رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر25%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 202800 / ڈاؤنلوڈ: 5565
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ایسے ہی موقع پر پڑھ کر سنایا جائے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والوں پر خوف طاہری ہوجائے اور کافروں کی جراءت میں اضافہ ہو_

ابوجہل کے قاصد سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' کیا تیری بات ختم ہوگئی ؟ کیا تو نے پیغام پہنچا دیا اس نے کہا ہاں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' تو جواب بھی سنتا جا جس طرح ابوجہل مجھے دھمکیاں دیتاہے اسی طرح خدا میری مدد اور کامیابی کاوعدہ کرتاہے، خدا کی دی ہوئی خبر میرے لئے زیادہ مناسب اور اچھی ہے جب خدا، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کیلئے تیار ہے تو پھر کسی کے غصہ اور بے وفائی سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا_

تم ابوجہل سے جاکر کہہ دینا کہ شیطان نے جو تعلیم تمہیں دی تھی ، وہی باتیں تم نے مجھے کہی اور میں جواب میں وہ کہہ رہاہوں جو خدا نے مجھ سے کہاہے انیس دن بعد ہمارے اور تمہارے درمیان جنگ ہوگی اور تم میرے ایک کمزور مددگار کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے ، تم کو عتبہ و شیبہ اور ولید کو قتل کیا جائیگا، نیز قریش کے فلاں فلاں افراد بھی بہت بری طرح قتل کرکے بدر کے کنویں میں پھینک دئے جائیں گے تمہارے لشکر کے ستر (۷۰) آدمیوں کو ہم قتل کریں گے اور ۱۷۰ افراد کو اسیر بنائیں گے_(۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استقامت اور پائیداری کے ساتھ اس طرح زندگی گذاری جس طرح خدا چاہتا تھا اور کسی بھی طاقتور سے دین کے معاملہ میں سازش نہیں کی _

___________________

۱)بحارالانوار ج ۱۷ ص ۳۴۳_

۱۲۱

خلاصہ درس

۱)زبان سے زخم لگانے کے علاوہ کفار و مشرکین ، رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کو بہت زیادہ جسمانی اذیتیں بھی پہنچا تے تھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان تمام مصیبتوں اور تکلیفوں پرصبر فرماتے تھے_

۲) جن مقامات پر صبر کی بڑی اہمیت ہے ان میں سے ایک میدان جنگ بھی ہے صدر اسلام کی بہت سی جنگوں میں مسلمانوں کا لشکر اور جنگی ساز و سامان کفار قریش کے لشکر اور اسلحوں سے بہت ہی کم تھا لیکن پھر بھی خدا کی تائید اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہترین فکر کے ساتھ صبر و شکیبائی کے سایہ میں اکثر جنگیں مسلمانوں کی کامیابی پر اختتام پذیر ہوئی_

۳ ) استقامت اور پاییداری اچھی صفتیں ہیں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں یہ صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں_

۴ ) کفار و مشرکین نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دین کے معاملہ میں موافقت کرنے کی بڑی کوششیں کی لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی طرح کی نرمی یا اپنے موقف میں لچک کا اظہار نہیں فرمایا _ نیز بتوں اور بت پرستوں سے ہمیشہ جنگ کرتے رہے_

۵) دھمکی اور لالچ دو ایسے حربہ تھے جو کفار نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوصلہ کو پست کرنے کیلئے استعمال کئے لیکن رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ثابت قدمی میں کوئی چیز جنبش نہ لاسکی_

۱۲۲

سوالات :

۱_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی جانے والی جسمانی اذیت کا ایک نمونہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رد عمل کے ساتھ بیان فرمایئے

۲_ میدان جنگ میں صبر کا کیا اثر ہوتاہے؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ سورہ ہود اور سورہ واقعہ نے مجھے بوڑھا کردیا؟

۴_ دھمکی اور لالچ کے مقابل حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کس رد عمل کا اظہار فرمایا؟

۵_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی طرف سے کسی نرمی یا دین کے معاملہ میں کسی موافقت کو کیوں قبول نہیں کیا ؟ اس سلسلہ کی آیت بیان کرکے توضیح فرمائیں؟

۱۲۳

نواں سبق:

(پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحمت)

انسانیت کے کمال کی جو اعلی ترین مثال ہوسکتی ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے سب سے بڑے مصداق اور انسانی فضاءل و کمالات کا اعلی نمونہ تھے ، اخلاق الہی کا مظہر اور( انک لعلی خلق عظیم ) (۱) کے افتخارسے سرفراز تھے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فضاءل کا بلند پہلو یہ ہے کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو '' رؤف و رحیم'' کے لقب سے یاد فرمایاہے:

( لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین روف رحیم ) (۲)

رسول جو تمہاری صنف سے ہے فرط محبت کی بناپر تمہاری تکلیف ان کے اوپر بہت گراں ہے _ وہ تمہاری نجات پر حریص ہے اور مؤمنین پر رؤف و مہربان ہے_

___________________

۱) ( توبہ ۱۲۸)_

۲) (قلم ۴)_

۱۲۴

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبی رحمت ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فیض رحمت سے نہ صرف مؤمنین اور محبین بلکہ سخت ترین دشمن بھی بہرہ مند ہوتے رہے ، اس لئے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سبق اپنے پروردگار سے سیکھا تھا_

( و ما ارسلنک الا رحمة للعالمین ) (۱)

ہم نے آپ کو عالمین کیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے_

( فاعف عنهم واصفحه ) (۲)

ان کو معاف کردیجئے او ردرگذر کیجئے_

آپ کریمانہ اخلاق اور درگذر کی صفت سے مالامال تھے، محض ناواقف دوستوں اور دشمنوں کی اذیتوں او ر برے سلوک کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاف ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی یاد بھی دل سے نکال دیتے تھے ، دل کے اندر بغض اور کینہ نہیں رکھتے تھے _ کہ جس سے اقتدار حاصل ہونے کے بعداس کے ساتھ انتقامی کاروائی کریں ، خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وسعت قلب سے نوازا تھا(الم نشرح لک صدرک )اے رسول کیا ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شرح صدر کی نعمت نہیں عطا کی _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسے کریمانہ اخلاق اور مہربان دل کے مالک تھے کہ ناواقف اور خودغرض دشمنوں کی گستاخیوں اور جسارتوں کا انتقام لینے کی کبھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فکر نہیں کی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بلند اخلاق اور وسعت قلبی نے قرابت داروں ، دوستوں اور سخت ترین دشمنوں کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گرویدہ

