رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر12%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202809 / ڈاؤنلوڈ: 5565
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ایسے ہی موقع پر پڑھ کر سنایا جائے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والوں پر خوف طاہری ہوجائے اور کافروں کی جراءت میں اضافہ ہو_

ابوجہل کے قاصد سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' کیا تیری بات ختم ہوگئی ؟ کیا تو نے پیغام پہنچا دیا اس نے کہا ہاں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تو جواب بھی سنتا جا جس طرح ابوجہل مجھے دھمکیاں دیتاہے اسی طرح خدا میری مدد اور کامیابی کاوعدہ کرتاہے، خدا کی دی ہوئی خبر میرے لئے زیادہ مناسب اور اچھی ہے جب خدا، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کیلئے تیار ہے تو پھر کسی کے غصہ اور بے وفائی سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا_

تم ابوجہل سے جاکر کہہ دینا کہ شیطان نے جو تعلیم تمہیں دی تھی ، وہی باتیں تم نے مجھے کہی اور میں جواب میں وہ کہہ رہاہوں جو خدا نے مجھ سے کہاہے انیس دن بعد ہمارے اور تمہارے درمیان جنگ ہوگی اور تم میرے ایک کمزور مددگار کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے ، تم کو عتبہ و شیبہ اور ولید کو قتل کیا جائیگا، نیز قریش کے فلاں فلاں افراد بھی بہت بری طرح قتل کرکے بدر کے کنویں میں پھینک دئے جائیں گے تمہارے لشکر کے ستر (۷۰) آدمیوں کو ہم قتل کریں گے اور ۱۷۰ افراد کو اسیر بنائیں گے_(۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استقامت اور پائیداری کے ساتھ اس طرح زندگی گذاری جس طرح خدا چاہتا تھا اور کسی بھی طاقتور سے دین کے معاملہ میں سازش نہیں کی _

___________________

۱)بحارالانوار ج ۱۷ ص ۳۴۳_

۱۲۱

خلاصہ درس

۱)زبان سے زخم لگانے کے علاوہ کفار و مشرکین ، رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کو بہت زیادہ جسمانی اذیتیں بھی پہنچا تے تھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان تمام مصیبتوں اور تکلیفوں پرصبر فرماتے تھے_

۲) جن مقامات پر صبر کی بڑی اہمیت ہے ان میں سے ایک میدان جنگ بھی ہے صدر اسلام کی بہت سی جنگوں میں مسلمانوں کا لشکر اور جنگی ساز و سامان کفار قریش کے لشکر اور اسلحوں سے بہت ہی کم تھا لیکن پھر بھی خدا کی تائید اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہترین فکر کے ساتھ صبر و شکیبائی کے سایہ میں اکثر جنگیں مسلمانوں کی کامیابی پر اختتام پذیر ہوئی_

۳ ) استقامت اور پاییداری اچھی صفتیں ہیں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں یہ صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں_

۴ ) کفار و مشرکین نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دین کے معاملہ میں موافقت کرنے کی بڑی کوششیں کی لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی طرح کی نرمی یا اپنے موقف میں لچک کا اظہار نہیں فرمایا _ نیز بتوں اور بت پرستوں سے ہمیشہ جنگ کرتے رہے_

۵) دھمکی اور لالچ دو ایسے حربہ تھے جو کفار نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوصلہ کو پست کرنے کیلئے استعمال کئے لیکن رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ثابت قدمی میں کوئی چیز جنبش نہ لاسکی_

۱۲۲

سوالات :

۱_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی جانے والی جسمانی اذیت کا ایک نمونہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رد عمل کے ساتھ بیان فرمایئے

۲_ میدان جنگ میں صبر کا کیا اثر ہوتاہے؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ سورہ ہود اور سورہ واقعہ نے مجھے بوڑھا کردیا؟

۴_ دھمکی اور لالچ کے مقابل حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کس رد عمل کا اظہار فرمایا؟

۵_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی طرف سے کسی نرمی یا دین کے معاملہ میں کسی موافقت کو کیوں قبول نہیں کیا ؟ اس سلسلہ کی آیت بیان کرکے توضیح فرمائیں؟

