رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر18%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 208841 / ڈاؤنلوڈ: 5841
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

کرتی ہیں۔ہم یہاں پر ان احادیث میں سے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

پہلی حدیث:

ابرھیم بن محمدبن مؤیدجومنی(۱) کتاب”فرائدالسبطین(۲) ‘ میں اپنے اسناد سے اورشیخ صدوق ابن بابویہ قمی کتاب”کمال الدین(۳) ‘ میں سلیم بن قیس سے روایت کرتے ہیں:

”میں نے خلافت عثمان کے زمانہ میں مسجد النبی (ص)میں دیکھا کہ حضرت علی(علیہ السلام)مسجد میں تشریف فر ماتھے اور کچھ لوگ آپس میں گفتگو کرنے میں مشغول تھے۔وہ قریش اوران کے فضائل نیز ان کے سوابق اور جوکچھ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے بارے میں فرمایا ہے، کے بارے میں گفتگو کرر ہے تھے اوراسی طرح انصار کی فضیلت اوران کے شاندار ماضی اورقرآن مجید میں ان کے بارے میں خدا وند متعال کی تعریف و تمجیدکا ذکر رہے تھے اورہر گروہ اپنی اپنی فضیلت گنوا رہا تھا۔

اس گفتگو میں دوسو سے زیادہ لوگ شریک تھے ان میں حضرت علی(علیہ السلام)سعد بن ابی وقاص،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیر،مقداد،ابوذر،حسن وحسین )علیہما السلام)اورابن عباس-بھی شامل تھے۔

____________________

۱۔ذہبی ،کتاب”المعجم المختص بالمحدثین“ص۶۵،طبع مکتبةالصدیق سعودی،طائفمیں لکھاہے:”ابراھیم بن محمد۔۔۔الامام الکبیر المحدث شیخ المشایخ“ یعنی:بہت بڑے امام محدث اور استادالاسا تذہ ۶۴۴ئ ہجری میں پیدا ہوئے اور۷۲۲ئ ہجری میں خراسان میں و فات پائی ۔ابن حجرکتاب”الدررالکامنہ“ج۱،ص۶۷ میں کہتے ہیں:“وسمع بالحلة وتبریز-----وله رحلة واسعة وعنی بهذاالشان وکتب وحصل وکان دینا وقوراً ملیح الشکل جید القرا ۔۔۔“یعنی: حلہ اور تبریزمیں )حدیث کے اساتذہ کے دوسرے شہروں کے بارے میں )سنا ہے۔۔۔ علم حدیث کے بارے میں ایک خاص مہارت رکھتے تھے۔۔۔اور متدین ،باوقار،خوبصورت اوراچھی قرائت کے مالک تھے۔

۲۔فرائدالبطین ،ج۱،ص۲۱۲،مؤسسہ المحمودی للطباعة والنشر،بیروت اسماعیل با شا کتاب ایضاح المکنون میں کشف الظنون،ج۴،ص۱۸۲،دارالفکر کے ذیل میں کہتا ہے:فرائد السبطین،فی فضائل المرتضیٰ والبتول والسبطین لابی عبداللّٰہ ابراھیم بن سعد الدین محمد بن ابی بکر بن محمدبن حمویہ الجوینی۔۔۔فرغ منہ سنة۷۱۶

۳۔کمال الدین،ص۲۷۴

۱۲۱

یہ جلسہ صبح سے ظہرتک جاری رہا اورعلی) علیہ السلام) بدستور خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے آپ(ع) کی طرف مخاطب ہوکر آپ سے کچھ فرمانے کی خواہش ظاہر کی۔

حضرت علی(علیہ السلام)نے فرمایا:تم دونوں گروہوں میں سے ہرایک نے اپنی فضیلت بیان کی اور اپنی گفتگو کا حق ادا کیا۔میں قریش وانصاردونوں سے یہ پوچھنا چاہتاہوں:خدا وند متعال نے یہ فضیلت تمھیں کس کے ذریعہ عطاکی ہے؟ کیا تم لوگ اپنی اوراپنے قبیلے کی خصوصیات کی وجہ سے ان فضیلتوں کے مالک بنے ہو؟ یاکسی دوسرے کی وجہ سے یہ فضیلتیں تمھیں عطا کی گئی ہیں؟

انہوں نے کہا:خدا وندمتعال نے محمد (ص)اورآپ کے اہل بیت)علیہم السلام)کے طفیل میں ہمیں یہ فضیلتیں عطا کی ہیں۔

حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا:صحیح کہاتم لوگوں نے اے گروہ انصار وقریش!کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جوکچھ تم کوخیر دینا وآخرت سے ملا ہے وہ صرف ہم اہل بیت(ع)کی وجہ سے تھا؟ اس کے بعدحضرت علی (علیہ السلام)نے اپنے اور اپنے اہل بیت )علیہم السلام)کے بعض فضائل گنوائے اوران سے تصدیق اور گواہی چاہی انہوں نے گواہی دی،آپ(ع)نے من جملہ فرمایا:

فانشدکم اللّٰہ،اتعلمون حیث نزلت( یااٴیّهاالذین آمنوا اٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسّول واٴُولی الاٴمر منکم ) (۱) وحیث نزلت ا( ٕنّماولیّکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالذین یقیمون الصلوة ویؤ تون الزکوة وهمصراکعون ) (۲) وحیث نزلت( اٴم حسبتم اٴن تترکواولماّ یعلم اللّٰه الّذیم جاهدوامنکم ولم یتّخذ وا من دون اللّٰه ولا رسوله ولاالمؤمنین ولیجة ) (۳) قال الناس:یا رسول اللّٰه،خاصة فی بعض

____________________

۱۔نساء/۵۹ ۲۔مائدہ/۵۵

۳۔توبہ/۱۶

۱۲۲

المؤمنین اٴم عامة لجمیعهم؟فاٴمراللّٰه - عزّوجلّ - نبیّه( ص) اٴن یُعلّمهم ولاةاٴمرهم واٴن یفسّر لهم من الولایة مافسّرلهم من صلا تهم وزکاتهم وحجهم،فینصبنی للناس بغدیر خمثمّ خطب وقال:اٴیّهاالنّاس،إنّ اللّٰه اٴرسلنی برسالة ضاق بها صدری وظننت اٴن الناس مکذبیفاوعدنی لاُ بلّغها اٴولیعذّبنیثمّ اٴمرفنودی بالصلاة جامعةثمّ خطب فقال:اٴیّهاالناس،اٴتعلمون اٴنّاللّٰه - عزّوجل - مولای اٴنامولی المؤمنین،واٴنا اٴولی بهم من اٴنفسهم؟