___________________

۱)(ماءدہ ۱۳۱)_

۲)(انبیاء ۱۰۷)_

۱۲۵

بنا دیا _

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ذاتی حق کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، اگر کوئی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تکلیف بھی پہنچا تو آپ اسے معاف فرمادیتے ہاں اگر کوئی حکم خدا کی ہتک حرمت کرتا تھا تو اس وقت حد الہی جاری فرماتے تھے_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی کو دشنام نہیں دیا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی خدمت گار کو یا کسی بیوی پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ راہ خدا میں جہاد کے لئے صرف کفار پر اٹھے_(۱)

جنگ احد میں جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے اور چہرہ مبارک پرزخم لگے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو اس کا بہت دکھ ہوا انہوں نے درخواست کی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمنوں اور کافروں کیلئے بد دعا اور نفرین کریں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں لعن اور نفرین کے لئے نہیں مبعوث کیاگیاہوں، مجھے تو رحمت بناکر بھیجا گیاہے ، میں ان کیلئے دعا کرتاہوں کہ خدا انکی ہدایت کرے اس لئے کہ یہ لوگ ناواقف ہیں(۲)

ان مصیبتوں کو برداشت کرنے کے بعد بھی ان کے لئے دست دعا بلند کرنا اور خدا سے عذاب کی بدلے ہدایت مانگنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو و رحمت،حسن اخلاق اور کمال کی دلیل ہے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عمومی اخلاق کا یہ نمونہ تھا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود

___________________

۱) (محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۸)_

۲) (محجة البیضاء ج۴ ص ۱۲۹)_

۱۲۶

ہیں اب یہ کہ سختیوں کے جھیلنے کے بعد عفو اور درگزر کا انسانی اخلاق پر کیا اثر پڑتاہے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کی زندگی کے عفو و درگزر کے حوالے سے چند واقعات کی مدد سے ہم اس کی طرف اشارہ کریں گے البتہ ہمیں اعتراف ہے کہ ان عظیم الہی آیات پر مکمل تجزیہ کرنے سے ہم عاجز ہیں یہ کام ہم فقط اس لیے کررہے ہیںکہ ہمارے نفس پر اس کا اثر پڑے اور وہ واقعات ہماری ہدایت کا چراغ بن جائیں_

عفو، کمال کا پیش خیمہ

عفو کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ وہ انسان کے اندر کمال کا جوہر پیدا کردیتاہے، اس لئے کہ عفو کرنے والا جہاد اکبر کی منزل میں ہوتاہے، وہ اپنے نفس سے جہاد کرتاہے، اس کا نفس انتقام کیلئے آمادہ کرتاہے، اس کے غیظ و غضب کی آگ بھڑکاتاہے، لیکن معاف کرنے والا انسان ایسی خواہشوں سے نبرد آزمائی رکتارہتاہے اور پھر خودسازی اور کمال روح کی زمین ہموار ہوجاتی ہے، اس لئے عقل و نفس کی جنگ میں اگر انسان شرع اور عقل کو حاکم بنالے تو یہ انسان کے اندر کمال پیدا کرنے کے ضامن ہیں_

عفو میںدنیا اور آخرت کی عزت

عفو اور درگذر کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں انسان کی عزت میں اضافہ

۱۲۷

کرتاہے_

عزت دنیا

شیطان ، انسان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا کرتاہے کہ اگر تم انتقام نہیں لوگے تو لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوجاوگے، دوسرے شیر بن جائیں گے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے عفو اور درگذر انسان کی قدر و منزلت کو بڑھانے اور اس کی شخصیت کو بلند کرنے کا سبب ہے ، خاص طور پر اگر توانائی اور طاقت کی موجودگی میں کسی کو معاف کردیا جائے تو یہ اور بھی زیادہ موثر ہے ، اگر عفو کو ترک کردیا جائے تو ہوسکتاہے کہ لڑائی جھگڑا ہوجائے اور پھر بات عدالت تک پہنچے کبھی کبھی تو ایسا ابھی ہوتاہے کہ ترک عفوانسان کی جان، مال عزت اور آبرو کے جانے کا باعث بن جاتاہے اور ان تمام باتوں سے انسان کی قدر و قیمت گھٹ جاتی ہے _

کلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

مندرجہ بالا حقائق کی طرف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام نے اپنے کلام میں اشارہ فرمایاہے_

''عن ابی عبدالله قال:قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیکم بالعفو فان العفو لا یزید العبد الا عزا فتعافوا یعزکم الله'' (۱)

___________________

۱) (مرآة العقول ج۸ ص ۱۹۴)_

۱۲۸

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تم عفو اور درگذر سے کام لیا کرو کیوں کہ عفو فقط انسان کی عزت میں اضافہ کرتاہے لہذا تم عفو کیا کرو کہ خدا تمہیں عزت والا بنادے_

''عن ابی عبدالله قال: قال رسول الله فی خطبته الا اخبرکم بخیر خلایق الدنیا والآخرة ؟ العفو عمن ظلمک و تصل من قطعک والاحسان الی من اساء الیک و اعطاء من حرمک'' (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: کیا میں تم کو اس بہترین اخلاق کی خبردوں جو دنیا و آخرت دونوں میں نفع بخش ہے ؟ تو سنو، جس نے تمہارے اوپر ظلم کیا اس کو معاف کردینا ، ان رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا جنہوں نے تمہارے ساتھ قطع رحمی کی ، اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا جو تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے، اور اسکو عطا کرنا جس نے تم کو محروم کردیا ہو یہ بہترین اخلاق ہیں _

آخرت کی عزت

عفو و درگذر میں انسان کی اخروی عزت بھی پوشیدہ ہے کہ اس سے معرفت پروردگار حاصل ہوتی ہے_

___________________

۱) ( مرآة العقول ج۸ ص۱۹۲)_

۱۲۹

قرآن کہتاہے :

( والیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفر الله لکم والله غفور رحیم ) (۱)

مؤمنین کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر عفو اور درگذر کی صفت پیدا کریں ، کیا تم اس بات کو دوست نہیں رکھتے کہ خدا تم کو بخش دے، خدا بڑ ا بخشنے والا اور مہربان ہے _

