات ہی کچھ اور ہے ، اس سے بڑی وہ منزل ہے کہ جب انسان معاف کرنے کے ساتھ ساتھ احسان بھی کرے، قدرت و طاقت کے باوجود معاف کردینے اور بخش دینے میں انسانوں میں سب سے نمایاں مثال رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کے زمانہ میں مختلف افراد اور اقوام کو معاف کردینے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں_

لطف و مہربانی کا دن

کفار و مشرکین مکہ کی خطاؤں کو معاف کردینے اور ان کو دامن عفو میں جگہ دینے والا سب سے مشہور دن فتح مکہ کے بعد کا دن ہے ، جن دشمنوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہر طرح کی اذیتیں پہنچانے کی کوششیں کی تھیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہجرت کر جانے پر مجبور کردیا تھا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دشمنوں کو معاف کردیا_

سعد بن عبادہ جو لشکر اسلام کے ایک کمانڈر تھے مکہ جاتے ہوئے انہوں نے نعرہ بلند کیا'' الیوم یوم الملحمه، الیوم تستحل الحرمة الیوم اذل الله قریشا'' آج خون بہانے کا دن ہے آج وہ دن ہے کہ جس دن حرمت و احترام کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، آج خدا قریش کو ذلیل کریگا_

۱۳۲

لیکن اس نعرہ کی خبر جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہوئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : سعد کو غلط فہمی ہوئی ہے، آج کا نعرہ یہ ہے:

''الیوم ، یوم الرحمة الیوم اعز الله قریشا''

آج لطف و مہربانی کا دن ہے آج خدا نے قریش کو عزت دی ہے_

بعض اصحاب نے عرض کی '' ہمیں خوف ہے کہ سعد کہیں حملہ نہ کردیں،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو بھیجا تا کہ سعد سے علم لیکر ان کے بیٹے قیس کو دیدیں حضور نے اس بہانے سے سعد کا کنٹرول چھینا تا کہ ان کے رنج کا سبب نہ بنے(۱)

اپنی پوری طاقت اور توانائی کیساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کفار قریش کے سامنے کھڑے ہوئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اے قریش اور مکہ والو کیا تم کو معلو م ہے کہ ہم تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ سواے خیر اور نیکی کے ہمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی اور توقع نہیں ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بزرگوار اور کریم بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں _ اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہی بات کہی جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے سامنے کہی تھی( لا تثریب علیکم الیوم ) (۲) روایت ہے کہ جب یوسف نے ان کو پہچان لیا تو وہ ان کے دستر خوان پر ہر صبح و شام حاضر ہونے لگے انہوں نے اپنے بھائی یوسف سے کہا کہ ہم اپنے گذشتہ سلوک پر نادم ہیں _ جناب یوسف نے فرمایا: نہیں ایسا نہیں ہے اس لئے کہ ہر چند کہ میں آج مصر کا بادشاہ ہوںلیکن لوگ اسی پہلے دن کی نگاہ سے آج بھی مجھ کو دیکھ رہے ہیں _ اور کہتے ہیں کہ جو بیس درہم میں خریدا گیا تھا وہ آج مصر کی حکومت تک کیسے پہنچ گیا لیکن جب تم

____________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۳ ص۲۸۵ ، ۲۸۴)_

۲) (یوسف ۹۲)_

۱۳۳

آگئےاور یہ لوگ سمجھ گئے کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو تمہاری وجہ سے میں لوگوں کی نظروں میں بلند ہوگیاہوں ان لوگوں نے جب سمجھ لیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں اور خاندان حضرت ابراہیمعليه‌السلام سے ہوں تو اب یہ لوگ اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر سے ایک غلام کو دیکھا جاتاہے _(سفینة البحار ج۱ ص ۴۱۲)

آج تمہاری سرزنش نہیں ہوگی _ تم شرمندہ نہ ہونا _ ہم نے آج تم کو معاف کردیا _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:اذهبوا انتم الطلقاء جاو اب تم آزاد ہو_

فتح مکہ کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پوری قدرت اور طاقت حاصل تھی پھر بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام دشمنوں کو آزاد کردیا، صرف ان پندرہ افراد کو امان سے مستثنی کیا جو اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے اور بہت سی سازشوں میں ملوث تھے، وہ گیارہ مرد اور چار عورتیں تھیں، فتح مکہ کے بعد ان میں سے چار افراد کے علاوہ سب قتل کردیئے گئے، چار افراد کو امان ملی انہوںنے اسلام قبول کیا اور ان کی جان بچ گئی(۱)