قالوا:بلی یارسول اللّٰهقال:قُم یاعلیّفقمت فقال:”من کنت مولاه فهذاعلیّ مولاه،اللّهمّ وال من والاه،وعادمن عاداه“

فقام سلمان فقال:یارسول اللّٰه،ولاء کماذا؟فقال:ولاء کولایتی، منکنت اٴولی به من نفسه فاٴنزل اللّٰه تعالی ذکره:( الیوم اٴکملت لکم دینکم واٴتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دیناً ) (۱)

فکبّرالنبّی( ص) وقال:اللّٰه اٴکبر!تمام نبوّتی وتمام دین اللّٰه علیُّ بعدیفقام اٴبوبکر و عمر فقالا: یارسول اللّٰه،هؤلاء الآیات خاصّةفی علیّ؟قال:بلی،فیه وفی اٴوصیائی إلی یوم القیامةقالا:یارسول اللّٰه، بیّنهم لناقال:علیّ اٴخی ووزیری ووارثی ووصیّی وخلیفتی فی اُمّتی وولّی کل ّمؤمن بعدی ثمّ ابنی الحسن ثمّ الحسین ثمّ تسعة من ولدابنی الحسین واحد بعد واحد،القرآن معهم وهم مع القرآن لایفارقونه ولایفارقهم حتی

____________________

۱۔مائدہ/۳

۱۲۳

یردوا علیّ الحوض

فقالوا کلّهم:اللّهمّ نعم،قد سمعناذلک وشهدناکماقلت سواء وقال بعضهم:قدحفظناجلّ ماقلت ولم نحفظه کلّه،وهؤلاء الّذین حفظوااٴخیارناواٴفاضلنا

یعنی:میں تمھیں خدا کی قسم دلاتاہوں،کیا تم جانتے ہو کہ جبخداوندمتعال کا یہ فر مان:( یا اٴیّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعوا الرّسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل ہوا اورجب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( إنّما ولیّکم اللّٰه ورسول ) ۔۔۔ )یعنی بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نمازقائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں)اسی طرح جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( اٴم حسبتم اٴن تترکوا ) ۔۔۔ )یعنی :کیاتمہارا خیال ہے کہ تم کواسی طرح چھوڑدیا جائے گا جب کہ ابھی ان لو گوں نے کہ جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور خدا و رسول نیز مومنین کے علا وہ کسی کو اپنا محرم راز نہیں بنا یا ہے مشخص نہیں ہو ئے ہیں؟ تو لوگوں نے کہا:یارسول اللہ!کیا یہ آیتیں بعض مؤمنین سے مخصوص ہیں یا عام ہیں اوران میں تمام مؤ منین شامل ہیں؟

خداوند متعال نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا:تاکہ ان)مو منین) کے امور کے سلسلہ میں ان کے سرپرست کا اعلان کردیں اورجس طرح نماز،زکوٰةاورحج کی ان کے لئے تفسیربیان کی ہے،مسئلہ ولایت وسر پرستی کو بھی ان کے لئے واضح کردیں۔)اورخدا نے حکم دیا)تاکہ غدیر خم میں مجھے اپنا جا نشین منصوب کریں۔

اس کے بعدپیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ پڑھااورفرمایا:

”اے لوگو!خدا وند متعال نے مجھے ایک ایسی رسالت سونپی ہے کہ جس کی وجہ سے میرا سینہ تنگی محسوس کر رہا ہے اورمیں نے گمان کیا کہ لوگ میری اس رسالت کو جھٹلادیں گے۔پھر مجھے خدا نے تہدید دی کہ یا میں اس)رسالت) کوپہنچاؤں یا اگر نہیں پہونچاتا تووہ مجھے عذاب کرے گا۔“

۱۲۴

اس کے بعد پیغمبراکرم (ص)نے حکم دیا اورلوگ جمع ہو گئے اورآپنے خطبہ پڑھا اور فرمایا: اے لوگو! کیاتم جانتے ہوکہ خداوند متعال میرامولا)میراصاحب اختیار)ہے اورمیں مؤمنین کامولاہوں اورمجھے ان کی جانوں پرتصرف کا زیادہ حق ہے ؟انہوں نے کہا:ہاں،یارسول اللہ۔فرمایا:اے علی(علیہ السلام)کھڑے ہوجاؤ!میں کھڑا ہوا۔فرمایا:جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع)بھی مولا ہیں۔خداوندا!اس کو دوست رکھ جو علی(ع)کودوست رکھے اوراس کو اپنا دشمن قرار دے جوعلی(ع)سے دشمنی کرے۔

سلمان اٹھے اورکہا:یارسول اللہ!یہ کونسی ولایت ہے؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:یہ ولایت وہی ہے جو میں رکھتاہوں ۔جس کی جان کے بارے میں ،میں اولیٰ ہوں علی(ع)بھی اسی طرح اس کی جان کے بارے میں اولیٰ ہے۔اس کے بعدخدا وند متعال نے یہ آیہء شریفہ نازل فرمائی:( الیوم اٴکملت لکم دینکم ) ۔۔۔ یعنی:”آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیااوراپنی نعمتوں کوتمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندکر لیا۔“