( و سارعوا الی مغفرة من ربکم و جنةعرضها السموات والارض اعدت للمتقین الذین ینفقون فی السراء والضراء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس والله یحب المحسنین ) (۲)

تم اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جس کو اللہ نے پرہیز گار بندوں کے لئے مہیا کررکھاہے، ان پرہیزگاروں کیلئے جو اپنے مال کو وسعت اور جنگ کے عالم میں فقراء پر خرچ کرتے اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیک اعمال کرنے والوں کو دوست رکھتاہے_

___________________

۱) (نور۲۲)_

۲) (آل عمران ۱۲۴، ۱۲۳)_

۱۳۰

رسول خدا کی عزت

عفو و رحمت جیسی تمام صفات کمال کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدابارگاہ میں حقیقی عزت حاصل تھی( ان العزة لله و لرسوله ) عزت خدا اور اس کے رسول کیلئے ہے _

رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن عفو میں آنے کے بعد نہ صرف مؤمنین بلکہ دشمن بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وفادار دوست بن جاتے تھے اس لئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے خدا سے یہ عظیم ادب سیکھا تھا، ارشاد ہوتاہے :

( ادفع بالتی هی احسن فاذا الذین بینک و بینه عداوة کانه ولی حمیم ) (۱)

اے میرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ لوگوں کی بدی کا بدلہ نیکی سے دیں تا کہ جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمن ہیں وہ دوست بن جائیں_

معلوم ہوتاہے کہ عفو و درگذر دلوں میں مہربانی پیدا کرنے کا سبب ہوا کرتاہے کہ کینہ پرور دشمن کے دل کو بھی نرم کردیتاہے ، انسان کی شخصیت کو بلند کرتاہے اور لوگوں کی توجہ عفو کرنے والے کی طرف مبذول ہوجاتی ہے ، لیکن اس کے برخلاف کینہ توزی اور انتقامی کاروائی سے لوگ بدظن ہوجاتے ہیں اور ایسے شخص سے فرار کرنے لگتے ہیں ، انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کامیاب ہوجانے کی ایک علت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہی رحم وکرم ہے _

___________________

۱) (فصلت ۳۴)_

۱۳۱

اقتدار کے باوجود درگذر

انتقام کی طاقت ہونے کے باوجودمعاف کردینے کی بات ہی کچھ اور ہے ، اس سے بڑی وہ منزل ہے کہ جب انسان معاف کرنے کے ساتھ ساتھ احسان بھی کرے، قدرت و طاقت کے باوجود معاف کردینے اور بخش دینے میں انسانوں میں سب سے نمایاں مثال رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کے زمانہ میں مختلف افراد اور اقوام کو معاف کردینے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں_

لطف و مہربانی کا دن

کفار و مشرکین مکہ کی خطاؤں کو معاف کردینے اور ان کو دامن عفو میں جگہ دینے والا سب سے مشہور دن فتح مکہ کے بعد کا دن ہے ، جن دشمنوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہر طرح کی اذیتیں پہنچانے کی کوششیں کی تھیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہجرت کر جانے پر مجبور کردیا تھا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دشمنوں کو معاف کردیا_

سعد بن عبادہ جو لشکر اسلام کے ایک کمانڈر تھے مکہ جاتے ہوئے انہوں نے نعرہ بلند کیا'' الیوم یوم الملحمه، الیوم تستحل الحرمة الیوم اذل الله قریشا'' آج خون بہانے کا دن ہے آج وہ دن ہے کہ جس دن حرمت و احترام کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، آج خدا قریش کو ذلیل کریگا_

۱۳۲

لیکن اس نعرہ کی خبر جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہوئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : سعد کو غلط فہمی ہوئی ہے، آج کا نعرہ یہ ہے:

''الیوم ، یوم الرحمة الیوم اعز الله قریشا''

آج لطف و مہربانی کا دن ہے آج خدا نے قریش کو عزت دی ہے_

بعض اصحاب نے عرض کی '' ہمیں خوف ہے کہ سعد کہیں حملہ نہ کردیں،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو بھیجا تا کہ سعد سے علم لیکر ان کے بیٹے قیس کو دیدیں حضور نے اس بہانے سے سعد کا کنٹرول چھینا تا کہ ان کے رنج کا سبب نہ بنے(۱)

اپنی پوری طاقت اور توانائی کیساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کفار قریش کے سامنے کھڑے ہوئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اے قریش اور مکہ والو کیا تم کو معلو م ہے کہ ہم تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ سواے خیر اور نیکی کے ہمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی اور توقع نہیں ہے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بزرگوار اور کریم بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں _ اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہی بات کہی جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے سامنے کہی تھی( لا تثریب علیکم الیوم ) (۲) روایت ہے کہ جب یوسف نے ان کو پہچان لیا تو وہ ان کے دستر خوان پر ہر صبح و شام حاضر ہونے لگے انہوں نے اپنے بھائی یوسف سے کہا کہ ہم اپنے گذشتہ سلوک پر نادم ہیں _ جناب یوسف نے فرمایا: نہیں ایسا نہیں ہے اس لئے کہ ہر چند کہ میں آج مصر کا بادشاہ ہوںلیکن لوگ اسی پہلے دن کی نگاہ سے آج بھی مجھ کو دیکھ رہے ہیں _ اور کہتے ہیں کہ جو بیس درہم میں خریدا گیا تھا وہ آج مصر کی حکومت تک کیسے پہنچ گیا لیکن جب تم

____________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۳ ص۲۸۵ ، ۲۸۴)_

۲) (یوسف ۹۲)_

۱۳۳

آگئےاور یہ لوگ سمجھ گئے کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو تمہاری وجہ سے میں لوگوں کی نظروں میں بلند ہوگیاہوں ان لوگوں نے جب سمجھ لیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں اور خاندان حضرت ابراہیمعليه‌السلام سے ہوں تو اب یہ لوگ اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر سے ایک غلام کو دیکھا جاتاہے _(سفینة البحار ج۱ ص ۴۱۲)

آج تمہاری سرزنش نہیں ہوگی _ تم شرمندہ نہ ہونا _ ہم نے آج تم کو معاف کردیا _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:اذهبوا انتم الطلقاء جاو اب تم آزاد ہو_