اب ان لوگوں کا ذکر کیا جائیگا جن کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن عفو میں جگہ ملی_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حمزہ کا قاتل

جناب حمزہ کا قاتل '' وحشی'' بھی ان ہی لوگوں میں شامل تھاجن کے قتل کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح

___________________

۱) ( محمد الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ص ۳۱۹ _ ۷۱۳)

۱۳۴

مکہ سے پہلے حکم دے دیا تھا، مسلمان بھی اس کو قتل کرنے کی ناک میں تھے، لیکن وحشی بھاگ کر طاءف پہنچ گیا اور کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد طاءف کے نماءندوں کے ساتھ وہحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا، اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے حضر ت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حمزہ کے قتل کی رویداد سنائی حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میری نظروں سے اتنی دور چلاجاکہ میں تجھ کو نہ دیکھوں، اسی طرح یہ بھی معاف کردیا گیا(۱)

ابوسفیان کی بیوی عتبہ کی بیٹی ہند

ابوسفیان کی بیوی، عتبہ کی بیٹی '' ھند'' بھی ان لوگوں میں سے تھیکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جسکا خون مباح کردیا تھا، اس لئے کہ اس نے حمزہ کو مثلہ کرکے ا ن کا کلیجہ چبانے کی کوشش کی تھی، فتح مکہ کے بعد وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچی اور اس نے اظہار اسلام کیا تو حضور نے اس کو بھی معاف کردیا(۲)

ابن زبعری

فتح مکہ کے بعد '' ابن زبعری'' بھا گ کر نجران چلا گیا لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ رسول

___________________

۱) (مغازی واقدی ترجمہ ڈاکٹر محمود مھدوی دامغانی ج۲ ص ۶۶۰)

۲) ( محمد الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳۱۸)_

۱۳۵

خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اس نے وحدانیت اور رسالت کی گواہی دی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی کی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کرنے کیلئے میں نے پیادوں کا لشکر جمع کیا ، اس کے بعد میں بھاگ کر نجران چلا گیا میرا ارادہ تھا کہ میں کبھی بھی اسلام کے قریب نہیں جاوں گا لیکن خدا نے مجھ کو خیر کی توفیق عطا کی اور اس نے اسلام کی محبت میرے دل میں بٹھادی، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کہ اس خدا کی تعریف کہ جس نے تم کو اسلام کا راستہ دکھایا وہ اس سے پہلے کی باتوں پر پردہ ڈال دیتاہے_(۱)

ابوسفیان ابن حارث ابن عبدالمطلب (معاویہ کا باپ ابوسفیان نہیں بلکہ یہ دوسرا ابوسفیان ہے)_

یہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چچا زاد اور دودھ شریک بھائی تھا ، اس نے کچھ مدت جناب حلیمہ کا دودھ پیا تھا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہم سن تھا_

بعثت سے پہلے تو یہ ٹھیک تھا مگر بعد میں یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سخت ترین دشمن بن گیا ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی ہجو میں یہ اشعار کہا کرتا تھا، بیس سال تک اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنوں کا سا سلوک روا رکھا مسلمانوں سے لڑی جانے والی تمام جنگوں میں کفار کے ساتھ رہا ، یہاں تک کہ اس کے دل میں نور اسلام کی روشنی پہنچ گئی ، چنانچہ ایک روز وہ اپنے بیٹے اور غلام کے ساتھ مکہ سے باہر آیا اور اس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہونچا کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حنین

___________________

۱)(مغازی واقدی ج۲ ص ۶۴۸، ترجمہ ڈاکٹر محمود مہدوی دامغانی)_

۱۳۶

کی طرف روانہ ہورہے تھے، اس نے کئی بار اپنے آپ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی توجہ نہیں دی اور اپنا رخ اس کی جانب سے پھیر لیا ، مسلمانوں نے بھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتے ہوئے بے اعتنائی کا ثبوت دیا ، لیکن وہ بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لطف و کرم کا امیدوار رہا ، بات یوں ہی ٹلتی رہی یہاں تک کہ جنگ حنین شروع ہوگئی ابوسفیان کا بیان ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میدان جنگ میں ایک سفید اور سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں میں برہنہ تلوار تھی ، میں تلوار لئے ہوئے اپنے گھوڑے سے اتر پڑا اور میں نے عمداً اپنی تلوار کی نیام توڑ ڈالی ، خدا شاہد ہے کہ وہاں میری یہی آرزو تھی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دفاع کرتے ہوئے میں قتل کردیا جاؤں_