اس کے بعد ابوبکراورعمراٹھے اورکہا:یارسول اللہ ! کیا یہ آیتیں علی(ع)سے مخصوص ہیں؟فرمایا:جی ہاں،یہ علی(ع)اور میرے قیامت تک کے دوسرے اوصیاء سے مخصوص ہیں۔انہوں نے کہا:یارسول اللہ!ان کو ہمارے لئے بیان کر دیجئے آنحضرت نے فرمایا: میرابھائی علی،امت کے لئے میراوزیر،وارث،وصی اورجانشین ہے اورمیرے بعد ہرمؤمن کا سرپرست ہے۔اس کے بعد میرے فرزندحسن وحسین(ع)اس کے بعد یکے بعد دیگرے میرے حسین(ع)کے نوفرزند ہیں۔قرآن مجید ان کے ساتھ ہے اور وہ قرآن مجید کے ساتھ ہیں۔وہ قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اورقرآن مجیدان سے جدا نہیں ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثرپرمجھ سے ملیں گے۔اس کے بعد علی علیہ السلام نے اس مجمع میں موجود ان لوگوں سے،کہ جومیدان غدیر میں موجوتھے اورپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان با توں کواپنے کا نوں سے سن چکے تھے،کہا کہ اٹھ کراس کی گواہی دیں۔

۱۲۵

زیدبن ارقم،براء بن عازب،سلمان،ابوذراورمقداداپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور کہا :ہم شہادت دیتے ہیں اورپیغمبر (ص)کے بیانات یاد ہیں کہ آنحضرت منبرپرکھڑے تھے اوران کے ساتھ آپ(ع)بھی ان کی بغل میں کھڑے تھے اورآنحضرتفرمارہے تھے:

”اے لوگو! خداوند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے لئے امام کہ جو میرے بعد تم لوگوں کی رہنمائی اور سر پرستی کرے اورمیراوصی اورجانشین ہو،کو نصب کروں،اس کونصب کروں جس کی اطاعت کوخداوند متعال نے اپنی کتاب میں واجب قراردیا ہے نیزاس کی اطاعت کواپنی اورمیری اطاعت کے برابرقراردیا ہے کہ جس سے)آیہ اولوالامرکی طرف اشارہ ہے) اے لوگو!خداوند متعال نے تمھیں نماز،زکوٰة،روزہ اورحج کا حکم دیا ۔میں نے تمہارے لئے اس کی تشریح ووضاحت کی ۔اوراس نے تمھیں ولایت)کا ایمان رکھنے) کابھی حکم دیااورمیں ، تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ یہ ولایت اس)شخص)سے مربوط ہے )یہ جملہ بیان فرماتے وقت آنحضرت اپنادست مبارک علی(ع)کے شانہ پر رکھے ہوئے تھے)اوران کے بعداس کے دونوں بیٹوں)حسن وحسین(ع))اوران کے بعد ان کے فرزندوں میں سے ان کے جانشیوں سے مربوط ہے--“

حدیث مفصل و طولانی ہے۔ہم نے اس میں سے فقط اتنے ہی حصہ پراکتفا کیا کہ جوآیہء شریفہ”اولوالامر“سے مربوط ہے ۔محققین مذکورہ منابع میں مفصل حدیث کا مطلعہ کرسکتے ہیں۔

دوسری حدیث

یہ وہ حدیث ہے جسے مرحوم شیخ صدوق نے ”کمال الدین(۱) ‘ میں جابر بن یزید جعفی سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے:

”میں نے سنا کہ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے تھے:جب خدا وند متعال نے اپنے پیغمبر (ص)پر یہ آیہء شریفہ:( یاایّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل فرمائی،تو میں نے کہا:یارسول اللہ!ہم نے خدا اوراس کے رسولتو کو پہچان لیا۔اب وہ اولوالامرکہ جن کی اطاعت کو خداوندمتعال نے آپ کی اطاعت سے مربوط قراردیا ہے،وہ کون ہیں؟

آنحضرت (ص)نے فرمایا:”اے جابر!وہ میرے جانشین ہیں اورمیرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں۔ان میں سب سے پہلے علی بن ابیطالب، پھرحسن وحسین،پھر علی بن حسین،پھر محمد بن علی،جوتوریت میں باقر کے نام سے معروف

____________________

۱۔کمال الدین،ص۲۵۳

۱۲۶

ہیں اوراے جابر!تم جلدی ہی اس سے ملاقات کروگے لہذاجب انھیں دیکھنا توانھیں میرا سلام پہنچانا۔پھرصادق جعفر بن محمد،پھر موسیٰ بن جعفر،پھر علی بن موسیٰ،پھر محمدبن علی،پھر علی بن محمد،پھرحسن بن علی،پھر میراہم نام اورہم کنیت)جو)زمین پر خدا کی حجت اورخدا کی طرف سے اس کے بندوں کے در میان باقی رہنے والا حسن بن علی)عسکری)کا فر زندہے،جس کے ذریعہ خدا وند متعال مشرق ومغرب کی زمین کو فتح کرے گا۔وہ شیعوں او ر ان کے چاہنے والوں کی نظروں سے غائب ہوگا۔وہ ایسی غیبت ہوگی کہ ان کی امامت پر خدا کی طرف سے ایمان کے سلسلہ میں آزمائے گئے دلوں کے علاوہ کوئی ثابت قدم نہیں رہے گا“

تیسری حدیث:

یہ حدیث اصول کافی ۱ میں برید عجلی سے روایت کی گئی ہے وہ کہتے ہیں:

”امام باقر(علیہ السلام) نے فرمایا:خدا وند متعال نے)آیہء شریفہ)( یا اٴیّها الذین آمنوا اٴطیعو اللّٰه و اٴطیعوا الرسول و اولی الاٴمر منکم ) کے بارے میں صرف ہماراقصد کیاہے۔تمام مؤمنین کو قیامت تک ہماری)ائمہ معصومین) اطاعت کرنے کا کاحکم دیا ہے۔“

اس کے علاوہ شیعہ وسنی منابع میں اوربھی احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں ”اولوالامر“سے مراد ائمہء معصو مین کو لیا گیا ہے۔اہل تحقیق،”فرائد السمطین“اور”ینا بیع المودة“جیسی سنی کتابوں اور”اصول کافی“،”غا یةالمرام“اور”منتخب الاثر“ جیسی شیعوں کی کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱،ص۲۱۷

۱۲۷

چوتھا باب:

امامت آیہء ولایت کی روشنی میں

( ( إنّماولیکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالّذین یقیمون الصلوٰةویؤ تون الزکوٰة وهم راکعون ) ) ( مائدہ/۵۵)

”بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان ہیں،جونمازقائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکوٰةدیتے ہیں“۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت اوربلافصل ولایت کے سلسلہ میں شیعہ امامیہ کی ایک اوردلیل آیہء شریفہ ولایت ہے۔آیہء شریفہ کے استدلال کی تکمیل کے سلسلہ میں پہلے چندمو ضوعات کا ثابت کرنا ضروری ہے:

۱ ۔آیہ شریفہ میں ”إنما“ حصر کے لئے ہے۔

۲ ۔آیہ ئ شریفہ میں لفظ ”ولی“ حص کے معنی اولی بالتصرف اورصاحب اختیار نیزسرپرست ہو نے کے ہے۔

۳ ۔آیت میں ”راکعون“سے مراد نماز میں رکوع ہے، نہ کہ خضوع وخشوع۔

۴ ۔اس آیہء شریفہ کے شان نزول میں ، کہ جوامیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے، ذکر ہواہے کہ حضرت(ع)نے رکوع کی حالت میں زکوٰةدی ،)یعنی اپنے مال کوخداکی راہ میں انفاق کیاہو)ثابت ہو۔

اس باب میں ہم ان موضوعات کوثابت کرنے کی کوشش کریں گے اورآخر پر اس آیہء شریفہ سے مربوط چند سوالا ت کا جواب دیں گے۔

لفظ”إنما“کی حصر پر دلالت

علما ئے لغت اورادبیات نے اس بات کی تاکید کیہے کہ لفظ”إنما“حصرپر دلالت کرتا ہے۔یعنی عربی لغت میں یہ لفظ حصر کے لئے وضع کیا گیا ہے۔

۱۲۸

ابن منظورنے کہاہے:اگر ”إنّ“پر”ما“کا اضافہ ہو جائے تو تعیین وتشخیص پر دلالت کرتاہے۔جیسے خداوند متعال کا قول ہے:( إنّماالصدقات للفقراء والمساکین ) ۔۔۔(۱) چونکہ اس کی دلا لت اس پر ہے کہ حکم مذکور کو ثابت کرتا ہے اوراس کے غیر کی نفی کرتا ہے۔(۲)

جوہری نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے۔(۳)

فیروزآبادی نے کہاہے:”انّما“،”إنّما“کے مانند مفید حصرہے۔

اور یہ دونوں لفظ آیہء شریفہء:( قل إنّمایوحی إلیّ اٴنّماإلٰهکم إلٰه واحد ) (۴) میں جمع ہوئے ہیں۔(۵)

ابن ہشام نے بھی ایساہی کہا ہے۔(۶)

اس لئے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ لغت کے اعتبار سے لفظ”إنّما“کوحصرکے لئے وضع کیا گیاہے۔اگرکوئی قرینہ موجو ہوتواس قرینہ کی وجہ سے غیرحصرکے لئے استفادہ کیا

جاسکتا ہے،لیکن اس صورت میں ”إنّما“کااستعمال مجازی ہوگا۔

”ولیّ“کے معنی کے بارے میں تحقیق

”ولّی“ولایت سے مشتق ہے۔اگرچہ یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے لیکن اس کے موارد استعمال کی جستجو و تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اصلی معنی سر پرستی ،اولویت

____________________

۱۔توبہ/۶۰

۲۔لسان العرب،ج۱،ص۲۴۵

۳۔صحاح اللغة،ج۵،ص۲۰۷۳

۴۔انبیاء/۱۰۸ ۵۔القاموس المحیط،ج۴،ص۱۹۸،دارالمعرفة،بیروت۔

۶۔مغنی اللبیب ،ج۱،ص۸۸،دارالکتب العلمیة بیروت

۱۲۹

اورصاحب اختیار ہو نے کے ہے۔

ابن منظورکا”لسان العرب“میں کہنا ہے”الولیّ ولیّ الیتیم الّذی یلی اٴمره ویقوم بکفایته،وولیّ المرئةالّذی یلی عقدالنکاح علیهاوفی الحدیث:اٴیّماامرئة نکحت بغیرإذن مولیها فنکاحهاباطلوفی روایة:”ولیّها“اٴی متولّی اٴمرها(۱)

یتیم کا ولی وہ ہے جو یتیم کے امور اور اس کی کفالت کا ذمہ دار ہے اوراس کے امورکی نگران کرتا ہے۔عورت کا ولی وہ ہے کہ جس کے اوپر اس کے عقد ونکاح کی ذمہ داری ہو۔

حدیث میں آیا ہے:جوبھی عورت اپنے مولا)سرپرست)کی اجازت کے بغیرشادی کرے تواس کا نکاح باطل ہے۔ایک روایت میں لفظ”ولیھا‘ ‘کے بجائے لفظ”مولیھا“آیا ہے کہ جس کے معنی سرپرست اورصاحب اختیار کے ہیں۔

فیومی”المصباح المنیر“میں کہتا ہے:

الولیّ فعیل به معنی فاعل من ولیه إذقام بهومنه اللّٰه ولیّ الّذین آمنوا ،والجمع اٴولیاء،قال ابن فارس:وکلّ من ولی اٴمراٴحد فهوولیّهوقد یطلق الولیّ اٴیضاًعلی المعتق والعتیق،وابن العم والناصروالصدّیقویکون الولیّ بمعنی مفعول فی حق المطیع،فیقال:المؤمن ولیّ اللّٰه“ ۔(۲)

”فعیل)کے وزن پر(ولی فاعل کے معنی میں ہے ) ۔(۳) کہا جاتا ہے):ولیہ یہ اس

_____________________

۱۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۴،دار احیاء التراث العربی ،بیروت

۲۔المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰،طبع مصطفی البابی الحلبی واولادہ بمصر

۳۔”فعیل“صفت مشبہ ہے۔کبھی فاعل کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے، جیسے ”شریف“ اورکبھی مفعول کے معنی میں آتا ہے۔فیومی نے اپنے بیان میں اس کی طرف اشار ہ کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں ”فعیل“فاعل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔چنانچہ مؤمن کو کہا جاتا ہے”ولی خدا“ یعنی جس کے امورکی تدبیر خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ ا سے اپنے الطاف سے نواز تا ہے۔