فتح مکہ کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پوری قدرت اور طاقت حاصل تھی پھر بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام دشمنوں کو آزاد کردیا، صرف ان پندرہ افراد کو امان سے مستثنی کیا جو اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے اور بہت سی سازشوں میں ملوث تھے، وہ گیارہ مرد اور چار عورتیں تھیں، فتح مکہ کے بعد ان میں سے چار افراد کے علاوہ سب قتل کردیئے گئے، چار افراد کو امان ملی انہوںنے اسلام قبول کیا اور ان کی جان بچ گئی(۱)

اب ان لوگوں کا ذکر کیا جائیگا جن کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن عفو میں جگہ ملی_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حمزہ کا قاتل

جناب حمزہ کا قاتل '' وحشی'' بھی ان ہی لوگوں میں شامل تھاجن کے قتل کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح

___________________

۱) ( محمد الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ص ۳۱۹ _ ۷۱۳)

۱۳۴

مکہ سے پہلے حکم دے دیا تھا، مسلمان بھی اس کو قتل کرنے کی ناک میں تھے، لیکن وحشی بھاگ کر طاءف پہنچ گیا اور کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد طاءف کے نماءندوں کے ساتھ وہحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا، اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے حضر ت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حمزہ کے قتل کی رویداد سنائی حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میری نظروں سے اتنی دور چلاجاکہ میں تجھ کو نہ دیکھوں، اسی طرح یہ بھی معاف کردیا گیا(۱)

ابوسفیان کی بیوی عتبہ کی بیٹی ہند

ابوسفیان کی بیوی، عتبہ کی بیٹی '' ھند'' بھی ان لوگوں میں سے تھیکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جسکا خون مباح کردیا تھا، اس لئے کہ اس نے حمزہ کو مثلہ کرکے ا ن کا کلیجہ چبانے کی کوشش کی تھی، فتح مکہ کے بعد وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچی اور اس نے اظہار اسلام کیا تو حضور نے اس کو بھی معاف کردیا(۲)

ابن زبعری

فتح مکہ کے بعد '' ابن زبعری'' بھا گ کر نجران چلا گیا لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ رسول

___________________

۱) (مغازی واقدی ترجمہ ڈاکٹر محمود مھدوی دامغانی ج۲ ص ۶۶۰)

۲) ( محمد الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳۱۸)_

۱۳۵

خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اس نے وحدانیت اور رسالت کی گواہی دی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی کی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کرنے کیلئے میں نے پیادوں کا لشکر جمع کیا ، اس کے بعد میں بھاگ کر نجران چلا گیا میرا ارادہ تھا کہ میں کبھی بھی اسلام کے قریب نہیں جاوں گا لیکن خدا نے مجھ کو خیر کی توفیق عطا کی اور اس نے اسلام کی محبت میرے دل میں بٹھادی، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کہ اس خدا کی تعریف کہ جس نے تم کو اسلام کا راستہ دکھایا وہ اس سے پہلے کی باتوں پر پردہ ڈال دیتاہے_(۱)

ابوسفیان ابن حارث ابن عبدالمطلب (معاویہ کا باپ ابوسفیان نہیں بلکہ یہ دوسرا ابوسفیان ہے)_

یہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چچا زاد اور دودھ شریک بھائی تھا ، اس نے کچھ مدت جناب حلیمہ کا دودھ پیا تھا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہم سن تھا_

بعثت سے پہلے تو یہ ٹھیک تھا مگر بعد میں یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سخت ترین دشمن بن گیا ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی ہجو میں یہ اشعار کہا کرتا تھا، بیس سال تک اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنوں کا سا سلوک روا رکھا مسلمانوں سے لڑی جانے والی تمام جنگوں میں کفار کے ساتھ رہا ، یہاں تک کہ اس کے دل میں نور اسلام کی روشنی پہنچ گئی ، چنانچہ ایک روز وہ اپنے بیٹے اور غلام کے ساتھ مکہ سے باہر آیا اور اس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہونچا کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حنین

___________________

۱)(مغازی واقدی ج۲ ص ۶۴۸، ترجمہ ڈاکٹر محمود مہدوی دامغانی)_

۱۳۶

کی طرف روانہ ہورہے تھے، اس نے کئی بار اپنے آپ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی توجہ نہیں دی اور اپنا رخ اس کی جانب سے پھیر لیا ، مسلمانوں نے بھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتے ہوئے بے اعتنائی کا ثبوت دیا ، لیکن وہ بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لطف و کرم کا امیدوار رہا ، بات یوں ہی ٹلتی رہی یہاں تک کہ جنگ حنین شروع ہوگئی ابوسفیان کا بیان ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میدان جنگ میں ایک سفید اور سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں میں برہنہ تلوار تھی ، میں تلوار لئے ہوئے اپنے گھوڑے سے اتر پڑا اور میں نے عمداً اپنی تلوار کی نیام توڑ ڈالی ، خدا شاہد ہے کہ وہاں میری یہی آرزو تھی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دفاع کرتے ہوئے میں قتل کردیا جاؤں_

عباس بن عبدالمطلب نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھوڑے کی لگام تھام رکھی تھی میں بھی دوسری طرف تھا،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میری طرف نگاہ کی اور پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ میں نے چاہا کہ اپنے چہرہ کی نقاب ہٹادوں، عباس نے کہا :

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ آپ کا چچا زاد بھائی ابوسفیان بن حارث ہے ، آپ اس پر مہربانی فرمائیں اور اس سے راضی ہوجائیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میں راضی ہوگیا خدا نے اس کی وہ تمام دشمنی جو اس نے مجھ سے کی معاف کردی ہے _

ابوسفیان کا کہناہے کہ میں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاؤں کو رکاب میں بو سے دیئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میری طرف توجہ کی اور فرمایا: میرے بھائی تمہیں میری جان کی قسم یہ نہ کرو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

۱۳۷

فرمایا: آگے بڑھو اور دشمن پر حملہ کردو میں نے حملہ کرکے دشمن کو بھگا دیا، میں آگے آگے تھا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے پیچھے آرہے تھے میں لوگوں کو قتل کررہا تھا اور دشمن بھا گے جارہے تھے_(۱)

مولائے کاءنات حضرت علیعليه‌السلام

عفو و رحمت کا دوسرانمونہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گود کے پالے ،انسانیت کا اعلی نمونہ حضرت علیعليه‌السلام ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی سے بھی یہی واضح ہوتاہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی پوری طاقت اور قدرت و اختیار کے باوجود عفو و درگذر سے کام لیا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو نمونہ بنایا_