۱۲۳

نواں سبق:

(پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحمت)

انسانیت کے کمال کی جو اعلی ترین مثال ہوسکتی ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے سب سے بڑے مصداق اور انسانی فضاءل و کمالات کا اعلی نمونہ تھے ، اخلاق الہی کا مظہر اور( انک لعلی خلق عظیم ) (۱) کے افتخارسے سرفراز تھے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فضاءل کا بلند پہلو یہ ہے کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو '' رؤف و رحیم'' کے لقب سے یاد فرمایاہے:

( لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین روف رحیم ) (۲)

رسول جو تمہاری صنف سے ہے فرط محبت کی بناپر تمہاری تکلیف ان کے اوپر بہت گراں ہے _ وہ تمہاری نجات پر حریص ہے اور مؤمنین پر رؤف و مہربان ہے_

___________________

۱) ( توبہ ۱۲۸)_

۲) (قلم ۴)_

۱۲۴

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبی رحمت ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فیض رحمت سے نہ صرف مؤمنین اور محبین بلکہ سخت ترین دشمن بھی بہرہ مند ہوتے رہے ، اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سبق اپنے پروردگار سے سیکھا تھا_

( و ما ارسلنک الا رحمة للعالمین ) (۱)

ہم نے آپ کو عالمین کیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے_

( فاعف عنهم واصفحه ) (۲)

ان کو معاف کردیجئے او ردرگذر کیجئے_

آپ کریمانہ اخلاق اور درگذر کی صفت سے مالامال تھے، محض ناواقف دوستوں اور دشمنوں کی اذیتوں او ر برے سلوک کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاف ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی یاد بھی دل سے نکال دیتے تھے ، دل کے اندر بغض اور کینہ نہیں رکھتے تھے _ کہ جس سے اقتدار حاصل ہونے کے بعداس کے ساتھ انتقامی کاروائی کریں ، خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وسعت قلب سے نوازا تھا(الم نشرح لک صدرک )اے رسول کیا ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شرح صدر کی نعمت نہیں عطا کی _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسے کریمانہ اخلاق اور مہربان دل کے مالک تھے کہ ناواقف اور خودغرض دشمنوں کی گستاخیوں اور جسارتوں کا انتقام لینے کی کبھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فکر نہیں کی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بلند اخلاق اور وسعت قلبی نے قرابت داروں ، دوستوں اور سخت ترین دشمنوں کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گرویدہ

___________________

۱)(ماءدہ ۱۳۱)_

۲)(انبیاء ۱۰۷)_

۱۲۵

بنا دیا _

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ذاتی حق کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، اگر کوئی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تکلیف بھی پہنچا تو آپ اسے معاف فرمادیتے ہاں اگر کوئی حکم خدا کی ہتک حرمت کرتا تھا تو اس وقت حد الہی جاری فرماتے تھے_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی کو دشنام نہیں دیا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی خدمت گار کو یا کسی بیوی پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ راہ خدا میں جہاد کے لئے صرف کفار پر اٹھے_(۱)

جنگ احد میں جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے اور چہرہ مبارک پرزخم لگے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو اس کا بہت دکھ ہوا انہوں نے درخواست کی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمنوں اور کافروں کیلئے بد دعا اور نفرین کریں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں لعن اور نفرین کے لئے نہیں مبعوث کیاگیاہوں، مجھے تو رحمت بناکر بھیجا گیاہے ، میں ان کیلئے دعا کرتاہوں کہ خدا انکی ہدایت کرے اس لئے کہ یہ لوگ ناواقف ہیں(۲)

ان مصیبتوں کو برداشت کرنے کے بعد بھی ان کے لئے دست دعا بلند کرنا اور خدا سے عذاب کی بدلے ہدایت مانگنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو و رحمت،حسن اخلاق اور کمال کی دلیل ہے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عمومی اخلاق کا یہ نمونہ تھا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود

___________________

۱) (محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۸)_

۲) (محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۹)_

۱۲۶

ہیں اب یہ کہ سختیوں کے جھیلنے کے بعد عفو اور درگزر کا انسانی اخلاق پر کیا اثر پڑتاہے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کی زندگی کے عفو و درگزر کے حوالے سے چند واقعات کی مدد سے ہم اس کی طرف اشارہ کریں گے البتہ ہمیں اعتراف ہے کہ ان عظیم الہی آیات پر مکمل تجزیہ کرنے سے ہم عاجز ہیں یہ کام ہم فقط اس لیے کررہے ہیںکہ ہمارے نفس پر اس کا اثر پڑے اور وہ واقعات ہماری ہدایت کا چراغ بن جائیں_

عفو، کمال کا پیش خیمہ

عفو کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ وہ انسان کے اندر کمال کا جوہر پیدا کردیتاہے، اس لئے کہ عفو کرنے والا جہاد اکبر کی منزل میں ہوتاہے، وہ اپنے نفس سے جہاد کرتاہے، اس کا نفس انتقام کیلئے آمادہ کرتاہے، اس کے غیظ و غضب کی آگ بھڑکاتاہے، لیکن معاف کرنے والا انسان ایسی خواہشوں سے نبرد آزمائی رکتارہتاہے اور پھر خودسازی اور کمال روح کی زمین ہموار ہوجاتی ہے، اس لئے عقل و نفس کی جنگ میں اگر انسان شرع اور عقل کو حاکم بنالے تو یہ انسان کے اندر کمال پیدا کرنے کے ضامن ہیں_

عفو میںدنیا اور آخرت کی عزت

عفو اور درگذر کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں انسان کی عزت میں اضافہ

۱۲۷

کرتاہے_

عزت دنیا

شیطان ، انسان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا کرتاہے کہ اگر تم انتقام نہیں لوگے تو لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوجاوگے، دوسرے شیر بن جائیں گے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے عفو اور درگذر انسان کی قدر و منزلت کو بڑھانے اور اس کی شخصیت کو بلند کرنے کا سبب ہے ، خاص طور پر اگر توانائی اور طاقت کی موجودگی میں کسی کو معاف کردیا جائے تو یہ اور بھی زیادہ موثر ہے ، اگر عفو کو ترک کردیا جائے تو ہوسکتاہے کہ لڑائی جھگڑا ہوجائے اور پھر بات عدالت تک پہنچے کبھی کبھی تو ایسا ابھی ہوتاہے کہ ترک عفوانسان کی جان، مال عزت اور آبرو کے جانے کا باعث بن جاتاہے اور ان تمام باتوں سے انسان کی قدر و قیمت گھٹ جاتی ہے _

کلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

مندرجہ بالا حقائق کی طرف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام نے اپنے کلام میں اشارہ فرمایاہے_

''عن ابی عبدالله قال:قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیکم بالعفو فان العفو لا یزید العبد الا عزا فتعافوا یعزکم الله'' (۱)

___________________

۱) (مرآة العقول ج۸ ص ۱۹۴)_

۱۲۸

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تم عفو اور درگذر سے کام لیا کرو کیوں کہ عفو فقط انسان کی عزت میں اضافہ کرتاہے لہذا تم عفو کیا کرو کہ خدا تمہیں عزت والا بنادے_

''عن ابی عبدالله قال: قال رسول الله فی خطبته الا اخبرکم بخیر خلایق الدنیا والآخرة ؟ العفو عمن ظلمک و تصل من قطعک والاحسان الی من اساء الیک و اعطاء من حرمک'' (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: کیا میں تم کو اس بہترین اخلاق کی خبردوں جو دنیا و آخرت دونوں میں نفع بخش ہے ؟ تو سنو، جس نے تمہارے اوپر ظلم کیا اس کو معاف کردینا ، ان رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا جنہوں نے تمہارے ساتھ قطع رحمی کی ، اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا جو تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے، اور اسکو عطا کرنا جس نے تم کو محروم کردیا ہو یہ بہترین اخلاق ہیں _

آخرت کی عزت

عفو و درگذر میں انسان کی اخروی عزت بھی پوشیدہ ہے کہ اس سے معرفت پروردگار حاصل ہوتی ہے_