۱۳۰

صورت میں ہے جب کسی کے امو ر کے لئے عملاً قیام کرے اس کے کام کواپنے ذمہ لے لے۔ آیہء شریفہ:( اللّٰه ولیّ الذین آمنوا ) میں ولایت اسی کی ہے۔یعنی خداوند متعال مؤمنین کے امور کے حوالے سے صاحب اختیارا ور اولی بالتصرف ہے۔ابن فارس نے کہا ہے:جو بھی کسی کے امورکاذمہ دار ہوگا وہ اس کا ”ولی“ہوگا۔اور بعض اوقات”ولی“)دوسرے معانی میں جیسے) غلام کوآزاد کرنے والا،آزاد شدہ غلام ،چچازاد بھائی،یاوراوردوست کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔

ان بزرگ ماہرین لغت کے بیان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ یاور اوردوست جیسے مفاہیم ولی کے حقیقی معنی نہیں ہیں بلکہ کبھی کبھی ان معنوں میں استعمال ہو تا ہے اوراس قسم کا استعمال مجازی ہے۔

”ولی“کے معنی میں یہ جملہ معمولاًلغت ۱ کی کتابوں میں بہ کثرت نظر آتا ہے وہ ناقابل اعتناء ہے ”من ولی امر احدفہوولیہ“یعنی:”جو کسی کے کام کی سر پرستی اپنے ذمہ لے لے وہ اس کا ولی ہے“

ان معانی کے پیش نظر،ایسا لگتا ہے کہ لفظ”ولی“کا حقیقی اور معروف ومشہور معنی وہی صاحب اختیاروسر پرست ہو ناہے۔ قرآن مجید میں اس لفظ کے استعمال پر جستجو و تحقیق بھی اسی مطلب کی تائید کرتی ہے۔

ہم لفظ”ولی“کے قرآن مجید میں استعما ل ہونے کے بعض موارد کا ذکر کرکے بعض دوسرے موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:(۱)

____________________

۱۔لسان العرب،ج۱۵،ص۴۱۰،المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰طبع مصطفٰی البابی الحلبی بمصر،النہا یةج۵،ص۲۲۸المکتبة العلمیة،بیروت،منتہی الارب ،ج۴،ص۱۳۳۹،انتشارات کتابخانہ سنائی،مجمع البحرین،ج۲ص۵۵۴،دفتر نشر فرھنگ اسلامی،الصحاح،ص۲۵۲۹،دارالعلم للملابین، المفردات، ص۵۳۵، دفتر نشر کتابمعجم مقا ییس اللغة،ج۶،ص۱۴۱۔

۱۳۱

چند بنیادی نکات کی یاد دہانی

یہاں پر چند نکات کی طرف اشارہ کرناضروری ہے:

پہلانکتہ:عام طور پر لغت کی کتابوں میں ایک لفظ کے لئے بہت سے موارداستعمال اور مختلف معانی ذکر کئے جاتے ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ لفظ ہر معانی کے لئے الگ الگ وضع کیا گیا ہے اوروہ لفظ مشترک ہے اوران معانی میں سے ہرایک،اس کا حقیقی معنی ہے لفظی اشتراک)یعنی ایک لفظ کے کئی معانی ہوں اور ہر معنی حقیقی ہو )اصول کے خلاف ہے۔اور علم لغت اورادبیات کے ماہرین نے جس کی وضاحت کی ہے وہ یہ ہے کہ اصل عدم اشتراک ہے۔

۱ ۔قرآن مجید میں لفظ”ولی“کے استعمال کے مواقع:

الف۔( اٴللّٰه ولی الذّین آمنوا یخرجهم من الظلمات إلی النور ) (بقرہ/ ۲۵۷)” اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکوں سے نکال کرروشنی میں لے آ تاہے۔“

ب۔( انّ ولی اللّٰه الذّی نزل الکتاب و هو یتولّی الصالحین ) (اعراف/ ۱۹۶)” بیشک میرا مالک ومختار وہ خدا ہے جس نے کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک بندوں کاولی ووارث ہے۔“

ج۔( ام إتّخذ وا من دونه اٴولیائ فاللّٰه هوالولی وهو یحیی الموتی ) (شوریٰ/ ۹)” کیاان لوگو ں نے اس کے علاوہ کو اپنا سر پرست بنایا ہے جب کہ وہی سب کاسرپرست ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔“

د۔( قل اٴغیراللّٰه اٴتخذوا ولیاًفاطرالسموات والارض وهو یطعم ولا یطعم ) ۔۔۔ (انعام/ ۱۴)” آپ کہئے کہ کیا میں خد ا کے علاوہ کسی اورکواپنا ولی بنالوں جب کہ زمین وآسمان کاپیداکرنے والا وہی ہے، وہی سب کوکھلاتاہے اس کوکوئی نہیں کھلاتاہے۔“

۱۳۲

ہ ۔( و انت ولینا فاغفر لنا وارحمنا وانت خیرالغافرین ) )اعراف/ ۱۵۵)” توہمارا ولی ہے،ہمیں معاف کردے اورہم پررحم کر کہ توبڑابخشنے والاہے۔“

و۔( فإن کان الذی علیه الحق سفیهاًاو ضعیفاًاولا یستطیع ان یمل هو فلیملل ولیه بالعدل ) )بقرہ/ ۲۸۲)” اب اگر حق اس کے خلاف ہو اوروہ نادان یاکمزورہو اور اس کو لکھنے کی صلا حیت نہ ہو تو اس کے ولی کو چاہئیے کہ عدل و انصاف کے ساتھ اسے لکھے۔

ز۔( ومن قتل مظلوماً فقدجعلنا لولیه سلطاناً ) )اسراء/ ۳۳)” جومظلوم قتل ہوتاہے ہم اس کے ولی کوبدلہ کااختیاردیتے ہیں۔

دوسر ی آیات: یوسف/ ۱۰۱ ، ہود/ ۱۱۳ ، شوریٰ/ ۴۶ ،فصلت/ ۳۱ ، نحل/ ۶۳ ، بقرہ/ ۱۰۷ و ۱۲۰ توبہ/ ۷۴ و ۱۱۶ ، عنکبوت/ ۲۲ ،شوریٰ/ ۸ و ۳۱ ،نساء/ ۴۵ ،