فتح بصرہ کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے ان لوگوں کو معاف کردینے کی سفارش کی جنہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تھی اور نئی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی کوشش کی تھی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ بھاگ جانے والوں کا پیچھا نہ کیا جائے ان کا مال نہ لوٹا جائے، آپعليه‌السلام کی طرف سے ایک منادی ندا دیتا جارہا تھا جو اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دے اور گھر میں چلا جائے اس کو امان ہے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو کا دامن اتنا پھیلا کہ آپعليه‌السلام نے لشکر کے سپہ سالاروں اور قوم کے سربرآوردہ افراد نیز جناب عائشہ کو معاف کردیا،تو جناب عائشہ کو تو احترام اور تحفظ کے ساتھ مدینہ بھیجا اور مروان بن حکم کو بھی معاف کردیا جو کہ آپعليه‌السلام

___________________

۱) (مغازی واقدی ترجمہ ڈاکٹر محمود مھدوی دامغانی ج۲ ص ۶۱۹ ، ۶۱۶)_

۱۳۸

کا سخت ترین دشمن تھااور ابن زبیر کو بھی معاف کردیا جو آپ کے لشکر کی کامیابی سے پہلے بصرہ میں آپعليه‌السلام کے خلاف ناروا باتیں کہا کرتا تھا اور لوگوں کو آپعليه‌السلام کی خلاف بھڑکاتارہتا تھا(۱)

___________________

۱) ( اءمتنا ج ۱ ص ۴)_

۱۳۹

خلاصہ درس

۱)انسانیت کے مظہر کامل ہونے کے اعتبار سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انسانیت کے فضاءل اور کرامات کااعلی نمونہ تھے، آپ اخلاق الہی سے مزین اور انک لعلی خلق عظیم کے مرتبہ پر فائز تھے_

۲) آپ کے فضاءل میں سے یہ بھی ہے کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو'' روف و رحیم '' کی صفت سے یاد فرمایاہے _

۳ ) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ذاتی حق کے لئے کسی سے بھی انتقام نہیں لیا بلکہ جو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہنچا تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسکو معاف فرمادیتے تھا مگر جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ دیکھتے تھے کہ حکم خدا کی ہتک حرمت کی جاتی تھی تو اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حد جاری کرتے تھے_

۴ ) عفو کردینا انسانیت کا کامل ہے اسلئے کہ عفو کرنے والا اپنے نفس کو دبانے کے سلسلہ میں جہاد اکبر میں مشغول ہوتاہے_

۵ )عفو کا ایک قابل قدر اثر یہ بھی ہے کہ انسان دنیا و آخرت میں باعزت رہتاہے_

۶ )رسول خدا اپنی صفات کمال عفو اور مہربانی کے ذریعہ خدا کے نزدیک حقیقی عزت کے مالک ہیں اور مؤمنین کے دلوں میں بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بڑی قدر و منزلت ہے_

۷) سب سے زیادہ بہترین عفو و ہ ہے جو طاقت اور قدرت کے باوجود ہو اور اگر عفو کے ساتھ احسان ہو تو اسکا درجہ اس سے بھی بڑا ہے_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

لیکن ہماری گفتگو اس سلسلے میں ہے کہ ''عبادت'' اور غیر عبادت کی شناخت کا معیار کیا ہے؟

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے استاد اور ماں باپ یا علماء اور مجتہدین کے ہاتھوں کا بوسہ لے یا اپنے ذوی الحقوق کا احترام کرے تو کیا اس کا یہ عمل ان کی عبادت شمار ہوگا؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ کسی کے مقابلے میں خضوع و خشوع کو عبادت نہیں کہتے بلکہ عبادت کے لئے ایک خاص صفت کا ہونا ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر چاہے جس بھی طرح کا خضوع ہو عبادت نہیں کہلائے گااب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی بنیادی صفت ہے جو کسی بھی طرح کے خضوع کو عبادت بناسکتی ہے؟

لفظ عبادت کے غلط معنی

کچھ مصنفین نے اپنی کتابوں میں عبادت کے معنی خضوع اور یا زیادہ خضوع بیان کئے ہیں لیکن ان مصنفین کو قرآن مجید کی بعض آیات کے ترجمہ میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ ان آیتوں میں خداوندکریم نے صراحت سے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے فرشتوں کو جناب آدم کا سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا ملاحظہ ہو:

(وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت:۳۴.

۲۸۱

اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو.

حضرت آدم کے لئے بعینہ اسی طرح سجدہ بجالایا گیا جس طرح خداوندکریم کے لئے سجدہ کیا جاتا تھا جبکہ جناب آدم کے سامنے یہ سجدہ خضوع اور تواضع کے اظہار کی خاطر انجام پایا تھا اور خدا کا سجدہ عبادت و پرستش کے طور پر بجالایا جاتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ایک ہی طرح کے سجدوں میں کیسے دومختلف حقیقتیں پیداہوگئیں؟

قرآن مجید ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ جناب یعقوب نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ جناب یوسف کے سامنے سجدہ کیا تھا:

(وَرَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاَبَتِ هَذَا تَاْوِیلُ رُؤْیَا مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّا'' ( ۱ )

اور یوسف نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب انکے سامنے سجدے میں گر پڑے اور یوسف نے کہا: اے باباجان! یہی میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بے شک میرے رب نے اسے سچ کردکھایا ہے.

یہاں پر اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ جناب یوسف نے پہلے خواب کی طرف اشارہ کیا تھا جس سے مراد وہی خواب تھا جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ چاند اور

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت:۱۰۰.

۲۸۲

سورج کے ہمراہ گیارہ ستارے ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں اس بات کو قرآن مجید نے یوں نقل کیا ہے:

انِّ رَاَیْتُ احَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِى سَاجِدِینَ )( ۱ )

میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اور آفتاب و مہتاب کو دیکھا ہے کہ یہ میرے سامنے سجدہ کررہے ہیں

اس آیت میں گیارہ ستاروں سے جناب یوسف کے گیارہ بھائی اور چاند اور سورج سے ان کے ماں اور باپ مراد ہیں

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ نہ صرف حضرت یعقوب کے بیٹوں نے بلکہ خود جناب یعقوب نے بھی جناب یوسف کے سامنے سجدہ کیا تھا.