___________________

۱) ( مرآة العقول ج۸ ص۱۹۲)_

۱۲۹

قرآن کہتاہے :

( والیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفر الله لکم والله غفور رحیم ) (۱)

مؤمنین کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر عفو اور درگذر کی صفت پیدا کریں ، کیا تم اس بات کو دوست نہیں رکھتے کہ خدا تم کو بخش دے، خدا بڑ ا بخشنے والا اور مہربان ہے _

( و سارعوا الی مغفرة من ربکم و جنةعرضها السموات والارض اعدت للمتقین الذین ینفقون فی السراء والضراء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس والله یحب المحسنین ) (۲)

تم اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جس کو اللہ نے پرہیز گار بندوں کے لئے مہیا کررکھاہے، ان پرہیزگاروں کیلئے جو اپنے مال کو وسعت اور جنگ کے عالم میں فقراء پر خرچ کرتے اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیک اعمال کرنے والوں کو دوست رکھتاہے_

___________________

۱) (نور۲۲)_

۲) (آل عمران ۱۲۴، ۱۲۳)_

۱۳۰

رسول خدا کی عزت

عفو و رحمت جیسی تمام صفات کمال کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدابارگاہ میں حقیقی عزت حاصل تھی( ان العزة لله و لرسوله ) عزت خدا اور اس کے رسول کیلئے ہے _

رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن عفو میں آنے کے بعد نہ صرف مؤمنین بلکہ دشمن بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وفادار دوست بن جاتے تھے اس لئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے خدا سے یہ عظیم ادب سیکھا تھا، ارشاد ہوتاہے :

( ادفع بالتی هی احسن فاذا الذین بینک و بینه عداوة کانه ولی حمیم ) (۱)

اے میرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ لوگوں کی بدی کا بدلہ نیکی سے دیں تا کہ جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمن ہیں وہ دوست بن جائیں_

معلوم ہوتاہے کہ عفو و درگذر دلوں میں مہربانی پیدا کرنے کا سبب ہوا کرتاہے کہ کینہ پرور دشمن کے دل کو بھی نرم کردیتاہے ، انسان کی شخصیت کو بلند کرتاہے اور لوگوں کی توجہ عفو کرنے والے کی طرف مبذول ہوجاتی ہے ، لیکن اس کے برخلاف کینہ توزی اور انتقامی کاروائی سے لوگ بدظن ہوجاتے ہیں اور ایسے شخص سے فرار کرنے لگتے ہیں ، انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کامیاب ہوجانے کی ایک علت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہی رحم وکرم ہے _

___________________

۱) (فصلت ۳۴)_

۱۳۱

اقتدار کے باوجود درگذر

انتقام کی طاقت ہونے کے باوجودمعاف کردینے کی بات ہی کچھ اور ہے ، اس سے بڑی وہ منزل ہے کہ جب انسان معاف کرنے کے ساتھ ساتھ احسان بھی کرے، قدرت و طاقت کے باوجود معاف کردینے اور بخش دینے میں انسانوں میں سب سے نمایاں مثال رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کے زمانہ میں مختلف افراد اور اقوام کو معاف کردینے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں_

لطف و مہربانی کا دن

کفار و مشرکین مکہ کی خطاؤں کو معاف کردینے اور ان کو دامن عفو میں جگہ دینے والا سب سے مشہور دن فتح مکہ کے بعد کا دن ہے ، جن دشمنوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہر طرح کی اذیتیں پہنچانے کی کوششیں کی تھیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہجرت کر جانے پر مجبور کردیا تھا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دشمنوں کو معاف کردیا_

سعد بن عبادہ جو لشکر اسلام کے ایک کمانڈر تھے مکہ جاتے ہوئے انہوں نے نعرہ بلند کیا'' الیوم یوم الملحمه، الیوم تستحل الحرمة الیوم اذل الله قریشا'' آج خون بہانے کا دن ہے آج وہ دن ہے کہ جس دن حرمت و احترام کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، آج خدا قریش کو ذلیل کریگا_

۱۳۲

لیکن اس نعرہ کی خبر جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہوئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : سعد کو غلط فہمی ہوئی ہے، آج کا نعرہ یہ ہے:

''الیوم ، یوم الرحمة الیوم اعز الله قریشا''

آج لطف و مہربانی کا دن ہے آج خدا نے قریش کو عزت دی ہے_

بعض اصحاب نے عرض کی '' ہمیں خوف ہے کہ سعد کہیں حملہ نہ کردیں،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو بھیجا تا کہ سعد سے علم لیکر ان کے بیٹے قیس کو دیدیں حضور نے اس بہانے سے سعد کا کنٹرول چھینا تا کہ ان کے رنج کا سبب نہ بنے(۱)

اپنی پوری طاقت اور توانائی کیساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کفار قریش کے سامنے کھڑے ہوئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اے قریش اور مکہ والو کیا تم کو معلو م ہے کہ ہم تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ سواے خیر اور نیکی کے ہمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی اور توقع نہیں ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بزرگوار اور کریم بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں _ اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہی بات کہی جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے سامنے کہی تھی( لا تثریب علیکم الیوم ) (۲) روایت ہے کہ جب یوسف نے ان کو پہچان لیا تو وہ ان کے دستر خوان پر ہر صبح و شام حاضر ہونے لگے انہوں نے اپنے بھائی یوسف سے کہا کہ ہم اپنے گذشتہ سلوک پر نادم ہیں _ جناب یوسف نے فرمایا: نہیں ایسا نہیں ہے اس لئے کہ ہر چند کہ میں آج مصر کا بادشاہ ہوںلیکن لوگ اسی پہلے دن کی نگاہ سے آج بھی مجھ کو دیکھ رہے ہیں _ اور کہتے ہیں کہ جو بیس درہم میں خریدا گیا تھا وہ آج مصر کی حکومت تک کیسے پہنچ گیا لیکن جب تم

____________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۳ ص۲۸۵ ، ۲۸۴)_

۲) (یوسف ۹۲)_

۱۳۳

آگئےاور یہ لوگ سمجھ گئے کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو تمہاری وجہ سے میں لوگوں کی نظروں میں بلند ہوگیاہوں ان لوگوں نے جب سمجھ لیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں اور خاندان حضرت ابراہیمعليه‌السلام سے ہوں تو اب یہ لوگ اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر سے ایک غلام کو دیکھا جاتاہے _(سفینة البحار ج۱ ص ۴۱۲)

آج تمہاری سرزنش نہیں ہوگی _ تم شرمندہ نہ ہونا _ ہم نے آج تم کو معاف کردیا _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:اذهبوا انتم الطلقاء جاو اب تم آزاد ہو_

فتح مکہ کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پوری قدرت اور طاقت حاصل تھی پھر بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام دشمنوں کو آزاد کردیا، صرف ان پندرہ افراد کو امان سے مستثنی کیا جو اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے اور بہت سی سازشوں میں ملوث تھے، وہ گیارہ مرد اور چار عورتیں تھیں، فتح مکہ کے بعد ان میں سے چار افراد کے علاوہ سب قتل کردیئے گئے، چار افراد کو امان ملی انہوںنے اسلام قبول کیا اور ان کی جان بچ گئی(۱)

اب ان لوگوں کا ذکر کیا جائیگا جن کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن عفو میں جگہ ملی_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حمزہ کا قاتل

جناب حمزہ کا قاتل '' وحشی'' بھی ان ہی لوگوں میں شامل تھاجن کے قتل کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح

___________________

۱) ( محمد الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ص ۳۱۹ _ ۷۱۳)

۱۳۴

مکہ سے پہلے حکم دے دیا تھا، مسلمان بھی اس کو قتل کرنے کی ناک میں تھے، لیکن وحشی بھاگ کر طاءف پہنچ گیا اور کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد طاءف کے نماءندوں کے ساتھ وہحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا، اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے حضر ت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حمزہ کے قتل کی رویداد سنائی حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میری نظروں سے اتنی دور چلاجاکہ میں تجھ کو نہ دیکھوں، اسی طرح یہ بھی معاف کردیا گیا(۱)