عباس بن عبدالمطلب نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھوڑے کی لگام تھام رکھی تھی میں بھی دوسری طرف تھا،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میری طرف نگاہ کی اور پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ میں نے چاہا کہ اپنے چہرہ کی نقاب ہٹادوں، عباس نے کہا :

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ آپ کا چچا زاد بھائی ابوسفیان بن حارث ہے ، آپ اس پر مہربانی فرمائیں اور اس سے راضی ہوجائیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں راضی ہوگیا خدا نے اس کی وہ تمام دشمنی جو اس نے مجھ سے کی معاف کردی ہے _

ابوسفیان کا کہناہے کہ میں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاؤں کو رکاب میں بو سے دیئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میری طرف توجہ کی اور فرمایا: میرے بھائی تمہیں میری جان کی قسم یہ نہ کرو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

۱۳۷

فرمایا: آگے بڑھو اور دشمن پر حملہ کردو میں نے حملہ کرکے دشمن کو بھگا دیا، میں آگے آگے تھا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے پیچھے آرہے تھے میں لوگوں کو قتل کررہا تھا اور دشمن بھا گے جارہے تھے_(۱)

مولائے کاءنات حضرت علیعليه‌السلام

عفو و رحمت کا دوسرانمونہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گود کے پالے ،انسانیت کا اعلی نمونہ حضرت علیعليه‌السلام ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی سے بھی یہی واضح ہوتاہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی پوری طاقت اور قدرت و اختیار کے باوجود عفو و درگذر سے کام لیا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو نمونہ بنایا_

فتح بصرہ کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے ان لوگوں کو معاف کردینے کی سفارش کی جنہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تھی اور نئی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی کوشش کی تھی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ بھاگ جانے والوں کا پیچھا نہ کیا جائے ان کا مال نہ لوٹا جائے، آپعليه‌السلام کی طرف سے ایک منادی ندا دیتا جارہا تھا جو اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دے اور گھر میں چلا جائے اس کو امان ہے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو کا دامن اتنا پھیلا کہ آپعليه‌السلام نے لشکر کے سپہ سالاروں اور قوم کے سربرآوردہ افراد نیز جناب عائشہ کو معاف کردیا،تو جناب عائشہ کو تو احترام اور تحفظ کے ساتھ مدینہ بھیجا اور مروان بن حکم کو بھی معاف کردیا جو کہ آپعليه‌السلام

___________________

۱) (مغازی واقدی ترجمہ ڈاکٹر محمود مھدوی دامغانی ج۲ ص ۶۱۹ ، ۶۱۶)_

۱۳۸

کا سخت ترین دشمن تھااور ابن زبیر کو بھی معاف کردیا جو آپ کے لشکر کی کامیابی سے پہلے بصرہ میں آپعليه‌السلام کے خلاف ناروا باتیں کہا کرتا تھا اور لوگوں کو آپعليه‌السلام کی خلاف بھڑکاتارہتا تھا(۱)

___________________

۱) ( اءمتنا ج ۱ ص ۴)_

۱۳۹

خلاصہ درس

۱)انسانیت کے مظہر کامل ہونے کے اعتبار سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انسانیت کے فضاءل اور کرامات کااعلی نمونہ تھے، آپ اخلاق الہی سے مزین اور انک لعلی خلق عظیم کے مرتبہ پر فائز تھے_

۲) آپ کے فضاءل میں سے یہ بھی ہے کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو'' روف و رحیم '' کی صفت سے یاد فرمایاہے _

۳ ) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ذاتی حق کے لئے کسی سے بھی انتقام نہیں لیا بلکہ جو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہنچا تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسکو معاف فرمادیتے تھا مگر جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ دیکھتے تھے کہ حکم خدا کی ہتک حرمت کی جاتی تھی تو اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حد جاری کرتے تھے_

۴ ) عفو کردینا انسانیت کا کامل ہے اسلئے کہ عفو کرنے والا اپنے نفس کو دبانے کے سلسلہ میں جہاد اکبر میں مشغول ہوتاہے_

۵ )عفو کا ایک قابل قدر اثر یہ بھی ہے کہ انسان دنیا و آخرت میں باعزت رہتاہے_

۶ )رسول خدا اپنی صفات کمال عفو اور مہربانی کے ذریعہ خدا کے نزدیک حقیقی عزت کے مالک ہیں اور مؤمنین کے دلوں میں بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بڑی قدر و منزلت ہے_

۷) سب سے زیادہ بہترین عفو و ہ ہے جو طاقت اور قدرت کے باوجود ہو اور اگر عفو کے ساتھ احسان ہو تو اسکا درجہ اس سے بھی بڑا ہے_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311