اب یہاں ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں :

اس قسم کے سجدہ کو عبادت میں شمارکیوں نہیں کیا جاتا جبکہ سجدہ نہایت خضوع اور تواضع کے ساتھ بجالایا گیا تھا؟

عذر بدتراز گناہ

یہاں پر چونکہ مذکورہ مصنفین اس سوال کا جواب نہیں دے پائے لہذا یوں کہتے ہیں :

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت :۴.

۲۸۳

چونکہ اس قسم کا خضوع و خشوع پروردگارعالم کے حکم سے انجام دیا گیا تھا لہذا اسے شرک شمار نہیں کیاجاسکتا .لیکن یہ بات معلوم ہے کہ ان کی یہ تاویل کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اگر کوئی عمل باعث شرک ہو تو خداوندعالم ہرگز اس کا حکم نہیں دے سکتا.

قرآن مجید فرماتا ہے:

(قُلْ ِانَّ ﷲ لاَیَاْمُرُ بِالْفَحْشَائِ اَتَقُولُونَ عَلَی ﷲِ مَا لاتَعْلَمُون )( ۱ )

کہہ دیجئے اللہ یقینا برائی کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں ؟

اصولی طور پر خداوندعالم کا حکم کسی چیز کی حقیقت کو نہیں بدلتا اگر ایک انسان کے مقابلے میں خضوع کرنا اس کی عبادت ہو اور خدائے بزرگ نیز اس کا حکم دے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا اپنی عبادت کا حکم دے رہا ہے.

مسئلے کا جواب اور عبادت کے حقیقی معنی کی وضاحت

یہاں تک یہ واضح ہوگیا کہ ''غیر خدا کی عبادت کے ممنوع ہونے کے سلسلے میں '' دنیا کے تمام موحد متفق ہیں اور دوسری طرف سے یہ بھی روشن ہوچکا ہے کہ فرشتوں کا

____________________

(۱)سورہ اعراف آیت:۲۸.

۲۸۴

حضرت آدم کے سامنے اور حضرت یعقوب اور ان کے بیٹوں کا حضرت یوسف کے سامنے سجدہ کرنا ان کی عبادت نہ تھا اب ضروری ہے کہ ہم اس نکتے کی طرف توجہ دلائیں کہ وہ کون سی خاص صفت ہے جس کے نہ ہونے سے ایک عمل عبادت نہیں بن پاتا جبکہ اگر وہ پائی جاتی ہو تو وہی عمل عبادت شمار ہوتاہے.

قرآنی آیات کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ کسی موجود کو خدا سمجھ کر اس کے سامنے خضوع کرنا یا اس کی طرف خدائی امور کی نسبت دینا اس کی عبادت کہلاتا ہے اس بیان سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر کسی کو خدائی امور انجام دینے پر قادر سمجھتے ہوئے اس کے سامنے خضوع کیا جائے تو یہ عمل اسی کی عبادت شمار ہوگا .دنیا کے مشرک ایسے موجودات کے سامنے خضوع کیا کرتے تھے کہ جنہیں وہ مخلوق خدا تو سمجھتے تھے لیکن وہ اس بات کے معتقد تھے کہ کچھ خدائی امور جیسے کہ گناہوں کی بخشش ،

اور حق شفاعت انہیں موجودات کو سونپ دیئے گئے ہیں

سرزمین بابل کے کچھ مشرک آسمانی ستاروں کو اپنا رب اور دنیا اور انسانوں کی تدبیر کا مالک سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے لیکن انہیں اپنا خالق نہیں سمجھتے تھے حضرت ابراہیم نے بھی اسی اصل کی بنا پر اپنی قوم کے ساتھ مناظرہ کیا تھا کیونکہ سرزمین بابل کے مشرک ہرگزسورج چاند اور ستاروں کو اپنا خالق نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ انہیں ایسی باقدرت مخلوق سمجھتے تھ

۲۸۵

جنہیں ربوبیت اور دنیا کی تدبیر سونپ دی گئی تھی قرآنی آیات میں بھی حضرت ابراہیم اور مشرکین بابل کے درمیان مناظرے میں لفظ رب کو محور قرار دیتے ہوئے( ۱ ) بیان کیا گیا ہے اور یہ واضح ہے کہ لفظ رب کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو اپنا صاحب اور اپنی مملوک کے امور کا مدبر قرار دیا جائے .عربی زبان میں گھر کے مالک کو'' رب البیت''اور کھیتی باڑی کے مالک کو رب الضیعہ کہتے ہیں اس لئے کہ گھر اور کھیتی باڑی کی تدبیر ان کے مالکوں کے ذمے ہوتی ہے

قرآن مجید مشرکین کے مقابلے میں صرف خداوندعالم کو اس نظام ہستی کا رب اور مدبر قرار دیتا ہے اور سب کو خدائے یگانہ کی پرستش کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

ِانَّ ﷲ رَبِّى وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطى مُسْتَقِیم ( ۲ )

اللہ میرا رب اور تمہارا بھی رب ہے لہذا اس کی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے.

ایک اور جگہ فرماتا ہے:

(ذَلِکُمْ ﷲ رَبُّکُمْ لا اِلٰهَ ا ِلاَّ هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَْئٍ فَاعْبُدُوهُ )( ۳ )

وہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ ہر چیز کا خالق ہے لہذا اس کی عبادت کرو.

____________________

(۱)سورہ انعام آیت ۷۶ تا ۷۸.

(۲)سورہ آل عمران آیت ۵۱.

(۳)سورہ انعام آیت: ۱۰۲.

۲۸۶

اس طرح قرآن مجید سورۂ دخان میں فرماتا ہے:

(لاَاِلَهَ اِلاَّ هُوَ یُحْى وَیُمِیتُ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَائِکُمْ الْاَوَّلِینَ )( ۱ )

اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے پہلے آبائو اجداد کا بھی رب ہے.

اسی طرح قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ کے قول کو یوں نقل کیا ہے:

(وَقَالَ الْمَسِیحُ یَابَنِى اِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا ﷲ رَبِّى وَرَبَّکُمْ )( ۲ )

اور مسیح نے کہا : اے بنی اسرائیل تم اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے.