۷۵،۸۹،۱۲۳ و ۱۷۳ ،احزاب/ ۱۷ و ۶۵ ،فتح/ ۲۲) مذکورہ ۱۵ آیات میں ولی اورنصیرایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں نساء/ ۱۱۹ ، مریم/ ۵ ،سباء/ ۴۱ ، نمل ۴۹ ،نساء/ ۱۳۹ ،یونس/ ۶۲ ، اسراء/ ۹۷ ،الزمر/ ۳ ، شوریٰ/ ۶ ، ممتحنہ/ ۱ ،آل عمران/ ۱۷۵ ،انفال/ ۴۰ ،محمد/ ۱۱ بقرہ/ ۲۸۶ ،توبہ/ ۵۱ ،حج/ ۷۸ ۔

کتاب”مغنی اللبیب“کے مصنف،جمال الدین ابن ہشام مصری،جواہل سنت میں علم نحو کے بڑے عالم مانے جاتے ہیں جب آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملائکته یصلّون علی

۱۳۳

النّبی ) (۱) میں قرائت رفع(ملائکتُہ)کی بنیاد پر بعض علمائے نحو جو”إنّ“کی خبر)یصلّی ہے)کو محذوف اورمقدر جانتے ہیں،نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

واماّقول الجماعةفبعیدمن جهات:إحداهااقتضاؤه للإشترا والاٴصل عدمه لما فیه من الإلباس حتیّ إنّ قوماًنفوهثمّ المثبتون له یقولون:متی عارضه غیره ممّایخالف الاٴصل کالمجاز قدّم علیه (۲)

”ان کی بات کئی جہتوں سے حقیقت سے بعید ہے۔اول اس لحاظ سے کہ ان کے بیان کا لازمہ یہ ہے کہ صلاة کو مشترک لفظی تسلیم کریں جبکہ اشتراک خلاف اصل ہے یہاں تک کہ بعض نے اسے بنیادی طو ر پر مسترد کیا ہے اور جنہوں نے اسے ثابت جا نا ہے انھوں نے اسے مجاز اور اشتراک کی صورت میں مجاز کو اشتراک پر مقدم جانا ہے۔“

فیروزآبادی،صاحب قاموس نے بھی صلوٰت کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے کہ جس میں آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملا ئکته یصلّون علی النبیّ ) ۔۔۔ کے بارے میں تحقیق کی ہے اورمذکورہ بیان کو ابن ہشام سے نقل کیا ہے۔(۳)

اس بناء پر،ولایت کے مفہوم میں )جو کئی معانی ذکر ہوئے ہیں)سے جو معنی قدر متیقّن اوریقینی ہیں وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے ہیں،اور دوسرے معانی جیسے،دوستی اوریاری اس کے حقیقی معنی کے حدود سے خارج ہیں اور ان کے بارے میں اشتراک لفظی کا سوال ہی پیدا

____________________

۱۔احزاب/۵۶

۲۔مغنی اللبیب،ج۲،باب پنجم،ص۳۶۵

۳۔الصلوةوالبشرفی الصلوة علی خیرالبشر،ص۳۳،دار الکتب العلمیة،بیروت

۱۳۴

نہیں ہوتا۔

لہذا اگر مادئہ ”ولی“قرینہ کے بغیر استعمال ہو تو وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے معنی میں ہوگا۔

دوسر ا نکتہ بعض اہل لغت نے مادہ ”و لی“کو ایک اصل پر مبنی جانا ہے اورمفہوم کا اصلی ریشہ)جڑ) کو ”قرب“ قراردیا ہے۔اور بعض مفسرین نے کلمہ”ولی“کو اسی بنیاد پرذکر کیا ہے، اس سلسلہ میں چندمطالب کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:

سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکھناچاہئے کہ لغوی معنی کے اس طرح کی تحلیل اوراس کاتجزیہ ایک حدس وگمان اور خوامخواہ کے اجتہاد کے سواء کچھ نہیں ہے اوراس پرکوئی دلیل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ وہ چیز جومعنی کے سمجھنے اوراس لفظ سے تبادر کے لئے معیار ہے وہ اس کے استعمال کازمانہ ہے۔بیشک بہت سے مواقع پر”ولی“کے معنی سے قرب کامفہوم ذہن میں پیدا نہیں ہوتاہے۔بعض مواقع پرکہ جہاں قرینہ موجودہوجیسے”المطرالولی“)وہ بارش جوپہلی بارش کے بعدیااس کے بہت قریب واقع ہو ئی ہو )میں اس قسم کے استعمال کوقبول کیا جاسکتا ہے۔

اس بناپراگرفرض بھی کر لیاجائے کہ”قرب“اس معنی کی اصلی بنیادتھی اورآغاز میں لفظ”ولی“کامفہوم”قرب“کے معنی میں استعمال ہوتا تھا،لیکن موجودہ استعمال میں وہ معنی متروک ہو چکاہے اوراب اس کااستعمال نہیں ہے۔

تیسرا بعض اہل لغت جیسے ابن اثیرنے”النہایة ۱“ میں اورابن منظورنے”لسان العرب ۲“ میں ”ولی“ کے معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ولی“ خداکے

____________________

۱۔النہا یة،ج۵،ص۲۲۸

۲۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۶

۱۳۵

ناموں میں سے ایک نام ہے اوریہ ناصرکے معنی میں ہے اورکہاگیاہے کہ اس کے معنی امورجہان کے متولی و منتظم کے ہیں۔

اس بیان سے استفادہ ہوتاہے کہ”ولی“جوخداکے ناموں میں سے ایک نام ہے،ان کے نزدیک ناصرکے معنی میں ہے،جبکہ مطلب صحیح نہیں ہے کیو نکہ اگر ”ولی“کے معنی ناصر کے

ہوں گے)چونکہ”ولی“کاایک مادہ اورایک ہیئت ہے،اوراس کامادہ”ولی“”ول ی“وہیئت فعیل ہے)تواس کاتقاضایہ ہے کہ مادہ”ولی“نصرکے معنی میں اوراس کی ہیئت)ہیئت فعیل) فاعل کے معنی میں ہے۔