ابوسفیان کی بیوی عتبہ کی بیٹی ہند

ابوسفیان کی بیوی، عتبہ کی بیٹی '' ھند'' بھی ان لوگوں میں سے تھیکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جسکا خون مباح کردیا تھا، اس لئے کہ اس نے حمزہ کو مثلہ کرکے ا ن کا کلیجہ چبانے کی کوشش کی تھی، فتح مکہ کے بعد وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچی اور اس نے اظہار اسلام کیا تو حضور نے اس کو بھی معاف کردیا(۲)

ابن زبعری

فتح مکہ کے بعد '' ابن زبعری'' بھا گ کر نجران چلا گیا لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ رسول

___________________

۱) (مغازی واقدی ترجمہ ڈاکٹر محمود مھدوی دامغانی ج۲ ص ۶۶۰)

۲) ( محمد الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳۱۸)_

۱۳۵

خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اس نے وحدانیت اور رسالت کی گواہی دی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی کی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کرنے کیلئے میں نے پیادوں کا لشکر جمع کیا ، اس کے بعد میں بھاگ کر نجران چلا گیا میرا ارادہ تھا کہ میں کبھی بھی اسلام کے قریب نہیں جاوں گا لیکن خدا نے مجھ کو خیر کی توفیق عطا کی اور اس نے اسلام کی محبت میرے دل میں بٹھادی، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کہ اس خدا کی تعریف کہ جس نے تم کو اسلام کا راستہ دکھایا وہ اس سے پہلے کی باتوں پر پردہ ڈال دیتاہے_(۱)

ابوسفیان ابن حارث ابن عبدالمطلب (معاویہ کا باپ ابوسفیان نہیں بلکہ یہ دوسرا ابوسفیان ہے)_

یہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چچا زاد اور دودھ شریک بھائی تھا ، اس نے کچھ مدت جناب حلیمہ کا دودھ پیا تھا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہم سن تھا_

بعثت سے پہلے تو یہ ٹھیک تھا مگر بعد میں یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سخت ترین دشمن بن گیا ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی ہجو میں یہ اشعار کہا کرتا تھا، بیس سال تک اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنوں کا سا سلوک روا رکھا مسلمانوں سے لڑی جانے والی تمام جنگوں میں کفار کے ساتھ رہا ، یہاں تک کہ اس کے دل میں نور اسلام کی روشنی پہنچ گئی ، چنانچہ ایک روز وہ اپنے بیٹے اور غلام کے ساتھ مکہ سے باہر آیا اور اس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہونچا کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حنین

___________________

۱)(مغازی واقدی ج۲ ص ۶۴۸، ترجمہ ڈاکٹر محمود مہدوی دامغانی)_

۱۳۶

کی طرف روانہ ہورہے تھے، اس نے کئی بار اپنے آپ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی توجہ نہیں دی اور اپنا رخ اس کی جانب سے پھیر لیا ، مسلمانوں نے بھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتے ہوئے بے اعتنائی کا ثبوت دیا ، لیکن وہ بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لطف و کرم کا امیدوار رہا ، بات یوں ہی ٹلتی رہی یہاں تک کہ جنگ حنین شروع ہوگئی ابوسفیان کا بیان ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میدان جنگ میں ایک سفید اور سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں میں برہنہ تلوار تھی ، میں تلوار لئے ہوئے اپنے گھوڑے سے اتر پڑا اور میں نے عمداً اپنی تلوار کی نیام توڑ ڈالی ، خدا شاہد ہے کہ وہاں میری یہی آرزو تھی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دفاع کرتے ہوئے میں قتل کردیا جاؤں_

عباس بن عبدالمطلب نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھوڑے کی لگام تھام رکھی تھی میں بھی دوسری طرف تھا،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میری طرف نگاہ کی اور پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ میں نے چاہا کہ اپنے چہرہ کی نقاب ہٹادوں، عباس نے کہا :

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ آپ کا چچا زاد بھائی ابوسفیان بن حارث ہے ، آپ اس پر مہربانی فرمائیں اور اس سے راضی ہوجائیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں راضی ہوگیا خدا نے اس کی وہ تمام دشمنی جو اس نے مجھ سے کی معاف کردی ہے _