گذشتہ بیانات کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ ہروہ خضوع جو کسی مخلوق کے سامنے اسے رب اور خدا سمجھے بغیر یا اس کی طرف خدائی امور کی نسبت دئیے بغیر انجام دیا جائے وہ ہرگز عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ یہ خضوع حد سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوجائے اس اعتبار سے امت کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا اپنے والدین کے سامنے انہیں خدا قرارنہ دیتے ہوئے خضوع وخشوع کرنا ہرگز ان کی عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اسی بنیاد پر بہت

سے موضوعات جیسے اولیائے الہی سے منسوب چیزوں کو متبرک سمجھنا ،حرم کے دروازوں، دیواروں اور ضریحوں کو چومنا، خدا کی بارگاہ میں اولیائے الہی سے متوسل ہونا، اولیائے الہی کو پکارنا، ان کے ایام ولادت میں جشن منانا اور محفلیں برپا کرنا اور ان کے ایام وفات و شہادت میں مجلسیں منعقد کرنا ہرگز اولیائے الہی کی عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ بعض ناآگاہ افراد ان کاموں کو غیر خدا کی عبادت اور شرک سمجھتے ہیں جبکہ ان سارے کاموںکو کسی بھی طرح سے غیر خدا کی عبادت اور شرک شمار نہیں کیا جاسکتاہے۔

____________________

(۱)سورہ دخان آیت۸

(۲)سورہ مائدہ آیت:۷۲.

۲۸۷

فہرست

حرف اول ۵

پیش گفتار ۸

پہلا سوال ۱۰

''وعترتی اہل بیتی '' صحیح ہے یا ''وسنتی''؟ ۱۰

حدیث ''واہل بیتی'' کی سند ۱۱

لفظ ''و سنتی'' والی حدیث کی سند ۱۳

ان دو کے بارے میں علمائے رجال کا نظریہ ۱۴

حدیث''وسنتی'' کی دوسری سند ۱۷

حدیث ''وسنتی''کی تیسری سند ۱۹

سند کے بغیر متن کا نقل ۲۰

حدیث ثقلین کا مفہوم ۲۲

دوسرا سوال ۲۵

شیعہ سے کیا مراد ہے؟ ۲۵

تیسرا سوال ۲۷

کیوں حضرت علی ہی پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی اور جانشین ہیں ؟ ۲۷

۱۔ آغاز بعثت میں : ۲۷

۲۔ غزوۂ تبوک میں ۲۸

۳۔ دسویں ہجری میں ۲۹

چوتھا سوال ۳۲

۲۸۸

''ائمہ'' کون ہیں ؟ ۳۲

پانچواں سوال ۳۵

حضرت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات پڑھتے وقت کیوں آل کا اضافہ کرتے ہیں اور: اللّھم صل علی محمد و آل محمد کہتے ہیں ؟ ۳۵

چھٹا سوال ۳۷

آپ اپنے اماموں کو معصوم کیوں کہتے ہیں ؟ ۳۷

ساتواں سوال ۴۰

اذان میں أشھد أن علیًّا ول اللّہ کیوں کہتے ہیں اور حضرت علی ـ کی ولایت کی شہادت کیوں دیتے ہیں ؟ ۴۰

آٹھواں سوال ۴۴

مہدی آل محمدعلیہ السلام کون ہیں اور انکا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟ ۴۴

نواں سوال ۴۷

اگر شیعہ حق پر ہیں تو وہ اقلیت میں کیوں ہیں ؟ اور دنیا کے اکثر مسلمانوں نے ان کو کیوں نہیں ماناہے؟ ۴۷

دسواں سوال ۵۱

رجعت کیا ہے اور آپ اس پر کیوں عقیدہ رکھتے ہیں ؟ ۵۱

۱۔رجعت کا فلسفہ ۵۶

۲۔رجعت اور تناسخ( ۱ ) کے درمیان واضح فرق ۵۷

گیارہواں سوال ۵۹

جس شفاعت کا آپ عقیدہ رکھتے ہیں وہ کیا ہے؟ ۵۹

شفاعت کا دائرہ ۶۰

شفاعت کا فلسفہ ۶۲

۲۸۹

شفاعت کا نتیجہ ۶۲

بارہواں سوال ۶۳

کیا حقیقی شفاعت کرنے والوں سے بھی شفاعت کی درخواست کرنا شرک ہے؟ ۶۳

تیرہواں سوال ۶۹

کیا غیر خدا سے مدد مانگنا شرک ہے؟ ۶۹

چودہواں سوال ۷۳

کیا دوسروں کو پکارنا ان کی عبادت اور شرک ہے؟ ۷۳

پندرہواں سوال ۷۹

''بدائ'' کیا ہے اور آپ اس کا عقیدہ کیوںرکھتے ہیں ؟ ۷۹

بداء کا فلسفہ ۸۳

سولہواں سوال ۸۴

کیا شیعہ قرآن مجید میں تحریف کے قائل ہیں ؟ ۸۴

سترہواں سوال ۹۸

صحابۂ کرام کے بارے میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟ ۹۸

صحابی قرآن مجید کی نگاہ میں ۱۰۰

پہلی قسم ۱۰۱

۱۔دوسروں پر سبقت لے جانے والے ۱۰۱

۲۔درخت کے نیچے بیعت کرنے والے ۱۰۲

۳۔مہاجرین ۱۰۲

۴۔اصحابِ فتح ۱۰۳

۲۹۰

دوسری قسم ۱۰۴

۱۔معروف منافقین ۱۰۴

۲۔غیر معروف منافقین ۱۰۴

۳۔دل کے کھوٹے ۱۰۵

۴۔گناہ گار ۱۰۵

اٹھارہواں سوال ۱۰۹

متعہ کیا ہے اور شیعہ اسے کیوں حلال سمجھتے ہیں ؟ ۱۰۹

انیسواں سوال ۱۱۹

شیعہ خاک پر کیوں سجدہ کرتے ہیں ؟ ۱۱۹

بیسواں سوال ۱۳۱

شیعہ حضرات زیارت کرتے وقت حرم کے دروازوں اور دیواروں کو کیوں چومتے ہیں اور انہیں باعث برکت کیوں سمجھتے ہیں ؟ ۱۳۱

اکیسواں سوال ۱۳۷

کیا اسلام کی نگاہ میں دین سیاست سے جدا نہیں ہے؟ ۱۳۷

پیغمبرخدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلامی حکومت کے بانی ہیں ۱۳۸

بائیسواں سوال ۱۴۶

شیعہ ، حضرت علی بن ابی طالب کے بیٹوں (امام حسنـ ا ور امام حسینـ) کو رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے کیوں کہتے ہیں ؟ ۱۴۶

تیئیسواں سوال ۱۵۲

شیعوں کے نزدیک یہ کیوں ضروری ہے کہ خلیفہ کو خدا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی معین فرمائیں؟ ۱۵۲