ایک بات یہ کہ یہ دونوں نظریہ، بغیردلیل کے ہیں اوردوسرے یہ کہ:فعیل صفت مشبہ ہے جس کی دلا لت ثبوت پرہے جبکہ فاعل حدوث پردلالت کرتاہے اوریہ دونوں مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متغائیرہ ہیں۔

اس لئے”ولی“اسم الہی، اسی صاحب اختیاراورکائنات کے امورمیں متولی کے معنی میں ہے کہ جس کو دونوں اھل لغت نے اپنے مختارنظریہ کے بعد“قیل“کے عنوان سے بیان کیاہے۔

چوتھانکتہ:قرآن مجیدکی بہت سی آیتوں میں ”ولی“،”نصیر“ کے مقابلہ میں آیاہے، جیسے( ومالکم من دون اللّٰه من ولیّ ولانصیرا ً ) (۱) تمہارے لئے اس کے علاوہ نہ کوئی سرپرست ہے اورنہ مددگار“

اگر”نصیر“،”ولی“کے معنی میں ہوتاتواس کے مقابلہ میں قرارنہیں دیا جا تااوران دونوں لفظوں کاایک دوسرے سے مقابلہ میں واقع ہو نااس بات کی دلیل ہے کہ مفہوم کے لحاظ سے یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

_____________________

۱۔بقرہ/۱۰۷

۱۳۶

پانچواں نکتہ:بعض افرادنے قرآن مجید کی بہت سی آیات کے بارے میں یہ تصورکیا ہے کہ ولی اورولایت نصرت اورمددکے معنی میں استعما ل ہوا ہے،جیسے:( مالکم من ولایتهم من شیء ) (۱) جب کہ ولایت سے مراد”نصرت کی ولایت“ہوسکتاہے نہ یہ کہ ولایت”نصرت“کے معنی میں ہے،کیونکہ نصرت ومددولایت و سر پرستی کی علا متوں میں سے ایک

علا مت ہے اس لحاظ سے ولایت کامعنی سرپرستی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اوراس سے نصرت ویاری میں سرپرستی مرادہے۔

”ولی“کے معنی کے سلسلہ میں جوکچھ بیان کیاگیا،اس کے پیش نظر،آیہء کریمہ میں صرف سرپرست اورصاحب اختیارہی والا معنی مراد ہے۔

اس کے علاوہ آیہء شریفہ میں قطعی ایسے قرینہ موجودہیں کہ جس سے مراد ”دوست“اور”یاور“نہیں ہوسکتے ہیں۔اس کی مزیدوضاحت سوالات کے جواب میں ائے گی۔

رکوع کے معنی

لغت میں ”رکوع“کے معنی جھکنااورخم ہوناہے۔اسی لئے نمازمیں جھکنے کو”رکوع“کہتے ہیں۔(۲)

زبیدی”تاج العروس(۳) “ میں کہتاہے:

”اگررکوع کوتنگدستی اورمفلسی کے لئے استعمال کیاجائے اور ایسے شخص کوجوامیری کے بعدفقیری اورتنگدستی میں مبتلا ہو جا ئے اورزوال سے دوچارہو تواسے”رکع

____________________

۱۔انفال/۷۲

۲۔الصاح جوہری،ج۳،ص۱۲۲۲،دارالعلم للملابین،القاموس المحیط،فیروزآبادی،ج۳، ص۳۱، دارالمعرفہ، بیروت،المنیر،فیومی،ص۲۵۴،ط مصر،جمھرة اللغة،ابن درید،ج۲، ص۱۷۷۰کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی،ج۱،ص۲۰۰

۳۔تاج العروس،ج۲۱،ص۱۲۲،دارالہدایة للطباعة والنشر والتوزیع۔

۱۳۷

الرجل“کہتے ہیں اوریہ استعمال مجازی ہے۔“

اس لئے رکوع کاحقیقی معنی وہی جھکنااورخم ہوناہے اوراگراسے دوسرے کسی معنی،جیسے زوال اورخضوع میں استعمال کیاجائے تویہ اس کے مجازی معنی ہیں اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے۔

آیہء ولایت کی شان نزول

شیعہ اوراہل سنّت تفسیروں کے منابع میں موجودبہت سی احادیث کے مطابق یہ آیہ شریفہ حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں ناز ل ہو ئی ہے اور الذین آمنوا۔۔۔ سے مرادوہی حضرت(ع)ہیں۔

ہم اس سلسلہ میں ایک حدیث کو درج کرتے ہیں،جس کوثعلبی ۱ نے اپنی تفسیر ۲ میں سنی محدثین اور مفسرین سے نقل کیا ہے اورشیعوں کے بڑے مفسرشیخ طبرسی نے بھی اس کو”مجمع البیان ۳“ میں درج کیاہے:

”عن عبایة بن الربعی قال:بیناعبداللّٰه بن عباس جالس علی شفیرزمزم إذااٴقبل رجل متعمّم بالعمامة؛فجعل ابن عباس لایقول:”قال رسول اللّٰه( ص) إلاّقال الرجل:قال رسول اللّٰه( ص) “!!فقال ابن عباس:ساٴلتک باللّٰه،من اٴنت؟قال:فکشف العمامةعن وجهه وقال:یا اٴیّهاالناس،من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فاٴنا “

جندب من جنادةالبدری،اٴبوذرالغفاری،سمعت رسول اللّٰه

___________________

۱ ۔ثعلبی کے بارے میں ذہبی کا قول دوسرے اعتراض کے جواب میں بیان کیاجائے گا۔

۲” الکشف والبیان“ج ۴ ،ص ۸۱ ۔ ۸۰ ،داراحیائ التراث العربی

۳ ۔مجمع البیان،ج ۳ ،ص ۳۲۴

۱۳۸

( ص) بها تین وإلاّصمّتا،وراٴیته بها تین وإلاّفعمیتا،یقول:علیّ قائد البررة،وقاتل الکفرة،منصورمن نصره،مخذول منخذ لهاٴماّ إنّی صلّیت مع رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یوماًمن الاٴیاّم صلاةالظّهر،فدخل سائل فی المسجدفلم یعطه اٴحد،فرفع السائل یده إلی السّماء وقال:اللّهمّ اٴشهد إنّی ساٴلت فی مسجدرسول اللّٰه فلم یعطنی احد شیئاً - وکان علیّ راکعاً - فاٴومی إلیه بخنصره الیمنی - وکان یتختّم فیها - فاٴقبل السائل حتیّاٴخذالخاتم من خنصره!وذلک بعین النبیّی