ابوسفیان کا کہناہے کہ میں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاؤں کو رکاب میں بو سے دیئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میری طرف توجہ کی اور فرمایا: میرے بھائی تمہیں میری جان کی قسم یہ نہ کرو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

۱۳۷

فرمایا: آگے بڑھو اور دشمن پر حملہ کردو میں نے حملہ کرکے دشمن کو بھگا دیا، میں آگے آگے تھا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے پیچھے آرہے تھے میں لوگوں کو قتل کررہا تھا اور دشمن بھا گے جارہے تھے_(۱)

مولائے کاءنات حضرت علیعليه‌السلام

عفو و رحمت کا دوسرانمونہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گود کے پالے ،انسانیت کا اعلی نمونہ حضرت علیعليه‌السلام ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی سے بھی یہی واضح ہوتاہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی پوری طاقت اور قدرت و اختیار کے باوجود عفو و درگذر سے کام لیا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو نمونہ بنایا_

فتح بصرہ کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے ان لوگوں کو معاف کردینے کی سفارش کی جنہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تھی اور نئی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی کوشش کی تھی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ بھاگ جانے والوں کا پیچھا نہ کیا جائے ان کا مال نہ لوٹا جائے، آپعليه‌السلام کی طرف سے ایک منادی ندا دیتا جارہا تھا جو اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دے اور گھر میں چلا جائے اس کو امان ہے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو کا دامن اتنا پھیلا کہ آپعليه‌السلام نے لشکر کے سپہ سالاروں اور قوم کے سربرآوردہ افراد نیز جناب عائشہ کو معاف کردیا،تو جناب عائشہ کو تو احترام اور تحفظ کے ساتھ مدینہ بھیجا اور مروان بن حکم کو بھی معاف کردیا جو کہ آپعليه‌السلام

___________________

۱) (مغازی واقدی ترجمہ ڈاکٹر محمود مھدوی دامغانی ج۲ ص ۶۱۹ ، ۶۱۶)_

۱۳۸

کا سخت ترین دشمن تھااور ابن زبیر کو بھی معاف کردیا جو آپ کے لشکر کی کامیابی سے پہلے بصرہ میں آپعليه‌السلام کے خلاف ناروا باتیں کہا کرتا تھا اور لوگوں کو آپعليه‌السلام کی خلاف بھڑکاتارہتا تھا(۱)

___________________

۱) ( اءمتنا ج ۱ ص ۴)_

۱۳۹

خلاصہ درس

۱)انسانیت کے مظہر کامل ہونے کے اعتبار سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انسانیت کے فضاءل اور کرامات کااعلی نمونہ تھے، آپ اخلاق الہی سے مزین اور انک لعلی خلق عظیم کے مرتبہ پر فائز تھے_

۲) آپ کے فضاءل میں سے یہ بھی ہے کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو'' روف و رحیم '' کی صفت سے یاد فرمایاہے _

۳ ) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ذاتی حق کے لئے کسی سے بھی انتقام نہیں لیا بلکہ جو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہنچا تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسکو معاف فرمادیتے تھا مگر جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ دیکھتے تھے کہ حکم خدا کی ہتک حرمت کی جاتی تھی تو اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حد جاری کرتے تھے_

۴ ) عفو کردینا انسانیت کا کامل ہے اسلئے کہ عفو کرنے والا اپنے نفس کو دبانے کے سلسلہ میں جہاد اکبر میں مشغول ہوتاہے_

۵ )عفو کا ایک قابل قدر اثر یہ بھی ہے کہ انسان دنیا و آخرت میں باعزت رہتاہے_

۶ )رسول خدا اپنی صفات کمال عفو اور مہربانی کے ذریعہ خدا کے نزدیک حقیقی عزت کے مالک ہیں اور مؤمنین کے دلوں میں بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بڑی قدر و منزلت ہے_

۷) سب سے زیادہ بہترین عفو و ہ ہے جو طاقت اور قدرت کے باوجود ہو اور اگر عفو کے ساتھ احسان ہو تو اسکا درجہ اس سے بھی بڑا ہے_

۱۴۰

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311