۲۹۱

عصر رسالت کے حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ خلیفہ کونص کے ذریعہ معین ہونا چاہئے ۱۵۳

اس کی وضاحت ۱۵۳

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثیں ۱۵۶

چوبیسواں سوال ۱۵۷

کیا غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہے؟ ۱۵۷

پچیسواں سوال ۱۶۴

کیا اولیائے خدا سے توسل کرنا شرک اور بدعت ہے؟ ۱۶۴

توسل کی قسمیں ۱۶۵

۱۔نیک اعمال سے توسل؛ ۱۶۵

۲۔خدا کے نیک بندوں کی دعاؤں سے توسل ! ۱۶۶

۳۔قرب الہی کے حصول کیلئے خداوند کریم کے محترم اور مقدس بندوں سے توسل: ۱۶۷

چھبیسواں سوال ۱۷۲

کیا اولیائے خدا کی ولادت کے موقع پر جشن منانا بدعت یا شرک ہے؟ ۱۷۲

۱۔ان کی یاد منانے میں محبت کا اظہار ہوتا ہے ۱۷۲

۲۔پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد منانا آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم کا اظہار ہے ۱۷۳

۴۔وحی کا نازل ہونا دسترخوان کے نازل ہونے سے کم نہیں ہے ۱۷۵

۵۔ مسلمانوں کی سیرت ۱۷۶

ستائیسواں سوال ۱۷۸

شیعہ پانچ نمازوں کو تین اوقات میں کیوں پڑھتے ہیں ؟ ۱۷۸

نتیجہ: ۱۹۵

۲۹۲

اٹھائیسواں سوال ۲۰۰

شیعوں کی فقہ کے ماخذ کون سے ہیں ؟ ۲۰۰

کتاب خدا؛ قرآن مجید ۲۰۰

سنت ۲۰۲

حضرت رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول و فعل اور کسی کام کے سلسلے میں ۲۰۲

احادیث اہل بیت سے تمسک کے دلائل ۲۰۴

الف: ائمہ معصومین کی احادیث کی حقیقت ۲۰۴

عترت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کی حقیقت ۲۰۴

اہل بیت پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل ۲۰۷

اہل بیت پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟ ۲۱۰

نتیجہ: ۲۱۴

انتیسواں سوال ۲۱۶

کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ؟ ۲۱۶

خاندان جناب ابوطالب ۲۱۶

عبدالمطلب کی نگاہ میں ابوطالب ۲۱۸

جناب ابوطالب کے مومن ہونے کی دلیلیں ۲۲۲

۱۔جناب ابوطالب کے علمی اور ادبی آثار ۲۲۲

۲۔جناب ابوطالب کا پیغمبراکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نیک سلوک ان کے ایمان کی علامت ہے ۲۲۵

۳۔ابوطالب کی وصیت ان کے ایمان کی گواہ ہے ۲۲۷

۴۔پیغمبر ۲۲۸

۲۹۳

۵۔حضرت علی ـ اور اصحاب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گواہی ۲۳۱

۶۔ابوطالب اہل بیت کی نگاہ میں ۲۳۳

حدیث ضحضاح کا تحقیقی جائزہ ۲۳۶

حدیث ضحضاح کے سلسلہ سند کا باطل ہونا ۲۳۷

الف: ''سفیان بن سعید ثوری'' ۲۳۷

ب:عبدالملک بن عمیر ۲۳۸

ج:عبدالعزیز بن محمد دراوردی ۲۳۹

د:لیث بن سعد ۲۴۰

نتیجہ ۲۴۲

تیسواں سوال ۲۴۳

کیا شیعوں کی نظر میں جبرئیل ـ نے منصب رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے اور کیا یہ صحیح ہے کہ انہوں نے حضرت علی ـکے بجائے قرآن مجید کو رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا ہے؟ ۲۴۳

اس تہمت کا اصلی سبب ۲۴۳

شیعوں کی نگاہ میں منصب نبوت ۲۴۵

اکتیسواں سوال ۲۴۹

تقیہ کا معیارکیا ہے؟ ۲۴۹

قرآن کی نگاہ میں تقیہ ۲۴۹

تقیہ شیعوں کی نگاہ میں ۲۵۱

نتیجہ ۲۵۲

بتیسواں سوال ۲۵۳

۲۹۴

ایران کے بنیادی قانون میں کیوں جعفری مذہب (شیعہ اثناعشری) کو حکومت کا مذہب قرار دیا گیا ہے؟ ۲۵۳

جعفری مذہب کی تعیین کا معیار ۲۵۴

ایران میں دوسرے اسلامی مذاہب کا درجہ ۲۵۴

تینتیسواں سوال ۲۵۶

کیا شیعہ نماز وتر کو واجب سمجھتے ہیں ؟ ۲۵۶

چونتیسواں سوال ۲۵۸

کیا اولیائے خدا کی غیبی طاقت پر عقیدہ رکھنا شرک ہے؟ ۲۵۸

قرآن مجید کی نظر میں اولیائے الہی کی غیبی طاقت ۲۶۰

۱۔حضرت موسیٰ کی غیبی طاقت ۲۶۱

حضرت عیسیٰ کی غیبی طاقت ۲۶۱

حضرت سلیمان کی غیبی طاقت ۲۶۲

پینتیسواں سوال ۲۶۳

کیوں منصب امامت منصب رسالت سے افضل ہے؟ ۲۶۳

۱۔منصب نبوت ۲۶۳

۲۔منصب رسالت ۲۶۴

۳۔منصب امامت ۲۶۵

منصب امامت کی برتری ۲۶۹

چھتیسواں سوال ۲۷۳

توحید اور شرک کی شناخت کا معیار کیاہے؟ ۲۷۳

۱۔توحید ذاتی ۲۷۴

۲۹۵

۲۔ خالقیت میں توحید ۲۷۵

۳۔تدبیرمیں توحید ۲۷۶

۴۔حاکمیت میں توحید ۲۷۷

۵۔اطاعت میں توحید ۲۷۹

۶۔شریعت قرار دینے اور قانون گزاری میں توحید ۲۷۹

۷۔عبادت میں توحید ۲۸۰

لفظ عبادت کے غلط معنی ۲۸۱

عذر بدتراز گناہ ۲۸۳

مسئلے کا جواب اور عبادت کے حقیقی معنی کی وضاحت ۲۸۴

۲۹۶

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311