فلماّ فرغ النّبیّی( ص) من الصلاةرفع یده إلیالسّماء وقال:اللّهمّ إنّ اٴخی موسی ساٴلک فقال:( ربّ اشرح لی صدری ویسّرلی امری،واٴجعل لی وزیراً من اٴهلی هارون اٴخی اشدد به اٴزری ) فاٴنزلتَ علیه قرآناًناطقاً( سنشدّعضدک باٴخیک ونجعل لکما سلطا ناً )

اللّهمّ واٴنامحمّدنبیّک وصفیکاللّهمّ فاشرح لی صدری ویسّرلی اٴمری،واٴجعل لی وزیراًمن اٴهلی علیّاً اشددبه ظهری

قال اٴبوذر:فواللّٰه مااستتمّ رسول اللّٰه الکلمة حتّی اُنزل علیه جبرئیل من عنداللّٰه،فقال یامحمّد!إقراٴ،فقال:ومااٴقراٴ؟قال:إقراٴ:، ”إنّما ولیّکم اللّٰه ورسوله إلی راکعون“الآیة

”عبایہ بن ربیع سے روایت ہے کہ اس نے کہا:اس وقت جب عبداللہ بن عباس)مسجد الحرام میں )زمزم کے کنارے بیٹھے تھے ) اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حدیث روایت کررہے تھے)اچانک ایک عمامہ پوش شخص آپہونچا)اوررسول خدا (ص)سے اس طرح حدیثیں نقل کرنا شروع کیں)کہ جب عبداللہ ابن عباس کہتے تھے:”قال رسول اللہ، (ص)“وہ شخص بھی کہتاتھا:”قال رسول اللہ (ص)۔“ابن عباس نے کہ:تمھیں خدا کی قسم ہے یہ بتاؤکہ تم کون ہو؟اس شخص نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹائی اورکہا:اے لوگو!جومجھے پہچانتاہے،وہ پہچانتاہے،اورجومجھے نہیں پہچانتامیں اسے اپنے بارے میں بتادیناچاہتاہوں کہ میں جندب،جنادئہ بدری کابیٹا،ابوذرغفاری ہوں۔میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنے ان دونوں)کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)کا نوں سے سنا اگریہ با ت صحیح نہ ہو تو)میرے کان)بہرے ہو جائیں اوران دونوں انکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آنکھوں سے دیکھا اگر یہ با ت درست نہ ہو تو میری آنکھیں اندھی ہوجائیں)میں نے سنا اور دیکھا) فرما رہے تھے: علی (علیہ السلام) نیکوں کے پیشوااور کافروں کے قاتل ہیں۔جوان کی مددکرے گااس کی خدا نصرت کرے گا،اورجوانھیں چھوڑدے گاخدااسے بھی چھوڑدے گا۔

۱۳۹

ایک دن میں رسول خدا (ص)کے ساتھ ظہرکی نمازپڑھ رہاتھاکہ ایک سائل نے اہل مسجد سے سوال کیا،کسی نے اس کی حاجت پوری نہیں کی۔سائل نے اپنے ہاتھآسمان کی طرف بلند کئے اورکہا:

خداوندا! تو گواہ رہناکہ میں نے مسجدالنبی میں سوال کیااورکسی نے میری حاجت پوری نہیں کی۔علی(علیہ السلام)رکوع کی حالت میں تھے،اپنی چھوٹی)انگلی جس میں انگوٹھی تھی)سے اس کی طرف اشارہ کیا۔سائل نے سامنے سے آکرانگوٹھی آپ(ع)کے ہاتھ سے نکال لی۔رسول خدا (ص)اس واقع کے شاہد اور گواہ ہیں جب پیغمبراسلام (ص)نمازسے فارغ ہوئے آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کی:خداوندا!میرے بھائی موسیٰ(علیہ السلام) نے تجھ سے سوال کیا اور کہا”پروردگارا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کو آسان کر دے اور میری زبان کی گرہوں کوکھول دے،تا کہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کومیراوزیرقراردیدے،اس سے میری پشت کومضبوط کردے،اسے میرے کام میں شریک بنادے۔“)اس کی درخواست کو بر لا)اور تو نے اس داستان کے بارے میں قرآن مجیدمیں یوں فرمایا:”ہم تمھارے بازؤں کوتمھارے بھائی)ہارون)سے مضبوط کردیں گے اورتمھیں ان پرمسلط کردیں گے۔“

خداوندا!میں تیرا بر گزیدہ پیغمبرہوں،خداوندا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کوآسان کر،میرے اہل میں سے میرے بھائی علی(ع)کومیر اوزیرقراردے اوراس سے میری پشت کومضبوط کر۔)ابوذرکہتے ہیں:)خدا کی قسم رسول خدا (ص)نے ابھی اپنی بات تمام بھی نہیں کی تھی کہ جبرئیل امین خداکی طرف سے نازل ہوئے اورکہا:اے محمد!پڑھئے!) آنحضرت نے) کہا:کیا پڑھوں؟ )جبرئیل نے کہا)پڑھئیے: إ( نّماولیکم اللّٰه ورسوله ) ۔۔۔ “

شیخ طبرسی نے اس حدیث کے خاتمہ پرکہاہے:اس روایت کوابواسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اسی سند سے)کہ جیسے میں نے ذکرکی ہے)نقل کیاہے۔اس شان نزول کو بیان کر نے والی بہت ساری حدیثیں ہیں ان میں سے بعض کوہم دوسری مناسبتوں کے سلسلہ میں بیان کریں گے اوران میں سے بعض دوسری احادیث کے حوالہ ابن تیمہ کے جواب کے ذیل میں عرض کریں گے۔ان احادیث کے پیش نظرواضح ہو گیا کہ یہ شان نزول قطعی ہے اوراس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے۔

۱۴۰

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311